SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ پانچویں قسط

 


عاشق

پانچویں قسط

تحریر: ماہر جی


اب میں نے سارا دیں یہ سوچتے ھوے گزارا کے اب کیا بات ہو گے ہے جو مجھے طلب کیا جا رہا جو بھی تھا وو میرا گھر تھا میرے ڈیڈی کا حکم تھا میں شام کو آشیانہ کی طرف چل دیا جب میں اندر داخل ہوا تو لالارخ نے مجھے دیکھتے ہی کہا لو جی آ گے وو جن کا تھا انتظار  آپ آج بھی دیر سے ہے ہیں کب سے سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں مجھے  دیکھتے ہی  بھابھی تنویر نے کہا
میں نے کہا بھابھی خانے میں کیا ہے وو بولی آج آپ ک لئے میں نے بادام کا حلوہ بنایا ہے اب تو میں نے ان کے ساتھ ہو لیا اور آرام سے بیٹھ کر حلوہ خانے لگا لالارخ اندر بتانے چلی گے تھی میرے آنے کہ میری اس سے کبھی نہیں بنی تھی  بھابھی نے کہا شارق  بیٹا اب گھر آ جاؤ نہ میں نے کہا بھابھی میں آ جاؤں گا  پھر مجھے اندر سے بلاوا آگیا میں اب ڈیڈی کے کمرے میں داخل ہوا تو وو اپنے ہاتھ پیچھے کے کھڑے  تھے  اب کے مجھے دیکھتے ہی سب ہنسنے لگے میں نے شکر کیا کے آج آشیانہ پورسکون  ہے اب ڈیڈی نے مجھے اپنے پاس انے کا کہا میں ڈر گیا اب وو پیچھے ہنٹر نکال کے مجھے آج ضرور ٹھیک کر دیں گے لیکن جب ان کا ہاتھ سامنے آیا اس میں گلاب کے پھولوں کا ایک ہار تھا وو انہوں نے میرے گلے میں ڈال دیا اور بولے یہ آج کا کیس جیتنے کی خوشی میں اب میں ان کے گلے لگا اور کہا ڈیڈی جان یہ سب آپ کی دعاؤں کا ہی اثر ہے اب کے لالارخ بولی یہ ڈیڈی کی دعائیں بس تم کو کامیاب کرنے کے چکر میں قبول ہوتی ہیں تب کیوں نہیں ہوتی ہیں جب ڈیڈی کچھ کہتے ہیں اور تم نہیں کرتے وو واقعی شیطان کی خالہ تھی  وو کیسے برداشت کر پتی یہ سب

اب ڈیڈی نے کہا شارق مجھے آج بری خوشی ہوئی ہے ترے جیتنے سے اب بھی نصرت نے کہا رانا کا بڑا نام ہے وکیلوں کی دنیا میں وہ  پچھلے پندرہ سالوں میں پہلی بار کوئی کیس ہارا ہے اور یہ کیس تھا بھی اس کا ذاتی کیوں کے مرنے والا اس کا سگا بھانجا تھا میں نے کہا بھائی جان مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی مجھے لگا تھا وو خواجہ صاحب کا بیٹا  بیگناہ ہے اب بھائی امجد نے کہا خواجہ وہلے نصرت کے پاس آیا تھا یہ کیس لے کر مگر نصرت کو لگا اس میں کوئی دم نہیں ہے اپر سے خواجہ کی وکیل احسن بھی بک گیا تھا رانا کے ہاتھوں  اس لئے اس نے کافی اور وکیلوں سے رابطہ کیا پھروہ تم لوگوں کے پاس آیا تھا میں نے کہا جی بھائی جان مجھے پتا ہے میں نے اس کیس کو جب دھیان سے پڑھا تو مجھے دو تین ایسے نکتے نظر آے تھے جو مشورہ سے اس کے بیٹے کی جان چھڑا سکتے تھے  ، اب نصرت بھائی نے میری طرف دیکھا اور کہا سری محنت تمہاری تھی اور نام اس فاروقی کا اوپر آ گیا ہے میں نے اب کہا بھائی وو میرے سر ہیں تو ڈیڈی نے کہا مذک چھوڑو یہ بتاؤ اب کیا ارادے ہیں تم نے اسے بانس پے چڑھا دیا ہے میں نے کہا ڈیڈی وہ بزرگ  آدمی ہیں ہمارا کیا لیتے ہیں اب کے پھر نصرت بھائی نے کہا جی ہاں آپ کی وجہ سے وہ  اب لاکھوں میں کھیل رہا ہے  اور جس بلڈنگ میں اب تم لوگو کا آفس ہے اس بلڈنگ میں ایک کمرے کے آفس کا کرایا کوئی تیس چالیس ہزار ہو گا اور تمہارے پاس پورا فلیٹ ہے وہ بھی ایسا فرنشڈ کے دیکھنے والا حیران ہی رہ جا
ۓ اب میں نے کہا بھائی وو خواجہ صاحب نے اپنی مرضی سے دیا تھا ہم  کو

پھر ڈیڈی کے پوچھنے پے بھائی نے ان کو اس آفس کا بتایا اب ڈیڈی نے کہا چلو کوئی بات نہیں اچھا ہے نہ اب  یہ اچھی جگہ بٹہے گا پھر ڈیڈی نے چلو آبجو اپنے کمرے میں جا کر سو جاؤ خبردار جو کل سے لیٹ آے گھر جاؤ کھانا کھاؤ جا کر اب میں چوٹی بھابھی کو ساتھ لے کر باہر آیا اور کھانا اور انہوں نے مجھے کھانا دیا اور کہا شارق کل تمہاری دوست آ رہی ہے نیلوفر میں نے یہ سن کے کہا اچھا آپ کو کس نے بتایا وو بولی اس کی کال آیی تھی نیلوفر میری خالہ زاد   کزن تھی اور بھابھی تنویر کی چچا کی بیٹی تھیں پھر میں کھانا کھا کر اپنے کمرے میں آ کر سو گیا اگلے دن میں اپنی ذاتی مصروفیت سے فارغ ہو کر یعنی کے جم اور اکھاڑا  سے پھر میں نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور کورٹ کی طرف نکل لیا جب میں کورٹ میں پوھنچا یو اسی وقت ہی ابھی فاروقی صاحب آے ہی تھے ہم نے  اپس میں ڈسکس کی آج کے کیسوں کی اور میں نے ان کو بتایا کے گھر والو کے سلوک کا وہ  بولے یار ویسے ہی تمہاے والد صاحب غصے کے تیز ہیں ورنہ وہ  بارے نائس آدمی ہیں ہم اب آج جب جج فہد علوی صاحب کی عدالت میں گے تو وہاں ایک قتل کے کیس کی بحث ہو رہی تھی

پھر میں نے اس ملزم کو دیکھا حس کا وو مقدمہ تھا اس کے ہاتھوں میں ہٹکریاں اور پاؤں میں بیڑیاں تھیں میری نظر اس کے چہرے پے ہی جم گے مجھے اس میں ایک اور راحیل نظر آنے لگا تھا

اور یہ یکسانیت بفطری  نہیں تھی حالات کی چکی انسان کو کیسے کیسے جھکڑ لیتی ہے مجھے اب پتا چک رہا تھا اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی آنکھوں کے گرد ہلکے پڑھے  تھے وو ایک دراز قد اور خوبصورت آدمی تھا جس کے چہرے پے معصومیت سی تھی  اب اتنی دیر میں فاروقی صاحب نے مجھے کہا چلو آج کی ڈیٹ مل گئی ہے میں نے ان سے کہا آپ کو اب کسی عدالت میں پیش ہونا ہے وو بولے نہیں اب فری ہوں میں نے کہا تو بیٹھ جایئں میں ذرا اس مقدمے کی سماعت سننا چاہتا ہوں اب کمرے عدالت میں ایک وکیل کی آواز گونجی  جناب عالی  ملزم احسان تائب کا چالان پچھلی بار کی پیچھیی میں عدالت میں پیش کر دیا تھا اجج اس ملزم کی پہلی سماعت ہے

