SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

جمعہ، 3 جون، 2022

GET PAID PDF NOVELS FREE(JUST SIGN UP WITH STUDYPOOL AND DOWNLOAD FREE NOVEL)مفت پی ڈی ایف ناول ڈاونلوڈ کریں

 





























شرارتی بہن

فری ڈاون لوڈ


romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels list

urdu bold novels pdf

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

bold romantic urdu novels kitab nagri

hot and bold urdu novels pdf

urdu bold novels amazon

urdu bold novels and stories

بدھ، 1 جون، 2022

اُف!اُف

 


اُف!اُف

میرا نام انیتا ہے اور میری عمر 33 سال ہے جبکہ میرے شوہرکرشن کی عمر بھی میرے جتنی ہے ہم ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ہم لوگ کراچی کے رہنے والے ہیں لیکن تقریباً تین سال پہلے ہم لوگ لاہور میں شفٹ ہوگئے اور یہاں پر ایک پوش ایریا میں رہتے ہیں ہمارا کوئی بھی بچہ نہیں ہے گھر میں اکثر اوقات فارغ وقت نیٹ پر بیٹھی رہتی ہوں کافی عرصہ سے میں نیٹ پر دیسی سیکس سٹوریاں پڑھ رہی ہوں جن کو پڑھ کر مجھے بھی شوق پیدا ہوا کہ میں بھی اپنا ایک واقعہ نیٹ کے دوستوں کی نظر کروں جس پر میں نے باقاعدہ اپنے شوہر سے بھی بات کی اور ان کی اجازت کے بعد میں یہ واقعہ تحریر کررہی ہوںیہاں میں یہ بات بھی بتا دوں کہ ہم دونوں میاں بیوی کے درمیان بہت انڈر سٹینڈنگ ہے اور ہم میاں بیوی کے علاوہ بہت اچھے دوست بھی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ تمام معاملات پر بات کرلیتے ہیں

تین سال پہلے میرے شوہر نے اپنا کاروبار لاہور میں شفٹ کرلیا تو ہم لوگ یہاں ہی شفٹ ہوگئے اور یہاں ایک پوش ایریا میں مکان لے کر رہنے لگے ہمارے پڑوس میں ایک مسلمان جوڑا رہتا ہے عورت جس کا نام سونیا کی عمر 30 یا 32 سال ہوگی جبکہ اس کے خاوند(اشرف ) کی عمر 35 یا 36 سال ہوگی ہم لوگ جب شام کو آ
ٹنگ کے لئے نکلتے تو وہ بھی اسی وقت نکلتے تھے جس کے باعث ان لوگوں کے ساتھ ہماری اچھی علیک سلیک ہوگئی اور ہمارا ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا شروع ہوگیا اس جوڑے کا بھی کوئی بچہ نہیں ہے اشرف کسی سرکاری محکمہ میں کسی اعلی عہدے پر فائز ہے میں جس جگہ رہتی ہوں اس جگہ کا نام اس لئے نہیں لکھ رہی کیونکہ لاہور میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے بہت ہی قلیل تعداد میں لوگ رہتے ہیں اگر میں اس علاقے کا نام لکھ دوں تو اس سے ہماری شناخت فوری طورپر ممکن ہوسکتی ہے جس کے لئے میں دوستوں سے پیشگی معذرت خواہ ہوں اس سٹوری میں میں نے تمام افراد کے نام بھی فرضی لکھے ہیں جبکہ دیگر تمام حالات اور واقعات حقیقت پر مبنی ہیں
سونیا کافی اٹریکٹو خاتون ہیں انہوں نے خود کو اس طرح سے سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ اصل عمر سے کم از کم 5 یا 6 سال کم معلوم ہوتی ہیں اکثر اوقات گھر میں کرشن اس خاتون کا ذکر کرتے رہتے ہیں خاص طورپر بستر پر وہ خصوصاً اس کا ذکر کرتے ہیں شروع شروع میں ایک دو بار انہوں نے مجھ سے بستر پر لیٹے لیٹے سونیا کے بارے میں ذکر کیا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اگر اس کے ساتھ سیکس کا موقع مل جائے تو بہت مزہ آئے گا پہلے پہل میں نے کرشن کے منہ سے سونیا کا ذکر سن کر اس کو اگنور کردیا لیکن جب وہ باقاعدگی سے اس کا ذکر کرنے لگے تو مجھے تشویش ہوئی اور میں ان سے ناراض بھی ہوئی لیکن وہ باز نہ آئے جس پر میں نے احتجاج کرنا چھوڑ دیا اور ان کی باتوں پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہماری شادی شدہ زندگی بہت مزے کی گزر رہی تھی اس دوران ہمارا پڑوس والے گھر میں آنا جانا اس حد تک بڑھ گیا کہ ہم لوگ اکثر شام کا کھانا اکٹھے کھاتے یا وہ لوگ ہماری دعوت کرتے یا ہم لوگ ان کو اپنے گھر بلا لیتے دن کے اوقات میں بھی یا میں سونیا کے پاس ہوتی یا وہ میرے گھر میں میرے پاس ہوتی کئی بار ایسا ہوا کہ ویک اینڈ پر اشرف اور کرشن ڈرنک بھی کرلیتے جس کا میں نے یا سونیا نے کبھی بھی برا نہیں منایا تھا ایک روز اشرف اور سونیا نے ہمیں اپنے گھر پر دعوت پر بلایا اور دونوں مرد حضرات ڈرنک کرنے لگے جبکہ میں اور سونیا ان کے پاس بیٹھی باتیں کرتی رہی اس دوران اچانک رام لال نے ایک گلاس میں تھوڑی سی شراب ڈال کر میری طرف بڑھا دی میں تھوڑا سا ہچکچائی لیکن پھر ان کے اصرار پر پکڑ کرپی لی میں چونکہ پہلے بھی کئی بارکرشن کے ساتھ پی چکی تھی اس لئے آسانی سے اسے پی لیا اور پھر سونیا کی طرف متوجہ ہوگئی ایک لمحے بعد ہی اشرف نے بھی ایک گلاس سونیا کی طرف بڑھا دیا سونیا نے صاف انکار کردیا لیکن اشرف اسے کہنے لگا جب انیتا پی سکتی ہے تو تم کیوں نہیں اس پر میں نے اورکرشن نے بھی پکڑ لو پکڑ لو کچھ نہیں ہوتا کہا تو سونیا نے ہچکچاتے ہوئے گلاس پکڑ لیا اور اس کو منہ کے ساتھ لگانے لگی اور پھر گلاس پیچھے ہٹا لیا ایک لمحے بعد اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور گلاس منہ کو لگا لیا جب اس نے دو گھونٹ شراب پی کر گلا س منہ سے ہٹایا تو بری طرح کھانسنے لگی خیر یہ مقدار اس قدر زائد نہ تھی کہ مجھے یا سونیا کو کچھ اثر ہوتا لیکن اشرف اور کرشن تین تین چار چار گلاس چڑھا چکے تھے اور ان کو کافی حد تک چڑھی بھی ہوئی تھی اور وہ زور زور سے ہنس ہنس کر اونچی آواز میں باتیں کررہے تھے ان دونوں نے ایک دم کسی بات پر زور سے قہقہہ لگایا تو ہم دونوں خواتین بھی ان کی طرف متوجہ ہوگئیں اور ان کی باتیں سننے لگیں اسی دوران اچانک اشرف نے کرشن سے کہا کہ تم نے کبھی دیسی بلیو فلم دیکھی ہے اس پر اشرف نے جواب دیا
ہاں کئی بار دیکھیں ہیں اور دیسی فلموں کو دیکھنے سے انگریزی فلموں کی نسبت زیادہ مزہ آتا ہے
اشرف: یہ کہاں سے ملتی ہیں یار میں نے تو کئی بار کوشش کی کہ کہیں سے دیسی فلم مل جائے مگر مجھے نہیں ملی
کرشن: اب تو ہر جگہ سے آسانی سے مل جاتی ہیں
اشرف : یار میں کل ہی کہیں سے لاتا ہوں
کرشن: اگر تم نے دیکھنی ہو تو میرے پاس گھر پر کئی دیسی فلمیں پڑی ہیں تم مجھ سے لے لو
اشرف: دے دینا یار میں تم کو دیکھ کر واپس کردوں گا
کرشن: ہاں کل تم لے لینا اور اگر ابھی کہو تو میں ابھی بھی دے سکتا ہوں
اشرف: یار ابھی دے دو
کرشن: میں ابھی لا دیتا ہوں
یہ کہہ کرکرشن نے اشرف کو ساتھ لیا اور گھر سے باہر نکل گئے جب چند منٹ کے بعد واپس آئے تو اشرف کے ہاتھ میں چار پانچ سی ڈیز تھیں یہ بات بھی میں یہاں بتا دوں کہ میں اورکرشن کئی بار اکٹھے بیٹھ کر بلیو فلمیں دیکھ چکے تھے یہاں آنے کے بعد اشرف نے کہا کہ کیوں نہ آج ہم لوگ اکٹھے بیٹھ کر بلیو فلم دیکھ لیں کیونکہ سونیا نے بھی کبھی دیسی بلیو فلم نہیں دیکھی اس پرکرشن نے کہا کہ ہم کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے مگر آپ اور سونیا راضی ہوں تو اس پر ہم سب سونیا کی طرف دیکھنے لگے جس نے انکار میں سر ہلا دیا تو اشرف نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے تم دونوں خواتین چائے بناکر لا
ہم دونوں بیٹھ کر دیکھ لیتے ہیں یہ کہہ کر اشرف کرشن کو لے کر اپنے بیڈ روم میں چلا گیا کیونکہ ان کا وی سی ڈی اور ٹی وی ان کے بیڈ روم میں تھا اور ہم دونوں خواتین کچن میں چائے بنانے چلی گئیں کچن میں جاکر ہم دونوں چائے بنانے لگیں یہاں میں نے سونیا سے کہا کہ ہم سب قریبی دوستوں میں بیٹھ کر فلمیں دیکھنے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے سونیا پہلے ہی شائد اس کے لئے تیار تھی معلوم نہیں پہلے کیوں انکار کردیا میری باتیں سن کر راضی ہوگئی ہم لوگ چائے لے کر کمرے میں پہنچے تو ٹی وی پر بلیو فلم چل رہی تھی ہمارے پہنچنے پر اشرف نے فلم بند کردی وہ دونوں مرد صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ہم نے چائے رکھی اورچائے پینے لگے میں نے یہاں اشرف اور کرشن کو بتایا کہ سونیا بھی اکٹھے فلم دیکھنے پر راضی ہوگئی ہے جس پر اشرف اور کرشن نے بہت خوشی کا اظہار کیا جس پر سونیا نے کہا کہ فلم چائے پینے کے بعد پینے کے بعد لائٹ بند کرکے دیکھیں گے جس پر اشرف نے کہا منظور ہے چائے پینے کے بعد سونیا اٹھ کر بیڈ پر چلی گئی جبکہ میں اور کرشن صوفے پر بیٹھے رہے اشرف نے اٹھ کر لائٹ بند کی اور پھر بلیو فلم آن کردی فلم میں بیک گرانڈ میوزک نصیبو لال کا گانا ”ایویں رسیا نہ کر میری جان سجنا“لگا ہوا تھا فلم دیکھتے دیکھتے اچانک رام لال نے مجھے کسنگ شروع کردی فلم میں دو مرد اور دو عورتیں آپس میں ایک ہی کمرے میں چدائی کررہے تھے تقریباً دس منٹ فلم چلی ہوگی کہ اشرف کی آواز آئی ”کیوں کرشن تم لوگ بھی وہی کچھ کررہے ہو جو ہم لوگ کررہے ہیں“رام لال نے جواب دیا ”ہاںہم لوگ یہ شو دیکھ کر اپنے آپ کو کس طرح روک سکتے ہیں ہم لوگ وہی کچھ کررہے ہیں جو فلم میں چل رہا ہے
اس پر اشرف نے کہا کہ ہم بھی وہی کررہے ہیں کیا تم لوگ صوفے پر تنگ تو نہیں ہورہے اگر صوفے پر تنگ ہورہے ہو تو یہاں بیڈ پر آجا
اگر ہم سب ایک ہی کام کررہے ہیں تو ایک ہی بیڈ پر کرنے میں کیا حرج ہے
اشرف کی بات پر کرشن نے مجھ سے پوچھا کہ سونیا کی بغل میں لیٹ کر چدائی کرانے میں تم کو کوئی اعتراض تو نہیں جس پر میں نے کہا نہیں مجھے اس میں کیا اعتراض ہوسکتا ہے
خیر کرشن نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بیڈ کی طرف چل دیا بیڈ کے کنارے پر کھڑے ہوکر میں نے اور کرشن نے اپنے کپڑے اتاردیئے جبکہ میں بیڈ پر ٹی وی کی لائٹ میں دیکھ رہی تھی کہ سونیا اور اشرف پہلے ہی ننگے لیٹے ہوئے ہیں سونیا نیچے ہے اور اشرف اس کے اوپر لیٹا ہوا ہے اشرف اور سونیا ہمیں قریب دیکھ کر بیڈ کے ایک طرف ہوگئے اور ہمارے لئے جگہ بنا دی کرشن نے مجھے سونیا کے پاس بیڈ پر لٹا دیا اور خود بھی اوپر آگیا جیسے ہی ہم لوگ یہاں لیٹے اشرف اٹھا اور جاکر کمرے کی لائٹ آن کردی اور واپس بستر پر آگیا ہم چاروں ایک دوسرے کو ننگے دیکھ رہے تھے اور ایک ہی بیڈ پر تھے اشرف اور سونیا دونوں کے جسم گورے چٹے تھے اور کافی خوب صورت لگ رہے تھے سونیا کے ممے کافی بڑے اور ان پر نپلز بھی کافی موٹے تھے اس کے چوتڑ بھی کافی بڑے تھے اس کی چھوٹی چھوٹی جھانٹیں (نیچے کے بال) تھیں جن میں سے اس کی چوت صاف دکھائی دے رہی تھی لگتا تھا کچھ دن پہلے ہی ان کی صفائی کی گئی تھی میں نے نوٹ کیا کہ کرشن کھا جانے والی نظروں سے سونیا کو جبکہ اشرف ایسی ہی نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہے اشرف اور کرشن کے لن سائز میں تقریباً ایک جیسے ہی تھے لیکن رام لال کی موٹائی تھوڑی سی زیادہ تھی ایک دو منٹ تک ہم لوگ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر اشرف نے اپنے ہاتھ سے اپنے لن کو سونیا کی پھدی پر سیٹ کیا اور اسے تھوڑی دیر رگڑنے کے بعد ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ ہی اس کو جڑ تک سونیا کی پھدی میں ڈال دیا سونیا کے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آواز آئی یہ دیکھ کر کرشن نے بھی دو زور زور کے جھٹکے دیئے اور اپنا لن میری پھدی کے اندر پہنچا دیا اس کے بعد دونوں ایک ساتھ ہی جھٹکے مارنے لگے جس سے ہم دونوں خواتین کے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ اف اور زیادہ زور سے اور زور سے آہ ام م م م م اف ف ف ف آہ ہ ہ ہ کی آوازیں نکل رہی تھیں جبکہ دونوں مرد ہماری آوازیں سن کر مزید تیز جھٹکے ماررہے تھے سونیا کی آنکھیں بند تھیں اور اس کی زبان اس کے ہونٹوں کے اوپر پھر رہی تھی جبکہ میں کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہی تھی یہاں میں نے نوٹ کیا کہ اشرف اورکرشن اپنی اپنی بیویوں کو چود رہے تھے لیکن ان کی نظریں دوسرے کی بیویوں پر تھی دونوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ دوسرے کو ہٹا کر اس کی بیوی کے اوپر چڑھ جائیں شائد دونوں چاہتے یہی تھے لیکن ان کی ہمت نہیں پڑھ رہی تھی میں کرشن کے ہر جھٹکے پر اپنی کمر اٹھا کر اس کا ساتھ دے رہی تھی جبکہ سونیا بھی میری بغل میں لیٹی ہوئی ایسے ہی کررہی تھی دو مردوں کے ایک ساتھ جھٹکوں سے بیڈ بھی ہل رہا تھا اور اس میں سے چوں چوں ں ں ں ں کی آوازیں آرہی تھیں جس سے کمرے کا ماحول مزید سیکسی ہورہا تھا جبکہ بلیو فلم بھی چل رہی تھی جس کو اب کوئی بھی نہیں دیکھ رہا تھا فلم کا بیک گرا
نڈ میوزک اب بھی ”ایویں رسیا نہ کر میری جان سجنا“ چل رہا تھا میں نے چداتے ہوئے اچانک سونیا کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو ہلکے سے دبایا جس پر سونیا نے بھی گرم جوشی دکھائی اور میرا ہاتھ دبایا اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی کمر کو اوپر اٹھایا اور ہلکے سے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اب حالت یہ تھی کہ میرے اور سونیا کے کندھے آپس میں ملے ہوئے تھے اور اشرف کے جھٹکے کے ساتھ سونیا کا جسم ہلتا تو میرا جسم بھی ہلکا سا ہلتا جبکہ دونوں مردوں کے جسم بھی آپس میں ٹکرارہے تھے کچھ لمحے بعد اشرف نے اپنا ایک ہاتھ میرے پیٹ پر میری چوت کے تھوڑا اوپر رکھ دیا جس کے بعد کرشن نے چدائی روک کر اپنے ہاتھ سے سونیا کے ممے کو پکڑ کر تھوڑا سا دبایا اور پھر سے مجھے جھٹکے دینے لگا مجھے اپنے پیٹ پر اشرف کا ہاتھ بہت اچھا لگ رہا تھا اس کے بعد کرشن نے بھی اپنا ہاتھ بڑھایا اور سونیا کی پھدی کے پاس رکھا اس کا ہاتھ سونیا کی جھانٹوں پر لگ رہا تھا دونوں مردوں کی طرف سے دوسرے کی بیویوں کو ہاتھ لگانے سے کمرے کا ماحول مزید سیکسی ہوگیا اور ہم میں ایک نیا جوش پیدا ہوگیا تھا دونوں مرد مزید زور سے جھٹکے ماررہے تھے اور ہم دونوں خواتین اپنی کمیریں مزید اوپر اٹھا اٹھا کر ان کا ساتھ دے رہی تھیں

چدائی کے دوران اچانک کرشن نے مجھ سے کہا ”انیتا کیا ارادہ ہے کیا تم اشرف کے لن سے چدوانا چاہو گی کیا یہ نیا مزہ لینا چاہتی ہو
میں اس کی بات سن کر سمجھ گئی کہ اب وہ سونیا کی چوت لینا چاہتا ہے اس لئے وہ مجھے دوسرے کے حوالے کرنا چاہتا ہے میں نے اس کو جواب دیا
کرشن آج میری چوت اتنی گرم ہے کہ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مجھے کون چود رہا ہے مجھے صرف لن چاہئے جو میری گرمی کو دور کردے اس وقت میں اپنی چوت کی کھجلی سے بہت پریشان ہوں میں جلدی سے جلدی چھوٹنا چاہتی ہوں
میری بات سنتے ہی کرشن نے جھٹکے مارنا بند کردیئے اور اشرف کی طرف دیکھنے لگا جس نے پہلے ہی جھٹکے مارنا چھوڑ دیئے تھے اور ہماری طرف دیکھ رہا تھا کرشن نے اشرف سے کہا کہ کیا تم اس وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میری بیوی کی چوت میں اپنا لن ڈال کر ایک نیا مزہ لینا چاہتے ہو
کرشن کی بات سن کر اشرف نے سونیا کو دو تین زور زور سے جھٹکے دیئے اور بولا میں تو کبھی سے تمہاری سانولی سلونی بیوی کو چودنے کے خواب دیکھ رہا ہوں مگر اگر سونیا بھی تیار ہوتو میں اس کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا
اب میرے سمیت تمام لوگ سونیا کی طرف دیکھنے لگے میں نے ہلکے سے سونیا کا ہاتھ دبا دیا اور اس کے کان میں کہا کہ تمہارا اس ایڈونچر کے بارے میں کیا خیال ہے تو سونیا تھوڑی دیر اشرف کے گلے میں ہاتھ ڈال کر اس کی طرف دیکھتی رہی پھر بولی کیوں نہیں جب سب لوگ تیار ہیں تو میں کیوں پیچھے ہٹوں میں بھی آج کسی غیر مرد کے لن سے چدوانے کا مزہ لیتی ہوں سونیا کی بات سنتے ہی کرشن کا لن مزید سخت ہوگیا جس کو میں نے محسوس کیا کہ اس کی موٹائی میں مزید اضافہ ہورہا ہے اس کی بات سن کر اشرف نے اور کرشن نے ہماری پھدیوں سے اپنے اپنے لن نکال لئے اشرف بولا کرشن ہم اب اپنی اپنی بیویاں بدل کر مزہ لیتے ہیں اشرف میری طرف اور کرشن سونیا کی طرف بڑھ گیا اشرف نے اپنے لن کو پکڑ کر میری پھدی کے ہونٹوں پر رکھا اور ایک زور دار جھٹکا دیا اور اس کا لن جڑ تک میری پھدی میں چلا گیا اس کی چھوٹی چھوٹی جھانٹیں میری جھانٹوں کے ساتھ مل گئیں اس کے بعد وہ رک گیا اور کرشن کی طرف دیکھنے لگا اس نے بھی اپنا لن سونیا کی پھدی پر سیٹ کیا اور ایک زور سے جھٹکا دیا اور سونیا کے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آواز آئی اور کرشن کا پورا لن اس کی پھدی کے اندر پہنچ گیا اب دونوں مردوں نے ہم خواتین کو جھٹکے مارنا شروع کردیئے جتنی زور سے اشرف مجھے جھٹکا دیتا اس سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ کرشن سونیا کی چوت پر گھسا مارتا اور اسی وقت سونیا بھی اسی انداز اور اسی تیزی کے ساتھ اپنی چوت کو اوپر اٹھا کر اس کا جواب دیتی میں ایک نیا لن اپنی چوت میں ڈلوا کر بہت خوش تھی جس کا مزہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ تھا اشرف اور کرشن چدائی کے دوران اچانک رک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور پھر ہلکا سا مسکرا کر پھر سے چدائی شروع کردیتے میں اور سونیا بھی ایک دوسرے کا ہاتھ دبا کر اپنی گرم جوشی کا اظہار کررہی تھیںاس دوران کئی بار میں نے سونیا کی چوت میں اپنے شوہر کا لن جاتے دیکھا اور کئی بار سونیا مجھے اپنے شوہر سے چداتے ہوئے دیکھتی رہی اس وقت مجھے لگ رہا تھا کہ اپنے شوہر سے کسی غیر عورت کو اپنی مرضی سے اپنے سامنے چدتے دیکھنا کتنا اچھا لگتا ہے اور یہی حالت یقینا سونیا کی بھی ہوگی کمرے میں نصیبو لال کے گانے کے ساتھ ہماری سیکسی آوازیں گونج رہی تھیں اشرف کے ہر جھٹکے کے ساتھ میں بلند آواز میں آہ ہ ہ ہ ہ کی آواز نکالتی اور ساتھ ہی اشرف اپنا لن باہر نکال کر اس کو مزید تیزی کے ساتھ پھر میرے اندر لاتا جبکہ یہی حالت دوسری طرف کرشن اور سونیا کی تھی کمرے میں بیک وقت دو خواتین آہ ہ ہ اف ف ف ف ہائے ئے ا م م م م کی آوازیں نکال رہی تھیں جبکہ بیک گرا
نڈ میوزک ایک نیا ماحول پیدا کررہا تھا سونیا نے باآواز بلند کہا ” کرشن آج اپنی پوری قوت کے ساتھ مجھے چودوں مجھے معلوم ہونا چاہئے کہ میں کسی غیر مرد سے چدوا رہی ہوں آج کے دن کو یادگار بنادو“اس کے ساتھ ہی میں نے اشرف جو اب کافی حد تک تھکا ہوا معلوم ہورہا تھاکو کہا کہ آپ بھی ذرہ ہمت دکھائےے اور مجھے محسوس ہو کہ میں اپنے شوہر کے نہیں کسی اور کے نیچے لیٹی ہوئی ہوں اس کے بعد دونوں مردوں کے جھٹکوں میں ایک دم تیزی آگئی اچانک اشرف کہنے لگا اے انیتا آج تک تو اپنے شوہر کے لن سے چدواتی رہی ہے جو بہت خیال کے ساتھ تجھے چودتا رہا ہے آج میں تیری چوت کا باجا بجا دوں گا اور اس کے بعد کرشن کی آواز آئی سونیا تو بھی سن لے میں تیرا شوہر نہیں ہوں جو تیرا خیال رکھوں گا آج میں تیری چوت کا بھوسڑا بنا دوں گا تیری ایسی چدائی کروں گا کہ تو کئی دن تک چدانے کے قابل نہیں رہے گی اسی طرح کمرے کے سیکسی ماحول میں تھوڑی دیر تک چدائی کے بعد اشرف تو چھوٹ گیا ساتھ میں میں بھی فارغ ہوگئی فارغ ہوتے ہوئے اشرف نے مجھے خود سے چمٹا لیا اور اپنا لن میری پھدی کے اندر جڑ تک ڈال دیا اور اپنی تمام تر منی میری پھدی کے اندر ڈال دی جبکہ کرشن ابھی تک بلند آواز میں سونیا کو پکارتے ہوئے چود رہا تھا کچھ دیر کے بعد رام لال نے اشرف کو پکارا اور اس سے کہا دیکھ میں نے تیری بیوی کا کیا حشر کردیا ہے اب تو اس کو دو تین دن تک کسی اچھے ڈاکٹر سے دوائی لا کر دینا جس کے جواب میں اشرف نے اس سے کہا کہ انیتا سے اس کا حال بھی پوچھ لے اس دوران اشرف کا لن میری پھدی میں ہی رہا اس کے ساتھ ساتھ کرشن کے جھٹکے جاری تھے قریباً بیس منٹ مزید چدائی کے بعد اچانک کرشن سونیا کے اوپر لیٹ گیا اور اپنا پورا لن اس کی پھدی میں ڈال دیا میں سمجھ گئی کہ اب کرشن فارغ ہونے لگا ہے اس کے ساتھ ہی سونیا نے بھی رام لال کی کمر کے گرد اپنی باہیں کس لیں اب دونوں فارغ ہورہے تھے کرشن نے اپنے لن کا پورا پانی سونیا کی پھدی میں ڈال دیا کچھ دیر تک ہم لوگ ایسے ہی لیٹے رہے پھر اٹھ کر باری باری باتھ روم میں گئے پھر واپس آکر رات گئے تک ننگے بیٹھے ہی گپیں لگاتے رہے اس دوران فلم بند ہوچکی تھی کسی نے اس طرف دھیان نہیں دیا بلکہ ہم لوگ خوش گپیاں لگاتے رہے میں نے محسوس کیا کہ جس طرح مجھے کسی غیر مذہب کے غیر لن سے چدائی سے مزہ آیا ہے اس طرح سونیا بھی بہت زیادہ خوش ہے جبکہ اشرف اور کرشن بھی اس چدائی کے پروگرام سے بہت زیادہ مزہ لے چکے ہیں رات کو دو بجے کے قریب ہم لوگوں نے اپنے کپڑے پہنے اس موقع پر اشرف نے پھر کہا کرشن آج تو سونیا کو اپنے گھر لے جا اور میں انیتا کو اپنے ساتھ رات بھر رکھتا ہوں صبح ایک دوسرے کی بیویاں واپس کریں گے جس پر سونیا نے اور کرشن نے بھی آمادگی ظاہر کردی تو میں انکار کرنے والی کون ہوتی تھی اس کے بعد سونیا اوررام لال ہمارے گھر کو چل دیئے ان کے جانے کے بعد اشرف پھر سے گرم ہونے لگا اور مجھ سے کہنے لگا ڈارلنگ میں تجھے کرشن اور سونیا کے سامنے ٹھیک طریقے سے چود نہیں سکا میرا دل ابھی نہیں بھرا آج میں تجھے جی بھر کے چودنا چاہتا ہوں اس کے ساتھ ہی وہ کھڑا ہوگیا اور اپنے کپڑے اتارنے لگا اور پھر مجھے بھی پکڑ کر کھڑا کیا اور میرے کپڑے بھی اتار دیئے اور مجھے اپنے گلے لگا لیا اس کے ساتھ ہی اس نے میرے ہونٹوں پر کسنگ شروع کردی وہ پاگلوں کی طرح مجھے کسنگ کررہا تھا میں حیران تھی کہ اس بھڈے کے اندر اتنی گرم جوشی ہے جب یہ جوان ہوگا تو کس قدر غضب ڈھاتا ہوگا میں بھی گرم ہورہی تھی اور اس کا رسپانس دے رہی تھی کسنگ کرتے کرتے اس نے مجھے پھر سے بیڈ پر لٹا دیا اور میرے مموں کے ساتھ کھیلنے لگا وہ میرے ایک نپل کو منہ سے چوس رہا تھا اور دوسرے ممے کو ایک ہاتھ سے دبا رہا تھا مجھے بہت مزہ آرہا تھا میں اپنی انگلیوں سے اشرف کے بالوں میں کنگھی کررہی تھی اشرف کے سینے کے بال بہت زیادہ گھنے تھے جو میرے جسم کے ساتھ ٹچ ہورہے تھے جس کا مجھے ایک انوکھا مزہ آرہا تھا کرشنکے سینے پر بال تھے لیکن بہت کم تھے اشرف کے ہاتھ بہت نرم تھے اور ان کے چھونے سے مجھے وہ مزہ مل رہا تھا کہ میں نے آج تک اس طرح کا مزہ نہیں لیا تھا حالانکہ کرشن سیکس میں بہت جوشیلا ہے میں آج تک یہی سمجھتی رہی تھیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ سیکس میں جوشیلا کرشن ہے لیکن آج اشرف کی گرم جوشی دیکھ کر میری رائے بدل رہی تھی تھوڑی دیر کے بعد اشرف نے مجھ سے کہا چلو جانو اب تم گھوڑی بن جا میں تم پر سواری کرنا چاہتا ہوں اس نے مجھے اٹھا کر بیڈ کے پاس کھڑا کیا اور پھر میری کہنیاں بیڈ کے اوپر رکھ کر مجھے گھوڑی بنایا اور پھر میری بیک سائیڈ پر آگیا اس کا لن کھڑا ہوکر کسی لوہے کے راڈ کی طرح معلوم ہورہا تھا اس نے پیچھے سے اپنے لن کو میری پھدی کے اوپر سیٹ کیامیرے مموں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور ایک زور دار جھٹکا دیا جس کے ساتھ ہی اس کا پورا لن میری پھدی کے اندر ڈال دیا میرے منہ سے ہلکی سی آہ نکلی اور اس کے ہاتھوں کی میرے مموں پر پکڑ مزید سخت ہوگئی اس کا لن مجھے اپنے اندر کسی چیز کے ساتھ ٹکرائے محسوس ہوا اس نے ایک لمحے کے بعد اپنا لن پورے کا پورا میری پھدی سے نکالا اور پھر ایک زور دار جھٹکا دیا اور پھر میری پھدی کے اندر چلا گیا جب وہ جھٹکا دیتا تو میرے مموں کو سختی سے پکڑ لیتا اور اپنا پورا وزن میرے اوپر ڈال دیتا جس کے باعث میں اگلے جانب جھک جاتی اس کے بعد اس کے جھٹکوں میں تسلسل آگیا اب میں اس کے جھٹکے پر اگلی جانب جھکنے کی بجائے اپنا پورا وزن پیچھے کی جانب کردیتی تاکہ اس کا لن مزید گہرائی تک چلا جائے میں مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ گئی تھی وہ کبھی کبھی رک کر میری پیٹھ پر ایک تھپڑ رسید کرتا جس سے تڑغ کی آواز آتی اور میرے اندر ایک نئی گرم جوشی پیدا ہوجاتی پھر وہ جھٹکے دینا شروع کردیتا اور میں اس کے جواب میں پیچھے کو جھٹکا دیتی دس منٹ تک ایسی حالت میں چدائی کے بعد اس نے اپنا لن میری پھدی سے نکالاا ور مجھ سے کہنے لگا ڈالنگ کیوں نہ پوزیشن تبدیل کرلی جائے میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر لے آیا جہاں اس نے بیڈ کے درمیان میں ایک تکیہ رکھا اور مجھے اس پر لٹا دیا تکیہ میرے چوتڑوں کے نیچے آگیا جس کے باعث میری چوت مزید اوپر ہوگئی تھی اب اشرف نے میری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھیں اور میری چدائی شروع کردی اس حالت میں مجھے تھوڑی سی تکلیف بھی محسوس ہورہی تھی کیونکہ اس کا لن میری پھدی کے اندر بہت گہرائی تک جارہا تھا اور میرے اندر زور دار جھٹکے کے ساتھ ٹکراتا تھا لیکن تکلیف سے زیادہ مزہ آرہا تھا جس کی وجہ سے جب وہ اپنا لن میری پھدی کے اندر ڈالنے کے لئے جھٹکا دیتی تو میں اپنی چوت کو مزید اوپر کرلیتی اب میں نے اپنی ٹانگیں اس کے کندھوں سے اتار کر اس کی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں چند منٹ ایسی حالت کے بعد پھر اشرف رک گیا اور مجھے کہنے لگا اب تم اوپر آجا اس نے لن میری پھدی سے باہر نکالا اور نیچے لیٹ گیا میں اب اس کی ٹانگوں کے اوپر بیٹھ گئی میں نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کے لن کو پکڑا جو ابھی بہت سخت حالت میں تھا اس کا ٹوپا بہت سخت اور گلابی رنگ کا تھا میں آج پہلی بار ختنوں والا لن پکڑ کر اس کا جائزہ لے رہی تھی یہ موٹائی میں تو کرشن کے لن سے کم تھا لیکن مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا اشرف کی جھانٹیں بہت چھوٹی چھوٹی تھیں اس کے برعکس کرشن کی جھانٹیں بہت بڑی بڑی تھیں وہ کئی مہینوں کے بعد اپنی جھانٹوں کی صفائی کرتا تھا اور مجھے بھی جھانٹیں بڑھانے کا مشورہ دیتا تھا جس کی وجہ سے میری جھانٹیں بھی اس وقت اس قدر بڑی تھیں کہ میری پھدی نظر نہیں آسکتی تھی اشرف کا لن جب میری پھدی کے اندر جاتا تھا تو اس کے ساتھ میری کچھ جھانٹیں بھی میری پھدی کے اندر جاتی تھیں میں نے چند لمحے تک اشرف کا لن ہاتھ میں پکڑے رکھا اور اس کو گھما گھما کر دیکھتی رہی پھر میں تھوڑا سا اوپر اٹھ کر آگے ہوئی اور اشرف کے لن کے ٹوپے کے اوپر اپنی پھدی کوسیٹ کرکے آہستہ آہستہ نیچے ہونے لگی آہ ہ ہ ہ ہ ہ کیا مزہ آرہا تھا اشرف نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے ممے پکڑ رکھے تھے اور وہ ان کو ہلکا ہلکا سا دبا رہا تھا وہ کبھی میرے پورے ممے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتا اور کبھی ممے کو چھوڑ کر دو انگلیوں سے میرے نپل کو مسلتا جس سے سیکس کا مزہ مزید بڑھ جاتا اب میں اشرف کے لن پر آہستہ آہستہ اوپر نیچے ہونے لگی اشرف نے اپنی آنکھیں بند کررکھی تھیں اور وہ میرے مموں کو دبا اور نپلز کو مسل کر میرا جواب دے رہا تھا جس سے میری سپیڈ بڑھ رہی تھی آہستہ آہستہ میری سپیڈ بہت تیز ہوگئی اچانک میں چھڑنے لگی میں اشرف کے اوپر لیٹ گئی اور لمبی لمبی سانس لینے لگی جس پر اشرف مسکرانے لگا اس نے مجھ سے کہا کیا ہوا ڈارلنگ تو میں نے اس سے کہا کہ میں جھڑ رہی ہوں تو کہنے لگا چند منٹ اور کرو میں بھی چھوٹ جاں گا میں پھر سے اوپر ہوئی اور اس کے لن پر اچھل کود کرنے لگی دو تین منٹ کے بعد اشرف نے میرے مموں پر زور سے پکڑا اور مجھے نیچے کر لیا اس نے مجھے زور سے جپھی ڈال لی میں سمجھ گئی کہ وہ بھی چھوٹ رہا ہے اچانک مجھے اپنی پھدی کے اندر گرم گرم لاوا نکلتے محسوس ہونے لگا میں کچھ دیر تک اسی حالت میں اس کے اوپر لیٹی رہی پھر اس کے بازو میں آگئی اس نے مجھ سے کہا کہ میں تو آج مزید کرنا چاہتا تھا لیکن تھک گیا ہوں میں نے اس سے کہا کہ اب میری بھی بس ہوگئی ہے پھر ہم لوگ کافی دیر تک باتیں کرتے رہے میرے ذہن میں خیال آرہا تھا کہ کرشن ابھی بھی میرے بیڈ کے اوپر سونیا کو چود رہا ہوگا صبح ہوئی تو اشرف کے فون پر بیل ہوئی جس پر ہم دونوں کی آنکھ کھل گئی دوسری طرف کرشن تھا اور پوچھ رہا تھاکہ رات کیسی گزری اشرف نے اس کو کہا مزہ آگیا پھر اس نے مجھ سے بات کی اور کہنے لگا انیتا تم سوچ نہیں سکتی کہ میں نے کتنا انجوائے کیا یقینا تم نے بھی مزہ لیا ہوگا یہ لو تم سونیا سے بات کروں میں باتھ روم جارہا ہوں میں ابھی آتاہوں اور سونیا کو چھوڑ کر تم کو لے جاتا ہوں میں نے سونیا سے بات کی وہ بھی بہت خوش تھی تھوڑی دیر کے بعد کرشن اور سونیا آگئے اس موقع پر اشرف نے رائے دی کہ کیوں نہ کسی دن میں اور انیتا رام لال کے بیڈ پر اور اسی وقت کرشن اور سونیا میرے بیڈ پر چدائی کریں جس کے لئے اگلے ہفتے کا دن رکھا گیا گھر آکر میں نے اور رام لال نے ناشتہ کیا اور پھر کرشن کام کے لئے چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد سونیا میرے گھر آگئی اس نے مجھے بتایا کہ کرشن نے صبح جس وقت فون کیا اس سے چند منٹ پہلے تک چدائی کی اس نے میری گانڈ بھی ماری میں نے زندگی میں پہلی بار گانڈ مروائی جس پر مجھے تکلیف بھی ہوئی لیکن مزہ بھی بہت آیا کرشن بہت جوش سے اور پاگلوں کی طرح چدائی کرتا ہے اس نے مجھے اپنی رات کی تمام رو داد سنائی جبکہ میں نے اس کو اپنی رات کی کہانی سے حرف بہ حرف آگاہ کیا اگلے ہفتے کی شام پھر ہم لوگ اکٹھے ہوئے اشرف میرے ساتھ میرے بیڈ پر کرشن کی جگہ آگیا جبکہ کرشن سونیا کے ساتھ اس کے بیڈ پر اشرف کی جگہ چلا گیا اس روز اشرف نے میری گانڈ بھی ماری جس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی میں بہت چلائی لیکن اشرف نے میری ایک نہ سنی اور چدائی کرتا رہاجب میں نے اس کو کہا کہ میں بہت تکلیف میں ہوں مجھ پر رحم کرو اور مجھے چھوڑ دو میری گانڈ پھٹ جائے گی تو کہنے لگا تمہارے شوہر نے میری بیوی کی گانڈ ماری اور اس کی گانڈ سے دو دن تک خون نکلتا رہا اب میں تمہاری گانڈ بھی پھاڑ دوں گا اس نے یہ سچ ثابت کردیا اور میرے گھر میں میرے بیڈ پر میرے ساتھ زبردستی کرتے ہوئے میری گانڈ ماری اس دن کی چدائی کے بعد مجھ سے دو دن تک ٹھیک طریقے سے بیٹھا نہیں جارہا تھا میری گانڈ میں درد ہوتی رہی اس واقعہ کے بعد بھی ہم دونوں خاندانوں کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں اور اکثر ہم لوگ اکٹھے کھانا وغیرہ کھاتے ہیں اس کے بعد صرف ایک بار ہم لوگوں نے اکٹھے سیکس کیا لیکن اس بار ہمارے گھر میں میرے بیڈ روم میں یہ کام ہوا اشرف اور کرشن میرے بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے اور میں اور سونیا اپنے اپنے شوہروں کے لنوں پر اچھل کود میں مصروف تھیں کہ اچانک سونیا بول پڑی ”اے انیتا کیوں نہ آج شوہر بدلی کئے جائیں“ جس پر تمام لوگ ایگری ہوگئے پہلے والے واقعہ میں دونوں نے اپنی بیویوں کو ایک بیڈ پر لٹا کر ان کی پہلے خود پھدیاں لیں پھر بیویوں کو بدل کر ان کی چدائی کی اب کی بار دونوں نیچے لیٹے ہوئے تھے اور ان کی بیویوں نے شوہر تبدیل کرکے ان کے لنوں پر اچھل کود کرکے اپنی پھدیاں چدائیں اس کے بعد اشرف کی تجویز آئی کہ آج ہم دونوں ایک دوسرے کی بیویوں کی گانڈ مارتے ہیں اس کے اس جملے سے مجھے پہلے والی گانڈ مروانے کاواقعہ یاد آگیا اور مجھے یاد آیا کہ کتنی تکلیف ہوئی تھی میں نے فوراً انکار کردیا اس کے ساتھ ہی سونیا کے چہرے کا رنگ بھی بدل گیا اور وہ بھی انکاری ہوگئی مگر دونوں مرد شائد ایک ہوچکے تھے ہم دونوں خواتین کی ایک نہ چلی مجبوراً ہمیں بھی ہاں کرنا پڑی سب سے پہلے اشرف نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے بیڈ کے نیچے ایسی حالت میں کھڑا کردیا کہ میری کہنیاں بیڈ کے اوپر لگی ہوئی تھیں اس نے ایک تکیہ پکڑ کر میری کہنیوں کے درمیان میں رکھ دیا اور میرا سر اس کے اوپر رکھ دیا اور اس نے کرشن سے کہا جا تیل پکڑ کر لا کرشن باتھ روم میں گیا اور تیل کی شیشی پکڑ کر لے آیا میں ڈر کے مارے کانپ رہی تھی اشرف نے اپنی ہتھیلی پر تیل انڈیلا اور دوسرے ہاتھ کی انگلی سے تیل میری گانڈ پر لگایا اور پھر اپنے لن کو اس کے ساتھ تر کرکے کھڑا ہوگیا وہ ابھی لن میری گانڈ میں ڈالنے ہی والا تھا کہ کرشن بول پڑا ٹھہرو میں بھی سونیا کو تیل لگا کر اسی حالت میں کھڑا کرلوں اشرف یہ سن کر اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا ہوگیا میں نے دیکھا کرشن نے بھی میرے بلکل پاس سونیا کو بھی اسی حالت میں لٹایا اور اس کی گانڈ پر پہلے تیل لگایا اور پھر اپنے لن کو لگایا اور پھر اشرف سے کہنے لگا چلو اب اشرف نے میری گانڈ کے اندر پہلے اپنی ایک انگلی ڈالی اور اس کو آہستہ آہستہ سے اندر باہر کیا اسی طرح کرشن بھی سونیا کو کررہاتھا میرے اور سونیا کے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آوازیں نکل گئیں پھر اشرف نے میری اور کرشن نے سونیا کی گانڈ پر لن سیٹ کیا اور اس پر تھوڑا تھوڑا دباڈالنے لگے دونوں مردوں کے ہاتھوں میں دونوں خواتین کے ممے تھے ایک دم مجھے میری گانڈ پھٹتی ہوئی محسوس ہوئی اور میرے منہ ایک چیخ نکلی اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اشرف نے اتنی زور سے جھٹکا دیا تھا کہ اگر اس کے ہاتھ میں میرے ممے نہ ہوتے تو میں آگے کی جانب گر جاتی میرا منہ تکیے کے اندر دھنس چکا تھا ابھی میں پہلے والے جھٹکے کی تکلیف سے باہر نہیں نکلی تھی کہ اشرف نے ایک اور جھٹکا مار دیا اور اس کا لن مزید اندر چلا گیا اس کے ٹٹے مجھے پھدی کے اوپر ٹکراتے ہوئے محسوس ہوئے مجھے اتنی تکلیف ہورہی تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتی میرا چہرا ابھی تک تکیے کے اندر دھنسا ہوا تھا میرے منہ سے ”ہائے کرشن نن ن ن ن ن میںںںں مرررر گئی “ کی آواز نکلی اور پھر مجھے سونیا کے چیخنے کی آواز آئی ”ہائے ئے ئے ئے ئے میں مر گئی کرشن اس بلا کو میرے اندر سے نکالو میں مر جاں ں ں گی “ اس کے ساتھ ہی دونوں مردوں کے ہنسنے کی آواز آئی اور پھر اشرف نے میری گانڈ کے اندر اپنے لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کوئی تیز دھار آلہ میری گانڈ کو چیر رہا ہے میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے جبکہ دوسری طرف مجھے سونیا کے کراہنے کی آواز بھی آرہی تھی میں نے اپنا چہرہ تھوڑا سا اوپر کیا تو دیکھا کہ سونیا میری طرف منہ کئے لیٹی ہے اور اس کا چہرہ بھی تقریباً تکیے کے اندر دھنسا ہوا ہے اس کی آنکھوں میں بھی آنسو جاری تھے وہ ”ہائے میں مرررر گئی“ کہہ رہی تھی مگر دونوں مرد ہماری چیخیں سن کر ہم پر ترس کھانے کی بجائے اپنے لن اندر باہر کررہے تھے اسی دوران مجھے اشرف کی آواز آئی ”اشرف تیری بیوی کی چود تو مست ہے ہی مگر اس کی گانڈ تو اتنی ٹائٹ ہے کہ مجھے اپنے لن پر تکلیف ہورہی ہے پچھلی بار جب میں نے اس کی گانڈ ماری تھی تو میرے لن کا ماس بھی اتر گیا تھا “ اس کے ساتھ اس کے آہستہ آہستہ جھٹکے بھی جاری تھے اور وہ میرے مموں کو بدستور دبا بھی رہا تھا اس کے بعد کرشن بولا ”یار تیری بیوی بھی کچھ کم نہیں ہے میں نے جب تیری بیوی کو پہلی بار دیکھا تھا تو اسی دن سوچ لیا تھا کہ میں اس کو چود کررہوں گا اگر تو راضی نہ بھی ہوتا تو میں کچھ نہ کچھ ضرور کرتا اور تیری بیوی کو ضرور چودتا مجھے پہلے دن سے یہ بہت اچھی لگتی ہے “پھر اشرف بول پڑا یار مجھے تو تیری بیوی کی گانڈ مار کر بہت مزہ آرہا ہے “ اس کے جواب میں کرشن کہنے لگا ” اشرف تو جانتا ہے کہ میں نے کئی بار انیتا کو کہا کہ میں تمہاری گانڈ مارنا چاہتا ہوں تو مجھے گانڈ دے دے لیکن یہ نہیں مانی اب سالی کسی اور کے لن کے شوق میں اپنی گانڈ دینے کو بھی تیار ہوگئی ہے“ اشرف نے پھر کہا ”یار سونیا کی گانڈ بھی میں کافی عرصہ پہلے سے مانگ رہا تھا لیکن اس نے اپنے شوہر کو گانڈ نہیں دی اب بغیر ختنوں والے لن کے سامنے گانڈ فٹا فٹ پھیلا کر گھوڑی بن گئی ہے“ ان کی باتوں کے ساتھ ہم دونوں کی آہیں بھی جاری تھیں جبکہ ان کے گھسوں کی سپیڈ مسلسل بڑھ رہی تھی اب اشرف کا لن جب میرے اندر جارہا تھا تو تکلیف پہلے کی نسبت کم ہورہی تھی لیکن ابھی بھی پین فیل ہورہی تھی شائد میری گانڈ کچھ حد تک کم ہوگئی تھی سونیا بھی پہلے کی نسبت کم زور سے کراہ رہی تھی شائد اس کی گانڈ بھی کھل چکی تھی پندرہ بیس منٹ کے بعد اشرف کہنے لگا کرشن تو اب اپنی بیوی کی گانڈ مار اور میں اپنی سفید گھوڑی پر سواری کرتا ہوں اس کے بعد دونوں مرد اپنی اصلی بیویوں کی گانڈ مارنے لگے دس پندرہ منٹ کے بعد اشرف فارغ ہوگیا وہ جیسے ہی فارغ ہوا اور اس نے اپنا لن سونیا کی پھدی سے باہر نکالا سونیا اسی حالت میں بیڈ کے اوپر اوندھی گر گئی مگر ابھی تک رام لال میری گانڈ کے اندر اپنا لن اندر باہر کررہا تھا اس نے میرے ممے پکڑے ہوئے تھے اور میری گانڈ چود رہا تھا پندرہ منٹ کے بعد رام لال کی میرے مموں پر پکڑ سخت ہوگئی اور وہ مجھے پیچھے سے چمٹ گیا اور اس کے لن کو جھٹکے لگنے لگے اس کا لن منی چھوڑ رہا تھا پانچ چھ جھٹکوں کے بعد اس کی پکڑ نرم پڑ گئی اور میں بیڈ کے اوپر سونیا کی طرح گر گئی اشرف نے سونیا اور کرشن نے مجھے پکڑ کر بیڈ کے اوپر کیا اور خود بھی اوپر لیٹ گئے تھوڑی دیر کے بعد میرے حواس کام کرنا شروع ہوئے تو میں نے دیکھا اشرف کا ایک ہاتھ میرے ممے پر تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ سونیا کے ایک ممے کو دبا رہا تھا اسی طرح کرشن نے بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے اور سونیا کے ایک ایک ممے کو پکڑ رکھا تھا اور دبا رہا تھا مجھے ایک ہی وقت میں دو مختلف افراد سے اپنے ممے دبانے سے مزہ آنے لگا اسی طرح سونیا بھی اس کو انجوائے کررہی تھی ہم لوگ اس رات صبح تک ننگے لیٹے رہے صبح ہوئی تو میں اور سونیا نے ننگے ہی کچن میں جاکر چائے اور ڈبل روٹی کا ناشتہ تیار کیا اس وقت بھی میری گانڈ کے اندر پین فیل ہورہی تھیں میں نے سونیا کو بتایا تو وہ بھی کہنے لگی میری گانڈ بھی دکھ رہی ہے ہم لوگوں نے بیڈ پر ننگے بیٹھ کر ہی ناشتہ کیا اور پھر ایک ہی بیٹھ پر چاروں ننگے ہی لیٹ گئے اور سو گئے دوپہر کو میری آنکھ اس وقت کھلی جب سونیا نے مجھے ہلایا دونوں مرد ابھی تک سورہے تھے میں نے آہستہ آواز میں سونیا سے پوچھا کہ انجوائے کیا تو کہنے لگی بہت زیادہ اب تو میں ہر بار اپنی پھدی کے ساتھ گانڈ بھی مروایا کروں گی اس سے تکلیف تو ہوتی ہے لیکن مزہ بھی آتا ہے یہی رائے میری بھی تھی میں نے اس سے کہا کہ اب آئندہ گانڈ مروانے میں تکلیف کم اور مزہ زیادہ آیا کرے گا اس کے بعد میں نے اور سونیا نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ آج چاروں اکٹھے باتھ روم میں نہائیں تو اس نے بھی رضا مندی کا اظہار کیا جس کے بعد ہم نے کرشن اور اشرف کو جگایا اور اکٹھے باتھ کی تجویز دی تو وہ بھی مان گئے ہم لوگ اکٹھے باتھ روم چلے گئے اور ایک دوسرے پر پانی ڈالنے لگے ہم لوگ ایک دوسرے کے جسموں کو چھیڑ بھی رہے تھے میں نے یہاں نوٹ کیا کہ سونیا اشرف کی بجائے کرشن میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے اس دوران ہم چاروں پھر سے گرم ہوگئے اور باتھ روم میں ہی سیکس کیا اب کی بار اشرف اور کرشن دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گئے اور میں اشرف کی جبکہ سونیا رام لال کی گود میں ان کے لن لے کر ان کے اوپر بیٹھ گئیں اور ان کے اوپر اچھل کود کی رام لال اور اشرف ہم دونوں پر پانی ڈال رہے تھے تقریباً پندرہ منٹ کے بعد کرشن پہلے اور اس کے تین چار منٹ کے بعد اشرف فارغ ہوگیا اس کے بعد ہم چاروں اکٹھے نہائے میں نے اشرف اور اس نے میرے جسم کو صابن سے جبکہ کرشن نے سونیا اور سونیا نے کرشن کے جسم پر صابن لگایا اور پھر اسی طرح ایک دوسرے پر پانی ڈالا باتھ لے کر ہم لوگ باہر آئے اور اسی طرح ایک دوسرے کو کپڑے پہنائے اس کے بعد کھاناکھایا اور پھر رات کو اکٹھے آٹنگ کا پروگرام بنا اس سے اگلی رات بھی ہم چاروں ہمارے گھر میں ہی رہے لیکن اس رات سیکس نہیں کیا بلکہ پہلے باتیں کرتے اور ٹی وی دیکھتے رہے پھر لڈو کھیلی اور پھر ایک ہی بیڈ پر سو گئے اگلے روز سونیا اور اشرف ناشتے کے بعد اپنے گھر کو چلے گئے اور ہم لوگ اپنے گھر رہے
ان واقعات کے بعد ابھی تک ہم لوگ اکثر ایک دوسرے کے اسی طرح سے ملتے ہیں لیکن پھر کبھی اکٹھے سیکس کا پروگرام نہیں بنا کئی بار تجاویز آئیں لیکن چاروں میں سے کسی ایک نے اس کو ویٹو کیا اور پروگرام نہ بن سکا چند روز قبل ایک ایسا واقعہ پھر سے پیش آیا ہے جس کے بارے میں میرے رائے ہے کہ یہ دوستوں کے سامنے پیش کیا جائے لیکن وہ پھر کبھی پیش کیا جائے گا اس سے پہلے آپ لوگوں کی رائے کا انتظار رہے گا اس تحریر کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ چند روزقبل پیش آنے والے واقعہ کو آپ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے یا نہیں

 ختم شُد

tabasam tabish novels

tabassum tabish novels fb

tabassum tabish novels

tabassum tabish novels pdf free download

tabasam tabish novels and stories

tabasam tabish novels all

tabasam tabish novels and books

tabassum tabish novels about the mafia

tabassum tabish novels are there

tabasam tabish novels book

tabassum tabish novels best

tabassum tabish novels books

tabassum tabish novels pdf download

tabasam tabish novels in urdu


وہ مجھ سے بڑی تھی

 


وہ مجھ سے بڑی تھی

یہ واقعہ میرے ابو کے پرانے دوست کی بیٹی میریم کے ساتھ بتائے جانے والے لمحات کے بارے میں ہے میریم کے ابو سرگودھا کے ایک بڑے زمیندار ہیں ان کی دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک کی شادی لندن میں ہوئی ہے جبکہ دوسری لاہور میں ایک پرائیویٹ بنک میں ملازمت کرتی ہے اور آج کل لاہور کے ایک وویمن ہاسٹل میں قیام پذیر ہے یہ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے جب میریم نے ایم اے اکنامکس کے بعد گھروالوں سے ملازمت کے لئے کہا گھر والوں نے کافی سمجھایا کہ ان کے ہاں کون سی چیز کی کمی ہے جو وہ ملازمت کرنا چاہتی ہے لیکن وہ نہ مانی اور ملازمت کی ضد پر اڑی رہی آخر کار اس کے گھر والوں کو اس کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی میریم نے سرگودھا سے ہی کسی بنک میں ملازمت کے لئے آن لائن اپلائی کیا جس پر اس کو انٹرویو کے لئے لاہورکال کیا گیا انٹرویو کے لئے اس کے والد صاحب اس کے ساتھ آئے میریم کے ابو کو معلوم تھا کہ میں لاہور میں رہتا ہوں انہوں نے لاہور میں قیام کے لئے میرے ابو کو کہا کہ وہ مجھے اپنے ہاں ٹھہرنے دن میرے ابو نے مجھے سے بات کی جس پر میں نے ان کو کہا کہ جب مرضی آجائیں یہ آپ کا اپنا گھر ہے جس پر وہ میریم کے ساتھ لاہور آگئے وہ اکتوبر یا نومبر کی بات ہوگی جب میریم اور اس کے ابو اپنی گاڑی پر صبح صبح میرے گھر آگئے مجھے ان کی آمد کے بارے میں میرے ابو نے رات کو ہی آگاہ کردیا تھا میں ان لوگوں کے انتظار میں ہی تھا جب وہ لوگ آگئے میں نے اپنے نوکر کو ان لوگوں کو ناشتہ دینے کے لئے کہا اور خود دفتر چلا گیا شام کو گھر آیا تو ان لوگوں سے بات چیت ہوئی ان لوگوں نے بتایا کہ انٹرویو میں کئی امیدوار تھے اور میریم کو کل پھر آنے کو کہا گیا ہے بات چیت کے دوران میریم نے کم ہی گفتگو کی میں نے بھی میریم سے زیادہ بات چیت کرنے اور فری ہونے کی کوشش نہیں کی ویسے بھی میریم میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ میں اس میں زیادہ انٹرسٹ لیتا وہ ایک عام شکل وصورت کی مالک سانولے رنگ کی لڑکی تھی لیکن اس میں ایک خاص بات اس کو دوسری لڑکیوں سے برتری دیتی تھی اس کا قد قریباً پانچ فٹ آٹھ نو انچ ہوگا وہ کھڑی ہوتی تو اس کا قد میرے برابر معلوم ہوتا میرا قد پانچ فٹ دس انچ ہے اس کے قد کے علاوہ اس میں کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جس کوبیان کیا جاسکے اس کی عمر بائیس تیئس سال کے قریب ہوگی خیر رات کو دس بجے کے قریب میں نے ان لوگوں سے سونے کے لئے اجازت لی اور اپنے کمرے میں آکر سو گیا اگلے روز میں ابھی سویا ہوا تھا کہ وہ لوگ انٹرویو کے لئے نکل گئے میں شام کو دفتر سے آیا تو معلوم ہوا کہ میریم کو سلیکٹ کرلیا گیا ہے اور وہ آئندہ ماہ کی یکم تاریخ سے بنک کو جوائن کررہی ہے میں نے میریم اور اس کے والد صاحب کو مبارکباد دی میریم جاب ملنے کی خوشی میں کافی خوش تھی جبکہ اس کے والد صاحب کو زیادہ خوشی نہیں ہوئی تھی اس رات بات چیت کے دوران میریم کے ابو نے کہا کہ لاہور میں میریم رہائش کہاں رکھے گی تو میں نے ان کو کہا کہ لاہور میں وویمن ہاسٹل کافی زیادہ ہیں جہاں میریم کو آسانی سے رہائش مل سکتی ہے لیکن میریم کے ابو زیادہ مطمیئن نہیں تھے تاہم میری طرف سے تسلی کے بعدانہوں نے میریم کو ہاسٹل میں رہائش کی اجازت دے دی اگلے دو تین روز ان لوگوں نے ہاسٹل میں خالی جگہ ڈھونڈنے کے لئے خرچ کئے اس حوالے سے میں نے بھی ان لوگوں کی کافی مدد کی لیکن کسی اچھے ہاسٹل میں فوری طور پر جگہ نہ مل سکی ہر جگہ سے ناکامی کے بعد میریم کے ابو مایوس ہوگئے اور انہوں نے میریم کو کہا کہ جب تک اس کو کسی اچھے ہاسٹل میں رہنے کے لئے جگہ نہیں مل جاتی وہ جاب جائن نہ کرے لیکن میریم نے کہا کہ وہ اس جاب کو کسی صورت بھی نہیں چھوڑے گی تو اس کے ابو نے کہا کہ تو پھر تم رہو گی کہاں تو اس نے فوری طورپر یہ کہہ دیا کہ جب تک کسی اچھے ہاسٹل میں جگہ نہیں ملتی وہ اسی گھر میں رہ لے گی یہ سن کر مجھے کافی دھچکا لگا کیوں کہ اس کے رہنے سے میری پرائیویسی ختم ہوجاتی لیکن میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ ان لوگوں سے کافی پرانی شناسائی ہے اور میرے انکار پر ان کو افسوس ہوگا اس کے علاوہ مجھے یہ امید تھی کہ میریم کے ابو کسی صورت بھی اس کو ایک جوان لڑکے کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دن گے میری امید کے بالکل عین مطابق میریم کے ابو نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا لیکن اس پر میریم نے کہا کہ ابو کیا ہوا جو میں چند روز اس گھر میں رہ لوں گی اس میں حرج ہی کیا ہے جس پر میریم کے ابو کو ہتھیار ڈالنا پڑے انہوں نے میرے سامنے ہی یہ بات فون پر میرے ابو کے ساتھ کردی جس پر انہوں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے میریم چاہے تو یہاں ساری عمر رہ لے ویسے بھی شاکر اس کا ”بھائی “ ہی تو ہے ہاسٹل کی بجائے اسی گھر میں زیادہ ٹھیک رہے گا ویسے بھی میریم کو کون سا ساری عمر جاب کرنی ہے جو سال چھ مہینے جاب کرنی ہے یہیں رہ لے ان کی اس بات پر میں بہت پریشان ہوگیا لیکن میں اپنے ابو کی بات سے کسی صورت بھی انکار نہیں کرسکتا تھا میں اس بات کی مخالفت میں چاہتے جتنے بھی دلائل دیتا ابو اپنی بات کو کسی صورت بھی رد نہ کرنے دیتے اور مجھے ”نافرمان“ کا خطاب الگ سے مل جاتااس کے علاوہ مجھے ان کی یہ بات ماننا بھی پڑتی سو میں خاموش ہوگیا میریم کی رہائش کا مسئلہ ”حل “ ہونے پر یہ لوگ اگلے روز ہی سرگودھا چلے گئے میریم کو دوہفتے بعد ہی دوبارہ آنا تھا دوہفتے بعد میریم دوبارہ اپنے والد محترم کے ساتھ دوبارہ یہاں آگئی اس کے والد صاحب دو دن لاہور میں میرے گھر ہی رہے اس دوران وہ میری عادات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے کہ ان کی بیٹی کو یہاں کوئی خطرہ تو نہیں اس دوران انہوں نے میریم کو سوزوکی مہران گاڑی خرید کر دی تاکہ وہ دفتر آسانی سے جاسکے اس کو بسوں ویگنوں میں دھکے نہ کھانا پڑیں اس کے بعد وہ واپس سرگودھا چلے گئے واپس جاتے ہوئے انہوں نے مجھے میریم کا خیال رکھنے کی تاکیدبھی کی ان کے جانے کے بعد میں اپنی روٹین پر آگیا میں نے یہ خیال دل سے نکال دیا کہ اس گھر میں میرے علاوہ کوئی جوان لڑکی بھی رہتی ہے لیکن میں نے گھر میں کوئی ایسا کام نہ کرتا جس سے مجھ پر ”بدچلن“ ہونے کا الزام لگ سکتا تھا میریم کی جاب سٹارٹ ہوئی تو وہ جو کپڑے پہنتی تھی اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا لیکن آٹھ دس روز بعد ہی اس کے کپڑے سکڑنا شروع ہوگئے وہ اپنے لئے سرگودھا سے جو کپڑے لائی تھی وہ اس نے بیگ میں رکھ دیئے جبکہ اپنے لئے نئے کپڑے خریدے جس کو وہ پہنتی تو دیکھنے والے کی نظر اس پر ٹھہر جاتی اور خواہ مخواہ شہوت آجاتی میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا لیکن میں نے اس پر کچھ بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں اس کی تبدیلی کا کوئی نوٹس لے رہا ہوں جب کبھی میں دفتر سے جلدی واپس آجاتاتو میریم سے گپ شپ بھی ہوجاتی اکثر اوقات گپ شپ کا موضوع سیاست ہوتا میریم نے یہاں آنے کے بعدپہلے دن سے کھانا پکانے کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جبکہ دوسرے کام بدستور نوکر ہی کرتے تھے میریم نے مجھے اس بات کا بھی پابند کردیا تھا کہ میں کھانا گھر سے کھاں اگر کبھی میں باہر سے کھانا کھاتا تو اس پر وہ باقاعدہ ناراض ہوتی جس پر پہلے پہل مجھے حیرانگی بھی ہوئی لیکن میں خاموش رہا وہ مجھے شروع شروع میں شاکر صاحب کہہ کر بلاتی لیکن آہستہ آہستہ صاحب کا لفظ ختم ہوگیا اور صرف شاکر رہ گیا چند ہی دنوں میں ہم دونوں آپس میں کافی حد تک گھل مل گئے تھے اکثر اوقات میں اس کو ہاسٹل میں جگہ ملنے کے بارے میں پوچھتا تو وہ کہتی کہ تلاش کررہی ہوں جلد مل جائے گی ایک روز میں نے حسب معمول کھانے کے بعد بات چیت کے دوران اس سے پھر ہاسٹل کے بارے میں پوچھا تو اس کے منہ سے خلاف توقع الفاظ سننے کو ملے اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ ایک جوان آدمی کی کیا پرائیویسی ہوتی ہے لیکن آپ اپنی سرگرمیاں ایسے ہی جاری رکھ سکتے ہیں جیسے میں یہاں پر موجود ہی نہیں ہوں آپ کو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں نے اس کو جواب دیا کہ میری پرائیویسی زیادہ یہ بات اہم ہے کہ جوان لڑکا لڑکی ایک گھر میں رہتے ہیں اس پر لوگ باتیں بنائیں گے جس پر اس نے مزید حیرانگی کی بات کی کہ” لوگوں کو کرنے دن باتیں جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“اس کی یہ بات سن کر میں چپ سا ہوگیا اس رات کافی دیر تک باتیں کرتے رہے پھر رات کو گیا رہ بجے کے قریب میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور وہ بھی اپنے لئے مخصوص کمرے میں چلی گئی بیڈ پر جاتے ہی آج پہلی بار میں نے میریم کے بارے میں کسی اور انداز میں سوچا میرے ذہن میں عجیب عجیب سے منصوبے جنم لینے لگے خیر میں نے ان تمام خیالات کو رد کردیا اور سو گیا اگلے روز ہفتہ تھا میں ابھی دفتر میں ہی تھا کہ میریم کا موبائل پر فون آگیا اس نے کہا کہ ممکن ہوتو آج جلدی گھر آجائیں میں نے ایک خاص چیز بنارہی ہوں میں بھی فارغ ہی تھا گھر چلا گیا گھر پہنچا تو میریم گاجر کا حلوہ بنا رہی تھی مجھے نہیں معلوم کہ اسے کس نے بتا دیا کہ مجھے گاجر کا حلو ہ اچھا لگتا ہے اس کے علاوہ ایک اور بات جس نے مجھے حیران کردیا وہ میریم کا لباس تھا آج اس نے میری الماری سے میری بلیک ٹی شرٹ نکال کر پہنی ہوئی تھی لگتا تھا وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی ہے ٹی شرٹ کے نیچے اس کے ممے بتا رہے تھے کہ اس نے برا نہیں پہنا ہوا نیچے میرا ٹرازر اور میرے ہی جوگر پہنے ہوئے تھے میرے گھر پہنچتے ہی اس نے کہا کہ کیسی لگ رہی ہوں میں نے اس سے کہا کہ یہ اچھی بات نہیں کہ کسی کے کپڑے نکال کر پہن لئے جائیں تو کہنے لگی کہ میں کوئی نہیں اب اس گھر کی فرد ہوں اور اس گھر کی ہر چیز پر اس وقت تک میرا بھی حق ہے جب تک میں یہاں قیام پذیر ہوں جس پر میں خاموش ہوگیاخیر شام کو چھ بجے کے قریب ہم دونوں نے کھانا کھایا اور پھر باتیں کرنے لگے اس دوران میریم نے کہا کہ کیا ہم لوگ بور سے ٹاپک پر بات چیت کرتے رہتے ہیں چلو آج شطرنج کھیلتے ہیں میں نے بھی حامی بھر لی میں اچھی خاصی شطرنج کھیل لیتا ہوںاور کافی عرصہ سے کبھی موقع نہیں ملا تھا میری ہاں پر میریم اٹھی اور اپنے کمرے میں گئی جہاں سے شطرنج اٹھا لائی ہم نے بازی لگائی میرے لئے یہ امر حیرانگی کا باعث تھا کہ میریم شطرنج کی اچھی خاصی پلیئر تھی وہ جارحانہ انداز میں کھیل رہی تھی جبکہ میں دفاعی پوزیشن پر تھامیریم جب بھی کوئی چال چلتی اس کے ساتھ ہی ”چیک“ کی آواز لگاتی اور ساتھ ہی بازو اوپر کرکے ہووووووووو کی آواز لگاتی میں کافی دیر تک سوچ کر اس کی چال کا جواب دیتا تو وہ فوراً نئی چال چل کر پھر” چیک“ دیتی‘ خیر میں کوشش کے باوجود اس سے پہلی باری ہار گیا اس کے بعد دوسری بازی شروع ہونے لگی تو کہنے لگی ایسے کھیلنے میں مزہ نہیں آئے گا کوئی شرط لگا کر کھیلتے ہیں میں نے کہا کیا شرط لگانی ہے تو کہنے لگی جو بھی ہارے گا وہ دونوں کے لئے چائے بنائے گا میں نے اس پر ہاں کردی اور بازی شروع ہوگئی اب کی بات مات میریم کا مقدر بنی اورمیں نے میریم سے کہا کہ چلو جلدی سے چائے بنا کر لا وہ منہ بسورتے ہوئے اٹھی کچن میں چلی گئی جاتے ہوئے میں نے آواز لگائی چائے نہیں دودھ پتی بنا لینا وہ خاموشی سے چلی گئی چند لمحوں کے بعد واپس آئی اور کہنے لگی دودھ نہیں ہے میں نے آہستہ آواز میں اس سے کہا کہ گھر کے دودھ کی بنا لو لیکن شائد اس نے سن لیا تھا میری بات سن کر مسکرادی اور کہنے لگی کیا کہا میں نے بات بدلی اور کہا کہ میرا مطلب ہے کہ خشک دودھ کی بنالوتو کہنے لگی کہ خشک دودھ کہاں ہے میں نے اس کو کہا کہ کچن کے فلاں کیبن میں پڑا ہے تو وہ پھر چلی گئی اور چند لمحوں کے بعد پھر آگئی اور کہنے لگی کہ مجھے نہیں ملتا آکر دے دو میں اٹھا اور اس کے ساتھ کچن میں چلا گیا اور اس کو ایک کیبن سے خشک دودھ کا پیکٹ نکال کر دیا اور خود واپس آنے لگا تو اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور کہنے لگی کہ یہیں ٹھہرو میں چائے بنا لیتی ہوں تو اکٹھے چلتے ہیں آج اس نے مجھے پہلی بار ” ٹچ“ کیا تھا خیر میں نے اس کی یہ ”حرکت“ بھی اگنور کردی اور اس کے ساتھ ہی کچن میں کھڑا ہوگیااس کی پیٹھ میری طرف تھی جبکہ میں اس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا اس کے بال ابھی تک گیلے تھے اور کھلے ہوئے تھے جو اس کی گانڈ کے ابھار کو چھو رہے تھے وہ چائے کے لئے کیتلی میں پانی گرم کررہی تھی کہ اچانک مجھ سے گویا ہوئی
شاکر کیا تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے“مجھے اس کی بات سن کر جیسے دھچکا لگا وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھی
ہووووووں“میرے منہ سے صرف یہی لفظ نکل سکا
میں نے پوچھا کہ تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے ؟
نہیں
کیوں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
کیوں نہیں ہوسکتا
تم اتنے ہینڈ سم ہو کوئی بھی لڑکی تمہارے جیسے مرد کے ساتھ دوستی کرنا چاہے گی
کیا تم کرو گی“میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی شکار دیکھ کر تیر چھوڑ دیا ‘ میری بات سن کر اس کو جیسے سانپ سونگ گیا وہ خاموشی ہوگئی
میں نے کیا پوچھا ہے“ میں نے گرم لوہے پر ایک اور پھدی دے ماری اور ساتھ ہی اس کو کندھوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی طرف کرلیا اس کا منہ شرم سے سرخ ہورہا تھا کان بھی سرخ ہورہے تھے اس نے نگاہیں نیچی کررکھی تھی اور ایک ہاتھ کی انگلی سے اپنے چہرے پر آنے والی بالوں کی لٹ کو کانوں کے پیچھے کررہی تھی کہ میں نے اپنا سوال تیسری بار پھر دہرا دیا
ہاں“ اس کے منہ سے آہستہ سی آواز نکلی پہلے وہ نظریں نیچے کئے ہوئے کھڑی تھی اب میری حالت بھی اس کی طرح ہوگئی میں نے فوری طورپر خود کو سنبھالا اور اس سے کہا
چائے“میں نے اس کی توجہ کیتلی میں ابلتے ہوئے پانی کی طرف دلائی اور خود کمرے میں آگیا جہاں ابھی تک شطرنج بچھی ہوئی تھی اس نے ایک بار پھر مجھے ”چیک“ دے دیا تھابلکہ یہ صرف ”چیک“ نہیں تھا بلکہ یہ ”چیک اینڈ میٹ“ تھااب اس کے آگے کوئی چال نہیں چلی جاسکتی تھی اب بہتر تھا کہ اپنے بادشاہ کو خود ہی گرادوں اس کی جیت پر میں ناداں نہیں تھا بلکہ مجھے اس کی جیت پر خوشی محسوس ہونے لگی تھی
چائے حاضر ہے“ اچانک اس کی آواز سے شطرنج پر لگی نظریں ہٹ گئیں میں نے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑا تو وہ میرے سامنے آبیٹھی میں نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر جیت کی خوشی اور اطمیںان عیاں تھا
ہوجائے ایک اور بازی“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
میں نے کھیلنے سے پہلے ہی ہار مان لی“ میں نے جواب دیا
ایک بار پھر سے اپنے دا
پیچ آزما لوشائد کچھ کام بن جائے
نہیں میرا کام ہار کر ہی بن گیا ہے
ہاہاہاہا ہا ہا ہا “اس نے قہقہا لگایا اور چائے کا کپ ایک طرف رکھ کر پھر سے شطرنج کے مہرے سیدھے کرنے لگی
میں اب نہیں کھیلوں گا ابھی پرانی شکست کے زخم ہی نہیں بھرے تم پھر سے شکست دینا چاہتی ہو
کھیلو اور مجھے ہرا کر اپنی شکست کا بدلہ لے لو“اس کی بات سن کر میں نے بھی چائے کا کپ ایک طرف رکھا اور اپنے مہرے سیدھے کرنے لگا
اب کون سی شرط ہوگی“ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
اس شرط پے کھیلوں گی پیا پیار کی بازی جیتوں تو تجھے پا
ں ہاروں تو پیا تیری“اس نے پروین شاکر کا شعر کہہ دیا
میں ہنس دیا اور اس کی چال کا انتظار کرنے لگا اس کی بار بھی فتح اس کا مقدر بنی آخری چال چلتے ہی اس نے پھر سے قہقہا لگایا اور شطرنج کے اوپر سے دونوں ہاتھ میرے گلے میں ڈال کر مجھے اپنی طرف کھینچنے لگی میں بھی کیوں پیچھے رہتا میں نے بھی اس کو اپنی باہوں میں لے لیا اس کے گیلے بال اور اس کے جسم پر لگے باڈی لوشن سے مجھے شہوت آرہی تھی چند منٹ کے بعد اس نے مجھے خود سے علیحدہ کیا اور کہا” شاکر مجھے کبھی دھوکہ مت دینا میرے ساتھ جو بھی سلوک کرو گے منظور ہے تمہاری ہر جائز ناجائز بات کو مانوں گی مگر کبھی کسی کو میرا رقیب مت بنانا“وہ ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر ادا کررہی تھی
میں نے اپنے درمیان سے شطرنج اٹھائی اور اس کو ہونٹوں سے چوم لیا پھر اس سے کہا میریم کبھی ایسا گمان بھی نہ کرنا
اس کے بعد اس نے ایک بار پھر مجھے اپنے گلے لگایا اور پھر مجھے ہونٹوں سے چومنے لگی اس کے بعد کافی دیر تک اس کے ساتھ باتیں ہوتی رہیں اس نے بتایا کہ وہ گا
ں کی زندگی سے تنگ آچکی ہے اس لئے جاب کے بہانے گھر سے یہاں آگئی پہلے روز ہی اس نے مجھے دیکھا تو میں اس کو اچھا لگا اس نے مجھے دکھانے کے لئے ہی اپنے لباس میں تبدیلی کی لیکن میں ٹس سے مس نہ ہوا اور اس پر کوئی توجہ نہ دی لیکن آج شطرنج کی بساط سے سب کام ہوگئے بات چیت کے دوران اس نے بار بار مجھ سے کہا کہ وہ ہر چیز برداشت کرسکتی ہے مگر رقابت برداشت نہیں کرپائے گی اس نے مجھے بتایا کہ اس کی زندگی میں آنے والا میں پہلا مرد ہوں جس کو اس نے اس طرح سے دیکھا ہے کافی دیر تک باتیں کرنے کے بعد اس نے کہا کہ چلو اب سوتے ہیں میں نے اس کو کہا کہ آج وہ میرے کمرے میں ہی سوجائے تو اس نے مجھے ”ٹھینگا“ دکھایا اور اپنے کمرے میں جاکر کنڈی لگا لی میں اپنے کمرے میں آگیا اور سوچنے لگا کہ میریم کو کس طرح ”مطلب پر لایا جائے اس کے ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اگر اس کو میری دوسری ”سرگرمیوں“ کے بارے میں علم ہوگیا تو وہ میرے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ وہ میرے گھر والوں کو بھی جانتی تھی اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خدشہ ہونے لگا کہ اس کے ساتھ شادی ہی نہ کرنی پڑے خیر شادی کے بارے میں میں اتنا پریشان نہیں تھا کیوں کہ میریم میں ایسی کوئی خرابی نہیں تھی جس کو بنیاد بنا کر اس سے شادی سے انکار کیا جاسکے تاہم مجھے اپنی دیگر ”سوشل سرگرمیاں“ جاری رکھنا مشکل لگ رہا تھا خیر میں نے مستقبل کے بارے میں باتوں کو نظرانداز کردیا اور فوری طورپر میریم کے ساتھ سیکس کے لئے سوچنے لگا اس دوران مجھے کب نیند آئی یاد نہیں رات کو تقریباً دو بجے کے قریب مجھے اپنے کمرے میں کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی تو میری آنکھ کھل گئی
وہ مجھے ے ے اصل میں ڈر لگ رہا تھا میں تمہارے کمرے میں آئی اور یہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ٹکراگئی“ میریم پریشانی کے عالم میں زمیں پر پڑے گلدان کی طرف اشارہ کررہی تھی زیرو کے بلب کی روشنی میں میریم کا چہرہ چمک رہا تھا اور وہ پریشانی کے عالم میں عام حالات کی نسبت کتنی زیادہ خوب صورت لگ رہی تھی اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا میں اپنے بستر سے اٹھا اور اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر کہا کہ تم کو ڈر کیوں لگ رہا تھا اگر ایسا تھا تو مجھے آواز دے دیتی
میں نے سوچا آواز دی تو تم جاگ جا
گے اور تمہارے آرام میں خلل پڑے گا اس لئے خاموشی سے آئی اور گلدان نیچے گرنے سے تمہاری آنکھ کھل گئی
میں اس کو پکڑ کر اپنے ساتھ بیڈ پر لے آیا اور دونوں بیڈپر بیٹھ گئے میں نے اس کے گلے میں ایک بازو ڈال لیا اور اس کو اپنے ساتھ لگا لیا اور اس سے پوچھا کہ تم کو ڈر کس بات سے لگ رہا تھا تو کہنے لگی پتا نہیں اور ساتھ ہی میرے ساتھ چمٹ گئی میں نے اس کو ہونٹوں سے کس کیا ام م م م م م م م م م م م م م کیا رسیلے ہونٹ تھے اس نے پہلے خود کو مجھ سے چھڑانے کی کوشش کی مگر پھر میرا ساتھ دینے لگی وہ بلا کی گرم لڑکی تھی میں نے اپنا ایک بازو اس کی گردن میں ڈال رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے مموں کو دبانے لگا جو ایک دم ”ربڑ کی گیند“ کی مانند دبانے پر میری انگلیوں کو پیچھے کی طرف دھکیل رہے تھے اس کے ممے میرے اندازے سے زیادہ ٹائٹ تھے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ کچھ گھنٹے اس کی طرف سے یہ کہنا سچ ہے کہ میں اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہوں اس نے پہلے میرا ہاتھ اپنے مموں سے ہٹانے کی کوشش کی پھر خود کو میرے حوالے کردیا وہ ابھی تک ٹرا
زر اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھی چند منٹ بعد اس نے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا جس پر میں نے اس کو بیڈ کے اوپر لٹا دیا لیکن اس کی ٹانگیں ابھی تک بیڈ کے نیچے ہی تھی میں اس کے اوپر ہی لیٹ گیا اور اس کو کسنگ شروع کردی پھر اس کی شرٹ کو اوپر کردیا
اف ف ف ف ف ف ف تقریباً بتیس سائز کے ایک دم گول ممے جیسے پرکار کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہوایک انچ کا چوتھائی حصہ کے برابر گلابی رنگ کے نپلز میرے ہواس پر بم گرانے لگے میں نے ایک ہاتھ سے ایک ممے کو پکڑا اور دوسرے ممے کے نپل کو منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا
ام م م م م م م “وہ مزے سے منمنانے لگی
میں نے ایک نپل منہ سے نکالا اور دوسرا منہ میں ڈال لیااور اس کو چوسنا شروع کردیا مجھ پر بھی عجیب سا نشہ طاری ہونے لگا تھا وہ بھی مزے سے ساتویں آسمان پر جاچکی تھی اس کے منہ سے نکلنے والی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ام م م م م م م م اف ف ف ف ف ‘ بس س س س س کی آوازوں سے میرے جوش میں مزید اضافہ ہورہا تھا میں چند منٹ تک اس کے نپلز کو چوسنے کے بعد اٹھ کر بیٹھ گیا اس کے ساتھ وہ بھی شرٹ کو نیچے کرتے ہوئے اٹھنے لگی تو میں نے اس کو پھر سے لٹا دیا جس پر اس کے منہ سے شاکرررررررر کا لفظ نکلا تو میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا وہ پھر سے لیٹ گئی میں نے اس کو پکڑ کر پوری طرح بیڈ کے اوپر کیا اور اس کے پا
ں سے چپل اتار کر نیچے پھینک دی اس کے بعد پھر اس کی شرٹ اوپر کر کے اس کے مموں اور نپلز کو چوسا پھر اس کی ٹانگیں سیدھی کرکے ان کے اوپر بیٹھ گیا اور اس کے پیٹ پر آہستہ سے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پھیرنے لگا جیسے اس پر کوئی جادو کررہا ہوں اس کے منہ سے پھر سسکاریاں نکلنے لگیں اور وہ اپنے ٹانگوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر ٹانگوں پر میں بیٹھا ہوا تھا جس پر وہ ان کو اکٹھا نہ کرسکی لیکن بار بار میرے ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کرتی رہی جب میں باز نہ آیا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اس کے منہ سے اب بھی سسکاریاں نکل رہی تھی کچھ دیر بعد اس نے اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور اپنے دانتوں نے نیچے دبا لی پھر میں اس کی ٹانگوں سے اتر کر پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اس کے پیٹ پر اپنی زبان پھیرنے لگا جس پر اس کے منہ سے مزید زور سے سسکاریاں نکلنے لگیں اس نے ابھی بھی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے پھر میں اس کا ٹرازر اتارنے لگا تو وہ پھر سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی شاکر ررر بس میں نے اس کو پھر سے پکڑ کر لٹا دیا اور اس کا ٹرازر اتار دیا پھر اس کو اٹھا یاا ور اس کی ٹی شرٹ بھی اتار دی اس کے بعد اس نے مجھے گلے لگا لیا میں نے اس کو خود سے علیحدہ کیا اور اس کو لٹا دیا اب وہ بالکل ننگی میرے سامنے لیٹی ہوئی تھی اس کا سانولا بدن میرے سامنے تھا جس کو دیکھ کر میرا بھی برا حال ہورہاتھا شلوار کے اندر سے میرے لن کا ابھار دیکھا جاسکتا تھا میںنے اٹھ کر اپنے کپڑے بھی اتارے اور اس کے اوپر لیٹ گیا اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئےے اچانک اس نے میرا منہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر ہٹایا اور کہنے لگی ” شاکر مجھے کبھی دھوکہ نہ دینا“ میں نے پھر سے اس کو اپنی ”وفاداری “ کا یقین دلایا اور اس کے ہونٹ چوسنا شروع کردیا پھر میرے ہونٹ اس کی گردن پر چلے گئے اس کے بعد اس کے مموں پر پھر میں نیچے ہوا اور اس کے پیٹ پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی پھر جیسے ہی میں مزید تھوڑا سا نیچے ہوا اور اس کی ناف پر میری زبان پھرنے لگی وہ مزے کی انتہا کو پہنچ رہی تھی اور دوہری ہورہی تھی اس کے منہ سے پھر نکلا ن ن ن ن نہیں یں میں رکنے کی بجائے مزید تیزی سے اپنی زبان چلانے لگا میرا لن مزید ٹائٹ ہورہاتھا اور اپنے فل سائز پر پہنچ چکا تھا دل کررہا تھا کہ اپنے لن کو اس کی پھدی میں ڈال دوں مگر میں اپنے ساتھ ساتھ میریم کو بھی فل انجوائے کرانا چاہتا تھا اس کے بعد میں نے اپنے زبان میریم کی بالوں سے پاک رانوں پر پھیرنا شروع کردی اب شائد یہ سب کچھ میریم کی برداشت سے باہر ہورہا تھا اس نے اپنی ٹانگیں اکٹھی کرلیں اور مجھے سر سے پکڑ کر اوپر کرلیا اور کہنے لگی اب مزید برداشت نہیں ہورہا میں نے خود کو اس سے چھڑایا اور پھر سے اس کی ٹانگیں سیدھی کرکے ان پر باری باری زبان پھیرنے لگا اس نے مجھے پھر اوپر کیا میں سمجھ گیا کہ اب میریم پوری طرح تیار ہوچکی ہے پھر میں اس کے ٹانگوں کے درمیان میں آگیا اور اس کی ٹانگیں پکڑ کر اپنے کولہوں پر رکھنے لگا کہ اچانک اس کی نظر میرے لن پر پڑی جو لوہے کے کسی راڈ کی طرح سیدھا کھڑا ہوا تھا جس پر اس کے چہرے پر خوف طاری ہوگیا اور کہنے لگی ہائے میرے ربا ااااا یہ اتنا بڑا مجھے تو مار ڈالے گا اس نے پھر سے ٹانگیں اکٹھی کرلیں اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی میں نے اس کو پھر سے لٹا تو اس نے مجھ سے کہا ”شاکر پلیز آج میں مزید کچھ نہیں کرسکتی آج جانے دو یہ سب پھر کبھی “ میں نے اس کی بات ان سنی کردی اور اس کو پھر سے لٹا یا اور اس کی ٹانگیں اکٹھی کر کے پھر سے کولہوں پر رکھیںاس پھدی بالوں سے بالکل پاک تھی لگتا تھا ابھی ابھی بال صاف کئے ہوںاس کی پھدی کافی گیلی ہوچکی تھیمیںنے اس کی پھدی پر ایک بار ہاتھ پھیرا اور پھر اس کی پھدی پر اپنا لن فٹ کرکے اس کے اوپر لیٹ گیا اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کرلیں میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور اس کے دونوں بازوں کو پھیلا کر ان پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے اس کے بعد اس کے ہونٹوں کوچوسنا شروع کردیا جیسے ہی اس کا دھیان کسنگ کی طرف ہوا میں نے ہلکا سا جھٹکا دیا جس پر اس نے سر کو دوسری طرف کیا اور کہا شاکر مجھے بہت پین ہورہی ہے پلیز مجھے چھوڑ دو میں نے پھر سے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور اپنی فل طاقت سے اس کی پھدی میں اپنا لن دھکیل دیا جس کے ساتھ ہی اس کے ناک سے اووووووووں کی آواز نکلی اور اس کی آنکھیں جیسے پھٹنے لگی ہوں اور ساتھ ہی دونوں آنکھوں سے آنسو نکل آئے میرا آدھے سے کچھ کم لن اس کی پھدی میں جاچکا تھا میں نے اس کے ہونٹوں کو نہ چھوڑا اور اس کی کسنگ کرتا رہا تاہم اس کی پھدی میں لن کو حرکت نہ دی چند لمحے تک اسی طرح اس کے اوپر لیٹا ہوا کسنگ کرتا رہا وہ بار بار اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی رہی لیکن میں نے ان کو سختی سے پکڑے رکھا چند منٹ تک کسنگ کے بعد اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے تو اس کے منہ سے تکلیف کے مارے ایک چیخ نکل گئی اور ساتھ ہی وہ رونے لگی اس کے ساتھ ہی اس نے کہا شاکر میں آج زندہ نہیں بچوں گی مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے پلیز بس کرو میں نے پھر اس کو کسنگ شروع کی اور چند لمحے بعد ایک اور زور دار جھٹکا دیا اب کی بار پھر اس کی آنکھیں ایسے کھل گئیں جیسے ابھی پھٹ جائیں گی اور ساتھ پھر سے آنسو جاری ہوگئے اب دیا جانے والا جھٹکا اپنا کام دکھا گیا تھا اور میرا لن جڑ تک اس کی پھدی میں چلا گیا تھا میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے ہٹائے تو وہ چیخنے لگی شاکر پلیز اس کو نکالو میں مرجاں گی ہائے ئے ئے ئے ئے ئے ئے اف ف ف امی جی جی ی ی ی ی میں مر گئی چیخوں کے ساتھ ہی اس نے اپنا سر ادھر ادھر پٹخنا شروع کردیا میں نے اس کے سر کو پکڑا اور پھر کسنگ کرنے لگا لیکن اس نے پھر اپنا سر چھڑا کر سر پٹخنا شروع کردیا میں نے اس کو کہا کہ میریم ذرہ حوصلہ کرو ابھی ساری تکلیف دور ہوجائے گی لیکن اس کی چیخوں میں مزید تیزی آگئی اس کا جسم ٹھندا ہوگیا اور وہ کانپنے لگی لیکن میں نے اپنا لن اس کی پھدی سے نہ نکالا اور اس کے اوپر ہی اس کو حرکت دیئے بغیر ہی لیٹا رہا اس نے خود کو میرے نیچے سے نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن ناکام رہی پھر چند منٹ بعد اس کی تکلیف میں کچھ حد تک کمی ہوگئی اور اس نے مجھے کمر سے پکڑ لیا پھر میں نے اس کو دوبارہ کسنگ کی اور اس سے پوچھا کہ تکلیف ختم ہوئی کہ نہیں تو اس نے ناں میں سرہلایا اور پھر کہنے لگی کچھ کم ہوئی ہے پھر میں اس کے اوپر سے اٹھا اور اپنے لن کو آہستہ آہستہ سے اس کی پھدی میں حرکت دینا شروع کی وہ پھر سے چلا اٹھی شاکر آرام سے ہائے میں مر گئی ہائے امی جی ی ی ی ی آرام اس اس س ام اف ف ف ف ف میں آہستہ آہستہ سے اس کی پھدی میں اپنے لن کو اندر باہر کرتا گیا کچھ دیر بعد اس کی آواز سے درد کا عنصر کم اور مزے کا زیادہ ہونے لگا اس پر میں نے اپنی سپیڈ تھوڑی سی بڑھائی تو وہ پھر سے چلانے لگی جس پر میں نے سپیڈ پھر سے کم کردی اب وہ میرا پوری طرح ساتھ دے رہی تھی لیکن جیسے ہی میں سپیڈ پکڑنے لگتا وہ چلانے لگتی جس پر میں آہستہ آہستہ لگا رہا تقریباً پانچ منٹ کے بعد اس نے مضبوطی سے میری کمر کو پکڑ لیا اور اس کا جسم اکڑنے لگا پھر اس کا جسم جھٹکے لینے لگا اور وہ فارغ ہوگئی اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ناخن میری کمر پر گاڑ دیئے جس سے تکلیف کے باعث میرے ہونٹوں سے بھی تکلیف کے مارے ایک ہلکی سی آہ نکل گئی لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا مزید چند منٹ کے بعد وہ پھر سے چھوٹ گئی اور چند منٹ کے بعد میں بھی چھوٹ گیا میں نے اپنی ساری منی اس کی پھدی میں ہی ڈال دی اور فارغ ہوتے ہی اس کے اوپر ہی لیٹ گیا کمرے میں ہیٹر لگا ہوا تھا اور چند منٹ پہلے ہم دونوں کے جسم تپ رہے تھے لیکن اس وقت دونوں کے جسم ٹھنڈے ہوچکے تھے اس کا جسم برف کی مانند تھا میں نے اس کے اوپر لیٹے لیٹے پاس پڑا کمبل اوپر لیامیرا لن ابھی تک سختی میں تھا اور اس کی پھدی کے اندر ہی تھا ہم دونوں لمبے لمبے سانس لے رہے تھے چند منٹ اس کے اوپر ہی لیٹا رہا پھر میرا لن اس کی پھدی میں ہی اپنی سختی کھوتا گیا اور سکڑ کر خود ہی باہر نکل گیا میں اس کے اوپر سے ہٹا اور اس کے ساتھ لیٹ گیا میں نے اپنا ایک بازو اس کی گردن کے نیچے کرکے اس کی گردن اپنے کندھے پر رکھ لی وہ بے سدھ ہوچکی تھی اس کی گردن جیسے لڑک رہی ہو وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی میں نے اس کے گالوں کو تھپتھپایا لیکن وہ بدستور آنکھیں بند کئے لیٹی رہی اس کا جسم ابھی تک ٹھنڈا تھا میں خیر میں نے اس کو ہلانا بند کیا اور لیٹ گیا گھڑی پر نظر پڑی تو صبح کے چار بج رہے تھے گویا ہم لوگ قریباً دو گھنٹے تک پیار پیار کھیلتے رہے پھر میری آنکھ لگ گئی ہم دونوں ایک ہی کمبل میں ننگے سو گئے میری آنکھ کھلی تو دوپہر کے گیارہ بج رہے تھے میریم ابھی تک سو رہی تھی لیکن اب اس کے جسم کا درجہ حرارت نارمل تھا میں نے اس کے گالوں کو تھپتھپایا تو ہوووں ہووووں کے کرکے اس نے اپنی آنکھیں کھول دن میں نے اس سے کہا اب کیا حال ہے تو اس نے مجھے اپنی باہوں میں بھینچ لیا میں نے اس کو کہا کہ اب اٹھو گیارہ بج رہے ہیں میں بازار سے ناشتہ لے کر آتا ہوں میں نے خود سے کمبل ہٹایا اور باتھ روم میں چلا گیا میں نے دیکھا کہ اس کی پھدی سے نکلنے والے خون سے میرا لن بھی سرخ ہوا تھا میں نے اس کو اچھی طرح سے دھویا اور پھر غسل کرکے تولیہ لپیٹ کر باہر آگیا جہاں میں نے شلوار قمیص پہنی اور اس کو اٹھنے کے لئے کہا اس نے بھی کمبل اوپر سے ہٹایا اور کھڑی ہوگئی اور کھڑی ہوتے ہی لڑکھڑا گئی میں نے اس کو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ گر جاتی اس نے مجھے کہا کہ مجھے ابھی تک درد ہورہا ہے میں نے اس تسلی دی کہ تھوڑی دیر میں درد ختم ہوجائے گا پھر اس کو پکڑ کر باتھ روم میں چھوڑ کر آیا تو دیکھا کہ میرے بیڈ کی چادر خون سے پوری طر ح سرخ ہوچکی تھی میں نے چادر اکٹھی کرکے ایک طرف رکھی تو بیڈ کے میٹرس پر بھی خون کے داغ تھے کچھ دیر کے بعد باتھ روم سے میریم نے آواز دی کہ کپڑے پکڑا دو میں نے اس کو کپڑے دیئے تو وہ پہن کر باہر آگئی میں نے کہا کہ ناشتہ لے کر آتا ہوں تو کہنے لگی ابھی صرف چائے دوپہر میں کچھ کھائیں گے پھر ہم دونوں نے کچن میں جاکر پھر مخشک دودھ کی چائے بنائی اور پی ساتھ میں کچھ بسکٹس لئے میریم نے کہا کہ اسے ابھی تک تکلیف ہورہی ہے جس پر میں نے اس کو ایک پین کلر دی جس پر اس کو کچھ دیر بعد آرام آگیا اتوار کی چھٹی تھی ہم دونوں گاڑی پر لانگ

ڈرائیو پر نکل گئے اس رات پھر میرا سیکس کا ارادہ تھا لیکن میریم نے کہا کہ ابھی بھی وہ پین فیل کررہی ہے جس پر میں نے کچھ نہ کیا لیکن ہلکی پلکی کسنگ ضرور کی اس کے بعد تقریباً تین ہفتے تک روزانہ سیکس کرتے رہے اس دوران میریم نے ہاسٹل کی تلاش بھی روک دی اور اپنے گھروالوں کو بتایاکہ وہ اس کی تلاش میں ہے جیسے ہی کوئی اچھا ہاسٹل ملا وہ یہاں سے شفٹ ہوجائے گی پھر میریم نے ایک روز مجھے بتایا کہ اس کو میںسز نہیں ہوئے تو میں نے اس کو پریگنینسی سٹک لاکر دی جس پر ہمیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے پھر ہم لوگ ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس بھی گئے جس نے ہمیں مبارک باد دی کہ ہم لوگ ماں باپ بننے والے ہیں جس پر ہم دونوں کافی گھبرائے میں نے میریم کو کہا کہ وہ حمل گروا دے لیکن وہ نہ مانی جس پر ہم دونوں نے گھروالوں سے چوری نکاح کرلیا اور پھر گھر والوں کو بتادیا پہلے دونوں اطراف سے انکار کیا گیا لیکن بعد میں مجبوراً دونوں مان گئے ہماری شادی تقریباً تین ماہ تک بہت بہترین چلتی رہی اور اس دوران میں بھی اپنی دوسری ”سرگرمیوں“ سے باز رہا لیکن پھر ایک روز میریم کو میرے موبائل میں موجود مختلف لڑکیوں کے ایس ایم ایس سے میری کرتوتوں کا علم ہوگیا جس پر اس نے مجھ سے بہت لڑائی کی میں نے اس کو جھوٹ بول کر بہت منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانی اور اس نے ایک روز کسی لیڈی ڈاکٹر سے جاکر اپنا حمل گروا دیا اس کے بعد اس نے مجھ سے طلاق لے لی اس کے بعد اس نے اپنی رہائش ایک سرکاری ہاسٹل میں رکھ لی اور اس وقت سے ابھی تک شادی نہیں کی ہمارے درمیان طلاق کے باعث دونوں خاندانوں کے درمیان کئی سالوں سے قائم تعلقات بھی ختم ہوچکے ہیں میں ابھی تک میریم کو نہیں بھلا سکا کئی بار میں نے اس کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے رابطہ نہیں کیا میں اس کے ساتھ بتائے جانے والے ایک ایک لمحے کو ابھی تک یاد کرتا ہوں اور اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میریم کے ساتھ سیکس کرنے اور وقت گزارنے کا جو مجھے مزہ ملا ہے میں درجنوں لڑکیوں کے ساتھ سیکس 

کرچکا ہوں مجھے وہ مزہ نہیں مل سکا اور نہ ہی اطمینان ہوسکا ہے

ختم شُد

tabasam tabish novels

tabassum tabish novels fb

tabassum tabish novels

tabassum tabish novels pdf free download

tabasam tabish novels and stories

tabasam tabish novels all

tabasam tabish novels and books

tabassum tabish novels about the mafia

tabassum tabish novels are there

tabasam tabish novels book

tabassum tabish novels best

tabassum tabish novels books

tabassum tabish novels pdf download

tabasam tabish novels in urdu