SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ چھٹی قسط



عاشق

چھٹی قسط

تحریر: ماہر جی


میں اب ڈیڈی کی کار میں تھا میں نے سوچ لیا تھا پہلے اپنے ایک دوست کو ملوں گا جس کا نام بابر تھا اور وو میرا کلاس فیلو  تھا  جسے پڑھائی سے زیادہ غنڈا گردی کا شوق تھا اس نے اور میں نے ایک ہی کلب سے جوڈو کراتے  سیکھے  تھے  میں تو بس بلک بیلٹ تک ہی گیا تھا پر بابر بعد میں جاپان بھی گیا تھا اس نے مارشل آرٹ  میں کمال حاصل کیا تھا پھر وہ  واپس  آیا اور اس نے اپنی بدمعاشی کی دھاک بٹھا دی تھی  وہ ایک وفاقی منسٹر کا بیٹا تھا  اس لئے اس کے تعلقات بھی کافی تھے  آوپر  سے وہ اس فیلڈ میں آیا تھا جہاں اکثر لوگوں  کو اس سے کام  پڑتا رہتا تھا  اس نے آتے ہی کچھ جوے کے اڈے بنا لئے تھے اور اس کے ساتھ کافی لوگ بھی تھے جو اسے استاد بابر بولتے میں اس کے ایک خاص ااڈے کی جانب چل دیا وہاں گیا تو پتا چلا وو ابھی وہاں سے نکل کے ایک اور جگہ گیا ہے اب میں وہاں گیا وہ جگہ ایک بہترین نائٹ کلب تھا  اور اس میں سب بڑے بڑے لوگ ہی آتے تھے، میں نے کاؤنٹر پے جا کر کہا مجھے بابر سے ملنا ہے وہاں پے ایک کلین شیو نوجوان لڑکا کھڑا تھا  اور اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا مسٹر جو کام ہے ہم کو بتاو باس  ابھی کسی سے نہیں مل سکتا وہ اپنی ایک پارٹی  سے کچھ ڈیلنگ  کر رہا ہے  میں نے کہا یار تم اسے کال کر  کے میرے بارے میں بتاو تو سہی اس نے کہا اگر وہ آپ کا اتنا ہی قریب ہے تو خود بات کر لو اس نے مجھے بابر کے آفس میں کال ملا کے دی آگے  سےکسی  آدمی  کی آواز آئی کیا بات ہے ناصر  کیوں کال کی ہے  میںنے اب کی بار کہا بابر سے کہو شارق آیا ہے اسے ملنے کو  بابر شاید پاس ہی بیٹھا تھا اس کے اس نے میرا نام سنتے ہی  خود ریسیور  پکڑا اور کہا یس کون ہے میںنے کہا آوے کمینے اب تو اتنا برا باس بن گیا ہے کے مجھے بیس منٹ ہو گے ہیں یہاں آے اور کوئی بات تک نہی کرا  رہا  تھا تم سے اس نے جیسے ہی میری  آواز سنی  وہ بولا صرف ایک منٹ روک  اپنی زبان کو  اور کال کاٹ دی پھر مجھے اسی وقت  اوپر سے آتی سیڑھیوں سے بھاگنے کی آواز آئی جسے سن کے میرے ساتھ کھرے  بابر کے آدمی جلدی سے اپنی اپنی گن جو انہوں نے کندھے سے لگا رکھی تھی وو اتار کے ہاتھ میں پکڑ لی  آنے والا بابر خود تھا اس کے پیچھے تین چار اور لوگ تھے وہ آتے ہی  بھاگ کے میرے گلے لگا اب کے اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر کے ایک گول چکر دیا اس میں کئی سانڈوں جیسی   طاقت تھی میں نے کہا ابھے میری جان لے گا کیا وہ  ہنس دیا اور میرا منہ چوم کے بولا شارق  آجمیں بہت خوش ہوں تم میرے پاس آے ھو

  پھر اپنے پیچھے کھڑے ایک آدمی سے کہا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا بولا جاؤ وقار میں نے تم کو معاف کیا اسے باہر چھوڑ آؤ کھ  کے میرا ہاتھ پکڑ کے دوبارہ سے سیڑھیوں کی طرف چل دیا  پھر میں اس کے ساتھ اس کے آفس میں داخل  ہوا کم بخت    نے برا ہی غضب کا آفس بنا رکھا تھا  ہر چیز ایک سے بڑھ کے ایک  اب میں اور وہ ایک  صوفے پے آمنے سامنے بیٹھ گے وہ بولا میرے شہزادے کے لیے  کھچ کھانے  پینے کا بندو بست کرو یار  اس کی بات سن  کر ایک آدمی باہر چلا گیا اور ایک کھڑا  رہا میںنے کہا  بابری  مجھے تمہاری کچھ مدد چاہے  بولو کرو گے وہ بولا آوے لعنتی  انسان حکم دے کے یہ کام ہونا چاہے یہ مت کہ  کے میرا کام کرے گا  آج ہم کوئی تین سال بعد مل  رہے  ہیں  شارقی کیا اب ہم اتنے دور ھو گے ہیں ایک دوسرے سے  کے تم کو یہ الفاظ کہنے پڑھے تم تو ہمیشہ کہا کرتے تھے بابر اور میں دو جسم اور ایک جان ہیں اور آج اپنی  ہی جان  سے یہ بات  یار میرا دل ٹوٹ گیا
 میں نے ساری زندگی بس تجھے ہی دوست بنایا ہے شارق  ورنہ آج تک دشمن ہی بناے ہیں  میں نے کہا یار بات ہی ایسی ہے مجھے کہنا پڑھا وہ اب کافی ناراض لگ رہا تھا بولا شارق کیا بات ہے میں نے پھر اسے بتایا  اپنے کیسوں کے بارے میں اور ڈار کے بارے میں

