SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

سگے رشتوں کی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سگے رشتوں کی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 8 جون، 2023

ساس کا نشہ


ساس کا نشہ

دوستو میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ہماری ٹیچر بھی بہت کیوٹ تھی نیلی آنکھیں موٹے گال رس سے بھرے ھونٹ بڑے ممے مست گانڈ میں جب بھی ٹیچر کو دیکھتا میرا لن کھڑا ھو جاتا میں ٹیچر کو بہت لائن کراتا کبھی کبھی ٹیچر بھی مجھے لائن کراتی تو ایک لڑکی بھی پڑھتی تھی جس کا نام شیزا تھا میں اسے بھی لائن دیتا ایک بار میں پڑھ رہا تھا ٹیچر نے مجھ سے آنے کو کہا میں گیا تو ٹیچر مجھے واش کے گئی اور ڈور لاک کر کے مستی میں مجھے چومتی ھوئی کہا تم نے میری نیندیں حرام کر دی ہیں میرا  لن نکال کر چوپے مارنے لگی بہت دیر تک لگی رہی پھر کہا چھٹی جب ھو تو میرے ساتھ چلنا کل دو دن کی چھٹی ھے میرے ساتھ رہوگے میں اکیلی رہتی ھوں میں نے کہا ہاں  پھر کہا تیرا لن مجھے بہت پسند آیا پھر ھم واش سے آکر پڑھنے لگے پھر چھٹی ھوئی تو میں ٹیچر کے ساتھ ٹیچر کے گھر گیا پھر ھم نے دو دن تک چدائی کی پھر پڑھنے آتا ایک دن چھٹی ھوئی تو شیزا میرے پاس آئی شیزا نے کہا مجھے گھر چھوڑ دوگے میں کے ہاں پھر شیزا بائک پر بیٹھی شیزا نے کہا میں تم سے محبت کرتی ھوں مجھ سے شادی کروگے میں نے ہاں کہا اور شیزا کے گھر پوہنچ گئے شیزا نے کہا اندر چلو میں تم کو اپنی مما سے ملاتی ھوں جب میں نے شیزا کی مما کو دیکھا تو دیکھتا رہا شیزا کی مما تو بہت خوبصورت تھی شیزا کی مما بیوس تھی اور ابھی تک ینگ تھی تو شیزا نے بتایا کے میری مما کی تیرا سال کی عمر میں شادی ھو گئی تھی میں جب دو سال کی تھی تو میرا پاپا مر گیا تھا پھر شیزا نے رات رکنے کو کہا میں تو شیزا کی مما کا عاشق ھو گیا میں رات رکنے کیلئے ہاں کر دی رات بھر میں اور شیزا چدائی کرتے رھے صبح شیزا نگی گہری نید میں سو گئی میں چڈی پہن کر روم سے باہر آیا تو شیزا کی مما کچن میں تھی تو میں نے شیزا کی مما کو باہوں میں بھر کر چومنے لگا شیزا کی مما نے کہا یہ کیا کر رھے ھیں میں نے کہا پلز جب سے تم کو دیکھا ھے تب سے پاگل ھو گیا ھو کہا آپ میری بیٹی کی پسند ھو میں نے کہا آپ مجھے پسند ھو کہا شیزا آٹھ جائے گی لیکن میں نے شیزا کی مما کو باھوں میں اٹھا اس کے روم میں لایا اور مستی میں چومنے لگا پھر شیزا کی مما بھی ہوٹ ھو گئی شیزا کی مما کو نگا کر دیا چومنے لگا منہ کا پیار مموں کو پیار چوت کو پیار کیا پھر جیسے چوت میں لن ڈالا تو شیزا کی مما مستی میں آگئی تین بار شیزا کی مما کو فاریغ کیا پھر شیزا کی مما نے کہا کہیں شیزا دیکھ نہ لے تم کل بھی آنا پھر میں شیزا کے پاس گیا سو رہی تھی میں شیزا کی چدائی کرنے لگا پھر شیزا جاگ گئی پھر چدائی کی اور روم سے باہر آئے شیزا نے کہا یار مجھے کل میں سہلی کے گھر جانا ھے تو کل میں نہیں مل سکتی میں نے سوچا اس لئے شیزا کی مما نے کل آنے کو کہا ھے شیزا نے کہا رات بھی ساتھ رہنا آج سارا دن ھم پیار کرینگے میں ہاں کہنے والا تھا کے ٹیچر کی کال آئی آنے کو کہا میں نے کہا میں آتا ھوں پھر میں نے شیزا سے کہا مجھے تھوڑا سا کام ھے میں آتا ھو ھوں شیزا نے کہا جلدی آنا میں نے کہا جلدی آجاؤں گا پھر ٹیچر کے گھر گیا اور ٹیچر کو تین بار فاریغ کر کے آیا مجھے شیزا نے نہیں دیکھا میں شیزا کی مما کے روم گیا تو وہ نہا رھی تھی میں سند گیا اور نگا ھوکر چومنے لگا شیزا کی مما نے کہا شیزا آجائے گی لیکن میں چدائی کرنے لگا اوپر سے پانی برس رہا تھا نیچے ھم چدائی میں مست تھے پھر شیزا کی مما کو تین بار فاریغ کیا شیزا کی مما کہتی آئیلویو بہت سالوں بعد تم نے مجھے عورت ھونے کا احساس دلایا ھے پھر  میں فاریغ ھوا تو کہا اب تم جاؤ دیکھ کے جانا پھر میں شیزا پر چڑھ گیا خوب چدائی کی شیزا فاریغ ھوئی مجھے چوم کر کہا شادی کے بعد ھم مما کے ساتھ دینگے میں نے کہا ٹھیک ھے پھر شیزا کی مما نے کھانے کیلئے بلایا میں نے شیزا اٹھایا تو شیزا نے کہا مما دیکھے گی میں نے کہا کوئی بات نہیں میں چڈی میں تھا لن کھڑا تھا شیزا کو اٹھائے چومتا ھوا باہر لایا شیزا کی مما دیکھ کر مسکرانے لگی پھر شیزا کو صوفے پر لیٹا کے چڑھ گیا شیزا نے کہا مما دیکھ رھی ھے میں نے کہا دیکھنے دو شیزا کی نیٹی کھول کر مموں کو چومتے ھوئے چوت کی چدائی کرنے لگا شیزا مستی میں آگئی شیزا کی مما ھم کو دیکھ  ہوٹ ھو رھی تھی شیزا فاریغ ھوئی تو کہا چلو کھانا کھاتے ہیں ھم نے کھانا کھایا شیزا نے کہا مجھے لیپٹوپ پر کام کرنا ھے جب تک تم مما سے باتیں کرو میں نے کہا ٹھیک ھے پھر دیکھا شیزا کی مما کچن میں تھی اسے اٹھا کر اس کے روم میں چدائی کے پھر ساری رات شیزا کی چدائی کی شیزا نے کہا مجھے نید آرہی ھے جب شیزا سو گئی تو میں شیزا کی مما کے پاس آیا چدائی کی نو بجے تک چدائی کی پھر جاکر شیزا کے ساتھ سو گیا شیزا کو گاڑی لینے آئی اور چلی گئی میں اور شیزا کی مما سارا دن چدائی کی شیزا کی مما بہت ھوٹ تھی گانڈ کا کہا تو کہا کرلو گانڈ کی چدائی کی پھر شیزا سے شادی کرلی اور شیزا پیٹ سے ھو گئی پھر شیزا کی ڈلوری ھو رہی تھی تو شیزا اور بچہ دونوں کی موت ہوگئی کچھ دن ھم بہت غم سے گزرے پھر میں شیزا کی مما کو مست کیا تو شیزا کی مما مستی میں آگئی خوب چدائی کی شیزا کی مما نے کہا مجھ سے شادی کر لو پھر ھم نے شادی کرلی پھر شیزا کی مما پیٹ سے ھوئی پھر بیٹی پیدا ھوئی پھر پیٹ سے ھوئی بیٹا ھوا پھر پیٹ سے پھر بیٹی پیدا ہوئی کہا بس ایک اور بچہ اس کے بعد بس پھر پیٹ سے ھوئی کہا اب بس پھر شیزا کی مما سبھی بھی جوان ھے مجھے بہت پیار کرتی ھے پھر بچے جوان ھوئے شادی کرا دی بچوں کو الگ شفٹ کر دیا شیزا اب بھی بہت ہوٹ ھے  اور مجھے بہت خوش رکھتی ہے میں تو بھی اسے بہت خوش رکھتا ھوں جب گھر ھوتا ھوں تو چھوزتی نہیں بس چدائی کرتے رہتے ہیں۔

  

میرا بہنوئی گھر داماد

 

 

میرا بہنوئی گھر داماد تھا

 