   ملزم نے قتل جیسے گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور پولیس کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے ،مقتول فرہاد صاحب ایک چھوٹی سی   فرم کے مالک تھے جنہوں نے ملزم پے پرے احسانات کے تھے لیکن اس ناسپاس شخص نے ان احسانوں  کے عیوض فرہاد احماس کو بیدردی سے انہی کے آفس میں خنجر سے قتل کر دیا خنجر کے دستے پے ملزم کے ہاتھوںکی انگلیوں  کے نشان مجود ہیں پھر سب سے بڑی بات ملزم احسن تائب   ولد مقصود حسین نے مقامی پولیس   کے سامنے  اعتراف جرم کیا ہے .اسکے عوامل ملزم کے بیانات کی روشنی میں عدالت کے سامنے آییں گے ایک ایسا شخص جو احسانات کے بدلے زندگی چھین لیتا ہے میری نظر میں اس معاشرے کا سب سے برا انسان ہے اور ایسے ناسپاس  آدمی کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہے تا کے آگے  سے کوئی ایسی احسانات فرموشی  کا مظاہرہ نہ کرے

جج صاحب نے سامنے رکھی ہوئی فائل سے نظریں اٹھا کر کٹھرے میں خرے اس خوبصورت آدمی کو دیکھا پھر انہوں نے مجمع پے نظر ڈالی اور کہا ملزم کا وکیل صفائی کون ہے جب کوئی آواز نہ ابھری تو جج صاحب نے ملزم کی طرف دیکھا اور کہا آپ کا کوئی وکیل صفائی نہیں ہے کیا تو احسن تائب نے کہا نہیں جناب ہم اپنی صفائی خود پیش کر لیں گے اپنی غلاظتوں  کو خود ہی سمیٹنا اچھا ہوتا ہے ٹھیک ہے آپ اپنی کروائی شروع  کریں    پھر سرکاری وکیل ملزم کے سامنے پوھنچ گیا اور کاروباری لہجے میں ملزم سے کہا سب سے پہلے تو تم اپنے تائب  ہونے کی وضاحت کرو احسن نے کہا آپ بھی مجھے کوئی شاعر ہی لگتے ہیں تائب میرا تخلص ہے  

یا پھر یوں کہے وو حقیقت جو دنیا سے روشناس ہونے کے بعد میں نے اپنا لی میں اپنی اس چھبیس سالہ بےمقصد زندگی سے تائب  ہو چکا ہوں اس لئے میں نے اپنے تخلص میں تائب لگا لیا کمرہ عدالت میں بیٹھنے لوگوں کے ہونٹوں پے ہلکی ہلکی مسکراہٹ پھیل گئی پھرسرکاری  وکیل صاحب نے کہا تم بیروزگار ھو ؟ پیدائشی احساں تائب نے جواب دیا اور لوگ پھر مسکرا دے تعلیم کہاں تک ہے وکیل صاھب کا سوال تھا اب اس دنیا سے روشنائی تک ملزم کا جواب آیا ،بیروز گاری کے درمیان تم کیا کرتے تھے  اگلا سوال وکیل صاحب کا .شاعری ملزم کا جواب اس دفع بھی کافی عجیب تھا  احساں تائب نے کہا اور مرانظر میں ہر بیروزگار نوجوان کو شاعری کرنی چاہیےکسی بھی شعر کو مکمل کرنے بیٹھ جاؤ دنیا کے مسائل  کا   احساس ہینہی ہوتا ہے نہ ایک دلچسپ مشغلہ  شعر عرض ہے ~~~
اسی لئے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کھل نہ سکا تھا کے رت بدل گی
ایک بار پھر عدالت میں بیٹھنے ہوے لوگوں کے ہونٹوں پے مسکراہٹ پھیل گی اب کی بار وکیل سرکاری نے جھنجھلا کر کہا تم نے فرہاد احمد کا قتل کیوں کیا
مشکل میں تھا بیچارہ ،عشق شیریں میں تو جان سےجانا تھا   ہم نے سوچا کیا کے کہاں تیشہ گردی کرتا رہے گا ،چٹانوں سے سر ٹکراتا پھرے گا

سو ہم نے اسے زندگی کے بوجھ سے آزاد کر دیا ،یہ ایک اضافی ہمدردی کا مسلہ تھا "،اس نے جواب دیا اور عدالت میں ایک قہقہ گونج اٹھا ،جج صاحب نے ہتھوڑی بجا کر سب کو خاموش کیا اور کہا عدالت کے وقار کا کھلا رکھا جا
ۓ احساں تائب نے کہا جناب بڑا احترم  کیا ہے  اس زمانے   کا کسی کی مرضی سے جئے ہیں اور جب موت کی طرف گامزن ہیں تو اپنی مرضی سے تھوڑا ہنس لینے دیں اور کچھ ہنسنے ہنسانے کا موقع دے دیں ہم کو جج صاحب تو کیا حرج ہے ،آپ ہمیں اپنے اس قلم کی نوک سے پھانسی تو دے ہی دیں گے کچھ دیں اپنی مرضی سے جی لینے دیں

جب کے اس سے قبل ہم نے جینے کے لئے دوسروں کی مرضی پے انحصار کیا ہے اب تو یہ کفیت ہے ~&&~
بجھ چکے ہیں میرے سینے میں محبت کے کنول
اب تیرے  حسن پشیماں سے مجھے کیا لینا
اب کی بار کوئی نہیں ہنسا تھا کیوں کے اب لوگ اس  کی کفیت سے متاثر ہو رہے  تھے .میری پتھرائی ہوئی آنکھیں احساں تائب کے چہرے پے جمی ہوئیں تھیں ،اس کا ایک ایک انگ مؤے چیخ چیخ کر کہ رہا تھا کےکرب کا شکار  یہ شخص زمانے کی سنگلاخ زمین پر لوٹتا رہا ہے ،موت کے آرزو مند ایسے ہی نہیں ہوتے ،زندگی کی آگ اتنا جھلسا دیتی ہے انہیں کے موت کی پرسکون آغوش  انہیں سب سے حسین لگتی ہے

میری آنکھوں میں نامی پیدا ہوتی جا رہی تھی اب کی بار سرکاری وکل نے جھنجھلا کے کہا جناب احساں کے سلے میں فرہاد احمد کو قتل کر دیا  اس نے اور یہ بات اس نے عدالت کے سامنے بھی کہی ہے خان پوری کے لئے میں اس کے بیان کو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ، ورنہ یہ کیس سیدھا سادہ ہے
جج سحاب نے کہا وجہ قتل کیا ہے
وکل نے جواب دیا جناب عالی پولیس  تفتیش رپورٹ  کے  مطابق احساں تائب  کی بہن فریال حسین مقتول فرہاد احمد کے آفس میںسیکرٹری کی حثیت سے  کام کرتی تھی فرہاد احمد شادی شدہ تھے اور ان کی بیگم ثمینہ  فرہاد اپنے شوھر پے مکمل عتماد کا اظہار  کرتی ہیں مرحوم فرہاد احمد ایک خدا ترس انسان تھے ،جوان عمر ہونے کے باوجود ان کے دل میں انسانیت کی ہمدردی تھی

