SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ نویں قسط


عاشق

نویں قسط

تحریر: ماہر جی

اگلے دِن  ہم کو بانو نے ہی اٹھایا   وہ مجھے دیکھ کر بولی تو تم نے اسے بھی  فتح کر ہی لیا  بڑی نمکین چوٹ ہے اس کی  میں نے کہا ہاں یہ تو ہے پھر ہم  نے نہا  کر ناشتہ  ایک ساتھ ہی کیا  ناشتے کے بعد میں نے اب فاروقی صاحب کو کال کی اور پوچھا   یہاں پے جو بار کا صدر  ہے اس سے کوئی تعلق ہے آپ  کا  وہ بولے یار وہ اپنی ہی گروپ  کا ہے تم اسے مل لو جا کر میں  کوئی دس بجی تک تو  نازی  اور بنو کے ساتھ ہی رہا  پھر اس شہر  کے احاطہ  عدالت کی طرف چل دیا وہاں جا کے میں بار صدر کاظم علی  شیخ  سے ملا  وہ ایک اچھے اور زہین وکیل تھے انہوں نے میری کافی آؤ بھگت کی  جب میں نے ان سے اپنے  آنے کا مقصد بین کیا وہ سیریس  ہو گے اور کہا دیکھو  دوست  یہ کیس ایک  لمبا جھگڑا  شروع  کر دے گا ؛ آپ کو اجازت میں لے دوں گا  آپ یہاں  سے بھی کیس  لڑ لیں کوئی بات نہیں  لیکن  میں کوئی اضافی مدد اپ کی نہیں  کر سکوں گا کیوں کے  وہ ایک خطرناک  گروپ ہے  اور ان کے ساتھ  جو ووکلاء  حضرات ہیں وہ ایک سے بڑھ کے ایک  میں نے کہا شیخ صاحب  میں  آپ سے کوئی مدد نہیں چاہتا  بس اس ک علاوہ  کے آپ مجھے اجازت دیں اپنی بار سے کیس لڑنے کی  اس نے اسی وقت بار کا ایک لیٹر  ٹائپ کروا کے دے دیا مجھے جس میں ان کے بھی اور وہاں پے ماجود سب سے بڑے جج  کی موھر اور سائن  تھے  میں نے ان کو  تھینکس  کہا اور ان کے آفس سے باہر آ گیا  میں نے اب بابر  کو کال کی اور اسے بتایا  اس سٹی  کا وہ ہنس دیا اور بولا شارق میری جان کے ٹوٹے  جو گروپ  میں نے ترے ساتھ لگا دیا ہے وہ پورے پاکستان  میں ترے ساتھ ہی  ہیں  اس وقت بھی ظفری  خود دو جیپون میں اپنے آدمی لئے ترے ساتھ ساتھ ہے  بس وہ اس وقت  تم کو نظر آے گا جب تم کو کوئی خطرہ  ہو گا ورنہ تو جو مرضی کر وہ اپنی آنکھیں اور کان بند ہی رکھے گا

میں نے کہا آوے  جو مرضی سے کیا مرد ہے تیری لعنتی  انسان وہ ہنس دیا  اور کہا کچھ نہیں یار  اس نے اس دفع مجھے بتا دیا ہے آگے سے نہیں بتایے   گا   میں سمجھ گیا اس نے میری اور بانو کی چدائی کا کھیل دیکھ لیا ہے میں نے کہا بابری  وہ اب  وہ میری بات کاٹ کے بولا شارق  کہا نہ آئندہ سے  وہ مجھے بھی نہیں بتایے  گا  اب تو اپنے کام  میں بزی ہو جا  اب تمہارا  ٹکراؤ  ایک بڑے بدمعاش سے ہونے والا ہے  جسے تم بھی جانتے ہو یونی ورسٹی  سے ہی میں نے کہا کون ہے وہ اس نے کہا تم کو وہ عالم پاشا  تو یاد ہے نہ جو ھمارے خلاف  بڑے ثبوت ڈھونڈا کرتا تھا  مجھے وہ موٹا سا اور تیز طرار لڑکا یاد آ گیا جس کی اکثر میں اور بابر پٹائی کر دیا کرتے تھے  وہ بولا آج کل جس شہر میں تم مجود ہو اس میں اسی کا طوطی بولتا ہے ،