میرا بہنوئی گھر داماد تھا ایک رات میں دیر سے گھر آیا اور نرگس باجی کے روم سےباجی کی سیکس آوازیں آرھی تھیں میرا دیکھنے کو من کیا لیکن ڈور لاک تھا میں نے الماری سے دوسری چابی لی اور ڈور کا لاک کھول کر دیکھا باجی نگی تھی باجی کا نگا بدن دیکھ کے میرا تو لن کھڑا ھوگیا باجی شوہر کے لن کو چوپے لگا رھی تھی پھر چدائی کرنے لگی اور کچھ ھی دیر میں بہنوئی فاریغ ھوا بہن نے غصے میں آکر شوہر کے گال پر ایک زور دار تھپڑ مار کر کہا جب دیکھو جلدی فاریغ ھو جاتے ھو میں پیاسی رھے جاتی ھوں لگتا ھے مجھے کسی سے دوستی کرنی پڑے گی بہنوئی نے کہا کون کرے گا تم سے دوستی باجی نے کہا کیوں میں جوان اور خوبصورت ھوں جس کو پھساؤں گی وہ منٹو میں پھس جائے گا بہنوئی نے کہا کوئی نہ ملا تو کیا کروگی باجی نے غصے میں کہا اگر کوئی نہ ملا تو باجی نے میرا نام لیا کہا میرا بھائی واصب ھے اس کے ساتھ دوستی کر لونگی بہنوئی نے کہا یہ مشکل ھے تو باجی نے کہا اگر ایسا ھو گیا تو بہنوئی نے کہا اگر ھوا تو جو تم کہوگی میں ویسا کروں گا باجی نے کہا پھر شرط لگاؤ بہنوئی نےکہا کیا شرط لگاؤگی باجی نے کہا ایک دن تم دونوں کے ساتھ اسی روم میں کروں گی بہنوئی نے کہا اگر ایسا نہ ھوا تو باجی نے کہا چلو اب تم شرط بتاؤ بہنوئی نے کہا پھر تم کو میں اسی بیڈ پر میری کزن وینا کے ساتھ چودوں گا کہا میری تو آگ بجھا نہیں سکتے وینا کی بات کرتا حرامی کتا بھڑوا ایک تو میں چوبیس گھنٹے ھوٹ رہتی ھوں نامرد چھکا کمینہ باجی غصہ سے دوسری طرف منہ کر کے سو گئی میرا لن فل کھڑا تھا من کر رہا تھا کے ابھی جاکر باجی کو شرط سے جیتا دوں لیکن ہمت نہ ھوئی پھر میں آپنے روم آیا اور سوچنے لگا کے کیا یہ باجی نے غصے میں کہا ھے یا سچ میں کرے گی پھر سوچا اگر سچ میں کرے گی تو میرے تو مزے ھونگے پر بار بار باجی کا نگا بدن میری آنکھوں میں سمایا ہوا مجھے ھوٹ کر رہا تھا میرا لن فل کھڑا تھا ایک تو باجی کا میں پہلے ھی دیوانہ تھا آج میں نے باجی سے اپنا سنا تو میری نید ھی آڑ گئی ساری رات سوچتا رہا اگر ایسا ھوگا تو میں باجی کے ساتھ ایسا کروں گا ویسا کروں گا کے باجی بہنوئی کو گھاس بھی نہیں ڈالے گی میں نے سوچا اگر بہنوئی کے سامنے کیا تو ایسا نہ ھو ھم کو بدنام نہ کر دے میں نے اپنا پلائن بنایا کے بس کسی طریقے سے باجی کو چودا لو بہنوئی سے تو باجی کی طلاق دلاکر رھوں گا اور باجی کو بس اپنے لیئے ھی رکھوں گا  کیونکہ بہنوئی سے تو میری بچپن سے ھی نہیں بنتی تھی اور میں باجی کی شادی سے خوش نہیں تھا سوچنے سوچنے صبح ھوئی تو میری آنکھ لگ گئی مجھے نید آگئی میں نگا سو گیا اور دوپہر تک سویا رھا پھر جاگ گیا لیکن آنکھیں بند کہیئے نگا لیٹا رہا پھر مجھے مما کی آواز سنائی دی کہا نرگس جاکر واصب کو اٹھاؤ ابھی تک سویا ھے میں جب سنا تو الرٹ ھوگیا نرگس باجی  مجھے اٹھانے آرھی تھی میں نے لن سے چادر ہٹادی میرا تو لن رات سے ابھی بھی فل کھڑا تھا میں سیدھا لیٹا تھا اور معمولی سی آنکھ کھول کر لیٹا ہوا تھا نرگس باجی میرے روم میں آئی اور ڈور فل کھلا ھوا چھوڑ کر آئی جب میرے پاس آئی تو میرے لن پر نرگس باجی کی نظر پڑی پھر جلدی سے جاکر ڈور بند کر کے آئی اور ساتھ بیٹھ کر میرے لن کو دیکھ کر کہا واصب کا لن تو بہت کیوٹ لن کو ہاتھ میں لیا کہا واؤ مجھے پتا ھوتا واصب کا لن اتنا کیوٹ ھے تو میں شادی نہ کرتی بس واصب کے ساتھ زندگی گزارتی پھر ٹوپے کو چوما اور ھونٹوں میں لیا دوبا ٹوپے کو چوپے لگائے پھر لن پر چادر ڈال کر ڈور کھول کر مجھے اٹھانے لگی میں بھی آنکھیں مسلتا ہوا اٹھا کہا ناشتہ کر لو پھر چلی گئی میں بہت خوش ھوا کے نرگس باجی سچ میں کرنا چاہتی ھے اب تو مجھے کہیں سکون نہیں آرھا تھا میں نہچے اور باجی نرگس کو دیکھا نرگس باجی نے نیٹی پہنی ھوئی تھی ھونٹوں سرخی آج تو نرگس باجی مجھے بہت پیاری لگ رھی تھی نرگس باجی مجھے دیکھ کر مسکرائی میں بھی مسکرایا پھر میں ٹیبل کی کرسی پر بیٹھا تو مجھ سے کہا واصب ناشتہ کرو گے یا کھانا کھاؤ گے میں نے نرگس باجی کی آنکھوں میں دیکھتے جو بھی آپ دے دو میں کر لوں گا کہا۔بتاؤ نہ میں نے کہا ناشتہ دے دو پھر نرگس ناشتہ لگانے لگی پھر اچانک نیٹی کی ڈوری کھلی اور نرگس باجی کے بڑے ممیں سے نیٹی یٹی تو دونوں ممیں نگے دیکھے میرا لن کھڑا ھو گیا میں نرگس باجی کو دیکھ دیکھ کے ھوٹ ھو رہا تھا پھر اچانک اپنی چوت کو کھایا فورن ہاتھ ہٹا دیا میں نے سوچا لگتا ھے باجی کی چوت میں آگ لگی ھے اور یہاں میرے لن کو آگ لگی تھی ناشتہ لگایا میں ناشتہ کرتے لگا میرے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگی کہا رات کو دیر سے سوئے تھے جو اتنی دیر سے سو رھے میں نے کہا باجی رات کو نید نہیں آرھی تھی صبح آنکھ لگ گئی باجی نے کہا اس لیئے تم گہری نید میں سو رھے تھے میں بھی کہا ہاں باجی کہا واصب میں تم سے ایک بات کرنا چاہتی ھوں یہ بات صرف ھم دونوں میں رھے میں نے کہا ہاں باجی ٹھیک ھے بتاؤ اور اتنی دیر میں باجی نے مما کو آتے دیکھ کر کہا چلو پھر کسی دن کہوں گی اور مما کی آواز آئی واصب بیٹا رات کو دیر سے سوئے تھے میں نے کہا جی مما رات کو نید نہیں آرھی تھی صبح آنکھ لگ گئی پھر میں ناشتہ کر دوستو کے پاس گیا پھر رات کو گھر آیا باجی پھر نیٹی میں تھی اور کیوٹ سا میکپ کیا ھوا تھا باجی کو دیکھ کے میرا لن کھڑا ھو گیا من کر رھا تھا باجی کے ھونٹ چوم لوں میں نے کہا باجی بھوک لگی ھے کہا بیٹھو میں دیتی ھوں کھانا لگا رھی تھی میں نے دیکھا باجی نے نیٹی کی ڈوری کو تھوڑا کھینچا اور میرے سامنے کھڑی میری پلیٹ میں سالن ڈالتے نیٹی کھلی پھر باجی کے بڑے مموں کا دیدار کیا پھر ڈوری بند کر کے میرے سامنے بیٹھی میں نے کہا باجی آپ نے مجھے سے کوئی بات کرنی تھی کہا تم برا تو نہیں مانوں گے میں نے کہا نہیں باجی آپ بتائیں کہا میں کہنا چاہتی ھوں اور اتنی دیر میں باجی چپ ہوگئی اور بہنوئی آگیا مجھے تو بہنوئی پر بہت آیا کے اس کتے کو بھی ابھی آنا تھا پھر میں اپنے روم میں آکر لیٹ گیا اور میری آنکھ لگ گئی پھر صبح کو چھ بجے میری آنکھ کھل گئی میں نگا لیٹا تھا اور کسی کے آنے کی آواز آئی میں آنکھیں بند کرکے لیٹا رہا سوچا اگر نرگس باجی ھوگی تو آج نہیں چھوڑو گا دیکھا ڈور کھلا تو نرگس باجی تھی اور نیٹی پہنی تھی اور نیٹی میں نگی تھی نہ شلوار نہ چڈی پہنی تھی صرف نیٹی میں تھی میرا لن کھڑا ھو گیا باجی ڈور کو لاک کرکے ساتھ بیٹھ کر چادر ہٹاکر میرے لن کو جیسے اپنے ہاتھ میں لیا تو میں باجی کو باہوں میں بھر کر بیڈ پر لیٹاکر باجی کی چوت میں لن ڈال کر چودتے نیٹی کی ڈوری کھول کر مموں کو زور سے دباتا چومتا سپیڈ سے چدائی کر رھا تھا باجی بھی مستی میں میرا ساتھ دینے لگی باجی کی چوت نے دو بار رس چھوڑ میں پھر بھی لگا رہا کبھی باجی کو گھوڑی بناتا کبھی باجی کو اپنے اوپر کرتا پھر باجی نے رس نکالا لیکں میں تو فل جوش میں تھا اور باجی بھی مستی میں تھی اور مجھے مستی میں چوم چوس رہی تھی اور دس بجنے والے تھے باجی نے کہا مما کے اٹھنے کا ٹائم ھونے والا ھے میں جاتی ھوں میں نے کہا باجی رات کو آؤگی باجی نے کہا ہاں میں آؤں گی اتنی دیر میں باجی فاریغ ھوئی اور کہا مجھے بہت مزہ آیا رات کو ساری رات کریں گے پھر باجی جلدی چلی گئی میں بہت خوش ھوا پھر میں نہانے گیا تیار ھو کے نیچے آیا تو سب ناشتے کرنے بیٹھ رھے تھے میں بھی ناشتہ کر رھا تھا باجی مجھے مست نظروں سے دیکھ رہی تھی میں بھی مستی میں باجی کو دیکھتا پھر میں ایک آفس میں کوہ کیلئے اپنی سیوی دے کر آیا تو دوستو کے ساتھ وقت گزارا اور مجھے دس بج گئے میں آیا باجی نے کھانا دیا اور ساتھ بیٹی میں نے کہا باجی آؤنگی کہا ہاں میں بارا بجے آؤں گی  میں نے کہا ٹھیک ہے میں آپ کا ویٹ کروں گا پھر میں روم گیا پھر بارات بجے باجی فل میکپ میں آئی مجھ سے کہا اب میں کروں گی میں نے کہا ٹیکھ ھے پھر میرے لن کی تعریف کی اور لن کو پیار کرنے میں مست ھو گئی بہت دیر تک لن کو پیار کرتی رہی لن کو اپنے بڑے مموں میں رگڑتی رھی پھر مجھے چوت دیکھائی باجی کی چوت بہت کیوٹ تھی میں باجی کی چوت کو خوب چومتا چوستا رہا پھر چدائی کی باجی تین بار فاریغ ھوئی لیکن میں چدائی کرتا رہا پھر باجی اور میں ایک ساتھ فاریغ ھوئے اور لیٹ کر باتیں کرنے لگے میں نے باجی سے کہا باجی تم شوہر سے طلاق لےلو ھم ذندگی بھر ساتھ رہیں گے باجی نے کہا اس گھر میں رھے تو ھم پکڑے جائیں گے میں نے کہا باجی یہاں رہنے کو کون کہے رھا ھے تو باجی نے کہا پھر کہاں رہیں گے میں نے بتایا کے مجھے جوپ کے ساتھ فلیٹ میں گھر بھی ملنے والا ھے وھاں ھم میاں بیوی بن کر رہیں گے باجی میں آپ کو رانی بناکر رکھوں گا اور آپ کو ہمیشہ خوش رکھوں گا کسی چیز کی کمی نہیں ھونے دوں گا اور آپ کی ہر بات مانوں گا بس تم طلاق لے لو باجی نے کہا مجھے پتا ھے میرا شوہر تمہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ھے اب تو میں بی اس سے تنگ ھو گئی ھوں میں نے کہا کب پلاؤ لوگی کہا تجھے جوب مل جائے پھر میں نے کہا پیلے لےلو جب جوب ملے گی تو پھر تم میرا خیال رکھنے کیلئے مما سے کہنا میں واصب کے ساتھ جاؤں گی باجی نے میری تعریف کی کہا ٹھیک ھے میں کل سے ڈرامہ شروع کروں گی پھر میں اور باجی صبح تک چدائی کرتے رھے باجی جانے کا کہتی میں پھر پکڑ کر چڑھ جاتا پھر دس بج گئے پھر باجی نیچے چلی گئی اور دوسرے دن باجی ایسا کے کے شوہر کے ساتھ جھگڑا کیا کا تم نہ مرد ھو بس مجھے تم سے طلاق لینا ھے دفع ھو جاؤ میرے گھر سے اور گھر سے باہر نکال دیا مما سے رو رو کر کہنے لگی مجھے نامرد کے ساتھ نہیں رہنا مجھے طلاق چاہئیے مما نے کہا ٹھیک ھے تم نہ رو تیرا پاپا آئے گا تو کل طلاق تو کل طلاق ھو جائے گی پھر رات کو پاپا آیا باجی نے رو رو کر کہا پاپا وہ نامرد ھے کبھی بھی مجھے خوش نہیں کر پاتا اور ہمیشہ مجھے بیچ راستے میں چھوڑ دیتا ھے مجھے بس طلاق چاہیئے پاپا نے کہا ٹھیک ھے کل طلاق ھو جائے گی اب تم مت رونا پھر رات کو باجی آئی باجی نے کہا کیوں کیسا رہا میں نے باجی کی تعریف کی پھر ھم نگے ھو کر چدائی کرنے میں مست ھو گئے پھر باجی کی طلاق ھو گئی پھر مجھے کچھ ھی دنوں میں جوب ملی میں نے پہلے باجی کو بتایا چلو اب ھم دونوں مل کے ڈرامہ شروع کرتے ہیں باجی سے کہا پہلے تم مماپاپا کے روم میں جاکر باتیں کرو پھر میں آکر بتاؤں گا باجی مماپاپا کے روم گئی اور باتیں کرنے لگی پھر میں مماپاپا کے روم گیا اور جوب اور فلیٹ میں گھر کا اور سیلری کا بتایا میں نے کہا میرا خیال کون رکھے گا کھانا کون بنائے گا کپڑے کون دھوئے گا گھر کی صفائی کون کرے گا میں اس طرح آفس جا سکوں گا نرگس باجی نے کہا واصب بھائی میں ساتھ چلو میں نے کہا نہیں نہیں تم نہیں مما نے کہا نرگس ٹھیک تو کہے رھے نرگس تیرا آچھے سے خیال رکھے گی پھر پاپا نے بھی کیا میں نے آگر آپ کی کہتے ھو تو ٹھیک ھے پاپا نے کہا کب جانا ھے میں نے کہا کل جانا ھے آفس لیٹر دیکھایا مما نے کہا نرگس وہا کوئی اچھا سا لڑکا دیک کے شادی کر لینا مجھ سے کہا واصب بیٹا اپنی باجی کا ہر وقت خیال رکھنا اور ہمیشہ نرگس کو خوش رکھنا جھگڑا مت کرنا پیار سے رہنا پھر مما نرگس کے ساتھ مل کر نرگس کا سامان کپڑے پیک کئے پھر مما نے کہا نرگس اب چلو واصب کا سامان پیک کرتی ہیں باجی ٹ کہا مما آپ رہنے دو میں اور واصب کر لینگے مما نے کہا ٹھیک ھے میں کھانا بنا لیتی ھوں پھر ھم میرے روم میں آئے میں اور نرگس بہت خوش تھے پہلے چدائی کی نرگس ریلیکس ھوئی تو پھر ھم چومتے سامان پیک کیا پھر کھانا کھا کر ھم دوسرے شہر آئے میں نے باجی سے کہا آج میں تم کو دلہن کے لباس میں پیار کروں باجی سن کر بہت خوش ھوئی پھر ھم نے دلہن کا لباس لیا اور اپنے فلور میں آئے نرگس نے گھر دیکھا ھم کو پسند آیا میں نے نرگس سے کہا تم فرش ھو جاؤ اور چوت کی شیب بھی کر لو پھر میکپ کر کے دلہن بن جاؤ میں جب تک آفس سے ھوکر آتا ھوں مجھے بس ایک گھنٹہ لگے گا اور آفس بھی قریب ھے نرگس نے کہا ایک چدائی کرکے چلے جاؤ میں نے کہا پھر دیر ھو جائے گی جب تک تم تیار ھوگی میں آجاؤں گا باجی نے کہا اچھا ایک منٹ تھوڑا سا پیار تو کر لو ھم نے تھوڑا سا منہ کا پیار کیا نرگس نے لن کو سہلایا میں نے نرگس کے مموں کو پیار  2 یرا بہنوئی گھر داماد تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا اگر ھم لگے تھے تو آفس نہیں جا سکوں گا نرگس باجی نے کہا جلدی آنا میں نے کہا میری جان تیرے تیار ھونے سے پہلے آجاؤں گا پھر میں گھر سے باہر نکلا نرگس نے مین ڈور لاک کیا پھر آج میں بہت خوش تھا نرگس باجی کو پا کے اب میں ساری زندگی نرگس کے ساتھ گزار چاہتا تھا میٹنگ کر گھر آرھا تھا تو پھولوں کی دوکان تھی پھولوں کے کمرے اور کنگن لیئے اور جی بھر پیار کرنا تھا میں نے فون کیا کھولا تو سامنے نرگس دلہن بنی تھی اور بہت خوبصورت لگ رھی تھی میں نے باہوں میں بھر کر ھم نے پیار کیا پھر پھولوں کے گجرے بالوں میں لگاکر پھولوں کے کنگن پہنائے پھر نرگس کو اٹھا کر چومتا ھوا بیڈ پر بیٹھایا اور کہا نرگس باجی پتا ھے میں تم کو بہت پیار کرتا تھا بہت بار تم سے پیار کرنے کو من کر کرتا لیکن ہمت ھی نہ ھوتی نرگس نے کہا پگلے ایک بار ہمت کر کے کہا تو ھوتا میں شادی بھی نہیں کرتی میں نے کہا سوچتا تھا کہیں تم مجھے مار نہ ڈالو نرگس نے کہا سچ تو یہ ھے میں بھی تم سے کرنا چاہتی پر ہمت نہ ھوتی تھی میں سوچتی تھی بس واصب ہاں کردے تو زندگی گزار دوں شادی نہ کروں واصب کے بچے جنوں تیری دلہن بنوں پھر میں نے ہمت کی میری شادی کرا دی پر میں موقعہ کی تلاش میں تھی میں نے نرگس سے کہا باجی ایک میں نے تم کو شوہر کے ساتھ چدائی کرتے دیکھا تھا اس دن جب تم نے مجھ سے کرنے کا شوہر سے کہا تو میں سن کر بہت خوش ھوا اور بھی موقعہ کی تلاش میں تھا اس دن جب تم نے میرا لن دیکھا تو میں جاگ رہا تھا ساری رات میں تیری باتوں کو سوچتا رھا کے شوہر سے غصے میں کہا ھے یا کرنا چاہتی ھے نگا مستی تیرے بارے سوچتا رھا پھر مما نے کہا تم واصب کو اٹھاؤ تو میں چادر سے لن نکال کر لیٹا رھا جب تم نے لن کو ہاتھ میں پکڑا پیار کیا تو مزہ آیا پھر تیرے تم آنے لگی تو سوچا اب نہیں چھوڑوں گا نرگس نے ہمت تو میں نے کی تھی میں کہا لن تو میں دیکھایا کہا پیار تو میں نے کیا تھا میں نے کیا آج پھر ھم ساتھ ہیں ویسے ھم دونوں لکی ہیں ملنے کا وقت آیا تو ملتے گئے میں نے کہا چوت کی سہاگرات تو تم نے شوہر سے کی مجھے کیا دوگی نرگس نے کہا جو مانگو میں نے کہا گانڈ دےدو کہا ٹھیک ھے ھم نے ایک دوسرے کو باہوں میں بھر کر دباتے چومتے مست ھو کر ایک دوسرے کو نگا کیا پھر مستی میں گاند کی سیل کھولی پھر ساری رات ھم نے چدائی کی پھر ھم رات کے چار بجے سو گئے پھر ھم گھر میں نگے رہتے تھے اور بس چدائی میں مست رھے اور وقت گزرنے لگا پھر نرگس کو حمل ھوا نرگس جننے کا کہا میں نے کہا مماپاپا کو پتا چلا تو کہا جو ھوگا دیکھا جائے گا بس تم میرا ساتھ نہ چھوڑنا میں نے ٹھیک ھے میں ساتھ ھوں پھر دن بادن نرگس کا پیٹ بڑھنے لگا میں اور نرگس بہت خوش ھوتے جب بچہ پیٹ میں حرکت کرتا پھر بیٹی ھوئی ھم بہت خوش ھوئے پھر ھم کو مماپاپا بلاتے ھم ٹالتے کے چھٹی نہیں مل رہی اسی طرح چار سال کی بیٹی ھوگئی ایک بار مماپاپا اچانک آگئے اب ہماری چار سال کی بیٹی کو دیکھا جو بہت کیوٹ تھی اسے پیار کیا تعریف کی جب مما نے پوچھا کے یہ کس کی بیٹی ھے تو بیٹی نے ھم سے کہا مماپاپا یہ کون ھے تو ایک ساتھ ھم نے کہا نرگس نے کہا نانا نانی میں نے کہا دادا دادی بس پھر تو مماپاپا ہمیں حقارت سے نظروں سے دیکھنے لگے تو مما نے کہا آؤ بیٹا اپنی گود میں اٹھا کر کہا یہ آپ کے مماپاپا ہیں تو کہا جی پھر ھم سے کہا یہ سچ ھے ھم نے کہا جی یہ سچ ھے پاپا نے کہا یہ تم نے غلت کیا نرگس نے کہا ھم جانتے تھے پر اب ھم پیار کرتے ہیں اور زندگی بھر ساتھ رہیں گے بیٹی ہمارے پیار کی نشانی ھے مما نے کہا یہاں کے لوگ کیا کہیں گے میں نے کہا میاں بیوی سمجھتے ہیں نرگس نے کہا پلز ھم سے رشتہ نہ توڑنا ھم بہت خوش ہیں مما نے کہا جیسے تمہاری مرضی ھم بھی تم کو جدا نہیں کرتے بس پیار سے رہنا پھر مماپاپا نے ھم سے مسکرانے کو کہا ھم مسکرائے پھر کہا نگر آج میں تم دونوں کی پسند کا کھانا بناتی ہوں نرگس نے کہا میں آپ دونوں کی پسند کا کھانا بناتی ھوں پھر دونو کھانا بنانے لگی میں اور پاپا باتیں کرنے لگے ایک مہینہ مماپاپا رھے ھم نے پھر آنے کو کہا تو مما نے نرگس سے کہا جب تم امید سے  ھوگی تو ھم سب آئینگے پھر مماپاپا چلے گئے

 

 

جمعہ، 3 جون، 2022

GET PAID PDF NOVELS FREE(JUST SIGN UP WITH STUDYPOOL AND DOWNLOAD FREE NOVEL)مفت پی ڈی ایف ناول ڈاونلوڈ کریں

 





























شرارتی بہن

فری ڈاون لوڈ


romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels list

urdu bold novels pdf

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

bold romantic urdu novels kitab nagri

hot and bold urdu novels pdf

urdu bold novels amazon

urdu bold novels and stories

بدھ، 1 جون، 2022

وہ مجھ سے بڑی تھی

 


وہ مجھ سے بڑی تھی

یہ واقعہ میرے ابو کے پرانے دوست کی بیٹی میریم کے ساتھ بتائے جانے والے لمحات کے بارے میں ہے میریم کے ابو سرگودھا کے ایک بڑے زمیندار ہیں ان کی دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک کی شادی لندن میں ہوئی ہے جبکہ دوسری لاہور میں ایک پرائیویٹ بنک میں ملازمت کرتی ہے اور آج کل لاہور کے ایک وویمن ہاسٹل میں قیام پذیر ہے یہ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے جب میریم نے ایم اے اکنامکس کے بعد گھروالوں سے ملازمت کے لئے کہا گھر والوں نے کافی سمجھایا کہ ان کے ہاں کون سی چیز کی کمی ہے جو وہ ملازمت کرنا چاہتی ہے لیکن وہ نہ مانی اور ملازمت کی ضد پر اڑی رہی آخر کار اس کے گھر والوں کو اس کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی میریم نے سرگودھا سے ہی کسی بنک میں ملازمت کے لئے آن لائن اپلائی کیا جس پر اس کو انٹرویو کے لئے لاہورکال کیا گیا انٹرویو کے لئے اس کے والد صاحب اس کے ساتھ آئے میریم کے ابو کو معلوم تھا کہ میں لاہور میں رہتا ہوں انہوں نے لاہور میں قیام کے لئے میرے ابو کو کہا کہ وہ مجھے اپنے ہاں ٹھہرنے دن میرے ابو نے مجھے سے بات کی جس پر میں نے ان کو کہا کہ جب مرضی آجائیں یہ آپ کا اپنا گھر ہے جس پر وہ میریم کے ساتھ لاہور آگئے وہ اکتوبر یا نومبر کی بات ہوگی جب میریم اور اس کے ابو اپنی گاڑی پر صبح صبح میرے گھر آگئے مجھے ان کی آمد کے بارے میں میرے ابو نے رات کو ہی آگاہ کردیا تھا میں ان لوگوں کے انتظار میں ہی تھا جب وہ لوگ آگئے میں نے اپنے نوکر کو ان لوگوں کو ناشتہ دینے کے لئے کہا اور خود دفتر چلا گیا شام کو گھر آیا تو ان لوگوں سے بات چیت ہوئی ان لوگوں نے بتایا کہ انٹرویو میں کئی امیدوار تھے اور میریم کو کل پھر آنے کو کہا گیا ہے بات چیت کے دوران میریم نے کم ہی گفتگو کی میں نے بھی میریم سے زیادہ بات چیت کرنے اور فری ہونے کی کوشش نہیں کی ویسے بھی میریم میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ میں اس میں زیادہ انٹرسٹ لیتا وہ ایک عام شکل وصورت کی مالک سانولے رنگ کی لڑکی تھی لیکن اس میں ایک خاص بات اس کو دوسری لڑکیوں سے برتری دیتی تھی اس کا قد قریباً پانچ فٹ آٹھ نو انچ ہوگا وہ کھڑی ہوتی تو اس کا قد میرے برابر معلوم ہوتا میرا قد پانچ فٹ دس انچ ہے اس کے قد کے علاوہ اس میں کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جس کوبیان کیا جاسکے اس کی عمر بائیس تیئس سال کے قریب ہوگی خیر رات کو دس بجے کے قریب میں نے ان لوگوں سے سونے کے لئے اجازت لی اور اپنے کمرے میں آکر سو گیا اگلے روز میں ابھی سویا ہوا تھا کہ وہ لوگ انٹرویو کے لئے نکل گئے میں شام کو دفتر سے آیا تو معلوم ہوا کہ میریم کو سلیکٹ کرلیا گیا ہے اور وہ آئندہ ماہ کی یکم تاریخ سے بنک کو جوائن کررہی ہے میں نے میریم اور اس کے والد صاحب کو مبارکباد دی میریم جاب ملنے کی خوشی میں کافی خوش تھی جبکہ اس کے والد صاحب کو زیادہ خوشی نہیں ہوئی تھی اس رات بات چیت کے دوران میریم کے ابو نے کہا کہ لاہور میں میریم رہائش کہاں رکھے گی تو میں نے ان کو کہا کہ لاہور میں وویمن ہاسٹل کافی زیادہ ہیں جہاں میریم کو آسانی سے رہائش مل سکتی ہے لیکن میریم کے ابو زیادہ مطمیئن نہیں تھے تاہم میری طرف سے تسلی کے بعدانہوں نے میریم کو ہاسٹل میں رہائش کی اجازت دے دی اگلے دو تین روز ان لوگوں نے ہاسٹل میں خالی جگہ ڈھونڈنے کے لئے خرچ کئے اس حوالے سے میں نے بھی ان لوگوں کی کافی مدد کی لیکن کسی اچھے ہاسٹل میں فوری طور پر جگہ نہ مل سکی ہر جگہ سے ناکامی کے بعد میریم کے ابو مایوس ہوگئے اور انہوں نے میریم کو کہا کہ جب تک اس کو کسی اچھے ہاسٹل میں رہنے کے لئے جگہ نہیں مل جاتی وہ جاب جائن نہ کرے لیکن میریم نے کہا کہ وہ اس جاب کو کسی صورت بھی نہیں چھوڑے گی تو اس کے ابو نے کہا کہ تو پھر تم رہو گی کہاں تو اس نے فوری طورپر یہ کہہ دیا کہ جب تک کسی اچھے ہاسٹل میں جگہ نہیں ملتی وہ اسی گھر میں رہ لے گی یہ سن کر مجھے کافی دھچکا لگا کیوں کہ اس کے رہنے سے میری پرائیویسی ختم ہوجاتی لیکن میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ ان لوگوں سے کافی پرانی شناسائی ہے اور میرے انکار پر ان کو افسوس ہوگا اس کے علاوہ مجھے یہ امید تھی کہ میریم کے ابو کسی صورت بھی اس کو ایک جوان لڑکے کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دن گے میری امید کے بالکل عین مطابق میریم کے ابو نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا لیکن اس پر میریم نے کہا کہ ابو کیا ہوا جو میں چند روز اس گھر میں رہ لوں گی اس میں حرج ہی کیا ہے جس پر میریم کے ابو کو ہتھیار ڈالنا پڑے انہوں نے میرے سامنے ہی یہ بات فون پر میرے ابو کے ساتھ کردی جس پر انہوں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے میریم چاہے تو یہاں ساری عمر رہ لے ویسے بھی شاکر اس کا ”بھائی “ ہی تو ہے ہاسٹل کی بجائے اسی گھر میں زیادہ ٹھیک رہے گا ویسے بھی میریم کو کون سا ساری عمر جاب کرنی ہے جو سال چھ مہینے جاب کرنی ہے یہیں رہ لے ان کی اس بات پر میں بہت پریشان ہوگیا لیکن میں اپنے ابو کی بات سے کسی صورت بھی انکار نہیں کرسکتا تھا میں اس بات کی مخالفت میں چاہتے جتنے بھی دلائل دیتا ابو اپنی بات کو کسی صورت بھی رد نہ کرنے دیتے اور مجھے ”نافرمان“ کا خطاب الگ سے مل جاتااس کے علاوہ مجھے ان کی یہ بات ماننا بھی پڑتی سو میں خاموش ہوگیا میریم کی رہائش کا مسئلہ ”حل “ ہونے پر یہ لوگ اگلے روز ہی سرگودھا چلے گئے میریم کو دوہفتے بعد ہی دوبارہ آنا تھا دوہفتے بعد میریم دوبارہ اپنے والد محترم کے ساتھ دوبارہ یہاں آگئی اس کے والد صاحب دو دن لاہور میں میرے گھر ہی رہے اس دوران وہ میری عادات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے کہ ان کی بیٹی کو یہاں کوئی خطرہ تو نہیں اس دوران انہوں نے میریم کو سوزوکی مہران گاڑی خرید کر دی تاکہ وہ دفتر آسانی سے جاسکے اس کو بسوں ویگنوں میں دھکے نہ کھانا پڑیں اس کے بعد وہ واپس سرگودھا چلے گئے واپس جاتے ہوئے انہوں نے مجھے میریم کا خیال رکھنے کی تاکیدبھی کی ان کے جانے کے بعد میں اپنی روٹین پر آگیا میں نے یہ خیال دل سے نکال دیا کہ اس گھر میں میرے علاوہ کوئی جوان لڑکی بھی رہتی ہے لیکن میں نے گھر میں کوئی ایسا کام نہ کرتا جس سے مجھ پر ”بدچلن“ ہونے کا الزام لگ سکتا تھا میریم کی جاب سٹارٹ ہوئی تو وہ جو کپڑے پہنتی تھی اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا لیکن آٹھ دس روز بعد ہی اس کے کپڑے سکڑنا شروع ہوگئے وہ اپنے لئے سرگودھا سے جو کپڑے لائی تھی وہ اس نے بیگ میں رکھ دیئے جبکہ اپنے لئے نئے کپڑے خریدے جس کو وہ پہنتی تو دیکھنے والے کی نظر اس پر ٹھہر جاتی اور خواہ مخواہ شہوت آجاتی میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا لیکن میں نے اس پر کچھ بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں اس کی تبدیلی کا کوئی نوٹس لے رہا ہوں جب کبھی میں دفتر سے جلدی واپس آجاتاتو میریم سے گپ شپ بھی ہوجاتی اکثر اوقات گپ شپ کا موضوع سیاست ہوتا میریم نے یہاں آنے کے بعدپہلے دن سے کھانا پکانے کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جبکہ دوسرے کام بدستور نوکر ہی کرتے تھے میریم نے مجھے اس بات کا بھی پابند کردیا تھا کہ میں کھانا گھر سے کھاں اگر کبھی میں باہر سے کھانا کھاتا تو اس پر وہ باقاعدہ ناراض ہوتی جس پر پہلے پہل مجھے حیرانگی بھی ہوئی لیکن میں خاموش رہا وہ مجھے شروع شروع میں شاکر صاحب کہہ کر بلاتی لیکن آہستہ آہستہ صاحب کا لفظ ختم ہوگیا اور صرف شاکر رہ گیا چند ہی دنوں میں ہم دونوں آپس میں کافی حد تک گھل مل گئے تھے اکثر اوقات میں اس کو ہاسٹل میں جگہ ملنے کے بارے میں پوچھتا تو وہ کہتی کہ تلاش کررہی ہوں جلد مل جائے گی ایک روز میں نے حسب معمول کھانے کے بعد بات چیت کے دوران اس سے پھر ہاسٹل کے بارے میں پوچھا تو اس کے منہ سے خلاف توقع الفاظ سننے کو ملے اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ ایک جوان آدمی کی کیا پرائیویسی ہوتی ہے لیکن آپ اپنی سرگرمیاں ایسے ہی جاری رکھ سکتے ہیں جیسے میں یہاں پر موجود ہی نہیں ہوں آپ کو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں نے اس کو جواب دیا کہ میری پرائیویسی زیادہ یہ بات اہم ہے کہ جوان لڑکا لڑکی ایک گھر میں رہتے ہیں اس پر لوگ باتیں بنائیں گے جس پر اس نے مزید حیرانگی کی بات کی کہ” لوگوں کو کرنے دن باتیں جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“اس کی یہ بات سن کر میں چپ سا ہوگیا اس رات کافی دیر تک باتیں کرتے رہے پھر رات کو گیا رہ بجے کے قریب میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور وہ بھی اپنے لئے مخصوص کمرے میں چلی گئی بیڈ پر جاتے ہی آج پہلی بار میں نے میریم کے بارے میں کسی اور انداز میں سوچا میرے ذہن میں عجیب عجیب سے منصوبے جنم لینے لگے خیر میں نے ان تمام خیالات کو رد کردیا اور سو گیا اگلے روز ہفتہ تھا میں ابھی دفتر میں ہی تھا کہ میریم کا موبائل پر فون آگیا اس نے کہا کہ ممکن ہوتو آج جلدی گھر آجائیں میں نے ایک خاص چیز بنارہی ہوں میں بھی فارغ ہی تھا گھر چلا گیا گھر پہنچا تو میریم گاجر کا حلوہ بنا رہی تھی مجھے نہیں معلوم کہ اسے کس نے بتا دیا کہ مجھے گاجر کا حلو ہ اچھا لگتا ہے اس کے علاوہ ایک اور بات جس نے مجھے حیران کردیا وہ میریم کا لباس تھا آج اس نے میری الماری سے میری بلیک ٹی شرٹ نکال کر پہنی ہوئی تھی لگتا تھا وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی ہے ٹی شرٹ کے نیچے اس کے ممے بتا رہے تھے کہ اس نے برا نہیں پہنا ہوا نیچے میرا ٹرازر اور میرے ہی جوگر پہنے ہوئے تھے میرے گھر پہنچتے ہی اس نے کہا کہ کیسی لگ رہی ہوں میں نے اس سے کہا کہ یہ اچھی بات نہیں کہ کسی کے کپڑے نکال کر پہن لئے جائیں تو کہنے لگی کہ میں کوئی نہیں اب اس گھر کی فرد ہوں اور اس گھر کی ہر چیز پر اس وقت تک میرا بھی حق ہے جب تک میں یہاں قیام پذیر ہوں جس پر میں خاموش ہوگیاخیر شام کو چھ بجے کے قریب ہم دونوں نے کھانا کھایا اور پھر باتیں کرنے لگے اس دوران میریم نے کہا کہ کیا ہم لوگ بور سے ٹاپک پر بات چیت کرتے رہتے ہیں چلو آج شطرنج کھیلتے ہیں میں نے بھی حامی بھر لی میں اچھی خاصی شطرنج کھیل لیتا ہوںاور کافی عرصہ سے کبھی موقع نہیں ملا تھا میری ہاں پر میریم اٹھی اور اپنے کمرے میں گئی جہاں سے شطرنج اٹھا لائی ہم نے بازی لگائی میرے لئے یہ امر حیرانگی کا باعث تھا کہ میریم شطرنج کی اچھی