اور اسی انسانی ہمدردی کی بنیاد پے انہوں نے اس خاندان سے ہمیشہ ہمدردی کی ان کی چھوٹی موٹی ضرورتیں وو پوری کرتے رهتے تھے جو ان کی نگاہوں میں  آتی لیکن اب احساں تائب نے ان سے زیادہ رقم کی وصولیابی   شروع کر دی ہر شخص کو بلآخر  یہ احساس ہو جاتا ہے کے جن سے وو مخلص ہے ان میں لالچ اور شیطانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے .وہ ان کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں  
مزم تائب نے اپنی بہن فریال کے بدلے مزید زیادہ رقم اینٹھنا چاہتا تھا لیکن فرہاد اتنا ہی کر سکتے تھے جتنا وہ کر رہے تھے انہوں نے انکار کر دیا اور جب بار بار کے تقاضے سے تنگ آ کر انہوں نے منع کر دیا تو ملزم نے انکو دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور بلآخر ان کا قتل کر دیا  
کیا تم اس سے انکار کرتے ھو جج صاحب نے احساں تائب کی طرف دیکھتے ہوے کہا جس کے چہرے سے اب مسکراہٹ غائب ہو گی  تھی ، اس نے وکیل صاحب  کی طرف دیکھا اور نرم لہجے میں بولا وکیل صاحب آپ ایک قاتل کو اس کے قتل کی سزا دلوانا چاہتے ہیں نہ ،آپ کی آسانی کے لےمین نے  اعتراف جرم کرنے میں کوی کسر نہیں چھوڑی اور میرا خیال ہے فاضل عدالت کے سامنے میں نے اپنے جرم کا اعتراف کر کے آپ کے راستے کی ہر دیوار دور کر دی ہے ،اس کے بعد آپ کا رخ میری بہن کی طرف کیوں ہو رہا ہے   

آپ کی کوئی بہن ہے وکیل صاحب ، کیا مطلب سرکاری وکیل نے غصیلے لہجے  میں  کہا"؛
اب کی بار احسان تائب نے کہا میری دعا ہے خدا آپ کے گناہ کو اس پر مسلط نہ کرے بہنوں کے سر سے ڈوپٹے اتارنا اچھی بات نہیں ہے وکیل صاحب وہ  اس عدالت میں بھی مجود نہیں ہے آپ کو اس سے کوئی ذاتی پرخاش بھنہی ہے آپ اس کے سفید چہرے کو کیوں داغدار کرنا چاہتے ہیں   اب احساں تائب نے جج صاحب کی طرف دیکھ کر کہا جج صاحب میرا سوال آپ سے ہے کیا بہنوں کے سر سے ڈوپٹے اتارنا قانون کے لئے ضروری ہے کیا اس قتل کا اس سے تعلق جوڑ کر سرکاری وکیل کو کوئی روحانی خوشی نصیب ہو گی جب میں نے کہا ہے کے میںنے فرہاد احمد کا قتل کیاہے تم بات ختم آپ کے قانون  میں جو کڑی سے  کڑی سزا ہے مجھے وہ دیں اب احساں تائب نے سرکاری وکیل سے کہا لو جی آپ کا کام اور آسان کر دے میں نے

جج صاحب اگر آپ کی عدالت میں انصاف نام کی کوئی چیز ہے اور آپ انسانی قدروں کو تسلیم کرتی ہیں تو جو سزا آپ کے دل میں اے مجھے وہ  دیں  بس اب سرکاری وکیل کی زبان پے میری معصوم بہن کا نام نہ آے میرا مثلا بلکل مختلف ہے جج صاحب میں زندگی کی بازی ہار رہا ہوں اور اس کی وجوہات میرے سینے میں ہی رہنے دیں ہم نے تو  یہ فیصلہ کیاہے ~~@
کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں
سانس کی یہ گرمی میرے وجود کو پگھلا رہی ہے وکیل  صاحب میں اب اس کی آنچ کو برداشت نہیں  کر سکتا مجھے موت چاہے بس موت اور اس کے بعد میں خدا کی دی ہوئی زبان کو اپنی مرضی سے استمعال کرنے کا حقدار ہوں قانون کے احترم میں ،میںنے خود کو موت کی سزا کے لئے پیش کر دیا ہے ایک قاتل کے  لئے موت ہی ہوتی ہے اس کے بعد میرے پاسس کہنے کو اور کچھ نہیں ہے

اس کی آواز میں ہلکی سی بھراہت شامل ہو گی تھی کمرہ عدالت میں بٹہے ہوے لوگوں کی آنکھیں نم ہو گیں تھیں خود جج صاحب بھی پریشان نگاہوں سے مجرم کی طرف دیکھ رہے تھے پھر انہوںنے کہا سرکاری وکیل سحاب آپ نے کچھ اور کہنا ہے تو سرکاری وکیل نے کہا اگر عدالت اس سے مطمئن ہے کے اس نے اعتراف جرم کر لیا ہے اب اس کے لئے موت کی سزا یقینی ہے تو  نہیں جناب عالی مجھے کچھ نہیں کہنا جج سحاب تھوڑی دیر سوچتے رہے اور پھر کہا
":سماعت آیندہ پیشی کے لئے ملتوی کی جاتی ہے ::""

اب لوگ کمرہ عدالت  سے باہر جانے لگے احساں تائب کو بھی پولیس والے لے گے اپنے ساتھ جیل میں  امن اب اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا کے یہ آدمی قاتل نہیں ہو سکتا کچھ نہ کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے اب یہ کیس میری مرضی کے مطابق تھا بھلا مجھے کون روک سکتا تھا اسے لینے سے میں نے اب فاروقی صاحب سے کہا فاروقی صاحب اس کیس کی فائل کی کوپی کرا لیں اور وکالت نامہ بھر لیں مجھے یہ کیس لڑنا ہے وو بولے ابھی لو بتا اور پیشکار سے جا کروہ فائل خود لے کر آے  اور اپنے ایک منشی سے کہا اس کی کاپی کرا لو  اب ہم نے وو فائل لی اور اپنے آفس کی طرف چل دے کیوں کے اب اور کوئی کیس نہیں تھا ھمارے پاس آج کے دِن کا
میں نے اپنے آفس میں بیٹھ کر اب ساری تفصیلات ایک کاغذ پے لکھ لیں فرہاد احمد اپنی بیگم کے ساتھ ایک  پوش علاقنے میں رهتے تھے ان کا ایک بیٹا اورچند ملازمین تھے ساتھ میں اور احسان تائب شہر کی ایک نواحی بستی میں ایک کواٹر میں اپنی ماں بہن اور تین چوتھے بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا ،اس نے بی .آے کیا تھا اور اس کی بہن فریال بس انٹر میڈیٹ تھی باقی تین چوتھے بھی ابھی پڑھ رہے تھے والد کا انتقال ہو چکا تھا وقوعہ والے دِن احساں اپنی بہن کے دفتر میں گیا اور اس نے فرہاد سحاب سے کافی گرما گرمی کی تور پھوڑ کی  اور پھر فرہاد احمد سے دھینگا مشتی میں کافی افرا تفری پی گئی تھی آفس میں اور پپر کاٹنے والے چاقو سے قتل  کیا  جس کا دست تانبے کا تھا جی پے احساں تائب کی انگلیوں کے نشان پاے گ
ۓ تھے

ملزم احساں کی نشاندھی فرہاد کےڈرائیور صمدو نے کی تھی جو سب کے چلے جانے کے بعد یہ دیکھنے کے فرہاد سحاب ابھی تکنہی نکلے اپنے آفس  سے اندر گیا تو اس نے ان کی لاش دیکھی اس نے پولیس کو اطلاع دی اور پھر جب انکوائری میں یہ دیکھا گیا کے سب سے آخر میں اندر جانے والا کون تھا تو تب احسان تائب کا پتہ چلا سمدو نے بتایا وو سب سے آخر میں اندر گیا تھا پھر پولیس نے احساں کو گرفتار کیا اور آلے قتل  سے اس کی انگلیوں کے نشان بھی مل گ
ۓ تب پولیس  کی تفتیش میں  احسان نے اعتراف جرم کیا  اور اس کیس کا چالان مکمل کر کے پولیس نے عدالت میں پیش کر دیا