اب گھر آ کر میں نے اب نازش  کو ساتھ لیا اور اس تھانے  میں جا پوھنچا  جس میں اس کے خلاف ایف آئی آر کٹی  تھی وہاں  پے میں متعلقہ  تفتیشی سے ملا  جو ایک سب انسپکٹر  تھا  میں نے اس کا نام  اس کے  کمرے کے بھر لگی  تختی سے پڑھ لیا تھا میں نے اب اس کے کمرے میں  بیٹھ کر اس سے ساری بات کی وہ بولا سر  جی  میں اس میں ووہی کچھ لکھوں گا جو مجھے ایس. پی صاحب بولیں گے  میں نے اسے اپنا بتایا  کے میں ایک سابقہ آئی جی کا بیٹا  ہوں وہ اب پریشان ہو گیا ، اس نے مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور مجھے لے کر اسی تھانے میں مجود ڈی ایس پی  کے کمرے میں لے گیا ڈپٹی  صاحب ایک موٹے سے آدمی تھے  جو کافی عمر کے تھے  اب تفتیشی  انور نے بتایا سر یہ   وہ ایس پی صاحب والی کیس کے  لئے آے ہیں ، تو ڈپٹی نے کہا میں کیا کروں جیسا صاحب بولتے ہیں لکھ دو  تم کو بھی پتہ ہے  ، اب کی بار انور نے کہا سر یہ سابقہ ائی جی صاحب کے صاحب زادے ہیں سید شارق حسین شاہ  اب ڈپٹی بھی سیدھا ہو کے بیٹھ گیا ھمارے ملک  میں خاص طور پے محکمہ  پولیس  میں تو بس سر کو سلام ہے جتنی  بڑی   آپ کی  شفارش  اتنا ہی زیادہ آپ کو پروٹوکول  ملے گا ، میں نے اب کہا جناب ظہور  صاحب یہ ڈپٹی کا نام تھا  میں ایک وکیل بھی ہوں   اور ان صاحب کا کیس اب میں دکھوں گا میں صرف اسی کیس کے لئے  سپیشل  آیا ہوں

لہٰذا آپ ایس پی کو چھوڑیں اور جو حق سچ ہے وہ لکھیں ایس پی کو میں خود ہی دیکھ لوں گا   وہ ڈپٹی بولا سر میں آپ کو راضی کروں گا  آپ کے والد صاحب نے مجھے ایک دفع معطل ہونے سے بچایا  تھا  ان کی وجہ سے آج میں اس سیٹ پے بیٹھا ہوں  ، پھر تفتیشی سے کہا جو مثل یہاں ہی لے کر آؤ  پھر میں نے پولیس فائل میں اپنی مرضی کے بیانات  لکھوانے اور  ڈپٹی  کا بہت  شکریہ  ادا کیا ، نازش تو بہت خوش  تھی اس نے میرے اور ان لوگوں کے مانع کرنے  کے باوجود  ڈپٹی کو بھی ایک لکھ اور تفتیشی کو بھی پچاس ہزار روپے دے اور بولی شارق  میں تو لاکھوں   دینے کو تیار ہوں  ان لوگوں  نے ہماری بہت بڑی  مدد کی ہے اب تو تفتیشی نے کہا مجھے سیر میں جیسا آپ کہو  گے ویسا ہی بین بھی دوں گا اور پھر اسی کو ساتھ لے کر ہم موقع  کے گواہوں  کے پاس بھی گے  میں نے ان کو بھی اپنے طریقے  سے ڈیل  کیا وہ بھی کچھ کچھ میری بات کو  مان گ
ۓ  مجھے بس یہی چاہے تھا  میں اب ریڈی  تھا یہ کیس لڑنے کو  میں  اور نازش اب گھر آ گۓ ،

اب نازی بہت خوش تھی  ہم نے  رات کا کھانا باہر کھایا  پھر ہم کچھ دیر ایسے ہی گھومتے رہے   پھر رات کے کوئی گیارہ  بجی ہم گھر کی طرف واپس چل دے ہم تینوں ہی  نازی کی ہنڈا اکارڈ میں تھے  واپس آتے ہوے ایک  سنسان  موڑ پے میں نے جیوسے ہی گاڑی کو ٹرن دیا  سڑک پے ایک گاڑی ترچھی  کھڑی  تھی جس کی وجہ سے میں نے جلدی میں بریک  لگا دی  ورنہ میں اس گاڑی سے ٹکرا جاتا ، میرے بریک  لگاتے ہی  سڑک کے دونو طرف سے کوئی تین تین  آدمی دوڑتے ہوے ہماری گاڑی  کی طرف آے ،

ان کے ہاتھوں میں بندوکیں تھیں  انہوں نے آتے ہی ہم کو گن پوانٹ  پے لے لیا میں نے سوچا ان سے بھر جاؤں  پھر اپنے ساتھ دو لڑکیوں کو دیکھ کر چپ ہی رہا  اب ان میں  سے  ایک جس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں بولا  باہر نکلو سب  میں نے اپنی سید کا دروازہ کھولا اور کہا تم کو ن ھو اور کیا چاہتے ہو وہ بولا بتا دیتے ہیں اتنی جلدی کیوں ہے تم کو پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ان کے ہاتھ پیر باندھ کے ان کو اپنی گاڑی میں ڈال دو  اب وہ  مجھے مخاطب کر کے بولا  تم کیا سمجھتے تھے  تم آئی  ،جی کے بیٹے ھو تو  اس کو بچا لو گے  آج تم نے بڑی پھرتی  کا مظاہرہ  کیا ہے تھانے میں سب اپنی مرضی کہ لکھوا  کے  تمہارا والد ایک سابقہ آئی جی تھا  اور مجودہ بھی ہوتا تو ملک صاحب کا راستہ کیسے روک  سکتا تھا  اس لڑکی کو سمجھایا تھا ملک صاحب نے پیار سے پر یہ سمجھی نہیں اب یہ پلازے بھی دے گی اور اپنی اس ظالم جوانی سے ہم سب کو خوش بھی کرے گی ، میں نے کہا بکواس بند کر  ملک کے حرامی  پلے  اگر ہمت ہے تو سب آ جاؤ ابھی دیکھ لیتا ہوں کیا چیز ھو تم  اور تمہارے اس ملک کی تو میں یوں گانڈ پھاڑوں  گا سارا شہر دکھے گا ،

