SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

نئی مختصر کہایاں۔فل ہاٹ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
نئی مختصر کہایاں۔فل ہاٹ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 8 اگست، 2021

جب پٹھانی پہ دل آیا

 


جب پٹھانی پہ دل آیا

میرا نام روزینہ خان ہے اور میری عمر 27 سال کے قریب ہوگی میرا تعلق کوئٹہ کے ایک پٹھان خاندان کے ساتھ ہے میری شادی 11 سال پہلے مظفر خان کے ساتھ ہوئی تھی جو اس وقت مجھ سے دس بارہ سال بڑا ہوں گے میں بہت زیادہ نہیں تو ایوریج خوب صورت ہوں جبکہ مظفر مجھ سے زیادہ ہینڈ سم اور بھر پور مرد تھے میں اس وقت بھی کافی حد تک پرکشش جسم کی مالک ہوں جبکہ مظفر مجھ سے بہت بڑی عمر کے معلوم ہوتے ہیں کوئی بھی ہم دونوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ان کی بیوی ہوں مظفر ایک سرکاری محکمہ میں ملازم ہیں اور ان کی پوسٹیں شروع سے ہی کوئٹہ میں رہی ہے دو سال پہلے ان کی لاہور پوسٹنگ ہوئی اس وقت سے ہم لوگ لاہور میں رہائش پذیر ہیں پٹھان خاندانوں کی روایات کے برعکس ہمارے 3 بچے ہیں (حالانکہ کہ پٹھانوں کے دس دس بارہ بارہ بچے ہوتے ہیں) شادی کے 2 سال میں امید سے ہوئی تو خاندان میں بہت سی خوشیاں منائی گئیں لیکن میری ازواجی زندگی پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوئے مظفر اب مجھ سے ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ ہی ہم بستری کرتے تھے تین ماہ ایسے ہی گزر گئے اس کے بعد مظفر میرے پاس آنے سے بھی کتراتے میں کبھی کبھی دبے لفظوں میں ان سے ان کی بے رخی پر احتجاج کرتی تو کہتے تم امید سے ہو ایسا کرنے سے بچا ضائع ہوسکتا ہے کچھ مہینوں کی ہی تو بات ہے پھر ٹھیک ہوجائے گا آخر نو ماہ گزر گئے اور میں نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا سوا مہینہ گزارنے کے بعد مظفر پھر سے میرے ساتھ ہم بستری کرنے لگے مگر ان میں پہلے جیسا جوش نہیں تھا ان کی طرف سے جوش میں کمی کو میں بہت بری طرح محسوس کررہی تھی لیکن کچھ نہ کرسکی مزید کچھ عرصہ گزرا اور ہمارے ہاں دو مزید بچے پیدا ہوگئے جبکہ ہم میاں بیوی کے درمیان مزید دوریاں پیدا ہوگئیں جس کی وجہ سے میں گھر میں گھٹن سی محسوس کرنے لگی ایسے ہی ہماری شادی کو نو سال کا عرصہ گزر گیا اب مظفر عمر کے اس حصہ میں پہنچ گئے تھے جہاں وہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی میرے پاس آیا کرتے تھے کئی بار وہ مجھے ادھورہ ہی چھوڑ کر خود مجھے سے الگ ہوجاتے تھے جس پر مجھے بہت ہی ڈپریشن ہوتی تھی میں گھٹ گھٹ کر جی رہی تھی ایک دن مظفر گھر آئے تو بہت پریشان تھے میں نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی ٹرانسفر لاہور ہوگئی ہے ان کے ساتھ میں بھی پریشان ہوگئی کہ پہلے تو مہینے میں ایک آدھ بار میرے قریب آجاتے تھے سیکس نہ ہی سہی کم از کم ان کا قرب تو مجھے نصیب تھا اب وہ لاہور چلے گئے تو میں مزید تنہائی کا شکار ہوجاں گی مظفر نے اپنے کئی ہمدردوں اور دوستوں کو ٹرانسفر رکوانے کے لئے کہا مگر کچھ نہ بنا آخر ایک ہفتہ کے بعد مظفر ہم سب کو چھوڑ کر لاہور آگئے لیکن اگلے ہی مہینے وہ پھر کوئٹہ گئے اور مجھے بچوں سمیت لاہور لے آئے یہاں انہوں نے ایک مناسب سا گھر کرایہ پر لے لیا اور بچوں کو ایک سرکاری سکول میں داخل کرادیا یہاں بھی مظفر مسلسل کوئٹہ تبادلہ کرانے کے لئے کوشاں رہے مگر ناکامی ہوئی کوئٹہ میں جوائنٹ فیملی اور اپنا ذاتی گھر ہونے کی وجہ سے ہمارا گزر بسر بہت اچھا ہورہا تھا مگر لاہور میں آکر ہم مظفر کی محدود تنخواہ میں ہینڈ ٹو ماتھ کی پوزیشن میں آگئے مہینے کے آخر میں گھر میں سب ختم ہوجاتا مظفر بہت پریشان رہتے ایک دن مظفر نے دفتر سے گھر فون کیا اور کہا کہ روزینہ آج تیار ہوجانا شام کو ایک دوست کی دعوت ولیمہ پر جانا ہے میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ آج سے پہلے کبھی بھی میں خاندان کے قریبی لوگوں کے علاوہ کسی کی شادی یا دوسرے فنکشن میں نہیں گئی تھی خیر میں نے ان سے کچھ نہ کہا اور ان کے گھر آنے سے پہلے خود تیار ہوگئی اور بچوں کو بھی تیار کردیا جبکہ مظفر کے کپڑے پریس کرکے رکھ دیئے مظفر نے آکر بتایا کہ صرف ہم دونوں چلیں گے بچے گھر پر رہیں گے دو تین گھنٹے تک ہم واپس آجائیں گے ہم بچوں کو گھر پر ہی چھوڑ کر رکشہ پر گلبر گ کے ایک شادی ہال میں چلے گئے جہاں بہت ہی گہما گہمی تھی مرد اور عورتیں ایک ہی ہال میں اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے مجھے یہاں بہت ہی شرم آرہی تھی خیر مظفر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے مجھ میں کچھ حوصلہ تھا میں ان کے ساتھ ہال میں داخل ہوگئی ہال کے دروازے پر مظفر نے اپنے دوست اور ان کی فیملی کے دیگر افراد کے ساتھ میرا تعارف کرایا اور ہم ہال میں ایک الگ میز پر بیٹھ گئے اس دوران کئی افراد مظفر کے ساتھ آکر ملے جبکہ میں منہ اپنی چادر کے ساتھ ڈھانپ کر خاموشی سے بیٹھی رہی کھانے کے دوران ایک شخص اچانک بغیر اجازت کے ہماری میز پر آبیٹھا مجھے اس کی یہ حرکت بہت ہی بری لگی لیکن وہ شخص آتے ہی مظفر کے ساتھ فرینک ہوگیا اور باتیں کرنے لگا میں نے کھانا چھوڑ کر منہ دوبارہ ڈھانپ لیا باتوں باتوں میں مظفر نے مجھے مخاطب کرکے کہا روزینہ یہ میرے باس شاکر صاحب ہیں اور شاکر صاحب یہ میری بیوی روزینہ ”ہیلو کیا حال چال ہیں“ اب وہ شخص مجھ سے براہ راست مخاطب تھا یہ میری زندگی میں پہلی بار کسی غیر محرم نے مجھے براہ راست میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مخاطب کیا تھا میں اس وقت شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ان کی طرف سے حال چال پوچھنے پر میں صرف سر ہی ہلا سکی ” میں ان کا باس واس نہیں صرف کولیگ ہوںمظفر تو بس ایسے ہی ذرے کو پہاڑ بنا دیتے ہیں “ وہ شخص ابھی تک مجھے گھورے جارہا تھا میں ابھی بھی نظریں نیچی کئے خاموش بیٹھی ہوئی تھی اس کے بعد وہ شخص مظفر کے ساتھ باتیں کرنے لگا اور دس پندرہ منٹ کے بعد اٹھ کر چلا گیا آخر دو تین گھنٹے کے بعد فنکشن ختم ہوگیا اور ہم میزبان سے اجازت لے کر ہال سے باہر نکل آئے اور سڑک پر رکشہ کے انتظار میں کھڑے ہوگئے چند لمحوں کے بعد ہی ایک کار ہمارے قریب آکر رکی اس میں مظفر کا باس شاکر ہی بیٹھ تھا اس نے کہا مظفر صاحب کدھر جانا ہے مظفر نے اس سے کہا کہ سر ہم کو چوبرجی کی طرف جانا ہے تو اس شخص نے کار کا اگلا دروازہ کھولتے ہوئے کہا کہ آئےے میں آپ کو ڈراپ کردوں گا مظفر نے پہلے تو انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہیں سر آپ خواہ مخواہ تکلیف کررہے ہیں ہم رکشہ پر چلے جائیں گے مگر اس شخص نے کہا تکلیف کی کوئی بات نہیں میں بھی ایک کام کے سلسلہ میں ادھر ہی جارہا ہوں جس پر مظفر نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا میں ہچکچاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی اور مظفر اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے راستے میں مظفر اور شاکر دونوں باتیں کرتے رہے میں ان کی باتوں سے بے نیاز چادر سے منہ ڈھانپے باہر دیکھ رہی تھی چوبرجی پہنچ کر اس شخص نے ہم کو اتار دیا اور جاتے ہوئے مظفر سے کہنے لگا یار مظفر کبھی بھابھی کو لے کر ہمارے گھر بھی آ جس پر مظفر نے کہا ٹھیک ہے سر کبھی آں گا مگر آپ یہاں تک آگئے ہیں اسی گلی میں ہمارا گھر ہے چائے تو پی کر جائیں مگر وہ ان کی بات سنی ان سنی کرکے چلا گیا میں نے گھر آکر مظفر سے کہا کہ کیا ضرورت تھی مجھے اس فنکشن میں لے کر جانے کی اور پھر آپ ایک اجنبی کے ساتھ گاڑی میں مجھے لے کر بیٹھ گئے مگر مظفر نے کہا کہ وہ شخص اجنبی نہیں تھا میرا باس تھا جبکہ اس فنکشن میں سب لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ آئے ہوئے تھے اور میرے دوست نے مجھے بھی فیملی کے ساتھ آنے کو کہا تھا میں اکیلا جاتا تو سب مجھ سے ناراض ہوتے کہ فیملی کے ساتھ کیوں نہیں آیا چند روز گزرے کہ ایک روز مظفررات کو لیٹ گھر آئے تو ان کے ساتھ شاکر نامی شخص بھی تھا مظفر ان کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھ گیا اور مجھے چائے لانے کو کہا اس وقت تینوں بچے سو چکے تھے میں نے چائے تیار کی اور بیٹھک کے اندرونی دروازے سے مظفر کو آواز دی کہ چائے لے لیں مظفر نے مجھے کہا کہ اندر ہی لے آ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی کہ کبھی بھی پہلے میں بیٹھک میں کسی مہمان کی موجودگی میں نہیں گئی تھی چائے وغیرہ یا تو بچے لے جاتے یا مظفر خود پکڑ لیتے تھے میں اس وقت صرف دوپٹہ لئے ہوئے تھی خیر میں ان کے حکم پر اپنا دوپٹہ درست کرکے چائے اندر ہی لے گئی اور چائے رکھ کر واپس آگئی مجھے محسوس ہوا کہ شاکر مسلسل میرے جسم کا جائزہ لے رہا ہے میں چائے رکھ کر فوراً ہی واپس آگئی دونوں بیٹھک میں کافی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے دس پندرہ منٹ کے بعد مظفر مہمان کو الوداع کرکے کمرے میں آگئے میں ان پر برس پڑی کہ آپ نے مجھے کیوں اندر بلایا تو کہنے لگے یہ لاہور ہے اور اگر یہاں ہمیں رہنا ہے تو تمام لوگوں کی طرح ہی رہنا ہوگا ورنہ تمام لوگ ہم سے ملنا جلنا چھوڑ دیں گے کوئٹہ کی طرح لاہور میں نہیں رہا جا سکتا ہاں شاکر صاحب مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دے گئے ہیں بتا کس دن چلیں میں نے کہا کہ مجھے نہیں جانا کسی شاکر واکر کے گھر لیکن مظفر نے خود ہی کہا کہ اگلے اتوار کو چلیں گے اور تم بھی میرے ساتھ چلو گی میں خاموش رہی اتوار کے روز مظفر نے مجھے صبح دس بجے کہا کہ تیار ہوجا آج ہمیں دوپہر کا کھانا شاکر صاحب کے ہاں کھانا ہے میں نے انکار کیا تو کہنے لگے مجھے نہیں معلوم تم جلدی سے تیار ہوجا اور میرے کپڑے بھی پریس کردو میں نہ چاہتے ہوئے بھی کپڑے چینج کرکے ان کے ساتھ چل دی ہم رکشہ لے کر شاکر صاحب کے گھر چلے گئے ان کے گھر گئے تو ایک نوکر نے دروازہ کھولا اور ہمیں ایک کمرے میں بٹھا دیا اور چائے کے ساتھ بسکٹ دیئے اس نے بتایا کہ شاکر صاحب تو ابھی گھر سے باہر گئے ہیں تھوڑی دیر تک آجائیں گے تھوڑی دیر کے بعد شاکر صاحب بھی گھر آگئے اور ساتھ میں بڑے بڑے شاپروں میں کھانا لے آئے شاپر نوکر کو پکڑا کر خود ہمارے پاس بیٹھ گئے میں یہ بات نوٹ کررہی تھی کہ شاکر بار بار میری طرف دیکھتا اور میرے جسم کا جائزہ لیتا تھا میں خاموشی سے بیٹھی رہی باتوں باتوں میں شاکر نے کہا کہ بھابھی لگتا ہے آپ یہاں ایزی فیل نہیں کررہیں میں نے انکار میں سر ہلایا تو کہنے لگا کہ پھر آپ ابھی تک خاموش بیٹھی ہوئی ہیں میرے گھر میں کوئی خاتون نہیں ہے اس لئے مجھے ہی آپ کو کمپنی دینا ہوگی آپ اپنے ہی گھر میں بیٹھی ہیں ”نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں آپ کی باتیں انجوائے کررہی ہوں “ آپ کو ہمارے دفتر کی باتوں سے کون سی انجوائے منٹ مل رہی ہے بس ٹھیک ہے آپ باتیں کیجئے اچھا آپ بتائیں لاہور آکر کیسا فیل کررہی ہیں ٹھیک بچوں کی پڑھائی کیسی چل رہی ہے ٹھیک ہی ہے ویسے پہلے پہل مظفر تو بہت تنگ تھا لیکن اب کافی حد تک ایڈجسٹ کرچکا ہے ”نہیں سر ایسی بات نہیں مجبوری ہے ورنہ میرا بس چلے تو ایک منٹ بھی لاہور میں نہ ٹھہروں “اس بار میری بجائے مظفر نے جواب دیا یار نوکری میں تو ایسا ہوتا ہے ہاں سر مگر آپ کچھ کیجئے نہ میں کیا کرسکتا ہوں سر آپ چاہیں تو میری ٹرانسفر دوبارہ کوئٹہ ہوسکتی ہے مظفر تم کو معلوم ہے کہ پالیسی کتنی سخت ہوگئی ہے میں فی الحال کچھ بھی نہیں کرسکتا ہاں اگر تم کہوں تو میں کراچی یا اسلام آباد کے لئے ٹرائی کرسکتا ہوں سر نہیں ابھی بہت مشکل سے یہاں تھوڑا سا دل لگا ہے وہاں پھر جاکر نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا ہاں یہ تو ہے لیکن سر آپ کوشش ضرور کیجئے گا ٹھیک ہے اب پھر شاکر نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بھابھی مظفر آپ کو آٹنگ پر بھی لے کر گیا ہے یا نہیں نہیں میں نے خود ہی کبھی ان سے نہیں کہا اور ویسے بھی میری عادت ہی ایسی ہے کہ کم ہی گھر سے نکلتی ہوں کوئٹہ میں تو اپنے رشتہ داروں کے ہاں بھی جانے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا تھا اور بڑوں سے اجازت لینا پڑتی تھی یہاں تو پھر بھی کبھی کبھی مظفر مجھے کہیں نہ کہیں لے جاتے ہیں میں اب کافی حد تک خود کو ایزی فیل کررہی تھی لیکن شاکر کی نظریں اب بھی مجھے میرے جسم کے اندر جانکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی لیکن بھابھی یہ لاہور ہے اور یہاں خود کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے یہاں کے ماحول کے حساب سے رہنا پڑے گا میں پھر خاموش ہوگئی کھانا کے دوران مظفر اور شاکر باتیں کرتے رہے اور میں خاموشی سے بیٹھی تھوڑا بہت کھاتی رہی کھانا بہت لذیز تھا کھانے کے بعد ہم پھر کمرے میں آبیٹھے جہاں آکر شاکر نے کہا کہ اب کھانا تو کھا لیا ہے آج چائے بھابھی کے ہاتھ کی پیئں گے مظفر نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ روزینہ تم چائے بنا لا میں نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور شاکر میری رہنمائی کرتے ہوئے کچن تک لے آیا اور مجھے دودھ چائے اور چینی دے کر خود کمرے میں جابیٹھا میں چائے لے کر کمرے میں گئی تو دونوں قہقہے لگا رہے تھے ” واہ چائے تو بہت مزیدار ہے “شاکر نے پہلا گھونٹ لیتے ہی بول دیا ”ہاں بھئی ہماری بیگم کھانا بھی بہت اچھا بناتی ہیں لیکن ہمارے روائتی کھانے شائد آپ پنجابی لوگ پسند نہ کریں “مظفر نے جواب دیا نہیں یار تم نے کبھی دعوت ہی نہیں دی ہم کیسے کھا سکتے ہیں بھابھی کے ہاتھ کے پکے کھانے ویسے مجھے افغانی کھانے بہت پسند ہیں نہیں سر آپ جب دل چاہے آجائیں ٹھیک ہے کسی دن پروگرام بنائیں گے ہاں ٹھیک ہے لیکن سر آنے سے ایک دو دن پہلے بتا دیجئے گا ٹھیک ہے مظفر اور شاکر دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اس دوران شاکر کبھی کبھی مجھے بھی مخاطب کرلیتا جبکہ میں صرف ہوں ہاں میں جواب دیتی جبکہ شاکر بار بار مجھے بار بار گھور رہا تھا باتوں باتوں میں شام کے چار بج گئے اب مظفر نے شاکر سے اجازت لی تو شاکر اندر سے دو پیکٹ اٹھا کر لایا اور مجھے تھما دئےے اور کہا کہ بھابھی یہ میری طرف سے آپ کے لئے گفٹ ہیں آپ پہلی بار میرے گھر آئی ہیں جلدی میں بازار سے صرف یہی لا سکا ہوں اور مظفر یہ تمہارے لئے ایک پیکٹ اس نے مظفر کے ہاتھ میں دے دیا ”سر اس کی کیا ضرورت تھی “مظفر نے پیکٹ پکڑتے ہوئے کہا نہیں نہیں یار آپ لوگ پہلی بار میرے گھر آئے ہو پھر معلوم نہیں زندگی کہاں لے جائے اس کے بعد شاکر ہم کو گھر تک چھوڑنے آیا اور گھر کے دورازے تک چھوڑ کر خود چلا گیا گھر آکر میں نے مظفر سے کہا کہ میں آئندہ کبھی کسی کے گھر نہیں جاں گی تم نے دیکھا تمہارا باس مجھے کس طرح گھور رہا تھا لیکن مظفر نے کہا کہ شاکر ایسا آدمی نہیں ہے بہت اچھا ہے دفتر میں مجھے کبھی بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں اس کا ماتحت ہوں اور تم کو خواہ مخواہ ہی ایسا محسوس ہورہا ہے اس کے بعد مظفر نے تینوں پیکٹ خود ہی کھول دیئے دوپیکٹس میں ہم دونوں کے سوٹ تھے جبکہ ایک میں میرے لئے جیولری تھی کافی مہنگی معلوم ہوتی تھی مظفر نے دیکھ کر کپڑوں اور جیولری کی تعریف شروع کردی اور مجھ سے کہا کہ کس دن شاکر صاحب کو اپنے گھر کھانے کو مدعو کروں میں نے کہا کہ جس دن مرضی کرلیں مگر میں ان کے سامنے نہیں جاں گی مظفر نے جواب دیا نہ جانا تمہاری مرضی اگلے اتو ار کو ٹھیک رہے گا میں نے کہا ٹھیک ہے مظفر جمعہ کے دن گوشت اور کچھ فروٹ وغیرہ گھر لے آئے اور کہا کہ پرسوں شاکر صاحب آرہے ہیں اور تم اچھا سا کھانا پکا دینا اتوار کے روز صبح ہی میں نے بھنہ گوشت‘ روسٹ اور شوربہ( افغانی روائتی کھانے) تیار کرنا شروع کردیئے بارہ بجے کے قریب شاکر ہمارے گھر آدھمکا میں روائتی افغانی چائے (قہوہ) ان کے لئے تیار کرکے اپنے بڑے بیٹے کے ہاتھ بیٹھک میں بھجوادیا اس پینے کے بعد کھانا بھی بھجوادیا شاکر صاحب تین بجے کے قریب گھر سے چلے گئے اس کے بعد مظفر اندر آئے اور کہنے لگے کہ تم بیٹھک میں کیوں نہیں آئی میں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی آپ کو بتادیا تھا کہ میں کسی کے سامنے نہیں جاں گی کہنے لگے شاکر صاحب نے بار بار پوچھا کہ بھابھی کیوں نہیں آئیں اور کافی ناراض بھی ہورہے تھے میں خاموش رہی اس کے بعد روز ہی مظفر گھر آکر شاکر صاحب کے گھن ہی گاتے رہتے اور روٹین میں دن گزرتے گئے تقریباً ایک ماہ بعد مظفر نے مجھے کہا کہ آج شاکر صاحب کے ہاں کچھ مہمان آنے والے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ ان کے لئے افغانی کھانے بنوانا چاہتے ہیں میں تم کو اگلے ہفتہ کو ان کے گھر لے چلوں گا میں نے انکار کیا تو کہنے لگے جیسا میں کہتا ہوں کرو شاکر صاحب کے ساتھ میرا تعلق بھائیوں کی طرح ہوچکا ہے اور تم بھی ا ن کو اجنبی نہ سمجھا کرو خیر میں ہفتہ کے روز صبح مظفر کے ساتھ شاکر کے گھر چلی گئی شاکر گھر میں ہی موجود تھا مجھے کچن میں چیزیں دے کر خود دونوں گاڑی پر بیٹھ کر دفتر چلے گئے دوپہر کے وقت مظفر کا فون آیا انہوں نے میرا حال چال پوچھا اور مجھے افغانی ڈشز اچھی طرح تیار کرنے کی ہدایت کرنے لگے ڈیڑھ بجے کے قریب دروازے پر بیل ہوئی نوکر نے دروازہ کھولا اور شاکر آگئے وہ سیدھا کچن میں ہی آگئے اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے کہ بھابھی جیسا کھانا آپ نے گھر میں کھلایا تھا ویسا ہی ہونا چاہئے میں ان کے پیچھے دیکھنے لگی کہ مظفر بھی ان کے ساتھ ہی ہوں گے مگر وہ اکیلا ہی تھا میں نے ان سے مظفر کے بارے میں استفسار کیا تو کہنے لگا کہ میں تو کسی دفتر ی کام کے سلسلہ میں ادھر آیا تھا سوچا گھر چکر لگا لوں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے معلوم کرلوں مظفر ابھی دفتر میں ہے مجھے بھی جانا ہے شام کو اکٹھے ہی آجائیں گے اور ہاں بھابھی مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے اگر کوئی ڈش تیار ہوگئی ہو تو مجھے تھوڑا سا کھانا دے دیں یہ کہہ کر شاکر نے نوکر کو بازار سے کولڈ ڈرنک لانے کے لئے بھیج دیا اور خود کچن کے دروازے پر ہی کھڑا ہوگیا مجھے بہت عجیب سا محسوس ہورہا تھا وہ مسلسل مجھے گھور رہا تھا جس کی وجہ سے میرے ہاتھ کانپنے لگے تھے اس دوران میرے ہاتھ سے پلیٹ بھی گرنے لگی لیکن میں سنبھل گئی میں نے پلیٹ میں روسٹ کا ایک پیس رکھ کر ان کو دیا تو یہیں پر ہی کھڑے ہوکر کھانے لگے ”واہ بھئی واہ بھابھی آپ نے تو کمال کردیا اتنا لذیز کھانا کمال ہے بھابھی آپ کے ہاتھ میں تو جادو ہے جادوآپ جتنی خود خوب صورت ہیں اتنے اچھے کھانے بھی تیار کرتی ہیں “ میں پہلی بار کسی کے منہ سے اپنی تعریف سن رہی تھی اور مجھے عجیب سا لگ رہا تھا اس سے پہلے مظفر نے بھی میری کبھی تعریف نہیں کی تھی شاکر نے پھر مجھے مخاطب کرکے کہا کہ بھابھی آپ کو میری طرف سے دیا ہوا سوٹ اور جیولری کیسی لگی میرے خیال سے وہ آپ پر بہت سوٹ کرے گی ویسے آپ جیولری کے بغیر بھی بہت خوب صورت ہیں لیکن وہ جیولری آپ کی خوب صورتی کو چار چاند لگا دے گی میں مسلسل خاموش تھی اور اپنی تعریف سن کر میرے ہاتھ پاں سن ہورہے تھی کوئی اجنبی پہلی بار اس طرح میرے ساتھ مخاطب تھا تھوڑی دیر کے بعد شاکر چلے گئے اور شام کو مظفر کے ساتھ گھر آگیا ہم دونوں کو شاکر کا نوکر گھر ڈراپ کرکے واپس آگیا گھر جاکر میں نے سوچا کہ مظفر کو سب کچھ بتادوں مگر معلوم نہیں کیوں خاموش رہی اگلے روز شاکر کا فون آیا اور کچھ باتیں کرنے کے بعد مظفر نے فون مجھے دے دیا دوسری طرف شاکر تھا بھابھی آپ نے تو کمال کردیا میں نے تو کل ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کے ہاتھ میں جادو ہے میرے دوست یوکے سے آئے ہوئے تھے بہت تعریف کررہے تھے میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی اب اکثر شاکر کا فون آجاتا اور مظفر مجھے فون تھما دیتا میں مجبوراً تھوڑی بہت بات کرکے فون بند کردیتی کئی بار وہ خود بھی مظفر کے ساتھ ہمارے گھر آجاتا مگر میں کوشش کرتی کہ اس کے سامنے نہ ہی جاں مگر مظفر مجھے مجبور کرتا تو میں چلی جاتی و ہ اب بھی میری طرف گھورتا اور مجھے محسوس ہوتا کہ اس کی نظر بہت گندی ہے ایک روز رات کو مظفر اور میں لیٹے ہوئے تھے مظفر نے مجھے کہا کہ روزینہ شاکر صاحب میری کوئٹہ ٹرانسفر کراسکتے ہیں میں خاموش رہی انہوں نے پھر مجھے مخاطب کیا سمجھ نہیں آتا ان کو کیسے قائل کروں روزینہ تم یہ کام کرسکتی ہو تم کیوں نہیں شاکر صاحب کو کہتی میں ! میں کیسے کہہ سکتی ہوں تم کہہ سکتی ہو اور وہ تمہاری بات نہیں ٹالے آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں مظفر نے یہ کہتے ہوئے اپنے موبائل سے شاکرکو فون ملایا اورسپیکر آن کرکے مجھے تھما دیا اور کہنے لگے کہ ان سے ابھی صرف حال چال ہی پوچھنا میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی فون کان کو لگا لیا تیسری یا چوتھی بیل پر شاکر نے فون اٹھا ہیلو کیا حال ہے مظفر میں روزینہ بول رہی ہوں جی کیا حال ہے بھابھی ٹھیک ہوں کیسے مجھے فون کرلیا بس ایسے ہی کیا مظفر سو رہے ہیں نہیں اچھا باہر گئے ہوں گے تو آپ نے سوچا کہ مجھے فون کرلیں مہربانی میں بھی کافی دن سے چاہ رہا تھا کہ کبھی اکیلے میں بات ہو مگر موقع ہی نہیں مل رہا تھا کیا کہنا تھا آپ نے بس آپ کی تعریف کرنے کو دل چاہتا تھا اور مظفر کے سامنے میں کرنا نہیں چاہتا تھا معلوم نہیں کیا سوچے گا (یہ سب باتیں مظفر بھی سن رہا تھا ) کس بات کی تعریف آپ تو ساری کی ساری تعریف کے لائق ہیں کہاں سے شروع کروں مظفر کو تو آپ کی قدر ہی نہیں ہوگی جتنی آپ خوب صورت ہیں اور ایک بات میں آپ سے مزید پوچھنا چاہوں گا اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو کیا ! پوچھیں مظفر تو آپ سے عمر میں بہت بڑا لگتا ہے اور اس کی صحت بھی اتنی اچھی نہیں ہے مگر آپ تو ابھی تک جوان ہیں کیا مظفر آپ کو سیکس میں مطمیئن کردیتا ہے میں شاکر سے اس بات کی توقع نہیں کررہا تھا فوراً فون بند کردیا اور سوالیہ نظروں سے مظفر کی طرف دیکھنے لگی جو مجھ سے نظریں چرا رہا تھا تھوڑی دیر بعد مجھ سے بولا تم دوبارہ شاکر صاحب کو فون کرو اور ان کے ساتھ ایسی ہی باتیں کرو جیسی وہ کررہے ہیں یہ سالا ایسے ہی کام کرے گا مجھے پہلے ہی پتہ تھا نہیں میں نہیں کرسکتی یہ بے غیرتی نہیں تم کرو صرف فون ہی تو کرنا ہے نہیں مظفر میں نہیں کرسکتی تم کو کرنا ہی ہوگا (اب کی بار مظفر کا لہجہ سخت اور انداز حکمیہ تھا) میں نے فون دوبارہ ملایا اور اگلی طرف سے فون اٹھاتے ہی کہا کٹ گیا تھا مجھے معلوم تھا آپ دوبارہ کریں گی جی میں نے کچھ آپ سے پوچھا تھا کیا یہی کہ مظفر آپ کی سکیس کی ضرورت پوری کرتا ہے جی ایسی بات نہیں مجھے معلوم ہے یہ بوڑھا تم کو کیا پورا کرتا ہوگا روزینہ جس دن سے تم کو دیکھا ہے دل چاہتا ہے تم کو جی بھر کے پیار کروں میں نے تمہارے جیسی خوب صورت لڑکی آج تک نہیں دیکھی جی دیکھیں آپ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں تو کیسی باتیں کروں آپ کوئی اور بات کرلیں میرے ذہن میں تو جو بات ہوگی میں تو وہی کروں گا جی میں نے تو اس لئے فون کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے کہ مظفر کی ٹرانسفر کرادوں جی مجھے معلوم ہے لیکن میں جان بوجھ کر ایسا نہیں ہونے دے رہا میں تم کو خود سے دور نہیں ہونے دینا چاہتا جی ہمیں بہت پرابلم ہے آپ کو معلوم نہیں ہے مجھے معلوم ہے میں ایک شرط پر ایسا کرسکتا ہوں کیا شرط تم کو اکیلے میرے گھر آنا ہوگا جی میں کیسے آسکتی ہوں اگر مظفر کو معلوم ہوگیا تو وہ مجھے جان سے مار ڈالیں گے نہیں مارے جیسے مجھے فون کررہی ہیں ویسے خود آجائیں اسے کیسے معلوم ہوگا کسی دن صبح ہی آجائیں مظفر آفس گیا ہوگا اور اس کے واپس گھر جانے سے پہلے میں آپ کو واپس ڈراپ کردوں گا اور آپ بچوں کو کہہ دیں کہ آپ بازار گئی تھیں میں خاموش ہوگئی ٹھیک ہے سوچ کر کل بتا دیں میں آپ کے فون کا انتظار کروں گا (یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا ) میں نے فون مظفر کو پکڑا کر تلخی بھرے لہجے میں اس سے کہا کہ دیکھ لیا کس ذہن کا بندہ ہے اور تم کہتے ہو کہ ایسا ویسا بندہ نہیں ہے اور میرے ساتھ اس کا تعلق بھائیوں جیسا ہے مظفر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے تم کل صبح ہی اس کے گھر چلی جا کیا کہا آپ کا دماغ تو پاگل نہیں ہوگیا ( میں نے کبھی بھی اس سے پہلے مظفر کے ساتھ اس طرح بدتمیزی کے ساتھ بات نہیں کی تھی مگر آج ان کی بات سن کر نہ جانے کیسے میرے منہ سے یہ الفاظ نکل آئے) کچھ بھی نہیں ہوگا ایک بار میری ٹرانسفر ہوجائے مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا پلیز روزینہ تم کو یہ کام کرنا ہی ہوگا میرے لئے ‘ بچوں کے لئے ‘ تم کو معلوم ہے یہاں گزارہ کرنا مشکل ہورہا ہے نہیں مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا
 پلیز روزینہ تم کو یہ کام کرنا ہی ہوگا میرے لئے ‘ بچوں کے لئے ‘ تم کو معلوم ہے یہاں گزارہ کرنا مشکل ہورہا ہے نہیں مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا روزینہ پلیز میں خاموش ہوگئی اور سوچنے لگی کہ مظفر کو کیا ہوگیا ہے اور وہ مجھے کس کام کے لئے کہہ رہے ہیں ۔ چند منٹ کے بعد مظفر کہنے لگے کہ میں شاکر کو فون ملا رہا ہوں تم اس سے کہو کہ میں کل صبح آپ کے گھر آنا چاہتی ہوں میں نے ناں کہی لیکن مظفر نے یہ کہتے ہوئے فون ملا کر میرے ہاتھ میں تھما دیا کہ کچھ نہیں ہوتا اگلی طرف سے فوراً ہی فون اٹھا لیا گیا جی روزینہ شاکر صاحب میں کل صبح آپ کے گھر آنا چاہتی ہوں گڈ ویری گڈ میں آپ کو صبح ساڑھے نو بجے اس وقت آپ کے گھر سے ہی پک کرلوں گا جب مظفر دفتر کے لئے نکل جائے گا اور آپ کے بچے سکول جاچکے ہوں گے یہ کہتے ہی شاکر نے فون بند کردیا میں نے فون مظفر کو دیا اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی مظفر بھی شرمندہ سے تھے انہوں نے نظریں چراتے ہوئے کہا روزینہ میری خاطر ایک بار صرف ایک بار مجھے معلوم ہے کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے اگر کسی کو اس کی بھنک بھی پڑ گئی تو ہم جی نہیں سکیں گے مگر صرف ایک بار میں خاموش رہی اور دوسری طرف منہ کرکے لیٹ گئی ساری رات مجھے نیند نہیں آئی میں جانے کن سوچوں میں گم رہی مظفر کی کروٹوں سے لگا کہ وہ بھی نہیں سو سکا صبح سات بجے میں اٹھی تو ساتھ ہی مظفر بھی اٹھ گئے ایک بار پھر کہنے لگے پلیز روزینہ ایک بار کسی طرح ٹرانسفر کوئٹہ ہونی چاہئے اس کے لئے تم قربانی دو میں خاموش رہی اور باتھ روم میں چلی گئی واپس آئی تو مظفر گھر سے جاچکے تھے میں نے بچوں کو ناشتہ دیا اور ان کو سکول بھیج کر کپڑے پہننے لگی ٹھیک ساڑھے نو بجے دروازے پر بیل ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے شاکر تھا ۔ ہیلو کیا حال ہیں کیا آپ تیار ہیں جی آجائیں گاڑی میں گاڑی میں بیٹھا آپ کا انتظار کررہا ہوں میں نے گھر کو لاک کیا اور باہر نکلنے لگی باہر جاتے ہوئے میں پا
ں سو سو من کے ہوگئے مجھ سے قدم نہیں اٹھایا جارہا تھا میں آہستہ آہستہ چلی اور گاڑی تک پہنچی تو شاکر نے گاڑی کا اگلا دروازہ کھول دیا میں اندر بیٹھ گئی اور شاکر نے گاڑی چلا دی میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور دل میں جانے کون کون سی سوچیں آرہی تھیں راستے میں ایک دوبار شاکر نے بات کرنے کی کوشش کی لیکن میں خاموش رہی تو شاکر نے بھی خاموشی سے گاڑی چلانا شروع کردی گھر پہنچ کر شاکر نے دروازے پر گاڑی روکی اور مجھے کہنے لگا آج میں نے نوکر کو چھٹی دے دی ہے دروازہ خود ہی کھولنا پڑے گا دروازہ کھول کر پھر گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی اندر لے آیا پھر اتر کر گیٹ بند کرنے چلا گیا میں ابھی تک گاڑی میں ہی بیٹھی ہوئی تھی مجھ سے گاڑی سے اترنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی آج زندگی میں پہلی بار کسی نامحرم کے ساتھ میں گاڑی میں بیٹھ کر اکیلی آئی تھی اور آئی بھی کس کام کے لئے تھی ۔ ”اتر آئیں روزینہ گھر میں کوئی نہیں ہے “میں شاکر کی آواز پر بھی گاڑی میں ہی بیٹھی رہی تو شاکر نے خود آکر دروازہ کھولا اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گیا میں صوفے پر بیٹھ گئی تو میرے سامنے بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا مجھے معلوم تھا کہ تم ضرور آ گی اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مظفر کو بھی تمہارے میرے گھر آنے کی خبر ہے لیکن تم بے فکر رہو میں اس بات کا اس سے بھی ذکر نہیں کروں گا تم واقع ہی بہت خوب صورت ہے اور تمہارے مقابلے میں مظفر کچھ بھی نہیں ہے یہ تو لنگور کو کجھور ملنے والی بات ہے میں مسلسل خاموش تھی اور میری ٹانگیں مسلسل کام رہی تھیں میری خاموشی پر وہ سامنے سے اٹھ کر میرے قریب آبیٹھا اور اس نے میرے گلے میں ہاتھا ڈال لئے اس کے بعد میری چادر اتار کر صوفے پر پھینک دی اور میری گردن میں پیچھے سے ہاتھ ڈال کر مجھے میرے ہونٹوں سے کس کرنے لگا مجھے بہت عجیب سا محسوس ہورہا تھا تھوڑی دیر کے بعد میں نے سوچا کہ یہاں آج میں اپنی عزت تو ہر صورت گنوا ہی دوں گی کیوں نہ خود بھی مزہ لے لوں اب میں نے بھی شاکر کا ساتھ دینا شروع کردیا آہستہ آہستہ میں بہت گرم ہوگئی شاکر نے کسنگ بند کی اور مجھے لے کر دوسرے کمرے میں چلا آیا اس نے آتے ہی میری قمیص اتارنا شروع کردی پھر بریزیئر بھی اتار پھینکا اور للچائی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا واہ کیا بات ہے اس کے بعد اس نے میری شلوار بھی اتار دی اور نیچے پہنی انگی بھی پھر اپنی شرٹ اور پھر پینٹ بھی اتار دی اب وہ صرف انڈر ویئر میں ہی تھا اس کا ہتھیار انڈر ویئر کے اندر سے ہی دکھائی دے رہا تھا اس نے مجھے بیڈ پر لٹا لیا اور مجھے ہونٹوں پر کسنگ شروع کردی میں اس کا بھر پور انداز میں ساتھ دے رہی تھی اس کے بعد اس نے میرے کانوں پر کسنگ شروع کردی مجھے عجیب سا مزہ آرہا تھا مظفر نے آج تک مجھے ہونٹوں کے علاوہ کہیں بھی کسنگ نہیں کی تھی کانوں کے بعد اس نے گردن پھر چھاتی پر میرے مموں کو چوسنا شروع کردیا مزے کے ساتھ میرے منہ آہیں نکلنے لگیں میں ایک عجیب سے نشے سے دوچار تھی اس کے بعد اس نے میری پیٹ پر کسنگ شروع کردی اورہوتے ہوئے میری ناف تک آپہنچا اس نے میری ناف کے ارد گرد اپنی زبان پھیرنا شروع کردی یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر ہورہا تھا میں شاکر کا سر بالوں سے پکڑ کر ہٹانا چاہا تو اس نے خود کو چھڑا کر پھر اپنا کام شروع کردیا پھر اس نے میری ٹانگوں پر کسنگ شروع کردی رانوں پر اس کی زبان اس طرح چل رہی تھی جیسے کوئی تلوار چل رہی ہو میں نیچے سے گیلی ہورہی تھی آج کئی مہینوں کے بعد میں سکیس کررہی تھی اور وہ بھی ایسے طریقے