اور اب احسان تائب نے اعتراف قتل  کر کے اپنے تابوت پے آخری کیل بھی ٹھونک دیا تھا کیوں کے ایسا مجرم  جو عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لے اسے کیسے کوئی بچا سکتا تھا اور جرم بھی قتل کا اب میں سوچ رہا تھا ایسے کیا محرکات ہیں اس قتل کے پیچھے  جس کی وجہ سے احساں اپنی جان دینا چاہتا  ہے ابمیں نے سوچ لیا کل سے اب ان کے بارے  میں پتا چلوں گا اور پہل ہو گی جیل میں احساں تائب سے ملاقات کر کے کیوں کے جو آج کل ھمارے شہر کی جیل کے جیلر تھے وو میرے بھائی ایس.پی طارق کے قریبی دوست تھے  اب میں نے وہ  ساری تفصیلات  والا کاغذ اپنی کوٹ کے کی جیب میں  ڈالا اور پھر فاروقی صاحب سے پوچھا کے اب کیا پروگرام ہے وہ بولے اب گھر جانیں گ
ۓ اور میں ان کو سلام کر کے اپنے گھرآشیانے  کی طرف چل دیا  جب میں گھر میں داخل ہوا تو مجھے لان میں نیلوفر اور لالارخ دونو ہی سیر کرتی نظر آییں میں ان کی طرف بڑھ گیا سلام کے جواب میں نیلوفر نے کہا کیسے ھو حضور آج کل کیا ہو رہا ہے  تو مجھ سے پہلے ہی لالرخ نے جواب دیا بھولے بھالے لوگوں کی جبیں خالی کرا رہے ہیں محترم آج کل یہ کہ کر کر کے  میں غریبوں سے کوئی فیس نہیں لیتا کیس کی اور  اس پبلسٹی سے متاثر ہو کر کوئی نہ کوئی  امیر مرغا بھی پھنس جاتا ہے پھر اس بیچارے کا برا حال ہوتا  ہے اس کی باتیں سن کر میں اور نیلوفر ہنس دے وو بولی نیلی میں مذک نہیں کر رہی پچھلے دنوں ایک مرغا آ گیا تھا قابو میں بھاری فیس کے علاوہ ایک لاکھوں کا قیمتی فلیٹ  میں جناب کو لاکھوں اور لگا کر ایک اتنا شاندار آفس تیار کر کے دیا ہے کے بھائی نصرت کہتے ہیں اس جیسا کسی وکل کا اس شہر میں آفس نہیں ہے

یار بندہ پوچھے اس کور مغز سے جس نے یہ سب کیا ہے کے تم کو کیا ضرورت تھی پہلے ہی ان جناب کا دماغ آسمانوں پے تھا اوپر سے اس کمبخت نے یہ نیا ڈرامہ کر دیا اب جو بھی کلائنٹ ایک دفع ان کے دفتر میں داخل ہوا سمجھوں وو اب لوٹ کے ہی باہر آے گا تو اب کی بار نیلوفر نے ہنستے ہوے کہا لالارخ  یار میں جانتی ہوں تمہارے بھائی کو یہ تو خلق خدا کے پیار میں پگھل ہے کہاں کسی سے کچھ لیتا ھو گا  اب تولالارخ کو پتنگے لگ گ
ۓ وہ  بولی کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں اور اس کا ہاتھ پکڑا اور سیدھی بھائی نصرت کے کمرے میں وہاں جا کر کہا بھائی ذرا میری اس بھولی کزن کو بتا دیں کے عزت مآب جناب شارق حسین شاہ اپنے کلائنٹ کا کیا حال کرتے ہیں وہ اب ہنس دے اور کہا وہ سب تو میں بھی کرتا ہوں لالارخ چڑھ کے بولی آپ کو تو دس سالوں میں کسی نے دفتر نہیں بنا کے دیا حتی کے آپ کا شمار چھوٹی کے وکلا میں ہوتا ہے تو بھی نصرت نے مجھے دیکھ کر کہا یار اصل میں اب میرے پاس اس جیسے گیٹس  نہیں ہیں نہ میں اتنا زہین ہوں  میںنے کہا بھائی جان جانے دیں  میں بھلا کی نہیں جانتا آپ کو  پھر کہا بھائی مجھے ایک کیس  کے بارے میں آپ سے ڈسکس کرنی ہے اتنے میں بھابھی شفق آ گیں اور کہا ہم سب کو ڈیڈی نے اپنے روم طلب کیا ہے  اصل میں ہم سب ہی شام کو وہاں ہی بیٹھتے تھے

ہم سب ادھر چل دے وہاں جا کر ہم نے سلام کیا اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ گ
ۓ اب ڈیڈی نے مجھے دیکھا اور کہا ہاں بھئی آج کیسے گزرا دِن  میں نے ان کو بتایا بہترین پھر میں نے کہا بھائی جان ایک کیس ہے اب ہم ڈسکس کر لیں  میں نے وہاں ہی سب سے احسان تائب کے کیس کا ذکر کیا وو ساری تفصیل سن کے امجد بھائی جو جج ہے وو بولے یار ایک ایسے مجرم کو کیسے بچایا جا سکتا ہے پھر طارق بھی نے بھی یہی کہا اور نصرت بہانے کہا شارق یہ کیس تم نہیں لڑو گۓ کیوں کے ثمینہ فرہاد  کا کیس  فرحان ڈار صاحب نے لڑنا ہے پھر تمہارے خلاف    اور ڈار صاحب سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں  ان کے سامنے کوئی نہیں ٹک پاتا وو ثمینہ فرہاد کے خالو ہیں میں جانتا ہوں اس ساری فمیلی کو میں نے کہا بھائی میں اس کیس سے نکلنا چاہتا ہوں احساں تائب کو وہ مجھے کہیں سے بھی قاتل نہیں لگتا  پر مجھے سب نے ہی روکا  اب کے ڈیڈی نے کہا یار یہ ڈار غلط قسم کا بندہ ہے کوئی ضرورت نہیں اس کی فیملی کے خلاف کیس لڑنے کی  طارق بھائی  نے اب میری طرف دیکھا اور کہا شارق فرحان ڈار کا تعلق اس ملک کے سب چوٹی کے بدمعاشوں سے ہے وو ہی ان کے کیس لڑتا ہے میں تم کو یقین سے کہتا ہوں  وہ اس بندے کو جیل میں ہی مروا دے گا اب میں نے تڑپ کے کہا نہیں بھائی جان ایسا نہیں ہو گا  میں اس کیس کو چلینج کے ساتھ لڑوں گا   

پھر ہم نے آپس میں یہی فیصلہ کیا کے اگر احسان بیگناہ ہے تو میں کوشش کروں پھر ہم سب  نے رات کا  کھانا  کھایا اور اپنے اپنے روم کی جانب چل دے میں خانے کے بعد کچھ دیر لان میں واک کرتا تھا یہ میری روٹین تھی  میں  سیدھا ادھر ہی گیا تھوڑی دیر بعد  مجھے نیلوفر بھی اپنی طرف آتی نظر آیی وو میرے پاس آ کر بولی  کیا ہم بھی جناب کے ساتھ واک کر سکتے ہیں میں نے کہا کیوں نہیں اور پھر میں اور نیلی مل کرواک  کرنے لگے وہ بولی شارق کیوں تم اس کا کیس لڑنا چاہتے ھو میںنے کہا یار ووہی خلق خدا سے پیار کا چکر ہے

