SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

اتوار، 28 اگست، 2022

New Paid Novels

 


 

 اس نے مسکرا کر کہا، "میرے پاس کپڑے اتارنے کا وقت نہیں ہے" اس نے اپنی بیلٹ اور پتلون کا بٹن کھولا۔ اس کی پتلون گر گئی اور اب وہ اپنے زیر جامہ میں تھا۔ وہ قریب آئی اور انڈرویئر کے اندر اس کے لنڈ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے بھی اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا اور اس کے نپلوں کو نچوڑ ا۔ وہ کراہ کر بولی، "آہ آہ آہ آہ آہ آہ"

وہ اس کے سامنے بیٹھ گئی اس کا انڈرویئر نیچے کر دیا۔ اس کا بڑا لنڈ ایک سپرنگ کی طرح باہر نکلا، اس نے اپنا ہاتھ لنڈ کے اوپر نیچے کیا اور کہا، "واہ، تمہارا لنڈ بڑا ہے، میرے شوہر اور میرے بوائے فرینڈ دونوں سے بڑا"

 وہ مسکرایا۔ وہ پہلی نہیں تھی جس نے اس کے لنڈ کی تعریف کی تھی اور وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے لنڈ کی تعریف کرنے والی آخری بھی نہیں تھی۔ اس نے لنڈ کو منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگی۔ اس کے چوسنے سے ام یم ام کی آوازیں آرہی تھیں۔ لنڈ بڑا تھا اور اس کے لیے پورا لنڈ اپنے منہ میں لینا آسان نہیں تھا۔ وہ ایک سیکس فرینڈلی شخص تھا اور اسے کبھی سیکس میں زبردستی پسند نہیں تھی اسی وجہ سے وہ اس کے چوسنے سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور اسے خود سے لنڈ چوسنے دے رہا تھا، اس نے اپنا لنڈ اس کے منہ کے اندر نہیں دھکیلا تھا۔

 وہ پانچ منٹ تک اس کا لنڈ چوستی رہی، اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا منہ تھک رہا ہے۔ اس نے اپنے دماغ میں سوچا تھا کہ وہ لنڈ کو چوس کر اس کی منی انزال کرائے گی کیونکہ لنڈ بڑا تھا اور وہ جانتی تھی کہ یہ اس کی چوت کی دھجیاں اڑا دے گا۔ لیکن وہ بھول گئی کہ جن کے پاس بڑا لنڈ ہوتا ہے ان میں دوسروں سے بہتر سٹیمینا بھی ہوتا ہے۔ اس نے لنڈ کو منہ سے نکالا پھر اٹھ کر بستر پر کمر کے بل لیٹ گئی۔ وہ مسکرایا اور بیڈ کے قریب آیا۔

 اس نے کہا، "کیا تمہارے پاس میرے لنڈ اور اپنی چوت کو چکنا کرنے کے لیے کوئی چکنا کرنے والا مادہ ہے" وہ حیران ہوئی اور بولی، "کیا، تم میری چوت نہیں چوسو گے؟
Click Here To

Pages: 692
Price: 600


urdu bold novels
urdu bold novels list
urdu bold novels download
husband wife bold urdu novels
hot and bold urdu novels online
urdu bold novel pdf
urdu bold novel about a woman
most bold novel in urdu
urdu novels in which hero is bold
urdu bold novel book pdf


 




 نازو نے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کیا اور اس نے اپنی انگلیاں تیل میں ڈبو کر اپنی پھدی کے اردگرد اور اندر کرنا شروع کردیا۔ باقی دو نے اس کی ٹانگیں پکڑی ہوئی تھیں جبکہ نازو نے شکیل کا انڈرویئر اتار کر شکیل کا سخت لن چوسنا شروع کر دیا۔ چوسنے کے بعد اس نے اس کے لن پر تیل لگایا۔ شکیل اب بیڈ پر چڑھ کر اس کی کھلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان آ گیا۔ خواتین ابھی تک اس کی ٹانگیں پکڑے ہوئے تھیں۔ شکیل نے اپنے 7 انچ لمبے اور تین انچ موٹے لن کی ٹوپی پھدی پررکھ دی۔ اس نے چیخ کر خود کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بری طرح پھنس گئی تھی اور اس میں ہلنے کی بھی طاقت نہیں تھی۔ شکیل نے اب اس کی طرف دیکھا اور آہستہ آہستہ لن اس کی پھدی کے اندر گھس گیا۔ اس کا لن اس کی پھدی کی دیواروں کو پھیلا کر کنوار پن کی جھلی تک پہنچ گیا۔ شکیل اس کی چھاتی بھی چوستا اور جسم کے دوسرے حصوں کو بھی چومتا لیکن وہ جلدی میں تھا کیونکہ اسے کہیں جلدی پہنچنا تھا

 

Click Here To

Pages: 817
Price: 600


urdu bold novels
urdu bold novels list
urdu bold novels download
husband wife bold urdu novels
hot and bold urdu novels online
urdu bold novel pdf
urdu bold novel about a woman
most bold novel in urdu
urdu novels in which hero is bold
urdu bold novel book pdf


 





مَیں بے دم ہو کر بھابھی کے پہلو میں بیٹھ گیا اور اُن کے ہونٹوں پر لگی ہوئی اپنی منی چاٹنے لگا۔ بھابھی نے بھی میری انگلیوں پر لگا ہوا اپنی چوت کا پانی اپنی زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کیا ۔ ہم دونوں دیور اور بھابھی پسینے میں نہا چکے تھے ۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور ہنس دئے ۔

" خالد آج تو مزا ہی آ گیا ہے ۔ تمہاری منی بہت لذیز تھی ۔ مجھے منی کی خوشبو سے پیار ہے۔ اب مجھے کولڈ ڈرنک دو تاکہ میں دوبارہ فریش ہو جاؤں ۔" میں نے کولڈ ڈرنک کی بوتل سےدو گلاس بھرے ایک

 بھابھی کو دیا اور دوسرا اپنے ہاتھ میں تھام لیا ۔

بھابھی ایک گھونٹ اپنے گلاس سے لے کر اُسے میرے منہ میں ڈالتیں اور مَیں اپنے گلاس سے ایک گھونٹ بھر کے اُسے بھابھی کے منہ میں ڈال دیتا ۔ 

 

Click Here To

Pages: 633
Price: 600


urdu bold novels
urdu bold novels list
urdu bold novels download
husband wife bold urdu novels
hot and bold urdu novels online
urdu bold novel pdf
urdu bold novel about a woman
most bold novel in urdu
urdu novels in which hero is bold
urdu bold novel book pdf


 








اپنے خیالوں میں مگن پانی سے کھیلتے کھیلتے اچانک میری نظر کاجل پر پڑی۔۔ ایک پتھر پر بیٹھ کرجھک کر کپڑے دھوتے ہوے اسکا گریبان کافی اندر تک کے نظارے دکھا رہا تھا۔۔ مجھے جیسے کرنٹ سا لگا۔اسکا سانولا چنگھاڑتا جسم جیسے مجھے کھینچ رہا تھا۔۔ ایک بیخودی کے عالم میں میں نے چلو میں پانی بھرا اور اس پر پھینکا وہ

 چونکی اور ہنس کر بولی۔

 ٹھہرو بالی کے بچے تمہیں بتاتی میں۔۔ اس نے کپڑے چھوڑے اور میرے پیچھے بھاگی ۔۔میں تالاب کے اوپر اوپر سے چکر کاٹ کر بھاگا۔ لیکن وہ جنگلی مٹیارن قلانچیں بھرتی میرے بالکل عقب میں آ گئی جیسے ہی مجھے لگا میں اسکی گرفت میں آنے لگا ہوں میں نے سکول زمانے میں ہاکی والا تجربہ آزمایا اور اسے جھکائی دی وہ اپنی جھونک میں سیدھا تالاب کے اندر جا گری وہ تڑپ کر تالاب سے جیسے ہی نکلی مجھے لگا جیسے پانی سے جل پری نکل آئی ہو۔ کاجل کے بھیگے کپڑوں سے نچڑتا پانی اور اسکا سانولا شباب میرا دل دھڑکا گیا 
Click Here To

Pages: 1800
Price: 1200


urdu bold novels
urdu bold novels list
urdu bold novels download
husband wife bold urdu novels
hot and bold urdu novels online
urdu bold novel pdf
urdu bold novel about a woman
most bold novel in urdu
urdu novels in which hero is bold
urdu bold novel book pdf


پسند اپنی اپنی۔ ایک دلکش کہانی

 


پسند اپنی اپنی

ناول۔ قسط۔ 1۔

عمرہ اپنے روم میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ ماموں دو سال کے لئے یوکے آفس کی طرف سے جا رہے ہیں۔ وہاں انکا بیٹا اور بہو بھی رہتے ہیں۔

مامی اور ان کی بیٹی جیا نے تو اس کا جینا حرام کر دینا ہے۔ وہ ماموں کی موجودگی میں ہی چھپ چھپا کر اسے ازیت دینے سے باز نہ آتی تھیں۔ اب تو ان کو کھلی چھٹی مل جائے گی۔

دونوں ماموں کے سامنے اس سے بے انتہا پیار جتاتیں، مگر ان کی غیر موجودگی میں گن گن کر بدلے لیتیں۔

ماموں اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس کو بہت اہمیت دیتے تھے۔

عمرہ بچپن سے ہی محرومیوں کا شکار تھی۔

والدین بچپن میں ہی وفات پا گئے۔

دادا دادی کی گود میں پرورش پائی اور جب دادا اور دادی یکے بعد دیگرے چل بسے تو ماموں جو کھبی کبھار اس سے ملنے آتے رہتے تھے۔ اس نے کئی بار ان سے فیملی لانے کا بولا، مگر وہ ہر بار ٹال جاتے تھے۔

عمرہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی تھی۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ کالج گاوں سے گھنٹہ بھر کی مسافت پر تھا۔

وہ گاوں کے ایک پڑوسی انکل کے رکشے میں آتی جاتی تھی۔

ایف ایس سی کرنے کے بعد ماموں اسے اپنے گھر لے آئے۔

پہلی بار وہ اپنی کزن جیا سے ملی۔ مامی بھی بڑے تپاک سے ملیں۔

ماموں نے اسے جیا کے ساتھ ہی روم دینے کا کہا۔ کیونکہ گھر دس مرلے کا تو تھا مگر اس کا نیچے والا پورشن کراے پر لگا تھا۔

اوپر تین کمرے تھے ایک جیا کا ایک والدین کا اور اس کے بھائی بھابھی کے لیے مختص تھا۔

مامی نے آواز دی۔

عمرہ تیزی سے باہر آ گئ۔

سب کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے تھے۔

مامی نے بڑے مٹھاس بھرے لہجے میں کہا، بیٹا تم جانتی تو ہو ہم سب تم سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ تم جب تک آ نہ جاو ہم کھانا شروع نہیں کرتے۔

تمہاری بہن جیا کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی مگر وہ کہنے لگی کہ جب تک میری بہن نہ آ جاے میں کھانا شروع نہیں کروں گی۔

جیا مسکرا کر ماں کو دیکھنے لگی۔

ماموں نے بیوی اور بیٹی کو سرشاری سے دیکھا، پھر عمرہ سے مخاطب ہو کر بولے، بیٹی تم نے مجھے بتایا نہیں کہ میں یوکے سے تمہارے لیے کیا بھیجوں۔

جیا نے تو مجھے لمبی چوڑی لسٹ پکڑا دی ہے۔

عمرہ آہستہ سے سر نیچے کیے بولی، ماموں جان میری تمام ضروریات بن مانگے پوری ہو جاتی ہیں پھر مجھے اور کیا چاہیے۔

ماموں تفکر سے بولے، بیٹا تم اتنی اداس اتنی خاموش کیوں رہتی ہو۔

مامی نے جھٹ لقمہ دیا۔

ارے میں بھی اسے کئی بار کہہ چکی ہوں کہ تم میری بیٹی ہو، جیا کی بہن ہو۔ دونوں ایک ہی کالج میں پڑھتی ہو۔

دونوں ایک کمرے میں سوتی ہو۔ ایک جیسی دونوں کی ہر چیز آتی ہے اس کے علاوہ بھی تمہیں کسی چیز کا من کرے بتا دیا کرو۔ بس مجھے تم سے گلہ ہے کہ تم مجھے اپنی ماں نہیں سمجھتی تب ہی کوئی فرمائش نہیں کرتی ہو۔

عمرہ نے صفائی دیتے ہوئے کہا، نہیں مامی جان ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بس مجھے دادی نے ایسا ہی سکھایا تھا کہ بلا ضرورت کوئی سامان جمع مت کرنا، جو ضرورت سے زیادہ ہو گا اس کی قیامت والے دن سخت پکڑ ہو گی۔

اس لیے میں ضرورت کے علاوہ سامان رکھنے کے حق میں نہیں ہوں۔

جیا جھٹ بولی، ویسے تم ٹھیک کہتی ہو۔ مگر کیا کریں ہم لڑکیوں کو ہر طرح کے شوق ہوتے ہیں۔ جب بوڑھے ہوں گے تو پھر ان باتوں پر عمل کر لیں گے۔ فلحال تو پاپا آپ میری لسٹ کی تمام چیزیں بھیجنا،

ماموں نے محبت سے کہا، ضرور مگر ساتھ میں عمرہ کی بھی ویسی ہی بھیجوں گا ورنہ یہ تو کچھ مانگے گی نہیں۔

وہ بیوی سے بولے، دیکھو بیگم ویسے تو مجھے تم دونوں پر بھروسہ ہے مگر میرے جانے کے نام سے میری بھانجی اداس ہے اس کا بہت خیال رکھنا۔

مامی جھٹ اٹھی اور ایک اونچی آواز میں زوردار کس اس کے گال پر کر کے کہا، یہ تو میری جان ہے مجھے جیا سے بھی آگے ہے۔

جیا چاول کھاتے ہوئے بولی، ماما کوئی بات نہیں میں جیلس نہیں ہوتی، کیونکہ یہ مجھے بھی پیاری ہے۔

ماموں مسکرا کر بولے، تھینکس بیگم۔ اور جیا بیٹا اچھا ہوا ناں تمہیں بہن کی کمپنی مل گئی ورنہ تم بور ہوتی ہو گی۔

جیا پانی پیتے ہوئے جی جی بلکل پاپا تھینکس اتنی پیاری بہن لا کر دینے کا۔

ماموں کے جانے کے بعد عمرہ پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

سارا کام اسے کرنا پڑتا۔کام والی کی چھٹی کر دی گئی۔ روز اسے کالج بھی نہ جانے دیا جاتا۔ اکثر چھٹی کروا دی جاتی۔

عمرہ کی کالج میں بس ایک ہی دوست تھی سحرش۔ وہ اسے اپنا دکھ درد بتاتی رہتی۔

جب ماموں وڈیو کال کرتے تو مامی اسے ڈرا دھمکا کر ماموں کو کچھ نہ بتانے کا کہتی۔ سٹور میں اس کو چٹائی پر سونے کا کہا جاتا۔

ماموں اس سے پوچھتے کہ اتنی سنجیدہ کیوں ہو تو وہ کہتی، ماموں جان میری نیچر ہی ایسی ہے۔ وہ پوچھتے کوئی مسئلہ تو نہیں۔

مگر سامنے بیٹھی گھورتی مامی کو دیکھ کر کہتی، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

مامی کا نشی بھانجا اکثر آ جاتا اور اسے تنگ کرتا۔

عمرہ نے مامی کو شکایت لگائی تو مامی بھڑک کر جو بولی، اسے سنکر عمرہ حیرت زدہ رہ گئی۔

جاری ہے۔

پلیز اسے لائک ،کمنٹ اور فرینڈز کو بھی شئیر کریں شکریہ۔

شعر۔

پھر ہوا یوں کہ ہم نے دل کو بہلا لیا

وہ سمجھے کہ ہم نے انہیں بھلا دیا۔

ناول۔ قسط۔ 2۔

مامی نے اسے جب یہ بتایا کہ آج شام کو اسکا نکاح میرے بھانجے سے ہو گا تو وہ سنکر پریشان ہو گئ۔ جانتی تھی کہ احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں۔

اس نے سب سے پہلے موبائل آف کر کے چھپا دیا۔

جیا کمرے میں آئی اور بولی، یہ لو تمہاری شادی کا جوڑا۔ آج ہی تم اس گھر سے رخصت ہو جاو گی۔ پھر بھی تم میری ماما کا احسان مانو کہ وہ تمہیں گھر سے نکال رہی ہیں اپنے خاندان سے نہیں۔ ویسے بھی تم لکی ہو کہ وہ تمہیں اپنے ساتھ دوبئی لے جائے گا اور تم وہاں عیش کرو گی۔

شام تک ٹائم پر تیار ہو جانا دیر نہ کرنا۔

اور ہاں مجھے اپنا موبائل دے دو۔

عمرہ نے کہا، وہ غلطی سے سحرش کے گھر میں رہ گیا ہے۔

جیا نے تھوڑی دیر سوچا پھر یقین کر لیا کیونکہ پہلے بھی ایک دو بار ایسا ہو چکا تھا۔

وہ کمرے سے  چلی گئ۔

عمرہ نے سحرش کو واش روم میں جا کر میسج کر کے ساری صورتحال بتائ۔

اس نے کہا،تم چپکے سے بیگ بنا لو اور موقع پا کر نکل آنا۔ میں ماما سے بات کرتی ہوں۔

جیا کمرے میں لیب ٹاپ لگا کر بیٹھ گئ۔

عمرہ مامی کے پاس گئی اور نارمل انداز میں بولی، مامی آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اپنے خاندان میں جگہ دی۔

پھر وہ رونے لگی۔

مامی نے غصے سے کہا، اب خوشی کے موقع پر رونا دھونا مت مچاو، اور یاد رکھنا میرے بیٹے اور ماموں کے سامنے زبان کھولی تو بہت برا حشر کروں گی۔

تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ میری بہن تمہیں اپنی بہو بنا رہی ہے۔

عمرہ بولی، میں کیوں بتاؤں گی کسی کو کچھ۔ آپ میرا نکاح کر رہی ہیں۔ آپ کی بہن کا گھر ہے۔ مجھے ایک عزت کس ٹھکانہ مل جائے گا۔ اور کیا چاہیے۔ ورنہ مجھ لاوارث کا کیا فیوچر ہے بھلا۔

مامی سے پوچھنے لگی کیا میں اپنا سامان پیک کر لوں۔

مامی بولی،

ہاں لیکن صرف کپڑے وغیرہ، لیب ٹاپ جیسی قیمتی چیزوں کو لے کر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو ویسے بھی سحرش کے گھر پر ہے۔ میں اسے کہوں گی جیا کو میرا موبائل اور لیب ٹاپ پکڑا دے گی۔

مامی بولی اچھا۔

مامی نے جیا سے تسلی کی کہ اس کا کسی کے ساتھ کوئی چکر وکر تو نہیں ہے ناں۔

کہیں بھاگنے کا پروگرام تو نہیں اسکا۔ بڑی آسانی سے مان گئی ہے۔

جیا مزاق اڑانے والے انداز میں بولی، او ماما اس بدو کو کون لفٹ کراے گا سارے لڑکے تو مجھ پر مرت۔۔۔۔

ماں نے غصے سے پوچھا، کیا مطلب، جیا غرور سے بولی، ماما آپ کی بیٹی خوبصورت ہے تو لڑکے تو مرتے ہی ہیں خوبصورت لڑکیوں پر۔ مگر میں کسی کو بھی بلکل لفٹ نہیں کراتی۔

مامی کو ان کی بہن کا فون آ گیا کہ مولوی صاحب کل آئیں گے۔ اس لیے کل نکاح ہو گا۔ لڑکی تو راضی ہے ناں۔

ہاں ہاں راضی ہے۔ نہ بھی ہوتی تو راضی کروا لیتے۔

عمرہ نے کپڑوں کے بیگ میں کمپیوٹر چھپا کر ڈالا اور کپڑے ڈال کر اسے سٹور میں رکھ آئی۔ بس ضرورت کے کپڑے ڈالے اور باقی سامان ادھر ہی رکھ دیا کہ اتنا لے کر جانا بھی مشکل ہے۔

عمرہ نے جب سنا کہ نکاح کل ہے تو اس نے شکر کا سانس لیا۔

رات پڑنے لگی مگر عمرہ کو موقع نہیں مل رہا تھا کہ وہ نکلے۔ اس کے پاس کچھ رقم تھی جو ماموں اکثر اسے دیتے رہتے تھے وہ اس نے مامی اور جیا سے چھپا کر رکھی تھی۔ اس کو بھی ڈالا۔

اس نے شکر کیا کہ اسکا کمرہ اب جیا کے ساتھ نہیں تھا سٹور باہر کے دروازے کے قریب تھا۔ اس نے سپنا بیگ باہر گیراج میں بنی ایک الماری میں چھپا کر رکھ دیا کہ جب موقع ملے گا وہ ادھر سے ہی نکل جائے گی۔

رات کھانا وغیرہ کھلا پلا کر وہ فارغ ہوئی تو مامی آج اس پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ اسے رات کو بھاگنے کا موقع نہ مل سکا۔

رات گیارا بج چکے تھے اور باہر گلی سنسان تھی۔ کتے بھی بھونک رہے تھے۔

سحرش نے کہا، فجر کی نماز کے بعد موقع پا کر نکلنا۔ ابھی رسک ہے۔

عمرہ مایوس ہو کر اپنے کمرے میں جو سٹور تھا چٹائی پر آ کر لیٹ گئی۔

اسے دادی، دادا یاد آنے لگے، وہ رونے لگی، اس کی دادی کہتی تھی کہ میں اپنی پوتی کی شادی بہت دیکھ بھال کر کروں گی۔ میری لاڈلی پوتی ہے۔ اسے سسرال میں کوئی تکلیف نہ ہو۔

روتے روتے سو گئی۔

اسے سٹور لاک کر کے سونے کی اجازت نہ تھی۔

مامی اور جیا نے اسے سونے سے پہلے کافی بار چیک کیا جب تسلی ہو گئی تو وہ سونے چلی گئیں۔

فجر کی آزان کے وقت اس کی آنکھ کھلی، جلدی سے وضو کیا، نماز پڑھی اور برقع پہن کر منہ لپیٹ کر ہلکی آواز سے دروازہ کھول کر دبے پاؤں باہر نکل گئ۔

باہر نمازی جا رہے تھے کچھ تو جاننے والوں میں شمار تھے مگر عمرہ نے منہ پر ماسک کے علاوہ اچھی طرح سے چادر لپیٹ رکھی تھی۔ وہ تیز تیز قدموں سے بیگ اٹھائے جا رہی تھی ڈر تھا کہ مامی یا جیا نہ آ جائیں۔

وہ اب ہانپتی کانپتی مین سڑک پر آ گئ تھی۔ پاس سے ایک سوزوکی گزری مگر آگے جا کر اس نے روک دی۔

عمرہ ڈرنے لگی کیونکہ سڑک پر اکا دکا ٹریفک چل رہی تھی۔

سوزوکی والا اسے جانچنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

سوزوکی والے نے اتر کر اسے کہا، کیا اکیلی ہو، گھر سے ناراض ہو کر آئ ہو۔چلو آو میرے ساتھ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔وہ اس کے بیگ کو کھینچنے لگا۔

عمرہ نے اسے ڈانٹ کر کہا،

جاو یہاں سے، میں نے تمہارے ساتھ نہیں جانا۔

اتنے میں قریب سے ایک بائیک گزری جس پر دو لڑکے سوار تھے۔

وہ یہ دیکھ کر رک گئے۔

انہوں نے پوچھا، کیا معاملہ ہے۔

سوزوکی والے نے کہا، کچھ نہیں یہ ہم میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ یہ میری بیوی ہے اور ناراض ہو کر گھر سے جا رہی ہے۔

دوسرا لڑکا پہلے لڑکے سے بولا، ہاں چلو یار یہ میاں بیوی کا معاملہ ہے۔

انہوں نے بائیک اسٹارٹ کی اور چل پڑے۔

عمرہ نے سنا تو ہکا بکا رہ گئی۔

جاری ہے۔

شعر

ہمارا تم پے فدا ہونا ایسے تو نہیں جاناں

تم میں جو بات ہے کسی اور میں کہاں۔

ناول۔ قسط۔ 3

عمرہ کو اب سوزوکی والے سے ڈر محسوس ہو رہا تھا اس نے بیگ کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔

بائک والے مڑ کر جا رہے تھے۔

سوزوکی والے نے اسکا بیگ چھیننے کی کوشش کی،

عمرہ نے زور زور سے ہیلپ ہیلپ کہہ کر چلانا شروع کر دیا۔

بائک والے فوراً مڑے انہیں واپس آتا دیکھ کر سوزوکی والا بھاگنے لگا تو ایک لڑکا اتر کر تیزی سے اسے پیٹنے لگا۔

دوسرے لڑکے نے اسے چلا کر کہا، شانی یار چھوڑ دفع کر اسے، خون خرابہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوزوکی والا اسے چھڑوا کر تیزی سے چلا کر چلا گیا۔

عمرہ نے روتے ہوئے ان لڑکوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا، پہلے تو بے یارومددگار چھوڑ کر چل پڑے تھے۔

ایک لڑکا اسے تسلی دینے والے انداز میں بولا، سسٹر آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ ہماری بہن ہیں۔

عمرہ غصے سے بولی، کیسے پریشان نہ ہوں۔ سوزوکی والے کی بات پر یقین کر لیا آپ لوگوں نے، وہ تین بچوں کا باپ لگ رہا تھا، کیا میں اس کی بیوی نظر آتی ہوں۔ میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔ مجھے کیا پتا آپ لوگوں کا بھی، کیسے بھروسہ کروں۔ ابھی تو ہیرو بن کر بچانے آ گئے تھے۔

جس کو وہ شانی کہہ رہا تھا دوسرے لڑکے سے مخاطب ہو کر بولا، یار سیفی چلو، لوگ جمع ہو رہے ہیں تماشا بن رہا ہے۔

اسفند نے کہا، سسٹر آپ بھروسہ کریں میری بھی آپ جتنی ایک بہن ہے۔ آپ نے جانا کہاں ہے۔

اس نے پوچھا۔

عمرہ نے جلدی جلدی اپنی سٹوری سنا دی۔ کہ اسکا اب کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اس کی دوست بھی اپنی ماما کے آگے مجبور ہے۔ انہوں نے نو کر دی تھی کہ وہ زمہ داری نہیں اٹھا سکتیں۔ اب میری فرینڈ نے حامی تو بھر لی ہے کہ وہ اسے اپنے روم میں چھپا لے گی۔ اس کی موم اتنا اس کے روم میں نہیں آتی ہیں۔

شانی نے پوچھا، یہ تو عارضی ہے بحرحال یہ میرا فون نمبر رکھ لیں اگر کوئی پرابلم ہو تو بتاہیے گا۔

اس نے لینے سے انکار کر دیا مگر سیفی نے کہا، بہن لے لیں، یہ بہت اچھا انسان ہے۔

عمرہ نے بے دلی سے پکڑ لیا۔

سیفی نے کہا، آپ فرینڈ کا ایڈریس تو بتائیں۔

جب عمرہ نے ایڈریس بتایا تو شانی اور سیفی نے ایکدوسرے کی طرف دیکھا۔

سیفی بولا، سسٹر یہ میرے گھر کا ایڈریس ہے۔ آپ کی دوست کا نام سحرش تو نہیں۔

عمرہ جھٹ جوش اور خوشی سے بولی، جی جی۔

شانی نے کہا، یار سیفی تم بائک پر چلو، میں انہیں آٹو میں لے کر چلتا ہوں۔ پھر کسی طرح تم انہیں سحرش کے روم میں پہنچا دینا۔

عمرہ شانی کے ساتھ آٹو میں سمٹ کر بیٹھ گئ۔

شانی نے ایڈریس بتایا۔

عمرہ کو سحرش کا میسج آ گیا۔

عمرہ نے جلدی سے ساری بات میسج کر دی۔

سحرش انتظار کرنے لگی۔

گھر پہنچے تو سحرش کی موم ناشتہ بنا رہی تھیں۔

شانی ان کے بیٹے کا سکول کے کالج کے زمانے کا دوست تھا۔ اس گھر میں وہ اکثر آتا جاتا رہتا تھا۔

شانی سے بڑی ایک بہن تھی جس کی شادی پر سیف کی فیملی بھی انواہیٹ تھی۔

دونوں ہی بہن بھائی تھے۔

شایان عرف شانی کے گھر والوں کو سحرش اور اس کے گھر والے بہت پسند آئے تھے۔ انہوں نے سحرش کا رشتہ مانگا تو سیف کے گھر والوں نے پہلی بار ہی ان کے آنے پر ہاں کر دی اور سادگی سے رسم ادا کر دی گئی۔

سال بعد شادی کا پلان رکھ دیا گیا کہ ابھی ابھی سیف اور شایان پڑھائی سے فارغ ہوئے تھے اور جاب ڈھونڈ رہے تھے۔

شانی نے گھر والوں سے کہا کہ وہ سحرش سے فون وغیرہ پر یا کوئی رابطہ نہیں رکھے گا کیونکہ وہ اس کے جگری دوست کی بہن ہے۔ اس لیے میں نے شادی کے لئے ہاں کر دی۔

سحرش کی پڑھائی بھی ختم ہو چکی تھی۔ اور وہ اب فارغ رہ کر ماں سے گھرداری سیکھ رہی تھی۔

آٹو میں بیٹھے ہوئے اچانک زور سے جمپ آیا اور عمرہ کا سر رکشے کے ڈنڈے سے زور سے ٹکرا گیا اور اس کے ماتھے پر گھومڑ سا بن گیا اس نے درد سے ہاے کیا۔

شایان آٹو والے کو بری طرح ڈانٹنے لگا۔ سامنے لگے شیشے میں آئینے میں عمرہ نے دیکھا۔ ماتھے کے درمیان موٹا سا گھومڑ۔

عمرہ نے جلدی سے دوپٹے سے پھونک مار کر ہوا دینے لگی۔

شایان نے پوچھا، کیا ڈاکٹر کے پاس چلیں۔

عمرہ نے انکار کیا، مگر وہ راستے میں ایک کلینک پر رک گیا اور اسکا بیگ اٹھا کر اسے اترنے کا کہا۔

آٹو والے سے بولا، ادھر ہی رکو ہم ابھی آتے ہیں۔ اتنے میں سیف کا فون آ گیا کہ کدھر ہو۔

شایان نے ساری بات بتائی۔

سیف نے کہا، امی تمہارا انتظار کر رہی ہیں ناشتہ بنا کر رکھا ہے کہ ابھی ابھی دوبئی سے آے ہو تو تھکے ہو گے۔

میں نے بہانہ کیا کہ راستے میں اسکا دوست مل گیا تھا ابھی آ رہا ہے۔

کلینک کے اندر گئے تو نرس کھڑی تھی اس نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ابھی نہیں آئے ہیں۔

شایان نے کہا، ان کے ماتھے پر چوٹ لگی ہے۔

نرس دیکھ کر اوہو کہہ کر مسکراہٹ دبا کر بولی۔ یہ کیسے لگی۔

شایان کے چہرے پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ آ گئ۔

عمرہ نے شرمندگی سے کہا، چھوڑیں چلتے ہیں۔

نرس بولی، چلیں میں اس پر کچھ لگا کر پٹی کر دیتی ہوں۔

اس نے اس کے اوپر کریم لگا دی اور پین کلر دے کر بولی اسے کھا لیں۔ ناشتہ تو کیا ہوا ہے ناں۔

عمرہ بولی۔ نہیں۔

شایان بولا، میں کچھ لے کر آتا ہوں۔

وہ باہر نکل گیا اور جوس اور چپس بسکٹ لے آیا کہ یہی ملے ہیں۔

عمرہ نے ایک بسکٹ اور جوس پی کر پین کلر کھا لی۔ اسے درد بھی بہت ہو رہا تھا۔

سیف کا فون آ گیا کہ یار وہ پھوپھو کی فیملی آ گئی ہے وہ لوگ تو شام تک رکیں گے۔

سحرش پریشان ہو رہی ہے۔ میں نے اسے کہا ہے کہ شانی کے والدین عمرے پر گے ہوئے ہیں اسے کہتا ہوں گھر لے جائے۔ جب وہ لوگ واپس چلے جائیں تو آ جائے۔

اتنے میں سحرش کا فون آ گیا اس نے بھی یہی مسئلہ بتایا۔

عمرہ نے روندھی ہوئی آواز میں کہا، ٹھیک ہے اس کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہوں۔

شایان نے کہا، آپ فکر نہ کریں ہمارے گھر میں ہمارے پرانے وفادار بوڑھے ملازم موجود ہیں میں ان کو سب سچ بتا کر اعتماد میں لے لوں گا۔

عمرہ ساتھ چل پڑی، آٹو میں بیٹھتے ہوئے پھر شایان نے اسے تاکید کی کہ آہستہ چلانا۔

وہ لڑکا سا تھا شیشے میں سے دیکھ کر مسکرا کر سوری بولا۔

عمرہ نے بہت کوشش کی کہ اسے چادر میں چھپا سکے مگر وہ نہ چھپ سکا۔

شایان کا بہت بڑا اور خوبصورت گھر تھا۔ عمرہ بہت خوش ہوئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سحرش کا اس سے رشتہ ہو چکا ہے۔ فون پر اس نے خوشی سے بتایا تھا۔

عمرہ نے سحرش کی خوشیوں کی دعا کی۔

شایان نے اپنی ملازمہ نورین آپا کو اور اس کے شوہر کو سب سچ بتا دیا تو انہوں نے کہا کہ وہ چائیں تو ہم اسے اپنی رشتے دار بتا کر اپنے کوارٹر میں ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہم اکیلے رہتے ہیں۔

شایان نے عمرہ کو دیکھا،

عمرہ بولی، میں آپ کے گھر ایک ملازمہ بن کر بھی رہ سکتی ہوں۔ کام کاج کرنے سے میں نہیں تھکتی۔

شایان سانس بھر کر خاموش ہو گیا۔

عمرہ اتفاق سے جب بھی چند بار سحرش کے گھر گئ تو وہ گھر پر اکیلی ہوتی تھی۔ اس کے گھر والوں نے اسے نہ دیکھا تھا۔

عمرہ کو نورین آپا نے محبت سے کھانا کھایا۔ اس کے ماتھے گرم کپڑے سے سینکا تو اس سے شام تک وہ کافی کم ہو گیا۔

شایان کے والدین کا فون آیا تو شایان نے عمرہ کونورین آپا کی رشتے دار بتایا کہ اس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ اب دنیا میں اکیلی ہے۔

سحرش اب اسے فون کرتی رہتی۔

عمرہ اس گھر کی اور شایان کی بہت تعریفیں کرتی۔

سحرش اب اس کی طرف سے مطمئن ہو گئی تھی۔

عمرہ نے شایان کو گھر میں کھانا پکا کر دینا شروع کر دیا تھا۔

اس کو بھی اب باہر کے پیزے برگر پسند نہ رہے تھے۔

شایان اس کی ضروریات کا خیال رکھنے لگا تھا۔

وہ لان میں چائے کا کپ لے کر پھولوں کے قریب کھڑی چاے پی رہی تھی۔

شایان بھی چائے کا کپ اٹھائے ادھر چلا آیا۔

عمرہ اس کی بہت عزت کرتی تھی ایک تو وہ اسکا محسن تھا دوسرا اس کی بیسٹ فرینڈ کا منگیتر۔

شایان نے اسے سلام کیا اور دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔

شایان نے ملازم سے چیرز لانے کا کہا، اور عمرہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

دونوں مختلف موضوعات پر باتیں کرتے۔

دونوں کی سوچ کافی ملتی جلتی تھی۔

شام کو دونوں شام کو چائے پیتے ساتھ ساتھ باتیں کرتے۔

عمرہ سحرش کو ہر بات بتاتی اسے خوش قسمت کہتی۔

شایان کو بھی کھبی سحرش کے حوالے سے چھیڑتی تو وہ ہلکہ سا مسکرا کر چپ ہو جاتا۔

سیف اکثر ملنے آتا۔ اسے بہت خلوص سے سسٹر کہہ کر مخاطب کرتا۔ اس کا حال احوال پوچھتا۔

اس کے لیے سحرش کچھ نہ کچھ بھیجتی رہتی۔ ضرورت کی چیزیں یا کھانے پینے کی۔

دونوں لان میں بیٹھ کر چائے پیتے۔ کھبی سیف اسے بھی ساتھ بیٹھ کر چائے پینے کا کہتا۔ اس سے باتیں کرتا۔

وہ شایان سے کہتا کہ عمرہ کے مستقبل کی مجھے بہت فکر ہے۔ بہن بولا ہے تو شادی بھی اس کی میں کراوں گا مگر اس جیسی سلجھی ہوئی لڑکی کے لیے کوئی سلجھا ہوا لڑکا نظر نہیں آتا۔

عمرہ کے کان میں کھبی اس کی باتیں پڑتی تو اس کا خون سیروں بڑھ جاتا کہ اسکا بھی کوئی بھائی ہے۔

شایان کے والدین ادھر سے بیٹی کے پاس کینیڈا چلے گئے تھے۔ وڈیو کال پر اب وہ عمرہ سے بھی بات کرتے اور بتاتے کہ شایان بہت خوش اور مطمئن ہے کہ تم اسکا بہت خیال رکھتی ہو اور پورے گھر کو بھی سنبھالا ہوا ہے۔ اسی لیے ہم ادھر زیادہ عرصہ رہ سکے ہیں۔ عمرہ کو آج ماموں کی بہت یاد آ رہی تھی وہ جانتی تھی کہ مامی اور جیا نے نہ جانے اس کے خلاف ماموں کے زہن میں کیا زہر بھر دیا ہو گا۔

وہ دل میں فیصلہ کر چکی تھی کہ ماموں کے آنے پر ان کو ساری سچائی بتا دے گی۔

سحرش نے مووی دیکھنے کا پلان بنایا اور سیف سے کہا کہ موم ڈیڈ کو پتا نہ چلے اور چپکے سے عمرہ کو بھی لے آو۔

سیف نے شایان کو کہا، وہ بولا، اگر وہ مانی تو میں اسے چھوڑ جاوں گا۔

سیف بولا، تم بھی آ جانا یار۔ تم بھی کھبی انجوائے کر لیا کرو۔

شایان نے عمرہ کو جب بتایا تو پہلے تو وہ نہ مانی مگر سحرش کے اصرار پر ساتھ چل پڑی۔

شایان نے اگلا ڈور کھولا مگر وہ پیچھے بیٹھ گئ کہ آگے آپ کی بیوی کا حق ہے۔

شایان ہنس کر بولا تو آپ مجھے ڈرائیور بنانا چاہتی ہیں ٹھیک ہے۔

راستے میں شایان نے آئسکریم کی آفر کی تو وہ نہ مانی۔

سحرش والدین اور بھائی کے ساتھ سینما ہاوس کے باہر کھڑی سحرش کا چپکے چپکے انتظار کر رہی تھی کہ اسے سحرش شایان کے ساتھ آتی نظر آئی۔

اس نے سیف کو اشارہ کیا۔

سیف اشارہ پا کر شایان کو میسج کر کے جگہ بتانے لگا کہ اس نے ان دونوں کے ٹکٹس بھی لے لیے ہیں۔

سحرش نے ساتھ والی سیٹ پر سحرش کو بیٹھنے کا کہا۔ وہ پاس بیٹھ گئی۔

عمرہ نے سحرش کو چھیڑا کہ منگیتر کے ساتھ مووی دیکھنے کا دل کر رہا تھا تمہارا اور تم نے اچھا ڈرامہ رچایا ہے۔

سحرش نے شرما کر اس کی چٹکی کاٹی۔

جاری ہے۔

شعر۔

ہم تم سے کوئی امید وفا نہ آس لگاتے ہیں

ہم تو اپنے رب سے وفاؤں کا صلہ چاہتے ہیں۔

ناول۔ قسط 4۔

شایان چھپ کر پیچھے مووی دیکھنے بیٹھ گیا۔ سیف نے والدین سے بہانہ کیا کہ وہ پیچھے اپنے ایک پرانے دوست کے پاس بیٹھے گا جو اچانک اسے مل گیا ہے۔

مووی کے وقفے میں شایان باہر نکل گیا کہ سیف کے والدین دیکھ نہ لیں۔

مووی ختم ہونے سے تھوڑی دیر پہلے ہی سیف نے سحرش کو میسج کیا کہ شایان جانے لگا ہے اور عمرہ کو باہر بھیج دو۔

سحرش نے عمرہ کو آہستہ سے میسج دیا۔

عمرہ نے اپنے چہرے کو چادر میں چھپایا ہوا تھا۔

تین سے چھ کا شو تھا۔ عمرہ باہر آئ تو سیف اور شایان نے اسے گاڑی کے پاس چلنے کو کہا،

عمرہ جب پیچھے بیٹھی تو سیف حیران ہوا۔

عمرہ نے گھر آ کر بہت فریش محسوس کیا۔ سحرش سے بھی ملاقات ہو گئی۔

عمرہ سے شایان کے گھر والے بہت خوش تھے۔ اس کی بہن بھی بہت اچھی طرح اس سے بات کرتی کہ اس کی وجہ سے اس کے والدین اس کے پاس زیادہ وقت رہ سکے۔

اس کے ساس سسر بھی اچھے تھے۔ انکا ایک ہی بیٹا تھا۔

عمرہ کو اس کے ساس سسر بھی اچھے لگے۔ دونوں کی جوڑی بہت پیاری تھی۔ دونوں بہت خوبصورت تھے۔ گریس فل تھے۔

شایان کے والدین پاکستان آنے کا پلان بنا رہے تھے ساتھ میں اس کے ساس سسر اور بیٹی نے بھی آنا تھا۔ وہ لوگ پاکستان شفٹ ہونا چاہتے تھے۔ انکا داماد سب کام نمٹا کر بعد میں آیا۔

عمرہ نے ان لوگوں کے آنے پر بہت خاطر مدارت کی۔ وہ سب بہت خوش ہوئے۔

شایان کی بہن کا ایک چھوٹا نومولود بچہ تھا۔ عمرہ اس کے ساتھ لگی رہتی۔

ایک دن عمرہ نے ماموں کو ڈرتے ڈرتے کال کی۔ جواب میں انہوں نے اسے بہت سنائی کہ آئندہ کے لیے وہ اس کے لیے مر گئے ہیں۔ جس کے ساتھ بھاگ کر نکاح کیا ہے اسی کے ساتھ خوش رہو۔ آخر میں اس کی آواز لڑکھڑا سی گئی۔

عمرہ بہت اداس سی ہو گئی۔ اس کو یہ تسلی ہو گئی کہ ماموں اسے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کسی سے نکاح کر کے بھاگ گئی ہے۔

اس نے دیکھا ماموں نے اسے بلاک نہیں کیا تھا۔ پہلے اس نے سوچا، ماموں کو مامی اور جیا کی ساری سچائی بتا دے۔ پھر یہ سوچ کر چپ ہو گئ کہ وہ ماموں کی فیملی ہے۔ ماموں نے انہیں کے ساتھ رہنا ہے۔ جیا ماموں کی سگی بیٹی ہے۔ اگر وہ سچائی بتا دے گی تو ہو سکتا ہے مامی کی چالیں ایسی ہوں کہ ماموں یقین نہ کریں۔ اگر بالفرض وہ یقین کر بھی لیں تو اس سے اس کو کیا فائدہ ملے گا۔ ماموں کا گھر برباد ہو جائے گا۔ وہ بےسکون ہو جائیں گے اور زہنی کرب میں مبتلا ہو جائیں گے تو بہتر یہی ہے کہ اب جیسا چل رہا ہے ویسے ہی چلنے دے۔

ماموں اس سے بہت پیار کرتے ہیں وہ اس کی طرف سے پریشان بھی ہوں گے۔

عمرہ نے وٹس ایپ پر ان کو میسج کیا کہ وہ یہاں ایک بہت خوبصورت اور بڑے گھر میں سب کی توجہ و محبت کے ساتھ بہت خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے۔

عمرہ نے دیکھا، ماموں نے میسج سین کر کے پڑھ لیا تھا۔

عمرہ میسج کر کے مطمئن سی ہو گئی کہ اب چلو ماموں کو اس کی طرف سے اطمینان تو ہو گیا ہو گا۔

گھر میں شایان اور سحرش کی شادی کی تیاریاں بھی ہونے لگی تھی۔

عمرہ ماموں کے فون کے بعد چھپ کر لان میں بہت روتی رہی۔

گھر کے کاموں کے دوران اداس اداس سی رہی۔ شایان نے نوٹ کر لیا۔

وہ کچن میں برتن دھو رہی تھی کہ وہ پانی پینے کے بہانے اس سے اداسی کی وجہ پوچھنے لگا۔

عمرہ نے ماموں والی سب بات اسے بتا دی۔ اچانک شایان کی بہن ادھر بچے کا فیڈر بنانے آئی تو دونوں کو باتیں کرتے دیکھ کر ٹھٹک سی گئی۔

بڑے جانچنے والی نظروں سے گھور کر بولی، شانی تم ادھر ملازمہ سے کیا باتیں کر رہے ہو۔

شایان زرا گھبرا گیا فوراً بولا میں چائے کا پوچھنے آیا تھا۔

بہن نے غصہ دباتے ہوئے کہا کہ وہ شام کو بنتی ہے ابھی پونے تین ہوئے ہیں۔

عمرہ کو ڈانٹ کر بولی، جاو اسے یہ فیڈر بچے کو جا کر پلاو۔

شایان نے ٹوکتے ہوئے بہن سے کہا، کہ آپ اسے اس طرح کیوں بلاوجہ ڈانٹ رہی تھی۔ سارا دن تو وہ سب کی خدمتوں میں لگی رہتی ہے پھر بھی آپ اسے بلاوجہ ڈانٹ کر زیادتی کرتی ہیں۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ آپ اس کو بات بات پر زلیل کرنے لگی ہیں۔

شایان کی بہن دبے غصے سے بولی، اور میں نوٹ کر رہی ہوں کہ تم اس پر کچھ زیادہ ہی توجہ دینے لگے ہو۔ ہر وقت تمہارا دھیان اسی کی طرف رہتا ہے۔ میری ساس نے بھی نوٹ کیا اور میں سخت شرمندہ ہوئی۔

شرم کرو تمہاری شادی ہونے والی ہے اور تم اس دو ٹکے کی نوکرانی کے آگے پیچھے پھرتے رہتے ہو۔ اس نیچ کے لیے اپنی بہن سے الجھ رہے ہو۔

شایان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔

اس نے بہن کو غم و غصے سے کہا کہ آپ کسی کو بھی دو ٹکے کی نہیں کہہ سکتے نہ ہی وہ دو ٹکے کی ہے نہ ہی وہ نیچ ہے۔

خوبیوں کے لحاظ سے وہ کروڑوں، کھربوں کی عزت کے قابل ہے۔

شور سنکر شایان کی ماں آ گئی۔ آخری بات اس نے بھی سن لی تھی۔

شایان غصے سے باہر نکل کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

عمرہ نے دیکھا وہ کافی پریشان سا لگ رہا تھا۔ اسے فکر ہونے لگی۔

وہ کمرے سے نکلی، فیڈر کچن میں رکھی۔ دیکھا سب لوگ شاید اکھٹے کمرے میں کوئی بات کر رہے ہیں۔

عمرہ نے سوچا، شایان اس کی اتنی فکر کرتا ہے۔ وہ اداس تھی تو صرف اس نے محسوس کیا اور پوچھا۔ چلو وہ بھی اس سے پریشانی کا سبب پوچھے۔

شایان کمرے سے نکلا تو وہ پوچھنے لگی تو شایان نے اسے لان میں آنے کا بولا۔

عمرہ حیران و پریشان سی پیچھے چل پڑی۔

شایان نے اسے جاتے ہی اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر جزباتی انداز میں کہا کہ وہ بہت مجبور ہو کر یہ بات کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ وہ اس سے پہلی بار میں ہی پسند کرنے لگا تھا اور اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔

عمرہ نے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور اسے غم و غصے سے کانپتے ہوئے بولی، تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ تم اتنی گھٹیا بات مجھ سے کرو گے تو میں خوش ہو کر اپنی جگری دوست کے حق پر ڈاکہ ڈال کر تمہاری محبت کا دم بھروں گی۔

مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں ایسا نہیں سمجھتی تھی۔ تمہاری شادی ہونے والی ہے۔ سحرش تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہی ہے اور ایک تم ہو کہ ادھر اس کے ساتھ دھوکہ کر رہے ہو۔

شایان غم سے نڈھال انداز میں بولا، میں جانتا تھا کہ تم میرے ساتھ ایسا ہی کرو گی مگر خود سوچو، اگر میں اس سے شادی کر کے دل میں کسی اور کو بساے رکھوں تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ ابھی شادی ہوئی تو نہیں ہے ناں۔

وہ پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی ہے اسے کوئی بھی اچھا لڑکا مل جائے گا۔

مگر میں اس سے جھوٹی محبت کے سہارے زندگی بتانے کے لیے یہ نہیں کر سکتا۔

وہ تقریباً روتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں بولا، خدا کے لیے عقل سے سوچو۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا نہ ہی تمہیں کسی اور کا ہوتا دیکھ سکتا ہوں۔ میں تمہارے بغیر مر جاوں گا۔

عمرہ روتے ہوئے بولی، سیف تمہارا جگری دوست ہے اس کے بارے میں سوچو۔ اس کی بہن کو تم ٹھکراو گے تو اس کے دل پر کیا بیتے گی۔

ایک لڑکی کی شادی ٹوٹ جائے تو اس پر کیا بیتی ہے۔ اس کے والدین زندہ درگوں ہو جاتے ہیں۔ اس لڑکی کو دب شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کوئی اس لڑکی کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ میں تمہیں اپنی پیاری دوست کی زندگی برباد نہیں کرنے دوں گی میں تمہیں کھبی معاف نہیں کروں گی۔

تم سحرش کا سچی دوستی پر سے اعتبار توڑنا چاہتے ہو۔سیف مجھے بہن کا درجہ دیتا ہے وہ بھی یہ سوچے گا کہ میں نے اس کی مدد کی اور اس نے احسان فراموشی کی۔ مجھے اپنے گھر والوں کی نظروں میں گرانا چاہتے ہو۔ سب کی نظروں میں گھٹیا بنانا چاہتے ہو۔

شایان بولا، ایسا کچھ نہیں ہو گا اب وہ زمانہ نہیں رہا۔

سب کو عقل سے کام لے لینا ہوگا اور میری مجبوری اور بےبسی کو سمجھنا ہوگا۔ تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا نہ میں کہنے دوں گا۔ میں سیف کو سمجھا لوں گا وہ میرا دوست ہے۔ بس تم مان جاو۔ جب تک سحرش کا اچھی جگہ رشتہ نہ ہو جائے ہم شادی نہیں کریں گے۔

پرامس ہے میرا تم سے۔

عمرہ نے صاف لفظوں میں پرزور انداز میں کہا، کہ اگر اس نے سحرش سے شادی نہ کی تو وہ اپنے آپ کو ختم کر لے گی۔

وہ التجایا لہجے میں بولا، اتنی ظالم نہ بنو۔ میں نہ خود خوش رہوں گا نہ ہی اسے خوش رکھوں گا۔ ایک زندہ لاش بن کر رہ جاوں گا۔ ایک زندہ لاش کے ساتھ اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہو۔

عمرہ بولی، اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ سحرش کے ساتھ شادی ہوتے ہی تم سب بھول جاو گے۔ اور مجھے امید ہے کہ سحرش تمہیں بہت خوش رکھے گی۔

اس نے ہاتھوں کو اس کے سامنے جوڑتے ہوئے روتے ہوئے منت بھرے لہجے میں کہا کہ پلیز اس کی بات مان لو۔

اتنے میں دونوں نے دیکھا سب ان دونوں کو بغور دیکھ رہے تھے۔

لگتا تھا ان سب نے ان کی باتیں سن لی ہیں۔

جاری ہے۔

ناول۔ قسط۔ 5

عمرہ حیران پریشان سب کو دیکھنے لگی۔

بہن نے گرج کر کہا، تم اس کے ساتھ کیا کر رہے ہو۔

شایان نے جب سب کو دیکھا اور عمرہ کی طرف دیکھا اور ماں باپ سے بولا۔ سب سن لیں میں عمرہ سے پیار کرتا ہوں اور میں اس سے ہی شادی کروں گا سحرش کے ساتھ بے انصافی ہو گی کیونکہ میں اسے خوش نہیں رکھ سکتا۔

باپ آگے بڑھا اور ایک تھپڑ اس کے مار کر بولا، تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ ہم تمہاری شادی ایک نوکرانی سے کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔ ساری زندگی تمہیں کنوارا رکھنا منظور ہے مگر اس دو ٹکے کی لڑکی۔۔۔۔

اتنے میں سیف اچانک سے آ گیا اس نے حیرت سے دیکھا،اور شایان سے بولا، یار شانی یہ سب کیا ہے۔ اور عمرہ تمہیں تو میں بہن سمجھتا تھا اور تم تو سحرش کی بیسٹ فرینڈ تھی۔ پیچھے سے سحرش کی ماں نظر آئی اور بولی، یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

نورین کو بلاو اسے لیکر ابھی نکل جائے اس گھر سے۔ شایان کی ماں نے گرج کر کہا۔ اور سیف اور اس کی ماں سے بولے، اس لڑکی ہماری غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اس گھر کی بہو بننے کے خواب دیکھ لیے ہیں۔ ابھی اس کو نکال کر اس کے خوابوں کی تعبیر دیتے ہیں۔

نورین ہانپتی کانپتی آئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی، یہ میری کچھ نہیں لگتی ہے مجھے نوکری سے نہ نکالیں۔ ہم کدھر جائیں گے۔ پھر اس نے روتے ہوئے ساری سچائی بتا دی۔

شایان کی بہن کے سسر بولے، آپ اسے میری کسٹڈی میں دے دیں۔ میں اسے اس کے ماموں کے گھر چھوڑ آتا ہوں۔

عمرہ روتے ہوئے بولی، سیف بھائی میں خواب میں بھی سحرش کا گھر برباد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔

شایان کی ماں نے اسے بالوں سے پکڑ لیا اور مارنے لگی۔

شایان جو بےہوش ہو چکا تھا۔

سب کو اس کی پڑ گئی۔اسے ہاسپٹل لے گئے۔

ہاسپٹل میں ڈاکٹر نے کہا کہ شدید سٹریس میں مبتلا ہے۔

سب اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتے رہے۔ سیف اس کا دل بہلاتا رہا اور یقین دلاتا رہا کہ وہ اس سے ناراض نہیں ہے۔ بس اس سے ریکویسٹ کرتا ہے کہ شادی نہ توڑے، کیونکہ سارے خاندان میں بدنامی ہو جائے گی کیونکہ شادی اٹینڈ کرنے امی کی کزن بھی یوکے سے آ چکی ہیں۔ بھول جاو تم عمرہ کو۔

تمہارے گھر والے اسے کھبی قبول نہیں کریں گے۔

شایان نے جب دیکھا کہ سیف منتیں کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے ایک بار شادی کر کے ہماری عزت لاج رکھ لے چاہے اسے خوش رکھ یا نہ رکھ۔ آگے اس کی قسمت۔

شایان سیف کے سمجھانے پر مان گیا اور دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ بعد میں وہ عمرہ سے خفیہ شادی کر کے اسے الگ رکھے گا اور مناسب وقت میں سب کو بتا دے گا۔

عمرہ نے گھر والوں سے کہا میں اپنے گاؤں دادی کے گھر جا رہی ہوں۔

شایان کی ماں اور بہن بولیں، ہماری طرف سے جہنم میں جاو۔

دونوں ماں بیٹی اسے صلواتیں سنانے لگیں۔

وہ روتی ہوئی باہر نکلی، بیگ کندھے پر اٹھایا ہوا تھا۔

شایان کی بہن کے سسر واش روم سے نکلے تو ان کی بیوی افسوس کرتے ہوئے بولی، میری بہو کے گھر والے کتنے گھٹیا خیالات رکھتے ہیں۔ اس مجبور لڑکی پر کتنا ظلم کرتے ہیں۔ آپ بہو کو ادھر ہی چھوڑیں۔ ایسی خیالات والی بہو پر افسوس ہوتا ہے۔ اگر اس کا بچہ نہ ہوتا تو ہم اسے طلاق دلوا دیتے۔ یہ تو ہماری ساری نسل خراب کر دے گی۔

میں اپنے بیٹے کی اور شادی کروں گی اور عمرہ کو اپنی بہو بناوں گی۔ جو ایک ہیرا ہے۔ پلیز اسے جا کر دیکھیں وہ کہاں جا رہی ہے اور میں سامان پیک کرتی ہوں ہم ہوٹل میں رہ لیں گے مگر ان گھٹیا لوگوں میں نہیں رہیں گے۔

اس کے شوہر نے گاڑی کی چابی اٹھائ اور تیزی سے باہر نکل گئے۔

شایان کی ماں نے ساری باتیں سن لیں اور بیٹی اور شوہر کو سب بتا دیں۔

بیٹی نخرے سے بولی۔ جانے دیں موم انہیں۔ ان کا بیٹا آئے گا تو میں اسے بتاوں گی کہ اس کے والدین ان کے گھریلو معاملات میں انٹرفیس کرتے ہیں وہ خود سیدھا کر لے گا انہیں۔

عمرہ سوچ رہی تھی کہ یااللہ میں تجھ پر ہی بھروسہ کرتی ہوں۔ اس وقت دنیا میں میرا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے۔ صرف تو ہی ساتھ ہے۔ مجھے اس آزمائش سے نکالنے والا تو ہی ہے۔ میں تجھ سے ہی مدد چاہتی ہوں۔ میں اکیلی گاوں رہنے جا رہی ہوں۔ تو میری غیبی مدد کرنا۔ روتی ہوئی آٹو تلاش کرتی مین سڑک پر آ گئ۔

راہ چلتے لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اس نے محسوس کیا اور آنکھیں صاف کرنے لگی۔

پاس ہی گاڑی رکی اور ہارن بجا تو اس نے دیکھا سامنے شایان کی بہن کے سسر کھڑے ہوئے تھے۔

وہ گاڑی سے اتر کر تیری سے آے اور اسکا بیگ چھین کر گاڑی میں رکھا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کا بولا

عمرہ نے کہا، انکل میں واپس نہیں جاوں گی میں گاوں جاوں گی۔

وہ تیزی سے بولے ٹھیک ہے جہاں تم چاہو جانا ہم تمہیں چھوڑ دیں گے میں تمہاری آنٹی کو لے آوں۔ تم گاڑی میں بیٹھو۔

وہ بوجھل قدموں سے چلتی ہوئی گاڑی کا پچھلا ڈور کھول کر بیٹھ گئی۔

اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ کم سے کم وہ گاوں تو پہنچ سکے گی۔

شایان کی ماں اور بہن نے ان لوگوں کو رسمی سا روکا مگر وہ نہ رکے۔

عمرہ نے کہا، انکل آپ مجھے بس اسٹاپ پر چھوڑ آئیں، میں بس سے چلی جاوں گی مگر وہ نہ مانے۔

جب گاوں کا نام عمرہ نے بتایا تو وہ چونکے۔ اور بولے، میں بھی اسی گاوں کا ہوں۔

بیوی خوش ہو کر بولی، چلو اچھا ہے آپ بھی اپنے والدین اور سابقہ بیوی کی قبر پر فاتحہ خوانی پڑھ لیں گے۔ میں تو بدقسمت اپنے ساس سسر سے ملاقات نہ کر سکی۔

عمرہ خیالوں میں کوئی ہوئی تھی تو انکل شعیب کی بیوی نے انہیں اسے زیادہ باتیں کرنے سے منع کر دیا کہ وہ اس وقت ڈسٹرب ہے۔

بیوی نے کہا، کہ کھانے پینے کا کافی سامان خرید لیتے ہیں کیا پتا گاوں میں کچھ ملے نہ ملے۔

شوہر نے کہا بلکل ٹھیک کہا۔ وہ ایک مارٹ میں چلا گیا۔

جاری ہے۔

شعر۔

بہت بے رحم ہوتے ہیں یہ دل کے جزبے

نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی ہوتی ہے۔

قسط۔ 6

ابھی عمرہ لوگ تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ شایان کے باپ کا فون آ گیا انہوں نے بہت معزرت کی اور اپنی بیوی اور بیٹی کی طرف سے بھی سوری بولا، اور کہا، کہ ہماری بیٹی آپ لوگوں کے پاوں پکڑ کر معافی مانگے گی۔

بیوی نے بھی فون پر سوری بولا۔

عمرہ کے بارے میں انہوں نے کہا، کہ ہمیں ملازم نے بتایا تھا کہ وہ آپ کی گاڑی میں ساتھ جا رہی تھی۔

عمرہ کو سیف کی ماں اپنے گھر لے کر جانا چاہتی ہے۔ اسے اس سے ہمدردی ہو گئی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ اسے بیٹی بنا کر رکھے گی۔ سحرش کے جانے کے بعد وہ اکیلی ہو جائے گی۔ سحرش کو بھی اس سے کوئی گلہ نہیں اور نہ ہی اس کی دوستی میں فرق آیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ اسے جانتی ہے کہ وہ ایسی نہیں ہے۔

وہ اب بھی اسے دوست مانتی ہے۔

عمرہ گھر واپس آئی تو سیف اسے لینے آیا ہوا تھا۔ وہ شایان کی بہن کے ساس سسر کی ممنون تھی۔

شایان کی بہن کے شوہر نے جب بیوی کو فون کیا اور والدین کا پوچھا تو بیوی نے نحوت سے بتایا کہ وہ اکڑ کر چل پڑے ہیں ہم نے بھی نہیں روکا۔

یہ سنتے ہی وہ ہتھے سے اکھڑ گیا، اس نے بیوی سے کہا کہ میرے والدین کو راضی کرو ورنہ طلاق کے لیے تیار ہو جاو۔ ان سے معافی مانگو۔

شایان اور اس کے باپ کو جب ساری صورتحال کا پتا چلا تو پہلے ان دونوں نے ان کی خوب کلاس لی۔ پھر رشتے کی نزاکت کا احساس دلایا تو اس کی ماں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، جب داماد سیدھا ہوا تو شایان کی ماں نے بیٹی کو سمجھایا کہ گھر بچانے کے لئے تمہیں ان لوگوں کے پاوں تک پکڑنے پڑیں گے ورنہ داماد جس طرح ایکٹ کر رہا ہے وہ جو کہہ رہا ہے کر بھی دے گا۔

شایان کے والد نے بیوی سے معزرت کرنے کا کہا،اس نے بہت معزرت کی۔ اور بیٹی کو پاوں پکڑنے کا کہا، اس کے ساس سسر نے معاف کرتے ہوئے پاوں پکڑنے سے منع کر دیا۔

عمرہ کو سیف بائک پر لینے آیا ہوا تھا۔ سیف نے اس سے سارے راستے کوئی بات نہ کی بس سنجیدہ اور اکڑا رہا۔

سحرش اور اس کے والدین نے اس کو بہت عزت اور پیار دیا۔

سحرش کی موم کی کزن جو یو کے سے آئی تھی وہ بھی بہت تپاک سےملی۔ اس کے بیٹے نے بھی سسٹر کہہ کر حال احوال پوچھا۔

دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں شروع تھیں۔

عمرہ  سحرش کے ساتھ روم میں رہ رہی تھی۔

عمرہ نے جب سحرش کو معزرت کرتے ہوئے صفائی پیش کی تو سحرش نے بڑی خوش دلی سے اس کا گال کھینچتے ہوئے کہا کہ یار اگر تم شایان سے شادی کر لیتی تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔

عمرہ نے گھر کے کام کاج سنبھال لیے تھے جس سے سحرش اور اس کی آنٹی بہت خوش تھیں کیونکہ وہ بیسٹ فرینڈز بھی تھیں اور آپس میں گپ شپ میں مصروف رہتی تھیں۔

عمرہ کے ماموں اسی دن فلائٹ پکڑ کر پاکستان واپس اچانک آ گئے جب ان کی بیوی نے بتایا کہ ان کی بھانجی کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ اور اس کا پہلے سے بھی کسی کے ساتھ چکر چل رہا تھا مگر انہیں پتا نہیں تھا جب پتا چلا تو اسے منع کیا تو وہ گھر سے اس کے ساتھ بھاگ گئی۔

عمرہ کے ماموں بہت دل برداشتہ ہوئے۔

عمرہ کا جب فون آیا تو وہ بھرے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کو اپنی بہن کا وقت یاد آ گیا اس نے بھی تو یہی کیا تھا۔ شاید ان کی بیوی صیح کہتی ہے جیسی ماں ویسی بیٹی۔

عمرہ کی ماں بھی کالج میں کسی کو پسند کرتی تھی اس نے ماں کو بتایا تو اس نے شوہر کو بتایا تو شوہر نے کہا کہ وہ اسکا رشتہ اپنے دوست کے بیٹے سے پکا کر آئے ہیں۔ انہوں نے صاف انکار کردیا تو عمرہ کی ماں نے اس کے ساتھ کورٹ میرج کر لی۔ جب اس نے ماں کو فون کرکے بتایا تو اس نے شوہر کو بتایا تو شوہر نے جواب دیا کہ وہ ہمارے لیے مر گئی ہے۔

عمرہ کا باپ اسے لیکر اپنے گاؤں والدین کے پاس لے گیا۔ انہوں نے تھوڑا بہت سنا کر اسے قبول کر لیا۔

وہ عمرہ کی ماں کو والدین کے پاس چھوڑ کر شہر نوکری کرنے چلا گیا۔ عمرہ کی ماں گاوں کی زندگی کی عادی نہ تھی۔ وہ بہت پچھتائ مگر شوہر نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اسے ہمیشہ والدین کے ساتھ رکھے گا۔ اگر منظور ہے تو ٹھیک ورنہ طلاق لے لو۔

اس نے ماں کو فون کیا تو ماں بولی، ہم تو قبول کر لیں، لیکن تمہاری بھابھی نہیں کرے گی اسی دوست کی بیٹی کو تمہارے بھائی کے لیے بیاہ لاے ہیں جو روایتی بہو ہے۔ تمہارا بھائی خوش ہے۔ بہو سے زکر کیا تھا مگر اس نے کوئی خاص رضامندی نہیں دکھائی۔ ہم خود بہو بیٹے کے رحم و کرم پر ہیں۔ بس وہیں گزارا کرو۔

ادھر شوہر مہینے میں دو چکر لگاتا۔ اسے خاص اہمیت نہ دیتا۔ وہ روتی تنگ پڑتی۔ اس کی پریگنیسی میں اس کو شہر نہ لے کر جاتا۔ کہتا ،میری ماں نے بھی مجھے ادھر ہی جنم دیا ہے تم کوئی دنیا کی نیاری چیز نہیں ہو۔

وہ کہتی میں ان چیزوں کی عادی نہیں ہوں۔ ساس الگ اسے طعنے دیتی۔

عمرہ بھی گاوں کے ایک چھوٹے سے کلینک میں پیدا ہوئی۔

عمرہ کی پیدائش پر ساس نے بیٹی ہونے کے طعنے دیے۔

وہ رونے لگی، بولی اتنا ظلم نہ کریں۔

دادا دادی جع اس کی پیدائش پر ناخوش تھے اب اس پر واری صدقے جاتے۔ دادی اسے ہر وقت گود میں اٹھائے رکھتی۔

عمرہ کے باپ کو اطلاع کر دی گئی وہ نارمل رہا۔

بمشکل دو تین ماہ کی بیٹی تھی کہ قیامت کی خبر آ گئ کہ عمرہ کا شوہر اچانک ہارٹ اٹیک سے فوت ہو گیا۔

عمرہ اور اس کے ساس سسر پر قیامت بیت گئی۔

عمرہ نے بھائی کو اس سانحے کا فون کیا تو بھابھی نے اٹھایا وہ واش روم میں تھا۔

بھابھی نے کہا، تمہارے بھائی تم سے بہت ناراض ہیں اور غصے میں ہیں کہتے ہیں کہ تم سامنے آئی تو گولی مار دیں گے اور اپنے آپ کو بھی ختم کر دیں گے۔

عمرہ کی ماں بےبسی محسوس کرنے لگی۔ کیونکہ گاوں کا چودھری جس کی پہلے ہی دو بیویاں تھی اس کے پیچھے پڑ گیا اور شادی کرنے کا پیغام بھیجا۔

عمرہ کو ساس سسر نے کہا کہ تم اپنے والدین کے پاس چلی جاو، یا پھر چودھری سے شادی کر لو۔

عروہ کی ماں سے ساس سسر نے کہا کہ تم اکیلی پہلے جاو بیٹی کو ہمارے پاس چھوڑ جاو۔ جب مان گئے تو بیٹی لے جانا۔

وہ والدین کے گھر گئ ماں نے دروازہ کھولا، اسے دیکھ کر جزباتی ہو گئی۔

گلے لگا کر خوب روئی۔ عمرہ کی ماں بھی روتی رہی۔ عمرہ نے باپ سے معافی مانگی۔ تو باپ نے معاف کر دیا۔

بھابھی سب کے سامنے اچھی بنی رہی۔ شام کو بھائی آیا تو عمرہ نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تو بھائی نے معاف کر دیا۔

بھابھی کی نہ چل سکی۔ بچی کا سب نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہے دادا دادی کی جان ہے ان کے بیٹے کی وفات کے بعد اب وہی ان کا سہارا ہے۔

عمرہ واپس جانے لگی تو سب نے روک لیا کہ اب تم وہاں نہیں جا سکتی کیونکہ شوہر تمہارا فوت ہو چکا ہے۔

عمرہ نے کہا کہ بچی کو تو لے آوں۔

ادھر وہ بچی کو لینے بھائی کے ساتھ گئی تو دادا دادی نے بہو کی منتیں شروع کر دیں کہ اب یہی ہمارا سہارا ہے۔ دادی نے کہا، تم تو جوان ہو اور شادی کر لینا۔ پھر دادی اس کے پاوں پڑ گئی کہ اسے بھول کر اپنی نئی زندگی شروع کرو۔

عمرہ کے دادی نے پاوں پکڑ لیے۔

بھائی نے کہا، اتنی ظالم نہ بنو۔

عمرہ مجبور ہو گئی۔

بھابھی نے دیکھا کہ وہ تو اب سب سے راضی ہو چکی ہے اس کی جلد شادی کروا کر اس سے چھٹکارا پا لیا جائے۔

شوہر نے بھی اجازت دے دی کہ اچھا رشتہ ڈھونڈ لو۔

وہ سب بڑی عمر کے بتاتی، جن کی بیوی فوت ہو چکی تھی یا ویسے ہی پیسے کے بل بوتے پر دوسری شادی کرنا چاہتے تھے۔

عمرہ کی ماں انکار کر دیتی۔

آخر عمرہ کی ماں کا ایک رشتہ جوان لڑکے کا آ گیا مگر اس کے دو بچے تھے ایک بیٹا اور ایک عمرہ جتنی چند ماہ کی بچی۔

عمرہ کی ماں نے عمرہ کی محبت میں جھٹ اس رشتے کو قبول کر لیا کہ بچی کی ماں پیدا کرتے ہی فوت ہو چکی تھی۔

عمرہ بچی کو بہت یاد کرتی مگر دادا دادی کہیں اسے لے کر چلے گئے تھے اور وہ آس پڑوس سے بھی پوچھ چکی تھی مگر کسی کو علم نہ تھا۔

عمرہ کی ماں پچھتا رہی تھی کہ کیوں ان پر ترس کھایا۔

عمرہ کے نانا نانی فوت ہو گئے۔ عمرہ کی ماں نے ان بچوں کو ماں کی طرح پیار کیا۔

شوہر تو اس کا دیوانہ بن گیا۔

ایک دن وہ میکے آئی تو بچوں کی آپس میں بھابھی کے بچوں سے لڑائی ہو گئی۔

بھابھی نے اسے بہت سنانا شروع کر دیا اور پچھلی باتوں کے طعنے دینے شروع کر دیے۔

نہ جانے بیوی نے اسے کیسے مظلوم بن کر عمرہ کی ماں کی شکایتیں لگائیں کہ بھائی نے بہن کو سنانا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہہ دیا کہ خود تو آو مگر ان بچوں کو باپ کے پاس چھوڑ آیا کرو۔

عمرہ کی ماں کو بہت دکھ ہوا اس نے کہا، جہاں میرے بچے نہ آ سکیں وہاں میں کیوں جاوں۔اسکا شوہر بھی نہیں آتا تھا کیونکہ بھابھی نے کچھ اس کے خلاف ایسا بھرا تھا کہ وہ بہنوئی سے ملا تک نہیں، نہ ہی شادی میں شریک ہوا۔

بھابھی اچھی بن کر اسے رخصت کرنے گئ اور سلامی وغیرہ دے آئی۔

واپس آ کر بہت جھوٹ بولے، کہ ان لوگوں نے اسے نظر انداز کیا کوئی لفٹ نہ کرای کوئی عزت نہ کی۔ بس وہ نند کی محبت میں ڈھیٹ بن کر بیٹھی رہی اور چپ کر کے بغیر کھانا کھاے واپس آ گئ کسی نے کھانے کا بھی نہیں پوچھا۔

اس کے شوہر کے دل میں بہن اور بہنوئی کے لیے غم و غصہ بھر گیا۔

حقیقت اس کے برعکس تھی اس کی سب سے زیادہ عزت افزائی کی گئی اور عزت سے کھانا کھلایا گیا۔ اور اس نے ڈٹ کر کھایا۔

گھر آ کر روتی صورت بنا کر بولی، مجھے کھانے کی بھوک نہیں، بس ایک کپ چائے پی لوں ان کے رویہ سے سر بھاری ہو رہا ہے۔

بھابھی کے ناروا رویے اور بھائی کا اس کے شوہر سے نہ ملنا اور اسے اہمیت نہ دینا دکھی کرتا۔ آخر اس نے ان سے باطہ توڑ لیا۔ گھر بدل لیا اور فون نمبر چینج کر دیا۔

بھائی کو ایک دن بہن کا احساس جاگ گیا۔ اس نے بیوی سے کہا کہ اب ہمیں بہن کے شوہر کو عزت دینی چاہیے اور قبول کرنا چاہیے۔

بیوی جو اس بارے میں جانتی تھی کہ عمرہ کی ماں نے اس آس پر فون کیا تھا کہ وہ اب اس وقت تک ادھر نہیں آئے گی جب تک اس کے شوہر اور بچوں کو عزت سے قبول نہیں کیا جاتا ورنہ وہ ہمیشہ کے لیے ناطہ توڑ کر دور چلی جائے گی۔

بھابھی نے جھٹ جواب دیا تم چاہے کچھ بھی کر لو تمہاری ڈیمانڈ کھبی پوری نہیں ہو گی۔ ہماری بلا سے جہنم میں جاو۔

بھابھی کو یہ بھی ڈر تھا کہ اسکا شوہر بہن کو جائداد میں سے حصہ نے دیتا رہے۔

عمرہ کی ماں نے سیف اور سحرش کی پرورش اپنی اولاد کی طرح کی۔

جاری ہے۔

ناول۔ قسط۔ 7

عمرہ نے شادی سے کے بعد شوہر کو اپنی بیٹی کے بارے میں بتا دیا۔ ابھی وہ اسکا نام بھی نہیں رکھ پائی تھی۔

شوہر بہت اچھا ثابت ہوا اس نے عمرہ کی ماں سے کہا، جب تم میرے بچوں کو اتنے پیار سے پال سکتی ہو، جس کی وجہ سے تم نے اپنے بھائی سے ناطہ توڑ لیا، تو تمہاری بچی میری بچی ہے میں اسے باپ کا پیار دوں گا۔

عمرہ جب گاوں بچی سے ملنے گئی تو وہاں پر تالا لگا ہوا تھا۔

پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ لوگ یہ گھر بیچ کر چلے گئے ہیں کسی سے مل کر بھی نہیں گئے۔ صبح جب ایک پڑوسی مسجد جا رہا تھا اسے بتایا اور یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔

عمرہ کی ماں بہت روئی تڑپی۔ مگر وہ لوگ کافی ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے۔

آخر شوہر کے سمجھانے پر اس نے صبر کر لیا اور سارا پیار سحرش اور سیف پر لٹا دیا۔ سحرش لگ بھگ اس کی بیٹی کی عمر کی تھی۔ اسے سحرش میں اپنی بیٹی نظر آتی۔ باپ اکثر بیوی کی قبر پر جاتا بچوں کو بھی لے کر جاتا۔ عمرہ کی ماں انہیں بتاتی کہ یہ بڑی ماما ہیں اور میں چھوٹی۔

شعور کی عمر کو پہنچ کر بچوں کو سچائی کا علم ہو گیا مگر دونوں بچے اس ماں سے اتنی انسیت رکھتے تھے کہ سگی ماں کی طرح پیار کرتے تھے۔

سحرش تو  چند ماہ کی پلی ہی اس کی گود میں تھی۔ سیف کو تھوڑی بہت یاد تھی۔ شوہر بیوی کا بہت ممنون تھا اور اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ جس نے آ کر اس کی زندگی سنوار دی تھی۔ وہ بہت مطمئن تھا۔ اور اسے کھبی کھبی دکھ بھی ہوتا کہ وہ اس کی وجہ سے اپنے بھائی سے دور ہو گئی ہے۔

وہ اکثر اسے بھائی سے ملنے کا اسے کہتا، مگر وہ کہتی جہاں میرے شوہر اور بچوں کی جگہ نہیں میں وہاں کیونکر جا سکتی ہوں۔ میرا آپ لوگوں کے سوا کوئی نہیں۔ آپ اور بچے ہی میری دنیا ہیں۔ آپ نے مجھے عزت دی سہارا دیا ورنہ یہ دنیا مجھے طعنے دے دے کر جینے نہ دیتی۔ اس نے شوہر سے کچھ نہیں چھپایا۔

نادانی میں لڑکیاں ایسا قدم اٹھا کر بعد میں پچھتاتی ہیں۔ اور لڑکا بھی برابر کا قصور وار ہوتا ہے جو اسے ورغلاتا ہے۔ اگر وہ اس کی عزت بن ہی جاتی ہے تو پھر طعنے دے کر اس کا اور اپنا سکون تباہ نہ کرے۔ اگر لڑکا غلط نکلے تو وہ کوٹھے پر بھی پہنچا دیتا ہے اس لیے لڑکی کو کھبی کسی لڑکے کی محبت پر یقین کر کے اس کے ساتھ بھاگ کر شادی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ والدین سے بڑھ کر کوئی دنیا میں سچا پیار کرنے والا نہیں ہے۔ والدین کھبی اولاد کا برا نہیں سوچتے۔

عمرہ کی ماں اکثر اپنی بیٹی کو یاد کرتی رہتی۔ وہ اسے پیار سے میری پری کہتی۔ وہ سوچتی وہ پری تھی اسی لئے اڑ گئی۔

عمرہ کے دادا دادی نے اسے یہی بتایا کہ اس کی ماں نے بھاگ کر اس کے باپ سے شادی کی تھی اس لیے وہ اس کے گھر والوں کو نہیں جانتے۔ تمہاری پیدائش کے وقت وہ فوت ہو گئ تھی ایک بھائی آیا تھا جنازے پر۔ اس کے بعد دوبارہ نہیں آیا۔

تمہارا باپ بھی تمہاری پیدائش کے تھوڑے عرصے بعد فوت ہو گیا تھا۔

عمرہ پوچھتی کہ کوئی میری ماں اور باپ کی تصاویر نہیں ہیں۔ وہ باپ کی تو دکھا دیتے مگر ماں کی کہتے کہ نہیں ہے۔ وہ انہوں نے چھپا دی تھیں کہ کہیں یہ سر راہ ماں نظر آنے پر ماں کے پاس نہ چلی جائے اور ہمیں چھوڑ جائے۔ عمرہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس کے گاوں سے چالیس کلومیٹر دور کالج تھا وہ دادا کے ساتھ روز بائک پر جاتی اور وہ لینے آتے۔

دادی مر گئی اور سچائی بتانے کی ہمت دونوں میں نہ تھی۔ دونوں َاس ڈر سے کچھ نہ بتاتے تھے کہ وہ ہم سے نفرت کرنے لگے گی۔ اور انہیں چھوڑ نہ جائے۔

بیوی کے مرنے پر دادا غم سے نڈھال تھا۔ وہ اب اکثر بیمار رہنے لگا تھا۔ اس کی پنشن سے گھر کا راشن چلتا تھا۔ جہاں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے وہ لوگ یوکے رہتے تھے۔ پاس انہوں نے ایک خوبصورت گھر اپنی رہائش کے لئے بنایا ہوا تھا۔ اس کے دادا کو ادھر چوکیدار رکھا ہوا تھا۔ بہت خدا ترس لوگ تھے۔ ان کی بہت مدد امداد کرتے تھے۔

جب وہ لوگ آتے تو عمرہ اور دادی ان کے گھر کے کام کاج کو دیکھ لیتی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ عمرہ کو پڑھنے کا شوق ہے اس لیے وہ اس کی پڑھائی کے اخراجات پورے کرتے تھے۔

ایک دن  عمرہ دادا کو ہاسپٹل لے کر گئی۔ ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔

اتفاق سے عمرہ کے ماموں بھی ادھر آئے ہوئے تھے۔ دادا کو دیکھ کر انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ ان کو کہاں دیکھا ہے پھر پاس کھڑی عمرہ میں بہن کی شبہات نظر آئی۔ تو قریب جا کر انہوں نے اس کے دادا سے اپنا تعارف کروایا تو وہ فوراً پہچان گئے اور منت کرنے لگے کہ عمرہ کو ہم نے بتایا ہے کہ وہ مر چکی ہے تمہاری پیدائش پر۔ میرے مرنے کے بعد اسے سچائی بتا دینا۔ اور اسے ساتھ لے جانا تاکہ مجھے سکون ہو کہ میرے بعد اسکا کیا ہو گا۔ ماموں نے بھی سب سچائی بتا دی کہ ابھی تک وہ بہن کو تلاش کر رہے ہیں بہتر ہے عمرہ کو سچائی نہ بتای جائے ورنہ وہ بھی ایک نیے دکھ سے آشنا ہو جائے گی اور تڑپتی رہے گی کہ کاش اس کی ماں مل سکے۔ وہ آنسو بہاتے رہے۔ دادا معافیاں مانگتے رہے۔ دونوں روتے رہے۔

ماموں نے ان کے بڑھاپے کا خیال کرتے ہوئے ان کو معاف کر دیا اور تسلی دی اور عمرہ نرس کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے ان کی حالت کا پوچھنے چلی گئی تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ کہ کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے میں آپ کو جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہتا۔ عمرہ روتی ہوئی باہر نکلی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگی کہ میں اس وقت دنیا میں بلکل اکیلی ہوں۔ تیرے سوا میرا کوئی سہارا نہیں۔ تجھ پر ہی بھروسہ ہے کہ تو کھبی مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا۔

یہ سوچتی وہ دادا کے پاس آئی تو دادا نے ہلکی آواز میں بمشکل کہا کہ یہ تیرے ماموں ہیں۔

ماموں نے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور بہت روئے۔ سب حیرت سے دیکھ رہے تھے کیونکہ وارڈ میں ان کو شفٹ کر دیا گیا تھا۔

عمرہ بہت خوش ہوئی۔ جب ماموں نے کہا اب تم میرے ساتھ میرے گھر چل کر رہو گی۔

عمرہ نے اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا اور سوچا کہ واقعی اللہ پر بھروسہ رکھو تو وہ اسباب بھی پیدا کر دیتا ہے اور اپنے بندوں کو کھبی مایوس نہیں کرتا۔

اچانک پاس والے بیڈ کے قریب بیٹھی عورت نے عمرہ کو چلا کر کہا کہ تمہارے دادا کی سانس اکھڑ رہی ہے۔

عمرہ رونے لگی۔ ماموں بھاگ کر ڈاکٹر صاحب کو بلا لاے۔ اتنے میں دادا فوت ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر نے تصدیق کر دی۔

عمرہ نے کہا، کہ دادا کی قبر گاوں میں دادی کے ساتھ کرنی ہے۔

ماموں نے بیوی کو فون پر سب بتا دیا اور کہا کہ تم اور جیا اس کے استقبال کی تیاری کرو۔ جیا کے روم میں عمرہ ساتھ رہے گی۔

بیوی کے سنکر ہوش گم ہو گئے۔ پھر زرا ہوش میں آی اور بولی، یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔

شوہر اتنا سن کر مطمئن ہو گیا وہ جلدی میں تھا۔ فون بند کر کے عمرہ کے دادا کو گاوں لے گیا اور تدفین کی۔

گاوں والوں نے بھی تعاون کیا۔

اتفاق سے یوکے والے اسی دن اچانک پہنچے تھے۔ انہوں نے دادا کی تدفین اور کھانے کا زمہ زبردستی اپنے زمے لے لیا۔ اور عمرہ کے لئے بھی تسلی میں ہو گئے انہوں نے عمرہ سے کہا کہ انہوں نے اس کے اکاؤنٹ میں کچھ رقم ڈال دی ہے۔

عمرہ نے منع کیا تو وہ نہ مانے۔وہ اتنی زیادہ تھی کہ اس کی پڑھائی کے اخراجات اور ضروریات کے لئے کافی تھی۔

عمرہ کے ماموں کی بہت زیادہ آمدنی تو نہ تھی۔ ملازمت پیشہ تھے اچھی پوسٹ پر تھے ایماندار تھے۔

عمرہ نے ان کو سب بتا دیا تھا کہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات خود پورے کرے گی وہ نہ مان رہے تھے مگر عمرہ نے سمجھا دیا تھا کہ میں اس رقم کا کیا کروں گی۔ باقی تو آپ نے ہی کرنا ہے ناں۔ عمرہ کے سمجھانے پر وہ مجبوراً چپ ہو گئے۔

عمرہ کی مامی کو اتنا پتا تھا کہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کرتی ہے مگر پھر بھی وہ اسے کھٹکتی تھی۔ کیونکہ ماموں اس پر جان چھڑکتے تھے۔

ماموں کی بیٹی نے اس کے آنے پر واویلا کیا تھا مگر ماں نے کہا تھا کہ ہمیں بہت پیار جتانا پڑے گا بس تم دیکھنا جس طرح اس کی ماں کا پتا صاف کیا ہےاسی طرح اس کا بھی کر دوں گی۔

جیا نے ماں کی باتوں پر عمل کیا اور دونوں نے گھر کو تھوڑا بہت غباروں اور جھنڈیوں سے سجا دیا اور وعلیکم لکھا۔

ماموں اور عمرہ جب آئے تو عمرہ کا مامی اور جیا نے بہت پیار سے استقبال کیا۔

عمرہ کے ماموں سب سجاوٹ اور ان دونوں کا اسے سر آنکھوں پر بٹھانے سے بہت خوش ہوئے۔

پھر مامی نے عمرہ کا پتا بھی صاف کر دیا۔ دونوں ماں بیٹی اپنی جیت پر بہت خوش تھیں۔

عمرہ سحرش کو اپنے کزن سے فری ہوتا دیکھ کر پریشان تھی۔

دونوں اکھٹے شادی کی شاپنگ کرنے جاتے تھے کیونکہ اس کے پاس گاڑی تھی۔

رات کو لیٹ کر بھی وہ لیٹ نائٹ اس سے سرگوشیوں میں باتیں کرتی تھی۔

عمرہ کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتی تھی۔ عمرہ گھر کے کاموں میں بزی رہتی تھی۔

اس سے سحرش کی ماں اور آنٹی بہت اچھے طریقے سے پیش آتی تھیں اور اس کا بہت شکریہ ادا کرتی تھیں کہ اس نے ان کے کام آسان کر دیے تھے۔

عمرہ نے دیکھا، سحرش اپنے کزن سے پیار و محبت کی باتیں کر رہی ہے۔

عمرہ کو سخت برا لگا اسے ویسے بھی اسکا اتنا فری ہونا پسند نہ آ رہا تھا وہ سوچتی تھی کہ اس کی شایان سے شادی ہونے والی ہے اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

اس نے سحرش کو سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے جواب میں اسے نحوت سے کہا، کہ شکر کرو تمہیں اس گھر میں رہنے کی جگہ ملی ہے اور تم اب مجھے اپنی فرینڈ نہ سمجھو بلکہ اس گھر کی نوکرانی ہو۔ یہ میرا گھر ہے تمہارا نہیں۔ تم اپنی اوقات میں رہو، آہندہ میرے معاملے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ شکر کرو جو  اپنے روم میں جگہ دی ہے۔ وہ تو آنٹی کی وجہ سے تمہیں اپنے روم میں برداشت کر رہی ہوں کہ انہیں تم سے ہمدردی ہے۔ ورنہ۔۔۔۔

عمرہ حیرت اور دکھ سے اسے دیکھتی رہ گئی۔

عمرہ سوچنے لگی سحرش سچ ہی تو کہتی ہے۔ میری کیا اوقات ہے۔ میرا کون سا ٹھکانہ ہے۔

وہ روتے روتے سو گئی۔

صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی، پریشان ہو کر جلدی سے اٹھی کہ سب کو ناشتہ دے تو آنٹی اور سحرش کی ماں سحرش پر چلا رہی تھیں۔

جاری ہے۔

خوشیوں کی حسرت میں جیےجارہے ہیں

دل کو داد ہے کہ ہم مسکرا رہے ہیں۔

ناول۔ قسط 8۔

عمرہ اٹھ کر تیری سے آئی تو سحرش روتے ہوئے ماں کو بتا رہی تھی کہ وہ شایان سے شادی نہیں کرے گی بلکہ آنٹی کے بیٹے راحیل سے  شادی کرے گی۔

ماں نے اسے تھپڑ رسید کیا تھا۔

عمرہ حیران و پریشان سی کچن میں چل پڑی۔ اسے پہلے ہی شبہ تھا۔

سحرش کی ماں کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ سیف انہیں لے کر ہاسپٹل جانے لگا تو آنٹی نے کہا کہ عمرہ تم ان کے ساتھ جاو۔

سیف نے آٹو منگوایا اور خود بائک پر ساتھ چل پڑا۔

اس کی ماں کا بی پی بہت شوٹ کر گیا تھا اس لئے اسے ایمرجنسی میں رکھا گیا۔ عمرہ مسلسل انہیں تسلیاں دے کر دل بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔

سیف کے باپ کا بار بار فون آ رہا تھا وہ آٹو لے کر ہاسپٹل پہنچ چکے تھے۔

سحرش نے انہیں بہت ہرٹ کیا تھا کہ آپ نے آج سوتیلی ہونے کا ثبوت دے دیا۔ اگر آپ کی سگی بیٹی آپ سے اپنی خوشیوں کی بھیک مانگتی تو کیا آپ اس کے ساتھ بھی یہ ظلم کرتیں، اسے مارتی پیٹتی، طعنے دیتیں۔ اس کی خوشیوں کا خیال نہ کرتیں۔ میں شایان کے ساتھ کھبی خوش نہیں رہ سکتی۔ میں راحیل سے شادی کروں گی کیونکہ وہ میرے ٹائپ کا ہے۔ شایان سخت بور انسان ہے ویسے بھی وہ عمرہ کو پسند کرتا ہے۔ میں ایسے کسی شخص سے شادی نہیں کر سکتی، جس کے دل میں کوئی اور بستی ہو۔

راحیل مجھے پسند کرتا ہے۔ آپ لوگوں کی اس بات کے لیے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ شادی ادھر طے تھی تو بھاڑ میں جائیں لوگ، مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ میں لوگوں کی باتوں کے لئے اپنی زندگی برباد نہیں کر سکتی۔

لوگ شادی کے بعد بھی تو نہ بنے تو خلع لے لیتے ہیں یا طلاق دے دیتے ہیں۔ اس سے تو اچھا ہے ناں کہ میں پہلے ہی اس رشتے سے انکار کر دوں۔

آپ اگر میری سگی ماں ہوتی تو میرا ساتھ دیتیں، میری خوشیوں کے لیے دنیا سے لڑ جاتیں۔ مگر آپ کو تو اپنی ناک عزیز ہے۔ میری خوشیاں جائیں بھاڑ میں۔

کاش میری ماں نہ مرتی تو وہ مجھے گلے لگا کر کہتی کہ بیٹی مجھے تیری خوشی سب سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ مجھے مارتی نہ بلکہ مجھے تسلی دیتی کہ تو فکر نہ کر میں تیری خوشی کے لیے دنیا سے لڑ جاوں گی۔

آپ نے مجھے مار کر مجھے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کو مجھ سے کوئی محبت نہیں، بلکہ دنیا کی پرواہ ہے۔ مجھے آپ سے یہ امید نہ تھی وہ روتی ہوئی اپنے کمرے میں چل پڑی۔

سحرش کا باپ بیوی کے کہنے پر کہ آج عمرہ نہیں اٹھی ہے تو آپ آج باہر سے ناشتہ لے آئیں۔ وہ ناشتہ لینے گیا ہوا تھا۔ سیف بھی لیٹ اٹھا تھا۔

شور سنکر وہ اٹھا تھا اس نے سحرش کو روتے اور ماں کو اسے باتیں سناتے سنا تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ کام والی نے بتایا کہ یہ بات ہے۔ وہ سنکر دنگ رہ گیا کہ سحرش سے اسے یہ امید نہ تھی۔ پھر جب آنٹی نے چیخ کر اسے بلایا تھا۔

راحیل بھی رات سے اپنے دوست کی طرف رہا تھا۔

آنٹی نے راحیل کو فون کر کے ساری بات بتائی تو وہ اسی وقت گھر آ گیا۔

ماں نے راحیل سے ڈانٹتے ہوئے پوچھا تو اس نے بھی یہی کہا کہ وہ سحرش کو پسند کرتا ہے۔ اسے ایسی ہی لڑکی چاہیے تھی۔

ماں نے چیخ کر کہا کہ اس کی شادی کی ڈیٹ فکس ہو چکی ہے تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ میں تو تمہارے لیے عمرہ کا سوچ رہی تھی۔

وہ چلا کر بولا، توبہ کریں موم، میں اس لڑکی کو ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس جیسی بور لڑکی کو تو میں قطعی برداشت نہیں کر سکتا۔ میں شادی صرف سحرش سے کروں گا آپ آنٹی، انکل سے بات کریں۔ شادی ہونے والی ہے ہوئی تو نہیں ناں۔

آپ روایتی ماوں کی طرح یہ نہ کہنا کہ دنیا کیا کہے گی بلکہ اپنے بیٹے کی خوشی کو مقدم جانیں۔

شایان ویسے بھی اس بور سی عمرہ کو پسند کرتا ہے وہ اسی کی طرح کی ہے۔ دونوں ایک جیسے ہیں خوش رہیں گے ان کی شادی کروا کر ان کی دعائیں حاصل کر لیں۔ ہم سے لوگوں کے پیچھے قربانیاں نہیں دی جاتیں۔ آپ نے اب میری خوشی دیکھنی ہے یا لوگوں کی۔

آپ اگر بات نہیں کر سکتیں تو میں خود کر لوں گا۔

آنٹی کو سحرش پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ اس نے اپنی خواہش ہی بتائ ہے کوئی جرم تو نہیں کیا سچ ہی بولا ہے۔ کوئی گناہ تو نہیں کیا۔

اتنے میں سحرش کمرے سے سوجی آنکھوں سے آئی۔

راحیل کے آتے ہی گلے لگ کر رونے لگی وہ اسے پیار سے چپ کروانے لگا۔

راحیل کی ماں اس کی باتوں سے سکتے کی سی کیفیت میں تھی۔

اتنے میں عمرہ اور سیف اور اس کے والدین گھر واپس آ گئے۔

عمرہ سحرش کی ماں کو پکڑ کر لا رہی تھی۔ دوسری طرف سے سیف نے پکڑا ہوا تھا۔ اسکا  باپ ساتھ آ رہا تھا۔

سب نے دیکھا، سحرش راحیل کے گلے لگی رو رہی تھی۔

سیف کے باپ کو نوکرانی نے جلدی سے ساری بات بتا دی تھی وہ پرانی ملازمہ تھی۔

سیف کا باپ گرج کر بولا، یہ کیا ہو رہا ہے تم دونوں اکھٹے کیا کر رہے ہو۔

سحرش روتے ہوئے بولی، پلیز راحیل مجھے یہاں سے لے چلو۔

وہ اسے ساتھ لگاتے ہوئے بولا، ٹھیک ہے جان۔

راحیل کی ماں اسے ڈانٹتے ہوئے بولی، راحیل چھوڑو اسے، یہ یوکے نہیں ہے کہ جہاں کسی بھی لڑکی کو ایسے سب کے سامنے گلے لگا لو۔

راحیل بولا، موم میں جانتا ہوں کہ یہ پاکستان ہے۔ مگر میں نے کسی اور کو نہیں اپنی بیوی کو گلے لگایا ہے ہم جانتے تھے کہ آپ لوگ ہماری خوشی سے زیادہ لوگوں کی دہائی دیں گے اس لیے ہم نے کورٹ میرج کر لی ہے۔

یہ سنکر سحرش کا باپ لڑکھڑا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔

سحرش کی ماں اور راحیل کی ماں بھی صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔

سیف نے آ کر اسے راحیل سے کھینچا اور اسے بالوں سے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔

راحیل نے بمشکل اسے چھڑایا اور کہا کہ یہاں سب وحشی اور جنگلی لوگ رہتے ہیں جو مظلوم عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

سحرش کے باپ نے لڑکھڑاتی آواز میں گرج کر کہا، اسے اسی وقت یہاں سے لے جاو میں اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔

اس ماں کی اس نے قدر نہ کی جس نے ان بچوں کے لئے اپنے بھائی کو چھوڑ دیا۔ بہت بے فیض اولاد ہے میری۔

سیف ماں کے قدموں میں بیٹھ کر روتے ہوئے بولا، نہیں پاپا میرے لیے ماما دنیا کی سب سے عظیم اور اچھی ماں ہیں۔ اس کے پاوں پکڑ کر سحرش کی طرف سے معافی مانگنے لگا۔ اسکا شوہر بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے بولا۔ مجھے معاف کر دینا کہ میں نے اس کے لاڈ اٹھاتے اسے خود سر بنا دیا۔

وہ روتے ہوئے بولی، بچی ہے مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں۔ میری بیٹی ہے۔

راحیل ماں سے سامان پیک کرنے کا بولا، وہ روتی ہوئی ان سے معافی مانگنے لگی تو راحیل گرج کر بولا، موم ہم نے کوئی جرم نہیں کیا، الٹا انہوں نے میری بیوی کو بےدردی سے مارا ہے۔ اگر یہ یوکے میں ہوتے تو سحرش ان کے خلاف پولیس بلا لیتی تب ان لوگوں کو پتا چلتا۔

ماں نے اسے ڈانٹ کر چپ کروا دیا۔

سحرش سامان پیک کرنے لگی۔ اور جلدی سے اگلی سیٹ پر سامان راحیل کو پکڑا کر بیٹھ گئی۔

راحیل کی ماں سے گلے ملتے ہوئے رو پڑی۔ اس سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔

سحرش کی ماں بولی، شبانہ مجھے معاف کر دینا، میرے بیٹے نے مجھے بہت شرمندہ کروایا ہے۔

سحرش کا باپ روتے ہوئے بولا، بہن جی آپ معافی نہ مانگیں، بلکہ ہم اپنی بیٹی کی طرف سے شرمندہ ہیں۔

شبانہ روتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی، پلیز میری بچی کو معاف کر دینا وہ ناسمجھ ہے۔

وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر بولی، میں جانتی ہوں۔ تمہیں عرصے سے جانتی ہوں۔ جب سے تم ان بچوں کی ماں بنی ہو۔

ان کی ماں میری کزن تھی باپ بھی کزن ہے۔

ماں میری دوست بھی تھی پھر تم نے کس محبت سے ان کو پالا ہے۔ تم فکر نہ کرو، میں ظالم نہیں ہوں۔ میں اس کی کوتاہیوں کو درگزر کروں گی۔

شبانہ نے ممنون نظروں سے مسکرا کر اسے دیکھا۔

راحیل سامان رکھ کر آیا اور ماں کو بولا، چلیں موم، اوکے ایوری ون، گڈ باے۔ کہہ کر چل پڑا۔

شبانہ سحرش کو یاد کر کے روتی رہی۔ سب سوگوار بیٹھے رہے۔

عمرہ مسلسل اسے دلاسے دیتی رہی کہ سحرش کی جگہ مجھے اپنی بیٹی سمجھیں۔ اس نے بڑھکر اسے گلے لگاتے ہوئے کہا، تم تو واقعی کسی نیک ماں کی اولاد ہو۔ تم نے تو بغیر کہے میری ایک بیٹی کی طرح خدمت کی ہے۔

سیف عمرہ سے بہت متاثر ہوا اور اسے معافی مانگتے ہوئے بولا، تم نے تو میری سگی بہن سے بھی بڑھکر ساتھ بنھایا ہے۔ میں نے تمہیں غلط سمجھا۔ مجھے معاف کر دو۔

وہ اس کے پاس آئی اور بولی، بہنوں سے بھائیوں کے آنسو برداشت نہیں ہوتے۔ سیف نے اسے گلے لگا کر سر پر پیار کیا۔

اتنے میں شایان کا فون آیا کہ گھر والے سحرش کا ناپ لینے گھر سے نکلے ہوئے ہیں۔

جاری ہے۔

عشق کے عنوان کو کتابوں میں پڑھنے والوں

اس کاغذی عشق سے نہ کچھ حاصل ہو گا

سچا عشق اگر انپڑھ بھی کر لے تو

وہ اعلیٰ ڈگریوں سے افضل ہو گا۔

ناول۔ قسط 9۔

سیکنڈ لاسٹ۔

سیف شایان کے فون سے بہت پریشان ہو گیا کہ اب اسے کیا بتائے کس منہ سے بتاے کہ اس کی بہن نے اس کے دوست کے آگے اسے شرمندہ اور زلیل کر دیا ہے۔

شایان بولا، یار سیفی کیا بات ہے تو کچھ پریشان لگ رہا ہے۔

سیف نے روندھی ہوئی آواز میں اس ساری سچائی بتا دی۔

شایان نے ایک لمبی سانس بھری اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تم فکر نہ کرو، میں آ رہا ہوں، سب سنبھال لوں گا۔

سیف کو تھوڑی تسلی ملی۔

سیف نے جب گھر والوں کو بتایا تو اس کے والدین بہت پریشان ہو گئے۔

سیف نے تسلی دی کہ شانی کہہ رہا ہے کہ وہ سب سنبھال لے گا۔

عمرہ نے کہا کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں اسے اپنے سر لے لوں۔

شبانہ تڑپ کر بولی، کھبی نہیں۔ سیف نے کہا، ایسا سوچنا بھی مت، جو سچائی ہے وہی سامنے رکھیں گے کسی حال میں بھی جھوٹ نہیں بولنا، جھوٹ کی نحوست ہوتی ہے اور نحوست نہیں پھیلانی۔

سچائی میں طاقت ہوتی ہے۔ بے شک کڑوی ہوتی ہے مگر اس کا اثر رحمت ہوتا ہے۔

جب شایان کے گھر والے آئے تو تھوڑی دیر بعد شایان بھی بائک پر پیچھے ہی آ گیا۔

شایان کا شوہر جو واپس یو کے سے آ چکا تھا۔ وہ شایان کی بہن اور ماں اور بہن کی ساس پہنچے۔

عمرہ نے جلدی سے ان کی چاے کا انتظام کر دیا۔ وہ کباب فرائی کر رہی تھی۔

شایان بھی پہنچ چکا تھا۔ عمرہ نے کہا تھا کہ چائے پلانے کے بعد ان سے اس بارے میں بات کرنا۔

وہ سحرش کا پوچھنے لگے تو عمرہ نے کہا کہ آپ لوگ ریلیکس ہو کر چائے پی لیں پھر بتاتے ہیں کہ سحرش کدھر ہے۔ آپ لوگوں کے لیے َسرپرائز ہے۔

وہ مطمئن ہو گئے۔

شایان جب سیف کے ساتھ اندر آ رہا تھا تو عمرہ ٹرے اٹھائے سامنے جا رہی تھی۔ دونوں کی نظریں ملیں، عمرہ سر جھکا کر گزر گئی جبکہ شایان اسے اتنے وقت کے بعد دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔

سیف دل میں شرمندگی سے ان دونوں کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ اس نے ان دونوں کے ساتھ کتنا برا کیا تھا محض اپنی بہن کی محبت میں۔

اس نے دل میں سوچا، اس نے تو عمرہ کو بھی بہن کہا تھا مگر سب جھوٹ تھا اگر وہ اسے سحرش کا درجہ دیتا تو ایک بہن کی بجائے دوسری بہن کی خوشی کا خیال کر لیتا۔

کاش میں خود غرض نہ بن جاتا۔ اس نے تو شایان کو نو کر دی تھی پھر اس کا کیا قصور تھا۔

شایان کے گھر والوں کو سیف کے باپ نے ڈبڈبائ ہوئی آواز میں روتے ہوئے ساری سچائی بتا دی۔

شایان کی بہن کی ساس نے کہا، چلیں آپ لوگ اب حوصلہ کریں۔ بچے جزباتی ہوتے ہیں جوانی میں غلطیاں کر جاتے ہیں۔ ایک دن احساس ہو بھی جاتا ہے۔ مگر گھر والے معاف نہیں کرتے۔ خاص طور پر مرد حضرات۔ چلیں اب شایان کی شادی عمرہ۔۔۔۔

شایان کی بہن جھٹ بات کاٹتے ہوے بولی، میرا خیال ہے کہ اب ہمیں چلنا چاہیے یہ لوگ بھی ابھی پریشان ہیں۔

شایان کو دل میں بہن پر بہت غصہ آیا مگر سوچا کہ اکیلے میں اسے سمجھاے گا کہ اب عمرہ سے شادی کرنے میں کیا قباحت ہے۔

گھر آ کر اس نے اکیلے میں اسے سنائی کہ جب بڑے بات کر رہے ہوں تو تم بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیوں ٹوک دیتی ہو۔

تمہارے سسرال والے بہت شریف لوگ ہیں جو تمہاری بدتمیزیاں برداشت کرتے ہیں۔

اتنے میں ماں آ گئی اور بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے بولی، تم اور تمہارے بابا کو تو ہر وقت دوسروں کی فکر لگی رہتی ہے ان کی ہر بات صحیح لگتی ہے۔ ہمیں کیسے ان کے آگے زلیل کروایا۔ معافیاں منگوائی۔ حد ہے ویسے۔ کوئی اپنی فیملی کو اس طرح زلیل کرواتا ہے کیا۔

اس کی ساس کی تو عادت ہے ہمیں نیچا دکھانے کی۔ کوئی بھلا پوچھے کہ ان کو دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر وہ کریں تو صحیح۔ ہم کریں تو غلط۔

اگر تمہارے بابا ان لوگوں کو جانے دیتے ناں تو ہماری عزت بن جاتی۔ وہ جو فضول کی دھمکیاں دے رہا تھا ڈرانے کے لیے۔ وہ ناک رگڑتے آتے۔

ہماری بیٹی کوئی اتنی غیر اہم نہیں ہے کہ ان کے نیچے لگی رہے اور وہ اپنی من مانی کرتے رہیں۔

شایان زچ ہو کر بولا موم پلیز اسے شہہ نہ دیا کریں۔ اگر بابا بیچ میں نہ پڑتے تو آج یہ اجڑی یہاں بیٹھی ہوتی۔

ماں نے اکڑ کر کہا، کیوں میری بچی کو ہم نہیں پال سکتے کیا، مر تو نہیں گئے ہیں۔ اس کے لیے کیا کمی ہے کسی چیز کی۔

شایان بے بسی سے بولا، کمی ان لوگوں کے لیے بھی نہیں ہے بس شریف لوگ ہیں ہر ممکن نبھانا چاہتے ہیں۔ ان کی شرافت کا ناجائز فائدہ مت اٹھاو۔ یہ نہ ہو کہ وہ کچھ ناجائز کر بیٹھیں۔

بہن نے نحوت سے کہا، تم میری فکر چھوڑ دو، میں انہیں خود سیدھا کر لوں گی۔

ماں نے کہا، ہاں کان کھول کر سن لو، عمرہ ایک نوکرانی کی حیثیت رکھتی ہے لاوارث ہے جس کا آگے پیچھے کوئی نہیں۔ نہ ہی کوئی حیثیت ہے۔ ہم تمہاری شادی اپنے جیسے ہم پلہ لوگوں میں کروں گی۔ جو ہماری ٹکر کے ہوں۔ سحرش لوگ بھی ہماری حیثیت سے کم تھے مگر سحرش خوبصورت تھی اور تمہارے بیسٹ فرینڈ کی بہن تھی تو ہم نے اوکے کر لیا۔

بہن بولی، میں لوگوں کو کیا بتاؤں گی کہ میری بھابھی پہلے ہماری نوکرانی تھی توبہ، میں تو اس بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ تم بھی سدھر جاو اور اس دو ٹکے کی معمولی سی لڑکی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو سمجھے۔

شایان نے بے بسی سے سوچا، ابھی اس بارے میں ان لوگوں سے زکر کرنا فضول ہے یہ مانیں گی کب۔

شایان کی بہن اپنے سسرال والوں کے ساتھ واپس چلی گئی اور شایان کی شادی رک گئی۔ وہ صبر کر کے بیٹھ گیا۔

شبانہ نے شوہر سے کہا کہ اس دن شایان کی بہن کی ساس عمرہ کی شادی شایان سے کرنے کے بارے میں کہہ رہی تھی کہتے کہتے رہ گئی۔ اس کی بہو نے جانے کی جلدی مچا دی۔

شوہر نے کہا، عمرہ کے بارے میں ہم کیسے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جب اپنی بیٹی نے ہمارے فیصلے کی لاج نہیں رکھی تو یہ تو پھر پرائ ہے۔

شبانہ دکھ سے بولی، یہ پرائ ہو کر بھی اپنوں سے زیادہ لاج رکھنے والی ہے۔

سیف کے لیے کر لیتی مگر وہ اسے سگی بہنوں کی طرح سمجھتا ہے اور یہ بھی کہتی ہے کہ میری بھائی کی کمی پوری ہو گئی ہے۔

شبانہ کا شوہر بولا، بیگم بات یہ بھی ہے ناں کہ سیف جانتا ہے کہ شایان اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ دوست کی محبت پر ڈاکہ بھی تو نہیں ڈال سکتا ہے۔

شبانہ نے سرد آہ بھر کر کہا، ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔

شبانہ کا شوہر بولا، بیگم ہمیں اس کے گاوں جا کر اس کے بارے میں پوری تسلی کرنی چاہیے، اس کے ماموں سے ملنا چاہیے، آجکل اعتبار کا کون سا زمانہ ہے۔ کسی پر بھی اتنی جلدی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔

شبانہ بولی، ٹھیک ہے آپ اپنی تسلی کر لیں۔

شبانہ کے شوہر نے کہا، بیگم عمرہ کو کل بازار لے جا کر چند گھریلو نیے جوڑے دلوا دو زبردستی۔

شبانہ بولی ٹھیک ہے مگر پہلے آپ اس کے بارے میں تسلی کر لیں، مجھے تو آپ نے وہم میں ڈال دیا ہے۔

اس کو اس کے ماموں کے پاس کل ہی لیکر جائیں اور ان سے بات چیت کریں۔

دوسرے دن عمرہ کو سیف کے ابو ماموں کے پاس جانے کا بولے۔

چونکہ عمرہ نے ان کی ساری گفتگو سن لی تھی تو وہ جانے کو تیار ہو گئی۔

جاری ہے۔

قبضہ دل تم سے چھڑانا ہے

دل کا مالک خود کو بنانا ہے

بن مول اس میں رہتے ہو

اب مول اس کا لگانا ہے۔

ناول۔ قسط 10۔

لاسٹ قسط۔

عمرہ خوش ہونے کے ساتھ دل میں ڈر بھی رہی تھی کہ نہ جانے ماموں اور مامی کیا سلوک کریں، چلو ماموں کو اتنے عرصے کے بعد ایک بار دیکھ تو لوں گی ناں۔

جب وہ ماموں کے گھر پہنچی، دھڑکتے دل کے ساتھ بیل کی تو شبانہ کے شوہر کو کچھ یاد آ گیا کہ یہ گھر تو شبانہ کے بھائی کا ہے۔ وہ کھبی اس گھر میں داخل تو نہیں ہوے تھے مگر انہیں گھر کا علم تھا۔ چند بار شبانہ کو ڈراپ کرنے آئے تھے۔

انہوں نے سوچا کہ وہ اپنی پیاری بیوی کو بھائی سے راضی کروانے کے لیے کچھ بھی کریں گے اور عمرہ کی سچائی کا بھی پتا لگائیں گے۔

دروازہ ایک تقریباً 35 سال کی عمر کی ایک گوری چٹی خوبصورت عورت نے دروازہ کھولا، اور پوچھا کس سے ملنا ہے۔

عمرہ نے کہا، یہ میرے ماموں اسد کا گھر ہے۔ آپ کون ہیں۔؟

وہ حیرت سے بولی، کیا آپ عمرہ ہو۔

عمرہ بولی، جی مگر آپ کون ہیں اور مجھے کیسے جانتے ہیں۔

وہ خوشی سے جزباتی انداز میں جلدی سے بولی، پلیز آپ اندر آئیں۔

پھر زور زور سے آوازیں دینے لگی، اسد صاحب آپ کی بھانجی عمرہ آئی ہے۔

وہ تیزی سے آے اور عمرہ کو گلے لگا کر میری بچی کہہ کر روتے رہے۔

بڑی مشکل سے اس عورت نے انہیں چپ کروا کر پانی دیا اور کرسی پر بٹھایا۔

عمرہ کو بھی گلے لگا کر پیار کیا اور پانی دیا۔ سیف کے والد کو بھی عزت سے بٹھایا اور پانی دیا۔

عمرہ نے جیا اور مامی کا پوچھا تو ماموں بولے، وہ اپنے کیے کی سزا بھگت رہی ہیں۔

عمرہ نے سامنے کھڑی عورت کا پوچھا تو بولے، یہ تمہاری مامی ہیں۔

عمرہ بہت حیران ہوئی۔

اس عورت نے کہا، میں چائے بنا لاوں۔

عمرہ نے کہا، میں بھی آپ کی ہیلپ کے لیے آتی ہوں تو ماموں بولے، تم ادھر میرے پاس بیٹھو، شمسہ تم جاو۔

شمسہ بولی، گڑیا رانی آپ بیٹھو ماموں سے باتیں کرو۔

ماموں نے پوچھا، ان کا تعارف کراو۔

انہوں نے سیف کے والد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

سیف کے والد مسکرا کر بولے، جناب اگر میں نے بتا دیا تو پہلی بار سسرال کی چائے نصیب ہو رہی ہے یہ نہ ہو کہ بغیر چاے کے آپ کی بہن کے پاس جانا پڑے گا۔

وہ حیرت سے چونک کر دیکھتے ہوئے بولے، کہاں ہے میری بہن، وہ اسے جھنجھوڑ کر چلا کر بولے،

شمسہ شور سنکر بھاگتی آئی اور حیرت سے پوچھنے لگی، اب کیا ہوا۔

سیف کے والد نے انہیں پکڑ کر بٹھایا اور کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے، محترم آپ کی بہن بلکل ٹھیک ٹھاک ہے۔

وہ روتے ہوئے اس سے معافی مانگنے لگے۔

سیف کے والد نے انہیں کہا، کوئی بات نہیں ہے ایسی، آپ ریلیکس رہیں۔

وہ  منت بھرے انداز میں بولے، میری بہن سے مجھے جلد ملوا دو پلیز۔

سیف کے والد نے کہا، میں بیٹے سے کہتا ہوں اسے ادھر لے آتا ہے۔

سیف کے والد نے سیف کو فون پر ساری بات بتائی اور ماں کو اسے لانے کا کہا۔

سیف بہت خوش ہوا اس نے کہا، پاپا لوکیشن جلدی بھیجیں۔

باپ نے جواب دیا وہی اس کے بھائی کا پرانا گھر اسے یاد ہو گا۔

سیف بولا، پاپا پھر بھی لوکیشن بھیج دیں اب اتنا وقت گزر گیا ہے چینچیز آ گئی ہوں گی۔

عمرہ نے اسے لوکیشن بھیج دی۔

سیف نے جب ماں کو ماموں کی خوشخبری سنائی اور ساری بات بتائی اور چلنے کا کہا، تو وہ خوشی سے زور زور سے سیف کو گلے لگا کر رونے لگی۔

بڑی مشکل سے اس نے پانی پلایا اور کہا، چلیں ملنے۔

وہ بولی پہلے میں شکرانے کے نفل ادا کر لوں۔

وہ وضو کر کے نفل ادا کرنے لگی۔

جب شبانہ وہاں پہنچی تو بھائی بہن کتنی دیر گلے لگ کر روتے رہے۔

شمسہ نے ان دونوں کو تسلی دی کہ اب انشاءاللہ آپ لوگ کھبی جدائی کا درد نہیں سہیں گے۔

بھائی نے جیا اور بیوی کی سٹوری سنائی کہ جب عمرہ کی شادی میری بیوی اپنے نشی بھانجے سے کرنا چاہتی تھی جو میٹرک بھی پاس نہ تھا تو عمرہ سحرش کے پاس چپکے سے چلی گئی۔

میں واپسی کا ٹکٹ کٹوا چکا تھا میرا کام جلد مکمل ہو چکا تھا میں اچانک آ کر سرپرائز دینا چاہتا تھا۔

جب گھر میں داخل ہوا تو بیوی رو رہی تھی۔ کہ اس کی بہن میری بیٹی سے زبردستی نکاح پڑھوا کر اسے بھیج چکی ہے اور اب مجھے سنا رہی ہے۔

میں بہت شاکڈ ہوا، میں نے سالی سے گرج کر کہا، تمہاری جرآت کیسے ہوئی۔

اس نے بہن کے سب پول کھول دیے کہ کیسے اس نے عمرہ کی ماں کا اس گھر سے ناطہ توڑا۔ پھر عمرہ پر الزام لگا کر آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ اور میرے بیٹے سے اسکا نکاح فکس کر دیا۔

جب عمرہ نہ ملی تو میں نے اس کی بیٹی سے نکاح کروا کر بھیج دیا۔

پھر وہ چپکے سے نکل گئی کیونکہ میں غصے میں اپنے حواس کھو بیٹھا تھا میں نے اسے بہت مارا اور اسے طلاق دے دی۔

پڑوسی شور سنکر آ چکے تھے۔ ان کے سامنے بیوی کو طلاق دے دی۔

پڑوسن اسے لیکر اپنے گھر چلی گئی۔ اور میرے بیٹے کو فون کرکے سارا احوال بتایا۔

بیٹے نے مجھے فون کیا تو اس نے کہا کہ آپ نے ماں کو طلاق نہیں دینی چاہیے تھی اس عمر میں اب وہ دنیا کو کیا بتائیں گی۔

میں پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا اسے کہا کہ شکر کرو اسے جان سے نہیں مارا۔ اس نے جو ظلم کماے ہیں وہ میری بیٹی سزا بھگت رہی ہے۔ میں سالی کے گھر پولیس لے کر گیا تھا بیٹی کو واپس لانے، مگر شاید اسے اندازہ تھا اس لئے وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔

اب میری بیٹی ماں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے گی کیونکہ ماں نے اس کو اپنے ساتھ ظلم میں معاون بنایا ہوا تھا۔

جتنا برا اس نے عمرہ کے لئے سوچا اس سے زیادہ اس کی بیٹی کے ساتھ ہوا۔

میں اسے تھک ہار کر ڈھونڈنے کی کوشش میں ناکام ہو کر بیٹھ گیا۔

بیٹا آیا اور ماں کو اس کے بھائی کے گھر چھوڑ گیا۔ وہاں وہ موزی مرض میں مبتلا ہو گئی۔ بھابھی اور اس کے بچے الگ طعنے دیتے اسے۔ بھائی بھی اکثر طعنہ دے جاتا۔

آخر موبائل فون پر ریکارڈنگ کر کے عمرہ، اس کی ماں اور مجھ سے بہت معافیاں مانگتی رہی۔ اپنے گناہوں پر نادم تھی۔ بیٹی کا غم بھی اسے کھاے جا رہا تھا جب اس کی بہن نے اسے فون پر جیا کے بیٹے کی پیدائش کی مبارک باد دی۔سنکر وہ اسی دن فوت ہو گئ۔

بیٹی نے بھی قسمت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا، کیونکہ اس کے شوہر اور ساس نے اس سے بچہ چھننے کی دھمکی دی تھی۔ وہ اپنے بچے سے بہت پیار کرتی ہے۔

بھائی نے اسے طلاق لینے کا بولا، مگر اس نے انکار کر دیا۔ اب مجبوراً ہمیں ان لوگوں کو قبول کرنا پڑا ہے۔

کافی حد تک وہ اب کچھ سدھارنے لگا ہے۔

شمسہ بیوہ تھی محلے کے لوگوں نے ہم دونوں کو منا کر نکاح پڑھوا دیا کہ آپ بھی اکیلے رہتے ہیں اور وہ بھی اکیلی ہے۔

شمسہ جیسی بیوی ملی تو پتا چلا کہ دنیا میں جنت ہے۔

بیٹا ماں کی تدفین کے موقع پر پہنچ گیا تھا وہ سارا خرچہ بھی بھیجتا تھا مگر پھر بھی وہ لوگ اس سے تنگ تھے۔

شمسہ کی شبانہ بہت تعریف کرنے لگی جو ملازمہ کے ساتھ ملکر سب کے لیے کھانا تیار کر رہی تھی۔

شبانہ اور عمرہ رونے لگیں کہ وہ جیسی بھی تھیں اپنی تھی۔ انہوں نے اس کی مغفرت کی دعا کی۔

یوکے سے ماموں کے بیٹے کا فون بھی آ گیا اور بہت خوش ہوا۔ عمرہ سے بھی بات کی۔ دونوں نے اس کی ماں کا رو کر بہت افسوس کیا۔

عمرہ کے ماموں سیف اور اس کے والد سے گپ شپ لگاتے رہے۔ عمرہ اور شبانہ نے بھی اپنی آپ بیتی سنائی۔

شایان کو سیف نے فون پر سب بتایا تو وہ ادھر آنے کے لیے تیار ہو گیا۔

شایان کا غائبانہ تعارف سیف کے باپ نے کروا دیا تھا کہ وہ عمرہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے۔

عمرہ کی ماں اور عمرہ کو ماموں کی خوشی میں یاد ہی نہیں رہا کہ عمرہ کی حقیقت جانیں۔

جب دونوں کو پتا چلا کہ وہ ماں بیٹی ہیں تو شبانہ بے ہوش ہو گئی۔

عمرہ بھی خوشی اور غم سے نیم بے ہوش تھی۔ شبانہ کو پانی پلا کر ہوش میں لایا گیا۔

شایان بھی پہنچ چکا تھا۔

دونوں ماں بیٹی گلے لگ کر خوب دھاڑیں مار مار کر روئیں۔

عمرہ نے کہا، اس کے دادا دادی نے ساری زندگی اس سچائی کو اس سے چھپائے رکھا کہ وہ اس سے دور نہ ہو جائیں۔

عمرہ کا ماموں شایان سے ملکر خوش ہوا۔ اور اس کے بارے میں سارا کچھ پوچھنے کے بعد بولا کہ برخوردار تم گھر والوں کو بھیجو ان کا منہ میٹھا کروائیں گے انشاءاللہ۔

شایان نے خوشی اور جوش میں ان کے ہاتھوں کو چوم کر بہت شکریہ ادا کیا۔

سیف نے مکا دکھاتے ہوئے کہا، اب ہم دوست نہیں، میں تیرا سالا ہوں خبردار جو میری بہن کو کوئی تکلیف دی۔

دون مسکرا کر گلے ملے۔

شمسہ نے سب کو کہا کہ اب بہت ہو گیا رونا دھونا اب خوشیاں ہماری منتظر ہیں۔ چلیں سب کھانا کھا لیں۔ کھیر بنائی ہے سب کا خوشی میں منہ میٹھا کرنے کے لیے۔

شایان جانے لگا تو شمسہ بولی، بیٹا خبردار جو کھانے کے بغیر گئے اب تو تم اس گھر کی اہم شخصیت بننے والے ہو۔

سب مسکرانے لگے۔

عمرہ شرما گئ۔

شبانہ نے نظروں سے اس کی بلائیں لیں۔

شبانہ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ عمرہ نے سحرش کو معاف کرنے پر اصرار کیا۔

سحرش بھی اب اپنی غلطی پر پچھتا رہی تھی۔ گو راحیل اور اس کی ماں کا رویہ اس کے ساتھ بہت اچھا تھا مگر اسے شبانہ کے آگے شرم محسوس ہو رہی تھی کہ وہ تو اس کی ماں کا نعم البدل تھی۔

اسے شدت سے چاہتی تھی اس کی زرا سی تکلیف پر تڑپ جاتی تھی۔ اب سحرش اسے یاد کر کے روتی تھی۔

اس کی گھر والوں کو فون کرنے کی ہمت نہ تھی۔ راحیل اور آنٹی اس کے دکھ کو سمجھتی تھیں اب وہ امید سے بھی تھی۔ دونوں اس کا بہت خیال رکھتے۔

اسے دولہن بننے مہندی، مایوں کی رسموں کا کتنا شوق تھا مگر یہ سب نہ ہو سکا۔

راحیل نے کہا تھا کہ تمہارے گھر والے راضی ہوں تو میں ولیمہ کر لوں، مگر اب اس حالت میں جبکہ اس کی طبیعت بھی بوجھل رہتی تھی اسے کسی چیز کا بھی ہوش نہ تھا۔

عمرہ نے اسے فون کیا اور تمام باتیں بتائیں۔ وہ اس کے فون سے جی اٹھی۔

عمرہ سیف کے ساتھ اسے ملنے گئی۔

سیف پہلے کچھ ناراض سا رہا مگر بعد میں راحیل اور اس کی ماں کا رویہ اچھا دیکھ کر خوش ہو گیا اور راحیل سے نارمل ہو گیا۔ سحرش خوش تھی کہ عمرہ اس کی بہن ہے۔ آنٹی نے اسے بہت مبارکباد دی۔

عمرہ نے سب کو دعوت پر انواہیٹ کر دیا اور ادھر ہی شبانہ اور سحرش کی بات کروا دی۔ شبانہ نے بہت محبت سے اس کا حال پوچھا کہ کیسی ہو میری لاڈلی بیٹی۔

سحرش یکدم زور سے رو پڑی اور معافی مانگنے لگی۔

شبانہ بولی، مت رو مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ میں تم سے خفا نہیں ہوں۔ یہ تمہارا گھر ہے جب جی چاہے آو۔

پاس بیٹھا اس کا شوہر شبانہ کی باتیں سنکر اپنی قسمت پر ناز کر رہا تھا۔

سحرش لوگ دعوت پر آئے اور بہت خوش ہوئے۔ سحرش باپ سے مل کر بھی معافی مانگتے ہوئے رو پڑی۔

آنٹی اور شبانہ پہلے کی طرح گپ شپ میں مصروف تھیں۔ سب گھل مل گئے تھے۔ رات لیٹ نائٹ سب واپس گئے۔

شایان نے والدین کو وارننگ دے دی کہ وہ جلد عمرہ کا رشتہ لیکر جائیں۔

ان کو ساری بات بتا دی کہ عمرہ شبانہ آنٹی کی بیٹی ہے۔

شایان کی بہن کے سسرال والوں نے قریب ہی گھر رینٹ پر لے لیا تھا اور اسی سوسائٹی میں وہ اپنا بڑا سا گھر تعمیر کروا رہے تھے۔

شایان کی بہن زیادہ وقت میکے میں گزارتی تھی۔

اس نے سنا تو جھٹ بولی، اب ہم ایک نوکرانی کو اس اتنے بڑے گھر کی بہو بنائیں گے۔

شایان چڑ کر بولا، اگر بالفرض اس گھر میں نوکرانی بن کر بھی رہ رہی تھی تو کیا نوکر انسان اپنی رضا اور خوشی سے بنتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی جسے چاہے امیری دے، جسے چاہے غریبی دے۔

کوئی انسان اپنی مرضی سے غریب نہیں ہوتا۔ کیا تم اپنی مرضی سے اس گھر میں پیدا ہوئی ہو۔ اگر تمہارا بس چلتا تو تم تو ملکہ الزبتھ بنتی۔میری لائف ہے میں نے گزارنی ہے اور جس کے ساتھ مجھے پسند ہو گا میں اسی سے شادی کروں گی۔ تم میرے معاملے میں اپنی ٹانگ مت اڑاو۔

بہن نے ناراض ہو کر ماں سے کہا، دیکھو موم ابھی وہ آئ بھی نہیں اور یہ مجھ سے لڑ رہا ہے۔ وہ منہ بنا کر کمرے میں چل پڑی۔

ماں نے بیٹے کو ڈانٹا کہ بہن کو ناراض کر کے خوش نہیں رہو گے۔ میری بیٹی کو جا کر راضی کرو ورنہ میں نہیں جاوں گی۔

باپ قریب بیٹھا ہوا تھا۔

شایان نے کہا، پرسوں سنڈے ہے اور آپ لوگ میرے ساتھ ان کے گھر چل رے ہیں۔ میں نے اسے کوئی ناراض نہیں کیا۔

باپ نے کہا، ٹھیک ہے بیٹا تم سیف کو فون کر کے پوچھ لو کہ کہاں جانا ہے اس کے گھر یا اس کے ماموں کے گھر۔

شایان کے والد نے کہا، بیگم تم بیٹی کو شہہ مت دو۔ شانی نے کوئی ایسی غلط بات نہیں کی۔ یہاں آ کر گھر کا ماحول خراب نہ کیا کرے۔ جائے اور جا کر اپنے گھر میں دلچسپی لے۔ ساس سسر کی خدمت کرے۔

ماں نے دیکھا کہ اب بیٹی کو سمجھانا ہی پڑے گا۔

بیٹی نے بھی دیکھا کوئی لفٹ نہیں مل رہی تو خود ہی کچھ منہ بنائے باہر آ کر بیٹھ کر سب کے ساتھ چائے پینے لگی۔

شایان کے والد نے بیٹی کے سسر کو بھی ساتھ چلنے کا کہا،

سیف نے بتایا کہ ماموں کا بیٹا بھی یوکے سے آیا ہوا ہے۔

اس نے کہا ہے کہ عمرہ کو میں اپنے گھر سے رخصت کروں گا۔

شایان کی بہن بھی تیار کھڑی تھی۔

عمرہ کے گھر والے ماموں کے گھر پر موجود تھے۔ سحرش اور اس کی آنٹی بھی موجود تھیں۔

جیا بہت اداس سی شامل تھی اپنے شوہر اور ساس کے ساتھ انواہیٹ تھی۔ سب کو بلایا گیا تھا شایان کو بھی۔ کیونکہ رسم کے بعد نکاح ہونا تھا ساتھ ہی شادی کی ڈیٹ بھی فکس ہونی تھی۔

ماموں کا بیٹا اور شایان کی بہن کے سسر یوکے میں آپس میں بزنس ڈیل کرتے تھے۔ دونوں ملکر بہت خوش ہوئے۔

نکاح ہو گیا۔ شایان بہت خوش تھا۔

جیا بہت سنجیدہ اور دکھی سی رہتی تھی۔ بچہ بھی بہت کیوٹ تھا۔

اس کی ساس بہت شرمندہ دل میں تھی کہ اپنی بہن کی طلاق اور موت کی زمہ دار وہ تھی۔ اس کو اور اد کے بیٹے کو کوئی لفٹ نہیں مل رہی تھی۔

جیا کے بھائی نے جیا کی حالت دیکھی تو اسے ان کے ساتھ واپس جانے نہ دیا۔

دونوں ماں بیٹا منہ بنا کر بائک پر واپس چل پڑے۔ راستے میں انکا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور بیٹا جگہ پر ہی مر گیا ماں ہاسپٹل جا کر دم توڑ گئی۔

عمرہ کی شادی بیس دن بعد ہونی تھی وہ شادی ان کی فوتگی کی وجہ سے روکی نہ گئی۔

سیف کو جیا پسند آ گئ تھی اس نے والدین سے اس کے ساتھ شادی کی بات کی تو اس رشتے کو بھی خوشی سے قبول کر لیا گیا اور ان کا نکاح ہو گیا۔ دونوں شادیاں اکھٹی  کر دی گئیں۔

ختم شد