کے ساتھ جو پہلے کبھی میں نے سنا بھی نہیں تھا اب شاکر میری پنڈلیوں پر کسنگ کررہا تھا پھر اس نے میرے پاں کے انگوٹھے اپنے منہ میں لے لئے میرے پوری جسم میں کرنٹ دوڑ رہا تھا میں بس بس بس ہی کہہ رہی تھی مگر وہ مسلسل اپنے کام میں جٹا ہوا تھاتھوڑی دیر کسنگ کے بعد وہ پیچھے ہوگیا اور گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھ گیا اور اپنا انڈر ویئر اتار لگا میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے ہی اس کا انڈر ویئر اترا اور اس کا موٹا تازہ اور لمبا لن باہر آیا اور میری حیرت سے آنکھیں پھٹ گئیں کم از کم سات آٹھ انچ کا ہوگا کیا تمام پنجابیوں کے لن اتنے لمبے ہی ہوتے ہیں ( اس کا لن دیکھتے ہی میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا) شاکر ہنسنے لگا اور اس نے کوئی جو اب نہ دیا وہ میری ٹانگوں کے درمیان میں آگیا اور میری ٹانگیں اپنے کوہلوں پر رکھ کر اپنے لن کو میری پھدی کے ساتھ رگڑنے لگا میں مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ چکی تھی اور جلد از جلد اس کی انتہا کو پہنچنا چاہتی تھی اس نے اپنا لن میری پھدی پر رکھا اور جھٹکا دے کر اندر کیا جھٹکے سے لن میری پھدی میں چلا گیا اور لن موٹا ہونے کی وجہ سے مجھے تھوڑی سی تکلیف بھی ہوئی میں سمجھی سارا لن اندر چلا گیا ہوگا مگر چند لمحوں کے بعد اس نے ایک اور جھٹکا دیا اور میرے منہ سے چیخ نکل گئی اب اس کا سارا لن میری پھدی میں چلا گیا تھا درد کے مارے میری جان نکل رہی تھی مظفر کا لن شاکر کے مقابلے میں آدھ ہی ہوگا اور موٹا بھی اتنا نہیں ہوگا آج پہلی بار اتنا بڑا اور موٹا لن لینے سے مجھے بہت تکلیف ہورہی تھی لیکن مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تکلیف دو چار منٹ کی ہے شاکر نے جھٹکے دینا شروع کئے تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے تکلیف ہورہی ہے تھوڑی دیر رک جا وہ رک گیا اور میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا اب مجھے اپنی سہاگ رات یاد آگئی جب مظفر نے پہلی بار کیا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی میں نے اس کو روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے کوئی بات نہ سنی تھی اور میرے تڑپنے کے باوجود کام جاری رکھا تھا اس کے برعکس شاکر کافی کواپریٹو تھا اس نے میری تکلیف پر خود کو روک لیا تھا چند منٹ کے بعد اس نے آہستہ آہستہ سے اپنا لن اندر باہر کرنا شروع کیا پھر رک کر پوچھنے لگا کہ اب تو تکلیف نہیں ہورہی میں اب کافی حد تک سنبھل چکی تھی میں نے کہا کہ نہیں تو اس نے آہستہ آہستہ سے اندر باہر کرنا شروع کردیا پھر بتدریج جھٹکے تیز کرنے لگا میں مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ چکی تھی چند منٹ بعد میں فارغ ہو گئی مگر شاکر ابھی تک اسی سپیڈ کے ساتھ لگا ہوا تھا میں اس کے ساتھ مزے لے رہی تھی قریباً پچیس منٹ تک وہ جھٹکے مارنے کے بعد فارغ ہونے لگا تو مجھ سے پوچھا کہ اندر ہی چھوٹ جاں میں نے اثبات میں سر ہلاتو وہ اندر ہی چھوٹ گیااس دوران میں تین بار فارغ ہوئی تھی اس کی منی سے میری پھدی بھر گئی مظفر کے لن سے کبھی بھی اتنی منی نہیں نکلی تھی فارغ ہونے کے بعد وہ میرے اوپر ہی لیٹ گیا اور میرا منہ چومنے لگا میں بھی اس کا بھرپور طریقے سے ساتھ دے رہی تھی کچھ دیر لیٹے رہنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ کچھ کھانا پینا ہے تو میں نے انکار میں سر ہلا دیا لیکن وہ اٹھا اور ننگا ہی کمرے سے باہر نکل گیا میں بیڈ سے اٹھی اور کپڑے پہننے لگی تو میں نے دیکھا کہ بیڈ شیٹ میری پھدی سے نکلنے والے مادے اور خون کے چند قطروں سے بھر گئی تھی ابھی میں کپڑے پہننے ہی لگی تھی کہ شاکر ہاتھ میں جوس کے دو گلاس پکڑے اندر آگیا اور مجھے کپڑے پہننے سے منع کردیا اور کہا کہ پہلے یہ جوس پی پھر ایک اور شفٹ لگا کر اکٹھے نہائیں گے پھر تم کپڑے پہننا میں نے خاموشی سے اس کے ہاتھ سے جوس لیا اور بیٹھ کر پینے لگی اس دوران شاکر نے مجھ سے پوچھا کہ سچ سچ بتا تم کو مزہ آیا ہے کہ نہیں میں خاموش رہی مجھے کافی شرم آرہی تھی اس نے دو تین بار پھر پوچھا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو کہنے لگا کتنا تو میں نے شرم سے سر نیچے کر دیا پھر کہنے لگا کہ بتا نہ میں نے سر نیچے کئے رکھا اور آہستہ سے کہا کہ بہت شاکر کھلکھلا کر ہنس پڑا اور کہا کہ اب کس سے شرما رہی ہو کھل کر بات کرو لیکن میں مسلسل اپنی نظریں نیچے کئے ہوئے تھی شاکر مسلسل میرے ساتھ باتیں کررہا تھا اور میں اپنی نظریں نیچے کئے ہوئے ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی جوس پی کر وہ پھر سے مجھے کسنگ کرنے لگا اب میں بھی پہلے سے زیادہ جوش دکھا رہی تھی پھر اچانک رک کر کہنے لگا پہلے سب کچھ میں نے کیا اب تم اپنی مرضی کے ساتھ کرو میں کچھ بھی نہیں کروں گا میں کیا کروں جو میں نے کیا ہے (اس سے پہلے مظفر ہی سب کچھ کرتے تھے میں نے کبھی بھی کچھ نہیں کیا تھا ) مجھے کچھ نہیں آتا کیوں نہیں آتا تم کرو خود ہی ہوجائے گا یہ کہتے ہوئے وہ بیڈ پر لیٹ گیا اور مجھے پکڑ کر اپنے اوپر لٹا لیا میں اس کے اوپر لیٹ گئی مگر کیا کروں کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا اس نے مجھے کہا کرو نہ میں نے کہا کہ کیا کروں مجھے شرم آرہی ہے تو کہنے لگا کہ شروع میں کردیتا ہو ں اور اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہوں تمہارے دل میں جو آئے کرتی جا اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور مجھے کسنگ کرنے لگا پھر اس نے کسنگ کرنی بند کردی اور میں اس کے ہونٹ چوسنے لگی پھر اس کے کانوں گردن اور پیٹ کے بعد ناف پر اپنی زبان پھیری تو اس کے منہ سے سسکاری نکل گئی میں نے اپنا کام جاری رکھا اور اس کی ٹانگوں پر کسنگ کرنے لگی پھر اس نے پکڑ کر مجھے اوپر کیا اور کہا کہ اب لن کو اپنے اندر لے لو یہ پہلی بار میں لن کے اوپر بیٹھ رہی تھی میں اس کے لن پر بیٹھی تو اندر نہیں جارہا تھا میں نے آہستہ آہستہ کرکے اس کو اندر کیا تو وہ میری پھدی کی گہرائیوں تک اتر گیا اب میں خود بخود اس کے اوپر نیچے ہونے لگی مجھے پہلے سے بھی زیادہ مزا آرہا تھا تھوڑی دیر کے بعد میں فارغ ہوگئی اور میری پھدی کے پانی سے اس کی ٹانگیں اور پیٹ گیلاہوگیا میں اس پانی کو صاف کرنے کے لئے اوپر سے اترنے لگی تو اس نے منع کردیا اور کام جاری رکھنے کو کہا دس پندرہ منٹ اوپر نیچے ہونے کے بعد میں تھک گئی مگر مزہ اتنا زیادہ تھا کہ بس کرنے کو دل نہیں کررہا تھا میں مسلسل کئے جارہی تھی اور وہ اپنی آنکھیں بند کئے نیچے لیٹا ہوا تھا اس نے اپنی زبان اپنے دانتوں کے نیچے لے رکھی تھی اور دونوں ہاتھوں سے میری مموں کو مسل رہا تھا وہ جس وقت بھی میرے نپل کو اپنی انگلیوں میں لیتا میری آہ نکل جاتی اب وہ فارغ ہونے والا تھا اس نے مجھے پھر کہا کہ اندر یا باہر مگر میں اس کی بات ان سنی کر کے لگی رہی وہ پھر فارغ ہوگیا اب کی بار تقریباً تین منٹ تک اس کا لن منی چھوڑتا رہا میں پوری طرح نڈھال ہوچکی تھی اور میرا جسم ٹھنڈا ہوگیا تھا میں اس کے اوپر ہی ڈھیر ہوگئی اس نے مجھے اپنی باہوں میں جکڑ لیا تھا اور مجھے مسلسل چوم چاٹ رہا تھا جبکہ مظفر جب بھی میرے ساتھ کرتے تھے فارغ ہوتے ہی آنکھیں بند کر کے سوجاتے تھے انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں پوچھا کہ میں بھی مکمل ہوئی ہوں یا نہیں جبکہ اس کے برعکس شاکر مجھے بار بار پوچھ رہے تھے اور فارغ ہونے کے بعد بھی مجھ کو کسنگ کررہے تھے جس کا مجھے بہت مزہ آرہا تھا کچھ دیر بعد میں اس کے اوپر سے اٹھی تو اس نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا کپڑا اٹھا کر مجھے دیا اور کہنے لگا کہ اس سے خود کو صاف کرلومیں نے لیٹے لیٹے خود کو اور پھر شاکر کو صاف کیا اور اٹھنے لگی تو اس نے پھر مجھے پکڑ کر ساتھ لٹا لیا اور کہنے لگا کہ ابھی کدھر لیٹی رہو کچھ آرام کرومیں پھر لیٹ گئی اس نے مجھ سے باتیں کرنا شروع کردیں میں کافی حد تک ریلیکس تھی اور اب مجھے شرم بھی نہیں آرہی تھی میں نے بھی اس کے ساتھ باتیں کیں اس موقع پر کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی تقریباً ایک گھنٹہ لیٹنے کے بعد اس نے مجھے اٹھایا اور بازو سے پکڑ کر کمرے کے ساتھ ہی اٹیچ باتھ روم میں لے گیا اور شاور کھول دیا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی جسم پر پڑا تو مجھے کپکپی آگئی اس نے ایک بار پھر مجھے اپنی باہوں میں جکڑ لیا پھر تھوڑی دیر بعد صابن پکڑ کر میرے جسم پر لگانے لگا پھر میں نے خود ہی اس کے کہنے کے بغیر ہی اس سے صابن پکڑ کر اس کے جسم پر ملا اور پھر پندرہ منٹ تک شاور لیتے رہے اور پھر دونوں نے ٹاول سے ایک دوسرے کو خشک کیا اور دونوں ننگے ہی باہر آگئے اس نے میرا بریزیئر پکڑ کر مجھے دیا اور پھر اس کے ہک خود ہی بند کئے پھر شلوار اور قمیص پہننے میں میری مدد کی اس کے بعد خود کپڑے پہن کر مجھے ڈرائنگ روم میں لے آیا اور خود کچن میں چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ میں ایک پلیٹ اور چند روٹیاں پکڑے آگیا پلیٹ میں دال تھی ہم دونوں نے مل کر دال کھائی اور پھر باتیں کرنے لگے اب اس نے مجھے پوچھا کہ اب بتا مظفر کا تبادلہ کہاں کرانا ہے میں نے جواب دیا جو آپ کی مرضی آپ کریں میں کچھ نہیں کہوں گی وہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا کہ دل تو نہیں چاہتا کہ تمہارے شوہر کا تبادلہ کراں مگر اگر تم کہو تو سب کچھ کروں گا مگر میں چاہتا ہوں کہ ساری زندگی تم میرے پاس رہو اگر ایسا نہیں کرسکتی تو کم از کم کچھ دن اور مجھے اپنی قربت میں رہنے دو میں خاموش رہی پھر کہنے لگا کہ اب گھر جانا ہے یا مزید کچھ دیر ٹھہرنا ہے میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈیڑھ بج رہا تھا میں نے کہا جلدی سے گھر چھوڑ آ بچے بھی آنے والے ہوں گے اس نے گاڑی نکالی اور مجھے گھر چھوڑ آیا راستے میں کہنے لگا کہ کل پھر آجا میں نے کہا سوچوں گی تو کہنے لگا کہ رات کو فون پر بتا دینا شام کو ساڑھے پانچ بجے کے قریب مظفر گھر آئے اور آتے ہی میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے جیسے مجھ میں کچھ ڈھونڈ رہے ہوں لیکن بولے کچھ نہیں رات کو کھانے کے بعد لیٹے تو پوچھنے لگے کیا بنا میں نے جواب دیا کہ میں اس کے گھر گئی تھی تو کہنے لگے پھر میں نے کہا اس نے جو کرنا تھا کرلیا تو کرید کر کہنے لگے کیا کیا اور کیسے کیا میں خاموش رہی اور اس کے بارے میں سوچنے لگی کہ کیسے بے غیرتوں کی طرح پوچھ رہا ہے بار بار پوچھنے پر بھی میں خاموش رہی تو غصہ ہو گئے میں بھی جواباً غصے میں آگئی اور کہا کہ جس کام کے لئے بھیجا تھا اس نے وہی کام کیا ہے میرا غصہ دیکھ کر خاموش ہوگیا اس سے پہلے کبھی میں نے ان کے ساتھ غصہ میں بات نہیں کی تھی غصہ تو دور کی بات میں نے کبھی ان کو ایسے محسوس بھی نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ جو پوچھ رہے ہیں میں وہ ان کو نہیں بتانا چاہتی مگر آج میں ان کے سامنے ان کے مقابلے میں جواب دے رہی تھی اور وہ بھی ان کے لہجے سے بھی زیادہ سخت لہجے میں مگر وہ ڈھیٹوںاور بے غیرتوں کی طرح بات سن گیا پھر کہنے لگا میرے تبادلے کا کیا بنا میں نے جواب دیا کہ اس نے کہا ہے کہ ابھی مزید کچھ دن اور اس کے ساتھ یہی کام کرنا پڑے گا تو اونچی آواز میں گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ سالا کتا حرامی تم آئندہ اس کے پاس نہیں جا گی میں خاموش ہوگئی تو کچھ دیر بعد خود بھی خاموش ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد بولا اب کس دن آنے کو بولا ہے میں نے جواب دیا کہ کل تو کچھ سوچ کر بولا کہ ٹھیک ہے چلی جانا مگر اس کو کہو کہ جلدی سے جلدی کام کردے اس کام کو لٹکنا نہیں چاہئے میں خاموش ہوگئی پھر میں نے مظفر کا فون لے کر شاکر کو فون کیا اور اگلے دن کے پروگرام کے بارے میں بتایا تو خوش ہوگیا اب میرا انگ انگ دکھ رہا تھا مجھے بھرپور نیند آئی رات کو ایک بار مظفر نے مجھے ہلایا اور سیکس کے لئے کہا تو میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور خود دوسری طرف ہوکر لیٹ گئی مظفر نے بھی دوبارہ مجھے ڈسٹرب نہیں کیا اگلی صبح پھر مظفر ناشتہ کئے بغیر ہی جلدی چلے گئے اور شاکر پروگرام کے مطابق مجھے ساڑھے نو بجے مجھے لینے آگئے اس دن انہوں نے مجھ سے ایک اور انداز کے ساتھ سیکس کیا جس کو میں نے بہت زیادہ انجوائے کیا اس دن سیکس سے فارغ ہوکر اس کو مظفر کی رات والی گفتگو سنائی تو ہنسنے لگا اور کہا کہ وہ بے غیرت ہے تم کو روک نہیں سکتا اس دن شاکر نے جاتے ہوئے مجھے ہزار ہزار والے دو نوٹ بھی دئےے اور کہا کہ یہ نوٹ مظفر کو دے دوں میں نے پہلے انکار کردیا پھر اس کے اصرار پر پکڑ لئے ہدایت کے مطابق میں نے یہ نوٹ مظفر کو دیئے تو اس نے ہچکچاتے ہوئے پکڑ لئے اس رات بھی مظفر کا دل شائد کچھ کرنے کو کر رہا تھا مگر میں سو گئی اس کے بعد دوسرے تیسرے دن میں شاکر سے ملتی رہی پہلے ایک آدھ بار مظفر نے مجھے تبادلہ جلدی کرانے کے لئے کہا مگر ہر بار میں اسے شاکر کی طرف سے دیئے گئے ہزار کبھی دو ہزار کبھی پانچ سو روپے دے دیتی اور وہ اس کو پکڑ کر جیب میں ڈال لیتا پھر آہستہ آہستہ اس نے تبادلے کے متعلق پوچھنا بند کردیا ایک سال ایسے ہی گزر گیا کہ اچانک ایک روز مظفر نے گھر آکر کہا کہ میرا کراچی تبادلہ ہوگیا ہے میں بہت افسردہ ہوئی میں اب شاکر کو ملے بغیر رہ نہیں سکتی تھی میں اس کی عادی ہو گئی تھی وہ ہر بار کسی نئے انداز کے ساتھ سیکس کرتا تھا میں نے جان بوجھ کر ہی کہا اچھا ہوا شاکر سے بھی جان چھوٹ جائے گی تو جواب میں مظفر نے کہا کہ نہیں روزینہ نہیں اب ہم لوگ یہاں سیٹل ہوچکے ہیں کہیں اور جاکر پتہ نہیں کیسے حالات ہوں تم شاکر سے کہو کچھ کرے میں نے شاکر سے کہا تو ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ یہ آرڈر میں نے جان بوجھ کر کرائے تھے تم فکر نہ کرو میں خود بھی ایسا نہیں چاہتا اس کے اگلے روز ہی مظفر خوشی خوشی گھر آیا اور کہنے لگا کہ تم بہت اچھی ہو شاکر سے کہہ کر میرا تبادلہ رکوا دیا اب بھی ہفتے میں دو بار شاکر کے ساتھ ضرور ملتی ہوں اس سے میری ” ضرورت“ بھی پوری ہوجاتی ہے اور میرے شوہر کو کچھ رقم بھی مل جاتی ہے کبھی کبھی جب شاکر مصروف ہوں یا لاہور میں نہ ہوں تو میں مظفر کے سامنے ان کے ساتھ موبائل پر لمبی لمبی گفتگو کرتی ہوں جبکہ مظفر کمرے سے نکل جاتا ہے اگر کبھی مظفر کی موجودگی میں شاکر گھر آجائے تو وہ شاکر کو بٹھا کر کسی بہانے سے باہر چلے جاتے ہیں میں شاکر کی بہت شکر گزار ہوں ان کی وجہ سے مجھے نئے نئے مزے کرنے کا موقع ملتا ہے اور آج تک شاکر نے کبھی مجھے بلیک میل کرنے یا مجھ پر دھونس جمانے کی بھی کوشش نہیں کی جب کبھی میرا سیکس کو دل نہ کرے تو شاکر میرے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کرتا مجھے شاکر کی دوسری کئی لڑکیوں کے ساتھ معاملات کا بھی معلوم ہے لیکن میں نے اس کو کبھی منع نہیں کیا ایک بار میرا دل کیا کہ میں مظفر سے طلاق لے کر شاکر سے شادی کرلوں یہ بات میں نے شاکر سے کی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرسکتا اس لئے میں طلاق نہ لوں اس کی اس بات کا مجھے دکھ تو بہت ہوا لیکن بعد میں میں بھی سمجھ گئی کہ طلاق کے میرے بچوں اور خاندان میں کیا اثرات ہوں گے

 

بدھ، 12 مئی، 2021

لونڈے باز۔نئی کہانیاں

عورت نے نوجوان کو مجبورکر کے گانڈ چدائی




مجھے کبھی  کبھی لگتا ہے کہ ہر بندے کی اپنی مرضی ہے ہم رائے قائم نہیں کرس کتے کہ گانڈ چودنا زیادہ مزیدار کام ہے یا چوت میں لن ڈالنا بس ہر ایک کا  اپنا اپنا شوق ہوتا ہے مجھے زیادہ تر چوت میں لن ڈالنا پسند رہا ہے بس میں  قسم نہیں دے سکتا کہ گانڈ کبھی نہیں چودی

میری یہ ہاٹ سٹوری ان دنوں کی ہے جب میں شادی سے پہلے کنوارا تھا اور ہم دو دوست  الگ مکان میں رہتے تھے اور پوری کوشش کرتے تھے کہ ہماری زندگی میں  جو پرائیوٹ معاملات ہیں  ان کی بھنگ نا پڑے تاکہ ہم مکان سے ہاتھ نا دھو  بیٹھیں  کیونکہ ایک تو لوگ کنوارے کو پہلے ہی مکان کرایہ  پہ نہیں دیتے اور اگر ہماری بات کا علم ہو جائے کہ ہم چدائی بھی لگاتے ہیں تو ایک منٹ کے نادر مالک مکان ہم سے مکا ن  خالی  نا کرا لے

ہم ہر ویک اینڈ پہ کسی نا کسی لڑکی کو گھر لے آتے تھے اور اس وقت لاتے تھے جب لائیٹ گئی ہوتی تھی پاکستانی میں رہنے ولے سب جانتے ہیں کہ رات کو کئی بار لائیٹ جاتی ہے

اور اس دوران چوت کے شوقین لوگ لڑکی  کو چپکے سے اندر گھر میں لے آتے ہیں اور چھپا دیتے ہیں تاکہ کسی کو کنواروں پہ شک نا ہو کہ اندر کون لڑکی گئی ہے کیونکہ محلے والے کنوارے کو محلے مٰں رہنے نہیں دیتے ان کا خیال ہوتاہے کہ ہم جیسے ہاسٹل یا کسی فلیٹ میں رہیں جو اکیلے مردوں کے لیئے مخصوص ہو

نا جانے کیوں ہمارے برے دن شروع ہو چکے تھے مجھے ملازمت والی جگہ سے بھی  کئی بار نوٹس مل  چکے تھے کیونکہ  میں اپنی ڈیوٹی  بھی اچھے طریقے سے نہیں ادا کر پا رہا  تھا نا جناے کویں دل بھی اداس رہنے لگا تھا اندر سے بے چینی تھی نامعلوم سی بے چینی جیسے کوئی بری خبر آنے والی ہوتی ہے

تو دل بجھا بجھا ہو جاتا ہے  تو دوستوں میں نے چوت کی بجائے بڑی گانڈ میں نے مجبوری میں چودی تھی کیا مجبوری تھی اور کیسے چودنا پڑی بڑی دلچسپ کہانی ہے پڑھ کے مزہ آئے گا تو میں اپنی کہانی  کو آگے بڑھاتا ہوں

گانڈ میں نے بہت ہی کم چودی ہے مجھے چوت بڑی پھدی ہو یا چھوٹی یہ ہی زیادہ تر پسند رہی ہے  میں چونکہ چوت کو چاٹ بھی لیتا ہوں اس لیئے نکھری نکھری چوت اچھی لگتی ہے اور گانڈ برائے نام ہی چودتا ہوں گانڈ بس کبھی کبھار ذائقہ بدلنے کے لیئے چود لیتا ہوں اور بڑی گانڈ چودنے کا تجربہ بھی بڑا دلچسپ رہا

اس دن میرا ایک فی صد موڈ بھی چودنے کا نہیں تھا اگر چوت کی آفر ہوتی تو شائد گزارا کر لیتا لیکن بڑی گانڈ تو بالکل نہیں چود سکتا تھا مجھے سو ڈگری پر بخار بھی تھا اور میں مکمل طور پر آرام کرنا اور دیر تک سونا چاہتا تھا لیکن ایک ایسی تبدیلی آئی کہ میرا سارا پروگرام غارت ہو گیا

ہم دو دوست ملازم پیشہ تھے ایک مکان میں رہتے تھے مالک مکان کو ذاتی ضرورت پیش آئی تھی اور اس نے ہمیں مکان خالی کرنے کو کہا ایک ماہ کی مہلت بھی دی لیکن ہم دونوں مکان ڈھونڈنے کی بجائے دن رات پھدی چودنا اور نئی لڑکی پر لائن مارنے کے علاوہ کچھ نہ کرتے رہے

اور پھر دو دن جب رہ گئے مالک مکان نے آخری وارننگ دی تب ہم سب کچھ چھوڑ کے مکان ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے اور جا پہنچے اپنے ایک دوست پراپرٹی ڈیلر کے پاس

اس نے کہا یار میرے گھر شادی ہے میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا یہ لو ایڈریس ان لوگوں کے پاس خود جاؤ میرا حوالہ دیکر بات کر لو اور ہم نے کئی ایک جگہ کوشش کی بات نہ بنی سارت رات سردی میں خوار ہوتے رہے اور پھر اگلی رات کو بھی پھرتے رہے

اس سے مجھے بخار بسو گیا ہم پھر ایک مکان میں گئے بڑی ہی موٹی اور بڑی گانڈ والی خاتون نکلی ہم نے اس سے بڑے عاجزانہ انداز سے بات کی اس نے مجھے غور سے دیکھا پھر کہنے لگی ٹھیک ہے تم کو مکان کا اوپر والا پورشن مل سکتا ہے

اس وقت وہ بری گانڈ والی مجھے فرشتہ لگی اور ہم وہاں شفٹ ہو گئے چند روز بعد وہ بڑی گانڈ والی مجھ سے کافی فری ہو چکی تھی  میں ےنے سوچا چلو اس کی پھدی ماروں گااور  اس کی بیٹیاں بھی میرے ذہن میں تھیں اور اس کی بیٹیاں بھی میں تاڑتا رہتا تھا اس کی بیٹیوں کے ممے سکسی تھے اور ان کے بریزر جب دھلنے کے بعد خشک ہونے کیلئے تار پر دالے ہوتے تھے میں ان بریزر کو ہی دیکھتا رہتا اور ممے کے سائز کا اندازہ لگاتا رہتا

لیکن کسی لڑکی کی چوت نہ مار سکا ایک روز میرا دوست گھر گیا ہوا تھا اور میں اکیلا تھا رات کا وقت تھا بڑی گانڈ والی میرے کمر میں آ گئی مجھے بخار تھا وہ کچھ کھانے کو میرے لیے لائی تھی اور وہ میرے ساتھ بستر میں گھس گئی سخت سردی تھی اس نے میرا پاجامہ اتارا اور لنڈ کو ہاتھ میں لے کر لمس دینے لگی میں نے سوچا چودائی کرانا چاہتی ہے اب مجبوری ہے کر دیتا ہوں لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہیں تھی

جب وہ الٹی ہو گئی اور کہا لنڈ میری بڑی گانڈ میں ڈال دو میرا بالکل ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا میں سوچ میں پڑ گیا اس نے میرا ذہن پڑھ لیا اور کہنے لگے میرا خاوند آج کہہ رہاتھا اس اوپر والے پورشن کی ہمیں ضرورت ہے تب میں ساری بات سمجھ گیا اور چپ کر کے لنڈ اس بڑی گانڈ میں ڈال دیا

گانڈ لوور کی کہانی

میری عمر اٹھائیس  سال ہے میرے گھر کے نیچے ایک پورشن  ہے. اور وہ پورشن  ہماری طرح ایک فیملی نے لے رھا ہے ہم چالاک لونڈے ہیں شریف بن کے محلے میں رہتے ہیں اور اس فیملی میں ایک آدمی ہے اور ایک انٹی اور اس کے ایک بیٹی بھی ہے

اس کی بیٹی مجھے بہت اچھی موٹی گانڈ لگتی  ہے اس کا نام موناہے اور انٹی کا نام ماہم ہےآنٹی  بھی اچھی ہے مجھے آنٹی لائن مارتی ہے اور میں آنٹی کے بیٹی کو لائن مارتا ہو.اور مونا مجھے بہت سیکسی گانڈ والی لگتی ہے اس کے عمر بیس سال ہے اور اس کا رنگ گورا ہے اور اس کے جوان ممے کا سائز چونتیس ہے

اور اس کے جوان ممے مجھے بہت اچھے لگتے ہے اور اس کے گلابی ہونٹ بہت اچھے ہے اور اس کے کا رنگ گلابی ہے اور اس کی فیس بھی  اچھی ہے اور اس کی گانڈ مجھے اچھی لگتی ہے اور میں اس کو روز تاڑتا ہو اور یا بھی مجھے دیکھتی ہے

اور ہم کبھی کبھی بات بھی کرتے ہے اکثر آنٹی نیچے  والا فلور میں جھاڑو لگا رہی ہوتی ہے اور جب میں نیچے آتا ہو تو آنٹی مجھے دیکھ کر جھاڑو لگانا لگتی ہے اور اپنا جوان ممے دیکھانے لگتی ہیں ان کے جوان ممے کا سائز چالیس ہے اور انٹی کے جوان ممے دیکھے کر میرے گرم جوان لنڈ کھڑا ہو جاتا ہے

ایک دن کی بات ہے آنٹی کا چدائی کا موڈ تھا تودیکھتا ہی رہا اور انٹی بار بار مجھے اپنا ممے دکھا رہی تھی میں اس کے پاس استری مانگنے کے بہانے گیا تاکہ بات مزید بڑھ سکے .اور مجھے آنٹی نے مجھے اپنا گلے لگا لیا اور پر میں انٹی کے ہونٹ پر پپی کرنے لگا

اور اس کے جوان ممے کو اپنا ہاتھ سے دبانے لگا اور پھر میں نے انٹی کے کپڑے اتارے اور اس کو بیڈ پر لٹا دیا  پوچھا کہ گانڈ چود لو بولی نہیں میں ادھر سے نہٰں کرنے دونگی .تب میں مجبور تھا اور اس کے پھدی میں اپنا گرم جوان لنڈ ڈال دیا اور اس کو زور زور سے ڈالنے لگا اور انٹی چلانے لگی

اور انٹی کے بیٹی نے ہم دونو ں کو دیکھ لیا  لیکن معلوم  نا ہونے دیا .اور ایک دن اس کا بھی چدائی پہ موڈ بنا ہوا تھا اور پھر میں نے اس جوان چکنی گانڈ والی کو اپنے پاس بلا لیا اور اس کو اپنا گرم جوان لنڈ اس کے پھدی میں پکڑ کر ڈال دیا اور زور زور سے اندر بار کرنا لگا اور وہ چلانے لگی

اگلی بار آنٹی پھر چدانے آئی تو میں  نے صاف بتا دیا گانڈ لونگا میں نے انٹی کو الٹا لٹا دیا اور آنٹی کی گانڈ میں اپنا گرم جوان لنڈ ڈال دوبارہ سے دیا اور آنٹی تو زور زور سے چلانے ہی لگی .آرام سے بس بس پر میں نے انٹی کی گانڈ میں اپنی منی گرا دی تھی چدائی لگا کر۔

ایک دن بنک میں بہت رش تھا لمبی قطار لگی تھی میرا دوست لائین میں تھا  اس کے سامنے بہت سیکسی بڑی گانڈ والی آنٹی نما لڑکی تھی میں ساتھ الگ کھڑاتھااور اس نے میرے ساتھ میسج کا تبادلہ کیا جو اس طرح سے تھایہ خوبصورت میڈم لفٹی ہے مشہور کال گرل

تو میں نے بھی اشارے سے اس کو کہا کہ بیٹا موج کر تو وہ کہنے لگا  نہیں مجھے آنٹیاں نہیں پسند اور پھر اشارہ کیا آنا ہے یا میں جاؤں تو میں نے اس کو کہا کہ  ہلنا مت  میں آرہا ہوں گو کہ وہاں بہت  رش  تھا لیکن  میں کسی نہ کسی طرح یاسر کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر  اس کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا

اور وہاں جو ہو رہا تھا اس کا بغور جائزہ لینے لگا اور میں نے دیکھا کہ اُس  خوبصورت خاتون نے جدید فیشن  کی چولی ٹائپ  تنگ سی قمیض  اور اس  کے نیچے کُھلے گھیرے والی خوبصورت   ریشمی شلوار پہنی ہوئی  تھی اور اس  نے اپنی بڑی اور  موٹی سی  خوبصورت گانڈ یاسر کے ساتھ  چپکائی ہوئی تھی    کچھ دیر تک تو میں یہ سب دیکھتا رہا

اور جب مجھے کنفرم ہو گیا کہ خاتون نے جان بوُجھ کر اپنی  خوبصورت گانڈ یاسر کے ساتھ چپکائی ہوئی ہے .تو میں نے پیچھے سے یاسر کا کندھا تھپتھپایا فوراً ہی یاسر نے مُڑ کر میری طرف  دیکھا اور اس کے ساتھ ہی اس کے  چہرے پر ایک  گہرا اطمینان چھا گیا پھر میں نے اس کو ہٹنے کا اشارہ کیا تو وہ  وہاں سے  آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہو گیا

حتیٰ کہ رش کی وجہ سے اس کو  ایک دھکا سا  لگا اور میں نے مو قعہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بڑی  پھرتی سے یاسر کو پیچھے کی طرف  دھکیلا اور  خود اس  سکسی خوبصورت لیڈی کے پیچھے جا کر  کھڑا ہو گیا       چونکہ میں نے اور یاسر نے ایک جیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے اورہماری  فزیک بھی  تقریباً ملتی جُلتی تھی. اوپر سے  رش اور شور  اتنا زیادہ تھا کہ   اس خاتون نے ہماری اس چینچ کو نوٹ نہیں کیا

دھکہ لگنے  کی وجہ سے میں  اس خوبصورت خاتون سے تھوڑا  پیچھے ہٹ  گیا  تھا  . یہ بات اس نے بھی فیل کی اور وہ تھوڑا کھسک کر میرے پاس آ گئی  اورپھر  اس کی  خوبصورت گانڈ کا دائیں حصہ میرے ساتھ ٹچ ہوا واہ اس کی خوبصورت گانڈ بڑی ہی نرم اور ریشم کی طرح  مُلائم تھی. پھر  اسکے بعد  وہ آہستہ آہستہ میرے ساتھ جُڑنا شروع ہو گئی

اور چند سیکنڈ بعد ہی اس کی نرم اور موٹی   خوبصورت گانڈ میری تھائیز کے ساتھ لگی ہوئی تھی    یاسر کا تو پتہ نہیں پر جیسے ہی اس کی گانڈ نے میری تھائیز کو ٹچ کیا میرا لن ایک دم سے  کھڑا ہو گیا اور کچھ ہی دیر بعد اس میرا  کھڑا لن اس  کی گانڈ سے رگڑ کھا رہا   تھا .لیکن پرابلم یہ تھی کہ لن اس کی بڑی سی گانڈ کے ایک سائیڈ پر ٹچ ہو رہا تھا

اس کا حل اس نے یہ نکالاکہ اس نے اپنی گانڈ کو کچھ اس طرح ہلایا کہ لن صاحب اس کی بُنڈ کی دراڑ کےعین   بیچ میں آ گیا   میں نے کوشش کی مگر  لن ٹھیک سے اس کی دراڑ کے اندر نا جا پا رہا تھا وجہ  یہ تھی کہ ہم دونوں کی قمیضیں راستے میں حائل تھیں

اب میں نے ہمت کی اور تھوڑا سا پیچھے ہٹ کے  اپنا ایک ہاتھ  آگے بڑھا کر  اپنی قیمض کا کپڑا ایک سائیڈ پر کر دیا ا سبات کا نوٹس لیتے ہی وہ پیچھے میری جانب مڑی اور بولی یہاں نہیں صبر کرو صبر نہٰں کر سکتے تم اور میں رک گیااور ا سکے بعد ہم فارغ ہو کے میرے پورشن آگئے وہاں اتفاق سے دوسری فیملی گاوں جا چکی تھی گھر خالی تھا

میں نے وہاں جا کے اس میڈم گرم  کو ڈوگی پوز میں کیااور ا سکی چکنی گانڈ کے اندر انگلی ڈالکر لوشن بھر دیا تھا  تاکہ لن پچک کے اندر جا سکے اور موٹا ہیڈ لن اوپر رکھ کے دھکا مارا لن اندر گہرائی میں گم ہو گیا.اور ا سکی درد والی سیکسی آوازیں گونجنے لگی میں نے دونوں ہاتھ اس کے  بڑے چکنے بوبز پہ رکھے ہوئے تھے اور تسلی سے گانڈ چودی تب جا کے میرے لن کو سکون ملا گرمی دور ہوئی

لونڈے باز کے کارنامے

وہ اتنا بڑا جوانی کا ٹھرکی لنڈ لونڈے باز تھا اس کو چوٹی عمر کے بچے پسند تھے اور اس کا کاروبار بہت اچھا تھا جس کی وجہ سے وہ لڑکو پر پیسہ پانی کی طرح بہاتا تھا اور اس کا لوڑا کا سائز سات  انچ کا تھا وہ لڑکے کی خاطر لڑکیوں کو چھوڑ دیتا تھا سنی اک گاوں میں رہتا تھا اور وہ گاوں سندھ میں تھا اور اس کے برابر والے گھر میں اک لڑکا آیا اس کا کاشف تھا اور اس لڑکے میں لڑکی سے زیادہ حسن تھا اس کا رنگ سفید تھا اور اس کے لیپ پنک رنگ کے تھے

اور ایک بات اس میں سب سے الگ تھی اس کی آواز لڑکیوں کی طرح تھی اور وہ زیاد تر لڑکیوں میں رھتا تھا جس کی وجہ سے اس کی ادائیں بھی لڑکیوں کی طرح تھی جب کوئی عام لڑکا اس سے ملتا تھا تو وہ لڑکی کو بھول جاتا تھا اور اس کے ہات بہت ملائم تھے اور جب اس کو لڑکیاں ملتی تھی تو وہ اس کو دیکھ کر جل جاتی تھی کیوں کے وہ اپنی بیوٹی کا بہت خیال کرتا تھاجب وہ سنی کے برابر والے گھر میں آیا تو سنی دن بھر اس کے آگے اور پیچھے گھومتا رھتا تھا سنی اس کو پیسے کا لالچ دیتا رھتا تھا وہ اک غریب لڑکا تھا

جب سنی نے اس کو اپنا پیسا شو کروایا تو وہ آہستہ آہستہ سنی کی طرف راغب  ہونے لگا اور دودن بعد وہ اس سنی کے بہت قریب  آگیا دن میں وہ سنی کے ساتھ ہوتا تھا اور رات میں سنی کے ساتھ ہوتا تھا جب وہ اک دوسرے سے الگ ہوتے تھے تو مساج پر رابطہ کرتے رہتے تھےاور یہاں تک کے وہ رات کو چھت پر ہی سو جاتے تھے اور اک ہی کمبل میں جب وہ کمبل میں سو جاتے تھے تو سنی جاگتا رھتا تھا اور اس کی قمیض  کےاندر ہاتھ ڈال کرکر مسلنا شروع کر دیتا تھا

آہستہ آہستہ کر کے وہ آگے بھڑنے لگ پھر اس نے کاشف کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ کر سیکسی سانسیں بھرنا شروع کر دی اور کاشف کو معلوم ہوگیا تھا کہ وہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے کاشف سونے کا ناٹک کرتا اور اک کوٹ سے دوسری کروٹ بدلتا رھتا تھا سنی کا جنوں بھرتا جارہا تھا کیوں کہ  کاشف کی جلد بہت ملائم اور بہت چکنی تھی اس کوہونٹ  مسلنے میں بھی بہت مزہ آتا تھا سنی نے آج رات اس کی شلوار کا ازاربن کو کھولا اور اس کے بعد تھوڑا سا قریب ہو کر اس کے نرم ٹائٹ گانڈ پر رکھ کر مسلنا شروع کر دیا

پھر اس نے اس کے ران پر اہستہ آہستہ مسلنا شروع کر دیا کاشف آنکھیں تو بند کرا ہوا تھا مگر کاشف سے بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ اپنے ہوٹ کو دبا رہا تھامگر اس کے چہرے کا رنگ لال اور ماتھے  پر سلوٹیں  آ گئی تھیں پھر کاشف نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سنی کی طرف حسرت  بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور خاموش تھا اس نے کچھ بولے مگرسنی کے ھونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ لے کر ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا جب دونوں جوانی کا ٹھرکی لنڈ  نے اک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا تو دونوں کی طرف سے تھی

اور دونوں اک دم سے اک دوسرے کے چمٹ گاہے اور پاگلوں کی طرح کسسنگ شروع کر دی پھر اپنی زبان کو اک دوسرے کی زبان سے ٹچ کرتے پھر کبھی  اوپر کا ہونٹ کو چوستے اور پھر کبھی نیچےکا ہونٹ کو چوستے اس طرح انکو پندرہ  منٹ ہو گاہے اور وہ دونوں پسینے سے شرابورتھے اسی دوران سنی کا جوانی کا ٹھرکی لنڈ اتنا سخت ہوگیا تھا اور فل گرم سنی نے اپنا تھوک اپنے ہاتھ میں لے کر کاشف کے نرم ٹائٹ گانڈ کے سوراخ پر لگایا

کاشف کی نرم ٹائٹ گانڈ کا سوراخ پنک رنگ کا تھا  ابھی تک اس کی گانڈ کسی نے نہٰں چودی تھی ایک دم بند بند تھی اور سنی نے سوراخ کے اندر اپنی بیچ والی انگلی ڈالی تو کاشف کی سیکسی آواز نکلی احہہہاہاہا آواز سن کر سنی اور پاگل ہوگیا پھر سنی نے اپنے جوانی کا ٹھرکی لنڈ کو اس کے سوراخ پر رکھ کر اک دم سے نرم ٹائٹ گانڈ کے اندر ڈالا تو کاشف کی چیخ  نکلی تو سنی نے کاشف کے منہ پر ہاتھ  رکھا اور جوانی کا ٹھرکی لنڈ کو آرام سے اس کے اندر ڈالتا رہا

کاشف کو درد تو ہورہا تھا مگر اس کو مزہ بھی اتنا ہی آرہا تھا پھر سنی نے اپنے جوانی کا ٹھرکی لنڈ کو زور زور سے اس کی نرم ٹائٹ گانڈ میں ڈالنا شروع کر دیا کاشف کی آواز بھی بھرتی رہی جس طرح زیز ڈالتا رہا اس طرح کاشف کی آواز بھی بھرتی رہی تھوڑی دیر بعد سنی نے اپنا لوڑا کو باہرنکالا اور سنی کے مو میں دے دیا پھر کاشف سنی کے جوانی کا ٹھرکی لنڈ کی ٹوپی کو اپنے منہ میں لے کر چوستا رہا اور اپنی زبان سے سنی کی منی کو چاٹ رہا تھا

جب جب سنی کا جوانی کا ٹھرکی لنڈ کاشف چوس رہا تھا سنی کا چہرے کا رنگ اور چینج جوانی کا ٹھرکی لنڈ ہو رہا تھا پھر سنی فرینک  ہوگیا اور جوانی کا ٹھرکی لنڈ منہ  سے باہر نکل کر کاشف کو اپنی بانہوں میں لیکر سو گیا اس طرح رات پھر ان دونوں نے جی بھر کے اپنی جوانی کی پیاس بجھائی اور گانڈ چدائی  کی ہاٹ سیکس سٹوری بناتے رہے اور ا سکے بعد ان کی عادت تھی ہر ویک اینڈ پہ گانڈ چودنا

گانڈو

سیکس کہانی وہی مزہ دیتی ہے جو سچ ہواور ا سمیں زیادہ سے زیادہ حقیقت کا رنگ ملتا ہو تو دوستوں مجھے گانڈ چدا کے ایک کام کرانا پڑ گیا تھا اور مجھے اس سے قبل اندازہ نہیں تھا کہ گانڈ چدائی کی درد پہلی بار خاص طور پہ اس قدر شدید ہوتی ہو گی اب سمجھا ہوں کہ گانڈ چدائی کے لیئے پروفیشنل لڑکیاں اس لیے ہی گانڈ کی موری پہ جیل لگوا لیتی ہیں

تاکہ کالا بڑا لن بھی اندر  جائے تو کوئی مسئلہ نا بن سکے ورنہ اس سے قبل میں یہ ہی سمجھتا تھا کہ گانڈ چائی تو کوئی مسئلہ والا کام نہیں ہوتا لیکن اب اندازہ ہوا ہے کہ یہ تو بڑا کام ہو گیا ہے اور گانڈ چدائی تو چوت دینے سے مشکل ہو گا کیونکہ میری چوت تو ہے نہیں کہ اندازہ کر کے بتا سکوں کس مٰں کیا کیا ہوتا ہے مجھے تو زندگی میں ایک بار گانڈ مرانی پڑ گئی

تو مجھے اس بات کا عملی تجربہ ہوا ہے کہ یار یہ تو دل گردے کا کام ہوتا ہے کیونکہ گانڈ چدائی میں لن پہلی بات جب توپی ہی اندر جاتی ہے تو بندے کے آنکھیں باہر کو نکل پڑتی ہیں اور جو پروفیشنل گاندو لوگ ہوتے ہیں ان کو ایک تو جیل لگا کے دوسرا گانڈ مرا مرا کے علم ہو جاتا ہے کہ کہ کس انداز سے کیسے گانڈ میں  لن لینا ہو گااور ویسے بھی ان کی گانڈ کی موری لووز ہو جاتی ہے

جس سے چدائی میں  زیادہ ؤسانی ہو جاتی ہے تو دوستوں کیسے میری پہلی بار گانڈ چودی گئی یہ ایک دکھ بھری کہانی ہے کاش میں گانڈو نا بنتا لیکن چلو کوئی بات نہیں کم از کم اتنا اندازہ تو ہوا کہ گانڈو لوگ بھی درد برداشت کرتے ہٰں اور ان کو اچھا معاوضہ دیکر چودنا چاہیئے  خیر میرے ساتھ جس نے گانڈ چدائی کی اس نے جیل تو کیا خال لگانا تھا تیل بھی میرے کہنے پہ لگایا تھا

اور اس نے جب اندر داخل کیا تو میری پہلی چیخ ہی زور کی نکل گئی تھی اس کا لن مجھے ہتھوڑا لگ رہا تھا پھر جا کے تین چار منٹ کے بعد بار بار تیل لگانے کے بعد قدرے مجھے سکون ملا تھامیرا نام موئز ہے میں پیزہ ہٹ کمپنی کے گودام میں ایک کمپیوٹر آپریٹر تھا- میری تنخواہ بھی کم تھی مجھے آگے بڑھنا تھا اور اپنی تنخواہ بھی بڑھانی تھی۔

میرے ساتھ ایک آفیسر کام کرتا تھا مراد وہ ایک سیاسی آدمی بھی تھا اور بہت بڑے لوگوں سے اسکے رابتے تھے۔ میں نے اسکو کہا کہ میرا ٹارنسفر ہیڈ آفس میں کروا دو مجھے زیادہ تنخواہ  مل جائے گی- میری عمر اسوقت انیس سال  سے اوپر ہو چکی تھی جب میں  اٹھارہ سال کا تھا تو اس آدمی نے مجھے چودنے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہٰں ہوا تھا مٰں بچ گیا تھا رات کو اکھٹے سوئے  ہوئے تھے تو اس نے شرارت کی تھی

سال تھی اور میں  ایک جوان پرکشش گورا چکنا لڑکا تھا۔ مراد کو لونڈے بازی کا بہت شوق تھا اور وہ پھر مجھے بہانے بہانے سے مرے پاس آکر مجھے چومنے لگا میری گانڈ چدائی کے لیئے اور کچھ دنوں بعد اسنے میرے لیئے ہیڈ آفس میں بات بھی کی۔ اسکی بات سب سنتے تھے۔

اسکی وجہ سے میرا ٹارنسفر تو ہوگیا مگر مجھے کلیرنس لینی تھی وہاں سے تاکہ پکا کام ہوجائے۔ مراد نے کہا رات کو پیزہ ہٹ ریسٹورنٹ آجو تمہارا کام ہوگیا سمجھو۔ میں وہاں گیا تو وہ فل تیار میر ویٹ کر رہا تھا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ آج میری گانڈ مرے گا یہ تب کلیرنس ملے گی اس سے۔ اسنے پھر مجھے چوما اور میرے ہونٹ پر کس کرلیا۔

مجھے کھانا کھلایا اور پھر کہا کہ گھر چلو میرے وہاں تمہارا لیٹر پڑا ہے اسکولے لو اور چلو جاو کل آفس۔ میں اسکے گھر گیا وہ مجھے بیڈ روم میں لے کر گیا اور پھر اسنے مجھے لپٹ کر بے اختیار چومنا شروع کردیا۔ میں بھی نوکری کے آگے مجبور اسکے ساتھ سکسی کرتا رہا اور لڑکی کی طرح اسکی ٹھرک مٹانے کا ذریعہ ہ بن گیا۔ اسنے مجھے لٹا کر میرے اوپر لیٹا اور میری شرٹ اتار کر میرے جسم کو چومنے لگا۔

پھر اسنے اپنی اور میری پینٹ اتاری اور میرے لنڈ کو سہلاتا ہوا اپنا لنڈ نکال کر مجھے گھوڑا بنایا اور اسے میری گانڈ میں گھسانے لگا۔ پہلے مجھے درد ہوا  اور ایک چیخ بھی نکل گئی تھی جس کو بڑی مشکل سے روکا اور اس نے لن نکال لیا تھامگر اسنے  دوبارہ تیل لگا کر مجھے نان سٹاپ کرنا شروع کردیا اور ساتھ ہی وہ میری جوانی کو چوٹتا بھی رہا۔ مجھے بھی پھر مزہ آنے لگا اور دس  منٹ تک اسکے ساتھ گانڈ مروانے کے بعد وہ میری کمر پر لنڈ سے مٹھ گرا کر فارغ ہوگیا۔

پھر اسنے میرے لنڈ کو چوس کر میری بھی مٹھ نکالی اور اسکو بھی پی لیا۔ میں درد سے لیٹا تھا اور اسکے ساتھ ہی ننگھا سوگیا-پھرصبح مجھے آرام ملا تو اسنے میری دوبارہ گانڈ ماری اور میرے ساتھ نہا کر مجھے آفس چھوڑا اسنے ، پھر تو جیسے مجھے طلب ہونے لگی تھی لنڈ کی۔ میں خود اسکے پاس ہر ہفتے جاتا اور اسکے ساتھ گانڈ مرواتا۔ وہ تو مجھے مست انداز میں زبردست گانڈ چدائی لگ اکر ہر انداز سے چودتا تھا اور میں رنڈیوں کی طرح اسکی رکھیل ن کر اپنی گانڈ مرواتا تھا اور اسکے ساتھ اسطرح کرنے سے اپنے سارے باہر کے کام بھی نکلوا یتا تھا وہ ایک ٹھرکی آدمی تھا اور میں اسکے ساتھ سب کچھ کرکے اپنی جوانی کی گرمی بھی مٹانے لگا تھا اور فل لونڈے باز بن گیا تھا وہ تو میرا تھا

دوست میری گانڈ چود گیا

ایک دن میں اپنے دوست کے ساتھ گھومنے ایک شوپنگ مال گیا وہاں پر کافی دیر گھومنے کے بعد ہمارا دل کرنے لگا کہ کسی کو پٹا کر اسکی گاڑی میں چدائی مارتے ہیں ہم تھک گئے تھے سب کے پاس سے گزر کر انکے پیچھے سے چوتڑوں کو دبا دبا کر۔ ہم ایک جگہ کھڑے سب کو دیکھ کر اپنے خوار لنڈ کو ٹھیک رہے تھے دیوار سے کہ رات کے گیارہ  بج گئے اور پھر سب اہے گھروں کو جارہے تھے۔

ہم کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے- میرے دوست نے کہا کہ چل چھوڑ یار کیا لڑکی کو ڈھونڈ کر اسکی چدائی مارنا کیوں نہ ہم دونوں آپس میں سکس کریں گانڈ چدائی کا۔ میں نے اسکو کہا کہ نہیں مگر میرا دل بھی کرنے لگا اور جوانی کا جوش تھا تو پھر ہم دونوں اسکے گھر گئے اور وہاں جاکر اسکے کمرے میں رات رکے اس کا ابو باہر ہوتا تھا امی اس رات کسی شادی کے فنکشن مٰں تھی کسی کو میرے وہاں جانے کا علم نا ہواتھا۔ اسنے مجھے بستر پر لٹاکر اپنے پورے کپڑے اتار دئے وہ ایک دم گورا سکسی تھا۔

اسنے کہا کہ پہلے وہ میری مارے گا پھر میں اسکی۔ میں بھی یہی چاہتا تھا پھر اسنے میرے ہونٹوں کو چوما اور میری گردن کو چاٹتا ہوا میری شڑٹ اوپر کرکے میرے آدھے ننگھے جسم کو چاٹنے لگا میں لڑکیوں کی طرح سکسی آوازیں نکال رہا تھا اور پھر میں نے جلدی  اپنی شڑٹ اتر دی اور اسکا لنڈ آرام آرام سے کھڑا ہو رہا تھا اور میرا فل ٹائٹ ہو چکا تھا۔ اسکے بعد اسنے میری پینٹ اتاری اور میرے لنڈ کو پکڑ کر سہلاتا ہوا اسکو چوسنے لگا۔

افف ف ف کیا مزہ آرہا تھا میں نے اسکے بالوں کو پکڑ کر اسکو لنڈ منہ میں دبانا شروع کردیا۔ پھر اسنے اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈالا اور میرا لنڈ چوستا رہا۔ میں نے بھی آرام آرام سے اسکا لمبا بڑا موٹا لنڈ اپنے منہ میں لے کر چوسنا اور چاٹنا شروع کردیا تھا۔ مجھے بھی مزہ آرہا تھا اور فل سکس چڑھ گیا تھا۔

اسکے بعد دوست نے مجھے گھوڑا بنا کر پیچھے سے لنڈ کو میری گانڈ پر رگڑنے لگا اور تھوک لگا کر آرام سے اندر گھسانے لگا۔ اف ف ف میرا درد بڑھ رہا تھا .اور وہ آدھا لنڈ اندر کرکے رک گیا تھا۔ پھر اسنے مجھ سے لپٹ کر میرے ہونٹوں کو کسنگ کے ساتھ پیچھے سے ایک زور دار دھکا مارا .اور لنڈ پوار میری گانڈ میں گھس گیا۔ میں درد سے کراہ رہا تھا.اور وہ آرام آرام سے مجھے لٹا کر میری گانڈ مارنے لگا گیا تھا۔

پانچ  منٹ بعد مجھے بھی مزہ آرہا تھا اور میں بھی فل خوار اس سے گانڈ مروا رہا تھا کہ اسکے دھکوں کے ساتھ بستر پر میرا لنڈ رگڑ رگڑ کر میں فارغ ہو گیا .اور سن ہو کر لیٹ گیا جبکہ وہ مزید تین  منٹ تک میری مارنے کے بعد میرے اوپر فارغ ہوا. اور میرے اوپر مجھے سے لپٹ کر ہی سو گیا۔ ہم پوری رات ایسے سوتے رہے اور پھر صبح کو میں نے کہا .اب مجھے تم گانڈ وہ انکاری ہو گیا مجھے بہت غصہ آیا اور میں  نے اس سے بدلہ لینے کا سوچا

….

تب میں نے ایک اور دوست سے مشورہ کیا کہ میرے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے ا سنے کہا وہ ممی ڈیڈی ہاتھ کر گیا تم پینڈو ہو کے بدلہ لو اس کا ابو باہر ہوتا ہے اور ماں کاروبار سنبھالتی ہے ا سکی ماں کے دفتر نوکری کرو اور اس کی ماں چود ڈالو میں نے کہا اچھا خیال ہے اور ٹارگٹ کر لیا کہ ایسا کرونگا اور وہ مجھے اندر اپنے کمرے میں لا کر مجھ سے ابتدائی بات چیت کے لئے پوچھنے لگی۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے ماہانہ  بیس ہزار دینگی میں اچھی طرح سے کام کرونگا

اور میں اپکے سارے معاملات دیکھ لوں گا۔ سو انھوں نے مجھے کہا کہ اسوقت فائل وہ گھر بھول گئی ہیں اور مجھے رات نو بجے انکے گھر آنے کو کہا میں نے وعدہ کر لیا اب مسئلہ تھا کہ اس کے گھر جاتا تو میرای گانڈ مارنے والا دوست بھی اپنے گھر ہوتا اس کا حل ی نکالا کہ میرے دوسرے دوست نے اس کو گھر سے پک کیا.اور سینما فلم دکھانے لے گیا اب گھر خالی ہو گیا تھا۔

میں وقت کے مطابق انکے گھر گیا۔ وہ اکیلی تھی اتنے بڑے گھر میں اور ایک دم سکسی جوان لگتی تھیں اور پاکستانی سکس کرنے کا ارادہ بننے لگا۔ مجھے انھوں نے فائل دی اور میرے ساتھ سیگریٹ پیتی ہوئی باہر چہل قدمی کرتے ہوئے سمجھانے لگیںوہ دراصل خاوند سے اداس ہو چکی تھی .اور لن کی ضروت تھی اس بھی اور مجھے چوت چاہیئے تھی

اسی دوران میں انکو کافی دفعہ ٹچ ہوا اور وہ میرے ساتھ چپک کر چل رہی تھی۔ ایک دم میرا پاوں کہیں گھاس میں پھنسا اور میں انکے اوپر گر پڑا۔ اب وہ میرے نیچے اور میں انکے اوپر اور انکا ایک بوب میرے ہاتھوں سے دبا ہوا۔ جبکہ انکے اوپر لیٹنے سے انکے ممے کمیز سے زیادہ باہر نکل رہے تھے۔ میرا منہ انکی گردن اور چھاتی پر لگا. اور سلپ مار گیا۔ میں اٹھا اور انکو اٹھا کر معافی مانگی

لیکن وہ اپب مجھے ایک سکس کرنے کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ مجھے بھی بڑا مزہ آیا تھا اور انکے ممے اف ف  فل نرم اور بڑے بڑے گرم تھے۔ انھوں نے جب مسکرا کر دیکھا تو میں نے کہا میڈم یو آر ویری بیوٹی فل   وہ بولی اچھا کیا اس بیوٹی کو حاصل کرنا چاہو گے. مٰں نے کہا کوئی بے وقوف ہو گا جو انکار کرے گااور  آرام سے انکے قریب آکر انکے ہونٹوں کو مسلتے ہوئے اس پر کس کیا۔

وہ جیسے مست ہو کر میری ہوگئی۔ میں نے انکو اندر لے جاکر صوفے پر لٹایا اور انکی قمیض اتار کر مموں کو برا سے نکال کر انکو کسنگ کے ساتھ پوری آدھی زبردست جوانی کو چاسنے چاٹنے لگا۔ مجھے فل سکس چڑھ رہا تھا اور میں بھی مست ہونے لگا. انکی بانہوں میں۔پھر میں نے اپنے کپڑے اتار کر انکی شلوار اتاری اور ہم فل ننگھے ایک دوسرے سے لپٹے بھوکوں کی طرح سکس کرتے رہے

اور پھر میں نے انکی چوت کو انگلیوں سے چودنے کے بعد انکی ٹانگوں کو اوپر اٹھا کر اپنا لنڈ اندر گھسانا شروع کردیا انکی سسکیاں نکلنے لگیں اور سکسی آوازوں کی وجہ سے میرے جھٹکے جان پکڑنے لگے۔ انکی پوری ننگھی چکنی جوانی فل اگے پیھے میرے جھٹکوں سے ہل رہی تھی اور میں انکے مموں کو دباتا ہوا انکی چوت مارتا رہا۔

پانچ  منٹ کی چدائی کے بعد انکی چوت میں ہی فارغ ہوا اور پھر انکے اوپر لیٹ کر ہم لمبی سانسیں لیتے رہے۔ اسکے بعد مجھے وہ اپنے گھر ہی بلاتیں اور ہم سکس کرنے کے ساتھ کام بھی کرتے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد انکو میں نے نئے طریقے سے چودنے کے لیئے انکی گانڈ بھی ماری اور اسکے ساتھ پاکستانی سکس کیا۔ اس نے میری خوشی کی خاطر گانڈ بھی دی اب مجھے سکون ہے کہ اس کی  نا سہی اس کی ماں کی گانڈ مار لی ہے

 

 

 

 

 

  

تکلیف دہ سکس۔نئی کہانیاں

 




سہاگ رات پھدی کی بجائے گانڈ لی

میں یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں مجھے اسکینڈل دیکھنے کا شوق ہے میں بائیس سال کا ہوں اور میں سوک کنٹری کے پاس رہتا ہوں اور ہم تین بھائی ہیں اور ایک بہن ہے میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹا ہوں  اور چھوٹا ہونے کے بے شمار فوائد بھی لیتا ہوں

اور میرے گھر میں امی ابو ہیں یہ بات میں آپ کو اپنے بھائی کی شادی کی بتارہا ہوں جو کہ شادی شدہ ہے اور اس کی شادی ابھی بیس  اکتوبر کو ہی ہوئی ہے اور یہ بات بھی اس کی شادی کی ہے

اس کا نام ارمان ہےاور میں نے اس کی شادی میں وائٹ کلر کی شیروانی پہنی تھی اور ہم سب نے اس کی شادی پر بہت مزہ کیا تھا  کئی لڑکیوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی محاورے کی بات کر رہا ہوں مطلب جب اچانک لائیٹ چلی جاتی ایک لڑکیوں کی ممے چھیڑتا تھا کئی بار گانڈ میں  انگلی بھی دال دیتا تھا بہت مزے ملتے رہے کاش دوبارہ موقع ملے

اور میں تو بہت ہی زیادہ خوش تھا کہ میں اپنے گھر ایک بھابھی لارہا ہوں اور پھر ہم بھابھی کو گھر پر لے کر آئےاور ہم نے ساری رسمیں کرکے بھابھی کو بھائی کے ساتھ ان کے روم میں بھیج دیا تھا

اور پھر ہم سب بھی سونے چلے گئے تھےاور پھر میں پانی پینے کے لئے اٹھا تھا اور پھر میں اپنے روم سے بھائی کے روم کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا تھا شاید مجھے کچھ دیکھ جائے میرے اوپر شیطان ھاوی تھا
اگرچہ مجھے ا سطرح نہٰں کرنا چاہیئے تھا لیکن نا جانے کیوں میرا دل کہتا تھا کہ دیکھو تو سہی پہلی رات کیا کیا ہورتا ہے مجھے تجسس تھااور پھر میں اپنے گھر کے اسٹور میں چلا گیا

اور وہاں سے بھائی کا روم صاف نظر آتا ہے میں وہاں جا کرچھپ گیااور میں نے دیکھابھائی بھابھی بیٹھے باتیں کر رہے ہیں اور پھر بھائی بھابھی کے پاس گئے

اور پھر بھائی بھابھی کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگااور پھر بھائی نے بھابھی کے کِس کرنا شروع کی اور پھر بھائی نے بھابھی کے کپڑے اتار کر بیڈ پر رکھ دیئے  ا سکے ممے دیکھ کے میں حیران رہ گیا

تنے ہوئے ممے کیا شاندار گلابی نپلز اور کیا میک اپ تھا پوری باڈی کا ایک دم پیٹ ساتھ لگا ہوا اور چوتڑ بھرے بھرے بھابھی نے ایک سیکسی لاکٹ اپنی ناف کے ارد گرد باندھ رکھا تھا بھائی نے پوچھا یہ کیا ہے بولی بعد مٰں بتاونگی کیا ہے اور اس کا سیکسی لاکٹ دیکھ کے میرا تو دل کرے ناف میں  منی انڈیل دوں