اب کی بار وہ میری طرف دیکھ کر بولی برا پیار اتا ہے تم کو لوگوں پے میں مسکرا دیا  اور کہا ہمیں تو آپ پے بھی پیار آتا ہے وہ شرما کے بولی چلو ایسے ہی  کہ رہے ھو  ابمیں نے اسے دیکھا اس وقت ہم لان کے آخری کونے پے تھے جہاں پے ذرا روشنی کم ہی تھی میں بولا تم ہو ہی اتنی پیاری کے پیار آ ہی جاتا ہے وو بولی تو اس کی آواز میں اب کی بار جذبوں کی گونج تھی شارق کتنی پیاری ہوںمیں بتاؤ نہ اور کتنا پیار آتا ہے مجھ پے میں نے اب اس کی طرف دیکھتے ہوے کہا تم سر سے پاؤں تک پیاری ھو اور تھا بھی ایسا ہی وہ ایک  درازقد کی لڑکی تھی اس کا دودھیا رنگ موٹی موٹی جھیل سی  آنکھیں جن پے لمبی ترچھی پلکوں کا چلمن تیکھی ناک کشمیری سیب کی طرح لالی لئے ہوے گال جن پے جب وو بات کرتی تو ایک چھوٹا سا گھرا پڑتا پھول کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ  جو شہد میں بھیگے ہوے لگتے اور اوپر والے ہونٹ کے ایک کونے میں چھوٹا سا کالا تل اس کے موتیوں کے جیسے چمکتے دانت ایک صراحی دار گردن اس سے نیچے ایک بہت من کو بھانے والی ایک لکیر جو سیدھی اس کی چھاتی کی طرف جاتی تھی اس کی چھاتی بہت  پیاری تھی آج اس نے سفید رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا وو کچھ ٹائٹ کپڑے پہنتی تھی  جس میں اس کی چھاتی ایسے  لگتی جیسےوہ  کپڑے  پھاڑ کر باہر نکل آے گی  
اس کی کمر بہت  پتلی سی تھی  اور نیچے اس کے بھاری بھاری کولہے وو ایک آئڈیل لڑکی تھی اسے دیکھ کر کوئی بھی شخص اپنے آپ پے سے کنٹرول کھو سکتا تھا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنی طرف کھینچا اور اپنے ہونٹ اس کے شہد سے میٹھے ہونٹوں پے رکھ دے مجھے اتنا مزہ آیا بتا نہیں سکتا وہ اب مجھ سے جدا ہو کر کھڑی ہو گی اور کہا شارق یہ سب مت کیا کرو مجھے اچھا نہیں لگتا میں نے کہا ٹھیک ھو پھر ہم کچھ دیر ویسے ہی واک کرتے رہے چپ چاپ اور میں پھر اپنے کمرے میں آ گیا  اور رات کو سونے والہ لباس پہن کے اپنے بیڈ پے لیٹ گیا   

میں اب اپنے کیس کے بارے میں سوچ رہا تھا احسان والے  پھر کوئی دو گھنٹے ایسے ہی گزر گ
ۓ میں اپنے ذھن میں اس کیس کی تراش  خراش  کر رہا تھا اچانک میرے کمرے کے دروازے پے دستک ہوئی ہلکی سی آواز آئ میں نے جا کے دروازہ کھولا تو نیلوفر تھی وہ میری طرف دیکھ کر بولی شارق مجھ سے ناراض ہو گۓ ھو آپ  میں  نے اسے اندر بازو سے پاکر کے کھینچ لیا  

میںنےاب نیلوفر کی طرف دیکھا اور کہا تم کو میرا کس کرنا اچھا نہیں لگا سوری وہ تڑپ گی اور کہا پلیز شارق ایسے نہ بولو ریلی آئی .لو .یو اور رو دی میں نے اس کو اپنے ساتھ لگا کے اس کے آنسو صاف کے اور اس کی آنکھوں پے ایک کس کی وو اب پیچھے ہٹی اور کہا مجھ سے ناراض نہیں ہونا کبھی ہم بچپن کے دوست ہیں شارق  میںنے دوبارہ اس کا ہاتھ پکڑا اور اسکو اپنی جانب کھینچ کر اپنے ساتھ لپٹا لیا اور مظبوطی سے جکڑ لیا اب نیلوفر   بھی مجھے اپنی انہوں میں جکڑ چکی تھی اسکا نرم اور گداز جسم محسوس کرتے ہی میرے لن  میں حرکت شروع ہوگئی۔
 میں نے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ پکڑ کر اسکے ہونٹوں پر ایک بھرپور کس کیا۔ وہ بھی میرے کس کا جواب دینے لگی پھر میں نے دونوں ہاتھ پیچھے لے جاکر اسکے کولہے اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر زور سے دبائے جس سے اس نے ایک لمبی سانس لی اور اچھل کر مزید میرے ساتھ چپک گئی پھر میں نے ذرا دیر اسکے کولہوں کا مساج کرنے کے بعد اسکی قمیض  میں پچھے سے ہی ہاتھ ڈالا اور اسکی ننگی کمر کو سہلانے لگا۔


 وہ اب مست ہونے لگی تھی اسکی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔میں اب واپس ہاتھ نیچے کی طرف لایا  نیلوفر  نے شلوار میں الاسٹک ڈالی ہوئی تھی میں نے دونوں ہاتھ اسکی شلوار میں ڈال دیئے اور اسکے کولہوں کو جکڑ کر ایک بار پھر سے بھرپور طریقے سے سہلانے لگا۔ وہ اب بری طرح مچل رہی تھی  شاید اسکی بے تابی بڑھ رہی تھی۔  ایک ہی جھٹکے سے اسکی شلوار کو گھٹنوں تک کھینچ کر اتار دیا۔
 اب وہ نیچے نیچے تو ننگی ہو گئی تھی اسکی گوری رانیں دیکھ کر میرا دل مچل اٹھا تھا۔ اور اب میری برداشت سے بھی باہر ہو رہا تھا کہ اسکو چودے بغیر سکون نہیں ملنا تھا مجھے۔ اب میں اسکے ممے دیکھنا چاہتا تھا سو اب میں نے اسکی قمیض پر حملہ کیا اور چیک کیا تو پتہ چلا کہ اس نے ایک زپ والی قمیض پہنی تھی میں نے اس زپ کو ایکدم نیچے کیا تو کافی چست ہونے کی وجہ سے ایکدم ہی نیچے ڈھلک گئی۔ اور اسکے شانے ننگے ہو گئے جس پر پتلی سی بریزی کی اسٹرپ جو کہ بلیک کلر کی تھی اسکے گورے بدن پر قیامت ڈھا رہی تھی۔اب میں مزید انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا اسکی چوت کو اپنے موٹے لنڈ سے بھرنا تھا مجھے۔
 اسکی چوت کی گرمی اور نرمی سے اپنے لنڈ کو فیضیاب کرنا تھا۔ سو میں نے اس سے کہا  اب مزید انتظار نہیں ہوتا تم اتنی پیاری ھو میں اب بےبس ہوا جا رہا ہوں مجھے جی بھر کے پیار کرنے ہے تم کو اس نے  میری بات کا جواب دیا مجھ سے بھی اب انتظار نہیں ہو رہا آپ کا دل جو چاہیے وہ  کرو میں آپ کی ہوں شارق   ۔ میں اسکی بات سن کر خوشی سے پاگل ہونے لگا تھا۔ میں نے فٹافٹ اسکی قمیض کو اسکے خوبصورت بدن سے الگ کیا۔ اور پھر اسکے بریزر کے ہک کھول کر اسکے بڑے بڑے ممے کو آزاد کردیا وہ ایسے اچھل کر میرے منہ کے سامنے آئے جیسے پکا ہوا آم ہو ایکدم گورے اور چکنے ممے۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ میں تو خوشی سے دیوانہ ہورہا تھا میری رال ٹپکنے کو تھی۔ پھر میں نے اسکی شلوار جو ابھی تک گھٹنوں تک تھی اسے بھی اتار اب وہ میرے سامنے بالکل ننگی کھڑی تھی۔ اسکا گورا اور سیکسی بدن مجھے بھرپور دعوت دے رہا تھا۔ اب میری باری تھی اپنے کپڑے اتارنے کی میں نے جلدی جلدی اپنا نائٹ سوٹ اتارا مگر انڈروئیر کو چھوڑ دیا  کے لیے۔اب میں نے  کی جانب دیکھا تو وہ سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہی تھی میں اسکو دیکھ کر مسکرایا اور کہا تمہارے سارے کپڑے میں نے اتارے ہیں میرا ایک کپڑا تو کم سے کم تم بھی اتارو۔وہ میری بات سن کر شرمائی مگر پھر اگلے ہی لمحے وہ آگئے بڑھی اور میری انڈرویئر میں ہاتھ ڈال کر میرا لن  پکڑ لیا۔
 میں ایسے اچھلا جیسے میرے لن  کو کرنٹ لگا ہو۔ مگر اسکے نرم ملائم ہاتھ سے میرے  لن کو بہت لذت ملی تھی۔ ابنے ایک ہاتھ میں میرا لن  پکڑے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری انڈروئیر اتار دی اب جو اس نے میرا لن   دیکھا جو کہ تنا ہوا کسی ڈنڈے کی مانند اسکے ہاتھ میں تھا تو اسکی آنکھوں میں ایک خوف سا آ گیاوہ  بولی شارق یہ توبہت  موٹا اور لمبا ہے میں اب اسے کیسے لے پاؤں گی میں نے پیار سے اس کے ہونٹ پے ایک کس کی اور کہا جانو کچھ نہیں ھو گا پہلی دفع کچھ درد ہو گا پھر مزہ حمزہ ہے وہ بولی مجھے آپ کی طرف سے دیا جانے والہ درد منظور ہے اب میں نے اس ایک ممے کو اپنے منہ میں لے لیا اور کسی آم کی طرح چوسنے لگا اورمیرا   ہاتھ اسکے دوسرے ممے پر تھا جس کو میں زبردست مساج کر رہا تھا۔ اور وہ میرے  لن  کو زور زور سے سہلا رہی تھی جس سے میرا  لن  مزید سخت ہو گیا اور تن گیا۔ اب میں نے  کو اپنی گود میں اٹھایااور اس کو اپنے بیڈ پر پھینک دیا۔


 اسکے بیڈ پر گرنے سے اسکے مموں نے ایک زبردست باؤنس لیا جس سے انکی نرمی اور لچک کا اندازہ ہو رہا تھا خیر اب تو یہ سوئٹ ڈش میرے کھانے کے لیے موجود تھی اور کوئی دعویدار بھی نہیں تھا جو روک سکتا۔ میں بھی جمپ کر کے نیلوفر   کے اوپر گرا مگر اس طرح اس   کو میرے بدن سے چوٹ نہ لگے۔ اب میں نے  کی چوت کی خبر لی اور ایک انگلی سے اسکو سہلانے لگا میں نے محسوس کیا کہ  کی چوت بالکل گیلی ہو رہی تھی ۔ میں نے ٹشو پیپر کا بکس اٹھا کر اسکی چوت کو صاف کیا اور اسکا گیلا پن بالکل ختم کردیا اسکے بعد میں نے دوبارہ سے اسکی چوت کو سہلانا شروع کردیا پھر ذرا دیر بعد اسکی چوت گیلی ہوگئی۔
 ایک بار پھر میں نے اسکو ٹشو پیپر سے صاف کر کے خشک کردیا اب میں نے  سے کہا میرا  لن چوسو جس سے اس نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا اگر نہیں چوسو گی تو مجھے مزہ نہیں ملے گا ۔ میری بات سن کر وہ تیار ہوگئی اور اٹھ کر بیٹھی اور مجھے دھکا دے کر بیڈ پر گرا دیا اور فوراً ہی میرا  لن  اپنے منہ میں لے کر کسی لولی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔اف اب میں الفاظ میں کس طرح بیان کروں اسکا منہ کتنا گرم اور کتنا نرم تھا میں اگر سیکس کا تھوڑا تجربہ نہ ہوتا تو لازمی میں اسکے منہ ہی فارغ ہو جاتا ۔
 مگر میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا مجھے آخر اسکی چوت کے مزے لینے تھے۔ مگر وہ اتنا زبردست طریقے سے میرا لن چوس رہی تھی کہ ہر لمحہ مجھے لگتا تھا کہ میں اسکے منہ ہی فارغ ہونے لگا ہوں پھر میں نے اسکو زبردستی ہٹا دیا اور اب میں نے اسکو دھکا دے کر بیڈ پر گرایااور اسکے اوپر چڑھ کر بیٹھا اور اسکی چوت کے منہ پر اپنا لن  رکھا اور اس سے کہا اپنی ٹانگیں کھولے اس نے فوراً ایسا ہی کیا اور اب اسکی چوت میرے لن کو قبول کرنے کو تیار تھی کیونکہ میں نے اپنے لن کا ہیڈ اسکی چوت پر رکھا تو اندازہ ہوگیا اندر کتنی گرمی ہے اور دوسری بات یہ کہ اسکی چوت  گیلی ہوچکی تھی۔یہ سگنل تھا اس بات کا کہ اسکی چوت میرے لن  کو نگلنے کے لیے تیار ہے اب باقی کام میرا تھا ۔
اب میں نے اپنا لن اسکی چوت کے منہ پر رکھا اور زور لگایا تو اسکی چوت کے گیلا ہونے کی وجہ سے میرا  لن ہیڈ تک تو چلا گیا اندر، مگر  درد سے بلبلا اٹھی اور کہنے لگی اسکو باہر نکال لیں بہت تکلیف ہو رہی ہے

 میں نے کہا نیلوفر ابھی بس ہیڈ ہی اندر گیا ہے لن کا ابھی تو یہ خود سارا اندر جائے گا اگر تم سے برداشت نہیں ہو رہا تو ٹھیک ہے میں نہی کرتا وہ  اب کی بار بولی ۔  شارق میں اپ کا ہر درد آج سہ لوں گے آپ ڈالو اندر اسے ایک ہی جھٹکے میں آج پھاڑ ہی دو میری چوت اب کی بار میں نے بھی ایک ہی جھٹکے سے سارا اندر کر دیا وو ایک زبحہ ہونے والے جانور کی طرح بلبلائی   میں اس کے اندر ڈال کر کچھ دیر کے لئے روکا رہا اور کہا جان بہت درد ہو رہا ہے نہ تم کو     کو وہ میری بات سن کر مسکرا اٹھی جسکودیکھ کر میں سمجھ گیا وہ برداشت کر رہی ہے  اب وہ درد سے اپنے ہونٹ بھینچ رہی تھی مگر کچھ کہہ نہیں رہی تھی میں نے اب ایک بار اپنا لن باہر نکالا اور دوبارہ میرا پورا لن اس کی چوت میں تھا
  وہ مچل رہی تھی شاید اسکو تکلیف زیادہ تھی میں نے اسکے اوپر لیٹ کر اسکو اچھی طرح جکڑ لیا ایسے کہ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھی۔ صرف ٹانگیں اور ہاتھ ہلا سکتی تھی۔ اب میں نے اسکے ہونٹوں پو کسنگ شروع کردی ذرا دیر بعد وہ اپنی تکلیف بھول چکی تھی کیونکہ اسکا دھیان کسنگ میں تھا پھر اور تھوڑی دیر بعد اسکی تکلیف ختم ہوچکی تھی ۔ اب اسکی چوت تیار تھی چدنے کے لیے
 میں نے بیٹھ کر اسکی دونوں ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور پوری طاقت سے زور لگا کر اپنا لن زور زور سے اندر باہر کرنے لگا   وہ اب مزے سے چیخ اٹھی  میں نے لن  کو باہر نکالا اور پھر اندر ڈالا مگر اب کی بار وہ نہیں چیخی بس اسکا سانس رکا اور پھر چل پڑا  میں نے بھرپور رفتار کے ساتھ چدائی شروع کی  کی سیکسی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ اسکی آوازیں بڑی خوبصورت تھیں۔ میں بھی اب رکنے والا نہیں تھا تقریباً دس منٹ کی چدائی سے میں بھی تھکنے لگا تھا اور میری منی جو کافی دیر سے روکی ہوئی تھی  اسے اسکی چوت پینے کو تیار تھی۔

پھر میں نے اسکی چوت میں منی اگلنا شروع کی ۔میں نے لن  کو پورا اندر ڈال کر نیلوفر کے ہونٹوں کو چومتا رہا اسی کی چوت نے اب میرے لن کو جکڑ لیا تھا اب  وہ اور میں ایک ساتھ  ہی فارغ   ہوے تھے  میرے لن اور اس کی چوت سے اب منی نکل  رہی تھی ۔ پھر فارغ ہونے کے بعد میں نے بے تحاشہ اسکو پیار کیا وو بھی مجھے اپنی بانہوں میں کسے ہوے تھی
وہ  کہنے لگی شارق پلیز ایسے ہی کچھ دیر مجھے چومتے رہو میرا درد اب کم ہو  جائے گا
  کیوں کے اسے بہت درد ہوا تھا جو اس نے برداشت کیا تھا اس لئے میں اسے زورو سے چوم رہا تھا پھر میں اسے اپنے ساتھ لپٹاہے ایسے ہی لیتا رہا میرا لن اس کی چوت کے اندر ہی تھا

تھوڑی دیر بعد اسے بھی درد سے آرام آ گیا اور وہ اٹھی اور واش روم کی طرف چلی  گی میں نے  دیکھا اس کی رانیں خوں اور منی سے لتھڑی ہوئیں تھیں میں بھی اس کے پیچھے  ہی واش روم کی طرف گیا اب اس نے پہلے میرا لن اور پھر اپنے جسم کو صاف کیا اب وو میری طرف نہیں دیکھ رہی تھی ایک عجیب سی شرماہٹ تھی اس کےچہرے پے میں نے اسے کہا نیلو کیا بات ہے وو بولی کچنہی میں بولا میری طرف دیکھوں نہ وو اپنے ہاتھ اپنے چہرے پے رکھ کے بولی مجھے شرم آ رہی ہے شارق  میں اس کی اس ادا پے فدا ہو گیا میں نے اب اسے اپنے بازوں میں اٹھا لیا اور بیڈ کی طرف آنے لگے اسے بیڈ پے لٹیا دیا اور  وہ میری طرف پیٹھ کر کے لیٹ گی میں نے پیچھے سے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور اس کی گردن کو چومتے ہوے کہا نیلو تم بہت سیکسی   ہو یار وہ بولی چلو ہٹو اب مجھے بنا رہے ھو میں نے کہا  ہائے  ظالم تم تو بنی بنائی ایک آفت ھو میں کیا بناؤ گا اور اس کے مممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے اس کی سانس تیز ہونے لگی تھی اب وہ بولی شارق پلیز ان کو  چھوڑ دو جب تمہارے ہاتھ ان کو لگتے ہیں میرے اندر ایک کرنٹ سی ڈورنے لگتی ہے میں نے اب اس کے کانوں کی لو کو اپنے ہونٹوں میں پاکر کر چوسنا شروع کر دیا وو اب مچل اٹھی  شا رررر ق وہ  ایک لمبی سانس لے کے بولی مت کرو ایسا میں مر جاؤں گی  میں بنا رکے اس کے مممے بھی دبا رہا تھا اور اسکی گردن پے کبھی گالوں پے  کبھی اس کے ہونٹوں کو چومنے لگتا پھر میں نے اسے سیدھا کیا اور اس کے آئیک مممے کی چوچی پاکر کے چوسنے لگا وو اب سسکاریاں بھر رہی تھی س س س س س ہاہ اف ف ف ف ف  اوئی مےمہ شارق اوہ میرے ش ش ش آ ر ر ر ق میرے اندر آگ لگ گی ہے اب کچھ کرو جانو میں نے اب اپنی ایک انگلی اس کی چوت میں ڈال کر اندر باہر کرنے لگا وو اب فل تڑپ رہی تھی  پھر میں نے اس کے کان میں کہا نیلو تمہاری گاند بہت پیاری ہے میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں اپنے لن سے وہ  بولی شارق یہ بوہت ظالم ہے تمہارا لن اس نے پہلے ہی دیکھ میری چوت کا برا حال کیا ہے  یہ میں ہی جانتی ہوں کیسے میں نے برداشت کیا ہے تمہارے لن کو اپنی چوت میں

میری گانڈ کو تو یہ پھاڑ کے رکھ دے گا جان پلیز آگے سے ہی کر لو نہ میں نے کہا نیلی میرا دل کرتا ہے تمہاری گانڈ میں ڈالوں وہ اب کچھ نہ بولی اور کہا پھر آرام آرام سے کرن میں تم کو اب کیسے منع کر سکتی ہوں تم تو میری جان ھو
پھر میں نے  ایک بار اسکے مموں پر اور پورے جسم پر کسنگ شروع کردی جس سے وہ پھر سے گرم ہونے لگی۔  میں کسنگ کرتے کرتے اسکی چوت تک آیا تو وہاں انگلی ڈال کر اسکو چودنے لگا۔ اسکی چوت کافی گرم تھی۔ مطلب یہ تھا کہ وہ پوری طرح گرم ہوچکی ہے۔ اب میں نے اسکو الٹا کیا اور ڈریسنگ ٹیبل سے جلدی سے لوشن کی بوتل اٹھائی اور اسکے کولہوں پر مساج کرنا شروع کردیا  پھر میں نے اپنے لن  پر بھی مساج کیا اور اسکے کولہوں کو لوشن سے تر کرتے ہوئے اسکی گانڈ پر بھی اچھی طرح سے لوشن لگا دیا۔ اب میرا  لن  لوشن کے مساج سے ایک بار پھر کسی ڈنڈے کی مانند تنا ہوا تھا میں نے  اسکے کولہوں کے درمیان اپنے لن   کو رکھا اور ایک جھٹکا مارا تو وہ پھسلتا ہوا اسکی گانڈ کے سوراخ میں داخل ہوگیا۔ وہ ایک دم تکلیف سے چیخ پڑی اور کہنے لگی پلیز شارق آرام سے کرو ۔ میں نے اس سے کہا جیسے ذرا دیر میں آگے سے تکلیف ختم ہوگئی تھی ایسے ہی یہاں سے بھی تکلیف ختم ہوجائے گی بس پھر انجوائے کرنا میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میں نے لن کو مزید دھکے مار مار کر اسکی گانڈ میں پورا لن   گھسیڑ دیا۔ وہ تکلیف سے بلبلا رہی تھی مگر آنے والی لذت کے انتظار میں تھی کہ کب تکلیف ختم ہو اور کب وہ لذت سے آشنا ہو۔ذرا دیر میں نے  لن کو اسکی گانڈ میں ہی رکھا ۔ ذرا دیر بعد میں نے پوچھا اب تکلیف تو نہیں تو اسکا جواب نہ میں تھا۔ میں یہ سن کر خوش ہوا پھر اس سے کہا چلو اب اٹھو اور جیسا میں کہوں ویسا کرو، یہ کہہ کر میں نے اسکی گانڈ سے لن کو باہر نکالااور پھر بیڈ سے اتر کر کھڑا ہوگیا۔ پھر میں نے اسکو بھی نیچے بلا لیا وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے نیچے اتر آئی پھر میں اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو صوفے کی طرف لے گیا اور کہا صوفے پے  لیٹو ایسے کہ تمہارے کولہے میری جانب ہوں اور ٹانگیں فرش پر اب وہ صوفے  پر پیٹ سے سر تک لیٹی ہوئی تھی جبکہ ٹانگیں نیچے فرش پر تھیں میں نے  لن  کو اسکی گانڈ پر سیٹ کیا اور دھکا مار کرلن  ایک بار پھر سے اسکی گانڈ میں گھسیڑ دیا۔ اسکو ایک زور کا دھکا لگا اور پورا صوفہ ہل گیا  مگر میرا لن  اسکی گانڈ میں راج کررہا تھا۔ اب میں نے اپنی رفتار بڑھائی اور دھکے تیز کردیئے ہر ہر جھٹکے پر اسکو لذت مل رہی تھی اور اسکے بڑے بڑے اور نرم نرم گرم گرم کولہے میرا جوش مزید بڑھا رہے تھی میں نے دونوں ہاتھوں سے اسکے ممے پکڑ لیے اور انکو بری طرح مساج کرنے لگا۔ میں چونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اپنی منی نکال کر فارغ ہوا تھا اس لیے میرے پاس کافی وقت تھا۔میں اسکو دھکے مارتا رہا اور پھر وہ ایکدم سے فارغ ہوئی اور اسکی چوت نے ڈھیر ساری منی اگلی اور اسکی ٹانگیں لڑکھڑا گئیں میں نے اسکو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ لازمی نیچے گر جاتی۔ اس نے کہا  بس کرو میری ٹانگوں میں اب جان نہیں ہے میں کھڑی نہیں رہ سکتی میں نے کہا ہمت کرو تھوڑا اور میں بھی فارغ ہو جاؤں تو پھر واپس بیڈ پر چلتے ہیں۔میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میرالن  ابھی فارغ نہیں ہوا تھا سو وہ مستقل تنا ہوا اسکی گانڈ میں ہی تھا۔ میں نے دوبارہ سے جھٹکے مارنا شروع کردیا۔ اسکی گانڈ پوری طرح کھل چکی تھی اور مسلسل میرے لن  کا ساتھ دے رہی تھی اب میرا لن  بڑی روانی سے اسکی گانڈ میں آ جا رہا تھا۔ پھر وہ لمحہ آیا جب مجھے اسکی گانڈ میں فارغ ہونا تھا میں نے کھڑے کھڑے اسکی گانڈ میں ہی منی اگلنا شروع کردی مگر اسکے ساتھ ہی  بھی فارغ ہوئی اور اسکی چوت سے پھر ایک بار منی نکلنا شروع ہوئی۔ اور وہ ایک بار پھر سے لڑکھڑا گئی اور گرنے ہی لگی تھی کہ میں نے اسکو پھر سنبھالا۔ اب وہ کھڑی رہنے کے قابل نہیں تھی۔ میں نے اپنے لن  کو خالی کر کے اسکو گود میں اٹھایا اور لے کر واپس بیڈ پے لٹا دیا میں سونے سے پہلے فریش جوس پیتا تھا تازہ پھلوں کے اس لئے میرے کمرے میں  جوس اور فروٹس رکھے تھے وہ اسکو بھی دیئے اور خود بھی کھائے وہ بالکل مدہوش ہو رہی تھی اسکو اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ ذرا دیر بعد اسکے حواس بحال ہوئے تو اس نے کچھ کھایا اور جوس پیا پھر میری جانب دیکھا اور کہا تم بہت ظالم ہو مار ڈالا تم نے مجھے میں نے اس سے کہا جو سیکس کا مزہ تم دے رہی ہو اور جس طرح سیکس تم کر رہی ہو ۔تم بڑی سیکسی ہو ۔ میری بات سن کر وہ تھوڑا سا شرمائی اور کہنے لگی مگر تم بہت ظالم ہو تم نے برا حال کردیا میرا۔ میں نے کہا ابھی تو کچھ بھی نہیں کیا جان من ابھی تو رات باقی ہے   ۔ فروٹس کھا کر اسکے بدن میں جان آگئی تھی۔میں اسکو گود میں اٹھا کر باتھ روم میں لے گیا اور کہا