یہ سنتے ہی وہ سب مجھے گالیاں دیتے ہوے میری طرف لپکے  میں نے اس موچھل کے پیٹ میں ایک ٹانگ دے ماری  وہ درد سے دوہرا ہو گیا  اب  اس نے مجھے گالیاں دیتے ہوے اپنی گن کا میری طرف رخ  کیا  ہی  تھا  کے اسی وقت کلاشنکوف   کے چلنے کی آواز آیی اور ان میں سے دو لوگ ڈھیر ہو گے  میں نے اب ظفری کو دیکھا جو ایک طرف سے  سامنے اے تھا اس کے ساتھ  پانچ لوگ اور بھی تھے  ان کے ہاتھوں میں  کلاشنکوفیں تھیں  وہ اب آگے آیا اور کہا سوری باس  میری گاڑی کا ٹائر پنکچر  ہو گیا تھا ، میں نے کہا کوئی بات نہیں   اب  ان بچنے والے  دو میں سے ایک بولا  وہ لرز رہا تھا اب اسے میرے  پانچ آدمیوں نے گھیر رکھا تھا  وہ بولا ہم  عالم پاشا  کے آدمی ہیں ، ظفری نے اب اسے ایک تھپڑ  مارا  اور کہا ترے عالم  پاشا کی بھی  بہن چود  لیتے ہیں ذرا صبر کرو ،

ظفری  نے اب ان دونو کو باندھ لیا اور کہا باس میں ان کو عالم پاشا  کے اڈے پے چھوڑ آتا ہوں  میں نے کہا وہاں پے کچھ نشانی  بھی چھوڑ آؤ وہ اب ہنس دیا اور کہا باس ایسا ہی ہو گا ، میں نے اب اپنی گری سٹارٹ کی اور  گھر کی طرف چل دیے اب نازی نے کہا بانو مجھے یہ شارق بھی کوئی   
اچھا آدمی نہیں لگتا اور میری طرف دیکھنے لگی اب بانو نے کہا ہاں نازی یہ واقعی  اچھا نہیں ہے  پر یار اس کا لن بڑا اچھا ہے ، اتنا مزہ دیتا ہے مت پوچھو  تو نازی بھی ہنس دی میں نے کہا آج  بھی مزہ دوں گا تم دونو کو  اب کی بار بانو نے کہا میری تو قسمت ہی خراب ہے اب مزہ لینے کا موقع آیا تو یہ کمینی  میری چوت نے نیا ڈرامہ کر دیا میں اور نازی ہنس دیے  میں نے کہا نازی آج بانو کی گاند مارنی ہے اور تمہاری چوت  بانوبولی  نہ بابا نہ  مجھے سے تمہارا اتنا بڑا  لن گانڈ میں نہیں لیا جاتا ،
دونوں ہی لڑکیاں کافی بہادر  تھیں ان کی باتوں سے ذرا بھی نہیں لگ رہا تھا کے ابھی ہم ایک مشکل  سچویشن سے نکل کے آے ہیں ، اب نازی نے کہا شارق آپ کو پتہ ہے بانو بڑا اچھا ڈانس  کرتی ہے میں نے کہا اچھا جی تو چلو آج  اس کا  ڈانس بھی دیکھیں گے  اب  بانو نے کہا ٹھیک ہے یار جو مرضی دیکھ لینا بس میری گانڈ کو معافی دے دو ، میں مسکرا دیا  گھر آ کر ہم نے اپنے لباس چنج  کے اور  میں نے ان سے کہا رات والے ٹی .وی لاؤنج میں ہی آ جاؤ کینڈل لائیٹ ڈانس چلے گا آج    

اب نازی  نے  کہا ہاں تو بانو اب بولو  کونسے  گانوں پے ڈانس کرو گی  وہ بولی جو تم کہو میں نے کہا پنجابی  چلے گا وہ بولی دوڑے گا   اب نازی نے  دوسرے روم سے ایک ڈیک اور ساتھ میں اسپیکر لے آئی اب کمرے  اب کی بار وہ گی اور اس نے  رات  کے لئے کچھ سامان لا کے اسی روم میں پڑی  چھوٹی فریج  میں رکھ دیا  اب کمرے کا دروازہ بند کر کے بولی اب اس کمرے  کا دروازہ کل ہی کھلے گا  ، اور اب پنجابی گنا لگا دیا کمرہ ساونڈ پروف  تھا اس لئے آواز باہری  جا نہیں سکتی تھی ، اب نصیبو لال  کے گنو کی ڈیسک  چلا دی نازی نے اور بیٹھ  گی میرے پاس  آ کر ،   

 بانو نے  اب نازی کا بازو پکڑ کے کہا کہاں جا رہی ھو میری جان تم بھی آؤ اور مجھے کہنے لگی سچی میں شارق یہ نازی بھی میرے ساتھ برا کمال کا ڈانس کیا کرتی تھی اب نازی نے کہا یار میں بھول گی ہوں  میں نے اب کہا نازی مجھے تم دونوں کا ڈانس دیکھنا ہے اور کوئی ایسا گانا لگاؤ جس پے تم دونوں ہی ڈانس کر سکو پھر  نازی نے ایک سیکسی  گانا چنا جس پے وہ دونوں میل کے پہلے بھی ڈانس کر چکی تھیں وہ گانا واقعی کمال کا تھا میں کم ہی پنجابی گانے سنتا تھا لیکن آج  میں نے ان کا ڈانس دیکھنے کے لئے  سن ہی لیا اور گانا بھی کم نہیں تھا اس پے جو ڈانس انہوں نے کیا وہ تو غضب کا تھا میں آپ کے ساتھ بھی دوستوں  وہ گانا  شیئر کرتا ہوں  

دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
آئیاں سجرے  روپ سجا  کے پیری عشقے  دے کنگرو پا  کے
    تے ناچدیاں دو پریاں  مسمیاں رس بھریاں  ، مسمیاں رس بھریاں
دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
قاتل جوانی میری ، ہوئی دیوانی تیری ایک واری سینے لا لے
پاواں  میں ترلے پاواں ،پھر کے تو گوریاں  بانواں ،میرا حسن  چرا  لای ی
 دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
اکھیاں دے تیر چلا کے کر گیان نین لڑا کے دلاں تے  جادو گریاں
مسمیاں رس بھریاں  ،مسمیاں رس بھریاں
دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
بلیاں گلابی سجناں ، نین شرابی سجناں ،بدن بلوری میرا
آکھ نشیلی میری ،منگدی محبت تیری ،ترے ورگا کیرا
میرے پھلاں وارگے ہاسے ،انج لگدا جویں ہر پاسے چلن پھلچڑیاں
مسمیاں رس بھریاں  ،مسمیاں رس بھریاں
 دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
 دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں

اب میں ان کا اس گانے پے سٹیپ بائی سٹیپ  ڈانس کرنا کا آپ کو کیا بتاؤں مجھے اتنا مزہ آیا کے میں کہ نہیں سکتا  وہ اس ڈانس کے  دوران جب آپس میں اپنی اپنی چھاتی  کو ٹکراتی  تو میرا لن تو جیسے پگھل ہو جاتا اب وہ دونو ہی تھک کرمیرے  پاس آ کر لیٹ گئیں میں نے اب نازی کی چھاتی پے ہاتھ  رکھا جو سانس پھولنے   کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھیں  میں نے  کہا یار تم دونوں  تو کمال کا ڈانس کرتی ھو وہ  ہنسنے لگیں  پھر ایسے ہی  لیٹے رہنے  کے بعد  پہلے  نازش اٹھی اور واش روم  میں چلی گی میں نے بانو کی طرف دیکھتے ہوے کہا بانو  تمہاری گانڈ مجھے بڑا مزہ دے رہی تھی ، وہ اب ہاتھ جوڑ کے بولی شارق یار میری اس معصوم سی گانڈ نے کیا بگاڑا  ہے تمہارا اسے معاف  کر دو میں نے کہا چلو ٹھیک ہے بس ایک دفع ہی ڈالوں گا اندر  وہ اب ہلکی سی آواز میں  چیخ  کر  بولی  شارق آئی  کل  یو  اور میرے گلے لگ کے میرے ہونٹ چوسنے لگی  وہ اب ایک ہی بات کر رہی تھی  کے اس کی گانڈ کا نام نہ لوں  پھر کوئی دس منٹ بعد  نازی واش روم سے باہر آئی  وہ نہا  کے  آئی تھی  بانو نے کہا  اب کیا ہوا تھا وہ بولی   یار مجھے گرمی لگ رہی تھی  میں نے کہا میرے پاس آؤ نہ آپ کی گرمی دور کروں  وہ ہنس کے میری گود میں ہی بیٹھ گی ،  

میں نے اسے کے مممے  پکڑ لئے اور کچھ زور سے دباے وہ  آ ی س س س  کر اٹھی  مجھے کہا کیوں ظلم  کرتے ھو جانو ان پے میں نے اس کی گردن پے کس کرتے ہوے کہا ظلم  کیا    ہوتا ہے آج  بتاؤں گا تم کو وہ ہنس دی پھر میں نے ایسے ہی اس کی گردن پے کس  کرنی شروع  کر  دی اور بانو کی گانڈ پے ہاتھ پھیرنے لگا   پھیر  میں نے نازی کو سائیڈ پے لٹا دیا  اور اس کی قمیض اور شلوار دونو ہی اتار دی   اب میں نازی کے مممے چوس رہا تھا اور  بانو میرا لن چوسنے لگی میں نے بانو  سے کہا  چلو تم اپنی گانڈ  نازی کی طرف کرو اب نازی نے بانو کی گانڈ کے سوراخ پر اپنی  زبان رکھی اور اسے ہلکے سے چومنے لگی میں نے بھی اب مزے سے نازی کے ممے کی نپل کو ہلکا سا کاٹ لیا اور پھر  اسے چوسنے لگا   میرا لن اب بانو نے چوس چوس کر  فل   سخت کر دیا تھا اور میں اپنا ایک ہاتھ  نازی کی چوت پے رکھا ہوا تھا اور ہلکے ہلکے ایک انگلی اندر باہر کر رہا تھا  اس کے مممے بھی چوس رہا تھا اور وہ مزے سے بانو کی گانڈ   کو چاٹ رہی تھی  ہم تینوں ہی اب مزے میں تھے  پھر ایسا ہی ہم نے دس منٹ تک ایک دوسرے کو چوما ،

اب بانو نے  کہا شارق اب برداشت نہیں ہو رہا کچھ کرو نہ  میں  اب اٹھا اور بانو کے پیچھے جا کر اپنا لن اس کی گانڈ میں فٹ کیا اور ایک ہی دھکے سے سارا اندر کر دیا وہ دادر سے چیخ اٹھی  اور بولی شارق پلیز اسے باہر نکل لو مجھ سے نہیں برداشت ہو گا  میں نے اب نازی سے کہا ذرا پیار کرو بانو  کو اب نازی نے بانو کو کس کرنا شروع کر دی اور میں  نے اب زور  سے دھکے مارنے میں نے کوئی دس منٹ تک بانو کی گانڈ کو چودہ وہ  کبھی مزہ سے سسکریاں بھرتی اور کبھی چیخنے لگتی  پھر وہ زوردار آواز سے چیخی اور فارغ ہو گی ، اب وہ مجھے کہنے  لگی شارق بس کرو نہ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا  اب نازی کو بھی اس پے ترس آ گیا وہ بولی اب میرا بھی کچھ کر لو یار

  میں نے اب بانو کو علیحدہ  کیا اور نازی کے اوپر لیٹ  گیا ممیں ے اب نازی کی ٹانگیں اٹھا کے اپنا لن اس کی چوت پے رکھا اور  اندر ڈال دیا  وہ س س س س س  کر اٹھی میں اب نازی کو بنا رکے  بڑی سختی کے ساتھ چود رہا تھا   میں نے بانو کے ہونٹ چومنے  شروع کیا اور  نازی کی چوت  میں لن اندر باہری کرنے لگا  نازی اب میرا ساتھ بس پانچ منٹ تک ہی دے سکی  وہ جھڑ گی   میں بنا رکے اسے چودتا رہا  وہ اب  مزے سے آہیں  بھر رہی تھی  اب بانو نے  اس کے مممے چوسنے  لگی   اور میں نے اس کی دونوں ٹانگوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا میں اب اپنا لن بھر نکلتا صرف ٹوپی اندر رہتی اور ایک جھٹکے سے دوبارہ اندر کر دیتا ،  اس طرح  نازی کو بہت مزہ آ رہا تھا وہ اب کہنے لگی شارق مجھے بھی آج ایسے چودوں کے میں یاد کروں ،  

 میں نے اب  نازی کی ایک ٹانگ نیچے کی اور ایک اٹھا
ۓ  رکھی اب اس طرح  نازی کی چوت کا سوراخ کھل کے میرے لن کی سامنے تھا  میں نے اب دھکوں کی بارش کر دی نازی کی چوت میں  نازی ایک دفع  پھر سے جھڑ گئی تھی اب مجھے نازی کو چودتے ہوے بیس منٹ ہو گے تھے اب اسے ہلکی ہلکی درد سی محسوس ہونے لگی  پہلے تو وہ برداشت کرتی رہی لیکن پھر اس نے مجھے کہا شارق کچھ دیر  رک جاؤ جانو میں نے بنا رکے ہی دھکے لگاتا رہا  اب وہ کچھ بچیں سی ہونے لگی تھی مجھے  پھر اس کی چیخیں سارے کمرے میںگونجنے  لگی ، اب کی بار میں نے اسے الٹا کیا اور لن کو اس کی گانڈ میں ڈال دیا  اس کی گانڈ کا سوراخ خشک تھا  اس لئے مجھے بھی کلچ درد سا ہوا لیکن میں نے سارا ایک ہی جھٹکے سے اندر کیا تو نازی  نے ایک چیخ ماری ماں ہا اے  میں مر گیئی  شارق آرام سے کرو کیا ہو گیا ہے تم کو  میں نے اس کی کسی بات  پے غور نہ کیا  اور اس زورو سے چودننے لگا ،

اب کی بار  میں نے نازی کے اپر لیٹ کر اسے پیچھے سے خوب چودہ وہ اب درد سے چیخ  رہی تھی میرے تو جیسے کان ہی بند ہو گے تھے مجھے ایک دفع بانو نے بھی کہا شارق پلیز یار رک جاؤ  کچھ دیر  میں نے  اس کی بات بھی نہ سنی اور اتنا چودہ نازی کو گانڈ سے کے اس کی گانڈ  نے اب لہو چھوڑنا  شروع کر دیا تھا اور نازی کا  چیخ چیخ  کر گلہ بیٹھ گیا تھا  میں نے ایک گھنٹے تک نازی کو بنا رکے گانڈ اور  چوت سے چودا اب میں بھی قریب ہی تھا میں  نے اب اپنا لن ایک دفع باہر نکالا اور ایک  دھکے سے جر تک نازی کی چوت میں ڈال کے  دو تین دھکے ہی مارے تھیے کی مین بھی اس کی چوت میں فارغ ہو گیا ،

نازی اب بیہوش ہو چکی تھی اس کی گانڈ سے ابھی بھی لہو کے قطرے گر رہے تھے  بانو نے میری طرف دیکھا اور کہا شارق تم اتنے وحشی ھو میں بتا نہیں سکتی دیکھو کیا حال کیا ہے معصوم کا تم نے  ، توبہ ہے بندہ اتنا بھی ظالم نہیں ہونا چاہے  پھر وہ بھی رونے لگی میں نے کہا بعد میں رو لینا جاؤ پہلے  کچھ پانی گرم کر  کے لاؤ وہ گی ا اور پانی گرم کر کے لے ای اب  میں نے اسے کہا اسے روئی سے صاف کرو اس کی گانڈ کو  بانو  نے نازش کی گانڈ کو روئی سے صف کیا اس کے چہرے پے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے  اب کچھ کچھ  ہوش  آ رہا تھا نازی کو  جب اس نے آنکھ کھولی  تو وہ میری طرف دیکھ کے بولی  شارق  مجھے بہت درد ہو رہا ہے میں مر جاؤں گی ، میں نے اسے اگی بڑھ کے اپنی بانہوں میں لیا اور  اس کے ہونے چوما کے کہا کچھ نہیں ہوتا جانو  تم کو  پھر اسے کہا بانو کو بتاؤ پین کلر  کی گولیاں کہاں ہیں  پھر  بانو کو بتایا نازی نے وہ اب ایک ایمرجنسی  مڈیکل  باکس  اٹھا کے لے آئی  اب نازی نے اسے  بتایا مجھے کون کون سی گولی دو  نازی نے کوئی تین چار مختلف گولیاں اور کپسول  کھاے  اب وو میرے سننے میں اپنا منہ کے ہلکی آواز میں کراہ رہی تھی اب آہستہ آھستا   اسے درد کا آرام آنے لگا اور وہ  اب سکون سے  لیٹ گئی میں  بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا  میرے ایک طرف بانو تھی اور ایک طرف نازی  ہم تینوں  ہی ننگے لیٹے ہوے تھے،   

میں نے نازی  کو اپنی بانہوں میں لیا ہوا تھا اور بانو نے مجھے پیچھے سے  جپھی ڈالی ہوئی تھی میری کمر میں بانو کے مممے چب رہے تھے اور چھاتی پے نازش کے مممے   میرا لن اب پھر سے  کروٹیں بدل رہا تھا  پھر ایک  زور دار  پھنکار کے ساتھ ہی میرا لن اب کھڑا ہو  گیا اور سیدھا نازی کی چوت  پے جا کے سلامی دی  
نازی اب  ٹھیک تھی وہ ابمیری آنکھوں میں دیکھ کر بولی  شارق وہ بدتمیز پھر مجھے تنگ کر رہا  ہے میں نے کہا  وہ اب دستک دے رہا ہے دروازہ کھولو  اپنی چوت  کا اس نے اندر  جانا ہے  وہ اب مجھے بہت پیر سے ایک زور کی جپھی ڈال کے بولی  میں نے کب روکا ہے اسے اندر آنے سے پر جان وہ غلط راستے سے آتا ہے  اسے کہو نہ وہ سیدھے راستے سے آیا جایا کرے میں نے کہا ابھی تو وہ  سدھے راستے پے ہی کب سے دستک دے رہا ہے  وہ اب سسک کے بولی س س س س  یہ لو جانو اور میرا لن اپنے ہاتھ سے پکڑ کے اپنی چوت کے سوراخ پے سیٹ کیا اور دھرے سے دھکا لگا کے اسے ادھے سے زیادہ اندر لے لیا ، ہاہ  اآھہ ا ف ف ف ف شارق  اور میرے ہونٹ چومنے لگی  اب وہ تھوڑا تھوڑا کے کے سارا ہی اندر لے گئی  اور مجھے کہا آپ نیچے لیٹو میں آپ کے اوپر  آ کر اسے اپنی چوت کے اندر سارا گھر دکھاتی ہوں  اور میرے اپر آ گئی اب وہ میرے لن پے بیٹھ کر اوپر نیچے ہونے لگی  ،

اب میں نے بانو کو  پکڑا اور اسے اپنے  اپر کی طرف کھینچا تو اس کے ممے میری چھاتی پے آ گے اور ہونٹ میرے ہونٹوں کے سامنے میں اب  بانو کے ہونٹ چوسنے لگا   نازی خود ہی لن کے اوپر نیچے ہو کر اندر باہر کر رہی تھی  اور میں بانو  کے مممے  چوس رہا تھا  پھر میں نے بانو کے ہونٹ چوسنے شروع کر دیے  اور بعد میں اپنی زبان  بانو کے منہ میں ڈال دی وہ اسے چوسنے لگی  اب نازی نے  سائیڈ  بدلی  اب وہ میری طرف کمر کر کے  اپنا منہ میرے پاؤں کی طرف کیا  اور پھر سے میرے لن پے بیٹھ گئی اب وہ  میری ٹانگوں پے اپنا ہاتھ پھیرتے ہوے  میرے پاؤں تک جاتی  پھر اس نے  اپنے ممموں سے میری ٹانگوں کو مساج کرنا شروع کیا اب وہ میرے لن پے بیٹھی بیٹھی ہی  میرے پاؤں کیطرف لیٹ گئی اور میرے ایک  پاؤں کا انگوٹھا  منہ میں لے کر چوسنے لگی  واکبھی میری انگلیاں چاٹ تی    کبھی چوستی  مجھے اب بہت مزہ آ رہا تھا   میں بانو کی کمر پے ہاتھ پھیر رہا تھا اور اس کی چوت کو مسل رہا تھا ایک ہاتھ سے  اب بانو کا جسم کانپنے لگا کیوں کے میری انگلی  اس کی چوت کے دانے کو  مسل رہی تھی مسلسل  اور اس کی زبان بھی میں چوس رہا تھا  اب وہ ایک  ہلکی سی کراہ  کے ساتھ ہی فارغ ہو گئی ،   