اور خود بھی ننگا ہوگیاپھر بھی نے بھابھی کے بوب کو اپنے ہاتھ میں لیا اور بھابھی سے کہنے لگاتمہارے بوب بہت پیارے ہیںبہت بڑے بڑے ہیں اور گول گول بھی ہیںمجھے تمہارے بوب بہت اچھے لگ رہے ہیں

اور یہ کہہ کر بھائی نے بھابھی کے بوب کو زبردست زور  سے دبانا شروع کیا اور پھر بھائی نے بھابھی کے بوب کو چوسنا شروع کیااور بہت دیر تک بھائی بھابھی کے بوب کو چوستا رہا

اور پھر بھائی نے بھابھی کے پیٹ پر کِس کیاس کے بعد بھائی نے اپنا ہاتھ بھابھی کی پھدی پر پھیرنا شروع کیا اور پھر اس نے اپنی انگلی اپنی بھابھی کی پھدی میں ڈالی جس پر مھے ایسا لگا جیسے اسکینڈل بھابھی کی آواز نکلی پھر اس نے اپنا سات  انچ کا لمبا لوڑا بھابھی کی گانڈ میں ڈالا

اور پھر اسکینڈل بھابھی کی گانڈ سے خون آنے لگامیں تو بہت پریشان ہو گیا تھا کہ بھابھی کے اتنا خون نکل رہا ہے اور ارمان کو ذرا بھی خیال نہیں ہے اور بھابھی درد کے مارے چیخ رہی تھی

اور کہہ رہی تھی کیا بدتمیزی ہے میں صبح سب کو بتا دونگی کہ تم نے میری گانڈ چودی ے بھائی پاوں پڑ گیا تھا پلیز مت بتانا آئندہ سامنے سے چودوں گا  اور ساتھ ساتھ گانڈ چودتا رہا بہت تیز نکلا تھا بھائی مگر وہاں کوئی بھی بھابھی کی آواز سننے والا نہیں تھا میں تھا بھی تو میں کچھ کر نہیں سکتا تھا

اور بھابھی کے آنسو بھی نکل رہے تھے یہ دیکھ کر مجھے بہت غصہ آرہا تھا اور پھر اس نےبھابھی کو الٹا کیا اور زبردست زور  سے اپنا لمبا لوڑا بھابھی کی پھدی میں ڈالااور زبردست زور  سے اندر باہر کرنے لگا

اور اس نے بھابھی کی پھدی پھاڑ دی تھیپھر اس اسکینڈل بھابھی نے بھائی نے بھابھی کی دونوں ٹانگیں اوپر اٹھائی اوپر اسکینڈل بھابھی کی ٹانگیں بھابھی کے گھٹنوں کو اتنا اوپر کر دیا تھا کہ بھابھی کے گوٹھنے موٹے موٹے اسکینڈل بھابھی بوب سے مل رہے تھے اور دھنا دھن چودے جا رہا تھا

بھابھی کی پھدی خوب بجا رہا تھا لگ رہا تھا کہ اس نے کچھ کھایا ہوا ہے ورنہ بھائی سےا تنی امید نہٰں تھی کہ اس طرح چود سکے گا اور پھر بھائی نے بھابھی کی ٹانگیں پکڑ کراپنا لمبا لوڑا بھابھی کی پھدی میں ڈالا

اور زبردست زور  سے اچھل رہا تھاپھر اس نے ایسے پندرہ منٹ تک کیا  پھر دونوں فارغ ہو گئے اور سکون کے ساتھ لیٹ چکے تھے اور پھر وہ دونوں لیٹ کر باتیں کرنے لگے

اور پھر میں بھی اپنے روم میں جا کر سو گیا  اور مٹھ ماری تھی اور پھر میں نے صبح یہ بات کسی کو نہیں بتائی لیکن اب کئی سال بعد سیکس سٹوری کو شیئر کرنے کا خیال آیا ہے

بڑے لن کے کمال منفرد چدائی کہانی

پچھلے دنوں تو کمال ہی ہو گیا مجھے خود بھی  یقین نہیں  آرہا تھا یہ سب کیسے ہو گیا میرا نام ہے احمد میں آپکو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں ایک سچی کہانی اپنے لنڈ کا کمال تو شروع کرتا ہو اپنی کہانی

ایک بار کا ذکر ہے مجھے موٹھ مرنے کا بہت شوق تھا جب بھی گھر پر اکیلا بور ہوتا تو میں موٹھ مار لیتا تھا یہ بھرپور جوانی کے دنوں کی بات ہے میں نے موٹھ مار مار کر اپنے لنڈ کو کافی لمبا کر لیا تھا جب بھی میں باہر نکلتا کسی لڑکی کو دیکھ لیتا تو میرا لنڈ فوراٌ کھڑا ہوجاتا مانو وہ اتنا لمبا ہوگیا تھا کہ پینٹ سے باہر نکلنے کی کرتا تھا

کئی بار مجھے شرمندگی کے ساتھ کوفت بھی ہوتی تھی جب یہ اس وقت کھڑا ہوجاتا تھا جب میری کزن گھر موجود ہوتیں یا بہن کی سہیلیاں گھر ا سکو ملنے آتی تب یہ لن تن جاتا تھا  اور مجھے ڈسٹرب کرتا تھے

امیں نے سوچا یار کیوں نہ کسی لڑکی کو پکڑا جائے اسے بھی اپنے لنڈ کا کمال دیکھاؤں تو ایک دن کیا ہوا میں گھر پر اکیلا تھا اور اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا میرا چودائی کا بڑا دل کر رہا تھا

میرا لنڈ بھی کھڑا اور میں سوچ رہا تھا کہ اب مٹھ مار ہی لوں گھر خالی ہے کوئی بھی نہیں ہے بس میں زیتون والے تیل کی شیشی ہی پکڑنے کے لیئے اٹھنےلگا تھا

کہ اتنے میں مجھے بیل کی آواز کی سنائی دی میں باہر دروازہ کھولنے گیا تو میری بہن کی دوست کھڑی ہوئی تھی میں ا سکو پہلے بھی دیکھ چکا تھا اس کو دیکھ کے اکثر ا سکی جوانی لوٹنے بلکہ کھا جانے کو من کرتا تھا

لیکن بس نہیں چلتا تھا اسکی عمر تقریباٌ بائیس سال ہوگی کیا فیگر بنایا ہوا تھا اس نے میری نیت اس پر خراب ہوگئی  اور دل میں سوچا کہ اس کو چود کے ہی چھوڑوں گا سالی ہر بار لن کھڑا کر کے چلی جاتی ہے لیکن وہ تو خود بھی سیکس ہنگری تھی اس کا مجھے بعد میں علم ہوا تھا

میں نے اسے اندر آنے کو کہا وہ اندر آئی صوفے پر بیٹھی میں بھی بیٹھ گیا میرا لنڈ اوپر کی طرف ابھرا ہوا تھا وہ بولی کہ نیلم گھر پر ہے میں نے کہا کہ نہیں وہ تو سب کے ساتھ شادی پر گئی ہے

اتنے میں اسکی نظر میرے ابھرے ہوئے لنڈ کی طرف پڑی وہ میرے لنڈ کو دیکھنے لگ گئی  جیسے میرا لن نا ہو بلکہ لالی پاپ ہو اس کی تو مجھے لگا لن دیکھ کے رال ٹپکنے لگی تھی پھر میری طرف دیکھامیں اسے بڑی گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ سمجھ گئی تھی کہ میں اسے کِس نظروں سے دیکھ رہا ہوں

میں جلدی سے اٹھ کر اسکے پاس جاکر بیٹھ گیا میں نے کہا کہ تم بہت خوبصورت ہو او ہم ایک دوسرے کو مزے دیتے ہے کیا تم مزہ نہیں لینا چاہتی ہو اتنا کہہ کر میں اسکے بوبس کو دبانا شروع ہوگیا

یار اس نے مجھے منع بھی نہیں کیا مانو وہ بھی یہی چاہتی تھی اس نے میرے لنڈ کو دیکھا تھا شاید اسی کی وجہ سے اس نے کچھ نہیں کہا مجھے میں اسکے بوبس دبا رہا تھا اسکی آوازیں  نکل رہی تھی اااااہھ

میں اسے اپنے کمرے میں لےگیا بیڈ پر بیٹھا دیا وہ نیچے جھکی میرا لنڈ نکالا اور وہ ایک دم کھڑا ہوا تھا وہ دیکھ کر خوش ہوئی  جیسے کوئی نایاب چیز مل گئی ہو وہ تو مجھ سے بھی زیادہ ایکسپڑت ہو کے چدائی کے لیئے تیار نظر آنے لگی

پھر میری طرف آنکھیں کی اور لنڈ کو چاٹنے لگی پھر اپنے منہ میں ڈال کر چوسنے لگی اُووفففففف ،،،،،یار بڑا سکون مل رہا تھا جب وہ میرے لنڈ کو چوس رہی تھی 10 منٹ تک میرے لنڈ کو چوستی رہی

اور مجھے مزہ آتا رہا پھر میںنے اسے کھڑا کیا اسے بیڈ پر لیٹایا اسکی قمیض اتاری اسکے بوبس چوسنے لگا ہممممممم ،ہمممم پھر اسکی آوازیں نکلی اففففپھرمیں نے بھی اپنی شرٹ اتار دی

پھر اپنی پینٹ بھی اتار دی میرا لنڈ دیکھ کر وہ خوش بھی ہوئی اور گھبرا بھی رہی تھی پھر اسکی شلوار اتاری کیا چوت تھی یار اسکی میں نے لنڈ کو اسکی چوت پر رکھا اور آرام آرام سے اندر باہر کرنے لگا

وہ گھبرا رہی تھی اور ڈر بھی رہی میں نے کہا کہ ڈرو مت کچھ نہیں ہوگا پھر ایک جھٹکے سے لنڈ کو اسکی چوت میں ڈال دیا اسکی چیخ نکلی ااااااہھھھوفففف باہر نکالو میں برداشت نہیں کر پاؤں گی  میں نے لنڈ نکالا  تمہارا لن ہے یا ڈنڈا کیا کھلاتے ہو ا سکو جلدی کرو نکالو اور مجھے پھر نکالنا پڑا

تو اسے سانس آئی میں نے لنڈ کو پھر اسکے منہ میں ڈال دیا پھر کچھ دیر بعد اسکی چوت میں واپس ڈالا اور آرام آرام سے اپنی کمر کو آگے پیچھے کرنے لگا اسکی آوازیں نکلتی گئی اااہھھہ .اُووففف

میں زور زور سے جھٹکے مارنا شروع ہوگیا اسکی چیخیں نکلتی رہی میں ایک گھنٹے تک اسے چودتا رہا پھر جب میری منی نکلنے لگی تب میں نے لنڈ نکالا اور منی اسکے بوبس پر گرا دی

بڑے مزے کی لڑکی تھی یار وہ ایسا مزہ تو میںنے کہیں لیا ہی نہیں تھا وہ بہت چکنی تھی یار اسکے بوبس اُوووفففففففف کیا کمال کے تھے یہ ہوتا ہے لنڈ کا کمال لڑکی کی چیخیں نکلوادی میرے لنڈ نے اور آپ کو میرے لن کی بدولت ہاٹ سٹوری پڑھنے کو ملی

چدائی لڑکی ناراض

م مزے مزے کی کہانیاں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں کبھی میں اس کو نیو سیکس سٹوریز  بہت دلچسپ اندازمیں سناتا ہوں تو وہ اس کو پوسٹ کرتا ہے ہمارا مشغلہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی سیکسی گرم گرم چدائی کہانیاں نیو  سیکس سٹوریز کے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔۔

اور اسی طرح کئی بار ہم نے مل کے گروپ سیکس بھی انجوائے کیا ہے مجھے زاتی طور پہ گروپ سیکس میں لرکی کو چودنا پسند ہے لیکن کیا کروں میرے دوست کو اکیلے تنہائی میں  کسی کو چودنا  اچھا لگتا ہے وہ تنہائی میں کہتا ہے چدائی کا مست مزہ ملتا ہے لیکن میں کیا کروں اگرچہ میں  کئی بار ا سکو کہہ کے مل کے لڑکی چود چکا ہوں

لیکن وہ اپنی باری تنہائی میں لڑکی لے جا کے چودا  کرتا ہے اس کی یہ عادت اچھی نہیں اور نا ہی اچھے دوستوں والی ہے  مجھے سیکس کا بہت کریز ہے اور ا سکو بھی ہے لیکن وہ عجیب لڑکا ہے ا سکو گانڈ چودنے کی عادت ہے وہ گانڈ بھی شاندار چودتا ہے اس سے چدائی لگوا کے لڑکیاں گانڈ دینے کی عادی ہو جاتی ہیں ۔۔

لیکن میں گانڈ کی بجائے چوت میں لن ڈالنا ہی پسند کرتا ہوں گروپ سیکس میں اپنے طور پہ میں چوت میں لن ڈالتا ہوں اور اوپر چڑھ کے چودنے والا گانڈ میں لن ڈالتا ہے لڑکی کی چوت تو نہیں پھٹی لیکن گانڈضرور پھٹ جاتی ہے کیونکہ ہم زیادہ تر گھریلو لڑکیاں چودتے ہٰں جن کو گانڈ چدائی کی عادت نہیں ہوتی جب کہ پروفیشنل لڑکیاں گانڈ چدائی کراتی ہٰں ایک بار میرے دوست  نے گانڈ چودی تھی تب لڑکی کو ایمرجنسی لانا پڑ گیا تھا ا سکی الگ کہانی ہے جس کو میں اگلی بار نیو سیکس سٹوریز  میں پوسٹ کرونگا،،

دوستوں  میرانام فیضان ہے اور میں جاب کرتا ہوں اور میں بھی پاپی ہوں چوت کا اب  میں آپکو اپنے دوست کی پاکستانی سکس کہانی سناتاہوں ،،،،جو کہ میرا بہت اچھا دوست ہے جیسا کہ بتا چکا ہوں لیکن خود غرض اور وہ مجھے اپنی ہر بات بتاتا ہے اور یہ بات ہمارے ایک دوست کی سکس کہانی شادی  کے دوران نئی لڑکی پٹا کے چودنے کی ہے…میرے دوست کا نام کاشان ہے…میں اور کاشان اس شادی میں گئے تھےاور وہاں پر بہت ساری لڑکیاں تھیں میں اور کاشان تو بس لڑکیاں دیکھ رہے تھے.

ہمارا کام ہی لڑکیاں تاڑنا اور پٹا کے ان کی پھدی مارنا ہے لڑکیوں کو بھی لن لینے کی عادت ہو چکی ہے جب سے نیٹ عام ہوا ہے بس ہر ایک کو چوت کی گرمی دور کرانے کی عادت پڑ چکی ہے اور ہمارا کام آسان ہو گیا ہے

ایک لڑکی نے کاشان کو لائن دی اور پوری شادی میں کاشان بھی اس لڑکی کو لائن دے رہا تھا اور آخر میں اس لڑکی نے کاشان کو اپنا موبائل نمبر دیا اور وہ چلی گئی اور کاشان نے اس کو راستے سے لیا جہاں سے وہ اپنے گھر جارہی تھی اور اس کو اپنے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھالیا اور اپنے ساتھ لے گیا اور پھر وہاں جاکر اس نے اس لڑکی کو چود دیا.

کاشان نے اس لڑکی کو کس طرح چودا میں آپ کو بتاتا ہوں…کاشان اس کے ساتھ ایک روم میں گیا،،.اور پھر کاشان اس لڑکی کے قریب گیا ..اور پھر کاشان نے اس لڑکی کے کِس کرنا شروع کی اور پھر کاشان نے اس پاکستانی سکس کہانی والی لڑکی کے کپڑے اتار کر بیڈ پر رکھ دیئے وہ لڑکی پوری ننگی تھی

اور کاشان پھر خود بھی ننگا ہوگیا.پھر کاشان نے اس لڑکی کے بڑے ممے کو اپنے ہاتھ میں لیا اوراس لڑکی سے کہنے لگا…تمہارے ممے بہت بڑے بڑے ہیں اور گول گول بھی ہیں.مجھے تمہارے ممے بہت اچھے لگ رہے ہیں اور پھر کاشان اس لڑکی کے مموں کو زور زور سے دبانا شروع کیا اور پھر اس لڑکی کے مموں سے ہلکا ہلکا پانی نکلنے لگا یہ دیکھ کر کاشان نے اس لڑکی کے بڑے ممے کو چوسنا شروع کیا..

اور بہت دیر تک کاشان اس لڑکی کے بڑے ممے کو چوستا رہا اور پھرنے اس لڑکی کے پورے جسم پر کِس کیاس کے بعد کاشان نے اپنا ہاتھ اس لڑکی کی خوار گرم پھدی پر پھیرنا شروع کیا اور پھر اس نے اپنی ہاتھ کی انگلی اس لڑکی کی خوار گرم پھدی میں ڈالی جس پر اس لڑکی کی آواز نکلی

پھر کاشان نے اپنی زبان اس لڑکی کی خوار گرم پھدی پرپھیری اور کِس بھی کی اور اپنی زبان سے اس کی خوار گرم پھدی پر کِس بھی کی ،اور پھر اس نے اپنا پاکستانی سکس کہانی والا سات انچ کا لوڑااس لڑکی کی چکنی جوانی کی چوت میں ڈالا اور پھر اس لڑکی کی چکنی جوانی کی چوت سے خون آنے لگا وہ نئی چودی گئی تھی  چوت کا خون نکل آیااور اس پاکستانی سکس کہانی والی لڑکی کی درد کے مارے آوازیں نکل رہی تھی

مگروہاں کوئی بھی نہیں تھا.. اور پھر پاکستانی سکس کہانی والے کاشان نے اس لڑکی کو الٹا کیا اور زور زور سے اپنا لوڑا اس لڑکی کی خوار گرم پھدی میں ڈالا..اور زور زور سے اندر باہر کرنے لگا اور پھر اس لڑکی کی خوار گرم پھدی پھاڑ دی تھی..پھر کاشان نے اس لڑکی کی دونوں ملائم کنی ٹانگیں اوپر اٹھائی اتنا اوپر کر دی تھی کہ اس لڑکی کے فولڈ ہونے سے اس کے موٹے موٹے بڑے ممے سے مل رہے تھے

اور پھر کاشان نے اس کی پاکستانی سکس کہانی والی ملائم کنی ٹانگیں پکڑ کراپنا لوڑا اس کی خوار گرم پھدی میں ڈالا اور زور زور سے اچھل رہا تھا پھر اس نے ایسے بیس منٹ تک کیااور پھر وہ اس لڑکی کو گاڑی میں واپس چھوڑ کر چلا گیا اور پھر اس نے اپنا موبائل نمبر بھی بند کر دیا تھا ،اور مجھے وہ لڑکی دوسرے دن بھی نظر نہیں آئی تھی. شائد اس نے چدائی کی کسی حرکت سے ناراضگی بنا لی تھی میرا دوست دوبارہ اس سے کبھی نہیں ملا اور دونوں ایک ہی باری میں  قریب اور دور ہو گئے شائد دونوں ایک دوسرے کی توقعات پہ پورا نہیں اترے تھے نیو سیکس سٹوریز میں اگلی بار پھر ملیں گے

چوت ٹھنڈی کرائی

میرا نام عینی  ہے اور میری عمر بیس  سال ہے میں کالج کی اسٹوڈنٹ ہوں جب سے  میں جوان ہوئی ہوں مجھے لڑکے بہت اچھے لگتے ہیں میرے کالج میں میری کافی سارے دوست بن گئے ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں میری کافی ساروں سے دوستی ہے مجھے کسی کا ہیر اسٹائل اچھا لگتا تو کسی کی باڈی کسی کی ہایٹ تو کسی کے بات کرنے کا اسٹائل

مگر ان میں سے ایک لڑکا  علی مجھے بہت پسند تھا میری پاکستانی چوت بھی بہت پھدکنے لگی تھی اسکی باتیں اسکی باڈی اسکی اسمائل اسکا انداز سب مجھے بہت پسند تھا میں نے اسکا نمبر حاصل کر لیا تھا اور میری اس سے بات چیت بھی شروع ہوگی تھی وہ بھی مجھے پسند کرنے لگا تھا

ایک دن ہم نے ملنے کا پروگرام بنایا میں نے اسے اپنے گھر آنے کا کہا مگر اس نے کہا کے تم میرے گھر آجاؤ میں تمارے گھر نہیں آسکتا. پہلے تو میں نے منع کر دیا مگر میرا اس سے ملنے کا دل چارہا تھا تو میں نے اسے ملنے کے لیے ہاں کہہ دیا
اگلے دن جب میں علی کے گھر گئی تو اسکے گھر می کوئی نہیں تھا علی دروازہ بند کر کے میرے لیے جوس لینے چلا گیا میں نے جوس پی کر گلاس سائیڈ میں رکھا اور علی کو اپنے پاس بلایا اسکی شرٹ کے بٹن آہستہ آہستہ کھولنے شروع کیے اور اسی طرح میں نے علی کی پوری شرٹ اتاردی

اسکی باڈی اتنی سیکسی تھی کہ دل کر رہا تھا اسکو دیکھتے رہوپر میں نے اسکو کس کرنا شروع کر دیا اسکی باڈی پر اور علی آرام  سے چپ چاپ کھڑا رہا وہ کچھ نہیں کر رہا تھا بس اس نے مجھے پیچھے سے پکڑا ہوا تھا سب کچھ میں خود ہی کر ری تھی

پر میں نے اسکے ہونٹوں کو کس کی پر علی نے مجھے کہا کہ اگر تمہیں سیکس ہی  کرنا ہے تو اپنے کپڑے تو اتارو پر میں نے اسکے کہنے پر اپنے کپڑے بھی اتار دئے تھے اور پھر علی بھی مجھ کو  کو کس کر رہا تھا وہ مجھے کہہ بھی رہا تھا
تمہارے ساتھ سیکس کرنے میں جو مزہ آرہا ہے وہ کبھی کسی اور کے ساتھ کرنے میں نہیں آیا

اور تم بہت خوبصورت ہو میں نے بھی علی کو بتادیا کہ جو مزہ تمہارے ساتھ آرہا ہے وہ اور کسی کے ساتھ نہیں وہ مزہ نہ کاشف کے ساتھ تھا نہ جاوید کے ساتھ تھا نہ  اسلم کے ساتھ نہ ہی زبیر کے ساتھ تھا لیکن علی میری باتیں نہیں سن رہا تھا

اس نے ٹائم دیکھا تو بہت زیادہ ہورہا تھا علی کے گھر والوں کے آنے کا ٹائم ہورہا تھا اس نے مجھے جانے کے لیے کہا مگر میرا دل نہیں چارہا تھا گھر جانے کو میرا دل اور سیکس کرنے کا چارہا تھا  مگر جانا تو تھا اس لیے میں گھر واپس چلی گئی

اسکے بعد میرا چدنے کا موڈ بننے لگا اور میں پھر سے چدنے کے لیئے مختلف لوگوں کو پٹا کر چدنے لگی ایسی چدائی لگانے سے میری ہر جسمانی خواہش پوری ہو رہی تھی۔ میری پاکستانی چوت ایک رنڈی کی طرح چد کر مزہ لیتی تھی

میرا کام ہی سیکسی چدائی کہانی پڑھنا شیئر کرنا ہے میری ایک دوست ہے ا سکی بات کرنا چاہوں گی  مزیدار ہے سہاگ رات نہ ہو سکی میری فرینڈ جس کا نام روپا گرم لڑکی ہے اس سے میں ہر بات کرتی ہوں اسکو میں نے اپنے دل کا حال بتایا تو اس نے مجھے کہا کوئی مسلئہ نہیں ہے پہلے میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا

لیکن میں نے اپنے جسم کی پیاس بجھانے کے لئے ایک طریقہ نکال لیا تم بھی وہی کرو کسی اور سے چودوا لو اور گرم مزہ لو میں نے منع کیا رات میں جب بستر پر لیٹی تو میرا جسم آگ ہو رہا تھا اور مجھے اپنا پرانا ٹھوکو یاد آگیا جھٹ سے میں نے فون اٹھا یا اور اسکو کال کر کے بلا لیا رات کے کوئی ایک بجے وہ میرے گھر آیا

میں پوری طرح سے تیار بیٹھی تھی اور وہ ملتے ہی مجھے کس کرنے لگا آہستہ آہستہ مزہ آنے لگا میں اس کو بیڈ پر لائی وہاں اس نے مجھے لیٹا کر میرے اوپر آگیا اور کہنے لگا کچھ یاد آرھا ہے میں نے کہا باتیں بعد میں کرنا یہ سن کر وہ اور جوش میں آگیا

پھر وہ میرے ہونٹ چوستے ہوے میری ٹانگوں کے بیچ میں سہلانے لگا اور مجھے آوٹ آف کنٹرول کردیا میرے سارے کپڑے اتار کر پھینک دیئے اور میرے بوبس چوسنے لگا دبا دبا کر میرے بوبس لال کردیئے میرے پورے گرم جسم پر پیار کرنے لگا

میری چوت رگڑ رگڑ کر مجھے جھاڑ دیا پھر جب وہ ننگا ہوا تو اسکا لنڈ دیکھ کر میری آنکھیں باہر کو آگئی پہلے سے زیادہ لمبا موٹا لگ رہا تھا میرا منہ تو خود ہی کھل گیا اور اس نے فٹافٹ میرے منہ میں دیا اور زور زور سے جھٹکے دینے لگا پھر میں آرام سے چوسنے لگی مجھے نیچے لیٹا کر وہ میری چوت چاٹنے لگا

بہت مزہ آرہا تھا پھر اس نے میری چوت میں اپنا لنڈ جھٹکے سے ڈالا اور میری سانسیں تیز ہوگئی وہ مجھے پتا نہیں کتنا ٹائم چود تا رہا کرتے کرتے مجھے جھاڑ دیا میں اپنے جسم کو ہلکا محسوس کر رہی تھی اور وہ مجھے اٹھا کر اچھالنے لگا مزہ بڑھتا گیا

نیچے جھکایا اور زور زور سے جھٹکے دیئے پھر اس نے کہا اب پیچھے ڈالو گا میں نے منع کیا مگر وہ نہیں مانا میں بھی بے بس تھی اور اس نے ذرا سا تھوک لگا یا آرام سے پیچھے کے سوراخ میں ڈالنے لگا درد ہو رہا تھا نہ نہ کر رہی تھی اندر ہی جا رہا تھا جب پورا اندر آگیا تو نکالنے سے منع کردیا

آہستہ آہستہ سے وہ تیز ہو گیا اور جھٹکے مار مار کر میری گانڈ میں چھوڑ گیا رات بھر بہت مزہ آیا اب میرا شوہر نہیں آئے تو اچھا ہے پورا چودو ہے اچھا سبنھال لیتا ہے.یہ بات جب میں اپنی فرینڈ کو بتائی تو اسکو بھی اچھا لگا اور پھر ہم بہت بار چدائی لگانے لگے ایسی گرم جوانی کا گرم لڑکی سکس بہت لش ہے۔ کوئی بات نہٰں اگر میری سہاگ رات کو شوہر اچھا نہیں چود سکا میرا ٹھوکو جو آگیا ہے

جوانی کی مست چدائی

کئی بار ہم اپنی زندگی خود ہی برباد کر دیتے ہیں یہ کہانی دیسی لڑکی کی ہے اس کی وجہ ہماری اپنی بے وقوفی ہوتی ہے سیکس کی بھی ھد ہوتی ہے لیکن کئی لڑکیاں میں نے ایسی بھی دیکھی ہیں جو اپنی زندگی کود ہی برباد کر لیتی ہیں  اور والدین کو الزام دیتی ہیں یا معاشرے کے لوگوں کو لیکن قصور دراصل ان کا اپنا ہی ہوتا ہے  مجھے ایسی ہی ایک کہانی آپ کے ساتھ شیئر کرنی ہے خاص طور پہ یہ کہانی مٰں ان لڑکیوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا جو بیک وقت کئی کئی لڑکوں سے چدائی لگواتی رہتی ہیں اور ان کو معلوم نہیں ہوتا

کہ ا سکے کس قدر نقسانات ہونگے انگریز سیکس فری لائف گزارتے ہیں لیکن ان کے بھی اصول ہوتے ہیں  جب  ان کا دل ایک لڑکی سے بھر جائے یا لڑکی کا مرد سے دل بھر جائے تو وہ اپنی راہ الگ کر لیتے ہیں ایسا وہ بھی نہیں کرتے کہ کہنے کو تو ایک سے دوستی ہو لیکن حالات اس کے برعکس ہوں چودنے والے کئی بن جائیں میری ایک دوست تھی میری گلی میں  ہی رہتی تھی  بلکہ تھی نہیں ایک ثوبیہ نام کی دیسی لڑکی رہتی ہےکیونکہ  ابھی اس بات کو کچھ ہی عرصہ ہوا ہے ور اسے گلی کے فالتوں لڑکوں میں بہت انٹرسٹ ہے اور اپنے گھر پر لڑکوں کو بلا کر غلط کام کرواتی ہے

مجھے یہ بات اس نے خود بتائی ہے  اس کو چدائی لگوانے کے بعد اس کو چھپانے کی بجائے بڑے فخر سے اس کو بتانے کی عادت ہے مرد کو یہ بات گوارا نہٰں ہوتی کہ وہ اپنی دوست کی چدائی کی باتیں سنتا پھرے وہ بھی اس کی دوست کی زبانی بھلا اس میں شک کیا رہے گا وہ مجھے مزے سے سیکس کہانی سناتی  ہے کیوں کہ وہ میری بہت اچھی دوست رہ چکی ہے، پر اب ہم دوست نہیں ہیںجب سے وہ ان غلط کاموں میں پڑی ہے

میں نے بات کرنا چھوڑ دیا ہے، ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ وہ گلی کے لڑکے سلیم کو گھر پر بلایا اور اسکے ساتھ بہت مزے کئے آج سلیم جب گھر پر آیا تو گھر پر کوئی نہیں تھا بس ہم دونوں اور پھر وہ سلیم کو اپنے کمرے میں لے گئی اور اپنے دیسی لڑکی  اسٹائل  والے کپڑے اتار دیئے پھر سلیم نے بھی اپنے کپڑے اتار دیئے اور ایک دوسرے کو چومنے لگے پھر سلیم نے دیسی لڑکی ثوبیہ کے نیچے اپنی انگلی کے ساتھ سیکس کرنا شروع کیا

اور وہ چکنی جوانی کی مست آوازیں نکالنے لگی  یہ کہانی اس نے خود مجھے بتائی جس کو میں راوی کے طور پہ بیان  کر رہا ہوں اور پھر جب وہ مدہوش ہو گئی تو اس نے اپنا خوار ہاتا لوڑا اسکے اندر ڈال دیا اور وہ مزے سے اوپر کبھی نیچے ہونے لگا پھر کچھ دیر بعد وہ اسکے چوت کے اندر ہی فارغ ہو گیا اور اپنے گھر چلا گیا ثوبیہ ہر روز ایک لڑکے کو گھر بلاتی اور ایسا کرواتی

کچھ دن بعد دیسی لڑکی ثوبیہ کے گھر والوں کو یہ سب پتا چل گیا اور اسے بہت مارا کچھ دن تو ثوبیہ شریف بنی رہی اب اس نے نقاب والا برقعہ اوڑھنا شروع کر دیا تھا لیکن اندر اس کے ابھی بھی شیطانی تھی جس کو ابھی ختم نہٰں ہونا تھا اس کی چدائی جب تک آٹھ انچ لن والا مرد فل زور سے آگے پیچھے سے نہیں چود لیتا کبھی کتم نہٰں ہو گی محلے کے ٹین لڑکے ان کی للی چھوٹی ہوتی ہو گی جس سے ا سکا کچھ نہٰں بنتا تھا اور پھر اس نے یہ سب شروع کر دیا پر اب وہ گھر پر نہیں بلاتی تھی بلکہ خود باہر جاتی تھی

اور پھر اس نے ویب کیم پر یہ سب شروع کر دیا اور غلط غلط چیزیں استعمال کرنے لگی اس نے ایک کھیرا لیا اور اسے خوار ہاتا لوڑا کے طور پر استعمال کرنے لگی اور پھر کبھی اپنی انگلی کا استعمال کرتی اور پھر ایک دن اسکی دوستی ایک لڑکے سے ہوگئی اور وہ لڑکا اسے اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا اور وہاں جا کر ثوبیہ نے وہ ہی سب کیا جو وہ ہر لڑکے سے کرواتی تھی اس نے لڑکے کپڑے اتروا کر اسکے خوار ہوتا لوڑا کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی اور وہ لڑکا اسکے لش نرم دودھ کو دباتا رہا اور پھر اپنا خوار ہاتا لوڑا اسکے اندر ڈال دیا اور اسکے اوپر نیچے ہونے لگا اور ثوبیہ تو لیٹی رہی اور سیکس کا مزہ لیتی رہی.

پھر دیسی لڑکی ثوبیہ اسکے اوپر بیٹھ گئی اور اور اسکا خوار ہاتا لوڑا اپنے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے اندر ڈالنے لگی  اس لڑکے نے کریم اور پلز کھا کھا کے لوڑا بڑا بنایا ہوا تھا اور باڈی بلڈر لڑکا تھا اس نے کئی کنواریوں کی پھدی پہلے بھی پھاڑی ہوئی تھی اس کو پھدی کلر کہتے تھے سب لوگ وہ ا سکے اب ہتھے چرھ گئی تھی ا سنے کوب چود چود کے لا ل بھوسڑا  پھدہ بنا دیا تھا اب اس کی گرمی کم ہوئی تھی  ا سنے گانڈ بھی چودی تھی اور گانڈ سے کون نکل آیا تھا اس نے تو اس لڑکی کی پہلے شہرت سن رکھی تھی تب ہی تو ا سنے ایک دن پکا پروگرام بنا کے جب کوئی مسئلہ نا ہو سکے رات بھر اس کو چودا تھا کال گرل سمجھ کے پھدی لیتا رہا اب وہ آنٹی کی طرح بن گئی تھی

اور اسکے اوپر نیچے ہونے لگی اور دیسی لڑکی چکنی جوانی کی مست آوازیں نکالنے لگی دل چاہتا ہے کہ میرے قریب سے ہٹو ہی نہیں بس کرتے ہی رہو کرتے ہی رہو پھدی پھٹ گئی لیکن ہوس ختم نا ہوئی اور پھر وہ کچھ دیر بعد اپنے گھر آگئیلڑکھڑاتے قدموں سے اور پھر ایک دن اسکے گھر والوں کو پتا چلا کہ ثوبیہ ابھی بھی کچھ غلط کر رہی ہے  اور ا سکی سہیلی ایل ایچ وی نے بتا دیا کہ ا سنے تو حمل بھی گرایا ہے تو اسکے ابو نے اسے اتنا مارا کہ اسکا ہاتھ ہی ٹوٹ گیا اور ثوبیہ ہمیشہ کے لے اپنے گھر میں قید ہو کر رہ گئیہ تھی میری دوست ثوبیہ کی کہانی جس نے اپنی ہوس کے لیے اپنی دیسی لڑکی  سادہ لڑکی والی زندگی کو برباد کر کے رکھ لیا ہے