خاصی پلیئر تھی وہ جارحانہ انداز میں کھیل رہی تھی جبکہ میں دفاعی پوزیشن پر تھامیریم جب بھی کوئی چال چلتی اس کے ساتھ ہی ”چیک“ کی آواز لگاتی اور ساتھ ہی بازو اوپر کرکے ہووووووووو کی آواز لگاتی میں کافی دیر تک سوچ کر اس کی چال کا جواب دیتا تو وہ فوراً نئی چال چل کر پھر” چیک“ دیتی‘ خیر میں کوشش کے باوجود اس سے پہلی باری ہار گیا اس کے بعد دوسری بازی شروع ہونے لگی تو کہنے لگی ایسے کھیلنے میں مزہ نہیں آئے گا کوئی شرط لگا کر کھیلتے ہیں میں نے کہا کیا شرط لگانی ہے تو کہنے لگی جو بھی ہارے گا وہ دونوں کے لئے چائے بنائے گا میں نے اس پر ہاں کردی اور بازی شروع ہوگئی اب کی بات مات میریم کا مقدر بنی اورمیں نے میریم سے کہا کہ چلو جلدی سے چائے بنا کر لا وہ منہ بسورتے ہوئے اٹھی کچن میں چلی گئی جاتے ہوئے میں نے آواز لگائی چائے نہیں دودھ پتی بنا لینا وہ خاموشی سے چلی گئی چند لمحوں کے بعد واپس آئی اور کہنے لگی دودھ نہیں ہے میں نے آہستہ آواز میں اس سے کہا کہ گھر کے دودھ کی بنا لو لیکن شائد اس نے سن لیا تھا میری بات سن کر مسکرادی اور کہنے لگی کیا کہا میں نے بات بدلی اور کہا کہ میرا مطلب ہے کہ خشک دودھ کی بنالوتو کہنے لگی کہ خشک دودھ کہاں ہے میں نے اس کو کہا کہ کچن کے فلاں کیبن میں پڑا ہے تو وہ پھر چلی گئی اور چند لمحوں کے بعد پھر آگئی اور کہنے لگی کہ مجھے نہیں ملتا آکر دے دو میں اٹھا اور اس کے ساتھ کچن میں چلا گیا اور اس کو ایک کیبن سے خشک دودھ کا پیکٹ نکال کر دیا اور خود واپس آنے لگا تو اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور کہنے لگی کہ یہیں ٹھہرو میں چائے بنا لیتی ہوں تو اکٹھے چلتے ہیں آج اس نے مجھے پہلی بار ” ٹچ“ کیا تھا خیر میں نے اس کی یہ ”حرکت“ بھی اگنور کردی اور اس کے ساتھ ہی کچن میں کھڑا ہوگیااس کی پیٹھ میری طرف تھی جبکہ میں اس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا اس کے بال ابھی تک گیلے تھے اور کھلے ہوئے تھے جو اس کی گانڈ کے ابھار کو چھو رہے تھے وہ چائے کے لئے کیتلی میں پانی گرم کررہی تھی کہ اچانک مجھ سے گویا ہوئی
شاکر کیا تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے“مجھے اس کی بات سن کر جیسے دھچکا لگا وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھی
ہووووووں“میرے منہ سے صرف یہی لفظ نکل سکا
میں نے پوچھا کہ تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے ؟
نہیں
کیوں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
کیوں نہیں ہوسکتا
تم اتنے ہینڈ سم ہو کوئی بھی لڑکی تمہارے جیسے مرد کے ساتھ دوستی کرنا چاہے گی
کیا تم کرو گی“میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی شکار دیکھ کر تیر چھوڑ دیا ‘ میری بات سن کر اس کو جیسے سانپ سونگ گیا وہ خاموشی ہوگئی
میں نے کیا پوچھا ہے“ میں نے گرم لوہے پر ایک اور پھدی دے ماری اور ساتھ ہی اس کو کندھوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی طرف کرلیا اس کا منہ شرم سے سرخ ہورہا تھا کان بھی سرخ ہورہے تھے اس نے نگاہیں نیچی کررکھی تھی اور ایک ہاتھ کی انگلی سے اپنے چہرے پر آنے والی بالوں کی لٹ کو کانوں کے پیچھے کررہی تھی کہ میں نے اپنا سوال تیسری بار پھر دہرا دیا
ہاں“ اس کے منہ سے آہستہ سی آواز نکلی پہلے وہ نظریں نیچے کئے ہوئے کھڑی تھی اب میری حالت بھی اس کی طرح ہوگئی میں نے فوری طورپر خود کو سنبھالا اور اس سے کہا
چائے“میں نے اس کی توجہ کیتلی میں ابلتے ہوئے پانی کی طرف دلائی اور خود کمرے میں آگیا جہاں ابھی تک شطرنج بچھی ہوئی تھی اس نے ایک بار پھر مجھے ”چیک“ دے دیا تھابلکہ یہ صرف ”چیک“ نہیں تھا بلکہ یہ ”چیک اینڈ میٹ“ تھااب اس کے آگے کوئی چال نہیں چلی جاسکتی تھی اب بہتر تھا کہ اپنے بادشاہ کو خود ہی گرادوں اس کی جیت پر میں ناداں نہیں تھا بلکہ مجھے اس کی جیت پر خوشی محسوس ہونے لگی تھی
چائے حاضر ہے“ اچانک اس کی آواز سے شطرنج پر لگی نظریں ہٹ گئیں میں نے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑا تو وہ میرے سامنے آبیٹھی میں نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر جیت کی خوشی اور اطمیںان عیاں تھا
ہوجائے ایک اور بازی“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
میں نے کھیلنے سے پہلے ہی ہار مان لی“ میں نے جواب دیا
ایک بار پھر سے اپنے دا
پیچ آزما لوشائد کچھ کام بن جائے
نہیں میرا کام ہار کر ہی بن گیا ہے
ہاہاہاہا ہا ہا ہا “اس نے قہقہا لگایا اور چائے کا کپ ایک طرف رکھ کر پھر سے شطرنج کے مہرے سیدھے کرنے لگی
میں اب نہیں کھیلوں گا ابھی پرانی شکست کے زخم ہی نہیں بھرے تم پھر سے شکست دینا چاہتی ہو
کھیلو اور مجھے ہرا کر اپنی شکست کا بدلہ لے لو“اس کی بات سن کر میں نے بھی چائے کا کپ ایک طرف رکھا اور اپنے مہرے سیدھے کرنے لگا
اب کون سی شرط ہوگی“ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
اس شرط پے کھیلوں گی پیا پیار کی بازی جیتوں تو تجھے پا
ں ہاروں تو پیا تیری“اس نے پروین شاکر کا شعر کہہ دیا
میں ہنس دیا اور اس کی چال کا انتظار کرنے لگا اس کی بار بھی فتح اس کا مقدر بنی آخری چال چلتے ہی اس نے پھر سے قہقہا لگایا اور شطرنج کے اوپر سے دونوں ہاتھ میرے گلے میں ڈال کر مجھے اپنی طرف کھینچنے لگی میں بھی کیوں پیچھے رہتا میں نے بھی اس کو اپنی باہوں میں لے لیا اس کے گیلے بال اور اس کے جسم پر لگے باڈی لوشن سے مجھے شہوت آرہی تھی چند منٹ کے بعد اس نے مجھے خود سے علیحدہ کیا اور کہا” شاکر مجھے کبھی دھوکہ مت دینا میرے ساتھ جو بھی سلوک کرو گے منظور ہے تمہاری ہر جائز ناجائز بات کو مانوں گی مگر کبھی کسی کو میرا رقیب مت بنانا“وہ ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر ادا کررہی تھی
میں نے اپنے درمیان سے شطرنج اٹھائی اور اس کو ہونٹوں سے چوم لیا پھر اس سے کہا میریم کبھی ایسا گمان بھی نہ کرنا
اس کے بعد اس نے ایک بار پھر مجھے اپنے گلے لگایا اور پھر مجھے ہونٹوں سے چومنے لگی اس کے بعد کافی دیر تک اس کے ساتھ باتیں ہوتی رہیں اس نے بتایا کہ وہ گا
ں کی زندگی سے تنگ آچکی ہے اس لئے جاب کے بہانے گھر سے یہاں آگئی پہلے روز ہی اس نے مجھے دیکھا تو میں اس کو اچھا لگا اس نے مجھے دکھانے کے لئے ہی اپنے لباس میں تبدیلی کی لیکن میں ٹس سے مس نہ ہوا اور اس پر کوئی توجہ نہ دی لیکن آج شطرنج کی بساط سے سب کام ہوگئے بات چیت کے دوران اس نے بار بار مجھ سے کہا کہ وہ ہر چیز برداشت کرسکتی ہے مگر رقابت برداشت نہیں کرپائے گی اس نے مجھے بتایا کہ اس کی زندگی میں آنے والا میں پہلا مرد ہوں جس کو اس نے اس طرح سے دیکھا ہے کافی دیر تک باتیں کرنے کے بعد اس نے کہا کہ چلو اب سوتے ہیں میں نے اس کو کہا کہ آج وہ میرے کمرے میں ہی سوجائے تو اس نے مجھے ”ٹھینگا“ دکھایا اور اپنے کمرے میں جاکر کنڈی لگا لی میں اپنے کمرے میں آگیا اور سوچنے لگا کہ میریم کو کس طرح ”مطلب پر لایا جائے اس کے ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اگر اس کو میری دوسری ”سرگرمیوں“ کے بارے میں علم ہوگیا تو وہ میرے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ وہ میرے گھر والوں کو بھی جانتی تھی اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خدشہ ہونے لگا کہ اس کے ساتھ شادی ہی نہ کرنی پڑے خیر شادی کے بارے میں میں اتنا پریشان نہیں تھا کیوں کہ میریم میں ایسی کوئی خرابی نہیں تھی جس کو بنیاد بنا کر اس سے شادی سے انکار کیا جاسکے تاہم مجھے اپنی دیگر ”سوشل سرگرمیاں“ جاری رکھنا مشکل لگ رہا تھا خیر میں نے مستقبل کے بارے میں باتوں کو نظرانداز کردیا اور فوری طورپر میریم کے ساتھ سیکس کے لئے سوچنے لگا اس دوران مجھے کب نیند آئی یاد نہیں رات کو تقریباً دو بجے کے قریب مجھے اپنے کمرے میں کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی تو میری آنکھ کھل گئی
وہ مجھے ے ے اصل میں ڈر لگ رہا تھا میں تمہارے کمرے میں آئی اور یہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ٹکراگئی“ میریم پریشانی کے عالم میں زمیں پر پڑے گلدان کی طرف اشارہ کررہی تھی زیرو کے بلب کی روشنی میں میریم کا چہرہ چمک رہا تھا اور وہ پریشانی کے عالم میں عام حالات کی نسبت کتنی زیادہ خوب صورت لگ رہی تھی اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا میں اپنے بستر سے اٹھا اور اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر کہا کہ تم کو ڈر کیوں لگ رہا تھا اگر ایسا تھا تو مجھے آواز دے دیتی
میں نے سوچا آواز دی تو تم جاگ جا
گے اور تمہارے آرام میں خلل پڑے گا اس لئے خاموشی سے آئی اور گلدان نیچے گرنے سے تمہاری آنکھ کھل گئی
میں اس کو پکڑ کر اپنے ساتھ بیڈ پر لے آیا اور دونوں بیڈپر بیٹھ گئے میں نے اس کے گلے میں ایک بازو ڈال لیا اور اس کو اپنے ساتھ لگا لیا اور اس سے پوچھا کہ تم کو ڈر کس بات سے لگ رہا تھا تو کہنے لگی پتا نہیں اور ساتھ ہی میرے ساتھ چمٹ گئی میں نے اس کو ہونٹوں سے کس کیا ام م م م م م م م م م م م م م کیا رسیلے ہونٹ تھے اس نے پہلے خود کو مجھ سے چھڑانے کی کوشش کی مگر پھر میرا ساتھ دینے لگی وہ بلا کی گرم لڑکی تھی میں نے اپنا ایک بازو اس کی گردن میں ڈال رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے مموں کو دبانے لگا جو ایک دم ”ربڑ کی گیند“ کی مانند دبانے پر میری انگلیوں کو پیچھے کی طرف دھکیل رہے تھے اس کے ممے میرے اندازے سے زیادہ ٹائٹ تھے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ کچھ گھنٹے اس کی طرف سے یہ کہنا سچ ہے کہ میں اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہوں اس نے پہلے میرا ہاتھ اپنے مموں سے ہٹانے کی کوشش کی پھر خود کو میرے حوالے کردیا وہ ابھی تک ٹرا
زر اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھی چند منٹ بعد اس نے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا جس پر میں نے اس کو بیڈ کے اوپر لٹا دیا لیکن اس کی ٹانگیں ابھی تک بیڈ کے نیچے ہی تھی میں اس کے اوپر ہی لیٹ گیا اور اس کو کسنگ شروع کردی پھر اس کی شرٹ کو اوپر کردیا
اف ف ف ف ف ف ف تقریباً بتیس سائز کے ایک دم گول ممے جیسے پرکار کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہوایک انچ کا چوتھائی حصہ کے برابر گلابی رنگ کے نپلز میرے ہواس پر بم گرانے لگے میں نے ایک ہاتھ سے ایک ممے کو پکڑا اور دوسرے ممے کے نپل کو منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا
ام م م م م م م “وہ مزے سے منمنانے لگی
میں نے ایک نپل منہ سے نکالا اور دوسرا منہ میں ڈال لیااور اس کو چوسنا شروع کردیا مجھ پر بھی عجیب سا نشہ طاری ہونے لگا تھا وہ بھی مزے سے ساتویں آسمان پر جاچکی تھی اس کے منہ سے نکلنے والی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ام م م م م م م م اف ف ف ف ف ‘ بس س س س س کی آوازوں سے میرے جوش میں مزید اضافہ ہورہا تھا میں چند منٹ تک اس کے نپلز کو چوسنے کے بعد اٹھ کر بیٹھ گیا اس کے ساتھ وہ بھی شرٹ کو نیچے کرتے ہوئے اٹھنے لگی تو میں نے اس کو پھر سے لٹا دیا جس پر اس کے منہ سے شاکرررررررر کا لفظ نکلا تو میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا وہ پھر سے لیٹ گئی میں نے اس کو پکڑ کر پوری طرح بیڈ کے اوپر کیا اور اس کے پا
ں سے چپل اتار کر نیچے پھینک دی اس کے بعد پھر اس کی شرٹ اوپر کر کے اس کے مموں اور نپلز کو چوسا پھر اس کی ٹانگیں سیدھی کرکے ان کے اوپر بیٹھ گیا اور اس کے پیٹ پر آہستہ سے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پھیرنے لگا جیسے اس پر کوئی جادو کررہا ہوں اس کے منہ سے پھر سسکاریاں نکلنے لگیں اور وہ اپنے ٹانگوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر ٹانگوں پر میں بیٹھا ہوا تھا جس پر وہ ان کو اکٹھا نہ کرسکی لیکن بار بار میرے ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کرتی رہی جب میں باز نہ آیا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اس کے منہ سے اب بھی سسکاریاں نکل رہی تھی کچھ دیر بعد اس نے اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور اپنے دانتوں نے نیچے دبا لی پھر میں اس کی ٹانگوں سے اتر کر پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اس کے پیٹ پر اپنی زبان پھیرنے لگا جس پر اس کے منہ سے مزید زور سے سسکاریاں نکلنے لگیں اس نے ابھی بھی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے پھر میں اس کا ٹرازر اتارنے لگا تو وہ پھر سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی شاکر ررر بس میں نے اس کو پھر سے پکڑ کر لٹا دیا اور اس کا ٹرازر اتار دیا پھر اس کو اٹھا یاا ور اس کی ٹی شرٹ بھی اتار دی اس کے بعد اس نے مجھے گلے لگا لیا میں نے اس کو خود سے علیحدہ کیا اور اس کو لٹا دیا اب وہ بالکل ننگی میرے سامنے لیٹی ہوئی تھی اس کا سانولا بدن میرے سامنے تھا جس کو دیکھ کر میرا بھی برا حال ہورہاتھا شلوار کے اندر سے میرے لن کا ابھار دیکھا جاسکتا تھا میںنے اٹھ کر اپنے کپڑے بھی اتارے اور اس کے اوپر لیٹ گیا اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئےے اچانک اس نے میرا منہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر ہٹایا اور کہنے لگی ” شاکر مجھے کبھی دھوکہ نہ دینا“ میں نے پھر سے اس کو اپنی ”وفاداری “ کا یقین دلایا اور اس کے ہونٹ چوسنا شروع کردیا پھر میرے ہونٹ اس کی گردن پر چلے گئے اس کے بعد اس کے مموں پر پھر میں نیچے ہوا اور اس کے پیٹ پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی پھر جیسے ہی میں مزید تھوڑا سا نیچے ہوا اور اس کی ناف پر میری زبان پھرنے لگی وہ مزے کی انتہا کو پہنچ رہی تھی اور دوہری ہورہی تھی اس کے منہ سے پھر نکلا ن ن ن ن نہیں یں میں رکنے کی بجائے مزید تیزی سے اپنی زبان چلانے لگا میرا لن مزید ٹائٹ ہورہاتھا اور اپنے فل سائز پر پہنچ چکا تھا دل کررہا تھا کہ اپنے لن کو اس کی پھدی میں ڈال دوں مگر میں اپنے ساتھ ساتھ میریم کو بھی فل انجوائے کرانا چاہتا تھا اس کے بعد میں نے اپنے زبان میریم کی بالوں سے پاک رانوں پر پھیرنا شروع کردی اب شائد یہ سب کچھ میریم کی برداشت سے باہر ہورہا تھا اس نے اپنی ٹانگیں اکٹھی کرلیں اور مجھے سر سے پکڑ کر اوپر کرلیا اور کہنے لگی اب مزید برداشت نہیں ہورہا میں نے خود کو اس سے چھڑایا اور پھر سے اس کی ٹانگیں سیدھی کرکے ان پر باری باری زبان پھیرنے لگا اس نے مجھے پھر اوپر کیا میں سمجھ گیا کہ اب میریم پوری طرح تیار ہوچکی ہے پھر میں اس کے ٹانگوں کے درمیان میں آگیا اور اس کی ٹانگیں پکڑ کر اپنے کولہوں پر رکھنے لگا کہ اچانک اس کی نظر میرے لن پر پڑی جو لوہے کے کسی راڈ کی طرح سیدھا کھڑا ہوا تھا جس پر اس کے چہرے پر خوف طاری ہوگیا اور کہنے لگی ہائے میرے ربا ااااا یہ اتنا بڑا مجھے تو مار ڈالے گا اس نے پھر سے ٹانگیں اکٹھی کرلیں اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی میں نے اس کو پھر سے لٹا تو اس نے مجھ سے کہا ”شاکر پلیز آج میں مزید کچھ نہیں کرسکتی آج جانے دو یہ سب پھر کبھی “ میں نے اس کی بات ان سنی کردی اور اس کو پھر سے لٹا یا اور اس کی ٹانگیں اکٹھی کر کے پھر سے کولہوں پر رکھیںاس پھدی بالوں سے بالکل پاک تھی لگتا تھا ابھی ابھی بال صاف کئے ہوںاس کی پھدی کافی گیلی ہوچکی تھیمیںنے اس کی پھدی پر ایک بار ہاتھ پھیرا اور پھر اس کی پھدی پر اپنا لن فٹ کرکے اس کے اوپر لیٹ گیا اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کرلیں میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور اس کے دونوں بازوں کو پھیلا کر ان پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے اس کے بعد اس کے ہونٹوں کوچوسنا شروع کردیا جیسے ہی اس کا دھیان کسنگ کی طرف ہوا میں نے ہلکا سا جھٹکا دیا جس پر اس نے سر کو دوسری طرف کیا اور کہا شاکر مجھے بہت پین ہورہی ہے پلیز مجھے چھوڑ دو میں نے پھر سے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور اپنی فل طاقت سے اس کی پھدی میں اپنا لن دھکیل دیا جس کے ساتھ ہی اس کے ناک سے اووووووووں کی آواز نکلی اور اس کی آنکھیں جیسے پھٹنے لگی ہوں اور ساتھ ہی دونوں آنکھوں سے آنسو نکل آئے میرا آدھے سے کچھ کم لن اس کی پھدی میں جاچکا تھا میں نے اس کے ہونٹوں کو نہ چھوڑا اور اس کی کسنگ کرتا رہا تاہم اس کی پھدی میں لن کو حرکت نہ دی چند لمحے تک اسی طرح اس کے اوپر لیٹا ہوا کسنگ کرتا رہا وہ بار بار اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی رہی لیکن میں نے ان کو سختی سے پکڑے رکھا چند منٹ تک کسنگ کے بعد اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے تو اس کے منہ سے تکلیف کے مارے ایک چیخ نکل گئی اور ساتھ ہی وہ رونے لگی اس کے ساتھ ہی اس نے کہا شاکر میں آج زندہ نہیں بچوں گی مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے پلیز بس کرو میں نے پھر اس کو کسنگ شروع کی اور چند لمحے بعد ایک اور زور دار جھٹکا دیا اب کی بار پھر اس کی آنکھیں ایسے کھل گئیں جیسے ابھی پھٹ جائیں گی اور ساتھ پھر سے آنسو جاری ہوگئے اب دیا جانے والا جھٹکا اپنا کام دکھا گیا تھا اور میرا لن جڑ تک اس کی پھدی میں چلا گیا تھا میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے ہٹائے تو وہ چیخنے لگی شاکر پلیز اس کو نکالو میں مرجاں گی ہائے ئے ئے ئے ئے ئے ئے اف ف ف امی جی جی ی ی ی ی میں مر گئی چیخوں کے ساتھ ہی اس نے اپنا سر ادھر ادھر پٹخنا شروع کردیا میں نے اس کے سر کو پکڑا اور پھر کسنگ کرنے لگا لیکن اس نے پھر اپنا سر چھڑا کر سر پٹخنا شروع کردیا میں نے اس کو کہا کہ میریم ذرہ حوصلہ کرو ابھی ساری تکلیف دور ہوجائے گی لیکن اس کی چیخوں میں مزید تیزی آگئی اس کا جسم ٹھندا ہوگیا اور وہ کانپنے لگی لیکن میں نے اپنا لن اس کی پھدی سے نہ نکالا اور اس کے اوپر ہی اس کو حرکت دیئے بغیر ہی لیٹا رہا اس نے خود کو میرے نیچے سے نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن ناکام رہی پھر چند منٹ بعد اس کی تکلیف میں کچھ حد تک کمی ہوگئی اور اس نے مجھے کمر سے پکڑ لیا پھر میں نے اس کو دوبارہ کسنگ کی اور اس سے پوچھا کہ تکلیف ختم ہوئی کہ نہیں تو اس نے ناں میں سرہلایا اور پھر کہنے لگی کچھ کم ہوئی ہے پھر میں اس کے اوپر سے اٹھا اور اپنے لن کو آہستہ آہستہ سے اس کی پھدی میں حرکت دینا شروع کی وہ پھر سے چلا اٹھی شاکر آرام سے ہائے میں مر گئی ہائے امی جی ی ی ی ی آرام اس اس س ام اف ف ف ف ف میں آہستہ آہستہ سے اس کی پھدی میں اپنے لن کو اندر باہر کرتا گیا کچھ دیر بعد اس کی آواز سے درد کا عنصر کم اور مزے کا زیادہ ہونے لگا اس پر میں نے اپنی سپیڈ تھوڑی سی بڑھائی تو وہ پھر سے چلانے لگی جس پر میں نے سپیڈ پھر سے کم کردی اب وہ میرا پوری طرح ساتھ دے رہی تھی لیکن جیسے ہی میں سپیڈ پکڑنے لگتا وہ چلانے لگتی جس پر میں آہستہ آہستہ لگا رہا تقریباً پانچ منٹ کے بعد اس نے مضبوطی سے میری کمر کو پکڑ لیا اور اس کا جسم اکڑنے لگا پھر اس کا جسم جھٹکے لینے لگا اور وہ فارغ ہوگئی اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ناخن میری کمر پر گاڑ دیئے جس سے تکلیف کے باعث میرے ہونٹوں سے بھی تکلیف کے مارے ایک ہلکی سی آہ نکل گئی لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا مزید چند منٹ کے بعد وہ پھر سے چھوٹ گئی اور چند منٹ کے بعد میں بھی چھوٹ گیا میں نے اپنی ساری منی اس کی پھدی میں ہی ڈال دی اور فارغ ہوتے ہی اس کے اوپر ہی لیٹ گیا کمرے میں ہیٹر لگا ہوا تھا اور چند منٹ پہلے ہم دونوں کے جسم تپ رہے تھے لیکن اس وقت دونوں کے جسم ٹھنڈے ہوچکے تھے اس کا جسم برف کی مانند تھا میں نے اس کے اوپر لیٹے لیٹے پاس پڑا کمبل اوپر لیامیرا لن ابھی تک سختی میں تھا اور اس کی پھدی کے اندر ہی تھا ہم دونوں لمبے لمبے سانس لے رہے تھے چند منٹ اس کے اوپر ہی لیٹا رہا پھر میرا لن اس کی پھدی میں ہی اپنی سختی کھوتا گیا اور سکڑ کر خود ہی باہر نکل گیا میں اس کے اوپر سے ہٹا اور اس کے ساتھ لیٹ گیا میں نے اپنا ایک بازو اس کی گردن کے نیچے کرکے اس کی گردن اپنے کندھے پر رکھ لی وہ بے سدھ ہوچکی تھی اس کی گردن جیسے لڑک رہی ہو وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی میں نے اس کے گالوں کو تھپتھپایا لیکن وہ بدستور آنکھیں بند کئے لیٹی رہی اس کا جسم ابھی تک ٹھنڈا تھا میں خیر میں نے اس کو ہلانا بند کیا اور لیٹ گیا گھڑی پر نظر پڑی تو صبح کے چار بج رہے تھے گویا ہم لوگ قریباً دو گھنٹے تک پیار پیار کھیلتے رہے پھر میری آنکھ لگ گئی ہم دونوں ایک ہی کمبل میں ننگے سو گئے میری آنکھ کھلی تو دوپہر کے گیارہ بج رہے تھے میریم ابھی تک سو رہی تھی لیکن اب اس کے جسم کا درجہ حرارت نارمل تھا میں نے اس کے گالوں کو تھپتھپایا تو ہوووں ہووووں کے کرکے اس نے اپنی آنکھیں کھول دن میں نے اس سے کہا اب کیا حال ہے تو اس نے مجھے اپنی باہوں میں بھینچ لیا میں نے اس کو کہا کہ اب اٹھو گیارہ بج رہے ہیں میں بازار سے ناشتہ لے کر آتا ہوں میں نے خود سے کمبل ہٹایا اور باتھ روم میں چلا گیا میں نے دیکھا کہ اس کی پھدی سے نکلنے والے خون سے میرا لن بھی سرخ ہوا تھا میں نے اس کو اچھی طرح سے دھویا اور پھر غسل کرکے تولیہ لپیٹ کر باہر آگیا جہاں میں نے شلوار قمیص پہنی اور اس کو اٹھنے کے لئے کہا اس نے بھی کمبل اوپر سے ہٹایا اور کھڑی ہوگئی اور کھڑی ہوتے ہی لڑکھڑا گئی میں نے اس کو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ گر جاتی اس نے مجھے کہا کہ مجھے ابھی تک درد ہورہا ہے میں نے اس تسلی دی کہ تھوڑی دیر میں درد ختم ہوجائے گا پھر اس کو پکڑ کر باتھ روم میں چھوڑ کر آیا تو دیکھا کہ میرے بیڈ کی چادر خون سے پوری طر ح سرخ ہوچکی تھی میں نے چادر اکٹھی کرکے ایک طرف رکھی تو بیڈ کے میٹرس پر بھی خون کے داغ تھے کچھ دیر کے بعد باتھ روم سے میریم نے آواز دی کہ کپڑے پکڑا دو میں نے اس کو کپڑے دیئے تو وہ پہن کر باہر آگئی میں نے کہا کہ ناشتہ لے کر آتا ہوں تو کہنے لگی ابھی صرف چائے دوپہر میں کچھ کھائیں گے پھر ہم دونوں نے کچن میں جاکر پھر مخشک دودھ کی چائے بنائی اور پی ساتھ میں کچھ بسکٹس لئے میریم نے کہا کہ اسے ابھی تک تکلیف ہورہی ہے جس پر میں نے اس کو ایک پین کلر دی جس پر اس کو کچھ دیر بعد آرام آگیا اتوار کی چھٹی تھی ہم دونوں گاڑی پر لانگ

ڈرائیو پر نکل گئے اس رات پھر میرا سیکس کا ارادہ تھا لیکن میریم نے کہا کہ ابھی بھی وہ پین فیل کررہی ہے جس پر میں نے کچھ نہ کیا لیکن ہلکی پلکی کسنگ ضرور کی اس کے بعد تقریباً تین ہفتے تک روزانہ سیکس کرتے رہے اس دوران میریم نے ہاسٹل کی تلاش بھی روک دی اور اپنے گھروالوں کو بتایاکہ وہ اس کی تلاش میں ہے جیسے ہی کوئی اچھا ہاسٹل ملا وہ یہاں سے شفٹ ہوجائے گی پھر میریم نے ایک روز مجھے بتایا کہ اس کو میںسز نہیں ہوئے تو میں نے اس کو پریگنینسی سٹک لاکر دی جس پر ہمیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے پھر ہم لوگ ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس بھی گئے جس نے ہمیں مبارک باد دی کہ ہم لوگ ماں باپ بننے والے ہیں جس پر ہم دونوں کافی گھبرائے میں نے میریم کو کہا کہ وہ حمل گروا دے لیکن وہ نہ مانی جس پر ہم دونوں نے گھروالوں سے چوری نکاح کرلیا اور پھر گھر والوں کو بتادیا پہلے دونوں اطراف سے انکار کیا گیا لیکن بعد میں مجبوراً دونوں مان گئے ہماری شادی تقریباً تین ماہ تک بہت بہترین چلتی رہی اور اس دوران میں بھی اپنی دوسری ”سرگرمیوں“ سے باز رہا لیکن پھر ایک روز میریم کو میرے موبائل میں موجود مختلف لڑکیوں کے ایس ایم ایس سے میری کرتوتوں کا علم ہوگیا جس پر اس نے مجھ سے بہت لڑائی کی میں نے اس کو جھوٹ بول کر بہت منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانی اور اس نے ایک روز کسی لیڈی ڈاکٹر سے جاکر اپنا حمل گروا دیا اس کے بعد اس نے مجھ سے طلاق لے لی اس کے بعد اس نے اپنی رہائش ایک سرکاری ہاسٹل میں رکھ لی اور اس وقت سے ابھی تک شادی نہیں کی ہمارے درمیان طلاق کے باعث دونوں خاندانوں کے درمیان کئی سالوں سے قائم تعلقات بھی ختم ہوچکے ہیں میں ابھی تک میریم کو نہیں بھلا سکا کئی بار میں نے اس کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے رابطہ نہیں کیا میں اس کے ساتھ بتائے جانے والے ایک ایک لمحے کو ابھی تک یاد کرتا ہوں اور اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میریم کے ساتھ سیکس کرنے اور وقت گزارنے کا جو مجھے مزہ ملا ہے میں درجنوں لڑکیوں کے ساتھ سیکس 

کرچکا ہوں مجھے وہ مزہ نہیں مل سکا اور نہ ہی اطمینان ہوسکا ہے

ختم شُد

tabasam tabish novels

tabassum tabish novels fb

tabassum tabish novels

tabassum tabish novels pdf free download

tabasam tabish novels and stories

tabasam tabish novels all

tabasam tabish novels and books

tabassum tabish novels about the mafia

tabassum tabish novels are there

tabasam tabish novels book

tabassum tabish novels best

tabassum tabish novels books

tabassum tabish novels pdf download

tabasam tabish novels in urdu

جگاڑ لگ گیا



 

جگاڑ لگ گیا
بات کچھ سال پہلے کی ہے جب میں 18 سال کا تھا اور بارویں میں پڑھتا تھا۔
ایک بار میں اپنے کچھ دور پار کے رشتہ داروں کی شادی پر کراچی گیا۔ میں چونکہ بہت کم جاتا ہوں اسی لئے زیادہ لوگوں کو جانتا نہیں تھا۔
خیر شادی والے گھر میں پہنچ کر پتہ چلا کہ شادی بالکل ساتھ والے گھر میں ہو رہی ہے اور تقریبا” سارے مہمان کامن ہیں۔ دولہا اور دلہن آپس میں کزن ہیں۔ جبکہ دولہا میرا بھی کزن تھا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ کافی افراتفری مچی ہوئی ہے اور لوگ آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ یعنی وہی سین جو عام طور پر شادیوں میں ہوتا ہے۔
میں کچھ دیر تو ادھر ادھر وقت ضائع کرتا رہا پھر اٹھ کر فضول میں گھومنے لگا۔ میری یہ حالت دیکھ کر ایک آنٹی جو پتہ نہیں میری کیا لگتی تھیں کو رحم آ گیا۔
انھوں نے ایک مجھے لڑکی والوں کے گھر بھیج دیا کہ وہاں میرے کافی ہم عمر تھے۔
یہاں آ کر لگا کہ جنت میں آ گیا ہوں کہ جہاں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں بکھری ہوئی ہیں۔
کوئی ڈانس پریکٹیس کر رہی ہے تو کوئی کپڑے استری کوئی سامان پیک کر رہی ہے تو کوئی میک اپ۔کوئی نہا رہی ہے تو کپڑےٹرائی کر رہی ہے۔ غرض بہار ہی بہار تھی۔
دلہن کو دیکھا تو اپنی قسمت پہ رونا آیا مگر پھر دل نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں
"چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں"
یہاں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ مجھے اپنی خوش قسمتی اور پرسنالٹی پر فخر ہوا، جو جلد ہی ختم ہوا کیونکہ یہ سب لڑکیاں کسی لڑکے کو ترس رہی تھیں۔
مجھ سے پوچھا کہ موٹر سائیکل چلا لیتے ہو؟
میں نے فخر سے کہا: ایسا ویسا پورے لاہور میں مجھ سے اچھا بائیکر پیدا نہیں ہوا۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ بڑے بول فورا” سزا پاتے ہیں۔ میرا ٹیسٹ ایسے لیا گیا کہ شام تک گانڈ بائیک سے علیحدہ نہیں ہوئی۔
گھر سے بازار تک کا راستہ اس اتنی بار دیکھا کہ ھاتھ کی لکیروں کی طرح یاد ہو گیا۔
شام تک لڑکیوں نے میری وہ حالت کی جو ریپ کے بعد ہوتی ہے۔ میں بیٹھنے تو کیا لیٹنے کے قابل نہ رہا۔
آخر کار ایک بزرگ خاتون کو مجھ پر ترس آیا اور انھوں نے مجھے چند لڑکیوں کے ساتھ دولہا دولہن کا کمرا سجانے بھیجا۔ چند خود کو بہت سمارٹ سمجھنے والی لڑکیاں میرے ساتھ آئی اور مجھے حکم دینے لگیں ۔ میں پھولوں کی لڑیاں لگانے لگا۔
اتنے میں شور مچ گیا کہ تیار ہو جاؤ مہندی کی رسم کے لئے۔
لڑکیاں وہاں سے غائب ہونے لگیں تو میں نے شور مچا دیا۔ آخر کار میں یہ مزدوری جن کی قربت کے لئے کر رہا تھا وہی اڑن چھو ہو رہی تھیں۔
میرے شور مچانے پر انھوں نے ایک لڑکی جو ان کی کتاب میں بچی تھی میرے پاس چھوڑی اور دلہن کے گھربھاگ گئیں۔
بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی صحیح
یہ سوچ کہ میں نے اس بچی کا آنکھوں سے پوسٹ مارٹم کیا۔
پہلے تو اسے بچی سمجھنے والوں کی عقل اور آنکھوں پر شک کیا۔
اس کی عمر 15-16 سال تھی دبلی پتلی، سانولا رنگ، شادی کی مناسبت سے شوخ بلکہ کسی قدر سیکسی ٹراؤزر اور شرٹ میں تھی۔ جو چیز سب سے خاص تھی اس میں وہ تھا اس کا چہرا جو کسی طرح بھی اس کو اس کی عمر کے مطابق ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
اس کے چہرے پر بھی معصومیت نہیں تھی۔


میں نے اس سے نام ارو کلاس وغیرہ پوچھا۔
میرا نام سارا ہے۔ میں نائیتھ میں پڑھتی ہوں۔” وہ ذرا شرما کے بولی۔
"سارا میں فیصل ہوں اور سیکنڈ ائیر میں پڑھتا ہوں" میں بولا۔


"سارا میرا خیال ہے کہ اب بس کی جائے کیونکہ میں بہت تھک گیا ہوں۔"
وہ بولی: "نہیں باجی نے مجھ سےکہا ہے لگوا کے آنا۔"
میں نے کہا: میرا کیا قصور ہے مزے کوئی لے گا کریڈٹ وہ تھماری باجیاں اور محنت میری لگ رہی ہے۔
وہ ہنس دی: "لگانا تو پڑے گا۔"
میں نے کہا :" اور تمھیں کیوں چھوڑ گئیں ہیں یہاں میری نگرانی کے لئے۔"
"نہیں اس لئے کہ کوئی کام ہو تو کروا لوں مگر ہو وہ جو لڑکیوں کے کرنے والا ہو"۔وہ شوخ ہو کر بولی۔
میں نے کہا: کوئی نہیں ابھی تمھیں لڑکیوں کے کرنے والا کام کہوں گا اور تم مکر جاؤ گی۔
وہ بولی: بالکل نہیں پرامس میں نہیں مکروں گی۔
مجھے لگا کہ جیسا اچانک ایک مچھلی خود ہی کانٹے میں آ گئی ہے۔ اب میں نے اسے اسی نیت سے دیکھا اور اسے ہر لحاظ سے چودنے کے قابل پایا۔
میں نے اب سوچ کے جواب دیا:چلو یہ بھی ٹرائی لیتے ہیں مگر یاد رکھنا اگر مکر گئی تو میں سمجھوں گا کہ تم میں وہ دم نہیں اور تم لڑکی ہی نہیں۔
اب میں نے اسے کہا کہ دروازہ بند کر دو اور یہاں میرے قریب آ جاؤ۔ میں کام بھی کرتا رہا اور اس سے باتیں بھی۔
میں نے اس سے پوچھا : سارا پتہ نہیں لوگ یہ سیج کیوں سجاتے ہیں ہوتا تو بس سونا ہی ہے نا؟
وہ بولی: نہیں یہ یادگار رات ہوتی ہے زندگی بھر یاد رہتی ہے۔
اس میں یادگار والی کیا بات ہوتی ہے؟
وہ ذرا کنفیوز ہو کر بولی : بس ایسے ہی۔
الٹا یہ رات تو تکلیف دے سکتی ہے۔
وہ بولی: کیسے
میں نے کہا: ارے بھئی سردی لگ سکتی ہے پھولوں سے دلہن کو کوئی کانٹا چب سکتا ہے۔
وہ بولی: کانٹا کیسے چبے سکتا ہے یہاں ایسا تو کوئی کانٹا نہیں۔
میں بولا: ڈئیر جب کپڑے بہنے بغیر ان پھولوں پر سونا ہو تو سردی اور کانٹا دونوں ہو سکتے ہیں۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ میں اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا یہ وہ حالت تھی کہ وہ سوچ رہی تھی کہ اس موضوع کو آگے چلاؤں یا نہیں کیوں کہ نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
میں پوچھا: کیا ہوا کیا تمھیں نہیں پتہ تھا کہ سہاگ رات میں کیا ہوتا ہے؟
وہ آہستہ سے بولی: نہیں۔
مجھے اپنی کامیابی صاف نظر آگئی۔ اس کا نہ جانا اور اس کو ختم نہ کرنا مجھے سب بتا گیا تھا۔
سوری یار! مجھے نہیں معلوم تھا کہ تھمیں نہیں پتہ۔ بس بات ذرا ایسی ہے کہ لڑکیوں کو تو پتہ ہونا چائیے۔ مگر جب وہ بڑی ہو جائیں۔ کچھ عرصے بعد تمھیں کوئی نہ کوئی بتا ہی دے گا۔ میں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کہیں تمھیں برا نہ لگ جائے۔
وہ خاموش رہی۔
میں نے اگلا وار کیا: اگر تم وعدہ کرو کہ کسی کو میرا نہیں بتاؤ گی تو میں بتاتا ہوں۔
وہ کچھ نہ بولی مگر اٹھ کر بھی نہ گئی۔ اب میری ھمت فل بڑھ گئی۔
میں نے کہا: سارا تمھیں پیریڈز ہوتے ہیں نا؟
وہ بری طرح چونک گئی جیسے اس سوال کی امید نہ ہو۔ اس نے سر چھکا لیا۔


میں آہستہ سے بولا: اس جگہ کے اندر لڑکا اپنا یہ (میں نے پینٹ کے اوپر سے ھاتھ لگایا) ڈالتے ہیں۔۔لڑکی کے اوپر لیٹ کر اندر باہر کرتے ہیں پھر اس سے مزا لیتے ہیں۔
وہ سر جھکا کے زمیں دیکھتی رہی اور بولی: میں ابھی آتی ہوں۔
یہاں میں پریشان ہو گیا۔ اگر وہ نہ آئی تو گیم گئی۔
وہ واپس آ گئی تو اس طرح بیٹھ گئی۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں جن میں بعض ایسے فلمی سین جس میں سیکس تھا وہ اور ایسی دوسری باتیں کرنے لگا۔
اب وہ بھی مجھ سے اس متعلق کچھ کچھ پوچھنے لگی جیسے درد تو نہیں ہوتا۔ یہ کتنا لمبا ہوتا ہے وغیرہ۔
اتنے میں لائٹ چلی گئی۔ میں اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے جسم پر ھاتھ رکھا تو وہ ذرا ذرا کانپ رہا تھا۔
"یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟"
میں بولا: وہ جو لڑکی ہی کروا سکتی ہے۔
وہ بولی: کوئی آ جائے گا۔ اور اٹھ کر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد ایک آنٹی نے مجھے کہا کہ باہر آ جاؤ اند کیا کر رہے ہو۔ میں کہا کہ اسی بہانے ذرا آرام کر لیتا ہوں۔ آپ بس ذرا ایک کب چائے بھجوا دن۔
دس منٹ بعد وہ چائے لیکر آئی۔ میں نے چائے لے لی اور کہا: سارا یہاں میرے پاس آ جاؤ۔
وہ بولی: نہیں کوئی آ جائے گا۔ سب باہر ہی ہیں۔
میں نے کہا: میں انتظار کر رہا ہوں تم آؤ ذرا دیکھ بھال کے ،یہاں اندھیرا ہے کوئی نہیں آئے گا۔
وہ چلی گئی اور 5 منٹ بعد یہ آ گئی۔ دروازہ اندر سے بند کر بیڈ کے قریب آ گئی۔
میں نے اسے بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔وہ ذرا سا کسمسائی مگر کچھ ارو نہیں کیا۔
میں نے سیدھا اپنا ھاتھ اس کی کنٹ پر رکھ دیا جو حسب توقع گیلی تھی۔
میں نے اپنا ھاتھ اس کے ٹراؤزر کے اندر ڈال دیا
اس کی کنٹ کے دونوں ہونٹوں کو رگڑنے لگا۔
اس نے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر ہٹایا نہیں۔میں اس کے چہرے کو چومتا بھی رہا اور اس کی کنٹ مسلتا بھی رہا۔
اتنے میں کوئی کھٹکا ہوا اور ہم دونوں چونک کر علیحدہ ہوگئے۔ وہ فورا" بیڈ کے دوسری طرف کارپٹ پر لیٹ گئی۔ اس کی امی اندر آئی اور پوچھا:بیٹا سارا تو یہاں نہیں ہے؟
میں نے کہا: نہیں آنٹی وہ تو چائے دے کر چلی گئی شاید وہاں دلہن کے گھر گئی ہو۔
وہ بولیں؛ بیٹا ذرا بلا آؤ اس نے کپڑےبھی پہننے ہیں۔
ان کے جانے کے بعد وہ بھی جلدی میں باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر میں لائٹ بھی آ گئی۔ مہندی کی رسم شروع ہو گئی۔ سب عورتیں لڑکی والوں کے گھر چلی گئی۔
یہاں آنٹی نے مجھے کہا کہ میں سیج تیار کروں میرا کھانا وہ بھجوا دن گی۔
میں اکیلا کام میں جت گیا۔
سارا میرا کھانا لے کر آئی۔
میں نے اسے کہا کہ وہ نظربچا کے آ جائے مگر وہ نہ مانی۔
آخر ایک بجے جب میں پوری طرح مایوس ہو چکا تھا وہ آ گئی۔اس کے ساتھ اس بہن اور بھائی بھی تھے۔ وہ انہیں نیچے ایک کمرے میں سلا کر میرے پاس آ گئی۔
تقریب اپنے پورے عروج پر تھی مرد باہر قناتوں میں تھے اور عورتیں اندر گھر میں۔ میرے پاس ٹائم کی کمی نہیں تھی کم از کم 2 گھنٹے تھے پھر بھی کوئی بھی آ سکتا تھا۔
آخر میں نے حل یہ نکالا کہ کھڑکی کھولی اور باہر نکل کے دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ اندر آ کر لائٹ آف کر دی اور سارا کو لیکے بیڈ کے نیچے لیٹ گیا۔
وہ کافی ڈری ہوئی تھی اور مجھے بہت جلدی تھی اس کی مارنے کی۔
ایک بار میں اس کی سیل کھول لیتا پھر میں بعد میں بھی اس کو تسلی سے چود لیتا۔
میں نے اس کی شلوار اتار دی اور اپنی پینٹ بھی گھٹنوں تک اتار دی۔
اس کی کنٹ بالکل کنواری تھی اور اسی بات کا مجھے ڈر تھا۔
میں نے آرام سے اپنی انگی اس کی کنٹ میں ڈالی۔
تھوڑے سے تردد سے انگی اندر چلی گئی۔ وہ ذرا ذرا سی آہیں بھرنے لگی۔
میں نے اس کی قمیض گردن تک اوپر کر دی اور اسے سیدھا لٹا کے اس اوپر لیٹ گیا۔
میرا وزن اس سے کافی زیادہ تھا مگر وہ پرداشت کر گئی۔ میں نے اپنا لن کنٹ رکھا تو وہ بوبی؛ فیصل درد تو نہیں گا؟
میں نے کہا: ہلکہ سا ہو گا مگر زیادہ نہیں۔
اب میں اپنا لن اس کے اندر دھکیلا وہ چلا اٹھی: پلیز نکالو مجھے درد ہو رہا ہے پلیز بھائی پلیز مجھے درد ہو رہا ہو۔ امی ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز فیصل پلیز۔
مجھ پر اب چودائی سوار تھی۔ میں بجائے نکالنے کے اور اندر ڈالا۔
وہ اب رونے لگی مگر میرے وزن اور بیڈ کے نیچے سے کوئی جائےفرار نہیں تھی۔
وہ اپنا خون دیکھ کر رونے لگی۔ مگر یہ بھی شکر تھا کہ خون کا بیڈ کے نیچے کارپٹ پر تھا۔


دو تین منٹ کے بعد میرا لن آسانی سے جانے لگا اور اس کی مزاحمت بھی کم ہو گئی۔
میں نے اس کی ٹانگیں کھول دی اور ذرا تیزی سے چودنے لگا۔ وہ اور زور سے رونے لگی۔ میں نے اس کے منہ پر ھاتھ رکھ دیا۔
اس کی ٹائٹ کنٹ اور کچھ سیکس پوزیشن کی وجہ سے میں 6-7 منٹ بعد ہی چھوٹ گیا۔
کچھ دیر بعد میں بیڈ کے نیچے سے نکل آیا کوئی 2-3 منٹ بعد وہ بھی آ گئی۔
میں نے اسے چومنا چاہا تو اس نے جھٹک دیا۔
" یہ تھوڑا درد تھا۔ مجھے کتنا درد ہوا ہے معلوم ہے تمھیں۔" میں جا رہی ہوں" ۔
وہ مجھے چھوڑ کر جانے لگی مگر کیسے جاتی دروازہ تو باہر سے بند تھا۔
میں نے اسے روک لیا۔
دیکھو سارا ! میری جان ایسا کرنا پڑتا ہے اگر میں نکال لیتا تو تم کبھی بھی نہ ڈلوا سکتی۔ اب دیکھنا اگلی بار جب ہم ایسا کریں گے تو کتنا مزا آئے گا۔


وہ بھڑک کے بولی: اب میں نہیں کرواؤں گی۔
میں نے کہا: کروانا تو تمھیں کرنا پڑے گا ورنہ کہیں میری زبان سلپ ہو گئی تو۔ ۔ ۔ ۔


وہ ڈر گئی اور یہی میں چاہتا تھا۔
میں نے کہا: کل رات پھر میں تمھیں اسی طرح چودوں گا۔مرضی سے کرو گی تو مزا آئے گا اور اگر زبردستی کرنا پڑا تو جتنا درد آج ہوا ہے اس زیادہ ہوگا۔
یوں سمجھو میں اس کو پھاڑ دوں گا۔

ختم شُد