چلو اب مل کر نھاتے  ہیں    نہانے کے دوران ایک بار پھر میں نے اسکی چوت کو اپنی منی سے بھرا اور پھر  ہم دونوں نے ایک ساتھ نہا کر میرے ہی بیڈ ہر ایک ساتھ ننگے ہی لیٹ گ
ۓ پھر میں نے کوئی اس رات چار دفع اور اس کو چودہ  اسکا چود چود کر برا حال کردیا پھر کوئی پانچ بجے کے قریب وہ اپنے روم میں گی اس سے سہی سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا  میں بھی اب دوبارہ سے نہا کے سو گیا
 اگلے دِن میں کچھ لیٹ ہی اٹھا کیوں کے آج میں نے آفس میں نہیں جانا تھا میرا پروگرام کچھ اور تھا میں جب نہا دھوکر کمرے سے باہر آیا تو مجھے تنویر بھابھی  ملی جو جوس کا ایک جگ لئے کچن سے تیزی کے ساتھ باہر آئ تھی میںنے ان سے پوچھا واہ کیا بات ہے بھائی صاحب کی سیوا ہو  رہی ہے وہ بولی وہ تو کب کے اپنے آفس جا چکے ہیں یہ تو نیلوفر کے لئے ہے اسے زوروں کا بخار ہے

میں بھی ان کے ساتھ ہی  نیلوفر کے کمرے کی طرف گیا وہاں پے سب ہی بٹہے تھے لالارخ  اس کے سر پے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی  میں نے کہا کسی ڈاکٹر کو بھی دکھایا کے نہیں تو شفق بھابھی جو نیلی کی چچا زاد بہن تھی وو بولی ہاں دیکھ کے گیا ہے ڈاکٹر بھی اسی نے کہا ہے اسے ٹھنڈا جوس پلاؤ گرمی کی وجہ سے ہوا ہے بخار اس کو اور کمزوری سے  میں سمجھ گیا  رات کو میں نے بہت بار اپنی منی اس کے اندر چھوڑی تھی اسی کی گرمائش تھی  اور وہ خود بھی کوئی پانچ چھہ دفع فارغ ہوئی تھی اسی لئے کمزوری ہو گئی ہے اسے  
پھر کوئی ایک گھنٹے بعد نیلوفر کچھ ٹھیک ہو گی اس نے جب مجھے دیکھا اپنے کمرے میں تو کھل اٹھی اور کہا حضور والی آج آپ آفس نہیں گ
ۓ میں نے کہا میری دوست بیمار تھی اس لئے نہیں گیا  بھابھی شفق نے بتایا کیمین نے اپنے آفس میں کال کر کے کہ دیا ہے آج نہیں آؤں گا یہ سن کے تو وہ  بے انتہا خوش  ہو گی  اب کے وہ بولی آجمیں اور لالارخ نے بازار بھی جانا تھا کچھ لینے کے  لئے میں نے کہا تم ٹھیک ہو جاؤ پھر چلتے ہیں بازار بھی تو فورن لالارخ نے کہا ہاں نیلو آج ذرا ان  کی  پاکٹ  پے حملہ کرتے ہیں کافی لوگوں کو خوں چوسا ہے انھوں نے یہ سن کے سب ہنس دے  سب کو پتہ تھا میری نہیں بنتی لالارخ کے ساتھ میں نے کہا  میں ذرا ناشتہ کر لوں  پھر جب تکمیں نے کھانا کھایا وو دونون  ہی تیار ہو گی تھیں جانے کو  جب ذرا سی دیر کو لالارخ باہر گی میں اکیلا تھا میں نے کہا یار تمہاری طبیت  ٹھیک نہیں ہے نیلوفر نے  مجھے پیار سے دیکھتے ہویے کہا  تم کو اپنے کمرے میں دیکھتے ہی میری روح  تک میں سکون آ گیا ہے  ابمیں بلکل ٹھیک ہوں اور میری طرف آئی  ادھر آدھر دیکھا کسی کو نہ پا کر میرے ہونٹوں کو چوم لیا اور کہا یہ لو آخری  ڈوز بھی لے لی ہے اب میں بلکل ٹھیک ہوں  ابمیں ان کو لے کر بازار گیا وہاں سے ان دونون  کو  جی بہار کے شاپنگ  کروائی  اور واپس گھر چھوڑ کے میں اپنے کام ک لئے نکل پڑھا آج میں نے ڈیڈی سے ان کی   لی تھی جانے کے لئے

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest