SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

پیار محبت کی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پیار محبت کی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 9 اکتوبر، 2022

بھائی کی شادی.A new Story

 



بھائی کی شادی

میں اپنی دور کی راشتہ دار جوان خوار لڑکی کی پھدی لی اس کو بھی پھدی دینے کا شوق تھا مجھے بھی بلبلاتے لن کو کہیں چھپانا تھا پھر میں نے سوچا کئی دنوں سے مٹھ مار مار کے بے زار ہو گیا ہوں

اور اب کی بار ا سرشتہ دار جوان لڑکی کو پٹا کے اگر ا سکی پھدی تک رسائی مل جائے تو کیا ہی بات ہو گی بس یہ سوچ کے میں نےاس رات اس لڑکی کے آگے پیچھے تمام پریکٹس کی تھی اور میں خامیاب ہو ہی گیا اس کی جوانی کی رسیلی پھدی کو چودنے میں بڑے کسرتی چوتڑ چاٹنے پھدی چاٹنے اور ممے چوسنے

میں مجھے چوتڑ پھدی چاٹنا اور ممے چوسنا برابر اس کام کے لڑکی کی بونڈ میں چھوٹی آئل والی انگلی دالکر بونڈ کھول؛نا بہت اچھا لگتا ہے ممے بھی چوسے جا رہے ہوں

پھدی کے دانے پہ زبان ہو اور ایک انگلی بونڈ میں ہو لڑکی جناب ایک دم لش لش کر کے پھدی دینے پہ تیار ہو جاتی ہے کبھی کر کے دیکھیں وہ لن یوں مانگے گی جیسے صدیوں سے لن کو ترس رہی ہو میں نے تو فور پلے جب بھی کیا ہے اسی طرح پھدی لینے سے پلے کرتا ہوں تب ایک دو منٹ چدائی میں کافی ہوتے ہیں

اور لڑکی کی پھدی پانی چھوڑ دیتی ہے دو گھسے بڑے بڑے لگا دو اور کام ختم ہو جاتا ہے آج میں آپ کو اپنی ہی آپ بیتی کہانی سناتا ہوں یہ میرے بڑھے بھائی کی شادی کی بات ہے

آج سے دوسال پہلے کی جب میں انیس بیس سال کا تھا اور انٹر کا طلب علم تھا اور ایک جوان پاکستانی تھا میں کوچنگ بھی جاتا تھا میں نے بھائی کی شادی میں اپنے کلاس فیلوز کو بھی بلا لیاتھا سب تو نہیں لیکن کچھ جو میرے کلوز فرینڈز تھے وہ آےتھے ان میں ہیرابھی تھی ہیرا اس کا نک نیم تھا سب ا سطرح بلاتے تھے اصل نام حرا تھا لیکن سب لاڈ اور مذاق میں ا سکو ہیرا سے تشبہ دیکر ہیرا کہتے تھے وہ واقعی ہیرا ہی تھی کیا ممے اور پیٹ ایک دم ماڈل تھی وہ لڑکی

وہ دیکھنے میں بہت ہی پیاری اور ہوٹ تھی شادی میں جب آئ تھی تو اور بھی حسین لگ رہی تھی خیر جب میں نے اسے دیکھا تو تھوڑی دیر تک تو میں دیکھتا رہا

پھر مجھے کچھ ہونے لگا میں نے سوچا اسے کہوں کے تم بہت حسین لگ رہی ہو لیکن میں نے خود روکا.اس دن مہندی تھی اسےٹیبل تک چھوڑ کے اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا

دوسرےدن برات تھی وہ برات میں بھی آئ اس دن تو اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی اس نے بلیک کلر کا ڈریس پہنا تھا ان کپڑوں میں وہ قیامت لگ رہی تھی

میں نے آتے جاتے اس کی تعریفیں کرنا سٹارٹ کر دی پروگرام اینڈ ہو نے لگا تو میں نے اسے روکنے کا کہا پہلے تو وہ منع کرتی رہی میں سمجھ گیا ا سنے چدائی کرانی ہے پر نخرے کرنے کے بعد پھدفی دے گی خیر مجھے چودنی تھی میں بھی تعریف کرتا رہا کیا فرق پڑتا ہے

پھر تھوڑی کوشش کے بعد وہ مان گئی اور کہنے لگی میں مما کو کال کر دوںمیں نے کہا ٹہک ہے میری فیملی تھوڑی بروڈمائنڈ ہے وہ ان باتوں پر کوئی روک ٹوک نہیں کرتے

کہ کون آ رہا ہے کون نہیں .. خیر گھرمیں پھر تو شادی کا ماحول تھا وہ رک گی گیسٹ کے جانے کے بعد میں نے اسے میرے روم میں آرام کرنے کو کہا وہ تھوڑا گھبرائی

پھر جب میں نے اپنی مما سے کہلوایا تو وہ ماں گئی اور روم میں جا کر کر ٹی وی دیکھنے لگی میں بھی کام اور گیسٹ سے فری ہو کر روم میں گیا تو وہ کرسی پر بیٹھی سو رہی تھی میں نے آواز دی ہیرا اٹھو بیڈ پر لٹ جاؤ

وہ پھربھی سوتی رہی پتہ نہیں وہ کب سے سو رہی تھی اس کے بال بھی بکھر گے تھے مجھے یہ دیکھ کے اس پر اور بھی پیار آنے لگا میں نے آپنی فنگر سے اس کے منہ پر سے بال ہٹائے

تو وہ چونک کے آٹھ گئی اور میرے گلے سے لگ گئی یہ دیکھ کے میں بھی تھوڑا حیران ہوا پھر ہیرا بولی اچھا ہوا آصف تم ہو میں تو ڈرہی گی تھی کہتے ہی وہ دور ہو گئی میں نے کہا ہممم ڈرو مت میں ہی ہوں اور اس کہا آ پ آرام کرو میں باہر ہوں

وہ بولی تم کہی مت جاؤ نہ آج تم اچھے لگ رہے تھے میں نے کہا ہمممممممم میں یہی ہوں تم بھی بہت پیاری لگ رہی تھیں ا سکے ساتھ ہی ا سنے اب ذہن بنا لیا تھا کہ اب چدا ہی لوں بس ذہن بننے کی دیر ہوتی ہے

اسے گلے لگا لیا گلے لگا کر ہاتھ سے اس کی گردن سے بال ہٹا کے اس کی گردن پر کسسس کرنے لگا وہ میری بہو میں سمٹنے لگی میں نے اسکے لیپ پرکیسس کی

اور اسے گودھ میں لے کے بیڈ پر گیا اور اس کے اور اپنے بھی کپڑے اتار کے گیٹ لاک کیا اور اس کے اوپر آ کے لیٹا لیپ کسسس کی اور اس کے بدن کو چومتا رہا

اس کے پورے بدن کو اتنا چوما کے وہ سیسکنے لگی کے میں اس کی چوت میں اپنا لنڈ ڈال دوں میں نے بھی تھوڑی دیر میں اس کی تانگے اٹھا کے اپنا لنڈ اس کی چوت میں ڈالا ہی تھا کے اس کی چیخیں مجھے اور جوش دلا رہی تھیں

اس کے بوبس کو چوسنتے چوستے جھٹکے دینے لگا اور بھی مزہ آنے لگا وہ بھی سہی سے انجوئی کر رہی تھی جھٹکے دیتے دیتے میں ڈسچارج ہونے والا ہی تھا

تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم کتے ٹائم میں ہوگی تو بولی بس ہونے ہی والی ہوں میں نے جھٹکے دِیے تو ہم ساتھ ڈسچارج ہوے ہمیں اس روز بہت ہی مزہ آیا تھا آج بھی وہ اچھی دوست ہے لیکن ملنا کبھی کبھی ہوتا ہے مجھے تو بہت ہی مزہ آیا تھا اس کو چود کے کیا شاندار لڑکی تھی

 best hot urdu novels

hot and bold urdu novels online

hot and bold urdu novels pdf fb

bold and hot romantic urdu novel

hot and bold urdu novels list

hot urdu novel club

بدھ، 1 جون، 2022

وہ مجھ سے بڑی تھی

 


وہ مجھ سے بڑی تھی

یہ واقعہ میرے ابو کے پرانے دوست کی بیٹی میریم کے ساتھ بتائے جانے والے لمحات کے بارے میں ہے میریم کے ابو سرگودھا کے ایک بڑے زمیندار ہیں ان کی دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک کی شادی لندن میں ہوئی ہے جبکہ دوسری لاہور میں ایک پرائیویٹ بنک میں ملازمت کرتی ہے اور آج کل لاہور کے ایک وویمن ہاسٹل میں قیام پذیر ہے یہ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے جب میریم نے ایم اے اکنامکس کے بعد گھروالوں سے ملازمت کے لئے کہا گھر والوں نے کافی سمجھایا کہ ان کے ہاں کون سی چیز کی کمی ہے جو وہ ملازمت کرنا چاہتی ہے لیکن وہ نہ مانی اور ملازمت کی ضد پر اڑی رہی آخر کار اس کے گھر والوں کو اس کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی میریم نے سرگودھا سے ہی کسی بنک میں ملازمت کے لئے آن لائن اپلائی کیا جس پر اس کو انٹرویو کے لئے لاہورکال کیا گیا انٹرویو کے لئے اس کے والد صاحب اس کے ساتھ آئے میریم کے ابو کو معلوم تھا کہ میں لاہور میں رہتا ہوں انہوں نے لاہور میں قیام کے لئے میرے ابو کو کہا کہ وہ مجھے اپنے ہاں ٹھہرنے دن میرے ابو نے مجھے سے بات کی جس پر میں نے ان کو کہا کہ جب مرضی آجائیں یہ آپ کا اپنا گھر ہے جس پر وہ میریم کے ساتھ لاہور آگئے وہ اکتوبر یا نومبر کی بات ہوگی جب میریم اور اس کے ابو اپنی گاڑی پر صبح صبح میرے گھر آگئے مجھے ان کی آمد کے بارے میں میرے ابو نے رات کو ہی آگاہ کردیا تھا میں ان لوگوں کے انتظار میں ہی تھا جب وہ لوگ آگئے میں نے اپنے نوکر کو ان لوگوں کو ناشتہ دینے کے لئے کہا اور خود دفتر چلا گیا شام کو گھر آیا تو ان لوگوں سے بات چیت ہوئی ان لوگوں نے بتایا کہ انٹرویو میں کئی امیدوار تھے اور میریم کو کل پھر آنے کو کہا گیا ہے بات چیت کے دوران میریم نے کم ہی گفتگو کی میں نے بھی میریم سے زیادہ بات چیت کرنے اور فری ہونے کی کوشش نہیں کی ویسے بھی میریم میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ میں اس میں زیادہ انٹرسٹ لیتا وہ ایک عام شکل وصورت کی مالک سانولے رنگ کی لڑکی تھی لیکن اس میں ایک خاص بات اس کو دوسری لڑکیوں سے برتری دیتی تھی اس کا قد قریباً پانچ فٹ آٹھ نو انچ ہوگا وہ کھڑی ہوتی تو اس کا قد میرے برابر معلوم ہوتا میرا قد پانچ فٹ دس انچ ہے اس کے قد کے علاوہ اس میں کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جس کوبیان کیا جاسکے اس کی عمر بائیس تیئس سال کے قریب ہوگی خیر رات کو دس بجے کے قریب میں نے ان لوگوں سے سونے کے لئے اجازت لی اور اپنے کمرے میں آکر سو گیا اگلے روز میں ابھی سویا ہوا تھا کہ وہ لوگ انٹرویو کے لئے نکل گئے میں شام کو دفتر سے آیا تو معلوم ہوا کہ میریم کو سلیکٹ کرلیا گیا ہے اور وہ آئندہ ماہ کی یکم تاریخ سے بنک کو جوائن کررہی ہے میں نے میریم اور اس کے والد صاحب کو مبارکباد دی میریم جاب ملنے کی خوشی میں کافی خوش تھی جبکہ اس کے والد صاحب کو زیادہ خوشی نہیں ہوئی تھی اس رات بات چیت کے دوران میریم کے ابو نے کہا کہ لاہور میں میریم رہائش کہاں رکھے گی تو میں نے ان کو کہا کہ لاہور میں وویمن ہاسٹل کافی زیادہ ہیں جہاں میریم کو آسانی سے رہائش مل سکتی ہے لیکن میریم کے ابو زیادہ مطمیئن نہیں تھے تاہم میری طرف سے تسلی کے بعدانہوں نے میریم کو ہاسٹل میں رہائش کی اجازت دے دی اگلے دو تین روز ان لوگوں نے ہاسٹل میں خالی جگہ ڈھونڈنے کے لئے خرچ کئے اس حوالے سے میں نے بھی ان لوگوں کی کافی مدد کی لیکن کسی اچھے ہاسٹل میں فوری طور پر جگہ نہ مل سکی ہر جگہ سے ناکامی کے بعد میریم کے ابو مایوس ہوگئے اور انہوں نے میریم کو کہا کہ جب تک اس کو کسی اچھے ہاسٹل میں رہنے کے لئے جگہ نہیں مل جاتی وہ جاب جائن نہ کرے لیکن میریم نے کہا کہ وہ اس جاب کو کسی صورت بھی نہیں چھوڑے گی تو اس کے ابو نے کہا کہ تو پھر تم رہو گی کہاں تو اس نے فوری طورپر یہ کہہ دیا کہ جب تک کسی اچھے ہاسٹل میں جگہ نہیں ملتی وہ اسی گھر میں رہ لے گی یہ سن کر مجھے کافی دھچکا لگا کیوں کہ اس کے رہنے سے میری پرائیویسی ختم ہوجاتی لیکن میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ ان لوگوں سے کافی پرانی شناسائی ہے اور میرے انکار پر ان کو افسوس ہوگا اس کے علاوہ مجھے یہ امید تھی کہ میریم کے ابو کسی صورت بھی اس کو ایک جوان لڑکے کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دن گے میری امید کے بالکل عین مطابق میریم کے ابو نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا لیکن اس پر میریم نے کہا کہ ابو کیا ہوا جو میں چند روز اس گھر میں رہ لوں گی اس میں حرج ہی کیا ہے جس پر میریم کے ابو کو ہتھیار ڈالنا پڑے انہوں نے میرے سامنے ہی یہ بات فون پر میرے ابو کے ساتھ کردی جس پر انہوں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے میریم چاہے تو یہاں ساری عمر رہ لے ویسے بھی شاکر اس کا ”بھائی “ ہی تو ہے ہاسٹل کی بجائے اسی گھر میں زیادہ ٹھیک رہے گا ویسے بھی میریم کو کون سا ساری عمر جاب کرنی ہے جو سال چھ مہینے جاب کرنی ہے یہیں رہ لے ان کی اس بات پر میں بہت پریشان ہوگیا لیکن میں اپنے ابو کی بات سے کسی صورت بھی انکار نہیں کرسکتا تھا میں اس بات کی مخالفت میں چاہتے جتنے بھی دلائل دیتا ابو اپنی بات کو کسی صورت بھی رد نہ کرنے دیتے اور مجھے ”نافرمان“ کا خطاب الگ سے مل جاتااس کے علاوہ مجھے ان کی یہ بات ماننا بھی پڑتی سو میں خاموش ہوگیا میریم کی رہائش کا مسئلہ ”حل “ ہونے پر یہ لوگ اگلے روز ہی سرگودھا چلے گئے میریم کو دوہفتے بعد ہی دوبارہ آنا تھا دوہفتے بعد میریم دوبارہ اپنے والد محترم کے ساتھ دوبارہ یہاں آگئی اس کے والد صاحب دو دن لاہور میں میرے گھر ہی رہے اس دوران وہ میری عادات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے کہ ان کی بیٹی کو یہاں کوئی خطرہ تو نہیں اس دوران انہوں نے میریم کو سوزوکی مہران گاڑی خرید کر دی تاکہ وہ دفتر آسانی سے جاسکے اس کو بسوں ویگنوں میں دھکے نہ کھانا پڑیں اس کے بعد وہ واپس سرگودھا چلے گئے واپس جاتے ہوئے انہوں نے مجھے میریم کا خیال رکھنے کی تاکیدبھی کی ان کے جانے کے بعد میں اپنی روٹین پر آگیا میں نے یہ خیال دل سے نکال دیا کہ اس گھر میں میرے علاوہ کوئی جوان لڑکی بھی رہتی ہے لیکن میں نے گھر میں کوئی ایسا کام نہ کرتا جس سے مجھ پر ”بدچلن“ ہونے کا الزام لگ سکتا تھا میریم کی جاب سٹارٹ ہوئی تو وہ جو کپڑے پہنتی تھی اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا لیکن آٹھ دس روز بعد ہی اس کے کپڑے سکڑنا شروع ہوگئے وہ اپنے لئے سرگودھا سے جو کپڑے لائی تھی وہ اس نے بیگ میں رکھ دیئے جبکہ اپنے لئے نئے کپڑے خریدے جس کو وہ پہنتی تو دیکھنے والے کی نظر اس پر ٹھہر جاتی اور خواہ مخواہ شہوت آجاتی میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا لیکن میں نے اس پر کچھ بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں اس کی تبدیلی کا کوئی نوٹس لے رہا ہوں جب کبھی میں دفتر سے جلدی واپس آجاتاتو میریم سے گپ شپ بھی ہوجاتی اکثر اوقات گپ شپ کا موضوع سیاست ہوتا میریم نے یہاں آنے کے بعدپہلے دن سے کھانا پکانے کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جبکہ دوسرے کام بدستور نوکر ہی کرتے تھے میریم نے مجھے اس بات کا بھی پابند کردیا تھا کہ میں کھانا گھر سے کھاں اگر کبھی میں باہر سے کھانا کھاتا تو اس پر وہ باقاعدہ ناراض ہوتی جس پر پہلے پہل مجھے حیرانگی بھی ہوئی لیکن میں خاموش رہا وہ مجھے شروع شروع میں شاکر صاحب کہہ کر بلاتی لیکن آہستہ آہستہ صاحب کا لفظ ختم ہوگیا اور صرف شاکر رہ گیا چند ہی دنوں میں ہم دونوں آپس میں کافی حد تک گھل مل گئے تھے اکثر اوقات میں اس کو ہاسٹل میں جگہ ملنے کے بارے میں پوچھتا تو وہ کہتی کہ تلاش کررہی ہوں جلد مل جائے گی ایک روز میں نے حسب معمول کھانے کے بعد بات چیت کے دوران اس سے پھر ہاسٹل کے بارے میں پوچھا تو اس کے منہ سے خلاف توقع الفاظ سننے کو ملے اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ ایک جوان آدمی کی کیا پرائیویسی ہوتی ہے لیکن آپ اپنی سرگرمیاں ایسے ہی جاری رکھ سکتے ہیں جیسے میں یہاں پر موجود ہی نہیں ہوں آپ کو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں نے اس کو جواب دیا کہ میری پرائیویسی زیادہ یہ بات اہم ہے کہ جوان لڑکا لڑکی ایک گھر میں رہتے ہیں اس پر لوگ باتیں بنائیں گے جس پر اس نے مزید حیرانگی کی بات کی کہ” لوگوں کو کرنے دن باتیں جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“اس کی یہ بات سن کر میں چپ سا ہوگیا اس رات کافی دیر تک باتیں کرتے رہے پھر رات کو گیا رہ بجے کے قریب میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور وہ بھی اپنے لئے مخصوص کمرے میں چلی گئی بیڈ پر جاتے ہی آج پہلی بار میں نے میریم کے بارے میں کسی اور انداز میں سوچا میرے ذہن میں عجیب عجیب سے منصوبے جنم لینے لگے خیر میں نے ان تمام خیالات کو رد کردیا اور سو گیا اگلے روز ہفتہ تھا میں ابھی دفتر میں ہی تھا کہ میریم کا موبائل پر فون آگیا اس نے کہا کہ ممکن ہوتو آج جلدی گھر آجائیں میں نے ایک خاص چیز بنارہی ہوں میں بھی فارغ ہی تھا گھر چلا گیا گھر پہنچا تو میریم گاجر کا حلوہ بنا رہی تھی مجھے نہیں معلوم کہ اسے کس نے بتا دیا کہ مجھے گاجر کا حلو ہ اچھا لگتا ہے اس کے علاوہ ایک اور بات جس نے مجھے حیران کردیا وہ میریم کا لباس تھا آج اس نے میری الماری سے میری بلیک ٹی شرٹ نکال کر پہنی ہوئی تھی لگتا تھا وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی ہے ٹی شرٹ کے نیچے اس کے ممے بتا رہے تھے کہ اس نے برا نہیں پہنا ہوا نیچے میرا ٹرازر اور میرے ہی جوگر پہنے ہوئے تھے میرے گھر پہنچتے ہی اس نے کہا کہ کیسی لگ رہی ہوں میں نے اس سے کہا کہ یہ اچھی بات نہیں کہ کسی کے کپڑے نکال کر پہن لئے جائیں تو کہنے لگی کہ میں کوئی نہیں اب اس گھر کی فرد ہوں اور اس گھر کی ہر چیز پر اس وقت تک میرا بھی حق ہے جب تک میں یہاں قیام پذیر ہوں جس پر میں خاموش ہوگیاخیر شام کو چھ بجے کے قریب ہم دونوں نے کھانا کھایا اور پھر باتیں کرنے لگے اس دوران میریم نے کہا کہ کیا ہم لوگ بور سے ٹاپک پر بات چیت کرتے رہتے ہیں چلو آج شطرنج کھیلتے ہیں میں نے بھی حامی بھر لی میں اچھی خاصی شطرنج کھیل لیتا ہوںاور کافی عرصہ سے کبھی موقع نہیں ملا تھا میری ہاں پر میریم اٹھی اور اپنے کمرے میں گئی جہاں سے شطرنج اٹھا لائی ہم نے بازی لگائی میرے لئے یہ امر حیرانگی کا باعث تھا کہ میریم شطرنج کی اچھی خاصی پلیئر تھی وہ جارحانہ انداز میں کھیل رہی تھی جبکہ میں دفاعی پوزیشن پر تھامیریم جب بھی کوئی چال چلتی اس کے ساتھ ہی ”چیک“ کی آواز لگاتی اور ساتھ ہی بازو اوپر کرکے ہووووووووو کی آواز لگاتی میں کافی دیر تک سوچ کر اس کی چال کا جواب دیتا تو وہ فوراً نئی چال چل کر پھر” چیک“ دیتی‘ خیر میں کوشش کے باوجود اس سے پہلی باری ہار گیا اس کے بعد دوسری بازی شروع ہونے لگی تو کہنے لگی ایسے کھیلنے میں مزہ نہیں آئے گا کوئی شرط لگا کر کھیلتے ہیں میں نے کہا کیا شرط لگانی ہے تو کہنے لگی جو بھی ہارے گا وہ دونوں کے لئے چائے بنائے گا میں نے اس پر ہاں کردی اور بازی شروع ہوگئی اب کی بات مات میریم کا مقدر بنی اورمیں نے میریم سے کہا کہ چلو جلدی سے چائے بنا کر لا وہ منہ بسورتے ہوئے اٹھی کچن میں چلی گئی جاتے ہوئے میں نے آواز لگائی چائے نہیں دودھ پتی بنا لینا وہ خاموشی سے چلی گئی چند لمحوں کے بعد واپس آئی اور کہنے لگی دودھ نہیں ہے میں نے آہستہ آواز میں اس سے کہا کہ گھر کے دودھ کی بنا لو لیکن شائد اس نے سن لیا تھا میری بات سن کر مسکرادی اور کہنے لگی کیا کہا میں نے بات بدلی اور کہا کہ میرا مطلب ہے کہ خشک دودھ کی بنالوتو کہنے لگی کہ خشک دودھ کہاں ہے میں نے اس کو کہا کہ کچن کے فلاں کیبن میں پڑا ہے تو وہ پھر چلی گئی اور چند لمحوں کے بعد پھر آگئی اور کہنے لگی کہ مجھے نہیں ملتا آکر دے دو میں اٹھا اور اس کے ساتھ کچن میں چلا گیا اور اس کو ایک کیبن سے خشک دودھ کا پیکٹ نکال کر دیا اور خود واپس آنے لگا تو اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور کہنے لگی کہ یہیں ٹھہرو میں چائے بنا لیتی ہوں تو اکٹھے چلتے ہیں آج اس نے مجھے پہلی بار ” ٹچ“ کیا تھا خیر میں نے اس کی یہ ”حرکت“ بھی اگنور کردی اور اس کے ساتھ ہی کچن میں کھڑا ہوگیااس کی پیٹھ میری طرف تھی جبکہ میں اس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا اس کے بال ابھی تک گیلے تھے اور کھلے ہوئے تھے جو اس کی گانڈ کے ابھار کو چھو رہے تھے وہ چائے کے لئے کیتلی میں پانی گرم کررہی تھی کہ اچانک مجھ سے گویا ہوئی
شاکر کیا تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے“مجھے اس کی بات سن کر جیسے دھچکا لگا وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھی
ہووووووں“میرے منہ سے صرف یہی لفظ نکل سکا
میں نے پوچھا کہ تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے ؟
نہیں
کیوں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
کیوں نہیں ہوسکتا
تم اتنے ہینڈ سم ہو کوئی بھی لڑکی تمہارے جیسے مرد کے ساتھ دوستی کرنا چاہے گی
کیا تم کرو گی“میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی شکار دیکھ کر تیر چھوڑ دیا ‘ میری بات سن کر اس کو جیسے سانپ سونگ گیا وہ خاموشی ہوگئی
میں نے کیا پوچھا ہے“ میں نے گرم لوہے پر ایک اور پھدی دے ماری اور ساتھ ہی اس کو کندھوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی طرف کرلیا اس کا منہ شرم سے سرخ ہورہا تھا کان بھی سرخ ہورہے تھے اس نے نگاہیں نیچی کررکھی تھی اور ایک ہاتھ کی انگلی سے اپنے چہرے پر آنے والی بالوں کی لٹ کو کانوں کے پیچھے کررہی تھی کہ میں نے اپنا سوال تیسری بار پھر دہرا دیا
ہاں“ اس کے منہ سے آہستہ سی آواز نکلی پہلے وہ نظریں نیچے کئے ہوئے کھڑی تھی اب میری حالت بھی اس کی طرح ہوگئی میں نے فوری طورپر خود کو سنبھالا اور اس سے کہا
چائے“میں نے اس کی توجہ کیتلی میں ابلتے ہوئے پانی کی طرف دلائی اور خود کمرے میں آگیا جہاں ابھی تک شطرنج بچھی ہوئی تھی اس نے ایک بار پھر مجھے ”چیک“ دے دیا تھابلکہ یہ صرف ”چیک“ نہیں تھا بلکہ یہ ”چیک اینڈ میٹ“ تھااب اس کے آگے کوئی چال نہیں چلی جاسکتی تھی اب بہتر تھا کہ اپنے بادشاہ کو خود ہی گرادوں اس کی جیت پر میں ناداں نہیں تھا بلکہ مجھے اس کی جیت پر خوشی محسوس ہونے لگی تھی
چائے حاضر ہے“ اچانک اس کی آواز سے شطرنج پر لگی نظریں ہٹ گئیں میں نے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑا تو وہ میرے سامنے آبیٹھی میں نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر جیت کی خوشی اور اطمیںان عیاں تھا
ہوجائے ایک اور بازی“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
میں نے کھیلنے سے پہلے ہی ہار مان لی“ میں نے جواب دیا
ایک بار پھر سے اپنے دا
پیچ آزما لوشائد کچھ کام بن جائے
نہیں میرا کام ہار کر ہی بن گیا ہے
ہاہاہاہا ہا ہا ہا “اس نے قہقہا لگایا اور چائے کا کپ ایک طرف رکھ کر پھر سے شطرنج کے مہرے سیدھے کرنے لگی
میں اب نہیں کھیلوں گا ابھی پرانی شکست کے زخم ہی نہیں بھرے تم پھر سے شکست دینا چاہتی ہو
کھیلو اور مجھے ہرا کر اپنی شکست کا بدلہ لے لو“اس کی بات سن کر میں نے بھی چائے کا کپ ایک طرف رکھا اور اپنے مہرے سیدھے کرنے لگا
اب کون سی شرط ہوگی“ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
اس شرط پے کھیلوں گی پیا پیار کی بازی جیتوں تو تجھے پا
ں ہاروں تو پیا تیری“اس نے پروین شاکر کا شعر کہہ دیا
میں ہنس دیا اور اس کی چال کا انتظار کرنے لگا اس کی بار بھی فتح اس کا مقدر بنی آخری چال چلتے ہی اس نے پھر سے قہقہا لگایا اور شطرنج کے اوپر سے دونوں ہاتھ میرے گلے میں ڈال کر مجھے اپنی طرف کھینچنے لگی میں بھی کیوں پیچھے رہتا میں نے بھی اس کو اپنی باہوں میں لے لیا اس کے گیلے بال اور اس کے جسم پر لگے باڈی لوشن سے مجھے شہوت آرہی تھی چند منٹ کے بعد اس نے مجھے خود سے علیحدہ کیا اور کہا” شاکر مجھے کبھی دھوکہ مت دینا میرے ساتھ جو بھی سلوک کرو گے منظور ہے تمہاری ہر جائز ناجائز بات کو مانوں گی مگر کبھی کسی کو میرا رقیب مت بنانا“وہ ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر ادا کررہی تھی
میں نے اپنے درمیان سے شطرنج اٹھائی اور اس کو ہونٹوں سے چوم لیا پھر اس سے کہا میریم کبھی ایسا گمان بھی نہ کرنا
اس کے بعد اس نے ایک بار پھر مجھے اپنے گلے لگایا اور پھر مجھے ہونٹوں سے چومنے لگی اس کے بعد کافی دیر تک اس کے ساتھ باتیں ہوتی رہیں اس نے بتایا کہ وہ گا
ں کی زندگی سے تنگ آچکی ہے اس لئے جاب کے بہانے گھر سے یہاں آگئی پہلے روز ہی اس نے مجھے دیکھا تو میں اس کو اچھا لگا اس نے مجھے دکھانے کے لئے ہی اپنے لباس میں تبدیلی کی لیکن میں ٹس سے مس نہ ہوا اور اس پر کوئی توجہ نہ دی لیکن آج شطرنج کی بساط سے سب کام ہوگئے بات چیت کے دوران اس نے بار بار مجھ سے کہا کہ وہ ہر چیز برداشت کرسکتی ہے مگر رقابت برداشت نہیں کرپائے گی اس نے مجھے بتایا کہ اس کی زندگی میں آنے والا میں پہلا مرد ہوں جس کو اس نے اس طرح سے دیکھا ہے کافی دیر تک باتیں کرنے کے بعد اس نے کہا کہ چلو اب سوتے ہیں میں نے اس کو کہا کہ آج وہ میرے کمرے میں ہی سوجائے تو اس نے مجھے ”ٹھینگا“ دکھایا اور اپنے کمرے میں جاکر کنڈی لگا لی میں اپنے کمرے میں آگیا اور سوچنے لگا کہ میریم کو کس طرح ”مطلب پر لایا جائے اس کے ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اگر اس کو میری دوسری ”سرگرمیوں“ کے بارے میں علم ہوگیا تو وہ میرے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ وہ میرے گھر والوں کو بھی جانتی تھی اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خدشہ ہونے لگا کہ اس کے ساتھ شادی ہی نہ کرنی پڑے خیر شادی کے بارے میں میں اتنا پریشان نہیں تھا کیوں کہ میریم میں ایسی کوئی خرابی نہیں تھی جس کو بنیاد بنا کر اس سے شادی سے انکار کیا جاسکے تاہم مجھے اپنی دیگر ”سوشل سرگرمیاں“ جاری رکھنا مشکل لگ رہا تھا خیر میں نے مستقبل کے بارے میں باتوں کو نظرانداز کردیا اور فوری طورپر میریم کے ساتھ سیکس کے لئے سوچنے لگا اس دوران مجھے کب نیند آئی یاد نہیں رات کو تقریباً دو بجے کے قریب مجھے اپنے کمرے میں کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی تو میری آنکھ کھل گئی
وہ مجھے ے ے اصل میں ڈر لگ رہا تھا میں تمہارے کمرے میں آئی اور یہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ٹکراگئی“ میریم پریشانی کے عالم میں زمیں پر پڑے گلدان کی طرف اشارہ کررہی تھی زیرو کے بلب کی روشنی میں میریم کا چہرہ چمک رہا تھا اور وہ پریشانی کے عالم میں عام حالات کی نسبت کتنی زیادہ خوب صورت لگ رہی تھی اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا میں اپنے بستر سے اٹھا اور اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر کہا کہ تم کو ڈر کیوں لگ رہا تھا اگر ایسا تھا تو مجھے آواز دے دیتی
میں نے سوچا آواز دی تو تم جاگ جا
گے اور تمہارے آرام میں خلل پڑے گا اس لئے خاموشی سے آئی اور گلدان نیچے گرنے سے تمہاری آنکھ کھل گئی
میں اس کو پکڑ کر اپنے ساتھ بیڈ پر لے آیا اور دونوں بیڈپر بیٹھ گئے میں نے اس کے گلے میں ایک بازو ڈال لیا اور اس کو اپنے ساتھ لگا لیا اور اس سے پوچھا کہ تم کو ڈر کس بات سے لگ رہا تھا تو کہنے لگی پتا نہیں اور ساتھ ہی میرے ساتھ چمٹ گئی میں نے اس کو ہونٹوں سے کس کیا ام م م م م م م م م م م م م م کیا رسیلے ہونٹ تھے اس نے پہلے خود کو مجھ سے چھڑانے کی کوشش کی مگر پھر میرا ساتھ دینے لگی وہ بلا کی گرم لڑکی تھی میں نے اپنا ایک بازو اس کی گردن میں ڈال رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے مموں کو دبانے لگا جو ایک دم ”ربڑ کی گیند“ کی مانند دبانے پر میری انگلیوں کو پیچھے کی طرف دھکیل رہے تھے اس کے ممے میرے اندازے سے زیادہ ٹائٹ تھے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ کچھ گھنٹے اس کی طرف سے یہ کہنا سچ ہے کہ میں اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہوں اس نے پہلے میرا ہاتھ اپنے مموں سے ہٹانے کی کوشش کی پھر خود کو میرے حوالے کردیا وہ ابھی تک ٹرا
زر اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھی چند منٹ بعد اس نے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا جس پر میں نے اس کو بیڈ کے اوپر لٹا دیا لیکن اس کی ٹانگیں ابھی تک بیڈ کے نیچے ہی تھی میں اس کے اوپر ہی لیٹ گیا اور اس کو کسنگ شروع کردی پھر اس کی شرٹ کو اوپر کردیا
اف ف ف ف ف ف ف تقریباً بتیس سائز کے ایک دم گول ممے جیسے پرکار کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہوایک انچ کا چوتھائی حصہ کے برابر گلابی رنگ کے نپلز میرے ہواس پر بم گرانے لگے میں نے ایک ہاتھ سے ایک ممے کو پکڑا اور دوسرے ممے کے نپل کو منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا
ام م م م م م م “وہ مزے سے منمنانے لگی
میں نے ایک نپل منہ سے نکالا اور دوسرا منہ میں ڈال لیااور اس کو چوسنا شروع کردیا مجھ پر بھی عجیب سا نشہ طاری ہونے لگا تھا وہ بھی مزے سے ساتویں آسمان پر جاچکی تھی اس کے منہ سے نکلنے والی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ام م م م م م م م اف ف ف ف ف ‘ بس س س س س کی آوازوں سے میرے جوش میں مزید اضافہ ہورہا تھا میں چند منٹ تک اس کے نپلز کو چوسنے کے بعد اٹھ کر بیٹھ گیا اس کے ساتھ وہ بھی شرٹ کو نیچے کرتے ہوئے اٹھنے لگی تو میں نے اس کو پھر سے لٹا دیا جس پر اس کے منہ سے شاکرررررررر کا لفظ نکلا تو میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا وہ پھر سے لیٹ گئی میں نے اس کو پکڑ کر پوری طرح بیڈ کے اوپر کیا اور اس کے پا
ں سے چپل اتار کر نیچے پھینک دی اس کے بعد پھر اس کی شرٹ اوپر کر کے اس کے مموں اور نپلز کو چوسا پھر اس کی ٹانگیں سیدھی کرکے ان کے اوپر بیٹھ گیا اور اس کے پیٹ پر آہستہ سے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پھیرنے لگا جیسے اس پر کوئی جادو کررہا ہوں اس کے منہ سے پھر سسکاریاں نکلنے لگیں اور وہ اپنے ٹانگوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر ٹانگوں پر میں بیٹھا ہوا تھا جس پر وہ ان کو اکٹھا نہ کرسکی لیکن بار بار میرے ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کرتی رہی جب میں باز نہ آیا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اس کے منہ سے اب بھی سسکاریاں نکل رہی تھی کچھ دیر بعد اس نے اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور اپنے دانتوں نے نیچے دبا لی پھر میں اس کی ٹانگوں سے اتر کر پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اس کے پیٹ پر اپنی زبان پھیرنے لگا جس پر اس کے منہ سے مزید زور سے سسکاریاں نکلنے لگیں اس نے ابھی بھی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے پھر میں اس کا ٹرازر اتارنے لگا تو وہ پھر سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی شاکر ررر بس میں نے اس کو پھر سے پکڑ کر لٹا دیا اور اس کا ٹرازر اتار دیا پھر اس کو اٹھا یاا ور اس کی ٹی شرٹ بھی اتار دی اس کے بعد اس نے مجھے گلے لگا لیا میں نے اس کو خود سے علیحدہ کیا اور اس کو لٹا دیا اب وہ بالکل ننگی میرے سامنے لیٹی ہوئی تھی اس کا سانولا بدن میرے سامنے تھا جس کو دیکھ کر میرا بھی برا حال ہورہاتھا شلوار کے اندر سے میرے لن کا ابھار دیکھا جاسکتا تھا میںنے اٹھ کر اپنے کپڑے بھی اتارے اور اس کے اوپر لیٹ گیا اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئےے اچانک اس نے میرا منہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر ہٹایا اور کہنے لگی ” شاکر مجھے کبھی دھوکہ نہ دینا“ میں نے پھر سے اس کو اپنی ”وفاداری “ کا یقین دلایا اور اس کے ہونٹ چوسنا شروع کردیا پھر میرے ہونٹ اس کی گردن پر چلے گئے اس کے بعد اس کے مموں پر پھر میں نیچے ہوا اور اس کے پیٹ پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی پھر جیسے ہی میں مزید تھوڑا سا نیچے ہوا اور اس کی ناف پر میری زبان پھرنے لگی وہ مزے کی انتہا کو پہنچ رہی تھی اور دوہری ہورہی تھی اس کے منہ سے پھر نکلا ن ن ن ن نہیں یں میں رکنے کی بجائے مزید تیزی سے اپنی زبان چلانے لگا میرا لن مزید ٹائٹ ہورہاتھا اور اپنے فل سائز پر پہنچ چکا تھا دل کررہا تھا کہ اپنے لن کو اس کی پھدی میں ڈال دوں مگر میں اپنے ساتھ ساتھ میریم کو بھی فل انجوائے کرانا چاہتا تھا اس کے بعد میں نے اپنے زبان میریم کی بالوں سے پاک رانوں پر پھیرنا شروع کردی اب شائد یہ سب کچھ میریم کی برداشت سے باہر ہورہا تھا اس نے اپنی ٹانگیں اکٹھی کرلیں اور مجھے سر سے پکڑ کر اوپر کرلیا اور کہنے لگی اب مزید برداشت نہیں ہورہا میں نے خود کو اس سے چھڑایا اور پھر سے اس کی ٹانگیں سیدھی کرکے ان پر باری باری زبان پھیرنے لگا اس نے مجھے پھر اوپر کیا میں سمجھ گیا کہ اب میریم پوری طرح تیار ہوچکی ہے پھر میں اس کے ٹانگوں کے درمیان میں آگیا اور اس کی ٹانگیں پکڑ کر اپنے کولہوں پر رکھنے لگا کہ اچانک اس کی نظر میرے لن پر پڑی جو لوہے کے کسی راڈ کی طرح سیدھا کھڑا ہوا تھا جس پر اس کے چہرے پر خوف طاری ہوگیا اور کہنے لگی ہائے میرے ربا ااااا یہ اتنا بڑا مجھے تو مار ڈالے گا اس نے پھر سے ٹانگیں اکٹھی کرلیں اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی میں نے اس کو پھر سے لٹا تو اس نے مجھ سے کہا ”شاکر پلیز آج میں مزید کچھ نہیں کرسکتی آج جانے دو یہ سب پھر کبھی “ میں نے اس کی بات ان سنی کردی اور اس کو پھر سے لٹا یا اور اس کی ٹانگیں اکٹھی کر کے پھر سے کولہوں پر رکھیںاس پھدی بالوں سے بالکل پاک تھی لگتا تھا ابھی ابھی بال صاف کئے ہوںاس کی پھدی کافی گیلی ہوچکی تھیمیںنے اس کی پھدی پر ایک بار ہاتھ پھیرا اور پھر اس کی پھدی پر اپنا لن فٹ کرکے اس کے اوپر لیٹ گیا اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کرلیں میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور اس کے دونوں بازوں کو پھیلا کر ان پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے اس کے بعد اس کے ہونٹوں کوچوسنا شروع کردیا جیسے ہی اس کا دھیان کسنگ کی طرف ہوا میں نے ہلکا سا جھٹکا دیا جس پر اس نے سر کو دوسری طرف کیا اور کہا شاکر مجھے بہت پین ہورہی ہے پلیز مجھے چھوڑ دو میں نے پھر سے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور اپنی فل طاقت سے اس کی پھدی میں اپنا لن دھکیل دیا جس کے ساتھ ہی اس کے ناک سے اووووووووں کی آواز نکلی اور اس کی آنکھیں جیسے پھٹنے لگی ہوں اور ساتھ ہی دونوں آنکھوں سے آنسو نکل آئے میرا آدھے سے کچھ کم لن اس کی پھدی میں جاچکا تھا میں نے اس کے ہونٹوں کو نہ چھوڑا اور اس کی کسنگ کرتا رہا تاہم اس کی پھدی میں لن کو حرکت نہ دی چند لمحے تک اسی طرح اس کے اوپر لیٹا ہوا کسنگ کرتا رہا وہ بار بار اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی رہی لیکن میں نے ان کو سختی سے پکڑے رکھا چند منٹ تک کسنگ کے بعد اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے تو اس کے منہ سے تکلیف کے مارے ایک چیخ نکل گئی اور ساتھ ہی وہ رونے لگی اس کے ساتھ ہی اس نے کہا شاکر میں آج زندہ نہیں بچوں گی مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے پلیز بس کرو میں نے پھر اس کو کسنگ شروع کی اور چند لمحے بعد ایک اور زور دار جھٹکا دیا اب کی بار پھر اس کی آنکھیں ایسے کھل گئیں جیسے ابھی پھٹ جائیں گی اور ساتھ پھر سے آنسو جاری ہوگئے اب دیا جانے والا جھٹکا اپنا کام دکھا گیا تھا اور میرا لن جڑ تک اس کی پھدی میں چلا گیا تھا میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے ہٹائے تو وہ چیخنے لگی شاکر پلیز اس کو نکالو میں مرجاں گی ہائے ئے ئے ئے ئے ئے ئے اف ف ف امی جی جی ی ی ی ی میں مر گئی چیخوں کے ساتھ ہی اس نے اپنا سر ادھر ادھر پٹخنا شروع کردیا میں نے اس کے سر کو پکڑا اور پھر کسنگ کرنے لگا لیکن اس نے پھر اپنا سر چھڑا کر سر پٹخنا شروع کردیا میں نے اس کو کہا کہ میریم ذرہ حوصلہ کرو ابھی ساری تکلیف دور ہوجائے گی لیکن اس کی چیخوں میں مزید تیزی آگئی اس کا جسم ٹھندا ہوگیا اور وہ کانپنے لگی لیکن میں نے اپنا لن اس کی پھدی سے نہ نکالا اور اس کے اوپر ہی اس کو حرکت دیئے بغیر ہی لیٹا رہا اس نے خود کو میرے نیچے سے نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن ناکام رہی پھر چند منٹ بعد اس کی تکلیف میں کچھ حد تک کمی ہوگئی اور اس نے مجھے کمر سے پکڑ لیا پھر میں نے اس کو دوبارہ کسنگ کی اور اس سے پوچھا کہ تکلیف ختم ہوئی کہ نہیں تو اس نے ناں میں سرہلایا اور پھر کہنے لگی کچھ کم ہوئی ہے پھر میں اس کے اوپر سے اٹھا اور اپنے لن کو آہستہ آہستہ سے اس کی پھدی میں حرکت دینا شروع کی وہ پھر سے چلا اٹھی شاکر آرام سے ہائے میں مر گئی ہائے امی جی ی ی ی ی آرام اس اس س ام اف ف ف ف ف میں آہستہ آہستہ سے اس کی پھدی میں اپنے لن کو اندر باہر کرتا گیا کچھ دیر بعد اس کی آواز سے درد کا عنصر کم اور مزے کا زیادہ ہونے لگا اس پر میں نے اپنی سپیڈ تھوڑی سی بڑھائی تو وہ پھر سے چلانے لگی جس پر میں نے سپیڈ پھر سے کم کردی اب وہ میرا پوری طرح ساتھ دے رہی تھی لیکن جیسے ہی میں سپیڈ پکڑنے لگتا وہ چلانے لگتی جس پر میں آہستہ آہستہ لگا رہا تقریباً پانچ منٹ کے بعد اس نے مضبوطی سے میری کمر کو پکڑ لیا اور اس کا جسم اکڑنے لگا پھر اس کا جسم جھٹکے لینے لگا اور وہ فارغ ہوگئی اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ناخن میری کمر پر گاڑ دیئے جس سے تکلیف کے باعث میرے ہونٹوں سے بھی تکلیف کے مارے ایک ہلکی سی آہ نکل گئی لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا مزید چند منٹ کے بعد وہ پھر سے چھوٹ گئی اور چند منٹ کے بعد میں بھی چھوٹ گیا میں نے اپنی ساری منی اس کی پھدی میں ہی ڈال دی اور فارغ ہوتے ہی اس کے اوپر ہی لیٹ گیا کمرے میں ہیٹر لگا ہوا تھا اور چند منٹ پہلے ہم دونوں کے جسم تپ رہے تھے لیکن اس وقت دونوں کے جسم ٹھنڈے ہوچکے تھے اس کا جسم برف کی مانند تھا میں نے اس کے اوپر لیٹے لیٹے پاس پڑا کمبل اوپر لیامیرا لن ابھی تک سختی میں تھا اور اس کی پھدی کے اندر ہی تھا ہم دونوں لمبے لمبے سانس لے رہے تھے چند منٹ اس کے اوپر ہی لیٹا رہا پھر میرا لن اس کی پھدی میں ہی اپنی سختی کھوتا گیا اور سکڑ کر خود ہی باہر نکل گیا میں اس کے اوپر سے ہٹا اور اس کے ساتھ لیٹ گیا میں نے اپنا ایک بازو اس کی گردن کے نیچے کرکے اس کی گردن اپنے کندھے پر رکھ لی وہ بے سدھ ہوچکی تھی اس کی گردن جیسے لڑک رہی ہو وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی میں نے اس کے گالوں کو تھپتھپایا لیکن وہ بدستور آنکھیں بند کئے لیٹی رہی اس کا جسم ابھی تک ٹھنڈا تھا میں خیر میں نے اس کو ہلانا بند کیا اور لیٹ گیا گھڑی پر نظر پڑی تو صبح کے چار بج رہے تھے گویا ہم لوگ قریباً دو گھنٹے تک پیار پیار کھیلتے رہے پھر میری آنکھ لگ گئی ہم دونوں ایک ہی کمبل میں ننگے سو گئے میری آنکھ کھلی تو دوپہر کے گیارہ بج رہے تھے میریم ابھی تک سو رہی تھی لیکن اب اس کے جسم کا درجہ حرارت نارمل تھا میں نے اس کے گالوں کو تھپتھپایا تو ہوووں ہووووں کے کرکے اس نے اپنی آنکھیں کھول دن میں نے اس سے کہا اب کیا حال ہے تو اس نے مجھے اپنی باہوں میں بھینچ لیا میں نے اس کو کہا کہ اب اٹھو گیارہ بج رہے ہیں میں بازار سے ناشتہ لے کر آتا ہوں میں نے خود سے کمبل ہٹایا اور باتھ روم میں چلا گیا میں نے دیکھا کہ اس کی پھدی سے نکلنے والے خون سے میرا لن بھی سرخ ہوا تھا میں نے اس کو اچھی طرح سے دھویا اور پھر غسل کرکے تولیہ لپیٹ کر باہر آگیا جہاں میں نے شلوار قمیص پہنی اور اس کو اٹھنے کے لئے کہا اس نے بھی کمبل اوپر سے ہٹایا اور کھڑی ہوگئی اور کھڑی ہوتے ہی لڑکھڑا گئی میں نے اس کو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ گر جاتی اس نے مجھے کہا کہ مجھے ابھی تک درد ہورہا ہے میں نے اس تسلی دی کہ تھوڑی دیر میں درد ختم ہوجائے گا پھر اس کو پکڑ کر باتھ روم میں چھوڑ کر آیا تو دیکھا کہ میرے بیڈ کی چادر خون سے پوری طر ح سرخ ہوچکی تھی میں نے چادر اکٹھی کرکے ایک طرف رکھی تو بیڈ کے میٹرس پر بھی خون کے داغ تھے کچھ دیر کے بعد باتھ روم سے میریم نے آواز دی کہ کپڑے پکڑا دو میں نے اس کو کپڑے دیئے تو وہ پہن کر باہر آگئی میں نے کہا کہ ناشتہ لے کر آتا ہوں تو کہنے لگی ابھی صرف چائے دوپہر میں کچھ کھائیں گے پھر ہم دونوں نے کچن میں جاکر پھر مخشک دودھ کی چائے بنائی اور پی ساتھ میں کچھ بسکٹس لئے میریم نے کہا کہ اسے ابھی تک تکلیف ہورہی ہے جس پر میں نے اس کو ایک پین کلر دی جس پر اس کو کچھ دیر بعد آرام آگیا اتوار کی چھٹی تھی ہم دونوں گاڑی پر لانگ

ڈرائیو پر نکل گئے اس رات پھر میرا سیکس کا ارادہ تھا لیکن میریم نے کہا کہ ابھی بھی وہ پین فیل کررہی ہے جس پر میں نے کچھ نہ کیا لیکن ہلکی پلکی کسنگ ضرور کی اس کے بعد تقریباً تین ہفتے تک روزانہ سیکس کرتے رہے اس دوران میریم نے ہاسٹل کی تلاش بھی روک دی اور اپنے گھروالوں کو بتایاکہ وہ اس کی تلاش میں ہے جیسے ہی کوئی اچھا ہاسٹل ملا وہ یہاں سے شفٹ ہوجائے گی پھر میریم نے ایک روز مجھے بتایا کہ اس کو میںسز نہیں ہوئے تو میں نے اس کو پریگنینسی سٹک لاکر دی جس پر ہمیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے پھر ہم لوگ ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس بھی گئے جس نے ہمیں مبارک باد دی کہ ہم لوگ ماں باپ بننے والے ہیں جس پر ہم دونوں کافی گھبرائے میں نے میریم کو کہا کہ وہ حمل گروا دے لیکن وہ نہ مانی جس پر ہم دونوں نے گھروالوں سے چوری نکاح کرلیا اور پھر گھر والوں کو بتادیا پہلے دونوں اطراف سے انکار کیا گیا لیکن بعد میں مجبوراً دونوں مان گئے ہماری شادی تقریباً تین ماہ تک بہت بہترین چلتی رہی اور اس دوران میں بھی اپنی دوسری ”سرگرمیوں“ سے باز رہا لیکن پھر ایک روز میریم کو میرے موبائل میں موجود مختلف لڑکیوں کے ایس ایم ایس سے میری کرتوتوں کا علم ہوگیا جس پر اس نے مجھ سے بہت لڑائی کی میں نے اس کو جھوٹ بول کر بہت منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانی اور اس نے ایک روز کسی لیڈی ڈاکٹر سے جاکر اپنا حمل گروا دیا اس کے بعد اس نے مجھ سے طلاق لے لی اس کے بعد اس نے اپنی رہائش ایک سرکاری ہاسٹل میں رکھ لی اور اس وقت سے ابھی تک شادی نہیں کی ہمارے درمیان طلاق کے باعث دونوں خاندانوں کے درمیان کئی سالوں سے قائم تعلقات بھی ختم ہوچکے ہیں میں ابھی تک میریم کو نہیں بھلا سکا کئی بار میں نے اس کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے رابطہ نہیں کیا میں اس کے ساتھ بتائے جانے والے ایک ایک لمحے کو ابھی تک یاد کرتا ہوں اور اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میریم کے ساتھ سیکس کرنے اور وقت گزارنے کا جو مجھے مزہ ملا ہے میں درجنوں لڑکیوں کے ساتھ سیکس 

کرچکا ہوں مجھے وہ مزہ نہیں مل سکا اور نہ ہی اطمینان ہوسکا ہے

ختم شُد

tabasam tabish novels

tabassum tabish novels fb

tabassum tabish novels

tabassum tabish novels pdf free download

tabasam tabish novels and stories

tabasam tabish novels all

tabasam tabish novels and books

tabassum tabish novels about the mafia

tabassum tabish novels are there

tabasam tabish novels book

tabassum tabish novels best

tabassum tabish novels books

tabassum tabish novels pdf download

tabasam tabish novels in urdu

جگاڑ لگ گیا



 

جگاڑ لگ گیا
بات کچھ سال پہلے کی ہے جب میں 18 سال کا تھا اور بارویں میں پڑھتا تھا۔
ایک بار میں اپنے کچھ دور پار کے رشتہ داروں کی شادی پر کراچی گیا۔ میں چونکہ بہت کم جاتا ہوں اسی لئے زیادہ لوگوں کو جانتا نہیں تھا۔
خیر شادی والے گھر میں پہنچ کر پتہ چلا کہ شادی بالکل ساتھ والے گھر میں ہو رہی ہے اور تقریبا” سارے مہمان کامن ہیں۔ دولہا اور دلہن آپس میں کزن ہیں۔ جبکہ دولہا میرا بھی کزن تھا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ کافی افراتفری مچی ہوئی ہے اور لوگ آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ یعنی وہی سین جو عام طور پر شادیوں میں ہوتا ہے۔
میں کچھ دیر تو ادھر ادھر وقت ضائع کرتا رہا پھر اٹھ کر فضول میں گھومنے لگا۔ میری یہ حالت دیکھ کر ایک آنٹی جو پتہ نہیں میری کیا لگتی تھیں کو رحم آ گیا۔
انھوں نے ایک مجھے لڑکی والوں کے گھر بھیج دیا کہ وہاں میرے کافی ہم عمر تھے۔
یہاں آ کر لگا کہ جنت میں آ گیا ہوں کہ جہاں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں بکھری ہوئی ہیں۔
کوئی ڈانس پریکٹیس کر رہی ہے تو کوئی کپڑے استری کوئی سامان پیک کر رہی ہے تو کوئی میک اپ۔کوئی نہا رہی ہے تو کپڑےٹرائی کر رہی ہے۔ غرض بہار ہی بہار تھی۔
دلہن کو دیکھا تو اپنی قسمت پہ رونا آیا مگر پھر دل نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں
"چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں"
یہاں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ مجھے اپنی خوش قسمتی اور پرسنالٹی پر فخر ہوا، جو جلد ہی ختم ہوا کیونکہ یہ سب لڑکیاں کسی لڑکے کو ترس رہی تھیں۔
مجھ سے پوچھا کہ موٹر سائیکل چلا لیتے ہو؟
میں نے فخر سے کہا: ایسا ویسا پورے لاہور میں مجھ سے اچھا بائیکر پیدا نہیں ہوا۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ بڑے بول فورا” سزا پاتے ہیں۔ میرا ٹیسٹ ایسے لیا گیا کہ شام تک گانڈ بائیک سے علیحدہ نہیں ہوئی۔
گھر سے بازار تک کا راستہ اس اتنی بار دیکھا کہ ھاتھ کی لکیروں کی طرح یاد ہو گیا۔
شام تک لڑکیوں نے میری وہ حالت کی جو ریپ کے بعد ہوتی ہے۔ میں بیٹھنے تو کیا لیٹنے کے قابل نہ رہا۔
آخر کار ایک بزرگ خاتون کو مجھ پر ترس آیا اور انھوں نے مجھے چند لڑکیوں کے ساتھ دولہا دولہن کا کمرا سجانے بھیجا۔ چند خود کو بہت سمارٹ سمجھنے والی لڑکیاں میرے ساتھ آئی اور مجھے حکم دینے لگیں ۔ میں پھولوں کی لڑیاں لگانے لگا۔
اتنے میں شور مچ گیا کہ تیار ہو جاؤ مہندی کی رسم کے لئے۔
لڑکیاں وہاں سے غائب ہونے لگیں تو میں نے شور مچا دیا۔ آخر کار میں یہ مزدوری جن کی قربت کے لئے کر رہا تھا وہی اڑن چھو ہو رہی تھیں۔
میرے شور مچانے پر انھوں نے ایک لڑکی جو ان کی کتاب میں بچی تھی میرے پاس چھوڑی اور دلہن کے گھربھاگ گئیں۔
بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی صحیح
یہ سوچ کہ میں نے اس بچی کا آنکھوں سے پوسٹ مارٹم کیا۔
پہلے تو اسے بچی سمجھنے والوں کی عقل اور آنکھوں پر شک کیا۔
اس کی عمر 15-16 سال تھی دبلی پتلی، سانولا رنگ، شادی کی مناسبت سے شوخ بلکہ کسی قدر سیکسی ٹراؤزر اور شرٹ میں تھی۔ جو چیز سب سے خاص تھی اس میں وہ تھا اس کا چہرا جو کسی طرح بھی اس کو اس کی عمر کے مطابق ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
اس کے چہرے پر بھی معصومیت نہیں تھی۔


میں نے اس سے نام ارو کلاس وغیرہ پوچھا۔
میرا نام سارا ہے۔ میں نائیتھ میں پڑھتی ہوں۔” وہ ذرا شرما کے بولی۔
"سارا میں فیصل ہوں اور سیکنڈ ائیر میں پڑھتا ہوں" میں بولا۔


"سارا میرا خیال ہے کہ اب بس کی جائے کیونکہ میں بہت تھک گیا ہوں۔"
وہ بولی: "نہیں باجی نے مجھ سےکہا ہے لگوا کے آنا۔"
میں نے کہا: میرا کیا قصور ہے مزے کوئی لے گا کریڈٹ وہ تھماری باجیاں اور محنت میری لگ رہی ہے۔
وہ ہنس دی: "لگانا تو پڑے گا۔"
میں نے کہا :" اور تمھیں کیوں چھوڑ گئیں ہیں یہاں میری نگرانی کے لئے۔"
"نہیں اس لئے کہ کوئی کام ہو تو کروا لوں مگر ہو وہ جو لڑکیوں کے کرنے والا ہو"۔وہ شوخ ہو کر بولی۔
میں نے کہا: کوئی نہیں ابھی تمھیں لڑکیوں کے کرنے والا کام کہوں گا اور تم مکر جاؤ گی۔
وہ بولی: بالکل نہیں پرامس میں نہیں مکروں گی۔
مجھے لگا کہ جیسا اچانک ایک مچھلی خود ہی کانٹے میں آ گئی ہے۔ اب میں نے اسے اسی نیت سے دیکھا اور اسے ہر لحاظ سے چودنے کے قابل پایا۔
میں نے اب سوچ کے جواب دیا:چلو یہ بھی ٹرائی لیتے ہیں مگر یاد رکھنا اگر مکر گئی تو میں سمجھوں گا کہ تم میں وہ دم نہیں اور تم لڑکی ہی نہیں۔
اب میں نے اسے کہا کہ دروازہ بند کر دو اور یہاں میرے قریب آ جاؤ۔ میں کام بھی کرتا رہا اور اس سے باتیں بھی۔
میں نے اس سے پوچھا : سارا پتہ نہیں لوگ یہ سیج کیوں سجاتے ہیں ہوتا تو بس سونا ہی ہے نا؟
وہ بولی: نہیں یہ یادگار رات ہوتی ہے زندگی بھر یاد رہتی ہے۔
اس میں یادگار والی کیا بات ہوتی ہے؟
وہ ذرا کنفیوز ہو کر بولی : بس ایسے ہی۔
الٹا یہ رات تو تکلیف دے سکتی ہے۔
وہ بولی: کیسے
میں نے کہا: ارے بھئی سردی لگ سکتی ہے پھولوں سے دلہن کو کوئی کانٹا چب سکتا ہے۔
وہ بولی: کانٹا کیسے چبے سکتا ہے یہاں ایسا تو کوئی کانٹا نہیں۔
میں بولا: ڈئیر جب کپڑے بہنے بغیر ان پھولوں پر سونا ہو تو سردی اور کانٹا دونوں ہو سکتے ہیں۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ میں اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا یہ وہ حالت تھی کہ وہ سوچ رہی تھی کہ اس موضوع کو آگے چلاؤں یا نہیں کیوں کہ نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
میں پوچھا: کیا ہوا کیا تمھیں نہیں پتہ تھا کہ سہاگ رات میں کیا ہوتا ہے؟
وہ آہستہ سے بولی: نہیں۔
مجھے اپنی کامیابی صاف نظر آگئی۔ اس کا نہ جانا اور اس کو ختم نہ کرنا مجھے سب بتا گیا تھا۔
سوری یار! مجھے نہیں معلوم تھا کہ تھمیں نہیں پتہ۔ بس بات ذرا ایسی ہے کہ لڑکیوں کو تو پتہ ہونا چائیے۔ مگر جب وہ بڑی ہو جائیں۔ کچھ عرصے بعد تمھیں کوئی نہ کوئی بتا ہی دے گا۔ میں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کہیں تمھیں برا نہ لگ جائے۔
وہ خاموش رہی۔
میں نے اگلا وار کیا: اگر تم وعدہ کرو کہ کسی کو میرا نہیں بتاؤ گی تو میں بتاتا ہوں۔
وہ کچھ نہ بولی مگر اٹھ کر بھی نہ گئی۔ اب میری ھمت فل بڑھ گئی۔
میں نے کہا: سارا تمھیں پیریڈز ہوتے ہیں نا؟
وہ بری طرح چونک گئی جیسے اس سوال کی امید نہ ہو۔ اس نے سر چھکا لیا۔


میں آہستہ سے بولا: اس جگہ کے اندر لڑکا اپنا یہ (میں نے پینٹ کے اوپر سے ھاتھ لگایا) ڈالتے ہیں۔۔لڑکی کے اوپر لیٹ کر اندر باہر کرتے ہیں پھر اس سے مزا لیتے ہیں۔
وہ سر جھکا کے زمیں دیکھتی رہی اور بولی: میں ابھی آتی ہوں۔
یہاں میں پریشان ہو گیا۔ اگر وہ نہ آئی تو گیم گئی۔
وہ واپس آ گئی تو اس طرح بیٹھ گئی۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں جن میں بعض ایسے فلمی سین جس میں سیکس تھا وہ اور ایسی دوسری باتیں کرنے لگا۔
اب وہ بھی مجھ سے اس متعلق کچھ کچھ پوچھنے لگی جیسے درد تو نہیں ہوتا۔ یہ کتنا لمبا ہوتا ہے وغیرہ۔
اتنے میں لائٹ چلی گئی۔ میں اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے جسم پر ھاتھ رکھا تو وہ ذرا ذرا کانپ رہا تھا۔
"یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟"
میں بولا: وہ جو لڑکی ہی کروا سکتی ہے۔
وہ بولی: کوئی آ جائے گا۔ اور اٹھ کر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد ایک آنٹی نے مجھے کہا کہ باہر آ جاؤ اند کیا کر رہے ہو۔ میں کہا کہ اسی بہانے ذرا آرام کر لیتا ہوں۔ آپ بس ذرا ایک کب چائے بھجوا دن۔
دس منٹ بعد وہ چائے لیکر آئی۔ میں نے چائے لے لی اور کہا: سارا یہاں میرے پاس آ جاؤ۔
وہ بولی: نہیں کوئی آ جائے گا۔ سب باہر ہی ہیں۔
میں نے کہا: میں انتظار کر رہا ہوں تم آؤ ذرا دیکھ بھال کے ،یہاں اندھیرا ہے کوئی نہیں آئے گا۔
وہ چلی گئی اور 5 منٹ بعد یہ آ گئی۔ دروازہ اندر سے بند کر بیڈ کے قریب آ گئی۔
میں نے اسے بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔وہ ذرا سا کسمسائی مگر کچھ ارو نہیں کیا۔
میں نے سیدھا اپنا ھاتھ اس کی کنٹ پر رکھ دیا جو حسب توقع گیلی تھی۔
میں نے اپنا ھاتھ اس کے ٹراؤزر کے اندر ڈال دیا
اس کی کنٹ کے دونوں ہونٹوں کو رگڑنے لگا۔
اس نے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر ہٹایا نہیں۔میں اس کے چہرے کو چومتا بھی رہا اور اس کی کنٹ مسلتا بھی رہا۔
اتنے میں کوئی کھٹکا ہوا اور ہم دونوں چونک کر علیحدہ ہوگئے۔ وہ فورا" بیڈ کے دوسری طرف کارپٹ پر لیٹ گئی۔ اس کی امی اندر آئی اور پوچھا:بیٹا سارا تو یہاں نہیں ہے؟
میں نے کہا: نہیں آنٹی وہ تو چائے دے کر چلی گئی شاید وہاں دلہن کے گھر گئی ہو۔
وہ بولیں؛ بیٹا ذرا بلا آؤ اس نے کپڑےبھی پہننے ہیں۔
ان کے جانے کے بعد وہ بھی جلدی میں باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر میں لائٹ بھی آ گئی۔ مہندی کی رسم شروع ہو گئی۔ سب عورتیں لڑکی والوں کے گھر چلی گئی۔
یہاں آنٹی نے مجھے کہا کہ میں سیج تیار کروں میرا کھانا وہ بھجوا دن گی۔
میں اکیلا کام میں جت گیا۔
سارا میرا کھانا لے کر آئی۔
میں نے اسے کہا کہ وہ نظربچا کے آ جائے مگر وہ نہ مانی۔
آخر ایک بجے جب میں پوری طرح مایوس ہو چکا تھا وہ آ گئی۔اس کے ساتھ اس بہن اور بھائی بھی تھے۔ وہ انہیں نیچے ایک کمرے میں سلا کر میرے پاس آ گئی۔
تقریب اپنے پورے عروج پر تھی مرد باہر قناتوں میں تھے اور عورتیں اندر گھر میں۔ میرے پاس ٹائم کی کمی نہیں تھی کم از کم 2 گھنٹے تھے پھر بھی کوئی بھی آ سکتا تھا۔
آخر میں نے حل یہ نکالا کہ کھڑکی کھولی اور باہر نکل کے دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ اندر آ کر لائٹ آف کر دی اور سارا کو لیکے بیڈ کے نیچے لیٹ گیا۔
وہ کافی ڈری ہوئی تھی اور مجھے بہت جلدی تھی اس کی مارنے کی۔
ایک بار میں اس کی سیل کھول لیتا پھر میں بعد میں بھی اس کو تسلی سے چود لیتا۔
میں نے اس کی شلوار اتار دی اور اپنی پینٹ بھی گھٹنوں تک اتار دی۔
اس کی کنٹ بالکل کنواری تھی اور اسی بات کا مجھے ڈر تھا۔
میں نے آرام سے اپنی انگی اس کی کنٹ میں ڈالی۔
تھوڑے سے تردد سے انگی اندر چلی گئی۔ وہ ذرا ذرا سی آہیں بھرنے لگی۔
میں نے اس کی قمیض گردن تک اوپر کر دی اور اسے سیدھا لٹا کے اس اوپر لیٹ گیا۔
میرا وزن اس سے کافی زیادہ تھا مگر وہ پرداشت کر گئی۔ میں نے اپنا لن کنٹ رکھا تو وہ بوبی؛ فیصل درد تو نہیں گا؟
میں نے کہا: ہلکہ سا ہو گا مگر زیادہ نہیں۔
اب میں اپنا لن اس کے اندر دھکیلا وہ چلا اٹھی: پلیز نکالو مجھے درد ہو رہا ہے پلیز بھائی پلیز مجھے درد ہو رہا ہو۔ امی ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز فیصل پلیز۔
مجھ پر اب چودائی سوار تھی۔ میں بجائے نکالنے کے اور اندر ڈالا۔
وہ اب رونے لگی مگر میرے وزن اور بیڈ کے نیچے سے کوئی جائےفرار نہیں تھی۔
وہ اپنا خون دیکھ کر رونے لگی۔ مگر یہ بھی شکر تھا کہ خون کا بیڈ کے نیچے کارپٹ پر تھا۔


دو تین منٹ کے بعد میرا لن آسانی سے جانے لگا اور اس کی مزاحمت بھی کم ہو گئی۔
میں نے اس کی ٹانگیں کھول دی اور ذرا تیزی سے چودنے لگا۔ وہ اور زور سے رونے لگی۔ میں نے اس کے منہ پر ھاتھ رکھ دیا۔
اس کی ٹائٹ کنٹ اور کچھ سیکس پوزیشن کی وجہ سے میں 6-7 منٹ بعد ہی چھوٹ گیا۔
کچھ دیر بعد میں بیڈ کے نیچے سے نکل آیا کوئی 2-3 منٹ بعد وہ بھی آ گئی۔
میں نے اسے چومنا چاہا تو اس نے جھٹک دیا۔
" یہ تھوڑا درد تھا۔ مجھے کتنا درد ہوا ہے معلوم ہے تمھیں۔" میں جا رہی ہوں" ۔
وہ مجھے چھوڑ کر جانے لگی مگر کیسے جاتی دروازہ تو باہر سے بند تھا۔
میں نے اسے روک لیا۔
دیکھو سارا ! میری جان ایسا کرنا پڑتا ہے اگر میں نکال لیتا تو تم کبھی بھی نہ ڈلوا سکتی۔ اب دیکھنا اگلی بار جب ہم ایسا کریں گے تو کتنا مزا آئے گا۔


وہ بھڑک کے بولی: اب میں نہیں کرواؤں گی۔
میں نے کہا: کروانا تو تمھیں کرنا پڑے گا ورنہ کہیں میری زبان سلپ ہو گئی تو۔ ۔ ۔ ۔


وہ ڈر گئی اور یہی میں چاہتا تھا۔
میں نے کہا: کل رات پھر میں تمھیں اسی طرح چودوں گا۔مرضی سے کرو گی تو مزا آئے گا اور اگر زبردستی کرنا پڑا تو جتنا درد آج ہوا ہے اس زیادہ ہوگا۔
یوں سمجھو میں اس کو پھاڑ دوں گا۔

ختم شُد

اتوار، 9 مئی، 2021

یہ کیسا علاج تھا؟








 

جمعہ، 5 مارچ، 2021

HUM TUM PE MURTE HAE