وہ بولا میں جانتا ہوں فرحاں ڈار واقعی ٹیڑھی کھیر ہے  خیر کوئی بات نہیں دیکھ لیں گے  اسے بھی  پھر میں نے اور اس نے ملکر کھانا کھایا جب  میں نے اب جانے کی اجازت مانگی وہ بولا بس پانچ منٹ روک جاؤ پھر اس نے اپنے ساتھ کھڑے آدمی سے کہا ظفری  یہ شارق  مجھے اسس جہاں میں سب سے عزیز ہے اپنی جان سےبھی زیادہ  آج سے تم نے کیا کرنا ہے تم ساری تفصیل سن چکے ھو  جو پورانی حویلی  والا گینگ ہے تم آج سے ان کو اس کے پیچھے لگا دو میں نے کہا نہی یار اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے میں بس تم سے اس کے بارے میں پوچھنے  ہی آیا تھا حفاظت میری نہیں احساں تائب کی کروانی ہے جیل میں   وہ بولا تم اس ماملے میں نہیں بولو گے   پھر ظفری سے کہا پانچ  پانچ لڑکوں  کے تین گروپ بنا دو  وہاں پے کتنے لوگ ہیں وہ بولا باس وہاں پے بیس آدمی ہیں اپنے جو ابھی تک کس کی نظر میں نہیں آے اور ہر طرح سے ٹرینڈ  بھی ہیں اور ہر طرح کے اسلحے سے بھی لیس ہیں تو میںنے کہا یار اتنے لوگ کیا تم پاگل ہو گے ھو بھائی وہ بولا جانی میرا گروپ پورے ملک میں پھیلا ہے میں نے اپنے وہ لوگ ترے پیچھے کئے  ہیں جن کا کسی کو نہیں پتا کے میرے لوگ ہیں وو سمجھو خفیہ  آرمی ہے تمہاری آج سے اور یہ ظفری ان کا انچارج ہے  پھر میری کوئی بات نہ سنی اس نے اور میں جب گھر جانے لگا  تو مجھے پتا تھا  میرے پیچھے  ایک جیپ میں پانچ باڈی گارڈ ہیں میرے جو اب ہر وقت میرے ساتھ سایے کی طرح رہیں گے  آج کل کے دور میں ان کی بہت ضرورت تھی مجھے کیوں کے اب میں جو کرنے جا رہا تھا اس میں ہر وقت میری جان کو خطرہ رہنا تھا اب ایک وقت مقرر سہی لیکن بندے کو اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہے کیوں کے زندگی ایک ہی دفع ملتی ہے

اب میں سیدھا اپنے گھر جانے کی بجاے فرہاد احمد کے گھر گیا میں اس کی بیگم ثمینہ فرہاد سے ملا وہ  ایک نوجوان لڑکی تھی جو اپنی باتوں سے کافی گھمنڈی لگ رہی تھی وہ  بولی آپ کو کیا کام ہے مجھ سے میںنے اس سے کیس کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہا وہ بولی آپ کون ھو میںنے کہا میں ایک وکیل ہوں وہ بولی تو میرے پاس کیا لینے آے ھو جاؤ جا کے فائل  پڑھ کے دیکھ لو ساری بات کا تم کو پتا چل جائے گا  اور یہ کہ کر اپنی کار میں بیٹھی اور کہا مجھے دیر ہو رہی  ہے میں نے ایک دوست  کے ہاں جانا ہے مجھے اس پے بہت غصہ آیا میں نے دل میں سوچ لیا اب  جو مرضی ہو جائے  اس کیس سے احسان کو چھڑا کے ہی چھوڑوں گا  اب میں احسان تائب کے گھر کی طرف  گیا وہ ایک چھوٹا سا کواٹر تھا ایک غریب سی آبادی رہتی تھی وہاں پے میں نے جب احسان کے  کواٹر کے دروازے پے دستک دی تو ایک بزرگ  عورت نے دروازہ کھولا میں نے ان سے بات کی وہ مجھے اندر لے گی ہر طرف غربت کا عالم تھا وہ بولی بیٹا ھمارے گھر  میں تو تم کو بٹھانے کے  لئے  بھی   جگہ نہیں ہے  میں نے کہا ماں جی کوئی بات نہیں

ماں جی میرا نام شارق ہے میں ایک وکیل ہوں کیا آپ ہی مسز مقصود ہے وہ  بولی جی بیٹا میں نے آپ کو اس دِن دیکھا تھا عدالت میں  میں نے کہا میں عدالت کی طرف سے نہیں آیا اپنے طور پے آیا ہوں آپ سے اور آپ کی بیٹی سے کچھ سوال کرنے ہیں مجھے  وہ بولی بیٹا بولو  میں نے کہا آپ خود کیوں جاتی ہیں کورٹ میں کیا گھر میں کوئی مرد نہیحی وہ کہنے لگیں نہیں بیٹا  میں ہوں میری بیٹی فریال ہیاور تین چھوٹے   بچے ہیں مرد کوی نہیں ہے احساں کے والد وفات پا گ
ۓ ہیں  اور جو عزیز و اقاراب ہیں ان کی اپنی ہی مصروفیت نہیں ختم ہوتی  اور پھر کون غریب رشتہ داروں کا اس حال میں ساتھ دیتا ہے  میں نے کہا ماں جی ایک بات کہوں آپ سے اگر آپ ماں جو تو وو کہنے لگی بولو میں نے  ان کی طرف دیکھتے ہوے اٹھا اور پاس ہی کھڑی فریال کے سر پے ہاتھ رکھ کے کہا  آپ مجھے  احسان کا بھائی ماں سکتی ہیں یہ سنت ہی وہ  رونے لگیں اور کہا  اس دور میں جہاں اپنے سگے بھی پراے  ہو جاتے ہیں تم پراے ہو کر بھی کیوں اتنا کچھ کر  رہے ھو  میں نے کہا  آپ بس مجھے یہ بتا دیں اس دِن ہوا کیا تھا  اب کی بار میں نے فریال سے کہا پلیز فریال ابھی کچھ نہیں دیکھا تمہارے بھائی نے مجھے بتاو کیا بات ہے  کس کے لئے وہ موت کو گلے لگا رہا ہے  وہ چپ رہی اور کوئی جواب نہ دیا  پھر میں نے اس کی ماں سے کہا لگتا ہے آپ کو رشتوں پر سے اعتبار نہیں رہا  وہ بولی ایسا نہ کہو بیٹا  تب میں نے کہا تو مجھے بتاتے کیوں نہیں آپ  لوگ کیا ہوا ہے  اب تو وہ بھی چپ کر گیں وہ ماں بیٹی ایک دوسرے کی طرف دیکھی جا رہی تھیں  آخر کار میں نے کہا احساں سے وکیل کیوں نہ ا کیا  وہ بولی وہ نہیں چاہتا وکیل کرنا ہم کیا کریں اور بیٹا جو تم پوچھنا چاھتے ھو وہ بس  احساں ہی بتا سکے گا تم  کو اب میں نے اگلے دِن  کے لئے کہا ماں جی کل آپ اسے میرے ساتھ چل کے اس بات پے تیار کریں کے وہ مجھے اپنا وکیل بنا لے  وہ کہنے لگی ٹھیک ہے بیٹا  میں اب ان کے گھر سے نکلا اورفاروقی  صاحب کے پاس گیا ان سے ساری بات ڈسکس کی  پھر ان کے ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا اور  پھر گھر آ گیا  گھر میں آیا تو آتے ہی میں لالرخ کے قابو میں آ گیا وہ کہنے لگی  بھائی آپ ہم کو گھر چھوڑ کے ایسے گۓ کے ہم تو سوچ رہے تھے آپ اپنے لگی پیسوں کا ماتم کر رہے ہیں  میں نے کہا ہاں یہی سمجھ لو پھر میں نے کھانا کھایا کچھ دیر سب کے ساتھ بیٹھا اور آ کر نیلوفر کے پاس ہی اس کے کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگا وہ اب ٹھیک تھی مین نے کہا  جی جانو جی  پھر ہو جائے  آج بھی وہ شرما کے بولی   چلو میں آتی ہوں آپ کے کمرے میں  اب میں اٹھا اور اپنے کمرے   میں آ کر سو گیا   پھر میری آنکھ تب ہی کھلی جب نیلوفر نے مجھے جگایا وہ اتے ہی میرے اپر گر گے میرے ہونٹ چوسنے لگی میں بھی اس کاساتھ دینے لگا  اب ہم ایک دوسرے میں کھوے ہوے تھے  میں اس کی زبان کو چوس رہا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے سڈول مممے  دبا رہا تھا   وہ بولی شارق  آج للہ رخ میرے پاس ہی سو رہی ہے   اس لئے آج جلدی جانا ہے کہیں اس کی آنکھ نہ کھل جائے میں بھی موقع کی نزاکت کو سمجھ گیا  میں نے اب اسے ننگا کیا اور اپنے بھی کپڑے اتار دیے میں اس کی رانوں کے درمیان بیٹھ گیا  میں نے اب اپنا لن اس کی چوت    کے سوراخ پے رکھا اور ایک ہلکا سا دہکا دیا  وہ س س س س کر اٹھی   میں  نے  اس کی ٹانگیں اٹھا کر اوپر کر دیں اور اب دھکے سے سارا لن اندر کیا اور اس کے اوپر لیٹ کر  اندر باہر کرنے لگا  وہ نیچے سے  جواب دینے لگی اپنے  کولھے اوپر اٹھا کر  میں اس کے ہونٹ چوس رہا تھا  اور وہ میری کمر پے اپنے ہاتھ پھیر رہی تھی   میرے دھکوں  میں اب تیزی آتی جا رہی تھی اس  کو بھی مزہ آنے لگا تھا وہ اب سسکاریاں بھرنے لگی آ ی ی  آ و ی اف ف ف ف ف  شارق آج تو کل سے بھی زیادہ مزہ آ رہا ہے جان پلیز اور زور سے کرو آج میرا انگ انگ تور ڈالو   آ ہ ہ ہ ہ ش ا ا ا ر ر ر ق ق ق ق تمہارا لن کتنا پین فل  ا ف  میری چوت  تو اب سواۓ اس کے کوئی اور لن لے ہی نہیں سکے گی اتنا مزہ آ ہ ا مم م م م واؤ شارق   اب نیلوفر کی آنکھیں بند ہو گیں تھیں مزے کی شدت سے  اور میرا لن جر تک اس کی چوت میں جا کر اس کی

بچا دانی کو خراج پیش کر رہا تھا  جب بھی میرا لن نیلو کی بچادانی کو سلام کرتا وہ ایک مزے کی لہر سے بیتاب ہو کر تڑپ جاتی  اس کا منہ ہلکا سا کھل جاتا  وہ اب مزے کی انتہا پے تھی اور زور زور سے چیخ بھی رہی تھی پھر ایک چیخ کے ساتھ ہی اس نے میری کمر کو مضبوطی سے کس کے پکڑ لیا وہ اب فارغ ہو رہی تھی  اب اس کے چہرے پے سکون ہی سکون تھا  میں ابھی  ویسے کا ویسا ہی تھا اب کی بار میں نے اس کی چوت کو ایک کپڑے سے صاف کیا اپنا لن بھی صاف کیا اور اب کی بار اسے الٹا لٹا کر میں نے اس کے اندر ڈالا اب صرف اس کی چھاتی ہی بیڈ پے تھی اس کی ٹانگیں میں نے اوپر اٹھا لی تھیں  اس طرح وہ اب اپنے ہاتھ اور چھاتی کے بل پے ہی بیڈ پے لیتی تھی باقی جسم کا حصہ بیڈ سے اوپر تھا اس طرح  سے میرے لن کے بلکل سامنے اس کی چوت اور گند اک سوراخ  تھا  میں اب کبھی اس کی چوت میں لن ڈالتا اور کبھی گاند میں جب چوت میں لن جاتا اسے مزہ آتا وہ مزے سے آ ہا  امم م  کر جاتی اور جب میں اس کی گاند میں ڈالتا وہ کچھ درد محسوس کرتی اور چیخ جاتی  ا ا ف ف ف ف ف شارق ا و ی  ہاہے  کہ اٹھتی مجھے اس طرح  مزہ آیا تھا پھر ایسے ہی لگا تار دھکے مرتے ہوے میں اس کی گاند میں فارغ ہو گیا وہ ایک دفع پھر جھڑ گی تھی  اب میں نے اسے سیدھا کیا اور اس کے ہونٹ چومنے لگا  وہ اب مجھے بےتحاشا  چومی جا رہی تھی  شارق تم کیا ھو یار میں جب تک اس گھر میں رہوں گی روز تم سے چدواوں گی   پھر میں نے کہا اب او نہتے ہیں اور نہتے ہوے پھر ایک دفع اس کی گانڈ ماری پھر وہ اپنے روم چلی گی اور میں سو گیا  اگلے  دِن  میں  ٹائیم سے ہی اٹھا گیا  نہ دھو کر ریڈی ہوا ناشتہ  کیا  پھر سیدھا احسان کے گھر میں سے اس کی والدہ کو ساتھ لیا  اور جیل میں چلا گیا  وہاں میں نے جیلر عدنان صاحب سے ملا ان کو اپنا کام بتایا انہوں نے اسی وقت  احسان تائب کو اپنے دفتر میں ہی بلوا لیا اور کہا تم سکون سے  اس سے باتیں کرو میں آتا ہوں اورھمارے  لئے چا
ۓ اور بسکٹ  بجھ دیے اب میں اور احسان کی والدہ احسان کو سمجھا رہے تھے پر وہ وکالت نامے پے سائن نہیں کر رہا تھا اب کی بار میں نے کہا یار دیکھو تم نے مرنا تو ہے ہی   پھر کیا فرق پڑتا ہے وکیل ہو یا نہ ہو میرا یہ پہلا کیس ہے میری ہی ہیلپ کر دو  اب کی بار وہ میرے چکر میں آ گیا اور کہا لاؤ کہاں سائن کرنے ہیں اور وکالت نامے پے سائن کر دیے میں اب اس سے کہنے لگا تم ماں بیٹا آپس میں بات چیت کر لو مجھے یہ لڑکا بہت ضدی نظر آ رہا تھا  میں اب سوچ رہا تھا  کیا کروں ایسا کے جس سے مجھے سچ کا پتا  چل جائے پھر کچھ دیر بعد جیلر صاحب آ گۓ میں نے عدنان صاحب کا شکریہ  ادا کیا وہ بولے تم میرے بھی بھائی ہو یار مجھ میں اور طارق میں کوئی فرق نہیں ہے اب میں نے کہا بھائی جان یہ احسان میرا دوست ہے  وہ بولے  ٹھیک ہے بھائی کی جان اس کا اب ہم خیال رکھیں گۓ اور میں احسان کی والدہ کو لے کر  باہر آیا ان کے گھر چھوڑنے ک لئے  جب میں ان کو گھر چھوڑ کے واپس اپنے آفس کی طرف جا رہا تھا  تو راستے میں میں نے دیکھا ایک لڑکے کو ایک گری والا ٹکر مار کے بھاگ گیا ہے اور لوگ اس لڑکے کے گرد اکھٹے  ہو گۓ ہیں میں نے بھی گری روک کے دیکھا کوئی بھی اسے ہوسپٹل نہیں لے جا رہا تھا بس یہی کہے جا رہے تھے دیکھو کتنی چوٹیں یں ہے اس بیچارے کو  میں نے آگے بڑھ کے ایک دو آدمیوں سے کہا اسے میری کار میں ڈالو پلیز یہ میرا دوست ہے اور اسے لے کر ایک اچھے سے ہوسپٹل میں آ گیا وہاں ایک ڈاکٹر میرا دوست تھا اسے کہا اسے چیک  کرو وہ اسے دیکھتے ہی آپریشن ٹھیٹرمیں لے گیا سرجری ک لئے  کچھ دیر بعد مجھے ایک نرس نے آ کر کہا پلیز اس گروپ کے خوں کا بندوبست  کریں  یہ نیگیٹو ہے اور ھمارے ہان نہی ملے گا اتفاق سے میرا بھی یہی گروپ تھا میں نے کہا آپ میرا خوں لے لیں  وہ بولی آ جایئں آپ پھر میں نے دو بوتلیں خون کی دیں اور باہر ہی اس کا انتیظار کرنے لگا کچھ دیر بعد میرا دوست ڈاکٹر زماں باہر نکلا اور کہا شارق وہ اب ٹھیک ہے اسے کچھی دیر میں ہوش آ جائے گا ، میں  نے اندر جا کر دیکھا وہ اب ہوش میں ا آرہا تھا میں اس کے پاس ہی بیٹھ گیا  پھر کوئی ادھے گھنٹے کے بعد وہ ہوش میں آیا مجھے دیکھتے ہی کہا  میں کہاں ہوں میں نے اسے ساری بات بتائی وہ میری طرف مشکور نظروں سے دیکھنے لگا اس نے کہا پلیز میرے گھر میں اطلاع دے دیں میںنے اس  سے اس کے گھر کا نمبر لیا اور بتا دیا ٹھیک بیس منٹ بعد ہی ایک آدمی  اندر کمرے میں داخل ہوا  وہ روتا ہوا اس لڑکے  سے پاس آیا اور کہا ندیم بیٹا یہ کیا ہو گیا تم کو  اب کی بار اس کے بیٹے نے میرے بارے میں بتایا  وہ میرے پاس آ کر میرا شکریہ ادا کرنے لگا اس نے میرے پاؤں کو ہاتھ لگا دے اور کہا آج کے دور میں کہاں آپ جیسے فرشتے ملتے ہیں صاحب جی  میں نے اسے جواب دیا یار میں تو اچھا انسان بھی نہیں ہوں تم مجھے فرشتہ بنا  رہے ھو پھر ڈاکٹر  آ گیا کمرے میں اس نے بھی کہا اگر آجمیں اپنا خون نہ دیتا تو یہ لڑکا نہیں بچ سکتا تھا  وہ آدمی اور بھی ممنون نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے  پھر کچھ ہی دیر میں اسے فارغ کر دیا گیا  اب وہ آدمی بولا  صاحب جی میں اپنے دفتر میں ایک کال کر کے آیا  میں نے اس کے آنے کےبعد پوچھا آپ کیا کام کرتے ھو وہ بولا میں فرہاد احمد کی فارم میں مینجر ہوں میں چونک گیا اور کہا ووہی فرہاد جن کا قتل ہوا ہے وہ بولا جی ہاں  

اب میں اس کے ساتھ ہی اس کے گھر گیا وہاں بیٹھ کے کولڈ ڈرنک پیتے ہوے میں نے اس سے پوچھا   یہ قتل کا کیا  معاملہ ہے وہ بولا بس جی آج کے دور میںایسا ہو ہی جاتا ہے میں نے اب کہا یار جو بندہ قتل کے کیس میں جیل میں ہے احسان تائب وہ میرا ایک جاننے والا ہے وہ مجھے قاتل نہیں لگتا ، وہ اب کی بار میرے طرف دیکھ کر کچھ کہنے لگا پھر چپ ہو گیا میں سمجھ  گیا کوئی ایسی بات ہے جو  وہ جانتا ہے میں نے کہا اسلم صاحب اگر آپ کچھ جانتے ہیں تو بتا دیں میرا فائدہ ہو جائے گا میں ایک وکیل بھی ہوں اور یہ کیس میرے پاس ہے وہ اب کی بار بولا جناب آج آپ نے مجھ پے جو احسان کیا ہے اس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا میں آپ کو سب بتاؤں گا  وہ اب کی بار کچھ دیر سوچتا رہا وار بولا یہ قتل احسان تائب  نے نہیں کیا یہ قتل اس کی بہن فریال نے کیا ہے میں تو حیران ہی رہ گیا پھر جب اس نے ساری تفصیل مجھے بتا دی  تو میں نے کہا کیا تم یہی بات کورٹ میں کہ سکو گ
ۓ  وہ بولا اب ضرور کہوں گا آپکی خاطر پھر میں نے کہا مجھے ان سب لڑکیوں کا پتہ چاہیے جو فرہاد کا شکار بنی ہیں وہ بولا آپ کو کل وہ سب مل جائے گا ان میں سے دو کا پتہ ابھی آپ کو بتا دیتا ہوں پھر اس نے مجھے پتا بتا دیا میں اب اس کا شکریہ ادا کر کے اٹھا اور پہلا پتا جو

جو شہناز نامی لڑکی کا تھا وہ ایک فلیٹ میں رہتی  تھی میں نے فلیٹ کے سامنے جا کر دور بیل دی تو ایک خوبصورت سی لڑکی نے دروازہ کھولا میں نے اسے کہا مجھے شہناز سے ملنا ہے وہ بولی میں ہی شہناز ہوں فرمائیں پھر میں نے اسے اپنا کارڈ  دکھایا اور وہ بولی آپ اندر آ جائیں میں اس کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا ایک  صوفے  پے بٹہننے کا اشارہ کیا اس نے میں بیٹھ گیا وہ بولی میں آپ ک لئے کچھ خانے پینے کو لاتی ہوںمیں نے کہا نہی کوئی طلب نہیں ہے مجھے آپ کیا یہاں اکیلی رہتی ہیں وہ بولی نہیں میرا بھائی اور والد صاحب بھی ہیں وہ ابھی ذرا مارکیٹ گ
ۓ ہیں آپ بولیں کیا بات ہے   اب کی بار میں نے اسے فرہاد کے بارے میں بتایا وہ بولی اچھا ہوا وہ کمینہ مر گیا  میں نے اب اسے کہا مجھے آپ کی مدد کی ضورت ہے وہ بولی کیسی مدد میں نے کہا فرہاد صاحب کا قتل معمہ بنا ہوا ہے  آپ نے بھی ان کے پاس کچھ عرصہ نوکری  کی تھی آپ نے چھوڑ کیوں دی وہ بولی میں بس ایک مہینہ ہی وہاں نوکری کر سکی اور مجھے نکال دیا گیا کیوں کے میں فرہاد کی توقعات پے پورا نہیں اتر سکی تھی وہ  انسانی شکل میں ایک بھیڑیا تھا جو معصوم اور نوجوان خوبصورت لڑکیوں کو اپنی سیکرٹری کی نوکری ستا ان سے اپنی ہوس پوری کرتا اور چھ مہنے بعد ان کو چلتا کرتا کوئی بھی لڑکی  چھ مہینے سے زیادہ نہیں ٹکی اس کے پاس کیوں کے اس کا دل بھر جاتا تھا اس سے مجھے بھی اس نے یہی سمجھ کے نوکری دی لیکن  میں  نے اس کا ساتھنہی دیا سو مجھے نکل دیا اس نے ایک اور بھی لڑکی ہے جو اسی بلڈنگ میں رہتی ہے فائزہ احمد وہ بھی اس کا شکار رہی ہے  میں نے کہا معاف کیجئے گا شہناز کیا آپ بتا سکتی ہیں آپ کو یہ سب کیسے پتا چلا کے وہ ایک اوباش اور عیاش آدمی تھا  وہ بولی جی ہاں انہوں نے اپنی خواہش  کا اظہار اس دِن کیا جب میں کوئی دو ہفتے تک  نوکری کر چکی تھمیں انکے آفس میں گی تو وہ سر کو ہاتھوں میں پکڑے بٹہے تھے میں نے کہا سر کیا بات ہے وہ بولے میری زندگی عذاب بنا رکھی ہے اس عورت نے  میں کچھ نہ سمجھی وہ بولے مجھے ایک گلاس پانی دو میں نے پاس ہی پرے جگ سے ان کو پانی دیا وہ بولے بیٹھو شہناز  میں اپنی بیوی سے برا تنگ ہوں وہ عورت  میرے سکون کی قاتل  ہے میں سوچتا ہوں کوئی میرا اپنا بھی ھو کوئی ایسا دوست جس سے میں اپنی ہر بات کہ سکون پھر میری طرف دیکھتے ہوے کہا شہناز کیا ہم اچھے دوست نہیں بن سکتے  میں نے کہا سر میں صرف افسمیں آپ کی سیکرٹری  ہوں اپ کی ذاتی  لائف  میں  کچھ نہیں کر سکتی میں وہ بولے ناز میں بس آپ سے یہ چاہتا ہوں آپ میرے ساتھ اوٹنگ  پے جایا کریں ہم اچھے دوستوں کی طرح آفس کے بھر بھی ملا کریں  روز شاپنگ کیا کریں نت نئے لباس خرید کے دوں تم کو بہت سرے گولڈ کے زیور  میں سمجھ گی یہ شاطر آدمی  مجھے دانہ ڈال رہا  ہے میں نے کہا سوری سر مجھے ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں تو ایک دم سے فرہاد صاحب نے اپنے چہرے پے جو معصومیت کہ خول چڑھا رکھا تھا وہ اتار کے بولے سوچ لو اگر یہ سب نہیں کرو گی تو کال سے تم کو یہ نوکری چھوڑنی ہو گی میںنے بھی کہا میں لعنت بجھتی ہوں آپ کی اس نوکری پے جہاں مجھے آپ کی ہوس پوری کرنی ہو میں آج اور ابھی یہ نوکری چھوڑ کے جا رھی ہوں  اور یوں میں نے وہ نوکری چھوڑ دی  

اب میں اسے لئے فائزہ کے فلیٹ پے گیا جب شہناز نے  اسے بتایا سب کچھ تو وہ تو جیسے فرہاد کے خلاف بھری پر تھی اس نے وہ زھر اگلا  کے بس پھر اس نے کہا وکیل صاحب میں اور بھی تین لڑکیوں کو جانتی ہوں جن کی تصویریں آپ کو اس کے آفس کی پھیلے سے مل جایئں گیں جن کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے اور ہم سب گواہی بھی دیں گیں  ابمیں بہت  خوش ہوا میں نے ان کا  شکریہ ادا کر کے اپنے افس میں آ گیا  میں نے اب ایک کاغذ پے ساری تفصیلات  لکھیں اور پھر اس کیس کو تیار کرنے لگا مجھے ٹائم کا  پتہ ہی نہ چلا کوئی چار گھنٹے تک میں اس کیس کی ترش خراش م  میں مگن رہا جب میں نے سر اٹھایا تو سامنے ہی فاروقی شب بٹہے تھے وہ بولے کمال ہے یار تم تو ڈوب ہی گ
ۓ تھے اس کیس میں پھر میری طرف ایک لفافہ بڑھا کے بولے یہ لو میری جان بار کا سرٹیفکیٹ  اب تم خود بھی عدالت میں پیش ہو سکتے  ہو  میں یہ سن کے بہت خوش ہوا اور پھر ہم کافی دیر اسی  کیس پے ڈسکس کرتے رہے اب میں نے  فاروقی صاحب سے کہا ابھی ٹائم  ہے میںنے ایک دو کام کی چیزیں لانے کو کہا ان سے اور وہ کورٹ سے لے اے اب اب اتفاق سے اگلے دِن کی ڈیٹ تھی اس کیس کی  میں نے سوچ لیا تھا اب اس پے سارا زور لگا دوں گا میں آج کی رات گھر نہ گیا میںنے اس کیس پے ہی خوب محنت کی  میں اپنے فلیٹ میں تھا اور پھر میں کوئی چار گھنٹے تک ہی سویا  پھر میں تیار ہو کر  کورٹ میں  کیوں کے  آج  گواہی تھی گواہو کی میں  نے بار روم میں ہی فاروقی صاحب کا ویٹ کیا وہ اے اور ہم عدالت  میں چلے گۓ آج عدالت  میں  ثمینہ فرہاد بھی تھیں اور آج مجھے ایک سرخو سفید رنگ کا ایک آدمی بھی نظر آیا وکیلوں کی صف میں جس کو جج صاحب نے بھی سر کے اشارے سے سلام کیا اور سارے  ہی وکیل اسے اتے ہی سلام کر رہے تھے اس کے ساتھ کوئی نو دس وکیل اور بھی تھے مجھے بتایا فاروقی صاحب نے یہ فرحان ڈار صاحب ہیں بہت بڑے  وکیل ہیں  میں  ہنس دیا  پھر جج صاحب نے کہا پہلے  فرہاد صاحب والا کیس شروع کیا جائے ڈار صاحب کا وقت برا قیمتی ہے اور ڈار صاحب نے ہلکے سے ان کو سر ہلا کے تھینکس  بولا  اب احسان تائب  کو عدالت میں پیش کیا گیا  اور کروائی شروع ہو گی سرکاری وکیل نے کہا  جناب آج ہم موقع کی شہادتیں   دیں گۓ  جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے اور ایک آدمی جو ڈرائیور  کی وردی  میں تھا وہ کٹہرے  میں آیا اور سرکاری  وکیل نے  اس سے کہا  حلف دو کے جو کچھ کہو گۓ سچ کہو گۓ سچ کے سوا کچنہی کہوں گۓ  اس نے حلف دیا  اب سرکاری وکیل نے کہا  تم نے کیا دیکھا تھا  اب کی بار جج صاحب نے  احسان تائب سے کہا اگر تم کوئی سوال کرنا چھو تو کر لو اب میں نے کھڑے ہوکر کہا جناب میں احسان تائب کا وکیل ہوں اور اگے بڑھ کے اپنا وکالت نامہ جج صاحب کو دے دیا  مجھے ڈار صاحب نے کچھ گھسے سے دیکھا  پر مجھے کیا پروا ہو سکتی تھی  میں نے اب وکیل سرکاری سے کہا جو بیان ہے اس گواہ  کا میں اس پے جرح کروں گا اور جج صاحب سے اجازت طلب کی  اب کی بار  فرحاں ڈار  گھسے سے اٹھا اور کہا سر  میں وکیل  استغاثہ  ہوں اور اگے بڑھ آیا  وہ اب مجھے  دیکھ کر بولا  ہاں تو لڑکے  تو جرح کرے  گا ٹھیک  ہے کر لے جرح جج صاحب نے کہا ڈار صاحب  آپ کا وقت بہت قیمتی  ہوتا ہے اس لئے  آپ  کا کیس پہلے لگا لیاہے مجھے جج صاحب کی یہ بات بہت بری لگی میں نے کہا یور آنر وقت سب کا ہی قیمتی ہوتا ہے  ڈار صاحب اکیلے کا ہی نہیں اور اپنا رخ گواہ کی طرف کیا اور کہا ہن تو آپ یہ باتیں اپ نے اس دِن کیا دیکھا وہ بولا  میں نے اپنا سارا بیان لکھوا دیا ہے  میں بولا دوبارہ سے اپنی زبان میں کہ دیں تا کے وقت  کا زیاں نہ ہو آپ کو تو پتہ ہی ہے ڈار صاحب کا وقت قیمتی ہے میری یہ بات سن کے جج صاحب کو غصہ بھی آیا پر وہ خاموش رہے ڈار کا تو غصے  سے برا حال تھا وہ گواہ بولا اس دِن جب  میں  نے دیکھا  سرے لوگ چلے گۓ ہیں اور فرہاد صاحب نہیں اے تو میں  اندر گیا ان کا پتہ کرنے وہاں میں نے ان کی لاش دیکھی اور پولیس کو اطلاعا  دی    اب میں نے کہا  کیا تم ہر وقت فرہاد صاحب کے ساتھ ہی رهتے تھے  وہ بولا جی میں ان کا کوئی  پندرہ سال پورانہ ڈرائیور ہوں  میں نےکہا پھر تو آپ بوہت خاص آدمی ہوے نہ   وہ اب کچھ کچھ اترا کے بولا ہاں جی  میں خاص آدمی تھا ان کا  وہ بڑے نیک آدمی تھے  اس ظالم نے ان کو مار دیا  میں نے کہا ڈرائیور صاحب آپ کا نام وہ بولا جی سمدو  میںنے کہا سمدو صاحب کیا اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا  تھا  کے احسان تائب اور مرحوم کے درمیان کوئی جھگڑا وغیرہ وہ بولا نہیں جی میرے سامنے نہیں ہوا  ابمیں نےکہا سمدو صاحب آپ تو ظاہر ہے خاص آدمی تھے فرہاد صاحب کے آپ سے اب کیا چھپا ہو گا  کیا وہ احسان تائب کے گھر جاتے تھے  وہ بولا نہ جی نہ  وہ بھلا کیوں جاتے ان کے گھر وہ اب میری پلان شدہ پٹری پے چڑھ گیا تھا  میں نے سوال کیا سمدو صاحب آپ  کو کیسے پتا چلا کے آخری بندہ جو اندر گیا  وہ احسان تائب ہے وہ اب کی بار چپ رہمیں نے کہا آپ تو نیچے بیٹھتے ہیں  اور فرہاد صاحب  کا دفتر اوپر ہو پھر آپ نے کیسے دیکھ لیا  اب کی بار ڈار صاحب نے کہا  وکیل صفائی صاحب ذرا اپنے سوال جلدی جلدی کریں  مجھے کہیں جانا ہے میں نے کہا تو جا سکتے ہیں ڈار صاحب میںنے کوئی آپ کو روکا ہوا ہے  آپ کے وقت سے زیادہ قیمتی ہے اس بندے کی جان  اور میں نے ابھی بس دو تین سوال ہی کے ہیں وہ اب چپ کر گیا  میں نے کہا جی سمدو صاحب آپ کو کافی وقت دے دیا ڈار  صحابنے سوچنے ک لئے اب کیا سوچا آپ نے وہ  بولا جی مجھے تو تھانیدار صاحب نے  بتایا تھا   کے اکھڑ میں احسان تائب اندر گیا ہے  میں نےکہا جج صاحب اس کا یہ بیان نوٹ کر لیں اسے کسی اور نے بتایا تھا   میں نےکہا پھر تو نے خود کیوں یہ بیان دیا ہے کے میں نے دیکھا ہوا اب چپ رہا  میں نے کہا  ڈار صاحب آپ کا دوسرا گواہ کون ہے وو بولے مینجر  صاحب  یہ ووہی تھا جس کے بیٹے کی میں نے جان بچائی تھی  میں نے کہا

اسلم صاحب آپ نے کیا دیکھا تھا وہ جج صاحب کی طرف من کر کے بولا جج صاحب یہ قتل احسان تائب نے نہیں کیا  یہ قتل  اس کی بہن  فریال نے کیا تھا میں نے خود دیکھا ہے یہسنتے ہی کورٹ میں بٹہے لوگ اور خود جج صاحب بھی حیران رہ گ
ۓ اب احسان نے چیخ کر کہا  نہیں جج صاحب یہ میرا وکیل نہیں ہے یہ میری معصوم بہن کو پھنسا رہا ہے  اس کی بکواس نہ سنیں  یہ قتل میں نے کیا  ہے  اب کی بار ڈار صاحب نے کہا  اگر یہ قتل کا خود اعتراف کر رہا ہے تو تم کو کیا مثلا  ہے  میں نے کہا  ڈار صاحب یہ ایک انسانی جان کا  مسلہ  ہے  اور پھر سے  اسلم سے کہا اپنا بیان پورا کرو اب تو صورتحال ہی بدل گی تھی اب جج صاحب بھی  ذاتی دلچپی لے رہے تھے اور عدالت میں  بٹہے وکیل اور لوگ بھی اب متوجہ ہو گۓ  تھے  بلکے  کیوں کے ڈار صاحب کا نام بہت  بڑا  تھا  اس لئے کافی لوگ اب عدالت کے بھر بھی کھڑے تھے  یہ کیس سننے کے لئے  اب کے اسلم  جو کے اب میرا گواہ بن گیا تھا ڈار صاحب نے اس سے سوال کیا  تم نے پہلے یہ سچ کیوں نہیں بتایا پولیس کو وہ بیخوف  ہو کر بولا مجھے ثمینہ فرہاد نے روکا تھا  یہ بتانے سے  اور کہنے لگا جج صاحب اصل میں  فرہاد صاحب فریال کی عزت لوٹنا چاھتے تھے  کے اچانک  فریال کے ہاتھ میں کاغذ کتنے والا کٹر  آ گیا اس نے وہ ان کے سینے میں مار دیا جو  سیدھا دل پے لگا اور وہ موقع پے ہی  دم توڑ گۓ  اسی وقت احسان تائب اندر داخل ہوا کیوں کے آج  فریال کو گھر جانے میں کوئی دو گھنٹے کی دیر ہو گی تھی اس نے جب یہ سب دیکھا تو اس نے اسی وقت فریال سے کہا تم گھر جو اور وہ آلہ قتل اپنے ہتھمیں پکڑ  لیا    اب  میں نے اسے جانے کی اجازت دی اور کہا  جج صاحب اب میں مرحوم فرہاد کی بیگم سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں  تو  ڈار صاحب نے کہا  جج صاحب مجھے ایک تاریخ دی جاتے  میں نے کہا جناب ایک بےگناہ  انسان جیل میں سڑ رہا ہے  اس کا کیا قصور ہے  تو جج صاحب  نے  کہا   میں پولیس کو ایک گھنٹے کا ٹائم دیتا ہوں فریال کو حاضر کیا جائے  اب یہ سنتے ہی احسان تائب نے کہا  شارق منمیں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا  ظالم کیوں میری بہن  کو بلوا رہا ہے اور رونے لگا میں نے اب  اسے دیکھ کر کہا  اگر میں تم اور تمہاری بہن کو با عزت بری نہ کروا سکا  تو جو مرضی سزا دے لینا مجھے  وہ اب چپ رہا میں  اب فاروقی صاحب  کے سات بار روم ا گیا وہاں تو آج ایک میلہ لگا تھا

سب ہی ووکلاء حضرات  مجھے کہ رہے تھے یار کمال کر دیا آج تم نے تو  اب مجھے ڈار صحابنے دیکھا اور کہا  برخودار  یہ تم نے اچھا نہی کیا  تم میری بھتیجی  سے کوئی سوال نہیں کرو گ
ۓ میں نے کہا ڈار صاحب آپ بس سوال کی بات کرتے ہیں میں تو   احسان اور اس کی بہن کو  بھی  بری کرا لوں گا  اور آپ کے داماد کی اصلی شکل  دکھاؤں گا دنیا کو وہ گھسے سے لال پیلے ہو گۓ اور کہا لگتا ہے تم کو اپنی زندگی سے کوئی پیار نہیں کبھی میرا نام نہیں سن تم نے   میں نے اس کی آنکھوں دیکھتے ہوے کہا فرحان ڈار جو کتے  بھونکتے ہیں وو کاٹتے نہیں  یہ سنتے ہی سب لوگ تو حہیران رہ گۓ اور خود  ڈار   تو اب کنٹرول سے باہر ہونے لگا تھا  اس نے کہا اگر آج تم  اپنے گھر میں زندہ چلے گۓ تو میرا نام  بدل دینا  میں نے کہا  ابھی سےبدل لو یوں یہ گھنٹہ  ایسے ہی گزرا  اب میں عدالت کی طرف چل دیا  عدالت میں  فریال بھی تھی اپنی ماں کے ساتھ میں نے فاروقی صاحب سے کہا  تھا شہناز  کو کال  کر دیں اس لئے اب شہناز اور فائزہ بھی تین لڑکیو ساتھ ساتھ ایک طرف بیٹھی تھی  مجھے دیکھتے ہی  فائزہ نے   ایک کاغذ پے  سب کا نام لکھ دیا  اور وہ کاغذ میری طرف   کیا میں نے اس سے وہ کاغذ لیا  اور آ گیا جج صاحب کے سامنے  اب ڈار صاحب نے کہا  جج صاحب اگر آپ کہیں میں آپ کو سپریم کورٹ سے کال کروا دیتا ہوں مجھے اس کیس کا فیصلہ آج ہی  چاہیے  پھر جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے کال کی کوئی ضرورت نہیں اور اپنے ریڈر سے کہا باقی سب کو کل کی ڈیٹ دے دو  آج بس یہی کیس چلے گا  اب ڈار صاحب میری طرف دیکھنے لگے اب بھائی نصرت بھی کچھ وکیلوں  کے ساتھ اندر داخل ہوے  میں نے اب جج صاھب سے کہا جناب  میں اب پہلے فریال سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں  وہ بولے اجازت ہے میںنے اب فریال جو کے اب کٹہرے میں کھڑی تھی اس کی طرف دیکھا اور کہا  اس آدمی کو جانتی ھو جو سامنے کھڑا  سے وہ بولی جی ہاں وہ میرا بھائی ہے  میں ے اب کہا کیا تم  نے عورت کی تاریخ پے غور کیا ہے

میںنے کہا پہلے آپ قسم کھیں کے جوکچ کہیں گیں سچ ہی کہیں گیں اس نے قسم کھائی ابمیں نے کہا فریال صاحبہ  میرے   کیا آپ  مرحوم فرہاد احمد سے عشق کرتی تھیں  جس کے قتل کی وجہ سے آپ کو اپنے بھائی سے نفرت ہو گی ہے  وہ بولی نہیں نہیں میں اپنے بھائی سے نفرت نہیکرتی میں نے کہا کیا تم کو پتہ ہے ھمارے معاشرے میں ہمیشہ بہنیں اپنے بھائیون  کے لئے  دعائیں م،انگتی رہیں ہیں اور بھائی ہمیشہ اپنی بہنوں کی عزت پے قربان ہوے ہیں بکلول اس احسان تائب کی طرح  جو تمہارا کیا اپنے سر لے رہا ہے یہ سنتے ہے احسان تائب نے اپنا سڑ کٹہرے سے مار مار کے لہو لہان کر لیا اور کہا جج صاحب یہ میرا وکیل نہیں ہے میں نے قتل کیا ہے میں اقرار کرتا ہوں  میں اپنا وکالت نامہ بھی کینسل کرتا ہوں  میں نے اب جج صاحب کی طرف دیکھ کر کہا جناب یہ قتل فریال نے کیا ہے اور اس کو بچانے کے لئے یہ   بھائی اپنی  جان دے رہا ہے  اور یہ آج کی بہن اب میں نے فریال کی طرف اشارہ کیا  یہ ایسی بہن ہے جس کا نام لوگ  عرصہ دراز تک یاد رکھیں گ
ۓ جس نے بس اپنو ذات کو بچانے کے لئے ایک بھائی کی قربانی مانگ لی   اور پھر ایسا  ہو آہی کیا ہے فریال نے اپنی عزت ایک وحشی سے بچانے  کے لئے اسے مارا ہے اب کی بار ڈار صاحب نے کہا جج صاحب  وکیل صاحب میرے موکل  کے لئے غلط الفاظ استمال کر رہیہیں  میںنے کہا جج صاحب میں اپنے  الفاظ واپس نہیں لوں گا ابھی آپ کو سب پتا چل جائے گا  اب فریال زارو قطار رو رہی تھی وہ اب چیخ کے بولی ہاں میں نےقتل کیا ہے اس فرہاد کو  اب یہ سن کے احسان نے کہا وہ پگلی بہن کیا کہ رہی ھو  یہ لوگ تم کو موت کی  سزا دے دیں گۓ اور رویننے لگا  اب تو سارا معاملہ ہی حل ہو گیا تھا اسی وقت  جج صاحب نے کہا احسان تائب کو  چھوڑ دیا جائے اور فریال کو اب  گرفتار کی جاتے  پھر احسان کی جگا مجرموں والی کتھرےمیں  فریال کو لیا گیا

اب میں نے کہا جناب  کیا ایک  دِن کی تاریخ  ملے گئی جج صاحب نے کہا  نہیں آپ اب کیوں تاریخ چاہتے ہیں  میں نے آج  فیصلہ کرنا ہے اس  کیس کا  پھر میںنے اسی وقت  فاروقی صاحب سے کہا  ایک درخواست  ضمانت تیار کریں  فریال کی اور ایک وکالت نامے پے فریال سے کہا  سائن  کرو اس نے چپ کر کے سائن کے  میں نے وہ وکالت نامہ  جج صاحب کو دیا اور کہا 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest