SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ ساتویں قسط

 



عاشق

ساتویں قسط

تحریر: ماہر جی


ٹھیک ہے جناب آپ آج ہی فیصلہ کر لیں اب میں ن نے کہا جناب میں اب پھر  مسز فرہاد کو بلانا چاہوں گا سوالوں کے لئے  جج سحاب نے کہا اجازت  ہے  اب میں نے ثمینہ  فرہاد کی  دیکھا جو اب کٹہرے  میں آ گئی  تھی  میں نے کہا  مسز فرہاد کیا آپ کا اپنے شوھر سے کوئی جھگڑا تھا  وہ بولی نہیں  میں  نے کہا  آپ کی ازواجی  زندگی کیسی گزر رہی تھی وہ بولی  بہترین  اب میں اپنے پوانٹکی طرف آیا میں نے کہا کیا آپ کو پتہ تھا آپ کے شوھر باہر  اور بھی لڑکیوں سے ملتے  تھے  وہ بولی یہ جھوٹ ہے  اب دار سحاب نے کہا جج سحاب وکیل صاحب سے کہیں سوال صرف مقصد کا ہی کیا جائے جج صاحب نے مجھے کہا شارق صاحب صرف وہ سوالکریں جو اس کیس سے متعلقہ ہے  میں نے کہا جناب میں ثبت کروں گا میرا ہر سوال اسی  سے متعلقہ ہے اب میں نے دوبارہ سے کہا مسز  فرہاد   آپ کے خاوند  ایک  عیاش آدمی تھے  خدا معاف کرے میں مرنے والی پے کیچڑ  نہیں پھینک  رہا    اب کیا کروں  ان سوالوں سے ایک زندگی جڑی ہے  پھر میں نے کہا  آپ نے جواب نہیں دیا وہ بولیں یہ سب جھوٹ ہے  وہ بوہت شریف انسان تھے  میں نے کہا چلیں ماں لیتے ہیں اب آپ باتیں کے پھر اس شریف انسان کو کیوں  قتل کیا اس لڑکی  نے وہ بولی یہ لڑکی ایک بعد چلن  ہے  اور اس کا فرہاد صاحب کو پتا چلا تو انہوں نے  اسے روکا  اس دیں بھی یہی ہوا تھا

 اور یہ تبھی ان سے لڑی تھی مجھے اس جواب پے برا  غصہ آیا  کے ایک شریف لڑکی کو کیا کہا جا رہا ہے  اب میں نے کہا یہ سچ نہیں ہے سچ یہ ہے کے آپ کے شوہر  ایک  عیاش شخص تھے  جو اپنی سیکرٹری  رختے ہی اسے تھے جو جوان اور  خوبصورت ھو  وہ بولی یہ الزام ہے ان پے  اب  میں نے کہا آپ جا سکتی ہیں  اب  میں نے ایک فائل  قاروقی صاحب سے لی اور  جج صاحب کو پیش کی اور کہا  جناب عالی  یہ وہ ریکارڈ فائل ہے  فرہاد کی فرم کی اور آپ اس میں سے لگی تصویریں بھی دیکھ لیں  یہ سب وہ لڑکیاں ہے جو پچھلے پانچ سال سے ان کی سیکرٹری  رہ  چکی ہیں  پر  ایک دلچپ  بات یہ ہے جج صاحب  ان میں سے کسی کی بھی نوکری کی عمر پانچ ماہ  سے زیادہ نہیں ہے   اب میں آتا ہوں کیس کی طرف اس دِن جب   فریال  کو آنے میں دیر ہوئی گھر میں تو  تب ہی فریال کو لینے اس کا بھائی گیا تھا  اور یہ قتل فریال نے اپنی عزت بچانے کے لئے کیا تھا  اور جناب عالی  ہم پاکستان میں رهتے ہیں  یہاں کی   مشرقی  لڑکیاں جان سے زیادہ عزت کو اہمیت دیتی ہیں اس لئے صف سی بات ہے یہ قتل سلف ڈیفینس  میں کیا گیا ہے

لہٰذا میری  موکل  کو ضمانت پے رہا کیا  جائے  اب کی بار ڈار صاحب نے   بہت الٹے سیدھے الزام لگاے   فریال پے  اور کہا جج صاحب یہ ضمانت نہیں ہونی چاہے یہ ایکقاتل اور بدچلن لڑکی ہے  اسے جیل میں ہی ہونا  چاہے  ابمیں نے دوبارہ سے کہا جناب عالی میرے پاس کچھ ایسے  گواہ  ہیں جن کو سن کے آپ  اسلا صورت حال کو جان لیں گے میری پہلی گواہ ہے شہناز  اور وہ آ گی  کٹہرے میں اب ڈار  صحابنے اس سے پوچھا آپ کیاکرتی ھو اس نے بتایا ایک فرم میں جاب  پھر اگلا سوال کیا  آپ نے فرہاد صاحب کے پاس سے جب کیوں چوری وہ بولی اس لئے کے میں نے ان کے ساتھ بستر پے سونے سے انکار کر دیا تھا اس نے مجھے نوکری سے نکال دیا اتنا خلا جواب سن کے ایک دفع تو فرحاں ڈار کے بھی پسینے  چھوٹ گے وہ بولا آپ جھوٹ بول رہی ہیں  بس پھر کیا تھا  شہناز نے سری باتیں ہی کہ دیں اور کہا یہ سارا قصور ہے مسز فرہاد کا جو اپنے معصوم خاوند کو  خوش نہیں رکھ سکیں  پھر اگلی گواہ  تھی فائزہ  اس نے تو وہ ہلر مچایا کے  عدالت  میں بٹہے لوگ بھی کانوں کو ہاتھ ہ لگانے لگی

 اس نے بتایا  اسے چار ماہ تک  استمال کیا تھا فرہاد نے  پھر اس نے مجھے نوکری سے نکال دیا  اور کہا اگر تم نے زیادہ شور کیا  تو اندر کرا دوں گا  میں بہت رویی کیوں کے اس نے مجھ سے شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا اب وہ میرے ساتھ یہ سب کر رہا تھا  میں بعد میں مسز فرہاد کے پاس بھی گی  اسے سب بتایا تو الٹا اس نے مجھے کہا اگر تم نے اب کسی سے کوئی ایسی بات کی تمیں  اپنے نوکروں کے آگے ڈال دوں گی  پھر اس کے بعد آنے والی تینوں  لاریوں نے ایک جیسے بیان دے سب کے ساتھ  ایسا ہی  ہوا تھ ایک لڑکی صبا نے کہا  جج صاحب کی طرف دیکھ  کر کہا  جناب مجھے بعد میں پتا چلا تھا  کے ان فرہاد احمد اور اس کی مسز کی آپس میں ڈیلنگ تھی  یہ اس کو نہیں  روکے گئی وہ اسے نہیں روکے گا  فرہاد اپنی فرم  کی لڑکیوں سے عیاشی کرتا اور اس کی بیگم یہ  ثمینہ فرہاد  کالج  کے نوجوان  لڑکے گھیرتی  یہ سنتے ہی ثمینہ  کا رنگ اڑ گیا اور فرحان ڈار تو ایسے آگ بگولا ہو گیا  جسے وہ کسی بازار میں ننگا ہو گیا ھو      

اس نے کہا لڑکی تم یہ بکواس اس وکیل کے کہنے پے کر رہی  ھو   اب تو وہ لڑکی  صبا  بھی غصے میں آ گی اور کہا  میں بکواس نہیں کر رہی وکیل صاحب  میں نے اس کو اپنی ان آنکھوں سے رنگے ہاتھوں پکڑا  تھا پوچھیں اس سے  شاہد میرا ہی بھائی  تھا  جسے یہ لے کر گی تھی اپنی کوٹھی  میں اور اس کے ساتھ یہ وہاں  تین دِن رہی تھی بلکل ننگی  بعد میں  میرے بھائی کے ایک دوست  جاوید کے ساتھ بھی اس نے ایسا ہی کیا  اور تبمیں نییسے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا  اب تو  کیس کی صورتحال ہی بدل گی  اب جج صاحب سےمیں نے کہا  جناب اب مہربانی کر کے میری کلائنٹ  کی ضمانت منظور  کر لیں اب ڈار  سے کہا نہیں  جج صاحب اس کی ضمانت  نہیں ہونی چاہے  میں آپ کو کہ رہا ہوں اب میں نے کہا  مسٹر فرحان ڈار صاحب تم خود کو سمجھتے کیا ھو یہ عدالت تمہارے بھاپ کی نہیں ہے  ایک قانون کا گھر ہے اور قانون کے مطابق  یہ ضمانت بنتی ہے میری موکل کی  اب  تو جج صاحب کو بھی کچھ  برا لگا تھا

 کیوں کے  اس وقت وہاں پے بہت سارے   وکیل تھے  اب  اگر جج ضمانت نہ لیتا تو سب ہی سمجھتے  کے وہ  ڈار کی وجہ سے نہیں لے رہا اس نے کہا  میں دو لاکھ  کے مچلکوں  پے فریال کی ضمانت منظور کرتا ہوں  میں نے اسی وقت  جج صاحب سے کہا جناب اب ٹائم  ختم ہو رہا  ہے کیا میرے بار کے کارڈ  پے ضمانت قبول کی جا سکتی ہے جج صحابنے کہا نہیں ابھی آپ  کے کرد پے نہیں ہو سکتی ضمانت  اب کی بار بھائی  نصرت  آگے اے اور کہا   جج صاحب  میں اپنی ضمانت  دیتا ہوں  اب جج صاحب نے کچھ نہ کہا اور ضمانت مان لی  جج صاحب اور بہت سارے  وکیلوں کو اب پتا چلا تھا کیمین جج امجد حسین شاہ  اور وکیل نصرت حسین شاہ  کا بھائی شارق حسین شاہ  ہوں  جج صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا  یار تم ایک  خطرناک  وکیل ھو میں نےایسا  وکیل کبھی نہیں دیکھا  میں  نے ہنس کے کہا سر ایسی کوئی بات نہیں وہ فرحان ڈار خود کو پتا نہیں کیا سمجھتا  ہے  وہ اب پیار سے  مجھے دیکھ کر بولے ینگ مین  ذرا  اپنا  خیال رکھنا  وہ ایک سانپ  ہے  جو اپنی ہار نہیں بولے گا

اب میں نے فریال اور احسان تائب کو  کہا یار اب تم لوگ کچھ دِن مجھے  مہمان نوازی کا موقع  دو احسان سمجھ گیا میری بات  کو اس نے کہا ٹھیک ہے بھائی صاحب  اب میں نے اپنے ارد گرد  دیکھا میں اب ان  خفیہ گارڈز  کو ڈھونڈ رہا تھا کے میرے پاس ایک طرف سے ظفری نکل کے اچانک آیا اور بولا باس آپ مجھے  ڈھونڈ رہے ہیں   پھر میں ہنس دیا اور کہا  ہاں یار ان کو لے جاؤ ساری فمیلی  سمیت یہ اب ھمارے مہمان ہیں  کچھ دِن  اس نے ایک طرف سے ایک لڑکے کو اپنی طرف بلایا  اور اسے کچھ کہا وہ اب احسان لوگوں کو اپنے ساتھ لے گیا  میں اب بار روم میں داخل ہوا  تو سب   وکیلوں نے مجھے گھیر لیا  جو ہماری جیت سے خوش تھے وہ تعریف  کرنے لگی اور جو ڈار کے پنیل کے تھے وہ  چپ کر کے بیٹھنے رہے  اب اس کے پینل  کے ایک وکیل گلزار نے  کہا  آج تک  کوئی وکیل جیتا نہیں ہے ڈار صاحب سے اب آشیانے والوں نے ایک سوے ہوے شیر کو جگا دیا ہے

 میں نے کہا گلزار صاحب  شیر وہ ہوتا ہے  جو سامنے سے وار کرے  پیچھے سے وار کتے  کرتے ہیں  اور میں ویسے بھی ڈاگز کلر  ہوں وہ اب چپ ہو گیا  اصل میں ووکلاء  میں بھی گروپ  بندیاں تھیں  اور  ایک دو مہینے کے بعد بار روم کے الیکشن  بھی ہونے والے   تھے  پھر میں تو فاروقی صاحب کے ساتھ  اپنے دفتر آ گیا  اور پھر ہم کافی دیر  اگلے دِن کے کیسوں  کی تیاریکرتے رہے کیوں کے جو کیس میں نے آج جیتا تھا  یہ میری نظر میں عام سا تھا  میں تو چاہتا تھا میں جس کیس میں ہاتھ ڈالوں وہ میرا ہی ہو جائے  پھر میں گھر کی طرف چل دیا  جبمین آشیانے  سے کچھ دور تھا  کے اچانک مجھے  کلاشنکوفوں کے چلنے کی آواز آیی  ایسا لگا جیسے قریب ہی دو  گروپ آپس میں ٹکرا گے ہوں پھر اسی وقت  ایک  ون.ٹو فائیو موٹر سائیکل میری گاڑی کے پاس آیا اور اس پے بیٹھنے ایک لڑکے نے مجھے بتایا   کے مجھ پے چار لوگوں نے  گولیاں چلانے کی کوشش کی تھیں کے وہ اپنی گولیاں چلانے سے پہلے ہی ھمارے حملے میں مارے گے  ہیں  اب آپ آرام سے گھر جایئں  میں سمجھ گیا یہ سب ڈار نے کیا ہے    

میں اب گھر آ گیا میں ے کسی سے بھی ذکر نہ کیا  اس  واقعہ  کا گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی  لان پے سب گھر والے کھڑے تھے   میرے سب بھائیوں کے ہاتھ میں اور والد صاحب کے ہاتھ میں بھی  پھولوں کے ہار تھے  وہ سب اب آگے بڑھے اور مجھے گالی سے لگا کے ہار ڈالتے جاتے  میں  نے وہ سارے ہار اتار کر اپنی والدہ صاحبہ کے قدموں میں رکھ دیے اب ڈیڈی نے کہا  واہ  یار تم نے آج کمال کر دیا  پھر بھائی امجد نے مجھے  کہا مجھے بعد میں بتایا تھا جج آصف گھمن  نے  کہنے لگا امجد صاحب  آپ کا یہ چھوٹا بھائی تو مجھے  کوئی جن لگتا ہے وہ کسی کی پروا ہی نہیں کرتا  سب ہنس دیے   پھر ہم نے وہو لان پے آج کھانا کھایا  میں نے لالارخ سے کہا  جاؤ میرا من تو میٹھا کرا دو ندیدوں  کی طرح ساری  مٹھائی  خود ہی کھا رہی ھو  جس نے گلاب جامن کا ڈبہ اپنے آگے رکھا ہوا تھا وہ  بولی جی نہیں آپ کے لئے  یہ نہیں ہے آپ برفی کھا لیں میں نے اب شفق بھابھی سے پوچھا نیلوفر کہاں ہے وہ بولی وہ آج اپنی ایک دوست کے ساتھ  مری گی ہے  اتنے میں بھابھی تنویر  کے ساتھ ایک لڑکی آتی نظر آی اندر سے میں نے پوچھا یہ پھلچری کون ہے تو شفق بھابھی نے کہا یہ امجد بھائی کے ایک دوست کی  بیوی ہیں جو  آج ملنے آیی تھیں یہ تو ان کو جانے نہیں دیا  ہم نے  پھر بولی شارق میں تمہارے لئے بھی کوئی ایسی ہی پھلچری  ہی ڈھونڈوں گی اصل میں شفق بھابھی میری کزن بھی تھیں اس لئے میں زیادہ ان سے فری  تھا ،  

اتنے میں بھابھی تنویر بھی ھمارے پاس ہی آ گی اور کہا کیا باتیں ہو رہی  ہیں اب میں  چپ رہا تو بھابھی شفق نے  کہا بتا دوں ان کو میں جھینپ  گیا اب کے مجھے  اس خاتون نے بھی  مبارک دی اس کی عمر کوئی 33  سال ہو گی  وہ ایک بھرے  ہوے جسم کی ملک تھی  خاص کر اس کی چھاتی بہت بڑی تھی  میں نے  ان کو تھینکس  بولا اب تنویر بھابھی نے کہا شارق یہ میری دوست ہے شہبانو میں سمجھ گیا یہ پٹھان ہے  اور یہ امجد بھائی کے دوست  گلباز خان کی بیوی تھی اب ہم باتیں کرنے لگے اب بانو نے کہا ہاں تو شفق تم بہن  بھائی کون سی بات پے اتنا ہنس رہے تھے اب  میں نے کہا وہ ایک لطیفہ تھا بھابھی تنویر نے کہا کیا ہم نہیں سن سکتے وہ لطیفہ تو شفق بھابھی اب مسکرا رہی تھی  میں اب پھنس گیا  میں نے بات  میں بات دہلی اور کہا تنویر بھابھی زورون  کی بھوک لگی ہے وہ بولی  وک ابھی میں کھانا لگاتی ہوں   پھر ہم سب نے کھانا کھایا اور ڈیڈی کے کمرے میں بیٹھ کر آج کی صورتحال پے ڈسکس  ہونے لگی بھائی لوگ مجھے سمجھا  رہے تھے کے ایسے لوگ معاشرے کے ناسور  ہوتے ہیں ان سے بچنا ہی چاہیے  اب میں ان کو کیا بتاتا کے میرا تو مشن ہی یہی تھا ان ناسوروں کو ختم کرنا ، پھر ایسے ہی کافی دیر تک محفل جمی رہی  اب  شفق بھابھی نے کہا  شارق  آج تم  سے دو دو ہاتھ کرنے ہیں ذرا لان میں آ جاؤ   میں لن میں چلا آیا وہاں پے پہلے ہی بھابھی تنویر اور شاہ بانو ماجود تھیں اب بانو نے مجھے دیکھتے ہی کہا  ہاں تو پھڈے باز وکیل صاحب   آپ نے مجھے کیا کہا تھا میں اب سمجھ گیا بھابھی شفق نے بتا دیا ہے  میں نے کہا وہ اصل میں مجھے اب کیا پتہ تھا  کے آپ اب اپنے خاص لوگوں میں سے ہیں میں نے تو ویسے ہی کہا تھا کے یہ پھلچری  کون ہے وہ  ہنس دی اور کہا تم نے مجھے پھر پھلچری کہا  دیکھو تنویر تمہارا دیور کتنا تیز ہے   ہم سب ہنس دے اب میں ان سے کچھ فری  ہو گیا تھا  پھر ہم  ساتھ ساتھ واک بھی کرتے رہے اب اس نے کہا  

تنویر میں نے ایک مشورہ کرنا ہے نصرت بھائی سے میری ایک دوست کے ساتھ کچھ  پرابلم  ہے وہ ایک اچھے سے وکیل سے مشورہ کرنا چاہتی ہے تو جھٹ سے  شفق بھابھی نے  کہا اپنا شارق ہے نہ  اب میں نے کہا بھابھی کیا بات ہے آپ مجھیبتاؤ وہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر بولی  یار اس کے خلاف ایک بہت بڑی پارٹی نے ایک جھوٹا کیس دائر  کیا ہوا ہے  جس میں سے اس نے بڑی مشکل سے  اپنی عبوری ضمانت کرا رکھی  ہے  مگر مسلہ یہ ہے کے جو مخالف پارٹی ہے وہ اسے کسی وکیل کو نہیں کرنے دیتے اب تک وہ کوئی آٹھ دس وکیلوں سے بات کر چکی ہے  پر کوئی بھی حامی نہیں  بھڑتا  کیوں  کے وہ لوگ اسے روک دیتے ہیں ان کے پاس بارے بارے وکیلوں کا ایک پورا گروپ ہے جن کی وجہ سے یہ مسلہ کھڑا ہو گیا ہے  میں نے کہا اس کی ان سے یہ لڑائی کیوں ہو رہی ہوا بولی اتنا  تو مجھے بھی نہیں پتہ  اس سے پوچھنا پڑے گا پھر اس نے کہا شارق پلیز وہ میری دوست ہے اور مجھے اپنی بہنوں سے بھی عزیز ہے میں نے کہا ٹھیک ہے بھابھی میں آپ کی دوست کا کیس لڑوں گا  پھر ہم سب اپنے اپنے کمرے کی طرف چل دیے میں کمرے میں جا کر سو گیا  پھر میری آنکھ تب ہی خالی جب مجھے بھائی  امجد نے آ کر اٹھایا  وہ بولے شارق  تم ایسا کرو  آج شاہ بانو کے ساتھ ان کی کوئی دوست ہے ان سے مل لو ان کا کوئی مسلہ ہے مینن نے کہا ٹھیک ہے  بھائی   پھر آج میں نے نصرت بھائی کی گاڑی لے لی اور شاہ بانو کے ساتھ دوسرے سٹی کو چل دیا  میں  نے اب راستے میں شاہ بانونے مجھ  سے پوچھا شارق تم اب شادی کیوں نہیں کر رہے  میں نے کہا ویسے ہی بھابھی ابھی میرا کوئی  موڈ نہیں ہے  وہ بولی کیا کوئی پیار کا چکر تو نہیں میں ہنس دیا اور کہا نہیں ابھی تک  تو نہیں  پھر وہ بولی  یہ تم نے  کل پھلچری کیوں کہا تھا  میں نے کویجواب نہ دیا وہ بولی بتاؤ نہ میں نے کہا بھابھی  میں سچ بولنے کا عادی ہوں اور میری بات سن کے آپ کو برا بھی لگ سکتا ہے اس لئے  رہنے دو وہ بولی میں مائنڈ  نہی کروں گئی اب بتاؤ میں نے اب ان کی آنکھوں  میں دیکھتے ہوے کہا کیا آپ کو نہیں پتہ  آپ کتنی خوبصورت ہیں  وہ شرما گی اور کہا  نہیں  میںنے کہا آپ جیسی لڑکیاں کم ہی دیکھی ہیں میں نے  آپ کے جسم کو دیکھ کر نہیں لگتا آپ میرڈ ہیں وہ اب بولی تو اس کی آواز میں عجیب سی کھنک محسوس ہوئی مجھے وہ کہنے لگی ایسا بھی کیا ہے میرے جسم میں سب کا ایسا ہی ہوتا ہے   نہیں آپ جیسا سب کا نہی ہوتا میں نے جواب دیا  آپ جیسی  چھاتی میں نے آج تک کسی لڑکی کی نہیں دیکھی وہ اب تو شرم کے مرے دوہری ہو گی  میرے منہ  سے چھاتی کا سن کر کافی دیر وہ نظریں نیچی کے بیٹھی رہیں مجھے وہ ایسے  بیٹھی بڑی پیاری لگی میں نے کہا  بھابھی کیا ہوا وہ کچھ  نہ  بولی
ہمیں تو آپ کی اس ادا نے لوٹ لیا صنم
نظر ملتے نہیں بس شرما
ۓ جاتے ھو
میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوے کہا وہ اور بھی چھوئی موئی کی طرح  سکر گی شرم کے مارے

اس نے اپنے ہاتھ اپنی گود میں رکھے ہوے تھے میں نے اب اپنا ایک ہاتھ اس کی گود میں رکھے ہاتھوں پے رکھ دیا  وہ کانپ سی گئی میںنے کہا  شاہ بانو میرا دل آپ سے دوستی  کرنے  کو کر رہا ہے کیا آپ مجھے اپنے دوست کی حثیت  سے قبول کرو گی  اس نے اب کی بار  دھیرے سے اپنا سر اٹھایا اور کہا شارق  کسی کو پتا نہ چل جائے میں سمجھ گیا  یہ راضی ہے میں نے کہا نہیں چلے گا  ، وہ اب کی بار ہاں میں سر کو ہلا کے بولی مجھے قبول ہے لیکن ایک شرط ہے میری تم مجھ سے کوئی ایسی ویسی  ڈیمانڈ نہیں کرو گے ، میںنے کہانہی کروں گا تب تک میں آپ سے کچھ نہیں مانگوں گا جب تک آپ خود نہ  راضی ہو جاؤ  وہ اب خوش ہو گئی  پھر ہم نے راستے میں ایک اچھے سے ہوٹل سے کھانا کھایا اور چل دیے پھر وہ بولی  شارق  میں تم سے کچھ پوچھنا  چاہتی ہوں میں نے کہا  کیا وہ بولی چلو ایسا کرتے ہیں گیم  کھیلتے ہیں  ایک سوال تم کرو ایک میں کروں گی جو بھی ہارا وہ جیتنے والی کی ایک بات ماننے گا  پھر میری طرف دیکھ کے شریر نظروں سے کہا  آے مسٹر وہ بات لمٹ میں ہونی چاہے میں اب مسکرا دیا اور کہا چلو پوچھو وہ بولی میرا پہلا سوال
میں تم کو کیسی لگتی ہوں
میں نے جواب دیا  ایک سے لیکر دس تک نمبر ون ہے تو
 وو شرما کے بولی یہ کیا جواب  ہے پھر میں نے کہا آپ کی مرضی آپ جیسا مرضی سوال کرو میں تو اپنمرضی کا جواب دوں گا وہ بولی
چلو  تم سوال کرو میںنے کہا بانو آپ کی ہائیٹ  کتنی ہے
وہ بولی پانچ فٹ چھ انچ
اب  اس نے پوچھا اور آپ کی
میں نے کہا چھ فٹ چار انچ

اب میںنے  پھر پوچھا بانو آج آپ نے کون سے رنگ کا برازئیر پہنا ہے وہ تو مانو ایک دم سے چپ ہو گی اس کا رنگ ur
 سا گیا وہ بولی یہ سوال غلط ہے میں نے کہا کوئی غلط نہیں ہے آپ اپنی ہار مان لو اس نے کہا کیوں مانو تم کوئی اچھا سا سوال  کرو نہ میں نے کہا میرا یہی سوال ہے
وہ جواب میں بولی میں ے سکن کلر کا پہنا ہے
اب وہ بولی تم بتاؤ کی آج تک تم نے کتنی لڑکیوں سے دوستی کی ہے
میں نے کہا مجھے سہی سے یاد نہیں کافی سے رہی ہے دوستی لیکن سچ ہے کسی کا بھی فگر  تم جیسا نہیں تھا
وہ اب شرما  کے مجھے دیکھنے لگی  میں نے اب سوال کیا  بانو تمہارا بریسٹ سائز کیاہے
وہ اب غصے سے مجھے دیکھنے لگی اور کہا تم جان بوجھ کے اوٹ  پٹانگ سوال کر رہے ھو یار یہ کوئی سوال ہیں  میں نے کہا  ٹھیک ہے نہ بتاؤ  اچھا یہ  بتاو آج کونسا دِن ہے  اس وقت ہم کہا جا رہے  ہیں  ہماری  گاڑی کے پیچھے  کون سی گاڑی آ رہی ہے ایسے سوال ٹھیک ہیں  نہ  وہ اب ہنس ہنس کے دہری ھو گی جب وہ ہنستی تو اس کے مممے اوپر نیچے  کا سفر کرتے  میں نے کہا اور کیا پوچھوں  اور گاڑی کا میوزک  کا بٹن  دبا دیا
ملکہ ترنم نور جہاں کی سریلی آواز گاڑی میں گونجنے لگی
تیرے  نال ملا یاں  اکھیاں   وے تو فیر وی دوریاں  رکھیاں
تو جت گیا بیقدرا میں جندڑی ہار گئی    
یہ سنتیھی اس نے میری طرف دیکھا اور کہا  یہ سب کیا ہے مسٹر  میں نے کہا  یہ ملکہ ترنم میرے دل کی آواز کو اپنی زبان سے تم تک پہنچا رہی ہے

اب وہ مجھے دیکھتے ہوے بولی شارق تم چاھتے کیا ہے میں نے کہا تم کو سر سے پاؤں تک وہ اب بولی شارق اگر میرے خاوند  کو پتہ چل گیا وہ مجھے مار ڈالے گا میں نے کہا اسے کون بتاے  گا تم  وہ بولی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا  تو پھر اسے کیسے پتہ چلے گا نہ تم بتاؤ گی اور نہ میں اب میں نے کہا چلو میرے سوال کا جواب دو  وہ اب بولی کونسے سوال کا ،
میں نے اب اپنا ایک ہاتھ اس کے اپنی سائیڈ والی مممے پے رکھا ہلکا سا دب دیا وہ سی سی سی  کر اٹھی میں نے کہا ان کا کیا سائز  ہے بانو وہ بولی شارق  38 ڈی میں نے کہا واؤ  یار کافی زبردست مال ہے  اب اس نے کہا چلو تم بتاؤ آج تک کتنی لڑکیوں سے ملاپ  کیاہے  جسمانی  میں نےکہا کافی ساری ہیں ،
میں نے کہا میرا اگلا  سوال ہے  اور اپنے ہاتھ کو اس کی چوت  پے رکھ کے کہا یہاں پے پینٹی پہنی  ہے کے نہیں وہ بولی نہیں میرا ہاتھ چوت کو لگتے  ہی وہ سسک  اٹھی تھی اس کا سانس تیز ہو گیا  میں نے وہ ہاتھ ووہی رکھا اور ہلکے سے مساج  کرنے لگا وہ اب اپنا ایک ہاتھ میرے ہاتھ پے رکھ کے بولی ش ا ا ا ا ا ا ا ر ر ر ر ق ق ق ق پلیز نہ کرو نہ  اب اس کی آنکھیں لال ہو گیں تھیں  اور اس کی سانسیں تیز  میں اب گاڑی آہستہ  سے ایک کچےراستے  پے اتار کے آگے جانے لگا  اب اس  کی آنکھیں بند  ہو گی تھیں وہ راستہ ایک چوتھے سے درختوں  کے ذخیرے کی طرف جاتا تھا جس  سے کوئی دس میل دور اک صوبائی منسٹر کا فارم ہاؤس  تھا  اس ذخیرے میں  جا کر میں نے گاڑی روک دی اب اس نے اپنی آنکھیں کھولی اور کہا یہ ہم کہاں آ گے ہیںمیں نے کہا وہاں اے ہیں جہاں میں تمہارے اس سنگ مر مر سے بنے بدن کو خراج  تحسین پیش کروں گا وہ اب شرما کے بولی  شارق  پلیز جو کرنا ہے جلدی سے کر لو وہ ہمارا انتظار کر رہی ھو گی  میں نے اب   اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر آیا

پھر اسے بھی نیچے اتارا اور گاڑی  کی ڈکی سے گاڑی کے اوپر ڈالنے والا  پیرا شوٹ  کے کپڑے کا بنا ہوا کور  نکالا اسے نیچے بچھا کے میں اور بانو آمنے سامنے بیٹھ گے وہ اب میری گود کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں سے میرا لن کھڑا تھا اب میں نے اسکی  قمیض اتاری تو میں اس کا سفید اور چکنا پیٹ  دیکھا کر حیران  رہ گیا اس کی چھاتی کافی بھری    تھی میں نے اب برا  کا ہک کھولا  اور برا بھی نکل دیا میں  اب اس کے ہک  کو  کھول  کے اتار  دیا  اور اپنی شرٹ بھی اتار دی اب  اس نے اپنی شلوار خود ہی اتار دی میں نے بھی اپنی پینٹ اتار کے ایک طرف  رکھ دمیں اب صرف اندر ویر  میں تھا اور وہ بلکل ننگی تھی اس کا پیٹ اندر کو دھنسا ہوا تھا اور اس کے کولھے باہر کو نکلے تھے  اس کی چھاتی کافی بھاری   تھی  میں نے اب اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا  اس کے ہونٹوں کے دروازے میں اپنے ہونٹوں سے دستک دی  اس نے تڑپ کے اپنے ہونٹوں کا دروازہ کھولا  اور میری زبان کو اندر جانے کی اجازت مل گی  وہ اب میری زبان کو چوس رہی تھی اور میں اس کے ،ممموں  کودبا رہا تھا  

بانو اب اندر ویر کے اوپر سے ہی میرے لن کا سائز  ناپ رہی تھی ہاتھوںمیں لے کر  پھر اس نے اپنے ہاتھوں سے میرا لن بھر نکالا  میں اس کی زبان چوسنے لگا اور کبھی اس کا نچلا ہونٹ سوچنے لگتا  ہم نے کوئی دس منٹ تک ایک دوسرے کے ہونٹ چوسے  اب وہ   کروٹ لے کر میرے اوپر آ گی  اس نے میری رانوں  پے بٹہ کے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور کہا واؤ  یار اتنا بڑا میں نے کہا کیوں  تمہارے سوہر کا چھوٹا ہے کیا وہ بولی ہاں وہ  سات انچ کا ہے  پھر اس نے میرے لن کو منمیں لیا اور چومنے لگی وہ  میرے ٹٹوں سے لے کر  ٹوپی تک اپنی زبان پھیرتی   اور دوبارہ سے اسے منہ میں لے لیتی  وہ بھوکوں کی طرح میرا لن چوس رہی تھی وہ تھوڑا تھوڑا کر کے سارا اندر لے جاتی اپنے موں میں وہ اس کے حلق تک جاتا اور پھر اسے نکال لیتی وہ اتنے جدا سے  طریقے سے میرا لن چوس رہی تھی میں  مزے میں آ ہ  کر اٹھتا وہ اب اپنے ہاتھ سے  میرا لن پکڑ کر اس پے مٹہ لگانے لگی  اور اپنی زبان  میری ناف  میں اور پیسٹ پے پھیرنے لگی اب وہ ہلکی ہلکی سانسیں میرے پیٹ پے چھوڑتی   میری  رانوں   کی طرف آتی اور پھر میرے لن کے چاروں طرف اپنی زبان پھیرتی  اب  اس نے اپنی چوت کو میرے موں کی طرف کیا اور میرا لن اب سپیڈ سے چوسنے لگی میں نے بھی اپنی ایک انگلی سے اس کی پھدی کوکھولا  اور اپنی زبان اندر  داخل کر دی  ایک  دفع اس کا جسم کانپ  گیا اب میں نے اس  کو اپنے نیچے کی طرف کیا اور اس کی پھدی کو چوسنے لگا  وہ اب تڑپ تڑپ جاتی  میں نے اس کے مممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھے تھے ان کو بھی داب رہا تھا اور اس کی پھدی کے اندر باہر اپنی زبان  بھی کر رہا تھا

وہ  اب اپنے ہاتھ میرے سر پے رکھ کے  سسکریاں  بھرنے لگی  آ ھہ اف ف ف ف اس نے اب اپنی ٹانگیں میری گردن کے گرد لپیٹ لیں  اور مجھے نیچے کی طرف دبانے  لگی پھر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ فارغ ہو گی میں نے اپنا منہ نہیں پیچھے کیامیں نے اس کی چوت کو چوس چوس کر پانی اپنی کر دیا وہ دو دفع فارغ ہوئی ایسے ہی ابمیں نے اوپر  کی طرف اپنی زبان کوپھیرتے  ہویے جانے لگا اب میں اس کی ایک نپل  کو موں میں لے کر چوسنے لگا اور کبھی کبھی ہلکا سا کاٹ بھی  لیتا وہ اب تڑپ  رہی تھی شارق پلیز  اب میرے اندر اپنا لن ڈال دو میں مر جاؤں گی  شارق اور مت تڑپاؤ میری  جان نکل رہی ہے  میں نے اپنے کان بند کر کے اس کے مامے چوستا رہا میں ے اتنا چوسا کے نیل پڑھ گے اس کی نپلوں  پے میں کبھی کبھی کاٹ بھی لیتا تھا وہ اب میرے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی شارق  بس ایک دفع اندر ڈال دو  تم کو میری قسم   میری بات مان لو اب جب میں نے اس کاکوئی نہ سنی تو وہ بولی شارق میں تم کو  نازش  کی پھدی  بھی لے کر دوں گی نازش اس کی دوست کا نام تھا  جس کے پاس ہم جا رہے تھے  وہ مجھے رشوت  میں اس کی پھدی  دینے کی بات کر رہی تھی  میں ے جان بوجھ کر اسے تڑپایا تھا  کے بعد میں وہ مجھے انکار نہ کرے پھر میںنے اس کی ٹانگیں اٹھا کر ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن سارا اندر ڈال دیا

بانو درد سے بلبلا  اٹھی اور کہا شارق کونسا بدلہ لے رہے ھو ظالم میںنے اب اپنے دھکے تیز ہی  رکے اسے اب بہت مزہ آ رہا تھا  وہاں  چاروں طرف اب بنو کی ہلکی چیخیں  اور سسکریوں کی آوزیں تھیں  وہ مزے کی وادیوں میں گم تھی اس کی آنکھیں بند تھیں میں کوئی دس منٹ تک اسے آگے سے کھودتا رہا زور زور سے میرے ہر دھکے سے اس کی ایک دفع تو سانس روک جاتی وہ  اب ایک بار پھر سے جھاڑ گی تھی  میں نے اب اسے الٹا  کیا اور پیچھے سے اس کی چوٹ میں اپنا لن ڈال دیا  اب میں اتنی تیزی سے  لن کو اندر بھر کر رہاتھا اسے اب درد ہونے لگا تھا  وہ بولی شارق بس تھوڑی دیر کو روک جاؤ کیا کھاتے  ھو تم  میں نے اب اپنا لن اس کی چوت سے نکالا اور گانڈ میں ڈال دیا    وہ ایک دفع تو ذبحہ ہوتی بکری کی طرح ممیا اٹھی  ہا اے میں مر گئی شارق باہر نکالو اسے یہاں پے تو آج تک میں نے  اپنے شوہر کو بھی نہیں ڈالنے دیا ، وہ اب چلا رہی تھی اور میں سمجھو اب اس کا ریپ  ہی کر رہا تھا میں نے اتنا چودہ اسے کے اس کی گاند سے اب خوں آنے لگا تھا وہ اب زور زور سے رو رہی تھی  اب تو اس نے بچاؤ بچاؤ  چیخنا بھی شروع  کٹ دیا پر اس بیاباں  جگہ کون آتا اب میں نے اسے تب چھوڑا جب میں فارغ ہوا  وہ اب درد سے بیہوش ہو گی تھی

میںنے گاڑی میں رکھی  منرل  واٹر کی  بوتل  کا ڈھکن  کھولا اور پانی اس کی پھدی اور گانڈ پے ڈالنے لگا  کچھ پانی اس کے چہرے  پے ڈالا وہ اب ہوش میں آ گئی میں نے اسے  اپنی بانہوں میں  لے کر خوب کسیں کیں  وہ اب بھی رو رہی تھی اس سے بٹھا  نہیں جا رہا تھا  وہ بولی شارق ایسا بھی کرتے ہیں بھلا  میری گانڈ پھاڑ دی ہے تم نے  میں نے اب اس کی گالوں کو چومتے ہوے کہا بانو   سونی  پہلی دفع ایسا ہو ہوتا ہے اب  تم  کو مزہ آے گا ، وہ بولی مجھے نہیں لینا ایسا مزہ  میں نے اسے اپنی بانہوں میں ہی گھیرے رکھا اور کہا نہیں لینا مزہ  وہ اب میری  آنکھوں میں دیکھ کر بولی  بس آگے سے اور پیار پیار سے کرو گے وعدہ کرو    میں نے کہا ٹھیک ہے  اب پھر میں نے اسے کس کرنے لگا وہ بھی  اب میرا ساتھ دے رہی تھی  میں نے س کے مممے چوسنے لگا وہ اب پھر سے کافی گرم  ہو گئی تھی  وہ اب اپنی  تیز تیز سانسوں میں بولی  شارق اب ڈالو نہ اندر  میں نے کہا کیا وہ بولی شارق   میری جان اپنا یہ  لوہے کے راڈ جیسا لن میری اس  بچیں چوت میں ڈالو  میںنے اب اس کی ایک ٹانگ اٹھا لی اور اس کے اپر لیٹ گیا میں نے اب کی بار بارے آرام آرام سے اپنا لن اس کی چوت میں کیا اندر  اور ہلکے ہلکے دھکے لگانے لگا اب اس نے  اپنی دونو ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ  لیں اور اپنے بازوں  میری گردن کے گرد  امن اب اسے پیار سے چود رہا تھا وہ میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی ہم کوئی دس منٹ تک ایسے ہی  پیار کرتے رہے  پھر وہ بولی شارق میں آ رہی ہوں اور وہ ایک ہلکی چیخ  کے ساتھ ہی جھاڑ گئی  میں ویسے ہی لگا رہا  وہ اب میرے دھکوں سے  دوبارہ سے گرم ہونے لگی تھی میں نے  اب کہا بانو ایک دفع پیچھے سے  کروں وہ دار گئی اور کہا نہیں شارق اب نہیں میں مر جاؤں گئی اب کی بار

میں نے پھر اسے آگے سے ہی چودہ  کبھی الٹا کر کے کبھی سیدھا کر کے پھر میں بھی نزدیک ہی تھا کے وہ دوبارہ جھرنے لگی اب  میرے لن نے بھی  بانو کی چوت میں ہی منی کا سپرے  کرنا شروع  کر دیا میں کافی  زور سے جھڑا  وہ بولی ا ف ف فف ف ف شارق تمہارا لن تو بہت منی چھوڑتا ہے پھر ہم ایسے ہی کوئی پانچ منٹ تک ایک دوسرے سے لپٹے لیتے رہے  پھر میں اٹھا اور اس کی برا سے اپنا لن صف کیا وہ بولی یار یہ کیا کیا ابمیں کیا کروں گی میں نے کہا تم بھی اسی سے صف کرو  اور ایسے ہی پہن لو  وہ بولی تم برے بدمعاش ھو شارق

اب اس نے کپڑے پہنے اور گاڑی کی طرف آنے لگی اس سے چلا نہیں جا رہا تھا  سہی سے وہ اپنے چڈھے پھیلا کر چل رہی تھی  اب میں نے  گری سٹارٹ  کی اور میں  اب کافی تیزی سے گاڑی کو  ڈرائیو  کرنے لگا میں نے ایک گھنٹے  کا سفر تیس منٹ میں طے کیا  اب  وہ مجھے بتانے لگی راستہ اپنی دوست کے گھر کا پھر ہم ایک ایسے رہائشی  ایریے میں پوھنچ گے جہاں ہر طرف انتہائی خوبصورت بنگلے بنی ہوے تھے  یہ اس  شہر کا مہنگا ترین ایریا  تھا  اب ایک بہت پیارے اور بڑے بنگلے کے سامنے روکنے کو کہا  مجھے بانو نے اس نے اب خود ہی ہارن دیا گاڑی کا  ایک گارڈ نے چھوٹا دروازہ کھولا گیٹ کا  جب اس نے بانو کو دیکھا تو جہت سے اندر جا کر بڑا گیٹ کھول دیا  میں اپنی گاڑی اندر لے گیا    جہاں پے ایک  نئے ماڈل کی ہنڈا اکارڈ  کھڑی تھی اس کے پیچھے اپنی گاڑی روکی اتنے میں اندر سے ایک پیاری سی  لڑکی جس نے جینز کی پیبنٹ اور ایک کھلے گلے کی شرٹ پہن  رکھی تھی  باہر آی اور بانو کو دیکھتے ہی کہا یار تم کو آنے میں اتنی دیر میں اب پریشان ہو گئی تھی  اپر سے تمہارا سیل بھی آف جا رہا تھا

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest