SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ آخری قسط

 


عاشق

آخری قسط

تحریر: ماہر جی

ریحانہ کے جانے کے بعد میں بھی وہاں سے نکلا اور اپنے گھر کی جناب چل دیا گھر جا کر میں نے اپنا لباس تبدیل کیا اور کچھ دیر گھر والوں کے پاس بیٹھا پھر میں  نے ظفری سے کہا کال کر کے میں وہ حویلی دیکھنا چاہتا ہوں  وہ بولا باس آپ  ایسا کریں  اپنی گاڑی میں  شہر سے باہر جانے والی سڑک پے آ جایئں میں آپ کے پیچھے ہی ہوں گا  وہاں سے آپ کو لے لوں گا ساتھ،
میں نے ایسا ہی کیا جیسے ہی میں نے شہر سے باہر نکلا اور ایک نہر کا پل کراس کیا پیچھے سے ایک جیپ نے مجھے انڈیکٹر  دینا شروع کیا میںنے گاڑی روکی اس جیپ میں سے ظفری نکلا ،
وہ اب میرے ساتھ ہی بیٹھ گیا میں نے پوچھا ہان بتاؤ دوست  کوئی مسلہ تو پیش نہیں آیا  داور کمال  کا سونا چھینتے  ھوے وہ ہنس کے بولا باس آپ کی آرمی  ہر طرح سے  ماہر ہے  اور ہم ایسے ہی باتیں کرتے کرتے  ایک کافی بڑی حویلی کے آگے پوھنچ گے  وہ حویلی آبادی کے درمیان میں تھی  ،
میں نے کہا یہاں آنے جانے میں کوئی  پروبلم  تو نہیں آتی تم لاگوں کو وہ بولا باس ہم اس کے خفیہ راستے  سے آتے جاتے ہیں میں نے سر ہلایا  پھر میں نے وہ ساری حویلی دیکھی اس حویلی کا رقبہ کوئی پانچ ایکڑ  ہو گا  جو بہت اچھی طرح  تعمیر کروائی تھی کسی نے اسے ایسے ہی پورانی حویلی کا نام دیا گیا تھا ورنہ وو ایک شاندار عمارت تھی ، جس کے باہر مین گیٹ پے کسی نواب اسد خان کی تختی لگی ہوئی تھی ،
ظفری نے بتایا  باس یہ نواب اسد لندن   میں ہوتا ہے   اور اس کی یہ  وراستی حویلی ہے  جو اس نے ہم کو بیچ دی تھی  یہ اب میرے ہی نام ہے  میں نے کہا  چلو اچھا ہوا اور پھر میں نے اس کے نیچے بنے تہہ خانے  دیکھے  کوئی  پانچ عدد تہہ خانے  تھے ہر ایک کا علیحدہ راستہ تھا اور وہ آپس میں ملے ھوے تھے ، خفیہ راستوں سے اور ان میں جانے کا راستہ کھولنا بہت مشکل تھا کسی غیر کے لیے ،

کیوں کے  بنانے والے نے کمال کی کاریگری  دکھائی تھی یہاں پے یہ نواب لوگ واسے بھی شوقین مزاج  ہوتے ہیں اور وہ اپنے  دشمنوں کو سزا دینے کے بھی انوکھے طریقے ہی استمال  کیا کرتے تھے ، میں نے اب سرے خفیہ راستے بھی دیکھے  اور اندر آنے جانے  کا طریقہ بھی سیکھا  میںنے جب کوئی دو یا تین دفع وو راستے کھول کر بند کے تو مجھے اب ساری سمجھ آ گئی اصل میں سارا چکر  ہی دماغ  کا تھا اگر ایک تہہ خانے کا راستہ کھولا ہے اور  اب اسے دوبارہ سے کھولنا ہے تو وہ جس طریقے سے کھولا ہے  یعنی کے وہ  نمبروں سے کھلتے تھے  میں نے پہلا راستہ کھولا ایک سے لے کر نو تک گنتی لکھی  اب اسے ہی دوبارہ کھولنے کے لئے الٹی  گنتی کی ضرورت تھی یعنی کے نو سے لے کر ایک تک اور ایسے ہی سب کو کھولا  جاتا تھا بس انکے  جو نمبر تھے وہ یاد رکھنے  پرتے تھے ،

اب تو وہاں پے جو کیمرے لگانے گ
ۓ تھے، وو چاروں طرف سے مانیٹر  کرتے تھے جو رات کو بھی ایسے ہی ریکارڈنگ کرتے جیسے دن میں ہو رہی ہے، اور کچھ ایسے سسٹم بھی لگانے  گۓ  ، تھے کے اگر کوئی دشمن  یہاں آ بھی جاتا تو وہ  نیچے ایک تہہ خانے کو جسے اب مانیٹرنگ  روم کا نام دیا گیا تھا  وہں سے ہی اس پے دیواروں میں چھپی ہوئی گنز سے فائرنگ  کر کے مار سکتے تھے ان ان چھپی گنز میں جو کے اسلم میں مشین  گنیں تھیں ان سب کے ساتھ ایک ہزار  ہزار گولیوں کی بیلٹ  چڑھا  دی گئی تھی ،

ظفری نے مجھے بتایا باس اگر یہاں پے پورے  سٹی  کی پولیس بھی آ جاتے تو ماری جاتے گئی ، میں نے کہا یہ سب کہاں سے  ملا وہ بولا باس یہ سارا اسلحہ ہم کو اس  سیٹھ داؤد  کے گودام سے ملا تھا  بس جس پارٹی کو ہم نے وہ الیکٹریشن  کا سامان بیچا تھا انہوں نے ہی یہ ساری  سیٹنگ  کروا دی ہے مجھے اپنے کچھ کاریگروں کو ھمارے ساتھ یہاں آنے دیا ہم نے ان کی آنکھوں پے پٹھی باندھ  لی تھی اور رات کی سیاہی میں یہ سب سیٹنگ کروائی  گئی ہے تین یا چار دن میں دن میں ان کو  نیچے رکھا جاتا تھا اب وہ واپس جا کر کبھی بھی اس جگا کی نشاندہی  نہیں کر سکتے میںنے کہا کمال کے لوگ ھو تم بھی یار اور اب میں سارے   ساتھیوں سے ملا وہ سب  ہی مجھ سے مل کٹ خوش ھوے مجھے وہ سب ہی جانتے تھے بس میں نے ہی ان کو آج دیکھا تھا ،

اب ظفری نے آئیکلرکے کو میری گاری کی چابی دی اور کہا اسے ورکشاپ  لے جو اور اس میں بھی خفیہ کھانا بنوا کے لو اور وہ سسٹم بھی لگوا لو جو دوسری گاڑیوں میں لگوایا  ہے ،
اب کی بار وہ بولا باس ہم نے آپ سے کام کا بھی مشورہ کرنا تھا میںنے کہا ابھی کر لیتے ہے وہ اور اپنے ایک دوست کو کال  کی اس نے آج کال نیا نیا کاروبار شروع کیا تھا جس کی آج کال بری مانگ تھی  میں نے اسے کہا  شاہد میرے پاس ایک پارٹی ہے وہ  کسی کاروبار میں انویسٹمنٹ  کرنا چاہتی ہے وہ بولا یار شارق میں نے آج کل حکومت سے ایک نیا ٹھیکہ لیا ہے  سٹیل  کے پلانٹ لگانے کا  مجھے اشد ضرورت ہے روپے کی، میں نے کہا کتنی وہ بولا مجھے  تو کافی چاہے پر آپ کی پارٹی جتنا کر سکے گئی اسی کے مطابق  ان کا شیئر  ہو گا ، اس میں پرافٹ ہی پرافٹ ہے ،

میں نے کہا کوئی اندازہ بھی بتا نہ کتنا ہونا چاہے  وہ بولا یار مجھے تو کروڑوں  کی ضرورت ہے میںنے کہا وو پلانٹ کتنے کا آتا ہے جاپان سے ہی منگوانا ہے تم نے وہ بولا جی  اور کہا وہ پچیس کروڑ کا آتا ہے اور اسے فٹ کر کے چالو کرنے  تک  کوئی تیس  کروڑ تک لگ جایئں گے  میںنے کہا چلو اگر میں تم کو اس پوارتی سے اتنی ہی رقم لے دوں وہ خوشی سے بولا جیو  میرے شہزادے  اگر ایسا ہو جے تو میں اپنے  کسی بھی رشتہ دار کے آگے ہاتھ پھیلانے   سے بچ جاؤں گا ، اور ساتھ پرسنٹ  آپ کی پارٹی کا اور چالیس میرا پلیز یار یہ کام کر دے ، مجھے بھی اس میں کافی منافع نظر آ رہا تھا  میں نے کہا چل ٹھیک ہے تو کل میرے آفس سے آ کیر مجھ سے چیک لے جانا آگے میں ہی ہوں گا وہ پارٹی شو  نہیں ہونا چاہتی  وہ بولا کوئی بات نہیں یار  اب میں نے ظفری سے کہا جی دوستوں کیا خیال ہے وہ سب ہی خوش تھے ،

ظفری نے کہا باس آپ اس سے فائنل  کرو اور اسے پیمنٹ کر دو  اور پھر اس نے ایک لڑکے کو اشارہ کیا وہ تیس کروڑ کی رقم جو تین بیگوں میں تھی لے آیا اور کہا باس یہ لیں میں نے کہا یار جو روپے آپ نے میرے اکاونٹ میں جمع کڑوے ہیں وہ بھی آپ کے ہی ہیں وہ بولا باس نہیں  پلیز  وہ آپ کا حصہ ہے اب  آج سے ہم لوگ  اس فکر سے آزاد ہو جایئں گے کے ھمارے گھر والوں کا کیا بنے گا  میں  نے کہا اپ سب لوگ مجھے اپنا وہ اکاونٹ  دیں  جن میں ماہانہ پرافٹ جمع کروانی ہے اب سب  نےہی ایک کاغذ پے اپنی اپنی ڈیٹیل  لکھنے لگے، پھر ایک ہی کاغذ پے سب کی مکمل  ڈیٹیل  میرے سامنے تھی میں نے اب کہا چلو ٹھیک ہے ہر مہینے ان اکاونٹس  میں روپے جمع ہو جایئں گے کل منافع کو تقسیم کر کے ، وہ بولے تھینکس  باس  

اب اتنی دیر میں وہ لڑکا بھی میرے گاری لے کر آ گیا اب ہم نے گاری کو دیکھا مجھے ظفری نے سمجھایا  کے کیسے خفیہ کھانا اوپن کرنا ہے  اور کیسے  دوسری گاری میں رابطہ کرنا ہے اب اس خانے میں ظفری نے کچھ اسلحہ پسٹل بمع گولیوں کے اور ایک  کلاشنکوف  رکھی دونوں کی نالیوں پے سلینسر  لگا ہوا تھا  اور ساتھ میں ایک کیمرا اور کک اور ضروری سامان رکھا وہ کھانا میری گاڑی  کے گیر باکس کے پیچھے بنایا گیا تھا اب میری گاڑی کے اسٹیرنگ  کے ساتھ ہی ایک بٹن  لگا ہوا تھا، ظفری نے کہا باس آپ اسے دبا دیں گے تو آپ کا رابطہ پیچھے والی گاڑی سے ہو جاتے گا   اور اس کی ریننج  بیس کلو میٹر تک ہے ایک ہی وقت میں آپ کی آواز سب گاڑیوں میں سنی جاتے  گئی جو ھمارے پاس ہیں ،

مجھے یہ سب کافی اچھا لگا  میںنے کہا چلو ابھی بنک کا وقت ہے  یہ روپے بنک میں جمع کروا آییں  پھر میں نے بنک میں جا کر وہ روپے جمع کرواتے اور اب میں نے ظفری سے کہا تم وارثی  کے بارے میں کیا جانتے ہو وہ بولا ایک چھوٹی مچھلی  ہے وہ باس داور کمال کا معمولی  سا بندہ ہے   میںنے کہا مجھے خبر ملی ہے وہ خاص بندہ ہے وہ کہنے لگا باس داور کمال ایک بہت بڑی بلا کا نام ہے  اب وہ اپنا سونا چھیننے  والوں کو پاگلوں کی طرح  ڈھونڈ رہا ہے باس کیا ہوا ہے وارثی کو میںنے بتایا اسے کیس کے بارے  میں

ظفری نے جب بیریسٹیر عاشق گنجانہ کا نام سنا تو بولا باس وہ داور کمال کا ساتھی ہے اکثر وہ اس کے بندوں کو کورٹ سے چھرواتا رہتا ہے داور کمال کے پاس وکیلوں کی پوری ایک فرم ہے  جس میں بڑے بڑے وکیل شامل ہیں، میںنے کہا میں کوئی ثبوت چاہتا ہوں ایسا کے پھر مجھے ان تصویروں کا خیال آیا میں نے کہا او میرے گھر میں چلتیھیں ظفری کو میں اپنے ساتھ آشیانہ میں لے آیا اسے لان میں بیٹھا کر میں نے اندر اپنے کمرے سے وہ تصویریں لیں اور اسے آ کر دکھانے لگا ، وہ ایک تصویر کو دیکھ کر چونک گیا ، بولا باس یہ آدمی تو  انڈیا کا جاسوس ہے اس نے بابری سے بھی رابطہ کیا تھا اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے بابر صاحب نے انکار کر دیا تھا،   

میں بھی اب چونک گیا یہ سن کے اور کہا کونسا آدمی ہے وہ اس نے ایک گنجے سر والی آدمی کی تصویر پے انگلی رکھی  جو داور کمال کے ساتھ بیٹھا تھا اور ان کے ساتھ دو لڑکیاں بھی تھیں وہ بولا باس یہ انڈین ایمبیسی  میں پروٹوکول آفیسر ہے اس کا نام پرتاب  راٹھور ہے میننےکہا ٹھیک ہے اب سمجھا یہ سالہ داور کمال  انڈیا کا  ایجنٹ بھی ہے،

میںنے پھر ظفری کو جانے کی اجازت دے دی اور خود وہیں بیٹھ کر سوچنے لگا کیوں کے اگلے دن ڈیٹ تھی وارثی والی کیس کی اب میںنے اپنے ذھن میں ہی سارا خلاصہ تیار کیا وہاں ہی بیٹھ کے اسے ایک کاغذ  پے اتارا  اور اب میں پرسکوں تھا  کیوں کے میرے ہاتھ  میں وہ پوائنٹ آ گ
ۓ تھے جن سے میں اس وارثی کو سزا دلوا سکتا تھا ،

میں ابھی وہاں ہی بیٹھا تھا کے بھابھی شفق میرے پاس آ گئی اور کہا کیا بات ہے بڑے چپ کر کے بیٹھے  ہو بھابھی شفق نے آج  سبز رنگ کی ساڑھی پہن  رکھی تھی جس میں وہ بڑی خوبصورت نظر آ رہی تھیں ، آج میں نہ جانے کیوں  ان کو ایک عجیب سی نظر سے دیکھ رہا تھا ان کی عمر کوئی بتیس سال کے قریب تھی  ان کا جسم کافی  فٹنگ  میں تھا  بھاری  کسی ہوئی چھاتیاں جو ان کے کپڑوں کو پھاڑ کر باہر آنے کی کوشش میں ہی رہتی تھیں نیچے پیٹ نہ ہونے کے برابر تھا اور پھر باہر کو نکلی ہوئی گانڈ وہ ایک کمال کی مست عورت تھیں انکے کشمیری سیب کی طرح بھرکتے ہوے گال تیکھی ناک اور دو پتلے پتلے ہونٹ جو جب کھلتے تو ان کے موتیوں جیسے دانت لشکارے  مارنے لگتے ،وہ ایک بھر پور سیکسی بدن کی مالک تھیں ، وہ مجھے یوں اپنی یعرف ٹکٹکی باندھے  دیکھتے پا کر کچھ شرما گیں اور کہا آے مسٹر کیا گھور رہے ھو میںنے کہا آج آپ بڑی پیاری لگ رہی ہیں آج بھائی طارق تو آپ کو دیکھتے  ہی  فدا ہو جاتے گا وہ بولی یار وہ آج ایک  سرکاری مشن پے گ
ۓ ہیں کچھ دنوں کے لئے  اس لئے ایسا کچھ نہیں  ہو گا ،  

پھر مجھے دیکھ کر بولی شارق تم بڑے بدمعاش ہو گ
ۓ ہو اب مجھے آج بانو نے بتایا ہے وہ برا یاد کر رہی تھی تم کو آئی تھی یہاں پے اور ایک گھنٹہ بیٹھ کے چلی گئی تم نہیں تھے نہ وہ تو خوب دیوانی ہو گی ہے تمہاری اس پھلچری کو کیا کہا ہے تم نے میں نے کہا بھابھی بس کچھ ہلکی پھلکی  ڈوز دے دی تھی   وہ بولی جی ہاں اور شادی پے بھی جناب نے اس کائنات کو ہلکی پھلکی ڈوز ہی دی ھو گئی جو آتے ہوے مجھے کہ رہی تھی بھابھی آپ کا دیور بڑا زبردست ہے میںنے کہا تو سہی ہیں نہ وہ میری شعر کہنے کی بات کی تعریف کر رہی ھو گی بھابھی نے کہا تم ٹھیک ہو جاؤ ورنہ کسی دن میں تم کو ٹھیک کر دوں گئی میںنے اب بے  ساختہ  کہا بھابھی ٹھیک کر دو نہ مجھے آج اتنی پیاری لگ رہی ھو ، میں بتا نہیں سکتا کب آؤ گئی مھے ٹھیک کرنے وہ بولی کیا کہ رہے ھو شارق میں سمجھی نہیمیننے اب کچھ کھل کے کہا بھابھی آئی لو یو وہ بولی سیم  ٹو یو شارق اب کی بار میںنے کہا بھابھی آئی کس یو وہ اب جھینپ گئیں اور کہا چل ہٹ بدتمیز  نہ  ہو تو ، میں ہنس دیا اور کہا بھابھی میں اپنے کمرے میں  جا رہا ہوں ذرا وہاں آ جانا ،

میں اب اپنے کمرے میں آ کر سوچنے لگا آج بھابھی شفق سے کچھ کھل کے کہوں آج پتا نہیں کیوں  میری نیت ان پے خراب ہو رہی تھی میں اپنے بد پے لیٹ گیا کوئی بیس منٹ بعد بھابھی شفق آئی مجھے لیتے دیکھا تو کہا شارق آپ ٹھیک تو ہیںنہ میںنے کہا نہیں میں آج ٹھیک نہیں ہوں وہ پریشان ہو کے بولی کیا ہوا  میں نے  کوئی جواب نہ دیا اب کی بار وہ پھر بولی  بتاؤ نہ کیا ہوا ہے میں نے ہنس کر کہا نیند نہیں آتی آج کل وہ لمبا سانس لے کر بولی مجھے پریشان کر دیا تھا  تم نے اور کہنے لگی اب تم شادی کر لو ہے کوئی لڑکی نظر میں  میں نے کہا نہیں ہے وہ بولی کیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے  ہو میں نے کہا بلکل آپ جیسی ھو خوبصورتی میں بھی اور آواز بھی آپ کی طرح سریلی ھو اور اس کا فگر آپ جیسا ہی ہونا چاہیے  اب کے وہ شرما گئی اور کہا تم نہیں سدھرو گ
ۓ میںنے کہا بھابھی سچی میں مجھے آپ جیسی لڑکی چاہیے اگر آپ کی شادی نہ ہوئی ہوتی میں آپ کو ہی چنتا  وہ اب کے مسکرا کے بولی اب کیا ہو سکتا ہے اور افسوس میری کوئی بہن بھی نہیں ہے  جو میں اپنے سوہنے سے دیور کے لئے لے آؤں ،

میں نے کہا بھابھی آپ مجھے بہت پیاری لگتی ہیں  بھابھی میرے پاس ہی بیڈ پے بیٹھی تھی  ، وہ بولی شارق اب مسکہ نہ لگاؤ مجھے  میںنے کہا سچی میں یار اور بھابھی کا ایک ہاتھ پکڑ کے سہلانے لگا وہ بولی شارق کیا ہے  یار میرا ہاتھ تو چھوڑو میںنے ان کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا

کچھ اس ادا سے  آج !وہ  پہلو نشین رہے
جب تک  ہمارے پاس رہے !!!ہم نہیں رہے !

اب یہ سنتے  ہی بھابھی نے  کہا شارق میں تم کو اتنی پیاری لگتی ہوں مینن ے کہا بھابھی آپ پے مر جانے کو دل چاہتا ہے بھابھی نے اپنا ہاتھ میرے منہ پے رکھا اور کہا ایسے نہیں کہتے مریں تمہارے دشمن میںنے بھابھی
شفق کے ہاتھ کی ہتھیلی کو چوم لیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کے اپنے سینے پے رکھا اورجذبات سے بوجھل آواز میں کہا

 تو اگر دل پے میرے ہاتھ ہی رکھ دے تو
ٹوٹتی سانسیں بھی کچھ دیر سنبھل جاتی ہیں

اب بھابھی شفق نے کہا شارق کیوں مجھے پاگل کرنا چاہتا ہے ایسا مت کر میں نے اب کی بار بھابھی شفق کی تھوڑی کو پکڑ کے اوپر کیا اور اپنا ہاتھ بھابھی شفق کے ہونٹوں پے رکھا اور پھر اپنی ایک انگلی سے ان کے ہونٹوں کو سہلانے لگا میںنے کہا شفق تمہارے یہ رس بھرے ہونٹ مجھے بڑا  تڑپاتے ہیں اب شفق بھابھی نے تیز سانسوں سے کہا شارق کیوں تڑپاتے  ہیں  تم کو میرے ہونٹ میںنے اب ان کو سر سے پکڑ کے اپنی طرف جھکایا اب میرے اور ان کے ہونٹوںمیں ذرا سا ہی فاصلہ تھا شفق بھابھی کے ہونٹ اب کانپ رہے تھے میں نے کہا جان پلیز ایک دفع ان ہونٹوں سے مجھے جام پلا دو وہ تڑپ گئی شارق پلیز ایسا نہ  کہو میںنے کہا کیوں تڑپتی ھو مجھے

 تم میری عمر کے سمندر میں

زندگی کا آخری جزیرہ ھو•
○♥ ٠

اب بھابھی شفق بھی مچل اٹھی اور کہا شارق مجھے اتنا چاہتے ھو میںنے کہا ہاں شفق میں بہت تڑپتا ہوں آپ کے لئے وہ بولی اب میں کسی اور کی امانت ہوں شارق میںنے کہا مجھے اپنے ہونٹوں کو ایک دفع چونے کا موقع دے دو وا ب کچھ نہ بولی میںنے انکے کانپتے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی قید میں دے دیا  میں نے شفق بھابھی کے ہونٹوں سے اب رس پینا شروع کیا  بہت ہی نرم اور میٹھے تھے ان کے ہونٹ میں ان کو چوسنے لگا اب چوستے چوستے  میںنے اپنا ہاتھ شفق بھابھی کی چھاتی پے رکھا وہ تڑپ کے پیچھے ہٹیں اور کہا شارق یہ نہیں ہو سکتا میںنے کہا ٹھیک ہے بھابھی آپ جاؤ میں ہی تڑپ رہا ہوں نہ اس سے آپ کو کیا جاؤ اپنا کام کرو وہ بولی تم پاگل ہو گے ھو یہ غلط ہے میںنے کہا پیار میں کچھ غلط نہیں ہوتا اب کی بار وہ بولی چلو بس ایک دفع این کو ہاتھ لگا لو پھر کبھی نہیں کہنا ایسا کے مجھے تمہاری پروا نہیں میںنے کہا مجھے ان کو دیکھنا ہے اور اپنے ہاتھوں میں  لے کر ان کی نپلز کو چوسنا ہے اب وہ پریشان ہو گئی  اور کہنے لگی اب تم غلط ضد کر رہے ھو شارق میںنے کہا مجھے  نہیں پتہ  آپ میری بات مانوں گی یا نہیں وہ اب کچھ نہ بولی میں نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا جو کھلا ہوا تھا میں بیڈ سے اٹھا اور جا کر اندر سے بند کر دیا اب بھابھی کی نظر میری پینٹ پے گئی جہاں سے میرا لن  کھڑا تھا اور وہ اسے دیکھ کر کچھ شرما گئی ،

میں نے اب واپس آ کر بھابھی کو کہا بھابھی کیا ہوا مجھے پتہ تو چل گیا تھا وہ کچھ نہ بولی میںنے ان کو بیڈ پے لٹا دیا اور ساڑھی کا پلو ان کے سینے سے ہٹا کے ان کے چھتیس سائز کے مممے کو شری کے اوپر سے ہی اپنے ہاتھ میں لیا اور دبانے لگا اب بھابھی  نے کہا بس ایک دفع شارق جلدی سے دیکھ لو پھر کبھی ایسی ضد مت کرنا میںنے اپنے ہونٹوں سے ان کا منہ بند کیا اور اپنی زبان سے ان کے منہ میں دستک دی آخرکار میری بار بار کی دستک سے تنگ آ کر بھابھی نے اپنے منہ کو کھولا اور میری زبان کو اندر جانے کی اجازت دے دی اب میری زبان نے بھابھی کے منہ اندر چاروں طرف اپنی حکومت بنا لی اور اب بھابھی بھی میری زبان کا قبضہ تسلیم کر کے اسے چوسنے لگی ،میں نے اب ان کی چھاتی سے ساڑھی کا بلاوزکھولا اور نیچے سے ہلکے سکن کلر کی برا میں ان کے  مممے مجھے نظر آے میںنے اب برا کے اوپر سے ہی ان کا ایک نپل اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگا اب بھابھی کی آنکھیں بند ہو گیں تھیں اور وہ تیز تیز سانس لینے لگیں تھیں  پھر میںنے اپنے دانتوں سے ان کا برا بھی کھول دیا اور ان کے موٹے موٹے مممے یوں اچھل کے میری طرف آے جیسے کہ رہے ہوں آؤں ہم کو چوسو میںنے اب ایک طرف کی نپل کو چوسنے لگا اور دوسری طرف والی نپل کو اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں میں لے کر مسلنے لگا اب تو بھابھی نے س س س س ا ش ش شکی آواز نکالی اور کہا  شارق اب بس کرو میںنے کہا بھابھی آج مجھے اپنے  ان دودھ سے بھرے ہوے ممموں سے کچھ پی لینے دیں وہ سسکار کے بولیں شارق اف ف ف ف آہ  نہ کرو اب مجھے کچھ ہونے لگا ہے  پلیز چھوڑ دوں نہ آاااہ اش شس شش  آئی شارق اف ف ف ف ف ہو آہ مجھے ان کی یہ سسکاریاں سن کے بڑا مزہ آ رہا تھا اب تو بھابھی نے مزے سے تڑپنا شروع کر دیا تھا میںنے اب ان کے ممموں کے نیچے والی جگہ پے اپنی زبان پھیرنی شروع کر  دی وہ اور بھی تڑپ اٹھیں میں زبان پھیرتے ہوے نیچے آنے لگا اب میں ان کے سڈول پیٹ پے اپنی زبان سے مساج کرنے لگا ،

بھابھی نے اب کی بار میرے سر پے اپنا ہاتھ رکھا اور اپنے پیٹ کی طرف دبانے لگیں میں  نے ان کی ناف کے چاروں طرف اپنی زبان پھیری اور اب میں نے ان کی چوت  کی طرف اپنی زبان کا رخ کیا  پہلے میںنے اپنا ایک ہاتھ ان کے پاجامے کی طرف کیا اور اوپر سے ہی ان کی چوت کو ہلکے سے سہلایا بھابھی ایک آہ اش شش  شارق اسے مت ہاتھ لگاؤ پلیز  کہ اٹھیں میں نے اب ان کی طرف دیکھا وہ اب مجھے اپنی نشیلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں کہنے لگی پلیز شارق وہاں پے ہاتھ نہیں  لگانا میںنے کہا ٹھیک ہے ہاتھ نہیں لگاتا زبان لگا سکتا ہوں نے اور یہ کہہ کر ان کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا اور اپنی زبان ان کی چوت پے رکھ دی اوپر سے ہی پاجامے کے وو مچل اٹھی اور کہا شارق پلیز مت کرو  ایسا میں کنٹرول  نہیں کر پاؤں گئی اپنے آپ کو  میںنے کہا تو میں ہوں نہ اور اپنی زبان سے بھابھی شفق کی چوت کو چاٹنے لگا میں کوئی دس منٹ تک ان کی چوت کو  چاٹتا رہا وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہیں تھیں ان کے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں آہ شارق میں مر گئی  اف ف  ف ف ف  ظالم مت کر ایسا ہاہے اش ش ش ش  اوئی شارق س س س س س س آے اف ف ف ف وہ اب تڑپی جا رہی تھیں اور اب وہ اپنا سر بیڈ پے پٹخ رہی تھی بار بار  اور ایک زور دار چیخ سے وہ اب جھاڑ گئیں ان کی چوت نے پانی چھوڑ دیا وہ اب لمبے لمبے سانس لینے لگیں، مجھے دیکھا اور اپنے اوپر کھینچ لیا اب وہ مجھے اپنے ساتھ لپٹاے ہوے چوم رہی تھیں میرے ہونٹوں کو اور گالوں کو وہ اب بولی شارق تم نے میری جان ہی نکل دی ہے ایسے تو آج تک تمہارے بھائی نے بھی مجھے مزہ نہیں دیا ،میںنے کہا بھابھی ابھی تو مزہ باقی ہے ، وہ بولی  شارق تم اتنا مزہ دیتے ھو تبھی تو ہر لڑکی جو تم سے ایک دفع مل لیتی ہیں تمہاری دیوانی ہو جاتی ہے ،

میںنے کہا بھابھی  وہ بلی نہیں اب مجھے شفق کہہ کے بلا میرے یار میں نے کہا شفق میری جان  اور اس کی ہونٹ چوم لئے اب میں ان کے ساتھ ہی لیٹ گیا  اور ان کی چھاتی کو مسلنے لگا  وہ اب سسسس کر اٹھی شارق تمہارے ہاتھ میں جادو ہے میرے بدن کو جیسے ہی تم چھوتے ہو مجھے کرنٹ سا لگتا ہے میںنے کہا شفق تم خس بھی اتنے خوبصورت جسم کی مالک ھو میں بتا نہیں سکتا اور اب میں نے اپنا ہاتھ اس کے پیٹ پے رکھا کچھ دیر وہاں پے سہلانے کے بعد میںنے وہی  ہاتھ اس کی چوت پے رکھا وہ آہ کر  اٹھی  میںنے اب اس کے پاجامے کو ایک ہاتھ سے نیچے کی طرف سرکیا  اور اس میں اپنا ہاتھ دل کر اس کی گیلی چوت پے پھیرنے لگا وہ مچل گئی دوبارہ سےاور بولی شارق اب اس میں آگ لگ گئی ہے  اسے اور مت چھیڑو  اب میںنے کہا شفق میں اس کی آگ بجھا دوں گا وہ بلو کیسے  میںنے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پے رکھا اور کہا اس سے  اس نے میرے لن کو ایک جذب کے عالم میں اپنے ہاتھ میں پکڑا اور کہا مجھے بنو نے کہا تھا شارق کا ہتھیار بہت بڑا ہے  کیا یہ سچ ہے  میں نے کہا مجھے کیا پتہ خود ہی دیکھ لو وہ اب اٹھی اور میری پینٹ کو اتارا پھر میرا انڈر ویر  اتار دیا اب وہ میرے لن کو دیکھ کر بولی اوئی ماں اتنا بڑا اور موٹا یہ تو بڑا ظلم کرتا ہو گا لڑکیوں کی اس جگہ پے میںنے کہا کس جگہ پے وہ بولی مجھے نہیں پتہ میں وہ نام نہیں لوں گیں  میںنے اب اسے کہا کیا تم کو یہ اچھا لگا ہے وہ بولی ہاں میرے شارق تمہارا ہتھیار بہت کمال کا ہے اور اسے ایک کس کی میں نے کہا اسے چومو اپنے ہونٹوں سے اس نے ایسا ہی کیا وہ میرے لن کو چومنے اور چاٹنے لگی ،  


میں اپنی انگلی سے اس کی چوت کا دانہ سہلا رہا تھا وہ اب کافی گرم ہو گئی تھی اب وہ بولی شارق میرا جسم اب ٹوٹ رہا ہے کچھ کرو  نہ میںنے کہا کیا کروں اور اس کے اوپر  لیٹ کر اس کے مممے چوسنے لگا وہ بچیں ہو کے بولی شارق  مجھے نہیں پتہ میری اس جگہ پے  اب جلن ہو رہی ہے کچھ کرو میںنے اس کی ایک نپل کو کاٹا ہلکے سے وہ آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق پلیز کچھ کرو  نہ  میںنے اب اپنا لن اس کی چوت سے لگا دیا  اور اسے دوبارہ  چومنے لگا وہ بولی اندر کرو نہ میںنے کہا کیا اندر کرو ان کا نام تو لے میری رانی وہ ٹوٹی آواز میں بولی شارق اب مت تڑپاؤ اوہ اوہ آوچ یاہ شارق میری جان ماں جاؤ نہ میںنے کہا شفق مجھے بتاؤ میں کیا کروں وہ اب بولی ہلکی سی آواز میں شارق اپنا لن میری چوت میں دل دو زور  سے یہ سنتے ہی میںنے اپنا لن ایک ہی جھٹکے سے شفق بھابھی کی چوت میں ڈال دیا وہ جڑ تک  اندر چلا گیا کیونکے ان کی چوت بہت دیر سے پانی چھوڑ رہی تھی فل گیلی تھی  یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق میری جان بہت بڑا ہے تمہارا لن  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میرے جانو اب میں ان کو آرام  آرام سے چودننے لگا پانچ  منٹ بعد وہ بھی اب مزے کی شدت سے چیخ کے  بولی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق زور سے اب اور زور سے کرو آج مجھے وہ مزہ دو جو کبھی نہ ملا ہو میری جان کے ٹوٹے  کہاں تھے تم آج تک  یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م   شارق کیا مزہ ہے  اف ف میں بتا نہیں سکتی آج  اپنی جان شفق کو خوب چودو  میں بھی اب  مزے سے زور  دار دھکے مارنے لگا  میںنے اب ان کو بیس منٹ  تک ایسے ہی چودا وہ کوئی دو دفع درمیان  میں فارغ ہوئیں  اب میںنے بھی ان کے اندر زور کے دھکے مارے وہ بولی شارق میں پھر آ رہی ہوںیاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ شارق اف ف ف ف ف م م م وہ جیسے ہی فارغ ہوئیں میںنے بھی  ایک دو اور دھکا مارا اور اپنے لن   سے اپنی ساری منی پھینک دی میرا لن کافی دیرتک پچکاریاں مارتا رہا ان کی چوت میں منی کی  شفق نے کہا  اف ف شارق اتنی منی چھوڑتا ہے تمہار یہ ظالم لن ،

اب ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی بانہوں میں کس کے جھکڑ لیا بھابھی شفق نے کہا شارق مجھے اتنا مزہ کبھی نہیں آیا طارق کا لن بھی آپ سے چھوٹا  اور وہ اتنی شدت سے پیار بھی نہیں کرتے تم تو واقعی میں عورت کو پاگل کر دیتے ھو گے تمہارے پیار کرنے کا انداز اور اس سے بڑھ کے تمہارا یہ موٹا لمبا لن کسی بھی لڑکی کو اپنا دیوانہ بنا لیتا ہو گا اور مجھے چومنے لگیں  میںنے کہا شفق مجھے اب کی بار آپ کی گاند بھی مارنی ہے وہ بولی نو یار وہاں پے کافی درد ہوتا ہے ایک دو دفع طارق نے وہاں پے اپنا لن ڈالا ہے مجھ سے برداشت نہیں ہوتا میںنے کہا لیکن مجھے مارنی ہے بس وہ ہنس دی اور کہا عجیب زبردستی ہے یہ بابا جب میں کہ رہی ہوں وہاں پے تمہارا لن  نہیں سه پاؤں گئی تو سمجھوں نہ میںنے اب ان کی گاند کے سوراخ پے انگلی رکھی اور کہا جب میں پیار سے آپ کی گانڈ چودوں گا تو آپ سہہ لو گئی میرے لن کو بھی اب میںنے ہلکے سے انگلی اندر کی ہی تھی وہ آئی اف سسسس کر اٹھی میںنے  انگلی نکال لی کافی ٹائٹ سوراخ تھا شفق کی گانڈ کا میںنے اب کی بار ان کو الٹا لٹا کے واش روم گیا اور وہاں سے تیل  کی بوتل لے آیا میں نے اب تیل اپنے ہاتھ پے ڈالا اور ان کی کمر پے ملنے لگا میںنے اب ان سے کہا شفق وہ بولی  شارق ٹھر جاؤ ساری بیڈ کی چادر خراب ہو جاتے گئی اور  اٹھ کے ایک الماری سے ایک اور چادر نکالی اور بیڈ پے بچا دی اب میں نے ان کو دوبارہ لٹا دیا اور وہ تیل ان کے جسم پے ملنے لگا ہم دونوں ہی فل ننگے تھے اب معائنے ان کی کمر کا ہلکے ہلکے  مساج کرنا شروع کیا اور کمر سے گردن تک پھر ان کی گانڈ پے مساج کرتا رہا ،

دھیرے دھیرے میںنے اب ان کی ٹانگوں پے مساج کیا اور پھر کافی دیر  ان کی چھوٹ کو مساج کرتا  رہا میںنے تیل سے ان کی گانڈ اور چوت کو مساج کیا اس کی گانڈ کے سوراخ کو اچھی طرح نرم کیا اب وہ  بھی میرے لن کو تیل لگا کر مساج کرنے لگی میرا لن اب فل جوبن پے آ  گیا تھا میںنے اپنا لن اب شفق کی گانڈ کے سوراخ پے رکھا اور ہلکا سا دھکا دیا وہ پھسلتا ہویا اندر چلا گیا گانڈ کے شفق کی ایک زور دار چیخ نکلی  ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م میں مر گئی میری ماں  اف اف شارق باہر نکال لو   یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف شارق پلیز آگے چوت میں ڈال لو مجھ سے نہیں لیا جاتے گا گانڈ  میں اب وہیں رکھا رہا اور اپنے ہاتھ سے شفق کے مامے مسلنے لگا کچھ دیر بعد جب اسے درد کم ہوا میںنے کچھ اور آگے کیا لن وو پھر تڑپی میں اب روکا اور یوں میںنے نے روک روک کر پانچ  دھکوں میں اپنا لن سارا اس کی گانڈ میں ڈال دیا و کانپ رہی تھی اب اور چیخ  رہی تھی شارق مان جاؤ میری بات میری گانڈ پھٹ گی ہے مجھے بڑا درد ہو رہا ہےاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف شارق میری جان نہیں ھو میری بات مان جاؤ میں نے کہا جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب بس مزہ ہی مزہ ہے وہ بلو اچھا پھر آرام آرام سے کرنا اب  معائنے پھر دو تین دفع اپنا لن سارا باہر نکالا اور اندر کیا اس سے شفق کی گانڈ  میں میرا لن اب آسانی  سے جانے لگا اب میں  نے ہلکے ہلکے دھکے مارنے شروع کے  اب اسے بھی کچھ مزہ انے لگا وہ اب سسکاریاں بھرنے لگی  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق زور سے اب اور زور سے کرو میری گانڈ کو بھی کھلا کر دو  اب مجھے بڑا مزہ آ رہا ہے شارق آہ میں نے اب فل زور  زور سے لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا اب وہ چیخ رہی تھی یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق اہ کچھ  پیار سے کرو ظالم اف ف ف ف مار کے ہی آج چھوڑو گے مجھے اپنا لن دیکھو اور میری نازک گانڈ  میں نے اب بنا رکے ویسے ہی زوروں کے دھکے جاری رکھے یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے شا ر ر ر ر ر ق ق ق یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف میرے شارق  میری زندگی شارق میرے یار شارق بڑا مزہ آ رہا ہے اور کوئی دس منٹ میںنے  اسے مزید چودا اور اب بولی میری ٹانگوں سے جان نکال رہی ہے شارق یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف  ف ف ف اور وو فارغ ہو گئی میں نے بھی اسے کہا جانو میںبھی آنے والا ہوں اور وہ بولی شارق اپنا پانی میری چوت میں چھوڑنا میں نے جلدی سے اپنا لن گانڈ سے نکالا اور چوت میں ڈال کے دھکے مارنے لگا   یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف کرنے لگی میںنے اب ایک زور کا دھکا مارا اور اپنی منی اس کی چوت  میں دوبارہ سے چھوڑ دی

اب وہ لمبا سانس لے کر بولی شارق تم ویسے ہو بہت ظالم دیکھو میری گانڈ کا کیا حال کیاہے تم نے  میںنے کہا  جانو کچھ نہیں ہوا  وہ اب اٹھی اور واشروم جانے لگی  میں بھی اس کے  پیچھے واش روم گیا اور ہم نے مل کر ایک دوسرے کے جسم کو صابن لگایا اچھی طرح نہ کر ہم باہر آے میں نے اب اپنے کمرے میں  ایک پیاری سی خوشبو سپرے  کی ہر طرف ایک ایک محصور کن خوشبو  پھیل گئی اب شفق نے مجھے گلے سے لگا کے کس کی اور اپنا جسم  صاف کیا  اپنے کپڑے پہن کے وہ بولی اب میں چلتی ہوں کافی ٹائم ہو گیا ہے اب  شام ہونے والی تھی وہ میرے کمرے سے نکل کے باہر چلی گئی میں بھی اب ایک نیا سوٹ پہن  کے باہر آیا اور لان میں جا کر  ایک کرسی پے بیٹھ گیا میںنے  اپنی فائل بھی ساتھے ہی لے لی تھی وہاں بیٹھ کے اپنا کام کرنے لگا بھابھی تنویر لالارخ کے ساتھ بازار گی تھی وہ ابھی آئی اور بری بھابھی آج  اپنے میکے میں گئی تھی  والدہ صاحبہ اور والد سحاب بھی ان کے ساتھ ہی گے تھے کیوں کے ان کے والد کی طبیت کافی خراب تھی آج میں  اور بھابھی شفق گھر میں اکیلے ہی تھے اسی لئے اتنی موج کی ہم نے تین چار گھنٹے تک ،   

اب لالارخ مجھے دیکھ کر میری طرف آئی اور کہا بھائی جان مجھے آپ سے ایک کام ہے میں نے کہا کیا کام ہے لڑاکو بلی کو اس نے کوئی جواب نہ دیا اور کہا آپ نے میرا  ایک کام کرنا ہے  میں اس کے جواب نہ دینے سے سمجھ گیا کوئی خاص ہی کام ہے ورنہ وہ کوئی موقع لڑائی کا خالی کہاں جانے دیتی تھی
وہ میرے سامنے بیٹھی اور کہا  بھی میری ایک دوست ہے گلشن  اس کے ساتھ ایک مسلہ ہو گیا ہے میںنے کہا کیا مسلہ ہے وہ اب کچھ دیر چپ رہی پھر بولی بھائی اس  کو  اور چپ ہو گئی میںنے اب کی بار اپنی فائل رکھی اور اس کی طرف دیکھا  وہ اب رونے والی ہو رہی تھی مجھے اپنی بہن  سے بڑا پیار تھا  وہ لڑائی تو بس ایسے ہی ہوتی تھی کیوں کے میں  اس سے بس دو  سال ہی بڑا تھا اس لئے بچپن سے ہی اس سے لڑتا رہتا تھا وہ سرے گھر کی لاڈلی  تھی اور اس کی آنکھ میں آنسو  میںکیسے برداشت کر لیتا میںنے کہا لالارخ کیا بات ہے  مجھے ساری بات بتاؤ وہ بولی بھائی  وہ میری سب سے بیسٹ فرینڈ  ہے  لالارخ ایم .اے کے لاسٹ سال میں تھی ، میںنے کہا آگے بھی تو بتاؤ نہ  اتنے میں بھابھی تنویر  بھی آگیں،


اب میںنے بھابھی تنویر سے کہا اسے کیا ہوا ہے بھابھی وہ بولی بازار میں اسے ایک دوست کی بہن ملی تھی اس نے ہی اسے کچھ بتایا ہے اور یہ آتے ہوے کار   میں بھی ایسے ہی روتی رہی ہے میں نے پوچھا بھی پر کچھ بتایا نہیں
میں اب اپنی جگا سے اٹھ کے لالارخ کے پاس گیا اوراس کے کندھے پے ہاتھ رکھ کے کہا مجھے بتاؤ لالارخ ایسا کیا ہو گیا ہے جس نے تمہاری آنکھوں میں آنسوں کی بارش برسا دی ہے یار میں آپ کے آنسو نہیں دیکھ سکتا وہ اب میرے گلے  لگ کے زاروقطار رونے لگی اب تو میں بھی پریشان ہو گیا تھا شفق بھابھی  بھی اب بھاگی چلی میںنے اب لالارخ کو چپ ا کروایا بری مشکل سے بھابھی تنویر نے اسے پانی پلایا وہ اب کچھ چپ ہوئی اور کہا بھائی گلشن مجھے  بہت عزیز ہے جو اس کے ساتھ ہوا ہے میں وہ درد محسوس کر رہی ہوں خود اپنے اندر میںنے کہا مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے گلشن کو جو تم کو عزیز ہے وہ مجھے ساری دنیا سے عزیز ہے اب یہ سن کے اسے کچھ حوصلہ ہوا وہ بولی بھائی جس دیں سے ہم ایگزام سے فارغ ہوے ہیں میں اس سے نہیں مل سکی ایک ویک  ہو گیا ہے آج اچانک اس کی ایک چچا زاد بہن مجھے ملی ہے بازار میں اور اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا ہے کیسی   دوست ہو تم  کے تمہاری دوست پے قیامت  گزر گئی اور تم نے اس کا حال تک نہیں پوچھا  واہ یاری ہو تو ایسی  بھائی گلشن کو ،

اب وہ دوبارہ سے رونے لگی میںنے کہا بتا دو آگے کیا  ہوا ہے گلشن کو اب لالارخ نے کہا بھائی اسے جس دیں ہم شادی پے گے تھے اسی دن ایک  وفاقی وزیر کے بیٹے  نے گلشن کو اغوا کر لیا تھا اور اس کا بھائی روتے ہوے کہا بھائی گلشن  کا ریپ  کر دیا ہے اس نے اور پھر سے رونے لگی بھائی جب  وہ دو دن بعد گھر لوٹی تو اسی دن سے وہ اپنے کمرے میں بند ہے نہ کسی سے بات کرتی ہے اور نہ ہی دروازہ کھولتی ہے بھائی اس کے گھر والوں کو اسی ریپ کرنے والے  نے دھمکی دی ہے اگر وہ پولیس کے پاس گے تو ان سب کو مار دیا جاتے گا بھائی جب سے میں نے یہ سنا ہے مجھے ایسا لگ رہا ہے یہ سب میرے ساتھ ہوا ہے بھائی وہ مجھے بہت عزیز ہے بھائی وہ بڑی حساس لڑکی ہے وہ مر جاتے گئی ، میںنے کہا تم کو ان کے گھر کا پتا ہے وہ بولی جی ہاں میں نے کہا اٹھو اور اسے ساتھ لے کر گلشن کے گھر کی طرف چل دیا وہ مجھے راستہ بتانے لگی ایک گنجان آباد علاقے میں جا کر ہم ایک درمیانے درجے کے گھر کے سامنے رکے میں نیچے اترا ہماری گاڑی دیکھ کر اس گھر کے دروازے پے ایک خاتون کھڑی تھی اس نے جب لالارخ  کو دیکھا تو ایک چیخ مار کے وہ آئی  اور لالارخ کو اپنے گلے  لگا کر رونے لگی لالارخ بھی اب رو رہی تھی ،

وہ خاتون بولی روتے ہوے دیکھ لالارخ تیری دوست کا کیا حال ہو گیا ہے اور ہم کو اندر لے آئی ایک کمرے کے سامنے اب اس گھر کے  لوگ ایک جگہ جمع ہو گے تھے  جن میں گلشن کی بہنیں  بھابھیاں اور بھائی بھی تھے سب ہی رو رہے تھے گلشن کا ایک بھائی روتے ہوے بولا لالارخ اسے تم ہی کہو دروازہ کھول دے وہ تمہاری بہت مانتی ہے  لالارخ نے اب دروازے پے دستک دی اور کہا گل دروازہ کھولو میں آئی ہوں اب اندر سے ایک آواز آئی آج آئی ہو مجھے تو مرے ہوے تین دن ہو گے ہیں رخ تم آج میرے قبر پے پھول چڑھانے آئی ہو یہ سنتے ہی لالارخ زور زور سے رونے لگی اور کہا اگر تم نے دروازہ نہ کھولا میں اپنا سر فار لوں گئی اسی دروازے سے مار مار کر اور زور سے اپنا سر دروازے پے دے مارا اب یہ دیکھ کر گلشن کی بہنوں کی چیخیں نکل گیں میں بھی گھبرا کے آگے بڑھا اور کہا لالارخ کیا کر رہی ھو وہ بولی بھائی میں نہیں جی سکتی گل کے بنا اسے کہیں دروازہ کھولے ورنہ میں بھی مر جاؤں گی آج میرے دل کو کچھ ہوا  میں اسے حیرت سے دیکھنے لگا یہ بھولی بھالی سی لڑکی دوستی میں اتنی کھری  ہے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے اسے اتنا پیار ہو گا گلشن سے اب کی بار میں آگے بڑھا اور کہا گل آپ دروازہ کھول دیں یہ ضدی لڑکی خود کو مار ڈالی گئی اب اندر سے دروزے کی چٹکی نیچے ہویی اور دروازہ کھول کے ایک معصوم سی پھولوں جیسی لڑکی جس کے بال بکھرے تھے اور لباس گندا ہو رہا تھا باہر آئی اور لالارخ کے گلے لگ کے رونے لگی  ، وہ اسے کہے جا رہی تھی تم آج کیوں آئی رخی تم کو اسی دن آنا چاھیے تھا  کیا جو مجھ پے بیتی اس کا تم کو احساس نہیں ہوا تم تو کہا کرتی تھی گل تم کو چوٹ لگی تو مجھے درد ہوتا ہے اور میں درد سے مر گئی اور تم کو پتا ہی نہ چلا اب لالارخ بس اسے چومی جا رہی تھی ،

اب لالارخ نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دے اور کہا مجھے معاف کر دے میں دوستی نہ نبھا سکی تم پے یہاں قیامت گزر رہی تھی اور میں وہاں شادی اتٹنڈ کر رہی تھی خوشیاں منا رہی تھی ،وہ دونوں کافی دیر ایک دوسرے سے گلے لگ کے باتیں کرتی رہیں اور ان باتوں کو سن کر ہم سب کی آنکھوں میں آنسو آ گے تھے اب گل کی ماں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور ہم اندر ڈرائنگ روم میں چلے گ
ۓ اب میں سب سے ملا اب لالارخ نے گل سے کہا گل یہ میرا بھائی ہے شارق وہ بولی میںنے ان کی تصویریں اخبار میں دیکھیں تھیں پھر سب ہی گل سے کہنے لگے کچھ کھا لو اور اپنے کپڑے بدل لو وہ بولی جس دن مجھے انصاف ملا اسی دن میں خود کو زندوں میں شامل سمجھوں گیں ابھی میں مردہ ہوں اور مردے کچھ نہیں کھاتے ،

لالارخ نے کہا گل اٹھو کپڑے بدلو تم کو انصاف ملے گا یہ میرا وعدہ ہے اور اسے ساتھ لے کر اس کے کمرے میں چلی گئی یہ گھر کافی بڑا تھا جو پورانے دور کا بنا ہوا تھا گل کے والد اور چچا لوگ ایک ہی جگہ رهتے تھے پھر تھوڑی دیر میں لالارخ اور گل بھی آ گئی اب وہ نہ کر نے کپڑے پہن کے ای تھی وہ واقعی میں ایکپری جیسا حسن رکھتی تھی ایک مکمل حسن جو لفظوں میں بیان نہ کیا جا سکے اور اپر سے اس کے چہرے کی معصومیت اب لالارخ نے مجھے دیکھا اور کہا بھائی آج ایک بہن بہت مان  سے اپنے بھائی سے ایک بہت بڑی چیز مانگ رہی ہے میںنے کہا پگلی کیا بات ہے وہ بولی بھائی مجھے اس لڑکے کی لاش دیکھنی ہے جس نے میری پھولوں جیسی دوست کو روندا ہے اور وہ بھی دو دن کے اندر اگر آپ سے نہ ہو سکا تومیں خود اسے اپنے ہاتھ سے  گولی ماروں گئی  یہ میرا عہد ہے مجھے اپنی دوستی کی قسم  میںنے کہا مجھے سری بات بتاؤ گل اور اس یقین کے ساتھ بتاؤ کے یہ بھائی اپنی بہن کا کیا ہوا عہد ہر حال میں پورا کرے گا  اب گل نے روتے ہوے کہا  اس دن میں بازار سے کچھ سامان لے کر جیسے ہی  ایک رکشے  میں بیٹھنے  لگی میرے پاس   ایک کلی رنگ کی پجیرو جیپ رکی اس میں سے تین لوگ نکلے اور مجھے اٹھا کے اپنی گاری میں ڈالا اور لے گ
ۓ میرا منہ انہوں نے بند کر دیا تھا ایک کپڑے سے یہ سب اتنا اچانک ہوا کے کسی نے بھی شائد نہ دیکھا ہو گا کے ایک لڑکی کو اغوا کر لیا گیا ہے ،

اب مجھے وہ ایک بہت بڑے گھر میں لے گ
ۓ وہاں مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور رات کو ایک آدمی  جو کوئی پچیس سال کا ہو گا وہ آیا وہ شراب میں دھت  تھا اس نے کہا میں حق نواز ڈوگر کا بیٹا شاہ نواز ڈوگر ہوں میرا باپ   ایک وفاقی  منسٹر  ہے میںنے تم کو ایک دن یونی ورسٹی  سے نکلتے دیکھا تھا تمہارا یہ حسن مجھے اسی دن سے گائل کر گیا ہیاج میںنے تم کو دیکھا تو رہا نہیں گیا اور اٹھوا لیا میری دوست بن جاؤ جو کہو گئی وہ ملے گا  

اور میرے سامنے پانچ لاکھ  کی پوری ایک گدی رکھ دی میںنے کہا میں تھوکتی ہوں تمہارے پیسوں پے مجھے گھر جانے دو ورنہ اچھا نہیں ہو گا وہ اب بولا کس میں اتنا دم ہے کے میرے قبضے میں ای کسی لڑکی کو بچا سکے اور تم تو میری جان ھو اور پھر میںنے جب اس کی  دست درازیوں سے غصے میں آ کر اسے  ایک تھپڑ مارا بس وہ اب آگ بگولہ ہو گیا پھر اس نے ایک رات اور اگلے دن مجھے درندوں کی طرح نوچا اور رونے لگی روتے روتے وہ اب دوبارہ بولی اس نے مججھے کہا تھا جاؤ جو کر سکتی ھو کر لو میں تم کو ایک ہفتے بعد دوبارہ سے تمہارے گھر سے اٹھوا لوں گا سب کے سامنے یہ سب سن کے اس کے گھر والے رونے لگے  وہ شریف کاروباری لوگ تھے اب لالارخ نے کہا اس کتے کی ایسی کی تیسی  اور کہا بھائی مجھے وہ شاہ نواز ڈوگر چاہیے بس ،

اب وہ بولی گل کی والدہ سے خالہ جان گل میرے ساتھ جا رہی ہے میرے گھر یہ اب کچھ دن میرے پاس ہی رہے گئی اس کجے گھر والوں نے کہا ٹھیک ہے بیٹا تمہارے ساتھ اس کا دل لگا رہے گا ورنہ یہ دوبارہ سے کمرے میں بند ہو جاتے گئی گل نے کہا میں نے کہیں نہیں جانا  اب لالارخ نے کہا تمھارے  تو فرشتے بھی جایئں گ
ۓ پھر اس نے گل کو ساتھ لیا اور ہم اپنے گھر کی طرف چل دے راستے میں لالارخ نے کہا بھائی آپ ذرا ،مارکیٹ میں گاڑی روکنا  اور خود   ہی  اوتر     کے چلی گئی گل چپ کر کے گاڑی میں بیٹھی تھی سر جھکاے میں نے کہا گل اپ اتنا پریشان  نہ ہوں سب ٹھیک ہو جاتے گا  اس نے ایک زخمی سی نظر سے مجھے دیکھا اور بولی شارق  صاحب وہ بھوت طاقتور  لوگ ہیںمیں جانتی ھو لالارخ تو پاگل ہے  آپ پلیز میرے لئے ان سے دشمنی نہ ڈالیے گا  میں مسکرا دیا بولا کچھ نہیں ،

پھر کوئی بیس منٹ بعد لالارخ آئی اس کے پیچھے ایک شاپ کا ملازم  تھا جس نے اپنے ہاتھوں میں تین بڑے بڑے  شاپر اٹھا رکھے تھے وہ میںنے ڈکی میں رکھوا دیے  اور کہا یہ سب کیا ہے وہ بولی یہ میری جان گل کے کپڑے ہیں  اب گل نے کہا اتنے سارے  کیا تم پاگل ہو ،لالارخ نے کہا ہاں پاگل ہوں ترے پیار میں اب کی بار میںنے کہا لالارخ مجھے لگتا ہے کسی دن تم نے لڑکا بن جانا ہے وہ اب جھینپ گئی یہ سن کے گل کی ہنسی چھوٹ گئی وہ بڑا خوبصورت ہنستی تھی لالارخ نے کہا چلو ٹھیک ہے آپ لڑکی بن جانا اب آشیانے میں ایک لڑکی بھی ہونا چاھیے نہ میںنے کہا اب میں نے کہا تم کبھی بدلہ لئے بنا بھی رہ جایا کرو لڑاکو بلی  وہ بولی آپ ہوں گ
ۓ باگڑ بلے  میںنے کہا تمہاری دوست کیا سوچے گئی ہم کیسے لڑ رہے ہیں ہماری یہ پیار بھری لڑائی  دیکھ کر گل نے کہا یہ کالج میں بھی اکثر آپ کا ذکر  کرتی رہتی تھی سب دوستوں کو پتا ہے آپ کی اس لڑائی کا ،

اب میںنے لالارخ کی طرف دیکھا اور مصنوعی غصے سے آنکھیں نکال کے کہا لڑکی تم اپنے خوبصورت ترین شہزادے جیسے بھائی  کا ذکر اپنی سہیلیوں سے کرتی ھو مجھے نظر لگوانی ہے کیا وہ بولی جاؤ جاؤ بڑے  آے شہزادے اور میری ایک ہی سہیلی ہے بس گل اور اس کی  نظر نہیں لگتی آپ کو  میںنے کہا کیوں نہیں لگتی وہ بولی اس لئے کے میری گل خود سارے  جہاں سے خوبصورت ہے  میںنے کہا ہو گئی گل اب ہلکے ہلکے ہنس رہی تھی اب غصے سے بولی لالارخ ہو گئی نہیں ہے آپ  دیکھوں غور سے اور بتاؤ ہے کوئی ایسا اب  میں نے  بیک مرر سے گل کو دیکھا اور کہا ہاں تم کہتی ھو تو ماں لیتا ہوں  میری نظر گل کی نظروں سے ملی اور وہ شرما گئی  پھر گھر جانے تک یہی بحث چلتی رہی اب کافی رات ہو گئی تھی لیکن  گھر میں سب ہی جاگ کر ہمارا انتیظار کر رہے تھے والد صاحب اور والدہ صاحبہ اور بڑی بھابھی سب ہی آ چکے تھے ،   

ہم سب ڈیڈی کے کمرے میں ہی گ
ۓ سب بہت پیار سے ملے گل سے وہ سب اسے جانتے تھے پہلے سے ہی وہ شائد آتی جاتی رہی تھی میں  نے ہی بس اسے آج دیکھا تھا


اب ڈیڈی نے سری بات سنی اور گل جو سب سے ملکر رو رہی تھی  اس ڈیڈی نے اپنے گلے سے لگا کے چپ کرایا اور کہا بیٹا آپ بےفکر ہو جاؤ میں اب دیکھ لوں گا اس وزیر زادے کو پھر گل بھی سنبھل گئی اور ہم سب نے ملکر کھانا کھایا گل کو امی جان نے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا اور کبھی کبھی کوئی لقمہ لالارخ بھی اپنے منہ میں ڈال لیتی تھی امی جان کا ہاتھ پکڑ کر میں نے یہ دیکھ کر کہا یہ لڑکی ہے ہی بھوکی بلی  راستے میں بھی کھا کر آئ ہے میرے اس سفید جھوٹ پے لالارخ تو تلملا گی اور کہا آپ خود بہت بڑے جھوٹے ہیں آپ نے تو مجھے  آئس کریم تک نہیں کھلائی بتاؤ ذرا گل سب کو یہ بڑے کنجوس ہیں سچی میں وہ ہنس دی اب  کھانے سے فری  ہو کر ڈیڈی نے  نصرت بھائی سے کہا کیا حل ہے آپ کے پاس اس کیس کا اور ساتھ ہی امجد بھائی سے بھی کہا اور مجھے بھی  اب والدہ صاحبہ  نے کہا شاہ جی ایک لڑکی کی عزت  ساری دنیا کی دولت سے قیمتی ہوتی ہے، آپ پہلے اپنے قانون اور عدالت سے مشورہ کر لیں  ان کا اشارہ  بھائی امجد اور نصرت بھائی کی طرف تھا ،

ڈیڈی نے کہا بیگم آپ نے پھر ووہی بات شروع کر دی ہے راستے میں بھی آج اپ سارا  راستہ یہی بحث لئے بیٹھی تھیں اور اب بھی تو امی جان نے کہا شاہ جی آپ خود کہتے  ہیں شارق سہی نہیں کر رہا  اب ایک وزیر زادے نے اس لڑکی کی عزت لوٹی ہے  کیا سزا ہے آپ کے پاس اس کے لئے آپ کی لاڈلی بیٹی قسم کھا بیٹھی ہے اگر اس ملزم کو سزا نہ ملی یہ اسے خود اپنے ہاتھ سے گولی مارے گئی اور آپ کو پتا ہے اس کی ضد کا اب میں بھی آپ سے کہتی ھو مجھے انصاف دیں لے کر میری بیٹی کے ساتھ زیادتی کی ہے اس نے .

اب کی بار بھائی نصرت نے کہا ڈیڈی یہ لڑکا شاہ نواز اب تک کوئی پانچ لڑکیوں  سے ریپ کر  چکا  ہے اور کچھ نہیں بنا کیوں کے وہ ایک با اثر وزیر کا بیٹا ہے اور داور کمال کا بھانجا ہے  جہاں اس کا باپ بےبس ہو جاتا ہے وہاں اس کا ماما اسے بچانے آگے آ جاتا ہے ایک کیس تو بھائی امجد کی عدالت میں بھی تھا ان سے ہی پوچھ لیں اب امجد بھائی نے کہا جی ڈیڈی اسے میںنے سزا دینا چاہا تھا پر میں کیا کرتا مجبور ہو گیا تھا کیوں کے اس نے مدعی اور شہادتی  بیٹھا دیے تھے ایک اور کیس میں جو میرے ایک دوست کے پاس تھا اس میں اس لڑکے کی باپ نے موقع  کے گواہ خرید لئے اور یہ شاہ نواز با عزت بڑی ہو گیا یہ لڑکا عزتوں کا لٹیرا ہے جس کا کام ہی ہر مہینے کسی نہ کسی لڑکی کو اغوا کر کے  اسے بے عزت کرنا ہے اب ڈیڈی نے کہا اب پھر آپ مجھے بتاؤ اب ہم کیا کریں تو گل نے رو کر کہا انکل  پلیز آپ میری وجہ سے ان لوگوں سے دشمنی نہ  بنائیں اور لالارخ جو میرے نصیب میں تھا وہ ہو گیا تم بھی اپنی قسم واپس لے لو اب کی بار سب ہی چپ رہے والدہ صاحبہ نے کہا گل  میںنے کبھی آپ میں  اور لالارخ میں کوئی فرق نہیں سمجھا ، آپ کو انصاف ملے گا اور میں لے کر دوں گئی    

پھر وہ  میری طرف دیکھ کر بولی شارق حسین میری بیٹی کے ساتھ ظلم  ہوا ہے کیا تمہارے پاس بھی کوئی حل ہے یا نہیں  میں نے کہا امی جان آپ حکم کریں کیا کرنا ہے اسے پولیس کے حوالے کروانا ہے یا عدالت سے سزا دلوانی ہے  اب امجد بھائی نے کہا شارق کوئی جج اسے سزا نہیں دیے گا  میرے بھائی تم کیوں نہیں سمجھتے حق نواز ڈوگر اس وقت وفاقی وزیر قانون ہے کون جج اس کے بیٹے کو سزا دے کر اپنی جان عذاب میں ڈالے گا ،
اب میںنے کہا گل اورلالارخ  دونوں کیا چاہتی ھو اب لالارخ نے کہا بھائی ایسے دندے کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جو ہوا کی بیٹیوں پے اتنا ظلم کرے  اب والدہ صاحبہ نے بھی کہا ہاں یہی سہی ہے تو یہ سن کر ڈیڈی نے کہا تم سب پاگل ہو گ
ۓ ھو کیا وہ لڑکا کسی گلی میں کھڑا ہے  کے شارق صاحب تشریف لیں اور اسے گولی مار دیں کیا تماشہ  ہے یہ ،

اب والدہ صاحبہ نے بھی میری طرف دیکھا  میںنے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور ظفری کو کال کی میں نے کہا ظفری حق نواز ڈوگر کا بیٹا شاہ نواز ڈوگر  اسے جانتے ھو وہ بولا جی باس میںنے کہا مجھے وہ زندہ حالت میں چاہیے کب تک مل جاتے گا وہ بولا باس تین گھٹے کے اندر اندر  میںنے  اب کال کاٹ دی اور کہا ڈیڈی  آپ بھی اپنی جگہ سچے ہیں جب آپ آئی ،جی تھے تب  لوگوں میں کچھ خوف خدا تھا آج کل یہاں جنگل  کا قانون ہے  اور یہاں ہر  بڑا درندہ چوتھے کو شکار کر رہا ہے میں کوئی چوری یا ڈکیتی نہیں کرا رہا ڈیڈی صرف ان لوگوں کا ساتھ دیتا ہوں جو مظلوم ہیں پلیز آپ میری جگہ خود کو رکھ کے فیصلہ کریں اب وہ کچھ دیر سوچتے  رہے اور بار بار گل کو دیکھتے اور کبھی لالارخ کو پھر مجھے دیکھا اور کہا میں  آپ کے ساتھ ہوں ،آپ کا فیصلہ ہی سہی ہے

پھر ٹھیک تین گھنٹے بعد ظفری کی کال آئی اب میںنے اسپیکر آن کیا  سب ہی آواز سن رہے تھے میںنے کہا ہاں ملا وہ تو ظفری نے کہا باس یہ تو ایک خوں خوار درندہ ہے  اس نے ایک  بیوہ عورت کی یتیم بیٹی کو اغوا کیا  اور اس کے ساتھ زیادتی کر رہا تھا  کے ہم بھی وہاں اسے  ڈھونڈتے  ہوے چلے گ
ۓ اس نے اس بیوہ کی آنکھوں کے سامنے اس کے معصوم بچے مار دیے اور اب یہ اس کی جوان بیٹی کی عزت لوٹ رہا تھا  جسے دیکھ کر وہ بیوہ دکھ سے مر گئی مجھے افسوس  ہے باس میں اس لڑکی کو نہ بچا سکا اس نے میرے اندر جانے تک اسے گولی مار دی تھی اب ظفری کی آواز  بھرائی ہوئی تھی   وہ بولا باس یہ ھمارے پاس ہے اب زندہ اگر آپ کا حکم نہ ہوتا میں اس کے ٹکڑے کر کے سارے شہر میں  بانٹ دیتا ،

یہ سب سن کے ڈیڈی نے کہا ایسے ظالم کو مارنا  ثواب کا کام ہے شارق اب میںنے کہا لالارخ اور گل میرے ساتھ جایئں گیں  ہم ابھی گ
ۓ اور تھوڑی دیر میں واپس آ جایئں گۓ ،
پھر میںنے ظفری سے کہامیں آ رہا ہوں اور میںنے اپنے ساتھ لالارخ اور گلشن کو بٹھایا  اور میں پورانی حویلی کی طرف چل  دیا وہاں جا کر میںنے ابھی گاڑی روکی ہی تھی کے ظفری آ گیا اس کے ساتھ تین لڑکے تھے سب نے ہی نقاب لگا رکھے تھے ہم ایک تہیہ خانے میں گ
ۓ  جہاں  شاہنواز کو  دیوار میں چنے ہوے کنڈوں میں بندھ  رکھا تھا  وہ اب ہم کو دیکھ کر گالیاں دینے لگا اور دھمکیاں دے رہا تھا اپنے باپ کی اور مامے کی  پھر اس کی نظر گل پے  گئی تو وہ بولا اچھا تو یہ تم  نے کروایا ہے سب میں تم کو اب کی بار ننگا سڑکوں پے دوڑاؤں گا ، میں نے ظفری سے کہا یہاں کوئی ہنٹر ہے وہ بولا جی باس  اب وہ ایک چمڑے کا ہنٹر لے آیا  وہ مجھ سے پہلے لالارخ نے اس کے ہاتھ سے جھپٹا  اور آگے بڑھ کے زور زور سے اسے ہنٹروں سے مارنے لگی ساتھ ساتھ وہ کہ رہی تھی تم نے میری گل کو لاوارث سمجھا تھا  اب وہ درد سے چیخ رہا تھا شاہ نواز کا سارا جسم اب  زخموں سے چور ہو گیا ،

اب لالارخ بھی ہانپ رہی تھی  میں نے آگے بڑھ کے اس کے کاندھے پے ہاتھ رکھا وہ میرے گلے لگ کے رونے لگی بھائی اس نے میری گل کو اور اب اسے گل نے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور کہا لالارخ تیرے  جیسی دوست دنیا میں سب کو ملے میری جان  لالارخ نے کہا اب تو نہیں کہے گئی نہ میں نے تمہارا درد نہیں سمجھا گل  نے کہا کبھی نہیں  کہوں گئی رخ آج تم نے میری روح  بھی پورسکون کر دی ہے

اب میں نے کہا گل  آپ اسے اپنے ہاتھوں سے سزا دو  وہ بولی شارق رخ نے دے دی ہے  ایک ہی بات ہے اب آپ اس کا فیصلہ خود کرو اب کی بار  ظفری نے کہا باس میری ایک درخواست  ہے پلیز مان جایئں اسے کیا سزا دینی ہیں وہ ہم پے چھوڑ دیں میں  نے  ٹھیک ہے  اب لالارخ نے ظفری کی طرف دیکھا اور کہا بھائی یہ میری گل کا مجرم ہے  اسے ایسی سزا دینا جو سب کو یاد رہے ظفری نے سر جھکا  کے کہا میری بہن آپ فکر نہ کرو میں اسے دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنا دوں گا اب ہم واپس گھر کی طرف چل دیے اب گل بڑی خوش تھی ، گھر آ  کر وہ سب سے گلے ملی اور خوشی سے رو دی  اب میںنے کہا یار یہ لڑکیوں کی سمجھ نہیں آتی اگر دکھی ہوں تب بھی رونا اور اگر خوش  ہوں تب بھی رونا دھونا اور کچھ نہیں آتا کیا تم خواتین کو اور سب ہنس دیے ،

اب لالارخ نے مجھ اپنے گلے لگا کے کہا بھائی آئی پروڈ آف  یو  آپ بہت اچھے بھائی ہیں ساری دنیا سے اچھے  اب سب نے کہا  چلو تم دونوں کی  لڑائی تو ختم ہوئی میںنے کہا کیوں لڑاکو  بلی وہ ایک دم سے بولی باگڑ بلے ہوں گ
ۓ آپ اور سب کہ قہقہ چھوٹ  گیا ،

پھر ہم سب اپنے اپنے روم میں آ گ
ۓ  میں آتے ہی سو گیا کیوں کے اگلے دن  مجھے ایک ضروری کیس لڑنا تھا وارثی والا
میں ٹائم سے ہی اٹھ  گیا نہ کے ریڈی ہوا اور ہلکا سا ناشتہ کر کے کورٹ کی طرف  وہاں میںنے  بار روم میں ریحانہ سے ملاقات کی فاروقی  صاحب بھی آ گ
ۓ تھے ہم نے مل کر کیس پے ڈسکس کی اور اب اتے اور متعلقہ عدالت میں چل دیے ھمارے والا پہلا ہی کیس تھا ہم گۓ ہی تھے کے آواز لگ گئی مجرم وارثی کو پیش کیا گیا اب ریحانہ نے جج صاحب کی اجازت سے سرے کیس پے روشنی ڈالی ، عاشق گنجانہ بھی تھا  ریحانہ نے کہا جناب اس مجرم نے  ایک بے گناہ  شخص کو اغوا کیا اوربے رحمانہ  تشدد کر کے مار دیا   جناب پولیس نے اسے جس جگہ سے گرفتار کیا وہاں پے مقتول کا خوں بھی مجود  تھا اور اس کے پہنے ہوے سوٹ کی دھجیاں  بھی  اب عاشق گنجانہ نے کہا جج صاحب وکیل ایسے ہی بے پر کی اڑا رہی ہیں میرے موکل کا اس قتل سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ جگہ نہ ہی میرے موکل کی ہے اور نہ اسے  وہ جانتا ہے مقتول کو ذاتی رنجش کی بنا  پے پولیس والوں  نے اسے پھنسایا ہے  اس کیس میں  اب میں اٹھا اور اپنا وکالت نامہ پیش کیا اور کہا جناب عالی میں بھی استغاثہ  کی طرف سے ہی ہوں  میرے فاضل دوست  گنجانا صاحب نے کہا ہے  ہم بے پر کی اڑا رہے ہیں  جناب عالی  میں ثبت کروں گا کے اسی مجرم نے محروم کو قتل کیا ہے اور اغوا بھی ،    


اب میں نےکہا جناب میں اپنا پہلا گواہ پیش کرتا ہوں اور اور چشم دید گواہوں میں سے ایک کو بلایا یہ دونو ہی مارنے والے کے قریبی عزیز تھے  پہلے گواہ کا نام تھا شبیر  تو میں نے اسے کہا شبیر صاحب آپ حلف دیں جو کچھ کہیں گ
ۓ سچ کیں گۓ اور سچ کے سوا کچھ نہ کہیں گۓ اس نے ایسا ہی حلف دیا  اب میں نے کہا آپ عدالت کو بتائیں آپ نے کیا دیکھا  اسے ریحانہ اور اس کے والد نے سہی سے تیار کروایا تھا سب وہ بولا جناب اس دن  جمیل بھی بنک جانے کے لئے گھر سے نکلا  میں بھی کیونکے میں اور وہ ایک ہی بنک میں جاب کرتے تھے میری اور اس کا گھر بھی ساتھ ساتھ ہی تھا ہم اکثر ساتھ میں ہی جاتے تھے میرے پاس موٹرسائیکل  ہے وہ میرے ساتھ ہی جاتا تھا بیٹھ کے اس دن بھی وہ جب آیا میری طرف تو میں نے دیکھا اس کے گھر سے نکلتے ہی ایک کار اس کے پاس رکی اس میں سے یہ آدمی جو سامنے کھڑا  ہے یہ نکلا اس نے اسے پستول  دکھایا اور گاڑی میں  بیٹھا کے ساتھ لے گیا میں یہ دیکھ کر کافی پریشان ہوا میںنے بنک جانے کی بجاتے جمیل کے گھر والوں کو بتایا اور ہم اب متعلقہ تھانے  میں گۓ اور انچارج صاحب سے ساری بات کی اسی وقت ایک رپورٹ درج کی گئی جس میں مدعی جمیل کا باپ  بنا  میں نے اپنی شہادت دی میری ہی طرح سامنے والی ایک پان کی دوکان سے خالد صاحب نے بھی یہی سب دیکھا  وہ بھی ھمارے ساتھ ہی آے تھے انہوں نے بھی اپنی گواہی  دی

شبیر کا بیان ختم ہوا تو عاشق گنجانہ نے اس سے سوال کیا کیا تم سامنے کھڑے آدمی کو جانتے ھو اسے پہلے کبھی دیکھا تھا
شبیر نے کہا  جی جناب  یہ وارث  ہے ھمارے ساتھ والے ٹاون کے ناظم  کا بھائی  میں ان کو اکثر دیکھا کرتا تھا
اسحق گنجانہ نے اگلا سوال کیا کیسے اکثر دیکھتے تھے کیا یہ آپ کے  ٹاون میں روز آتا تھا
شیبر نے جواب دیا جی ہاں جناب  انہوں  نے ھمارے والے ٹاون کے ایک صادق چیمہ نامی بدمعاش  کے ساتھ مل کے جوا
ۓ کا ایک اڈا کھول رکھا تھا جو میرے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کے ہے  
اب کے عاشق نے اگلا سوال کیا مارنے والے سے تمہارا کوئی رشتہ داری  ہے
شبیر نے کہا نہیں جناب بس  وہ میرے ساتھ جاب کرتا تھا اسی لئے اس سے کچھ دوستی ہو گئی تھی اور پھر محلہ داری بھی تھی
 گنجانہ  نے اب پوچھا  کیا مارنے والے کا کوئی جھگڑا تھا وارث سے یا کوئی اور ذاتی عناد
شبیر نے کہا جناب مرحوم جمیل ایک شریف اور سیدھا سدھا لڑکا تھا اس کی کسی سے بھی کوئی دشمنی نہیں تھی  اور وارثی اس کا خود دشمن بنا تھا جان بوجھ کر کیوں کے ایک دن ایک آدمی آیا تھا بنک میںاکاونٹ کھلوانے  وہ ابھی جمیل کے کیبن میں ہی بیٹھا تھا  کےیہ وارثی بنک میں آیا اس نے کیوں کے پہلے بھی دیکھا تھا یہ میرے پاس ہی آیا اور کہا شبیر کیا تم نے سی آدمی کو بنک میں آتے دیکھا ہے اس کےہاتھ میں اس شخص کی تصویر تھی جو ابھی  ابھی جمیل کے کیبن میں گیا تھا

اتنی دیر میں اس آدمی نے بھی وارثی کو دیکھا اور وہ بنک سے باہر کی طرف نکلا میں نے کہا یہ آدمی ابھی ابھی بنک سے باہر گیاہے خیر ہے نہ وہ بولا یہ اس کے پیسے  لے کر اسے واپس نہیں کر رہا  اور وارثی اس کے پیچھے  ہی بنک سے باہر نکل گیا
اب کے عاشق گنجانہ نے کہا اس میں جمیل  سے دشمنی کا کیا تعلق ہے
اب شبیر نے کہا  جناب اصل میں وہ آدمی  جاتے ہوے کچھ  قیمتی چیز  جمیل کو دے گیا تھا   اور جب میں بنک سے آف ہو کر کچھ سودا لینے بازار کی طرف گیا تو وہی آدمی مجھے روڈ کراس کرتا ہوا نظر آیا اس کے پیچھے وارثی اور دو لوگ اور بھاگ رہے تھے  پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک طرف سے آنے والی تیز رفتار بس  نے اس آدمی کو ٹکر ماری اور اسے اپنے نیچے کچلتی ہوئی گزر گئی یہ سب میںنے  اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا پھر یہ دیکھ کر میںبھی اس طرف گیا اور وارثی نے  خود اس کی نبض چیک کی اور  پھر اٹھ کھڑا ہوا تھا  میںنے اسے پوچھا تھا  وارث صاحب اب آپ کے روپے  تو گ
ۓ یہ بیچارہ تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھا  تو وارثی نے کہا اب کیا ہو سکتا  ہے اور مجھے اب یہ کرید کرید کے پوچھنے لگا تھا اس دن یہ بنک میں کس سے ملا  مجھے کسی بات کا  پتا نہیں تھا میں نے کہا یہ جمیل صاحب  سے ملا تھا کوئی پانچ منٹ  پھر میں اپنے گھر آ گیا اگلے دن مجھے جمیل نے بنک جاتے ساری بات بتائی میں نے کہا  یار وہ وارثی  نے مجھے پوچھا ہے اور میں نے اسے آپ کا بتا دیا ہے اب جمیل نے کہا یار وہ مجھے ایک لاکر کی چابی دے گیا تھا اب میں کیا کروں ،پھر ہم بنک آ گۓ اور اپنے اپنے کام میں لگ گۓ  وہاں پے جمیل کو دو کالز آئیں  تھیں جن میں اسے دھمکیاں  دیں گیں تھیں ، اب میں نے کہا  جناب یہ کالز اور دھمکیوں والے لفظ جج صاحب آپ نوٹ کر لیں


شیبر نے اپنا بیان اب دوبارہ جاری کیا اور کہا جناب اس سے اگلے دن  ہی یہ سب ہو گیا
پھر عاشق گنجانہ نے کہا یہ سب جھوٹ ہے تم نے  پولیس سے مل کر یہ ایک کہانی جوڑی ہے  بتاؤ کتنے پیسے  ملے تم کو اس گواہی  کے شیبر اپنے بیان پے قائم  رہا اب اگلی گواہی خالد کی ہوئی اس نے بھی صرف اتنا بتایا  جو اس  نے دیکھا تھا گاڑی میں بیٹھا کر گن پوائنٹ  پے لیجاتے ہوے
اسے عاشق گنجانہ  نے پوچھا  اس کار میں کیا وارثی اکیلا تھا
خالد نے جواب دیا جناب کار کے شیشوں پے کالا پیپر  چڑھا  تھا مجھے اندر کے لوگ نظر نہیں آے  وارثی نے سرعام جمیل کو پستول دکھایا تھا وہ میں  نے دیکھا تھا
اب عاشق گنجانہ نے کہا خالد صاحب کیا آپ کو اس گاڑی کے نمبر یاد ہیں
خالد نے کہا جناب اس کا نمبر نہیں لگا تھا وہ کلی رنگ کی اپلائیڈ فار  کار تھی جو آج بھی میں نے وارثی کے بھائی  کے پاس دیکھی ہے
عاشق نے کہا کیا وہ اکیلی اپلائیڈ فار کالی گاڑی ہے اس شہر میں جو تم نے ابھی دیکھ لی آتے ہوے
خالد  نے جواب دیا جناب وہ اکیلی نہیں ہے لیکن اس کی بیک سکرین پے یہ لکھا ہوا مست گجر اور نیچے ایک کارٹون بنا ہے جس نے ایک لڑکا لڑکی کو کس کر رہا ہے ایسا بیہودہ  کارٹون  اس شہر میں نے کسی گاڑی پے نہیں دیکھا اس لئے مجھے  یاد ہے آپ ابھی  بھی وہ گاڑی باہر پارکنگ میں دیکھ سکتے  ھیں  
اب عاشق گنجانہ نے کہا  تم ایک ایسی بات کو پروف بنا رہے ھو جو عام ہے کسی اور نے بھی وہ کارٹون لگایا ہو گا  تو خالد نے کہا جناب وہ وارث نہیں ہو گا میں نے وارثی کو اس گاڑی میں  جمیل کو اغوا کر کے لے جاتے دیکھا تھا


مجھے اس سے کیا کون کیسا کارٹون  لگاتا ہے اب عاشق گنجانہ نے کہا  تم جا سکتے ھو
اصل میں کسی بھی کیس میں شہادت ہی مین پوانٹ ہوتی  ہے اور اگر آپ نے گواہ  کی گواہی  اچھی کروا لیں تو  سمجھیں آدھا کیس آپ کی جیب میں ہے
اب میںنے  کہا جناب اب میں اس کیس کے تفتیشی  کو بلاؤں گا  اور  سب انسپکٹررضا  کو بلایا وہ ایک جوان آدمی تھا میں نے  اس سے پہلے وہ حلف لیا  سچ بولنے کا اور بعد میں  اس سے کہا آپ نے اس کیس کی تفتیش کی ہے  آپ نے مجرم وارثی کوکہاں سے  پکڑا وہ  بولا وکیل صاحب  جاب جمیل کے اغوا کی رپورٹ ہوئی میں اس وقت اس وارثی کے پیچھے لگ گیا میں نے اس کا ہر جگہ سے پتہ کیا یہ نہ ملا  پھر مجھے اگلے دن ایک مخبر  نے اطلاح دی اس نے وارثی کو اس جگہ دیکھ ہے میںنے جب اس جگہ چھاپا مارا تو میرے جانے سے پہلے ہی جمیل کی لاش کو وہاں سے غائب کر دیا گیا اور وہاں ایک دیوار کے پاس خون اور پھٹے  ہوے کپڑوں کے ٹکڑے تھے میںنے اسے گرفتار کیا اور تھانے لا کر ابھی اسے بند ہی کیا تھا  کے ہم کو  تھانے ایک کال آئی جس میں ایک لاش کا بتایا گیا تھا  ہم وہاں گ
ۓ تو دیکھا وہ لاش جمیل کی تھی  اصل میں  لاش کو ایک گند  کے ڈھیر  میں دفن کیا گیا تھا وہ تو آوارہ کتوں نے سونگھ کے  یہ لاش  والی جگہ سے لاش کی ٹانگیں ہی باہر نکالی تھیں کے کسی نے دیکھ لیا اور تھانے میں بتا دیا ،

میںنے اب لاش اپنے قبضے میں لیکر لاش ملاہذا  کیا اور پوسٹ مارٹم میں بتایا گیا ہے جمیل کو بیدردی سے  مارا پیٹا گیا تھا  اس کے جسم کو سگریٹوں  سے داغا گیا تھا جب اس مٹی  میں ملے خون کو لیبارٹری  میں ٹیسٹ کیا گیا وہ جمیل کا ہی خون تھا اب میںنے ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کی اور اس کا ریمانڈ لیا  پھر اسی ریمانڈ میں اس نے کسی  قتل  کا قرار نہ کیا  مگر حالات و واقعات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا یہ قتل اسی نے کیا ہے ،
اب عاشق گنجانہ نے پولیس والے سے سوال کیا جب آپ نے اسے پکڑا کیا وہ جگہ سے اس کا کوئی  واسطہ  ہے
پولیس والے نے کہا نہیں جناب ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا
اب عاشق نے اگلا سوال کیا  کیا ریمانڈ کے دوران  وارث نے اقرار جرم کیا ہے
پولیس والے نے کہا   نہیں  یہ نہیں مانا مگر  اکثر عادی مجرم نہیں مانتے  اور یہ ایک عادی مجرم ہے
اب عاشق نے کہا سب انسپکٹر  صاحب آپ کے تھانے  میں کتنی فائلیں ہیں اس کے جرموں کے خلاف
پولیس والے نے کہا کوئی نہیں  جناب یہ اپنے خلاف کوئی شہادت نہیں چھوڑتا
عاشق گنجانہ نے کہا تھانیدار صاحب یہ چھوٹے موٹے  کیس پے کوئی شہادت نہیں چھوڑتا اور اب قتل میں چھوڑ دی کوئی بات کرو کرنے والی سب مل کر ایک شریف آدمی کو قتل میں پھنسا  رہے ھو تم لوگ

اب پوسٹ مارٹم کرنے والے  ڈاکٹر   جس کا نام عرفان  تھا کی گواہی   ہوئی اس نے بھی اپنے بیان میں کہا جناب  مقتول  کے جسم پے کافی چوٹوں کے نشان پے گ
ۓ تھے اسے داغا بھی گیا تھا اور اس کی موت اسی ضربوں کی وجہ سے ہوئی جب وہ تکلیف برداشت نہ کر سکا اور اسے مرے ہوے  بیس گھنٹے ہو گۓ تھے جب اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا
اب کی بار عاشق گنجانہ نے ڈاکٹر سے کوئی سوال نہ کیا جج صاحب نے اب گھڑی کی طرف دیکھا اور دو دن بعد کی تاریخ  دے دی  

میں  بھی اب بار روم  میں آ گیا ریحانہ نے کہا کافی اچھی گواہیاں  ہو گیں ہیں  اب اس کے پیچھے ہی عاشق گنجانا بیٹھا تھا وہ بولا محترمہ  گواہیوں سے کیا ہوتا  میں اپنے بندے کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال لے جاؤں گا اس کیس میں سے  میں نے کہا گنجانہ صاحب اب آپ  وڈیرے  ہو گ
ۓ ہیں اب کہاں اتنی پھرتیاں  مار سکیں گۓ  مکھن میں سے بال  والی وہ مجھے دیکھ کر بولا  برخو دار  تم کو کچھ  نہ سمجھ وکیلوں نے  ہوا بنا دیا ہے اب میں تم کو بتاؤں گا سوا سیر کیسے کہتے ہیں میں نے کہا چلیں جی دیکھیں گۓ  یہ تو وقت خود ہی فیصلہ کرے گا جناب  میں نے کبھی خود کو سیر یا سوا سیر نہیں سمجھا  میں تو ابھی ایک عام سا وکیل ہوں جو آپ جیسے سینئر  ساتھیوں سے سیکھ رہا ہوں ، اب وہ کچھ نہ بولا ہم بھی اب اپنے کسی اور کیس کے بارے میں ڈسکس کرنے لگے  پھر ایک وکیل نے کہا اخبار پڑھتے ہوے  لو جی اب  وزیروں کے بیٹے بھی اغوا ہونے لگے ہیں تو عام بندوں کا کیا ہو گا شاہ نواز ڈوگر کے بارے میں تفصیلی خبر لگی تھی  اور اس کے باپ نے  ہر طرف تھرتھلی مچا  دی تھی

میں بھی اب وہ خبر پڑھنے لگا جس میں لکھا  تھا وفاقی وزیر قانون کے اکلوتے  بیٹے کو اغوا کر لیا گیا  اور چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک پولیس  اس کا کوئی پتا نہیں چلا سکی شاہ نواز کو اس کے ایک گھر   جو شہر سے باہر تھا وہاں سے اغوا کیا گیا اور اس کے چار  گن مینوں   کو گولیاں مار دی گیں حق نواز نے آئی جی سے کہا ہے مجھے اگلے دس گھنٹے میں اپنا بیٹا چاھیے  دوسرے بھی کافی  وزرا  نے اس بات پے زور دیا ہے اپنے بیانوں میں کے ہر حال میں پنجاب پولیس  شاہ نواز کو برآمد  کرے  آئ جی  کا بیان تھا  کے انہوں نے  پانچ ٹیمیں بنا دیں ہیں  جن کا انچارج  ایک ڈی آئی  جی  ہے  ہم ہر حال میں شاہ نواز کو برآمد کر لیں گ
ۓ ، میں نے بھی ساری خبر پڑھی پھر میں  وہاں بار روم سے اٹھا اور فاروقی صاحب  کے ساتھ اپنے دفتر میں آ گیا   وہاں ہم شام تک بیٹھے  رہے  بھائی نصرت بھی اب آ گۓ تھے وہ اور فاروقی صاحب نے میرے آج کے کیس پے  ڈسکس کی اور مجھے کہا عاشق گنجانہ  ایک زہین ترین  وکیل ہے اور اب ہم کو بھی اچھے سے تیاری کرنا ہو گی پھر شام کو ہم گھر کی طرف چل دیے ،


جب ہم گھر پہنچے تو سرے گھر والے لان میں ہی بیٹھے  تھے ہم نے ان کو سلام کیا اور بھی نصرت تو وہی بیٹھ گے میں اپنے کمرے کی طرف گیا جا کر واش روم  میں شاور لیا اور کپڑے بدل کے واپس لان میں آ گیا ،
اب دیدی نے کہا کیا آپ لنے آج  کا اخبار دیکھا ہے  میں نے کہا جی وہ بولے پھر آپ کا کیا خیال ہے  کیا وہ جان لیں گے پولیس والے یہ کن کا کام ہے  میں نے کہا نہیں ڈیڈی جہاں وہ مجود ہے وہاں کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا  اور وہاں پے سے شہر کی پولیس بھی چلی  جاتے وہ لوگ سامنے آے بغیر ہی سب کو سنبھال لیں گے ،
اور پھر پولیس  بیچاری کے پاس اور بھی کیس ہیں  اب بھی امجد نے کہا شارق  تم ان لوگوں کو سمجھنے میں  بہت غلطی کر رہے ھو اور یہ جو آپ کا اوور کانفیڈنس  ہے کہیں آپ کو کسی  چکر میں نہ ڈال دے،  

اب میںنے کہا بھائی جان اصل میں مسلہ یہ ہے آپ لوگوں کا آپ مجھے ہمیشہ انڈر اسٹی میٹ کرتے ہیں بلکل ایک بچے کی طرح کا ٹریٹ منٹ کیا جاتا ہے میرے ساتھ کیا مجھے نہیں پتا ان سب معاملوں کا پلیز آپ سب ریلکس  رہیں  یہ داور کمال جیسے لوگ یہ تو ایک ہے میں نے تو اس جیسے بہت ساروں سے اپنے اس پاک وطن کو پاک کرنا ہے ،
یہ میرے وطن کے چہرے پے ایک دھبہ ہیں جو میں نوچ ڈالوں گا میں نے کہا اور یہ کہتے ہوے مجھے اپنا لہجہ بھی اجنبی سا لگا وہ سب میری یہ دھار سن کے چونک گ
ۓ والدہ صاحب نے میرے کندھے پے ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا صرف  میری ہی نہیں اس ملک کی کروڑوں ماؤں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ،
جو لوگ معصوم بچوں کو ان کی ماؤں کے سامنے مار ڈالیں  وہ کہاں زندہ رہنے کے قابل ہوتے ہیں یہ سب لوگ تم کو نہیں پہچان پا رہے تم نجات و دہندہ ھو غریبوں کے جو خدا نے ان کو گفٹ کیا ہے ،
اس ملک کو آج کے دور میں آپ  جیسے بیٹوں کی بہت ضرورت ہے اور میرا ماتھا چوم لیا .
گلشن مجھے ٹکٹکی باندھے  دیکھی جا رہی تھی  ،  میں نے کہا او لڑاکو بلی دیکھو آپ کی دوست مجھے نظر لگا رہی ہے یہ سنتے ہی گل جھینپ گئی لالارخ نے کہا جاؤ بھی بھائی بڑے آے  شہزادہ گلفام  اب کی بار شفق بھابھی نے کہا وہ شہزادہ کیا بیچتا ہے میرے دیور کے آگے اس جیسا کوئی نہی اب تو لالارخ نے کہا آپ ہمیشہ ان کی سائیڈ لیتی ہیں،
کبھی تو میرا ساتھ بھی دیا کرو بھابھی آپ بہت بری ہیں میری باقی دونوں بھابھیاں  بہت اچھی ہیں یہ سن کے سب ہی ہنسنے لگے،     

اب کی بار بھی امجد نے کہا ہم نے تو اپنی بیگم کو سمجھا رکھا ہے کچھ بھی ہو جاتے آپ نے ساتھ لالارخ کا ہی دینا ہے ان کی دیکھا دیکھی بھی نصرت بھی یہی بولے اب لالارخ نے کہا آ جائیں ذرا طارق بھائی اس دفع ان کو میں  بتاؤں گئی کیا وہ نہیں سمجھا سکتے اپنی بیگم کو اب تو سب کا مارے ہنسی کے برا حال تھا لالارخ کبھی کبھی بلکل بچوں جیسی باتیں کر جاتی تھی ،

اب سب کو یوں ہنستا دیکھ کر لالارخ نے کہا کیا میں نے آپ لوگوں کو لطیفہ  سنا دیا ہے جو ہنسی جا رہے ہیں اب گل نے ہنستے ہوے کہا تم خود پوری ایک لطیفہ ھو یار اب وہ بھی ہنس دی ایسے ہی ہنسی مذاک  کرتے کرتے رات کے کھانے کا وقت ہو گیا ملازموں نے کھانا ٹیبل  پے لگا کے اطلاح  دی ہم سب اندر کھانے والے کمرے میں چلے گ
ۓ  سب نے خاموشی سے کھانا کھایا اور اب سب ڈیڈی کے کمرے میں آ گۓ وہاں پے بیٹھ کے چاۓ  پیتے ہوے ڈیڈی نے کہا اپنے لوگوں سے معلوم کرو کیا حالات ہیں ،

میںنے ظفری کو کال کی  اور پوچھا کیا صورتحال ہے وہ بولا باس سب ٹھیک ہے  کل دیں کو پہلا پارسل ملے گا وزیر صاحب کو ، جس میں ان کے صاحب زادے کے دونوں ہاتھ ہوں گ
ۓ ، میںنے  کہا ذرا دھیحان سے وہ بولا باس آپ بے فکر رہیں وہ ہماری گرد کو بھی نہیں پکڑ سکتے میں نے اب کال کاٹ دی،
اور ڈیڈی سے کہا سب ٹھیک ہے اب نصرت بھائی نے مجھے کہا  شارق  آپ یہ دو دن اچھے سے تیاری کرو عاشق گنجانہ ایک خطرناک وکیل ہے  مجھے شک ہے وہ کہیں کوئی چکر نہ چلا دے  میں نے کہا بھی جان کچھ نہیں ہوتا یہ کیس میری جیب میں ہے میںنے پہلے ہی فل تیاری کر رکھی ہے او دیکھئے گا میں اس کا کیا حال کرتا ہوں ، اب سب نے ہی ڈیڈی سے اجازت لی اور اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گ
ۓ مجھے ابھی نیند  نہیں آئی تھی میں باہر لان میں واک کرنے لگا جا کر موسم میں آج کافی خنکی  تھی مجھے بڑا مزہ آیا ننگے پاؤں لان کی نرم نرم گھاس پے چلتے ہوے میں کوئی تین گھنٹے تک چہل قدمی کرتا رہا پھر وہاں ہی ایک کرسی پے بیٹھ گیا  اب چاند کی طرف دیکھنے لگا  جو آج پورا تھا ، مجھے چاند کو تکتے ہوے ابھی دو تین منٹ ہی ہوے ہوں گۓ

مجھے اپنے پیچھے ہنسی کی آواز سنائی دی میں نے پلٹ کے دیکھا وہ لالارخ اور گلشن تھیں دونوں  لالارخ نے کہا بھائی یہ آپ چاند سے کیا باتیں کر رہے  تھے ،
میں نے ہنس کے کہا وہ میرا اچھا دوست ہے اس سے اکثر راز و نیاز کرتا  ہوں میں تم ابھی تک سوئی نہیں کیا وہ اب کی بار بولی  آپ کی طرح ان محترمہ کو بھی پورے چاند کی رات  چاند کو دیکھنے کا بڑا شوق ہے یہ مجھے لے آئیں ہیں ، یہاں آے تو آپ کو دیکھا میںنے گل کی طرف دیکھا وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہی تھی اس وقت سفید لباس میں وہ ایک پر لگ رہی تھی جو ابھی ابھی چاند سے آئی ھو اس کا حسن چاند  کی چاندنی میں چمک رہا تھا ،

 لالارخ نے کہا بھائی آپ کو پتہ ہے گل کو شاعری کا بڑا شوق ہے  آج ہو جاتے کچھ کتنی پیاری رات ہے  میںنے کہا اپنی دوست سے پوچھ لو اب گل نے کہا ٹھیک ہے ہو جاتے شارق صاحب میں نے کہا یہ ہم صاحب کب سے ہو گ
ۓ وہ بولی وہ بس ویسے ہی میںنے کہا آپ ہمارا نام لیا کرو  وہ بولی ٹھیک ہے جی اب میںنے ان کو دیکھا اور چاند کی کو دیکھا  پھر سے دوبارہ اسے دیکھ کر کہا

آج چودھویں کی شب  ہے آے صنم تم بھی آنا
سنا ہے چاند کو اپنے حسن پے بڑا ناز ہے

لالارخ نے کہا واہ بھائی یہ تو سچی  میں گل پے فیٹ بیٹھا  ہے    اب گل نے میری طرف دیکھا اور بولی

آج رات چاند ہوبہو تجھ جیسا ہے اے دوست
وہی حسن وہی ،غرور ،اور وہی دوری

یہ سن  کے مجھے لگا  اس نے یہ مجھ سے کہا  اب میں اسے غور دے دیکھ کر بولا

کبھی اس طرح میرے صنم
 اپنی چاھت میرے نام کر
 میرے دل میں آکر دیکھہ زرا
 میری دھڑکنوں کو اپنے نام کر
 کبھی ان سے سن میری محبت کی
 داستاں ان کے ساتھہ کلام کر
 یہ میرے لفظوں کے پھول ھے
 تیرے قدموں کی دھول ھے
 اگر ھوسکے کوئی شام میرے نام کر

اب لالارخ نے ہنس کے کہا چلو اب جواب دو گل آج پتا چلے گا بھائی کو یہ ہر جگہ جیتنے کے عادی ہو گے ہیں آج ان کو ہر کے چھوڑنا گل نے اب کہا

ٓٓٓٓمیں اس کو سوچ سوچ کے پتھر ہوگئی
 جانے وہ شخص کس طرح کا جادو کرگیا

اب میںنے کہا گل آج آپ کی دوست آپ کا ہی ساتھ دے گئی  اور کہا

اب تو آنکھوں میں سماتی نہیں کوئی صورت
 غور سے تجھے کاش میں نے نہ دیکھا ہوتا

اب مجھے پتہ چل گیا تھا کیوں کے گل کی آنکھوں میںایک پیغام  تھا محبت کا میرے لئے سو میںنے بھی اب اسی کی طرح  کے شعر کہنے شروع کر دے تھے اب وہ بولی

 یہ آنکھیں اور کیا دیکھیں کسی کو
 ان آنکھوں نے تجھے دیکھا بہت ہے

میں نے کہا واہ جی واہ کمال ہے لالارخ اب خوش ہو رہی تھی میںنے اب کہا

نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے
 پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

اب گل کچھ شرما سی گئی اور  اس نے مجھے دیکھ کر ایک شعر کہا

یہ دل تو کسی اور دیس کا پرندہ ہے وصی
 سینے میں تو رہتا ہے مگر بس میں نہیں رہتا

اب میں نے بھی  اسے ہی دیکھتے ہوے کہا

نازک مزاج ہے وہ اتنا کچھ نہ پوچھو وصی
 سنا ہے اسے نیند نہیں آتی اپنی دھڑکنوں کے شور سے

اب تو مجھے  گل کے چہرے پے  ہی کی لالی نظر آنے لگی وہ اب بولی اب بس لالارخ نے غصے سے کہا اوے کوئی بس نہیں جب تک بھائی ہار نہ مانیں گے تم جواب دو گئی  میں ہنس دیا  اب گل نے کہا اچھا دیکھتی ہوں اور بولی

آج کی رات چاند بن کر آ ذرا
 میرے کمرے کی کھڑکی سے اتر آ ذرا
 میری آنکھوںپر خواب سجا ذرا
 میرے ھونٹوں پرچاھت کے گیت سجا ذرا
 شب کی دیلیز پر یادوں کا دیا جلا ذرا
 بے رخی سے میرا آنچل کو ھٹا ذرا

 اب  مجھے  مزہ آنے لگا اس سے یوں  شعر و شاعری کرتے ہوے
 اب میںنے کہا

حسن سے تکمیل  عشق .عشق سے تکمیل حسن
ایک کمی تیرے بغیر ،ایک کمی میرے بغیر
وہ اب چھوئی موئی سی ہو رہی تھی  میری نظر اب گل کی چھاتی پے تھی وہ اب ایسے بیٹھی تھی کے دوپٹہ اس کی چھاتی سے ہٹ گیا تھا اور اسے کوئی پتا نہ چلا  اب میری نظر اس کی چھاتی کی طرف جانے والی اس لکیر پے تھی  اور وہ اب جب سانس لیتی اس کی چھاتی کا اوپر نیچے ہونا مجھے برا لطف دے رہا تھا یہ نظارہ ،


اب گل نے ایک شعر کہا

لپٹا ہے میرے دل،سے کسی راز کی صورت
وہ شخص کے جس کو میرا ہونا بھی نہیں ہے

اب یہ سن کے میںنے اسے پیر سے دیکھا اب اسے میری نظر اپنے چھاتی پے محسوس ہوئی تو وہ جلدی سے دوپٹہ ٹھیک کرنے  لگی  میں نے اپنی آنکھوں سے ہی اسے روکا  کے وہ وہاں پے دوپٹہ نہ رکھے اپنی چھاتی کو کھلا رہنے دے وہ میرا اشارہ سمجھ گئی اور شرما گئی اب وہ نظر نیچے کے گھاس کو دیکھنے لگی  میں نے اب کہا

اور ضمانت وفا کی کیا ہو گی
لے تو میری سانس ہی گروی رکھ لے

یہ سنتے  ہی گل نے تڑپ کے اپنی نظر اٹھائی اور مجھے دیکھنے لگی  میں نے اب اپنی پلکیں جھپک کر اسے اشارہ کیا ہاں  اب اس کے چہرے پے قوس و قزاح کے رنگ  بھکر گے   اب وہ ایک شوخی سے بولی

ہے ایک سودا ! اگر مانو تو دونوں مل کے طہٰ کر لیں
قرار  زندگی لے لو، جزو  زندگی دے دو..........
    میںنے اب اسے اپنی آنکھوں سے اشارہ کیا اپنے سینے سے دوپٹہ ہٹانے کا وہ مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں سرزنش کر کے بولی ساتھ لالارخ ہے  اور لالارخ تو بس لیٹ کر  گھاس پے چاند کو دیکھ رہی تھی اور ہماری شاعری کا مزہ لے رہی تھی  میں نے اب کچھ موڈ سے کہا

تماشا روز کرتے ہو وفاؤں کا جفاؤں کا
ذرا ٹھرو میرے دل میں،،،محبت سیکھ جاؤ گے

اب گل  ذرا سا ہنسی اور کہا

ترے بغیر یہ دھڑکنا ہی نہیں چاہتا
یقین مانیے ! کچھ پاگل سے ہے میرا  دل

میں اب آسمان کی طرف دیکھنے لگا وہ اب سمجھ گئی میں ناراض ہوں وہ اب ذرا سا کھانسی میں نے اس کی طرف دیکھا اس نے اب لیٹ کر گھاس پے میری طرف منہ کیا اور اپنی چھاتی سے  دوپٹہ ہٹا دیا اور اپنے ممموں کو ہاتھ سے کچھ اور اوپر کیا  تا کے میں جی بھر کے دیکھ سکوں اب مجھے اپنی طرف دیکھتا پا کر اس نے شرم سے نظریں جھکا لیں اب اسے پیچھے سے لالارخ نے جھپی ڈالی اور مجھے کہا بھائی بتاؤ ہار مانو گے یا نہیں ،
میں نے اب گل کو اشارے  سے پوچھا اس نے ہاں میں  سر ہلا دیا میںنے اب کہا ٹھیک ہے  لالارخ مجھے اب نیند آ رہی ہے آپ کی دوست جیتی میں ہارا وہ خوش ہو گئی ویسے اب لالارخ کی آنکھیں بھی نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں ،
وہ بولی چلو اب سوتے ہیں جا کر اور اٹھ بیٹھی  میں بھی اٹھا اور  گل بھی اٹھی  میںنے اب لالارخ ہم سے دو چار قدم آگے تھی میں نے  ہلکے سے کہا گل میں آپ کا ویٹ کروں گا   اپنے کمرے میں  آؤ گی نہ  اس نے ہاں میں سر ہلا دیا  مجھے پتا تھا لالارخ  اب کی سوئی اگلے دیں ہی اٹھے گئی  میں نے اب  کہا گل سے چلتے چلتے

تم آؤگی تو، پھولوں کی برسات  کروں گا
 موسم کے فرشتے  سے،میری  بات ہو چکی ہے

یہ سن کے گل تو مرے شرم کے لال ہو گئی  اور جلدی سے آگے بڑھ کے لالارخ  کے ساتھ اندر چلی گئی

میں نے اب وہاں سے پھولوں کے بوٹوں کی طرف گیا  ھمارے لان میں ہر طرح کے گلابوں کے پودے  لگے تھے ، میں نے بہت سرے گلاب توڑے اور ان کو  لے کر اپنے روم میں آ گیا  اب ان کو پتیوں کی شکل دی اور وہ  ساری پتیاں ایک بڑے  سے لفافے  میں ڈال دیں
اب میں انتیظار کرنے لگا  گل کا  میں نے  اپنے کمرے میں ماجود چھوٹی سی   فریزر سے کچھ برف کی ٹکیاں  نکالیں اور ایک باؤل میں ڈالیں اور ساتھ میں ایک شہد کا دبا بھی نکال  لیا   یہ سب اپنے بیڈ کے ساتھ  ٹیبل  پے رکھ دیں  اور اب میں نے اپنا سونے والا لباس  پہنا اور لیٹ گیا باد پے  میں اب ایک رومانٹک ناول پڑھنے لگا کوی ایک گھنٹے بعد میرے کمرے کے دروازے پے دستک ہوئی  اور گل دروازہ کھول کے اندر آ گئی  وہ اب  کانپ  رہی تھی اس نے دروازہ بند کیا اور اپنے سینے پے ہاتھ رکھ کے لمبا لمبا سانس لینے لگی ،

میں نے بیڈ سے نیچے عطر کے اس کی طرف گیا اور اسے اپنے ساتھ لپٹا کے بیڈ پے بٹھایا ایک گلاس میں اسے پانی دیا وہ پی گئی اب وہ کچھ سنبھلی اور کہا شارق مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہو گا ،
میںنے کہا کوئی نہیں دیکھے گا  اور مت  داروں میں ھوننا وہ اب میرے سینے سے اپنا سر لگا کے بولی شارق آپ کی  تو ہیں جن کی وجہ سے میں زندہ ہوں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کبھی مجھے آپ کی آغوش میں آنے کا موقع ملے گا میں پہلے دن سے ہی آپ  کو اپنے دل میں بسا چکی ہوں  اور جب آپ نے میری خاطر اس شاہنواز  کو سزا دی مجھے آپ پے اور ٹوٹ کے پیار آنے  لگا تھا  شارق میں ایک ایسی لڑکی ہوں  جسے ریپ کیا گیا ہے میں آپ کے قابل نہیں ہوں آپ کو خوشی دے سکوں اور رونے لگی ،
میں نے اس کے آنسو  صاف کے اور کہا تم ایک پھول ہو اور کبھی ایسا مت کہنا وہ ایک حادثہ تھا اسے بھول جاؤ اور اپنے ہونٹ اس کی چمکدار آنکھوں پے رکھ دے  اس نے اب مجھے زور سے اپنے ساتھ لپٹا لیا  میں نے کہا گل آپ کو پتا ہے آپ کتنی  پیاری ہیں وہ بولی نہیں مجھے نہیں پتا میں نے کہا گل آپ سر سے پاؤں تک ایک حسن کا شاہکار ہیں  وہ بولی شارق آپ کو مجھ میں کیا کیا اچھا لگتا ہے میں نے کہا میں  اپنے ہونٹوں سے آپ کو وہ وہ حصہ بتاؤں گا  ،

میں نے اب اپنے تپتے ہوے ہونٹ گل کے پھولوں جیسے ہونٹوں پے نرمی سے رکھے اور ان کو چوسنے  لگا کوئی تین منٹ تک ان کو چوستا رہا اور گل کی سانسیں تیز ہوتی رہیں میںنے کہا گل یہ  اور اب اپنی زبان کو اس کی گردن پے پھیرنے لگا اور کہا یہ پھر میری  زبان نیچے اس کی چھاتیوں کی طرف سفر کرنے لگی اب اس کی ایک سائیڈ کے مممے پے میں نے اپنی زبان پھیری اور پھر دوسری سائیڈ کے مممے کی نپل کو اوپر سےہی اپنے ہونٹوں میں دبا لیا   گل اب سسکار  اٹھی   میںنے اب اس کی دونوں چھاتیوں  کو  جی بھر کے کپڑے کے اوپر سے ہی چوسا  اور پھر اپنے زبان اس کے پیٹ تک لے آیا وہاں بھی ایسے ہی چوسا  اور کہا یہ  اب گل نے میرا سر اوپر اٹھایا اور کہا ایک منٹ شارق  اور اٹھ کے اپنی کمیض اور برا کو ایک ساتھ ہی اتار  دیا  اور بولی میرے جسم کا جو حصہ میری جان کو پسند ہے وہ کپڑوں میںکیوں  رہے اب لو شارق جی بھر  کے دیکھو اور پیار کرو  گل  کے مممے واقعی غضب کے تھے  وہ اڑتیس سائز کے بھاری مممے تھے جن کی نپلز گلابی رنگ کی تھیں اور نیچے اس کا پیٹ نہ ہونے کے برابر تھا مجھے اپنے ممموں  کو دیکھتے پا کر گل بولی  یہ تم کو اچھے لگتے  ہیں نا اس نے اپنے دونوں مممے اپنے ہاتھوں میں لے کر اوپر اٹھایا  اور کہا شارق آج تک میرے جسم کو میرے سوا کسی نے نہیں دیکھا میں نے اپنا جسم کبھی اپنی کسی بہن یا دوست لڑکی  کو بھی نہیں دکھایا تھا ،مجھے اس وحشی  نے ریپ کرتے ہی سہی نہیں دیکھا ہو گا تم وہ پہلے  مرد ہو جو میرے سوا مجھے یوں دیکھ رہے ہو

شارق میں تم پے اپنا آپ  قربان کرنا چاہتی ہوں میرا دل کر رہا ہے آپ پے نثار ہو جاؤں  لو ان کو چوسو کاٹو جو مرضی کرو  میںنے اب اس کے مممے کو اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگا  پھر دوسری سائیڈ کی نپل چوسی اور اب میں نے اس کے  ریشمی پیٹ پے اپنی زبان پھیرنی شروع کی اور نیچے کو جانے لگا  اس کی چوت کے پاس جا کر میں نے اسے شلوار کے اوپر سے ہی    چاٹنے  لگا وہ اب آہیں بھرنے لگی
 آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میرے جانو
میںنے کہا گل تم بہت پیارے جسم کی مالک ھو وہ  میری طرف دیکھتی رہی اور اس نے اب  اپنی شلوار اتاری اور میں اس کی بالوں سے صاف چوت دیکھ کر حیران رہ  گیا اتنا چھوٹا  سوراخ تھا  میںنے آج تک ایسی پیاری چوت کسی لڑکی کی نہیں دیکھی تھی وہ ایک پھول کی مانند  تھی میں نے پیر سے اپنا ایک ہاتھ اس کی چوت پے رکھا اور اسے سہلانے لگا وہ سسسسسسسس  کر اٹھی  اہ میرے شارق  اور مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا اب میں اس کے ہونٹ چوسنے لگا  وہ بھی اب بیتابی سے میرے ہونٹ چوس رہی تھی میں کبھی کبھی ہلکا سا کاٹ دیتا وہ سسسس کر اٹھتی  اب اس نے اپنے ہاتھ سے میری کمیض کے بٹن کھولے  میںنے اٹھ کر کمیض اور بنیان اتار دی ،
اور دوبارہ سے اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا اس کے ہونٹ اف ف جو مزہ مجھے اس کے ہونٹ چوستے ہو آ رہا تھا میں بیان نہیں کر سکتا میں نے اب اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالی اور اس کے منہ کے اندر چاروں طرف پھیرنے لگا وہ بھی مجھے اپنی بانہوں  میں زور سے دبوچنے لگی اب وہ میری زبان کو چوس رہی تھی اس نے میری زبان کو ایسے چوسا جیسے کسی صحرا میں کسی پیاسے کو پانی ملے اور وہ اسے بیتاب ہو کے پینے لگتا ہے واسے ہی گل میری زبان کو چوس رہی تھی  اور پھر اس نے میرے منہ مہینہ پنی زبان کو ڈالا اب میںنے اس کی زبان کو بیتابی سے چوسا میرے ہاتھ مسلسل اس کے ممموں کو دبا رہے تھے اب اس کےممموں کی نپلز اکڑ کر تن  گئیں تھیں،   


میںنےاب گل کو کہا باد سے نیچے اترو اور وہ نیچے اتر آئی اب میں نے برف والی باؤل سے ایک برف کی ٹکی لی اور اپنے ہونٹوں میں رکھ کر گل  کا ہاتھ پکڑا اور اسکو اپنی جانب کھینچ کر اپنے ساتھ لپٹا لیا اور مظبوطی سے جکڑ لیا اب نیلوفر   بھی مجھے اپنی انہوں میں جکڑ چکی تھی اسکا نرم اور گداز جسم محسوس کرتے ہی میرے لن  میں حرکت شروع ہوگئی۔
 میں نے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ پکڑ کر اسکے ہونٹوں پروہ برف کی ٹکی ملنے لگا اور اب اس نے اپنے ہونٹ کھولے اور وہ بھی برف کو چوسنے لگی اب میں اور گل اس برف کو اپنے ہونٹوں میں لئے چوس رہے تھے اور ھمارے ہونٹ ایک دوسرے  سے وہ برف کا ٹکڑا چھین رہے تھے   ۔ وہ بھی میرے کس کا بھر پور جواب دینے لگی پھر میں نے دونوں ہاتھ پیچھے لے جاکر اسکے کولہے اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر زور سے دبائے جس سے اس نے ایک لمبی سانس لی اور اچھل کر مزید میرے ساتھ چپک گئی پھر میں نے ذرا دیر اسکے کولہوں کا مساج کرنے کے بعد اسکی  اسکی ننگی کمر کو سہلانے لگا۔

 وہ اب مست ہونے لگی تھی اسکی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔میں اب واپس ہاتھ نیچے کی طرف لایا   اسکے کولہوں کو جکڑ کر ایک بار پھر سے بھرپور طریقے سے سہلانے لگا۔ وہ اب بری طرح مچل رہی تھی  شاید اسکی بے تابی بڑھ رہی تھی۔ اب ہمنے پہلے والی برف کا ٹکڑا چوس چوس کے ختم کر دیا میںنے ایک اور ٹکڑا لیا اور اب اس کے ہونٹوں میں دے دیا اور اسے اپنے ہونٹ  اس کے ہونٹوں میں پیوست کر دئیے،اور چوستے ہوے اس کے ہونٹ کو ہلکے سے کاٹ لیا وہ مچل اٹھی سسسسسسسس شارق اب گل تڑپ سی گئی اور اس نے میری کمر  کو کس لیا اپنے ہاتھوں میں اب وہ اپنے ہاتھ نیچے لائی  اور اس نے اپنا ایک ہاتھ میری شلوار میں ڈالا اور میری شلوار کا ازار بند کھول دیا میری شلوار میری ٹانگوں سے نیچے گری میںنے ایک قدم اگے ہو کر اسے اپنے پاؤں سے بھی نکال دیا اب گل نے
  میری انڈرویئر میں ہاتھ ڈال کر میرا لن  پکڑ لیا۔
 میں ایسے اچھلا جیسے میرے لن  کو کرنٹ لگا ہو۔ مگر اسکے نرم ملائم ہاتھ سے میرے  لن کو بہت لذت ملی تھی۔ ابنے ایک ہاتھ میں میرا لن  پکڑے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری انڈروئیر اتار دی اب جو اس نے میرا لن   دیکھا جو کہ تنا ہوا کسی ڈنڈے کی مانند اسکے ہاتھ میں تھا تو اسکی آنکھوں میں ایک خوف سا آ گیاوہ  بولی شارق یہ توبہت  موٹا اور لمبا ہے میں اب اسے کیسے لے پاؤں گی میں نے پیار سے اس کے ہونٹ پے ایک کس کی اور کہا جانو کچھ نہیں ھو گا پہلی دفع کچھ درد ہو گا پھر مزہ  ہے وہ بولی مجھے آپ کی طرف سے دیا جانے والہ درد منظور ہے

اب میں نے اس ایک ممے کو اپنے منہ میں لے لیا اور کسی آم کی طرح چوسنے لگا اورمیرا   ہاتھ اسکے دوسرے ممے پر تھا جس کو میں زبردست مساج کر رہا تھا۔ اور وہ میرے  لن  کو زور زور سے سہلا رہی تھی جس سے میرا  لن  مزید سخت ہو گیا اور تن گیا۔ اب میں نے  کو اپنی گود میں اٹھایااور اس کو اپنے بیڈ پر پھینک دیا۔
 اسکے بیڈ پر گرنے سے اسکے مموں نے ایک زبردست باؤنس لیا جس سے انکی نرمی اور لچک کا اندازہ ہو رہا تھا اب میںنے اپنے ہاتھوں  میں برف کا ٹکڑا لیا اور گل  کے ہونٹوں سے رگڑنے لگا پھر اس کی گردن پے رگڑتے ہوے نیچے اس کی چھاتیوں پے برف کے ٹکڑے کو پھیرنے لگا وہ مچل  سی گئی سسسسسسسسسشسحش شارق اف ف ف ف میں نے اب اس کے پیٹ پے برف کا ٹھنڈا پانی گرایا جو اس کی ناف پے گیا وہ ایک دم سے تڑپی  
آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف ف ف م
 شارق اور میرے لن کو اور مضبوطی سے پکڑ لیا اب گل کی چوت کی طرف میں گیا اور وہاں بھی پانی کے قطرے  پھینکے  جب میںنے وہ برف کا ٹکڑا گل کی چوت سے لگایا وہ چیخ  اٹھی شارق اوئی اف ف ف ف ف مممم اب اس کی چوت کو میںنے اپنے ہونٹوں میں لیا اور چاٹنے لگا وہ اور زیادہ باؤلی سی ہو کر مچلنے  لگی اب اس کی چوت گیلی ہو گئی تھی وہ پانی چھوڑ رہی تھی   
جسے میں نے  ٹشو پیپر سے صاف کر کے خشک کردیا اب وہ بولی شارق میں مر جو گئی یہ مزہ  مجھ سے اب  برداشت نہیں ہو رہا اور ساتھ ہی وہ  میری طرف آئی مجھے اپنے نیچے گرا کے میرا لن چوسنے لگی اس کو لن چوسنے کا پتا نہیں تھا اس لئے وہ کبھی ٹوپی کو زبان سے چاٹنے لگتی کبھی میرے لن پے اوپر نیچے زبان پھیرتی میںنے اسے کہا اسے منہ میں لے کر چوسو وہ  فوراً ہی میرا  لن  اپنے منہ میں لے کر کسی لولی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔اف اب میں الفاظ میں کس طرح بیان کروں اسکا منہ کتنا گرم اور کتنا نرم تھا

ب میںنے  گل کو پکڑ کے اپنے  نیچے لٹایا  ور اسکے اوپر چڑھ کر بیٹھا اور اسکی چوت کے منہ پر اپنا لن  رکھا اور اس سے کہا اپنی ٹانگیں کھولے اس نے فوراً ایسا ہی کیا اور اب اسکی چوت میرے لن کو قبول کرنے کو تیار تھی کیونکہ میں نے اپنے لن کا ہیڈ اسکی چوت پر رکھا تو اندازہ ہوگیا اندر کتنی گرمی ہے اور دوسری بات یہ کہ اسکی چوت  گیلی ہوچکی تھی۔یہ سگنل تھا اس بات کا کہ اسکی چوت میرے لن  کو نگلنے کے لیے تیار ہے
اب میں نے اپنا لن اسکی چوت کے منہ پر رکھا اور زور لگایا تو اسکی چوت کے گیلا ہونے کی وجہ سے میرا  لن ہیڈ تک تو چلا گیا اندر، مگر  درد سے بلبلا اٹھی یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے شارق بہت درد ہو رہا ہے
  شارق میں اپ کا ہر درد آج سہ لوں گے آپ ڈالو اندر اسے ایک ہی جھٹکے میں اس دن  تو بہت درد ہوا تھا اس سے بھی زیادہ آج پھاڑ ہی دو میری چوت اب کی بار میں نے بھی ایک ہی جھٹکے سے سارا اندر کر دیا وو ایک زبحہ ہونے والے جانور کی طرح بلبلائی   میں اس کے اندر ڈال کر کچھ دیر کے لئے روکا رہا اور کہا جان بہت درد ہو رہا ہے نہ تم کو     کو وہ میری بات سن کر مسکرا اٹھی جسکودیکھ کر میں سمجھ گیا  وہ برداشت کر رہی ہے  اب وہ درد سے اپنے ہونٹ بھینچ رہی تھی مگر کچھ کہہ نہیں رہی تھی میں نے اب ایک بار اپنا لن باہر نکالا اور دوبارہ میرا پورا لن اس کی چوت میں تھا مجھے احساس تھا اس کے درد کا کیوں کے اس کی چوت کا سوراخ بہت چھوٹا اور تنگ تھا
  وہ مچل رہی تھی شاید اسکو تکلیف زیادہ تھی میں نے اسکے اوپر لیٹ کر اسکو اچھی طرح جکڑ لیا ایسے کہ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھی۔ صرف ٹانگیں اور ہاتھ ہلا سکتی تھی۔ اب میں نے اسکے ہونٹوں پو کسنگ شروع کردی ذرا دیر بعد وہ اپنی تکلیف بھول چکی تھی کیونکہ اسکا دھیان کسنگ میں تھا پھر اور تھوڑی دیر بعد اسکی تکلیف ختم ہوچکی تھی ۔ اب اسکی چوت تیار تھی چدنے کے لیے

 میں نے بیٹھ کر اسکی دونوں ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور پوری طاقت سے زور لگا کر اپنا لن زور زور سے اندر باہر کرنے لگا   وہ اب مزے سے چیخ اٹھی   یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق میری جان بہت بڑا ہے تمہارا لن  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میرے جانو
میں نے لن  کو باہر نکالا اور پھر اندر ڈالا مگر اب کی بار وہ نہیں چیخی بس اسکا سانس رکا اور پھر چل پڑا  میں نے بھرپور رفتار کے ساتھ چدائی شروع کی  کی سیکسی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ آہ آہ اوہ اسکی آوازیں بڑی خوبصورت تھیں۔ ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ میں بھی اب رکنے والا نہیں تھا تقریباً دس منٹ کی چدائی سے میں بھی تھکنے لگا تھااب گل زور کی چیخ ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ کے ساتھ ہی فارغ ہو گئی تھی  اور میری منی جو کافی دیر سے روکی ہوئی تھی  اسے اسکی چوت پینے کو تیار تھی۔
پھر میں نے اسکی چوت میں منی اگلنا شروع کی ۔میں نے لن  کو پورا اندر ڈال کرگل  کے ہونٹوں کو چومتا رہا اسی کی چوت نے اب میرے لن کو جکڑ لیا تھا گل کی چوت میرے لن کو یوں بھنچ رہی تھی جیسے لیمن کا رس نکالتی ہے مشین اس کی چوت نے میرا لن اسی طرح نچوڑا میرے لن سے اب منی نکل  رہی تھی ۔ پھر فارغ ہونے کے بعد میں نے بے تحاشہ اسکو پیار کیا وہ  بھی مجھے اپنی بانہوں میں کسے ہوے تھی
گل کو   میں نے اب بےتحاشا چوما کافی دیر اسے چومتا رہا اب  میںنے کہا جان اب درد تو نہیں ہیں نہ وہ بولی نہیں جانو آپ نے سارا درد اب اپنی ختم کر دیا ہے اتنا پیار دے کر
  میں اسے اپنے ساتھ لپٹاہے ایسے ہی لیتا رہا میرا لن اس کی چوت کے اندر ہی تھا

تھوڑی دیر بعد  وہ اٹھی اور واش روم کی طرف چلی  گی  میں بھی اس کے پیچھے  ہی واش روم کی طرف گیا اب اس نے پہلے میرا لن اور پھر اپنے جسم کو صاف کیا  میں نے اب اسے اپنے بازوں میں اٹھا لیا اور بیڈ کی طرف آنے لگے اسے بیڈ پے لٹیا دیااب ہم دوبارہ سے ایک دوسرے کو چومنے لگے اب گل شہد کی شیشی کو دیکھا تو اسمیں سے تھوڑا سا شہد میرے ہونٹوں پے لگا دیا اور اور کچھ اپنے ہونٹوں پے اب ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ہونٹوں سے وہ شہد چاٹنے اور چوسنے لگے  وہ بار  بار ایسا ہی کرتی ، میںنے اب کچھ شہد اس کے ممموں پے ملا اور اس کے مممے چوسنے لگا وہ مزے سے چلا اٹھی میںنے اب اتنا چوسا گل کے ممموں کو ان پے نیل پڑھ  گ
ۓ ،
اب اس کی آہیں اور سسکریاں کمرے میںگونج  رہی تھیں آہ آہ آہ آہ شارق اف ف ف  میری جان  کیا جادو ہے ترے ہونٹوں میں  اف ف میری جان نکل جا
ۓ گئی آج آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق مجھے اپنی بانہوں میں لے لو میں مر جاؤں گئی ہائے ہائے یاہ م مم م مم شارق       

اب اس نے مجھے اپنے اوپر کی طرف کھینچا اور مجھے ہونٹوں سے کس کرتے کرتے کروٹ بدلی اور میرے اوپر آ گئی اب اس نے میرے تانی ہوے لن کو چوسنا شروع کر دیا  اور پھر خود ہی میرے لن کے اوپر بیٹھ گئی اور اسے ایک ہی جھٹکے سے اپنی گرم چوت میں لیا اور چیخ اٹھی ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف  اور میرے سینے پے اپنے ہاتھ رکھ کے  اوپر نیچے ہونے لگی  میں بھی اس کے ہلتے ہوے ممموں کو اپنے ہاتھ میں لے کر مسلنے لگا وہ اب مزے سے سسکاریاں بھی بھر رہی تھی اور زور زور سے اوپر نیچے بھی ہوئی جا رہی تھی اب میں بھی اس کا ساتھ دینے لگ وہ جب نیچے کو آتی میں اوپر کو زور لگاتا ایسے مجھے بھی برا مزہ آ رہا تھا اب گل کی آنکھیں  بند تھیں اور وہ اوپر نیچے ہونے میں لگی ہوئی  تھی بس اس کے منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں جو مجھے بڑا مزہ دے رہی تھیں، یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م  شارق کیا مزہ ہے جانو آپ کے لن میں  میری ہڈی پسلی ایک کر رہا ہے اف ف ف ف  ہائے ہائےشارق میری جان کے مالک آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق  میرے محسن سسسسسسش یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے  اور زور سی اب چیخی وہ اب پھر سے فارغ ہو گئی تھی  اب مجھے بھی لگا رہا تھا میں بھی قریب ہی ہوں پھر وہ اب بھی ویسے ہی اوپر نیچے ہو رہی  تھی  اور مزے سے چیخ  رہی تھی پھر میں نے بھی اپنا پانی اس کی چوت میں دوبارہ سے  پھینکنا شروع کر دیا ،

ہم دونوں ہی اب فارغ ہو گ
ۓ تھے میرا لن ابھی  بھی اس کی چوت میں ہی تھا وہ اب میرے اوپر لیٹ گئی اور میرے ہونٹ چوسنے  لگی  کافی دیر ایسے ہی ہم ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے  رہے  اب میرا لن اس کی چوت سے باہر آ گیا اس کی چوت سے ہم دونوں کی منی اب میری رانوں پے گرنے لگی تھی  وہ اب اپنی چھوٹ کو میرے لن پے رگڑنے  لگی اور میرے ہونٹ چومنے میں لگی رہی میں بھی اب اس کی زبان کو چوسنے لگا  اب بھی میںنے اس کی زبان کو پانچ منٹ تک چوسا  میرا لن اس کی چوت کی رگڑ  سے دوبارہ سے سانس لینے لگا اور اب وہ غصے سے پھنکارنے  لگا تھا اب گل نے ایک ہاتھ سے میرا لن  پکڑ کے دوبارہ اپنی چوت میں ڈالا اور ایک زور کا جھٹکا دیا لن اس کی چوت میں تھا سارے  کا سارا   اب وہ دوبارہ سے اس پر اچھلنے لگی مجھے آج اتنا مزہ آ رہا تھا آج تک نہیں آیا تھا ،
وہ اب مزے سے سسکاریاں بھی بھر رہی تھی اور لن کے اوپر بیٹھ کے اسے اپنی چوت کے اندر باہر بھی کر رہی تھی یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائےشارق آج میں اپنے یار کو اتنا پیار دوں گئی کسی اور نے نہ دیا ہوگا یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م میرے دلدار جیسا کسی کا لن نہیں ہو سکتا   آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میرے جانو تمہارے لن نے آج مجھے وہ مزہ دیا ہے کے اب میں ساری زندگی نہیں بھول سکتی  میں بھی اب اس کے ممموں کو پیار سے سہلا رہا تھا اور اس کی نپلز کو اپنی ہاتھوں میں مسل رہا تھا آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میرے شہزادے  یہ کہہ کر اس نے کہا ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م میرے شارق میں آ رہی ہوں وہ فارغ ہو گئی تھی پھر سے اب وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولی
 
  لو آج میں تم سے نکاح عشق کرتی ہوں          
  مجھے تم سے محبت ہے ،محبت ہے ، محبت ہے ،

اور یہ کہتے ہی میرے ہونٹوں کو پاگلوں کی طرح چومنے لگی  وہ اتنی تیزی سے میرا لن اندر باہر کر رہی تھمیں بتا نہیں سکتا وہ اب مزے سے فارغ ہونے کے بعد بھی ویسے ہی میرا لن اندر باہر کر رہی تھی اب کوئی سات منٹ بعد وہ پھر سے جھڑنے والی ہو گئی تھی ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م کی تیز آواز کے ساتھ وہ جھڑ گئی اور اب میں بھی ایک دو جھٹکوں کے بعد دوبارہ سےگل کی چوت کو اپنی منی سے بھرنے لگا اب وہ تھک کر میرے اوپر لیٹ گئی اور تیز تیز سانس لینے لگی وہ اب تک چار دفع فارغ ہو چکی  تھی  میں نے اب اسے خوب پیار کیا اور پھر ہم واش روم میں جا کر اچھے سے خود کو صاف کر کے باہر آ گ
ۓ  اب وہ بیڈ پے میری طرف   

 پیٹھ کر کے لیٹ گی میں نے پیچھے سے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور اس کی گردن کو چومتے ہوے کہا گل میری پھولوں کی رانی  تم بہت سیکسی   ہو یار وہ بولی چلو ہٹو اب مجھے بنا رہے ھو میں نے کہا  ہائے  ظالم تم تو بنی بنائی ایک آفت ھو میں کیا بناؤ گا اور اس کے مممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے اس کی سانس تیز ہونے لگی تھی اب وہ بولی شارق پلیز ان کو  چھوڑ دو جب تمہارے ہاتھ ان کو لگتے ہیں میرے اندر ایک کرنٹ سی ڈورنے لگتی ہے میں اب اتنا تھک گئی ہوں اب بس کرو جانو  میں نے اب اس کے کانوں کی لو کو اپنے ہونٹوں میں پکڑ  کر چوسنا شروع کر دیا وو اب مچل اٹھی  شا رررر ق وہ  ایک لمبی سانس لے کے بولی مت کرو ایسا میں مر جاؤں گی  میں بنا رکے اس کے مممے بھی دبا رہا تھا اور اسکی گردن پے کبھی گالوں پے  کبھی اس کے ہونٹوں کو چومنے لگتا پھر میں نے اسے سیدھا کیا اور اس کےایک  مممے کی چوچی پکڑ کے چوسنے لگا وو اب سسکاریاں بھر رہی تھی س س س س س ہاہ اف ف ف ف ف  اوئی ماں  شارق اوہ میرے ش ش ش آ ر ر ر ق میرے اندر آگ لگ گی ہے اب کچھ کرو جانو میں نے اب اپنی ایک انگلی اس کی چوت میں ڈال کر اندر باہر کرنے لگا وو اب فل تڑپ رہی تھی  پھر میں نے اس کے کان میں کہا گل  تمہاری گانڈ بہت پیاری ہے میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں اپنے لن سے وہ  بولی شارق یہ بہت  ظالم ہے تمہارا لن اس نے پہلے ہی دیکھ میری چوت کا برا حال کیا ہے  یہ میں ہی جانتی ہوں کیسے میں نے برداشت کیا ہے تمہارے لن کو اپنی چوت میں  میری گانڈ میں کبھی لن نہیں گیا

میری گانڈ کو تو یہ پھاڑ کے رکھ دے گا جان پلیز آگے سے ہی کر لو نہ میں نے کہا گل  میرا دل کرتا ہے تمہاری گانڈ میں ڈالوں وہ اب کچھ نہ بولی اور کہا پھر آرام آرام سے کرنا شارق ورنہ میں مر جاؤں گئی  میں تم کو اب کیسے منع کر سکتی ہوں تم تو میری جان ھو
پھر میں نے  ایک بار اسکے مموں پر اور پورے جسم پر کسنگ شروع کردی جس سے وہ پھر سے گرم ہونے لگی۔  میں کسنگ کرتے کرتے اسکی چوت تک آیا تو وہاں انگلی ڈال کر اسکو چودنے لگا۔ اسکی چوت کافی گرم تھی۔ مطلب یہ تھا کہ وہ پوری طرح گرم ہوچکی ہے۔ اب میں نے اسکو الٹا کیا اور ڈریسنگ ٹیبل سے جلدی سے لوشن کی بوتل اٹھائی اور اسکے کولہوں پر مساج کرنا شروع کردیا  پھر میں نے اپنے لن  پر بھی مساج کیا اور اسکے کولہوں کو لوشن سے تر کرتے ہوئے اسکی گانڈ پر بھی اچھی طرح سے لوشن لگا دیا۔ اب میرا  لن  لوشن کے مساج سے ایک بار پھر کسی ڈنڈے کی مانند تنا ہوا تھا میں نے  اسکے کولہوں کے درمیان اپنے لن   کو رکھا اور ایک جھٹکا مارا تو وہ پھسلتا ہوا اسکی گانڈ کے سوراخ میں داخل ہوگیا۔ وہ ایک دم تکلیف سے چیخ پڑی یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق  پلیز شارق آرام سے کرو  
۔ میں نے اس سے کہا جیسے ذرا دیر میں آگے سے تکلیف ختم ہوگئی تھی ایسے ہی یہاں سے بھی تکلیف ختم ہوجائے گی بس پھر انجوائے کرنا میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میں نے لن کو مزید دھکے مار مار کر اسکی گانڈ میں پورا لن   گھسیڑ دیا۔ وہ تکلیف سے بلبلا رہی تھی مگر آنے والی لذت کے انتظار میں تھی کہ کب تکلیف ختم ہو اور کب وہ لذت سے آشنا ہو۔ذرا دیر میں نے  لن کو اسکی گانڈ میں ہی رکھا ۔ ذرا دیر بعد میں نے پوچھا اب تکلیف تو نہیں تو اسکا جواب نہ میں تھا۔ میں یہ سن کر خوش ہوا پھر اس سے کہا چلو اب اٹھو اور جیسا میں کہوں ویسا کرو، یہ کہہ کر میں نے اسکی گانڈ سے لن کو باہر نکالااور پھر بیڈ سے اتر کر کھڑا ہوگیا۔ پھر میں نے اسکو بھی نیچے بلا لیا وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے نیچے اتر آئی پھر میں اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو صوفے کی طرف لے گیا اور کہا صوفے پے  لیٹو ایسے کہ تمہارے کولہے میری جانب ہوں اور ٹانگیں فرش پر اب وہ صوفے  پر پیٹ سے سر تک لیٹی ہوئی تھی

 جبکہ ٹانگیں نیچے فرش پر تھیں میں نے  لن  کو اسکی گانڈ پر سیٹ کیا اور دھکا مار کرلن  ایک بار پھر سے اسکی گانڈ میں گھسیڑ دیا۔ اسکو ایک زور کا دھکا لگا اور پورا صوفہ ہل گیا آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف ی اہ یاہ یاہ یاہ یا ہائے ہائے ہائےشارق  مگر میرا لن  اسکی گانڈ میں راج کررہا تھا۔ اب میں نے اپنی رفتار بڑھائی اور دھکے تیز کردیئے ہر ہر جھٹکے پر اسکو لذت مل رہی تھی اور اسکے بڑے بڑے اور نرم نرم گرم گرم کولہے میرا جوش مزید بڑھا رہے تھی میں نے دونوں ہاتھوں سے اسکے ممے پکڑ لیے اور انکو بری طرح مساج کرنے لگا۔ میں چونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اپنی منی نکال کر فارغ ہوا تھا اس لیے میرے پاس کافی وقت تھا۔میں اسکو دھکے مارتا رہا اور پھر وہ ایکدم سے فارغ ہوئی اور اسکی چوت نے ڈھیر ساری منی اگلی اور اسکی ٹانگیں لڑکھڑا گئیں میں نے اسکو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ لازمی نیچے گر جاتی۔ اس نے کہا  بس کرو میری ٹانگوں میں اب جان نہیں ہے میں کھڑی نہیں رہ سکتی میں نے کہا ہمت کرو تھوڑا اور میں بھی فارغ ہو جاؤں تو پھر واپس بیڈ پر چلتے ہیں۔میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میرالن  ابھی فارغ نہیں ہوا تھا سو وہ مستقل تنا ہوا اسکی گانڈ میں ہی تھا۔ میں نے دوبارہ سے جھٹکے مارنا شروع کردیا۔ اسکی گانڈ پوری طرح کھل چکی تھی اور مسلسل میرے لن  کا ساتھ دے رہی تھی اب میرا لن  بڑی روانی سے اسکی گانڈ میں آ جا رہا تھا۔ پھر وہ لمحہ آیا جب مجھے اسکی گانڈ میں فارغ ہونا تھا میں نے کھڑے کھڑے اسکی گانڈ میں ہی منی اگلنا شروع کردی مگر اسکے ساتھ ہی  بھی فارغ ہوئی اور اسکی چوت سے پھر ایک بار منی نکلنا شروع ہوئی۔ اور وہ ایک بار پھر سے لڑکھڑا گئی اور گرنے ہی لگی تھی کہ میں نے اسکو پھر سنبھالا۔ اب وہ کھڑی رہنے کے قابل نہیں تھی۔ میں نے اپنے لن  کو خالی کر کے گلشن   کو گود میں اٹھایا اور لے کر واپس بیڈ پے لٹا دیا
میں نے فریزر سے  تازہ پھلوں جوس اور فروٹس رکھے تھے وہ اسکو بھی دیئے اور خود بھی کھائے وہ بالکل مدہوش ہو رہی تھی اسکو اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ ذرا دیر بعد اسکے حواس بحال ہوئے تو اس نے کچھ کھایا اور جوس پیا پھر میری جانب دیکھا اور کہا تم بہت ظالم ہو مار ڈالا تم نے مجھے میں نے اس سے کہا گل  جو سیکس کا مزہ تم دے رہی ہو اور جس طرح سیکس تم کر رہی ہو ۔آج تک مجھے ایسا مزہ نہیں آیا گل نے کہا شارق مجھے خوشی ہے میری جان کے مالک کے میرے جسم نے آج تم کو بھر پور مزہ دیا میںنے کہا گل تم ہو بہت سیکسی سچی مچی جان ۔ میری بات سن کر وہ تھوڑا سا شرمائی اور کہنے لگی مگر تم بہت ظالم ہو تم نے برا حال کردیا میرا۔ میں نے کہا ابھی تو کچھ بھی نہیں کیا جان من ابھی تو رات گزرنے میں دو گھنٹے باقی ہے   ۔ فروٹس کھا کر اسکے بدن میں جان آگئی تھی۔میں اسکو گود میں اٹھا کر باتھ روم میں لے گیا اور کہا
چلو اب مل کر نھاتے  ہیں    نہانے کے دوران ایک بار پھر میں نے اسکی چوت کو اپنی منی سے بھرا اور پھر  ہم دونوں نے ایک ساتھ نہا کر میرے ہی بیڈ ہر ایک ساتھ ننگے ہی لیٹ گ
ۓ جب پانچ بجے کا وقت ہوا تو گلشن اٹھی اور کہا اب میں جاؤں گئی کہیں لالارخ کی آنکھ نہ کھل جاتے    
اور چلی گئی میں بھی اٹھا اپنے کمرے میں ائر فریشر سپرے کیا اور لیٹ گیا میں کافی تھک چکا تھا اس لئے جلد ہی مجھے نیند آ گئی اگلے دن  میں کافی لیٹ اٹھا اورپھر گھڑی دیکھی دس بج رہے تھے میں جلدی سے تیار ہوا اور بنا ناشتے کے ہی کورٹ کی طرف چل دیا مجھے بھابھی لوگ کہتے ہی رہ گ
ۓ شارق ناشتہ تو کرتے جاؤ، میں  نے انکی ایک نہ سنی ،

part 17

میں اب جیسے ہی بار روم میں داخل ہوا  مجھے دیکھ کر  رضوان بٹ   نے کہا  سر  آپ سے  آج  بڑے جج صاحب ملنا چاہتے ہیں انھوں  نے ایک میٹنگ رکھی ہے  ساری  بار  کی  میں نے کہا چلو مل لیں گے ان سے بھی  اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ  گیا  اب میں نے اسے کہا  فاروقی صاحب  کہاں ہیں وہ  بولا سر وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی  گ
ۓ ہیں  حسن  جٹھول صاحب کی عدالت میں   میں بھی جلدی سے اٹھا اور اسی طرف چل دیا  میں جب مطلقہ  عدالت میں پوھنچا تو وہاں پے دھواں دھار قسم کی بحث چل رہی تھی فاروقی صاحب کی ایک وکیل سے ،
میںنے جج صاحب کو سر کے اشارے سے سلام کیا  انہوں نے بھی جواب دیا ویسے ہی اب  میں جا کر ایک کرسی پے بیٹھ  گیا جج صاحب نے  کہا فاروقی صاحب آپ اپنی  بحث آج ہر حال میں ختم کر  لیں کیوں کے اب میں نے اگلی ڈیٹ پے فیصلہ  دینا ہے اس کیس کوویسے  بھی اب کافی عرصہ ہو گیا ہے اب فاروقی صاحب نے کہا جناب میری یہ دوسری  پیشی  ہے اس  میں  مجھے ابھی کچھ وقت دیا جا
ۓ ان کے مخالف وکیل  جن کا نام  انور   بیگ صاحب تھا  کہنے لگی جناب اپنے اس چراغ کے جن کو بلا لیں ان کا لہجہ بہت طنزیہ تھا اس نے ابھی مجھے نہیں دیکھا تھا

میں نے اب اٹھ کے فاروقی صاحب کے پاس گیا ان کے کندھے پے ہاتھ رکھا اور کہا  بیگ صاحب  فاروقی صاحب کا جن حاضر ہے مجھے دیکھ کر بیگ صاحب چونک گ
ۓ اور کہا آج تو مجھے لگا آپ واقعی جن  ہی ہیں اب جج صاحب مسکرا دئیے میںنے فاروقی صاحب سے کہا کون سا کیس ہے وہ بولے یار ایک نیا کیس ہے اغوا  کا  جو مجھے میرے  ہم زلف  نے کہا تھا لڑنے کو اس کا ملزم  ان کا کوئی قریبی دوست کا بیٹا ہے ،
میں نے جج صاحب سے کہا جناب  کیا مجھے  ایک گھنٹے کا ٹائم  دیا جا سکتا ہے وہ بولے  ٹھیک ہے  آپ کو دو گھنٹے کا ٹائم  دیا جاتا ہے شارق  صاحب آج آپ نے اس پے بحث مکمل  کرنی ہے کیوں بیگ صاحب آپ کو کوئی اعتراض وہ بولا نہیں جناب  مجھے ویسے بھی اشتیاق تھا شارق صاحب کے ساتھ کیس لڑنے کا آج وہ پورا ہو رہا ہے کافی  دھوم سن رہا ہوں ان کی ذہانت کی  میںنے کہا جناب آپ کی ذرا نوازی ہے  اور وہ فائل لے کر  فاروقی صاحب سے کہا آئیں اپنے آفس میں وہ میرے ساتھ ہی آ گ
ۓ  وہاں پے میںنے غور سے وہ فائل پڑھی  اس میں مجھے پہلی نظر میں ہی کافی کمزور  پوائنٹس  مل گۓ  میںنے اب ان کو ایک کاغذ پے اتارا اور  دوبارہ سے  پڑھنے لگا  وہ کیس  تھانہ صدر کا تھا میںنے  اب اس تھانے کا نمبر  لیا اپنے منشی سے    جس کے پاس سب ضروری  نمبر تھے میں نے اب کال ملائی آگے سے آواز آئی یس محرر تھانہ صدر کون ہیں  میںنے کہا آپ کا انچارج کون ہے وہ بولا انسپکٹر غالب صاحب  میں چونک گویا اور دل میں ہنسا یہ تو اپنا یار خاص ہے میں نے  کہا ان سے بات کرا دیں ایک منٹ بعد غالب کی آواز آتی کون ہے  میں نے کہا  کیسے ہو اپنے مرزا غالب  وہ میری آواز پہچان کے بولا  ابھے تو  خود غرض وکیل کیسا ہے   

جلدی سے بتا کس کی ہیلپ کے لئے فون کیا ہے میں اس سالے کو ساری عمر کے لئے جیل  میں سارا دوں گا جو تیرے جیسے  مطلبی کا  مؤکل ہے  میں نے کہا یار بریک پے پیر رکھ کوئی اکسیڈنٹ ہو جاتے گا ، وہ بولا آج جو ہونا ہے ہو جا
ۓ  میںنے اسے ذرا ٹھندھا کیا اور ساری بات بتائی  وہ بولا ابھی مسلہ حل ہو جاۓ گا اور ساتھ ہی کسی کو آواز دی اوے خیر دین  جا ذرا  سب انسپکٹر نیامت  کو بلا کے لا  پھر بولا وہ ابھی آ جاتا ہے تم ابھی میرے تھانے آ جاؤ ورنہ کسی دن میرے ہاتھوں  ضائع  ہو جاؤ گۓ شارق،   

میںنے کہا یار اصل میں اس وقت عدالت میں ہوں اور میرا  مسلہ یہ ہے نہیں آ سکتا تم ابھی یہ کام کرو  جو کہا ہے اس نے کہا ٹھیک ہے  پھر وہ اپنے پاس آنے والے انسپکٹر سے باتیں کرنے لگا  اس نے اسے کہا  ابھی جاؤ اور موقع  کے دونوں گواہوں کو اٹھا لو ابھی
پھر مجھے تیس منٹ بعد غالب کی کال آئی اس نے کہا شارق وہ دونوں گواہ اصل بات بتانے کو تیار ہیں عدالت میں یہ سب ڈرامہ کونسلر زاہد انصاری نے کیا ہے اور اس لڑکے سجاد کے   موبائل سے سم بھی ایک گواہ  نے ہی نکل کے دی تھی اس کونسلر کو اس کا کوئی ذاتی  مسلہ ہے  سجاد سے     میں ان کو لے کر آ رہا ہوں  میںنے کہا آ جاؤ،
 اب میں نے نئے سرے سے ساری بحث تیار کی اب صرف دس منٹ  رہ گے تھے دو گھنٹے پورے ہونے  میں اب ہم بھی عدالت کی طرف چل دئیے جج سحاب پیچھے اپنے کمرے میں تھے  اب وقفہ بھی ختم ہونے والا تھا ،

اب بیگ صاحب بھی اپنے ساتھ وکیلوں کے ساتھ آ گ
ۓ اب میں نے کہا فاروقی صاحب آپ بحث کریں وہ بولے  نہیں یار تم ہی کر لو میں کچھ تھک سا گیا ہوں اب میں اٹھا اور جج صاحب کے سامنے کھڑا ہو گیا   میںنے کہا جناب بیگ صاحب کو شوق تھا میرے سامنے آنے کا  اور میں اپنے ایک سینئیر وکیل صاحب کی خوائش کا احترام کرتے ھوے خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ،
جناب میں اپنی بحث سے پہلے موقع کے گواہوں سے کچھ سوال کرنا چاہوں گا ، جو اس وقت کمرہ عدالت کے باہر ماجود ہیں   جج صاحب نے کہا ان کو بلا لیں اندر  اب غالب  ان کے ساتھ اندر آیا    میںنے ان میں سے ایک جس کا نام عاطف تھا اسے کہا  آپ آ جاؤ کٹہرے میں وہ آ گیا  میںنے اب کہا حلف دو جو کچھ کہو گ
ۓ سچ کہو گۓ اور سچ کے سوا کچھ نہ کہو گۓ  اس نے حلف دیا اب میںنے پوچھا آپ کا نام وہ بولا عاطف  میںنے کہا آپ کیا کرتے ہیں وہ بولا جناب میں اپنے  علاقے  کے کونسلر زاہد انصاری کی  فیکٹری میں کام کرتا ہوں ، میںنے پوچھا کون سا کام وہ بولا جی میں وہاں ایک شفٹ انچارج ہوں  میںنے کہا آپ سامنے کھڑے اس لڑکے کو جانتے ہیں وہ بولا جی ہاں یہ سجاد ہے  میرا ہمسایہ ہے  میںنے کہا آپ نے کیا دیکھا اورکیسے دیکھا ذرا بتا دیں وہ اب چپ رہا ،  میںنے کہا آپ نے اپنے بیان میں کہا ہے سجاد کا  اس لڑکی نرگس کے ساتھ کوئی چکر تھا یہ اسے روز ملتا تھا اور اسی نے اسے اغوا کیا ہے میری آنکھوں کے سامنے سے  وہ بولا جی ہاں میں نے  یہ کہا تھا اب میںنے کہا آپ نے اسے دیکھا تھا اس سے ملتے سچ بولنا آپ نے حلف دیا ہے  اب کی بار بیگ صاحب نے کھڑے ہو کر کہا شارق صاحب آپ ھمارے گواہ کو ڈرا  رہے ہیں  میںنے کہا کیسے میںنے بس سچ بولنے کا کہا ہے یہ کوئی ڈرانا نہیں ہے بیگ صاحب ،

میںنے کہا عاطف صاحب  باتیں آپ نے دیکھا تھا اپنی آنکھوں سے وہ بولا جناب اس کے نام ہے وہ سم جس سے اسے کال کر کے بلایا گیا  تھا  اور  وہ ڈیٹا بھی ہے جس میں ساری کالز کی تفصیل  ہے میں نے کہا آپ بس یہ بتا دیں آپ نے اسے دیکھا یا نہیں وہ اب بولا میںنے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا میں اور صابر اس رات  فیکٹری  میں کام کر  رہے تھے ہم کو کونسلر صاحب  نے بلا کے کہا نرگس کو اغوا کر لیا ہے  سجاد نے ہم نے ان کے خلاف گواہی دینی ہے ،

اب بیگ صاحب نے کھڑے ہو کر کہا عاطف کیوں ڈر رہے  ہو  جو سچ ہے اس پے قائم رہو میںنے کہا بیگ صاحب وہ سچ اب بول رہا ہے پہلے اس نے جھوٹ ہی بولا تھا اب ہی تو وہ سچ پے قائم  ہوا ہے اور دوسرے گواہ صابر کو بلا لیا اس نے بھی ایسا ہی بیان دیا اب میںنے کہا جناب میں اب زاہد انصاری سے کچھ سوال کرنے کی اجازت چاہتا ہوں ، جج صاحب نے کہا اجازت ہے اب زاہد انصاری کٹہرے  میں آ گیا اس کی شکل ہی بدمعاشوں والی تھی اپر سے حلیہ بھی ویسا تھا  میںنے  کہا انصاری صاحب  آپ نے کیوں پھنسوایا اس غریب کو اس کیس میں وہ بولا وکیل صاحب  کوئی عقل کی بات کریں ہر ثبوت اس کے خلاف ہے اور آپ مجھ پے الزام لگا رہے ہیں  میں نے کہا چلیں میں اب عقل کی بات کرتا ہوں تو بتا دیں انصاری صاحب آپ نے اس لڑکی کو اغوا کیوں کرایا  اور وہ کہاں ہے اب بیگ صاحب نے کہا  جج صاحب شارق صاحب اپنی اسی تیز طراری  کی وجہ سے مشھور ہے یہ ایک شریف آدمی کو بلا وجہ اس کیس میں گسیٹ رہا ہے ،   

 
میں نے جواب دیا بیگ صاحب یہ شریف آدمی  ہی اس کیس کا سرغنہ  ہے  ابھی آپ کے سامنے آ جاتے گا سب اور میں نے اب کہا میں عاطف کو دوبارہ سے بلانا چاہوں گا جناب وہ آ یا تو میں نے کہا  کتنے پیسے دیے تھے آپ کو انصاری صاحب نے سجاد کے موبائل سے سم نکالنے کے لئے وہ ایک دم سے ڈر کے انصاری کی طرف دیکھنے لگا  میںنے کہا میرے پاس ثبوت ماجود ہیں جلدی بتاؤ وہ بولا جی تیس ہزار مجھے سم کے اور دس ہزار گواہی کے دیے اور دس ہی صابر کو دیے جناب ہم بےقصور ہیں سجاد نے ایک دفع انصاری صاحب کو کسی لڑکی کو تنگ کرنے سے روکا  تھا  ،  

اسی بات کا غصہ تھا انصاری صاحب کو اس پے اب میںنے جج صاحب سے کہا جناب وہ لڑکی وہی نرگس تھی  جب نرگس کو پتا چلا  اس کے لئے سجاد نے انصاری سے منہ ماری کی ہے ، وہ اس لڑکے کو پسند کرنے لگی اور جب اس کا انصاری کو پتا چلا اس نے یہ ساری اسکیم تیار کی اور اس عاطف کا کافی انا جانا تھا سجاد کے گھر میں اس نے ایک دن سم نکال لی  اور اسی سم سے انصاری نے کوئی پانچ  دفع اس لڑکی نرگس کو کالز کی وہ آواز نہیں پہچانتی تھی  سجاد کی  اسے یہی تھا کے اس کا محبوب ہی اسے کال کرتا ہے اور پھر ایک رات  اس انصاری نے اسے باہر بلایا اور اغوا کر لیا ،

یہ ہے ساری سچائی  اب تو بیگ صاحب کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا وہ بولا یار تم واقعی  میں کوئی جن ہی ھو  میں نے کہا نہیں بیگ صاحب  میں جب کوئی کیس لیتا ہوں اسے دیکھ کے سمجھتا ہوں اسمیں کوئی کمی ہے یا نہیں اور میںنے کبھی پولیس کی تفتیش کو حرف آخر نہیں سمجھا میں خود بھی کوشش کرتا ہوں  سچائی کو تلاش کرنے  کی  اب جج صاحب  نے ملزم سجاد کو بری اور زاہد انصاری کو گرفتار کر کے نیا چالان لانے کا حکم دیا پولیس کو علاقے کا تھانہ انچارج  ماجود تھا سو انصاری کو موقع سے ہی گرفتار کر لیا گیا اب جج صاحب نے کہا شارق صاحب وکالت کی دنیا کے ایک چاند ہیں آپ جیسا وکیل نہ ہے اور نہ ہو گا ہم کو آپ پے ناز ہے آپ کی وجہ سے ہم اکثر ایک غلط فیصلے  سے بچ جاتے ہیں اور ہمارا خدا ہم سے راضی ہو جاتا ہے ، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا ،

اب میں عدالت سے باہر آ گیا اور غالب نے کہا ابے بھوتنی کے  کیا کھاتا ہے تو جو ایک سڑیل سے جج سے بھی اپنی تعریف کروا لی یہ جج تو سیدھے منہ بات کرنا ہی اپنی توہین سمجھتا ہے ،
 میںنے کہا یار روز اٹھتے ہی دس جوتے کھاتا ہوں آئی ،جی صاحب سے  کیا تم نے کھانے ہیں وہ بولا یہ تم کو ہی مبارک  ہوں ،
میں نے کہا اگر تعریف کروانی ہے تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑھے گا وہ اب کہنے لگا یار میری تعریف تو خود ہی کر لیا کر مجھے وہ ہی کافی ہے ، اور انصاری کو لے کر چلا گیا  میں اب فاروقی صاحب کے ساتھ اپنے آفس میں آ گیا  کیوں کے اگلے دن والا کیس وارثی کا تھا ،

میں اب اپنے آفس میں بیٹھ کر کل کی تیاری کرنے لگا میںنے کوئی دس کتابیں قانون کی باری باری پڑھ  کے نوٹس  تیار کئے میں جب باہر آیا آفس سے تو  صرف ایک منشی ہی تھا باقی سب جا چکے  تھے میں نے اب ٹائم دیکھا  اور چونک گیا میں پچھلے پانچ گھنٹے سے لگا تار  ساری دنیا    بھولے نوٹس  تیار کر  رہا تھا ،
 اب میں اٹھا اور گھر کی طرف چل دیا  گھر میں داخل ہوا تو  ہر طرف ایک افرا تفری  کا عالم تھا میںنے اب بھابھی تنویر سے کہا یہ کیا ہو رہا ہے وہ بولی آج  ڈیڈی کے بچپن کے دوست نواب سلطان  آ رہے ہیں جرمنی سے اور ان کو لینے جا رہے ہیں سب ائیرپورٹ میں اپنے کمرے میں داخل ہوا اور واش روم میں جا کر نہا کر کپڑے بدلے باہر آیا تو  سب ہی تیار تھے ڈیڈی نے مجھے دیکھتے  ہی کہا  چلو یار جلدی کرو  میں اپنی گاری میں بیٹھا میرے ساتھ ہی لالارخ اور گلشن بھی آ بیٹھیں  لالارخ نے کہا آپ ھمارے ڈرائیور ہیں  ہم آپ کے ساتھ آیا جایا کریں گیں  کیوں کے ہم نے آپ کو ہرایا ہے رات سے  اب اس کی بات سن کے گل  تو شرم سے دوہری ہو گئی اب وہ کیا بتاتی اپنی دوست کو کون ہارا ہے اور کون جیتا ہے  میں نےکہا ٹھیک ہے میڈم ہم آپ کے ڈرائیور ہی سہی  ،

 میرے ساتھ لالارخ بیٹھی تھی  گل پیچھے تھے اب گل نے کہا کوئی گنا ہی لگا دو یار لالارخ  میں نے آج ہی ایک نیا لاتا کا اولڈ گانوں  ایک البم  لیا تھا وہی میں سنتا آ رہا تھا گھر اب  لالارخ نے ڈیک کو  آن کیا تو لاتا کی سریلی آواز میں ایک گنا چلنے لگا  جسے سنتے ہی  گل نے کہا واہ کیا گانا ہے پلیز یہی رہنے دو  اب وہ آگے بڑھ کے اپنے ہاتھ سے ولیم  تیز کرنے آئی اسی وقت میں بھی گیر بدل رہا تھا اس کے مممے میرے ہاتھ سے رگڑ خانے لگی وہ کانپ گئی  اس نے آواز کافی تیز کر دی گنے کی اور اپنی آواز میں بھی وہی سانگ گنگنانے  لگی میںنے آواز کم کی اور  گل کو سننے لگا مجھے لاتا سے زیادہ اس کی آواز میں مزہ آیا

جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
مہمان چلا گیا گھر سے یہ خالی مکان رہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
خوابوں سے تقدیریں ،کب بنتی ہیں
پانی پے تصویریں کب بنتی ہیں
نہ رنگ رہا کوئی باقی نہ کوئی نشان رہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
اس آندھی کا اس طوفان کا زور کسی کو یاد نہیں ہے
آئی تھی ایک روز قیامت اور کسی کو یاد نہیں ہے
بس ایک میرا دل ٹوٹا اوریہ  سارا جہاں رھ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
اپنے زخموں اپنے صدموں سے میں کتنی شرمندہ ہوں
کیا کارن ہے کیا ہے سبب  جو  آج  اب بھی زندہ ہوں
لگتا ہےکے میرا  باقی  کوئی امتحان رہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
مہمان چلا گیا گھر سے یہ خالی مکان رہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا
جند  لے گیا وہ  دل کا  جانی  یہ بُت بےجان راہ گیا

اف کیا آواز تھی اس کی میں تو اس کی آواز میں ہی  کھو گیا تھا مجھے اتنا پتہ ہے میں گاڑی چلا رہا تھا یا اسے سن رہا تھا ا ب جب اس نے سنگنگ  ختم کی تو گل کی آنکھوںمیں آنسو تھے جو اس کی گالوں پے بہہ رہے تھے  اب لالارخ  نے کہا بھائی بند کرو اسے گل رو رہی ہے میںنے اپنی گاری ایک سائیڈ پے روکی اور اسے کہا گل کیا ہوا وہ بولی ویسے ہی شارق مجھے یہ گانا بہت اچھا لگتا ہے میں نے کہا  اب یہ رونا کس خوشی میں وہ اب کی بار ہنس کے بولی یار وہ گانا ہی ایسا تھا نہ ذرا ایموشنل ہو گئی  لالارخ نے کہا لعنت ہے ترے اوپر گل کی بچی  اور  نیچے اتر کے پیچھے اس کے ساتھ جا بیٹھی ، اب میں نے کہا  مجھے یہی گانا ایک دفع دوبارہ سے سناو گل وہ بولی ٹھیک ہے  اور اس نے مجھے یہی گانا دوبارہ سے سنایا اس دفع اس نے اور بھی اچھا سنگ  کیا ،میں  نے کہا اس دفع پہلی بار سے اچھا تھا وہ بولی کیوں کے آپ نے کہا تھا سنگ کرنے کے لئے اس وجہ سے دل سے سنگنگ کی ہے اب کی بار لالارخ نے کہا اوے گلشن بچ  میرے اس  بھائی  کی باتوں میں نہ آ جانا یہ ایسے ہی  میری دوست کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں تعریف کر کے اور گل ہنس دی زور سے ہنستے ہوے اس نے کہا  رخ  

 کسی کی کیا مجال تھی ،ہم کو خرید سکتا رخ
ہم تو خود ہی بک گ
ۓ خریدار دیکھ کر !!!!

اور میری طرف دیکھا  رخ نے گل کا منہ چوم کے کہا   میری جان ہے ہی ایسی  وہ خوش تھی  اس شعر میں اپنا نام سن کر اب ہم سب ائیرپورٹ پوھنچ گ
ۓ

وہاں  پے اب ہم انتیظار کرنے لگے پھر کوئی دس منٹ بعد اندر سے ایک کافی گورا چٹا آدمی باہر آیا جو کے ڈیڈی کا ہی ہم عمر لگتا تھا صحت اچھی تھی جس کے ساتھ ایک پچاس سال کی خاتون تھی اور ایک نوجوان لڑکی جس کا حسن پریوں جیسا تھا ،ان کو دیکھ کر ڈیڈی نے آگے بڑھ کے ان کو گلے لگایا نواب صاحب کو اور کہا یار سلطان تم تو اور بھی جوان ہو گ
ۓ ھو اور وہ ہنس کے بولا  شاہ جی تسی تے رج کے سوہنے ہوئی جاندے او اس  کے منہ سے یوں پنجابی سن کے ہم سب ہی حیران ہوے کیوں کے اکثر گھر میں ان کہ ذکر ہوتا رہتا تھا ہم کو بتایا گیا تھا نواب سلطان تیس سال بعد واپس آ رہے ہیں پاکستان  ان کی بیگم  بھیمقامی  لباس میں تھیں اور بیٹی بھی لیکن یہ لباس کافی مہنگے تھے  اب  نواب صاحب سب سے گلے ملی اور کہا باقی تعارف  گھر جا کر اور سب ہی اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گۓ اب ہم واپس آشیانے میں آ گۓ  اب سب ہی ڈیڈی کے روم میں گۓ اور اب نواب صاحب نے کہا ہاں تو  دوستوں  یہ میری بیگم ہے خالدہ سلطان  اور یہ میری بیٹی ہے  گلنار  میں اسے پیار سے پری  بولتا ہوں اب آتے ہیں آپ کی طرف اب ڈیڈی نے سب کا تعارف کروایا باری باری  وہ اب بولے یار اس کا تعارف دوبارہ سے کرواؤ ھمارے شیر کا اب کی بار ڈیڈی نے مسکرا کے میری طرف اشارہ کیا وہ مجھے پہلے تو سر سے پاؤں تک اوپر نیچے دیکھنے لگے جیسے کسی بکرے کو خریدتے  وقت دیکھتے ہیں اب میری طرف آے اور کہا  وہ یار سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے  میں مسکرا دیا  مجھے گلے سے لگا کے وہ بولے اچھی باڈی ہے آپ کی بیٹا جی  اب کی بار پری اپنی میٹھی آواز میں بولی شارق صاحب آپ سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا  میری ایک دوست اور کزن آپ کی بڑی فین  ہیں ،

میں نے کہا  میں ان کا مشکور ہوں پری جی اور آپ کا بھی  وہ ہنس دی  اب ہم سب نے بیٹھ کر باتیں کرنا شروع کر دیں اب پری سب کے لئے لا
ۓ ھوے گفٹ سب کو دے کر بولی بس شارق صاحب کے لئے کچھ نہیں لائی  میںنے کہا کوئی بات نہیں وہ ہنس کے بولی یہ لیں  اور ایک قلم مجھے دیا  جو بہت قیمتی تھا  اب نواب سلطان بولے یار میرا ایک کزن  ہے اسے بھی آج مل لیں جا کر اب ڈیڈی نے کہا اسے یہاں ہی بلا لو تو وہ بولے یہ بھی ٹھیک ہے اور پھر انہوں نے نواب شرافت خان کو کال  کی نواب شرافت  ھمارے ستی کے چوٹی کے امرا میں شمار ہوتے تھے  پھر کوئی ایک گھنٹے بعد  نواب شرافت کی لینڈ کروزر ھمارے گھر میں داخل ہوئی  وہ اب نیچے اترے ان کے ساتھ دو جوان لڑکیاں تھیں اور ایک میرا دوست شاہد تھا اور ایک اس کی بیگم نواب صاحب کی بیگم کا انتقال ہو چکا تھا  وہ سب ہم سے آ کر ملی ڈیڈی نے ان کا والہانہ استقبال کیا ، شاہد میرے گلے سے لگتے ہی بولا  تھینکس یار میں نے وہ پلانٹ  منگوا لیا ہے وہ ایک دو دیں میں چالو ہو جاتے گا ،اسے ہی میں نے ظفری لوگوں کے روپے دئیے  تھے  اب نواب شرافت نی مجھے دیکھ کر کہا ہیلو برخو دار کیسے ھو آپ بڑا دل کرتا تھا آپ سے ملنے کو ، شاہد آپ کی بہت تعریف کرتا  ہے اب میں نے سب سے شاہد کا تعارف کروایا  اپنے دوست کی حثیت سے  اب کی بار نواب شرافت بولے  اب یہ ہمارا ہونے والا داماد بھی ہے  میں یہ سن کے خوش ہوا  اب وہ  لڑکیاں  بولیں  شوخی سے اب کوئی ہمارا بھی تعارف کروا دے ہم بھی نواب شرافت کی صاحب  زادی ہیں اور ایک بھانجی ہیں سب ہی ہنس دئے اب کی بار پری نے کہا شارق صاحب  یہ عالیہ ہے میری کزن اور نواب صاحب کی بیٹی  اور  یہ میری دوست اور کزن صدف  ہے   ان دونوں  کا ہی ذکر  کیا تھا  اب شاھد بولا شارق یہ عالی میری اکلوتی سالی ہے  ان سے بڑی نوشین سے میری انگیجمنٹ ہو چکی ہے اور نواب شرافت میرے خالو جان ہیں ،  

اب سب نے مل کرمزے سے کھانا کھایا پھر  نواب شرافت نے کہا یار ذرا خبریں سن لیں میرے ایک دوست کا اکلوتا بیٹا مارا گیا ہے اس کی خبر آ رہی ھو گئی وہ وزیر قانون ہیں حق نواز ڈوگر  اب سب ہی ٹی .وی  سے خبریں دیکھنے  لگے  پھر کوئی دس منٹ بعد خبر آ ہی گئی وہ اس میں بتایا گیا تھا حق نواز کے بیٹے شاہ نواز کو کسی نے اغوا کیا اور دو دن تک اس کے جسم کے حصے   کاٹ کے بیجھتا رہا  اور آج اس کی لاش ملی ہے پولیس کو اس کے گھر کے سامنے  ابھی تک پولیس  کوئی مجرم نہیں پکڑ سکی  پھر شاہ نواز کی لاش دکھائی گئی اور پھر حق نواز کو دکھایا گیا ڈوگرہاؤس  میں اب سارے منسٹر جمع ہو گ
ۓ تھے  اب خبر چل رہی تھی آئی .جی صاحب کواور  ساری ٹیم جو یہ انکوائری کر رہی تھی کو معطل کر دیا گیا ہے   اب  داور کمال کا ایک انٹرویو چلنے لگا اس نے کہا تھا جو کوئی میرے بھانجے  کے قاتلوں کی اطلاح دے گا اسے پانچ کروڑ  انعام دیا جاتے گا ،
اب نواب شرافت نے کہا  ایک بات ہے یہ قتل کسی نہ کسی لڑکی کی وجہ سے ہی ہوا ہے اب عالیہ نے کہا ڈیڈی پلیز کوئی اور خبر لگا دیں اچھا ہوا اس زمین سے ایک شیطان  کم ہو گیا  اب سب ہی چونک گ
ۓ  سلطان صاحب نے کہا کیا مطلب بیٹی،اب  عالیہ نے کہا انکل  اس نے میری دو دوستوں کی عزت لوٹی تھی وہ بھی ان کے بھائیوں اور ماں باپ کے سامنے اور بعد میں وہ سب ہی یہ ملک چھوڑ کے چلے گۓ ہیں یہاں سے آج مجھے خوشی ہوئی ہے اب سب ہی چپ تھے اور میرے گھر والی تو سوال ہی نہیں اٹھتا  تھا وہ ذکر بھی کرتے گلشن کا ، اب میری والدہ صاحبہ نے کہا چھوڑو یہ ٹی.وی اور آییں اپنی باتیں کریں آپ بتائیں خالدہ  کیسے اتنا عرصہ اپنی مٹی سے دور رہی ھو اور آج یہاں آنا کیسا لگ رہا ہے وہ خوشی سے  روتے ھوے بولی اس مٹی میں ہر مصیبت اور پریشانی قبول ہے کیوں کے یہ میری مٹی ہے  اب سب ہی  اپنی باتیں کرنے لگے  تھے   ایک دفع سب کی نظر سے بچ کے مجھے گل نے ہوائی کس کیا  میں نے بھی جواب دیا ویسے ہی آج سب ہی آدھی رات تک بیٹھے  رہے  پھر نواب شرافت اور شاہد تو چلے گۓ عالیہ اور صدف کو پری نے نہ جانے دیا اب سب باہر لان میں آ بیٹھے اور باتیں کرنے لگے رات کے تین بجے میں اٹھا اور کہا کل میرے ایک اہم کیس کی ڈیٹ  ہے میں تو چلا سونے اور اپنے کمرے میں آ گیا  

مجھے نیند نہیں آ رہی تھی  میں کروٹیں بدلنے لگا اچانک کوئی میرے کمرے میں داخل ہوا کمرے کی لائٹ بند تھی  وہ سیدھا میرے بیڈ کی طرف آیا اب مجھے گل کی آوازآئی شارق سو گ
ۓ ھو میں نے اسے اندازے سے ہی پکڑنا چاہا اور میرا ہاتھ اس کے بازو کی بجانے اس کی چھاتی پے جا لگا میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا  وہ میرے اوپر ہی گر گئی  اب میں نے اس کا منہ چومنا  شروع کر دیا وہ بولی شارق میرے پاس بس بیس منٹ ہیں میں واش روم کے بہانے آئی  ہوں  میرا دل کر رہا تھا اپنی جان سے ملنے کو اور میری شلوار کو نیچے اتارنے لگی  اب اس نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے سہلانے لگی  میں اب اس کی نپلز کو چوسنے لگا  اس کی کمیض کی پیچھے سے زپ کھولی اور اس کی  کمیض کو اس کے کندھے سے  نیچے کیا اب اس کے مممے اپنے ہاتھ میں پکڑ لئے اور اب کو چوسنے لگا اب گل  نے اپنی شلوار بھی اتاری اور میرے اوپر آ کر بیٹھ گئی  اب اس نے میرا لن اپنی چوت پے رکھا اور نیچے کو زور لگا کے سارا لن اپنی چوت  میں لے لیا اب وہ مزے سے میرے لن کی سواری کرنے لگی اب میں بھی اٹھ کے بیٹھ  گیا  اب اس نے اپنی ٹانگیں  سیدھی کر لیں اور پیچھے کو جھک  کر اپنے ہاتھ میرے پاؤں کی طرف لے گئی  اب وو میری طرف زور لگا رہی تھی اور میں اس کی طرف ایسے  میں مجھے بڑا مزہ آیا اسے بھی خوب مزہ آ رہا تہ وہ ہلکی آواز میں سسکیاں بھر رہی تھی شارق جان آج اس درندے سے جان چھوٹ گئی میری  اففففففف  شارق آج میں بہت خوش ہوں    

سسسسسشش شارق  میری جان  تمہارا لن مجھے بڑا بیچین رکھتا ہے اب کوئی ایسا حل ڈھونڈو شارق میں اسے روز اپنی چوت میں ڈال سکوںیاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م ش  ش ش ا ا ا ا ا ر ر ر ر ق ق  آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف اور اب اس  نے ویسے ہی اپنا سر میرے پاؤں کی طرف رکھا اور اپنے پاؤں اب مرے کاندھے پے رکھ کے  زور زور سے میری طرف  دھکے لگانے لگی اس سٹائل  سے میری تو جیسے جان ہی نکل رہی تھی اس کی چوت  کافی ٹائٹ ہو گئی تھی اب  اور میرا لن رگڑ رگڑ کے اندر جا رہا تھا  اب میں نے اس کی کمر پکڑ لی اور زور زور سے دھکے  مارنے لگا وہ کراہ اٹھی اوی شارق میں مر گئی میرے یار کیسا لن پایا تم نےآہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف فاور زور سے میرے سوہنے آئی  اف ف ف  ف ہائے ہائے  ابمیں نے زور زور سے دھکے مارنے شروع کر دئے  اب اس کی کمر کو کس کے پکڑ لیا میںنے سسسسہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق مر گئی  اوہ میری مان میں مر گئی  ہائے ہائے یاہ یا ہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف  اتنا  مزہ یار کیا کر دیا مجھے  اب میں  نے آگے کی طرف جھک کے اس کے  مممے کی ایک نپل اپنے  منہ میں ڈال لی اس طرح  سے اس کی کمر میں بل پڑھ گیا کیوں کے اس کی ٹانگیں میرے کاندھوں پے تھیں وہ اب  تو درد سے چیخ اٹھی  ہائے ہائے یاہ یا ہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف مر گئی شارق مجھے کسی دن تم نے یوں ہی مار ڈالنا ہے ظالم  میںنے اب زور سے دھکے مارے وہ اب چیخنے  لگی تھی سسسسہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف فیاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یا ہائے ہائے ہائے ف ف م سسسسسشسحش شارق اف ف ف ف آرام سے کرو یار  مجھے اب نیچے کرنے دو اپنی ٹانگیں میں  نے اسے کہا صبر کرو میری رانی  اور زور زور سے دھکے مارے وہ بولی شارق میں آنے والی ہوںسسسسہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف فیاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یا ہائے ہائے ہائے ف ف م سسسسسشسحش شارق اف ف ف ف میں نے کہا میں بھی آنے ہی والا ہوں پھر میں نے اسے یوں  ہی کوئی پانچ منٹ اور چودہ اور اپنا پانی چھوڑ دیا اس کی چوت میں وہ مجھ سے پہلے ہی جھڑ گئی تھی

اب وہ بولی جانو اب تو نیچے کر دو میری ٹانگیں ظالم  مینن ے اس کی ٹانگیں نیچے کیںوہ  اٹھی اور ایک دفع لڑکھڑا گئی پھر سنبھل گئی مجھے دیکھا اور کہا بڑا مزہ آتا ہے تم کو اپنی گل کو یوں بے رحمی سے چود کے کبھی پیار سے بھی چودہ کرو میرے راجا میں  نے کہا پیار سےہی چودتا ہوں میری رانی  وہ بولی شارق اس میرا دل کرتا ہے اس لن کو ہر وقت اپنی چوت میں رکھا کروں  میں کل گھر جا رہی ہوں میں تم کو بلاؤں جب اسی وقت آ جانا یار  میں بہت مس کروں گئی اس ظالم لن کو میں نے کہا ٹھیک ہے جانو وہ اب باہر چلی گئی ، میں نے اٹھ کے اپنے آپ کو واش روم میں جا کر صاف کیا اور آ کر لیٹ گیا  کچھ ہی دیر میںنیند کی دیوی مجھ پے مہربان ہو گئی  میں خواب خرگوش  کے مزے لے رہا تھا ،

اگلے دن میں اٹھا اور جلدی سے تیار  ہو کر کورٹ میں چل دیا وہاں بار روم میں  ریحانہ میرا انتیظار کر رہی تھی  وہ مجھے دیکھتے ہی بولی  آپ آ گ
ۓ میںنے کہا جی اور پھر نصرت بھائی اور فاروقی صاحب بھی آ گۓ ، میں ان کے ساتھ متعلقہ عدالت میں چل دیا  وہاں پے عاشق  گنجانہ  بھی مجود تھا اور آج وہ کافی خوش نظر آیا مجھے  پھر جج صاحب آ گۓ  اور میرا کیس پہلا ہی تھا  آواز لگی اور پولیس نے وارثی کو پیش کیا  جج صاحب کی اجازت سے کاروائی کا آغاز  ہوا میں نے کہا جناب  آپ کے سامنے ساری شہادتیں  آ گئیں ہیں اوراب میں یہی کہوں گا ملزم وارثی نے  بیدردی سے جمیل کو قتل کیا   اب عاشق  صاحب نے  کہا جناب ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا  وہ جگہ میرے مؤکل کی نہیں ہے پولیس نے نے اسے گھر سات سوتے ھوے گرفتار کیا اور ذاتی عناد کی وجوہات پے اسے اس کیس میں  شامل کیا جج صاحب  نے کہا کس نے ایسا کیا بیرسٹر  صاحب  وہ بولا وہاں کے تھانہ انچارج نے جناب  اب میں نے کہا نہیں جناب ابھی تک بیرسٹر  صاحب کو بھی سہی بات نہیں بتائی گئی ،

اصل میں جو چابی اس بندے نے جمیل کو دی تھی وہ ایک لاکر کی تھی  جس میں ایک بہت بڑی شخصیت  کے خلاف ثبوت  ہیں جناب  اور وہ ثبوت ایک خفیہ ایجنسی کے ہاتھ لگ گ
ۓ ہیں  میں نے ایسے ہی یہ ہوا میں تیر چھوڑا تھا اور وہ نشانے پے جا کے لگا ، وارثی کا رنگ اڑ گیا جسے جج صاحب نے بھی محسوس کر لیا تھا میں نے کہا جناب اس بڑی شخصیت کا ایک چھوٹا سا پر پرزہ ہے یہ وارثی  اب اس سے خفیہ والے  سب کچھ خود ہی معلوم کر لیں گۓ وہاں  ان کوئی وکیل ہو گا اور نہ ہی کوئی دوست  اب جج صاحب بھی سمجھ گۓ کے میں ہوا میں تیر چلا رہا ہوں وہ بھی بولے  کیا اس شخصیت کا نام عدالت جان سکتی ہے میں نے کہا جناب وہ ایک وفاقی منسٹر کا سالہ ہے اور خود بھی ایک بہت بڑی توپ سمجھا جاتا ہے کار سرکار میں اب تو وارثی  کا برا حال تھا میںنے  کہا کیوں وارثی صاحب  وہ جگہ آپ کے نام نہیں ہے کیا  جہاں سے جمیل کے خون  والی مٹی ملی میں ثبوت دے سکتا ہوں ، وارثی  آغا  قاسم کا نام سنا ہے کبھی اب  تو جیسے اس کی جان ہی نکل گئی وہ بولا جج صاحب میں اپنا جرم قبول کرتا ہوں ، لیکن میںنے کوئی غداری نہیں کی ہے ،   

یہ سنتے ہی بیرسٹر عاشق گنجانہ نے اپنے ماتھے پے ہاتھ مارا اور اسے دیکھ کر کہا تم بیوقوف کیوں اقرار کیا کچھ نہیں ہوتا تم کو  میں نے کہا اب  گنجانہ صاحب آپ پتہ نہیں کس ہوا میں اڑ رہے ہیں  میرے پاس ایسے ایسے ثبوت ہیں  یہ ایک ہی نہی کوئی پانچ پانچ انسانوں کا قاتل ہے یہ سمجھ گیا ہے میری بات  اب گنجانہ نے کہا تم نے اسے ڈرا کے اقبال  جرم کروایا ہے  میں نہیں مانتا اس کو اب کی بار جج صاحب نے کہا آپ نہ مانیں بیرسٹر صاحب  میں تو مانتا ہوں  نہ فیصلہ میں نے دینا ہے اور میں آج ہی اور ابھی ملزم وارث گجر عرف وارثی کو سزاے  موت کا حکم سناتا ہوں ، اب عاشق گنجانہ نے  بارے طنزیہ لہجے میں کہا جج صاحب یہ اپ سے آوپر  والی عدالت سے با عزت بری ہو جاتے گا ،
میں نے کہا بیرسٹر صاحب اگر آپ اسے سپریم کورٹ سے بھی بری کرا کے دیکھا  دیں میں وکالت ہی چھوڑ دوں گا آپ جیسے بڑے دیکھے   ہیں میںنے  وہ اب مجھے  گھورتا ہوا باہر نکل گیا جج صاحب نے کہا آپ ایک شاندار اور زہین ترین وکیل ہیں مجھے خوشی ہے آپ اس بار کو میسر ہیں  اور یہاں کے صدر بن رہے ہیں میں نے کہا تھینکس جناب  اور باہر آ گیا  عدالت سے ہر طرف ایک دھوم تھی بیرسٹر عاشق گنجانہ کے ہارنے کی  مجھے رضوان بٹ نے گلے سے لگا کے کہا ھمارے صدر جیسا کوئی ہے ہی نہیں اب اس نے فورن  ہی میڈیا والوں کو بلا کے  ساری سٹوری بتا دی  اور ساتھ میں کوئی بیس عدد دوسرے وکلاء  سے بھی میرے بارے میں بڑے لمبے  چوڑے    بیانات دلوا دئیے اور تو اور آج والی جج اور ساتھ میں تین اور جج صاحبان کے بھی بیانات  تھے  وہ بولا کل کے اخباروں میں دھوم مچی ھو گئی ہماری بار کے صدر کی ،

میں اب بار سے فارغ ہو کر گھر آیا تو مجھے  اندر داخل ہوتے ہی سب نے مبارک دی  نواب سلطان  نے کہا بیٹا ہم کو بتایا ہے نصرت نے آج کمال کا کیس جیتا ہے آپ نے میں نے کہا انکل  سچائی کی ہمیشہ ہی جیت ہوتی ہے ، مجھے جب سب میں گلشن نظر نہ آئی  تو میں سمجھ گیا وہ اپنے گھر چلی گی ہے ،میں  نے بھابھی تنویر سے پوچھا یہ لالارخ آج بڑی چپ چپ  ہے وہ بولی اس کی دوست گل آج اپنے گھر چلی گئی ہے اب پری  نے کہا ہم تو کہ رہے ہیں اسے ہم سے دوستی  کر لو  اب اہلیہ نے کہا لالارخ ہم اتنی بھی بری نہیں ہیں ، تو لالارخ نے کہا نہیں یار آپ سب ہی اچھی ھو  چلو ٹھیک ہے آج سے پکی دوستی   میں نے کہا کیا بات ہے نئی نئی دوستیاں ہو رہی ہیں ،
لالارخ نے اب ان تینوں سے کہا میری ایک بات یاد رکھنا میری دوست بننا  ہے تو بھائی شارق کا کبھی ساتھ نہیں دینا یہ سن کے سب ہی ہنس دیں  اب صدف کافی تیز تھی وہ بولی ہائے ظالم کیا کہہ رہی ھو جس راجکمار کو میں اپنے سپنوں میں دیکھتی رہتی ہوں اسی کے خلاف نا بابا نا ہم سے نہیں ھو گی یہ دل سے بغاوت اس نے کہا اور سب ہی ہنس دیں اب پری نے کہا  تو شارق آپ کے سپنوں کا راجہ  ہے  اب عالیہ نے کہا یار پری یہ لڑکی نا بڑی تیز ہے سامنے بیٹھ کے لائن مار رہی ہے وکیل صاحب کو   

وہ کافی آھستہ بول رہی تھیں لیکن میرے کانوں میں ساری آواز آ رہی تھی کیوں کے میں ان کے پاس ہی بیٹھا تھا اب میں نے کہا کوئی بات نہیں یہ وکیل لائن پروف ہے اب میری بات سن کے سب ہی ہنس دیں اب عالیہ  آؤ یار ادھر لان میں بیٹھتی ہیں جا کر اب وہ سب اٹھ کھڑی ہویئں .اب بھی صدف نے ہی کہا شارق صاحب آپ بھی آ جین کیا ہر وقت بھوڑوں کے ساتھ ہی بیٹھے رهتے ہیں تو نواب سلطان نے ہنس کے کہا ہاں یار جاؤ تم نوجوان  علیحدہ سے بیٹھ جاؤ کوئی بات نہیں اب ہم لان میں آ گ
ۓ  وہاں بیٹھ کے صدف نے کہا شارق صاحب کیوں نا آج آپ کا انٹرویو  لیا جائے ،
میں نے کہا وہ کیوں محترمہ وہ بولی ہم کو بھی پتہ ہونا چاہے نا ھمارے سپنوں کا راجکمار کس کس کے سپنے میں انٹری  مار چکا ہے  میں نے کہا جی نہیں  ہم کہیں نہیں جاتے  وہ شوخی سے بولی ہاں جی لوگ خود ہی آ جاتے ہیں ہماری طرح   میں اب پھنس گیا تھا وہ بڑی آفت کی پرکالہ  تھی  میں اب جھینپ رہا تھا لالارخ کی وجہ سے  اب لالارخ نے کہا صدف آپ سے میں دوستی نہیں کروں گئی آپ صرف بھائی جان  سے ہی بات کے جا رہی ھو تو میں نے ہنس کے کہا اس لڑاکو بلی سے بات کر لو آپ وہ اب غصے سے بولی  آپ ہیں ہی باگڑ بلے  میں جا  رہی ہوں اور اٹھ کے غصے سے اندر چلی گئی  اب پری نے کہا یار وہ ناراض ہو گی ہے عالیہ نے کہا وہ ابھی راضی ہو جاتے گئی ،

آج ذرا صدف کے بھی گیٹس دیکھ لیں  میں نے اب کہا لڑکیوں  ابھی بھی وقت ہے  مت چھیڑو ہم کو  اب صدف نے کہا شارق آپ بتائیں اب تک کتنی لڑکیوں سے دوستی کی ہے آپ نے  ، میں نے کہا  لو جی ہم کیوں بتائیں آپ کو  وہ بولی  چلو یہ بتا  دو میں آپ کو کیسی لگتی ہوں  میں نےکہا ایک دم بورنگ وہ اچھل پڑی میری بات سن کے  عالیہ اور پری کا مارے  ہنسی کے برا حال تھا  صدف نے کہا آپ کی نظر بلکل ٹھیک ہے نا شارق صاحب میں نے کہا جی ہاں دور کی بھی ٹھیک ہے اور قریب کی تو کافی ٹھیک ہے  اس لئے ہی تو کہا ہے آپ قریب بیٹھی ہیں نا کے مجھے تو آپ ایک عام سی  لڑکی لگتی ہیں ،  اب وہ غصے سے لال  ہو گئی اور ان دونوں کی طرف دیکھا اور کہا ہنس لو تم دونوں پری  میں تم کو اور اس عالی کی بچی کو مار ڈالوں گئی  پری نے کہا ہمارا کیا قصور ہے یار اب وکیل صاحب  تمہارے گیٹس کو  مان ہی  نہیں رہے ،

صدف نے جل کے کہا ان سے میں منوا کے چھوڑوں گی  اب میں نے ہنس کے کہا  چلو کوئی اور سوال ہے وہ بولی نہیں ہے  پھر ایک دم سے ہنس دی اور شوخی سے مجھے دیکھتے ہوے کہا  شارق سچی بتانا  تمہاری نظر کس پے ہے عالیہ پے یا اس پری  پے  اب تو وہ دونوں ہی بلش  ہو گئیں پری تو شرم کے مارے منہ نیچے کر کے بیٹھ گئی  اب عالیہ نے کہا لعنت ہے ترے آوپر صدف  اب ہماری جان کے پیچھے  پڑ گی ہے  صدف بھی ایک اپنی ذات کی ایک ہی تھی دوبارہ سے بولی شارق مجھ سے دوستی کر لو سچی ان دونوں سے میں کرا دوں گئی آپ کی دوستی اب پری نے کہا شارق پہلے ہی ہمارا دوست ہے  شیطان کی خالہ اب صدف ہنس کے بولی تو پھر آؤ اپنے دوست سے ہاتھ ملاؤ  اب پری نے کہا ہماری مرضی ملائیں یا نا ملائیں آپ کو کیا تکلیف ہے صدف تم ایک نمبر کی کمینی ھو ، صدف نے ہنس کے کہا آداب آداب ذرا نوازی ہے آپ کی پریوں کی رانی  اب پری نے بےبسی سے  اپنے ہونٹ  بند کر لئے  عالیہ نے کہا یار کیوں خود کو جلا رہی ہے اس ڈھیٹ مٹی سے بنی لڑکی پے کہاں اثر ہو گا ،

اب میں نے کہا لگتا ہے صدف سے آپ دونوں ہی ڈرتی ہیں اب پری نے ہنس کے کہا  ہاں اس کی شیطانی کھوپڑی سے ڈر ہی لگتا ہے یہ کمبخت  ایسے ایسے سوال و جواب کرتی ہے ہم کو ڈرنا ہی پڑتا ہے  اب صدف نے کہا ان سوالات کا بھی بتاؤ نا  جو میں کرتی ہوں تو پری تو جیسے مرنے والی ہو گئی وہ بولی پلیز  صدف میں ہاتھ جوڑتی ہوں  تم  میری جان چھوڑو  اب عالیہ نے کہا میری بھی  اب صدف میری طرف آئی اور کہا جی جناب آپ کیا کہتے ہیں  میں نے کہا آپ کافی تیز لڑکی ہو  اس نے جواب دیا جی ہاں ہوں میں کبھی بھی  لڑکوں سے پیچھے نہیں رہتی  میں نے کہا چلو جی مان لیتے ہیں  اب میں نے کہا اب میں چلتا ہوں مجھے نیند آ رہی ہے  اور اٹھ کھڑا ہوا ، اب صدف بھی اٹھی اور کہا بتا کے جاؤ میں کیسی ہوں میں نے کہا صرف اور صرف بورنگ  وہ اب اپنے دانت پیسنے لگی  اور کہا چلیں  آپ کو اپ کے کمرے تک چھوڑ آؤں میں مجھے واش روم بھی جانا ہے  اب وہ میرے ساتھ اندر آ گئی میں اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا وہ بولی  میرا انتیظار کرنا شارق میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں  آج آپ سے اپنا آپ منوا کے ہی چھوڑنا ہے ،

part 18
 
  میں اپنے کمرے میں جا کر کپڑے بدلے اور لیٹ گیا  مجھے یہ تینوں ہی لڑکیاں اچھی لگیں تھیں پری ان سب میں خوبصورت تھی  ہر لحاظ سے لیکن وہ جرمنی میں رہ کر بھی  اپنے رسم و روایات نہیں بھولی تھی  اور ذرا شرمیلی سی تھی  عالیہ بھی کافی  کمال کی تھی لیکن صدف تو ایک دم سے تیز تھی  میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا  مجھے ابھی نیند نہیں آئی  تھی کوئی دو گھنٹے بعد میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور صدف اندر داخل ہوئی  اس نے میری طرف دیکھا اور کہا میں اندر آ جاؤں سر  میں نے ہنس کے کہا تم اندر آ چکی ھو  نادان لڑکی وہ بولی آوہ سوری  اب آ ہی گئی ہوں تو پھر کیسی اجازت  اور چلتی ہوئی میرےبیڈ  کے پاس  آ کر کھڑی ہو گئی اپنی کمر پے دونوں ہاتھ رکھ کر  میں  نے کہا جی جناب  کیا بات ہے وہ بولی آپ نے میری انسلٹ کی ہے میری دوستوں کے سامنے  کیا میں بورنگ لڑکی ہوں آپ کو اتنا یاد کرتی تھی بنا ملے  اور آپ نے میرا یہ حال کیا   میں نے اب کہا مجھے کیا پتہ یاد کرتی ھو یا نہیں وہ غصے سے بولی آپ کو کسی بات کا پتہ بھی ہے یا نہیں میں نے اب کی بار کہا ایک بات کا پتہ ہے وہ بولی  چلیں وہ ہی بتا دیں کس بات کا پتہ ہے آپ کو ،
  اب میں نے کہا تم ہو بڑی نمکین  وہ بولی یہ کس نے کہا میں نے کہا آپ کے ان لرزتے ہونٹوں  نے اور اسے پکڑ کے اپنی طرف کھینچا  وہ پکے ہوے پھل کی طرح میرے آوپر آ گری  میں نے اب کہا  ہاں تو بتاؤ  کیسے منواؤں گئی مجھ سے اپنا آپ وہ اب بولی بتاتی ہوں ایک منٹ کے لئے چھوڑیں مجھے  میں نے چھوڑ دیا وہ اٹھی دروازے کی طرف گئی اندر سے بند کر کے کہا آج آپ سے ایسا منواؤں گئی آپ یاد کرو گ
ۓ،
 
  اب اس نے جلدی سے اپنی کمیض اتاری اور ساتھ میں برا بھی  اب اس کا چمکتا بدن میرے سامنے تھا اس کے  چھتیس  سائز کے مممے  اب برا  مست کر رہے تھے مجھے  اب اس نے اپنی شلوار بھی اتاری   اور میری طرف ننگی ہو کے آئی اب اس نے کہا ہاں اب بتاؤں کیا کمی ہے مجھ میں  میں نے کہا ایسے تو واقعی کوئی کمی نہیں ہے  اور اب اس نے اپنا دوپٹہ لیا اور میری طرف آئی اب اس نے کہا  میں آپ کو آج منوا کے ہی جاؤں گئی مجھ میں کوئی بھی کمی نہیں ہے  اب وہ بولی اپنے ہاتھ سامنے کریں  میں نے کے وہ بولی میں آپ کے ہاتھ باندھنا  چاہتی ہوں   اور میرے ہاتھوں کو اپنی طرف سے کس کے دوپٹے سے باندھا  اور پھر میرے ہاتھ آوپر کر کے بیڈ سے باندھ  دئیے اب میرے ہاتھ میرے سر سے آوپر تھے ،
  اب اس نے  ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا  میں نے کہا کیا ڈھونڈ رہی ھو وہ بولی آپ کے پاس کوئی لمبا سا کپڑا ہے  میں نے کہا ادھر دیکھو  الماری میں وہ گئی اور میرے بوسکی  کا سوٹ لے کر آ گئی اب اس نے کامیض سے نمیری آنکھوں پے پٹی باندھی  اور کہا اب شلوار سے میں نے اپنی آنکھوں پے پٹی باندھ لی ہے آج آپ کو میں اپنے سٹائل سے پیار کروں گئی  اب اس نے میری شرٹ کے بٹن کھولے   اور اتار  دو پھر میری شلوار بھی اتارنے کے بعد اس نے میرا انڈر ویر بھی اتار دیا ، اب میرے لن کو  سہلانے لگی  پھر بولی آہا کیا لن ہے شاندار پھر اس نے اندازے سے میرا لن اپنے من میں ڈالنا چاہا  جو ایک دفع تو اس کی گالوں کو لگا  پھر اس نے پکڑ کے منہ میں لیا اور اسے مزے سے چوسنے لگی  وہ  ساتھ  ساتھ اپنے ایک ہاتھ سے میرے ٹٹوں کو بھی سہلا رہی تھی اور بیتابی سے لن چوس رہی تھی  پھر دو منٹ بعد اس نے اپنی زبان میری رانوں پے پھیرنی شروع کی اور نیچے جانے لگی    
 
  چومتے  چومتے وہ میرے پاؤں پے آ گئی اب اس نے میرے ایک پاؤں کو اپنی گود میں رکھا اور دوسرا اپنے منہ میں لے کر چاٹنے لگی اس نے میرا پاؤں بڑے پیار سے چاٹا پھر میری ایک انگلی کو اپنے منہ میں لیا اور چوسنے  لگی  کچھ دیر اسے چوسا پھر دوسری کو چوسنے لگی اس  کی زبان  سے میرے پاؤں میں خارش سی ہو رہی تھی اور مجھے ایک عجیب سا مزہ آنے لگا اب اس نے میرے پاؤں کے نیچے تلے میں  اپنی زبان سے چاٹنے لگی اس نے میرا پاؤں نیچے سے اوپر تک چاٹا پھر میرا دوسرا پاؤں پکڑ  کے یوں ہی چاٹا  مجھے بہت مزہ آ رہا تھا اب وہ دوبارہ سے  میرے آوپر آنے لگی ٹانگوں پے زبان پھیرتی وہ لن تک ای اب کی بار اسے ہاتھ  لگا
ۓ  بغیر ہی لن کی سائیڈ پے اپنے زبان پھیری میری تو جیسے جان ہی نکل گئی  جب اس نے ٹٹوں کو چوسنا شروع کیا اور بعد میں لن کے نیچے والے حصے  پے زبان پھیری  پھر وہ میرے پیٹ کی طرف آئی 
 
  میرے پیٹ کو اس نے اب چاٹنا شروع کیا میری ناف کے ارد گرد زبان پھیرتے ہوے ناف میں ڈالتی  اور پھر اس نے میرے سینے کی طرف اپنی زبان سے سفر کرنا شروع کیا اب وہ میرے سینے پے زبان پھیرنے  لگی  پھر میری چھاتی کی نپلز کو اس  نے ہلکے ہلکے سے ہونٹوں سے دبا کے کھینچنا  شروع کیا اور کبھی زبان سے چاٹنے لگتی  مجھے وہ مزہ مل رہا تھا میں بتا نہیں سکتا  میرا لن تو جیسے پھٹنے والا ہو رہا تھا اب اس نے میری گردن پے کس کرنی شروع کی اور پھر میرے کانوں  کو چاٹنے لگی اس نے میرے کانوں میں اپنی زبان ڈالی  اور میں لذت سے تڑپ اٹھا  اب اس نے میرے کانوں سے زبان ہٹا کے  میری گردن تک آئی اور دھیرے سے کہا شارق آپ کے ہونٹوں کو کس نہیں کروں گئی کیوں کے میں آپ سے ناراض ہوں  آپ نے میرا دل توڑا ہے  ، 
 
 
  اب اس نے دوبارہ سے میرے سینے اور پیٹ پے اپنی زبان سے مساج کیا  اور میرے لن کی طرف آ گئی اب اس نے میرے لن کو  اپنے ہاتھ م،این پکڑا اور اس کے چاروں طرف زبان پھیرنے لگی  پھر کوئی چار منٹ یوں ہی کیا  اب وہ میرے  لن کے آوپر بیٹھ گئی  اور کہا نا آپ کو اپنے جسم کو چھونے دینا ہے اور نا ہی کس کرنے دینا ہے آپ نے  میری انسلٹ کی میرے سپنوں کے راجہ  اور میرا لن اپنی چوت پے سیٹ کیا اور ایک ہلکا سے دہکا لگا کے بولی آپ آرام سے لیتے رہو خبردار شارق اگر  آپ نے کوئی بھی دہکا لگایا تو
  میں ہنسنے لگا اب اس نے میرا لن بڑے  ہی آرام  سے اپنی چوت میں لیا تھوڑا تھوڑا کر کے  اب جب سارا لے لیا تو ایک لمبا سانس لے کر بولی افففففف اتنا لمبا ہے یہ کب سے اندر کر رہی ہوں اب جا کے ہوا ہے اور لگتا ہے میرے پیٹ میں ہی گس گیا ہے ہائے شارق  سسس س س  س یار کمال کا لن ہے اور میرے سینے پے ہاتھ رکھ کے آوپر نیچے ہونے لگا  وہ اتنا سکوں اور آرام سے اندر باہر کر رہی تھی  اور اس نے اپنی چوت کو  فل تنگ کیا ہوا تھا  وہ بولی اب تک میں  نے  دو دفع لن لیا  ہے لیکن وہ آپ کے لن سے دونوں ہی کہیں چوٹھے تھے ، 
 
  اور اس کے اس طرح دھیرے دھیرے اندر لینے سے اور اپنی چوت کو تنگ کرنے سے  مجھے برا مزہ آ رہا تھا وہ جب لن کو اندر لیتی چوت کو کس لیتی اور جب لن  کو باہر نکلتی تو چوت کی رگڑ سے لن پے عجیب سی  تڑپ اٹھتی  وہ اب ساتھ ساتھ مزے سے ہلکی آواز میں سسکاریاں بھی لے رہی تھی  اس نے کہا شارق  یار آپ کمال کے ھو آپ کا لن مجھے برا مزہ دے رہا ہے اب کوئی تین منٹ ہی گزرے ہوں گ
ۓکے  اس کی چوت میرے لن کے ہلکے دھکے  بھی برداشت نا کر سکی اور لذت سے  بچیں ہو کر اس نے پانی چھوڑ دیا وہ ایک لمبی سانس لے کر بولی اف ف ف ف ف ف شارق اوئی مان  کیا مزہ ہے  اب کی بار وہ ایک منٹ تک رکی رہی پھر اس نے جب دیکھا اس کی چوت کا سارا پانی نکل گیا ہے اس نے دوبارہ سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا  اب وہ ذرا تیزی سے اندر باہر کر رہی تھی  اور اب وہ میرے اوپر جھک آئی اور کہا شارق کس کرو گۓمیں نے کہا نہیں  وہ غصے سے بولی ابھی بتاتی  ہوں اور اب اس نے میرے لن کے آوپر گھومنا شروع کر دیا  وہ اپنی گاند کو چاروں طرف گھما رہا تھی  اب میں نے بھی اپنے لن کو فل سخت کر لیا ایسے کرنے سے مجھے تھوڑا درد بھی ہوتا تھا لیکن مزہ تو  کمال کا تھا اور اس کا تو حال ہی برا تھا سانسیں وہ ایسے لے  رہی تھی جیسے پتہ نہیں کتنا تھک چکی ھو اور اب ساتھ میں زور زور سے چیخ بھی لیتی تھی ،
 
  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق بتاؤ کس کرو گ
ۓ  میں نے کوئی جواب نا دیا وہ اب اور زور زور سے اندر باہر کرنے لگی  اور اپنی گاند کو ہلانے لگی اسے تو بے پناہ درد ہو رہا تھا لیکن  لگتا تھا وو ان عورتوں میں سے ہے جو سیکس  کرتے ہوے خود کو تکلیف میں دیکھ کر مزہ لیتی ہیں  اب کی بار تو وہ چلانے لگی تھی ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی  شارق بتاؤ کس کرو گۓ  میرے چپ رہنے پے وہ تڑپ گئی اور اب اس نے لن پے بیٹھے بیٹھے ہی اپنی سائیڈ  چنیج کی اب اس نے میرے طرف اپنی پیٹھ  کر لی اور میرے گھٹنوں  کو مضبوطی سے پکڑ کے  اپنی گاند آوپر اٹھا اٹھا کر اندر باہر لینے لگی میرے لن کو  اب اس نے اپنی چوت کو اتنا زور سے کس ہوا تھا کے مرے لن کو اندر باہر ہوتے ہوے کچھ جلن سی ہوتی تھی  وہ بےرحمی سے   اپنی چوت میں میرا لن لے رہی تھی  اب صدف نے کہا بتاؤ شارق کس کرو گۓیا نہیں میں نے اب مزے کی شدت سے تڑپ کے کہا نہیں کروں گا نہیں کروں گا  اور وہ پاگلوں کی طرح چیخ چیخ کے لن کے آوپر نیچے  ہونے لگی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف ی اہ یاہ یاہ یاہ یا ہائے ہائے ہائے شارق  کس می  اور میرے طرف سے خاموشی  کو دیکھ کر اور مچلنے لگی  اب اس نے اپنے ہاتھ  اپنے گھٹنوں پے رکھے  اور سیدھی ہو کے بیٹھ گئی اب وہ  اپنے آپ کو میرے جس سے نہیں لگنے دے رہی تھی اور صرف اس کی گاند ہی ہلکی سی ٹچ ہوتی میرے پیٹ کو جب وہ لن پے بیٹھی نیھے کی طرف آتی  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق کس می میں نے کہا نیور وہ مزے سے چیخ اٹھی   یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق اور اس نے  اس بار اتنی زور سے آوپر نیچے ہونا شروع کیا کے میری اپنی مزے سے جان نکلنے لگی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف  شا ر ر ر ر ر  ر ق ق ق ق ق ق ق ق کی س س س س س س س  کرو مجھے یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ظالم میں مر گئی    
 
  میں نے اب محسوس کیا  اب اس کی آواز بھاری ہو رہی ہے  میں نے ایک ہی جھٹکے سے اپنے ہاتھ  باہر نکالے اور اپنی آنکھوں سے پٹی  کھول دی   اب  بھی وہ میری طرف  پیٹھ کئے بیدردی سے اپنی چوت میرے لن  کے آوپر نیچے کر رہی  تھی   آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میرے جانو کس می  اب تو اس کی آواز صاف بھرائی  لگ رہی تھی میں نے اب کی بار اس کے کندھے پے ہاتھ رکھا وہ تڑپ کے مڑی اس کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو به رہے تھے میں نے اب اس اپنی بانہوں میں لیا پیچھے سے ہی وہ تڑپ کے بولی چھوڑو مجے  کیوں ہاتھ لگا رہے ھو میرے جسم کو چھوڑو  میں ایک عام سی لڑکی ہوں چھوڑو مجھے میں بورنگ ہوں  وہ اب روتے ہوے چیخ رہی تھی میں نے بڑی  مشکل سے اسے قابو کیا  اب وہ میرے نیچے تھی  اور میں اس کے آوپر تھا میں نے اب  اپنا لن اس کی چوت میں سے نکالا وہ بولی اسے اندر کرو شارق  میں نے اب دوبارہ سے آرام سے اندر کیا اور اسکےاوپر لیٹ کر اس کے ہونٹ چوسنے لگا وہ اب بھی رو رہی تھی ،  
 
  میں نے کہا جب تم کو اتنا درد ہو رہا تھا کیوں اتنی زور سے کر رہی تھی وہ بولی مجھے رونا درد سے نہیں تمہاری وجہ سے آیا ہے تم نہیں سمجھ سکتے یہ ایک عورت کی نسوانگی  کی توہین ہے  میں نے آپ کو کوئی دس دفع کہا کس کرو آپ نے نہیں کی میں اس قبل نہیں ہوں نا اس لئے ایسا کہہ رہے ہیں آپ  میں نے اب اس کے آنسو صاف کئے اور کہا پاگل خود ہی  کہا تھا مجھے کس نا کرنا وہ اب غصے سے بولی ایک دفع نا کہا تھا اب دس دفع ہاں میں کہا ہے ایک دفع کا کہا مان لیا  اور دس دفع کا نہیں مانا آئی کل یو شارق بڑے وکیل بنے پھرتے  ھو  بات مت کرو مجھ سے  مجھے وہ ایسے  غصے میں بڑی پیاری لگی اور سچ تو یہ ہے جتنا مزہ آج اس نے دیا تھا  وہ کوئی نہیں دے سکا تھا ،
 
 
  اور ابھی تک دے رہی تھی وہ مجھ سے روٹھی تھی لیکن زبان کی حد تہ ابھی بھی  میرا لانس کی چوت میں ہی تھا جو میں دھکے سینڈر باہر کر رہا تھا اور وہ نیچے سے اپنی گانڈ  اٹھا کر ساتھ دے رہی تھی  وہ اب کی بار بولی آئی لو یور پین فل کاک  بٹ  آئی ہیٹ یو شارق  میںنے اس کے ہونٹ چومتے ہوے کہا بٹ آئی لو یو میری کھٹکھانی بلی  وہ اب مجھے  گھور رہی تھی ، میں کہہ رہی ہوں نا مجھ سے بات مت کرو  تو مت کرو  اور مجھے اپنی بانہوں میں زور سے کس لیا اب اس نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ  لیں اور کہا زور سے دھکے لگاؤ  اب میں نے زور زور سے دھکے مارنے لگا یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق اور زور سے اور زور سے  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف ی اہ شارق  ہائے ہائے ہائے میری جان نکل رہی ہے اب اس نے اپنے ناخن  میری کمر میں چبو دئیے  اور ساتھ ہی وہ زور سے اچھلی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ میں گئی  اور ساتھہ ہی فارغ ہو گئی اور مجھے کس کر کے بولی روکنا مت ایسے ہی چودو  جب تک تم نہیں فارغ ہوتے  اور میں نے اب زور زور سے لمبے لمبے دھکے مارنے لگا  اب کی بار تو میرے ہر دھکے سے وہ سانس روک لیتی  اور جیسے ہی میرا لن باہر اتا وہ لمبا سانس لیتی اور اندر جاتے ہی دوبارہ سےآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف کہتے ہی سانس روکتی  اب میں نے محسوس کیامیں پاس ہی ہوں  تو میں نے اب اس بے دردی سے کھودنے لگا وہ اب زور زور سے چیخنے لگی یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق میری جان بہت بڑا ہے تمہارا لن  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میرے جانو آج مجھے مار ڈالوآہ آہ آہ  مار ڈالو آج مجھے جان یٹن مزہ دیا ہے میں بتا نہیں سکتی اف ف ف ف ف م م م م م     
 
   
  شارق  میں آج مر گئی مزے سے اور میں  نے کہا میں اب آ رہا ہوں وہ اور زور زور سے اپنی گانڈ کو آوپر اٹھاننے لگی تا کے میرا لن سیدھا اس کی بچا دانی میں جائے  اور میں نے بھی اب  دو تین لمبے سے دھہکے مارے اور اس کی چوت میں میرا لن برسات کرنے لگا منی  کی اف ف ف ی اہ یاہ یاہ یاہ شارق  یہ کہہ کے اس نے مجھے خوب کس کے اپنے ساتھ چمٹا لیا  میں نے اکثر لڑکیوں کی گانڈ بھی ساتھ مارتا تھا  لیکن آج مجھے جو مزہ  صدف نے دیا تھا وہ مجھے کبھی نہیں بولتا وہ دیوانگی سے چدواتی تھی ، میں نے کہا جانو اب تو کہنا ہی پڑھے گا  تم کمال کی ھوبڑے  گیٹس ہیں تم میں  وہ اب کی بار شرما گئی  اور پھر مصنوعی غصے  سے      بولی یو چیٹر  میری چوت کا ستیا ناس مار دیا تمہارے اس ظالم لن نے اور اب بھی تم کہہ رہے ھو  کہنا پڑھے گا ، اب وہ مجھے اپنے ساتھ واش روم میں لے گئی اور اس نے  میرا سارا جسم مل مل  کے دھویا  پھر خود کو صاف کیا  اور باہر آ کر میں نے جیسے ہی ٹاول کی طرف  ہاتھ کیا وہ بولی نا میرے راجہ  اور مجھے کھڑا کر کے میرے بدن سے پانی کے قطرے  اپنی زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کرنے لگی ، اف میں تو اس کی ادائیں دیکھ دیکھ کر  مست ہوا جا رہا تھا  پھر اس  نے کپڑے پہنے اور کہا شارق اب میں چلتی ہوں  اور کمرے سے باہر جانے سے پہلے دروازے سے پلٹ کے کہا   شارق میرا وعدہ  ہے میں عالیہ اور پری کو آپ کے نیچے لے کر آؤں  گئیں  میں کنواری نہیں تھی لیکن وہ دونو ہی ابھی تک کنواریاں ہیں ، میں اپنے یار سے ان کی سیل ترواؤں گی  اور باہر نکل گئی میں اسے دیکھتا ہی یہ  گیا کمبخت  دماغ  میں آے خیالات تک پڑھ لیتی تھی ، اور اب میں مست ہو کر لیٹ گیا 
 
  اگلے دیں میں اٹھا  اور نہا دھو کے باہر آیا ہلکا سے ناشتہ کر کے میں کورٹ کی طرف چلا گیا ،
  میں بار روم میں داخل ہوا تو  مجھے دیکھ  کر عاشق  گنجانہ نے کہا  صدر صاحب  آج آپ کو پروانہ مل جا
ۓگا  عدالت عالیہ سے  میں کچھ نا سمجھا اور  رضوان کے پاس بیٹھ گیا وہ بولا سر  آج اور کل الیکشن کی ڈیٹ تھی  آپ کو  یاد  ہے نا میںنے کہا نہیں یار میں تو بھول گیا تھا  اس نے کہا  آج میں  سارا پینل کا نام دے دوں گا پنجاب بار کونسل کو  میںنے کہا ٹھیک ہے وہ بولا کل  ہی  وہاں  سے آپ کے آنے تک  کلیرئنس کا آرڈر آ چکا ہو گا سر میں نے دیکھا وہ کچھ چپ چپ تھا  میں نے کہا کیا بات ہے ڈیر وہ بولا سر آپ نے آج کا اخبار دیکھا ہے میں نے کہا نہیں  وہ بولا کل میں نے سب کو   خصوصی طور پے کہا تھا خبر لگانے کو  لیکن کسی حرامی نے خبر نہیں لگائی میں نے آپ کے آنے سے پہلے ایک دو اخبار کے آفس میں کال کی  ہے سب کو داور کمال نے روکا  ہے خبر لگانے سے  میں چونک گیا  میں نے کہا کوئی بات  نہیں   اور پھر  قاروقی صاحب آ گۓوہ آتے ہی بولے  یار آج ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے میں تو حیران ہی ہوں  میں نے پوچھا کیا ہوا ہے وہ بولے جب کسی کو سیشن کورٹ سے سزا ملتی   ہے تو ہائی کورٹ  میں اپیل کوئی ایک یا دو ویک تک اپن ہوتی ہے بڑا بھی تعلق ہو  ورنہ عام لوگوں کی تو سالوں تک نہیں نکلتی   لیکن  کال ہی ابھی وارثی کو پھانسی کی سزا ہوئی اور آج ھمارے آفس میں ہائی کورٹ سے لیٹر آیا ہے پرسوں کی ڈیٹ نکلی ہے یہ سن کے میں  بھی  اچھل پڑا اب مجھے سمجھ آ گئی کیوں آج کوئی خبر نہیں لگی  یہ سب داور کمال کے وسیع تعلقات کا کرشمہ تھا جو ناممکن بھی ممکن ہو گیا  اب میں نے وہ لیٹر لے کر پرھنے لگا ،
 
    اب مجھے  سمجھ آئی عاشق گینجانہ کیوں ہنس رہا تھا ، میں نے اب  وہ لیا اور فاروقی صاحب سے کہا یں آفس میں چلتے ہیں  اب میں  نے وہاں جا کر ساری فائل کی نے سارے سے تیاری کی  اور ایسی بحث تیار کی  جس کو دوبارہ سے پڑھ کے میں مطمئن  ہو گیا اب میں نے فاروقی صاحب سے کہا آپ کا کوئی تعلق ہے آرمی میں وہ بولے کیا بات ہے میں نے ان کو ساری بات بتائی وہ بولے یار داور کمال ایک بہت بڑا اژدھا ہے شارق  اور تم اس کو عام  انسانوں کی طرح لے رہے ھو تمہاری سوچ سے بھی زیادہ گہری ہیں اس کی جڑیں
 
  یہ نا سمجھو کے وہ ایک وفاقی منسٹر کا سالا ہے یار جہاں پے حق نواز ڈوگر کے اختیارات  کی حد ختم  ہو جا
ۓوہاں سے  داور کمال کی حد شروع ہوتی ہے اس سے اندازہ لگا لو  اور کوئی بھی اس کے خلاف کچھ نہیں کرے گا   اور نا ہی کوئی حکمران  پارٹی میں سے ہمارا کوئی ساتھ دے گا  اسے ذرا سوچ سمجھ کے چھیڑنا  ورنہ ہمارا نام تک نا ہو داستانوں میں  ان کی باتیں سن کے میں ہنس دے اور کہا آپ کافی خوفزدہ لگتے ہیں اس سے وہ بولے نہیں بیٹا میری جان بھی حاضر ہے آپ کے لئے لیکن میں آپ کو سمجھا اس لئے رہا ہوں کے  سب  دیکھ کر ہم ہاتھ ڈالیں  ہم ابھی یہی باتیں کر رہے تھے کے ہماری آفس سیکرٹری  نے آ کر بتایا کوئی کائنات نامی لکڑی ملنا چاہتی ہیں  شارق صاحب سے  میںنے کہا بلاؤ ان کو اب کائنات اندر داخل ہوئی اور مجھ سے ہاتھ ملا کے بولی کیسے ہیں حضور والا  میں نے کہا ٹھیک ہوں آپ سناؤ پھر وہ بولی میں یار یہاں اپنے ایک کزن سے ملنے آئی تھی    تو سوچا آپ سے بھی ملتی چلوں ، 
 
  فاروقی صاحب اس سے سلام لے کر چلے گ
ۓتھے اپنے والے روم میں  پھر ابھی میں اس سے کچھ خانے پینے کا پوچھنے ہی والا تھا کے  ہمارا ایک آفس  کا ملازم  بہترین درجے کا چاۓکا سامان لے کر آ گیا  میںنے کہا آؤ وہ بولی میں ابھی کھانا کھا کے آئی  ہوں  میں نے کہا دوبارہ سے کھا لو وہ میرے ساتھ اب چاۓپینے لگی اور بولی شارق مس یو جانو میں نے بھی کہا مس یو ٹو اب وہ بولی کیا بات ہے شارق آپ مجھے کچھ  پریشن سے لگ رہے ھو میں نےکہا کوئی بات نہیں ہے جانو وہ بولی شارق کوئی تو بات ہے مجھے بتا دو ہو سکتا ہے میں آپ کے کسی کام آجاؤں ،
  اب میں نے کہا یار میں کوئی آرمی کا  قابل افسر ڈھونڈ رہا ہوں وہ میری بات سنتے ہی بولی  بس کیا ایک کرنل سے کام چل جا
ۓگا آئی .ایس آئی  کا کرنل ہے آپ کے اس سٹی کا انچارج  وہی ہے  آئی ،ایس آئی  کا میںنے کہا واؤ یار یہ تو سارا ہی مسلہ ہی حل ہو گیا وہ اب بولی چلو اٹھو میرے ساتھ آؤ ، میں اب اس کے ساتھ ہی باہر نکلا  نیچے ایک آرمی کی جیپ کھڑی تھی  جس میں ڈرئیور بیٹھا تھا وہ اسے دیکھ کر بولی نواز آپ آ جاؤ ھمارے پیچھے پیچھے  اور میرے ساتھ بیٹھ گئی ، میںنے کہا یہ کون ہے کرنل وہ بولی  میرا خالہ زاد کزن بھی ہے اور میری پھپھو کی بیٹی بھی  ان کی بیگم ہیں یوں  ان سے دوہرا رشتہ ہے ،
   
  اب ہماری  گاڑی کینٹ میں داخل ہو گئی اب آگے آرمی جیپ تھی اور ہم پیچھے  اس لئے ہم کو کسی نے نا روکا  پھر ایک بنگلے کے سامنے وہ جیپ رکی میں نے بھی اس کے پیچھے ہی اپنی کار کو روکا اور نیچے اتر آیا   کائنات نے میرا بازو پکڑا اور بولی آؤ یار یہ اپنا ہی گھر سمجھ کے آؤ  میں اس کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا سامنے ہی ایک چھوٹا سا لان تھا جہاں پے دو بچے کھیل رہے تھے  اور ان کے پاس ہی ایک خوبصورت سا نوجوان اور ایک پیاری سی لڑکی بیٹھی تھی ،
 
  کائنات انہی کی طرف گئی وہ مجھے دیکھ کر اپنی جگہ سے دونوں ہی اٹھ گ
ۓاب کائنات نے کہا شارق یہ ہے میرا بھائی  کرنل عثمان  اور یہ میری پیاری سی دوست  بھی اور بہن بھی  نورین ہیں پھر ان سے بولی عثمان بھائی یہ شارق ہیں میرے دوست اور پھر نورین سے بولی نونو  یہ ہیں شارق  اب عثمان   مجھ سے گلے ملا  اور مجھے  بیٹھنے کو کہا اب نورین نے کہا تو یہ ہیں وہ ماصوف  جنہوں نے اس شادی  پے میری جان سے پیاری دوست کو ہرا دیا تھا ، بڑے چرچے ہیں آپ کے  ھمارے  ہاں تو شارق صاحب  اب کی بار عثمان نے بہت اپنائیت سے کہا  میں نے کہا بس سر  سب کی نوازش ہے  وہ بولا یار یہ سر نہیں چلے گا  آپ کو نہیں پتہ یہ لڑکی کائنات مجھے بہت عزیز ہے  میری لاڈلی کزن بھی ہے اور اکلوتی سالی بھی کیوں یار مجھے گھر سے نکلوانا ہے  اور میں ہنس دیا انہوں نے مجھے بڑا مان دیا تھا  اب ہم نے کولڈ ڈرنک  لی اور پینے لگانے جو ایک ملازم رکھ گیا تھا ساتھ میں سنڈوچ تھے  اب کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے  پھر کائنات نے کہا عثمان بھائی شارق کو آپ سے کوئی کام ہے اور مجھے یہ کہنے کی میرے خیال میں ضرورت نہیں ہے  کے ان کا کوئی بھی ھو وہ کام ہر حال میں ہونا چاہیے عثمان نے ہنس کے کہا گڑیا جیسا آپ کا حکم   اور میرا بازو پکڑ کے کہا آؤ یار ذرا اندر بیٹھتے  ہیں  اور مجھے اپنے ساتھ اندر ڈرائنگ روم لے گۓ،
 
  اب میں نے ان سے کہا میں آپ سے ابھی تو زبانی ہی بات کروں گا بعد میں ثبوت بھی لا دوں گا ہو سکتا ہے آپ زبانی یقین نا کریں وہ بولے  نہیں دوست آپ جس حوالے سے میرے گھر میں مجود ھو وہ مجھے سب سے عزیز ہے میں آپ کی بات پے یقین  بھی کروں گا اور ہو سکا تو ابھی حل بھی کروں گا اپ کا مسلہ  میں نے پھر اسے ساری بات  بتا دی  وہ بولا اف آپ وہ والے وکیل ھو  یار میں نے اپنے ایک کولیگ  سے آپ کا ذکر سنا تھا  آج ملنے  کا اتفاق بھی ہو گیا  مجھے یہاں کا چارج  لئے ابھی ایک ویک ہی ہوا ہے  اور آپ نے تو کمال کر دیا میں تو تب سے  کوئی ایسا  کیس ڈھونڈ رہا ہوں یار اب اس نے اسی وقت پاس پڑھے فون سے ایک کال کی  اور کسی کو کہا ،
  عنصر مجھے داور کمال کے بارے میں ایک ایک پل کی رپورٹ چائیے وہ کہاں جاتا ہے کس سے ملتا   ہے یہاں تک کے اس کے گھر میں مجود  ہر نمبر اور اس کے ذاتی استمال میں ہونے والے موبائل نمبر سب کو ریکارڈ  کرو  آج سے وہ ہماری لسٹ میں  فرسٹ  نمبر  پے  ہو گا ، اور کال کاٹ  دی  اب وہ بولا یار وہ ثبوت  لو کہاں ہے  میں ایک نظر ان کو دیکھنا چاہتا ہوں  میننےکہا ٹھیک ہے وہ آپ کو مل جایئں گ
ۓآج ہی  وہ بولا اگر کہیں جانا ہے تو چلو میں آپ کے ساتھ ہی چلتا ہوں  پھر ہم باہر آے  وہ بولا نورین  شارق آج  رات کا کھانا ھمارے ساتھ  کھاۓگا  میں ذرا آیا آفس سے ہو کر اور  مجھے کہا میری گاڑی میں آ جاؤ  اب وہ اپنی جیپ میں بیٹھ گیا  اور ساتھ ہی ایک اور جیپ  جس میں اس کے گارڈز تھے وہ پیچھے آنے لگی  ہم آشیانے میں آے وہ بولا ابھی میں اندر نہیںآؤں گا بعد میں  پھر میں گھر  میں غیا اور سب سے مل کر اپنے کمرے میں  سے وہ سارے  ثبوت لئے اور باہر آ گیا   اس کے ساتھ بیٹھا اب اس نے کہا  ڈرائیور سے آفس کی طرف  اور پھر وہ مجھے لئے ایک شاندار سی عمارت میں داخل ہوا ، یہ آئی -ایس -آئی  کا ہیڈ کواٹر تھا  اس سٹی کا وہ اپنے مخصوس  دفتر میں آیا ،
 
  اور اپنی کرسی پے بیٹھ کے اس نے اپنے سامنے رکھے کمپیوٹر  ko آن  کیا  اور پھر وہ کچھ  چیک کرنے لگا  وہ کوئی ایک گھنٹا  تک لگا تار  کام کرتا  رہا اب اس نے ایک لمبا سانس لیا  اور کہا شارق یہ سب جن کی تصویریں ہیں داور کمال کے ساتھ یہ اسرئیل  اور انڈیا کے ایجنٹ  ہیں ان میں سے تین لوگ میک اپ سے اپنی شکل بدل کے آئے ہیں ھمارے ملک میں  وہی میں چیک کر رہا تھا ھمارے نیٹ ورک نے ان کی اصلی  شکلیں سامنے دیکھا دیں ہیں اب میں نےاسے  کہا تو اب کیا سوچا ہے آپ نے وہ بولا جب تک داور کمال کو رنگے ہاتھوں نا پکڑا  گیا وہ چھوٹ جا
ۓگا  ،
  میںنے کہا ٹھیک ہے اب مجھے  کچھ ثبوت چاہئیے اس کے خلاف  وہ بولا میں سمجھ گیا ہوں آپ کی بات  پھر اس نے  ٹیلی فون کا ریسیور  اٹھا کے ایک بٹن دبا دیا  پھر وہ بولا  ایک آرڈر ٹائپ کرو  ہائی کورٹ کے چیف جسٹس  کے نام جس میں ان کو بتایا  گیا ھو کے داور کمال ایک غدار  ہے اور اس کے خلاف ہم انکوائری  کر رہے ہیں  لہٰذا اس کو کسی طرح کی سپورٹ  نا دی جا
ۓ   اور ساتھ میں کچھ اور خاص باتیں بول کے اس نے فون رکھ دیا  پھر کچھ سوچ کے بولا  ایک منٹ  پھر دوبارہ سے اس نے فون کیا اور کہا  کپٹن حسن  کو میرے پاس بھیجو  کوئی دس منٹ بعد ایک بہت  ہی خوبصورت لڑکا اندر داخل ہوا مجھے اس کی پرسنالٹی نے بہت متاثر کیا  وہ آیا اس نے عثمان کو سیلوٹ کیا اور مجھ سے ہاتھ ملا کے بولا جی سر  عثمان نے کہا حسن  بیٹھو  یہ میرے کزن ہیں  بیرسٹر شارق  وہ بولا سر میں ان کو جانتا ہوں اور ان کا ایک فین بھی ہوں ،
  اب عثمان نے کہا یہ  اور بھی اچھی بات ہے  اچھا اب مسلہ یہ ہے اسے ساری بات بتانے کے بعد عثمان نے  کہا میں آپ کے انکل سے بات کرنا چاہتا ہوں پھر مجھے کہا شارق یہ چیف جسٹس ہائی کورٹ جناب جسٹس مخدوم  شاکر حسین شاہ  کے سگے بھتیجنے  ہیں  حسن  نے کہا ابھی بات ہو جاتی ہے سر اس نے  اب ٹیلی فون اپنی طرف کیا اور ایک نمبر ملایا  پھر انتظار کرنے لگا اب ایک ہیلو کی آواز سنتے ہی اس نے کہا  آسلام و علیکم تایا جان  کیسے ہیں آپ   جی میں بھی ٹھیک ہوں  آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے  جی  ابھی کرنی ہے  اور پھر ساری بات بتانے  کے بعد کہا تایا جان ھمارے کرنل صاحب سے بات کریں  اب عثمان نے ان سے بات کی اور کہا  شاہ جی میں ایک اپنی ایجنسی  کی طرف سے   آپ کو ایک لیٹر بھی فیکس  کر دیا ہے  اور حسن نے آپ کو زبانی بھی بتا دیا ہے  جی جناب ایسے نا قابل تردید ثبوت ہیں  کے ہم ابھی آپ کو یہی کہہ سکتے ہیں وہ سو فیصد غدار ہے  جی جناب اور یہ سارے ثبوت ہم کو  بیرسٹرسید  شارق حسین شاہ صاحب نے دئیے ہیں  جی جناب وہ آئی ،جی صاحب کے بیٹے  جی وہی ہیں ، یس جناب وہ سرمایا ہیں وکیلوں کا جی تھینکس  جناب اور کال کاٹ دی ،
 
  اب عثمان  نے کہا اب کوئی فکر نا کرو میں بہت خوش تھا  پھر میں اور عثمان اٹھے میں نے حسن سے کہا یار اب ملتے رہنا وہ بولا ضرور سر  اب میں اور عثمان گھر آے  اور میںنے اب ان کے ساتھ ایک پر لطف ڈنر  کیا  پھر  میں نے کہا اب میں جاؤں گا کافی دیر ہو گی ہے  اب وہ سب مجھے گاڑی تک چھوڑنے آے  میں نے اب کائنات سے ہلکے سے کہا جانو آپ ایک دو دیں یہی ہو نا وہ بولی نہیں میں کال چلی جاؤں گئیں  ایک ویک بعد آؤں گئی تب  ملاقات ھو گئی  میں نے کہا ٹھیک ہے اور  اپنے گھر کی طرف چل دیا  گھر میں داخل  ہوا تو بھابھی تنویر نے کہا آپ کو ڈیڈی کافی دیر سے یاد کر رہے ہیں ،
  میں ان کے کمرے میں گیا وہاں پے نواب شرافت بھی تھے  میں نے سب  کو سلام کیا  اور بیٹھا  ایک کرسی  پے  اب ڈیڈی نے کہا مجھے نصرت نے بتایا ہے اور طارق  بھی آج  بتا رہا تھا  کے داور کمال  نے تمہارے خلاف  کچھ کرنا شروع کر دیا ہے میں نےکہا  جی ڈیڈی   کل تو میں الیکشن میں ہوں بزی اور پرسوں کی ڈیٹ ہے  چیف جسٹس اور تین اور جسٹس حضرات کا بنچ  ہے جن کے سامنے پیش ہوناہے  اب نواب سلطان نے کہا ہم  سب چلیں گ
ۓ  اب ڈیڈی نے کہا  اب آپ نے کچھ تیاری کی ہے نا  میں نے کہا ڈیڈی آپ بے فکر رہیں پرسوں  ہائی کورٹ سے بھی وارثی کی سزا بحال رکھوا  کے  ہی آؤں گا واپس وہ بولے  چلو ٹھیک  ہے میں کافی پریشان تھا  اب کی بار نواب شرافت نے کہا بیٹا وہ ایک خطرناک آدمی ہے  آپ ذرا اپنا بھی خیال رکھنا  میں نے کہا جی انکل  اور اب  صدف نے جلدی سے کہا  اگر شارق صاحب  کو اجازت  ہے  تو ہم ان کو اپنے ساتھ لے جایئں  ،
  ڈیڈی نے ہنس کے کہا لے جاؤ لے جاؤ  شیطان کی خالہ  اور سب ہی ہنس دئیے  اب  لالارخ نے باہر آتے ہوے کہا بھائی آج سارا دن ہنسا ہنسا کے مارا ہے صدف نے سب کو  لطیفے سنا سنا کر اب ہم آ کر لان میں بیٹھ گ
ۓ  اب صدف نے کہا یار کتنا پیارا موسم ہے  آج کچھ شاعری نا ہو جاۓ  پری  چلو شروع ہو جاؤ  سب ہی باری باری  کچھ نا کچھ سنائیں گۓ  ،
 
  اب پری نے کہا تم خود ہی شروع کرو  تو صدف نے جلدی سے کہا یہ لو میری رانی  آج وہ پری کے ساتھ جڑ کے بیٹھی تھی   پھر اس نے پری کو اپنی گود میں  کھینچ لیا  وہ ایک نمبر کی شرارتی تھی  اب بولی  ہم تو پری کے ہی عاشق ہیں جی  ان کے لئے ہی سنائیں گ
ۓاورپری کی آنکھیں چوم  کر  کہا
 
  اتنی خوش رنگ نظر جان بھی لے سکتی ہے
  اُس سے کہنا کہ وہ نکلے تو چُھپا کر آنکھیں
 
  اب پری تو شرم سے دوہری ہو گئی  اب  کی بار آگے عالیہ تھی وہ بولی
 
  میرے لئے میری جان تُو ہی ہے
  اب تُو ہی بتا تجھے اپنی جان کیسے دوں؟
 
  اب کی بار آگے لالارخ  تھی وہ بولی
 
  اُس کے کہنے پر اب اُس کی تمنا بھی چھوڑ دی ہم نے
  ذرا ہم بھی تو دیکھیں کون چاہتا ہے اُسے ہماری طرح؟
 
  اب  لالارخ نے کہا چلو پری تم سناؤ اب  تو پری نے کہا
 
  دلوں میں فرق پڑ جائے تو اس بے درد ساعت میں
  دلیلیں, منطقیں اور فلسفے بیکار ہوتے ہیں
 
  اب پری نے کہا جی شارق صاحب اب آپ کی باری ہے
 
  بہت قابو ہے اپنے دل پہ لیکن کیا کیا جائے
  جب آنکھیں خوبصورت ہوں تو ہم لا چار ہوتے ہیں
 
  اب صدف نے کہا ہاں تو دوستو  اب میں کہتی ہوں اپنی جانو سے  اور  مجھے آنکھ مار کے اس نے ایک اشارہ کیا میں نے دیکھا تو میرے دل میں ہلچل سی مچ  گئی کیوں کے میں اس کے سامنے تھا باقی سائیڈ پے تھے اس لئے صرف مجھے ہی نظر آیا جو اس نے کیا تھا  اس نے پری کے سینے سے دوپٹہ ہلکے سے ہٹا دیا تھا  اور لیٹا ہونے کی وجہ سے  پری کے مممے مجھے کافی اندر تک نظر آے  اف کیا سفیدی تھی  یوں تھا جیسے پری کا جسم دودھ اور میدے سے گوند  کے بنایا گیا ھو  میرے اندازے کے مطابق  پری کی چھاتی کا سائز اڑتیس تھا  اب صدف نےپری کے ہونٹوں پے ایک انگلی پھیری اور میری طرف دیکھ کر  کہا
 
  سوچتے ہیں تجھے وضو کر کے
  یوں تیرا احترام کرتے ہیں
 
  اب لالارخ نے  کہا
 
  پھر کسی پیاس کے صحرا میں مجھے نیند آئے
  اور مَیں خواب میں مانگوں تجھے پانی کی طرح
 
  اب آگے عالیہ تھی اس نے کہا
 
  کبھی دیکھے ہیں صحراؤں میں جھلستے ہوئے درخت
  ایسے ہوتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے
 
 
  اب آگے پری نے جواب دیا
 
  بڑی عجیب ہے اس نادان دل کی خواہش اے دوست
  ایک شخص میرا ہونا نہیں چاہتا اور میں اسے کھونا نہیں چاہتا
 
  پھاڑ کہا جی شارق صاحب اب آپ کی باری ہے اپنی باری کو یاد  رکھا کریں  میں اسے کیا بتاتا  کے میں تو اس  کے جسم کی رعنائیوں میں گم ہوں
 
  چاند جس کا رکھ دیا ہے نام سب نے متفق
  آسماں پر ہے یہ اک خاکہ تیری تصویر کا
 
  اب صدف نے کہا وہ یار کیا کہہ دیا مجھے لگتا ہے  یہ شعر  میری جانو پری کے لئے ہونا چائیے  اور ساتھ ہی ہلکے سے اپنا ایک ہاتھ پری کے گریبان  میں ڈال لیا اور پری ذرا سا کسمکسائی  تو اس نے باہر نکال کے نیچے سے اس کے مممے اور آوپر کی طرف کئے  اب تو یوں تھا ابھی باہر ہی چھلک  آییں گ
ۓپری کے بڑے بڑے مممے
 
  اتنے میں اندر سے آواز آئی  بھابھی تنویر نے کہا لالارخ گل کا فون ہے وہ جلدی سے اٹھ کر اندر بھاگ گئی اب صدف نے کہا یار کوئی مزے کے شعر کہو سب  عالیہ نے اب ہنس کے کہا  کیا بات ہے بڑا پیار آ رہا ہے پری پے  تو  صدف نے کہا میری بچپن کی یہ عادت ہے  میں اکثر پری کو یوں ہی اپنی گود میں لیٹ کے بیٹھا کرتی تھی تم کو پتہ بھی ہے عالی  اب عالیہ نے کہا ہاں یہ تو ہے  اب  صدف نے عالیہ کو بھی اپنی طرف کھینچا اور کہا ادھر آؤ میری چھمک چھلو اور عالیہ کو بھی اپنی گود میں لیتا لیا اور کہا اب آپ ہی رہ گ
ۓھو میرے سپنوں کے راجکمار
 
  میں نے ہنس کے کہا ویسے ہے یہ واقعی زیادتی والی بات کیوں عالی  وہ بولی جی شارق اب   صدف نے کہا  پری کیوں  نا اب اندر چل کے کمرےمیں بیٹھ  جایئں یار یہاں کچھ سردی کا احساس بڑھ رہا ہے  وہ بولی ٹھیک ہے صدف نے کہا شارق صاحب آپ کو بھی صبح کوئی خاص  کیس  نہیں  ہے کیوں  کے الیکشن ہیں  تو کیا ہم آج  کچھ دیر آپ کے روم میں ہی کیوں نا بیٹھ جایئں  اگر آپ کو کوئی اعتراض نا ھو تو  میں نے کہا چلو بیٹھ جاتے ہیں اب سب ہی میرے روم میں آ گ
ۓ  اور صدف نے کسی کو محسوس نا ہونے دیا اور کمرہ اندر سے  لاک  کر دیا

part 19

  اب پری اورعالیہ تو صوفوں پے بیٹھ گئیں اور صدف میرے بد پے میں اب کھڑا تھا مجھے کھڑا دیکھ کر عالی نے کہا بیٹھو شارق آپ کیوں کھڑے ہو ابھی میںنے کہا اب میں کس  کے پاس بیٹھوں  مجھے بتاؤ  آپ ہی اب کی بار صدف  نے کہا  عالی یہاں آو بیڈ پے دونوں   پری نے کہا  صدف آپ یہاں ہی آ جاؤ نہ تو صدف نے کہا تم کو شروع سے ہی مزہ آتا ہے مجھے تڑپا کے  میں جا رہی ہوں  اور غصے سے نیچے اتری بیڈ سے اب کی بار عالی نے کہا اچھا بابا ہم آ رہے ہیں اب موڈ نہ  آف کرو اپنا  لیکن صدف نے کوئی جواب  نہ دیا ،
  اب کی بار پری اس کے پاس ہی جڑ کے بیٹھ گئی اور کہا سوری  نہ وہ  میں بس اب کی بار صدف نے کہا شٹ اپ پری تم کیا سمجھتی ھو خود کو ایسی کون سی چیز ہے تمہارے پاس جو میرے پاس نہیں ہے  ہر دفع یوں ہی کرتی ہو میں ہی بیوقوف ہوں فرح سچ ہی کہتی تھی مجھے پری ایک مغرور لڑکی ہے  اس سے اتنا پیار نہ کرو اور میں نے کبھی اس کی باتوں پے غور نہیں کیا آج شارق کے سامنے تم نے یوں میری انسلٹ کی  آج سے ہم بس کزن ہیں  ڈیٹس آل کوئی کچھ نہ بولے اس نے عالیہ کو دیکھا جو اپنے ہونٹ کھول ہی رہی تھی اب ان سے نظر بچا کے اس شیطان کی خالہ صدف نے مجھے آنکھ ماری  پری اب اس سے سوری کر رہی تھی بار بار آخر پری نے اس کے ہونٹوں پے کس   کی اور اب صدف نے کہا واؤ مزہ آگیا کیا میٹھے میٹھے ہونٹ ہے پری تمہارے اور ہنس دی  اب عالی نے کہا تم تو قسم سے ایک نمبر کی کمینی ھو صدف جان نکال دی میری تم کو منانا کون سا آسان ہوتا ہے
 
  اب وہ  تینوں  بیڈ کی ٹیک  سے لگ  کے بیٹھ گئیں  اور میں اب  ان کے قدموں  کی طرف بیٹھنے ہی لگا تھا کے عالی نے کہا نہیں پلیز شارق آپ بھی ادھر آ جاؤ بہت جگہ ہے  اب صدف نے کہا آ جاؤ یار  ہم آپ کو کھا نہیں جایئں گئیں  اور مجھے اپنے درمیان جگہ دی اب میری ایک سائیڈ پے عالی تھی اور طرف صدف تھی  پری پہلے کی طرح  صدف کی گود میں سر رکھ کے لیٹی تھی اب پری  نے کہا شارق آپ کو سنگنگ آتی ہے  میں نے کہا کیوں وہ بولی ویسے ہی پوچھا آپ کی آواز اچھی ہے  شاعری میں بھی آپ کا انتخاب کمال کا ہے  میں نے کہا ہاں کبھی کبھی اکیلے میں گنگنا لیتا ہوں
  صدف نے کہا تو آج ہم بھی سنا دو ذرا میں بھی تو دیکھوں  میرا سپنوں کا راجکمار کیسے گنگناتا ہے سب ہی ہنس دئیے اب عالی نے کہا پلیز شارق ہم اب دوست ہیں اور دوستوں میں کیسی  ججھک  سنا دو نہ  میں نے کہا پھر میرے بعد اب صدف اور پری دونو ہی بولیں ہم بھی سنائیں گئیں آپ کو اب میں نے کہا او کے پھر میں سناتا ہوں اور ایک اپنی پسند کا سانگ سنگ کرنے لگا ،
 
  ہوش نہیں !!!!!!!!!!!ہوش نہیں
  کھویا  ہوں میں تو تیری  یادوں میں
  اب مجھ کو کوئی ہوش  نہیں
  دیوانہ پن یہ بڑھتا ہی جا
ۓ
  اس دل پے کوئی روک نہیں
  ہوش نہیں ...........ہوش نہیں
  بیچین ہوں  میں ،بیتاب ہے سماں
  آ جا  میری بانہوں، میں جان جانا  ہے کہاں
  بس میں نہیں ہے یہ دھڑکنیں بھی
  اس دل پے کوئی زور نہیں
  دیوانہ پن یہ بڑھتا ہی جا
ۓ
  اس دل پے کوئی روک نہیں
  ہوش نہیں ...........ہوش نہیں
  میری محبت کتنی حسین ہیں
  پا کے رہوں گا اس کو اتنا یقین ہے
  مانا خطا ہے دیوانگی  کی
  الفت کا کوئی دوش نہیں
  دیوانہ پن یہ بڑھتا ہی جا
ۓ
  اس دل پے کوئی روک نہیں
  کھویا  ہوں میں تو تیری  یادوں میں
  ہوش نہیں ...........ہوش نہیں
 
  میری آواز ویسے بھی کافی اچھی تھی اوپر سے میں یہ  سانگ اکثر گنگناتا تھا اس لئے کافی اچھا سنگ کیا میں نے صدف تو کہہ اٹھی اف شارق میری جان لے لی ظالم کیا آواز پائی ہے تم نے اور کہا میں آپ کو ایک انعام دینا چاہتی ہوں  اور پھر اس نے  مجھے اپنی بانہوں میں لیا اور ایک کس کر دی میرے ہونٹوں پے میں  نے کہا  یہ کیا بدتمیزی ہے وہ بولی یہ کوئی بد تمیزی  نہیں ہیں ہم دوست ہیں اور دوستوں کا ایک دوسرے پے حق ہوتا ہے اور کہاں عالیہ بتاؤ کیا میں نے  غلط کیا ہے وہ اب چپ تھی پری بھی چپ تھی  پھر پری نے کہا اٹس او کے شارق ہم دوست ہیں یار اور میں اب بولا چلو ٹھیک ہے اب میں نے کہا چلو اب تم سناؤ اب کی بار صدف نے کہا میں سناتی ہوں اب ایک مستی والا سانگ
 
  اوہ میرے سپنوں کے سوداگر
  اوہ میرے سپنوں کے سوداگر
  مجھے ایسی جگہ لے جاؤ 
  اوہ میرے سپنوں کے سوداگر
  میں چاہتی ہوں میرے ہمسفر
  مجھے پریوں کی دنیا دکھاؤ
  پیار ہی پیار ہو جس جگہ
  مجھے ایسا جہاں دکھاؤ
  اوہ میرے سپنوں کے سوداگر
  مجھے ایسی جگہ لے جاؤ
  یہ پریوں کی بستی
  یہ ستاروں کا مجمع
  یہاںگونجتا ہے محبت کا نغمہ
  یہاں پیار کے ہیں دیوانے   سبھی
  چاہت ہی سب کچھ یہاں
  پریوں کی دنیا کے مہمان ہے
  چلو تم کو سیر کرائیں
  کہاں ہے وہ سپنوں کا سوداگر
  چلو اس کو ڈھونڈ لائیں
  چندہ کی رتھ   پے وہ آے گا ایک دن 
  مجھے ساتھ لے کر وہ  جا
ۓ گا ایک دن
  میری مانگ بھر دے گا تاروں سے وہ
  بنا
ۓ گا دلہن  مجھے ..بناۓ گا دلہن  مجھے
  میرے سپنوں کے سوداگر اوہ
 
  اب کی بار ہم تینوں نے کہا صدف کیا بات ہے یار  وہ اب ہنس کے بولی چلو سب مجھے انعام دو اب پری نے اس کو کس کی اور عالی نے بھی اب وہ بولی آپ کو کیا میں اب منہ سے کہوں تب ہی انعام دو گ
ۓ میں نے کہا یار اب میں ضروری نہیں کس کا انعام ہی دوں وہ بولی تو گالی سے لگا لو اب میں نے اسے گلے سے لگا لیا  وہ ہلکے سے میرے کان میں بولی ،
  پری کو کس کرنا  میں  مسکرا دیا  اب عالیہ نے کہا چلو پری اب آپ کی باری ہے  پری نے کہا کون سا سناؤ صدف  تو صدف نے کہا مجھے حق ہے والا اس نے کہا سہی ہے  اور کہا وہی سنا دیتی ہوں
 
  مجھےحق ہے ....مجھےحق ہے
  تجھ کو  جی بھر کے میں دیکھوں
  مجھےحق ہے ....مجھےحق ہے
  بس یونہی دیکھتا میں جاؤں
  مجھےحق ہے ....مجھےحق ہے
  پیا  .......پیا......پیا  پیا بولے میرا جیا
  تمھیں  حق ہے ..تمھیں حق ہے
  ڈھل رہی پگل رہی ہے یہ رات دھیرے دھیرے
  بھر رہی ہے پیار کی بات دھیرے دھیرے
  چوڑیاں گنگنا کے کیا کہیں سجنا
  یہ چوڑیاں گنگنا کے کیا کہیں سجنا
  رات کی رات میں جگاؤں مجھے حق ہے
  چاند پونم میں چراؤں مجھے حق ہے
  پِیآ  .......پِیآ......پیا  پیا بولے میرا جیا
  تمھیں  حق ہے ..تمھیں حق ہے
  کل صبح تجھ  سے میں دور چلا جاؤں گا
  ایک پل کو بھی تجھے  بھول نہیں پاؤں گا
  یہ چہرہ یہ مسکان آنکھوں میں بھر کے
  میں تیری یاد میں ترپوں مجھے حق ہے
  تجھ سے ملنے کو میں ترسوں مجھے حق ہے
  پِیآ  .......پِیآ......پیا  پیا بولے میرا جیا
  تمھیں  حق ہے ..تمھیں حق ہے
  مجھےحق ہے ....مجھےحق ہے
 
  اب کی بار تو  مزہ ہی آ گیا بہت ہی سویٹ آواز تھی پری کی  صدف نے تو اسے کوئی دو منٹ لمبی کس کی ہونٹوں پے اب ساتھ ہی صدف نے اس کے گریبان میں ہاتھ دل کر پری کے مممے پکڑ لئے پری کے منہ سے سسس سسس کی آواز نکال آئی  پھر اس نے کہا صدف  بس کرو یار  پھر  عالیہ  نے بھی اسے کس کی اور کہا کیا خوب سنگنگ تھی جانو اب کی بار  صدف نے کہا  چلو شارق آپ بھی انعام دو اور کس کا انعام ہو گا اب  میں نے کہا نہیں یار ایسے ہی میں کہہ دیتا ہوں کمال کی سنگنگ تھی  اب صدف نے میرا ہاتھ پکڑا  اور پری کی چھاتی پے رکھ دیا اور کہا  شارق کیا ہم تینوں  اس قابل نہیں کے آپ کی دوست بن سکیں  پری تو کانپنے سی لگی تھی  میں نے ہلکے سے اس کا ایک ممما دبا دیا ہلکے سے وہ سسس کر اٹھی   اب  صدف نے کہا میری طرح اسے بھی گلے سے لگا کر  کس کرو میں نے اب پری کو آگے جھک کر گلے سے لگا کے ہلکے سے اس کے کان میں کہا پری  آپ کی چھاتی کمال کی ہے اور اسے ایک کس کی ہونٹوں پے 
 
  اب صدف نے کہا کیوں شارق صاحب کیسے میٹھے ہونٹ ہیں میری جانو کے  پری اب شرما  رہی تھی اب کی بار عالیہ نے کہا شارق  آج سب ہی کہہ رہے تھے  آپ کو ہائی کورٹ میں جو ڈیٹ  ہے  وہ ایک خطرناک  شخص  کے خلاف ہے  میںنے کہا ہاں یار ایسا ہی ہے  پر کوئی مسلہ نہیں میں جیت کے ہی آؤں گا  اور سب نے کہا ہاں ایسا ہی ہوگا  اب عالیہ نے کہا آپ کی جیت کی خوشی میں آپ کو میں ایک ٹریٹ  دوں گئیں 
 
  اب صدف  نے کہا آوپر آ جاؤ پری  اب پری  آوپر  آ کر لیٹ گئی  اب وو تینوں ہی لیٹی ہوئیں تھیں اور میں اکیلا ہی بیٹھا تھا  اب کی بار  صدف نے کہا شارق آپ بھی لیٹ جاؤ یار  اور پری کو اپنے ساتھ  لگا  لیا اب عالیہ نے بھی کچھ  سائیڈ پے ہو کر جگہ بنائی  اور میں بھی لیٹ گیا اب میری دائیں طرف  پری لیٹی تھی  بائیں طرف  عالیہ تھا  اور صدف پری سے اگلی طرف لیٹی تھی  اب عالیہ نے کہا  شارق اب ہم آپس میں سوال و جواب کرتے ہیں  میں آپ سے ایک پہلا سوال کرتی ہوں پلیز آپ بےجھجک دیں  گ
ۓ  سوال کا جواب   آپ یہ بتائیں  کے آپ نے آج تک کتنی لڑکیوں  سے دوستی کی ہے  میں نے کہا کافی ساری ہیں  اب کی بار صدف نے کہا شارق آپ نے کبھی کسی لڑکی کو ننگا دیکھا ہے  میںنے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولی جواب دو میں نے اب معصوم بن کے کہا ہاں  ایک دو موویز میں دیکھا ہے وہ بولی اف  آپ بھی نہ  اتنے پیارے  ہیں آپ پے تو لڑکیاں مرتی ہوں گئیں اور آپ نے کسی سے ابھی تک ایسا پیار ہی نہیں کیا اب عالیہ نے کہا شارق مجھے کافی شرمیلا  سا لگتا ہے  اور اب پری نے کہا جی ہاں اب صدف اپنی جگہ سے اٹھی اور اس نے بیڈ سے نیچے اتر کر وہ الیکٹرک بورڈ کی طرف گئی اور اس نے کمرے میں جلتی ہوئی  لائیٹ  بند کر دی  میں نے کہا یہ کیوں وہ بولی  اب آرام سے آپ چپ کر کے لیٹے رہیں اور ایک زیرو  کا بلب  جلا دیا  اب اتنے بڑے سے کمرے میں ایک زیرو کے بلب سے تھوڑی سی روشنی ہوئی 
 
  واپس آ کر وہ لیٹ گئی اور کہا یار میری آنکھوں میں پڑھ رہی تھی تیز لائیٹ اب اس نے میری طرف کروٹ لی اور پری جو سیدھی لیٹی تھی اسکو  بھی اپنی طرف  کھینچ لیا  اب پری کی پیٹھ  میری طرف تھی  میں اب سیدھا لیٹا تھا اب صدف نے کہا میری طرف منہ کرو سب یار  میںنے اب اس کی طرف منہ کیا  اب اس نے عالیہ کو بھی کہا وو بھی اب اسی طرف منہ کر کے لیٹ گئی اب میری پیٹھ عالیہ کی طرف تھی   اب صدف نے کہا چلو اب کوئی رومینٹک  سا شعر سناؤ  عالیہ  اب عالیہ نے کہا ٹھیک ہے اور وہ بولی
 
  کہنے کو تو بہت سی باتیں ہیں اس دل میں
  مختصر لفظوں میں میری آخری خواہش تم ہو
 
  میں نے کہا ویری نائس  پھر میں نے  ایک شعر  کہا
  اس خوشی کا حساب کیسے ہو
  تم جو پوچھو جناب کیسے ہو!۔
  اب  کی بار صدف نے کہا اچھا جی  اور پری نے کہا  کیا بات کہی آپ نے شارق  عالیہ نے کہا شارق آپ کا زوق بہت اچھا ہے  اب کی بار پری نے کہا  میں سناؤں اب ایک ہم نےکہا سنا دو وہ بولی
  اپنی مٹھی میں چھُپا کر کسی جگنو کی طرح
  ہم تیرے نام کو چپکے سے پڑھا کرتے ہیں
  میں نے کہا خوب اور صدف نے  دوبارہ سے اسے کس کی اور اب کی بار وہ اس سے لپٹی ہوئی تھی اور زور سے پری کے ہونٹ چوس رہی تھی  پری نے کہا صدف بس وہ بولی نہیں آج تم کو پیار کرنے کو دل چاہتا ہے  اور پری نے اسے دوبارہ نہیں روکا  اب عالیہ نے کہا یہ بچپن سے  یوں ہی کرتیں  ہیں دونوں ہی ایک دوسرے کی دیوانی ہیں  میں نے اپنی کمر پے کچھ خارش سی محسوس کی اور وہاں پے خارش کرنے کو ہاتھ پیچھے کیا تو عالیہ جو مجھ سے کچھ ہی دور تھی میرا ہاتھ اس کی چھاتی سے ٹچ  ہو گیا  میں نے ایک پل میں ہاتھ پیچھے کیا اور  سیدھا ہو کے لیٹ گیا  وہ بولی کوئی بات نہیں اور ہلکے سے شرما گئی  اب پری کی اور صدف  دونوں کی سسکیاں  گونج رہی تھیں کمرے میں صدف نے اب پری کی کمر پے اور پری صدف کی کمر پے ہاتھ پھیر رہی تھیں ان کی ٹانگیں اب ایک دوسری کی ٹانگوں میں الجھ گئیں تھیں 
 
  اور وہ ایک دوسرے کےہونٹوں کو بیتابانہ چوس رہی تھیں اب  میرا لن بھی یہ دیکھ کر کھڑا ہو گیا تھا اچانک اب مجھے صدف کا ہاتھ لگا  میں نے اس کی طرف دیکھا اس نے آنکھ سے اشارہ کیا عالیہ کو کس کرنے کا وہ کمبخت  واقعی  شیطانی  دماغ  کی  مالک تھی  میں نے اب  اپنا رخ عالیہ کی طرف کیا  اور کہا اب ان کو روکو یار  وہ ہلکے سے ہنس کے بولی رہنے دیں یہ اب ہم سے تھوڑا روکیں گئیں  پھر اس نے کہا شارق کیا بات ہے آپ کو برا لگ رہا ہے  میں نے کہا مجھے کچھ الجھن سی ہو رہی ہے  وہ اب کی بار بولی  شارق ،میں آپ کی دوستی کے قابل نہیں کیا آپ نے  مجھے ابھی تک کوئی انعام نہیں دیا اب میںنے اس کی طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ اس کی چھاتی پے رکھ کے اسے دبا دیا  اس نے اپنے ہونٹ کو اپنے دانتوں میں دبا لیا  تا کے آواز نہ نکل جا
ۓ اب میں نے اس کے پیٹ سے اس کی کمیض ہٹا کے وہاں پے اپنے ہاتھ کا مساج کرنے لگا  وہ کانپنے لگی اب میںنے اس کا ایک ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پے رکھ دیا اس نے تڑپ کے اپنا ہاتھ پیچھے کیا میں نے دوبارہ سے رکھا اور اب اس کے کانوں کے پاس اپنا منہ لے  جا کر کہا اسے پکڑو عالی یہ آپ کے ہاتھوں میں آنے کو مچل رہا ہے اور ساتھ ہی اپنی زبان اس کے کان میں پھیرنے لگا وہ اب مچل اٹھی اور اس نے اب آگے سرک کر مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا
 
  اب میں نے عالیہ کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبوچا اور اپنی زبان اس مکے منھ میں ڈال دی  اور اپنی زبان کو اس کے منہ میں چاروں طرف گھمانے لگا  میں نے بار بار اپنی زبان اس کی زبان کے اوپر نیچے  کرنے  لگا اور ساتھ میں اب میرے ہاتھ اس کی چھاتی کو بھی مسل رہے تھے اب وہ بھی  بے ججھک  میرے لن کو اپنے ہاتھ میں لے کر مسل رہی تھی میں نے اب اور شدت سے اپنی زبان کو اس کے منہ میں پھیرا  اور  اب میں اس کے ہونٹ چوسنے لگا  زور زور سے  اب اس کی سانسیں تیز ہونے لگیں تھیں  اب وہ بیچین ہو کر تڑپ کے سسک اٹھی آہ آہ شارق ششسس اور اب اس کی آواز اتنی  تیز تھی کے کس کرتی ہوئی  صدف اور پری نے بھی ہماری طرف پلٹ کے دیکھا اب صدف نے پری سے کہا نیچے آ جاؤ  قالین پے یہاں ان  کو پیار کرنے دو اور پری کو ساتھ لے کر ساتھ والے صوفے  سے ٹیک لگا  بیٹھ گئیں دونوں  اب وہ دونوں ہی ہماری طرف دیکھ رہی   تھیں ،
 
  اب میںنے اتنا شدت سے چوسا عالی کے ہونٹوں کو کے وہ تڑپ کے بولی شارق میرا ہلک  سوکھ رہا ہے مجھے پانی دو پلیز  میں نے اب اپنا لعاب دہن (اپنا تھوک )اس کے منہ میں پھینکنا شروع کر دیا  وہ اسے اپنے ہلک سے نیچے اتارنے لگی  پھر اس نے کہا شارق مجھے اور پیار کرو اس کی آنکھیں بند تھیں مزے سے  اب میںنے اس کے آوپر آ کر اس کے مممے  کمیض کے آوپر سے ہی ان کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا  وہ اور بھی سسکنے لگی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق اور اپنے ہاتھ میری کمر  پے پھیرنے لگی   میں نے اب  کی بار اس کی کمیض  کو اس کے پیٹ سے آوپر اٹھایا اور اپنی زبان اس کے پیٹ پے رکھ دی  وہاں سے اب میں اپنی زبان سے چاٹنے لگا اف ف ف شارق میں  نے اب جیسے ہی اپنی زبان اس کی ناف میں ڈالی وہ ایک زور دار سسکاری کے ساتھ بولی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف ی اہ یاہ یاہ یاہ یا ہائے ہائے ہائے  شارق  اس کا پیٹ اب لرز رہا تھا اور میں اس کے سڈول پیٹ کو اپنی کھردری زبان سے خراج تحسین پیش کر رہا تھا وہ اب کانپ رہی تھی میںنے اب کی بار اس کی ناف کے چاروں طرف اپنی زبان سے اوپر کی طرف چاٹنا شروع کیا اور اپنی زبان ناف سے لے کر اس کی چھاتی کے نیچے تک جاتا وہ اب سسک کے بولی یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق اور میں نے اب اس کی کمیض کو  اس کی چھاتی سے آوپر کی طرف سرکا کے کر دیا اب میںنے اس کے چھتیس سائز کے مممے جو ایک سکن کلر  کے برزئیر میں قید تھے ان کو اوپر سے ہی چوسنا شروع کر دیا  وہ اب بےحال سی ہونے لگی میں نے اب اس کا ایک سائیڈ کا ممما باہر نکال کے   اس کی نپل کو اپنے ہونٹوں کے حوالے کیا اور اپنے ہونٹوں میں لے کر مسلنے لگا میرے ہونٹوں میں جاتے ہی جیسے ہی میری زبان کا لمس اس کی ننگی نپل کو لگا وہ ایک جھرجھری لے کر تڑپ گئی  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق  میں  بتا نہیں سکتی تمہاری زبان نے میرے اندر ایک آگ لگا دی ہے  شارق  آئی لو یو  جانو  امم م م م م سی  شارق  اف ف ف ف ف ف  کیا جادو ہے آپ کی زبان میں ہائے میری جان  میں مر گئی    
 
  اب میں نے اس کے دونوں مممے ہی ننگے کر دئیے اب اس نے تھوڑا سے اوپر ہوکر اپنی کمیض اور برا اتار دیا اب میں نے اس کے دونوں مممے اپنے ہاتھوں میں پکڑے اور ان کے درمیان والی جگہ پے اپنی زبان پھیرنے لگا  وہ اب اور بھی مچلنے لگی ابمیننے اس کے دونوں ممموں کو چوسا باری باری  اور اب اپنا ایک ہاتھ اس کی چوت پے رکھا اور ہلکے سے مسلہ وہ سسسسس کر اٹھی اب میں نے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈالا  اور اس کی چوت کو سہلانے لگا وہ تو اب جیسے مرنے والی ہو گئی تھی اس نے اب  بے ساختہ  میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور مسلنے لگی  میں نے اب اس کے نیپلز  کو باری باری سے چوس رہا تھا اور نیچے سے  اپنی انگلی اب اس کی چوت کے اندر داخل کی جیسے ہی انگلی اندر گئی وہ تو درد سے تڑپ اٹھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف ی اہ یاہ یاہ یاہ یا ہائے ہائے ہائے شارق بہت درد ہو رہا ہے میں مر جاؤں گئیں میں نے اب کہا جانو کچھ نہیں ہوتا اور اپنی انگلی سے اب اس کی چوت کا دانہ مسلنے لگا وہ دوبارہ سے سسکنے لگی  شارق  میں مر رہی ہوں میرا سار جسم آگ میں جل رہا ہےاف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق میری جان میرے اندر آگ  سی لگ گئی ہے اب کچھ کرو  اب میںنے اس کی شلوار اتاری اور اس کی ٹانگوں کے بیچ میں بیٹھ کے  اس کی ٹانگیں اٹھا کے اپنے کاندھے پے رکھ لیں اور اب اس کی چوت  میرے منہ کے سامنے تھی میں نے اب چوت کو اپنے منہ میں بھر لیا اور اپنی زبان  چوت میں ڈال دی وہ اب تو اتنا تڑپی اس نے مزے سے اپنا سر بار بارآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف ی اہ یاہ بیڈ پے پٹخنے  لگی وہ زور زور سے سر اٹھا کے نیچے تکیے پے مارتی شارق کچھ کرو  میں مر جاؤں گئیں   
 
  اب میںنے عالیہ کی چوت کے دانے کو اپنے ہونٹوں میں لے کر مسلہ اور دوبارہ سے زبان چوت میں ڈال کے گھمانے لگا اپنی زبان اب کی بار وہ زور زور سے چیخنے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق  اتنا مزہ ہائے مر گئی اور میں نے اب زبان سے ایک لمبا سا اندر کی طرف ہی ایک سٹروک لیا اس نے  تو چیخ چیخ کے کمرہ سر پے اٹھا لیا  اب صدف دوڑ کے آئی اور کہا شارق یہ آوازیں کوئی سن  نہ لے  میںنے کہا کوئی نہیں سنتا میرا کمرہ ساونڈ پروف ہے وہ اب بولی پھر ٹھیک ہے اب  کی بار عالیہ نے کہا صدف شارق سے کہو میں مر جاؤں گئیں اس مزے سے کچھ کرے میری آگ بجھا دے آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ  پلیز کوئی اسے کہے اب میں نے زور زور سے زبان اندر باہر کرنے لگا اور وہ بار بار چیختی پھر ایک لمبی دھار جیسی چیخ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م  کے ساتھ ہی وہ فارغ ہو گئی  اور لمبی لمبی سانس لینے لگی       
 
 
  اب کی بار پری نے کہا اف شارق تم نے کیا ،کیا ہے اس کے ساتھ یہ تو مرنے والی ہو رہی تھی اب عالیہ نے کنپٹی آواز میں کہا پری میں ابھی تک ایک عجیب سی لذت اپنے اندر دوڑتی ہوئی محسوس کر رہی ہوں ایک دفع تم بھی آؤ اور پھر خود ہی جان لو گئی اب صدف نے کہا نہیں  آج نہیں دو دن بعد شارق جب وہ کیس جیت کے آے گا تاب اس کی جیت کی خوشی میں پری شارق کو اپنی جوانی انعام میں دے گئی آج صرف تم انعام دو ایڈوانس میں اور اب عالی نے کہا ٹھیک ہے اور اب اس نے  میرا لن اپنے ہاتھ میں لیا  اور سہلانے لگی اب صدف نے کہا اسے باہر نکالو ہم بھی تو دیکھیں گ
ۓ کیسا مال ہے شارق کا اب عالیہ نے میری شلوار اتاری اور میرے انڈر ویر کو اتارنے کے بعد میرا لن دیکھ کر ڈر گئی  اف ف صدف اتنا بڑا نہیں میں مر جاؤں گے مجھ سے نہیں لیا جاۓ گا 
 
  اب پری نے بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھا  اور بولی شارق کتنا بڑا ہے تمہارا  اسے تو کوئی بھی لڑکی  لے کر مر جا
ۓ گئی اب کی بار صدف نے کہا تم دونوں ہی پاگل ہو  ایسا لن تو ہر لڑکی کی بہت بڑی خوائش ہوتا ہے اور تم دونوں پتا نہیں کیا بک رہی ھو  اب عالیہ نے کہا ہاں میںنے بھی سنا ہے ایک دو  لڑکیوں سے  ایسا ہی اور میرے لن کو اب اپنے منھ میں لے کر چوسنے لگی  اب  وہ مزے سے چوس رہی تھی اور میں اس کی چوت میں انگلی آندر باہر کر رہا تھا  پھر میں نے اسے نیچے لٹا کے اس کی ٹانگوں  میں بیٹھا اور اپنا لن اس کی چوت پے رکھا  اب میںنے کہا عالیہ پہلی بار درد ہو گا وہ بولی مجھے پتا ہے بس آپ پیار پیار سے آندر کریں میں نے اب اس کے آوپر لیٹ کر اس کے ہونٹ چوسنے لگا اور ہلکے سے اپنا لن آندر کیا اس کی آہ کی آواز نکلی اب میں نے اپنی ٹوپی آندر کی ایک ہلکا سا زور لگا کرآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق بہت درد ہو رہا ہے اب میں وہاں  ہی رکا اور اس کے   ہونٹ چوسنے لگا  ایک منٹ تک کوسنے کے بعد وہ بولی اب اور کرو میںنے پھر تھوڑا سا کیا اور اب اس سے آگے پردہ تھا اس کی چوت کا میںنے اب ایک ذرا سا زور کا دھکا دیا اس کی چوت کی رکاوٹ کو پھاڑتا ہوا میرا لن آگے گیا یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق وہ تڑپنے لگی   میں اس کے  ہونٹ چوسنے لگا یوں میں نے کوئی پانچ منٹ اس کے ہونٹ چوسے اور پھر ایک اور دھکا دیا اور میرا لن اب سارا  اس کی چوت میں تھا  وہ اب مچل رہی تھی ،
 
  اب پری  نے کہا عالیہ بہت درد ہو رہا  ہے نہ تو عالی نے کہا نہیں پری شارق نے اتنے پیار سے کیا ہے بس تھوڑا سا درد ہوا ہے اب کی بار صدف نے مجھے گھور  کے دیکھا  اور اپنا سر ہلا دیا اب میںنے آرام آرام سے عالیہ کی چوت میں دھکے لگانے شروع کے  اور وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی اب کوئی دو منٹ بعد وہ بولی شارق اب زور سے کرو  اب میں نے بھی بہت صبر کیا تھا اور یہ سب میں نے پری کی وجہ سے کیا تھا  اتنا آرام سے کے اس کا ڈر دوڑ ہو جا
ۓ اب کی بار میں نے اپنی فطرت سے مجبور ہو کر زور دار دھکوں  سے اسے چودنا شروع کر دیا
 
  اب وہ تڑپنےلگی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میں نے اب اس کے منہ کو اپنے منہ سے بند کر دیا اور اس کی چوت میں زور دار دھکوں کی مشین چلا دی  وہ تڑپ رہی تھی  مچل رہی تھی لیکن اب میں نے اسے خوب کس لیا تھا اس کے منہ  سے اب آوں آوں کی آواز نکل رہی تھی، اپنی طرف سے وہ زور زور سے چیخ رہی تھی درد سے برا حال تھا اس کا لیکن میرے ہونٹوں کا قبضہ تھا اس کے ہونٹوں پے سو بس یہی آواز نکل رہی تھی اب میں نے دیکھا وہ مچل رہی  ہے اور اس نے میری کمر پے اپنے ناخن گھونپ دیے ہیں میں سمجھ گیا وہ فارغ ہو گئی ہے میں نے اب کی بار ہلکے ہلکے دھکے مرے اور کس جاری رکھی اب جب میں نے دیکھا اب اسے کوئی درد نہیں ہے تو اپنے ہونٹ اٹھا لئے وہ اب مجھے ایک شوخ نظر سے دیکھ کے بولی آئی لو یو ظالم  اور مجھے دوبارہ سے چومنے لگی  پھر کوئی تین چار دھکوں کے بعد میں بھی اس کی چوت میں ہی فارغ ہو گیا
 
    اور اس نے اب مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور  میری گردن  پے چومنے لگی ہم کوئی دو منٹ ایسے ہی ایک دوسرے سے لپٹے رہے پھر  میں اٹھا اور واش روم کی طرف چل دیا  میرے پیچھے ہی صدف بھی آ گئی اور کہا یو چیٹر  آئی  کل یو مجھے  تو اتنی بیدردی سے چودا اور آج  اس کو یوں کھود رہے تھے جیسے وہ دکھ رہی ہے میں نے کہا یار سمجھا کرو  میں صرف پری کی وجہ سے ایسا کر رہا تھا ، وہ میری بات سمجھ گئی اور کہا تم واقعی  میں بہت تیز ھو اور مجھے ہونٹوں پے کس کیا میرا جسم  اپنے ہاتھوں سے دھویا اور صاف کیا  پھر میں باہر آ گیا  اور اپنے کپڑے پہن لئے اب عالیہ آندر گئی واش روم صدف آندر ہی تھی  پری میری طرف بھی دیکھ رہی تھی اور جب میں دیکھتا شرما کے نظر نیچی کر لیٹی  میں نے اب اس  کے پاس گیا اور کہا پری آئی لو یو آپ مجھے بہت اچھی لگی ہیں اور ساتھ ہی اس کے ہونٹ چوم لئے
 
  وہ بولی شارق بہت درد ہوا ہے  عالیہ کو  وعدہ کرو مجھے ایک پھول کی طرح سمجھ کے پیار کرو گ
ۓ میں سب جانتی ہوں  تم نے اس کا منہ دبا کے اسے بیدردی سے پیار کیا ہے  اور میں اکیلے میں پیار کروں گئی پلیز میری خاطر  اس کی آنکہ سے ایک آنسو نکلا  جسے میں نے اپنے ہونٹوں سے چن لیا اور کہا  وعدہ آپ سے گھر سے باہر ملوں گا اور اکیلے میں وہ خوش ہو گئی اب میں اٹھا اور صوفے پے بیٹھ گیا اب آندر سے عالیہ اور صدف باہر نکلیں اور اپنے کپڑے پہنے عالیہ نے  اب صدف نے کہا اب چلو اپنے کمرے میں تھوڑی دیر میں دن نکل آے گا اور وہ تینوں مجھے باری باری کس کر کے چلی گئیں میں نے بیڈ کی چادر کو ایک طرف اکٹھا کر کے  رکھا اور آرام سے سو گیا ،

part 20
 
  آج میں ذرا سکون سے اٹھا  کیوں کے مجھے آج کسی کیس کی  پیروی  تو کرنی نہیں تھی بس آج کا دن  تو الیکشن میں ہی  گزرنا تھا  سو میں کوئی گیارہ بجے کے قریب اٹھا  اور تیار ہو کر میں  نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا  اور کورٹ کی طرف  چل دیا  میں جیسے ہی بار روم میں انٹر ہوا  مجھے دیکھتے ہی رضوان بٹ نے کہا ویلکم  صدر صاحب  اور پھر ہم نے مل کر ایک   دوسرے کو مبارکباد  دی آج نوٹیفیکشن  جاری ہو گیا تھا  اب میں اس بار کا صدر تھا اب ریحانہ نے کہا شارق  اب  آپ ایک  پارٹی  کا بندوبست کرو  اب نصرت بھائی نے کہا کل شارق کی ہائی کورٹ میں ڈیٹ ہے وہاں سے فارغ ہو کر کچھ سوچیں گ
ۓ  میں نے کہا بھائی جان  کل کا ٹائم دے دیں سب کو  اب بھی نے کہا او کے  اور کہا کل آشیانے  میں ایک پارٹی ہو گئی  سب دوست آئیں  اب رضوان نے کہا اس پارٹی کی سب تیاری کر لیں  کیوں کے  کل سب نے ہی کچھ نہ کچھ  سنانا  ہو گا  اب سارے ہی بہت خوش تھے  پھر ہم کو  بارے جج صاحب  کے بارے میں پتا چلا وہ آنے ہی والی ہیں ہم سب نے اب ان کے استقبال  کے لئے تیار ہو گۓ  پھر سینئر  جج صاحب  اپنے ساتھ سارے جج حضرات کو لئے  اندر داخل ہوے مجھے سب نے باری باری مبارک دی اور سٹیج  پے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اب بھائی امجد کو بھی ان کے ساتھی ججوں نے  مبارک دی  سارا دن اسی مصروفیت میں گزر گیا  پھر کوئی شام  کے وقت ہی ہم  فری ہوے اور میں اب گھر چلا آیا  گھر میں آ  کر  میں نے سب سے گپ شپ لگائی  اب صدف  نے کہا لگتا ہے وکیل صاحب کل کے کیس  کے بارے میں سوچ رہے ہیں  ،
 
  میں نے کہا نہیں یار  ایسا کوئی مسلہ نہیں  ویسے ہی   ذرا چپ ہوں  اب سب نے ملکر ہلا گلا کیا  لڑکیوں نے پھر میں سب سے اجازت لے کر  اپنے کمرے میں آ گیا اور میں نے  اب دروازہ بند کیا اور  اپنے بد پے لیٹ گیا مجھے آج کافی زوروں کی نیند آ رہی تھی  میں تھوڑی دیر میں ہی سو گیا اگلے دن  میں کافی ٹائم سے اٹھا  میں تیار ہو کر جب باہر آیا تو میں حیران رہ گیا  ڈیڈی اور نواب سلطان  اور نواب  شرافت  اپنی اپنی گاڑیوں میں تیار تھے جانے کے لئے میں نے بھی اپنی گاری نکالی اور ہائی کورٹ کی طرف نکل گیا
  میں نے عدالت عالیہ (ہائی کورٹ کو عدالت عالیہ بھی کہتے ہیں ) میں پہنچ  کر  اپنی فائل  کو گاڑی سے نکالا ہی تھا    کے میرے ساتھ ہی عاشق گنجانہ کی گاڑی آ رکی  وہ مجھے دیکھ کر بولا  او برخودار  لگتا ہے خوب تیاری سے آے ھو  میں نے کہا ابھی کچھ ہی دیر میں آپ کو پتا چل جا
ۓ گا  میری تیاری کا  بیرسٹر  صاحب  وہ اب بولا  ارے چھوڑو میاں کیسی تیاری اور کیسا پتا  آج میں نے وارثی کو  بری کرا کے لے  جانا ہے  تم نے دور کمال کا نام لے کر بہت بڑی غلطی کی ہے بچے  بیشک تم نے اشاروں میں  نام لیا ہے  لیکن ایک  بہت  غلط آدمی کو چھیڑ بیٹھے  ھو  میں نے اب کی بار ہنس کے کہا میں نے  ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کو چھیڑا  ہے  عاشق صاحب  اور اپنی فائل لے کر اندر کی طرف چل دیا ،
 
  ابھی  میں اپنی کار سے تھوڑا سا ہی دور گیا تھا کے پیچھے سے مجھے ظفری نے آواز دی   میں نے روک کے اس کی طرف دیکھا اس کے ہاتھ میں ایک بند لفافہ  تھا  اس نے کہا باس  آپ کے لئے ایک بہت   ہی کام کی چیز ہیں اس میں اور مجھے بتانے  لگا  پھر اس لفافے  میں بند چیزوں کے بارے میں جان کر میں تو خوشی  سے  جھوم سا اٹھا وہ بولا باس آج میں نے خصوصی  بندوبست کیا ہے  کیوں کے مجھے پاتا ہے آج وہ آپ پے وار  کرنے کی کوشش کریں گے  میں نے کہا ظفری یہ سب کہاں سے حاصل کیا تم نے وہ بولا باس بھاری  قیمت پے میں نے  داور کمال کا ایک خاص بندہ توڑ لیا ہے یہ سب اسی نے مجھے دیا ہے  اب میں نے  کہا چلو ٹھیک ہے اور میں اب کمرہ عدالت کی طرف چل دیا  اب  وہاں پے مجھ سے ڈیڈی  لوگ ملے وہ بولے  کہاں رہ  گے تھے تم  میں نے کہا ایک کام تھا ڈیڈی اور ان سب کے ساتھ اندر احاطہ  عدالت میں داخل ہوا  اب ہم سب چیف جسٹس  صاحب کی   عدالت  میں داخل ہوے یہاں تو ویسے ہی سیکورٹی کا خاص بندوبست ہوتا تھا  لیکن آج تو جگہ جگہ  پولیس کے  کمانڈوز کھڑے تھے  نواب شرافت نے کہا اتنی سخت  سیکورٹی  آج کوئی اور خاص  بندہ بھی آنے والا ہے کیا  پھر بعد میں ہم کو پتا چلا  کے آج اس کیس میں داور کمال کے ساتھ کوئی تین وفاقی منسٹر  صاحبان  تشریف لے کر اے تھے   پھر آھستہ آھستہ  کمرے میں  پریس  رپورٹر  آنے لگے اپنے کیمرے لئے  اب میں سمجھ گیا آج کچھ خاص ہی اہتمام کیا ہے  داور کمال نے  
 
  اب کمرے میں دو ایسے چہرے دخل ہوے جن کو میں نے بس ٹی -وی  یا اخباروں میں ہی دیکھا تھا  وہ بہت چوٹی کے وکیل تھے  ان میں سے ایک راجا ظفر  اور ایک چودھری  اعجاز صاحب تھے  وہ سب ہی عاشق گنجانہ کے پاس ہی بیٹھے راجہ ظفر تو ایک سابقہ چیف جسٹس  بھی تھا ہائی کورٹ  کا  اور آج کل وہ وہی کیس لیتا تھا جن کو کوئی بھی ہاتھ نہ لگاتا ھو جو ناممکن سے ہوں اس کی فیس ہی اتنی زیادہ ہوتی تھی  اچھے اچھے امیر لوگ بھی اسے نہیں افورڈ کر پاتے  تھے  اب کمرے میں داور کمال  اور ساتھ میں تین منسٹر  داخل ہوے  اب پریس والے سب کی فلم بنا رہے تھے ،
  وہ سب  ایک ساتھ ہی بیٹھے تھے   پھر چیف جسٹس  صاحب اپنے ساتھ تین اور جسٹس صاحبان کے ساتھ  پیچھے والے دروازے سے اندر داخل ہوے سب ہی اب کھڑے ہو گے اپنی جگہ سے  چیف صاحب اور ساتھ والے تینوں جسٹس  جن میں جسٹس نیامت خان صاحب ،جسٹس ذولفقار صاحب ،جسٹس اظہر صاحب  تھے  اب کیس کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے  چیف صاحب نے کمرہ عدالت میں ایک نظر ڈالی اور پھر راجہ صاحب  نے اور چیف صاحب نے ایک دوسرے کو  سلام کیا  اب کاروائی کی اجازت ملتے ہی  عاشق گنجانہ نے کہا جناب اس کیس میں ایک عزت دار شخص کو پولیس نے ذاتی اند کی وجہ  سے ایک جھوٹے قتل کے کیس میں پھنسا دیا ہے  جس کو سیشن کورٹ سے موت کی سزا  کے بعد جناب کے پاس اپیل کی گئی تھی ، اب کی بار چیف جسٹس  صاحب نے سوال کیا  بیرسٹر صاحب  کس کے ساتھ ذاتی  عناد تھا  ملزم کا کسی ایک پولیس افسر سے  یا پورے  مکمے سے  اب کی بار عاشق گنجانہ  خاموش ہی رہا   اب یہ دیکھ کر  راجا ظفر اپنی جگہ سے اٹھا  اس نے  ایک  فائل  پیش کی  چیف صاحب کو اور کہا جناب میں ملزم  وارثی کا وکیل ہوں  اور عاشق سے کہا آپ بیٹھ جایئں جا کر  اب چیف صاحب نے کہا جی راجا صاحب  آپ بولیں  اب راجہ صاحب نے کہا  یو آنرز  یہ سب ایک ٹوپی ڈرامہ  ہے  جس میں  علاقہ انچارج نے  ذاتی رنجش کی بنا پے میرے موکل  کو پھنسا لیا ہے   میں علاقہ ایس ایچ  او  سے سوال کرنا چاہتا    ہوں  اب  علاقہ  ایس ایچ او  عدالت کے کٹہرے میں آ گیا  راجہ ظفر نے اسے دیکھتے ہی سوال کیا  آپ کا نام وہ بولا تنویر چودھری    راجہ صاحب نے کہا تو مسٹر  تنویر آپ نے کس کے کہنے پے وارثی کو اس کیس میں پھنسایا   تو تنویر نے کہا  سر وہ ایک عادی ملزم  ہے ہم کو کیا ضرورت تھی اسے پھنسانے کی اس کے خلاف ٹھوس  ثبوت ہیں  جن کی وجہ سے اس کو سزا ملی ہے  میرا کسی بھی مجرم سے کوئی ذاتی عناد   نہیں ہوتا جناب   میں نے  اپنی نوکری کو  ایک مقدس  پیشہ سمجھ کے چنا ہے  میں حلف دیتا ہوں میں نے اس کیس میں حق اور سچ  کیا ہے  اب  راجہ ظفر نے کہا ٹھیک ہے جو تم  اور کہا میں اب دونوں  موقع کے گواہوں سے بھی کچھ بوچھنا  چاہوں گا  یور آنرز  اب چیف صاحب نے اجازت دے دی
 
    اس نے پہلے گواہ  شبیر  سے سوال کئے  ہاں تو مسٹر  شبیر آپ مقتول جمیل  کے ساتھ بنک میں جاب  کرتے تھے   اور آپ نے  جو بیان دیا ہے  اس میں  یہ تو پتا چلا  کے  مقتول کو وارثی نے اغوا کیا بقول آپ کے لیکن اسے مارا  کس نے  آپ نے اسے  مارتے ہوے دیکھا  تھا وارثی کو  وہ بولا نہیں جناب  میں نے یرہ نہیں کہا تھا میری آنکھوں کے سامنے مارا ہے اس نے  راجہ ظفر نے کہا  شبیر صاحب گواہی  آنکھ اور کان دونوں کی ہوتی ہے  نہ آپ کی آنکھوں نے دیکھا  نہ آپ کے کانوں نے سنا  پھر کیسے  یہ قاتل بنا گیا  آپ نے جو  گواہی دی ہے وہ جھوٹی ہے  آپ جا سکتے ہیں  اب  اس نے دوسرے گواہ  پان  شاپ والے  اکرم   سے پوچھا  آپ نے آج  عینک  لگا  رکھی  ہے  کیا یہ نظر کی ہے  وہ بولا نہیں جناب یہ میری آنکھوں میں کل  کچھ پڑھ گیا تھا اسس لئے لگائی ہے  اب راجہ ظفر نے کہا آپ نے وارثی کو گن پوانٹ  پے مقتول کو لے جاتے دیکھا  اور اس کی کار کی نشانیاں بھی یاد رکھ لیں  حتی   کے اس کے پاس  ایسی کوئی کار ہی نہیں ہے  آپ نے جھوٹ بولا تھا  اب وہ  جناب کیوں نہیں تھی کار میں نے ہی نہیں سارے ٹاون نے  کوئی  بیس دفع دیکھی ہو گئی  اور جناب ابھی کل ہی اس کے ناظم بھائی نے وہ گاڑی بیچی ہے  ملک  اقبال  کو   آپ اس کے بھائی سے پوچھ لیں وہ بیٹھا ہے اب کی بار عدالت میں بیٹھے  لوگ ہلکا سا ہنس دیے اس کے  جواب  پے  اب راجہ نے کہا تم کو ساری  باتیں  وکیل نے سمجھائی ہیں  تم  سچ بولو   اب میں نے   کہا جناب راجہ صاحب اب میرے گواہ کو  گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں   راجا   میری طرف  دیکھ کر بولا  برخودار  مجھے  وکالت سے عشق ہے  آور  مجھے لوگ عاشق  کہتے ہیں  کسی  لڑکی کا نہیں بلکے  قانون کا   اور تمہارے  منہ سے ابھی تک دودھ کی بو آ رہی ہے  تم مجھے ٹوک رہے ھو  میں نے اب  ان کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا  راجہ صاحب  اب تک میں نے آپ کو نہیں ٹوکا آپ نے ہر گواہ اور پولیس والے کو اپنی مرضی سے  اپنے موقف سے ہٹانے کی کافی کوشش کی ہے  لیکن  آپ کامیاب نہیں ہو پے  بیشک آپ ایک  قابل  وکیل  ہوں گے لیکن  سچ کا بھی اپنا ہی ایک رنگ ہوتا ہے
 
  اور  نہ تو کسی کی کوئی ذاتی  رنجش تھی اس ملزم سے اور نہ ہی  کوئی عناد   اب کی بار  راجہ نے کہا تم نے  ایک معزز   شخص  پے کیچڑ  اچھالا تھا  ابھی تم سے  وہ بھی حساب بے باک کرنا ہے ہتک  عزت کا دعوا دائر کر  کے  میں  نے کہا  میری نظر میں  اس وطن  میں  ایک گٹر  صاف کرنے والا  جو محب  وطن ھو معزز ہے  میں کسی غدار کو  ایک کتے سے زیادہ حثیت  نہیں دیتا  اب تو راجہ نے سانپ کی طرح   پھنکارتے  ہووے کہا  تم نے ایک بے گناہ کو پھانسی تک  پہنچا دیا ہے  اور اسے اور  داور کمال صاحب کو غدار  تک کہ رہے ھو  اپنے الفاظ کی معافی مانگو  اب کی بار  جسٹس اظہر  نے کہا  آپ ہم سے بات کریں شارق  صاحب ایک دوسرے سے نہیں  آپ اس وقت عدالت  عالیہ میں کھڑے ہیں کسی  علاقہ  مجسٹریٹ  کے سامنے نہیں  میں سمجھ گیا یہ ان کا ہی حمایتی  ہے میںنے بھی  کہا جناب عالی  مجھے پتا ہے  اور میں نے جو بھی کہا   ہے اس کا  میرے پاس ثبوت ہے  اب میں عدالت  عالیہ  سے  ایک درخواست کروں گا  یہاں ایک  ٹی وی  اور وی سی آر  کا بندو بست کیا جا
ۓ اسی جسٹس نے دوبارہ سے کہا کیوں آپ نے عدالت کو سینما  گھر سمجھا ہوا ہے  اب کی بار میں نے کہا  جناب   آپ بار بار طنز کر رہے ہیں  اگر میں عدالت عالیہ میں کھڑا ہوں تو آپ بھی  کسی تھرڈ کلاس  وکیل سے بات نہیں کر رہے  میں بار صدر  ہوں   اب کی بار  ایک دوسرے  جسٹس  نے کہا یہاں مجود ہیں سب آپ پہلے  بات  پوری کریں  میں نے اب وہی لفافہ  لیا فاروقی صاحب سے اور اس میں سے تصویریں  نکال کر ان کے ریڈر کے سامنے رکھے  اس نے وہ سب  جسٹس حضرات کو دیے وہ دیکھنے لگے  پھر چیف  جسٹس نے کہا  یہ تصویریں  فیک  بھی ہو سکتی ہیں  میں نے کہا جناب  اب میں  ایک اور  ثبوت پیش کرتا ہوں  جو کانوں اور آنکھوں  والا ہو گا  کیوں کے راجہ صاحب کان اور آنکھ دونوں کی گواہی مانتے ہیں  میری بات سن کے وہ  غصے سے کھول کر رہ گیا  اب میں نے وہ فلم نکالی  اور  نائب کورٹ سے کہا اسے چلو  اس نے اسے   وی سی آر میں ڈالا اور  سامنے ہی  ایک  دیوار  پے  لگی باری سی  سکرین  روشن ہو گئی اب اس میں  ایک کمرے کا منظر تھا جس میں داور کمال  اور تین  لوگوں کے ساتھ بیٹھا  کہا رہا تھا اگر وہ آدمی پکڑا نہ گیا تو بہت برا مسلہ بن جاۓ گا  پھر اسی وقت وارثی اس کمرے میں داخل ہوا  اور اسے دیکھتے ہی داور کمال نے کہا کتے کے بچے ابھی تک تم ایک معمولی  سے  بنک  کی جاب کرنے والے اس جمیل سے  ساری بات نہیں اگلوا  سکے  مجھے ہر حال میں آج وہ  فائل اور تصویریں  چاہیے  ورنہ میں تم  پر بھوکے کتے  چور دوں گا اس حرامی کو  اتنا مارو وہ  جمیل سب سچ بتا دے  اسی کو  دیے ہیں وہ ثبوت اس نے اب وارثی کی آواز تھی وو بولا باس آج رات تک آپ کو  کامیابی کی خبر ملے گی
 
  یہ  فلم دیکھ کر تو داور کمال کا رنگ ہی  اڑ  گیا  اب راجہ ظفر بھی کچھ سوچ رہا تھا پھر وہ بولا یہ سب   فیک ہے  میں نے کہا میں  جناب  آپ آواز اور شکل کے بارے  کسی  بھی  ایکسپرٹ  سے  پروف لے سکتے  ہیں  اور راجہ صاحب  ہم آپ کی طرح  ماہر وکیل تو نہیں ہیں  بس اتنا ہی کہیں گے آپ کو  آپ ہوں گے عاشق  اپنی جگہ
 
  کتابیں عشق کی پڑھ کر ناسمجھو  خود کو عاشق تم
  یہ  دل کا کام  ہے دل والوں کو کرنے دو تو اچھا ہے
 
  میرا یہ شعر سن کے تو ایک دفع سب ہی ہنس دیے  اب کی بار جسٹس اظہر نے ہی کہا  یار آپ کمال کے وکیل ہیں  راجہ ظفر تو جیسے مر ہی گیا تھا  اب سب جسٹس حضرات نے آپس میں  صلاح مشورہ  کرنے کے بعد متفقہ  فیصلہ  سنایا  ملزم  وارث  عرف  وارثی کی موت کی سزا بحال رکھی جاتی ہے  اور  ہم سب کو خوشی ہے  ایک وکیلوں  کی صف  میں ایک سچے اور بہادر  وکیل  کا اضافہ  ہوا ہے  اب   چیف جسٹس  اور دوسرے  جسٹس حضرات  تو پیچھے والے کمرے میں چلے گ
ۓ مجھے داور کمال نے خونی نظروں سے دیکھا اور کہا  تم کو بڑا شوق  ہے  یہ سب  چکر بازی  کرنے  کا    میں آج ہی دیکھ لوں گا تم کو  اور باہر نکل گیا  ہم سب ہی اب کمرہ عدالت  سے باہر  آ گۓ  اب تو مجھے وکیلوں نے اور   پریس کے  روپرٹرز  نے  گھیر لیا  اب سب ہی کوئی نہ کوئی سوال کر رہے تھے  میں نے کہا دوستوں میں   بس اتنا کہوں گا  ہمیشہ سچ کا ساتھ دیں  سچ کی اپنی ہی  خوشبو ہے  جو آپ کو  مسحور کر دیتی ہے  اور میں بس  سچائی  کا پوجاری ہوں    میں سب سے یہی کہوں گا بس  کوئی جس جگہ بھی ہے کسی بھی فیلڈ میں  ہے سچ کا ساتھ دے  اور پھر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا
 
  اب میرے  ساتھ ہی   ڈیڈی اور نواب سلطان اور نواب شرافت  میری ہی گاڑی میں بیٹھ گ
ۓ ان کی گاڑیاں اب ڈرائیورز   پیچھے  لے   آنے لگے  اب کی بار ڈیڈی نے کہا بیٹا میں بتا نہیں سکتا کتنا خوش ہوں  آج  اب نواب سلطان اور شرافت  نے بھی مجھے   داد دی اور کہا  یار کمال  کا بولتے ھو تم  اس وقت مجھے بڑا پیر آیا اپنے  بیٹے پے جب آپ نے جسٹس  اظہر کو  چپ  کرا دیا تھا  وہ ان کی صاف سائیڈ لے رہا تھا  میں نے کہا  انکل  مجھے اس سے کوئی  فرق نہیں پڑھ  سکتا تھا کیوں کیمین پہلے ہی  چیف صاحب کو ساری بات بتا چکا تھا میری یہ بات سن کے وہ سب ہی چونگ  گۓ  اب کی بار ڈیڈی نے کہا   آپ کب ملے ان سے  میں نے کہا  پاپا  داور کمال کے پیچھے میں نے آئی ایس آئی  کولگا دیا ہے  اور  ان کے چیف کی  معرفت  سے ہی بات ہوئی  تھی  اب سب ہی سمجھ گۓ  ابھی ہم نے اپنے گھر  کی طرف جانے  والا موڑ مڑا ہی تھا  کے اچانک   سامنے سے  روڈ کو ایک ٹرک نے  بند کرنا چاہا  اب   میں سمجھ گیا کھیل شروع  ہو گیا ہے میں نے کہا ڈیڈی آپ اور انکل آپ لوگ  نیچے سر کر لیں جلدی سے  وہ کچھ نہ سمجھے  اسی وقت اس ٹرک کی چھت سے   تین آدمی کھڑے ہوے اور ہماری طرف اپنی گنوں کا رخ کیا ہی تھا  کے اسی وقت   پیچھے سے ایک  جیپ  سے  ظفری نے ان پے فائرنگ  کی  وہ تینوں ہی گولیاں  کھا کر  گر  گۓ  اب ان کو گرتے دیکھ کر  ٹرک سے  کوئی پانچ لوگ  باہر آے  ظفری اس وقت تک  اپنی جیپ  میرے آگے لے آیا تھا  اب کی بار اس کی جیپ سے ایک ساتھ  پانچ  گنیں چلیں  اور سامنے والے سڑک پے ہی گر گۓ
 
  اب ظفری  کے ساتھ ہی تین لوگ نیچے اترے اور ٹرک کی طرف دوڑے ٹرک  کا ڈرائیور  اب اسے  سٹارٹ  کر ہی رہا تھا  ظفری نے اسے پکڑ لیا   اور ایک طرف کرنے کو کہا ٹرک کو  اب ہمارے لئے  راستہ بن گیا تھا  وہ  اب میری طرف آیا اور کہا باس آپ لوگ جاؤ  پھر میںنے اپنی گاڑی  کو آگے بڑھا دیا   اور میرے پیچھے ہی باقی گاڑیاں بھی آگے بڑھ آئیں اب گھر آ  کر  مجھے دیکھنے لگے  نواب سلطان اور  نواب شرافت  اب نواب نے ٹہلنا شروع کیا  اور کہا باس آپ جایئں اب  یہ  ہے کیا بلا یار   مجھے ابھی تک شارق کی سمجھ نہیں آ رہی  اتنے میں گھر کی خواتین کو بھی خبر مل گئی تھی مجھ پے حملے کی  وہ سب بھی بھاگی چلی آئیں ڈیڈی کے کمرے میں  اب کی بار لالارخ نے  مجھے اپنے ساتھ لپٹا کے کہا میرا بھائی    آپ کو کوئی چوٹ تو نہیں لگی نہ  اب اس کا  یہ والہانہ پن  اور پیار دیکھ کر  صدف لوگ تو حیران  رہ گ
ۓ  اب والدہ صحابہ نے میرا ماتح چوما اور کہا نہیں پگلی  تیرے  بھائی کو  خدا نے اپنی مان میں رکھا ہے  میں تو ماں ہوں  میرے علاوہ  بھی اس وطن عزیز  کی  سب ماؤں کی دعائیں ہیں میرے بیٹے کے ساتھ  کیوں کے یہ  ظلم  کے خلاف  لڑ رہا ہے ،
  اب نواز شرافت نے کہا ہاں بھابھی   آج مجھے  سمجھ آئی  ہے  جن بیٹوں کی مائیں اتنی حوصلہ مند ہوتی  ہیں  ان کے بیٹے ہی  میدان  کے  شیر  ہوتے ہیں  اب نواب  سلطان نے کہا  یار میری بات ابھی وہاں ہی ہے  وہ سب کیا تماشا تھا  اب ڈیڈی نہ کہا  سلطان شارق نے اپنے ساتھ اپنے محافظ  بھی رکھے ہوے ہیں   وہ بولا اچھا  چلو  چھوڑو اب اس بات کو  آج ایک ایسی  شاندار  پارٹی  کا اہتمام کرو  کے جی خوش ہو جا
ۓ  اب کی بار  بھائی نے  کہا انکل  ایسا ہی ہوگا   اور پھر  بھائی نصرت  اور رضوان  بٹ  اپنے ساتھ  اپنے ساتھی وکیلوں کو لے کر  تیاری میں لگ گۓ  ان کو بھی آتے ھوے کال کر دی تھی بھائی نصرت نے وہ  ھمارے  آنے سے پہلے ہی آ گۓ تھے  اور بھائی امجد کے ساتھ بیٹھے تھے لان میں
 
  فنکشن  رات کا تھا اسی لئے ابھی کافی وقت تھا میں اپنے روم میں چلا گیا  کچھ ہی دیر میں پری اندر آئی اور مجھے مبارک دی میں نے کہا پری آج میں آپ کو اوٹنگ پے لے جانا چاہتا ہوں وہ بولی شارق  میں ابھی جا رہی ہوں باہر میں اپ کا ویٹ کروں گئی باہر روڈ پے اور وہ چلی گئی اب میں بھی اٹھا  اور اپنی گاڑی کی طرف  بڑھا ہی تھا کے مجھے رضواںبٹ نے آواز دی اور کہا سر میرے انکل نے کال کی تھی وہ بھی آ رہے ہیں آج رات کو وہ کچھ ہی دیر میں یہاں ہوں گے میں نے کہا ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں اب میں نے اپنی گاڑی  گھر  سے باہر نکالی اور میں ابھی تھوڑا سا ہی آگے گیا تھا  ایک سائیڈ پے پر ماجود تھی  اپنی گاڑی میں  اب وہ بولی آپ میری گاڑی میں آ جاؤ میں نے  اپنی گاڑی اب ایک شاپنگ سنٹر کی پارکنگ میں کھڑی کی اور پری کے ساتھ بیٹھ گیا میں نے کہا چلو آج سٹی سے باہر چلتے ہیں  وہ بولی نہیں شارق کسی ہوٹل میں چلیں اب میںنے اسے اپنے فلیٹ کا بتایا وہ بولی ہاں وہ سہی ہے
 
  فیلٹ میں آ کر میں نے اسے ڈرائنگ روم میں صوفے  پے بیٹھنے  کو کہا اور کہا میں تمہارے لئے چا
ۓ بنا  کے لاتا ہوں وہ   میرے ساتھ ہی آ گئی کچن میں اور خود  چاۓ بنانے لگی میں اس کے پاس ہی کھڑا ہو گیا وہ  کالے رنگ کے لباس میں تھی اس کا یہ فٹنگ والا سوٹ اسے بہت  پیارا لگ رہا تھا وہ اس لباس میں جگمگا رہی تھی پری واقعی پریوں جیسا ہی حسن رکھتی تھی وہ دراز قد لڑکی تھی جس کے مممے چھتیس  اور کمر اٹھائیس تھی کمر سے نیچے آ کر اس کے کولہے کافی بھاری تھے وہ  کوئی چھتیس سائز کے ہوں گے 36 ، 28 ،36 میں اسے کافی غور سے دیکھ رہا تھا وو بولی شارق  کیا دیکھ رہے ہیں میں نے کہا آپ کی جوانی وہ  شرما گی اب ہم واپس کمرے میں آے اور چاۓ پینے لگے ساتھ میں کچھ بیکری کا سامان بھی کھا رہے تھے  جو ہم نے آتے ہوے راستے سے لیا تھا
  میں نے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کےسہلانے  لگا وہ  بولی شارق آپ بہت  اچھے ہیں میں آپ کو بہت  پسند کرتی ہوں میں نے کہا سچی وہ  میرے پاس آئی  اور میرے ہونٹوں پے کس کر کے کہا مچی  اور کھلکھلا کر ہنس دی میں نے اب اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے رس بھرے ہونٹوں کو اپنی پکڑ میں لے لیا میرے ہونٹ اب اس کی ہونٹوں کو اپنے اندر ساماے ہوے تھے میں اس کے نچلے ہونٹ کو بیتابی سے چوم رہا تھا اب اس نے مجھے بھی اپنی بانہوں  میں جکڑ لیا میں اس کی کمر پے ہاتھ بھی پھیر رہا تھا اور ساتھ میں اس کے ہونٹ بھی چوس رہا تھا
 
  اب میرے ہاتھوں نے اس کے بھرےبھرے  ممموں کو اپنے قبضے میں کیا میں اس کی چوچیاں مسل رہا تھا اب پری بہت  گرم ہو گئی تھی   اس کی آنکھوں میں اب لال ڈورے سے نظر آنے لگے  میں نے کوئی پندرہ منٹ تک اس کے ہونٹوں کا رس پیا  ساتھ ساتھ اسے کے مممے بھی دبا رہا تھا وو اب تڑپ رہی تھی میںنے اس کی کمر سے قمیض کی زپ نیچے کی اور اس کی قمیض آتاردی اب اس کے مممے ایک سکن کلر کے برازیئر میں  تھے میں نے اب اسی کی برا بھی اتارپھینکی اب میںنے اسے اپنے ساتھ ایک صوفے پے بیٹھا کے  اس کی نپل کو منہ میں نے کر چوسنے لگا اور دوسری سائیڈ والی نپل  کو اپنے ہاتھ کی انگلیوںمیں لے کر مسلنے لگا وو اب مزے سے سسکاریاں بھر رہی تھی سسسسسسسسسسس شارق پلز کچھ کرو میرے اندر سب جل رہا ہے  میں نے اس کی بات پے کوئی دھیان نا دیا اور اسے چومتا رہا اب میرا ہاتھ آھستہ آہستہ اس کی شلوار کی جانب جا رہا تھا اس نے لاسٹک والی شلوار پہنی تھی میرا ہاتھ آسانی سے اندر چلا گیا اس کی پھدھی آگ کی طرح تپ رہی تھی
 
  میں نے اب اپنی انگلی سے اس کی چوت  کا دانہ مسلنے لگی  اب کے وہ  تڑپ تڑپ کے نیچے گر رہی تھی شارق کچھ کرو نا پلیز میں نے کہا کیا کروں وہ  بولی اپنا اس کے اندر ڈال دو میںنے کہا اس کا کیا نام ہے وہ  بولی مجھے نہیں پتا  میں نے کہا جب تک تم اپنے منہ سے نہی  بتاؤ گی میں کچھ  نہی کروں گا اور دوبارہ سے اس کے مممے چوسنے لگا وو اب اتنا بیتاب ہو رہی تھی اس کے منہ سے اب چیخیں نکل رہی تھی  اہھھھھھہ  افففف سسسس جانو مت ترپاؤ میں مر جاؤں گی  اور پھر وہ  اپنے آپ سے بیگانہ ہو گی اس نے مجھے اپنے نیچے کر لیا کروٹ بدل کر اور میری پینٹ اتارنے لگی  بعد میرا انڈر ویر بھی خود ہی اتارا  اب وہ  میرے  لن کو پیار سے دیکھ رہی تھی پھر اس نے خود ہی اسے اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع  کر دیا اب وہ  میرے لن کو آئسکریم کی طرح  چاٹ اور چوس رہی تھی مجھے اب مزہ آنے  لگا میں اس کی  چوچیاں دبا رہا تھا میں نے کہا پری
 
  اسے کیا کہتے ہیں وہ  اب بیتابی سے میرا لن چاٹ رہی تھی وہ  میرے لن کی ٹوپی پر زبان پھیرتے  ہوے بولی  شارق تمہارا لن بہت  بڑا  ہے مجھے لگ رہا ہے آج میری کنواری چوت  کا ستیا ناس ہو جاتے گا  لیکن میں اب اسے ہر حال میں اپنی چوت  میں لینا چاہتی ہوں میں نے کہا  ٹھیک ہے جانو اور اسے دوبارہ سے اپنے نیچے کیا اس کی دونوں  ٹانگیں اپنے کندھے پے رکھی  اب میں نے اپنا لن اس کی چوت کے سوراخ پے سیٹ کیا اور اس کی طرف دیکھ کے بولا پری میں اندر کر دوں وہ  بولی ہاں شارق مجھے آج اتنی تکلیف دو جس میں راحت ھو مزہ ھو میں اس مزے بھری تکلیف ک لئے تیار ہوں پلیز  جانو ایک ہی دھکے سے سارا اندر کر دو جو ہونا  ایک ہی دفع ہو جائے  میں نے اب اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لئے اور ایک زور دار دھکا مارا میرا لن اس کی تنگ اور کنواری چوت کو پھاڑتا ہوا اس کی بچا دانی سے جا ٹکرای
  وہ  میرے نیچے ایسے تڑپی جیسے مچھلی تڑپتی ہے پانی سے باہر نکل کر اس کا جسم کانپ رہاتھا اس کی زور دار چیخ میرے منہ میں ہی دب گی تھی
 
    میں نے کچھ دیر ایسے ہی اس پے لیٹ کر اسے چومتا رہا پھر میں نے جب دیکھا اب اس کی تکلیف کم ہے تو اسے دوبارہ سے چودنے لگا اب میں نے کافی زور دار دھکے مارے تھے یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق میری جان بہت بڑا ہے تمہارا لن پلیز پیار سے کرو نہ میں اب کچھ دیر آرام آرام سے ڈھلے مارنے لگا کوئی پانچ منٹ بعد وہ تڑپ کے بولی اف ف ف ف شارق کچھ زور سے مارو اب    
  اب میں نے اس کی ایک ٹانگ نیچے کی اور ایک اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چھت  کی طرف کر دی اب میں زور دار دھکے مار رہا تہ اب وہ  مستی اور مزے سے سسک رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میرے جانو  اور زور سے  اب کے وہ  میرا ساتھ دینے لگی  اب میں نے کچھ دیر  ایسے ہی اسے چودہ پھراسے ڈوگی سٹائل میں چودننے لگا اب وہ  مزے کی وادیوں میں  سیر کر رہی تھی اس کی آنکھیں بند اور کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں پھروہ یاہ یاہ یاہ یا ہائ ہائے
  ایک زور کی چیخ کے ساتھ ہی فارغ ہو گی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی جانو ذرا رک جاؤ پلیز
 
  میں ویسے ہی لن اس کی چوت  میں ڈال کر ہی اس کے آوپر  لیٹ  گیا پھر میں نے دو منٹ تک اسے آرام کرنے دیا اور دوبارہ سے شروع ہو گیا  اب میں ایسے جھٹکے لگا رہا تھا جیسے کوئی مشین  سٹارٹ ہو گے ھو  میرے ہر دھکے سے اب وہ  ہلکے ہلکے چیختی جاتی تھی  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق  میں نے کہا پری  مجھے تمری گانڈ میں بھی اپنا لن ڈالنا ہے وہ  بولی نہیں نہیں شارق میں اب یہاں بھی برداشت نہیں کر پا رہی پلیز  اب باہر نکال لو نا میں اسے ہاتھ سے فارغ کر دیتی ہوں میں اس کی کسی بات پے دھیان نا دیا اور اسے زوردار طریقنے   سے چودتا رہا  وہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق بس کرو جانو پلیز بس کرو میں بس دھکے مارے  جا رہا تھا اب کی بار میں نے اسے وحشیوں کی طرح چودا تھا وہ  اب میرے نیچے تڑپ رہی تھی کسی طرح اس کی جان چھوٹ جائے پر میں اب بنا رکے دھکے پے دھکا  مارنے لگا وو بولی پلیز کچھ در ہی رک جاؤ ہے میری ماں میں مر گئی
  اس س س س س س س س ‘ ام م م م م م ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف شارق پلیز ایک دفع  رک جاؤ  میری جان نکل جائے گی  شا ر ر ر ق ق ق  ش ش ش ش ش ناں کرو  ہائے ہائے ہائے اب بس کرو اس کے ساتھ اس کے ہاتھ میری کمر پر سخت سے سخت ہوتے جارہے تھے تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر سے فارغ ہو گئی وہ اب تک تین دفع فارغ ہو  چکی تھی  میں ابھی تک ویسے کا ویسا  ہی تھا  میں بنا رکے اسی طرح اسے چودے جا رہا تھا
 
 
  اس کی چیخیں پہلے سے بھی زیادہ زور دار تھیں اب کی بار اس کے منہ سے نکلنے والی چیخیں شائد پہلے سے زیادہ اونچی آواز میں تھیں وہ درد کی وجہ سے بے حال ہوئے جارہی تھی میں ایک بار پھر اس کے اوپر لیٹ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر ایک اور جھٹکا دے مارا جس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے اوووووووووووں کی آواز اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف ی اہ یاہ یاہ یاہ یا ہائے ہائے ہائے شارق آپ سے کہا تھا مجھے پیار سے کرنا  اب میں نے اپنے لن کو آہستہ آہست سے اندر باہر کرنا شروع کردیا اور تقریباً پندرہ منٹ میں فارغ ہوگیا میں نے اپنا سارا پانی پری  کی گرم چوت میں ہی چھوڑ دیا  اب اس نے مجھے زور سے اپنے گلے  لگا لیا اور روتی  آواز میں کہا شارق آپ  تو واقعی  جانوروں کی طرح  چودتے ہیں جو لڑکی ایک دفع آپ سے چدوا لے گے وہ  کبھی کسی اور کے بارے میں نہیں سوچ سکتی اور روتے روتے ہی ہنس دی اور کہا آئی .لو .یو  شارق مجھے برا مزہ آیا ہے میں نےکہا پری  مجھے تمہاری گانڈ بھی لینی ہے وہ  بولی ظالم آج رحم کھاؤ اگلی دفع جو مرضی کر لینا میں پہلے ہی درد سے  مرنے والی ہوں اور مجھے ہونٹوں سے چومنے لگی میں نے بھی اسے کس کی اور اس کے اپر سے اٹھ گیا وہ  بھی اٹھی تو  لڑکھڑا  گی اس سے سہی طرح چلا نہیں جا رہا تھا اس کی ٹانگیں خون  اور منی سے لتھڑی ہوئی تھیں وہ  بولی  دیکھا کیا حال کیا ہے  تمہارے اس جانباز نے میری اس کنواری چھاؤنی کو ہر طرح سے تباہ کر دیا ہے  میں نے اسے سہارا دیا اور واش روم لے گیا وہاں ہم نے اپنے اپ کو صاف کیا اور میں اسے اپنی بانہوں میں اٹھاے ہی باہر لے آیا وہ  میرے ہونٹوں پے ایک کس کر کے بولی شارق آج آپ کی جیت کی خوشی میں میری طرف سے یہ آپ کے لئے انعام تھا آپ پلیز اس ملاقات کا صدف یا عالیہ کو نہیں
  بتانا
  مزہ تو تب آے گا جب آپ ہم تینوں کو ایک ساتھ چودو گے صدف نے ایسا ہی کچھ پلان بنا رکھا ہے آج کی رات کے لئے پھر ہم کوئی پندرہ منٹ مزید وہاں
  رکے  اور بعد میں ہم وہاں سے شاپنگ سنٹر آے وہاں اس نے مجھے ڈراپ کیا اور اپنے لئے کچھ سامان خرید کے وہ چلی گئی میں نے اب گھڑی پے ٹائم دیکھا ابھی شام ہونے میں بھی کوئی دو گھنٹے  باقی تھے میں اب گھر جانے کا ہی سوچ رہا تھا کے پیچھے سے ایک لڑکی نے مجھے آواز دی میں نے پلٹ کے دیکھا

part 21
 
  وہ  ایک نوجوان لڑکی تھی اس نے کہا سر پلیز میری ہیلپ کر دیں میں نے کہا  جی  کیا ہیلپ چاہے آپ کو  اب کی بار وہ ذرا سختی سے بولی میں پچھلے  تین گھنٹے سے  اپنی گاڑی نکالنے کے لئے کوئی چوتھا چکر لگا چکی ہوں آپ کو کوئی اور جگہ نہیں ملی تھی  یہ ڈبیہ کھڑی کرنے  کے لئے اب کی بار میں چونک گیا وہ کمبخت  میری  بیس لاکھ کی گاڑی کو ڈبیہ   کہ رہی تھی اب کی بار میں نے بھی پلٹ کے دیکھا میرے کار سے آگے ایک نیو مرسڈیز  کھڑی تھی اب میں  سمجھ گیا وہ کیوں میری کار کو ڈبیہ کہ رہی ہے میں نے کہا سوری  خاتون  وہ اب تو ایک دم سے آگ بگولا سی ہو گی اور کہا وہاٹ میں آپ کو بوڑھی نظر آتی ہوں اب کی بار میں حیران  ہو گیا کے اسے اب کیاکہوں یہ تو کوئی پاگل لگتی ہے  میں نے کہا  اجی آپ کو کس نامعقول نے بوڑھی کہا ہے آپ تو ایک گلاب کا پھول ہیں  اب وہ ذرا نرمی سے بولی چلیں ٹھیک ہے  اب زیادہ تعریفیں مت کریں میںجانتی ہوں جیسے لڑکوں کو ذرا کوئی لڑکی بات کیا کر لے وہ تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں
 
  اب کی بار میں نے کہا  محترمہ  کون  پاگل تمہاری  تعریف کر رہا ہے وہ اب اپنے ماتھے  پے ہاتھ مار کے بولی اف  توبہ ہے کس اندھے سے واسطہ پڑھ گیا ہے کبھی تعریف کرتا ہے کبھی ایک پل میں بوڑھی کہ دیتا ہے جناب آپ اپنی اس عظیم کار کو ہٹانے کا کیا لیں گے میرا دل تو چاہا کہ دوں تمہارے ان گلابی ہونٹوں کی کس  پر چپ کر کے اپنی کار میں بیٹھا اور اسے ریورس کیا اب میں نے اس کے  طرف والا اپنی کار کا شیشہ نیچے کیا اور کہا مس لال مرچ یو آر سو بیوٹی فل  اور ساتھ میں ہی اسے ایک ہوائی کس کی اور اپنی کار کو اب آگے بڑھا دیا میں اب اپنے گھر کی طرف کا رخ کیا  گھر میں داخل ہوتے ہی  مجھے فاروقی صاحب نے کہا یار مہمان خصوصی تک  آ چکے ہیں لیکن جن کی وجہ سے یہ آج کی پارٹی دی جا رہی ہے وہ آوارہ گردی کر رہا ہے میں نے ہنس کے کہا سوری مجھے ذرا ایک ضروری جگہ جانا پڑھ گیا تھا اب وہ بولے رضوان کے سسر بھی آئے بیٹھے ہیں اور ہم نے سوچا ہے ان کو ہی مہمان خصوصی  چن لیں  سو وہ ماں گے ہیں میں نے ان کے ساتھ ہی جا کر اس سے ملاقات کی  وہ بہت خوش ہوے اور کہا آج مزہ آ گیا برخودار آج بارے عرصے بعد ایک شیر کی گونج سنی میں نے ہائی کورٹ  میں کبھی اپنی جوانی میں ہم بھی ایسے ہی گرجتے تھے  میں نے اب کہا آپ ابھی بھی جوانوں سے بہتر ہیں سر وہ بولے نہیں یار اب وہ رت کہاں اور سب ہی ان کی اس بات پے ہنس دیے   
 
  اب مہمان آنے شروع ہو گے تھے  یہ ایک گھریلو سی تقریب تھی اس لئے سب ہی اپنی فیملی سمیت ہی آرھے  تھے پھر جیسے ہی  کوئی سات کا وقت ہوا  اب رضوان نے سٹیج  پے جا کر مائیک سنبھالا اور کہا آج دوستوں آپ کے لئے ایک  مزے دار پروگرام   شروع کیا ہے میںنے  اب ہم نے کچھ نام لکھے ہیں اپنی لسٹ میں ہم ان  کو یہاں بھاری بھاری سے بلاتے  جائیں گے اور وہ یہاں آ کر کچھ نہ کچھ سناتے جایئں گے اب میں سب سے پہلے خود ہی  شروع کرتا ہوں  میں اپنی آواز میں آپ کو ایک غزل سناؤں گا  اس نے اب میوزک والوں سے کہا  ذرا ہلکا   رکھیں  ساونڈ پھر اس نے اپنی آواز میں ایک غزل سنائی
 
  عبادتوں کی طرح میں یہ کام کرتا ہوں
  میرا اصول ہے پہلے سلام کرتا ہوں
  مخالفت سے میری شخصیت سنورتی ہے
  میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
  میں اپنی جیب میں اپنا پتا نہیں رکھتا
  سفر میں صرف یہی اہتمام کرتا ہوں
  میں ڈر گیا ہوں بہت سایہ دار پیڑوں سے
  ذرا سی دھوپ بچھا کر قیام کرتا ہوں
 
  سب نے ہی تالیاں بجا کر اسے داد دی اب سب ہی لان میں لگی کرسیوں پے بیٹھ گے تھے کیا بوڑھے  کیا جوان اب اس نے کہا کیوں کے میں سٹیج  سیکرٹری بھی ہوں لہٰذا اب میں  ان کو یہاں آنے کی دعوت دیتا ہوں جن کے لئے آج کی یہ محفل سجائی  گی ہے وہ آئیں اور اپنی آواز میں کچھ  سنائیں ہم کو اب میں نے ہنس کے کہا یار میں بعد میں  اب کی بار صدف اور لالارخ  وغیرہ نے کے نہیں آپ کو بار بار دعوت دی جا
ۓ گی اب کی بار کرنل عثمان  جو میرے  میرے ساتھ ہی بیٹھا تھا بولا جاؤ یار آج ہم بھی آپ کی آواز سن لیں کوئی غزل یا گیت کچھ بھی چلے گا اب میںنے کہا ٹھیک ہے بھائی   
  اب میں نے سٹیج  پے آ کر کہا  کیا سنوں گے اب آپ لوگ صدف نے کہا کھری کھری ہی سنا دیں آپ وکیل صاحب اور سب ہی ہنسنے لگے میں نے کہا اس سے پہلے کے کوئی اور حملہ ہو میں ایک غزل سناؤں گا  
  دبی دبی سی وہ مسکراہٹ لبوں پہ اپنے سجا سجا کے
  وہ نرم لہجے میں بات کرنا ادا سے نظریں جھکا جھکا کے
  وہ آنکھ تیری شرارتی سی وہ زلف ماتھے پہ ناچتی سی
  نظر ہٹے نہ ایک پل بھی، میں تھک گیا ہوں ہٹا ہٹا کے
  وہ تیرا ہاتھوں کی اُنگلیوں کو ملا کے زلفوں میں کھو سا جانا
  حیا کو چہرے پہ پھر سجانا، پھول سا چہرہ کھلا کھلا کے
  وہ ہاتھ حوروں کے گھر ہوں جیسے، وہ پاؤں پریوں کے پر ہوں جیسے
  نہیں تیری مثال جاناں، میں تھک گیا ہوں بتا بتا کے۔۔۔
  اب سب نے ہی زور زور سے تالیاں بھجایئں اور لڑکیوں میں سے کچھ نے کہا ایسی بے مثال  لڑکی کون ہے جی  اب صدف نے زور سے کہا اف ف ف اتنی تعریف میری شارق  صاحب مجھے شرم آ رہی ہے  ایک بار پھر سے کافی لوگوں کا قہقہ  چھوٹ  گیا  وہ اور پری لوگ بیٹھے بھی  سب والدہ صاحبہ اور بھابھی لوگوں کے ساتھ تھیں  میںنے اب کہا لو جی سٹیج سیکرٹری صاحب اب آپ کسی اور کو بلا  لو وہ بولا سر آپ یہاں میرے پاس ہی بیٹھ جایئں اب سٹیج پے بس ہم دونوں ہی بیٹھے تھے  پھر اس نے آگے سے مس ریحانہ کو بلایا اور کہا ہاں جی آپ سنائیں اب کچھ  وہ بولی
  محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
  جو میرےحصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا
  جلائےرکھوں گا صبح تک میں تمہارےرستوں میں اپنی آنکھیں
  مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا
  جو حرف لوحِ وفاپر لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا
  جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبارتیں بھی شمار کرنا
  یہ سردیوں کا اداس موسم کی دھڑکنیں برف ہوگئی ہیں
  جب ان کی یخ بستگی پرکھنا،تمازتیں بھی شمار کرنا
  تم اپنی مجبوریوں کے قصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے
  جو میری آنکھوں میں جل بجھی ہیں وہ خواہشیں بھی شمارکرنا
  اب کی بار بھی سب نے تالیاں بجا کر داد دی  اب رضوان نے کہا  اب میں  نصرت  صاحب کو بلاؤں گا اب بھائی نصرت اے اور وہ بولے یار میں آپ لوگوں کو کچھ اشعار  ہی سنا دیتا ہوں
  جاتی ہیں کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
  آنکھوں میں تیری ڈوب کے دیکھیں گے کسی دن
 
  کچھ تم کو بھی عزیز ہیں اپنے سبھی اصول
  کچھ ہم بھی اتفاق سے ضد کے مریض ہیں
 
  اب  کی بار  رضوان نے کہا  اب میں بلا رہا ہوں کپٹن حسن صاحب کو وہ آئیں اور کچھ سنا دیں ہم کو اب حسن آیا اور اس نے کہا میں آپ کو ایک غزل سناؤں گا
  دل میں وفا کی ہے طلب، لب پہ سوال بھی نہیں
  ہم ہیں حصارِ درد میں ، اُس کو خیال بھی نہیں
  اتنا ہے اس سے رابطہ، چھاؤں سے جو ہے دھوپ کا
  یہ جو نہیں ہے ہجر تو پھر یہ وصال بھی نہیں
  وہ جو انا پرست ہے ، میں بھی وفا پرست ہوں
  اُس کی مثال بھی نہیں ، میری مثال بھی نہیں
  عہدِ وصالِ یار کی تجھ میں نہاں ہیں دھڑ کنیں
  موجۂ خون احتیاط! خود کو اُچھال بھی نہیں
  تم کو زبان دے چکے ، دل کا جہان دے چکے
  عہدِوفا کو توڑ دیں ، اپنی مجال بھی نہیں
  اُس سے کہو کہ دو گھڑی، ہم سے وہ آملے کبھی
  مانا! یہ ہے محال پر، اتنا محال بھی نہیں
  اب کی بار کافی دیر تک تالیاں بجی   اب حسن نے کہا میں جاتے جاتے پھر سے کہوں گا  ایک دفع شارق بھائی آییں  اور کچھ اور سنا دیں اور مائیک مجھے دے کر  وہ چلا گیا  میں نے کہا دوستو
  آپ کو ایک اور غزل سنا دیتا ہوں
 
 
  سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
  میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
  روح کو اس کی اسیر ِغم ِالفت نہ کروں
  اس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں
  سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
  واقفِ درد نہیں، خوگر ِآلام نہیں
  سحر عیش میں اس کی اثر ِشام نہیں
  زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں
  سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں
  اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
  نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
  سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا
  سوچتا ھوں کہ غم ِدل نہ سناؤں اس کو
  سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کرو
  خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
  اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں
  سوچتا ھوں کہ جلا دے گی محبت اس کو
  وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
  خود تو وہ آتش جذبات میں جل جائے گی
  اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی
  سوچتا ھوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
  میں اسے واقف الفت نہ کروں
  اب کی بار تو لڑکیوں نے ہوٹنگ شروع کر دی اب بتا  ہی دیں وہ کون ہے صدف نے کہا کیا اب ہم کچھ سنا سکتے ہیں یا نہیں سٹیج سیکرٹری صاحب  اب رضوان نے کہا آییں آپ کو ہی بلانے والا تھا میں  اب صدف اپنے گروپ کے ساتھ ہی آ گی میں نے کہا یہ تم سب  کیوں آئ ہو وہ بولی سب باری باری سنائیں گے ورنہ بعد میں موقع نہیں ملے گا اب صدف نے کہا
  بڑی گستاخیاں کرنے لگا ہے میرا دل مجھ سے
  یہ جب سے تیرا ہوا ہے میری سنتا ہی نہیں
  اب اس نے کہا ایک اور شعر ہے
  بساط دل پہ عجب ہےشکستِ ذات کا لطف
  جہاں پے جیت اٹل ہو، وہ بازی ہار کے دیکھو
  اب اس نے عالیہ سے کہا تم او اب جلدی کرو سناتی جاؤ باری باری اب کی بار عالیہ نے کہا
 
  وہ شخص سادگی سے ہمیں اپنا بنا گیا
  وہ سادگی ہمیں ۔سادگی سے۔تباہ کر گئی
 
  مجھے نیند کی اجازت بھی ان کی یادوں سے لینی پڑتی ہے
  اے دوست
  جو خود آرام سے سو جاتے ہیں مجھے کروٹوں پہ چھوڑ کر
 
  اب پری آئی اس نے کہا  میں صرف ایک غزل سناؤ گئی صدف نے کہا سناؤ سناؤ  یار غزل ہی
  بھری محفل میں تنہا رہنا اچھا لگتا ہے
  تیرے بارے میں سوچتے رہنا اچھا لگتا ہے .
  کبھی پھولوں میں ، کبھی کلیوں میں
  تجھ کو ہی ڈھونڈتے رہنا اچھا لگتا ہے
  میری زندگی کی خوشیاں تمہیں سے ہیں وابستہ
  رب سے صرف تمہیں ہی مانگنا اچھا لگتا ہے
  ہمارے درمیان حائل رہیں صدیوں کی خاموشیاں
  کچھ اس طرح گفتگو کرنا اچھا لگتا ہے
  تمھارے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے
  کچھ اس طرح تمہاری تمنا کرنا اچھا لگتا ہے
  تم ہی کو چاہا ، تم ہی کو چاہتے ہیں
  تمہی کو چاہتے رہنا اچھا لگتا ہے
  میں چھین لوں گی تمہیں دنیا کی رسموں سے
  کے مجھے زمانے سے بغاوت کرنا اچھا لگتا ہے
  اب سب نے خوب داد دی اسے اس کی غزل کو سب سے زیدہ پسند کیا گیا  اب صدف نے کہا شکر ہیں ہمارا دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا  اور سارے لوگ زور سے ہنس  دیے  اب رضوان نے کسی کو بلانے کا سوچا ہی تھا کے اس کے سسر صاحب نےکہا بس یار اب سنجیدہ  بات ھو اور پھر رضوان نے باری باری لوگوں کو بلانا شروع کیا اور وہ کچھ نہ کچھ میرے بارے میں کہتے اور یوں وقت کا پتا ہی نہ چلا آخر میں لون صاحب نے میری خوب تعریف کی  پھر نواب شرافت نے بھی اور نواب سلطان نے بھی  میرے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور  یوں بعد میں ایک عالی شان ضیافت کا بندو بست تھا سب ہی اب کھانے میں بزی ہو گے کھانے کے بعد کافی کا دور چلا اور پھر مہمان  جانے  لگے ایک ایک کر کے سب سے آخر میں کرنل عثمان اور کپتان حسن گے  حسن میرے گھر والوں کو بہت اچھا لگا حسن لالارخ  سے کافی فری ہو کے بات کرتا رہا وہ بھی  پھر اس کے جانے کے بعد  ہم گھر والے بھی اپنے اپنے کمروں میں  چلے گیے مجھے صدف نے کہا شارق دروازہ کھلا رکھنا آج برا مزے کا پروگرام ہے میں نے کہا ٹھیک ہے اور اپنے کمرے میں  آ کر ایک ناول پڑھنے لگا           
  اب کوئی دو گھنٹے بعد صدف عالیہ اور  پری  کو لئے میرے روم میں آئی اور دروازہ بند کر کے وہ  تینوں ہی بیڈ پے آ کر مجھ سے لپٹ گئیں 
 
  صدف نے میرے ہونٹوں پے اپنے ہونٹ رکھ دیے اب پری نے بھی  میرا ایک ہاتھ پکڑ کے چوسنا شروع کر دیا ہے عالیہ نے سیدھا میرے لن پے حملہ کیا اب مجھے چومتے ہوے صدف نے کہا شارق جی آج آپ ہم تینوں سے ایک ہی وقت میں پیار کریں گے میں نے بھی اب اپنا ایک ہاتھ پری کی چھاتی پےرکھا اور کہا صدف جانو میں تیار ہوں  اب کی بار عالی نے کہا صدف ٹائم کم ہے  چلو سب ہی اپنے کپڑے اتارو پھر وہ یہ کہ  کر اپنی قمیض کو اتارنے لگی اب صدف نے بھی کہا ہاں یہ سہی ہے اب پھر وہ تینوں ہی ننگی ہو گئیں  اب کی بار صدف نے کہا  پہل پری کرے گئی یہ کہ کر اب کی بار صدف میرے لن  کو پکڑ کے بولی آج میں اس ناگ کا سارا زہر چوس لوں گئی اور میرا لن اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی اب عالیہ نے میرے پاؤں  کی طرف بیٹھ کر  اپنی  گود میں رکھے میرے پاؤں اور  نیچے جھک کر میرے پاؤں کی انگلیاں چوسنے لگی پری کو اب میں نے اپنے اوپر کھینچا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگا  ساتھ میں نے اپنا ہاتھ پری کی چھاتی پے رکھے اور دبانے لگا اب میں پری کے ممے مزے سے مسل رہا تھا پری میری زبان کو اپنے منہ میں لئے چوس رہی تھی اور نیچے سے صدف میرے لن کو قلفی کی طرح چاٹ رہی تھی  عالی نے اب کی بار اپنی زبان میرے پاؤں کی تلیوں پے پھیرنے لگی میں تو مزے سے  بےحال ہو رہا تھا
 
  مجھے جب پری کو چومتے ہو کافی دیر ہو گئی اور میرا لن بھی  صدف نے میرے لن کو چوس کر اب میرے ٹٹوں کو چاٹ رہی تھی میںنے اب کی بار کہا صدف اب ذرا پری کی چوت کو بھی تھوڑا سا گیلا کرو وہ کچھ نہ بولی اور اس نے پری کی ٹانگوں کو اپنی طرف کھینچا اور اپنی زبان اس کی چوت میں دل دی اب پری تو سسک اٹھی آہ آہ آہ  شارق  میں نے اب اور شدت سے اس کے ممے دبانے لگا اور ہونٹ چوسنے لگا اب عالیہ نے میرے لن کو قابو کیا ہوا تھا اور چوس رہی تھی کوئی تین منٹ بعد اب پری نے کہا شارق اب اندر ڈال دو میں ایسے مر جاؤں گئی صدف نے میری چوت کو چاٹ چاٹ کر پانی پانی کر دیا ہےاب میں  نے پری کو نیچے کیا اپنے اور اپنا لن اس کی چوت میں سیٹ کر کے ایک ہی دھکے سے اندر کر دیا وہ تڑپ گئی ہائے ےےےے میں مرگئی اور میں نے اب اس کی دونو ٹانگوں کو کھول لیا  اور لگا تار دھکے دینے لگا اب صدف نے اپنا منہ عالیہ کی چوٹ سے لگایا اور چاٹنے لگی  یہ دیکھ کر پری نی بھی صدف کی چوت کو اپنی طرف کیا اور اسے چاٹنے لگی میں اب مزے سے دھکے مار رہا تھا پری کی چوت میں پری اب آییں بھر رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ  شارق میری جان اور زور سے چودو اپنی پری کو  اب کی بار میں نے اس کی چوٹ میں ایک دھکوں کی مشین سی چلا دی اب وہ زور زور سے چیخنے لگی اور اب وہ تینوں ہی چیخ  رہی تھیں صدف کی زبان نے عالیہ کی چوت کو چوس ڈالا تھا اور پری نے صدف کی چوت  پے سارا زور ڈال رکھا تھا میں جتنا اسے زور سے چود رہا تھا وہ اتنا ہی مزے سے بے چین ہو کرصدف کی چوت کو اپنے ہونٹوں اور زبان سے بھنبھوڑ رہی تھی اور ویسے ہی آگے سے صدف عالیہ کی چوت سے وہی سلوک کر رہی تھی  اب تو جیسے کمرے میں ان کی مزے سے بھری چیخوں کا ایک مقابلہ سا ہو رہا تھا تینوں ہی اپنی سریلی آواز میں آییں بھر رہی تھیں  اب کی بار میں نے          
 
  اب کی بار میں نے پری کو الٹا کیا اور اپنا لن اس کی چوت میں ڈال کر زور سے چودنے لگا وہ اب ڈوگی سٹائل میں  تھی اور اس نے اپنی زبان سے صدف کی چوت کو چاٹنا جاری رکھا تھا  اور صدف بھی آگے سے عالیہ کو ویسے ہی چاٹ رہی تھی اب میرے دھکوں کو زیادہ نہ برداشت کر سکی اور پری کی چوت نے پانی چھوڑ دیا پری نے اب کی بار مزے سے صدف کی چوت کو جیسے جھنجھوڑ سا ڈالا  اپنے منہ میں بھر کے اب وہ بھی برداشت نہ کر پائی اور صدف کی چوت نے بھی پانی  بہانا شروع کر دیا  صدف نے مزے سے چیخ کر  عالیہ کی چوت میں انگلی داخل کی اور زور زور سے اندر باہر کیا  اس کی چوت پہلے ہی صدف کی زبان سے پانی اپنی ہو رہی تھی اب کی بار انگلی کی سختی نے اسے بھی بے حال کیا اور وہ بھی برسنے  لگی اب وہ تینون  ہی ایک دفع فارغ ہو کر مزے سے لمبے لمبے سانس لے رہی تھیں
 
  پھر میں نے اب کی بار پری کی دونوں ٹانگیں پکڑیں اور اوپر کر دیں وہ اب منہ کے بل بیڈ پے گر گئی میں نے اب کی بار اپنا لن اس کی چوت میں ڈالا اور چودنے لگا اب میں اپنے لن کو اس کی طرف دھکا دیتا اور ساتھ ہی اس کی ٹانگیں اپنی طرف کھینچتا  اس طرح سے وہ دو منٹ بعد ہی  زور زور سے چلنے لگی شارق ایسے نہ کرو بہت درد ہو رہا ہے یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق میری جان  کچھ خیال کرو  یار تمہارا   لن بہت بڑا ہے میں ایسے تو مر جاؤں گئی پلیز میری ٹانگیں نیچے آنے دو میں نے اب کہا نہیں جانو کچھ دیر ایسے ہی اب  میں نے زور زور سے دھکے مارنے لگا اور پری اب حلق کے بل چیخ رہی تھی  اگر میرا کمرہ ساونڈپروف نہ ہوتا تو جتنا زور سے وہ اب کی بار چیخ رہی تھی سارے گھر والے میرے دروازے پے ہوتے  اب کی بار میں نے ایک ہی جھٹکے سے لن کو چوت سے نکالا اسے ذرا سا آگے کیا اور لن اس کی گانڈ میں  ڈال دیا اب وہ درد سے ڈکرانے لگی ہائے ےےےے میں مر جاؤں گی شارق  ایسا مت کرو یہاں سے نکال لو اف  میری ماں میری گانڈ پھٹ گئی کوئی مجھے بچاؤ اب کی بار میں نے کوئی تین چار اور دھکے دیے وہ تڑپ سی گئی اور کہا ہوئی اوئی میں گئی اور اس کی چوت نے ایک بار پھر برسات کر دی اب اس کی حالت دیکھ کر عالیہ نے کہا شارق اسے ذرا سکون لینے دو میں نے یہ سنتے ہی اپنا لن باہر نکالا اور اسے چھوڑ دیا وہ اب لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اور ابھی بھی کراہ رہی تھی میں نے اب عالیہ کو کہا آ جاؤ تم پھر وہ میرے پاس ای میں نے اسے بھی الٹا کیا اور لن اس کی گانڈ میں ہی ڈالا وہ ایک زور دار آواز سے چیخ کے بولی  یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق یہ تم کو گانڈ میں ڈالنے کا کہاں سے شوق پیدا ہو گیا ہے ظالم آج مار ڈالو گے کیا  
 
  میں نے اب عالی کی گانڈ  پے ایک زور دار تھپڑ مارا اور کہا اف کیا گانڈ ہے تیری تو یار یہ دیکھ کر صدف نے کہا میرے راجکمار گانڈ سے جی بھر جا
ۓ تو مجھے آواز دے لینا اب اس نے پری کو اپنی بانہوں میں لیا ہوا تھا  میں نے اب عالیہ کو مزے سے چود رہا تھا عالی نے کہا شارق میں کہیں نہیں جاؤں گئیں جان ذرا آرام سے کرو مجھے پتا ہے آج تم کو گانڈ سے پیار  ہو گیا ہے تم اسے پھاڑے بنا کہاں چھوڑو  گے لیکن مجھے بھی مزہ لینا ہے ذرا آرام سے کرو اب میں نے اس پے لیٹ کر عالیہ کی گردن پے اپنے ہونٹ رکھ دیے اور اسے چومنے لگا اب میں نے اپنے دھکے ذرا ہلکے کر لئے تھے  اب ایسے ہی وہ بھی مزہ لینے لگی ہائے ےےےے کیا مزے آ رہے ہیں یار بس ایسےہی لگے رہو میں مر گئی اتنا مزہ اف ف ف آہ آہ آہ آہ شارق اب یہ باتیں سن کر صدف نے کہا کیا واقعی مزہ آ رہا ہے یا ڈرامہ کر رہی ھو کمینی  ترے بعد میری باری ہے مجھے ابھی بتا دو میں نہیں لے سکوں گئی گانڈ میں اب عالی نے مزے سے سسکی لی اور بولی اففف بتا نہیں سکتی صدف جانی  میرا سارا جسم اس مزے سے ٹوٹ سا رہا ہے اور ساتھ ہی اس نے کہا مجھے زور سے اپنی بانہوں میں کس لو شارق  میری جان نکل رہی ہے اب میں نے اس کے کان میں اپنی زبان ڈال دی وہ اور مزے سے تڑپ گئی اور آہیں بھرنے لگی اوہ اف ف ف ی اہ یاہ یاہ میں آ رہی ہوں جانو  اب مجھے بھی لگا میں بھی  تھوڑی دیر میں آ ہی جاؤں گا  میںنے اب اسے ایک دم سے سیدھا کیا اور اس کی ٹانگیں اپنے کندھے پے رکھ کرلن کو عالی کی چوت میں ڈالا اور  زور زور سے دھکے مارنے لگا  اب کی بار وہ مزے سے تڑپنے لگی   اوئی شارق میرے یار  اف ف ف ف ف آہ سسس س س  س  میں نے اب اسے فل زور زور سے دھکے مرے اور وہ میرے ساتھ ہی فارغ ہو گئی میں  اب عالیہ کے اوپر ہی لیٹ گیا  اور لمبے لمبے سانس لینے لگا 
 
  اب میں اور عالیہ ایک دوسرے سے مزے سے لپٹ گ
ۓ کچھ دیر یوں ہی لیتے رہے پھر میںنے اب پری کی طرف کروٹ لی اور اسے پیچھے سے جھپی ڈال لی وہ بولی چھوڑو مجھے کوئی پیار نہیں یہ یہ کہاں کی دوستی ہے کوئی مرنے والا ہو جاۓ اور آپ اپنی ہی کیے جاؤ  میں نے اب اس کی کمر پے اپنی زبان پھیری اور اس کے ممے دبانے لگا وہ ایک دم سے تڑپ کے میری طرف کروٹ بدل کے آئ اور مجھے اپنے ساتھ لپٹا کے رونے لگی شارق ابھی تک درد ہو رہا ہے جان  میں نے ابکی بار اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور اس کی گالوں کو چومنے لگا اس کی آنکھوں سے گرنے والے موتی میں نے اپنے ہونٹوں میں چن لئے اب میں نے اس کے ہونٹوں پے اپنی زبان پھیری اس نے ایک دم سے میری زبان کو اپنے دانتوں میں پکڑ لیا اور میری آنکھوں میں دیکھنے لگی جیسے کہ رہی ھو کاٹ لوں اس کو تا کے تم کو پتا لگے درد کیا ہوتا ہے پھر اس نے دانتوں سے زبان کو چوڑا اور چوسنے لگی  اب میںنے بھی اس کی چھاتی کو سہلانا شروع کر دیا ہم یوں ہی کوئی دس منٹ تک ایک دوسرے کو چومتے رہے اس نے اب میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور سہلانے لگی  میرا لن بھی اس کے ہاتھ کا لمس پا کر مستی میں جھومنے    لگا میںنے اب اس کی چھاتی پے اپنی زبان رکھی اور چاٹنے لگا پھر کوئی پانچ منٹ بعد میں نے اب کی بار اس کی چوت سے اپنا لن لگایا اس نے اپنے ہاتھ سے وہ اپنی چھوٹا میں سیٹ کیا اور کہا اب  کرو اندر اب میں نے بہت نرمی اور پیار سے اندر باہر کرنے لگا وہ اب مزے سے سسکیاں لینے لگی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ میرے شارق ایسے ہی پیار کیا کرو  اب صدف اور  عالیہ ایک دوسری سے لپٹی ہوئی ایک دوسری کی چوت کو چاٹ رہی تھیں  اور آہیں بھر رہی تھیں میں نے یوں کو آرام آرام سے اب پری کی چوت میں لن اندر باہر کرنا  جاری رکھا  
 
  اب تو پری مزے سے آنکھیں بند کر کے سسک رہی تھی ہائے ےےےے میرے یار ایسے ہی چودو مجھے  میرا سارا درد اب ختم ہو گیا ہے  وہ اب مزے کی وادیوں کی سیر کر رہی تھی اورآنکھیں بند کیے مجھے چوم رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ ہائے ےےےے ایک ہلکی سی  چیخ کے ساتھ ہی وہ بولی شارق میں اب آ رہی ہوں اور پھر سے پری کی چوت نے اپنی منی چھوڑ دی  اب میں بھی مزے میں تھا کافی میں  نے اسے اپنے ساتھ لپٹے  ہی رکھا اور  پھر وہ ایک  پرسکوں  مسکراہٹ پری کے لبوں پے آئی  وہ میری طرف دیکھ کر بولی  آئی لو یو میری جان اور اب لمبے لمبے سانس لینے لگی میں نے اب کی بار اپنا لن پری کی چوت سے نکالا اور صدف کی طرف  ایک کروٹ لی  اس نے مجھے اپنی بانہوں میں لیا اور میرے ہونٹ چوسنے لگی  ساتھ  میں  نے اس کے ممے دبانے لگا اب وہ بولی شارق اندرڈالو اب بس مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا میں نے اب کی بار صدف کی چوت میں لن ڈال دیا  اور زور زور سے جھٹکے مارنے لگا وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی  اب  میں نے صدف کی ٹانگوں کو اپنی گود میں سے دائیں بائیں نکالا اور اسے اپنی گود میں  بیٹھا کر پیار سے چودنے لگا وہ اب سسک رہی تھی ہائے شارق آج  تو اس رات سے بھی زیادہ مزہ آ رہا ہے جانو اور میرے ہونٹ چوسنے لگی میں نے بھی صدف کے ممے اپنے ہاتھوں میں لئے اور دبانے لگا  میرا لن اب اس کی چوت میں ہلکے ہلکے دھکوں سے اندر باہر ہو رہا تھا  وہ اب مزے سے میری طرف زور لگاتی میں جب اس کی طرف دھکا  مارتا اب اس نے اپنی چوت کو فل سختی سے دبا رکھا تھا اور میرا لن بھی اب اس کی چوت کی دیواروں سے رگھر کھا رہا تھا       اب وہ مزے سے سسکیاں لینے لگی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ ہائے ےےےے شارق میرے راجکمار  کیا لن پایا ہے تم نے  اتنا مزہ دیتا ہے میں بتا نہیں سکتی  اف  سی سسسسس شارق  میں  میری جان  ہاے میرے راجہ ایسے ہی چودو مجھے جی بھر کے  میری ماں  میں کیا کروں اتنا مزہ اوئی  مر جاؤں میں  آہ  شارق  وہ اب اپنی زبان سے میرے کانوں  میں  پھیر رہی تھی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں زور سے بھنچ رکھا تھا اور میرا منہ اب اس کی چھاتی میں گھسا ہوا تھا میں اس کے ایک ممے کی نپل کو ہونٹوں سے پکڑ کے چوسنے لگا  آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف ف ف ی اہ یاہ یاہ یاہ یا ہائے ہائے ہائے کرنے لگی تھی اب میںنے نیچے سے اپنے کولہے ہلانے لگا تھا اس سٹائل سے اب جیسے میرا لن اس کی چوت میں گھومنے سا لگا وہ  مزے سے  مدہوش  سی ہو گئی      
 
  صدف  نے  مزے سے بے تاب ہو کر  چیخیں مارنی شروع کر دیں تھیں اب آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق  میں مر گئی  میں نے  اسے چودنا جاری رکھا اب وہ اتنا  تڑپ رہی تھی مزے سے اسے پتا ہی نہیں چل رہا تھا وہ کیا  کر رہی ہے پھر اس کا جسم ایسے تڑپ جیسے اسے کرنٹ سا لگا ھو  اور اس نے ایک چیخ ماری اور ساتھ ہی میرے کندھے میں اپنے دانت پیوست  کر دیے میرے منہ سے بھی سی  نکلا  وہ اب مزے میں فارغ ہو رہی تھی  میں نے بھی دو یا تین  دھکے اور مارے اور میرے لن نے منی کی بارش کر دی اس کی چوت میں اب صدف نے مجے  پیچھے کی طرف دھکا دیا اور میرے اوپر بے سدھ ہو کر لیٹ گئی
 
  اب ہم دونوں ہی ہانپ رہے تھے اور لمبے لمبے سانس لے رہے تھے پھر  ہم چاروں اٹھے اور واش  روم میں آ گ
ۓ عالی  اور پری نے صدف کے ساتھ مل کر مجھے خوب اچھی طرح  نہلایا  اور پھر وہ خود بھی نہ  کے میرے ساتھ ہی باہر آ گئیں اب ہم چاروں نے کپڑے پہنے اور ایک دوسرے سے لپٹا کے باتیں کرنے لگے صدف نے کہا  شارق کیسا لگا  آج ایک ساتھ تین حسن کی پریوں  سے پیار کر کے میں نے کہا تم بتاؤ پریوں کیسا لگا مابدولت سے ایک ساتھ چدوا کے  عالی کھلکھلا کے ہنس دی اور کہا  تم کو باتوں میں ہی نہیں بستر پے بھی کوئی لڑکی شکست نہیں دے سکتی میرے دوست  اب کی بار صدف نے کہا شارق  میں  نے تو سوچ لیا ہے اب  اپنی ساری  فرینڈز  تم سے چدوا  کے چھوڑوں گئی اب پری نے کہا  تم ہو ہی شیطان کی نانی  اب ان سب کا برا حال ہو گا  اور ہم ایک ساتھ ہی ہنس دیے پھر وہ کچھ دیر بیٹھ کے اپنے روم میں چلی گئیں


  part  22
 
  اگلے  دن میری آنکھ  دروازے کی دستک سے کھلی  کوئی میرے دروازے پے  زور زور سے  دستک دے رہا تھا  میں نے اٹھ کے دروازہ کھولا تو سامنے  نواب سلطان تھے وہ بولے یار اٹھ جاؤ مجھے آج آپ سے بہت ضروری کام ہے  میں نے اب کہا جی انکل آپ حکم کریں  انہوں نے اب میرے کمرے میں آ کر ٹہلنا شروع کر دیا میں نے کہا انکل کیا بات ہے وہ بولے  یار ایک ذاتی سا مسلہ ہے  میرے ایک بہت پورانے جاننے والے ہیں کبھی کسی وقت مجھ پے ایک احساں کیا تھا انہوں نے  میں بہت عرصے بعد واپس آیا ہوں مجھے نہیں پاتا تھا اس کے ساتھہ ایسا مسلہ ہو گیا  ہے  میں نے کہا ہوا کیا ہے اب وہ بولے یار کبھی جوانی میں  میرے ایک دوست تھے  نواب نیاز  اور ان سے ہی میری دوستی تھی ان کا ایک منشی تھا  حفیظ احمد  ایک دفع شکار پے  اس نے میری جان بچائی تھی ایک  چیتے سے ہم اکثر مختلف ملکوں میں جاتے تھے  شکار کھیلنے  مجھے رات کو پتا چلا ہے ایک جاننے  والے سے وہ یہاں آیا ہوا تھا  اس نے مجھے بتایا نواب نیاز کو مرے تو  چودہ سال ہو گے ہیں ان ککو ان کے ہی منشی حفیظ احمد نے قتل کر دیا تھا   میں یہ سن کے بہت پریشاں ہوا  کیوں کے میں جانتا تھا ایسا نہیں ہو سکتا  حفیظ تو نواب  صاحب   پے جان دیتا تھا  میں آج صبح اٹھتے ہی جیل گیا تھا  میں حفیظ احمد سے ملا ہوں وہ کہتا ہے  یہ جھوٹ ہے اسے چودہ سال کی سزا ہوئی تھی جس میں سے وہ تیرہ سال اور دو مہینے  کٹ چکا ہے اس کی اب بس دس مہینے کی سزا باقی ہے  لیکن وہ اپنے سر غداری کا لگا الزام   اتارنے سے  پہلے   نہیں مرنا چاہتا  یہ ایک عجیب سی بات ہے ایک ایسا ملزم جو اپنے جرم کی سزا بھی کاٹ چکا ہے وہ آج  کہتا ہے وہ بیگناہ ہے 
 
  میں بھی یہ سب سن کر حیران سا ہو گیا  لیکن میں نے اب  سوچا سلطان انکل  اس آدمی سے بہت ٹچی ہو رہے ہیں اب میں کچھ نہ کچھ تو کروں  وہ  بولے تم میرے ساتھ جیل جا کر ایک دفع اسے مل سکتے ہو  میں تمھاری منہ مانگی فیس  دوں گا  بیٹا اب کی بار میں ہنس دیا  میںنے کہا انکل  میں آپ کا بیٹا ہوں نہ  تو مجھے حکم کریں  یہ فیس والی بات کر کے میرے اور اپنے تعلق کی توہین نہ کریں  وہ اب خوش ہو کر مجھے گلے سے لگا کر بولے آپ بہت اچھے بیٹے ہیں اب جلدی سے تیار ھو جایئں میںنے اب نہا کر لباس بدلہ اور ہلکا سا ناشتہ کیا ویسے تو دن کے بارہ بج رہے تھے میں نے تو ابھی ناشتہ ہی کیا تھا نہ  میں اب ان کو لے کر جیل کی طرف چل دیا وہاں جا کر میں جیلر وقار صاحب کے آفس میں گیا اور وہاں پے انھوں نے  میرا بہت پر تپاک استقبال کیا  اب میں نے  ان کو اپنے آنے کی وجہ بتائی  وہ بھی بولے نواب صاحب سہی کہ رہے ہیں وہ بابا حفیظ  مجھے بھی بیگناہ لگتا ہے پھر انہوں نے گھنٹی بجا کر کسی کو بلایا اب آنے پے اپنے چپڑاسی سے کہا قیدی نمبر
٧١٦ کو لے کر او وہ چلا گیا  اس کے جانے کے بعد ہم لوگ اب چاۓ پینے لگے پھر تھوڑی دیر بعد جو شخص  سپاہیوں  کی سرکردگی میں اندر آیا  اسے دیکھ کر ہی میرا دل بھی چیخ کر بولا یہ مجرم نہیں ہو سکتا ،لمبی سی دھاڑھی ماتھے پے محراب کا نشان اور آنکھوں میں انسانیت کی چمک  میرے سامنے آ کر اس نے مودبانہ سا  سلام کیا  ہم  نے سلام کا جواب دیا اب جیلر صحابنے کہا بیٹھو وہ زمین پے ہی بیٹھ گیا      
 
  ابمیننے کہا نہیں بابا جی صوفے  پے بیٹھیں وہ بولے نہیں صاحب جی میں یہاں ہی ٹھیک ہوں  ابمیں بھی اٹھا اور اس کے سامنے ہی آلتی پالتی مار کر زمین پے ہی بیٹھ گیا اس نے ایک عجیب سی نظر سے مجھے دیکھا جسے صرف میں ہی محسوس کر سکا اب کی بار وہ اٹھا اور صوفے  پے بیٹھ گیا سکڑ سمٹ کے میں بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھا اور اب نواب سلطان نے کہا  حفیظ احمد یہ میرے بھتیجا  ہے شارق  وکیل ہے  میں نے اس سے ساری بات کی ہے تم اپنے منہ سے اسے بتاؤ  کیا ہوا تھا ہم ہر طرح سے تمہاری مدد کریں گے وہ بولا جناب میں نے  یہاں ایک مجرم ہونے کے باوجود  ایک  اچھی طرح سے  سزا کاتی ہے  مجھے نہیں پتا میں باہر کی دنیا میں جی بھی پاؤں گا یا نہیں  یہ داغ لے کر ماتھے پے  میں نے کہا مجھے آپ پوری کہانی سنائیں اپنی  اب وہ بولا جی  جناب  میں  میٹرک پاس ہوں میرے والد شب کبیردین  نواب احتشام  احمد کے خزانچی تھے  ہمارا خاندن ایک پڑھا لکھا خاندن گنا جاتا تھا اس  لئے نواب شب ہماری بری عزت کرتے تھے بعد میں وہی نوکری مجھے ملی اور میں نے نواب شب کے اکلوتے  بیٹے نواب نیاز صاحب کے خزانچی کی حثیت سے  کم کرنا شروع کر دیا  وہ مجھ پے اندھا اعتماد کرتے تھے میرے والد نے میری والدہ کی وفات کے بعد  دوسری شادی کر لی تھی  ان میں سے بھی ایک بھی تھا میرا سوتیلا شرف ادین  لیکن ہماری دوسری والدہ نے کبھی ہم میں کوئی فرق نہ کیا
  اور انہی کی وجہ سے میںنے میٹرک کر لیا میرا بھی بھی جو مجھ سے سات سال چھوٹا تھا مجھے بڑا پیار کرتا تھا  پھر والدہ اور والد صاحب کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا  میں نے اب شرف دین  کو ہر طرح سے پڑھایا لکھوایا  پھر میری شادی عزیزوں میں ہی ہو گی اور مجھے  الله نے ایک ایک سال کے فرق سے دو بیٹے  دیے اب شرف ادینکو بھی نواب نیاز  صاحب نے میرے کہنے پے جنگلات  کی کٹائی  کا دھیاں  رکھنے پے لگا دیا  میں اور میری بیوی  قدسیہ   اب شرف دین کے لئے کوئی رشتہ ڈھونڈ رہے تھے  تا کے اس کا بھی گھر باس جے کے انہی دنوں ایک  خوفناک حادثہ پیش  آ گیا کسی نے نواب نیاز کے گلے پے چھری  پھیر کر ان کو موت کے گھات  اتار دیا  رات کا وقت تھا   اب گھر والوں نے نواب نیاز کی چیخ کی آواز سنی اور ان کے کمرے کی طرف دوڑے پھر انہوں نے شرفودین کو نواب صاحب کے کمرے سے نکلتے دیکھا  اب وہ رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کے بچ نکلا اب سارا شک اسی پے تھا اسے پولیس نے پکڑ لیا وہ اب رو رو کر کہ رہا تھا مجھے تو نواب صاحب نے خود بلایا تھا  ایک کام کی غرض سے  میں جب انکے کمرے میں گیا  تو وہ زندہ نہیں تھے میں ہی خوف سے چیخا تھا  لیکن کوئی نہ مانا اور اس پے لکڑی کی رقم کے خورد بورد کا الزام  لگا دیا گیا 
 
  اب پولیس میرے بھائی کو مار رہی تھی اقبال جرم کے لئے میں اس سے ملنے گیا وہ  رو رو کے بولا میں نے قتل نہیں کیا  بھی صاحب مجھے بچا لیں  میری میں نے مرتے وقت اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا تھا اور کہا تھا حفیظ اسے کبھی سوتیلا  نہ سمجھنا  اب میں بھی  کافی پریشان تھا  کیوں کے نواب نیاز  کی بیگم ایک قبائلی  سردار کی بیٹی تھیں وہ  کہ رہی تھیں وہ اپنے ہاتھوں سے سزا دیں گیں اسے وہ بہت غصہ  والی تھیں  مجھے کوئی راستہ نہ  نظر آیا  اپنے بھائی کو بچانے کا آخر کار میں نے سوچا   اور پھر ایک کافی بری رقم خورد بورد کی   نواب صاحب  کی اور سائیڈ پے لگا دی  مجھے پتا تھا جومیں کرنے جا رہا ہوں اس کا کیا نتیجہ ہو گا اب میں نے عدالت  کے سامنے وہ قتل اپنے سر لے لیا اور کہا جب شرف دین وہاں آیا تھا اس وقت میں نواب نیاز کو قتل کر کے ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا تھا  اور میںنے ان کو قتل اس لئے کیا تھا کیوں کے ایک کافی  بڑی رقم مجھ سے ایک دوست نے لی تھی اور بعد میں وہ غائب ہو گیا  تھا اب نواب شب مجھ سے اس رقم کا تقاضا کر رہے تھے اس لےمیننے ان کو مار دیا اور یوں میں اب ایک قتل کی حثیت سے  جیل  میں آ گیا اور  شرف دین چھوٹ گیا  اب  مجھے عدالت نے چودہ سال کی سزا دی  جسے میں نے ہنس کے گلے لگا لیا لیکن اب کچھ الٹ سا ہوا میرے سسرال والے بہت عزت والے تھے وہ اور میری بیوی مجھ سے نفرت کرنے لگی اس  دن سے آج تک  میرا بھائی ج مجھ سے ملنے نہیں آیا مجھے پتا ہے شرفو قاتل نہیں ہے  میں اب  چاہتا ہوں اصل قاتل کا پتا چلے اور میری پیشانی سے  یہ غدار اور قتل  کا داغ  مٹ جائے
  اب میں سوچ رہا تھا چودہ سال بعد  اس قاتل کو کیسے  تلاش کیا جائے  لیکن میں نے اب  نواب سلطان کی وجہ سے حامی بڑھ لی
 
  میں نے اب انکل سلطان کو گھر چوڑا اور اپنے آفس میں آ گیا اب میں سوچ رہا تھا فرحت پور کے بارے میں  کیا پتا اب وہاں حفیظ بابا کا بھائی  شرفو ہے بھی یا نہیں لیکن  میرے ذھن میں اب بس فرحت پور  ہی گھوم رہا تھا میں نے  اپنے آفس  میں آ کر  فاروقی صاحب اور بھائی  نصرت سے ساری بات ڈسکس  کی  وہ دونوں ہی بولے ایک عجیب سا ہے یہ کیس  آپ کیسے  اب اس قاتل کو ڈھونڈوں گے یار آپ ایسا کرو انکل سلطان سے معذرت کر لو  میں نے کہا نہیں بھائی  میں نے اب اس کیس کو چلینج  کی حثیت سے   قبول کیا ہے اور آگے قدم بڑھا کے پیچھے جانا شارق کی فطرت میں ہی نہیں ہے  
  میں ان کے ساتھ  کوئی تین گھنٹے تک بیٹھا  پھر وہاں سے اٹھا اور  اپنے سٹی  کی  پبلک لائبریری  میں آ گیا وہاں سے میں نے فرحت پور کے بارے میں  معلومات حاصل کیں  وہ ایک پہاڑی علاقہ تھا  جہاں  اکثر برف باری ہوتی رہتی تھی  میں اب لائبریری  سے فارغ ہو کر کرنل عثمان کے گھر میں آ گیا  وہاں مجھے کائنات کو دیکھ کر ایک خوشگوار  سی  مسرت  ملی   وہ سب لان میں ہی بیٹھے تھے  نورین بھابھی نے کہا او  دیور جی  کیسے ھو میںنے کہا ٹھیک ہوں آپ سناؤ بھابھی ابکینات سے حال چال پوچھا   اور کہا یہ اپنے کرنل صاحب کہاں ہیں آج کال وہ بولی  جس کام میں آپ نے ان کو لگا دیا ہے وہ کل آپ کے گھر سے آتے ہی چلے گے تھے ابھی تک نہیں آے ابمیں سمجھ گیا وہ اب داور کمال کے گرد پھندا  تنگ کر رہے ہیں میں نے کہا چلیں  آ جایئں گے  اب کائنات سے کہا یار کاش تم کل آ جاتی تو مزہ آتا  کائنات نے کہا ہاں مجھے ابھی ابھی نورین نے بتایا ہے  آپ کی پارٹی کا میں کچھ  بزی  تھی  اب بھی بس کچھ ہی دیر میں  چلی جاؤں گئی میرے ایگزیم ہو رہے ہیں   میں  نے کہا تب ٹھیک ہے پھر میں  وہاں سے اٹھا  ہی تھا کے کرنل کی جیپ اندر انٹر ہوئی  میں اب دوبارہ بیٹھ گیا اس کے ساتھ کیپٹن حسن بھی تھا  وہ دونو ہی مجھے دیکھ کر خوش ہوے عثمان نے کہا اچھا ہے تم یہاں ہی مل گ
ۓ ورنہ آپ کو  میں نے آج ملنا تھا  
 
  اب میں اس کے ساتھ اندر ایک کمرے میں آگیا اور  پھر مجھے بتایا اس نے کے آج رات تک داور کمال کو گرفتار کر لیا جا
ۓ گا  میںنے کہا  خوب  اب مزہ آے گا وہ بولا میں اسے کوئی پندرہ دیں تو اپنی کسٹڈی میں ہی رکھوں گا بعد میں اسکا کیس چلے گا  اور عدالت سے اسے بچنا  نہیں چاہئیے میں نے کہا نہیں بچے  گا وہ جانی  میں اسے موت سے کم کی تو سزا ہی نہیں  دلواؤں گا وہ بولا ہاں  میںنے کہا میں اب ایک  کیس کی وجہ سے  کچھ دنوں کے لئے فرحت پور جا رہا ہوں  اب کی بار حسن نے کہا وہاں کوئی مسلہ ہو تو  آپ نے مجھے بتانا ہے میرا ایک کزن آج کل وہاں کا ایس پی ہے  میں نے اسے کہا اسے کال کر دو اس نے اسی وقت  اپنے کزن سجاد شاہ  کو کال کر دی آگے سے سجاد نے کہا  ان کو میرا ہی مہمان بننا  ہو گا میں پہلے ہی کہ رہا ہوں میں نے حامی بڑھ لی  اب میں کچھ دیر ان کے ساتھ رہا پھر  میں نے کہا میں آج ہی جاؤں گا  حسن نے کہا شارق بھائی آپ اپنا سفر ٹرین سے کریں مزہ آے گا  آپ کو سفر کا راستے میں کمال کے نظارے ہیں  میں نے کہا ٹھیک ہے اب میں ان سب سے ملکر اپنے گھر آیا اور ڈیڈی کو بتایا  سب ہی اکٹھے  ہی بیٹھے تھے  اب کی بار ڈیڈی فرط جذبات سے اٹھے اور مجھے گلے سے لگا لیا اور کہا  بیٹا مجھے آپ پے فخر  ہے مجھے سلطان نے سب بتا دیا ہے  آپ نے مجھے دوستی میں شرمندہ ہونے سے بچا لیا اگر آپ نہ لیتے یہ کیس اپنے ہاتھ میں تو مجھے ساری عمر سلطان  سے شرمندگی رہتی  میں نے کہا ایسا کیسے ہو سکتا ہے پاپا وہ آپ کے دوست ہیں اور مجھے بہت عزیز ہیں ان کا ہر کہا ہوا لفظ میرے لئے حکم کا درجہ رکھتا ہے  اب سب ہی بہت خوش تھے میری ان باتوں سے پھر  میں نے صدف لوگوں کو ساتھ لیا اور باہر لان میں آ گیا  اب میری طرف دیکھ کر پری نے بہت پیار بھرے لہجے میں کہا  شارق آپ ہر لحاظ سے ایک  آئیڈیل  مرد ہیں  ایک اچھے بیٹے ہیں  اچھے بھی ہیں اور ایک اچھے دوست ہیں  اب کی بار صدف نے کہا اور ایک اچھے  بیڈ کے ساتھ بھی ہیں  یار یہ بھی کہوں نہ میری  رانی ہم سب ہنس دِیے
  اب میں نے اپنی ساری  پیکنگ دیکھی اور  صدف اور عالیہ  نے پری کو ساتھ لیا اور کہا اب پری کچھ دیں ھمارے گھر رہے گی اور مجھے کہا  آییں آپ کو ہم  چھوڑ دیں راستے میں ہی ہے اسٹیشن  میں ان کے ساتھ ہی بیٹھ گیا سب سے ملکر سب نے مجھے اپنی دعاؤں میں رخصت کیا  اب صدف جو میرے ساتھ ہی پیچھے بیٹھی تھی  عالیہ  ڈرائیونگ کر رہی تھی اور پری اس کے ساتھ بیٹھی تھی  اب صدف نے کہا  یار جلدی آنا تم بن اب مزہ نہیں آے گا  اب ہم تینوں  خود ہی ایک دوسری کو مزہ دیں گئیں میں ہنس دیا  مجھے ریلوے اسٹیشن پے چھوڑ کر وہ تب تک وہاں ہی رہیں جب تک میں اپنے اپارٹمنٹ  میں داخل نہیں ہو گیا صدف لوگوں نے پورا ایک دبا ہی میرے لئے ریزرو کروا لیا تھا  یہ ٹرین حسن پور تک جاتی تھی وہاں سے آگے بسیں جاتی تھیں  فرحت پور  کی آبادی کوئی ڈیڑھ لاکھ تک تھی وہ ایک برا سا قصبہ تھا  جہاں کھیتی باری ہی زیادہ ہوتی تھی اور اب کچھ کھاد  بنانے والی فیکٹریاں لگا دیں تھیں بیگم  نواب نیاز نے وہ ساری جاگیر کی اب مالک تھیں  میں اب اپنے  مخصوس  کمپارٹمنٹ میں داخل ہو کے ایک برتھ پے لیٹ گیا  میں اپنی نیند پوری کرنا چاہتا تھا دروازہ میں نے لاک کر دیا تھا اب کسی اور نے تو آنا نہیں تھا وہاں پے
 
  اور پھرتھوڑی ہی دیر میں نیند کی دیوی نے اپنے پر پھیلا
ۓ اور مجھے اپنی آغوش میں لے لیا   میں  کوئی چار گھنٹے تک سویا اب ٹرین  پہاڑی علاقے  سے گزر رہی تھی  میں باہر کے اب نظارے دیکھنے لگا  ایک گھنٹے بعد  حسن پور کا اسٹیشن آ گیا  میں نیچے اترا  اب میںنے وہاں سے ہلکا پھلکا  کھانا کھایا اور  فرحت پور کے بارے میں معلومات  لی  اسی ہوٹل والی نے کہا  جناب اب تو ایک ٹرین بھی جاتی ہے وہاں پے  آپ بس سے جو گے تو آپ کو دو گھنٹے لگیں گے اور ٹرین سے ایک ہی گھنٹہ اور سفر بھی مزے کا  اب میںنے  وہاں سے  اسٹیشن میں آیا اور فرحت پور جانے والی ٹرین کی ٹکٹ لی  مجھے پتا چلا وہ ٹرین ابھی پندرہ منٹ بعد آنے والی ہے  پھر وہ ٹرین بھی آ گئی میں جلدی سے ایک کمپارٹمنٹ میں داخل ہوا  اور ایک برتھ   پے بیٹھ گیا میری ٹکٹ پے یہی نمبر تھا   اب مجھے وہاں بیٹھے پانچ منٹ ہی ہوے ہوں گے اور میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا کے اچانک  ایک نسوانی آواز  نے مجھے چونکا دیا  تم ؟ میں نے پالت کے دیکھا وہ  لڑکی وہی تھی  جس  کو اس دیں پارکنگ میں  نے کس  سینڈ کی تھی  ہوائی  اس کے ساتھ ایک  اور لڑکی بھی تھی وہ اب میری طرف یوں بھری جیسے مجھے  مار ہی ڈالے گئی  لفنگے  اس دن بھاگ گے تھے ورنہ  اسے اس کی ساتھی لڑکی نے  کمر سے پکڑا اور کہا  کیا کر رہی ھو یار  پاگل ہو گی ھو وہ گھسے سے بولی چھوڑوں مجھے  نائلہ یہ وہی لفنگا   ہے  پارکنگ والا اب کی بار وہ لڑکی بھی چونک گی اور کہا چلو چھوڑو بھی اب 
 
  اب کی بار وہ  بولی آج نائلہ نے تم کو بچا لیا  ورنہ میں تو مار ہی ڈالتی تم کو  اب کی بار میںنے کہا محترمہ آپ کہیں پاگل تو نہیں ہیں  کیاکہ رہی ہیں کون ہیں آپ نہ جان نہ پہچان  اور ایسے ہی گلے پڑھ رہی ہیں  اب وہ بولی آپ نے اس دیں مجھے کس کیوں  کیا تھا اپنی گاڑی میں سے  اب کی بار میں نے ذرا سنجیدہ بن کے کہا کس پاگل نے آپ کو کس کیا میں آپ کو آج پہلی دفع دیکھ رہا ہوں اب کی بار وہ بولی یہ نہیں ہو سکتا  کیا یہ کوئی فلم ہے جہاں آپ کا کوئی  ہم  شکل نکل آے  اب کی بار میں نیس کے ساتھ والی لڑکی سے  کہا کیا ان کو پہلے بھی ایسے دورے پڑھتے ہیں  محترمہ  وہ اب ہنس کے بولی نہیں جی آج ہی ایسا ہوا  ہے اب وہ ناک چھڑی بولی  نائلہ کیا بکواس ہے یہ  اب نائلہ نے کہا یار عفت  آپ خود ہی سوچو  جب وہ کہ رہے ہیننہی جانتے تو کیا تک ہے اب ان سے لڑائی  کی اب کی بار وہ محترمہ عفت بولی  یار  یہ ڈرامے کر رہا ہے اس کی  آنکھوں میں دیکھوں صاف نظر آ رہا یہ جھوٹ بول رہے ہیں محترم  ابمیننے ہنس کے کہا نائلہ صاحبہ میرا ایک مشورہ ہے اپنی اس آفت  دوست کو کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھاؤ  میرے منہ سے آفت کا لفظ سن کے نائلہ تو ہنس ہنس کے دوہری ہو گئی
 
  اب اس نے کہا آپ کو کیسے پتا چلا ہم  اس کو آفت کہتے ہیں  میںنے کہا لو جی یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے  ان کی حرکتوں  سے ہی سمجھ آ جاتا ہے  اب کی بار اس آفت نے کہا شٹ اپ  میرے منہ نہ لگو اب اور اپنی آنکھوں پے ہاتھ رکھ  کے لیٹ گئی  اب نائلہ نے کہا آپ کہاں سے آ رہے ہیں  میں نے کہا  جی ابھی تو  فرحت پور جا رہا ہوں  وہاں پے مرحوم  نواب نیاز  صاحب کی بیگم سے ملنا ہے  اب یہ سن کر وہ آفت ایک دم سے چونک گئی  اور کہا ایسی کی تیسی تمہاری  تم میرے گھر میں گھسے بھی  اس نے کافی ہلکے سے کہا تھا  مگر میرے کان  تو سن ہی لیتے تھے اب میں بھی چونک گیا اور دل میں کہا تو یہ  آفت نواب صاحب کی صاحبزادی ہے  میںنے اب کہا  اچھا عفت ایک بات تو بتائیں آپ بھی کیا یہاں کی ہی رہنے والی ہیں وہ بولی مجھ سے بات نہ کرو  آپ اس  نائلہ سے ہی پوچھو  جو پوچھنا ہے اب نائلہ نے ہنس کے کہا  ہاں جی آپ ان کو مت بلائیں یہ اب بہت غصے میں ہیں  اب نائلہ نے سیریس ہو کر کہا ویسے  محترم کسی لڑکی  کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی کھڑی کر کے بھول جانا اور بعد میں اسے ہوائی کس کرنا بری بات ہے  میں نے اب کی بار ہنس کے کہا وہ تو مجھے ان پے اس وقت پیار سا آگیا  تھا  یہ اتنی معصوم سی بن کے بات کر رہی تھیں  اب نائلہ کی طرف دیکھ کر عفت نے کہا ہاں اب بتاؤ میں نے نہیں کہا تھا یہ اب بن رہے ہیں ان کو سزا اب ملے گئی  میں نے کہا کس بات کی سزا وہ بولی کس کرنے کی  میں نے اب کی بار کہا 
  سر تسلیم خم ہے
  جو مزاج  یار میں آئے  
 
  اب کی بار وہ  بولی آپ  میں دیکھ لوں گئی آپ کو میںنے کہا جی ضرور دیکھنا اور اب اپنی آنکھیں موند کے اپنے برتھ  پے لیٹ گیا اب  میں نے  پھر سارا راستہ اپنی آنکھیں بند ہی رکھیں  میں سوچ رہا تھا وہاں جا کے کیاکہوں گا  بیگم نیاز کو  اور پھر نائلہ نے کہا مسٹر اٹھ جو فرحت پور آ گیا  ہے میں نے اب اپنا سامان  لیا اور ان کے پیچھے ہی ٹرین سے  اترا  بہت سردی تھی باہر  چاروں طرف کُہَڑ چھایا ہوا تھا سب ہی لوگ اپنے آپ کو گرم کپڑوں میں لپٹے پھر  رہے تھے میں نے ابھی ایک گرم  جیکٹ  پہنی اور اپنا بیگ  لے کر ٹیکسی  اسٹینڈ کی طرف بھرا  اب میں نے ایک  ٹیکسی  ڈرائیور سے کہا مجھے  پولیس  گیسٹ ہاؤس  جانا ہے وہ بولا چلو جی جایئں گئے  اور میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گیا اب ایک طرف میں نے ایک نئی مرسڈیز  میں عفت اور نائلہ کو بیٹھتے دیکھا نائلہ نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور مسکرا دی میںنے بھی مسکرا کے  ہاتھ ہلا دیا  اب میری ٹیکسی نے  مجھے دس منٹ میں ہی پولیس گیسٹ ہاؤس کے سامنے اتارا  اور اپنا کرایا لے کر چل دیا میںنے اب  اندر داخل ہو کر مین گیٹ کے ساتھ بنے ایک کمرے میں گیا  وہاں ایک سپاہی بیٹھا اونگھ رہا تھا  میں نے اسے کہا میںایس پی سجاد شاہ کا مہمان ہوں وہ بولا اپ  شارق شبہ ہیں نہ میں نے کہا جی وہ مجھے اب اپنے ساتھ لئے ایک اچھے سے بیڈ روم میں لے آیا اور وہاں پے ہیٹر جلایا  اور مجھے کہا جناب آپ آرام کریں  کچھ کھانا پینا ہے تو بتا دیں میںنے کہا نہیں یار اب میں بس کچھ دیر لیٹوں گا
 
  پھر کوئی تین گھنٹے بعد مجھے ملنے  سجاد شاہ آیا وہ ایک نوجوان   تھا اور اپنی  پولیس  کی وردی میں تھا  وہ مجھ سے ایسے ملا جیسے قریبی عزیز ھو اور کہا یار آپ کے بارے میں حسن کا  بڑا سخت آڈر  تھا آپ کو کوئی تکلیف نہ ہونے پا
ۓ  پھر ہم نے  ایک ساتھ ہی  کھانا کھایا  ابمیں نےاسے ساری بات بتائی  وہ بولا  آپ سے میں تعارف  تو کروا دوں گا بیگم نواب کا  لیکن وہ ایک سخت قسم کی عورت ہے اور اس سارے علاقے کی ایک حساب سے بےتاج بادشاہ ہے  کیوں کے  اس کا باپ ایک بہت بڑے قبیلے کا سردار ہے اور یہاں کا وہ سب سے بڑا قبیلہ ہے  اس لئے  میںنے کہا کوئی بات نہیں تم بس ملاقات کا بندوبست کرو اب اس نے کہا تو تم ایس کرو کسی اشاعتی ادارے کا  ورکر بن کے ملاقات کرو  میںنے کہا ٹھیک ہے پھر وہ دن ہم نے ایک ساتھ ہی گزارا اور رات کو میں سکون سے سو گیا اگلے دن میں گیارہ بجے اٹھا  اور اپنے لباس کو بدل کے میں نے ناشتہ کیا  اسی وقت مجھے سجاد شاہ نے بتایا  بیگم جہاں آرا سے ٹائم لے لیا گیا ہے آپ اب جا کے مل لو میں اب  ناشتے کے بعد کافی پی اور پھر  نواب ہاؤس کی طرف چل دیا  نواب ہاؤس ایک  بہترین محل نما امارت کا نام تھا اور وہاں  ایک جہازی طرز کے گیٹ پے صاف ستھری وردی میں  کوئی چار لوگ  ہاتھ میں گنیں لئے ٹہل رہے تھے  میں نے سجاد سے اس کی ذاتی کار لے لی تھی  ان کے قریب جا کر میںنے کہا میں بیگم جہاں آرا صاحبہ سے ملنا چاہتا ہوں  میںنے ان سے ٹائم لیا ہے وہ بولا کار یہاں ہی کھڑی کرو اور اندر چلے جاؤ میں اندر داخل ہوا اور ایک  ساتھ والے کمرے میں ایک شخص ایک میز پے بیٹھا تھا  اس نے مجھے دیکھا اور اٹھ کے میری طرف آیا  میں نے کہا میں بیگم صاحبہ سے ملنے آیا ہوں اور اپنا نام بتایا  اس نے ایک رجسٹر  سے آج کی ملاقاتوں والی لسٹ میں میرا نام دیکھا اور کہا جی آپ ایک منٹ  ٹھریں اب اس نے ایک خوبصورت سے انٹر کام  سے اندر رابطہ کیا اور میرے متعلق بتایا  پھر کوئی  پانچ منٹ بعد اندر سے ایک  شخص آیا اور کہا آئیں جناب  وہ مجھے ساتھ لئے ایک شاہانہ طرز کے سجے ہوے ڈرائنگ  روم میں ایک  قیمتی  صوفے پے بیٹھا کے چلا گیا  پھر ایک اور ملازم  ایک  ٹرے میں چاۓ کا سامان لئے آیا اور کہا  آپ  چاۓ پی لیں  بعد میں آپ کو بیگم صاحبہ سے  ملوایا جاۓ گا    
 
  پھر میں ابھی چا
ۓ سے فارغ ہی ہوا تھا وہی ملازم آیا اور برتن اٹھا لے گیا  اب ایک خوبصورت  لڑکی اندر داخل ہوئی اور کہا آ جائیں آپ کو بیگم صاحبہ نے یاد کیا ہے اب میں ایک ایسے کمرےمیں داخل ہوا اس کے ہمراہ جہاں ہر طرف لالی ہی لالی تھی  کمرے میں ہر چیز کا رنگ لال تھا پردے اور صوفے  یہاں تک کے دیواروں پے بھی لال رنگ ہی پینٹ  تھا  اس سے بیگم جہاں آرا کے مزاج کا پتا  چلتا تھا وہ ایک خون آشام عورت  ہیں لیکن جب وہ اندر سفید لباس میں داخل ہوئی تو  میں چونک کے اٹھ کھڑا ہوا لمبا قد  اور دراز بال  سرخ و سفید رنگ  آنکھیں بڑی بڑی اور کشادہ  ہونٹوں کی بناوٹ  اوبتا یہ ظاہر کرتی تھی وہ کافی سفاک شخصیت کی مالک ہیں باریک باریک اور بھنچے ہوے ہونٹ  میںنے اب ان کو سلام کیا جس کا انہوں نے  سر کے اشارے   سے جواب  دیا اور ایک صوفے میں بیٹھ گئیں  مجھے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ  کوئی چالیس کے پیٹے کی خاتون تھیں اب وہ  اپنی سرد آواز میں بولیں  لڑکے ہم کو سجاد شاہ نے تمہارا بتایا تھا  لیکن  تم ہم سے کیا پوچھنا  چاہتے ھو میں نے کہا بیگم صاحبہ میں ایک فری  لانسر رائیٹر ہوں مختلف موضوعات پے کتابیں لکھتا ہوں آج کل میری زیر تحریر جتاب ہے اپنے ملک کی مختلف معزز اور عجیب شخصیات کے بارے میں لکھ رہا ہوں  میں اس سلسلے میں بہت سی جہگوں کا دورہ کر چکا ہوں اور بہت ہی کمال کی شخصیتوں سے بھی مل چکا ہوں پھر کہیں سے نواب نیاز  کا اور آپ کا ذکر سنا تو آپ سے ملنے چلا آیا آپ نے مرحوم نواب صاحب کے بعد فرحت پور کی  حالت ہی بدل دی ہے میں پہلی دفع یہاں آیا ہوں لیکن  مجھے ہر طرف ایک نفاست نظر آئی  ہے  اور یہاں پے کھاد بنانے کے کارخانے  لگانا بھی آپ کی ذہنی  نفاست کی طرف جاتی ہے یہاں پے آپ نے بہت کام  کیا  ہے جس کا سہی  لفظوں میں ذکر نہیں کیا گیا ہے  اب میں  نے  سنا ہی آپ ایک ایسا   جدید  فرحت پور  تیار کرنا چہ رہی ہیں جو اپنی مثال آپ ھو کیا آپ مجھے اس بارے میں تفصیلات  بتانا پسند کریں گیئں  
 
  اپنی کتاب  میں  اس گراں قدر اضافے پے میں ہمیشہ  آپ کا مشکور رہوں گا اب یہ سب سن کے ان کی آنکھوں کی رنگت بدلی اور وہ ہلکا سا مسکرا کے بولی کیا نام ہے آپ کا لڑکے میں نے کہا جی  شارق  حسین  وہ بولی مجھے آپ کی کاوش اچھی لگی میں تمہاری ہر طرح سے  مدد کروں گئی  یہ سب میرے شوھر کی خوائش تھی میںنے کہا بیگم صاحب  آپ نے اپنے شوھر سے محبت  کا حق  ادا کر دیا ہے  وہ بولی ہاں  میں نے کہا مجھے یہاں آے کچھ ہی دیں ہوے ہیں میں نے یہاں کا جائزہ لیا ہے  ایکبات کہوں گا اپ کو بری لگے تو معذرت خوا  ہوں مجھے پتا چلا ہے نواب صاحب  کو قتل کیا گیا تھا اور اصل مجرم نہیں پکڑے گئے  آپ نے ایک بے گناہ کو  سزا دلوا دی وہ اب کی بار غصے سے پھنکار کے بولی بکواس کرتے ہیں وہ لوگ  اس نمک حرام حفیظ  نے اقبال جرم کیا تھا  خود  میںنے کہا ہو سکتا ہے پولیس نے  یہ سب کسی کے اشارے پے کیا ہو  اب وہ غصے سے بولیں تو  کوئی مجھے بتایے  آ کر یہ کس نے کیا تھا اگر حفیظ نے نہیں کیا تو  میں نے  کہا اب میں آپ کے شوھر کے اصل قاتلوں کو بھی ڈھونڈوں گا یہ میرا وعدہ ہے وہ بولی لڑکے  اگر  تم نے ایس اکیا تو میں تم کو منہ مانگا انام دوں گئیں کیوں کے مجھے بھی آج تک یہ  ہی محسوس ہوتا ہے حفیظ قاتل نہیں ہے  لیکن آج تک مجھے اصل سراغ نہیں مل سکا  آج سے تم میرے مہمان ھو یہاں  ہی رہو گے  اور مجھے پتا ہے تم بھی ناکام ہی رہو گے  میں نے اب ہنس کے کہا اور اگر میں کامیاب ہو گیا تو  وہ اب مجھے دیکھ کے بولی اگر تم  نے نواب صاحب کے اصل قاتل میرے سامنے کر دِیے میں  سمجھوں گئی میں نے ان سے وفا نہیں کی جو ابھی تک ان کے قاتل نہیں ڈھونڈ سکی اور  جتنے سال گزرے میں ہر سال کے بدلے تم کو ایک کروڑ دوں گئیں  یعنی کے اب تک چودہ  سال گزرے ہیں اور تم کو چودہ کروڑ کا انعام دوں گئیں  پھر تم کو ساری زندگی  نواب بن کے گزار سکتے  ھو میں نے کہا بیگم صاحبہ مجھے کروڑوں کا کوئی لالچ نہیں ہے  میں آپ کو ذہنی  سکون دینے کے لئے ان کو ہر حال میں ڈھونڈوں گا  اب کی بار وہ بولی واہ  لڑکے دل خوش کر دیا  تم کو اس پوری ریاست  فرحت پور میں جس سے چاہو پوچھ غیث کر سکتے ھو اور  مجھے اب تم  جا سکتے ھو اپنا سامان یہاں ہی لے آو ایک گاڑی تمہارے لئے مخصوس  کر دی گئی ہے  میں اب ان کو سلام کر کے باہر نکل آیا  اب میں جیسے ہی مین گیٹ پے آیا  
 
  پیچھے سے مجھے نائلہ نے آواز دی اور کہا جناب رائیٹر صاحب بات تو سن لیں اس کے ساتھ اب عفت بھی تھی وہ  بولی شارق  میںنے سب سن لیا ہے میں آپ کا ساتھ دوں گئیں  مجھے اپنے ساتھ رکھو  میں بھی جانتی ہوں  بابا حفیظ میرے پاپا کا قاتل نہیں ہو سکتا  پھر میں وہاں سے گیسٹ ہاؤس میں آیا وہاں سے  سجاد کو کال کی اور ساری بات بتائی  وہ بولا او کے  دوست  میں اب وہاں سے نواب ہاؤس میں شفٹ ہو گیا  پھر میں اور  وہ دونوں  نائلہ اور عفت میرے ساتھ ہی تھیں  ہمنے کوئی تین دن ہر طرح سے پتا کیا  کسی کے پاس سے کوئی  کام کی بات کا پتا چل جا
ۓ  نہیں  چل سکا  آج چوتھے  دن میں  حفیظ بابا کی بیوی سے ملنے اکیلا ہی گیا  اس نے مجھے اچھے سے  بات کی  وہ رو کر بولی  میں کیا بتاؤں آپ کو بتا میرے دونوں بیٹے  اور میری بیٹی  ان سے نفرت کرتے ہیں   میں نے کہا آپ مجھے یہ بتائیں کیا کوئی ایسی چیز جو آپ کو دی ھو  بابا حفیظ نے وہ  بولی مجھے نہیں یاد  میں آج دکھوں گئیں اور پھر کہا ایک منٹ ایک دفع ایک  بکس دیا تھا چھوٹا سا  اور کہا یہ نواب صاحب کی امانت ہے  میں ابھی لائی پھر وہ کوئی بیس منٹ بعد ایک چاندی  کا بنا ہوا ایک  باکس لے کر آ گیئں  میں نے اسے کھولا  اس میں کچھ کاغذ تھے   میں وہ پڑھنے لگا  اور پڑھتے ہی میں چونک گیا
 
  میںنے ان کو اپنے دوبارہ  سے اسی باکس میں ڈالا اور کہا میں یہ لئے جا رہا ہوں ان سے کافی مدد مل جا
ۓ گئی اب میں واپس  نواب ہاؤس آ رہا تھا کے ایک  سنسان سے  راستے پے  میری گاڑی کے آگے  ایک جیپ نے ایک طرف سے نکل کر راستہ روکا  اور اس میں  سے کوئی پانچ لوگ باہر آے  وہ سب اپنا منہ پے نقاب لگاۓ   ھوے تھے وہ تیزی سے میری یعرف آے اور مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا میں جیسے ہی باہر آیا ایک نے پیچھے سے میرے سر  پے اپنی گن کا بٹ مارنا چاہا میں نے اسے ایک طرف  ہو کر ناکام کیا اور اب تیزی سے اپنی کوٹ کی جیب سے پسٹل نکال کے ان کی طرف کر کےگولیاں چلا دین اس سے پہلے کے وہ اپنے کندھے سے  اپنی گنیں اتارتے وہ ایک ایک کر کے گر گے سب کو ہی دل میں ہی لگی تھیں  گولیاں  اب ایک ہی بچا تھا اسے میں نے جان بوجھ کر بازو پے گولی ماری تھی  اب میں نے اسے  ایک زور سے لات ماری اور اس کے منہ سے نقاب اتار دیا  وہ اب درد سے چیخ  رہا تھا میںنے  کہا کون ھو تم  وہ بولا  نہیں بتاؤں گا میں نے اس کی ایک ٹانگ میں گولی ماری  وہ بولا مجھے بھی  مار ڈالو  تم بھی نہیں بچو گے  میںنے کہاکوئی بات نہیں ابھی فل حال تم اوپر جاؤ اب میں نے پسٹل کا رخ اس کی طرف کیا  وہ بولا  میں بتاتا ہوں   میں نواب شمشیر  کا آدمی ہوں  میں نے کہا مجھے کہاں لے جانا چاہتے تھے وہ بولا یہاں سے پاس ہی ایک غار  میں  اسے کہا چلو مجھے وہ غار کا راستہ بتاؤ  اب میں نے ان سب کی لاشوں کو ایک ایک کر کے اسی جیپ میں لادا اور جیپ  سٹارٹ کیا  گئیر میں ڈالا وہ ایک دم سے اچھل  کے آگے گئی ایک لاش کا پاؤں ریس پے ہی تھا اچھلنے سے وہ آگے کو جھکا اور وزن آیا اکسیلیٹر پے وہ ایک گونج سے آگے کو اچھلی اور تیزی سے سیدھی گئی  آگے اب سڑک نہیں تھی ایک کھائی تھی وہ اس میں گر گئی 
 
  یہ پسٹل مجھے  نائلہ نے دیا تھا اس میں اٹھارہ  گولیاں  تھیں ایک میگزین میں  اور سب سے اچھی بات اس پے ایک چھوٹا سا سلنسر لگا تھا  اسی لئے اتنی  گولیوں سے بھی کوئی آواز پیدا نہیں ہوئی تھی صرف  سٹک سٹک  کے سوا  اب میں نے اسے ساتھ لیا اور اس غار کی طرف چل دیا وہ اب کافی خوفزدہ تھا  وہ غار ایک کافی کھلا غار تھا اور اس کے منہ پے کافی  جھاڑیاں تھیں کوئی ایک نظر میں نہیں دیکھ سکتا تھا وہ سوراخ  اندر جانے والا  اب اندر لا کر اسے میں نے کہا سچ بتاؤ کیوں مجھے  یہاں لانا چاہتے تھے  وہ بولا  میں سچ کہ رہا ہوں  ابکی بار میں نے کہا  نواب  رستم سے کیا تعلق ہے تمہارا وہ ایک دم یوں چونکا جیسے  اسے کسی سانپ  نے کاٹ لیا ھو  میں سمجھ گیا ساری بات کیوں کے ان کاغذات پے  نواب رستم کا  نام لکھا تھا وہ رستم اور نیاز  میں ھوے ایک معائدے کے کاغذ تھے  رستم نے اپنی بیوی  کی پانچ سو ایکڑ زمین گروی رکھ کر نواب نیاز سے  بہت بڑی  رقم ادھار لی تھی  ان میں اس زمین کی ملکیت کے کاغذات بھی تھے  اب وہ  مجھ سے بولا تم کو نواب رستم نہیں چھوڑے گا  اس نے تم کو قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے  میںنے پھر اس سے اپنی مرضی کے سوال کرنے لگا ان کے وہ اب آرام سے جواب دے رہا تھا پھر میں نے  اسے وہاں مجود رسیوں سے بندھ اور باہر آ گیا اب میں اس پہاڑی سے اترا اپنی گاڑی  میں  بیٹھا اور نواب ہاؤس میں آ گیا  وہاں آ کر میں نے پہلے اپنے کمرے میں جا کر  واش روم  میں جا کر نہا کر گرم پانی سے تولیہ لپٹ  کر باہر آ گیا  میں جیسے ہی واش روم سے باہر آیا میرے بیڈ پے عفت اور نائلہ بیٹھی تھیں  وہ مجھے اس حالت میں دیکھ کر شرم سے لال ہو گئیں میں بھی پلٹ کے اندر واش روم میں داخل ہوا اور کہا آپ باہر جاؤ دونوں دس منٹ بعد آنا وہ دونوں ہی شرماتی ہوئی باہر چلیں گئیں  ابمیننے باہر آ کر دروازہ بند کیا اور اپنے کپڑے پہنے  کیوں کے پہلے لباس کو خون لگا ہوا تھا  اب کوئی بیس منٹ بعد کمرے کے دروازے پے دستک ہوئی میں اس وقت وہ سارے کاغذات کھولے بیٹھ  کے پڑھ رہا تھا میں نے کون  ہے   آواز آئی نائلہ ہوں میں نے دروازہ کھولا وہ اور عفت  اندر آ گئیں اب میں نے کہا سوری مجھے نہیں پتا تھا  وہ بولی کوئی بات نہیں سوری  ہم کو بھی ایسے اندرنہی آنا چائیے تھا
 
  اب ان کاغذات کو دیکھ کر عفت نے کہا یہ کیا ہیں اب میں نیس سے پوچھا یہ نواب ششیر  کون ہے وہ بولی ساتھ والے علاقے کے نواب ہیں پاپا کے دوست تھے میں نے اب نواب رستم کا پوچھا وہ بولی وہ  نیلم پور  کے نواب ہیں یہاں سے آگے ان کا ہی علاقہ آتا ہے کافی بڑا شہر  ہے میں نے اسے کہا یہ لو ان کو پڑھو وہ سارے کاغذ  پڑھ کے بولی  اف  اس زمیں سے تو آجکل معدنیات نکل رہی ہیں  انہی کی وجہ سے نیلم پور آج یہاں کا سب سے بڑا اور جدید شہر ہے اور نواب رستم  اب یہاں سے قومی اسمبلی کے ممبر بھی ہیں میں نے کبھی نہیں سنا کے انہوں نے ہم سے کوئی رقم ادھار لی ھو میں نے کہا میرے ساتھ آو پھر میں ان دونوں کو لئے  اسی غار میں آ گیا  اب وہ بندہ درد سے چیخ رہا تھا اسے دیکھتے ہی  عفت نے کہا حاکم خان تم  یہاں  میں نے کہا یہ کون ہے وہ بولی یہ ہماری ساری جاگیر کا رکھوالا ہے اور نواب ہاؤس کی ساری سکیورٹی  اس کے ہی انڈر ہے  اب میںنے غصے سے اس کی طرف بڑھا اور ایک ٹھوکر مار کےکہا تمہارے اس حرامی  سکیورٹی  چیف نے آج مجھے مارنا چاہا تھا اس کے ساتھ اور بھی چار لوگ تھے اب ان کو ساری بات بتا دی  اب کی بار عفت نے کہا حاکم خان  میرے پاپا کو کس نے مارا تھا اگر تم نے سچ نہ بولا تو میں تمہاری بیوی اور بچوں پے بھوکے  کتے چھوڑ دوں گیں اب وہ دار کے بولا چھوٹی بی بی نواب صاحب کو شرف دین نے مارا تھا  میں اس کے ساتھ تھا  نواب رستم نے کچھ قرضہ لیا تھا نواب نیاز سے اب اسے وہ واپس نہیں کر رہا تھا اور نواب نیاز نے اس زمین پے قبضے کے لئے  کہا اسے جو اس نے گروی  رکھی تھی  پھر انہی دنوں شرفو  کا نواب رستم کی جاگیر کے ایک بندے کی بیٹی سے آنکھ مٹکا ہو گیا نواب اور وہ رنگے ہاتھوں پکڑا  گیا تو نواب کے سامنے اسے پیش کیا گیا اب اسے نواب نے کہا اگر تم میرا ایک کام کر دو  میں تم کو مالا مال کر دوں گا اور اس لڑکی سے بھی شادی کرا دوں گا  اب وہ ماں گیا پھر  مجھے سہارفو نے ہی اپنے ساتھ ملایا  ان دنوں میں بس  ایک عام سا  گارڈ ہی تھا  پھر ہم نے اس رات نواب صاحب کو قتل کیا میںنے ان کو پکڑا ہوا تھا  اور شرفو نے ان کے گلے پے چھری چلا دی
 
  یہ سنتے ہی عفت اس کی طرف دوری اور کہا میں تمہارا خون پی جاؤں گیں نمک حرام  اور اسے زور  زور سے  اپنی ٹانگوں کے ساتھ  مارنے  لگی   پھر اس نے حاکم کی ہی بندوق جو ایک طرف پڑی تھی وہ اٹھا لی اور اسے  مارنے ہی لگی تھی نائلہ نے اسے پکڑ لیا وہ نیلا کے قابو نہیں آ رہی تھی اب نائلہ نے مجھے  کہا اسے پکڑیں  یہ اسے مار ڈالے گیاب میں نے آگے بڑھ کے عفت کو پکڑا اور پیچھے کھینچا  وہ اب زور لگا کے مجھ سے خود کو چھڑا رہی تھی اور میں نے اب اسے اپنے ساتھ لگا لیا اسی زور آزمائی میں  میرے ہاتھ اس کی چھاتی سے  ٹچ ہونے لگے اب مجھے پتا ہی نہ چلا  میں نے اسے اب چھاتی سے پکڑ کے پیچھے ہٹا رہا ہے تھا  اب وہ کچھ سنبھل سی گی اور اب اسے احساس ہوا  میرا ہاتھ ابھی تک اس کی نرم و ملائم  چھاتی پے تھے  وہ اب کچھ شرم سے  دوہری ہو گئی اور ہلکی آواز میں کہا شارق اپنا ہاتھ پیچھے کرو  مجھے درد ہو رہا ہے اب مجھے بھی پتا چلا میں نے اسے کہاں سے پکڑ رکھا  ہے  پھر میں ایک دم سے اسے چھوڑ کے پیچھے ہٹ گیا اب  نائلہ نے کہا اسے گھر لے چلو اس  اعلاج  ہونا ضروری  ہے  اب ہم اسے گاڑی میں ڈال کے گھر لے آے پھر اسے نواب ہاؤس  کے پیچھے بنی ہوئی ایک عمارت میں قید کر دیا ہم نے اور اب ہم نے ہاتھ  دھو کر  کھانا کھایا  اور اب  عفت نے کہا شارق میں آج بہت خوش ہوں  آج مجھے  ایک موقع ملا ہے اپنے باپ کے قاتلوں  سے انتقام لینے  کا  اب ہم نے کھچ دیر تک اپس میں  بات چیت کی اور  میں اب اٹھا اور اپنے کمرے میں سونے آ گیا  اب عفت میرے پاس آئی اور کہا  مجھے آپ سے کام ہے میں بعد میں ہوں گئی آپ دروازہ نہ بند  کرتا اور چلی گئی
  میں سوچ رہا تھا مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے اسے  اب میں نے اپنے خیال سے اسے نکالا اور آگے کے بارے میں سوچنے لگا کیوں کے جب تک مجھے کوئی پکا ثبوت نہ ملتا تب تک میں بابا حفیظ کے لئے کچھ نہ کر سکتا تھا اب میں نے  سوچا مجھے کسی طرح حکم سے شرف الدین  کا پتا پوچھنا چاہیے تب ہی مسلہ حل ہو گا میں یہی سوچتا رہا اور میرےذھن میں ایک پلاننگ آ گئی اب میں نے سوچ لیا کیا کرنا ہے  پھر میں کروٹ بدل کے لیٹا اور میری آنکھ لگ گئی مجھے سوتے میں ہی یوں محسوس ہوا کسی نے مجھے پکارا  ہے میں نے اب اپنی آنکھ کھولی دیکھا تو وہ عفت تھی  وہ میرے بیڈ کے پاس ہی کھڑی تھی  اب اس نے کہا آپ کو بڑی جلدی تھی سونے کی پھر  میں نے اسے کہا بیٹھو اور بتاؤ کیا بات ہے وہ اب کچھ نہ بولی اور کہا کچھ نہیں بس ویسے ہی آپ سے بات کرنے کو دل  چاہ رہا تھا میں اب سمجھ گیا وہ اب اپنی فطری شرم و ہی سے چپ ہے ورنہ اس کے دل کر رہا ہے میں اسے پیارکروں اب اس نے کہا آپ نے غار میں وہ حرکت کیوں کی تھی میں نے کہا کونسی حرکت وہ بولی آپ بچہ نہ بنیں اس دیں آپ نے پارکنگ میں کس کیا اور آج  میں نے کہا آج کیا کر دیا وہ اب میری آنکھوں میں دیکھ کر نظر جھکا گئی میں نے اب اس کے ایک بازو پے ہاتھ رکھا اور سہلانے لگا وہ وہ کچھ نہ بولی میں نے اب کی بار اپنا ہاتھ ہلکے سے اس کے بازو سے اوپر کی طرف  پھیرنے  لگا اور جب میں اس کی گردن تک گیا تو اس نے ایک دم سے سسسسسس کہہ کر آنکھیں بند کر لیں اب میرا ہاتھ اس کی گردن سے اس کی گالوں پے آیا وہاں میں نے اسے ایک چٹکی لی ہلکی سی وہ سسس کر اٹھی اب میںنے اس کے ہونٹوں پے اپنی انگلی پھیرنے لگا وہ آنکھیں بند کے بیٹھی تھی اور اس کی سانسیں اب تیز ہو رہی تھیں  جیسے ہی میں نے اس کے نچلے ہونٹ پے اپنی انگلی کو رگڑا وہ آہ اف نہ کرو شارق بولنے لگی اب اس نے اپنے سے ہاتھ سے میرا ہاتھ پکڑ کے نیچے کیا اور اسے سہلانے  لگی میں نے اب دوبارہ سے ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالا اور اب سیدھا اس کی چھاتی پے رکھا اور ایک انگلی  اس کی گردن پے پھیرتے ہو
ۓ
  اس کی چھاتی کی طرف آنے والی لائن کو سہلانے لگا اور اپنی انگلی اس کے گریبان میں ڈال دی وہ مچل کے بولی ش ش شارق یہاں مت لگاؤ اپنی انگلی میرے جسم میں درد سے جاگ اٹھے گا  پلیز میں نے اب کی بار اسے اپنی طرف ہلکا سا کھینچا وہ کسی پکے ہوے پھل کی طرح میری گود میں آ کر گر گئی میں نے اب اس کی دونوں ممے اپنے ہاتھوں میں لئے اور دبانے  لگا اور کہا افی  یہاں سے درد اٹھتا ہے وہ  ایک زور دار سسکاری لے کر بولی شارق جب سے تم نے ان کو غار میں پکڑا ہے یہ تب سے میرے بدن میں ہلکا ہلکا درد اٹھ رہا ہے میں کیا کروں  میں نے کہا جانو میں آپ کا سارا درد ابھی اپنے ہونٹوں سے چوس لیتا ہوں اور یہ کہتے ہی اس کے ہونٹوں پے اپنے ہونٹ رکھ دیےاب اس کے پھول کی پنکھڑی جیسے ہونٹ جیسے ہی میرے ہونٹوں سے لگے میرے اندر ایک مزے کی لہر دوڑ گئی میں نے اب مزے سے اس کے ہونٹ چوسنے شروع کر دیے اور ساتھ میں افی کی چھاتی بھی مسل رہا تھا اب اس کی سانسیں بہت تیز ہو گئیں تھیں اور اس کا سینہ اب بار بار اوپر نیچے ہو رہا تھا میں نے کہا یدی اب کیسا ہے درد وہ جذبات سے کانپتی آواز میں بولی شارق اب تو اور بھی بڑھ گیا ہے درد آپ نے تو کہا تھا ختم کر دو گے           
  میں نے کہا جان ابھی ختم ہو جے گا اب میں نے اس کے منہ میں اپنی زبان ڈالی جسے وہ ایک مزے سے چوسنے لگی میں نے اب اپنا ایک ہاتھ اس کی چوت کی طرف  لے جانے  لگا جیسے ہی میں نے اس کی شلوار میں سے اپنا ہاتھ اندر  کیا  وہ کچھ مچل سی گئی  ابمرے ہاتھ نے اس کی چوت کو سلامی سی میرے ہاتھ کے لمس کو چوت پے پا کر وہ ایک دم سے تڑپ کے ہلی اور ایک کراہ کے ساتھ کہا اوئی شارق یہاں سے نہ چھیڑو میں برداشت نہیں کر پاؤں گئیں اپ کے ہاتھ کا لمس اب میننےاُسے کوئی جواب نہ دیا اور اس کی گردن پے کس کرنے لگا ساتھ میں ہی میری ایک انگلی نے اس کی چوت کے دروازے پے دستک دی اور پھر اندر چلی گئی افی  نے اب کی بار ایک ہلکی سی درد بھری چیخ ماری آہ اوہ اوہ اف ف شارق بہت درد ہے کچھ کرو نہ میں نے اب کی بار اس کی اتنی بیتابی کو دیکھ کر سوچا یہ اب زیادہ دیر نہیں برداشت کری گئی اور اسے اٹھا کے اس کی کمیض اور برا ایک ساتھ ہی اتار دیا عفت ایک سمارٹ سی لڑکی تھی اس کی چھاتی کا سائز  چونتیس تھا میں نے اس کے ٹینس بال جتنے ممے اب چوسنے شروع کے اور بھاری بھاری دونوں طرف کو چوسا وہ اب مزے سے چیخ رہی تھی ہلکی آواز میں   آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م  شارق میں مر گئی میرا کچھ کر لو میںنے اب اپنے ہونٹ پھیرتے ہوے اس کی چھاتی سے پیٹ تک آیا اب اس نے کہا شارق کیا کر رہے ہو میری جان نکل رہی ہے کچھ کرو یار اور میں نے اس کا ایک ہاتھ اپنے لن پے رکھا اور کہا اسے پکڑو وہ اب کی بار بیتابی سے بولی شارق اسے میری چوت میں ڈالو نہیں تو میں مر جاؤں گئی  میں نے اب اپنی شلوار اتاری اور عفت کی ٹانگوں کے درمیان آیا ایک بار لن اس کی چوت پے فٹ کیا اور لن کو اندر زور سے داخل کیا  اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنا منہ دبا لیا اب وہ ایک مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی مکرا لن  اس کی چوت کی گہرائی میں اب راج کر رہا تھا میںنے اب کی بار اس کی ٹانگیں اپنے کندھوں پے رکھیں اور زور زور سے اسے چودنے لگا پہلے تو وہ درد سے تڑپتی رہی پھر کوئی تین منٹ بعد ہی وہ بھی اپنے منہ سے اپنا ہاتھ ہٹا کر مزے سے سسکنے لگی یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے  شارق اور زور سے  میری جان میں نے اب زور زور سے دھکے مارنے لگا میرے ہر دھکے پے وہ تڑپ کے چیختی جا رہی تھی  میں نے کہا افی اپنی آواز کو کنٹرول  کرو کوئی آ بھی سکتا ہے وہ بولی کوئی نہیں آے گا  باہر نائلہ کھڑی ہے میںیہ سن کے چونک گیا اب میںنے کہا  اچھا جی پلاننگ سے آئی تھی میرے پاس  وہ بولی میرے راجا تمہارا لن ہی اتنا برا ہے کل  جب سے وہ نظر میں آیا ہے ہم دونوں ہی جل رہی ہیں میںنے کہا اسے بھی اندر بلا لو وہ بولی نہیں پہلے مجھے مزہ دو پھر اسے بلا لوں گئی اب کی بار میں نے اس کی ٹانگوں کو دیں بیں پھیلا کر اسے چودنے لگا میں نے اب کی بار کافی زور دار دھکے مار رہا تھا                                                                    
  اب کی بار اس نے تو چیخوں کا جیسے ریکارڈ توڑنے کی تھان لی  یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق کتنا مزہ آ رہا ہے میں بتا نہیں سکتی میری جان  مجھے ایسے ہی چودو میرے یار میں اب کی بار اسے الٹا کیا اور اس کی چوت میں لن کو ایک زور دار دھکے سے اندر کیا وہ ایک دم سے اچھل کے آگے گری   آہ آہ اوہ اوہ اوہ اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہ   مر گئی ظالم کیا کر رہے ھو کچھ  دیکھو تو سہی میںنے کہا اب مزہ لو میری جان بس اور زور سے اپنے دھکے مارنے جاری رکھے وہ میرے ہر دھکے کے ساتھ اپنی گاند کو میری طرف زور سے جھٹکا دیتی ایسے میرا لن اس کی چوت کی گہری میں جاتا وہ ساتھ میں زور زور سے سسک رہی تھی میں نے آبسے کمر سے پکڑا اور اپنی سپیڈ بڑھا دی اب وہ کچھ دیر رو مزے سے آہیں بھرتی رہی اور ایک دفع وہ جھڑ گئی میں بنا رکے ایسے ہی لگا رہا اب کی بار تو وہ جیسے چیخنے کا کوئی ریکارڈ  قائم کرنا چاہتی تھی میںنے اب کی بار اس کا منہ اپنے ہاتھوں سے بند کر دیا اور اس کے اوپر لیٹ کر اسے زور زور سے چودنے لگا اب وہ درد سے بےحال  ہو کر مجھے اپنے اوپر سے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی لیکن میں نے اسے قابو کیا ہوا تھا اب مین نےاُسے سیدھا کیا اور وہ ایک دم سے چلائی میں مر گئی مجھے چھوڑ اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے    دو شارق میں  نے اب اس کا منہ اپنے ہونٹوں سے بند کیا اس پے لیٹ کر  کوئی بیس منٹ ایسے ہی چودہ اور پھر اس کی چوت میں ہی اپنا پانی نکال دیا اب جیسے ہی اس کی چوت میں  منی گری وہ تڑپ سی گئی اور کہا باہر نکالو  میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا وہ اب ایک لمبا سانس لے کر بولی مجھے آج تم نے اندر سے زخمی کر دیا ہے کتنے ظالم ھو مجھے پتا ہوتا تم ایسے کرو گے میں کبھی نہ آتی یہاں شارق کمال کا مزہ بھی آیا اور  درد بھی بہت ہو رہا ہے یار پھر میں نے اسے کہا میں ابھی درد ختم کر دوں گا ابھی تو پہلی بار تھی وہ بولی میری توبہ اب جو ایسا ویسا سوچا بھی اور ہنس دی پھر بولی شارق نائلہ ہے نہ آپ اس سے مزہ لینا روز وہ کمینی ہوسٹل میں ڈیلٹو استعمال کرتی ہے میں یہ سن کے چونک گیا اب میں سمجھ گیا کیسے اس کی چوت کی سیل ٹوٹی ہو گئی پھر وہ چلی گئی اور نائلہ نے کہا میں آتی ہوں ابھی اسے ذرا کمرے تک چھوڑ آؤں اس سے تو چلا بھی نہیں جا رہا                                                                          
                Part 23
  میں اب نائلہ کا انتیظار کرنے لگا وہ کوئی بیس منٹ بعد آئی   وہ نہا کر آئی  تھی میں نے کہا کیا سو گئی ہے عفت وہ بولی دفع کرو اسے تم میرے بانہوں میں آؤ جانی آج میری پیاس بھجا دو میں آج تک ڈیلٹو سے ہی گزارا کرتی آئی ہوں آج پہلی بار اصل لن لوں گیں اپنی چوت میں مجھے تم جیسے مرضی چودنا جانو میں نہیں روکوں  گی آپ کو  میں نے اب اسے اپنے طرف  کھینچا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگا اس کے بدن سے کسی باڈی سپرے کی بھینی بھینی  خوشبو اٹھ رہی تھی  میں نے اب اس کی کمر کو سہلانا شروع کیا اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ اس کے کولہوں تک لے جاتا میرے ہاتھوں کی اس گردش نے اسے اور بھی ہاٹ کر دیا تھا وہ میری بانہوں میں مچل کے بولی آبی میں نے ساری چدائی  دیکھی ہے میں تب سے ہی جل رہی ہوں  اس  نے اب مجھے بیڈ پے چلنے کا  کہا اور میں نے اسے بیڈ پے لٹا کے اس کی چھاتی کو کمیض کے آوپر سے ہے  دبانا  شروع کیا اب ساتھ میں اس کے منہ میں اپنی زبان ڈالی جسے وہ  چوسنے لگی پھر اس نے میری زبان سے اپنی زبان کو رگڑنا شروع کیا اور ساتھ میں اب اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میوں پکڑا اور سہلانے لگی میں تو اب لطف لے رہا تھا اس کی  اس چوسائی کا وہ میری زبان کو  پاگلوں کی طرح چوس رہی تھی  اب میرے ہاتھوں نے اس کی چھاتی کو کمیض میں داخل ہو کر اپنے قبضے میں لیا اور میں نے اب کی بار اس کی کمیض آوپر کرنا چاہی وہ کافی تنگ    
  میں نے اس کی کمر سے زپ کو نیچے کرنا چاہا تو اس کی زپ کچھ اڑ سی گئی میں نے اب کی بار ایک ہی جھٹکے سے اس کی کمیض ایک طرف سے کھینچ کے پھاڑ دی اور وہ  اب یہ دیکھ کر ہنسنے لگی اب میں نے کمیض کو اس کے جسم  سے  جدا کیا اس نے نیچے بلیک کلر کا بریزر پہن  رکھا تھا جس میں سے اس کا سفید بدن جھانک رہا تھا اس کا پیٹ نہ ہونے کے برابر تھا وہ ایک بہت کمال کا جسم رکھتی تھی  میں نے اس کے اڑتیس سائز کے ممے بھر نکالے اور اس کا برا ایک طرف رکھ دیا اس کے ممے اتنے بارے سائز کے ہونے کے باوجود کسے ہوے تھے ٹائٹ تھے بہت میں تو ان کو مزے سے دیکھ کر مست سا ہو گیا ایسا جسم کم ہی لڑکیوں کا ہوتا تھا  میں اس کی چھاتی کو اب دبانے لگا اور ساتھ میں اسے چومنے بھی جا رہا تھا کبھی گالوں پے کبھی کانوں میں کبھی گردن پے وہ اب مستی سے آوازیں نکال    
  وہ اب مست ہونے لگی تھی اسکی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔میں اب واپس ہاتھ نیچے کی طرف لایا  نائلہ   نے شلوار میں الاسٹک ڈالی ہوئی تھی میں نے دونوں ہاتھ اسکی شلوار میں ڈال دیئے اور اسکے کولہوں کو جکڑ کر ایک بار پھر سے بھرپور طریقے سے سہلانے لگا۔ وہ اب بری طرح مچل رہی تھی  شاید اسکی بے تابی بڑھ رہی تھی۔  ایک ہی جھٹکے سے اسکی شلوار کو گھٹنوں تک کھینچ کر اتار دیا۔
  اب وہ نیچے نیچے تو ننگی ہو گئی تھی اسکی گوری رانیں دیکھ کر میرا دل مچل اٹھا تھا۔
  اسکی چوت کی گرمی اور نرمی سے اپنے لنڈ کو فیضیاب کرنا تھا۔ سو میں نے اس سے کہا  اب مزید انتظار نہیں ہوتا تم اتنی پیاری ھو میں اب بےبس ہوا جا رہا ہوں مجھے جی بھر کے پیار کرنے ہے تم کو اس نے  میری بات کا جواب دیا مجھ سے بھی اب انتظار نہیں ہو رہا آپ کا دل جو چاہیے وہ  کرو میں آپ کی ہوں شارق   ۔ ۔ پھر میں نے اسکی شلوار جو ابھی تک گھٹنوں تک تھی اسے بھی اتار اب وہ میرے سامنے بالکل ننگی کھڑی تھی۔ اسکا گورا اور سیکسی بدن مجھے بھرپور دعوت دے رہا تھا۔ اب میری باری تھی اپنے کپڑے اتارنے کی میں نے جلدی جلدی اپنا نائٹ سوٹ اتارا مگر انڈروئیر کو چھوڑ دیا  کے لیے۔اب میں نے  کی جانب دیکھا تو وہ سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہی تھی میں اسکو دیکھ کر مسکرایا اور کہا تمہارے سارے کپڑے میں نے اتارے ہیں میرا ایک کپڑا تو کم سے کم تم بھی اتارو۔وہ میری بات سن کر شرمائی مگر پھر اگلے ہی لمحے وہ آگئے بڑھی اور میری انڈرویئر میں ہاتھ ڈال کر میرا لن  پکڑ لیا۔
  میں ایسے اچھلا جیسے میرے لن  کو کرنٹ لگا ہو۔ مگر اسکے نرم ملائم ہاتھ سے میرے  لن کو بہت لذت ملی تھی۔ ابنے ایک ہاتھ میں میرا لن  پکڑے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری انڈروئیر اتار دی اب جو اس نے میرا لن   دیکھا جو کہ تنا ہوا کسی ڈنڈے کی مانند اسکے ہاتھ میں تھا تو اسکی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اب میں نے اس کے ایک ممے کو اپنے منہ میں لے لیا اور کسی آم کی طرح چوسنے لگا اورمیرا   ہاتھ اسکے دوسرے ممے پر تھا جس کو میں زبردست مساج کر رہا تھا۔ اور وہ میرے  لن  کو زور زور سے سہلا رہی تھی جس سے میرا  لن  مزید سخت ہو گیا اور تن گیا۔
  ۔ اب میں نے  کی چوت کی خبر لی اور ایک انگلی سے اسکو سہلانے لگا میں نے محسوس کیا کہ  کی چوت بالکل گیلی ہو رہی تھی ۔ میں نے ٹشو پیپر کا بکس اٹھا کر اسکی چوت کو صاف کیا اور اسکا گیلا پن بالکل ختم کردیا اسکے بعد میں نے دوبارہ سے اسکی چوت کو سہلانا شروع کردیا پھر ذرا دیر بعد اسکی چوت گیلی ہوگئی۔
  ایک بار پھر میں نے اسکو ٹشو پیپر سے صاف کر کے خشک کردیا اب میں نے  سے کہا میرا  لن چوسو وہ اٹھ کر بیٹھی اور مجھے دھکا دے کر بیڈ پر گرا دیا اور فوراً ہی میرا  لن  اپنے منہ میں لے کر کسی لولی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔اف اب میں الفاظ میں کس طرح بیان کروں اسکا منہ کتنا گرم اور کتنا نرم تھا میں اگر سیکس کا تھوڑا تجربہ نہ ہوتا تو لازمی میں اسکے منہ ہی فارغ ہو جاتا ۔
  مگر میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا مجھے آخر اسکی چوت کے مزے لینے تھے۔ مگر وہ اتنا زبردست طریقے سے میرا لن چوس رہی تھی کہ ہر لمحہ مجھے لگتا تھا کہ میں اسکے منہ ہی فارغ ہونے لگا ہوں پھر میں نے اسکو زبردستی ہٹا دیا اور اب میں نے اسکو دھکا دے کر بیڈ پر گرایااور اسکے اوپر چڑھ کر بیٹھا اور اسکی چوت کے منہ پر اپنا لن  رکھا اور اس سے کہا اپنی ٹانگیں کھولے اس نے فوراً ایسا ہی کیا اور اب اسکی چوت میرے لن کو قبول کرنے کو تیار تھی کیونکہ میں نے اپنے لن کا ہیڈ اسکی چوت پر رکھا تو اندازہ ہوگیا اندر کتنی گرمی ہے اور دوسری بات یہ کہ اسکی چوت  گیلی ہوچکی تھی۔
  اب میں نے اپنا لن اسکی چوت کے منہ پر رکھا اور زور لگایا تو اسکی چوت کے گیلا ہونے کی وجہ سے میرا  لن ہیڈ تک تو چلا گیا اندر، مگر  درد سے بلبلا اٹھی اور کہنے لگی اسکو باہر نکال لیں بہت تکلیف ہو رہی ہے
  میں نے کہا نائلہ  ابھی بس ہیڈ ہی اندر گیا ہے لن کا ابھی تو یہ خود سارا اندر جائے گا اگر تم سے برداشت نہیں ہو رہا تو ٹھیک ہے میں نہی کرتا وہ  اب کی بار بولی ۔  شارق میں اپ کا ہر درد آج سہ لوں گے آپ ڈالو اندر اسے ایک ہی جھٹکے میں آج پھاڑ ہی دو میری چوت اب کی بار میں نے بھی ایک ہی جھٹکے سے سارا اندر کر دیا وو ایک زبحہ ہونے والے جانور کی طرح بلبلائی   میں اس کے اندر ڈال کر کچھ دیر کے لئے روکا رہا اور کہا جان بہت درد ہو رہا ہے نہ تم کو     کو وہ میری بات سن کر مسکرا اٹھی جسکودیکھ کر میں سمجھ گیا وہ برداشت کر رہی ہے  اب وہ درد سے اپنے ہونٹ بھینچ رہی تھی مگر کچھ کہہ نہیں رہی تھی میں نے اب ایک بار اپنا لن باہر نکالا اور دوبارہ میرا پورا لن اس کی چوت میں تھا
    وہ مچل رہی تھی شاید اسکو تکلیف زیادہ تھی میں نے اسکے اوپر لیٹ کر اسکو اچھی طرح جکڑ لیا ایسے کہ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھی۔ صرف ٹانگیں اور ہاتھ ہلا سکتی تھی۔ اب میں نے اسکے ہونٹوں پو کسنگ شروع کردی ذرا دیر بعد وہ اپنی تکلیف بھول چکی تھی کیونکہ اسکا دھیان کسنگ میں تھا پھر اور تھوڑی دیر بعد اسکی تکلیف ختم ہوچکی تھی ۔
  میں نے بیٹھ کر اسکی دونوں ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور پوری طاقت سے زور لگا کر اپنا لن زور زور سے اندر باہر کرنے لگا   وہ اب مزے سے چیخ اٹھی  میں نے لن  کو باہر نکالا اور پھر اندر ڈالا مگر اب کی بار وہ نہیں چیخی بس اسکا سانس رکا اور پھر چل پڑا  میں نے بھرپور رفتار کے ساتھ چدائی شروع کی  کی سیکسی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ اسکی آوازیں بڑی خوبصورت تھیں۔ میں بھی اب رکنے والا نہیں تھا تقریباً بیس  منٹ کی چدائی سے میں بھی تھکنے لگا تھا اور میری منی جو کافی دیر سے روکی ہوئی تھی  اسے اسکی چوت پینے کو تیار تھی۔    
  پھر میں نے اسکی چوت میں منی اگلنا شروع کی ۔میں نے لن  کو پورا اندر ڈال کر نائلہ  کے ہونٹوں کو چومتا رہا اسی کی چوت نے اب میرے لن کو جکڑ لیا تھا اب  وہ اور میں ایک ساتھ  ہی فارغ   ہوے تھے  میرے لن اور اس کی چوت سے اب منی نکل  رہی تھی ۔ پھر فارغ ہونے کے بعد میں نے بے تحاشہ اسکو پیار کیا وو بھی مجھے اپنی بانہوں میں کسے ہوے تھی
  وہ  کہنے لگی شارق آپ کے لن نے آج وہ مزہ دیا ہے میں کبھی نہیں بھولوں گئی مزہ بھی بہت تھا اور درد بھی میں نے کہا ابھی  تو اور مزہ آنا ہے جانو  جو اپنے آپ  کو صاف کر آؤ 
  تھوڑی دیر بعد اسے بھی درد سے آرام آ گیا اور وہ اٹھی اور واش روم کی طرف چلی  گی میں نے  دیکھا اس کی رانیں  منی سے لتھڑی ہوئیں تھیں میں بھی اس کے پیچھے  ہی واش روم کی طرف گیا اب اس نے پہلے میرا لن اور پھر اپنے جسم کو صاف کیا اب وو میری طرف نہیں دیکھ رہی تھی ایک عجیب سی شرماہٹ تھی اس کےچہرے پے میں نے اسے کہا نائلہ کیا بات ہے وو بولی کچنہی میں بولا میری طرف دیکھوں نہ وو اپنے ہاتھ اپنے چہرے پے رکھ کے بولی مجھے شرم آ رہی ہے شارق  میں اس کی اس ادا پے فدا ہو گیا میں نے اب اسے اپنے بازوں میں اٹھا لیا اور بیڈ کی طرف آنے لگے اسے بیڈ پے لٹیا دیا اور  وہ میری طرف پیٹھ کر کے لیٹ گی میں نے پیچھے سے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور اس کی گردن کو چومتے ہوے کہا نائلہ  تم بہت سیکسی   ہو یار وہ بولی چلو ہٹو اب مجھے بنا رہے ھو میں نے کہا  ہائے  ظالم تم تو بنی بنائی ایک آفت ھو میں کیا بناؤ گا اور اس کے مممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے اس کی سانس تیز ہونے لگی تھی اب وہ بولی شارق پلیز ان کو  چھوڑ دو جب تمہارے ہاتھ ان کو لگتے ہیں میرے اندر ایک کرنٹ سی ڈورنے لگتی ہے میں نے اب اس کے کانوں کی لو کو اپنے ہونٹوں میں پکڑ  کر چوسنا شروع کر دیا وو اب مچل اٹھی  شا رررر ق وہ  ایک لمبی سانس لے کے بولی مت کرو ایسا میں مر جاؤں گی  میں بنا رکے اس کے مممے بھی دبا رہا تھا اور اسکی گردن پے کبھی گالوں پے  کبھی اس کے ہونٹوں کو چومنے لگتا پھر میں نے اسے سیدھا کیا اور اس کے آئیک مممے کی چوچی پاکر کے چوسنے لگا وو اب سسکاریاں بھر رہی تھی س س س س س ہاہ اف ف ف ف ف  اوئی مےمہ شارق اوہ میرے ش ش ش آ ر ر ر ق میرے اندر آگ لگ گی ہے اب کچھ کرو جانو میں نے اب اپنی ایک انگلی اس کی چوت میں ڈال کر اندر باہر کرنے لگا وو اب فل تڑپ رہی تھی  پھر میں نے اس کے کان میں کہا نیلو تمہاری گانڈ  بہت پیاری ہے میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں اپنے لن سے وہ  بولی شارق یہ بہت ظالم ہے تمہارا لن اس نے پہلے ہی دیکھ میری چوت کا برا حال کیا ہے  یہ میں ہی جانتی ہوں کیسے میں نے برداشت کیا ہے تمہارے لن کو اپنی چوت میں
  میری گانڈ کو تو یہ پھاڑ کے رکھ دے گا جان پلیز آگے سے ہی کر لو نہ میں نے کہا نائلہ  میرا دل کرتا ہے تمہاری گانڈ میں ڈالوں وہ اب کچھ نہ بولی اور کہا پھر آرام آرام سے کرنا میں تم کو اب کیسے منع کر سکتی ہوں تم تو میری جان ھو
  پھر میں نے  ایک بار اسکے مموں پر اور پورے جسم پر کسنگ شروع کردی جس سے وہ پھر سے گرم ہونے لگی۔  میں کسنگ کرتے کرتے اسکی چوت تک آیا تو وہاں انگلی ڈال کر اسکو چودنے لگا۔ اسکی چوت کافی گرم تھی۔ مطلب یہ تھا کہ وہ پوری طرح گرم ہوچکی ہے۔ اب میں نے اسکو الٹا کیا اور ڈریسنگ ٹیبل سے جلدی سے لوشن کی بوتل اٹھائی اور اسکے کولہوں پر مساج کرنا شروع کردیا  پھر میں نے اپنے لن  پر بھی مساج کیا اور اسکے کولہوں کو لوشن سے تر کرتے ہوئے اسکی گانڈ پر بھی اچھی طرح سے لوشن لگا دیا۔ اب میرا  لن  لوشن کے مساج سے ایک بار پھر کسی ڈنڈے کی مانند تنا ہوا تھا میں نے  اسکے کولہوں کے درمیان اپنے لن   کو رکھا اور ایک جھٹکا مارا تو وہ پھسلتا ہوا اسکی گانڈ کے سوراخ میں داخل ہوگیا۔ وہ ایک دم تکلیف سے چیخ پڑی اور کہنے لگی پلیز شارق آرام سے کرو ۔ میں نے اس سے کہا جیسے ذرا دیر میں آگے سے تکلیف ختم ہوگئی تھی ایسے ہی یہاں سے بھی تکلیف ختم ہوجائے گی بس پھر انجوائے کرنا میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میں نے لن کو مزید دھکے مار مار کر اسکی گانڈ میں پورا لن   گھسیڑ دیا۔ وہ تکلیف سے بلبلا رہی تھی مگر آنے والی لذت کے انتظار میں تھی کہ کب تکلیف ختم ہو اور کب وہ لذت سے آشنا ہو۔ذرا دیر میں نے  لن کو اسکی گانڈ میں ہی رکھا ۔ ذرا دیر بعد میں نے پوچھا اب تکلیف تو نہیں تو اسکا جواب نہ میں تھا۔ میں یہ سن کر خوش ہوا پھر اس سے کہا چلو اب اٹھو اور جیسا میں کہوں ویسا کرو، یہ کہہ کر میں نے اسکی گانڈ سے لن کو باہر نکالااور پھر بیڈ سے اتر کر کھڑا ہوگیا۔ پھر میں نے اسکو بھی نیچے بلا لیا وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے نیچے اتر آئی پھر میں اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو صوفے کی طرف لے گیا اور کہا صوفے پے  لیٹو ایسے کہ تمہارے کولہے میری جانب ہوں اور ٹانگیں فرش پر اب وہ صوفے  پر پیٹ سے سر تک لیٹی ہوئی تھی جبکہ ٹانگیں نیچے فرش پر تھیں میں نے  لن  کو اسکی گانڈ پر سیٹ کیا اور دھکا مار کرلن  ایک بار پھر سے اسکی گانڈ میں گھسیڑ دیا۔ اسکو ایک زور کا دھکا لگا اور پورا صوفہ ہل گیا  مگر میرا لن  اسکی گانڈ میں راج کررہا تھا۔ اب میں نے اپنی رفتار بڑھائی اور دھکے تیز کردیئے ہر ہر جھٹکے پر اسکو لذت مل رہی تھی اور اسکے بڑے بڑے اور نرم نرم گرم گرم کولہے میرا جوش مزید بڑھا رہے تھی میں نے دونوں ہاتھوں سے اسکے ممے پکڑ لیے اور انکو بری طرح مساج کرنے لگا۔ میں چونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اپنی منی نکال کر فارغ ہوا تھا اس لیے میرے پاس کافی وقت تھا۔میں اسکو دھکے مارتا رہا اور پھر وہ ایکدم سے فارغ ہوئی اور اسکی چوت نے ڈھیر ساری منی اگلی اور اسکی ٹانگیں لڑکھڑا گئیں میں نے اسکو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ لازمی نیچے گر جاتی۔ اس نے کہا  بس کرو میری ٹانگوں میں اب جان نہیں ہے میں کھڑی نہیں رہ سکتی میں نے کہا ہمت کرو تھوڑا اور میں بھی فارغ ہو جاؤں تو پھر واپس بیڈ پر چلتے ہیں۔میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میرالن  ابھی فارغ نہیں ہوا تھا سو وہ مستقل تنا ہوا اسکی گانڈ میں ہی تھا۔ میں نے دوبارہ سے جھٹکے مارنا شروع کردیا۔ اسکی گانڈ پوری طرح کھل چکی تھی اور مسلسل میرے لن  کا ساتھ دے رہی تھی اب میرا لن  بڑی روانی سے اسکی گانڈ میں آ جا رہا تھا۔ پھر وہ لمحہ آیا جب مجھے اسکی گانڈ میں فارغ ہونا تھا میں نے کھڑے کھڑے اسکی گانڈ میں ہی منی اگلنا شروع کردی مگر اسکے ساتھ ہی  بھی فارغ ہوئی اور اسکی چوت سے پھر ایک بار منی نکلنا شروع ہوئی۔ اور وہ ایک بار پھر سے لڑکھڑا گئی اور گرنے ہی لگی تھی کہ میں نے اسکو پھر سنبھالا۔ اب وہ کھڑی رہنے کے قابل نہیں تھی۔ میں نے اپنے لن  کو خالی کر کے اسکو گود میں اٹھایا اور لے کر واپس بیڈ پے لٹا دیا
  اب کی بار نائلہ نے کہا شارق بہت مزہ ملا ہے جانو عفت تو پاگل تھی جو مزہ نا  لے سکی  اب ہم باتیں کرنے لگی پھر کوئی ایک گھنٹے  بعد وہ جانے کو  تیار ہوئی  میں نے اب کی بار اسے دوبارہ اپنی بانہوں میں بھرا اور اور اس کے ہونٹ چوسنے لگا وہ بولی شارق اب جانے دو نہ جان میں نے کہا ابھی نہیں میرے دل ابھی نہیں بھرا اب وہ میری طرف غور سے دیکھ کر بولی سچی میں نے مچی اور اس نے اب میرے لن کو دوبارہ سے پکڑ کے سہلانا شروع کر دیا میں نے اب اپنی زبان سے اس کےبدن کو گیلا کرنا شروع کیا میں نے اب کی بار اسے سر سے پاؤں تک چوما اور پھر اس نے مجھے اپنے نیچے لٹا لیا اب وہ میرے آوپر بیٹھ گئی اور میرے ہونٹوں پے کس کرنے لگی  کچھ دیر وہاں پے کس کیا اب وہ میرے گالوں اور گردن کو چاٹنے  لگی پھر اس نے اب اپنی زبان کو میرے سینے سے لے کر میری ناف تک بار  بار گھمایا اور پھر میری رانوں کو چوما اور زبان سے چٹا  اب وہ میرے پاؤں کی طرف آئی اس نے میرے دونوں پاؤں کو اپنے منے میں لے کر چوسا اور بعد میں آوپر کی طرف آتی گی زبان پھیرتے ہوے میرے لن کے پاس آ کراس نے اسے اچھے سے اپنی زبان سے گیلا کیا اور پھر اس کے آوپر بیٹھ گئی اب میرے سینے پے ہاتھ رکھ کر نائلہ میرے لن پے بیٹھ کے آوپر نیچے کر رہی تھی اپنی گانڈ کو مجھے بہت مزہ آ رہا تھا اب اس نے اپنی چوت کو فل تنگ کر لیا تھا اور وہ ایک زور سے اٹھتی  میں اسی زور سے لن کو اندر کرتا میرا لن اس کی چوت کی دیواروں سے جیسے جیسے رگڑا جاتا مجھے مزہ آتا اور بھی زیادہ اب میں نے اب اسے اپنے نیچے کیا اور لن کو اس کی چوت میں ڈالا اس نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ  لیں    
 
  اب کی بار میں نے کچھ سختی سے دھکے مارنے شروع کے اور وہ اب اپنے ہونٹوں کو مضبوطی سے بھنچ کےدرد برداشت کرنے لگی اور کچھ دیر بعد اس کی قوت برداشت نے کام کرنا چوڑا دیا اب وہ ھلاکے ہلکے سسکنے لگی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م شارق  بہت مزے دے رہا ہے آپ کا لن آج میں تو جیسے ہواؤں میں اڑ  رہی ہوں جانو میں نے اور مزے سے دھکے مارنے لگا  وہ اب بس سسکیاں لینے  لگی تھی بار باریاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے شارق اب مجھے ایسے ہی مزہ دو آج کی سری رات میں نے کہا ٹھیک ہے جانو  اور میں نے اس کی ایک ٹانگ اٹھا کےاوپر کر دی اور وہ اب میرے ہر دھکے کے ساتھ تڑپ کے مچلتی  میں نے اب اسے بیدردی سے چودنا شروع کر دیا تھا
  اف ف ف ف ف م م م م م م شارق  کیا  غضب کا  لن ہے میرے یار آپ کا پھر میں نےاسے کوئی تیس منٹ ایسے ہی چودہ اور وہ اب تک پھر سے دو دفع فراغ ہو گئی تھی اب میں نے بھی اس کی چوٹ میں اپنا پانی کا چھڑکاؤ  کیا اور اس کے اوپر ہی لیٹ  گیا اب وہ  تیز تیز سانس لے رہی تھی اس کا سینہ دھونکنی کی طرح حل رہا تھا  پھر اس نے کوئی دس منٹ بعد فل ہوش  پکڑے اور مجھے کس کر کے وہ چلی گئی کپڑے پہن کر میں اٹھا اور گرم پانی سے غسل کیا اور آ کر لیٹ گیا اگلے دن میں نے اب بیگم جہاں آرا سے ملاقات کی اسے ساری بات بتائی وہ یہ سب سن کے  چونک گئی اسی وقت اس نے میرے ساتھ آ کر حاکم سے خود پوچھ گچھ کی اور پھر کہا اب شارق کسی طرح نواب رستم سے اقبال جرم ہو تو بات بنے گئی  میں نے کہا وہ بھی ہو جے گا آپ پریشان نہ ہوں  میں نے سوچ لیا ہے سب اور پھر اسے اپنی پلاننگ بتائی وہ خوش ہوئی اب میں نے وہاں سے نکل کے سجاد شاہ سے رابطہ کیا اسے ساری بات سمجھائی اور پھر میں اسکے حوالے سے نواب رستم تک جا پہنچا وہاں میں نے اپنے لئے ایک نوکر کی حیثت سے جگہ بنائی   میں نے ظفری  کو کال کیا وہ بولا باس آپ کے ساتھ وہاں بھی ھمارے لوگ ہیں  آپ وہاں پے ایک نمبر پے کال کر لیں پھر میں نے اپنے آدمیوں سے رابطہ کیا اور اس ان سے اپنی ضرورت کا سامان  لیا اور نواب رستم کے گھر میں اس کی ذاتی خواب گاہ  کو بگد  کیا وہاں ہر طرف میں نے ریکارڈنگ کا سامان لگایا اس کے لئے مجھے ایک نوکرانی کو اپنے لن  پے بٹھانا  پڑھا  پھر وہ دن بھی آ ہی گیا  میرے پلان کے مطابق حاکم کو چھوڑ دیا گیا اور اس
  اور وہ سیدھا وہاں ہی آیا اب اسے ساتھ لئے نواب رستم اپنے خاص کمرے میں آیا اس نے اب ساری بات بتا دی نواب رستم نے کہا کہا لیکن اس لڑکے کو کیسے  پتا چلا  کے میں نے ہی مروایا تھا نواب نیاز کو  حاکم نے کہا جناب آپ کی کوئی تحریر  ہے اس کے پاس کسی معاہدے کی وہ یہ سنتے  ہی ایک دم سے چونک کے بولا حاکم مجھے وہ لڑکا زندہ چاہیے ہر حال میں جاؤ اب اپنے ساتھ بیس لوگ لے جاؤ وہ زندہ لاؤ میرے پاس تم نہیں جانتے اس تحریر میں میری زندگی ہے پھر اس نے حاکم کے جانے کے بعد شرف الدین  کو بھی بلایا وہ اب نواب رستم کا خاص  بندہ تھا وہ آیا اسے بھی یہی کہا نواب نے وہ بھی بولا جناب ہر حال میں اسے مروا دیں ورنہ یہ ہم سب کو لے ڈوبے گا اب کی بار نواب رستم نے کہا یہی تو میں کھ رہا  ہوں اسے مار دو تم بھی جاؤ اور علیحدہ سے اسے ڈھونڈو اسے کسی حال میں زندہ نہیں رہنا چاہیے اور شرفو کے جانے کے بعد نواب نے اب اکیلے میں بڑبڑانا شروع کر دیا مجھے کچھ نہیں ہو گا  کوئی اس کی زبانی بات کا یقین نہیں کری گا  پھر بھی مجھے اسے مار دینا چاہیےاب وہ اپنے کمرے میں اٹھ کر ٹہل رہا تھا پھر کوئی دو گھنٹے تک وہ وہاں ہی رہا بعد میں وہ اپنی رہائش سے باہر چلا گیا اس کے جاتے ہی میں نے سارے ریکارڈنگ والا سامان اتارا اور وہاں سے نکل آیا میرا مقصد حل ہو گیا تھا میں نے اب وہ ساری ریکارڈنگ سجاد شاہ اور بعد میں بیگم جہاں آرہ  کو بھی سنوائی اور دکھائی بھی  پھر وہ بولی اب میں اسے بتاؤں گئی اب کیسے یہ زندہ رہتا ہے میں نےکہا نہیں بیگم صاحب اگر یہ لوگ مر گے تو بیچارہ حفیظ تو ساری عمر ماتھے  پے تہمت لگا
ۓ جئے گا  وہ میری بات کو سمجھ گئی اب اس نے کہا ٹھیک ہے اب اسے پہلے کورٹ سے سزا دلواتے ہیں بعد میں ہی کچھ اور کیا جاۓ گا میرا کام اب    
  وہاں  پے پورا ہو گیا تھا میں اب وہاں سے چپ کر کے کسی سے بنا ملے ہی نکل آیا اپنے گھر آشیانے میں آ کر اب میں لیٹ گیا اور جی بھر کے اپنی نیند پوری کی میں نے اگلے دن کوئی اٹھارہ گھنٹے تک سونے کے بعد کمرے سے نکلا اور ڈیڈی کو ساری بات بتا دی وہ بولے بیٹا ہم کو آپ پے فخر ہے  آپ اب نواب سلطان سے بات کرو اور پوچھ آگے وہ کیا چاہتا ہے  میں نے بعد میں نواب صاحب  سے کہا آپ کا جناب کام ہو گیا ہے آپ اب مجھے بتا دیں آگے کیاکرنا ہے وہ بہت خوش ہوا یہ سن کے                                  
  وہ بولے بیٹا آپ ہی اب کرو جو کرنا ہے میں  یہ کیس دوبارہ سے اوپن کروانا چاہتا ہوں میں نے کہا  ٹھیک ہے  پھر اسی دن میں نے کورٹ جا کر اس کو اوپن کرنے کی درخواست جمہ کروا دی  سینئر جج صاحب کے پاس وہ میری درخواست  پڑھ کے بولے شارق صاحب یہ عجیب سی بات ہے آپ ایک ایسے  جرم کی فائل اوپن کر رہے  ہیں جس میں  مجرم اپنی سزا پوری کر رہا ہے اور آپ آج یہ کہ رہے ہیں چودہ سال بعد کے وہ بیگناہ  ہے آپ کو پتا اس سے محکمہ پولیس اور عدلیہ پے بھی حرف آے گا میں نے کہا جناب کسی کی عزت نفس اور اس کی زندگی کے چودہ سال ایک غلط تفتیش اور غلط فیصلے کی وجہ سے برباد ہوے ہیں  وہ بولے آپ نے اپنی فائل میں لکھا بھی ہے کے وہ اقبال جرم کرنے خود آیا تھا عدالت میں اب یہ فیصلہ غلط کیسے ہو گیا اور آج چودہ سال بعد کون ڈھونڈے گا ان قاتلوں کو میں نے کہا جناب میں نے وہ بھی نیچے ایک پیج پے لکھ دیا ہے کن کن کو طلب کرنا ہے اب کی بار وہ اسے پڑھنے لگی اور پھر ایک لمبا سانس لے کر بولے آپ کا ہر کیس کسی نہ کسی طاقتور کے خلاف ہی ہوتا ہے  میں ہنس کے بولا اب کیا ہو سکتا ہے جناب میرے پاس کیس ہی ایسے آتے ہیں اب ایک اور وکل صاحب نے کہا صدر  صاحب آپ خود ہی ایسے کیس پکڑتے ھو ڈھونڈ کے جس میں کسی شریف کی پگڑی اچھالی جا سکے  میں نے اب کی بار ان کی طرف رخ کیا وہ بار کے سابقہ صدر نواز گل تھے  میں نے کہا گل صاحب اب کیا  ہو سکتا ہے اپنے پیسے کے بل بوتھے پر جو اپ کی نظر شریف ہوتا ہے میں اسے اس نظر سے بھی دیکھتا وہ اب بولے حد ہے آپ نے تو وکالت  کو جاسوسی کا محکمہ بنا لیا ہے  میں نے کہا جناب اپنے اپنے ذھن کی بات ہے اور اپنے اسورسز کی وہ بولے جناب صدر صاحب جس دن کسی مگرمچھ کے آگے آ  گ
ۓ تو وہ آپ کا بہت غلط حال کرے گا آپ کو پتا ہے جس کا آپ نے نام لکھا ہے مجرم کی حثیت سے وہ ایک مہینے بعد ایک منسٹر کا حلف اٹھانے والا ہے اور آپ اسے یہاں مجرم بنا رہے ہیں میں نے اب کہا یار آپ ان کی طرف سے کیس لڑ لینا ابھی کس بات کی بحث کر رہے ہیں اب کی بار جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے میں اس کو منظور کرتا ہوں اور مجھے تین دن بعد کی ڈیٹ دے دی  میں نے اب ان کا شکریہ ادا کیا اور کمرہ عدالت سے باہر آ گیا  میں نے اب بار روم کی طرف رخ کیا وہاں کچھ دیر بیٹھ کے ایک دو منظوری دی جو سمریاں تیار کیں تھیں رضوان بٹ نے ان پے سائن کئے اور پھر وہاں سے اٹھ کے اپنے آفس میں آ گیا آج فاروقی صاحب اور بھائی نصرت کسی اور شہر میں گے تھے ایک کیس کے سلسلے میں

Part 24
میں آج اپنے آفس میں اکیلا ہی بیٹھا تھا مجھے میری آفس سیکرٹری اندر آ کر بولی جناب آپ سے ملنے کے لئے سیٹھ عاصم صاحب کوئی تین دفع آے تھے میں نے کہا کون ہیں وہ آپ کو اگر اپنا کوئی کنٹیکٹ نمبر دے گے ہیں تو میری بات کرا دیں ان سے اس نے کہا جی سر اور باہر نکل گئی اب اس نے اپنی میز سے رابطہ کر کے مجھے بیل کی اور کہا سر وہ رابطے میں ہیں میں نے کہا ٹھیک ہے اب مجھے آگے سے ایک بھاری سی آواز میں سلام کہا گیا میں نے سلام کا جواب دیا اور کہا جناب میں معذرت خواہوں ایک کیس کے معاملے میں مجھے کچھ دن شہر سے باہر جانا پر تھاوہ بولے کوئی بات نہیں جناب میں اصل میں آپ سے کچھ ضروری گفتگو کرنا چاہتا ہوں آپ کے پاس وقت ھو تو آپ تشریف لے آئیں ورنہ میں حاضر ہو جاتا ہوں آپ کا ریفرنس مجھے ڈاکٹر نازش نے دیا ہے اب میں زیر لب مسکرا کے بولا سیٹھ صاحب اب آپ نے ایک ایسے دوست کا نام لیا ہے میں ہی حاظر ہو جاتا ہوں بتائیں کہاں آنا ہے وہ اب مجھےگھر کا تفصیلی اڈریس بتانےلگے پھر میں کچھ دیر بعد ان کے سامنے تھا ان کے گھر میں وہ ایک پوش ایریا میں رهتے تھے سیٹھ صاحب کوئی پچاس سال کے آدمی تھی بھاری وجود اور اچھی شخصیتتھی ان کی وہ مجھ سے بہت تپاک سے ملے اور کہا جناب جیسا مجھے بتایا تھا ڈاکٹر صاحب نے ویسا ہی ہوا ہے میں نے کہا کیا بتا دیا تھا انہوں نے وہ بولے ان کاکہنا تھا شارق صاحب میرے ایسے دوست ہیں وہ میرا حوالہ سن کے دورے چلے آییں گے میں نے کہا سیٹھ صاحب کچھ لوگ بہت قریب ہوتے ہیں دل کے وہ بھی میری ایسی ہی دوست ہیں آپ حکم کریں وہ بولے جناب پہلے میں آپ کو بتا دوں میرے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکا کیا گیا ہے اور ایک عجیب طریقے سے کرنے والا ایک بہت بڑی شخصیت ہے میں اب کسی سے بات بھی نہیں کر رہا کھل کے کیوں کے مجھے پتا ہے میرا ساتھ کوئی نہیں دے گا میں نے اپنے ہم زلف سے وہ محکمہ پولیس میں ایک خاصی بڑی پوسٹ پے ہیں لیکن وہ بھی اب بے بس ہو گے ہیں ان کو بھی کہیں اوپر سے حکم دیا گیا ہے اس کیس میں کچھ نہ کیا جا
ۓ میں اب اسی پریشانی میں ہوں اور میں کچھ دن پہلے اسی شہر میں تھا مجھے دل کا دورہ پڑا مجھے وہاں سے قریبی ہوسپٹل میرے دوست لے گے وہ اتفاق سے ڈاکٹر نازش صاحبہ کا تھا انہوں نے بہت اچھے سے میرا ٹریٹ منٹ کیا میں جب کچھ سنبھلا تو تب اس سے کچھ بات ہوئی اور ایک اور اتفاق کے وہ میری بیٹی کی کلاس فیلو نکل آئی اب میں نے باتوں ہی باتوں میں ان سے ذکر کر دیا وہ بولی آپ ایک کام کریں واپس جاتے ہیں شارق سے ملنا وہ آپ کا ہر ممکن طریقے سے ساتھ دیں گے
میں نے کہا جناب آپ مطمئن رہیں میں آپ کا ساتھ دوں گا مجھے ساری بات بتا دیںوہ بولے شارق صاحب کبھی آپ نے وڈیرہ پیر بخش کا نام سنا ہے وہ سندھ کے ایک بہت بڑے زمین دار ہیں میں نے کہا ہاں وہ سندھ کے صوبائی منسٹر بھی ہیں وہ بولا جی جناب وہی اب اس نے کچھ دیر سوچ کے کہا جناب میرا ان سے کچھ کرو باری تعلقہے اس نے مجھے اپنے پاس بلوایا اور کہا عاصم آپ اپنے کراچی والے گودام مجھے استعمال کرنے دو کچھ عرصہ میں کچھ باہر سے منگوانا چاہتا ہوں وہ کچھ لیگل مال نہیں ہیں اس لئے میں اسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتا میں نے کہا ٹھیک ہے اس سے کافی پورانہ تعلق تھا میں نے اسے اپنے پانچ گودام دے دیے میں سکریپ کا وسیع پیمانے پے کاروبار کرتا ہوں اس لئے میرے پاس ہر کاروباری شہر میں ذاتی گودام ہیں جن کو میرے ملازم ہی کنٹرول کرتے ہیں تو شارق صاحب اب اس بات کو پانچ مہینے ہو گے ہوں گے پچھلے دنوں میں ایک کاروباری ٹور پے کراچی گیا تھا تو مجھے میرے ایک خاص ملازم نے بتایا کے وڈیرہ میرے والے گودام کو بہت غلط کاموں میں استمال کر رہا ہے اس نے ان کی نیچے ایک بڑی سی سرنگ بنوا لی ہے اور وہ وہاں سے سفر کرتے ہیں جو کراچی کے ہی ایک پوش علاقے میں جا کر ایک ایسی عمارت کے نیچے تک ہے جو بہت اہم سرکاری عمارت ہے اب میں نے اس کی بات پے یقین نہ کیا اور اپنے کچھ قریبی لوگوں کو چھان بین کا کہا انہوں نے بھی یہی جواب دیا کے میرے ہی گوداموں میں ناجائز اسلحہ سٹاک ہوتا ہے اور وہاںسےملک کے کونے کونے میں پھیلایا جا رہا ہے اور وہ سرنگیںبھی صرف اہمسرکاری عمارتوں کے نیچے تک جاتی ہیں یہ سن کے میں کافی پریشان ہوا اب مجھے شک ہوا کہیں وڈیرہ کوئی دہشت گرد گروپ کا ساتھ تو نہیں ہے میں نے اپنے ہم زلف سے ذکر کیا اس نے ایک دو بندے کو پکڑ کے معلومات لینے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا اسے اوپر سے روک دویا گیا اور روکنے والے وفاقی منسٹر قانون ہیں کیوں کے ان کے سلے داورکمالکا تعلق ہے وڈیرے سے اب میں بھی چونگ گیا میں نے کہا ہمممم تو یہ بات ہے میں نے کہا آپ فکر نہ کرو میں اب خود اس معاملے کو دیکھ لوں گا آپ یہ بتائیں وہ گودام کس کے نام ہیں وہ بولا میرے ہی ہیں میں نے کہا آپ ایسا کریں وہ میرے نام کر دیں میں اب خود ہی ان کا قبضہ بھی لوں گا اور ساتھ میں ساری معلومات بھی وہ بولا ابھی لیں پھر اس کے بعد ہم کورٹ آے اس نے علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا اور ایک اسٹام کر دیا اب میں ان پانچوں گوداموں کا قانونی مالک بن گیا تھا میں نے اب ان سے کہا یہ آپ کی امانت ہے آپ کو واپس مل جا
ۓ گئی وہ اب ہنس کے بولا شارق صاحبمیری عزت اور زندگی داؤ پے لگی ہے مجھے اب تک دو دفع داور کمال کا فون آ چکا ہے ان گوداموں کو بیچننے کے بارے میں وہ نہیں چاہتے میں وہ کسی کو بھی دوں وہ مجھے بھی ساتھ ہی پھنسانا چاہتے ہیں میں بولا میں اب دیکھ لوں گا پھر میں اپنے گھر آ گیا میں نے بتا دیا نواب صاحب کو بھی
حفیظ بابا کے کیس کے بارے میں ہم رات کافی دیر تک بیٹھے ڈیڈی کے کمرے میں باتیں کرتے رہے اب مجھے طارق بھائی نے کہا یار میں نے سنا ہے داور کمال کی پیچھے آئی .ایس آئی پڑھ گی ہے یار ایک کام کرو کسی طرح کرنل عثمان سے کہو مجھے بھی ساتھ رکھ لے اس کیس میں میرے بیج کے دو ایس پی کو آئی جی نے ایس ایس پیکر دیا ہے اگر اس کیس میں میرا بھی ذکر ہو تو کمال ہو جا
ۓ میں نے ہنس کے کہا بھائی جان آپ فکر ہی نہ کرو میں آپ کو کچھ ثبوت دیتا ہوں ان کا سن کے خود کرنل عثمان آپ سے رابطہ کرے گااب اسے خود اپنے منہ سے کہنا اچھا نہیں لگتا نہ وہ بولے چلو ایسا ہی کر لو اب میں نے کہا آپ ایک کام کریں کسی طرح ابھی اپنے آئی ،جی سے رابطہ کر کے کہیں آپ ایک گروپ کے پیچھے کراچی جانا چاہ رہیہیں وہ دشت گرد گروپ ہے آپ کو ان کے کچھ ٹھکانوں کا پتا چلا وہ بولے یہ لو یہ سن کے تو آئی جی بھی خوش ہو جاۓ گا اور بھی طارق نے اسی وقت وائرلیس کی آئی جی صاحب کو وہ ساری بات سن کے بولے ویل ڈن مائی بواۓ آپ جلدی سے ان کے پیچھے جاؤ سارے کام چھوڑ کے میں ابھی سندھ کے آئی جی صاحب سے بات کرتا ہوں وہ اپپ کی ہر ممکن مدد کیکوشش کریں گے بس یہ کیس ھمارے ہی ہاتھ سے آئی ایس آئی تک جانا چاہیے آج کل وہ پنجاب پولیس کے کافی خلاف ہیں اب ان کو پتا چلے گا ہم بھی کام کرتے ہیں آپ کو میں اس میں کامیاب ہوتے ہے آپ کے ہی شہر کا ڈی پی او ( ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر) پرموٹ کر دوں گا میرا وعدہ ہے بیٹا ہر ممکن کوشش کرو میں چوبیس گھنٹے آپ کی کل کا انتظار کروں گا کسی بھی مسلے میں آپ مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیںاور کال بند کر دیاب بھائی طارق نے کہا لگتا ھمارے آئیجی صاحب کو کافی لے دے ہوئی ہے میں نے ہنس کے کہا بھائی اب مزہ آے گا اور کہا بھائی آپ اب ابھی اسی وقت اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے پہلی فلائٹ سے کراچی جانے کا بندوبست کریں وہ بولے ابھی لو اب سب ہی ہنس رہے تھے والدہ صاحبہ نے کہا بیٹا اپنے ہر کیس میں جو اس طرح کا ہو اپنے بڑے بھائی کا ساتھ دیا کرو کوئی اور کیوں آپ کی وجہ سے انعام حاصل کرے سب سے زیادہ آپ کے بھائی کا حق ہے میں نے کہا جی امی جان آیندہ سے ایسا ہی ہو گا بھابھی شفق نے کہا شارق میرے ان کا خیال رکھا کرو اور سب ہی ہنس دیے اب بھائی طارق دس منٹ میں ہی دو ٹکٹیں حاصل کر چکے تھے صرف تیس منٹ تھے فلائیٹجانے میں اب میں اور وہ تیزی سے اپنے پہنے ہوے کپڑوں میں ہی اتے اور ڈیڈی نے کہا امجد بھی سے جاؤ ان کو ائیرپورٹ چھوڑ آییں آپ اب ہم تینوں بھی ائر پورٹ کی طرف جانے لگے بھی امجد نے کہا شارق مجھے بھی امی جان کی بات اچھی لگی ہے ہم سب ہی مانتے ہیںآپ کو خدا نے بہت اعلیٰ ذہانت سے نوازا ہے تو میرے بھائی اس کا سب کو ہی فائدہ ہونا چاہیے میں نے کہا بھائی جان میں معافی چاہتا ہوں آج تک میرے ذھنمیں یہ بات نہیں آئی اب آج سے بھائی طارق ہی سمجھیں ہر کیس میں ہیرو ہوں گے اور بھی طارق نے کہا جیو یار اصل میں آج کل صرف کرپٹ پولیس آفیسر کو ہی اہمیت دی جاتی ہے مجھ سے جونئیر ہیں ایک دو ان کو پرموٹ کیا گیا ہے ا لیکن مجھے آئی جی صاحب نے صاف کہ دیا تھا طارق آپ کی کوئی ایسی سفارش نہیں ہے کے آپ کو کسی سٹی کا ڈی پی او بنا سکوں آپ اپنی اسی پوسٹ پے کام کریں آج اچانک ہی میرے دل میں یہ بات آئی تھی میں نے کہا بھائی جان ایسی کی تیسی ان سفارشی گدوں کی اب آپ دیکھتے جایئں اور پھر ہم ائر پورٹ میں پہنچ گے ہم اپنی مطلوبہ فلائیٹ سے کراچی پوھنچ گۓ وہاں پے بھائی طارق کا ایک دوست جو خود بھی ایس پی تھا وہ مجود تھا ان کو لینے کے لئے
بھائی طارق نے کہا عنصر تم کو کیسے پتا چلا وہ بولا مجھے ھمارے آئی جی صاحب نے آپ کے ساتھ لگا دیا ہے یار آپ کے آئی جی نے مدد کی درخواستکی ہے آئی جی سندھ سے اب میں سمجھ گیا آئی جی پنجاب کچھ زیادہ ہی تیزی سے کام کر رہے تھے اب میں نے بھی وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور بھائی طارق کو میں آتے ہوے جہاز میں ہی ساری تفصیل بتا چکا تھا اب میں نے بھی کہا بھائی جان آج کی رات میں ہی ساری گیم ڈالی جا
ۓ عنصر صاحب نے کہا یار اس وقت کوئی وکیل کہاں اٹھےگا میں نے کہا آپ یہاں سے تو چلیں سب ہی مل جاۓ گا میں نے اب راستے میں ہی کراچی کے بار صدر کا نمبر ملایا وہ بیچارہ سویا ہوا تھا وہ بولا کون ہے یار یہ وقت ہے کال کا میںنے کہا ملک صاحب میں سید شارق حسین ہوں لاہور بار صدر وہ بولے جی جناب کیسے ہیں آپ کافی ذکر سنا ہے آپکا میں نے کہا آپ ہم کو یہ بتائیں مجھے ابھی ایک جگہ کی تلاشی کا وارنٹ چاہیے وہ بولے اپ کہاں پے ہیں میں نے کہا ائیرپورٹ سے میں پولیس گیسٹ ہاؤس جا رہا ہوں وہ بولے یہ زیادتی ہے آپ کو ھمارے پاس آنا چائے اپ میری رہائش میں آ جایئں آپ کا کام بھی ہو جاتا ہے آج اتفاق سے میرے ساتھ سینئر جج صاحب مجود ہیں ایک پارٹی تھیمیں سمجھ گیا یہ رنگین مزاج آدمی ہے میں نے کہا میں آیا ابھی تھوڑی دیر تک اور کال بند کر دی اب کی بار عنصر صاحب نے کہا یار آپ کا تو کافی ذکر ہوتا ہے اخباروں میں مجھے نہیں پتا تھا آپ طارق کے بھی ہیں پھر ہم کوئی بیس منٹ میں ایک بہترین بنگلے کے ڈرائنگ روم میں تھے وہاں اب گاؤن پہنے جج صاحب اور ملک صاحب مجود تھے وہ ہم سے کافی تپاک سے ملی اور اسی وقت جج صاحب نےخصوصی مجسٹریٹ کو کال کر کے کہا مجھے اوپن وارنٹ چائیے پھر بولے یہ لیں شارق صاحب آپ کا کام ہو گیا اب آپ اس علاقے میں ہی نہیں جہاں مرضی تلاشی لے لیں اب یہ پولیس والوں کیمرزی ہے وہ آپ کا ساتھ دیں یا نہیں پھر ہم نے جب تک چاۓ پی تب تک باہر سے ایک پولیس گارڈ ایک کاغذ لئے ہوے آیا اور کہا جناب یہ آپ کے لئے ہے سول جج نے بھیجا ہے انہوں نے وہ میرے حوالے کیا اسے پڑھ کے میں خوش ہو گیا اور پھر میں ان کا شکریہادا کر اٹھا اور کہا کبھی آپ ہم کو بھی خدمات کا موقع دیں جناب وہ دونوں ہی بولے کیوں نہیں شارق صاحبضرور اب ہم دوبارہ سے عنصر صاحب کے ساتھ بیٹھےوہ اب سیدھا مطلقہ تھانےمیں ہی آیاوہاں پے اس نے بیٹھ کر ایس ایچ او کےکمرے سے ہی کچھ اور تھانوں کی نفری بھی طالب کی اور دو گھنٹے بعد ھمارے ساتھ پولیسکے کوئی ستر لوگ تھے وہ سب پانچ ٹرکوں میں تھے اور ساتھ میں کافی پولیس موبائلز بھی تھیں اب میں ان کو لئے سیٹھ عاصم کےگوداموں پے آیا اور ایک ہی وقت میں پانچوں کو گھیرا گیا جو پاس پاس ہی تھے اندر کافی لوگ تھے ان کے سنبھالنے سے پہلے ہی پولیس کے چوکس کمانڈوز نے ان کو اپنی حراست میں لے لئے اب وہاں سے ہی ان سب سے پوچھ کچھ کی اور پھر تین آدمی بولے ہم آپ کو سب بتا دیتے ہیں اور وہ ہم کو ہر خفیہ راستہ دکھانےلگا اب جب ہم ان عمارتوں تک گے جن کے نیچے وہ سرنگیں جا رہی تھیں تو ان کو دیکھ کر عنصر تو چونک سا گیا اس نے کہا طارق یہ تو سب ہی ہماری خفیہ ایجنسیوں کی عمارتیں ہیں پھر وہاں سے بہت بڑی تعداد میں ناجائز اسلحہ بھی برآمد ہوا اور اب عنصر نے اپنے آئیجی کو ساری بات بتا دی کال کر کے پھر تو وہاں جیسے پولیس کے افسروں کی لائن لگ گئی اور پھر سب دیکھ کر مطلوبہ ایجنسیوں کو بھی خبر مل گئی اور اب وہاں ہر طرف سے وہ راستہ بلاک کر دیا گیا راتوں رات ہی بہت بڑےبڑے لوگ پکڑ لئے گۓ اور پھر ان سے ہنگامی بنیادوں پے پوچھ گچھ کی جانے لگی اور دن کو سورج نکلنے سے پہلے اس گروپ کے سارےلوگ جو کراچی میں تھے وہ اب پکڑ لئے گۓ تھے کیوں کے نگرانی خود آئی جی کر رہے تھے اور مسلہ بھی آرمی کا تھا کسی کی سفارش کام نہ آئیسب سے آخر میں وڈیرہ پیر بخش بھی قابو کر لیا گیا اسے پکڑنے میں پولیس کو کافی مشکل پیش آئی کیوں کے وڈیرے کے ذاتی گارڈ نے پولیس پے فائرنگ کر دی تھی دو انسپکٹر اور ایک ڈی ایس پی موقع پے ہی شہید ہو گے بھائی طارق کے بازو کو بھی گولی چھوتی ہوئی گزر گئی اب پولیس نے بھری اسلحہ استعمال کیا اور تب کہیں جا کر وہ پکڑا گیا اس کی حویلی کو تباہ و برباد کر دیا اب کی بار پولیس نے غصے میں اس کے گھر کی عورتوں تک کو پکڑ لیا تھا پولیس نے اسے تھانے نہیں لیا گیا بلکے ایک ایجنسی کے خفیہ ٹھاکانے پے لے گۓاب اس نے کافی دھمکیاں دیں پولیس کو بھی اور سب کو پھر اس کے لئے بہت سارے وزرا کی کالز آنے لگی اب آئی جی صاحبنے مجبور ہو کر که دیااسے پنجاب پولیس لے گئی ہیں اور پھر ایک خصوصی طیارہ ہم لے کر لاہور آ گیا اب یہاں پے آئی جی صاحب اور ان کے ساتھ ہی بہت ساری پولیس تھی ہر جگہ اخباری رپورٹرز نے اپنے اپنے کیمرے لگا رکھے تھے اب طیارے سے بھائی طارق نیچے آے اور پھر وڈیرہ اور کچھ خاص مجرم جو ہم ساتھ لاۓ تھے ان کو اتارا گیا میںجان بوجھ کے سامنے نہ آیا پھر میں پائلٹ کے ساتھ ہی اپنے چہرے پے ایک کیپ کو کئے باہر آیا اس جگہ سے اور پھر ایک ٹیکسی نے مجھے آشیانےمیں پہنچا دیا اب بھائی طارق تو سارا دن مصروف رہے کیوں کے کرنل عثمان نے ان سے خود ہی رابطہ کیا تھا اور پھر شام تک داور کمال بھی پولیس کی حراست میں تھا اسے بھی خود بھائی طارق نے ہی گرفتار کیا تھا آج سارے گھر والے بہت خوش تھے رات کو بھائی طارق نے آتے ہی مجھے گلے سے لگا لیا اور کہا یار آج تو کمال ہی ہو گیا ہے یہ حرامی داور کمال تو ایک گھنٹے تک ہی برداشت کر سکا اس نے سب بک دیا ہے وہ انڈیا کا جاسوس ہے اور انہی کے آدمیوں کو پناہ دیتا ہے آج وزیر بھی ننگے ہو گۓ ہیں اور ان کو اب استعفیٰ ہی دینا پڑے گاکل کی اخباروں میں پڑھ لینا بہت مزہ آیا
اب سب ہی بہت خوش تھے اور ابھی یہ ساری باتیں ہو رہی تھیں کے نیلوفر بھی آ گئی وہ آج پورے ایک مہینے بعد آئی تھی میں نے کہا کہاں غائب تھی تم وہ بولی یار میں نے سوچا اب گھر سے اجازت مل ہی گئی ہے گھومنے کی تو سب جگہ ہی دیکھ لوں ایک دفع سو میں نے یہ پورا مہینہبہت مزہ کیا اس کا رنگ تو پہلے ہی صاف تھا لیکن وہ پورا مہینہ ٹھنڈے علاقوں میں گزار کے آئی تھی سو کافی نکھری لگ رہی تھی اب اسے بھی ساری بات کا پتا چلا تو وہ بولی اب تو پارٹی بنتی ہے بھائی طارق کی طرف تو بھابھی شفق نے کہا تم جتنی پارٹیاں کہو پھر یوں ہی سب نے مل کر کافی باتیں کیں اور بعد میں کھانا کھایا گیا اب خانے کے بعد میں تو باہر لان میں آ گیا اور بھابھی شفق بھی آ گئی نیلو کے ساتھ نیلو نے کہا یہ لالارخ کہاں ہے میں نے کہا وہ کل سے گئی ہے اپنی ایک دوست کے گھر بھابھی شفق نے کہا مجھے تو وہ لڑکی صدف بہت پسند آئی ہے کمبخت اتنی باتیں کرتی ہے مت پوچھ اور نیلو کو سب بتانے لگی اب نیلوفر نے کہا مجھے بھی اب اشتیاق ہو رہا ہے ان سا ملنے کا ہم نے کوئی ایک گھنٹہ واک کیا اور پھر بھابھی شفق تو چلی گئیں لیکن نیلوفر میرے ساتھ ہی تھی وہ بولی ہاں تو حضور کیسے ہیں آپ اور وہ سچ میں یار اسے بڑا مس کیا ہے ہر رات بہت یاد آتا تھا میںنے کہا چلو آج تم کو اس کا دیدار کرا دوں گا پھر میں نے کہا تم آج او گئی نہ وہ بولی جناب آج آپ آجائیں نہ ھمارے پاس میں نے کہا چلو میں آ جاتا ہوں اور ہم اندر آ گ
ۓ اب جب کوئی بارہ کا وقت ہوا میں اپنے کمرے سے نکلا اور نیچے آیا نیلوفر آج لالارخ والے کمرے میں ہی تھی میں نے اس کے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا اور دیکھا وہ بیڈ سے ٹیک لگا کے بیٹھی تھی آج اس نے آسمانی رنگ کی ٹرانسپرٹ نائٹی پہن رکھی تھی اور نیچے کچھ بھی نہیں تھا اور نائٹی بہت ہی نرم اور ریشمی کپڑے سے بنی تھی اس کا گورا بدن ایک عجیب سا نظارہ تھا وہ میں اسے دیکھ کر بولا میری رانی یہ کیا ہے وہ بولی یار کوئٹہ سے لی تھی سوچا اپنے شارق کے سامنے ہی پہنوں گیں کیسی لگ رہی ہوں میں نے کہا جواب نہیں تمہارا وہ مسکرا کے
بولی شارق تم نہ ایسے ہی کہتے ھو میرا دل رکھنے کو میں اب اس کے پاس گیا اور اسے بازو سے پکڑ کے بیڈ سے نیچے اتارا اور پھر اس کو اپنی بانہوں میں لیا اور ایک ہاتھ کی انگلی اس اس کی پیشانی پے پھیرنے لگااور انگلی کو آہستہ آھستہ اس کی گالوں پے پھیرا اور ہونٹوں پے گھماتے ہوھے کہا نیلو تمہارے یہ ہونٹ بہت تنگ کرتے ہیں مجھے ان کی شیپ ہی ایسی ہے ان کو دیکھتے ہی چومنے کو من کرتا ہے اور وہ ایک ہلکی سی سسکی لے کر بولی کون روکتا ہے میری جان میں نے اب کہا تمہاری ان نشیلی آنکھوں میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے وہ لمبی سانس لے کر بولی ڈوب جاؤ نہ اب میں نے اس کی صراحی دار گردن پے اپنا ہاتھ پھیرتے ہوے کہا نیلی ان کا رنگ اتنا صاف ہے کم ہی ہوتا ہے کسی لڑکی کا ان کو اپنے ہونٹوں سے خراج حسن پیش کرتا ہوں اور اپنے ہونٹوں سے اس کی گردن کو چوم لیا وہ مچل کے بولی شارق سسسسسس اب میں نے اس کی چھاتی کی لائن پے ہاتھ پھیرا اور کہا نیلو تمہارے حسن کی یہ دو گھاٹیاں مجھے مست کر دیتی ہیں میرا من کرتا ہے ان میں سے سارا جوس پی جاؤں وہ اب جذبات سے بھیگے لہجے میں بولی شارق بہت رس ہے میری ان مسمیوں جیسی گھاٹیوں میں کبھی جی بھر کے پی کے تو دیکھو تمہاری ساری پیاس بُجہ جا
ۓ گئی میں نے اب اس کی چھاتی کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسلا وہسسک اٹھی شارق اف ف ف ف ف تمہارا ہاتھ لگتے ہیں یہ کیسے مست ہو کر تن جاتی ہیں میری نیپلز اب میں نے اس کے سڈول پیٹ پے ہاتھ پھیرا اور کہا تمہارا یہ ریشمی پیٹ اس کی چکنائی چاٹنے کو دل کرتا ہے وہ بولی آج میں تم کو اجازت دیتی ہوں میرے انگ انگ سے چکنائی نچوڑ لو میری جان میرا ہاتھ اب اس کی چوت پے آیا وہ ایک دم سے تڑپ گئی اس نے ایک لمبی سانس لی میں نے کہا نیلو تمہاری چوت ایک سیپ کی مانند ہے مریا دل کرتا ہے اس میں اپنالن ڈالوں اوریہاں سے موتی نکال لوںاب نیلی بہت مست ہو رہی تھی میرے ہاتھوں کے لمس نے گویا اس کے اندر ایک آگ لگا دی تھی وہ بولیشارق ایک مہینے سے یہ تڑپ رہی ہے تمہارے لن کے لئے آج اس کی پیاس بجھا دو میں نے کہا جان اسے آج میں اتنا پیار دوں گا اپنے لن کا اس کی ساری پیاس بجھ جاۓ گئی اب میں نے اس کے ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا وہ اب کمرے میں درمیان میں کھڑی تھی میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں پھنسا دیں اور اسے اوپر سر سے کر دیا اب میرا اور اس کے ہاتھ چھت کی طرف تھے میں نے اب اس کے شبنمی ہونٹوں سے شبنم چرانے لگا میرے ہونٹوں نے اس کے ہونٹوں کو یوں اپنے اندر پیوست کیا جیسے لوہا مکناتیس کے ساتھ جوڑ جاتا ہے اور میں اس کے ہونٹوں کارس پی رہا تھا میرا جسم نیچے سےبھی اس کے ساتھ جڑا ہوا تھا اور ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ اپنا جسم رگڑ رہے تھے اب میںنے کوئی پانچ منٹ تک ایسے ہی نیلو کے ہونٹ چوسے اب وہ فل ہاٹ ہو گئی تھی اب میں نے اپنی زبان اس کی تھوڑی پے بھیرنے لگا اب وہ مچل سی گئی اور کہا شارق اف ف ف میرا جسم اب جل رہا ہے جانو میں نے یونہی اپنی زبان اس کی گردن پے پھیری اور پھر وہاں سے چاٹتا ہوا نیچے ان کی چھاتی کی لائن میں آیا پھر اوپر گیا اور اس کے کان میں اپنی زبان ڈالی اور چاٹنے لگا ایسا ہی دوسری طرف بھی کیا اور دوبارہ سے اس کی چھاتی پے آیا اب میں نے ان کو چھاتی کو باریک نائٹی کے اوپر سے ہی چاٹا اس کی چھاتی کے نپلز فل تنے ہوے تھے نیلوفر کی چھاتی کا سائز اڑتیس تھا لیکنوہ بہت ٹائٹ اور تنے ھوے تھے بنا برا کے بھی میں نے ابھاری بھاری اس کی دونوں نپلز کو یوں ہی چوسا اور اس کے پیٹ پے آیا وہاں بھی اپنی زبان سے چاٹا اور پھر اس کی چوت پے بھی اپنی زبان پھیرنے لگا اب میں کوشش کرتا تھا میری زبان کے دباؤسے نائٹی اس کی چوت میں جاۓ لیکن اس طرح سے اسے وہ مزہ مل رہا تھا وہ اب کی بار تڑپنے لگی تھی شارق آہ آہ آہمیری جان کیا جادو ہے تیری زبان میں سسسسسسسس میں مر جاؤں اس مزے سے اب وہ اپنے ٹانگیں اپس میں ملا رہی تھی لیکن میں نے اب بھی اس کے ہاتھ نہ چھوڑے پھر وہ سسک کے بولی جان ایک دفع بس لن کو چوس لینے دو بعد میں جو مرضی کرنامیں نے اب اس کے ہاتھ چھوڑ دیے اس نے اب نیچے بیٹھ کے میری پینت اتاری اور میرا اندر ویر بھی اتار دیا میں نے اب خود ہی اپنی شرٹبھی اتار دی وہ اب میرے لن کو مزے سے منہ میں لے کر چوسنے لگی تھی میں نے اب کہا اف کیا گرمی ہے تمہاری زبان میں وہ میری آنکھوں میں دیکھ کر میرا لن چوس رہی تھی بہت نرمی سے میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت کے طوفان دیکھے وہ کافی دیر ایسے ہی اب میں نےاُسے کھڑا کیا اور سامنے کی دیوار کے ساتھ لگا کے اس کی نائٹی اتاری اور اس کی مست چھاتی کو چوسنے لگا میں نے ایک نپلکو منہ میں لیا اور چوسنے لگا کبھی اسے ہلکا سا کاٹ لیتا اور کبھی اس کے اوپر زبان پھیرنے لگا وہ اب مزے سے سسک رہی تھی شارق مت تڑپایا کرو اتنا جان میںنے اب کی بار اس چھاتی کو دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور دبانے لگا ساتھ میں ایک نپل کو کاٹنے لگا ہلکے سے وہ تو مزے کے ساتھآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م کی آواز سے چلانے لگی ھمارے گھر میں سب سے زیادہ خوبصورت کمرہ لالارخ کا ہی تھا اس کی کمرے میں واش روم کے ساتھ ایک کھڑکی تھی جو لان میں کھلتی تھی لیکن اس کے آگے اندھا شیشہ لگا تھا جس میں سے کمرے میں مجود باہردیکھ سکتا تھا لیکن باہر سے کچھ نہیں نظرآتا تھا اب میں اسے ایسے چومتا ہوا اپنی بانہوںمیں اٹھا کے اس کھڑکی تک لے گیا اسے اس کھڑکی پے بیٹھا دیا اب اس کی چوت میرے لن کے بلکل سامنے ہی تھی اب میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا نیلو کتنی پیاری ہو تم ساتھ ہی اپنا لوں اب اس کی چوت پے رکھا اور ایک زور کا دھکا دیا میرا لن اس کی چوت کی گہرائی میں جا کر روکا اور وہ مزے سے آہیں بھرنے لگی اب اس نے اپنے دونو ہاتھ میری گردن میں دل دیے تھے میں کھڑا تھا اور وہ کھڑکی میں بیٹھی تھی میرے لن کے ہر دھکے کے ساتھ وہ اپنے لمبے بال ایک طرف سے دوسری طرف ایک ادا سے پھینکتی اور لمبی سی سسکاری لیتی اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ شارق آج تو کمال کا مزہ دے رہے ھو میں نے اب اپنے ڈھون کی سپیڈ بڑھا دی میری نظر اس کی چھاتی پے تھی جو ہر دھکے کے ساتھ ایک بونس سا لیتی تھی مجھے وہ نظارہ بہت مزہ دے رہا تھا اور ساتھ میں نیلو کی سریلی آواز کی سسکیاں یاہائے ہائے ہائے جان مزہ آ رہا ہے میں بات نہیں سکتی شارق تمہارا لن کتنا مزہ دیتا ہے اب تو دل کرتا ہے اسے ہر وقت اپنی چوت میں ہی رکھوں مجھے بہت سکوں دیتا ہے یہ لن میں نے اب کی بار اس کی ایک ٹانگ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کے اوپر کیا اب تو جیسے اس کی کمر میں بل سا آ گیا تھا میرے لن کا ہر دھکا اب اس کی بچا دانی میں لن کو لے جاتا اور ساتھ میں اب میں نے اپنی کمر کو بھی ہلانا شروع کر دیا نیلو اب مزے سے تڑپنے لگی تھی شارق اف جان میں مر گئی اس مزے سےاوہ اف ف ف یآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ میری جان مجھے کیا کر دیتے ھو اتنا مزہ آتا ہے میں مرنے والی ہو جاتی ہوں اب وو بھی اپنی گانڈ کو ہلانے لگی تھی
شارق میری جان کے مالک میرا من کرتا ہے سدا تمہاری نوکرانی بن کے رہوں میں نہیں رہ سکتی آپ کے بنا شارق میرے یار اوئی اب میں نے اس کی دونوں ہی ٹانگیں اٹھا کے اپنے کندھے پے رکھ لیں اور اپنے لن کو اس کی چوت میں اندر باہر کرنے لگا اب کی بار تو جیسے اس کی چیخیں اتنا مزہ دے رہی تھیں مجھے وہ اب مزے سے تڑپ رہی تھی میرے کولہے اب حل رہے تھے گول چکر میں اور ایسے میرا لن اس کی چوت میں جیسے گھوم سا رہا تھا اب اس نے اپنی چوت کو فل تَنگ کر لیا اب میرا لن جیسے ہی چوت میں جاتا وہ اسے اپنی دیواروں میں دباتی اور میرا لن ایک زور سے باہر آتا اور دوبارہ سے اندر جاتا اس کی چوت اب زیادہ دیر نہ لن کو قید رکھ سکی اور اس کی چوت نے پانی چھوڑ کے اپنی ہار مان لی میرا لن ویسے ہی اندر باہر ہوتا رہا اب میرا لن اس کی چوت میں راج کر رہا تھا اب بھی اس کی چوت اسے اپنی دیواروں میں پکڑنے کی کوشش کرتی لیکن ناکام رہتی اب وہ مزے سے زور زور سے تڑپ کے چیخ رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اف ف ف ف ف م م م م م مشارق میں مر جاؤں گیں اس مزے سے میں نے اب اسے بیڈ پے لا کے لٹایا اور لن کو اس کے اوپر لیٹ کر اندر باہر کرنے لگا اس نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لیپٹ لیں اور نیچے سے اوپر کی طرف گانڈ کو زور سے جھٹکے دینے لگی ساتھ میں وہ اب بنا رکے آہیں بھر رہی تھی اوہ اف ف ف ی اہ شارق میری جان مر گئی میں ایسے ہی زور سے مجھے چودو میرے راجہ اور میں اور زور سے کھودنے لگا وہ اور بھی مزے سے چیخنے لگی وہ اوہ اوہ آوچ آہ آہ آہ آہ اوہ اشارق میرے دلبر ایسے ہی چودو اپنی نیلو کو میں نے اب اسے الٹا کیا اور اس کی دونوں ٹانگیں کافی پھیلا دیں اب اپنا لن اندر کیا اس کی گانڈ میں وہ ایک دفع تو تڑپی مر گئی شارق آہ آہ آہ آہ اوہ ا یہاں بہت درد ہوتا ہے جانو میں نے کہا کچھ ہی دیر میں مزہ بھی آے گا وہ اب بولی ٹھیک ہے میرے راجا جو مرضی کرو اور میں نے اب کی بار لن کو سارا باہر نکالا اور ایک ہی زور دار دھکے سے جڑ تک اندر کیا اب کی بار ایک دفع پھر سے اس نے ایک زور کی چیخ ماری یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئشارق ہائے مار ڈالو گ
ۓ اب کچھ آرام سے کیا کرو جانو پیچھے سے میں نے کہا مجھے ایسےہی مزہ آتا ہے وہ اب ایک زور کی سسکی لے کر بولی ایسی بات ہے تو جانو پھاڑ ڈالو آج اسے میرے یار کو میری گانڈ مزہ دے رہی ہے مجھے ہر درد قبول ہے میں اب زور زور سے لن نیلو کی گانڈ کے اندر باہر کرنے لگا وہ اب مزے سے اور درد سے تڑپ سی رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اب کی بار اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں بیڈ کی چادر کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور میرے ہر دھکے کے ساتھ وہ سسک کے آگے کو ہوتی اس کے ہاتھوں کی رگیں اب تن گیں تھی وہ مزے سے سسکنے لگی اور بولی شارق میں اب برداشت نہیں کر پا رہی جانو میں نے اب کی بار لن دوبارہ اس کی چوت میں ڈالا اور دھکے دینے لگا پھر وہ اب مزے سے آہیں بھرنے لگی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ اف ف ف ی اہمیں مر گئی اب میں نے اسے دوبارہ سے سیدھا کیا اور اس کو اپنی گود میں بیٹھا لیا اب وو اپنی ٹانگیں میرے دونوں طرف پھیلا کے بیٹھی تھی لن کے اپر اور میرا لن اب دوبارہ سے اس کی چوت میں اندر باہر ہو رہا تھا اوہ اف ف ف ی اہشارق میں نے اب اس کی چھاتی کی ایک نپل کو منہ میں لیا اور چوسنے لگا اب ہم دونوں کے جسم پسینے میں بھیگ رہے تھے وہ اب تک تین دفع جھڑ چکی تھی اور میں بھی اب قریب ہی تھا
اب میں نے اس کی نپل کو چوستا اور ساتھ میں کاٹنا بھی شروع کر دیا تھا وہ درد بھرے مزے کے ساتھ آہیں بھر رہی تھی شارق کیا ان کو کاٹ کے کھا جاؤ گ
ۓ ظالم بہت درد دیتے ھو نیچے سے تمہارا لن اور اوپر سے اب اپنے دانت بھی استمال کرنے لگے ھو کوئی اتنا ظلم نہیں کرتا اپنے پیاروں کے ساتھ میں نے کہا کوئی اتنا مزہ بھی نہیں دیتا نہ کسی کو جو میں اپنی جان کو دیتا ہوں وہ بولی اسی مزے نے تو تمہارا غلام بنا دیا ہے مجھےاوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ میں مر گئی میں نے اب اپنے ہاتھوں میں اس کی گانڈ کو پکڑا اور اوپر اٹھایا اب اس کی گانڈ میرے لن سے اوپر تھیمیں نے اب اپنا لن اس کی گانڈ میں ہی ڈالا وہ اور مزے کی درد سے لبریز چیخ مر کے بولی آج میری لگتا ہے گانڈ کی خیر نہیں ظالم یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے میں نے اب لن کو کبھی اس کی گانڈ میں ڈالتا اور کبھی اس کی چوت میں پھر اس کوکہا اپنا منہ دوسری طرف کرو اور وہ اب میری طرف اپنی کمر کر کے میرے لن پے بیٹھ گئی اب میںنے اسے کہا اپنی ٹانگیں میری رانوں پے رکھ لو اس نے ایسا ہی کیا اب جیسے ہی وہ میرے لن کو گانڈ میں لے کر نیچے بیٹھی ایک زور کی چیخ مر کے بولی شارق ایسے تو مجھے یوں لگ رہا ہے تمہارا لن میرے پیٹ میں جا رہا ہے یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے اوہ اوہ جانو مر گئی میں اب میںنے نیچے سے ایک زور کا دھکا مارا وہ سامنے جا گری اور درد سے چیخ کے آہ آہ آہ آہ آہ کرنے لگی اب میں بھی اس کے اوپر جیسے سوار ہو گیا اور اس کی گانڈ میں اب اتنے زور سے دھکے مرنے لگا وہ درد سے رونے لگی آہ آہ آہ آہ آہ مار ڈالو مجھے آج ایسے ہی آپ کو اچھی نہیں لگتی نہ اس لئے اتنا درد دیتے ہو میں کچھ دیر تک ایسے ہی دھکے مرنے کے بعد لن کو اس کی چوت میں ڈالا اور ابھی کوئی تین چار دھکے ہی مارے ہوں گۓ نیلو کی چوت برسنے لگی اب میں بھی قریب ہی تھا ایک زور کا دھکا مارا وہ مزے سے تڑپ گئی اوہ اف ف ف ی اس کے ساتھ ہی میرے لن نے اس کی چوت میں اپنا پانی چھوڑ دیا وہ اب مزے سے مجھے اپنی بانہوں میں زور سے بھنچ کے بولی تمہارا لن اتنی زور سے منی چھوڑتا ہے میں بتا نہیں سکتی
میں نے کہا یار تمہارا جسم ہے ہی اتنا سیکسی میں بتا نہیں سکتا اب ہم ایک دوسرے کو اپنی بانہوں میں لئے لیٹے تھے پھر وہ میرا منہ چوم کے بولی بہت ظالم ھو
محبت کے حوالے سے بہت ظالم ہے تو
توڑ دیتا ہے مجھے کانچ کی طرح……

شارق آو اب واش روم چلتے ہیں پھر اس نے مجھے واش روم میں اپنے ہاتھوں سے میرا جسم صاف کیا اور بعد میں خود کو اب میں نے کہا میں اب جاؤں وہ بولی رک جاؤ نہ پھر کہا شارق مجھے کسی روز ایسے ہی مار ڈالو گ
ۓ تم درد دے دے کر اور ہنس دی میں اب کپڑے پہن کر اپنے روم میں آ گیا وہاں آتے ہی مجھے کال آ گئی کرنل عثمان کی وہ بولا یارمیں کب سے کال کر رہا ہوں کہاں تھے تم میں نے کہا سوری بھائی میں سو رہا تھا مجھے نہیں پتا چلا وہ بولا ایک گھنٹے تک تیار ہو جاؤ ایک جگہ جانا ہے میں آ رہا ہوں میں نے اب کال بند ہونے کے بعد غسل کیا اور لباس بدل کے نیچے آ گیا بھائی طارق بھی اپنے کمرے سے نکلے اور کہا کرنل کی کال آئی تھی میں نے کہا مجھے بھی اب ہم دونوں ہی بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگے

Part 25
پھر کوئی بیس منٹ بعد کرنل عثمان نے کال کی ہم دونوں بھائی باہر گ
ۓ وہ بولا طارق صاحب آپ اپنی سرکاری جیپ میں آئیںاور مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا میں ان کی جیپ میں ہی بیٹھ گیا اب وہ بولے میں ساری رات اس حرام زادے سے پوچھ گچھ کرتا رہا ہوں وہ کمینہ اب جا کے بولا ہے شارق اس نے اب کچھ اور نام بتا دے ہیں اور مجھے ان کے بارے میں جان کے لگتا ہے یہاں کسی کا اعتبار نہیں ہے وہ دونوں ہی بہت بڑے سماجی ورکرہیں ہر رروز انکے بارے میں اخبارات لمبی لمبی سرخیاں لگاتے ہیں یار سمجھ نہیں آتی اب کی بار کرنل کا لہجہ بہت ٹوٹا سا لگتا تھا میں نے کہا یار اگر کروڑوں کی آبادی میں دو چار حرامی ہیں بھی تو کوئی بات نہیں اتنا افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں بھائی اب کی بار وہ بولا ابھی تم بھی ان کا نام سن کے چونک جاؤ گۓ ان میں سے ایک ہے پیر ابن پیر سراج شاہ اور دوسرا ہے سیٹھ برکت ایک بار میں بھی اندر سے ہل سا گیا تھا کیوں کے پیر سراج کا نام بہت احترام سے لیتے تھے لوگ اس کے مریدوں کی تعداد لاکھوں تک تھی وہ دور سے ھمارے بھی عزیز تھے اور سیٹھ برکت کا نام لوگ ایسے لیتے جیسے وہ کوئی فرشتہ ہو اس کے نام سے سینکڑوں ادارے چل رہے تھے جہاں لاچار اور غریب لوگوں کی مدد کی جاتی وہ ایک بہت بڑیسماجی شخصیت تھا عثمان نے کہا شارق میرے چیف بھی نہیں مان رہے کہتے ہیں داور کمال جھوٹ بولتا ہے اب میں آپ کو ایک جگہ لے جا رہا ہوں وہاں سے بقول داور کمال ہم کو کافی ثبوت مل سکتے ہیں لیکن یار وہ آدمی پنجاب بار کا وائس صدرہے اور اب میں نے کہا کیا آپ ملک کامران کی بات کر رہے ہیں وہ بولا ہاں وہ بھی شامل ہے اب میں نے کہا کرنل اگر وطن فروشوں میں میرا سگا باپ بھی ہوا تو میں اسے بھی وہی سزا دلواؤں گا جو کسی اور کے لئے سوچوں میں قاتل ،چور اور ہر طرح کے مجرم پے رحم کھا سکتا ہوں لیکن ایک غدار پے نہیں یہ میری سرشت کے ہی خلاف ہے میری ماں نے مجھے صرف یہی سبق دیا ہے بچپن سے شارق اگر یہ پاک وطن ہے تو ہم سب ہیں سب سے پہلے یہ دھرتی ماں اس کے بعد تمہاری اپنی ماں میری یہ باتیں سن کے کرنل نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا شارق مجھے آپ کی ساری فیملی پے فخر ہے آپ جیسے لوگ ہی کسی بھی ملک کا مان ہوتے ہیں میں
پھر ہم یونہی باتیں کرتے ملک کامران کے گھر کے پاس جا پہنچے وہ ایک نامی گرامی وکیل ہونے کے علاوہ ایک جسٹس ہائی کورٹ کا چھوٹا بھائی بھی تھا اب بھائی طارق نے یہاں کے متعلقہ تھانے سے گارڈ منگوائی اور ہم نے اندر داخل ہو کر سب کو گھیر لیا ملک کامران اپنے بیڈ روم میں سو رہا تھا اس کے ایک ملازم نے اسے اٹھایا اور ھمارے بارے میں بتایا اب وہ غصے سے بولاان کی یہ جرات پھر وہ ایک قیمتی گاؤن پہنے باہر آیا اور کہا طارق بھائی سے ایس پی تمہارا دماغ ٹھکانےپے ہے جانتے ہو میں کون ہوں اور تم نے میرے ہی گھر میں ایسے داخل ہو کر ایک عذابخرید لیا ہےاس کی یہ گستاخی میں اب برداشت نہ کر سکا اور سامنے آیا وہ مجھے دیکھ کر چونک گیا اور بولا شارق تم بھی ساتھ ھو کیا تم دونوں بھائی ہی پاگل ہو گ
ۓ ھو میں نے کہا ملک صاحب ذرا واپس اپنے کمرے میں چلو تم سے ایک کام ہےاب وہ بولا نہیں تم باہر جاؤ گھر سے اور اجازت لے کر آؤ اندر اب کی بار بھائی طارق نے اسے ایک تھپڑ مرا اور کہا سالےکرنی وطن سے غداری اور بات یوں کرتا ہے جیسے کوئی گورنرلگا ہے اب تو ملک نے کہا میں تم سب کو دیکھ لوں گا اسے اب دھکے دے کر اس کے ہی روم میں لایا گیا پھر وہاں کی تلاشی لینے لگے ہم اب کرنل عثمان نے کہا وہ ثبوت کہاں ہے جو داور کمال کی پارٹی کے ہیں وہ ایک دم سے چونک گیا اور اس نے اب کی بار غصے سے لال پیلا ہو کر کہا ابھی بتاتا ہوں اور کم بخت نے پتا نہیں اپنے ملازم کو کیا اشارہ کیا تھا کے ابھی ہم اس کے کمرے میں ہی تھے کے باہر سے سیلوٹ بجے اور ھمارے شہر کے ڈی آئی جی کو لئے اس کا بھائی جسٹس ملک عمراناندر داخل ہوا اب میں سمجھ گیا کچھ چکر چلایا ہے اس نے اب وہ ایک دم سے چیخ کر بولا جناب دیکھیں یہ کیا غنڈہ گردی ہو رہی ہے اب جسٹس صاحب نے کہا مسٹر شارق آپ کے بارے میں کافی اچھا سنا تھا یہ کیا ہے آپ کی جرات کیسے ہوئی یہاں اس طرح آنے کی اور اس ایس پی کو ابھی معطل کرو ڈی آئی جی یہ لوگ خود کو پتا نہیں کیا سمجھنے لگے ہیں اب ڈی آئی جی نے کہا طارق یہ سب کیا ہے وہ بولے سر یہ سب اسی گروپ کا چکر ہے دہشت گردی والے اچھا ہوا آپ خود ہی آ گۓ ورنہ میں ابھی آئی جی صاحب کو کال کرنے ہی والا تھا اب کی بار ڈی ای جی چونک گیا اور کہا لیکن ان سب میں ملک صاحب کا کیا تعلق ہے میں نے کہا سر جو بھی اس وطن کے غداروں کا ساتھ دے وہ کوئی جسٹس ہو یا ڈی آئی جی سب ایک برابر ہیں میری بات نے اس کے چہرے پے ایک دفع غصے کی لالی لے آئی لیکن پھر وہ ضبط کر کے بولا شارق صاحب آپ سچ کہ رہے ہیں اب کی بار جسٹس نے کہا آپ نے میرے بھائی پے غداری کا الزام لگایا ہے اس کا کوئی ثبوت میں نے کہا جناب میں جانتا ہوں آپ کا خاندان ایک محب وطن ہے لیکن اب کیا ہو سکتا ہے اچھے لوگوں میں بھی برے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں اب کی بار جج صاحب نے اپنے بھائی سے کہا کامی کیا سن رہا ہوں میں کیا یہ سچ ہے وہ بولا یہ سب بکواس ہے بھائی جان ابھی وہ اتنا ہی بولا تھا کے کرنل کے موبائل کی بیل ہوئی اور اس نے کال سنتے ہی کہا کمال کر دیا آپ نے کیپٹن حسن اب کی بار سب ہی اسے دیکھنے لگے وہ بولا میں آئی ایس آئی کا اس شہر کا انچارج کرنل عثمان ہوں اب تو ڈی آئی جی کے ساتھ جج اور ملک کامران بھی چونک گیا اس نے کہا شارق صاحب پتا چل گیا ہے اس مواد کا اور آگے بڑھ کے ملک کے گالی میں ہاتھ ڈالا اور ایک سونے کی زنجیر کھینچ لی اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی چابی تھی اب وہ سامنے والی دیوار کی طرف گیا اور اس نے ایک بڑی سی تصویر کو اتارا یہ سب دیکھ کر ملک کامران اب کانپ رہا تھا اس نے اب پیچھے لگے ایک سوئچ بورڈ کی ایک سائیڈ پے وہ چابی ڈالی اور اسے تین دفع دائیں پھر بائیں گھمایا اور اب دیوار سے ایک چھوٹی سی سیف نکل کے باہر آ گئی اس نے وہی چابی اس میں لگائی ایک چھوٹے سے سوراخ میں اور سیف کھل گئی اس میں اب صرف چار یا پانچ فائلیں تھیں وہ سب ہی نکال لیںاور اب کرنل نے وہ ایک طرف بیٹھ کے ان پے نظر پھیرنے لگا پھر وہ ایک لمبا سانس لے کر بولا لو شارق جی آپ بھی دیکھوں ان سفید پوشوں کی اصلی صورتیںمیں نے بھی وہ باری باری ایک نظر دیکھیں اور غصے سے لال ہو کر کہا یہ لیں جسٹس صاحب اب کی بار وہ بھی اسے دیکھنے لگے سب ہی ملکر پھر اس نے آگے بڑھ کے ایک تھپڑ مرا ملک کامران کو اور رونے لگا پھر اس نے مضبوط لہجے میں کہا اسے لے جاؤ کرنل صاحب اور میں کوشش کروں گا اسے ہر جگہ سے پھانسی ہی ملے گی آج مجھے شرم نے ماراب ہم ملک کامران کو لئے ہوے باہر آے اور اور ہم کو گھر چھوڑنے کے بعد کرنل اسے اپنے ساتھ لے گیا اب بھائی طارق بھی اس کے ساتھ ہی گۓ تھے میں گھر میں داخل ہوا اب ڈیڈی لان میں ہی تھے ویسے بھی دیں چڑھ گیا تھا اور وہ ویسے بھی صبح جلدی اٹھ جاتے تھے ان کے ساتھ ہی نواب سلطان بھی تھے وہ بولے کہاں گۓ تھے برخودار میں نے کہا ڈیڈی کرنل کے ساتھ اور ساری بات ان کو بتا دی میں ان کے ساتھ ہی بیٹھ گیا پھر کوئی چالیس منٹ بعد میں اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا کے مجھے بھابھی شفق نے آواز دی شارق بات سنو میں ان کے کمرے میں داخل ہوا وہ ابھی ابھی نہا کے نکلیں تھیں میں نے پیچھے سے دروازہ لاک کیا اور ان کو اپنی بانہوں میں لے کر کہا لگتا ہے رات کو بھائی صاب نے کچھ خاص ہی کیا ہے وہ شرما کے بولی چل ہٹ بےشرم اور میں نے ان کی شرم سے لال گالوں کو چوم لیا وہ بولی شارق آج مہمان آ رہے ہیں بھائی جان آنے والے ہیں ان کے ساتھ وہ نیا شادی شدہ جوڑا بھی ہے میں نے آج ان کی دعوت کی ہے میں نے کہا بہت اچھا کیا بھابھی وہ بولی تم آج ٹائم سے آ جانا میں نے کہا ابھی وقت نہیں ہے ورنہ بہت دل کر رہا ہے آپ کی ان مدہوش آنکھوں میں ڈوب جاؤں وہ بولی جاؤ بھی شرم کیا کرو کیا کھاتے ہو لڑکیوں کا برا حال کررہے ھو میں نے کہا کن کا وہ اب کی بار ہنس کے بولی دیور جی مجھے سب پتا ہے ایسے ہی صدف اور پری لوگ جناب کی تعریف نہیں کرتیں میں ہنس کے بولا اچھا جی اب میں بولا سچی بھابھی جو مزہ آپ نے اس دن دیا تھا وہ یہ کنواری لڑکیاں بھی نہیں دے سکیں آج تک اب وہ شرما کے بولیں باتیں بنانا کوئی تم سے سیکھے میں نے اب ان کے ہونٹوں سے شبنم کو چرانے لگا وہ اب مچل گئی اور کہا شارق کوئی آ جاتے گا نہ کرو میں نے کہا پھر آج رات کو آؤ گئی نہ وعدہ کرو اس نے کہا نہیں آ سکتی اب میں نے پھرگھڑیکی طرف دیکھا ابھی مجھے پتا تھا باقی لوگ ایک گھنٹے تک نہیں اٹھیں گۓ میںنے بھابھی کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور ان کے بیڈ پے پھینک دیا وہ بولی آؤے بےشرم کیا ارادہ ہے میں نے کہا خطرناک ہے اب میں نے جلدی سے اپنے سارے کپڑے اتارے اور بھابھی شفق کی طرف بڑھا وہ میرے لن کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی میں نے ان کو اپنے بازوؤںمیں دبوچا اور ان کے ہونٹوں کو چومنے لگا وہ اب میری کمر پے ہاتھ پھیر رہی تھیں میں نے اب اپنے ہاتھوں سے ان کی کسی ہوئی چھاتی کو دبانے لگا وہ ایک سسکی لے کر بولی سسیسسس شارق مت تنگ کرو میں نے ان کے منہ میں زبان ڈالی اور وہ اسے مزے سے چوسنے لگیں اچانک میری نظر بیڈ کے ساتھ ماجود دراز پے شہد کی شیشی دیکھی میںنے وہ اٹھائی اور اس میں سے شہد کے کچھ قطرے اپنی زبان پے ڈالے اور پھر زبان شفق کے منہمیں ڈالی وہ اب کی بار مزے سے شہد لگی زبانکو چوسنے لگی کافی دیر تک ایسے ہی وہ میری زبان کو چوستی رہیں میں نے اب ان کی چھاتی کو کمیض کے اوپر سے ہی دبانا جاری رکھا تھا پھر میں نے شہد اپنی انگلی پے لگا کے اس کے ہونٹوں پے ملا اور اب اپنی زبان سے چاٹنے لگا وہ اب مزے سے سسکی بھر کے بولی شارق مت کرو مجھے کچھ ہونے لگا ہے شی ی ی یاف میری زبان اب ان کے ہونٹوں کو چاٹ رہی تھی اب میںنے اس کے نچلے ہونٹ پے کافی ساری شہد لگائی اور اسے اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا اب کی بار وہ ایک دم سے تڑپاٹھی اس نے اپنی بانہوں کا گھیرا تنگ کیا میری کمر پے میں اب مزے سے اس کے ہونٹوں سے لگا شہد چوس اور چاٹ رہا تھا میں نے بار بار ایسا ہی کیا اب مجھے اس کے ہونٹ چوستے ہوے کوئی بیس منٹ ہو گۓ تھے وہ اب اتنا بیچین ہو گئیں تھیں انہوں نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لیپٹ کر نیچے سے ہلنا شروع کر دیا تھا اور اب وہ میرے ہونٹوں کا یہ گھومنازیادہ نہ برداشت کر سکیں اور ایک دم سے اپنے بازوں اور سخت کئے اور ان کا سارا جسم ایک زور دار جھٹکے سے اچھلا اور وہ ایک دم سے لمبے لمبے سانس لینے لگیں اب میں جان گیا تھا وہ ہونٹوں کی پکڑ اور رگڑ سے فراغ ھو گئیں ہیں میں نے اب ان کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ اوپر اٹھے وہ ایک لمبا سمس لے کر بولی اوہ جادوگر کیا کر دیتے ھو اتنا مزہ آج تک نہیں ملا ہائے میں مر جاؤں اور مجھے اپنے ساتھ زور سے بھنچ لیا میں نے اب ان کی کمر سے زپ نیچے کی اور ان کی کمیض کے ساتھ برا بھی اتار دیا ان کے اڑتیس سائز کے تنے ہوے اور کسے ممے میرے سامنے تھے بھابھی شفق کا جسم تھا ہی کمال کا بے داغ بڑی بڑی چھاتیاں نیچے پیٹ نہ ہونے کے برابر اور نیچے سے باہر کو نکلے کولہے میں نے اب کی بار اپنی انگلی کو شہد لگایا اور ان کے منہ میں ڈال دیا وہ مزے سے میری انگلی کو چوسنے لگیں میںنے اب ان کی چھاتی پے ڈھیر سارا شہد ملا اور ان کو اپنی زبان سے چاٹنے لگا میںنے میرے زبان نے اس کی حکاتی سے لگا سارا شہد چاٹ لیا اب میں نے ایک شہد کا ایک قطرہ اس کی نپل پے گرایا اور اسے اپنے ہونٹوں میںلے کے چاٹنے لگا وہ ایک دم سے سسکی بھر کے بولی شارق آج کیے کر رہے ھو یہ مزہ مجھے پاگل کر دے گا اب اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں لے کر سہلانا شروع کر دیا تھا میں مزے سے اس کی چھاتی کو چوستا رہا اب میں نے اس کی ایک چھاتی پے کافی سارا شیہد ملا اور اسے دوبارہ سے اپنی زبان سے چاٹنے لگا وہ مزے سے تڑپنے لگی اوئی مر گئی ظالم کیا مزہ ہے تیرے پاسمیں نے اب اس کی دوسری چھاتی پے بھی ایسا ہی کیا اور پھر اس کے پیٹ کی طرف آیا وہاں پے اپنی زبان سے مساج کرنے لگا میری زبان نے شفق کی جیسے جان ہلکان کر دی وہ مزے کی شدت سے اب اپنا سر پٹخنے لگی تھی میں نے اب شہد کو اس کی ناف کے سوراخ میں بھی کوئی تین قطرے ڈال کے اپنی زبان سے چاٹنے لگا جیسے جیسے میری زبان اس کی ناف میں گھومتی اس کا پیٹ اب لرز رہا تھا وہ اب مزے سے آہیں بھر رہی تھی اب اس نے کہا پلیز شارق اب اور مت ترپاؤ میں مر گئی میری ماں میں نے اب جیسے ہی اپنی زبان کو باہر کیا اور دوبارہ ناف میں ایک جھٹکے سے کیا اندر وہ تو مزے سے اچھل پڑی مر گئی ظالم کس کس انداز سے مزہ دیتے ھو کیوں مجھے اب تڑپا رہے ھو میرا لن اب اس کے ہاتھ میں ہی تھا اور فل تنا ہوا تھا اب وہ بولی شارق اب اور کچھ نہیں اسے اندر کرو تیس منٹ ہیں بس بھابھی تنویر اٹھنے ہی والی ہے میں نے بھی اب موقع کی نزاکت کو دیکھتے ھوے ان کی ٹانگوں میں آ کر بیٹھا اور ان کی ٹانگیں اپنی دائیں بائیں کر کے ان کی چوت پے لن کو فٹ کیا وہ بولی شارق پلیز پیار سے آرام سے مزہ دو آج مجھے میں مسکرا کے بولا اچھا جی اب وہ ہنس کے بولی ظالم اپنی بھابھی سے تو آرام سے کیا کرو اور لوگ کافی ہیں تمہاری فطرت کو تسکین دینے کے لئے میںنے اب آھستہ سے اپنا لن ان کی چوت میں ڈالا وہ ایک سسکی لے کر بولی اف آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ شارق میں نے اب ہلکے ہلکے سے لن اندر باہر کرنے لگا وہ میرے ہر دھکے کے ساتھ مزے سے سسک رہی تھیں ہائے میری جان کیا لن ہے اندر جاتے ہی مزہ آنے لگا ہے اب وہ نیچے سے اپنی گند کو اوپر کر کے ساتھ دینے لگیں میں اپنے ہاتھوں سے ان کے ممے دبا رہا تھا وہ مزے سے آہیں بھر رہی تھیں آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق مجھے کس کرو ساتھ ساتھ میں مر گئی میری جان اب وہ خود پےسے کنٹرول کھونے لگیں میں نے ان پے لیٹ کے اب ان کے ہونٹ چوسنے لگا اب میں نے دوبارہ سے ان کے ہونٹوں پے شہد مل کے چوسنے لگا وہ اب مزے سے مجھے بار بار اپنی بانہوں میں بھنچ لیتی زور زور سے کوئی پانچ منٹ ایسے ہی میں ان کے ہونٹ چوستا رہا میرا لن اب ان کی چوت میں راج کر رہا تھا ابمیں اٹھا اور ان کو بھی بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کھینچا اب وہ میری گود میں بیٹھ گیں میںنے اب ان کے مموں پے شہد لگایا اور ان کو چاٹنے لگا وہ اپنی بانہیں میری گردن میں ڈال کرمجھے اپنے سینے میں دبانے لگیں تھیں اب آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہمیں مر گئی اف ف ف ف ف سسسسس شارق مجھے اتنا مزہ آ رہا ہے میں بتا نہیں سکتی جانو میں پاگل ہو جاؤں گیں اب انہوں نے ایک زور دار سسکاری بھری اور کہا میں آئی شارق اور ساتھ ہی ان کا جسم کانپ اور وہ فراغ ہو گیں پھر سےمیں بنا رکے ویسے ہی چودتا رہا ساتھ میں ان کی چھاتی کو بھی چوس رہا تھا اب کوئی پانچ منٹ بعد وہ دوبارہ سے مزے سے چیخنے لگیں آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہشارق میرے دل دار کیا مزہ ہے تمہارے پاس اب اس نے مجھے ایک ڈھاکہ دیا پیچھے کی طرف اور مجھے نیچے لٹا کے میرے لن پے بیٹھی ہوئیں بولیں شارق یار کچھ مجھے بھی کرنے دو اور اب اس نے اپنی زبان سے میرے چھاتی کی نپل کو چوسنا شروع کر دیا ساتھ ساتھ بھابھی شفق میرے لن کے اوپر بیٹھی اوپر نیچے بھی ہو رہی تھیں اور میں نے اب ان َکی کمر پے ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا وہ اب مزے سے آہیں بھرتے ھوے بولی شارق ایسا لگتا ہے جیسے تمہارا لن میرے پیٹ میں جا رہا ہے اتنا مزہ آج تک نہیں ملا میںنے اب ان کو اپنی طرف کھینچا اور اپنے ہونٹ ان کے ہونٹوں پے رکھ کے کہا جتنا مزہ اور خوشی مجھے آپ سے پیار کرتے ھوے ہوتی ہے میں بتا نہیں سکتا جان اور ساتھ حکہا میں اب ذرا زور سے کرنے لگا ہوں پھر میں نے نیچے سے اوپر کی طرف زور سے دھکے مرنے لگا وہ بھی اب ساتھ دے رہی تھی میرے زور دار دھکوں نے اسے اب مچلنے اور چیخنے پے مجبور کر دیا اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یا اف ف ف ف شارق میرے راجہ کیا مزہ ہے میں مر گئی میںنے اب اور بھی زور سے ان کی چوت میں لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا اب وہ مزے سے تڑپنے لگیں یاہائے ہائے ہائے شارق اور ساتھ ہی اب وہ اپنی گانڈ کو ہلانے لگی اب تو میں بھی مزے سے جیسے پاگل ہو گیا تھا اور اس کی تو اب کی بار چیخیں ہی نہیں رک رہی تھیں کیوں کے اب اس کے اس طرح گھومنے سے میرے لن کو بھی ایک زوروں کی رگڑ لگتی تھی اس کی چوت کی دیواروں کی اس نے اپنی چوت کو فل تنگ کر لیا تھا اور مزے سے میرے سینے پے ہاتھ رکھے وہ اوپر نیچے بھی ہوتی جا رہی تھیں اور ساتھ میں جب وہ میرے لن کے اوپر بیٹھتی تو اپنی گانڈ کو ہلاتی ساتھ میں اوہ اف ف ف ی اہ شارق میری جان میں مر گئی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اتنا مزہ اب کی بار تو وہ جیسے پاگل ہی ہو گئی تھی اتنے زور زو ر سے وہ اب اوپر نیچے ہو رہی تھی جیسے اسے کوئی دورہ پڑھا گیا ھو اور ساتھ میں اس کی چیخیں مجھے بہت مزہ دے رہی تھیں وہ اب بہت ہی بیتاب ہو رہی تھی اب تو میرا لن بھی مزے سے فارغ ہونے والا تھا پھر وہ ایک زور کے جھٹکے سے چلائی اہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی وہ اب پسینہ پسینہ ہو گئی تھیں اور میرے اوپر ہی گر گیں اب ایک اور جھٹکے سے میں نے لن کو اندر باہر کیا اور اس کے ساتھ ہی میرا پانی بھی نکال گیا میرے لن نے بھابھی شفق کی چوت میں منی کی برسات شروع کر دی شارق آج میں تو مزے سے پاگل ہی ہو گئی تھی اف کتنے پریشر سے منی چھوڑتا ہے تمہارا لن اہ یاہائے ہائے میری جان گئی اتنا مزہ آتا ہے میں بتا نہیں سکتی اور مجھے اپنی بانہوں میں دبا لیا اب وہ دیوانہ وار میرا منہ چوم رہی تھیں پھر کوئی پانچ منٹ وہ ایسے ہی مجھے چومتی رہی پھر اٹھی اور مجھے اپنے ساتھ واش روم میں لے گئی وہاں اس نے باتھ شیمپو سے مجھے مل مل کے نہلایا اس نے باتھنگ فوم سے میرے سر سے پاؤں تک ایسے مل کے صاف کیا جیسے کوئی ایکسپرٹ باتھ ٹپز کے کلبوں میں بھی نہیں کرتی ہوں گیں میرا ساری کسلمندی اور تھکاوٹ نیم گرم پانی اور اس کی اس طرح سے فوم مساج سے دور ہو گئی میں اب نہا کے باہر آیا اور بھابھی شفق نے اپنی زبان سے میرا سارا جسم چاٹ کر صاف کیا پانی کو میں اب کپڑے بدل کے اپنے روم کی طرف جانے لگا میں جیسے ہی سیڑھیوں پے ہی گیا تھا مجھے بھابھی تنویر اپنے کمرے سے نکلتی نظر آییں وہ بولی خیر ہے شارق آپ آج اس وقت اٹھ گۓ میں نے کہا میں سویا ہی نہیں تھا رات کو ایک جگہ گۓ تھے وہاں سے اب آیا ہوں اور ان سے کہا میرے لئے فریش جوس تیار کروائیں میں ابھی آیا اب اپنے کمرے میں آ کر میں نے لباس بدلہ اور دوبارہ سے نیچے آیا بھابھی نے مجھے ڈرائنگ روم میں ہی کہا بیٹھ جاؤ میں نے کہا نہیں آپ لان میں ہی بھیج دیں اور لان میں والدہ صاحبہ کے پاس آ گیا وہاں پے مجھے اب نواب سلطان نے کہا آج حفیظ والی ڈیٹ ہے نہ میںنے کہا جی وہ بولے چلو شاہ جی آج ہم بھی چلتے ہیں ان کے ساتھ ڈیڈی نے کہا ٹھیک ہے اتنے میں ناشتہ اور جوس آیا میں نے وہ جلدی میں کیا اور جوس پی کر اندر آیا ہاتھ دھوہ کے دوبارہ سے باہر آ کر اپنی کار میں بیٹھا اب نواب صاحب اور ڈیڈی بھی ایک گاڑی میں بٹہے اورمیرے پیچھے آنے لگے اپنی کار میں ہم اب کورٹ میں داخل ہوے اور اپنے آفس کے سامنے گاڑیاں کھڑی کئیں بھائی نصرت ابھی نہیں آے تھے ایک طرف سے فاروقی صاحب آے اور کہا شارق پہلا ہی ہمارا ہی کیس لگا ہے بڑے جج صاحب کے پاس اور ہم اب عدالت کی طرف جانے لگے کمرہ عدالت میں نواب رستم بھی ماجود تھے اور بیگم جہاں آرا بھی وہ مجھے دیکھ کر چونک گئی اور میری طرف ہی آئی اور کہا لڑکے تم بتا کے بھی نہیں آے ہم نے اتنا ڈھونڈا تم کو ایس پی سجاد نے کہا مجھے بھی نہیں پتا اس کا میں ہنس دیا اور وہ بولی تم ایک وکیل ہو پھر یہ سب کیوں کیا میں نے کہا بیگم صاحب میں بابا حفیظ کا وکیل ہوں وہ ہنساور کہا چلو اب میرے وکیل بھی بن جاؤ میں نوٹس پے تمہارا نام پڑھ کے چونک گئی تھی اب اتنے میں رضوان نے کہا سر بیگم صاحب نے مجھے اپنا وکیل مقرر کرنا ہے میںنے ہنس کے کہا تم نے ہی ان کو بتایا ہو گا میرے بارے میں وہ بولا سر ان کے پاس آپ کی تصویر تھی اور پھر یہاں پے آپ کے نام سنتے ہی ایک دو وکیلوں نے انکار کر دیا ہے ان کا کیس لینے سے بیگم اب ہنس کے بولی بہت چرچا ہے تمہاری وکالت کا اور کچھ خوبیاں تو میں دیکھ چکی ہوں پھر میںنے کہا آپ رضوان کو ہی وکیل مقرر کر لیں وہ بولیں ٹھیک ہے اب جج صاحب بھی آ گۓ تھے اب سب نے اٹھ کے ان کا استقبال کیا پھر انھوں نے ایک طائرانہ نظر ڈالی کمرے عدالت میں اور ریڈر سے کہا کاروائی کا آغاز کرو اب ریڈر نے ناب کورٹ سے کہا آواز دے اور ہماری ہی آواز لگی میں اٹھا اور ان کے سامنے پیش ہوا اب باہر سے پولیس کے سپاہی بابا حفیظ کو لے آے اسے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اب میں نے کہا جناب یہ جو انسان اس وقت مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہے اس کی طرف دیکھیں یہ آپ سے اپنے بیٹھے ہوے دنوں کا حساب چاہتا ہے ایک ایسا جرم جو اس نے نہیں کیا اس کی پاداش میں اس نے چودہ سال کتے ہیں کیا معزز عدالت اسے وہ جوانی کے دن لوٹا سکتی ہے جو اس نے جیل کی کال کوٹھری کی نظر کر دیے جرم کرنے والے باہر آزاد گھوم رہے ہیں اور بے گناہ سزا کاٹ رہے ہیں یہ ھمارے قانون کی بے بسی کی انتہا ہے جناب ھمارے ہاں تھانوں میں صرف لوگوں کی اونچی ذات دیکھی جاتی ہے اب جج صاحب نے کہا شارق صاحب آپ کن بنیادوں پے کہتے ہیں یہ غلط ہوا ہے اب میںنے کہا میں اس کیس کی مدعی کو بلانا چاہتا ہوں چند سوالوں کے لئے جج صاحب نے بیگم جہاں آرا کو حاضر ہونے کا کہا اور نائب کورٹ نے آواز لگائی اب بیگم جہاں آرا دوسرے کٹہرے میں آ کر کھڑی ہو گئیں وہ بہت اشتیاق بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھیں میں نے اب ان سے کہا بیگم صاحبہ آپ حلف دیں جو کہیں گئیں سچ کہیں گیں انہوں نے وعدہ کیا اب میں نے کہا بیگم صاحبہ اپ اس شخص کو جانتی ہیں حفیظ بابا کی طرف اشارہ کیا وہ بولیں ہاں وکیل صاحب یہ ھمارے خزانچی ہیں ریاست کے میںنے کہا آپ نے ان کو کیسا پآیا نواب صاحب کی زندگمیں وہ بولیں یہ ایک وفا دار شخص تھا جناب اب وہ جج صاحب کی طرف دیکھ کر بولیں جج صاحب خدا ضامن ہے جب سے ان کو سزا ہوئی ہے میرا من اندر سے بہت بے سکوں ہے مجھے یوں لگتا رہا ہے ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہو گئی ہے میں نے ان کو سزا کے باوجود ان کے گھر میں ہر مہینے باقادگی سے ان کی تنخوا ان کی بیوی کو دی ہے اور وقت کے ساتھ بڑھاتی رہی ہوں میں اب یہ سن کے چونک سا گیا اب وہ بولی جناب میں نے آج تک اصل ملزموں کی تلاش جاری رکھی اور پھر اب ایک فرشتے جیسے آدمی نے میری مدد کی میں آج یہ کہتی ہوں یہ بیگناہ ہیں ان کو جو سزا ہوئی وہ ایک غلط سزا تھی اب تو جیسے عدالت میں ایک شور سا اٹھا ہر کوئی اب چونک سا گیا تھا میرے ہر کیس پے ویسے ہی کافی سرے وکیل حاضر ہوتے تھے میری بحث کو سننے کے لئے اور آج تو ایک تاریخی کیس تھا ایسا کیس پہلی دفع کسی نے دائر کیا تھا کے جس میں مجرم نے ساری سزا کاٹ لی ھو اور اس کا وکیل اسے بے گناہ کہے اب جج صاحب نے کہا عدالت کا احترم ملحوظ خاطر رکھیں اب یہ سنتے ہیںمیں نے کہا بس بیگم صاحبہ اب آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا میں نے اب میںنے کہا جناب اب میں اس کیس سے جڑے ایک شخص کو سے چند سوال کرنا چاہوں گا اب میں نے حفیظ بابا کے بھائی شرف الدین کو بلایا وہ آیا میں نے اس سے بھی سچ کا حلف لینے کے بعد کہا آپ ان کو جانتے ہیں یہ جو آپ کے سامنے مجرم کے روپ میں کھڑا ہے وہ بولا تو اس کی آواز میں ایک عجیب سی سردی تھی اس نے کہا یہ میرا سوتیلا بھائی ہے اس کے اس جرم نے ہم کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہر کوئی مجھے ایک نمک حرام کا بھائی کہتا ہے میں نے کہا شرفو صاحب آپ نے اپنا شہر کیوں چھوڑا وہ بولا بتایا نہ ان کے جرم کی وجہ سے اب میںنے کہا کیا آپ نے ان کو جرم کرتے دیکھا تھا وہ بولا نہیں میںنے کہا آپ کو ہی پہلے اس جرم میں پکڑا گیا تھا آپ کو یاد ہے وہ بولا جی ہاں اور پھر انہوں نے اپنے ضمیر سے بے چین ہو کر سچ بولا تھا میں نے کہا ضمیر سے نہیں اپنی ماں سے کئے ایک وعدہ کو نبھایا اس شریف انسان نے اور تمہارا کیا اپنے اوپر لے لیا اب کی بار وہ ایک دم سے چونک کے مجھے دیکھنے لگا اور کہا وکیل صاحب میرا کیا سے کیا مراد ہے آپ کی میں نے کہا آپ کا کیا تعلق ہے حاکم خان سے وہ بولا وہ میرا کبھی دوست تھا اب میں نے کہا آپ کی شادی کہاں ہوئی تھی وہ بولا میرے ساتھ والے سٹی میں نواب رستم صاحب کی جاگیر میں میں نے اب اس کی آنکھوں میں دیکھتے ھوے کہا آپ کو کبھی اس بات کا پچھتاوا نہیں ہوا کے آپ نے ایک ایسا جرم کیا ہے ایک لڑکی کی خاطر جس کے بدلے میں آپ کا بھائی اپنی زندگی برباد کر رہا ہے وہ اب کی بار کچھ نروس سا ہو گیا اور کہا کیوں جی میں نے کوئی جرم ہی نہیں کیا تو پچھتاوا کیسا میں نے کہا چلو یہ بتا دو مرحوم نواب نیاز صاحب کو تم نے پکڑا تھا یا حاکم نے وہ میرے سوالوں سے کچھ پریشان تو تھا ہی جلدی میں بول گیا حاکم نے پکڑ رکھا تھا اب ایک دم سے وہ چونکا اور کہا کیا پوچ رہے ہیں آپ یہ تو اسے پتا ھو جس نے مارا تھا لیکن جج صاحب اب اسے بڑے گھور سے دیکھ رہے تھے میں نے کہا جاؤ تم اب میں نے حاکم کو اندر بلانے کا کہا اور نائب کورٹ جو اسے پہلے باہر لے گیا تھا اندر لے آیا اسے میں نے پہلا سوال ہی یہ کیا تمہارا دوست شرف دین کہتا ہے میں نے پکڑا تھا اور حاکم نے چھری پھیری تھی نواب نیاز صاحب کے گلے پے میرا پہلا ہی ہوا میں پھینکا تیر نشانے پے لگا وہ بولا بکوا کرتا ہے وہ جناب میں نے بس ان کو دبوچا ہوا تھا چھری اس نے پھیری تھی گلے پے اب کی بار میں نے مسکرا کے کہا نواب رستم نے کتنے پیسے دے تھے تم لوگوں کو وہ اب کی بار سمجھ گیا اب اس نے جو کہ دیا ہے اسے وہ پھنسانے کے لئے کافی ہے اب اس نے بھی کشتیاں جلا دینے کا فیصلہ کیا اور کہا جناب مجھے نواب رستم نے دس لاکھ دے تھے اور شرفو کو بیس لاکھ اب کی بار نواب رستم اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا کیا بکواس کر رہے ھو تم جج صاحب نے کہا تم خاموشی سے اپنی جگہ بیٹھ جاؤ وہ بولا کیوں بیٹھوں جناب یہ مجھے پھنسا رہے ہیں اب کی بار جج صاحب نے پولیس گارڈ سے کہا ان کو ذرا باہر لے جاؤ اور بھاگنے نہ دینا اب وہ اسے باہر لے گۓاب حاکم نے ساری بات ہی بتا دی زمین والی بھی سب سن کے جج صاحب نے کہا میں ان کیس کو دوبارہ سے اوپن کرنے کا حکم جاری کرتا ہوں اس کیس سے متعلقہ شرفو اور حاکم کو گرفتار کیا جاۓ اور نواب رستم کو بھی ساتھمیں شامل تفتیش کیا جاۓ اور بابا حفیظ کی ضمانت لی جاتی ہے میں نے کہا نہیں جناب میرے موکل کو ضمانت نہیں چاہیے وہ بولے تو کیا چاہتے ہیں آپ شارق صاحب میں نے کہا جناب میرے بے قصور موکل کے ماتھے سے یہ جرم کی چھاپ مٹا دی جاۓ اب کی بار جج صاحب نے مسکرا کے کہا چلو یہ ہی سہی اور کہا میں حفیظ احمد کو با عزت توڑ پے رہا کرتا ہوں اور ان کو یہ حق دیتا ہوں یہ چاہیں تو اپنے گزرے دنوں کا حساب مانگنے کے لئے پولیس اور عدلیہ کے خلاف رٹ دائر کر سکتے ہیں میں ساتھ میں معذرت بھی چاہوں گا ان سے کے عدالت کی غلطی کی وجہ سے یہ اپنے قیمتی سال برباد کر بیٹھے یہ سنتے ہی حفیظ کی ہاتھ کڑی کھول دی گئی اور حفیظ کی بیوی بھی میرے کہنے پے اپنی اولاد کے ساتھ آئی تھی اب وہ حفیظ کے گلے مل کر دھاڑیں مار کے رونے لگی اور پھر حفیظ کے دونوں بیٹے اور ایک بیٹی اس سے لپٹ کے رو رہے تھے ان کے اس ملاپ نے عدالت میں ماجود ہر زی روح کی آنکھوں کو نم کر دیا تھا اب حفیظ بابا میرے پاس آے اور میرے گلے لگ کے روتے ہوے کہا آپ کا میں کس زبان سے شکریہ ادا کروں میرے محسن اس کی بیوی نے اپنا ہاتھ اٹھا کے کہا خداکرے کبھی کوئی غم تمہارے پاس نہ آے اب کی بار ایک وکیل نے کہا جناب صدر صاحب آپ انسانی شکل میں فرشتہ ہیں جج صاحب نے کہا قابل سلام ہیں وہ والدین جی کی شارق صاحب جیسی اولاد ہے اور اپنی سات سے اٹھے اور نیچے عدالت میں آ کر میرے والد صاحب کو گلے سے لگا کے کہا شاہ جی میں آپ کو مبارک دیتا ہوں آپ شارق جیسے بیٹے کے باپ ہیں اب کی بار بیگم جہاں آرا نے کہا حفیظ بابا ہم کو معاف کر دو اور اپنے ہاتھ جوڑ دے یہ دیکھ کر حفیظ بابا تڑپ کے آگے بڑھا اور عقیدت سے بیگم صاحب کے ہاتھوں کو کھولا اور کہا میری جان میری اولاد آپ پے قربان میری ساری نسل آپ کے خاندان کی نوکر ہے اب کی بار عفت نے کہا چچا جی آپ ھمارے گھر چلو آج بھی ہماری حویلی میں آپ والا کمرہ آپ کی یاد میں بند ہے ہمیں آپ کی ضرورت ہے اب بابا حفیظ نے اپنے کانپتے ہاتھ عفت کے سر پے رکھے اور کہا میری ساری نسل آپ کی غلام ہی بیٹی اب کی بار بیگم جہاں آرہ نے کہا اور اپنے شارق صاحب آپ سے تو آپ کے گھر میں ہی دو چار باتیں ہوں گئیں اور اب نواب سلطان نے کہا بھابھی بیگم ان کی آج آپ کلاس لیں اور میں ہنس دیا

26
میں اب کمرہ عدالت سے باہر آیا آج بھی کافی بھیڑ تھی پریس کے نمائندوں کی وہ اب بھی میرے بارے میں سوال و جواب کرنے لگے اب انہوں نے بابا حفیظ سے کہا آپ کیا بولتے ہیں ان کے متعلق وہ بولا آپ نے کبھی انسانی روپ میں فرشتہ دیکھا ہے وہ سب بولے نہیں اب کی بار بابا حفیظ نے کہا آؤ آج دیکھ لو اور میرے پاس آ کر میرا ہاتھ عقیدت سے چوم لیا اب سب نے ہی کچھ نہ کچھ کہا میںنے کسی سوال کا جواب نہ دیا اور اب میں بار روم میں آ گیا آج ہر طرف میرے ہی کیس کے چرچے تھے وہاں بھی کچھ ہی دیر بیٹھا اور اب کی بار نواب سلطان نے کہا یار آج گھر چلو اب میرے پاس آج کی ڈیٹ کا کوئی کیس نہیں تھا میں ڈیڈی اور نواب سلطان کے ساتھ گھر آ گیا گھر میں جب سب کو پتا چلا تو مجھے والدہ صاحبہ نے اپنے گلے سے لگا کے میرا سر چوما اور کہا میری دعا ہے تم سدا یوں ہی ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دو پھر باری باری بھابھیوں نے مجھے گلے سے لگا کے میرا ماتھا چوما اب جیسے ہی مجھے شفق نے گلے سے لگایا میں نے کہا ہلکی آواز کے صرف وہ ہی سن سکے جانو آج مزہ آ گیا تھا اور وہ اب ہنس کے بولیں امی جان آپ کا بیٹا واقعی ہر میدان میں جھنڈے ہی گاڑے گا اب ڈیڈی نے کہا یار ہم نے آج ایک مشورہ کیا ہے تم سے بھی اب پوچھنا باقی ہے باقی سب تو راضی ہیں میں نے کہا وہ کیا اب اس نے کہا آپ جب فرحت پور گ
ۓ تھے تو پیچھے سے کیپٹن حسن کا رشتہ آیا ہے لالارخ کے لئے میں ایک دم سے چونک گیا اور میںنے کہا ڈیڈی مجھے وہ لڑکا ویسے بھی بہت پسند ہے اب کی بار والدہ صاحبہ نے کہا تو ٹھیک ہے پھر ہاں کردیں شاہ جی اور پھر اسی شام کیپٹن حسن کے گھر ہاں کا پیغام چلا گیا شام کو ہی بیگم جہاں آرا بھی آ گئی اس کا اچھے سے استقبال کیا گیا وہ بولیں نواب سلطان سے بھائی صاحب آج ایک بات تو بتا دیں کیا یہ شارق ایسا ہی ہے اب کی بار ڈیڈی نے کہا کیوں بھابھی بیگم کیا ہوا اب انہوںنے ساری بات ان کو بتا دی اور ساتھ ہی اپنے پرس سے ایک چیک نکالا اور میری طرف بڑھا کے کہا لڑکے ہم حسب نسب والی لوگ ہیں جو بات ایک دفع زبان سے کہہ دیں وہ پتھر پے لکیر ہو جاتی ہے یہ آپ کا ہے ہم نے آپ سے ایک بات طے کی تھی اب آپ یہ لیں تا کے ہم کو دلی سکون مل سکے اب کی بار ڈیڈی نے کہا بیٹا لے لو میں نے کہا تو پھر انٹی اتنی بڑی رقم کا نہیں وہ بولی یہ چودہ کروڑ کا ہے اور تم یہ ہی لو گے ورنہ ہم آپ سے ناراض ہو جایئں گئیں اب میں نے سب کی طرف دیکھا اور سب ہی اب کی بار حیران تھے یہ واقعی بہت بڑی رقم تھی لیکن آخر کار مجھے وہ چیک لینا ہی پڑا میں نے اب وہ والدہ صاحبہ کے قدموں میں رکھ دیا یہ دیکھکر عفت نے کہا جناب وکیل صاحب یہ کاغذ کا ٹکڑا بہت قیمتی ہے اور آپ نے اسے یوں پھینک دیا ہے میںنے کہا اس جیسے ہزاروں چیک بھی میری ماں کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں افی اب یہ سن کر بیگم جہاں آرا نے کہا آج ہم کو پتا چلا تمہاری ہر جگہ جیت کا واقعی تم ایک بیمثال لڑکے ھو پھر امی جان نے وہ شاہ جی کی طرف بڑھا دیا اور شاہ جی نے کہا ٹھیک ہے اب اس کو شارق اپنے اکاونٹ میں جمع کرا دو میں نے کہا نہیں ڈیڈی اس میں سے دس دس لاکھ سب بھابھیوں کو دے دیں اور باقی آپ خود اپنے اکاونٹ میں جمع کرا دیں اب کی بار میںنے کچھ سوچ کے کہا ڈیڈی میرے دل میں ایک بات آ رہی ہے میںنے کچھ دن پہلے سنا تھا
کے نواب شوکت نے اپنا شیش محل بیچ رہے ہیں وہ بولے ہاں یار ہم سے بھی بات کی تھی انہوں نے یہ ہماری رہائش سے کچھ ہی دور ایک بہت بڑی عمارت تھی کسی محل جیسی اور اس کا نام شیش محل تھا اب نواب کی اکلوتی بیٹی جو شادی کے بعد امریکا شفٹ ہو گئی تھی وہ بھی اپنی سب جائیداد بیچ کر وہاں جا رہے تھے سیٹل ہونے پھر میں نے کہا آپ ان سے قیمت پوچھیں اور اب کی بار نواب سلطان نے کہا وہ دس کروڑ مانگتا ہے میری بات ہوی تھی اس سے اب میں نے کہا سہی ہے پھر بیگم جہاں آرا کھانا کھا کر چلی گئی اب ڈیڈی کے کمرے میں سب ہی بیٹھے تھے میںنے کہا سلطان انکل آپ ذرا شوکت سے بات کریں اور اس کو فائنل کر دیں پھر انہوںنے بات کی وہ آخر کار آٹھ کروڑ میں سودا فائنل ہو گیا اب ہم سب اسی وقت اپنی گاڑیوں میں سارے ہی گھر والے وہ محل دیکھنے کو جانے لگے اور پھر اس شاندار اور وسیع و عریض محل کو سب نے ہی پسند کیا اب میںنے اسی وقت اپنی جیب سے ایک چیک نکالا اور نواب شوکت کے حوالے کر دیا اور کہا یہ آپ کل ہی کیش کرا لیں وہ بولا شارق صاحب آپ پے مجھے اندھا یقین ہے اور یوں وہ شیش محل اب میرا ہو گیا اب سب ہی واپس گھر آ گ
ۓ پھر رات کو دیر گۓ تک اسی محل کی باتیں تھیں بس پھر میں اپنے کمرے میں آ کر سو گیا اگلے دن پہلے ٹائم ہی نواب شوکت نے کال کی اور وہ ھمارے گھر آیا اس نے کہا آپ مجھ سے اپنی امانت لے لو یار میں آج رات کی ٹکٹ کرا چکا ہوں امریکا جانے کی پھر ڈیڈی نے وہ چیک میرے اکاونٹ میں ہی جمع کرایا اب نواب صاحب نے اپنی رقم وصول کی اور اسی دن وہ بیان بھی دے آئےعدالت میں اور اس وقت تو ڈیڈی اور نواب سلطان بھی چونک گۓ جب میں نے وہ محل لالارخ کے نام میں اوپن اتھارٹی لی نواب شوکت سے اس نے وہ جج صاحب کے سامنے ہی دے دی پھر ہم گھر آ گۓ اب جیسے ہی سب کو پتا چلا وہ محل لالارخ کے نام سے خریدا گیا ہے سب ہی مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے تھے اب امی جان نے کہا شاہ جی میرا بیٹا ہے ہی ہیرا میں ایسے ہی نہیں کہتی میرے بیٹے شارق جیسا کوئی نہیں ہو سکتا پھر بھابھی تنویر نے لالارخ کو کال کی وہ بھی گل کے ساتھ ہی آ گئی اور اب پری لوگ بھی آ گئیں صدف کے ساتھ عالیہ نہیں آئی تھی اب لالارخ نے کہا نے وہ محل میں ابھی دیکھنا چاہتی ہوں اور پھر سب نے ہی دوبارہ سے وہ دیکھا اب مجھے نواب شوکت نے چابیاں دیں اس کی اور وہ وہاں سے چلے گۓ اب سب ہی جیسے گم تھے اس میں وہ عمارت ایک فن تعمیر کا شاہکار تھی آج سب نے جی بھر کے دیکھا اسے پھر ڈیڈی نے وہاں پے ماجود نوکروں کو ہی بحال رکھا نوکری پے اور ہم اب اپنے گھر میں آ گۓ
اب کی بار بھابھی تنویر نے لالارخ سے کہا کیسا لگا شارق کا محل وہ بولی اچھا ہے شاندار ہے اب کی بار بھائی امجد نے کہا اور شارق نے وہ ایک لڑکی کے نام کرا دیا ہے اب کی بار سب ہی چونک گ
ۓ لالرخنے کہا کون ہے وہ ہوتی سوتی آپ کی جسے اتنا قیمتی محل شادی سے پہلے ہی دے دیا میںنے کہا ابھی نہیں دوں گا شادی کے بعد ہی دوں گا وہ اب بولی مجھے اس کا پتا تو بتاؤ ذرا اب سب ہی اس کی اور میری یہ لڑائی دیکھ کر خوش ہو رہے تھے آج ڈیڈی کی نظروں میں میرے لئے ایک عجیب سا فخر تھا اب میںنے کہا وہ ہے میری پیاری سی بہن یہ لڑاکو بلی اب وہ چونک گئی اور کہا میں نہیں مانتی میںنے کہا سب سے پوچھ لو پھر ڈیڈی نے کہا ہاں بیٹے یہ آپ کو شادی پے گفٹ ہو گا وہ اب میری طرف دیکھتی ہوئی میری طرف آئی اور کہا بھائی کیا ضرورت تھی اتنی بڑی رقم فضول میں خرچ کی میںنے شدت پیار سے اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا میری بہن تم میں میری جان ہے میں نے یہ صرف تمہارے لئے ہی سوچ کے خریدا ہے وہ اب رونے لگی اور کہا بھائی آپ بہت پیارے بھائی ہیں پھر سب ہی اب آپس میں ہنسی مذاق کرنے لگے اب کی بار مجھے نظروں ہی نظروں میں صدف پری اور گل چوم رہی تھیں پھر میں نے کہامیں نے ذرا آج ایک دوست سے ملنا ہے اور یہ کہہ کر میں باہر چلا آیا اپنی گاڑی میں مجھے دس منٹ بعد گل کی کال آئی وہ بولی کہاں ہیں جناب ہم آپ کے لئے آئے اور آپ دامن چھڑا کے چلے گے ہیں میںنے کہا تم ایسا کرو باہر آ جاؤ کسی بہانے سے اور وہ پھر ایک گھنٹے میں میرے پاس تھی میرے فلیٹ میں اب اس کو میں لیکر بیڈ روم میں آیا اور اسے بیڈ پے بیٹھا لیا اپنے ساتھ اب وہ میری طرف پیار سے دیکھتے ہوے بولی مس یو جان اب اس نے مجھے اپنی بانہوں میں لیا اور مجھے دیوانہ وار چومنے لگی میں بھی اب گل کے کی کمر پے ہاتھ پھیر رہا تھا پھر گل نے مجھے کہا شارق بہت یاد آتے ھو اور میرے ہونٹوں کو چومنے لگی وہ میرا نچلا ہونٹ اپنے ہونٹوںمیں پکڑ کے چوسی جا رہی تھی میں بھی اب اس کا ساتھ دینے لگا کوئی دس منٹ ایسے ہی ہم ایک دوسرے کو فرنچ کس کرتے رہے اب کی بار اس کی سانسیں تیز ہو گئیں تھیں وہ اب بولی شارق کیا جادو کر دیا ہے مجھ پے آپ نے میںنے اب اس کی چھاتی کو اپنے ہاتھوںمیں لیا اوردبانے لگا وہ ایک زور کی سسکی بھر کے بولی شارق میری جان آج مجھے اتنا پیار دو جس کے سہارے میں کچھ دن گزر سکوں اب میںنے اسے کہا جان تم ہو ہی اتنی پیاری کے میرا بھی دل نہیں بھرتا تم سے پیار کر کر کے اب گل نے میرے اوپر لیٹ کر اپنی چھاتی میرے سینے سے رگڑنے لگی اور اپنی چوٹ کو بار بار میرے لن پے کولہے ہلا ہلا کر رگڑتی اس نے اب اپنی زبان باہر نکالی اور میرے منھ میں ڈالی میں اسے چوسنے لگا اس نے ایک دم سے زبان باہر کی منہ سے اور دوبارہ دل دی اب وہ بار بار اپنی زبان نکالتی اور دوبارہ اندر ڈال دیتی میرے منہ میں مجھے اب بہت مزہ آ رہا تھا اس زبان کی زبان سے لڑائی میں پھر میں نے اس کی کمر کو مساج کرنے لگا اپنے ہاتھوں سے مساج کرتے کرتے اس کے کولہوں پے گیا اور وہاں بھی مساج کرنے لگا پھر میں نے اپنے ہاتھ گل کی شلوار میں ڈالے اور اس کے کلہوں پے مساج کرنے لگا اب وہاں سے میںنے اپنے ہاتھ اوپر کی طرف لایا اور گل کی کمیض میں ہاتھ ڈال کے اس کی ننگی کمر کو سہلانے لگا وہ میرے ہاتھ کے لمس سے فل گرم ہو گئی تھی میں نے اب اسکی کمر کو کمساج کرتے کرتے ہی اس کی برا کا ہک کھول دیا اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ باہر نکالا اور اس کی زپ کو کھول کے اس کی کمیض برا سمیت ہی اتار دی اب اس کی چھتیس سائز کی چھاتی میرے سامنے تھی میں نے انکو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کے دبانے لگا وہ اب کافی مچل رہی تھی اب میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور اس کو ایک دم سے کروٹ بدل کے اپنے نیچے کر دیا اب وہ کھلکھلا کے ہنس دی اور کہا شارق کیا ہے یار میں نے اس کے ہونٹوں کو چوم کے کہا یہ ہے یار اور پھر دوبارہ سے گل کے ہونٹوں سے شبنم چورانے لگا اب کی بار میں نے بہت دیر تک اسے یوں ہی چوسا اب میری زبان نے اس کی گالوں کو چاٹا اور وہاں سے اس کی دائیں کان کی لو تک آیا اب میری زبان اس کے کان میں گھوم رہی تھی اور گل اب مزے سے سسک رہی تھی شارق میرے یارمیں نے اب اپنا ہاتھ اس کی چھٹی پے رکھا اور ان کو مسلنے لگا میری زبان اب گل کی گردن تک آ گئی تھی پھر میںنے اس کا ایک طرف کا مما اپنے منہ میں بھرا اور اسے چوسنے لگا وہ جیسے لذت سے تڑپ سی گئی شارق اف ان کو ایسے چوسو میرے راجہ میں اب بہت نرمی سے اس کا مما چوس رہا تھا میری زبان اس کی نپل کے گرد گھومتی اور کبھی میں اس کی گلابی نپل کو اپنے ہونٹوں میں بھر کے ہلکا سا کاٹ لیتا وہ سی ہائے کر اٹھتی شارق اب اس کی آواز جذبات سے جیسے بوجھل سی ہو گئی تھی میں نے اب اس کے ممے کو اپنے منہ میں دوبارہ سے لیا اور ایسے چوسنے لگا جیسے کوئی مینگو چوستا ہے میری زبان کے کھردرے لمس نے اس کے اندر آگ جلا دی تھی وہ اب اپنا سر پٹخ رہی تھی بیڈ کے تکیے پے میں نے اب اس کا وہ مما چھوڑا اور دوسری طرف والا منہ میں ڈالا اسے بھی یوں ہی چوسا کبھی کاٹ لیتا ساتھ میں اب اس کی سسکاریوں کی آواز بڑھتی جا رہی تھی شارق میرا انگ انگ جل رہا ہے کچھ کرو اب جان آہ آہ اوہ او میری جان کچھ کرو میں مر جاؤں گی ایسے جلن سے میں نے اب اپنی زبان اس کے معمے کے چاروں طرف گھمانی شروع کر دی اس کی سسکیاں اب بھر گئی تھیں شارق آہ آہ اوہ او اف سسسس ہائے ظالم میں مری اب اس نے اپنا سر دائیں باہیں زور زور سے پٹخنا شروع کر دیا تھا میںنے اب اپنی زبان کو پھیرتا ہوا نیچے اس کے سڈول پیٹ پے آیا اور اس کی ناف میں میں زبان ڈالی اور وہاں سے اسے چومنے لگا گل کا پیٹ اب لرز رہا تھا اب اس کی آہیں بہت بڑھ گیں تھیں مجھے بھی اس کی یہ سریلی آواز میں آییں بہت مزہ دیں رہی تھیں آہ آہ اوہ او شارق مت تڑپاؤ یار اب میرا کچھ کر لواب جیسے ہی میں نے اپنی زبان نیچے اس کی چوت پے لایا اور پھر میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی ٹانگوں کے درمیاں بیٹھ کر اس کی چوت کے لب کھولے اور میری زبان نے اس کی چوت میں سفر شروع کیا وہ ایک دم سے چیخی اور تڑپنے لگی اوئی سسسسسس مر گئی ہائے ہائے شارق میری جان گئی میں نے اب اپنی زبان کو لمبے رخ سے اس کی چوت کو نیچے سے اوپر تک چاٹنا شروع کیا اب وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی میری زبان جیسے ہی اوپر جا کر اس کی چوت کے دانے کو چھوتی وہ ایک مزے کی سسکی کے ساتھ تڑپ سی جاتی آہ آہ اوہ اوشارق میرے راجہ اب اس نے اپنے ہاتھوں سے میرا سر اپنی چوت میں دبا دیا اور میں نے اب اس کی چوت کو تیزی سے چاٹنا شروع کر دیا اور وہ بیتابی سے مزے کی لذت برداشت نہ کر سکی اس کا جسم ایک جھٹکے سے تڑپ اور اس کی چوت پانی پانی ہو گئی جیسے وہ میری زبان سے شکست کھا کر شرم سے پانی نکال رہی ھو اب میں نے اس کی چوت کو ٹشو سے صاف کیا
اب کی بار میں نے اس کی طرف دیکھا وہ اب بہت لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اس کے چہرے پے ایک عجیب سا سکون تھا اس نے ایک دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا اور کہا میرے راجہ مجھے اب سانس تو لینے دو اور میرے ہونٹ چوم کے بولی جانو اب میں آپ کے اوپر آتی ہیں اس نے پھر میرے کپڑے اتارنے کے بعد مجھے نیچے لٹا کر میرے اوپر بیٹھ گئی شارق میرے یار اب اس نے مجھے چومنا شروع کر دیا وہ میری آنکھوں سے لے کر میرے ہونٹوں تک بار بار چومتی جا رہی تھی پھر اس نے میرے طرف دیکھا اور کہا بہت گھومتی ہے اپ کی زبان میرے کانوں میں اور یہ کہ کر اس نے میرے ایک کان کے گرد اپنی زبان گھمانی شروع کر دی میں تو مزے سے تڑپ اٹھا اب اس نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کی طرف لے جانا شروع کیا وہ میرے کان کو چوستے اور چاٹنے لگی ہلکے سے اس کا ہاتھ میرے لن کی طرف گیا اسے اپنے ہاتھ میں لے کر وہ مسلنے لگی اور ساتھ ہی اس نے اپنی زبان اب میرے کان میں پھیرنی شروع کر دی اب وہ میرے کان سے نیچے ای میری گردن کو جی بھر کے چوما اس نے پھر وہ میری چھاتی پے آئی میرے نپل کو چوسنے لگی مزے سےپھر اس نے نیچے انا شروع کیا اور آخر کار اس نے میرا لن اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگی ساتھ میں وہ میرے بالوں سے بھرے سینے میں میں اپنے ہاتھ سے مساج کر رہی تھی اس نےکوئی تین منٹ میرا لن چوسا پھر اسے اپنی چوت پے فٹ کیا اور ایک جھٹکے سے اندر لے کر سسک اٹھیوہ اف ف ف ی اآہ آہ آہ آہ آہ او جانو اب وو میرے لن کے اوپر بیٹھ کر اوپر نیچے ہو رہی تھی ساتھ میں اب اس نے اپنے بالوں کو ایک جھٹکا دے کا کھولا اب اس کے لمبے بال اس کی کمر پے بکھر گ
ۓ وہ مزے سے سسکی جا رہی تھی میں نے اب اپنے ہاتھوں میں اس کے ممے پکڑے اور ان کو دبانے لگا اب گل نے اف ف ف ف ف م م م م م م کی آواز نکالی اور ساتھ ہی مزے سے وہ مچل کے بولی اف شارق کیا مزہ آ رہا ہے جانو اب اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے شروع کر دیا تھا وہ کچھ دیر ایسے ہی اوپر نیچے ہوتی رہی پھر اس نے اپنے ہاتھ میرے سینے پے رکھے اور اپنی گانڈ کو اٹھا اٹھا کے اوپر نیچے کرنے لگی ساتھ میں وہ مسلسل مزے سے سسک رہی تھی اب اس نے ایک ادا سے اپنے بال جھٹک کے ایک طرف کئے اور میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی شارق میری جان مجھے ایسی ایسی مزے کی وادیوں کی سیر کرتا ہیں آپ کا لن میں بتا نہیں سکتی جانو میرے گھر والی میری شادی کرنا چاہا رہے ہیں میں کیسے بھلا پاؤں گی آپ کے لن کا یہ مزہ اور ساتھ ہی اس نے میرے اپر جھک کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے لگا دیا اب وہ بھی اپنی زبان باہر نکال کے میرے ہونٹ چاٹ رہی تھی میں نے بھی اپنی زبان باہر نکالی اور پھر اس کو نیچے سے زور زور سے لن کو اندر کرنے لگا یوں اس کی زبان میری زبان سے کبھی ٹچ ہوتی اور کبھی اوپر ہو جاتی وہ مزے سے سسک کے بولی شارق مر جاؤں گئیں اتنا مزہ اف ف ف ف ف م م م م م م میرے یار کمال کا پیار کرتے ھو میں تو بہت مس کرتی ہوں اپنے دل دار کو میں نے اب گل کو پکڑ کے اپنے نیچے اور اس کی چوٹ میں لن ڈالا اس نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لیپٹ لیں اور میرا ساتھ دینے لگی نیچے سے اپنی گانڈ کو ہلا ہلا کے میں اب زور زور سے لن کو اندر باہر کر رہا تھا ساتھ میں اپنے کولہے بھی ہلا رہا تھا اب وہ مزے سے تڑپ اٹھیآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اشارق میری جان ایسےہی چودو اپنی گل کو میں مر گئی اففف میں اور زور زور سے دھکے مرنے لگا اور وہ مزے سے سسکیاں بھرنے لگی میں نے کوئی پانچ منٹ اسی طرح اسے چودہ پھر میںنے اس کی دونوں ٹانگیں اٹھا لیں اپنے ہاتھوں میں اور زور سے لن کو اندر باہر کرنے لگا گل کی چوٹ میںآہ آہ آہ آہ آہ اوہ ااف ف ف ف سیییسس شارق میں مر گئی میںنے اب کی بار لن کو اور زور سے اندر کر کے اپنے کولہے کو ہلایا اب کی بار وو تو جیسے مچل اٹھی اور اس کی چوٹ نے میرے لن کی اس بےرحمی کو دیکھا کے اپنی شکت مان لی اور گل کی چوت اب آنسو بہانے لگیمیںنے بنا رکے اپنے دھکے جاری رکھے وہ اور شدت سے چیخ کے سسکنے لگی شارق مر گئی جانو اب کی بار میں نے گل کو الٹا کیا اور اس کی چوت میں لن ڈالا اور تیز رفتاری سے اسے کھودنے لگا وہ اب مزے کی شدت سے اپنی آنکھیں بند کر کے چلانے لگی یاہائے ہائے ہائے شارق بہت درد ہے جانو اب مجھے کافی دیر ہو گئی تھی اب اسے چودتے ہوے اس کی چوت کا دن میرے لن کی مسلسل رگڑ سے اب جیسے دب سا گیا تھا وہ اب مزے کے ساتھ درد سے بھی چیختی جا رہی تھی یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے شارق اف ف ف مر گئی میں میں نے کوئی دس منٹ اس کی چوت کو زور دار طریقے سے چودنا جاری رکھا اور پھر ایک ہی جھٹکے سے لن نکال کے گل کی گانڈ میں ڈالا وہ درد سے تڑپ اٹھی یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے آرام سے جانو میں نے اب کی بار کچھ دیر ہلکے دھکے مارے جب اس کا درد کم ہوا تو دوبارہ سے تیز رفتاری سے دھکے مارنے لگا وہ اب مزے سے سسک رہی تھی دوبارہ میں نے کوئی پانچ منٹ تک گل کی گانڈ چودی اور اب ایک بار پھر لن اس کی چوت میں ڈالا زور سے دھکے مرنے لگا وہ اب کی بار تو درد سے تڑپ کے زور سے چیخی یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی شارق آھستہ کرو اب جان بہت درد ہے میں بنا رکے اسے ویسے ہی چودتا رہا اور وہ درد بھری لذت سے چیختی رہی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اووہ اف ف ف ی اہ شارق مرجان بہت درد ہے اب برداشت نہیں ہو رہا میں نے کہا میں بس آنے ہی والا ہوں اور گل اب اپنے ہونٹ بھنچ کے درد برداشت کرنے لگی پھر کوئی دو منٹ بعد میں بھی اس کی چوت میں فارغ ہوا وہ ایک بار پھر سے خود بھی جھڑ گئی تھی اب ہم دونوں اکٹھے ہی فارغ ہو رہے تھے اب میں نے اسے اور اس نے مجھے زور سے اپنے بازوؤں میں جھکڑ لیا اور وہ مجھے چومی جا رہی تھی اب کی بار
میں نے کہا گل آپ بہت کمال کا پیار کرتی ھو وہ بولی جانو آپ جیسا نہیں کر سکتی آپ تو جیسے مزے میں پاگل کر دیتے ہیں پھر ہم کوئی دس منٹ ایسے ہی لیٹے رہے اور بعد میں ہم نے واش روم میں جا کر غسل کیا اور باہر آ گ
ۓ اپنے کپڑے پہنے اورفلیٹ سے باہر نکل آئے پھر میں نے گل کے ساتھ ایک ریسٹورینٹ میں لنچ کیا اور پھر اسے اس کے گھر کے پاس ڈراپ کیا کیوں کے وہ آشیانے میں بتا کے آئی تھی اپنے گھر جا رہی ہے میں اب گھر چلا آیا اپنے ہم کو لان میں ہی سبھی مل گۓ صدف نے میری طرف تیکھی نظر سے دیکھا اور کہا یہ جناب آج کال کن ہواون میں اڑ رہے ہیں میں نے کہا محترمہ آپ کے آس پاس ہی ہیں وہ اب جلدی سے اپنے دائیں بائیں دیکھ کے بولی دیکھنا ذرا پری یہ شارق کہاں ہے میں اس آفت کی پرکالہ کی اس حرکت پے ہنس دیا میںنے کہا تم سناؤ کیا ہو رہا ہے وہ بولی کچھ نہیں جی آپ کی یاد میں آہیں بھرتے رهتے ہیں ایک آپ ہیں حال تک نہیں پوچھتے میں نے کہا جی کیا حال ہے آپ کا وہ بولی بہت بیچینی کا عالم ہے رات رات بھر نیند نہیں آتی آج کال رات کو رات کو ستاروں کی گنتی کرتے رہتے ہیں اب وہ پر کی طرف دیکھ کے ایک شوخ نظر سے میری طرف دیکھ کے بولی ہم آج کال آپ کے ذکر پے اتنی ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں کے کمرے میں سے ائر کنڈیشن کی ساری کولنگ ایک ہی سانس میں اندر لے جاتے ہیں اب کی بار پری نے کہا صدف کی بچی مار ڈالوں گی جھوٹ مت بولا کرو اور یہ آنکھوں ہی آنکھوں میں میری طرف کیا اشارے کر رہی ھو میں ہنس دیا پر بولی شارق یہ بہت میسنی ہے اس کی باتوں میں نہ آنا
اب ہم لوگ ایسےہی ہنس رہے تھے کے کرنل عثمان کی جیپ اندر داخل ہوئی گھر کے وہ سیدھا میری طرف ہی آیا اور ہم سب کو سلام کیا پھر بولا یار آپ کا موبائل بھی آف ہے میں نے آپ کے آفس سے پتا کیا وہاں بھی نہیں کورٹ گیا وہاں بھی نہیں گھر آیا تھا یہاں بھی پتا چلا نہیں ھو اب دوبارہ سے یہاں سے گزر رہا تھا سوچا پتہ کرتا چلوں تو جناب کی گاڑی نظر آ گئی کہاں تھے آپ میں نے کہا سوری بھائی میں ایک دوست کے ساتھ کچھ سید پے گیا تھا وہاں پے کچھ سروس کا مسلہ ہو گا موبائل کے سگنل کا وہ بولا چلو یار اب کچھ بات کرنی ہے تم سے پھر میں اور وہ وہاں سےاٹھے اور اندر ڈرائنگ روم میں آ گ
ۓ وہ بولا شارق آپ کو پتا تو ہو گا ہی لالارخ بہن کے لئے حسن کے پرپوزل کا آپ سے میں یہی بات کرنا چاہتا ہوں وہ لڑکا بہت اچھا ہے اور اس کی طرف سے کبھی آپ کو کوئی شکایت نہیں ملے گئی میں نےکہا ٹھیک ہے بھائی آپ کہتے ہیں تو میری بھی ہاں ہی ہاں ہے میں نے جان بوجھ کے اسے نہیں بتایا تھا کے مجھے سب پتا ہے اور میں پہلے ہی ہاں کر چکا ہوں وہ خوش ہو گیا اس نے کہا اچھا اب آتے ہیں اپنے کیس کی طرف داور کمال کو دو دیں بعد جیل بھیج دیا جاۓ گا اور عدالت سے اسے ہر حال میں سزا ملنی چاہئیے میں نے کہا ملے گئی بھائی یہ میرا ذمہ رہا وہ بولا یار اصل میں یہ کیس خصوصی عدالت میں چلے گا جہاں ایک جسٹس سپریم کورٹ ہوں گۓ اور ایک آرمی کے جرنل کیوں کے یہ خصوصی نوعیت کا کیس بن گیا ہے اب میں نے کہا تو مسلہ کیاہے وہ بولا یار ہو سکتا ہے وہاں آپ کو اجازت نہ ملے کیس لڑنے کی لیکن مجھے پتا چلا ہے داور کمال اور اس کے ساتھیوں کا کیس لڑنے کا فیصلہ صدر سپریم کورٹ بار نے کیا ہے بیرسٹر آغا کمال نے میں بھی یہ سن کے چونک گیا
کیوں کے آغا کمال کا نام بہت بڑا تھا وکیلوں کی لسٹ میں وہ سیشن کورٹ سے لے کر آج تک اسے پریکٹس کرتے کوئی تیس سال ہو گ
ۓ تھے وہ کسی جگہ کوئی کیسا نہیں ہارا تھا اس کے ساتھ ایک فوج تھی وکیلوں کی اب وہ ویسے بھی اس دفع سپریم بار کا صدر تھا میں نےکہا دیکھ لیں گۓ اسے بھی اب کی بار کرنل عثمان نے کہا یار تم عجیب آدمی ھو کوئی پریشانی کیسی بھی کیوں نہ ہو تم اسے اہمیت ہی نہیں دیتے میں نے مسکرا کے کہا ایسا ہی ہوں میں اور پھر ہم باہر آ گۓ اب ڈیڈی لوگوں سے مل کے وہ باتیں کرنے لگا اب اس نے ایک مشورہ دیا جو ڈیڈی نے ماں لیا پھر اسی رات کپتان حسن کی فیملی ھمارے ہاں کھانے پے انوائٹ کی گئی اور ہم سب ان سے مل کر خوش حسن کی والدہ کچھ بیمار تھیں وہ بولیں میری خوائش ہے شادی اسی ہفتہ میں کی جاۓ یہ سن کے ہم سب چونک سے گۓ ڈیڈی نے کہا بھابھی اتنی جلدی اب کی بار حسن کے پاپا مخدوم مزمل نے کہا اصل میں شاہ جی میری بیوی کو برین کینسر ہے ہم ان کو علاج کے لئے امریکا لے جا رہے ہیں آپ میری بات کو سمجھیں وقت کا کوئی پتا نہیں ہے اب کی بار چیف جسٹس ہائی کورٹ جو حسن کے تایا تھے وہ بولے ہاں شاہ جی پلیز بھابھی صاحبہ کی یہ خوائش ہے اب ڈیڈی ہم سب کی طرف دیکھنے لگے میں نے کہا ڈیڈی اپ ہاں کر دین دو مہینے بعد بھی کرنی ہے ایک ہفتے میں ہی سہی اب والدہ صاحبہ نے کہا شاہ جی اب شارق کہہ رہا ہے تو میری طرف سے بھی ہاں ہی ہے پھر ڈیڈی نے مسکرا کے کہا آپ تو اپنے بیٹے کی ہاں میں ہی ہاں ملائیں گیں بیگم
اب ڈیڈی نے بھی ہاں کر دی حسن لوگوں کی فیملی کوئی دو تین گھنٹے بعد ہی چلے گ
ۓ اب ہم سب ڈیڈی کے روم میں ہی بیٹھ کر اپس میں صلاح و مشورے کرنے لگے اب ڈیڈی نے سب کی ڈیوٹی لگا دی کل سے ہی بازار کی شاپنگ شروع کرو دن کم ہیں ارجنٹ ہر چیز تیار کی جاۓ اب میں نے لالارخ سے کہا بہنا آپ کی اپنی کوئی خوائش ہے تو برا دو وہ بولی نہیں بھائی وہ ایک دم سے جیسے بڑی بڑی سی نظر آنے لگی میں نے کہا رخی کیا بات ہے وہ اب کی بار میری طرف دیکھ کر رو دی اور کہا بھائی آپ لوگ مجھے اتنی جلدی کیوں اس گھر سے نکالنا چاہتے ہیں اب میں نے کہا نہیں میری بہن یہ فرض ہے ہم پے اور پگلی آپ تھوڑا کہیں دور جا رہی ھو ایک ہی شہر ہے اب اسے میں نے کہا آپ کل سے کیا ابھی سے ہر چیزکی اپنی مرضی کی لسٹ بنا لو وہ بولی اب کی بار بھائی دیکھ لینا میں بہت مہنگی لسٹ بنواؤں گیں میں نےکہا بنا لو پھر وہ سب لڑکیاں مل کر لسٹ تیار کرنے لگیں اب صدف لکھتی جا رہی تھی اب کی بار بھابھی تنویر نے اب دیکھنا لالارخ کی مرضی کی لسٹ اور ہم سب ہنس دے اب سب ہی شادی کی تیاری کی بات ہی کر رہے تھے پھر سب نے یہی طے کیا برات شیش محل میں آنی چاہیے اور وہ فائنل ہو گیا اب سامان کا سوچا گیا میں نے اسی وقت کہا آپ لوگ کوئی فکر نہ کریں ڈیڈی ہر قسم کا سامان ہو گا وہاں پے پھر میں نے اسی وقت ظفری کو کال کیا اور اسے کہا وہ ابھی مجھ سے آ کر ملے وہ بولا جی باس میں آیا باس بیس منٹ میں اب اتنے میں ایک لمبی چوری لسٹ بن کے آ گئی اب اسے ڈیڈی نے دیکھا اور دیکھتے ہی بولے یہ آپ سب کی شادی کا سامان ہے نہ لڑکیوں اب کی بار صدف نے کہا جی نہیں انکل یہ بس لالارخ کے لئے ہے اب وہ نواب سلطان نے بھی دیکھی اور کہا توبہ ہے اتنا سامان آج تک نہیں سنا کسی بھی لڑکی کا بنا ہو اب میں نے کہا امی جان آپ بھی دیکھ لو وہ بھی بولیں لڑکی دماغ خراب ہے تیرا اتنا سارا سامان اب کی بار لالارخ کا منہ بن گیا


اب میں نے کہا امی جان ہماری ایک ہی بہن ہے توپلیز اسے اپنی مرضی سے اپنی شادی کی شاپنگ کرنے دیں امی جان نے ہنس کے کہا بیٹا جیسے آپ کی مرضی لیکن یہ فضول خرچی ہو گی میں نے کہا امی جان ہم نے کبھی کسی کی دل شکنی نہیں کی ہمیشہ سب کا خیال رکھا ہے اور ہم کوئی گھمنڈی بھی نہیں ہیں بس یہ میری بہن کا دل کیا ہے ایسی شاپنگ پے تو کوئی فضول خرچی نہیں ہے ہم کوئی کسی سے قرض نہیں لے رہے جو بعد میں مسلہ بنے اب کی بار لالارخ کے علاوہ باقی سب بھی مجھے ہی دیکھی جا رہے تھے صدف نے کہا شارق آپ کتنا لڑتے تھے ہر وقت میں سمجھی آپ اور لالارخ کا سلوک نہیں ہے لیکن آج یہ سب دیکھ کر میں کہہ سکتی ہوں کاش سب کا آپ جیسا ہی بھائی ھو اب کی بار لالارخ نے کہا ایسے ہی ہو سب کا بھائی شارق بس میرے بھائی ہیں اور سب اس کی اس معصومیت پے ہنس دئیے پھر میں اپنے کمرے میں آیا چار کروڑ کا چیک کاٹا اور وہ لا کر ڈیڈی کو دیا اور کہا میری بہن کی مرضی کی ہر چیز ہو گئی اب بھائی امجد اور طارق نے بھی کہا ہم بھی ابھی چیک لے کر آئے میں نےکہا بھائی جان میں اور آپ کوئی دو نہیں ہیں یہ ہم سب کی طرف سے ہے اب امی جان نے کہا مجھے خوشی ہے آپ کا یہ سلوک دیکھ کر بیٹا ہمیشہ ایسے ہی ایک مٹھی بن کے رہنا اسی میں اپ سب کی جیت ہےپھر سب نے یہ فیصلہ کیا برات شیش محل میں آئے گی یہ بھی لالارخ کی ضد کی وجہ سے وہ وہاں برات منگوانا چاہا رہی تھی میں نے اب کہا ڈیڈی آپ باقی کا سامان خرید لیں فرنیچر میں خود منگوا لوں گا میںنے پھر اسی وقت ظفری کو کال کیا اور کہا کال سے آپ شیش محل میں ہر قسم کی سکیورٹی کا بندوبست کرو اور ساتھ میں کہا یار وہ ایک دفع آپ نے بتایا تھا ساگوان کی لکڑی کے بارے میں کسی دوست کے پاس اس کا ٹھیکہ ہے وہ بولا جی باس میرے بہنوئی ہیں وہ میںنے کہا تو ٹھیک ہے لالارخ کی شادی تے کی ہے اگلے سنڈے کو ہے اس کے لئے تیار فرنیچر مل جے گا کیا وہ بولا باس آپ کوئی فکر نہ کرو اب میں جانو اور فرنیچر جانے تین دن میں ہر قسم کا فرنیچر شیش محل میں ہو گااب میں نے کال بند کی تو بھی امجد نے کہا یار وہ بہت زیادہ مہنگا بھی ہو گا اور اس کی کیئر بھی کافی کرنا پڑے گی وہ کھچ مذاق بھرے لہجے میں بولے تھے اب کی بار لالارخ جو یہ سن کے بہت خوش تھی بولی اف بھائی جان اب کیا حسن کے گھر والےاتنے ہی غریب ہے کے وہ میرے فرنیچر کے لئے کوئی ملازم بھی نہ رکھ سکیں اب اسی طرح سب ہی اسے تنگ کرنے لگے وہ بھی اب سب سے ہی پوری آ رہی تھی پھر سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں چلے گے میں نے صدف کو آنکھ سے آنے کا اشارہ کیا تھاوہ کوئی دو گھنٹے بعد آ گئی اور آتے ہی کہا شارق میرے سپنوں کے راجہ کیوں آج کال اتنا تڑپا رہے ھو وہ میرے ساتھ ہی میرے بیڈ پے لیٹ گئی اس نے اب میرے بازو پے اپنا سر رکھا اور کہنے لگی شارق یار یہ دل اتنا تم کو یاد کیوں کرتا ہے میں نے شرارت سے کہا میں اس دل سے ہی پوچھ لیتا ہوں اب میں نے اس کی چھاتی پے اپنے ہونٹ رکھے اور کہا دل جی کیوں میری معصوم سی بھولی بھالی سی دوست کو تنگ کرتے ھو وہ اب کی بار ہنسنے لگی اور کہا دل کہہ رہا ہے آپ کا پیار ہے میرے اندر اس لئے اسے تنگ کرتا ہوں آپ اسے روز ملا کرو پھر تنگ نہیں کروں گا میں نے کہا ایسی کی تیسی اس دل کی اور اسے کی طرف کروٹ لے کر اس کی چھاتی کو کپڑوں کے اوپر سے ہی کس کی وہ بولی ہائے شارق اب دل شرما رہا ہے اور ساتھ ہی جھوٹا شرمانے لگی وہ لڑکی تو جیسے لفظوں کی بنی تھی اب میںنے اس کے ہونٹوں کے پاس اپنے ہونٹ لے گیا اور کہا صدف آپ بہت تیز ہیں اب وہ اپنے لہجے میں خماری بھر کے بولی شارق میرے یہ لرزتے ہونٹ کیا مانگتے ہیں میں نے اب اس کے ہونٹوں پے اپنے ہونٹ رکھے اور کہا ان ہونٹوں سے اپنی پیاس بجھانا چاہتے ہیں وہ اب میرے ہونٹوں کو اپنے منہ میں بھر کے چومنے لگی اور میں بھی اسے چومنے لگا اس نے میری گردن کو پکڑا اور دیوانہ وار میرے ہونٹ چوسنے لگی کوئی پانچ منٹ تک ہم نے ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوسا اب وہ اپنے ہونٹ جدا کر کے بولی شارق آپ کو پتا ہے میرا یہ من آپ کے لئے بہت بے چین رہتا ہے ایک وعدہ کرو گے میں نے کہا کیا وہ بولی آپ مجھے میری شادی کے بعد بھی ایسے ہی ملو گے نہ میں ہمیشہ آپ کی دوست بن کے رہنا چاہتی ہوں میں نے کہا ضرور ملو گا اتنی پیاری اور تیز طرار مجھے اور کہان ملے گئی دوستاب میرے ہاتھ اس کے مخملی بدن کو ناپ رہیے تھے میںنے اب اس کی طرف دیکھا اور کہا صدف یار بہت کمال کا جسم ہے آپ کا وہ بولی شارق آج ایک کام کریں آپ میرا ریپ کرو میرے کپڑے پھاڑ کر میںنے ہنس کے کہا ٹھیک ہے وہ بولی اور مجھے کل اس سے قیمتی سوٹ بھی تم ہی لے کر دو گے کتنے بے شرم ہو یار ایک معصوم سی لڑکی کا ریپ کرو گے اب میںنے اب اس کے کندھے پے ہاتھ رکھا اور اس کا اپنی طرف والے بازو سے سے کمیض پھاڑ دی اب میں اس کے بازو کو چوم رہا تھا وہ بولی بس کپڑے ہی پھاڑنا یہ ریپ نہ کرنا ظالم کہیں مجھی مار ہی نہ دینا میں نے اب کے بازو پے کندھے سے لے کر ہاتھ تک اپنی زبان پھیری اور اس کے ہاتھ کی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال کر چوسنے لگا اب وہ مزے سے سسک اٹھی اور کہا شارق تمہاری زبان کا لمس جسم میںجیسے کوئی آگ لگا دیتا ہے میں نے اب اس کے بازو سے زبان پھیرا ہوا اس کے کانوں تک آیا اب اسے ایک دم سے الٹا کیا اور اس کی قمیض پھاڑ دی اب اس کی مخملی کمر میرے سامنے تھی اور اس کے سفید بدن پے وہ کالی برا بہت اچھی لگ رہی تھی میںنے اب اس کی گردن سے بال ہٹا کے اپنی زبان رکھی دی اور اسے چاٹنے لگا وہ ایک دم سے سسکی بھر کے بولی آہ شارقآہ آہ آہ آہ اوہ اوہ میری جان میں نے اب کی بار اپنی زبان سے اس کی گردن کو چاٹنا جاری کیا اور صدف نے مزے سے سسکنا شروع کیا اس کی آواز میں سسکیاں مجھے بہت مزہ دے رہی تھیں میں نے اب گردن سے نیچے کمر کی طرف آنا شروع کیا زبان پھیرتے ہوے اور جیسے ہی میں نے اس کی برا کے اوپر سے ہی چاٹتا ہوا نیچے آیا اب میری زبان نے جیسے صدف کے جسم میں ایک عجیب سی مستی بھر دی تھی میں نے گولائی میں اب اس کی کمر کو چاٹنے لگا پھر میں نے ایک ہاتھ اس کی برا میں ڈالا اور اس کے ہک کو ایک زور کا جھٹکا دے کر توڑ دیا صدف کی چھاتی کو کھینچ لگی وہ ایک بار سسکی لے کر بولی اوئی ماں میں نے اب اس کی برا والی جگہ کو چاٹنا شروع کیا اور چاٹتے ہوئے اس کی مموں کی طرف آیا اور اس کی چھاتی نیچے دبے ہونے کی وجہ سے کچھ سائیڈ پے ہو گئی تھی میںنے پیچھے سے ہی اسے بھی ساتھ میں چاٹا اب میں نیچے آنے لگا اب شلوار کی طرف آ کر میں نے اس کی شلوار کی لاسٹک کو طور دیا اور اسے ایک دم سے اس کی ٹانگیں اٹھا کر اوتار کے پھینک دیا اب وہ سری میرے سامنے ننگی ہو گئی تھی اور الٹی لیٹی تھی اب اس کی بھاری گاند میرے سامنے تھی میں پہلے تو ایک مستی میں اس کی گانڈ پے ہاتھ پھیر کے مساج کرنے لگا پھر میںنے اب اس کے کولہے چومنے لگا اور ساتھ میں وہاں سے کاٹنے بھی لگا تھا اب کی بار اس کے کولہے کا نرم گوشت میرے دانتوں میں جیسے ایک دفع مثلا سا جاتا اب اس کی گانڈ پے میرے دانتوں کے نشان پڑھ گے تھے اب اس کی چیخیں جیسے پورے کمرے میں گونج رہی تھیں صدف نے مزے سے تڑپ کے کہا شارق میں مر گی ظالم آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اتنا ظلم میری چھوٹی سی جان پے میں نے اب اس کی رانوں کو چاٹنا شروع کیا اور ساتھ ساتھ وہاں بھی اسے ہلکے ہلکے سے کاٹنے لگا وہ اب مسلسل درد بھری لذت سے چلا رہی تھی میں نے اس کی پنڈلیوں تک اسے چوما اور کاٹا اب وہ آنکھیں بند کئے سسک رہی تھی اوہ اوہ آوچ یاہ یاہ مر گئی میں شارق میں اب اٹھا اور اپنے کپڑے اتارے پھر میں بیڈ سے نیچے اترا اور ڈریسنگ ٹیبل سے مساج آئل کی ایک بوتل پکڑی اور اب دوبارہ سے بیڈ پے آیا وہ ابھی تک ویسے ہی لیٹی تھی آنکھیں بند کر کے اب میںنے اس کی کمر پے آئل کے چند قطرے گرا کے اسے گولائی میں اپنے ایک ہاتھ سے ملنے لگا اور یوں ہی اس کی سری کمر پے آئل ملا اب اس کی گانڈ سے پنڈلیوں تک یوں ہی ملا اور اب اس کے اوپر آیا اور اب کی بار میںنے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی گردن سے لے کر کمر پے کولہوں تک لمبائی میں ملتا ہوا آتا اور پھر نیچے سے اوپر کی طرف جاتا اب کی بار تو وہ جیسے لذت سے مرنے والی ہو گئی اس کی لذت بھری سسکیوں کو سن سن کے میرے لن نے بھی اپ تڑپ تڑپ کے اپنا پھن پھیلا لیا تھا اب میں اپنا لن اس کے کولہوں میں رکھا اور دوبارہ سے اوپر سے نیچے تک مساج کرنے لگا اس طریقے سے میری انگلیاں اس کی چھاتی سے بھی ٹچ ہو جاتی تھیں اور وہ مزے سے مسلسل سسک رہی تھی اوہ اوہ آوچ یاہ یاہ
اب میرے لن نے بھی اس کی گانڈ کو رگڑنا شروع کر دیا تھا اب اسے دو طرف سے مزہ مل رہا تھا اور وہ اب بہت بے چیں ہو گئی تھی ہائے ہائے یاہ یاہ شارق میں گئی جان کیا کر دیا ہے میرے جسم سے جان نکل رہی ہے اب کی بار میں نے بھی اور لذت میں آ کر اپنے ہاتھوں کو ذرا اور دبا کے مساج کرنا جاری رکھا اب میں اس کی کمر سے نیچے رانوں تک آتا اور میرے ہاتھوں کے انگوٹھے اب اس کی چوت کو بھی چھو جاتے اوپر نیچے ہوتے ہوئے اور وہ تو اب اپنا سر پٹک رہی تھی مزے سے پھر وہ ایک بار زور سے تڑپی اس کے منہ سے غوں غوں کی آواز نکلی اور صدف فارغ ہو گئی اب اس نے ایک لمبا سانس لیا اور بولی پلیز شارق روک جو ظالم آج میں اس مزے کا بتا نہیں سکتی اس وقت صدف کا اتنا برا حال تھا وہ لذت میں گم تھی اس سے سہی سے بات تک نہیں ہو رہی تھی اصل میں مساج بھی ایک فن ہے اور اگر کسی نے کبھی کسی سے تھائی سٹائل سے کسی مساج سنٹر میں مساج کرایا ہو تو وہ جان سکتا ہے اس سے جیسے جسم کی رگ رگ میم لذت بھر جاتی ہے اب اس کو میںنے سیدھا کیا وہ اب مجھ سے نظر تک نہیں ملا پا رہی تھی صدف جیسی تیز طرار لڑکی کا یوں گم صم ہو جانا تعجب کی ہی بات تھی لیکن یہ سب اس مساج کا کمال تھا وہ ابھی تک آنکھیں بند کئے اپنے اندر وہ لذت محسوس کر رہی تھی اب میں نے اس کے ساتھ لیٹ کر اس کے ہونٹوں کو چوما اور سرگوشی میں کہا صدف آنکھیں کھولو وہ بولی شارق آج کیا کر دیا ہے آپ نے میں ابھی تک مسلسل وہ لذت محسوس کر رہی ہوں میں نے کہا کچھ نہیں اپنی جانا کو بس پیار سے مساج کیا ہے اب اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور میرا منہ چومنے لگی اب اس نے خود کو سنبھالا اور بوجھل آواز میں کہا آج میں بتا نہیں سکتی اس مزے کا اب میںنے اسے سیدھا کیا اور اٹھا اس کے پاس سے اب میںنے دوبارہ سے اس کی ٹانگیں کھولیں اور درمیان میں بیٹھ گیا ایسے کے میرا لن اس کی چوت کو ہلکا ہلکا ٹچ ہوتا رہے لیکن اندر نہ جا پائے میںنے اب وہی آئل لیا اور اس کی چھاتی پے کچھ قطرے گرا کے اسے ایک ہاتھ سے گولائی میں ملا پھر اس کے پیٹ اور رانوں پے آگے سے بھی ملا اب میںنے وہ بوتل ایک طرف رکھی اور اب میںنے ہلکے سے صدف کی چھاتی کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور مساج کرنے لگا اس مساج میں میری ساری انگلیاں بھی حرکت کر رہی تھیں وہ تو دوبارہ سے لذت سے سسک کے بولی اف ف ف شارق مر گئی اس نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں بیڈ کی چادر کو زور سے پکڑ لیا میں اب اس کے اوپر جیسے جھک کے مساج کر رہا تھا میرے ہاتھوں کی حرکت میں آھستہ آھستہ اضافہ ہو رہا تھا اور جیسے ہی میں اس کی رانوں سے ہوتا ہوا اوپر گردن تک جاتا میرا لن اس کی چوت کو چھو جاتا وہ اب مچل جاتی میںنے اب اس کے پیٹ اور چھاتی پے کچھ زور سے دبا کر مساج کرنے لگا وہ اب لذت سے چیخنے لگیآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اووہ اف ف ف ی اہ شارق مت کرو برداشت نہیں ہو رہا اور جیسے ہی میرا لن چوت سے لگتا وہ بے قرار ہو کر اسے اندر لینے کو کچھ نیچے کو زور لگاتی لیکن میں نے پہلے ہی اس کا بندوبست کیا تھا جیسے ہی کوئی پانچ یا چھہ دفع ایسے ہی میرا لن اس کی چوت میں نہ گیا اس کی بھر پور کوشش کے باوجود اور میں بنا رکے اسے مساج کرتا رہا اب کی بار صدف کی آنکھوں میں مزے سے آنسو آ گے اس نے کپکپاتے ہونٹوں سے ایک ریکوسٹ بھری آواز میں کہا شارق پلیز ڈال دو نہ اندر نہیں تو آج میں مر جاؤں گیں مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا اب کی بار میں نے اس کی رانوں کی طرف آتے ہوے اب اپنے دونوں انگوٹھوں سے جان بوجھ کر اس کی چوت کو سہلایا اور اوپر لے گیا ہاتھ اس نے اب زور سے چیخ ماری اور اپنا سر اوپر اٹھا کر زور سے تکیے پے پٹخا شارق اف ف ف ف ف م م م م م مر جاؤں گیں جان کیوں تڑپا رہے ھو مت کرو ایسا میں نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پے سجا کے کہا میں تو آج ریپ کروں گا اور رپیر کی مرضی ہے وہ جیسے مرضی کرے اور ساتھ ہی دوبار اپنے ہاتھ نیچے لیا مساج کرتے ہوئے اور اب کی بار اپنے دونوں ہاتھوں کے انگھوٹھے اس کی چوت میں ڈالے اور کچھ سیکنڈ آنر ہی رکھے اور دوبارہ سے بھر نکال کر اوپر لے گیا اس کی چھاتی کے نپلز یوں تن گے تھے جیسے ابھی پھٹ ہی جایئں گیں وہ تو اب جیسے اور نہ برداشت کر سکی اور اس نے میرے آگے ہاتھ جوڑ دئیے شارق میری قسم ہے اندر ڈال دو نہیں تو میں اپنا سر پھاڑ لوں گیں بیڈ سے مار کے آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ شارق مت ترساؤ مر گئی میں اب کی بار میں نے جان لیا اس سے زیادہ وہ برداشت ہی نہیں کر سکتی میںنے اب کی بار جیسے ہی میرا لن اس کی چوت سے لگا اسے ہلکے سے تھوڑا سا اندر کیا اور دوبارہ سے مساج کرنے لگا اب میں ہر بار جیسے ہی صدف کی رانوں سے ہو کر چھاتی کے اوپر جاتا میرا لن کچھ اور اندر جاتا وہ اب آنکھیں بند کئے سسکی جا رہی تھی میں نے اب کوئی پانچ دھکوں میں لن کو اندر کیا اس کی چوت میں اب میں جیسےہی اس کے اوپر گیا اس نے ایک زور کی سسکی بھری آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ شارق روک جاؤ ذرا میںنے خود کو کچھ دیر وہی روکے رک اس نے مجھے اپنے اوپر کی کھینچا اور میرا منہ چومنے لگی وہ اب شرما کر بولی شارق میں اب پھر سے فارغ ہو گی ہوں میری توبہ کبھی آپ سے کہوں ریپ کرو اب کی بار میں آپ کو مزہ دوں گیں لیکن کچھ دیر مجھے زور زور سے چودو جانو بعد میں آج میں بھی آپ کو مساج کروں گئیں ظالم بہت ترسایا ہے آج ابھی بدلہ لے کر ہی چھوڑوں گئیں میںنے اب زور زور سے لن کو اندر باہر کرنا شروع کیا اور وہ اب مزے سے سسکنے لگی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ شارق اور زور سے جانی میں نے اب فل سپیڈ سے لن کو اندر باہر کرنے لگا اور وہ اب زور زور سے چلانے لگی میرا ہر دھکا اب جسے میرے لن کو اس کی بچا دانی کی گہرائی میں لے جاتا تھا وہ اف ف ف ی اہ مر گئی زور سے یار اور زور سے اوہ یا یا ی شا ش ا ھشا شارق میں مر گئی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ او اور میںنے اسے اب کوئی بیس منٹ یوں ہی چودہ وہ ایک دفع پھر سے فارغ ہو گئی اور میںنے اب اپنے لن کو آخری سانسوں میں دیکھا تو اس کی چوت میں جیسے لن کو جر تک گھسیڑ کے اس کے ہونٹ چومنے لگا اور ایک زور دار پریشر سے میرے لن نے منی اگل دی صدف کی چوت میں اب میری منی نے اسے بھی دوبارہ سے فارغ ہونے پے مجبور کر دیا وہ اب لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اور مجھے چومی جا رہی تھی پھر کچھ دیر ہم یوں ہی ایک دوسرے کو چومتے رہے اب اس نے کہا شارق اب میں آپ سے اپنی مرضی سے سیکس کرنا چاہتی ہوں میںنے کہا ٹھیک ہے اب کی بار اس نے مجھے الٹا لیٹنے کو کہا اور بولی پلیز جانو آج مجھے اپنی من کی مرضی کرنے دو میں نے ہنس کے کہا جب تک تم نہیں کہوں گی میں تم کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا اور وہ اب میری کمر پے کافی سارا آئل مساج والا گرا کے اس نے اسے ہاتھ سے تھوڑا سا ملا اور پھر اپنے ہاتھ پے مزید آئل ڈالا اور اسے اپنی چھاتی سے ملنے لگی اب وہ میرے اوپر لیٹ گئی اور اس نے اپنی چھاتی سے میری کمر پے مساج کرنا شروع کیا وہ اب اپنی چھاتی میری کمر سے رگڑ رہی تھی پہلے اس نے کمر پے مساج کیا اور مجھے بہت لطف سا آنے لگا اس کی چھاتی کے لمس نے مجھے بیقرار کر دیا اب اس نے یوں ہی مساج کرتے کرتے وہ مے کولہوں تک آ گئی اب اس نے اور آئل لگایا اپنی چھاتی کو اور میرے کولہوں پے اسے رگڑنے لگیاب اس نے اپنی چھاتی سے مساج کرتے ہوئے وہ میری رانوں سے نیچے آئی اور پھر اس نے میرے پاؤں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور ان کی انگلیوں میں بھی آئل لگا کر وہ اپنی انگلیوں سے مساج کرنے لگی میں بتا نہیں سکتا مجھے کتنا مزہ آ رہا تھا اب اس نے جب میرے دونوں پاؤں کی بھی مالش کر لی تو اس نے مجھے سیدھا ہونے کو کہا میں اب سیدھا لیٹ گیا اور اب کی بار اس نے میرے سینے سے اپنی چھاتی کو رگڑنا شروع کیا وہ اب میرے اوپر لیٹ کر میرے ہونٹ چومنے لگی اور ساتھ میں اس کی چھاتی کی رگڑ جاری رہی میرے سینے پے پھر وہ میری گردن پے آئی وہاں سے بھی چومنے لگی اور میرے کانوں تک لمبائی سے چاٹنے لگی اب وہ آھستہ آھستہ سے میرے لن کی طرف آنے لگی پھر اس نے اپنی چھاتی کو آئل سے تر کیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی چھاتی کو دونوں طرف سے دبا کے میرے لن کو اس میں ڈالا اور اپنی چھاتی کو اوپر نیچے کرنے لگی یوں اب وہ میرے لن سے اپنی چھاتی کو چود رہی تھی اس نے اپنی چھاتی کو اتنا دبا رکھا تھا کے میرا لن بہت زور سے اوپر نیچے ہوتے ہوئے رگڑ کھاتا تھا اس کی چھاتی سے مجھے یوں بہت زیادہ مزہ آنے لگا تھا میرا لن تو جیسے مزے سے پھٹنے والا ہو رہا تھا پھر اس نے میری آنکھوں میں دیکھا اور بولی میرے یار مزہ آ رہا ہے نہ میں نے کہا بہت جانو اب کی بار اس نے کہا جانو اب میں اسے اپنی چوت میں لوں گئی اپنی مرضی سے میں نے کہا سہی ہےاب اس نے مجھے کہا اپنی ٹانگیں کھولیں اور خود بھی میرے سامنے اب اپنی ٹانگیں پھیلا کے بیٹھا گئی اب میری ٹانگیں فل پھیلی ہوئیں تھیں جہاں تک میں بھیلا سکتا تھا اب وہ بھی اپنی ٹانگیں پھیلا کے بیٹھ گئی اب اس نے اپنی چوت کو میرے لن کے ساتھ ملایا اور پھر میری گردن پے اپنی بانہیں ڈال کے کہا جانو اب اندر کرو اب میںنے لن کو اس کی چوت میں ڈالا اور ایک دھکا دیا میرا لن سارا اس کی چوت میں تھا اب صدف نے ایک ہلکی سی سسکی لی اور اپنے ہونٹوں کو دانتوں میں لے کر ہونٹ کتنے لگی مجھے بھی ایسے دھکے لگاتے ہوئے کچھ ٹانگوں میں درد سا محسوس ہوتا تھا کیوں کے میری دونوں ٹانگیں ایک دوسری کی مخالف سمت میں پھیلی تھیں اور یہی حال اس کا تھا اسے بھی اب کافی درد سہنا پڑ رہا تھا لیکن میں نے اس درد کو برداشت کیا وار زور زور سے دھکے مارنے لگا ہر دھکے سے اس کی چھاتی زور زور سے اوپر نیچجے ہوتی میں اب اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا اس نے بھی مجھے اپنی بانہوں میں زور سے بھنچ لیا اب صدف مزے سے سسک رہی تھیآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م او جانو اور زور سے کرو میں نے اب اپنی سپیڈ مزید بڑھا دی وہ مزے سے چیخ کے بولی ہاں ایسے ہی لگے رہو بہت اچھا لگ رہا ہے میں نے اب کی بار اپنی بانہیں پیچھے کر کے بیڈ پے رکھیں اور زور زور سے لن کو اوپر کی طرف دھکا دینے لگا اب وہ میرے ہر دھکے سے اچھل کے پیچھے گرتی پھر اس نے میری طرح اپنی بانہیں بیڈ پے رکھیں اور ان کے بل پے آگے کو زور لگانے لگی کوی پانچ منٹ بعد ہی وہ بولی شارق اب آپ لیٹ جاؤ میں اب لیٹ گیا اپنی ٹانگیں سیدھی کر کےاب صدف نے میری ایک ٹانگ کو پکڑا اور اپنے کندھے کی طرف اوپر اٹھا لیا اب وہ اس کے سہارے میرے لن پے بیٹھی اور زور سے اوپر نیچے ہونے لگی مجھے بہت مزہ آ رہا تھا میں اب مزے سے اسے دیکھ رہا تھا وہ لذت بھرے لہجے میں بولی شارق میری جان بہت مزہ آ رہا ہے اب اس نے ہلکے ہلکے سے سسکنا شروع کر دیا تھا میں اب اپنے کولہے اپر کی طرف اٹھا کے زور لگاتا اور وہ نیچے کی طرف زور لگاتی یوں میرا لن اس کی چوت میں جڑ تک جا رہا تھا اب پانچ منٹ تک وہ دیوانہ وار زور سے اوپر نیچے ہوتی رہی اب صدف کے جسم سے پسینہ بہنے لگا تھا اب اس نے میری ٹانگ کو چھوڑا اور اپنی ٹانگیں میری ٹانگوں میں پھنسا کے میرا لن اپنی چوت میں لیا اور وہ اب بیڈ پے اوندھی لیٹی تھی اس کی سسکیاں اب بہت تیز ہو گیں تھیں آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ اوہ شارق مر گئی میں ظالم اب کچھ ہی سات دے دو میں نے اب کی بار اسے اپنی طرف کھینچا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگا صدف کا سانس بہت یز تھا اس کا سینہ بار بار اوپر نیچے ہو رہا تھا اب میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا جان من آج تو مزہ ہی آ گیا اور اس کی دونوں ٹانگوں اپنے کندھوں پے رکھ لیں وہ اب میری گردن میں ہاتھ ڈال کے لٹک سی گئی اب میںنے اپنا لن اس کی چوت میں ڈالا اور اس کی گاند کو پکڑا کے نیچے کی طرف جھٹکا دویا وہ زور سے تڑپی اور کہا شارق ایسے بہت درد ہوتا ہے میںنے کہا جان بس کچھ ہی دیر وہ اب میرے ہونٹوں کو چومنے لگی میںنے بھی اسی سٹائل میں اب زور سے اپنا لن صدف کی چوت میں اندر باہر کرنے لگا اب کی بار اسے بہت مزہ آنے لگا تھا اور وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی پھر میںنے اسے کوی دس منٹ اور ایسے ہی چودہ اور اب مجھے لگا میں آنے والا ہوں میں نے اسے اور زور سے دھکے مرنے شروع کر دیے وہ اب تڑپ کے بولی میں مر گئی شارق بہت درد ہے جانیاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے آھستہ سے کرو میں نے کہا میں آنے والا ہوں وہ بولی میں بھی اور پھر ایک منٹ بعد ہم دونوں اکٹھے ہی فارغ ہو گ
ۓ اب میںنے اسے اپنے ساتھ لیتا لیا اور چومنے لگا پھر ہم ایسے ہی ایک دوسرے کی بانہوں میں کھو سے گۓ پھر دس منٹ ایسے ہو لیٹے رہنے کے بعد وہ اٹھی اور واش روم سے خود کو صاف کر کے آئی اس نے کپڑے پہنے میرے پاس آ کر مجھے ہونٹوں سے کس کی اور چلی گئی میں اب ویسے ہی سو گیا مجھے اب بہت نیند آ رہی تھی اگلے دن میں کوئی دس بجے اٹھا اورنہا کر تیار ہوا اور اپنے کمرے سے باہر آیا اب بڑی بھابھی نے مجھے ناشتہ دیا اور میں وہ کر کے کورٹ چلا گیا وہاں پے مجھے فاروقی صاحب نے بتایا نواب رستم والا کیس ہم کو دینا چاہتے ہیں وہ لوگ میںنے کہا نہیں فاروقی صاحب ہم کسی گناہ گار اور ظالم کا کبھی ساتھ نہیں دیں گیں آپ انکار کر دو ابھی یہ باتیں ہی ہو رہی تھیں کے بھائی نصرت بھی آ گے وہ بولے یار میرا ایک دوست ہے اس نے بہت تنگ کیا ہوا ہے وہ نواب رستم ککزن ہے وہ یہ کیس ہم کو دینا چاہتے ہیں اور فیس وہ منہ مانگی دینے کو تیار ہیں میں نے کہا بھائی جان ہم نہیں لیں گے یہ کیس وہ بولا شارق میرے بھائی ہم وکل ہیں ھمارے پاس ہر طرح کے لوگ آییں گے اب یہ کیا بات ہوئی ہم کسی گناہ گار کا کیس ہی نہ لیںمیںنے اب کی بار ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سا لالچ دیکھا اور چپ کر گیا مجھے دلی دکھ ہوا تھا یہ دیکھ کر وہ میری خاموشی کو سمجھ گۓ اور بولے یار آپ کو کبھی میں نے روکا ہے کسی کا کیس لینے سے اور میں یہ کیس جیت جاؤں گا میں نے کہا بھائی صرف پیسے کی وجہ سے آپ ایک مجرم کو سزا نہیں ہونے دیں گے یہ غلط ہے وہ بولے جو بھی ھو شارق میں ان کو ہاں کر چکا ہوں اب وہ بولے فاروقی صاحب اس کیس کی تیاری میں لگ جایئں فاروقی صاحب نے کہا بیرسٹر صاحب سوری اگر شارق نہیں لے گا کیس تو میں بھی نہیں لڑوں گا اب کی بار نصرت بھائی نے کہا تو پھر ہم آج سے ایک فیصلہ کر لیں میں آپ کے کسی کیس میں آپ کی مدد نہیں کروں گا آپ میری نہ کرنا اور ہم آج سے ہی اپنے اپنے آفس میں بیٹھیں گے اب کی بار فاروقی صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا نصرت صاحب یہ کیا بات ہوئی اب میںنے بھی کچھ غصے سے کہا بھائی جان یہی بہتر ہے آپ اپنے الگ آفس میں بیٹھ سکتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے وہ بولے میرے بھائی ہم صرف کورٹ کی حد تک ایک دوسرے سے جدا ہیں ورنہ ہم بھائی ہیں میں نے کہا بھائی جان میں کسی بھی کیس میں آپ کے مخالف آتے ہوئے یہ نہیں دیکھوں گا کے سامنے والوں کا وکیل میرا بھائی ہے میرے اصول مجھے بہت پیارے ہیںمیں کبھی کسی ظالم کا ساتھ نہی دوں گا اب میں نے کہا فاروقی صاحب اگر اب تک ہمارا کوئی لین دین تو نہیں ہے ایک دوسرے کی طرف وہ بولے نہیں شارق ہر کیس کی فیس سب کے اکاونٹوں میں ایک ساتھ جاتی تھی اب کبار بھائی نصرت نے کہا اچھا یار میں اب چلا اور اٹھ کے چلے گۓ مجھے دکھ تو بہت ہوا لیکن میں چپ رہا آج فاروقی صاحب کی میرے دل میں عزت اور بڑھ گئی تھی اب میں نے کہا فاروقی صاحب میں جانتا تھا ایک ن ایک دن یہ ہو گا کیوں کے میرے بھائی کو دولت کی بہت ہوس ہے اب اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب دیتے بیگم جہاں آرہ ھمارے آفس میں داخل ہوئیں میں نے اپنی سیٹ سے اٹھ کے ان کا استقبال کیا میرے ساتھ ہی فاروقی صاحب بھی اٹھ گۓ تھے وہ بولی لڑکے آج پھر آپ کی ضرورت پڑھ گئی ہے دو دن بعد کیس شروع ہو گا کیوں کے پولیس نے چالان کورٹ میں جمع کرا دیا ہے اب مجھے نوٹس مل گیا ہے اور میرے وکیل آپ ہی ہوں گے بس اور ساتھ ہی ایک چیک نکالا پرس سے اور میری طرف بڑھا دیا وہ ایک کروڑ کا چیک تھا میںنے کہا آپ کا کیس میں ایک شرط پے لڑوں گا آپ کوئی پیسا نہیں دیں گیں مجھے وہ بولی پر کیوں میں نے کہا بس میری مرضی وہ بولی ٹھیک ہے اب میں آپ کے گھر ہی جا رہی ہوں آپ نے آنا ہے تو آییں ساتھ ہی چلتے ہیں میںنے کہا آپ جایئں میں بعد میں آؤں گا ابھی بزی ہوں وہ چلی گئی میں نے کہافاروقی صاحب اس کیس کی فائل تیار کر لیں اور آج ہی کوشش کریں اپنا وکالت نامہ جمع کرانے کا وہ بولے ہو جاۓ گا اب میں بھی آفس سے اٹھا اور کرنل عثمان کے گھر کی طرف چل دیا اور فاروقی صاحب کورٹ چلے گۓمیں جیسے ہی کرنل کے گھر گیا مجھے ان کے ایک گارڈ نے بتایا وہ آج گھر ہی نہیں آئے میں نے کہا ٹھیک ہے اور واپس جانے کا سوچا ہی تھا کے مجھے بھابھی نورین نے دیکھ لیا اور جلدی سے باہر آئی اور بولی اندر آؤ شارق کہاں بھاگ رہے ھومیں نے کہا بھابھی کب آئیں گے کرنل صاحب وہ بولی وہ کوئی تین دن تک بزی ہیں آپ اندر آو اب میں ان کے ساتھ اندر ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھ گیا وہ بولی میں بس کوئی دس منٹ تک آئی آپ نے جانا نہیں ہے میری ایک دوست آ رہی ہے بس اس کے لیا کھانا تیار کرا رہی ہوں میں اب ٹی وی لگا کر وہ دیکھنے لگا پھر کوئی بیس منٹ بعد باہر سے ایک خاتون اندر داخل ہوئیں وہ کوئی پنتیس سالہ خاتون تھیں رنگ گورا لمبا قد اور ان کا فیگر بہت ہی اچھا تھا کسی ہوئی چھاتی پتلا سا پیٹ باہر کو نکلے کولہے وہ مجھے دیکھ کر چونک گئی اور کہا نورین کہاں ہیں اس کی آواز بھی کافی اچھی تھی اتنے میں اندر سے نورین بھابھی باہر آییں اور وہ ایک دوسرے سے گلے مل کے میرے پاس ہی بیٹھ گیںاب بھابھی نے کہا آمنہ یہ میرے دیور ہیں شارق وہ بولی کیسےہیں آپ شارق صاحب میںنے کہا جی بلکل ٹھیک ہوں پھر بھابھی نورین نے کہا شارق یہ کرنل زوہیب کی بیگم ہیں اور جنرل حمزہ بیگ صاحب کی اکلوتی بیٹی ہیں پھر ہم آپس میں باتیں کرنے لگے آمنہ بہت ہنس مکھ تھیں وہ جلد ہی مجھ سے گھل مل گئیںاب میں نےکہا بھابھی میں چلتا ہوں تو آمنہ نے کہا کیوں جی ہماری کمپنی آپ کو اچھی نہیں لگی میں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں وہ بولی تو کیسی بات ہے جناب بیرسٹر شارق حسین شاہ صاحب میں آپ کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں گل بانو میری کزن ہے اور میںنے آپ کو اکثر اخبار میں دیکھا ہے وہ مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتی وہ آپ کی بہت بڑی فین ہیںمیں نے کہا جی اچھی بات ہے کوئی ہمارا بھی فین ہے ہم نہیں جانتے تھے اب کی بار بھابھی نورین نے کہا اب یہ میرے سامنے نہ کہو بہت پہنچی ہستی ہیں آپ اب کی بار میں چونک سا گیا میں نے بھابھی نورین کی طرف دیکھا تو وہ ایک شرارت بھی نظر سے مجھے ہی دیکھ رہی تھیں اب آمنا نے کہا یار اب تو بھوک سے برا حال ہے بھابھی نورین نے اب کھانا لگوایا اور ہم نے ملکر کھانا کھایا بعد میں چاۓ پی کے میں نے گھڑی کی طرف نظر ڈالی اور کہا اب میں چلوں گا تو آمنہ نے کہا شارق میرا ڈرائیور ابھی تک نہیں آیا اگر اپ کو برا نہ لگی تو مجھے بھی ڈراپ کر دینا راستے میں میں نے کہا ٹھیک ہے اب ہم نے بھابھی نورین سے اجازت لی اور باہر نکل آئے مجھے ابھی تک بھابھی نورین کا وہ شرارتی انداز نہیں بول رہا تھا
اب میں نے جیسے ہی اپنی کار کرنل کی کوٹھی سے نکالی اور آمنہ سے کہا جی آپ اڈریس بتا دیں مجھے وہ میری جناب ہی دیکھ رہی تھی اس نے کہا ایک بات پوچھوں آپ سے میں نے کہا جی ضرور وہ بولیں کیا ہم دوست بن سکتے ہیں میں نے کوئی جواب نہ دیا وہ بولی شارق کیا میں اس قابل نہیں آپ سے دوستی کر سکوں میں اب بھی خاموش ہی رہا وہ اب کی بار ایک ٹھنڈی سانس بھر کے بولی ٹھیک ہے دوست ہم میں ہی کوئی کمی ھو گئی اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں میں نے اب کہا راستہ بتا دیں وہ اب مجھے ویسے ہی آنکھیں بند کیے بتانے لگی اور میں نے اسے اس کے گھر کے سامنے ڈراپ کیا وہ بولی اندر آییں نہ میں نے کہا نہیں مجھے جلدی ہے اور گاڑی کو آگے بڑھا دیا

میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوا مجھے بھابھی تنویر نے کہا ڈیڈی کے کمرے میں آ جایئں کافی دیر سے آپ کا ویٹ کر رہی ہیں بیگم جہاں آرہ میں اب سیدھا انہی کے کمرے میں گیا وہاں سب ہی مجود تھے میںنے اب سب کو سلام کیا اب کی بار انکل سلطان نے کہا شارق بھابھی بیگم کہ رہی ہیں آپ ان کا کیس لینے کو دل سے راضی نہیں ہیں کیوں بیٹا میں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں انکل میں نے تو وکالت نامہ بھی جمع کروا دیا ہے اب کی بار بھائی نصرت نے چونک کر کہا تو اس لئے تم مجھے نواب رستم کا کیس نہیں لینے دے رہے تھے اب کی بار سب ہی چونک گئے میں نے کہا بھائی آپ کی سوچ ہے میں کیا کہہ سکتا ہوں اب کی بار ڈیڈی نے کہا کیا بات ہے نصرت تو بھائی نصرت نے ساری بات تفصیل سے بتا دی اب یہ سن کے سب ہی کچھ دکھی سے ہوئے کے ہم دونوں بھائی پھر سے آمنے سامنے آیا کریں گے اب کی بار بیگم جہاں آرہ نے کہامیں معذرت چاہتی ہوں میری وجہ سے یہ سب ہوا ہے میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں کوئی بات نہیں میں کسی اور کو وکیل کر لوں گیں اب کی بار امی جان نے کچھ سخت سے لہجے میں کہا نہیں بھابھی آپ کا کیس شارق ہی لڑے گا اب بھائی نصرت نے کہا امی جان میں نواب رستم کا کیس لے چکا ہوں تو امی نے کہا نصرت بات انصاف اور سچ کی ہے اور میں کوئی ڈنڈی نہیں مار سکتی یا تو آپ وہ کیس چھوڑ دیں یا پھر اس بار کوشش کرو کے شارق کو ہرا سکو اب کی بار بھابھی تنویر کو یہ بات بری لگی وہ بولیں امی جان آپ شارق کا ہی ساتھ دیتی ہیں امی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا تنویر میں جانتی ہوں یہ آگ کس نے لگائی ہے بات ساتھ دینے کی نہیں ہے میں صرف سچائی کا ساتھ دے رہی ہوں اور مجھے شارق پے اندھا یقین ہے وہ کبھی کسی ظالم کا ساتھ نہیں دے گا اب بھائی نصرت نے کہا امی جان ہو سکتا ہے نواب رستم بے گناہ ہی ہوں اور اس کو پھنسایا گیا ھو وہ اب کچھ عجیب سی نظر سے بیگم جہاں آرہ کی طرف دیکھ کر بولے بیگم جہاں آرہ نے اب کی بار اسے دیکھا اور کہا بیرسٹر صاحب مجھے کسی کو پھنسانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہ بھی شارق کا ہی مشورہ تھا اسے عدالت سے سزا ہو ورنہ ہم اپنے فیصلے خود کیا کرتے ہیں اب کی بار نواب سلطان نے کہا نصرت بات کرنے سے پہلے یہ سوچا کریں کیا کہہ رہے ہیں اور کسے کہہ رہے ہیں اب کی بار بھائی نصرت نے کہا آپ سب مجھے ہی غلط کیوں کہتے ہیں انکل شارق بھی تو صرف فیس کی وجہ سے ہی یہ کیس لے رہا ہے نہ اب کی بار بیگم جہاں آرہ نے ایک قہقہ لگایا اوربولی جناب بیرسٹر صاحب آپ کو کتنا معاوضہ ملے گا اس کیس کا وہ غرور سے بولے پچاس لاکھ اب کی بار بیگم نے اپنے پرس سے وہی والا چیک نکالا اور کہا میں نے آج شارق کو ایک کروڑ کا چیک دیا تھا فیس میں اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا آپ کا کیس میں ایک ہی شرط پے لڑوں گا آپ مجھے کوئی فیس نہیں دیں گیں اب کی بار سب ہی چونک سے گ
ۓ تھے اب بیگم جہاں آرہ نے میری والدہ صاحب سے کہا بہن جی میری ایک ہی بیٹی ہے جو بچپن سے ہی اپنے چچا زاد کزن سے منسوب ہے کاش میری ایک اور بیٹی ہوتی تو میں شارق جیسا ہیرا آپ سے مانگ لیتی عفت کا رشتہ مرحوم نواب صاحب کی خوائش پے کیا گیا تھا ورنہ میں زندگی میں ایک دفع اپنا وعدہ ضرور توڑ دیتی شارق کو اپنا داماد بنانے کے لئےلوگ نہیں جانتے یہ کیسا ہیرا ہے اب کی بار امی جان نے فخر سے کہا بہن جی میرا بیٹا ہے ہی ایسا اب کی بار بھابھی تنویر نے کہا شارق یہ اچھی بات نہیں ہو گئی اگر بھائی ہی ایک دوسرے کے سامنے آ گۓ تو میں نے اب ہنس کے کہا بھابھی یہ صرف عدالت کی حد تک ہی ہے ورنہ بھائی مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں ڈیڈی نے کہا اب ختم کرو یہ بحث اگر نصرت اپنی مرضی سے جدا ہوا ہے شارق سے اب یہ ان کی فیلڈ ہے وہ بہتر سمجھ سکتے ہیں اب کوئی اس ٹاپک پے بات نہیں کرے گا اتنے میں لالارخ پری لوگوں کے ساتھ اندر داخل ہوئی بھابھی شفق بھی ساتھ ہی تھی وہ بازار سے آ رہی تھیں آج کا سارا دن انہوں نے شاپنگ میں ہی گزارا تھا اب ہم سب ہی وہ سامان دیکھنے لگے امی جان نے کہا لگتا ہے تین دن کی شاپنگ ایک ہی دن میں ختم کی ہے آپ لوگوں نے بھابھی شفق نے کہا خالہ جان آج کپڑے تو سمجھیں مکمل ہی آ گۓ ہیں کل کا دن زیور بھی آ جاۓ گا ہم آج سب پسند کر آئے ہیں بس ڈائمنڈ کے سیٹ جیولر نے کہا ہے میں دبئی سے منگوا دیتا ھو وہ بھی کل شام تک آ جایئں گئیں اب میںنے کہا کیوں جی لڑاکو بلی صاحبہ سارا بازار ہی خرید لائی ھو وہ اب ہنس کے بولی بھائی جان سچی وقت ہی کم ہے ورنہ میں تو سچی میں سارا بازار ہی خرید لاتی اب کی بار امی جان نے کہا شفق کل آپ سب جایئں گیں اپنے لئے بھی زیور لے لیں اب کی بار لالارخ نے کہا امی جان آج ایک ہار بہت پسند آیا ہے بھابھی شفق کو ڈائمنڈ کا لیکن وہ بہت مہنگا تھا اب کی بار میںنے چونک کر شفق کی طرف دیکھا وہ بولی چھوڑو بھی لالارخ میں تو مذاق کر رہی تھی اب کی بار امی جان نے کہا کتنے کا تھا تو صدف نے جواب دیا انٹی پچیس لاکھ کا اب امی نے کہا شفق بیٹا آپ کے اکاونٹ میں تو پچاس لاکھ تک ہے آپ لے لیتی وہ بولی نہیں امی جان آپ سے اجازت نہیں لی تھی نہ اس لئے نہیں لیا اب کی بار میںنے صدف کو اپنی طرف بلایا وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئی میں نے کہا اس جیولر کی شاپ کا کوئی نمبر ہے وہ بولی جی میں وہاں سے ہی جیولری لیتی ہوں میںنے کہا اس کو کہو وہ ہار ابھی پیک کر کے بیجھ دے کسی کے ہاتھ اور پیسے لے جاۓ اس نے اب ایسا ہی کیا ہم نے اتنی آہستگی سے بات کی تھی کسی نے نہیں سنا تھا پھر کوئی چالیس منٹ بعد ایک ملازم آیا وار کہا جناب ایک جیولری والا آیا ہے یہ لے کر کہہ رہا تھا شارق صاحب نے منگوایا ہے اب میںنے اپنی جیب سے چیک نکالا اور اسے بھر کے ملازم سے کہا اسے دے دو یہ چیک جو یہ لایا ہےاب کی بار سب نےہی اشتیاق سے پوچھا اس میں کیا ہے میںنے وہ بنا کسی کو بھی دکھائے وہ جیولری باکس بھابھی شفق کو دیا وار کہا یہ آپ کے لئے میری طرف سے اس شادی کا تحفہ ہے بھابھی اب پری نے جلدی سے وہ لیا اور کھولا اور ایک دم سے چونک کے بولی یہ تو وہی ہار ہے جو آپ نے پسند کیا تھا بھابھی شفق سب نے ہی چونک کر دیکھا اب بھابھی شفق نے کہا کیا ضرورت تھی یار اتنا مہنگا گفٹ دینے کی میںنے کہا آپ کو کیا ضرورت ہوا کرتی تھی میرے مانگے بنا مجھے ہزاروں دے دیا کرتی تھیں اور گھر میں کسی کو پتا بھی نہیں ہوتا تھا وہ بولی وہ تو آپ کو جیب خرچ دیتی تھی کیُ کیوں کے ان دنوں ڈیڈی آپ سے ناراض تھے اور آپ اپنی سٹڈی مکمل کر رہے تھے اب کی بار طارق بھائی نے کہا یار مجھے بھی نہیں بتایا آج تک آپ نے شفق تو شفق بھابھی نےکہا طارق مجھے میری زمین سے جو آمدن ہوتی تھی نہ وہ میرے اکاونٹ میں ہی پڑی رہتی تھی اب کیاکرتی اس کا وہ میں شارق کو دے دیا کرتی تھی اب کی بار امی نے اٹھ کے شفق کی پیشانی کو چوما اور کہا بیٹا آپ نے آج تک کسی کو نہیں بتایا اتنا بڑا دل ہے آپ کا اب میںنے کہا جب یہ میرا اٹھا خیال رکھ سکتی ہیں تو میں کیوں نہ رکھوں اب میںنے کہا ویسے بھی میں نے سب بھابھیوں کو دس دس لاکھ دینے کا کہہ دیا تھا پاپا سے ڈیڈی نے کہا میںنے ان سب کو اسی دن دے دیے تھے اب کی بار بھابھی تنویر نےکہا شارق شفق کو پنتیس لاکھ اور ہم کو دس لاکھ میں نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا اور کہا بھابھی آپ کو یاد ہے ایک دن آپ سے میں نے دس ہزار مانگا تھا اپ نے اونکار کر دیا تھا کے میرے پاس نہیں ہیں لیکن پھر کوئی تیس منٹ بعد آپ نے اپنی بہن کو چالیس ہزار کی جیولری لے کر دی تھی اب کی بار بھابھی تنویر کچھ شرمندہ سی ہوئیں اور کہا لیکن ہم سب کو ڈیڈی نے کہا تھا کوئی شارق کو جیب خرچ نہ دے میں نے کہا اس ہم میں شفق بھابھی بھی آتی تھیں انہوں نے سن لیا تھا اور مجھے پاتا بھی نہیں ہوتا تھا اور روز میری جیابمیں ہزاروں مجود ہوتے تھے میں سوچتا تھا شاید امی جان جب میں سو رہا ہوتا ہوں تو میرے پرس میں رکھ جاتی ہیں وہ تو کوئی دو سال بعد اچانک میںنے ایک دن ان کو دیکھ لیا تھا پیسے رکھتے ہوئےتب مجھے پتا چلا دو سال سے میرا شاہانہ خرچہ بھابھی شفق پورا کر رہی ہیں میں اب بھی سب کے سامنے کہوں گا ساری زندگی بھابھی شفق کو حق حاصل ہے وہ بنا پوچھے میرے اکاونٹ سے جتنی مرضی رقم نکال لیں اب کی بار سب ہی ہنس دیے اور بھائی طارق نے کہا یار کل کو آپ کی بیگم آ جاۓ گئی تب ان کی فائٹ بھی دیکھنے میں مزہ آئے گا میںنے کہا نہیں بھائی جان آج ایک اور بات آپ سب کو بتا دوں میں شادی ہی صرف اس لڑکی سے کروں گا جسے بھابھی شفق میرے لئے پسند کریں گئیںاب سب ہی ہنس کے بولے شفق یہ نیک کام جلدی سے کر دو اب کی بار صدف نے شرارت سے کہا پھر تو سب کو بھابھی شفق کے گھٹنے ہی پکڑنے پڑیں گئیں میں سب لڑکیوں سے کہہ دوں گئیں اور میں نے ہنس کے کہا کہہ دو اب کی بار سب نے کافی دیر یوں ہی باتیں کیں پھر مجھے کرنل عثمان کی کال آ گئی وہ بولا شارق کل پہلی پیشی ہے داور کمال کی اور جنرل صاحب نہیں ماں رہے آپ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کسی سمجھ دار اور تجربہ کار وکیل کو کیس دیں اب کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی جنرل حمزہ بہت سخت ہے اب میں ایک دم سے چونک گیا اور کہا حمزہ بیگ کی بات کر رہے ہیں آپ وہ بولا ہاں یار وہی سڑیل ہے ایک میں نے کہا وہ مان جاۓ گا یہ میں خود ہی کر لوں گا لیکن جسٹس کی بات وہ میری بات کو کاٹ کے بولا یار جسٹس کو کوئی اعتراض نہیں ہے اب میںنے کہا آپ بےفکر رہو کل میں ہی پیش ہوں گا اور پھر میں نے کال بند کی اور کہا ڈیڈی میں ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں صبح آؤں گا اور اپنے کمرےمیں آ کر نہا کٹ تیار ہوا اور گاڑی میں بیٹھ کر میں آمنہ کے گھر کی طرف چل دیا اس کے گھر جا کر میں نے اطلاعی بیل دی ایک گن مین نے دروازہ کھولا اور کہا کس سے ملنا ہے میں نے کہاکرنل صاحب سے وہ بولا وہ آج نہیں ہیں ابمیں نےکہا بیگم صاحبہ سے کہو شارق آیا ہے اسے اپنا کارڈ دیا وہ اندر گیا اور پھر کوئی تین منٹ بعد آمنہ خود اس کے ساتھ آ گئی اور کہا او شارق اب میں اس کے ساتھ اندر داخل ہوا وہ مجھے سیدھا اپنے ڈرائنگ روم میں ہی لے آئیمجھے صوفے پے بیٹھا کے وہ باہر نکل گی پھر کوئی دس منٹ بعد چاۓ کا سامان لے کر آ گئی اب ہم مل کر چاۓ پینے لگے میں نے کہا آمنہ مجھے آپ سے ایک بہت ضروری کام ہے وہ بولی شارق حکم تو کرو اب میںنے کہا آمنہ یہ ہونا چائیے وہ بولی شارق آمنہ اپنی جان ہار کے بھی آپ کے سامنے سرخرو ہو گئی اپ بس حکم کرو میں نے اب اسے سری بات بتائی وہ بولی بس اتنا سا کام میں تو سوچ رہی تھی تم کہو آمنہ مجھے تمہاری جان چائیے میں تو وہ بھی وارنے کو تیار تھی میرے دوست پھر اس نے کہا صرف پانچ منٹ دو مجھے پھر اسنے اسی وقت اپنے ڈیڈی کو کال کیا اور کہا مجھے ابھی آپ سے ملنا ہے میں آؤں یا آپ آییں گیں پھر وہ آگے سے جواب سن کے بولی بھاڑ میں جاۓ ڈیڈی آپ کی یہ ڈیوٹی آج کے بعد مجھ سے بات مت کیجئے گا مر گئی آج سے آمنہ اور کال کاٹ دی اب میری طرف دیکھ کر بولی یار ذرا سا یہ ڈوز دینا پڑا ابھی ان کی کال آ جاۓ گئی وہ کہ رہے تھے کسی اور سٹی ہیں اور یہی ہوا اب مسلسل کال ہونے لگی اور وہ بار بار کاٹنے لگی پھر کوئی دس منٹ بعد اس نے کال سنی اور کہا جب آپ سے کہا ہے کے منا مر گئی تو کیوں ڈسٹرب کرتے ہیں آپ ڈیڈی اب وہ آگے سے جواب سن کے بولی ڈیڈی میرا ایک دوست ہے اسے آپ سے کام تھا میں نے اس لئے کال کی تھی پھر اس نے میرے بارے میں بتایا اور کہا وہ کیس یہی لڑیں گے اور آپ یہ بھی ذھن میں رکھیں کسی کی سفارش یا کوئی بھی چیز حائل نہیں ھو گئی اس میں اب وہ میری طرف ریسیور بڑھا کے بولی آپ بات کریں پاپا سے اب میں نے ان کو سلام کیا اور آگے سے ایک بھاری آواز میں سلام کا جواب دیا گیا اور پھر وہ بولے یار تمہارے لئے کرنل عثمان نے بھی بات کی تھی لیکن مسلہ یہ تھا جسٹس صاحب یہ چاہتے تھے کے کوئی تجربہ کار وکیل ہو آپ کا کافی ذکر سن ہے میںنے لیکن بیٹا آپ کے مخالف سپریم کورٹ بار کا صدر ہے میںنے کہا کوئی بات نہیں انکل میں اسے بھی دیکھ لوں گا جو میرے وطن کے غداروں کا ساتھ دے وہ میرا باپ ہی کیوںنہ ہو میں اسے بھی معاف نہ کروںوہ بولے سہی ہے بیٹا آپ ہی اب یہ کیس لڑو گے ورنہ آمنہ میری جان عذاب میں ڈال دے گئی اور پھر مجھ سے ایک دو اور بات کر کے کال بند کر دی اب میںنے آمنہ سے کہا تھینکس وہ بولی شارق کچھ لوگ ایسے ہوتیھیں جو پہلی نظر میں ہی پتا نہیں کیوں دل کو بھا جاتے ہیںمیں کوئی ان میچور لڑکی نہیں ہوں ایک شادی شدہ اور پڑھی لکھی عورت ہوں اب اور خود بھی آرمی میں میجر ڈاکٹر ہوں لیکن پتا نہیں کیوں آپ کو دیکھ کر دل کو کچھ عجیب سا ہوا تھا میری آج تک کی زندگی میں سواۓ میرے شوہر کے کسی غیر مرد نے مجھے چھوا تک نہیں ہے اب کی بار میں نے کہا آمنہ آپ بہت اچھی ہیں لیکن مجھے بہت عجیب سا لگا تھا پہلی ہی ملاقات میں اپ سے فری ہوتا ورنہ آپ کا یہ قیامت خیزحسن کسی کو بھی دیوانہ کر دےاب کی بار آمنہ نے کہا چلو جاؤ اب ایسے تعریف نہ کرو بہت ظالم ھو ایک پل میں دل توڑ دیا تھا میرا میں نے کہا چل اب جوڑ دیں گیں پھر میں اس سے اجازت لے کر باہر آنے ہی لگا تھا اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا شارق آؤ کچھ وقت میرے ساتھ بھی گزارو گھر تو جانا ہی ہے تم نے اب میں نےکہا چلو آؤ باہرچلتے ہیں آؤٹنگ پے وہ بولی میں بس پانچ منٹ ہی میں تیار ہو کے آئی پھر کوئی دس منٹ بعد وہ آئی اور کہا چلو اس نے آسمانی کلر کا ایک سوٹ پہنا تھا جس میں وہ کوئی آسمانی حورہی لگ رہی تھی ہم جیسے ہی باہر آئے تو دیکھا موسم بہت کمال کا ہو گیا تھا آسمان پے اب بادل چھا رہے تھے اور تیز ہوا نے موسم کو ایک دم سے بدل دیا تھا اب ہم گاڑی میں بیٹھے اور باہر آئے پھر وہ بولی شارق آؤ آج میں آپ کو ایک جگہ لے کر چلتی ہوں پھر وہ مجھے راستہ بتانے لگی اور میں ادھر ہی جانے لگا اب ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی تھی پھر ہم شہر سے باہر کی طرف آ گے اب وہ مجھے ایک فارم ہاؤس پے لے آئی جہاں کوئی نہیں تھا وہ بولی یہ میرے شوہر کا ہے اب اس نے اپنے پرس سے چابی نکالی اور نیچے اتر کے گیٹ کھولا میں اب گاڑی اندرلے آیا وہ بولی یہاں ہر وقت دو ملازم ہوتے ہیں لیکن آج وہ اپنے گاؤں گۓ ہیں چابی مجھے گھر میں دے گۓ تھے اب میں بھی گاڑی کو پارکنگ میںکھڑا کر کے نیچے اترا اب ہلکی پھوار نے موسم کو جیسے بہت رومانٹک کر دیا تھااب میں اور وہ اندر عمارت میں داخل ہوئے یہ فارم ہاؤس کوئی دو ایکڑ میں ہو گا اب وہ مجھے لئے ایک سجی ہوئی خواب گاہ میں لے آئی اس نے کہا بیٹھو جناب میں ذرا چاۓ رکھ آؤں میں نے اب کی بار اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا نہیں میں چاۓ نہیں پیوں گا وہ بولی تو میں نے کہا دودھ وہ بولی لیکن دودھ تو ملک پیک ہے میں نے کہا میں فریش پینا چاہتا ہوں وہ بولی لیکن وہ کہاں سے آئے گا اب پھر اچانک میری نظر اپنی چھاتی پے دیکھ کر وہ میری بات سمجھ گئی اور ایک ادا سے کہا چلو کام کرو میں نہیں پلاؤں گئی اور ساتھ ہی وہ مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کے باہر بھاگ گئی اور میری طرف دیکھ کر اپنی زبان نکل کےمجھے چرانے لگی مجھے اس کی اس ادا نے دیوانہ کر دیا میں بھی اب اس کے پیچھے ہی باہر کی طرف آیا اب بارش کچھ تیز ہو گئی تھی وہ مجھے دیکھ کر اور بھی آگے کو بھاگی اور میں اس کے پیچھے تھا پھر وہ لان میں باغیچے کی طرف آئی اور کہا شارق کیا ہے کیوں نہیں پکڑ پا رہے نہاب میںنے ایک بار اسے دیکھا اور کہا لو پھر اب بچو اور اسے ایک چھلانگ لگا کے دبوچ لیا اب ہم دونوں ہی فل بھیگ گے تھے بارش میں وہ اب میرے ہاتھوں میں آتے ہے خود کو چھڑانے لگی میں نے اب اسے زور سے اپنے بازوؤں میں لیا ہوا تھا اور وہ نہیں چھڑا پائی اب اس کی اس زور آزمائی سے اس کی سانس پھول گئی اور وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی اب اس نے اپنی نشیلی آنکھیں اوپر کیں اور کہا مجھے چھوڑ دو شارق میں نے کہا کیوں چھوڑوں اب میں نے آہستہ سے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں کی طرف لے جانے لگا اس کے چہرے پے بارش کی بوندیں چمک رہی تھیںاب کی بار میں نے اس کے ہونٹوں کے بلکل پاس اپنے ہونٹ لے جاکر سرگوشی کی آمنہ ان ہونٹوں سے کچھ شبنم چڑا لوں اب اس کی سانسیں اور میری سانسیں آپس میں مل رہی تھیں اس نے لرزتی آواز میں کہا شارق مجھے چھوڑ دو نہ میں نے اب اپنے ہونٹ اس کی گالوں پے رکھے اور وہاں سے بارش کے قطرے چاٹنے لگا اس نے مجھے زور سے اپنی بانہوں میں دبا لیا میں نے دھیرے دھیرے سے آمنہ کے سارے چہرے سے بارش کے قطروں کو چاٹا بارش مسلسل ہو رہی تھی منا جتنا چاٹتا اتنے ہی اور آ جاتے اب تو آمنہ کی سانسیں بہک رہی تھیں اس کا جسم میرے بازوؤں میں کانپ رہا تھا اب میں نے اسے نرمی سے اپنے بازوں میں اٹھایا اور گلاب کے پھولوں کے جھنڈ کے پاس لے آیا اسے نرمی سے نیچے گھاس پے لٹایا اور اس کے ساتھ خود بھی لیٹ گیا وہ اب میری طرف دیکھ کر بولی شارق مجھے اندر جانے دو نہ میں نے اب کی بار ایک گلاب کا پھول تہنی سمیت توڑا اور اسے اس کی گالوں پے پھیرنے لگا وہ ایک دم سے لرز گئی اور کہا شارق مت کرومیں نے اب اس کے ہونٹوں پے پھول کو رکھا اور ہلکے سے وہاں پے پھول سے مساج کرنے لگا اب کی بار وہ تڑپ گئی اور کانپتی آواز میں کہا شارق چھوڑ دو نہ مجھے میں نے اب پھول کو اس کے ہونٹوں سے نیچے لایا اس کی گردن پے پھیرتا ہوا اس کی چھاتی کی طرف آیا وہ اب اپنے کانپتے ہاتھ سے میرے ہاتھ کو پکڑ کے بولی نہیں شارق نہ کرو مجھیجننے دو نہ میں نےاسکی آنکھوںمیں دیکھا جو اس کے لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھیںاب میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے چوما اور اسے ایک طرف کر دیا اب میں نے اس کی چھاتی سے دوپٹہ ہٹایا اور اب میں نے دیکھا اس کی تھوڑی سے پانی کی ایک لکیر سی بہ کر اس کی چھاتی کی طرف آئی جیسے ہی وہ گریبان میں داخل ہونے لگی میں نے اسے اپنی زبان سے چاٹ لیا میری زبان کے لمس نے تو جیسے پانی میں آگ لگا دی وہ ایک دم سے تڑپی اور ایک سسکی آمنہ کے ہونٹوں سے چھوٹ گئی سسسسسسسس شارق اب میںنے وہ گلاب لیا اور اسے اس کی گردن سے لے کر آھستہ سے پھیرتا ہوا اس کی چھاتی پے آیا اور وہاں سے بھی اسے پھیر کے میں پیٹ تک آیا پھر اس کے پاؤں تک پھول کو پھیرا مجھے ایک ایسا لگ رہا تھا جیسےمیں ایک پھول کو پھول سے مساج کر رہا ہوں اب میں اس کے ساتھ خود بھی لیٹ گیا اور کروٹ لے کر اپنی ایک ٹانگ اس کی ٹانگوں پے رکھ دی اب میرے ہونٹوںنے آمنہ کے ہونٹوں سے سرگوشیاں کرنا شروع کر دیں میں بہت نرمی سے اس کے ہونٹ چوس رہا تھا اور میرے ہاتھ اسکی کسی ہوئی چھاتی کی پیمائش لے رہے تھےاب کی بار آمنہ نے کہا شارقہائےمجھے کچھ ہو رہا ہے مت کرو نہ میںنے اب کی بار اپنا ہاتھ اس کے پیٹ پے رکھا اور وہاں سے ہاتھ سے مساج کرنے لگا پھر اس کے پیٹ سے نیچے آیا اس نے ایک دم سے میرا ہاتھ پکڑ کے کہا شارق اسے مت ہاتھ لگانا میں جل جاؤں گئیں اب آمنہ یوں سانس لے رہی تھی جیسے وہ بہت دور سے بھاگتی ہوئی آئی ھو اب میں نے اس کے ہونٹوں کو شدت کے ساتھ چوسنا شروع کر دیا کچھ ہی در بعد آمنہ بھی اب میرا ساتھ دینے لگی اس نے اپنے ہاتھوں سے میری گردن کو پکڑا اور میرا ساتھ دینے لگی ہونٹ چوسنے میں میں نے اب اپنے ہاتھوں کی گستاخیاں جاری رکھیں اب کی بار میں دوبارہ اس کی چوت کی طرف اپنا ہاتھ لے گیا اب اس نے کچھ نہ کہا اور میں اس کی چوت کو سہلانے لگا وہ اور بھی مچل کے میرے ہونٹ چوسنے لگی اب میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالی اور وہ اسے چوسنے لگی میں اس کی چھاتیاں مسلتا رہا اب اس کی چھاتی کے نپلز فل تن گۓ تھے پھر کوئی دس منٹ تک میں نے اسے ہونٹوں سے چوما تو وہ بولی شارق میں جل گئی ہوں میں اب اس کی تھوڑی کو چومتا ہوا نیچے آنے لگا پھر اس کی چھاتی کی کلیوج کو میںنے چوما اور اپنی زبان اس کے گریبان میں ڈالی وہ ایک دم سے سسکی افففف شارق میں نے اب اسے کپڑوں کے اوپر سے ہی اس کی چھاتی کو چوما اب اس کی نپل کو اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگا وہ اب سسکیاں لے رہی تھیآہ آہ آہ شارق سسسسس اف ف میںنے اب دوسری نپل کو بھی یوں ہی چوسا اور نیچے پیٹ پے آیا وہاں سے ابمیں نے ہلکے سے آمنہ کی کمیض کو ایک طرف ہٹا کے اس کا پیٹ ننگا کیا اف کیا سڈول اور گورا پیٹ تھا آمنہ کا میںنے اب اس پے اپنے ہونٹ رکھے اور اسے چومنے لگا آمنہ کی اب آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور وہ مزے سے آہیں بھر رہی تھی میننےاُسکے پیٹ پے اچھے سے اپنی زبان پھیری اور اب ہلکے سے اس کی کمیض کو اور اوپر کیا اور اس کی چھاتی کا برا نظر انے لگا میں نے اب چھاتی کے نیچے والی جگہ پے اپنی زبان پھیری اورچاٹنے لگا وہ اب مچل رہی تھی میں نے اب کی بار اس کی چھاتی سے کمیض کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن وہ ٹانگ تھی میں نے نرمی سے اس کی کمر کے نیچے ہاتھ ڈالا اور آمنہ کو اوپر کیا اب اس کی کمیض آرام سے اتر گئیاب میرے سامنے آمنہ کی چھتیس سائز کی چھاتی سکن کلر کے برا میں پیک تھی اب میںنے اسے برا سے اپر سے ہی چومنے لگا آمنہ کا بدن ایسے تھا جیسے وہ دھودھ اور میدے سے بنی ھو اب مزے سے بیتاب ہو کر آمنہ نے میرے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی میں نے اب اس کی برا کو اوپر کیا اور اس کی تنی ہوئی نپل کو اب چوسنے لگا اب بارش کافی تیز ہو گئی تھی اس نے اپنی آنکھیںبند کر لیں تھیں اور پانی اب سپیڈ سے اس کی چھاتی پے گر رہا تھا اسے کچھ ہلکا سے درد بھی ہوا لیکن وہ درد بھول کر مزہ لے رہی تھی میں نے اب برا اتار کے اس کی چھاتی پے دوبارہ سے گلاب کا پھول لیا اور پھیرنے لگا اب جیسے ہی میں نے اس کی چھاتی کی نپلز پے پھول کو پھیرا وہ اب مزے سے چلا اٹھی ہ اف ف ف ف ف م شارق میں نے اب پھول کو ویسے ہی پھیرتا رہا اور اب نیچے اس کے پیٹ پے آیا وہاں بھی اس کی ناف پے میں نے پھول کو نرمی سے پھیرنے لگا وہ اب مسلسل مچل رہی تھی شارق اوہ میرے شارق میں مر گئی میں نے اب اس کی شلوار کو نیچے کیا اور اس کی ٹانگوں میں بیٹھ کر پھول کو آمنہ کی چوت پے رگڑنے لگا وہ اب اپنا سر پٹخ رہی تھی مزے سے کوئی تین منٹ بعد میںنے ایسے ہی کیا اب ساتھ میں اپنی زبان بھی وہاں پے پھیرنے لگا وہ یہ دو طرفہ رگڑ برداشت نہ کر سکی اور اس کی چوت نے بھی برسات میں ہی برسات کر دی اب وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی میں نے اب دوبارہ سے اوپر آ کر اس کی چھاتی کو چوسنے لگا اب کی بار وہ میری کمر پے ہاتھ پھیرنے لگی اور ساتھ میں اس نے میری شرٹ کے بٹن کھولے اور میری شرٹ اتار دی میں اب صرف پینٹ میں تھا اب اس کا ہاتھ میری پینٹ پے گیا اس نے وہ بھی کھول کر اتار دی اب میںنے اپنی ٹانگوں سے بھی پینٹ کو اتارا اور اب میں صرف انڈر ویر میں تھا میں اب اس کی چھاتی کو مزے سے چوستا جا رہا تھا اور اس کی گلابی نپلز بہت ٹائٹ ہو گۓ تھے اب آمنہ نے کہا شارق پی لو جتنا بھی دودھ پیناہے میرے سوہنے میں اب مسلسل اس کی چھاتی کو چوستا جا رہ تھا اب آمنہ نے میرا انڈر ویر بھی نیچے کیا میںنے اب وہ بھی خود ہی سارا اتار دیا اب اس نے اپنے ہاتھوں سے میرے لان کوپکڑا اور بولی باپ رے اتنا بڑا میں نے اب اس کی چھاتی کو چوستا ہوا اوپر ہونٹوں پے آیا اور ہونٹ چوسنے لگا اب وہ مزے سات تڑپ کے بولی شارق اب بس کرو مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا اب اس نے مجھے اپن بانہوں میں لیا اور کروٹ بدل کے میرے اوپر آ گئی اب اس نے میرا لان اپنے ہاتھوں میں یوں پکڑا جیسے وہ کسی بہت نایاب چیز کو چھوڑ رہی ھو اب اس نےاسے اپنے منہ میںلیا اور چوسنے لگی آمنہ نے بہت مزے سے مرالن کوئی تین منٹ تک چوسا اور اب میں نے اسے پکڑ کے ایک طرف کیا اور اس کی ٹانگوں میں آ کر بیٹھ گیا اپنا لان اس کی چوت پے فٹ کیا آمنہ کو کمر سے پکڑکے اوپر اٹھایا اور لان کو اندر کر دیا وہ ایک دم سے چیخ اٹھیآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ شارق میری جان میں مرگئی میںنے اب ہلکے سے لان باہر نکالا اور دوبارہ اندر کیا وہ اب سسک کے بولی شارق دھیرے دھیرے سے جانو اپ کا کافی موٹا اور لمبا ہے میرے شوہر سے مجھے کافی درد ہو رہا ہے اب میں نے کچھ نرمی سے اندر باہر کرنا شروع کیا اور اب وہ مزے سے آہیں بھر رہی تھییاہائے ہائے ہائے شارق مجھے بس ایسے ہی چودو میرے دوست اور میں نے اب اس کے اوپر جھک کر اس کے ممے چوسنے لگا وہ میرے بازوؤں میں تھی کیوں کے نیچے گھاس پے اس کے کومل بدن کو خراشیں آ جاتیں میرے دھکوں سے میں اب کچھ تیز ہوا اور اس نے بھی اب میری گردن میں بازو ڈال لئے اور میرا ساتھ دینے لگی نیچے سے اپنی گانڈ کواوپر اٹھا کر اب میں نے اسے ایسے ہی اپنے ساتھ لگے رکھا اور اٹھا کھڑا ہوا پھر میںنے ایک طرف ایک بنچ کو دیکھ اور اسے لے جا کر اس بنچ پے لٹایا اب آمنہ نے اپنی دونوں ٹانگیں زمین پے رکھیں دیںبنچ کی دونوں طرف میں اب اس بنچ پے بیٹھا اور آمنہ کی ٹانگوں کے نیچے سے اپنی ٹانگیں آگے کیں اب اس کی ٹانگیں میری رانوں سے نیچے لٹک رہی تھیں اور میں نے لن اندر کر کے اسے چودنا شروع کر دیا اب وہ مزے بھری آواز میں چلانے لگیآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م مر گئی شارق میں اب زور زور سے اپنے کولہے ہلا کر لان کو نڈر باہر کر رہا تھا چوت کے اور میرا اپر والا جسم نہیں ہل رہا تھا ساتھ میں اب اس کے ممے بھی دبانے لگا تھا میں کوئی چار منٹ تک اسس سٹائل میں اسے چودہ اب وہ لرزتی آواز میں بولی شارق میں بس چھوٹنے والی ہوں میں نے کہا چھوٹ جاؤاور ساتھ ہی اپنے دھکوں کی سپیڈ کچھ اور تیز کی پھر آمنہ ایک زور داروہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے چیخ کے ساتھ ہی چھوٹ گئیمیںنے بنا رکے اپنے دھکے جاری رکھے اب کی بار آمنہ نے کہا شارق اب یہاں پے بہت درد ہو رہا ہے پلیز دوست کچھ دیر رک جاؤ میںنے اپنا لن اس کی چوٹ سے نکالا اور کھڑا ہو گیا اسے بھی بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اپنی بانہوں میں اٹھا کے اسے ایک طرف ماجود درختوں کی طرف چلا گیا اب اسے ایک سفیدے کے درخت کے پاس کھڑا کیا اور کہا اس کے گرد اپنے بازو ڈال لو اس نے ایسا ہی کیااب میںنے اس کے پیچھے جا کر اس کی ایک تنگ اپنے ہاتھ میں پکڑی اور کچھ اوپر اٹھا کر اپنا لن اس کی گانڈ کے سوراخ پے رکھا وہ ایک دم سے خوفزدہ آواز میں بولی شارق یہاں نہیں پلیز یہ پھٹ جاۓ گئی میں نے کہاکچ نہیں ہو گا اسے اب بارش کا زور ٹوٹ گیا تھا لیکن ابھی تک ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی میںنے اب اپنا لن امن کی گانڈ میں فٹ کیا اور ہلکے سے دھکے سے کچھ اندر کیا وہ ایک دم سے چلائیاوہ اوہ اوہ آوچ یاہ مر گئی میں بہت درد ہے شارق یہاں سے نکال لو جانو اب میں نے اس کی گردن پے کس کی اوراس کی ٹانگ جو اٹھا رکھی تھی وہ بھی چھوڑ دی اب اپنے ہاتھوں سے آمنہ کے ممے دبانے لگا کوئی دو منٹ بعد جب دیکھا اب وہ ٹھیک ہے تو ایک اور ڈھاکہ دیا میرا لن اب آدھا اس کی گانڈ میں تھا وہ اب کی بار تو درد سے بلبلا اٹھی شارق آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف میںنے کہا دوست بس تھوڑی دیر میں ہی مزہ آنے لگے گا اب میںنے اتنا ہی رکھا اور اسے اندر باہر کرنے لگا دومنٹ بعد ہی وہ مزے سے سکیں بھرنے لگی میں اب سمجھ گیا اسے مزہ آنے لگا ہے میںنے اب کچھ دیر یوں ہی اسے چودا پھر ایک آخری دھکا مارا اور میرا لن سارا اب آمنہ کی گانڈ میں تھا وہ اب دوبارہ سے چلانے لگی تھی میں اب ویسے ہی روکا رہا اسے چومتا اور ممے دباتا جا رہا تھا پھر وہ بولی اب کرو اندر باہر میں نے اب ہلکے سے اندر باہر کرنے لگاپھر کوئی تین منٹ بعد میںنے اپنی سپیڈ بڑھا دی اور وہ اب میرا ساتھ دینے لگی اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکے دے کر پھر کوی پانچ منٹ بعد اس کی چوٹ نے دوبارہ سے پانی چھوڑا اور وہ بولی شارق اب یہاں سے نکال کے آگے ڈال لو جان میں نے اسے اب سیدھا کیا اور اپنے بازوں میں اٹھا لیا اب اس نے اپنے ہاتھوں سے اوپر کی طرف ماجود ایک تہنی پکڑ کے لٹک سی گئی اور میں نے اس کی گانڈ کے نیچے اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور لن اس کی چوٹ میں ڈال کے زور زور سے دھکے مرنے لگا وہ مزے سے اب تڑپ رہی تھی شارق اف ف ف ف سسسسسسس مر گئی آج میں توہائے ایسے ہی چودو مجھے جان میں اور زور سے دھکے مارنے لگا پھر وہ مزے سے اب تڑپ رہا تھی میں نے اب اس کی بغلوں میں اپنی زبان کو پھیرنا شروع کیا وہ ایک دم سے تڑپ کے بولی شارقاف ف ف ف ف م م م م م م گئی شارق میں اب اس کی بغل کوچاٹنے لگا اور وہ سسکنے لگی یوں میرا لن اب زور زور سے آمنہ کی چوت میں جا رہا تھا اور وہ مزے سے مچل رہی تھی پھر کوئی پانچ منٹ بعد اس نے کہا شارق میں آگئی میں نے بھی محسوس کیا میں بھی اب آنے والا ہوں تو اسے اور زور سے دھکے مارنے لگا پھر اس نے ایک زور دار جھرجھری لی اور ساتھ ہی اسکے ہاتھوں سے ٹہنی نکل گئی میںنے وسیب اپنے بازوں میں سنبھال لیا اور وہ میری گردن پے ہاتھ ڈال کے مجھ سے لپٹ گئی میں مر جاؤں میرے یار نے مجھے آج وہ مزہ دیا ہے جو کبھی نہیں آیا اور ساتھ ہی وہ چلا اٹھیآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ میں گئی شارق اب میرے لن نے بھی پچکاریاں مارنی شروع کیں ہم دونوں ایک ساتھ ہی فارغ ہو گۓابمیں نے اسے اپنے ساتھ زور سے چمٹا لیا اور ہم ایسے ہی چمٹے ہوئے اب اندر جانے لگے اندر کمرے میں جا کر آمنہ جیسے اوندھے منہ گر گئی بیڈ پے وہ چار دفع فارغ ہوئی تھی اب میں بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا اس نے میری طرف دیکھا اور شرما کے نظر جھکا لی میںنے اب اسکی جھکی نظروں کو کس کیا اور کہا آمنہ لو یو وہ میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی لو یو ٹو میری جان اور مجھ سے لپٹ گئی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں زور سے بھرا ہوا تھا اور ہماری ٹانگیں اب ایک دوسرے کی ٹانگوں سے گھتم گتھا ہو گئیں تھیں اب آمنہ نے اپنا سر میرے سینے سا لگا لیا اور میری بالوں سے بھرے سنے میں انگلیاں پھیرنے لگی شارق مجھے کبھی مت چھوڑنا دوست کبھی کبھی ہفتے میں کوئی شام میرے نام بھی کر دیا کرنا اور پھر ہم یوں ہی باتیں کرتے ہوئے سو گۓمیری آنکھ تب ہی خلجب مجھے آمنہ نے ہلایا اور کہا دوست دس بج گۓ ہیں وہ نہا کے باہر نکلی تھی اس کے ننگے بدن پے پانی کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے میں اٹھا اور اسے بھی اپنے ساتھ ہی واش روم لے گیا میں نے اب شاور کھولا تو نیم گرم پانی میرے اوپر گرا میں نےاسے بھی اپنے ساتھ ہی پکڑ کے شاور کے نیچے کیا اب اس نے مجھے بھی زور سے اپنے بازوں مین جھکڑ کے کہا جانو کیا موڈ ہے میں نے اس کےہونٹ چھونے لگا اور ساتھ میں اس کے ماموں کو بھی دبانے لگا اب وہ بھی اب میرے لن کو ہاتھ میں لے کر سہلانے لگی میں نے کافی دیر اس کے ممے دباۓ وار پھر اتنی دیر میں میرا لن بھی تن گیا تھا اب میں نے نیچے بیٹھ کر اس کی چوت سے اپنا منہ لگا کے چوت کو چاٹنے لگا وہ ایک دم سے تڑپ کے بولی اوئی ماں شارق اور میرے سر کو اپنی چوت میں دبانے لگی میںنے بھی اب جی بھر کے اسکی چوت کو چٹا اور چوسا اب اس نے مجھے بازو سے پکڑ کے اپر کیا اور نیچے بیٹھ کے میرا لن چوسنے لگی کوئی پانچ منٹ تک اس نے لن کو مزے سے لولی پوپ کی طرح چوسا اب اسے میں نے کھڑا کیا اور اس کے پیچھے جا کر اس کی دونوں ٹانگیں چوڑی کر کے پھیلا دیں اب خود بھی اپنے گھٹنوں کو کچھ موڑا اور اپنا لن اس کی چوت میں فٹ کر کے ایک زور دار دھکا مارا آمنہ ایک دم سے چلا اٹھیآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ مر گئی اب میںنے یوں ہی زور زور سے دھکے مارنے لگا اور وہ مزے سے اور درد سے آہیں بھرنے لگی اب اس نے مضبوطی سے شاور کو پکڑا رکھا تھا اور ہم دونوں ہی نیم گرم پانی میں بھیگ رہے تھے اور وہ مزے سے سسکیاں بھر رہی تھی پھرمیں نے کوئی بیس منٹ یوں ہی آمنہ کو چودا اب ہم دونوں ایک ساتھ ہی فارغ ہو گۓ اب ہم نے ایک دوسرے کو اچھی طرح مل مل کے نہلایاپھر باہر آ کر کپڑے بدلے اب اس نےکہا شارق آپ جاؤ میں خود ہی ڈرائیور کو بلا لوں گیں میں اب وہاں سے اپنے گھر کی طرف آیا اور آتے ہی اپنے کمرے میں گیا سیدھا اپنے کپڑے بدلے اور داور کمال والی ثبوت نکالے اب میں نے ان کو اچھے سے پڑھا اور پھر بھابھی شفق میرے کمرے میں آئی ناشتہ لے کر میں نے کہا میرا تو من کر رہا ہے آج تازہ دودھ پیوں وہ میری بات سمجھ کے شرما سی گئیں اور بولی بہت بے شرم ہوتے جا رہے ھو اب آپ پھر میں اپنی فائل کو پڑھنے میں مگن ہو گیا تو والدہ صاحبہ اب میرے کمرے میں آگیں ان کے ساتھ ہی بھائی طارق بھی تھے میں نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اب والدہ صاحبہ نے کہا کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے اب بھابھی شفق نے کہا یار چھوڑ دو اب اس فائل کی جان میں نے کہا بھابھی کچھ دیر بس وہ با منی تو میںنے کہا چلو آپ ایسا کرو اپنے ہاتھوں سے مجھے آج ناشتہ کرا دو بھائی طارق نے ہنس کے کہا آج پھر سے بچا بننے کو دل کر رہا ہے اب بھابھی شفق نے مجھے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کرایا اور میں ساتھ میوں فائل کوپڑھتا جا رہا تھا اب فائل کو ختم کیا اور کہا بھائی طارق آج فوجی عدالت میں داور کمال کی پیشی ہے وہ چونک کے بولے اچھا اب والدہ صاحبہ نے کہا شارق طارق کی پرموشن ہو گئی ہے بیٹا اسے یہاں سے ٹرانسفر کیا جا رہا ہے بھائی طارق نے کہا مجھے ڈی پی او اسلام آباد لگا دیا گیا ہے میںنے آئی جی سے کہا ہیمجھے دس دن کی چھٹی دی جاۓ جو منظور ہو گئی ہے میں ایک دم سے اداس سا ہو گیا لیکن خوش بھی تھا اسلام آباد کا ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بننا سب کی ہی خوائش ہوتی تھیمیںنے کہا اچھی بات ہے بھائی مبارک ھو اب والدہ صاحبہ نے کہا میں نے اسے کہا ہے شفق کو ابھی نہ لے کر جاۓ تو بھائی طارق نے کہا وہ نیئی جگہ ہے ابھی شفق یہاں ہی رہے گی اب وہ سب میرے روم سے چلے گۓ میں بھی اٹھا اور باہر آیا ڈیڈی تو نواب سلطان کے ساتھ باہر گۓ تھے اور باقی لوگ بھاب بازار جانے کی تیارکر رہے تھے میں اپنی گاڑی میں بیٹھا اور باہر نکل آیا


میں اب سیدھا اپنے ہیڈ کواٹر کی طرف چل دیا یعنی کے پورانی حویلی میں وہاں جا کر میں نے خفیہ راستہ اوپن کیا اور اندر چلا آیا آگے ہی میرے استقبال کے لئے سب ہی کھڑے تھے اب ایک لڑکے شہباز نے کہا باس ویل کم میں نے کہا کیسےہیں آپ سب لوگ وہ بولا باس سب ہی ٹھیک ہیں اب میں نے کہا میںنے آپ لوگوں سے کہا تھا داور کمال کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے ہیں وہ بولا باس سب حاضر ہے ظفری نے کہا تھا آپ کو جب بھی ضرورت ہو گی آپ مانگ لو گے پھر وہ مجھے ایک کمرے میں لے آیا اور اس نے میرے سامنے ایک بریف کیس رکھا اور کہا باس اس میں ہیں وہ ریکارڈنگ وغیرہ پھر اس نے مجھے ایک ایک ڈیسک چیک کرانی شروع کر دی میں وہ دیکھ کر بہت خوش ہوا ابمیں نے دل میں ہی اپنی آنے والی کامیابی سے خوش ہو رہا تھاپھر میں وہاں سے سیدھا اپنے آفس آیا اور وہاں پے ماجود کمپیوٹر سے ساری ڈسکوں کو ایک دفع چیک کرنے کے بعد اس میں سیف کر دیں اب میں نے وہاں ہی بیٹھ کر اچھے سے تیاری کی رات کے لئے اور جب میں نے دیکھا اب وقت کم ہے تو میں اپنے گھر آیا ایک دفع نہا کر فریش ہوا اور لباس بنڈل کے کرنل عثمان کے گھر چل دیا وہاں پےجا کر میں اندر گیا تو بھابھی نورین نے ہی میرا استقبال کیا اور کہا عثمان شاور لے رہاہے اب وہ میری طرف دیکھکر بولی اور سنو کیسےھو میں نے کہا پہلے جیسا ہی ہوں بھابھی جی وہ بولی اچھا جی اب اس نے کہا کائنات بہت تعریف کرتی ہے آپ کی دیور جی اب کی بار میں نے کہا کس بات کی تعریف اب بھابھی نورین کچھ شرما سی گئی اور کہا کچھ نہیں اب میں سمجھ گیا اسے سب پتا ہے اب میں نے اسے ایک بار بہت غور سے دیکھا وہ ایک نارمل قد کی کافی گوری چٹی لڑکی تھیجس کی چھاتی کافی بھاری تھی اور اس کی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی پیٹ بہت ہہی کم تھا اس کا مجھے اس کا فگر اچھا لگا اب کی بار وہ بولی یہ آج میرا نظروں سے ہی ایکسرے کس خوشی میں ہو رہا اب میں نے بنا جھجھکے کہا دیکھ رہا ہوں میری بھابھی کیسی ہے وہ اب کی بار بولی وہ کیوں جی اب میں نے کہا بھابھی کبھی موقع دو آپ کو سب بتا بھی دوں گا اور سمجھا بھی دوں گا پھر ساتھ ہی کہا لگتا ہے کرنل صاحب دودھ بہت شوق سے پیتے ہیں اب میں نے اس کی بھاری چھاتی کی طرف دیکھ کر کہا وہ سمجھ گی میری بات اور ایک ڈیم سے شرما کر اسنے اپنی چھاتی کو ڈوپٹے سے ڈھانپ لیا اور بولی بہت بےشرم ھو آپ سچ میں کائنات سہی کہتی ہے میں نے کہا کبھی کسی بےشرمی کا موقع دو آپ بھیاب تو بھابھی نورین تو جیسے پتھر کی ھو گئی ھو وہ چپ رہی میں اب اٹھا اور چاروں طرف دیکھ کر اس کے پاس گیا وہ میرے سامنے والی صوفے پے ہی بیٹھی تھی میںنے اس کی بھاری چھاتی کو اپنے ہاتھوں میںلیکر ہلکے سے دبایا اور کہا واہ کیا کمال کی چھاتی ہے اور پھر اس کے ہونٹوں پے ایک کس کی اور واپس اپنی جگہ آ کر بیٹھ گیا وہ اب جیسے کانپ رہی تھیں ان کا چہرہ شرم سے لال ہو گیا تھا شارق بہت بد تمیز ھو آپ بیوقوف اگر کوئی دیکھ لیتا تو اب میں سمجھ گیا تھا وہ خود مجھ سے چدوانا چاہتی تھی میں نے کہا تو پھر کسی ایسی جگہ چلو جہاںکوئی نہ دیکھنے والا ہو اب کی بار اس نے ایک مسکراہٹ میری طرف پھینکی اور کہا جب دل کرے لے جانا لیکن پلیز گھر میں کبھی مت ایسی حرکت کرنا یہاں ہر طرف کیمروں کا جال سا بچھا ہے آج تو شکر ہے اس کمرے والا کیمرا جل گیا تھا کل اور وہ ریپئر ہونے گیا ہے ورنہ غضب ہو جاتا میں نے اب کہا تو پھر آپ تیار رہنا کل وہ بولی ہان کل ٹھیک ہے کیوں کے کل عثمان نے کراچی جانا ہے دو دن کے لئےاب ہم اپس میں بات چیت کر رہے تھے کے اندر سے عثمان کی آواز آئی نورین جلدی کرو مجھے ناشتہ دو شارق آنے ہی والا ہو گا میں نے کہا بھائی جی ہم آ گ
ۓ ہیں آپ جلدی کریں وہ اب بولا اف ف میں ابھی بس آیا اور کہا نورین باہر ہی ناشتہ لگا دو ہم وہاں ہی کریں گے پھر میں نے عثمان کے ساتھ ناشتہ کیا اور ہم اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چل دئیے اب کرنل عثمان کی جیپ ایک بہت بڑی عمارت میں داخل ہوئی جہاں ہر طرف فوج کے جوان چوکس کھڑے تھے اب ہم کو کوئی بھی سخت تلاشی کے بعد ہی اندر جانے دیا گیا پھر میں ایک بہت بارے حال نما کمرے میں آیا جہاں ایک عدالت بنی ہوئی تھی وہاں اب سامنے کی کرسیوں پر کوئی پچاس لوگ بیٹھے تھے جن میں زیادہ تر آرمی کے لوگ تھے اور بیس کے قریب وکیل تھےمیری نظرصدر سپریم کورٹ بار آغا کمال پے گئی وہ سب وکیلوں کے درمیان یوں بیٹھ تھا جیسے وہ کوئی بادشاہ ہے اس کے دائیں اور بائیں دو نوجوان وکیل لڑکیاں بیٹھی تھیں جن سے وہ ہم کلام تھا اب ہم بھی جا کر بیٹھ گۓ اب کی بار عثمان سے اسکے کولیک افسر تفصیل پوچھنے لگے وہ سب کو بتانے لگا میرے بارے میں اتنے میں پچھلے دروازے سے ایک میجر باہر آیا اور کہا جنرل صاحب تشریف لا رہے ہیں اب سب ہی کھڑے ہو گۓ اب اندر سے جنرل حمزہ بیگ اور جسٹس سپریم کورٹ آفتاب علی خان اندر داخل ہوئے وہ دونوں ہی وہاں ماجود اونچی کرسیوں پے بیٹھے اور اپنے آگے رکھی فائل پڑھنے لگے اب کی بار جنرل صاحب نے کہا آغا کمال صاحب اب آغا کمال اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے سامنے چلا گیا اب کی بار جسٹس صاحب نے کہا اب سرکاری وکیل کون ہیں میں اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا جناب میں ہوں بیرسٹر شارق حسین شاہ اب کی بار جسٹس اور جنرل دونوں نے ہی مجھے ایک نظر گھور کے دیکھا اب آغا کمال نے کہا جناب کیا اجازت ہے کاروائی شروع کرنے کی تو جسٹس صاحب نے کہا شروع کریں اب ایک بیل بجھا دی جنرل صاحب نے اور پھر ایک میجر اور ساتھ میں کوئی دس فوجی اندر داخل ہوئے داور کمال کو اپنی حراست میں لئے ہوئےان کے ساتھ پیر سراج اور سیٹھ برکت اور ملک کامران بھی تھا لیکن وہ حراست میں نہیں تھےاب آغا کمال نے کہا جناب مجھے آج تک اپنے ملک کے قانون کی سمجھ نہی آئی اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والی اداروں کی ہمیشہ سے اور ہر دور میں صرف انہی لوگوں کو کیوں اپنا نشانہ بنایا جاتا ہے جو اپنی زندگی اپنے ملک اور قوم کے لئے وقف کر چکے ہوتے ہیں آج بھی یہ شرم ناک واقعہ ہے ھمارے سامنے داور کمال صاحب جیسے لوگ جن کو دولت ہی عوام کے کام آتی ہے ان کے زیر نگرانی کوئی چالیس ادارے چل رہے ہیں یہ ان کی تفصیل ہےیہ دیکھیں اب آغا کمال کی ساتھ لڑکیاں ہاتھ میں فائلز کا پلندہ پکڑے اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گیں اس نے ایک فائل نکالی اور ججز کے سامنے رکھی جناب یہ اندھے لوگوں کے لئے ایک ہسپتال ہے جو چوبیس گھنٹے فری علاج کرتا ہے یہ دوسری فائل بیوہ عورتوں کے نام پے ایک ہوسٹل ہے یہ تیسری فائل یتیم بچوں کے لئے بنی ایک یتیم خانے کی ہے یہ چوتھی فائل یتیم اور بے گھر لا وارث نوجوان لڑکیوں کی شادی کرنے کے لئے ایک تنظیم کی ہے اور پھر اسنے وہ سب فائلز ایک ہی دفع سامنے رکھ کے کہا ان سب کو جناب ایک نظر بس دیکھ لیں اور اب ججز حضرت وہ ساری فائلز کو دیکھنے لگے اور کوئی دس منٹ تک خاموشی رہی اب کی بار جب وہ ساری فائلز چیک کر لیں ججز نے تو آغا کمال بولاجناب ان سب کے روح رواں ہے جناب داور کمال صاحب اور یہ سب کرنے اچھے کام کرنے کا ہماری حکومت نے ان کو کیا اچھا انعام دیا ہے جناب غدار وطن کا خطاب دے ڈالا کمال ہی ہو گیا یہ تو میں اب پوچھتا ہوں ان اداروں سے کیا یہ سب ملک و قوم کی خدمات کرنا ان کا گناہ ہو گیا تھا یا یہ آج کے حمکرانوں کو ان کی مقبولیت ہضم نہیں ہوئی ایسا کون سا گناہ ہو گیا تھا ان سے صرف ایک چھوٹے سے وکیل جس کو ابھی وکالت میں الف بے بھی نہیں آتی اس کے کہنے پے یہ ساری کاروائی ہوئی جو اتفاق سے خود بھی ماجود ہیں اور ان کے بھائی طارق ایس پی نے ہی یہ سب کیا ہے ان کو کون سی عداوت تھی اس معزز انسان سے مجھے اس کا جواب دیں گیں آپ مسٹر شارق حسین شاہ صاحب آغا نے بہت ہی مغرور لہجے میں میرا نام طنزیہ طور پے لیا اور اب تو میں بھی جیسے اندر سے ہی غصے میں آ گیا تھا اب کی بار دونوں ججز نے کہا کیا جواب ہے آپ کے پاس ان سب باتوں کا شارق صاحباب کی بار میںنے بہت سرد لہجے میں کہا جناب میرے پاس ہر بات کا جواب ہے اور ابھی دوں گا تو میں پہلے آتا ہوں ان ماہر وکالت کے موکل کے بیک گراونڈ کی طرف تو جناب اس معزز شخص داور کمال کا باپ آج سے پندرہ سال پہلے ایک جوتے بنانے والے کارخانے کا مالک تھا اب کرنل عثمان خود اٹھ کے آیا میرے پاس اور اسنے ساری فائلز پکڑ لی میری میں نے ایک فائل ججز کے سامنے رکھی اور کہا سالانہ پانچ لکھ کمانے والے کا بیٹا صرف آٹھ سال میں پانچ سو ارب کا مالک کیسے بن گیا یہ لیں فائلز اور داور کمال کی ساری انکم کی فائلز آگے کر دیں اب کی بار آغا بولا ان کا کیا تعلق ہے اس سے میں نے کہا تعلق میں ثابت کروں گا آپ ذرا صبر تو کریں محترم ماہر قانون صاحب میرا لہجہ فل طنزیہ تھا اب کی بار مجھے دونوں ججز نے چونک کے ایک نظر دیکھا میں نے کہا تو جناب اب آتے ہیں ثابت کرنے پے تو یہ لیں یہ فائلز ان میں وہ ساری رسیدیں ہیں جن سے آپ جناب کو پتا چلے گا یہ دولت کہاں سے آئی اور ایک فائل ان کو دی اور ایک اسی کی فھوٹو کاپی کو خود کھولا اور سر عام پڑھنے لگا پہلی رسید دو سو کروڑ کی جو ان کو ایک انڈین تاجر نے دے دبئی میں دوسری رسید بھی پانچ سو کروڑ کی جو انہی تاجر نے ان کو دبئی میں ہی دے اور یہ تیسری رسید بھی اسی تاجر کی پندرہ سو کروڑ کی اب میں نے کہا یہ ساری فائلز ایس ہی رسیدوں سے بھری ہے جو ان کے دبئی کے اکاونٹس کی ہے جن میں صرف تین اکاونٹس میں پاکستانی پچاس ارب روپیہ ماجود ہےاور یاد رہے یہ صرف تین کی تفصیل ہے اس کے علاوہ بھی پانچ اکاونٹس ہیں ان کے وہاں پے اب پاکستان میں ان کی جائیداد کی تفصیل یہ ان فائلز میں ہے میںنے دو فائلز اور ان کی طرف بڑھا دیں یہ رہا ان معزز شخصیت کا تعارف تو جناب اب آتے ہیں ان کے زہر اثر چلنے والے ادراوں کی طرفاب میرے دوست ماہر قانون نے کہا تھا ان کا سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا سب قوم کے لئے ہے میں اس نے متفق ہوں جناب انہوں نے واقعی اپنی زندگی میرے وطن کے لئے وقف کی ہے لیکن اسے خدا نہ کرے برباد کرنے کو تو جناب جو یتیم کھانا انہوں نے بنایا ہے اس کے نیچے ایک تہ خانے میں لڑکوں کو دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے یہ رہی ان سب کی تفصیلی رپورٹ اور یہ رہی وہ تصویریں ابمیننے ایک فائل اور ایک لفافہ ججز حضرت کو دیااب آتے ہیں اس ہسپتال کی طرف تو جناب وہاں پے غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے ان کو زندگی کی ہر مشکل سے آزاد کر دیا جاتا ہے جانتے ہیں کیسے جناب ان کے گردے نکال کران کی آنکھوں کی روشنی چھین کر اب یہ رہی ان سے مطلق رپورٹ اور ثبوت کے لئے تصویریں اب تو سب ہی چونک سے گۓ تھے مجھے کرنل عثمان بھی حیرانی سے دیکھ رہا تھا میں نے کہا اب اس طرف آتے ہیں نوجوان لڑکیوں کی شادی کی جاتی ہے لیکن ان سے جو انڈیا کے جاسوس یہاں آتے ہیں ان سے وہ بھی ایک رات کی اور ان سے جن کو یہ معصوم بچوں سے درندہ بنا دیتے ہیں ان سے کیوں کے ان کو خوش کرنے اور ان میں حیوانی جبلت کو ابھارنے کے لئے ان کے سامنے کنواری لڑکیاں پیش کی جاتی ہیں کے ان کے جسموں کو روند ڈالوں یہ رہے ان کے بھی ثبوت اب میں آتا ہوں مسٹر ماہر قانون اس بات کی طرف میری ان سے عداوت کیا تھی تو سنیں آپ سب میرے لئے سب سے برا دشمن آہی وہ میرا جو اس پاک دھرتی کا غدار ہے اگر میرا باپ بھی یہ کم کرے اسے بھی اپنے ہاتھوں سے گولی نہیں مروں گا بلکے بھوکے کتوں کے آگے ڈال دوں گا یہ عداوت ہے میری ان حرام زادوں سے اور مسٹر آغا تم جیسے وکیل جو پیسے کو ہڈی سمجھ کر کتے کی طرح ان کے سامنے دمیں ہلاتے ھو کیا جنو گۓ وطن کی موہبت کا نشہ کیا ہوتا ہے اب کمرے میں ایک عجیب سا سکوت چا گیا تھا صرف میری آواز گونج رہی تھی اور مجھے خود بھیاپنا لہجہ بیگانہ سا لگ رہا تھا جناب ججز صاحب یہ تو تھے صرف کچھ ثبوت اب میں آتا ہوں ان کی طرف یہ جو تینوں اس حرامی کے ساتھ کھڑے ہیں اب کی بار آغا کمال غصے سے بولا لڑکے زبان کو سنبھال کے بات کر میں نے کہا یہ شکر کرو میں زبان سے بات کر رہا ہوں ورنہ ایسے لوگوں سے تو جوتوں سے بات کرنی چاہیے اب کی بار ججز نے کہا شارق صاحب پلیز آپ پانی پی لیں اور غصہ ٹھنڈا کریں اب مجھے ایک فوجی افسر نے پانی پلایا اور میں بولا جناب یہ غصہ نہیں جوش تھا اور ہم پاکستانی صرف اسی جوش سے ہی اپنے ہر دشمن کی ناک میں نکیل ڈال دیتے ہیں تو جناب اب میں کچھ ثبوت آپ کو دکھانا چاہتا ہوں پلیز اس کا بندوبست کیا جاۓ ب کرنل عثمان نے کہا سب بندوبست ہے اب اس نے ایک طرف ماجود ایک دورہ سے پردہ سائیڈ پے کیا پیچھے ایک دیوار جتنی ہی سکرین تھی اب میں نے وہ ڈیسکز اسے دیں اور کہا ایک ایک کر کے چلاتے جو اب اس نے وہ ڈیسکز چلا دیں وہ کل سات ڈسکیں تھیں بیس بیس منٹ کیں وہ ان کو آگے کر کے چلاتا جا رہا تھا جن میں یہ سب مختلف جگہ پے بیٹھ کر کبھی شراب پی رہے تھے کہیں معصوم لکیوں سے ریپ کی تھیں جو انڈین لوگ کر رہے تھے کہیں ان کی زبان میں سب منصوبے تھے جیسے ہی یہ ڈسکیں ختم ہوئیں میں نے کہا جناب اب بھی کوئی ثبوت باقی ہے تو بتا دیں ان ڈسکوں کے دوران ہی جنرل صاحب کے اشارے پر سب کو حراست میں لیا گیا تھااب کی بار آغا کمال کا تو جیسے رنگ ہی اڑ گیا تھا وہ اب ایک کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اب کی بار جنرل حمزہ بیگ نے کہا اگر یہ لوگ سرکاری ہوتے تو ان کا کورٹ مارشل ہوتا لیکن اب مجبوری ہے یہ لوگ سولین ہیں تو انکو سزے موت ہی دی جا سکتی ہے میںنے اب دوبارہ سے کہا جناب آپ کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل ہو گئی یا نہیں اب کی بار جنرل صاحب نے چونک کے کہا کیا مطلب آپ کا میں نے کہا جناب میں اس فیصلے کو نہیں مانوں گا لیکن کیوں شارق صاحب اب کی بار جسٹس صاحب نے سوال کیا میں نے کہا جناب ایک بات تو باتیں یہاں سے آپ نکل کے جاتے ہیں گھر کی طرف راستے میں آپ کو دہشت گرد مل جاتے ہیں تو آپ اپنے گارڈز سے کیا کہیں گیں وہ ایک ڈیم سے بولے یہی کے ان کو اڑا دے میں نے کہاکیوں جناب وہ تو سولین ہوں گۓ ان کو سزا ملنی چاہیے قانون سے اب کی بار جسٹس صاحب ایک دم سے چونک کے بولے لیکن میں نے کہا لیکن کچھ نہیں سر ان لوگوںکی وجہ سے آج تک سینکڑوں لوگ مارے گۓ ہوں گۓ بہت ساری معصوم بچیاں ان کی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی ہوں گئیںکیا آپ جیسے ایک جسٹس کی گاڑی پے حملہ کرنے کی سزا موت ہے تو ان لڑکیوں کی عزت لوٹنے والوں کی سزا کیا ہے جناب میں اب اپنی عوام کی طرف سے فریاد کرتا ہوں وہ معصوم بچے جن کے والدین مار دے ان لوگوں نے وہ مجھے اپنا وکیل کر کے آپ کے سامنے لے آئے ہیں مجھے جواب دیجئے جناب ان سب کے سوالوں کا ایک جج کی عزت سینکڑوں معصوم لڑکیوں کی عزت سے بڑھی ہے تو لعنت ہے ایسی وکالت پے میں آج سے یہ وکالت ہی چھوڑتا ہوںاب کی بار سب نے ہی ہالمیں سے کہنا شروع کر دیا حتی کے آغا کمال بھی اٹھ کے ہاتھ جوڑ کے بولے ان کو معاف نہ کرنا جناب ہم سب ہی وکالت چھوڑنے کا اعلان کریں گۓ شارق صاحب کے پیچھے اب کی بار جنرل اور جسٹس نے کوئی بیس منٹ تک مشورہ کیا پھر جسٹس نے کہا شارق صاحب مبارک ھو آپ جیت گۓ ان حرامیوں کو اسی وقت گولی سے اڑا دیا جاۓ یہ سنتے ہیں اچانک سب ہی فوجی افسر ایک ساتھ اٹھے اور سب کی گنوں سے ایک ساتھ پتا نہی کتنی گولیان نکلیں ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ کے گولی مار رہا تھا اور پیر سراج اور داور کمال اور ملک کامران اور سیٹھ برکت کے جسم میں تو جیسے مکھیوں کے چتھے سے بن گۓ تھے ہر ایک کے جسم میں درجنوں کے حساب سے گولیاں تھیں اب کی بار جنرل صاحب نے کہا ان سب کی دولت کو حکومت اپنے قبضے میںکر لےاور ان لوگوںمیں بانٹی جاۓ جو ان کا شکار ہوئے ہیں اور ساتھ ہی آرمی کی طرف سے ببرسٹر شارق حسین شاہ صاحب کو آرمی کا ایوارڈ دیا جاۓ گا اب کی بار جسٹس صاحب نے کہا اور ساتھ ہی ان کو ہماری طرف سے یہ حق دیا جاتا ہے یہ پورے پاکستان میں کسی بھی عدالت میں پیش ہو سکتے ھیں کیس لڑنے کے لئے اور ان کو تا حیات فری اجازت دیجاتی ہے یہ کل سے ہی چاہیے تو سپریم کورٹ میں بھی پیش ہو سکتے ہیں میںنے ان کا شکریہ ادا کیا کیوں کے یہ بہت بڑا انعام تھاکوئی بھی وکیل جب دس سال تک ہائی کورٹ میں پیش ہوتا ہے ٹیب ہی اسے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت ملتی ہے اور مجھے تو ابھی سیشن کورٹ سے ہی لائیسنس ملے بس کچھ ہی عرصہ ہوا تھا اب ججز حضرت اٹھ کے پیچھے چلے گۓ تو آغا کمال نے میرا ہاتھ پکڑ کے چوما اور کہا سوری بیٹا میں آپ سے کچھ غلط بول گیا آپ تو وکلاء کی شان ہیں جو عجم آج آپ کو دیا گیاہے یہ آج تک کسی وکیل کو نہیں ملا ہو گا پھر میں اور کرنل عثمان باہر آئے اور اسنے مجھے کہا یار میں اب کراچی جا رہا ہوں دو دن لگ جایئں گیںمیںنے کہا ٹھیک ہے اور اب میں بھی اپنی گاڑی میں بیٹھا اور اپنے گھر آ گیا کیوں کے اب کچھ ہی دیر میں دن بھی نکلنے والا تھا ساری رات اسی کیس میں ہی گزر گی تھی میں گھر آیا اور سیدھا اپنے کمرے میں جا کر سو گیا اب مجھے پھر میں کوئی دس بجی تک سوتا رہا مجھے سوئے پانچ گھنٹے ہو گۓ تھے میری نیند اب کچھ پوری ہو گئی تھی میں اٹھا اور نہا کر تیار ہوا اور بھر آ گیا مجھ سے پہلے ہی ساری تفصیل بتا چکا تھا بھائی طارق سب کو کیوں کے اسے بھی بتا دیا تھا کرنل نے اب مجھے سب نے ہی مبارک دی میں نے سب کا شکریہ ادا کیااب کی بار مجھے بھائی امجد نے بتایا نواب رستم کی بیگم نے کیس نصرت سے واپس لے کر کسی اور وکیل کو دے دیا ہے کیوں کے وہ کہتے ہیں تم دونوں بھی اپس میں مل جاؤ گۓ میں نے کہا مجھے پتا تھا بھائی ایسا ہی ہو گا اب کی بار غصے سے بھائی نصرت نے کہا یار کیسے پتا تھا تم کو میں نے کہا بھائی یہ سب میںنے ہی کیا تھا میرے پاس کچھ ایسے ثبوت ہیں کے پہلی ہی پیشی میں بات صاف ہو جاۓ گئی اب سب ہی چونک سے گۓ ابکی بار بھائی نصرت نے کہا تو مجھے بتا دیتے پہلے ہے میں ایسے ہی تم لوگوں سے خفا ہو رہا تھا اب کی بار وہ بولے چلو جو ہوا سہی ہے میںنے کہا بھائی میں ہر کیس میں آپ کے ساتھ ہوں لیکن اب آپ ہم سے الگ ہی بیٹھیں گیں وہ اب کچھ نہ بولے اور کہا چلو ایسے ہی سہی بھابھی تنویر نے کہا کیوں اپنے ساتھ کیوں نہیں بٹھاؤ گۓ آمدنی سے حصہ دینا پڑے گا اس لئے میں نے کہا جی بھابھی یہی بات ہے مجھے ویسے ہی ان کی باتیں اچھی نہیں لگتیں تھیں ہر وقت جلتی رہتی تھیں کسی نہ کسی سے وہ اب اور جل کے بولی اس فاروقی کو ہی دو گۓ نہ اپنے بھی سے بیگانے آپ کو قریب ہیں میں نے کہا بھابھی اس بیگانے نے میرے ایک دفع کہنے پے کیس نہیں لیا اور بھائی صاحب کی میں نے منتیں تک کیں یہ نہ مانے اور دوسری بات میں اپنی ساری کمائی پے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا حق سمجھتا ہوں اب وہ لاجواب سا ہو گئی تھی چپ کر گئیاب میں کچھ دیر تک سب کے ساتھ ہی بیٹھا پھر میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر باہر آیا اور کرنل عثمان کے گھر کی طرف چل دیا گھر صدور ہی میںنے گاڑی کو روکا اور بھابھی نورین کو کال کی وہ بولیں میں بیس منٹ میں سٹی شاپنگ سنٹر میں آ جاؤں گیں آپ وہاں میرا انتظار کریں میں اب اس کا وہاں جا کر انتظار کرنے لگاپھر کوئی تیس منٹ بعد نورین ایک طرف سے آئی اور اپنی گاڑی وہاں پارک کر کے وہ میری طرف آئی اب میں نے اسے اپنے ساتھ بٹھایا اور سیدھا پرل کانٹیننٹل(پی سی ہوٹل ) میں ایک کمرہ بک کروایا اور اسے لئے اندر آ گیا اب وہ میرے سامنے بیٹھ گئی اور میری طرف دیکھ کر بولی جیت مبارک ھو شارق اب میں نے کہا ایسے ہی بس خالی مبارک وہ بولی نہیں ابھی آپ کا منہ بھی میٹھا کرواؤں گیں جاتے ہوئے میںنے کہا جی نہیں میں وہ مٹھائی نہیں کھاتا اس میں کوئی مٹھاس ہی نہیں ہوتی اگر منہ میٹھا کروانا ہے میرا تو اپنے ان شبنمی ہونٹوں سے مجھے مٹھاس چکھنے دو وہ بولی جاؤ کام کرو کتنے تیز ھو میں اب اٹھا اور نورین کے صوفے کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا اب اس پے جھک کر میں نے اپنی تھوڑی اس کے سر پے رکھی اور اسے کندھوں سے پکڑ کے بولا نورین آج مجھے یہ مٹھاس چکھنے دو اور ساتھ ہی اب میرے ہاتھ اس کے گریبان میں طرف رینگنے لگی وہ اب کی بار بولی شارق کیا ہے یار اتنے میں میرے ہاتھوں کی انگلیاں نورین کے گریبان میں گھس گیں تھیں اور جیسے ہی اس کی اڑتیس سائز کیچھاتی کو میرے ہاتھوں نے چھوا اسے ایک کرنٹ سا لگا وہ ایک سسکی لے کر بولی شارق کوئی آ نہ جاۓ میں نے کہا کوئی نہیں آئے گااب میں نے اس کی گالوں کی طرف اپنا منہ کیا اور اس کی گالوں سے لالی چرانے لگا میرے ہونٹ اب نورین کے گالوں کو چوم رہےتھے اور ہاتھ اس کی چھاتی کو مسل رہے تھے اب میںنے آہستہ سے اپنے ہونٹوں کو اس کے ہونٹوں سے جوڑا اور ان کو چوسنے لگا میرے ہونٹ یوں چمٹ گئے تھے نورین کے ہونٹوں کے ساتھ جیسے لوہا مقنا تیس سے چمٹ جاتا ہے میں اب مزے سے نورین کے ہونٹوں کو چوس رہا تھا اور ہاتھوں سے اس کی چھاتی کو دباتا ہوا نیچے گیا اس کے سڈول پیٹ پے ہاتھ پھیرا اور اب وہ بہت گرم ہو گئی تھی اس نے کہا شارق اف ف ف اب میںنے اس کی طرف آگے سے آیا اور اسے اپنی بانہوں میں بھر کے چومنے لگا دوبارہ سے اب کی بار وہ بولی شارق ایسے ہی چوسو میرے ہونٹوں کو اب میں دوبارہ سے اس کے ہونٹ چوسنے لگا اور وہ مزے سے تڑپنے لگی اب میںنے اپنے ہاتھ اس کی کمیض میں ڈالے اور اس کی کمیض کو اوپر کر کے اتار دیا اس نے اب اس نے بھی اپنے ہاتھ اوپر کیے اور میںنے اس کی کمیض کو اتارا اب اس کی بھری چھاتی صرف ایک ریڈ کلر کے برا میں تھی میںنے اسے ہونٹوں سے چوسنے لگا پھر سے اور ساتھ میں اس کے ممے بھی دبانے لگا برا کے اوپر سے ہے اب اس کی بے تابی بڑھ گئی تھی اس نے کہا شارق اب او باد پے چلتے ہیں میں نے اسے وہاں صوفے پے ہی بیٹھنے کو کہا اور اب اس نے خود ہی اپنا برا اتار دیا میں اب اس کے سامنے بیٹھ کر اس کے ممے چوسنے لگا اب وہ بہت مچل رہی تھی میںنے ایک ممے کی نیپل کو منہ میں ڈالا اور چوسنے لگا اور دوسری طرف والی ممے کو اپنے ہاتھ میں لے کر مسلنے لگا وہ اب بہت بیتاب ہو رہی تھی نورین نے اب ہلکی آواز میں سسکنا شروع کر دیا تھا میںنے اب کی بار اس کے مموں کو کوئی دس منٹ تک چوسا اور پھر نیچے پیٹ کی طرف آیا اس کے ملائم پیٹ پے بھی اپنی زبان سے چاٹنے لگا اور ساتھ میں اب میںنے اپنا ایک ہاتھ اس کی چوت کی طرف لیا اور وہ ایک دم سے جیسے تڑپ سی گئی اب میرا ہاتھ نورین کی چوت کو سہلا رہا تھا اور میری زبان اس کے پیٹ کو چوم رہی تھی پھر میںنے اس کی شلوار کو اب اپنی طرف کھینچا اور اتار دیا ساتھ میں اب کی ریڈ پینٹی کو بھی اتارا اب اس کی نورین کی پھولی ہوئی چوت دیکھ کر میرا لن تڑپ کے کھڑا ہو گیا ابمیننے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس کی چوت کے لیب کھولے اور اپنی زبان وہاں رکھ کر چوسنے لگا ساتھ میں میرے ہاتھ کی ایک انگلی بھی اب اندر باہر ہونے لگی تھی اس کی چوت کے وہ بہت مزے سے سسک رہی تھی اب میں نے اب اپنی زبان اس کی چوت میں اندر باہر کرنے لگا وہ اب ہلکی آواز میں سسکی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف شارق ایسے ہی آج میری چوت کو چوس چوس کے اس کی پیاس بجھا دو مجھے کبھی نہیں چوسا یہاں سے عثمان نے وہ بہت زیادہ مزہ محسوس کر رہی تھیی میں نے اب ساتھ میں ایک انگلی اس کی چوت میں دال کر اندر باہر کرنے لگا اور ساتھ ہی اسکی چوت کے دانے پر زبان پھیرنے لگا وہ با زیادہ دیر نہ خود کو روک سکی اور مزے سے بے تاب ہو کر آخر کار اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا وہ اب لمبی سانس لے کر بولی شارق یہ کیسا مزہ تھا جو مجھے آج تک نہیں ملا کبھی بھی اب اس نے مجھے اپنی بانہوں میں لیا یر کس کی مجھے پھر میں اس کے ساتھ ہی بیٹھا صوفے پے اب کی بار اس نے اپنا ہاتھ میری گود میں رکھا اور ہلکے سے اسے میرے لن کی طرف لے گئی پھر اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میںلیا اور سہلانے لگی میں نے بھی اب دوبارہ سے اسے ہونٹوں سے کسنگ شروع کر دی تھیں اب اس نے میری گود میں جھک کر میری پینٹ کی زپ کھولی اور انڈر ویر سے میرا لن باہر نکالا اور اسے دیکھ کر بولی اف ف ف ف اتنا بڑا اور ساتھ ہی اس نے اس پے جھک کر اسے اپنے منھ میں لے لیا اور چوسنے لگی اب وہ مزے سے میرا لن چوس رہی تھی اور میں اس کی کمر کو سہلا رہا تھا کوئی پانچ منٹ بعد میںنے اسے کھڑا کیا اور اپنے سرے کپڑے اتار کے اس کے پیچھے آیا اسے کہا اب آگے صوفے کی ٹیک پے ہاتھ رکھوں اس نے ایسا ہی کیا اب اسے کہا چلو اباپنی ٹانگیں فل کھول کر چوڑی کرو اس نے اپنی ٹانگیں کھول دیں اب میں نے اس کی پیچھے کو ابھری ہوئی چوت کو ہلکے سے سہلایا اور اپنا لن اس میں ڈال دیا نورین ایک دم سے تڑپ اٹھی اور ہلکی آواز میں درد بھری سسکاری لے کر بولی پیر سے ایک دفع سارا ہی اندر کر دو میں نے ایسے ہی کیا اور پھر میںنے اب اس کی نیچے کو لٹکی چھاتی کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور زور سے لن کو دھکے مارنے لگایاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے اف ف ف ف ف اب وہ میرے ہر دھکے سے آگے کی طرف جھک جاتی میں نے اب کی بار اسے کمر سے مضبوطی سے پکڑا اور زور زور سے لن کو دھکے دینے لگااب میںنے کوئی دس منٹ یوں ہی چودا نورین کو اب میںنے نورین کو سیدھا کیا اور اس کی ایک ٹانگ پکڑ کے صوفے کی ٹیک پے رکھی اور اپن لن اس کی چوت میں ڈال کے مزے لینے لگا اب کی بار وہ کچھ زیادہ ہی آہو پکار کر رہی تھی لیکن میں نے اسے یوں ہی چودنا جاری رکھا اور وہ سسکیاں بھرتی رہی پھر کوئی پانچ منٹ بعد اس نے کہا شارق اب کچھ دیر آرام کرنے دو بہت درد ہےآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ میں نے اب اس کی وہ ٹانگ نیچے کی جو صوفے پے رکھی تھی اب میں اس کو لے کر بیڈ پے آ گیا اب میں نے اسے لٹایا اور خود اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر لن کو اندر کیا وہ ایک مزے سے سسک رہی تھی میں اب زور زور سے لن کو اندر کرتا اور باہر نکالتا پھر کوئی پانچ منٹ اسے یوں ہی چودا اور اب کی بار اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور نیچے سے وہ میرے دونوں طرف اپنی ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئیہائے ہائے ہائے ایسے ہی لگے رہوہائے میں اب اور جوش سے نورین کی چوت کو چودنے لگا اب وہ مزے سے آنکھیں بند کر کے سسکیاں بھر رہی تھی اور میں اسے اب کی بار بیدردی سے چوت میں لن کو ڈالتا اور زور سے دھکے مارکر اسے چود رہا تھایاہ یاہ یاہ ہائے ہائےکی آوازوں کے ساتھ نورین اب مسلسل سسک رہی تھیپھر مجھے اب اسے چودتے کوئی تیس منٹ ہی ہووے ہوں گے اس نے چوت نے دوبارہ سے پانی چھوڑ اب میں نے اسے کہا چلو اب لیٹ جاؤ وہ لیٹ گئی اب میں بھی اس کی طرف ٹانگیں کر کے لیٹ گیا اور اب میں نے اس کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسا لیں اور اب اپنا لن اس کی چوت میں ڈالا اب ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے مخالف لیٹ کر وہ میری طرف زور لگتیمیں اس کی طرف اور یوں میرا لن اب جیسے اس کے پیٹ میں جڑ تک جاتاآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م شارق اور زور سے اور اب میں بھی کافی زور لگا رہا تھا اور وہ تو جیسے مزے سے پاگل سی ہو رہی تھی وہ اب زور سے میری طرف زور لگاتی اور پھر ساتھ ہی درد بھری سسکیاں لینے لگتی میں نے اب کی بار اسے زور سے چودنا جاری رکھا پھر میں اس کے اوپر لیٹ گیا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگاآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اووہ اف ف ف ی اہ وہ مزے سے تڑپ رہی تھی میرے ہر دھکے نے اب جیسے اس کی چوت کی بنیادیں تک ہلا دیں تھیں اور وہ ہلکی آواز میں مسلسل ہی چیخی جا رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ شارق میں مار گئیاب کوئی چار منٹ بعد مجھے لگا یہ میں بھی نزدیک ہی ہوں میںنے اسے اپنی بانہوں میں بھرا اور زور زور سے دھکے مارنے لگا اب ایک زور دار دھکے کے ساتھ ہی وہ فارغ ہو گئی اور ساتھ میں میں بھی اب ہم دونوں ہی اپنی منی خارج کے چکے تو میں اس کے سات ہی لیٹ گیا اب وہ مجھے اپنی بانہوں میں لئے ہی بولی شارق اسے میری چوت میں ہی رنے دو میںنے لن کو اس کی چوت م،این ہی رہنے دیا اور خود بھی آنکھیں بند کر لیں پھر ہم سو گے کچھ ہی دیر میں

ہم کوئی تین گھنٹے تک سوتے رہے - میں نے اب نورین سے کہا ڈیر شام ہونے والاہے اب نہا لو کھانا کھا لیں - اس نے اپنی نشیلی آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولی "... شارق میں نے ابھی بس اسے کھانا ہے یہ کہ کر اس نے میرے ، لن کو پکڑ لیا اوراس پے نرمی سے ہاتھوں سے مساج کرنے لگی - پھر وہ اٹھی اور واش روم گی وہاں سے وہ آئل کی شیشی لے کر باہر آئی - اس نے کافی سارا آئل اپنے ہاتھ میں ڈالا اور اسے میرے لن پے ملنے لگی اب نورین ایک ہاتھ سے میرے لن کی کیپ کو مسل رہی تھی - دوسرے ہاتھ کی مٹھی بند کر کے وہ لن کا مساج کرنے لگی کچھ دیر یوں ہی اس نے لن کی تھکاوٹ اتاری -اور دوبارہ سے اب کی بار لن کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر نرمی سے اوپر نیچے کرنے لگی - لن کی رگیں اب پھول گئی تھیں وہ اسے یوں پھن اٹھاتے دیکھ کر بولی اب میں اس سانپ کو اپنی چوت کی بل میں داخل؛ کروں گئی - یہ کہ کر نورین نے اب اپنے پرس سے ایک مخملی کپڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا نکالا اور اس سے میرے لن کو نرمی سے صاف کرنے لگی - لگتا تھا وہ تیاری کر کے آئی تھی - اب نورین نے اپنے ہاتھ بھی اچھی طرح صاف کیے اور پھر اپنی دونوں ٹانگوں کو میری گردن کے دائیں بائیں رکھا اور خود میرے لن پے بیٹھ گی - میں سیدھا لیٹا ہوا تھا اس نے اب لن کو ایک بار ہلکے سے اپنی چوت میں لیا اور کچھ دیر روک کر سانس لیتی رہی پھر اس نے ایک دم سے اپنے ہاتھ میرے سینے پے رکھے اور زور زور سے اپنی گانڈ کو ہلانے لگی- اب نورین اچھل اچھل کر لن پے اوپر نیچے ہو رہی تھی-کچھ دیر بعد وہ مزے سے سسکنے لگی ان اس نے اپنے ہاتھوں کو میرے ہاتھوں میں ڈالا اور میرے اوپر لیٹ سا گئی اب اس نے میرے دونوں ہاتھ دائیں بائیں تھے اور نورین کے ہاتھوں کی گرفت میں تھے - نورین اب مزے سے چیخ رہی تھی - کوئی دس منٹ اس نے اسی اینگل سے میرے لن پے سواری کی پھر میرے ہاتھوں کو چھوڑ کر اس نے اپنی ٹانگیں اب فولڈ کیں اور میرے پیٹ پے آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئی - اب وہ ہلکے ہلکے سے اچھلنے لگی - اس کے اچھلنے سے مجھے بھی اب درد سا ہونے لگا تھا کیوں کے اس کا سارا وژن میرے پیٹ پے ہی تھا -لیکن میں نے برداشت کیا اور مزے کو ذھن میں رکھا کر اس کا ساتھ دینے لگا اپنی رانوں کو کچھ سکیڑ کر اب میں بھی اوپر کی طرف زور لگانے لگا تھا - اب اس اینگل میں نورین پانچ منٹ بعد ہی تھک سی گئی اب اس نے اپنی ٹانگیں بیڈ پے رکھیں اور اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن کے پیچھے باندھ لیا اب وہ اپنی رانوں کے بل پے میرے لن کے اوپر نیچے ہو رہی تھی اس کے جسم کا کوئی حصہ مجھے نہیں چھو رہا تھا - میں اب اس کی ہلتی چھاتی میں کھو سا گیا - و سنے میری طرف دیکھا اور مسکرا کے بولی شارق ان کو چھونا بھی نہیں - میں نے کہا ٹھیک ہے ظالم وہ اب کھلکھلا کے ہنس دی - اب نورین نےاپنی دونوں ٹانگیں ہی جوڑی اور ایک ہی طرف کر دیں - اب وہ اپنے گھٹنوں میں سر دے کر میرے لن پے بیٹھی تھی -اور اس کی گانڈ نیچے سے ہل رہی تھی -نورین کا اوپر والا جسم بلکل ساکت تھا صرف وہ گانڈ کو ہلا رہی تھی - میں اب سوچنے لگا کم بخت کیسے کیسے اینگل بدل رہی ہے - اب تین منٹ تک نورین نے ایسے ہی لن پے اچھالنا جاری رکھا - پھر وہ اپنے ہاتھ آگے بیڈ پے رکھ کٹ لمبے لمبے سانس لینے لگی اور اس کی چوت سے منی نکل کر میرے ٹٹوں کو بھگو رہی تھی - نورین اس وقت تک رکی رہی جب تک منی ساری نہ نکل گئی ہو - پھر اس نے وہی مخملی کپڑا لیا اور میرے لن کو اچھے سے صف کیا - بعد میں اپنی چوت کو صاف کرنے کے بعد اب نورین نے دوبارہ سے میری رانوں پے بیٹھ گئی اس دفع اس نے میری طرف اپنی کمر کر لی تھی - میرا لن اپنی چوت میں لیا اب اس نے اپنے دونوں ہاتھ میری پنڈلیوں پے رکھے اور میری رانوں پے جیسے لیٹ سا گئی - اب اس نے زور سے اپنی گانڈ اوپر نیچے کرنا شروع کیا اب کی بار میں بھی کافی زور سے نیچے سے لن کو اوپر کی طرف دھکا مرنے لگا تھا - اب کی بار نورین نے مزے سے تڑپنا شروع کیا - اوئی ئی ئی ئی شارق ہمممم اور ساتھ ہی زور سے ہلنے لگی اب میں نے بھی کافی سپیڈ سے لن کو اوپر کی طرف دھکے دینے لگا - اور نورین کی اب کی بار سسکیاں کافی تیز تھیں اب تک وہ اپنی مرضی سے لن کو اندر لیتی تھی کبھی تھوڑا کبھی زیادہ لیکن میں نے اب کی بار لن کو جار تک اندر کرنا شروع کر دیا تھا - اب میرے طوفانی دھکوں نے جیسے نورین کے اندر سے سب کچھ ہلا دیا تھا - وہ اب زور سے چلا رہی تھی - اس نے اب اپنے آپ کو میرے اوپر گرا لیا اب اس نے میرے سینے پے لیٹ کر میرے ہونٹ چومنے کی کوشش کی میں نے اپنا منہ سائیڈ پے کر لیا مجھے کتنا تڑپایا تھا اس نے - اپنی چھاتی تک کو ہاتھ نہیں لگانے دے رہی تھی میںنے بھی سوچ لیا اسے اب کچھ یوں ہی ترپاؤں گا - وہ میری یہ حرکت دیکھ کر ہنس دی اور بولی میری جان ناراض ھو اپنی نونو سے میں نے کہا ابھی بتاؤں گا تم کو وہ اب اٹھلا کے بولی جانو آج وہ سکون مل رہا ہے جسے میں آج تک نہیں پا سکی - میں اپنی جان کو جیسے تم کہو ویسے راضی کروں گئی - یہ کہ کر اس نے اب اٹھ کر اپنا منہ میری طرف کیا اور میرے لن کو اپنی چوت میں لے کر اب اس نے میرے دونوں ہاتھ پکڑے اور اپنی چھاتیوں پے رکھ کر بولی - شارق ان کو جیسے مرضی مسلوں میں اب ہنس دیا اور اسے اپنے اوپر کھینچ کے اس کے ہونٹ چوسنے لگا وہ بھی اب مزے کی لذت سے بے تاب سی ہو گئی تھی اب میں نے نیچے سے نان سٹاپ دھکے مارنے لگا - میں نے اب نورین کی گانڈ کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا تھا وہ با مزے سے مسلسل تڑپ رہی تھی اس کی آہیں اب کمرے میں گونجنے لگیں - کوئی پندرہ منٹ بعد ہی نورین نے کانپتے ہونٹوں سے کہا شارق میں بس آنے ہی والی ہوں میںنے کہا میں بھی پاس ہی ہوں اب ہم دونوں ہی زور سے ایک دوسرے کی طرف دھکے مرنے لگی پھر ایک منٹ بعد ہی اس کی چوت نے میرے لن کو گیلا کر دیا اور میرے لن نے اس کی چوت میں منی کا چھڑکاؤ کرنا شروع کیا - اب وہ میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ اٹھا کر بولی شارق میں ساری زندگی یہ مزہ نہیں بھول سکتی -میں نے ہنس کے کہا - میں بھی نہیں بھولوں گا آپ کا سیکس کرنے کا انداز کمال کا ہے بھابھی وہ اب کچھ شرما کے بولی بھابھی نہیں صرف نورین اور یہ کہ کر مجھے اپنی بانہوں میں بھر کے میرے ساتھ ہی لیٹ گئی ہم دونوں کوئی پندرہ منٹ ایسے ہی لیٹے رہے - پھر دونوں ہی واش روم میں گ
ۓ اور اچھی طرح خود کو صاف کر کے باہر نکل آئے - اب نورین نے کہا جان مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے میں اوروہ کپڑے پہن کے اب صوفے پے بیٹھے تھے میں نے کہا میں کھانا منگواتا ہوں وہ بولی نہیں شارق یہاں نہیں اب چلو یہاں سے کسی اور جگہ سے کھانا کھاتے ہیں - پھر ہم دونوں کمرے سے باہر آئے اور میں نے کاؤنٹر پے چابی دی اور ہوٹل سے باہر نکل آئے - پارکنگ میں جا کر ہم اپنی گاڑی میں بیٹھے اور وہاں سے روانہ ہو گۓ اب ہم نے ایک اور اچھے سے ہوٹل سے ڈنر لیا - اسی وقت نورین کے موبائل کی گھنٹی بجی اسنے موبائل کو پرس میں سے نکل کے دیکھا اور ہنس دی کہنے لگی کائنات ہے - اب اس نے کال سنی کائنات کی آواز آئی یار کہاں ھو میں تین گھنٹے سے آپ کا گھر میں انتظار کر رہی ہوں - اب نورین نے کہا میں آمنہ کےہاں ہوں یار ابھی آتی ہوں اور بولی میں اب چلتی ہوں جان اگر یہ نہ آتی تو آج کی رات کا سوچا تھا اپ کے ساتھ ہی گزاروں گی- پھر اسے میں نے سٹی شاپنگ سنٹر میں اس کی کار کے پاسچھوڑااور خود گھر کی طرف آ گیا اب ویسے بھی رات کے گیارہ بج رہے تھے - گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے بڑی بھابھی نے کہا آپ کا شدت سے انتظار ہو رہا ہے - وہ لان میں ہی واک کر رہی تھیں میں جلدی سے ڈیڈی کے کمرے میں گیا وہاں سب ہی بیٹھے تھے - میں سلام کیا سب نے جواب دیا اب کی بار امی جان نے کہا بیٹا صرف چار دن باقی ہیں آپ کہاں مصروف ہیں فرنیچر کا کیا بنا میں نے کہا ابھی پتا چل جاتا ہے - میں نے اب ظفری کو کال کی اس نے کہا باس سب کچھ ماجود ہے شیش محال میں آپ دیکھ سکتے ہیں - میں نے کھا ٹھیک ہے اور کال کاٹ کے امی سے کہا امی جان سارا سامان او کے ہے شیش محل میں اب کی بار پری نے کہا کل سے آپ کہیں نہیں جایئں گئیں یہاں ہم ڈھولکی رکھ کے آپ کا انتظار کر رہی تھیں میں نے کہا صرف کل کا دن مجھے دے دو میں کل بیگم جہاں آرہ والا کیس دیکھ لوں پھر کوئی بھی کیس شادی کے بعد ہی دیکھوں گا - اب ڈیڈی نے کہا یہی ٹھیک ہے بیٹا اب لالارخ نے کہا کل سے میری ساری فرینڈز بھی آ رہی ہیں - اب مزہ آئے گا آپ سے میں مقابلہ کرواؤں گئیں - بڑے شاعر بنتے ہیں آپ ذرا قندیل لوگوں سے جیت کے بتائیے گا مجھے اب کی بار صدف نے کہا پگلی تو کیا جانے تیرا بھائی ہر میدان کا ونر ہے - اس کی بات سن کے پری اور بھابھی شفق دونوں ہی زیر لب مسکرا دیں - وہ تینوں ہی جانتی تھیں کس میدان کی بات ہوئی ہے - لالہ رخ نے کہا یہ تو کل پتا چلے گا نہ پھر سب ہی اپنے اپنے کمرے میں آ کر سو گۓ -اگلے دن میں اٹھا اور جلدی میں تیار ہو کر کورٹ چلا گیا وہاں پے مجھے فاروقی صاحب نے مجھے دیکھتے ہی کہا لو جی اب کمال ہی ہو گا آج آپ کے سامنے ایک ایسے وکیل کو پیش کیا جاۓ گا - جو لفظوں کا جادوگر اور مزے کی بات یہ ہے وہ ہے بھی صنف نازک میں بھی اب چونک کے بولا کون ہے وہ تو اب کی بار رضوان بٹ نے کہا - باس اس کے بارے میں صرف سنا ہے میںنے وہ کراچی سے ہے اور کہنے والی کہتے ہیں جہاں حسن کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے اسے خدا نے بنانا شروع کیا تھا - اس کے حسن کے بہت چرچے سنے ہیں ساتھ میں وہ لفظوں کی بھی سچی میں جادوگری دکھا جاتی ہے وہ آج تک کوئی کیس نہیں ہاری اس کے اپنا ہی ایک جدا سا سٹائل ہے کیس لڑنے کا میں نے اب کہا یار یہ سسپنس ختم کرو کون ہیں وہ محترمہ اب کی بار ایک اور سئنیر وکیل خواجہ عرفان صاحب نے کہا شارق صاحب وہ مخدوم زادی زینب کمال ہاشمی ہیں - ھمارے قانون کے منسٹر کی اکلوتی صاحب زادی ہیں - اب میں بھی چونک گیا کیوں کے میں نے بھی سنا ہوا تھا مخدوم کمال حسمی سندھ کی ایک بہت بڑی شخصیت تھیں - جن کو خود نہیں پتا تھا ان کے پاس کتنی دولت ہے اور ان کو حق نواز ڈوگر کے استعفی دینے کے بعد قانون کا قلم دان سونپا گیا تھا - اس کے پاس ذاتی جہاز تھے - اب خواجہ صاحب نے کہا آج شارق آپ کو بھی مزا آئے گا کیس لڑنے میں میں ہنس دیا اور کہا کوئی بات نہیں میں نے حق اور سچ کے آگے کبھی کسی کو نہیں دیکھا کوئی بھی ھو وہ ابھی ہم یہی باتیں کر رہے تھے کے اچانک میری نظر پارکنگ کی طرف اٹھی وہاں اپ تین لینڈ کروزر ایک دوسری کے پیچھے آ کر روکیں اور پیچھے والی دونوں لینڈ کروزوں سے مسلح اسلحہ برادر دس آدمی نکلے اور تیزی سے آگے والی لینڈ کروزر کی طرف بوڑھے اسی وقت اس لینڈ کروزر کا اگلا دروازہ کھولا کسی نے اور ایک مثل حور لڑکی باہر آئی وہ کوئی تیس سال کی دراز قد لڑکی تھی جس کا چلنے کا انداز اتنا شاہانہ تھا میں بتا نہیں سکتا - میں نے اپنی زندگی میں اتنا حسن نہیں دیکھا تھا وہ تو چلی پھرتی قیامت تھی پیکر حسن ھمارے بار روم کی طرف ہی آنے لگی اب خواجہ صاحب کی نظر بھی ان پے پڑھی وہ چونک کے بولے لو جی آ گئیں ہیں مخدوم زادی اب سب ہی پلٹ کر دیکھنے لگے - میں آج تک سنتا آیا تھا رعب حسن کے بارے میں لیکن آج مجھے پتا چلا تھا یہ تو سب سے بڑھ کے رعب ہوتا ہے حسن کا وہ اب اپنی متوالی چال چلتی بار روم میں داخل ہوئی اس کے گن من باہر ہی رک گۓ -اب اس نے داخل ہوتے ہی سلام کیا - ہم سب نے اپنی جگہ سے کھڑا ہو کر سلام کا جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا کہا وہ خود جتنی پیاری تھی اس کی آواز اس سے بھی پیاری تھی مجھے یوں لگا تھا جیسے کسی مندر میں کوئی نقرائی گھنٹیاں سی بج اٹھی ہوں -اب اس نے کہا یہاں پے بار صدر کون ہیں اب کی بار رضوان نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا یہ ہیں اب اس نے اپنی قیمتی پاس سے ایک لیٹر نکالا اور میری طرف بڑھا کے بولی یہ آپ کے لئے ہے -میں نے وہ کھولا تو وہ کراچی کی بار کے صدر کی طرف سے تھا جس نے کہا تھا زینب کمال ہاشمی کو آپ کے سٹی میں کیس لڑنا ہے اسے اجازت دی جاۓ - میں نے ایک لمبا سانس لیا اور رضوان سے کہا ان کو یہاں کیس لڑنے کا اجازت نامہ ٹائپ کرواکے بڑے جج صاحب سے سائن کروا کے جلدی لو قوت کم ہے وہ تیزی سے اٹھا اور اپنے آفس میں داخل ہوا فاروقی صاحب نے اب چپڑاسی سے کہ کر زینب کے لئے شاندار سی چاۓ کا بندو بست کیا - چاۓ کے سپ لیتے ہوئے زینب نے کہا یہاں پے ایک بیرسٹر کا برا چرچا سنا ہے وہ لوگوں کو بیلک میل کرتا ہے - آپ نے اس کے خلاف کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا -اب میں نے کہا وہ کون ہے اس نے اپنے کندھے سے آگے آئے بالوں کو ایک قاتلانہ ادا سے پیچھے کی طرف جھٹکا اور کہا کوئی شارق نامی ہے اب کی بار میں تو زیر لب مسکرا دیا اور باقی سب تو چونک سے گئے - میں نے کہا آپ جس کیس کے لئے آئیں ہیں - وہ آپ کا مخالف وکیل ہے اس نے کہا میں صرف اسی کو دیکھنے آئی ہوں وہ ہے کیا چیز جس کے سامنے آنے سے وکیل گھبراتے ہیں - اتنے میں میں اپنی سیٹ سے اٹھا اور کہا میرا ایک کیس لگنے والا ہے آپ سے کورٹ میں ملاقات ہو گئی اور فاروقی صاحب کو ساتھ لئے باہر آ گیا راستے میں رضوان ملا میں نے اس لیٹر پے اپنے سائن کے اور کہا اسے دے دو - اور خود متعلقہ عدالت کی طرف چل دیااسلمیں میرے دل کو جیسے کچھ ہو رہا تھا زینب کے حسن کو دیکھ کر آج تک میرا دل یوں نہیں دھڑکا تھا جیسے آج وہ مچل رہا تھا - پھر کوئی پانچ منٹ بعد وہ بھی کورٹ میں داخل ہوئی اور میرا شکریہ ادا کر کے بیٹھ گئی - اسے کسی نے نہیں بتایا تھا میں ہی شارق ہوں - اب جج صاحب عدالت میں داخل ہوئے اور اپنی مخصوص سیٹ پے بیٹھے ھمارے کیس کا پہلا ہی نمبر تھا اب جج صاحب نے کاروائی کو شروع کرنے کا حکم دیا نائب کورٹ نے آواز لگائی اور نواب رستم اندر داخل ہویا وہ پولیس کے ساتھ تھا اب اسے دیکھ کر زینب اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنی فائل میںنے سے کچھ کاغذ نکل کر جج صاحب کو پیش کیے وہ ان کو پڑھنے لگے اورپھر کہا ٹھیک ہے مخدوم زادی صاحبہ آپ اپنی کاروائی کا آغاز کریںاب زینب نے اپنی سریلی آواز میں کہا جناب مجھے حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر کے ھمارے معاشرے میں بلا وجہ کسی لالچ کی بنیاد پر کسی بھی شریف اور معزز شخص کی پگڑی اچھال دی جاتی ہے - جیسے اس کیس میں میرے موکل نواب رستم صاحب کے ساتھ ہوا ہے وہ اپنے علاقے سے ممبر نشینل اسمبلی ہیں ان کو یہ سیٹ عوام نے دی ہے ان کی شرافت کو دیکھ کر انھوں نے اپنے حلقے میں نمایاں کام کے ہیں جن کی مثال نہیں ملتی - اب ایک ایسا کیس جس کو ختم ہوئے بھی چودہ سال گزر گئے ہیں وہ اوپن کیا گیا اور بیگم جہاں آرہ جو اس دفع اپنی ہار کا بدلہ لینا چاہتی تھیں نواب رستم سے کیونکے یہ بھی الیکشن ہاری تھیں - اب انہوں نے ایک چالاک وکیل کے ساتھ مل کر یہ سارا ڈرامہ پلان کیا اور میرے موکل کو یہاں کھڑا کیا - یہ انسانیت کی توہین ہیں -جو مجرم اس کیس میں چودہ سال بھگت رہا تھا -اسے آج سے پہلے کیوں نہیں خیال آیا کے وہ بے گناہ ہے ایسی سیچوایشن تو فلموں میں بھی نہیں ملتی جیسی اس کیس میں ہے کیا ہی اعلی ذہانت کا مظاہرہ کیا گیا جناب ان کو داد دینے کو جی چاہتا ہیں جو اس ڈرامے کے روح رواں ہیں - کیسے کیسے ہتھکنڈے استمعال کے جا رہے ہیں - وہ زمین ہتھیانے کے لئے جس میں سے اب تیل نکل آیا ہے وہ زمین جو پہلے لاکھوں کی تھی اب وہ اربوں کی ہو گئی ہے آج سے پہلے بیگم صاحبہ کو خیال نہیں آیا ان کے مرحوم شوھر سے کوئی ادھار بھی لیا گیا تھا - اب اچانک ہی سب کھاتے کیسے کھل گۓزینب کا لہجہ اتنا متاثر کرنے والا تھا اگر میں سب کچھ خود نہ جانتا ہوتا تو میں بھی اس کی تائید کرتا جیسے اس وقت عدالت میں ماجود کافی سارے وکیل تائید میں سر ہلا رہے تھے جتنی وہ خوبصورت تھی اس سے کہیں زیادہ وہ خوب صورت انداز میں بولتی تھی - اب کی بار جج صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا جی شارق صاحب آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں اب میں اٹھا - مجھے دیکھ کر اب زینب چونک سی گئی میں نے اب کچھ سنجیدگی سے کہا جناب زینب صاحبہ نے بہت اچھی باتیں کیں ہیں میں ان سب باتوں کی تائید کرتا ہوں - لیکن صد افسوس میں خود اس کیس میں ایک شہادتی بھی رہا ہوں - میں عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا بس اتنا ہی کہوں گا - اس کیس میں ایک بے گناہا کو سزا ملی تھی اب گناہ گار کو بھی سزا ملنی چاہیے - اب کی بات زینب نے کہا جج صاحب میں بابا حفیظ سے کچھ سوال کرنی چاہوں گئیں اب بابا حفیظ کٹہرے میں آیا اسے دیکھ کر ایک دفع تو زینب بھی حیران سی ہوئی وہ ایک زہین ترین خاتون تھی - وہ حفیظ کو دیکھتے ہی سمجھ گئی تھی وہ قاتل نہیں ہو سکتا کچھ لوگ فیس ریڈنگ میں کافی ایکسپرٹ ہوتےہیں - اب کی بار زینب نے نرمی سے کہا حفیظ صاحب ایسا کیا ہوا تھا جو آپ نے اس وقت اقرار جرم خود کیا اب کی بار حفیظ نے کہا محترمہ وہ میرا اپنی ماں سے کیا ہوا وعدہ تھا - جس کو نبھانے کے لئے میں نے اپنی جوانی کے دن جیل کی نذر کر دئیے - لیکن جب اپنے بھائی جس کی زندگی بچانے کے لےمیں نے اتنا برا قدم اٹھایا تھا - اس کی بے حسی دیکھی جو ان تیرہ سالوں میں ایک دفع بھی نہیں آیا ملنے اور اس نے میری اس بیوی کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا جس نے اسے بیٹوں کی طرح پالا تھا - تب میں بہت افسردہ رہنے لگا تھا - اب مجھ سے میرے بیوی بچے بھی نفرت کرنے لگے تھے - ایک رات میں ان کو یاد کرتا روتا ہوا سو گیا تھا میری ماں میرے خواب میں آئی اور کہا حفیظ میں تم سے راضی ہوں اب تم سچ بول دو میرا خدا تمہاری مدد کرےگا انہیں دنوں میرےایک کرم فرما شارق جیسے فرشتے کو لئے میرے پاس آئے
انہوں نے ساری تفصیل سن کے کہا میں آپ کا ساتھ دوں گا اور پھر ان کی مہربانی سے میں آج یہاں کھڑا ہوں یہ ایک نیکی کا فرشتہ ہے - اب زینب نے جج صاحب سے کہا -جناب اب میں شرفو سے کچھ سوالوں کی اجازت چاہتی ہوں پھر شرفو نے بھی آ کر اب کی بار رو رو کر کہا اس نے بہت بڑی غلطی کی جو ایک لڑکی کو پانے کے لئے اس نے اپنے باپ جیسے بھائی اور ماں جیسی بھابھی کو دکھ دیے وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا - اب کی بار زینب نے نواب رستم کی بیگم کی طرف ایک دفع غصےسے غور کر دیکھا اور پھر جج صاحب سے مخاطب ہو کر بولی جناب میں اب کوئی سوال نہیں کروں گئی - اب کی بار میں نے وہ سارے ثبوت جج صاحب کے سامنے رکھے جس میں نواب رستم کی وڈیو ریکارڈنگ تھی اور زبانی بھی سب باتیں تھیں اور وہ اسٹام پیپر جس پے اس نے قرضہ لیٹے وقت اپنے دستخط کیے تہے اور ساتھ میں جائیداد جو گروی رکھی تھی ان کے کاغذات جج صاحب کو پیش کئے اب سارے ثبوتوں کو دیکھ کر جج صاحب نے کہا میں اگلی ڈیٹ پے حکم سناؤں گا اب بحث تمام ہوئی - میں نے اب کہا جناب اگلی ڈیٹ ایک ہفتے بعد کی دی جا
ۓ کیونکے میری بہن کی شادی ہے تین دن بعد میں جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے اور ایک ہفتے کی ڈیٹ دے دی - اب میں اور میرے ساتھ وکیل عدالت سے باہر آ گئے ھمارے پیچھے ہی زینب بھی آئی اس نے کہا تو آپ ہیں شارق حسین میں نے ہنس کے کہا جی خادمکو ہی بیلک میلر وکیل کہتے ہیں اب وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور کہا مجھے ایسا ہی بتایا گیا تھا اور میں تو جیسی ان کی ہنسی میں کھو سا گیا - پھر وہ بولی ٹھیک ہے میں اب چلتی ہوں میرے کھلا زاد کزن کی شادی ہے سنڈے کو وہ بہت غصے میں ہے اب میرے ابھی نہ آنے کی وجہ سے وہ مجھے بھائیوں کی طرح عزیز ہے اور ہم سے اجازت لے کر اپنی جیپ کی طرف بڑھ گئی اس کے گارڈز اس کو گھیرے ہوئے تھے - وہ سب اپنی جیپوں میں بیٹھے اور روانہ ہو گے
میں بھی اب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بار روم میں آ کر بیٹھ گیا - اور سب ہی اس کی حسن بیانی پے تبصرے کر رہے تھے - میں ان کے ساتھ دو تین گھنٹے رہا پھر میں نے سب سے اجازت لی اور گھر آ گیا - گھر میں تو جیسے پرستان کی پریاں اتر آییں تھیں- لان میں ہی کوئی دس کے قریب نوجوان لڑکیاں بیٹھی تھیں وہ لالہ رخ اور صدف لوگوں کی فرینڈز تھیں - میں جیسے ہی گاڑی روک کے نیچے اترا صدف کے نے ایک انڈین سانگ اونچی آواز میں گانا شروع کر دیا - اس کی سب ساتھ لڑکیاں ساتھ میں کورس میں اس کا ساتھ دینے لگیں تھیں - آئیے آپ کا انتیظار تھا - وہ بار بار یہی گائی جا رہی تھیں - میں کچھ جھینپ سا گیا کمبخت موقع محل دیکھے بنا ہی شروع ہو جاتی تھی - ان سے کچھ ہی دور باقی گھر والے بیٹھے تھے اب کی بار بھائی طارق نے کہا آ جو یار جلدی سے یہ ھمارے پاس ورنہ یہ چڑیلیں آپ کو چمٹ جایئں گیں اب کی بار پری نے کہا یہ جا کر تو دیکھیں آپ کے پاس ہم صبح سے ان محترم کا انتظار کر رہی تھیں اور یہ اب آ رہے ہیں شام ہونے والی ہے - میں نے اب کہا بس اب میں فری ہوں آپ کا پورا ساتھ دوں گا - اب کی بار بھابھی شفق نے کہا آج مزہ آئیے گا - پھر میں کچھ دیر ڈیڈی کے پاس جا کر بیٹھا اور ان کو ساری تفصیل بتائی کیس کی - وہ بھی زینب کمال ہاشمی کا نام سن کے چونک سے گے - وہ بولے وہ تو بہت بڑا خاندان ہے بیٹا میں اپنی پوسٹنگ کے دوران ملا ہوں کمال ہاشمی سحاب سے بارے اچھے انسان ہیں انہوں نے میری بہت مدد کی تھی ان دنوں میں آج تک ان کا احسان مند ہوں
پھر میں وہاں ہی بیٹھا رہا صدف اور پری مجھے اشاروں سے اپنی طرف بھلا رہی تھیں - سب نے ہی دیکھ لیا اب کی بار نواب سلطان انکل نےکہا وہ آپ کو بلا رہیں ہیں میںنے ذرا اونچی آواز میں کہا انکل میں آجکل چڑیلوں سے ذرا دور ہی رہتا ہوں اب کی بار لالہ رخ جس کے ہاتھوں میں مہندی لگی تھی غصے سے اٹھی اور میری طرف دور کے آئی ابھی بتاتی ہوں آپ کو یہ چڑیل کس کو کہا آپ نے اب میں نے کہا ارے بابا مجھے نہ لگا دینا مہندی آپ کو نہیں کہا - اب سب ہی ہنسنے لگی وہ بولی اب جلدی سے اٹھ جایئں ورنہ "......... اور میں اب ہنستا ہوا اٹھا اور اس کے ساتھ لڑکیوں کے گروپ میں آ کر بیٹھ گیا اب صدف اپنی جگا سے اٹھی اور مغلیہ طرز پے جک کر سلام کیا اور کہا راج کمار صاحب کو داسی سلام پیش کرتی ہے اس کی یہ حرکت دیکھ کر سب کی ہنسی پھوٹ پڑی- ابھی ہم یوں ہی ہنس ہی رہے تھے کے اسی وقت دو کریں آشیانے کے گیٹ سے اندر داخل ہوئیں ، ان کو دیکھ کر شفق بھابھی تو اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی پھر آگے والی کار سے شفق کا بھائی سفیان اور اس کی بیگم ثوبیہ نکالی اور پیچھے والی کار سے ثوبیہ کا بھائی یاسر اور ان کی بیگم افشاں باہر نکلی ان کے ساتھ ہی کائنات بھی تھی - اب وہ ہماری طرف ہی آنے لگی ہم سب ہی اب اپنی جگہ سے کھڑے ہو گے تھے -وہ سب اب آ کر امی جان اور ڈیڈی سے ملے پہلے شفق اور طارق بھائی ملے ان سے پھر وہ سب ہی مجھ سے ملے اور بعد میں سارے گھر والوں سے اب کی بار افشاں نے کہا کیسے ہیں آپ ہیرو صاحب اب کی بار ثوبیہ نے کہا آج کل تو یہ محترم ٹاپ پے جا رہے ہیں ہر طرف انہی کے چرچے ہیں -

پارٹ نمبر اکتیس
اب سب ہی مہمانوں کی آؤ بھگت میں لگ گئے - جب سب نے چا
ۓ پی لی اور بعد میں سب لان میں ہی بیٹھ کر ایک دوسرے سے ہنسی مَذآق کرنے لگے - پھر تھوڑی دیر بعد ہی صدف نے کہا اب شام ہونے والی ہے آج لان میں ہی بندوبست کیا جاۓ- پھر بھائی امجد نے لان میں ہی ملازموں سے که کر کرسیاں لگا دیں- اور پھر اتنے میں کرنل عثمان اور قاروقی صاحب کی فیملی آگے پیچھے ہی اپنی اپنی گاڑیوں میں اندر داخل ہوئے - اب وہ سب سے مل کر چاۓ پینے لگے ابھی وہ فراغ نہیں ہوئے تھے کے رضوان بٹ اپنی فیملی سمیت آ گیا اب کافی مہمان آنے لگے تھے اب تو کافی رونق ہو گئی تھی - مہمانوں سے ملنے میں ہی کافی وقت گزر گیا - اب جب سب ہی فری ہو گے تو صدف نے اب کی بار اونچی آواز میں کہا چلو اب ڈھولکی کا پروگرام شروع کیا جاتا ہے لڑکیاں اور لڑکے آ جایئں سب آج کھلم کھلا مقابلہ ہو گا - ہاں ساتھ میں آنٹیاں اور انکلز بھی آ جایئں - پھر میری طرف دیکھ کر بولی آ جاؤ راجکمار آج بس پنجابی ماہیے ہی چلیں گے - اب وہاں مرد حضرات ایک طرف اور خواتین ایک طرف بیٹھ گئیں -
اب میں نے کہا یار یہ سب آپ لڑکیاں ہی کرو ہم تو شاعری کے وقت ساتھ دیں گے - اب کی بار کائنات نے کہا شارق یہ نہیں ہو سکتا آپ سب کے سامنے ہار مانو میں نے کہا کیوں ہار مانو ایسے ہی تو گل بولی تو پھر آ جاؤ ابھی پتا چل جاتا ہے - میں نے اب کچھ نخرے کرنے کا سوچا میں نے کہا میں نہیں آؤں گا آپ سب لوگ ہی شروع کرو اب کی بار سب ہی چلانے لگیں - آپ کو آتے جو نہیں ماہیے اسی لئے اب بہانے کر رہے ہیں اب کی بار لالہ رخ نے کہا بھائی میری فرینڈز که رہی ہیں آپ کے بھائی کو کچھ نہیں آتا اب آ جایئں نہ پلیز میری عزت کا معاملہ ہے ، اب سب ہی ہنس دئیے وہ خوب مسکا لگا رہی تھی - میں نے اب کہا چلو ٹھیک ہے آتا ہوں ذرا مجھے پتا تو چلے کیا آتا ہے آپ کی فرینڈز کو اور میں اب اپنی جگہ سے اٹھا اور آگے جا کر ان کے ساتھ ہی لان پے ہی بچھے قالینوں پے بیٹھ گیا اب مجھے دیکھ کر رضوان اور سفیان کے ساتھ یاسر بھی آ گیا اب ہم چار لڑکے تھے اور کوئی بیس کے قریب لڑکیاں تھیں - پھر صدف نے اب ڈھولکی کو تھاپ لگا کے کہا ہاں تو ہو جاؤ شروع میری شیرنیوں آج ان مردوں کو بتا دو ہم کسی سے کم نہیں ہیں - وہ کم بخت الفاظ ہی ایسے بولتی تھی کے سب کی ہنسی بے ساختہ چھوٹ جاتی تھی - اب پھل بھی اسی نے کی اور ڈھولکی بجانے لگی اب اس کے ساتھ ہی ایک ایک اور لڑکی جس کا نام صنم تھا وہ ڈھولکی کے ساتھ ہی ایک جنجھرلے کر بیٹی تھی وہ اسے اب ڈھولکی کی تھاپ کے ساتھ ملا کر بجانے لگی - دونوں کی ہی کمال کی انڈر اسٹینڈنگ ہو گئی تھی اب اس ڈھولکی کے ساتھ جنجھڑوںکے شور نے ایک ساماں باندھ دیا
اب صدف نے کہا چلو لڑکیوں شروع ہو جاؤ اب وہی لڑکی صنم نے پہل کی اور ایک ماہیا سنانے لگی -
کوٹھے تے کھنڈ پئی
کوٹھے تے کھنڈ پئی
وے اج مرے ماہی اونا
مرے دل نوں ٹھنڈ پئی
اب اس کے ماہیے کی طرز پے ہی صدف نے ڈھولکی بجائی پھر اس نے میری طرف دیکھا اور کہا ایک ہم کہیں گئیں اور اس کے جواب میں ایک آپ سناؤ گے میں نے کہا قبول ہے -محترمہ اور اب خود ایک دفع اپنا گلہ صاف کیا اور ایک ماہیا کہا
کوٹھے تے لون پیا
کوٹھے تے لون پیا
وے اج مرے ماہی آونا
لوکاں نوں سول پِیآ
اب کی بار لڑکیوں میں سے کائنات نے اب کی بار کہا
سونے دی ایٹ ماہیا
ہائے سونے دی ایٹ ماہیا
وے رب تینوں قلم دتی
ایدھے ظلم نہ لکھ ماہیا
اب کی بار یاسر نے جواب دیا - وہ اپنی بیگم افشاں کی طرف میٹھی نگاہ سے دیکھ کر بولا
دو زلفاں چھلے وے چھلے
دو زلفاں چھلے وے چھلے
سارا جگ سوہنا وے
پر میرے ماہیے توں تھلے وے تھلے
اب کی بار صدف نے کہا اچھا جی اپنے منہ سے ہی میاں مٹھو خود ہی اپنی بیگم کی تعریف اور سب ہنس دئیے اب صدف نے ایک ماہیا کہا -
سڑکے تے روڑی آ ...
سڑکے تے روڑی آ ...
نالے اوہنے چھلا لاہ لیا
نالے انگل وی مروڑی آ ....

اب کی بار میں نے ہی جواب دیا اور بولا -
کالے رنگ دا گلاب کوئی نہ
ہائے کالے رنگ دا گلاب کوئی نہ
تیریاں کتاباں وچ وی
سادی گل دا جواب کوئی نہ
اب جیسا ماہیا ہوتا تھا صدف ویسی ہی ڈھولکی بجانے لگتی کمال کی ڈھولکی بجا رہی تھی صدف - پھر اب کی بار پری نے ایک ماہیا کہا
ڈھل گے نے پرچھاویں وے
ہائے ڈھل گے نے پرچھاویں وے
پھل وانگوں میں کھل جاواں
سوہنے سجن جے تو آویں تے
اب کی بار میں نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا سب ہی چپ تھے یاسر نے کہا یار مجھے ایک ہی آتا تھا وہ سنا دیا - آپ ہی ان کو جواب دو ہم شاعری میں آپ کا بھر پور ساتھ دیں گئے اب میں نے ہی جواب میں ماہیا سنایا -
پانی نہراں دے ناہی سکدے
نی پانی نہراں دے ناہی سکدے
نی عشقے دے رونے سوہنیے
کدی رویاں ناہی مکدے
اب کی بار صدف کے ساتھ بیٹھی ایک لڑکی جو مجھے بہت غور سے دیکھ رہی تھی وہ بولی -
کوئی چولا میں صیواں
ہائے کوئی چولا میں صیواں
دنیاں تے رویں تو صدا واسڈھا
تیری اس تے میں جیواں
اب میں نے ہی جواب دینا تھا اب سو میں نے ہی کہا -
چنی پیلے رنگ دی رنگی ہوئی وے
چنی پیلے رنگ دی رنگی ہوئی وے
جدوں دا تو دور گیا ،جند سولی اتھے ٹنگی ہوئی وے
اب بھی اسی لڑکی نے جو مجھے بہت میٹھی نظروں سے دیکھ رہی تھی -اسی نے جواب دیا

والاں وچ پھل ٹنگیا
وے والاں وچ پھل ٹنگیا
عمران تے لنگ چلیاں
پر جوبن ناہی لانگیا
میں نے اسے ایک بھر پور نظر سے دیکھا ان پھر دل ہی دل میں اس کے جوبن کی تعریف کی - اور ایک ماہیا کہا
پانی وچ جوکاں نی
وے پانی وچ جوکاں نی
جناں پچھے تو پھر دا
سادی جوتی دیاں نوکاں نی
اب کی بار اس نے مجھے بہت غور سے دیکھا اور زیر لب مسکرا دی - پھر اسی نے ہی جواب دیا

کوٹھے توں اڑ کاواں،کوٹھے توں اڑ کاواں
صد پٹواری نوں جند سجن دے ناں لاواں
اب کی بار صدف نے کہا شاباش یار کمال کر رہی ھو آج شارق صاحب کو ہرا کے چھوڑنا ہے آپ نے - صدف نے اب محسوس کر لیا تھا وہ لڑکی مجھ میں انٹرسٹ لے رہی ہے - تو اس نے اب اسے کھل کے موقع دے دیا - میں نے اب کی بار مسکرا کے ایک ماہیا کہا -
آلو مٹر پکا
ۓ ہوئے نے ،آلو مٹر پکاۓ ہوئے نے
سادے نالوں بٹن چنگے جیرے سینے نال لا
ۓ ہوئے نے
اب سب ہی ہنس دئیے سب ہی ھمارے مقابلے کو خاموشی سے ہی انجووا
ۓ کر رہے تھے اب کی بار بھی اسی مہ وش نے ہی جواب دیا
آلو مٹر پکاواں گی ،آلو مٹر پکاواں گی
میں بٹنان نو سٹ دواں گی ، تینوں سینے نال لاواں گئی
اب کی بار تو ایک دفع میں کچھ جھینپ سا گیا تھا کم بخت نے کچھ نہیں دیکھا تھا - مجھے یوں جھینپتے دیکھ کر انکل سلطان نے کہا شارق ڈٹے رہو یار میں نے ہنس کے کہا - ٹھیک ہے انکل
آسمانی ست تارے ، آسمانی ست تارے
آساں کڑی اوہ لینی جہری لہنگے وچوں لات مارے
اب کی بار سب ہی ہنس دئیے لیکن لگتا تھا وہ پیکر حسن بھی اپنی مثال آپ تھی اس نے اب کی بار بھی کرارا جواب دیا مجھے
آسمانی ست تارے ، آسمانی ست تارے
آسان منڈا اوہ لینا جہرا سہرے وچوں آکھ مارے
اب کی بار سب ہی زور زور سے ہنسنے لگے تھے اب کی بار لالہ رخ نے کہا واہ آج مزہ آئے گا بھائی اب ذرا روحی سے جیت کر دکھانا مجھے میں نے اب ہنس کے ایک ماہیا کہا -


باری وچ سیکھاں نے ،باری وچ سیکھاں نے
تیرے نال پیار نہیں کرنا ،تیری گت وچ لیکھان نے
اب کی بار سب ہی ہنس دئیے مجھے اب کی رضوان نے گلےسے لگا لیا وہ اب میرے آگے آ گیا تھا تو اسی روحی نے اب جواب میں ایک ماہیا کہا
گڈی آئی ٹیشن تے ، گڈی آئی ٹیشن تے
پرا ہٹ وے بابو سانوں شارق نوں ویکھن دے
اب بیچارہ رضوان جھینپ کے پیچھے ہٹ گیا - میں نے اب ہنس کے کہا کمال ہے لالہ رخ آپ کی دوست تو بہت زوروں کا جواب دیتی ہے - اور آگے سے ایک ماہیا کہا -
چٹا ککر بنیرے تے ، چٹا ککر بنیرے تے
کاسنی ڈوپٹے والیے ، منڈا عاشق تیرے تے
اب کی بار بھی روحی نے ہی جواب دیا -
ساڈی گلی وچ ساپ ریندا ، ساڈی گلی وچ ساپ ریندا
ایتھوں دی نہ لنگیا کرو ، ساڈے ماں پیو نوں شک پیندا
اب سب نے ہی اسے داد دی میں نے بھی کہا کمال ہی ہے یہ تو اب وہ بولی بس اب میں تھک گئی ہوں میں نے کہا نہ جی نہ ہار مانو اس نے میری طرف دیکھا اور کہا ہم ہار مانتے ہیں جی میں نے اب آخری ماہیا کہا -
شیشہ ٹوٹا ہویا نی جرڈا، شیشہ ٹوٹا ہویا نی جرڈا
قسم ے خدا دی سونئیے دل دیتا ہویا نی مُڑدا
اب سب نے ہی مجھے داد دی اور اب کی بار پری نے کہا بس اب شاعری شروع کریں -میں نے کہا شاعری بھی صرف پنجابی میں ہی ہو گئی کیوں کے پہلا راؤنڈ پنجابی کا ہی ہے
اب کی بار روحی نے کہا چلیں آج میں آپ سے شاعری کا بھی مقابلہ کروں گئی پنجابی میں - اب کی بار صدف نے ہنس کے کہا تم نے ابھی شارق کے کمال نہیں دیکھے ورنہ مقابلہ کرنے کا کبھی نہ سوچتی - اب میں نے کہا ٹھیک ہے اور پھر پنجابی میں شاعری کا مقابلہ شروع ہوا -
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
، کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
پہل اب بھی روحی نے ہی کی - سب لوگوں نے دل کھول کر اسے داد دی میں نے اب اس کی طرف پیار سے دیکھا اور جواب دیا
تو نہ آیا ،تیری یاد یار وفا کر گئی
رائی بےچینی پل پل مینوں ، بے چینی میرا چین تباہ کر گی
بووا کھڑکیا راتی کئی واری ، میں سمجھیا اثردعا کر گئی
بووا کھولیا ویکھیا کوئی وی نہی، ساڈھے نال مزاق ہوا کر گئی
اب کی بار تو لڑکیوں نے خوب داد دی پری نے کہا آپ کا کوئی جوڑ نہیں سچی میں کائنات نے کہا آپ اگر شاعری کرو تو ایک مانے ہوئے شاعر اور اگر سنگنگ کرو تو ایک کمال کے سریلے سنگر اور وکالت میں تو کوئی آپ کا جوڑ ہے ہی نہیں یار کیا چیز ہیں آپ ہر فن مولا اب کی بار شفق نے کہا لڑکیوں میرے دیور کو اب نظر ہی نہ لگا دینا - اب کی بار پری نے کہا گرلز ایک ضروری اعلان جو بھی شارق کا امید وار ہے وہ بھابھی شفق کو راضی کر لے اس کا کام بن جا
ۓ گا
سب کی ہی اب ہنسی چھوٹ گئی تھی - میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا جی روحی صاحبہ اب کی بار روحی نے ایک اور پنجابی کا ہی شعر کہا
اناں اکھیاں وچ سی پیار بڑا
اُنہے کدی اکھیاں دے وچ تکیا ای نئیں
ایس دل وچ سی تصویر اُس دی
میں اپنے دل وچ ہور کجھ رکھیا ای نئیں
میں نے اب ایک پنجابی کی ہی غزل کہی
کدی مہک نئین مکدی پھلا وچوں
پھل سُکدے سُکدے سُک جاندے
کوئی قدر نہ جانے عشق دی
دل ٹُٹدے ٹٹدے ٹٹ جاندے
کوئی مُل نئیں جگ تے رشتیاں دا
اے چھٹدے چھٹدے چھٹ جاندے
کدی پیار نئیں مکدا دلاں وچوں
ساہ مکدے مکدے مک جاندے
اب کی بار روحی نے مجھے ایسی نظر سے دیکھا جیسے وہ نظروں ہی نظروں میں مجھ پے نثار ہو جا
ۓ گئی - اور پھر اس نے ایک ٹھنڈی آہ بڑھ کے جواب دیا
یاری عشق دے نال نہ لا بیٹھیں
اے یار بنا کے لُٹ لیندا

اے عشق اولڑا ڈاکو اے
بس نین لڑا کے ای لُٹ لیندا
میں نے اب اسے ایک نظر صدف کی طرف دیکھا جس نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا کے آج اسے بھی دیدار کرا ہی دو میں نے اب ہنس کے روحی کو جواب دیا
اج رات ، اک رات دی رات جی کے
اسی جُگ ہزاراں جی لِتا اے

اج رات امرت دے جام وانگوں
اِنہاں ہتھاں نے یار نوں پی لِتا اے
اب روحی نے کہا آپ واقعی ہر چیز پے کمال رکھتے ہیں لاجواب کولیکشن ہے آپ کی میں آپ سے مقابلہ نہیں کر سکتی - اب کی بار سفیان بھائی نے کہا یار کچھ ہم سے بھی سن لو اور ایک شغلی غزل کہی

پنڈ کے بوہڑ تھلے ہم عشق لڑایا کرتے تھے
وہ پانڈے دھونے آتی تھی، ہم مجھ نواہیا کرتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہر کام میں آگے تھی ہم ہر کام میں پھاڈی تھے
وہ سبق مکا کے بہہ جاتی، ہم پنسل گھڑیا کرتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدوں میری بے بے اس کے گھر رشتہ لینے پہنچی
وہ کالج جایا کرتی تھی، ہم درس میں پڑھیا کرتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرمیوں کی سکڑ دوپہرے جدوں ہم امب پہ چڑھیا کرتے تھے
منہ سُج پڑولا ہوتا تھا، جب ڈیموں لڑیا کرتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنڈ کے سرکنڈے تلے جب وہ مجھ سے ملنے آتی تھی
شیدا، گاما، فضلو، طیفا مفت میں سڑیا کرتے تھے
ان کو سن کے سب ہی دل کھول کر ہنسے اب امی جان نے کہا بس بیٹا اب رات کے ایک بجے کا وقت ہو گیا باقی اب کل چلو اب ختم کرو - اور سب ہی بزرگ حضرات تو اٹھ کھڑے ہوئے
اب صرف نوجوان نسل ہی تھی وہاں - اب فاروقی صاحب کی فیملی اور باقی سب مہمان جو اسی شہر سے تھے وہ تو چلے گ
ۓ باقی سب یہاں ہی تھے - لالہ رخ کی فرینڈز بھی چلی گئیں لیکن - روحی کو جان بوجھ کر صدف نے روک لیا -
آج کافی مہمان تھے اس لئے سب ہی کمرے آج بک سے ہو گ
ۓ تھے - اب بھابھی شفق نے میری طرف ایک نظر دیکھا اور پھر صدف کی طرف دیکھ کر بولی صدف آپ اور روحی ایسا کرو آج شارق کے ساتھ والا کمرہ ہی بچا ہے وہاں چلی جاؤ - اور میرے پاس سے گذرتے ہوئے ہلکے سے کہا موج کرو جانو
اب سب ہی اپنے اپنے کمروں میں چلے گ
ۓ تھے - میں نے اب صدف کے پاس سے گزرتے ہوئے کہا اپنے کمرے کی پیچھے والی کھڑکی کھول دینا - اور اپنے روم میں آ گیا آج کیوں کے بہت سارے مہمان اوپر والی پورشن میں بھی سونے والے تھے - اس لئے آج میں نے کچھ اور ہی سوچا تھا میرے کمرے اور میرے ساتھ والی کمرے کی پچھلی طرف ایک ملی ہوئی ٹیرس تھی جس میں دونوں کی کھڑکیاں ہی کھلتی تھیں - میں نے سوچ لیا تھا وہاں سے جاؤں گا صدف کے کمرے میں جب روحی سو جاۓ گئی - اور اپنا دروازہ میں نے اندر آتے ہی لاک کیا اور بیڈ پے لیٹ گیا اب مجھے کیا پتا تھا آج کی رات مجھے بہت مزے کرنے کو لڑکیاں ملیں گئیں- پھرکوئی تیس منٹ بعد میری ٹیرس والی کھڑکی سے صدف کا سر اندر آیا وہ بولی آ بھی جاؤ یار آج کوئی بہت شدت سے آپ کا منتظر ہے اور میرے کمرے میں داخل ہو گئی وہ بولی یار روحی آج آپ سے تنہائی میں ملنا چاہتی ہے آپ جاؤ میں آپ کے روم میں لیٹی ہوں- جب آپ آؤ گے تب میں چلی جاؤں گئی میں نے کہا تم بھی آ جاؤ نہ وہ اب کی بار کچھ شرما کے بولی یار میرا آج آخری دن ہے کل سے میں ٹھیک ہو جاؤں گئی کل جو مرضی کرنا میں سمجھا گیا صدف کے دن چل رہے ہیں ( منسیز ) اب میں کھڑکی کے راستے سے ساتھ والی کمرے میں داخل ہوا - کمرے میں ایک نائٹ بلب جل رہا تھا - روحی بیڈ پے لیتی تھی اس نے میری طرف دیکھا اور کچھ شرما سی گئی - میں سیدھا اس کے پاس گیا اور بیڈ پے ہی اسکے پاس ہی لیٹ گیا - شارق میں اکثر آپ کا ذکر سنا کرتی تھی لالہ رخ سے پھر آپ کو کافی دفع دیکھا بھی تھا - میں دل سے آپ کو پسند کرنے لگی تھی - لیکن مجھے کوئی موقع نہیں مل رہا تھا آپ سے ملنے کا آج یہ موقع ملا ہے تو میں نے صدف سے بات کی شارق کیا میں آپ کی دوست بن سکتی ہوں - میں نے کہا دل و جان سے کیوں نہیں وہ بہت خوش ہوئی -
اب میں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اس نے اپنا نرم و نازک ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا میں اب اس کے ہاتھ کو سہلانے لگا اپنے دوسرے ہاتھ سے وہ مجھے اب پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی - میں نے اب کہا روحی اگر میں آپ سے کہوں مجھے آپ بہت کا ساتھ چائیے آج تو آپ کا کیا جواب ہو گا اب روحی نے ہلکے سے کہا شارق میں اپ کے ساتھ ہی ہوں - لیکن پلیز مجھ سے کوئی ایسا ویسا سوال نہ کرنا میں آپ سے جسمانی ملاپ نہیں کر سکوں گئی - ویسے آپ کا جو دل چاہے - اپ کس کر سکتے ھو ہگ کر سکتے ہو لیکن سیکس نہیں پلیز برا نہ ماننا میں نے دل ہی دل میں کہا تم بیٹھنے کے لئے جگہ تو دو لیٹنے کی میں خود بنا لوں گا -
اب میں نے کہا چلو ہم کس تک ہی رہیں گے اور اسے اپنی طرف کھینچا اور وہ میری بانہوں میں آ گئی - میں نے اب اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دئیے اور چوسنے لگا - میں اب نرمی سے روحی کے ہونٹ چوس رہا تھا- وہ اب میرے ساتھ دینے لگی ہونٹ چوسنے میں پھر میں نے اپنے ہاتھ سے روحی کی چھاتی کے ابھاروں پے رکھ لئے اور ان کو دبانے لگا کوئی دس منٹ تک میں نے روحی کے ہونٹ چوسے اور چھاتی کو دبایا - اب میں نے اپنے ہونٹ روحی کی گردن پے رکھے اور وہاں سے چومنے لگا - چومتے چومتے میں نیچے آیا اور روحی کی چھاتی کی لکیر کو چومنے لگا اب وہ کافی گرم ہو گئی تھی میں نے اب روحی کی قمیض کو اتارنے کی کوشش کی لیکن روحی نے کہا نہیں شارق ایسے ہی پلیز میں نے اب اس کی چھاتی کو قمیض کے اوپر سے ہی منہ میں لیا اور چھاتی کی نپلز کو باری باری ہلکے سے ہونٹوں میں لے کر کبھی کاٹنے لگتا اور کبھی کھینچنے لگتا- ساتھ ہی میں نے اپنا ایک ہاتھ روحی کے پیٹ پے پھیرنے لگا - وہ اب مست ہونے لگی تھی میں نے اب کی بار اس کے پیٹ سے قمیض کو سائیڈ پے کیا اور وہاں سے ہاتھ سے مساج کرنے لگا - دھیرے دھیرے میں نے اپنے ہاتھ کو روحی کی چھاتی کی طرف لیا اور اسے برا میں داخل کیا اور اس کا ایک مما دبانے لگا - اب کی بار وہ ایک ہلکی سی سسکی لے کر بولی - شارق اب بس کرو نہ میں نے اب ہلکے سے اسے اوپر اٹھایا اور اس کی قمیض کو آرام سے اتار دیا - اب میرے سامنے روحی کی چونتیس سائز کی چھاتی مجود تھی جو ایک ریڈ کلر کی برا میں تھی میں نے اب اسے وہاں سے بھی آزاد کیا برا اتار کر اب کی بار میں نے اب ساتھ ہی روحی کی شلوار بھی اتارنے لگا - اور پھر روحی کی ٹانگوں میں بیٹھ کر اس کی چوت کو ریڈ پینتی کے اوپر سے ہی چاٹنے لگا - اب کی بار روحی فل گرم ہو گئی تھی - وہ اب مزے سے سسکیاں بھرنے لگی میں نے اب چوت سے پینٹی کو سائیڈ پے کیا اور چوت میں اپنی زبان داخل کر دی - روحی ایک ڈیم سے اب تڑپ گئی میں نے اب وہاں سے چاٹنا شروع کیا اور روحی نے سسکنا کوئی تین منٹ بعد میں نے اس کی پینٹی بھی اتار دی اور اس کی رانو کو چاٹتا ہوا اوپر آنے لگا پہلے پیٹ سے جی بھر کے چاٹنے کے بعد میں اس کی چھاتی پے آیا اور وہاں سے اسے مزے سے چاٹنے لگا - اب میں نے روحی کی ایک طرف والی نپل کو منہ میں لیا اور چاٹنے لگا زبان سے کچھ دیر چاٹنے کے بعد میں نے اسے چوسنا شروع کیا اور کوئی پانچ منٹ تک چوستا رہا اب روحی بھی اپنا ایک ہاتھ میری کمر پے پھیرنے لگی تھی - وہاں سے وہ آگے کی طرف آئی اور اس نے اب میری شلوار کا اوزار بند کھولا اور اس میں اپنا ہاتھ ڈال کے میرا لن پکڑ کے سہلانے لگی میں گھر آ کر شلوار قمیض ہی پہنتا تھا اور شلقر کے نیچے کم ہی انڈر ویر پہنتا تھا
اب روحی مزے سے آہیں بھر رہی تھی اور میں نے اب مزے سے اس کی نیپلز کو چوس رہا تھا اب اس کے ہاتھ کی گرفت بھی کچھ مضبوط ہو گئی تھی میرے لن پے اس کا اب سانس تیز ہونے لگا تھا - میں سمجھ رہا تھا اب یہ سیکس کی آگ ہے جسے اندر اندر جلا رہی ہے اب کی بار اس نے لرزتی آواز میں کہا - شارق میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن آپ نے میرے اندر اب آگ لگا دی ہے اسے کسی طرح بجھا دو ورنہ میں جل جاؤں گیں اس آگ میں - اور ساتھ ہی اب اس نے مجھے اپنے اوپر سے اٹھنے کو کہا اور پھر میں اٹھا اب وہ میری گود میں اوندھی لیٹ گئی اس نے میرے لن کو دیکھا اور کہا اوہ نو شارق یہ بہت بڑا ہے - لیکن جتنا بڑا ہے اتنا ہی مزہ بھی دے گا یہ کہ کر اس نے میرا لن اپنے منہ میں لیا اور اسے مزے سے چوسنے لگی -اب وہ دیوانہ وار میرے لن کو چوس رہی تھی جیسے کسی پیسے کو کافی دنوں کے بعد پانی ملا ھو اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہی جا رہی تھی - اف اتنا بڑا لن واؤ آج مزہ آ جاتے گا - اب اس نے کوئی دس منٹ میرے لن کو چوسا اورچاٹنے کے بعد وہ بولی دیر اب میری آگ بجھا دو پلیز - میں اب اس کی ٹانگوں کے درمیان آیا اور اپنا لن روحی کی چوت پے فٹ کیا اور ایک دھکے سے لن کو اندر کیا اب روحی ہلکی آواز میں چیخ پڑی اف مر گئی دھیرے سے جانو کیا مجھے مار ڈالوں گے اب - میں نے اب ہلکے ہلکے سے لن اندر باہر کرنا جاری رکھا - اور روحی بھی اب مزے سے تڑپ رہی تھی اب کوئی تین منٹ بعد وہ بولی پلیز اب زور سے چودو مجھے میں نے اب تیز رفتاری سے لن کو اندر باہر کرنا شروع کیا اب روحی نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد کس لیں اور مضبوطی سے اپنی ٹانگوں سے میری کمر کو دبانے لگی نیچے چوت کی طرف میں نے اب فل زور سے لن کو اندر باہر کرنا شروع کیا - اب کی بار روحی تڑپ کے بولی " اوہ یس مائی ڈیر ایسے ہی چودو مجھے مور ہارڈلی پلیز میں نے اب اپنے دھکوں کی مشین چلا دی اب کی بار تو روہی نے زور سے چیخ مار کے بولی ؛ اوہ یس ' شارق ' ڈو اٹ جان "اوہ یاہ ، اوہ اف ف شارق جانو ایزی جانوں ، کیا اب میری پھاڑ ہی ڈالو گے ، اف ف امہ ، اوہ یاہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں اب روحی کی آوازوں سے بہت مست ہو رہا تھا اور اب کی بار میں نے اسے الٹا کیا اور اسے گھوڑی بنا کے اس کی چوت میں لن ڈال دیا ، اور زور سے چودنے لگا وہ اب کافی تیز آواز میں آہیں بھر رہی تھی ، میں نے اب زور سے دھکے مرنے جاری رکھے - میرے ہر دھکے سے اب روحی آگے کی طرف گر جاتی اور پھر میں نے اسے کمر سے پکڑا اور اس کے اوپر سارا وژن ڈال دیا اب میرے ہاتھوں نے روحی کی چھاتیوں کو پکڑ کے مسلنا شروع کیا اور میں اب صرف اپنے کولہے ہلا کر لن اندر باہر کر رہا تھا - میری سپیڈ اتنی تیز تھی اب روحی کی آنکھیں جیسے پھٹی جا رہی تھی درد بھرے مزے سے وہ اب بے تحاشا چیخی جا رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ یاہ یاہ یاہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ شارق مجھے کیا مرنے کا ارادہ ہے جانو پلیز ایزی پلیز اب کچھ دیر روک جاؤ میں نے اب اپنا لن باہر نکالا اور اسے دوبارہ سے سیدھا کیا اب وہ میری طرف دیکھ کر بولی میں اب اوپر آؤں گئی اور میرے لن پے بیٹھ گئی اپنی ٹانگیں دائیں بائیں کر کے اب روحی نے اپنے ہاتھ سے میرا لن اپنی چوت میں ڈالا اور ہلنے لگی کچی دیر میں وہ مزے سے بے چین ہو کرسسک رہی تھی - اب وہ کبھی اپنے ممے اپنے ہاتھوں سے دبانے لگتی اور کبھی اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگتی - لذت کی شدت سے برا حال تھا روحی کا - وہ اب تک دو دفع جھڑ چکی تھی - لیکن وہ بنا رکے لن پے بیٹھ کر اوپر نیچے ہوئے جا رہی تھی اب اسے اس اینگل میں کوئی پندرہ منٹ ہو گے تھے - میں نے اب کہا جانو اب اسے اپنی گاند میں ڈالو وہ بولی نہیں شارق وہ پھٹ جا
ۓ گئی- میں نے کہا نہیں کچھ نہیں ہو گا اب اس نے کہا میں کوشش کرتی ہوں - پھر اس نے اپنی چوت سے لن نکالا اور گاند پے رکھا اور نیچے کی طرف ایک ہلکا سا دھکا دیا - لن کچھ ہی اندر گیا تھا کے وہ درد سے تڑپ اٹھی اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے شارق نہیں جاۓ گا سارا اب وہ جتنا تھا اتنا ہی اندر باہر کرنے لگی پھر کچھ دیر بعد اسے مزید مزہ آیا اس نے تھوڑا سا اور اندر کیا
یوں ہی اب روحی تھوڑا تھوڑا کر کے اندر لیتی جا رہی تھی پھر ایک وقت آیا اس نے سارا ہی لے لیا اب وہ لن کو گانڈ میں لے کر لمبے لمبے سانس لینے لگی کچھ دیر رک کے اس نے اب مجھے کہا میں پھر سے فارغ ہونے والی ہوں - میں اب اپنی مرضی سے کچھ دیر مزہ لے لوں اب اس نے لن کو گانڈ میں لئے ہی وہ اس پے گھومی وار اپنی دونوں ٹانگیں ایک طرف باد پے رکھ کے گانڈ کو ہلانے لگی ہلکے ہلکے سے - اور پھر کچھ دیر یوں ہی کرتی اور دوبارہ سے اب اپنے آپ کو گھماتے ہوئے اس نے اب کی بار میرے پاؤں کی طرف اپنا منہ کیا اور زور زور سے لن پر اوپر نیچے ہونے لگی اب کی بار وہ جیسے لن پے اچھل اچھل کے گر رہی تھی وہ سارا ہی باہر نکلتی اور ایک ہی جھٹکے سے لن پے بیٹھ کر دوبارہ سے اندر لے لیتی میں تو جیسے مزے سے پاگل ہوا جا رہا تھا - ساتھ میں اس کی سیکسی آواز مجھے اور بھی مزہ دے رہی تھی - اب روحی نے لن کو گانڈ سے نکالا اور میرے پاؤں کی طرف جھک کر اس نے اپنی چوت میں ڈالا اور زور زور سے اپنی گانڈ کو اوپر نیچے کرنے لگی - اب وہ گانڈ کو اٹھا کر لن کے اوپر کی طرف جاتی اور صرف لن کی کیپ ہی اندر رہنے دیتی اور پھر زور سے نیچے بیٹھ جاتی یوں میرا لن سارا ہی اس کی چوت میں ہوتا اس کی چوت آ کر میرے ٹٹوں سے لگتی مجھے اب بہت مزہ آ رہا تھا - اب کوئی دس منٹ یوں ہی وہ اوپر سے اور میں نیچے سے زور لگا کر دھکے مرتے ارہے اب مجھے لگا میں قریب ہی ہوں میں نے اب اس کی کمر پے ہاتھ رکھے اور اسے کچھ اوپر اٹھا کر اپنی کمر کو اٹھا اٹھا کر لن کو چوت میں ڈالنے لگا وہ اب مزے سے مسلسل آہیں بھر رہی تھی - پھر کوئی دس یا پندرہ دھکوں کے بعد میرے لن نے اور اس کی چوت نے ایک ساتھ ہی منی چھوڑی- اب وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی میں نے اسے ایک طرف سائیڈ پے کیا اور اس کو گلے سے لگا لیا میری نظر اب دیوار گیر ٹائم پیس پے گئی- مجھے اس کمرے میں آئے دو گھنٹے ہو گے تھے - میں نے اب اسے ایک کس کی اور اپنے کپڑے پہن کر اپنے کمرے میں آ گیا صدف ابھی تک جاگ رہی تھی اس نے مجھے کوئی دس منٹ تک کس کیا ہونٹوں پے اور پھر چلی گئی - میں اب اپنے کمرے کے واش روم میں گیا اور ابھی خود کو صاف کیا ہی تھا - کے اچانک مجھے لگا میرے کمرے کے دروازے پے ہلکی سی دستکہوئی ہے میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور دروازہ کھولا سامنے ہی کائنات کھڑی تھی - میں نے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا اور دروازہ بند کر دیا -
کائنات نے اندر آتے ہی کہا شارق وقت کم ہے مجھے آج ایک دفع پیار کرو میرے پاس بس تیس منٹ ہیں اس نے جلدی سے اپنے کپڑے اتارے اور میں نے بھی اپنے کپڑے اتار دئیے - اب کی بار کائنات نے کہا کچھ مت کرو بس میری چوت میں لن ڈالو میں بہت بے چین ہوں جان اور نیچے بیٹھ کر میرے لن کو چوسنے لگی اس نے کوئی پانچ منٹ میرا لن چوسا لن اب فل جوبن پے تھا - اب میں نے اسے وہیں نیچے ہی قالین پے ہی لٹایا اور اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا اب میں نے اسے کہا اپنی ٹانگیں میرے پیچھے صوفے کی ٹیک پے رکھ لو اب کائنات کے جسم کا نیچے والا حصہ اوپر کی طرف اٹھا گیا تھا زمین سے اور صرف اس کی چھاتی کے اوپر والا حصہ ہی تھا قالین پے میں نے بھی اب اپنے گھٹنوں کو موڑا اور اپنا لن کائنات کی چوت میں دال دیا ایک ہی بار میں زور سے وہ مزے سے تڑپ اٹھی اوئی ماں مر گئی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م جانو ایسے ہی مجھے بیدردی سے چودو مجھے اور کیا چاہیے تھا - میں اب اپنی فطرت کے مطابق اسے زوروں سے چودنے لگا اب پورے کمرے میں کائنات کی سریلی آواز کی سسکیاں گونج رہی تھیں - اور میں اس کے ممے دبا رہا تھا - اور ساتھ میں اپنی فل سپیڈ سے دھکے مر رہا تھا - اب تک کوئی تین دفع کائنات کی ٹانگیں نیچے گری تھیں صوفے سے وہ میرے دھکوں کی شدت کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی - لیکن میں نے کچھ نہ دیکھا اور اسے بیدردی سے چودنا جاری رکھا - جب میں نے دیکھا کے اب اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں میں سمجھا جاتا وہ جھڑنے والی ہے - اس وقت میں کچھ دیر کے لئے اپنی سپیڈ ہلکی کر لیتا تا کے اسے فارغ ہونے میں مزہ آئے - پھر جیسے ہی مجھے لگتا اب وہ فل خراج ہو چکی ہے میری سپیڈ پھر سے بڑھ جاتی اب میں نے اسے الٹا کیا اور اس کے بازوں زمیں سے لگا کے اسے بازوؤں کے بل پے کھڑا کیا - اب کائنات کا سر نیچے اور ٹانگیں چھت کی طرف تھیں - میں نے اب اس کی ٹانگیں چھوڑی کیں اور اپنا لن اس کی چوت میں ڈال کر اوپر سے نیچے کی طرف اب دھکے مرنے لگا میرے ہر دھکے سے اب کائنات کا سر نیچے زمین سے جا لگتا لیکن نیچے موٹا قالین ہونے کی وجہ سے اسے کوئی درد نہیں ہوتاہ تھا سر میں - اب کائنات زور سے چلا رہی تھی- اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے میں مر گئی شارق پلیز کچھ نرمی سے یار اب میری چوت کی بس ہو گئی ہے اب کچھ دیر رک جاؤ میں نے اب اس کی چوت سے لن نکالا اور گانڈ میں دال دیا وہاں سے پہلے سے بھی زیادہ درد ہونے لگا تھا میں نے گہری کی طرف دیکھا صرف دس منٹ باقی تھے - اب میں نے کائنات کی گند میں دھکے مرنے لگا اور وہ اب کی بار تو درد سے تڑپنے لگی تھی اب میں نے اس کی ٹانگیں جو چھت کی طرف تھیں ان کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے دبوچا اور ایک دوسری کی مخالف سمت میں پھیلا دیا - اب میرے لن کی ہر ضرب اسے بہت تکلیف دے رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اووہ اف ف ف ی اہ شارق میں مرنے والی ہو گئی ہوں ظالم کچھ رحم کرو میں نے کہا کچھ ہی دیر ہے جانو کچھ صبر کیا کرو اور وہ اب چپ کر گئی میںنے اب اور زور سے لن کو دھکے مارنے لگا اور وہ چلانے لگی شارق میں مر گئی پلیز اب مجھے چھوڑ دو یار مجھ سے اب نہیں لیا جا رہا - میں نے اب لن گانڈ سے نکالا اور اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی میں نے جیسے ہی چوت میں دوبارہ سے ڈالا وہ تڑپ کے بولی اوئی ماں آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ آج لگتا ہے یہ مجھے مار کے ہی چھوڑے گا میں نے اب کوئی چار پانچ دھکے مارے اس کی چوت نے پانی چھوڑا اور میں نے بھی اپنے دھکوں کی سپیڈ بڑھا دی پھر تین منٹ بعد میں بھی کائنات کی چوت میں ہی فارغ ہو گیا - اب اسے میں نے سیدھا کیا اور جیسے ہی اس کی ٹانگیں زمین پے لگیں وہ اٹھی اور چکر کھا کر سسوفے پے گر گئی وہاں کچھ دیر اس نے خود کو سنبھالا اور پھر کپڑے پہن کے بولی ظلم ہی کرتے ھو ہر دفع میرے ظالم محبوب اور میرا منہ چوم کے چلی گئی - میں نے اب اپنے واش میں میں جا کر خود کو اچھے سے صاف کیا اور اپنے بیڈ پے لیٹا ہوا تھا ابھی میری آنکھ نہیں لگی تھی کے اسی وقت دوبارہ سے دروازے کی طرف سے ٹھک ٹھک کی آواز ای میں نے جا کر دروازہ کھولا اب پریکھڑی تھی سامنے وہ اندر آئی اور کہا شارق یار ایک دو دن کہاں موقع ملے گا پیار کا او آج ہی کسر نکال لیتے ہیں - میں نے کہا ٹھیک ہے جانو اور اسے لئے بیڈ پے آ گیا ابھی چار بجی تھے ابھی کسی کے اٹھنے میں دو گھنٹے تھے - میں نے پری کو اپنے ساتھ لیٹالیا اور اس کے ہاتھ پکڑ کے سہلانے لگا-

پارٹ نمبر بتیس
میرے ہاتھ پری کے ہاتھوں کو سہلا رہے تھے - اور وہ میری طرف منہ کیا لیتی تھی - شارق ایک بات پوچھوں ؛...... میں نے کہا جی جانو پوچھو ؛..... وہ بولی اپ شادی کب کرو گے میں نے اب کچھ دیر تک کوئی جواب نہ دیا اور کہا پری میں ابھی شادی نہیں کروں گا - اور نہ ہی آج تک اپنی کسی دوست کو یہ جھوٹی آس دلائی ہے - میری شادی جب بھی ہو گی بھابھی شفق کی پسند کی لڑکی سے ہو گئی اور سب سے بڑی بات یہ کے بھابھی شفق میرا رشتہ کسی سید فیملی میں ہی دیکھنا چاہتی ہیں - وہ اب خاموش ہو گئی - پھر اس نے کہا شارق مجھ سے ہمیشہ کی دوستی رکھ لو پلیز میں نے کہا رکھ تو لی ہے اپنی پریوں کی رانی سے اور کیسے رکھوں اب اور ساتھ پری کی طرف کروٹ لے کر اس کو اپنی بانہوں میںجھکڑ لیا - اب پر نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ملا دئیے اور ان کو چوسنے لگی - وہ اب بہت مزے سے میرے ہونٹ چوس رہی تھی - میں نے پری کی چھاتی کے ابھار اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور ان کو دبانے لگا - پری نے بھی اب اپنے ہاتھوں کو میرے لن کی طرف لے جانا شروع کیا اور پھر اس کو پکڑ کے بولی - ہائے اس بے وفا کے لئے کتنا دل تڑپتا ہے - کاش ایسا ہو جا
ۓ:.. یار یہ سواۓ میرے:.. کسی کی چوت کے پاس جا کر کھڑا ہی نہ ھو لیکن یہ ہے ہی بے وفا جیسے ہی کوئی چوت دیکھتا ہے - اٹھ کے لہرانے لگاتا ہے - میں نے ہنس کے کہا اگر صدف کو یہ پتا چلا نہ وہ تمہارا اعلاج کر دے گئی - اسی وقت کھڑکی سے صدف کی آواز آئی میں سب سن اور دیکھ رہی ہوں - پری کی بچی شرم نہیں آتی اکیلی رات کو اپنے یار کے روم میں آ گئی - سچ کہتے ہیں آج کل کی لڑکیوں کی آنکھوں کا پانی ہی ختم ہو گیا ہے - بے شرمی سے کہا جا رہا ہے کاش یہ لن صرف میری ہی چوت کو مزہ دے - اور ساتھ ہی کمرے میں آ گئی - اب پری نے کہا شیطان کی خالہ تم کو ابھی تک نیند نہیں آئی- اب صدف نے آنکھیں مٹکا کر کہا یار میں سو گئی تھی میرے بانجھے شیطان نے آ کر اٹھا دیا - خالہ دیکھو تمہارے سپنوں کے راجکمار کے ساتھ کیا ہو رہا ہے - میں اور پری ہنس دئیے اب صدف نے کہا چلو اب شروع ہو جاؤ آج میں بتاؤں گئی کیسے سیکس کرنا ہے تم دونوں نے - یہ کہ کر وہ میری طرف آئی اور میرے کپڑے اپنے ہاتھوں سےاتارنے لگی - شرٹ اتارتے وقت اس نے ہلکے سے کہا آج تو لگتا ہے آپ کی پانچوں ہی گھی میں ہیں - ( چوپڑیاں اور وہ بھی تین تین ) لگتا تھا کم بخت کائنات کی چدائی کا کھیل بھی دیکھ چکی تھی - اب مجھے سارا ہی ننگا کرنے کے بعد اس نے پری کو بھی ننگا کیا اور پھر اس نے کہا چلو شروع ہو جاؤ یہ کسنگ بہت کر لیں گیں ہم چلو پری اس لن کو اپنے ہونٹوں سے ذرا نشہ پلاؤ -
اب پری نے میرا لن اپنے منمہ میں لیا اور اسے مزے سے چوسنے لگی - اب صدف نے کہا آج کچھ اور طرح سے چوسو میں ابھی آئی اور اسی وقت وہ کھڑکی کی طرف گئی اور پیچھے دیکھتے ہوئے کہا- خبردار اگر میرے آنے تک کوئی کسنگ سین ہوا تو - ہم دونوں ہی ہنس دئیے وہ گئی اور ایک منٹ میں ہی دوبارہ سے نمودار ہو گئی - اب اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی - اس نے آتے ہی کہا یہ آئسکریم ہے اب اس نے ایک پیکٹ کو کھولا اور اس میں سے آئسکریم میرے لن پے ڈالنے لگی وہ کافی ٹھنڈی تھی - ایک سردی کی لہر میرے جسم میں دور گئی - اب اس نے کہا چلو پری اب شروع ہو جاؤ اور پری اب مزے سے وہ آئس کریم چاٹنے لگی اس کے اس طرح ساری زبان کے مساج سے میرا لن تو مزے سے جیسے بے تاب ہوا جا رہا تھا - اب صدف نے خود بھی پری کے پیٹ پے کچھ آئس کریم ڈالی جو ساری ناف کے پاس ہی گری تھی اب ٹھنڈی آئس کریم نے پری کی ایک سسکی نکلوا دی - اب صدف اس آئس کریم کو دیکھنے لگی جو پری کے جسم کی گرمی سے پگھل کر نیچے کی طرف بہنے لگی تھی اور سیدھی چوت میں جانے لگی ایک ایک قطرہ سے اب جیسے وہ وہ ٹھنڈا قطرہ چوت میں جاتا صدف جو اب پری کی ٹانگوں میں ہی سر رکھ کے لیٹ گئی تھی وہ اسے اپنے زبان پے ہی روکتی- اب پری کی سسکیاں نکل رہی تھیں - صدف نے اب تیزی سے بہنے والی آئس کریم کو اتنی شدت سے چاٹ رہی تھی - کے پری کا جسم بار بار ایک دم سے کانپ جاتا تھا - اب پری بھی اور بھی مزے سے میرا لن چاٹ رہی تھی - کوئی بیس منٹ میں دو دفع صدف نے پری کی چوت کو چاٹ چاٹ کر فارغ کیا-اب پری نے تڑپ کے کہا میری ماں اب بس کر کیا مار ہی ڈالی گئی کمینی کیسے زبان کے رگڑے لگا رہی ہے میرا لن بھی اب پھٹنے والا ہو گیا تھا اتنی دیر کی لمبی چٹائی سے - پھر صدف نے کہا اب شارق چلو اپنے ٹانگیں موڑ کے باد کی ٹیک پے رکھو - میں نے ہنس کے ویسا ہی کیا اب میرا سارا وجود باد سے اوپر اٹھا ہوا تھا بس میرا سینہ اور سر لگا تھا بیڈ سے اب پری آئی اور میری رانوں پے بیٹھ گئی - کیوں کے میری ٹانگیں بیڈ کی ٹیک پے رکھی تھیں - اس لئے اب جب پری میری رانوں پے بیٹھی تو اس کا سارا وزن میری ٹانگوں پےآ گیا تھا - اور پری کے دونوں پاؤں بھی بیڈ سے اوپر ہی تھے وہ لٹکا کر بیٹھی تھی لیکن پاؤں بیڈ کو نہیں لگ رہے تھے - اوپر ہی جھول رہے تھے- اب پری نے جو اپنا منہ میری ٹانگوں کی طرف کیے بیٹھی تھی اس نے میرا لن اپنی چوت میں لیا اور ہلنے لگی مجھے اتنا مزہ آ رہا تھا بتا نہیں سکتا - کچھ دیر نمری سے ہلنے کے بعد وہ کچھ اور آگے کی طرف ہوئی اور اس نے اب میری رانوں پے ہاتھ رکھے اور زور زور سے اوپر نیچے ہونے لگی - اب صدف جلدی سے میری ٹانگوں کے نیچے آئی اور اس نے میرے ٹٹے چاٹنے شروع کر دئیے - کچھ دیر ان کوچاٹنے کے بعد وہ اب اپنی زبان پری کی چوت سے رگڑنے لگی اب تو جیسے پری کی مزے سے جان ہی نکل رہی ہو وہ اب مزے کی شدت سے بے ساختہ ہی چلنے لگی تھی - اوہ یاہ اف ف ف اب پری نے اپنے ہاتھوں سے صدف کا سر اپنی چوت کی طرف دبانا شروع کیا - اور اب صدف نے پری کی گانڈ کی طرف زبان کو لائی اور اسے چاٹنے لگی پری تو اب مزے سے پاگل ہوئی جا رہی تھی - اوہ': یاہ : آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م مر گئی صدف کی بچی - کیا کر رہی ہے اور صدف نے اب پری کی گانڈ کو اپنے ہاتھ سے کھولا اور ایک انگلی اندر باہر کرنے لگی اب صدف اور بھی زور سے چیخنے لگی تھی مزے سے - اب میں نے بھی نیچے سے کچھ اوپر کی طرف تیزی سے زور لگانا شروع کیا اب میرا لن کافی تیزی سے اندر باہر ہونے لگا تھا - اب پری بھی اس دو طرفہ مزے سے جیسے مدہوش ہو کر کسی اور ہی دنیا کی سیر کرنے لگی تھی - وہ اب آنکھیں بند کیے زور سے اوپر نیچے ہی ہوے جا رہی تھی - اور اب صدف نے ایک ہاتھ کی انگلی اس کی گانڈ میں ڈالی ہوئی تھی - دوسرے ہاتھ سے وہ پری
کی چوت کو سہلا رہی تھی - پھر اس نے میرے لن کے نیچے اپنی انگلی کی اور وہ بھی چوت میں داخل کر دی اب کی بار پری کی تو جان ہی نکل گئی - درد سے چیخی یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م میں مر گئی میری ماں :'اوہ کمینی اوہ صدف کی بچی پہلے ہی شارق کے لن نے اندر ایک قیامت بھرپا کر رکھی ہے اوپر سے تم نے ایک انگلی بھی دال دی ہے نکالو ایسے میںنہی برداشت کر سکوں گئی -
اب کی بار صدف نے میری طرف دیکھ کر کہا میرے راجکمار اسے چیخنے دو تم دھکے جاری رکھو اور اب صدف اپنے گھٹنے موڑ کر کھڑی ہو گئی تھی میری ٹانگوں کے نیچے اب اس کا سر باہر تھا اس نے اب اپنے ہونٹ پری کے پیٹ پے رکھے اور چاٹنے لگی - وہاں سے وہ اوپر آتی گئی پھر اس نے پری کی چھٹی کے ابھاروں کو چوسنا شروع کر دیا لیکن اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھیں - ایک گانڈ میں اور ایک چوت میں میرے لن کے ساتھ اب پری بہت چلا رہی تھی - پھر جب اس نے دیکھا صدف نہیں رکے گئی تو کہنے لگی یار گند سے ہی نکل دو جب صدف نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی تو اب پری درد بھرے مزے سے سسک کے بولی ہائے ماری ماں آج کن ظالموں کے قابو آ گئی میں معصوم سی بچی - اب کی بار میں اور صدف ہنس کے بولے ہاں جی آپ معصوم اور ہم ظالم - اب میں نے اور زور سے دھکے مرنے لگا لن کو اوپر کی طرف اور صدف بھی اور بھی تیزی سے انگلیاں اندر باہر کرنے لگی - اس دو طرفہ مزے سے ہار مان کر پری نے اب ایک زور دار چیخ ماریآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اووہ اف ف ف ی اہ اور ساتھ ہی وہ اب پھر سے فارغ ہو گئی
اب صدف نے مجھے کہا روکنا نہیں شارق ایسے ہی لگے رہو میں نے کہا ٹھیک ہے - اب پری نے کہا آوے مجھے مزہ تو لینے دو فارغ ہونے کا اب صدف نے کہا ابھی تم کو اور بھی مزہ آئے گا اب اس نے کہا شارق اب لن گانڈ میں آنے دو اب پری نے ہنس کے اپنی چوت سے لن نکالا اور گانڈ میں لے لیا ساتھ ہی اب وہ مزے سے سسک اٹھیآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اب کی بار وہ لن گانڈ میں لے کر زور سے اوپر نیچے ہونے لگی - اور صدف نے اب اپنی ایک ساتھ ہی تین انگلیاں پری کی چوت میں ڈال دیں وہ اب درد سے تڑپ کے بولی کمینی میں تم کو نہیں چھوڑوں گیں- تو آج میری جان ہی نکل لے گئی اب صدف نے کہا میری رانی بہت شوق تھا تم کو اکیلے یہ لن لینے کا اب ذرا مزہ بھی ڈبل لے اور پری مزے سے سسکنے لگی - سچی بہت مزہ آ رہا ہے میں نے بھی اب اپنی سپیڈ بڑھا دی اب میری ٹانگیں بھی کچھ تھک سی گئیں تھیں -اور مجھے اب پری کو کھودتے ہوئے پچیس منٹ ہو گے تھے - میں نے اب فل زور سے دھکے مرنے لگا اپنی ٹانگوں کو ہلا ہلا کر اب تو پری جو ابھی تک مزے سے سسک رہی تھی اب کی بارساتھ ہی درد سے بھی لطف اندوز ہونے لگی - اب پری نے کہا شارق جانو پہلے کی طرح کرو نہ ابمیں نے اسےکہا چلو اب منہ میری طرف کرو اب وہ لن سے اٹھی اور اس نے نیچے اتر کر اب میری طرف منہ کر کے دوبارہ سے بری ٹانگوں پے بیٹھ گئی اب میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی چھاتی کے ابھاراپنے ہاتھوں میں لے کر مسلنے لگا - وہ اب میرا لن اپنی چوت میں لے کر اوپر نیچے ہونے لگی تھی - صدف نے اب اس کی گاند میں اپنی تین انگلیاں ایک ساتھ ہی ڈالی تو درد سے پری کی آنکھیں میں نمی آ گئی - اب اس نے اپنے شکوے بھری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور اس کے ہونٹ ایک دفع کپکپا
ۓ پھر اس نے ان کو زور سے بھنچ لیا - میں نے اب صدف سے کہا یار اب گاند کی جان چھوڑو اور تم میرے لن کے نیچے اپنی زبان پھیرو وہ بولی تھے کا ہے مر راجہ جیسے ہی اس نے اپنی انگلیاں باہر نکالی گانڈ سے پری نے ایک بار لمبا سانس لیا اب اس نے اپنے ہونٹوں سے ایک ہوائی کس میری طرف پھینکی شکریہ کے طور پر اس وقت مجھے اس پے یٹن پیر آیا میں نے اسے اپنے اوپر ہی کھینچ لیا اب وہ میرے سینے سے لگی تھی اور میں زور زور سے لن اس کی چوت میں دال رہا تھا نیچے سے میں نے اب اس کے لرزتے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کے قبضے میں دیا - پھر میں نے پری کے شبنمی ہونٹوں کو مزے سے چوسنا شروع کر دیا اب کافی دیر تک میں اسے چوستا رہا - پھر مجھے لگا میں آنے ہی والا ہوں میں نے ایک دو زور کے دھکے مارے اور میرا لن منی کو پر کی چوت میں خارج کرنے لگا - اب منی کے پریشر سے گرنے سے پری کی چوت بھی تڑپی اور اس نے بھی ایک بار دوبارہ سے پانی چھوڑدیا - اب پری لمبے لمبے سانس لے رہی تھی وہ آج کوئی چھہ دفع (سکس ) بار فارغ ہوئی تھی - اب وہ کچھ کمزوری سی محسوس کرنے لگی تھی - میںنے اسے ابھی ویسے کی چومنا جاری رکھا تھا اب وہ تڑپ کے بولی شارق اب اور نہیں مجھے اب چکر سے آ رہے ہیں - اب میں نے اپنی ٹانگیں بیڈ کی ٹیک سے نیچے کیں اور اسے ایک طرف لٹایا اور میں بیڈ سے نیچے اتر کر کچھ دیر خود کو اچھل کر ورم اپ کرتا رہا - پھر میری ٹانگوں میں خوں کی روانی ٹھیک ہوئی میں اب بیڈ پے آیا پری اب صدف نے پانی پلایا تھا - وہ اب کچھ ہوش میں تھی - اب صدف نے اسے اپنے ساتھ واش روم لے جا کر اسے صاف کیا پھر اسے کپڑے پہناۓ اب میں نے کہا نیچے کیچن میں فریش جوس ہوں گے وہ پیو جا کر اور پری کچھ دیر بیٹھ کر لڑکھڑاتی ہوئی باہر نکل گئی میرے کمرے سے اس کے جانے کے بعد صدف نے دروازہ لاک کیا اب سارھے پانچ ہو گے تھے - آج میں نے ایک گھنٹہ اور تیس منٹ تک پری کی چدائی کی تھی - وہ بیچاری اسی لئے کچھ لڑکھڑا رہی تھی - اب صدف نے میرے لن کو دیکھا اور کہا لگتا ہے اس کی گرمی ابھی ختم نہیں ہوئی اور اس نے اسے ٹشو سے صاف کیا اور پھر میرے لن پے آئسکریم جو اب پگھل چکی تھی وہ ڈال کے میرا لن چوسنے لگی کوئی بیس منٹ تک لگا تار اوپر نیچے دائیں باہیں ہر طرف سے لن کو چوسا صدف نے اب مجھے لگا میں قریب ہی ہوں اب صدف نے مجھے کہا چلو اب واش روم میں جاتے ہیں ہم واش روم ا آگے وہ اب نیچے بیٹھ کر پاؤں کے بل میرے لن کو دوبارہ سے چوسنے لگی پھر کچی دیر میں میرا لن فارغ ہونے والا تھا - میں نے کہا میں آنے والا ہوں اب اس نے لن کو منہ سے نکالا اور ہاتھ سے مٹھ مرنے لگی میرے لن کو پھر ایک جھٹکے سے میرے لن نے تڑپ کے منی کی پچکاریاں مارنی شروع کر دیں - وہ اب حیرانی سے منی کے پریشر کو دیکھ رہی تھی - اب وہ بولی اب سمجھ آئی کیوں کئی دفع تمہارے لن کے منی کے پریشر سے ہی میری چوت پانی چھوڑ دیتی ہے - یہ ظالم اتنا زور سے پچکاری مارتا ہے چوت بیچاری بھی کیا کرے پھر کچھ دیر بعد اس نے نیم گرم پانی سے میرا جسم صاف کیا اور میں باہر آ گیا اپنے کپڑے پہنے اور بیڈ پے لیٹ گیا وہ بھی اب کھڑکی کی طرف گئی اور جاتے ہوے کہا اب سو جانا کے کسی اور نے بھی آنا ہے - میں اب ہنس کے کہا مجھے کیا پتا وہ بولی بہت میسنے ہو پتا نہیں کیسے کیسے اس جنگلی لن کا دیدار کرا رکھا ہے اور ہنستی ہوئی چلی گئی میں بھی اب کروٹ بدل کے سو گیا-
میری آنکھ تب ہی کھلی جب کوئی میرے دروازے پے زور سے دستک دے رہا تھا -میں نے دروازہ کھولا سامنے امی جان تھیں - وہ بولی شارق بیٹا اب اٹھ جاؤ مجھے آپ سے کچھ مشورہ کرنا تھا میں نے کہا میں ابھی دس منٹ میں آیا امی جان - اور وہ چلی گیں میں اب واش روم گیا اچھے سے غسل کیا اور ٹھیک دس منٹ میں ہی تیار ہو کر باہر آ گیا - سب ہی لان میں بیٹھے تھے - اب ویسے ہی دن کے بارہ بج رہے تھے میں بھی وہی گیا مجھے دیکھ کر شفق بھابھی نے ایک نوکرانی سے کہا جوس لو شارق کے لئے میں نے سب کو پاس جا کر سلام کیا اور وہاں امی جان کے پاس ہی ایک کرسی پے بیٹھ گیا - میں نے کہا جی امی جان اب وہ بولیں بیٹا حسن کے گھر والوں نے کرنل عثمان کو بیجھا تھا وہ کہ رہے ہیں آج رات کی مہندی ایک جگہ ہی کر لی جا
ۓ- یہ حسن کی خوائش ہے - میں نے کہا کوئی بات نہیں آج مہندی کی رسم شیش محل میں ہو گئی - اب کی بار لالہ رخ نے جو میرے پیچھے ہی کھڑی تھی زور سے کہا یاہو میرا بھی زندہ باد میں نے چونک کے کہا کیا اس لڑکی بلی نے بھی کہا تھا شیش محل کا اب کی بار ڈیڈی نے ہنس کے کہا یہ صبح سے جان کھا رہی تھی - ہم نے کہا تھا بعد میں سب ہی مشورہ کر لیں گے اور یار تم نے آتے ہی کہ دیا اب میں اپنی جگہ سے اٹھا اور لالہ رخ کو اپنے سینے سے لگا کر پیر سے اس کی پیشانی کو چوما اور کہا ڈیڈی پلیز جو بھی میری بہن کہے وہ ماں لیں آپ اب بھائی امجد نے کہا یار وہاں اتنی دیر میں کیسے تیاریاں ہوں گیں- میں نے ہنس کے کہا اب آپ سب لوگ لنچ کے بعد وہاں ہی جایئں گے - خودی دیکھ کر بتانا کیا کمی ہے - پھر سب نے لنچ ایک ساتھ لان میں ہی کیا اور پھر سب اپنی اپنی گاڑیوں میں شیش محل کی طرف چل دئیے - جیسے ہی سب وہاں پنچے سب کی آنکھیں ہی حیرت سے پھٹ گئیں - کیوں کے شیش محل یوں جگمگا رہا تھا - جیسے سارے شہر کی لایٹس یہاں ہی لگا دیں گیں ہوں - اب ہم جیسے ہی گیٹ کے پاس گاۓ گیٹ کو اندر سے ایک لڑکے نے کھولا وہ میری آرمی کا ہی جوان تھا مجھے پتا تھا ظفری سب کو ہی یہاں لے آیا ہو گا یہ اب اندر ہر طرف رنگ برنگی لائٹس لگی تھیں یہاں تک کے اتنے بڑے محل میں ماجود ہر درخت کی تہنی بھی جگمگا رہی تھی - واقعی میں بہت زیادہ ڈیکوریشن کی گئی تھی اور پھر مختلف رنگوں اور انداز میں سب ہی اس ڈیکوریشن کی تعریف کرنے لگے تھے- لان کو بہت ہی زیدہ خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا وہاں پے ایک شاندار سٹیج تھا اور پھر کوئی سینکڑوں کے حساب سے بہترین صوفے لگے ہوئے تھے لان میں سب ہی ایک سے بڑھ کے ایک تھا - اور جو شاہانہ انداز ان صوفوں کا تھا سو سٹیج پے تھے ان کی تو مثال ہی نہیں ملتی تھی وہ سب ساگوان کی لکڑی سے بنے تھے - اب ہم کو دیکھ کر ظفری ہماری طرف آیا اس نے کہا باس کوئی کمی بیشی تو نہیں رہی نا ہم نے کہا نہیں یار اب ہم اس کے ساتھ محل میں داخل ہوئے اور اندر کا حال دیکھ کر سب ہی اش اش کر اٹھے ظفری نے کوئی بھی پہلو نہیں چھوڑا تھا - ہر کمرے کو الگ سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا پھر سب ہی فرنیچر دیکھ کر حیران رہ گے -ساگوان کی لکڑی بہت ہی زیادہ مہنگی ہوتی ہے اور پھر اس میں سے مسلسل ایک مسحور کن خوشبو نکلتی رہتی ہے اس لئے اس حال میں ساگوان کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ہر چیز ہی بہت شاندار تھی - اور فرنیچر میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں چوری گئی تھی اب ایک طرف سے ایک بھاری جسم کا آدمی آیا ظفری نے کہا بس یہ میرے بہنوئی صاحب ہیں - میں نے آگے بڑھ کے اسے بہت احترم سے گلے سے لگایا وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ظفری کا تو چہرہ ہی کھل اٹھا میرے بعد سب مرد حضرات ان سے تپاک سے ملے اب وہ بولا اس کا نام ہی صاحب داد تھا اس نےکہا جناب یہ فرنیچر ایک ایسے کارگر نے بنایا ہے جس کے ہاتھ کا بنا ہوا فرنیچر یا تو پریذیڈنٹ ہاؤس میں ہے یا اب آپ کے لئے بنا ہے وہ کسی کے لئے بھی فر نیچر تیار ہی نہیں کرتا اس کے پاس بہت سارے مزدور ہیں - اس نے دن رات لگا کر اسے تیار کیا ہے میں نے کہا آپ کا شکریہ بھائی وہ بولا نہیں جناب آپ ظفری کے باس ہیں اور مجھے بھی آپ کی شخصیت بہت ہی اچھی لگی ہے - پھر ہم نے اب سارا شیش محل گھوما اور ہر جگا کی تعریف کی - میں نے اب ظفری کو گلے سے لگا کر داد دی وہ بولا باس ہماری اکلوتی بہن کی شادی تھی میں نے سوچا ایسا انتظام کیا جاۓ جسے اس شہر کے لوگ عرصے تک یاد رکھیں -اب امی جان نے بھی آگے بڑھ کے ظفری کا ماتھا چوما اور بولی بیٹا بہت خوشی ہوئی آپ کا یہ انتظام دیکھ کر میں نے اب کہا آج یہاں مہندی کی رسم ایک ساتھ ہی ھو گئی وہ بولا تھینکس سر آپ نے پہلے ہی بتا دیا پھر اس نے اسی وقت ایک طرف مجود ایک لڑکے کو اپنی طرف اشارے سے بلایا اور اس کے آتے ہی بولا جو انتظام برات کا تھا وہ آج رات مہندی پے ہو گا - برات کے لئے کچھ تبدیلی کر لینا وہ لڑکا سر ہلا کے چلا گیا - میں نے ہنس کے کہا اب کیا ہونے جا رہا ہے وہ بولا سوری سر کچھ سرپرائز بھی رہنے دیں - ہم ہنس دے اب وہ بولا باس یہاں پے ہر طرح کے ہنگامی بنیادوں پے سارے بندو بست کر لئے گئے ہیں - یہاں ہر قسم کا بارود جام کرنے کے لئے اسپیشل جامر لگا دئیے گے ہیں - جو خصوصی طور پے جرمنی سے منگواۓ ہیں بابر صاحب نے یہاں کے لئے میں نےکہا اچھا کیا ہے وہ بولا سر ہر طرف کیمرے لگا دئیے گئے ہیں ان سب کا آپریشنل روم نیچے تہ خانے میں بنا دیا گیا ہے وہاں پے چار لوگوں کی ڈیوٹی ہے پکی پکی ان میں سے ہر ایک چھہ گھنٹے ڈیوٹی دے گا - میں نے کہا بہت اچھا کیا اب کی بار ڈیڈی نے کہا یہ سب کیوں یار میں نے کہا کوئی بھی شرارت کر سکتا ہے اس لائے میں اس موقع پے کوئی ہنگامہ نہیں چاہتا میں نے ساتھ ہی کہا ظفری تم سب ساتھیوں کے ساتھ پھر بھی ہر طرح سے الرٹ ہی رہو گے - وہ بولا آپ بے فکر ہو جائیں باس - یہاں اب پرندہ بھی پر نہیں مر سکتا ہماری اجازت کے بنااب میں نے کہا سب لوگ اب اپنا اپنا سامان لے آئیں اب یہاں ہی سب مہمانو کا استقبال کیا جاۓ گا - اب ڈیڈی نے کہا یہ بھی سہی ہے پھر سب ہی واپس گے اور اپنا اپنا سامان شیش محل لانے لگے- اس طرح انہی مصروفیت میں وقت کے گزارنے کا پتا ہی نہ چلا اور شام ہو گئی اب سب ہی تیار تھے اور حسن لوگوں کا انتیظار ہو رہا تھا - پھر وہ بھی آ گۓ اب سب ہی ان کے استقبال کو اٹھ کھڑے ہوئے لیکن جو استقبال ظفری نے کیا وہ کیا ہی عمدہ تھا اب جیسے ہی حسن کے گھر والوں کی گاڑیاں شیش محل میں داخل ہوئیں - چاروں طرف عربی زبان میں استقبال کی دھنیں سی بکھر گیں پھر اردو - عربی اور انگلش میں ویل کم کی نسوانی آوازیں آنے لگیں یہ آوازیں جیسے ہر طرف سے آ رہی تھیں اپر سے نیچے سے اور چاروں طرف سے ظفری نے درختوں کی آخری ٹہنیوں پے اسپیکر لگواتے تھے- اور ساتھ ہی زمیں میں بھی ان کو گاڑھا گیا تھا - سب ہی یہ دیکھ کر حیران تھے آواز کہاں سے آرہی ہے- پھر جیسے ہی حسن کی فمیلی گاڑیوں سے اتری وہ بھی یہ آوازیں سن کے چونک گئیں - اب جیسے ہی حسن نے پہلا قدم آگے بڑھایا ہر طرف سے درختوں سے رنگ برنگی آتش بازی ہونے لگی - اور مسلسل ہو رہی تھی - کوئی بیس منٹ تک ہوتی رہی - اب سب ہی سحر زدہ ہو کر آتش بازی میں کھو گۓ - اور آتش بازی تھی بھی کمال کی مختلف رنگوں کی اور پھر آسمان پے اب حسن اور لالہ رخ کا نام لکھا جاتا تھا یہ تو کمال تھا آتش بازی کا - اسے دیکھ کر سب ہی اب حیران تھے - حسن کی فیملی والی اور دوسرے سب بھی ابھی تک وہاں ہی کھڑے تھے - پھر وہ آگے آنے لگے - اب کی بار جیسے ہی وہ لان میں آئے مختلف درختوں سے چٹک چٹک کی آواز آنے لگیں اور پھر مہمانوں پے پھولوں کی پتیاں درختوں سے ہی برسنے لگیں تھیں اب یوں لگ رہا تھا جیسے ہر طرف سے فضا سے گلاب کی برسات ہو رہی ھو-
اب کی بار حسن کی سسٹر نے کہا اف کسی نے اس کا سہی نام رکھا ہے شیش محل یہ تو کوئی جادوئی محل لگتا ہے بھائی اور سب ہی ہنس دئیے- میں نے اب آگے بڑھ کے کہا آپ سب کو اس جادوئی محل میں خوش آمدید کہا جاتا ہے - اب سب ہی ایک دوسرے سے ملے میں نے اب حسن کو گلے سے لگا کر خوب زور سے بھنچا - وہ بھی مجھے بہت احترام سے ملا تھا - پھر وہ سب سے مل کر سٹیج پے آ کر بیٹھ گ
ۓ اب سب کی خدمات ہونے لگی - خانے وغیرہ سے فارغ ہوتے ہوئے رات کے نو بج گۓ اب حسن کی بری بہن نے کہا اب رسم شروع کی جاۓ اور پھر دونوں طرف سے رسمیں ہونے لگیں اب جیسے ہی لالہ رخ کو حسن کے ساتھ بٹھایا گیا سٹیج پے اب چاروں طرف سے ہلکی سی سرگوشیوں کی آواز میں ان کو مبارک باد دی جانے لگی اور پھر ہر طرف رومانٹک سا میوزک گھونجنے لگا - اب سب نے ہی دونوں کو ہی مبارکیں دینے لگے پھر پروگرام شروع کیا گیا اب سٹیج کے سامنے کافی جگہ چھوڑی گئی تھی - جس پے لڑکیوں اور لڑکوں نے مل کر ڈانس کیا مختلف سانگز پے کوئی ایک دو گھنٹہ تک یہ سب چلتا رہا اب لوچ لوگوں نے کہا اب سب ہی اپنی آواز میں کچھ نہ کچھ سنائیں پہلے سانگز پھر شاعری اب صدف نے سٹیج سیکرٹری کی پوسٹ سنبھال کے کہا - لو جی اب آ جائیں سامنے سب ابھی چل جاۓ گا پتہ کس میں ہے کتنا دم - اب لڑکے اور لڑکیاں آمنے سامنے آ گئیں - میں اب سٹیج پے ہی بیٹھا تھا - اسی وقت میں نے اس مجسمہ حسن کو اپنی متوالی اور شاہانہ چال چلتے سٹیج پے آتے دیکھا - وہ مخدوم زادی زینب کمال ہاشمی تھی - اسے دیکھتے ہی حسن نے غصے سے اپنے پاس بیٹھی اپنی والدہ سے کہا اپنی بھانجی سے کہ دین خبردار مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی تو اب زینب کھلکھلا کے ہنس دی اور مجھے یوں لگا جیسےفضا میں نقرائی گھنٹیاں بج اٹھی ہوں - وہ بولی سوری یار وہ پاپا نے ہی لیٹ کر دیا تھا اب اس کے پیچھے سے ہی آواز آئی زینی جھوٹ نہ بولو آپ خود لیٹ ہوی تھی وہ وفاقی وزیر قانون مخدوم کمال حسین ہاشمی تھے - اب زینی حسن کے پاس ای اور ہاتھ جوڑ کے بولی سوری بابا آپ کو آج ہی بتا کے تو گئی تھی ایک کام تھا - اب حسن نے کہا چلو معاف کیا پھر اس نے اسے اپنے ساتھ ہی بیٹھا کے کہا لالہ رخ یہ میری اکلوتی خالہ زد کزن زینب ہے - پھر میری طرف دیکھ کر بولا شارق بھائی یہ ماصوف بھی آپ کی طرح ایک وکیل ہی ہیں - اب زینب نے میری طرف دیکھا اور کہا آپ کیسے ہے جناب - میں نے کہا جی اچھا ہی ہوں اب حسن نے کہا آپ ایک دوسرےکو جانتے ھو - اب میں نے کہا جی ایک ملاقات ہو ہی چکی ہے - کورٹ میں اب حسن نے کہا زینی یہ وہی ہیں میرے ہیرو جن کا میں فین ہوں - اب کی بار زینی نے چونک کے مجھے دیکھا اور کہا اوہ تو یہ ہیں وہ ہستی جن کا ذکر بہت احترام سے کیا جاتا تھا ٠
اب صدف نے کہا ہاں جی راجکمار صاحب آپ اب آنا پسند کرو گے - یہ سن کے حسن نے کہا زینی آج ایک وکیل کے سامنے وکیل کو نہ لایا جا
ۓ- میں نے کہا کیا مطلب تو حسن نے کہا شارق بھائی یہ محترمہ شاعری بھی بہت کمال کی کرتی ہیں - اور ساتھ میں سنگنگ بھی بہت خوب کرتی ہیں - اب کی بار زینی نے کہا کیا شارق آپ بھی شاعری کرلیتے ہیں - اب کی بار کائنات نے کہا جو ایک طرف سے آئی تھی - اجی یہ تو ایسے کمالات دکھاتے ہیں کے مت پوچھیں - اب کی بار زینی نے کہا چلیں آج دیکھ لیتے ہیں ان کے کمالات بھی - اب صدف نے ہنس کے کہا جی بہت جلد آپ بھی ان کے کمالات کی فین ہو جائیں گئیں
زینی نے کہا ہم اتنی جلدی فین نہیں ہوتے کسی کے ڈیر - اب صدف نے کہا- ٹھیک ہے ڈیر مان لیتے ہیں - پھر صدف نے کہا چلو اب دو گروپز بن جایئں - اب کی بار حسن کی ایک اور کزن جو کافی مغرور سی معلوم ہو رہی تھی - اسنے کہا چلو جلدی کرو سب ہی پھر اب صدف نے کہا جو جو سنگنگ کرنا چاہیں وہ بتا دیں اب میں نے کہا اب تم ہی شروعات کرو - وہ بولی جو حکم میرے راجکمار اب کی بار چونک کے زینی نے ہم دونوں کی طرف دیکھا - پھر صدف نے ایک سانگ سنگ کیا -
تیرے خاموش ہونٹوں سے محبت گنگناتی ہے
تیرے خاموش ہونٹوں سے محبت گنگناتی ہے
میں تیری ہوں تو میرا ہے یہی آواز آتی ہے
تیرے ہی نام ہے ہمدم ،ہماری زندگانی ہے
یہ دھرتی سے ستاروں تک تیری میری کہانی ہے
چمن سے تو جو گزرے تو کلی بھی مسکراتی ہے
میں تیری ہوں تو میرا ہے یہی آواز آتی ہے
تیرے خاموش ہونٹوں سے محبت گنگناتی ہے
ضروری تو نہیں کے بولنے سے پیار ہوتا ہے
ضروری تو نہیں کے بولنے سے پیار ہوتا ہے
کے آنکھوں آنکھوں میں بھی پیار کا اظہار ہوتا ہے
تیری آنکھیں میری آنکھوں کو یہ کہہ کر بلاتی ہیں
میں تیری ہوں تو میرا ہے یہی آواز آتی ہے
تیرے خاموش ہونٹوں سے محبت گنگناتی ہے
میں تیری ہوں تو میرا ہے یہی آواز آتی ہے
تیرے خاموش ہونٹوں سے محبت گنگناتی ہے
اب کی بار سب نے ہی داد دی - اب صدف نے کہا چلو اب شارق آپ سنو کچھ میں نے کہا - کوئی اور آنا چاہے تو آ جا
ۓ - لیکن سب نے ہی کہا آپ ہی آؤ حتی کے حسن نے بھی کہا شارق بھائی آپ ہی اپنی آواز کا جادو جگا دو - میں نے اب اپن ایک پسندیدہ گانا سنگ کرنے لگا -
مجھے رات دن بس مجھے چاہتی ھو
مجھے رات دن بس مجھے چاہتی ھو
کہو نہ کہو مجھ کو سب کچھ پتا ہے
ہاں کروں کیا مجھے تم بتاتی نہیں ھو
چھپاتی ھو مجھ سے یہ تمہاری خطا ہے
ہاں مجھے رات دن بس مجھے چاہتی ھو
میری بے قراری کو حد سے بڑھانا
تمھیں خوب آتا ہے باتیں بنانا
نگائیں ملا کے یوں میرا چین لینا
ستا کے محبت میں یوں درد دینا ہے
مجھے دیکھ کے ایسے پلکیں جھکانا
شرارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
ہاں مجھے رات دن بس مجھے چاہتی ھو
تمھیں نیند آئے گی اب نہ میرے بن
مجھے ہے یقین ایسا آئے گا ایک دن
کھلی تیری زلفوں میں سویا رہوں گا
ترے ہی خیالوں میں کھویا رہوں گا
کبھی غور سے میری آنکھوں میں دیکھو
میری جان تمہارا ہی چہرہ چھپا ہے
ہاں مجھے رات دن بس مجھے چاہتی ھو
کہو نہ کہو مجھ کو سب کچھ پتا ہے
چھپاتی ھو مجھ سے یہ تمہاری خطا ہے
ہاں مجھے رات دن بس مجھے چاہتی ھو
اب جیسے ہی میں نے سنگنگ بند کی - حسن کی بڑی بہن نے کہا - شارق آپ تو بہت ہی کمال کا سنگ کرتے ھو - اتنا مزہ تو اس سانگ کو اصل سنگر کی آواز میں سن کے بھی نہیں آیا مائنڈ بلوئنگ - اب صدف نے کہا اجی یہ تو کچھ بھی نہیں آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا - پھر اب میرا ایک کزن وقاص آیا اس نے ایک اچھا سا سانگ سنگ کیا -
توبہ تمھارے یہ اشارے ، ہم تو دیوانے ہیں تمہارے
راز یہ کیسے کھول رہے ھو .تم آنکھوں سے بول رہے ھو
جادو آتے ہیں تمکو سارے ..................
توبہ تمھارے یہ اشارے ، ہم تو دیوانے ہیں تمہارے
چھو لیتے ہو تار جو دل کے ،تم ہی بتاو تم سے مل کے
جانو دل کوئی کیوں نہ ہارے ،توبہ تمھارے یہ اشارے
جسم دھمکتا جادو جادو ، زلف گھنیری خوشبو خوشبو
سانسیں ہماری مہکیں مہکیں ،نظریں تمہاری بہکی بہکی
تمہارا بدن ہے جیسے چمن،ہوش اڑا دے یہ نظارے
توبہ تمھارے یہ اشارے ، ہم تو دیوانے ہیں تمہارے
راز یہ کیسے کھول رہے ھو .تم آنکھوں سے بول رہے ھو
جادو آتے ہیں تمکو سارے ..................
کوئی نشہ ہے چھلکا چھلکا ،ہوش بچا ہے ہلکا ہلکا
ہم ہیں جیسے کھوے کھوے ، جاگے لیکن سو
ۓ سوۓ
مچلتی رہو پگلتی رہو، بانہوں کے گھیرے میں میرے
توبہ تمھارے یہ اشارے ، ہم تو دیوانے ہیں تمہارے
چھو لیتے ہو تار جو دل کے ،تم ہی بتاو تم سے مل کے
جانو دل کوئی کیوں نہ ہارے ،توبہ تمھارے یہ اشارے
توبہ تمھارے یہ اشارے ، ہم تو دیوانے ہیں تمہارے
راز یہ کیسے کھول رہے ھو .تم آنکھوں سے بول رہے ھو
جادو آتے ہیں تمکو سارے،توبہ تمھارے یہ اشارے
اب کی بار بھی کافی لوگوں نے داد دی اب صدف نے کہا جی زینی صاحبہ آنا ہے آپ کو اب حسن نے کہا چلو زینی اب آپ اور شارق بھائی آمنے سامنے آ جاؤ- آپ دونوں سے کچھ سنا جا
ۓ گا- اب زینی نے کہا ٹھیک ہے اور اس نے بھی ایک سانگ سنگ کیا -
تو میرے سامنے، میں تیرے سامنے ،تجھ کو دیکھوں کے پیار کروں
یہ کیسے ہو گیا تو میرا ہو گیا ،کیسے میں اعتبار کروں
ٹوٹ گئی ٹوٹ کے میں چور ہو گی ، تیری ضد سے میں مجبور ہو گئی
تیرا جادو چل گیا او جادو گر......................
ٹوٹ گئی ٹوٹ کے میں چور ہو گی ، تیری ضد سے میں مجبور ہو گئی
تو میرے سامنے، میں تیرے سامنے
تیری زلفوں سے کھیلوں گئی میں ،تجھ کو بانہوں میں لے لوں گئی میں
دل تو دیتے ہیں عاشق سبھی ، جان بھی تجھ پے دے دوں گئی میں
میرے ہونٹوں کے گلاب مانگ لے ،میری آنکھوں سے شراب مانگ لے
تیرا جادو چل گیا او جادو گر......................
اس کہانی کے سو سال ہیں ،اس جوانی کے سو سال ہیں
یہ تیرے پیار کے چار پل ،زندگانی کے سو سال ہیں
ایک بار نہیں سو بار کر لے ، جی بھر کے تو مجھے پیار کر لے
تیرا جادو چل گیا او جادو گر......................
تو میرے سامنے، میں تیرے سامنے ،تجھ کو دیکھوں کے پیار کروں

اب حسن کی بری بہن دوبارہ بولی سچی آج مزہ آ جا
ۓ اگر شارق آپ کا آمنہ سامنا کرایا جاۓ - اب کی بار بھابھی شفق میرے پاس آ گئیں اور کہا شارق مجھے زینی بہت اچھی لگی ہے پلیز آج ذرا دل سے سنگ کرو -تا کے میرے دیور کے سینے سے ایک کیوپڈ کا تیر نکلے اور زینی کے سینے کے آر پار ہو جاۓ - اب میں ہنس دیا لیکن بھابھی شفق کی یہ سرگوشی حسن کی بڑی بہن منزہ نے سن لی تھی - وہ بھی اب دھیرے سے بولی سچی شفق اگر آپ میرا ساتھ دو تو میں اپنی پیاری سی کزن کو آپ کی دیورانی بنانے میں آپ کی ہر ممکن ہیلپ کر سکتی ہوں - اب بھابھی شفق تو خوشی سے تڑپ کے اسے گالے سے لگا کے بولی واہ یار اب مزہ آئے گا - اب میں نے ایک اور سانگ سنگ کرنے لگا اب کی بار میری آواز میں سے جیسے جادو کی لہریں نکل کر لڑکیوں کو مدہوش سا کرنے لگیں تھیں -
بہت خوبصورت ہیں آنکھیں تمہاری
انہیں پیار کرنے کو دل چاہتا ہے
تمھیں اپنی بیچین بانہوں میں بھر کے
اب اقرار کرنے کو دل چاہتا ہے
بہت خوبصورت ہیں آنکھیں تمہاری
انہیں پیار کرنے کو دل چاہتا ہے
انہیں دیکھ کے اب گزرتی راتیں
میں ہر وقت کرتا ہوں بس ان سے ہی باتیں
صنم ان سے میں نے ہے جو بھی چھپایا
وہ اظہار کرنے کو دل چاہتا ہے ....
بہت خوبصورت ہیں آنکھیں تمہاری
انہیں پیار کرنے کو دل چاہتا ہے
تمھیں اپنی بیچین بانہوں میں بھر کے
اب اقرار کرنے کو دل چاہتا ہے
بہت خوبصورت ہیں آنکھیں تمہاری
انہیں اس طرح سے جھکایا کرو نہ
کوئی راز مجھ سے چھپایا کرو نہ
صنم اب ہمیشہ ہی چاہت سے ان کا
یوں دیدار کرنے کو دل چاہتا ہے
بہت خوبصورت ہیں آنکھیں تمہاری
انہیں پیار کرنے کو دل چاہتا ہے
تمھیں اپنی بیچین بانہوں میں بھر کے
انہیں پیار کرنے کو دل چاہتا ہے
اب کی بار جیسے ہی میں نے سنگنگ ختم کی لڑکیوں نے تو جیسے داد کے ڈھونگڑے سے برسا دئیے - اب کی بار سب ہی ایک دوجی سے بڑھ کے تعریف کر رہی تھیں میری - اب صدف نے کہا جی اب کون آئے گا پھر حسن کے ایک کزن نے سنگنگ کیا -
ہر طرف رواں آپ کا ہی نشہ، چھو گی دل کو آپ کی ہر ادا
بن جائیے اس دل کے مہماں، بن جائیے اس دل کے مہماں
،مہماں بن جائیے،بن جائیے ان سانسوں کے ارمان ،ارمان بن جائیے
بن جائیے اس دل کے مہماں، بن جائیے اس دل کے مہماں
بھینی بھینی پیاسی روانی رہتی ہے ،پلکوں میں تیری کہانی رہتی ہے
قید نظروں میں تیری تصویر ہے ،تیرے لفظوں کا افسانہ پڑھتا ہوں
بس تیرا ہی چہرہ روزانہ پڑھتا ہوں ،پڑھتا ہوں ،پڑھتا ہوں
بن جائیے میری چاہت کا نغمہ ،نغمہ بن جائیے
بن جائیے اس دل کے مہماں، بن جائیے اس دل کے مہماں
تیری ہی تمنا رگوں میں بھر لی ہے ،زندگی بھی تیرے حوالے کر دی ہے
چل رہی دھڑکن صرف تیرے لئے ،خاموشی سے تیری ہی باتیں کرتی ہوں
تیری آرزوں میں ہی جیتی مارتی ہوں ،جیتی ہوں مارتی ہوں
بن جائیے میرے جذبوں کا طوفان ،طوفان بن جائیے
بن جائیے اس دل کے مہماں
مہماں بن جائیے، مہماں بن جائیے
اب اسے بھی خوب داد دی سب نے اب کی بار حسن کی والدہ نے ہنس کے کہا سچی بات ہے مجھے تو شارق بیٹے کی آواز سب سے اچھی لگی ہے - میں تو کہوں گئی وہ ہی سنا
ۓ بس -اب کی بار زینی کے والد صاحب مخدوم کامل حسین ہاشمی نے کہا یار شارق بیٹا کوئی پورانہ سانگ سنا دو اب یہ سن کر میں نے کہا جی کیوں نہیں جی ابھی لیں - اب میں نے ایک اور گانا کانے لگا -
چودویں کا چاند ھو، یا آفتاب ھو .....
جو بھی ھو تم خدا کی قسم لاجواب ھو
زلفیں جیسے کاندھے پے بادل جھکے ہوئے
آنکھیں ہیں جیسے مہ کے پیالے بھرے ہوئے
مستی ہے جس میں پیار کی تم وہ شراب ھو
چودویں کا چاند ھو، یا آفتاب ھو .....
چہرہ ہے جیسے جھیل میں کھلتا ہوا کنول
یا زندگی کے ساز پے چھیڑی ہوئی غزل
جان بہار تم کسی شاعر کا خواب ھو
چودویں کا چاند ھو، یا آفتاب ھو .....
ہونٹوں پے کھلتی ہیں تبسم کی بجلیاں
سجدے تمہاری راہ میں کرتے ہیں کہکشاں
دنیا کے حسن و عشق کا تم ہی شباب ھو
چودویں کا چاند ھو، یا آفتاب ھو .....
جو بھی ھو تم خدا کی قسم لاجواب ھو
اب وہ بولے یار غضب کا سنگ کیا آپ نے واہ ہم کو جوانی کی یاد دلا دی - اور ساتھ ہی اپنی بیگم اور زینی کی والدہ کی طرف دیکھ کے بولے جیو شہزادے - اب صدف نے کہا اب ایک گانا زینی اور شارق ڈیوڈ میں گئیں گے مل کے اب زینی نے کہا مجھے منظور ہے اب حسن نے کہا واہ اب مزہ آئے گا - پھر زینی نے ایک سانگ مجھے بتایا میں نے کہا ٹھیک ہے - پھر میں نے اور زینی نے وہ سانگ مل کے سنگ کیا -اس سانگ میں سے مرد کی آواز کی لائن میں گاتا اور لڑکی کی آواز والی لائن کو زینی سنگ کرتی یوں ہم نے وہ پورا سانگ سنگ کیا -
پلکیں اٹھا کے دیکھئے ،نظریں ملائیے
دھڑکن کو بھی خبر نہ ہو ،یوں دل میں آئیے
پلکیں اٹھا کے دیکھئے ،نظریں ملائیے
ارماں کہ رہے ہیں کیا آ جا بول دوں
شبنم اپنے پیار کی تجھ میں گھول دوں
تم کو میری ہے قسم
،تم دیوانے ھو صنم
یوں شرارت نہ کرو
زلفیں گرا کے اس طرح نہ مسکرائیے
دھڑکن کو بھی خبر نہ ہو ،یوں دل میں آئیے
پلکیں اٹھا کے دیکھئے ،نظریں ملائیے
دلبر دو جہاں سے ہم ہیں بےخبر
رسوا کر نہ دے لوگوں کی نظر
جان جانا ہمسفر عشق کرنا ہے اگر
نہ زمانے سے ڈرو .................
آنا ہے جو قریب تو اپنا بنائیے
دھڑکن کو بھی خبر نہ ہو ،یوں دل میں آئیے
پلکیں اٹھا کے دیکھئے ،نظریں ملائیے
دھڑکن کو بھی خبر نہ ہو ،یوں دل میں آئیے
یوں دل میں آئیے .... یوں دل میں آئیے ....
اب کی بار سب نے ہی تالیاں بجا کر ہم دونوں کو داد دی اب حسن اور صدف نے ایک ساتھ کہا اب آخری سانگ بھی آپ دونوں میں سے ایک سنگ کرے اب آپ خود فیصلہ کرو کون سنگ کرے گا - اب کی بار زینی نے کہا شارق کی آواز مجھ سے اچھی ہے سنگنگ میں یہ ہی سنگ کریں گے - میں نے اب زینی کو ہی اپنی آنکھوں میں قید کر کے ایک سانگ سنگ کرنے لگا -
بکھری زلفوں کو سجانے کی اجازت دے دو
بکھری زلفوں کو سجانے کی اجازت دے دو
ہاں مجھے پاس میں آنے کی اجازت دے دو
دل بھی کیا چیز ہے روکے سے نہیں روکتا ہے
لب سے شبنم کو چرانے کی اجازت دے دو
خواب آنکھوں میں بسانے کی اجازت دے دو
راتیں رنگین بنانے کی اجازت دے دو ........
دل بھی کیا چیز ہے روکے سے نہیں روکتا ہے
بے قراری کو مٹانے کی اجازت دے دو ....
بکھری زلفوں کو سجانے کی اجازت دے دو
پاس آتا ہوں صنم دور چلا جاتا ہوں ..........
پاس آتا ہوں صنم دور چلا جاتا ہوں ..........
اتنا نازک ہے بدن چھونے سے گھبراتا ہوں
پیاس نظروں سے بجھانے کی اجازت دے دو
ہاں مجھے پاس میں آنے کی اجازت دے دو
دل بھی کیا چیز ہے روکے سے نہیں روکتا ہے
لب سے شبنم کو چرانے کی اجازت دے دو
خواب آنکھوں میں بسانے کی اجازت دے دو
پیار کا خواب ھو تم میری نگاہوں میں رہو
پیار کا خواب ھو تم میری نگاہوں میں رہو
بن کے دھڑکن دلبر کی پناہوں میں رہو ......
مجھ کو سانسوں میں بسانے کی اجازت دے دو
راتیں رنگین بنانے کی اجازت دے دو ........
دل بھی کیا چیز ہے روکے سے نہیں روکتا ہے
بے قراری کو مٹانے کی اجازت دے دو ....
بکھری زلفوں کو سجانے کی اجازت دے دو
اب تو جیسے سب ہی بے ساختہ ہی تالیاں بجانے لگے- اور پھر صدف نے کہا اب سنگنگ ختم اور شاعری شروع کی جاتی ہے -
اب حسن کی چھوٹی بہن شانزہ کی ایک دوست جو کافی کیوٹ سی لگ رہی تھی وہ بولی یار صدف ابھی میں رہتی ہوں اور میں ایک سانگ سنگ کرنا چاہتی ہوں اس کا نام صنم تھا - اب وہ آئی اور اس نے دھیرے سے میری طرف دیکھ کر کہا یہ سانگ نہیں جناب میری فیلنگ ہیں جو آپ کے نام - اس کی آوازاتنی کم تھی صرف میں یا زینی نے ہی سنی - پھر اس لڑکی صنم نے ایک سانگ سنگ کیا -
خدا کرے کے محبت میں وہ مقام آئے
تیرے لبوں پے ہمیشہ صنم کا نام آئے
خدا کرے کے محبت میں وہ مقام آئے
تیرے لبوں پے ہمیشہ صنم کا نام آئے
میری طرح سے میرا بھی تو انتظار کرے
میں جتنا چاہوں تجھے تو بھی اتنا پیار کرے
میرا ہے تو تیری سانسوں سے یہ پیام آئے
تیرے لبوں پے ہمیشہ صنم کا نام آئے
خدا کرے کے محبت میں وہ مقام آئے
میری دعا بھی ہو شامل تیری مرادوں میں
میری دعا بھی ہو شامل تیری مرادوں میں
خیال بن کے سما جاؤں تیری یادوں میں
تیری نظر میں میرا جلوہ صبح و شام آئے
تیرے لبوں پے ہمیشہ صنم کا نام آئے
خدا کرے کے محبت میں وہ مقام آئے
تیرے لبوں پے ہمیشہ صنم کا نام آئے
تیرے لبوں پے ہمیشہ صنم کا نام آئے
خدا کرے کے محبت میں وہ مقام آئے
اب صدف نے کہا واہ کیا بات ہے آپ کی اسے سب نے ہی داد دی - اب مجھے کہا صدف نے چلیں اب آپ ہی آخری سنگ سنگ کریں
میں نے اب زینی کو فل اپنی آنکھوں کے حصار میں قید کیا اور گانا گانے لگا -

آنکھوں نے تم کو چاہا ٰاتنا ضرور ہے
دل کو سزا نہ دینا یہ بے قصور ہے
آنکھوں نے تم کو چاہا ٰاتنا ضرور ہے
دل کو سزا نہ دینا یہ بے قصور ہے
ہوتی ہے کیا محبت یہ ابھی پتہ چلا
ہو ہوتی ہے کیا محبت یہ ابھی پتہ چلا
کوئی نظر نہ آئے مجھ کو تیرے سوا
مجھ کو تیرے سوا ...............
سانسوں میں تم ہی تم ھو اس کا غرور ہے
دل کو سزا نہ دینا یہ بے قصور ہے
آنکھوں نے تم کو چاہا ٰاتنا ضرور ہے
تم نے بھی مجھ پے کوئی جادو سا کر دیا
میری دھڑکنوں کو تم نے خوشیوں سے بھر دیا
ہو خوشیوں سے بھر دیا ..............
اے صنم اس میں میرا اب کیا قصور ہے
دل کو سزا نہ دینا یہ بے قصور ہے
آنکھوں نے تم کو چاہا ٰاتنا ضرور ہے
آنکھوں نے تم کو چاہا..................
اب سب نے کافی دیر تک تالیاں بجا کر مجھ کو بہت ساری داد دی - اور اب زینی تو جیسے کچھ خاموش سی ہو گئی تھی -


 


7 Comments:

Thanks to take interest