اور میرے ہاتھ پے ہی اس کی چوت کا پانی گرنے لگا  اب وہ تھک  کے ایک طرف ہو کر لیٹ گئی نازی بہت مستی میں میرے لن کے اوپر بیٹھ کے اوپر نیچے  بھی ہو رہی تھی اب اس نے اپنے ہاتھ میرے گھٹنوں پے رکھے اور زور زور سے اوپر  نیچے ہونے لگی اب میںبھی جب وہ اوپر ہو کر  نیچے  آتی میں زور سےاوپر  کی طرف دھکا مارتا ایسے میرا لن جھڑ تک اس کی چوت میں چلا جاتا وہ اب مزے میں تھی  اور  اس نے  اب کی بار اپنی مرضی سے  میرا لن  اپنی چوت میں لیا  جیسے اس کا دل کیا اسی سٹائل میں لیا  وہ اب کی بار خوش تھی اور اسے مزہ بھی خوب آیا پھر اس نے میری طرف اپنا منہ کیا اور میرے اپر گر گئی اب وہ میرے ہونٹ چوسنے لگی وہ  فارغ  ہو رہی تھی پھر میںنے بھی کچھی جھٹکوں میں اپنا سارا پانی اس کی پھدی میں ہی چھوڑ دیا ، وہ اب میرے اوپر گر کے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی  پھر میں  نے اسے  اپنے ساتھ لپٹا لیا اور یوں ہی لپٹے ہوے ہنم سو گے ،  

پھر میری جب آنکھ کھلی تو نازی اور بانو دونو ہی سو رہی تھیں  میرا لن ویسے ہی نازی کی چوت میں تھا میںنے وہ باہر نکالا تو  ایک اھا کی آواز نکل گئی نازی کی منہ سے اور اس کی آنکھ کھل  گئی میں واش روم گیا  اور اچھے سے نہا کے باہر نکلا  اب دونوں ہی اٹھ گئی تھیں  بانو نے ٹائم دیکھا  تو دِن کے گیارہ  بج رہے تھے اتنے میں انٹرکام  کی بیل باجی اور نازی نے ریسیور  اٹھایا اور کہا ہاں   بولو  گل خان   تو آگے سے گل خان نے اسے جو بتایا وہ سن کے  اس کے چہرے پے غصہ آنے لگا  وہ بولی ابھی بیس منٹ تک ان کو روکی  رکھو  اور پھر ان کو لے آنا ڈرائنگ روم میں  میں نے پوچھا  کیا ہوا ہے  تو کہنے لگی مالک ریاض آیا ہے  اپنے ساتھ  پولس لے کر  میں  نے اب جلدی سے اپنے کپڑے پہنے اور کہا  آنے دو  پھر بیس منٹ تک ہم تینوں ہی تیار ہو گے  اور ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھ گے  اب گل خان  کے ساتھ چار آدمی کمرے میں داخل ہوے  ان میں سے ایک کافی گورے  چٹے  رنگ  کا شخص تھا  جس کے چہرے سے ایک رعونت صاف نظر آ رہی تھی  وہ بولا اندر آتے ہی مس نازش لگتا ہے  تم کو میری بات سمجھ نہیں آئی  اب نازی نے کہا ملک صاحب کونسی بات وہ زیر لب  ایک گالی دے کے بولا  ووہی  پلازے  بچنے والی بات نازی نے کہا میں کیوں  بیچوں اپنی پراپرٹی  ہاں اگر آپ نے اپنا  نیا پلازہ بیچنا  ھے تو میںخریدنے  کو تیار ہوں وہ بولا    ھھم تو تم کو کسی اور طرح سے ہی سمجھانا پڑے گا ، اب میں نے کہا نازی کون ہے یہ  وہ بولی یہ ملک ریاض ہیں  جن کو شوق ہے لوگوں  کو لوٹنے کا اب میں نے کہا ملک صاحب  اگر وہ نہیں بچ رہی تو کوئی زبردستی ہے کیا  اب وہ میری طرف دیکھ کے بولا ہاں ایسا ہی سمجھ لو ،

یہ سن  کے تو میرا بھی دماغ گھوم گیا میں نے  اب کہا  ملک صاحب  آپ کے پاس  تین منٹ  ہیں یہاں سے اپنی یہ منحوس شکل  لے کر دفع ہو جاؤ ورنہ  میں تم کو ننگا کر کے دوڑاؤں گا اسی شہر کی سڑکوں پے یہ سنتے ہی وہ تو گنگ  ہی رہ گیا  آج تک اسے کسی نے ایسے  نہیں بولا تھا وہ بولا تم نے یہ لفظ بول کر اپنی زندگی کے دِن  گھتا لیےہیں اور اپنے  ساتھ  بیٹھنے  ایک   آدمی سے کہا  اسے ڈوگر صاحب  ذرا اپنی زبان میں  سمجھاؤ اب کے وہ شخص  بولا  اوے  چل معافی مانگ  ملک صاحب سے ورنہ  ابھی تم کو ننگا  کر کے تھانے میں لے جاؤں گا  میرا نام عارف ڈوگر  ہے  میں ایس پی  پولیس ہوں  میں نے ہنس کے  اس کی طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ  کی دو انگلیوں میں ذرا سا فاصلہ کر کے کہا تم اتنے سے  ایک پولیس  افسر ہو   تم مجھے کیا ننگا کرو گے میں تمہارے بھاپ  آئی ،جی  کا بیٹا ہوں، یہ سنتے ہی وہ اور ملک دونوں  ہی چونک گے اور کہا اچھا تو تم ہو وہ وکیل شارق شاہ  سابقہ آئی  ، جی کے بیٹے   میں نے کہا ملک تین منٹ پورے ہونے میں  صرف چالیس سیکنڈ  رہ گے ہیں اور تمہارا وہ مومی بدمعاش  عالم  پاشا  مجھے اچھی طرح جانتا ہے  سری زندگی مجھ سے جوتے   کھاتا رہا ہے وہ یونی ورسٹی  میں ذرا اسے پوچھ تو سہی کل جو بندے اس نے بیجھنے تھے ان کا کیا بنا ہے ، اب ملک نے کہا تو رات کو تم نے  وہ سب کیا ہے  سن رہے ھو ڈوگر صاحب  اسی نے مارا ہے ان چار لوگوں کو ، اب ڈوگر نے کہا  اسے میں دیکھ لوں گا آپ آؤ ملک صاحب  اب کل  کی تاریخ بھی ہے اس لڑکی کی عدالت میں ذرا اس کی ایک دفع بیل  کینسل ہو جاتے  پھر دکھوں گا میں اس لڑکی کو ،

اور اٹھ کے باہر کی طرف چلے گے  اب نازی نے کہا شارق کل کی ڈیٹ ہے  میںنے کہا ڈونٹ واری  میں ہوں نہ اور پھر ہم نے مل کے کھانا کھایا  اس کے بعد میں کچھ کام سے باہر بازار کی طرف گیا  تی راستے میں مجھے ظفری نے بتایا کے کل رات کو اس نے چاروں آدمیوں کو  مردہ حالت میں عالم پاشا کے گھر کے سامنے ہی پھینکا تھا  میں نے کہا سہی ہے اب اور بھی محتاط  رہو  وہ بولا آپ فکر نہ کرو ،میں اب گھر آ یا اور اس رات میں نے ایک علیحدہ کمرے میں بیٹھ کر اس کیس کی فائل کو اچھے سے پڑھا اور اپنی تیاری کی  میں نے چھ سات گھنٹے لگا کے  اپنی مرضی کے مطابق پوائنٹ  تیار کر لئے  میرے ساتھ ہی بانو اور نازی بھی جاگتی رہی  وہ مجھے ہر گھنٹے بعد تازہ چا
ۓ دے جاتی تھیں باری باری  پھر میں ان کے پاس ا آگیا اور  ہم نے ایک دوسرے سے  جپھی ڈالی اور سو گۓ، اگلی صبح  میں ٹائم سے ہی اٹھ گیا  اور ہم جلدی جلدی ریڈی  ہو کے کورٹ میں پوھنچ گۓ ، ہوامرے کیس کا چوتھا نمبر تھا، ابھی جج صاحب  نہیں بیٹھنے تھے ، پھر میں نے  ایک جیپ سے ملک ریاض کو اترتے  دیکھا اس کے ساتھ ڈوگر  بھی تھا  پھر آگے پیچھے  ہی کوئی چار گاڑیاں روکیں  اور ان میں سے  وہ وکیل اترے جن کا بڑا  نام تھا  اور لوگ ان کی مثال دے کر کہتے تھے  وہ جس کیس میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں پھر جیت انہی کی ہوتی ہے  ان کو دیکھ کر اب نازش نروس  سی ہو گئی تھی وہ بولی شارق  یہ تو بارے مشھور لوگ ہیںوہ سب ووہی کھڑے تھے شاید ان کو کسی  کا انتظار تھا  پھر ایک گاڑی آئی اور ان کے پاس ہی کھڑی ہو گئی  اس گاڑی میں سے  فرحاں ڈار  اترا وہ سب ایک دوسرے کے گلے ملے ، اب سب حرام خور نازی کی کروڑوں  کی جائیداد کو ہڑپ  کرنے کے لئے  اکھٹے   ہو گۓ تھے وہ اب سب ہی کورٹ کی طرف  جانے لگے ، اسی وقت میرے کندھے پے کسی نے ہاتھ رکھا  میں نے پلٹ کے دیکھا وہ شیخ صاحب تھے  یہاں کی بار کے صدر  وہ بولے یار مجھے تو بعد میں تمہارے بارے میں  اکرم گوندل  صاحب نے بتایا تھا وہ ہمارے  شہر کے بار صدر تھے سابقہ  میں نے کہ بس شیخ صاحب ان کی محبت ہے  وہ ہنس کے بولے

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest