SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ دسویں قسط


عاشق

دسویں قسط

تحریر: ماہر جی
جو شخص  اپنے پہلے ہی کیس  میں   فرحان ڈار  کے سامنے آتا ہے اور اسے ایک ذلت آمیز شکست دیتا ہے  اس کے قبل ہونے میں کوئی شک  نہیں ہے ،
میں مسکرا دیا اب ہم  بھی کورٹ کی طرف چل  دے شیخ صاحب کے ساتھ بھی تین چار اور وکیل تھے ، جب ہم  کمرہ  عدالت میں  گے تو وہاں پے بیٹھنے فرحان ڈار   نے مجھے دیکھا  اور سر ہلا کے بولے تو تم اب یہاں بھی آ گ
ۓ ہو پھر کہنے لگا تم کو یہاں کیس کس نے لڑنے دینا ہے میں مسکرا دیا پھر جب جج صاحب آ کر بیٹھنے  ہم سب ہی کھڑے  ہو گۓ

جج صاحب بے کہا آج سارے  صوبہ پنجاب  کی کریم  ہماری عدالت میں ہی جمع ہو گی ہے اور ہنس دے اب  عدالت نے اپنی کروائی  کا آغاز کیا  اور ہم سے پہلے دو کیس  تھے جن میں سے ایک  کی تو ڈیٹ  ہو گی اور ایک  میں   کوئی دس منٹ تک دو وکیلوں نے بحث کی  اب ھمارے کیس کی آواز لگی اور سارے  ہی وکیل اٹھ کھڑے ہوے اب یہ دیکھ کر جج صاحب نے نازش  کی طرف دیکھا جو  کتہرنے میں  کھڑی  تھی ،
اب پہلے ایک وکیل فاروق رانا  نے  اپنی بحث  کا آغاز کیا اس نے کہا جج صاحب یہ خاتون جو ہیں  ایک پیشے سے  ڈاکٹر ہیں  ایک مقدس  پیشے کی آڑ میں یہ ایک لنڈ مافیا  کی رکن ہے اور اس نے اپنی مدد کے لئے مفروروں کے کئی تولے پل رکھے ہیں جن کا  کو کبھی اگر کوئی مسلہ  ہو تو ان کا علاج اپنے ہوسپٹل میں کرتی ہے
ابھی کچھ دیں پہلے ہی ایک  صابری نامی  مشھور  قاتل  جس نے   ایک جج صاحب کا بھی قتل کیا تھا  اس کو جب پولیس مقابلے میں گولیاں لگیں وو اپنی  اس پناہ گیر کے پاس آیا اور اس کے ہوسپٹل میں اسے وی آئی پی  ٹریٹ منٹ ملا لیکن اس کی زندگی ہی پوری ہو گی تھی سو وو زندہ نہ بچا اس بارے  میں جب کسی کرم فرما نے پولیس کو اطلاع  دی تو ایس پی ڈوگر  نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا  اور اس پے یہ fir   کٹی جس سے متعلق آج ہم پیش ہوے ہیں اب ہم چاہتے  ہیں اس ملزمہ  کی ضمانت عبوری  کو کینسل کیا جاتے  تا کے پولیس اسے ریمانڈ میں  لے کر  دوسرے  مجرم  پاکر سکے جن کو اس نے ہی کہیں چھپا رکھا ہے ،

پھر فرحان ڈار  نے کہا جج صاحب  یہ ایک ایسی  تیز طرار ملزما ہے ابھی آج سے دو دیں پہلے اس نے اپنے پالتو  غنڈوں سے ایک معزز کاروباری  انسان  عالم  پاشا  صاحب کے چار  بیگناہ  ساتھ جو کے ان کی فرم  کا مال لے کر گودام  میں رکھنے جا رہے تھے  ان کو مروا دیا  اور اس بات کا اقرار  بھی کیا ایک ایس پی  پولیس آوٹ ایک معزز کاروباری شخصیت  کے سامنے ، اب آپ ہی باتیں ایسی  وحشی  عورت کو کھلے ام چھوڑ دینا اس معاشرے  کے ساتھ ظلم نہیں تو اور کیا ہے ، اب ایک اور بڑی توپ قسم کے وکیل  جو ایک ریٹایرڈ  جج تھا نے کہا جناب  یہ خاتون آپ اس کے بھولے بھالے معصوم چہرے کو نہ دیکھیں اس کے اندر چھپی ایک درندہ صفت  خاتون کو دیکھیں  جو اس شہر کے  معصوم  عوام  کے  لئے ایک خطرہ  ہے یہ دیکھ کر اس کی ضمانت  کو کینسل  کر دیں  تا کے قانون کا بھول بھلا ہو سکے

اب جج صاحب نے کہا خاتون آپ کا کوئی وکیل ہے اب میں نے  اٹھہ کے  اپنے کاغذات  عدالت کو دیے  اب جج صاحب نے مجھے دیکھا اور کہا آپ  اس بار  سے تو پراکٹس نہیں کرتے  میں نے کہا جی جناب لیکن جناب مجھے اس بار روم کی طرف سے اجازت دی  گئی ہے اور  بڑے جج صاحب نے بھی مجھے یہ اجازت  دی ہے وہ اجازت نامہ  کاغذات میں لگا ہوا ہے ، وہ اسے دیکھ کر بولے جی ہاں اپ کو اجازت ہے آپ بولیں میں نے اب کہا جناب کتنی عجیب بات ہے  ایسے معزز ووکلاء جن کے پاس ٹائم  کی ویسے ہی کمی رہتی ہے  وہ آج سرے کام چھوڑ کر اے ہیں ایک خاتون کی ضمانت کینسل  کروانے کے لئے  یہ میرے خیال سے آپ کی سروس کا  بھی پہلا ہی واقعہ  ہو گا جج صاحب  دھیمے سے مسکرا دیے  اب میں نے کہا جناب میں اب پہلے کچھ گواہ  پیش کروں گا بعد میں ان سب کے جواب دوں گا میرا پہلا گواہ ہے  اس کیس کا تفتیشی  سب انسپکٹر   نائب کورٹ نے اسے آواز دی وہ بھی مجود تھا وہ کٹھرے  میں آ گیا میں نے اسے کہا  آپ قسم کھا  لیں  کے سچ کے سوا کچھ نہی کہین گ
ۓ اس نے قسم کھائی کے جو کہوں گا سچ ہی کہوں گا ،   

اب میں نے ان سے کہا آپ  یہ بتائیں جب اس قاتل کی لاش قبضے میں لی گی آپ  وہاں تھے وہ بولا جی میں تھا  میں نے کہا آپ نے وہاں کا رجسٹر بھی لازمنا  دیکھا ہو گا اندراج والا  وہ بولا جی دیکھا تھا میں نے کہا اس پے کس کے حکم سے اندراج کیا گیا تھا وہ بولا جی ڈاکٹر فیاض ڈوگر  کا نام  لکھ تھا میں نے کہاجج صاحب یہ پلیز نوٹ کر لیں ڈاکٹر فیاض ڈوگر  ابمیں نے کہا  انسپکٹر  صاحب کیا آپ کے پاس کبھی کوئی کمپلین  آئی ہے ان ملزمہ کی وہ بولا جی نہیں میں نے کہا پھر آپ  نے اپنی  اب تک کی  تفتیش  میں کیا محسوس کیا ہے  وہ بولا جناب مجھے نہیں لگتا کے انکا اس مرنے والی ملزم  صابری سے کوئی  تعلق ہو  لیکن ھمارے ایس پی صاحب کہتے ہیں یہ ان کی  پناہ گیر ہے ،

یہ سن کے تو ایس پی کا رنگ غصے کے مارے لال ہو گیا اب  ووہی توپ قسم کے وکیل صاحب اٹھنے  اور کہا   تھانیدار  صاحب  کیا آپ کو ہوش ہے آپ کیا بیان دے رہے ہیں میں نے اب ان سے کہا تو جناب آپ آ کر ان کے ہوش  جگا   دیں وہ اب مجھے گورتے ہوے بولا تم ابھی بچے ھو میں نے کہا  ابھی یہاں پے یہ کوئی نہیں پوچھ رہا کے آپ دادا جی ہیں یا میں بچا ہوں جو کیس چل رہا ہے اس کی بات کریں ، اب وہ بولا  یہ تفتیشی جھوٹ بول رہا  ہے یہ بک گیا ہے اب کے تفتیشی کو بھی غصہ آیا اور وہ بولا وکیل صاحب جھوٹ آپ بول رہے ہیں  اگر آپ کو یاد نہیں تو میں آپ کے ہوش ٹھکانے  لگاتا ھون  جناب انہوں نے مجھے میرے ہی ایس پی کے آفس میں کہا تھا کے میں وہ ہی لکھوں جو یہ کہیں گ
ۓ کیوں کے ان کو اور ملک ریاض کو  ڈاکٹرنی صاحبہ سے دو پلازے ہتھیاننے ہیں اسےبلیک میل کر کے اب ان توپ وکیل صاحب کا تو رنگ ہی اڑ  گیا   میں نے کہا جناب اب میں اپنا اگلا  گواہ بلاؤں گا  وہ بلوے  کون ہیں وہ میں نے کہا ووہی جو اس ایف آئی آڑ کے گواہ ہیں پھر ان دونو نے بھی ووہی کہا جو کیں میں نے ان سے کہا تھا ،

ابمیں نے کہا جناب یہ صاف نظر آ رہا ہے اصل  مقصد اس خاتون کو ڈرا دھمکا کے اس سے اس کے کروڑوں کے پلازے لینا ہے  پھر میں نے کہا میں اب ایس پی  ڈوگر سے کچھ سوالوں کیجازت چاہتا ہوں جج صاحب بھی اب سمجھ گ
ۓ تھے  وہ بولے اجازت ہے اب ڈوگر کو میں نے پوچھا وہ اب کٹھرے  میں آ گیا تھا میں نے کہا ڈوگر صاحب آپ کتنے بھی ہیں وہ بولا  تین  میں نے اب  اسے کہا

مینہ آپ کے سامنے آپ کے بھائیوں کے نام لوں گا آپ بتا دینا کیا یہی نام ہیں میںنے کہا آپ سے ایک برا بھی میجر سکندر ڈوگر  وہ بولا جی حنا میں نے کہا آپ سے چھوٹا بھی ڈاکٹر عارف ڈوگر  وہ بولا جی ہاں  میں نے کہا اب آپ جا سکتے ہیں ، اسے میرے سوالوں کی سمجھ نہیں آی تھی  میں نے کہاجج صاحب  میں نے آپ کو ایک نام نوٹ کرنے کا کہا تھا جناب وہ بولے یس عارف ڈوگر ڈاکٹر جس نے ملزم صابری کو  ڈاکٹر نازش کے سٹی ہوسپٹل میں ایڈمٹ  کیا  میں نے کہا جی جناب اب بات کچھ یوں  ہے کے ڈاکٹر نازش کے والی د صاحب ایک مشھور  بزنس من تھے انہوں نے کافی قیمتی  پلازے بنوانے تھے  جن میں سے دو  پلازے اب کی قیمت کے مطابق  ستر ( 70 ) کروڑ  کے ہیں  اب آتے ہیں  اصل بات کی طرف تو جناب  ملک ریاض ایک  لنڈ مافیا کا سرغنہ  ہے  وہ اب ان پلازوں کو ہتھیانا چاہتا تھا اور یہ سب ٹولی جس میں   بڑے بڑے  قابل وکیل شامل ہیں   یہ اس لنڈ مافیا کی ہیلپ کرتی ہے ہر طرح سے  یہ سنتے ہی وہ سب وکیل حضرت  کھڑے ہو گے اور کہا یہ جھوٹ ہے جج صاحب یہ خود ایک غنڈہ وکیل ہے ،

میں نے کہا  جناب  میری نظر میں وکالت یہ نہیں کے کالا کوٹ پہنا  جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹا سبط کیا اور بھاری  رقمیں لے کر اپنے گھر چلا گیا  میں  وکالت کو  ایک  مقدس  پیشہ سمجھ کلے کرتا ہوں اور میں بس ووہی کیس لیتا ہوں جن میں کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ھو میرا  اس خاتون سے کوئی ذاتی  عزیز داری نہیں ہے مجھے میرے بھائی  جو آپ کی تارہا جج ہیں سید امجد حسین  شاہ  انہوں نے کہا کے ان کے دوست کی یہ سالی لگتی ہیں رشتے میں  اور میں تب یہاں آیا  یہاں آ کر پتا چلا کوئی وکیل ان کا کیس نہیں لے رہا  کیوں کے ان ووکلاء  حضرات کا اثر  تھا جو یہ کیس لیتا یہ اس کو  روک دیتے  اس کیس کے لئے میری موکل نے  یہاں کے وکلاء  کو لاکھوں کی فیس کی  آفر کی  پر کوئی نہیں آگے آیا  میں  نے آ کر یہاں کی بار کے دار جناب شیخ صاحب سے مدد مانگی کے مجھے یہ کیس لڑنے کی اجازت  لے کر دی جے ان کی مہربانی  سے مجھے یہ  اجازت مل گئی ، اب میں کچھ آپ کو سنا نا چاہتا ہوں ،

اب میں نے جو کل کی ریکارڈنگ تھی ملک ریاض کی وہ سنا دی ساری عدالت میں اس میں سے عالم پاشا کے آدمیوں کا جو ذکر تھا وہ میں نے ہدف  کر دیا تھا  یہ سنتے ہی  جج صاحب  نے کہا  میں اس جھوٹے کیس  سے ڈاکٹر نازش کو با عزت  بری کرتا ہوں اور ان سے یہ بھکہوں گا اگر وہ چاہیں تو ھتکے عزت کا دعوا کر سکتی ہیں  پولیس  پے   یہ سنتے ہی  فرحاں ڈار  نے کہا جانا جج صاحب  جو قتل کروانے ہیں اس ڈاکٹرنی نے  اب کی بار اپنی جگ سے کھڑا  ہو کے سب انسپکٹر  بولا سر وہ سب  مفرور ملزم تھے جن کے سر پے ہزاوں کا انعام تھا جو ایک نامی گرامی غنڈے  عالم پاشا کے آدمی تھے  اب یہ سن کے جج صاحب نے کہا افسوس ہے  ڈار صاحب آپ لوگ اتنا بڑا نام ہے آپ لوگوں کا کیا صرف غنڈے موالیوں کا ہی ساتھ دیتے ہیں ، اب سب ہی چپ کر کے عدالت سے باہر نکل آے آج کے اس کیس  کو میڈیا  میں لے جانے کے لئے خود ہی  بندوبست کیا تھا اور اب میڈیا کو ایک  بہترین  خبر  مل گئی  ، ایک دو  اخباری  روپورٹر  نے میرا ایک انٹرویو  بھی لیا  اور میں آج بہت  خوش تھا مجھے  سب کے سامنے جج صاحب اور اس بار کے وکلا نے کافی  شہباش  دی ،

پھر ہم راضی خوشی  گھر آ گ
ۓ شیخ صاحب نے کہا آج سے میں یہاں پے نازی کی ہر ہیلپ کروں گا ، گھر آتے ہی نازی نے مجھے اپنی کیسوں پے   رکھ لیا وہ دیوانہ وار مجھے چومے جا رہی تھی ،

بانو بھی بہت خوش تھی  پھر ہم سب کچھ بھول بھال کر  ایک دوسرے میں کهو گ
ۓ میں نے اپنے اور ان دونوں  کے کپڑے اتار لئے اب  بانو میرا کن چوس رہی تھی اور میں نازی کے مممے بنو کی آج کچھ طبیعت خراب تھی اسی لئے وہ بس لن چوسنے میں لگی رہی اور میں نازی  کے مممے کی نپل میں نے دس منٹ  تک اس کے مممے چوسے اور پھر اپنی زبان اس کے سرے جسم   پے پھیرنے لگا ، میں اب ایک انگلی سے  نازی کی چوت بھی سہلا   رہا تھا ،

میں نے اب اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے رس بھرے ہونٹوں کو اپنی پکڑ میں لے لیا میرے ہونٹ اب اس کی ہونٹوں کو اپنے اندر ساماے ہوے تھے میں اس کے نچلے ہونٹ کو بیتابی سے چوم رہا تھا اب اس نے مجھے بھی اپنی بانہو میں جکڑ لیا میں اس کی کمر پے ہاتھ بھی پھیر رہا تھا اور ساتھ میں اس کے ہونٹ بھی چوس رہا تھا

اب میرے ہاتھو  نے اس کے بھرےبھرے  ممموں کو اپنے قبضے میں کیا میں اس کی چوچیاں مسل رہا تھا اب نازی بہت  گرم ہو گی  اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی  آگ نظر آ رہی تھی میں نے کوئی پندرہ منٹ تک اس کے ہونٹوں کا رس پیا  ساتھ ساتھ اسے کے مممے بھی دبا رہا تھا وو اب تڑپ رہی تھی    اس کی نپل کو منہ میں نے کر چوسنے لگا اور دوسری سائیڈ والی نپل  کو اپنے ہاتھ کی انگلیوںمیں لے کر مسلنے لگا وو اب مزے سے سسکاریاں بھر رہی تھی سسسسسسسسسسس شارق پلز کچھ کرو میرے اندر سب جل رہا ہے  میں نے اس کی بات پے کوئی دھیان نا دیا اور اسے چومتا رہا اب میرا ہاتھ آھستہ آہستہ اس کی چوت طرف چلا گیا اس  کی پھدھی آگ کی بھٹی طرح تپ رہی تھی

میں نے اب اپنی انگلی سے اس کی چوٹ کا دانہ مسلنے لگا   اب کے وہ  تڑپ تڑپ کے نیچے گر رہی تھی شارق کچھ کرو نا پلیز میں نے کہا کیا کروں وو بولی اپنا لن میری چوت   کے اندر ڈال دو میں اس کے مممے چوسنے لگا وو اب اتنا بیتاب ہو رہی تھی اس کے منہ سے اب چیخیں نکل رہی تھی  اہھھھھھہ  افففف سسسس جانو مت ترپاؤ میں مر  گئی   میں اب اسے ہر حال میں اپنی پھدھی میں لینا چاہتی ہوں میں نے کہا  ٹھیک ہے جانو اور اس کی دونو ٹانگیں اپنے کندھے پے رکھی  اب میں نے اپنا لن اس کی پھودھی  کے سوراخ پے سیٹ کیا اور اس کی طرف دیکھ کے بولا نازی  پلیز  جانو ایک ہی دھکے سے سارا اندر کر دو جو ہونا  ایک ہی دفع ہو جائے  میں نے اب اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور ایک زور دار دھکا مارا میرا لن اس کی تنگ اور چوت  کو پھاڑتا ہوا اس کی بچا دانی سے جا ٹکرایا

وو میرے نیچے ایسے تڑپی جیسے مچھلی تڑپتی ہے پانی سے بھر نکل کر اس کا جسم کانپ رہاتھا اس کی زور دار چیخ میرے منہ میں ہی دب گی تھی  میں نے اب کچھ دیر ایسے ہی اس کے اپر لیتا رہا اس کے ہونٹ چوستا رہا اس کی آنکھوں سے مارے درد کے  آنسوؤں کی جھڑی پھوٹ گئی تھی  میں نے اس کے نمکین نمکین  آنسوں کو اپنے ہونٹو سے صاف کیا اور  پھر ہلکے سے اپنا لن باہر نکل لیا وو پھر تڑپ گی شارق آج تو کل سے بھی زیادہ درد ہو رہا ہے ا ف ف  ف تمہارا لن تو جیسے کل سے بھی بڑا ہو گیا  ہے  اب بانو ھمارے سامنے لیٹ  کر ہم دونو کو دیکھ رہی تھی  میں نے اب دوبارہ سے تھوڑا تھوڑا کر کے اپنا لن اندر کیا اس کی چوت  کے  اور پھر ایک دو دفع ہلکے ہلکے یہی کیا اندر باہر  اب وو پرسکون تھی میں نے کہا جانو اب زیادہ درد تو نہیں ہو رہا وو بولی اب نہیں ہے میںنے اب زورو سے دھکے مارنے  لگا  میرے ہر دھکے پے وو اچھل جاتی تھی اب میں نے اس کی ایک ٹانگ نیچے کی اور ایک اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چھت  کی طرف کر دی اب میں زور دار دھکے مار رہا تھا  اب وہ  مستی اور مزے سے سسک رہی تھی  آھہ اووو جانو اور زور سے اوئی ماں  میں مرگئی  اب کے وہ  میرا ساتھ دینے لگی  اب میں نے کچھ دیر  ایسے ہی اسے چودا  پھراسے ڈوگی سٹائل میں چودننے لگا اب وہ  مزے کی وادیوں میں  سیر کر رہی تھی اس کی آنکھیں بند اور کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں پھر وو ایک زور کی چیخ کے ساتھ ہی فارغ ہو گی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی جانو ذرا رک جاؤ پلیز

میں ویسے ہی لن اس کی چوٹ میں ڈالکر ہی اس کے اپر لیٹ  گیا پھر میں نے دوبارہ سے اپنا لن  اب سیدھا کر کے اس کی چوت  میں ڈال دیا اب میں ایسے جھٹکے لگا رہا تھا جیسے کوئی مشین  سٹارٹ ہو گے ھو  میرے ہر دھکے سے اب وو ہلکے ہلکے چیختی جاتی تھی  میں نے کہا نازی  مجھے  آج بھی گانڈ  میں بھی اپنا لن ڈالنا ہے وو بولی نہیں نہیں شارق میں اب یہاں بھی برداشت نہیں کر پا رہی پلیز  اب باہر نکل لو نا میں اسے  ہاتھ سے فارغ کر دیتی ہوں میں نا اس کی کسی بات پے دھیان نا دیا اور اسے زوردار طریقنے   سے چودتا رہا  وو اب چلا رہی تھی شارق بس کرو جانو پلیز بس کرو میں بس دھکے ماری جا رہا تھا اب کی بار میں نے اسے وحشیوں کی طرح چودا تھا  وو اب میرے نیچے تڑپ رہی تھی کسی طرح اس کی جان چھوٹ جائے پر میں اب بنا رکے دھکے پے دھکا  مارنے لگا وو بولی پلیز کچھ در ہی رک جاؤ ہے میری ماں میں مر گئی

اس س س س س س س س ‘ ام م م م م م ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف شارق پلیز ایک دفع  رک جو میری جان نکل جائے گی  ش ش ش ش ش ش ش ش ناں کرو اب بس کرو اس کے ساتھ اس کے ہاتھ میری کمر پر سخت سے سخت ہوتے جارہے تھے تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر سے فارغ ہو گے  وو اب تک تین دفع فارغ ہو  چکی تھی  میں ابھی تک ویسے کا ویسا  ہی تھا  میں بنا رکے اسی طرح اسے چودے جا رہا تھا

اب کی بار اس کی چیخیں پہلے سے بھی زیادہ زور دار تھیں    اب کی بار اس کے منہ سے نکلنے والی چیخیں شائد پہلے سے زیادہ اونچی آواز میں تھیں وو  درد کی وجہ سے بے حال ہوئے جارہی تھی میں  اس کے اوپر لیٹ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر ایک اور جھٹکا دے مارا جس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے اوووووووووووں کی آواز اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے اب میں نے اپنے لن کو آہستہ آہست سے اندر باہر کرنا شروع کردیا اور تقریباً پندرہ منٹ میں فارغ ہوگیا میں نے اپنا سارا پانی اس کی گرم چوت میں ہی چھوڑ دیا  اب اس نے مجھے زور سے اپنے گلے  لگا لیا اور روتی آواز میں کہا شارق آپ  تو واقعی  جانوروں کی طرح  چودتے ہیں جو لڑکی ایک دفع آپ سے چدوا لے گے وو کبھی کسی اور کے بارے میں نہیں سوچ سکتی اور روتے روتے ہی ہنس دی اور کہا آئی .لو .یو  شارق مجھے برا مزہ آیا ہے میں نےکہا نازی  مجھے تمہاری گانڈ  بھی لینی ہے نازی   بولی ظالم آج رحم کھاؤ ابھی میں پچھلی رات کا درد نہیں بھولی گانڈ کا ابھی بھی برا حال ہے  پھر میںنے نے اسے آگے سے ہی اس رات کوئی  پانچ دفع چودا

بانو اب  برداشت  نا کر سکی اور بولی  آوو ظالموں  اب بس کرو آج میری طبیعت  خراب ہے تو تم دونوں کیوں مجھے ترسا رہے ھو یہ  کوئی انصاف  کی بات تو نہیں  نہ اور ہم دونوں ہنس دیے اب کے وہ بولی شارق مجھے ٹھیک ہو جانے دو  میں نے تم کو پوری رات اپنے اوپر سے نیچے نہیں اترنے دینا تم دیکھ لینا  یہ سن کے نازی نے کہا  تو سہی ہیں  نہ ایک ہفتہ ہم خوب پیار کریں گ
ۓ میں نے کہا نہیں یار  کل میں نے واپس  جانا ہے  مجھے کام ہیں ضروری  تی نازش اداس  ہو گئی  میں نے کہا جانو ہم ملتے رہیں گۓ ، وہ چپ رہی  پھر مجھے لپٹ گئی  اور رونے لگی  میں نے کہا دیکھو نازی  میں  نے جا کر اپنے کیس  دیکھنے  ہیں  تم آ جانا  کبھی  میں آ جاؤں گا   اب اتنا اداس ہونے کی کیا ضرورت ہے وہ بولی ایک وعدہ  کرو  جاتے ہوے میں جو کہوں گئی تم مانو گۓ مینن ے کہا وک وہ بولی میرے سر پے ہاتھ رکھ کے کہو  میں نے ایسا ہی کیا وہ اب خوش ہو گئی ،

اب ہم ایک دوسرے  سے لپٹ کے سو گ
ۓ  اگلے دِن جب اٹھے  تو مجھ سے پہلے وہ دونوں ہی اٹھ  چکی تھیں  میں بھی نہا  دھو کے باہر  گیا ان کے پاس  نازی کے پاس کوئی آٹھ دس اخباریں  تھیں جن کو وہ دونوں پڑھ کے خوش ہو رہی تھیں  میںنے کہا ایسا کیا ہے ان میں ،

وہ مجھے دیکھ کر دونوں ہی اٹھیں اور میرے گلے لپٹ کے میرا منہ چوم لیا میں نے  کہا ہیں کیا یہ آج کی خبر ہے میرا منہ چومنے کی اب مجھے دکھایا  نازی نے ہر اخبار نے میرے بار میں دل کھول کے لکھا تھا اور میرے اکیلے کے سامنے ان سب کے نام لکھنے تھے کے میں نے ایک کیس میں ان سب کو شکست  دی اور میں نے جو جو عدالت  میں لکھا تھا وہ بھی لکھ دیا گیا تھا ، میرے بارے میں یہ تبصرہ کیا گیا تھا ایک ایسا وکیل جو صرف سچ کا ساتھ دیتا ہے یہ نہیں دیکھتا سامنے کون ہے ، ایسے ہی وکلاء  کی ضرورت ہے ھمارے معاشرے کو ،

میرے بارے میں مختلف وکلاء   کی را
ۓ بھی لکھی گئی تھی   جنہوں نے کہا تھا میرے جیسے زہین لوگ  بہت کم  ہوتے ہیں جو کیس کو  اپنی ذہانت سے ایک نیا  رخ دے سکیں  سب کی  مختلف راۓ تھی ، مجھے  اچھا لگا اسی وقت مجھے اپنے موبائل   پے فاروقی صاحب کی کال آئی وہ بھی بہت خوش تھے اور کہا  شارق  آج کا اخبار دیکھ کے مجھ کو بڑی  خوش ہوئی ہے   پھر میں نے ان کو اپنے آنے کا بتایا پھر مجھے منرے گھر سے سب کی کالز  آییں باری باری  اب ہم نے ناشتہ کیا اور اپنے سٹی  جانے کو تیار ہوے اسی وقت  بانو کے شوہر کی کال آئی اس نے بانو سے کہا وہ ووہی رہے وہ آج خود آ رہاہے  سو بانو بھی رک گئی اب میں اکیلا ہی جانے کے لئے تیار ہوا  اب میرے پاس نازش آئی اس نے کہا میری بات سنو میں اس کے ساتھ اس کے بیڈ روم گیا اس نے  وہاں جا کر اپنے پرس سے ایک چیک  نکال کے مجھے دیا  جسے دیکھ کر میری آنکھیں فٹ گئی وہ ایک  کروڑ  کا چک تھا جو میرے نام سے کاٹا گیا تھا میں نے اسے  غصے سے دیکھ اور کہاں یہ کیا ہے وہ بولی تم نے رات کو میری قسم کھائی  تھی  آج سے میرے پاس جو ہے وہ  تمہارا ہے تمہاری  میں جو ہوں  اور تم اسے نہ لے کر میرا  دل ہی توڑوں گۓ ،


میں نے اسے کہا چلو ٹھیک ہے تم اسے اپنے پاس ہی رکھو جب مجھے ضرورت ہو گئی  میں لے لوں گا  وہ بولی اتنا  چالاک نہ بانو  پکڑو اسے  ورنہ میں نہیں بولوں گئی آپ سے اب میں نے لے لیا   وہ بولی دیکھو شارق  یہ میں آپ کو فیس  نہیں دے رہی میں اپنی جان کو  ویسے ہی انعام میں دے رہی ہوں  میرا یار اتنا  مشہور ہو گیا ہے  اس لئے اور مجھے اپنے ساتھ لپٹا کے میرے ہونٹ چومے اب میں نے بھی کچھ دیر  اسے چومنے کے بعد کہا  اب میں جاؤنگا جانو ،
 وہ بولی ٹھیک ہے پھر ہم باہر آے وہ بولی اس چیک کا پلیز  بانو کو پتا نہ چلے ،

اب میں نے بانو کو کس کیا اور کہا اب ملاقات ہو گئی  اپنے سٹی میں اور اپنی گری میں بیٹھ کے اسے سٹارٹ  کیا اور ریورس  کر کے باہر نکل آیا ،جب میں اس سٹی سے باہر نکلا تو ایک جگہ مجھے ظفری کھڑا نظر آیا میں نے اسے اپنے ساتھ بیٹھا لیا وہ بولا باس  ایک گاڑی آگے جا رہی ہے اور ایک آپ کے پیچھے ہیں اپنے بندوں کی میںنے آپ کو مبارک  دینا تھی اس لئے  میں یہاں رک گیا تھا ،

اب میں نے کچھ سوچا اور کہا ظفری  بابری  آپ لوگو کو کیا تنخوا  دیتا ہے وہ بولا باس  سے جتنے کی ضرورت ہو وہ ہم لے لیتے ہیں  میں نے کہا وک اب ستی جا کر میں اپ کو دس  لاکھ کا چیک  دوں گا آپ  اسے خود ہی سب میں تقسیم کر لینا  وہ بولا باس  اگر آپ یہ ہی چاہتے ہیں تو ایک  گزارش ہے آپ سے  آپ  ہم کو کچھ کام کرنے دیں  اور ہماری ہیلپ کر دیا کریں باس  میں نے کہا کون سے کام وہ بولا  باس ہم نے کچھ ایسے لوگ تار  رکھے ہیں جن کا اسمگلنگ  کا سامان باہر سے آتا ہے میں چاہتا ہوں  وہ سارا سامان الیکٹریشن  کا ہے  میں چاہتا ہوں ہم ان کی کوئی تین یا چار شپ منٹ  ان سے چھین لیں ، تو ھمارے پاس سب کچھ وافر مقدار میں آ جے گا کیوں کے بابری  باس نے کہ دیا ہے اب ہمارا مارنا جینا آپ کے ساتھ ہے آپ یہ سمجھ لیں اب مجھ سمیت بیس لوگ آپ  کے گروپ  میں شامل ہو گ
ۓ ہیں اور باس سب سے بڑی بات یہ ہے کے جن کا ہم سامان  ان سے چھین  لے گے  وہ سب ایک نمبر کے  جرائم  پیشہ لوگ ہیں  میں نے کہا چلو ٹھیک ہے تم ایسا کرو  اپنی اس  حویلی کو ہرطرح  کے سامان  سے آرستہ کرو ،

میں چاہتا ہوں وہاں پے جاسوسی کا بھی سامان ھو ہر طرح  کا اسلحہ  ہو اور جس چیز کی ہم کو ضرورت پڑھے اسی وقت مہیا ھو   وہ بولا باس آج رات کو میں سیٹھ  کرامت  ہیرے والا  کا سامان حاصل کریں گ
ۓ  جو مارکیٹ میں  کوئی پچاس لاکھ کا ہے  ہم اسے  چالیس  میں اسی وقت بیچ دیں گۓ  میں نے کہا تم اب  خود  دیکھو کیا کرنا ہے  میری جہاں ضرورت ہو بتا دینا ظفری اب خوش ہو گیا  وہ کہنے لگا  باس ھمارے ساتھ جب بھی ایسی کوئی کاروائی کریں گۓ وہ اپنے چہرے چھپا لیں گۓ  نقاب میں  اور ہم نے سوچا ہے ھمارے اس ہیڈ کواٹر میں  کوئی دس گاڑیاں ہونی چاہیے وہاں پے بہت جگہ ہے باس وہاں پے خفیہ  راستے ہیں کوئی تین چار  ایسا  زبر دست اڈا کسی کے پاس نہیں ہے ،


یوں ہی باتیں کرتے ہم اپنے سٹی  میں داخل ہو گ
ۓ اب ظفری نے ایک  وائرلیس سیٹ نکالا اور اپنے پیچھے والی ساتھیوں سے  کہا  مجھے بھی اب بیٹھا لوں ساتھ اپنے میں نے اب گری روکی وہ سب بھی میرے پاس آے ان کو بتا دیا تھا ظفری نے سب وہ اب مجھے مبارکباد دینے لگے اور بولے ہم آپ سے  ہر طرح سے وفادار رہیں گۓ باس  ایسے ہم کو جرم  بھی نہیں کرنا پرے گا کوئی اور ہم  سب اپنی ضروریات  بھی پوری کر لیں گۓ


میں نے  بھی اب دیکھ لیا تھا کے  یہاں پے سیدھی انگلی سے  گھی نہیں نکلتا  اس لئے میں نے اب سوچ لیا تھا  خود کو مضبوط رکھنا ہے سب سے  تا کے میں جس سے چاہوں ٹکرا سکوں، میں جب گھر میں داخل ہوا تو سب نے مجھے دیکھتے ہی  میری طرف لپکے اور مجھے والدہ صاحبہ اور والد صاحب نے پہلے اپنے گلے سے لگایا  پھر سب بھابھیوں نے  سب سے آخر میں  لالارخ نے  وہ میرا متھ چوم کے بولی بھائی آپ تو چھا  گ
ۓ ھو ہر طرف  اب  میں نے  کہا ہاں یہ تو ہے آخر بھائی کس چیریل  کا  ہوں وہ اب دوبارہ سے بولی آپ کو عزت راس ہی نہیں آتی جو کام کرو بڑے  آے وکیل صاحب اب سب ہی ہنس دیے ،

لالارخ  نے کہا دیکھا امی  جی  آپ نے بعد میں آپ مجھے ڈانٹی  ہے میں ان سے  سہی سے  بات  نہیں کرتی یہ خود  ہی لڑائی  شروع کرتے  ہیں اب ہم نے  لان میں ہی بیٹھ کر باتیں  کرنے لگے میں نے اب  ڈیڈی سے کہا ڈیڈی  میرے پاس پچاس لاکھ روپے ہیں ان کا کیا کرنا ہے  وہ بولے اتنا پیسا کہاں سے آیا  میں نے کہا اس کیس کی فیس  یہ سنتے ہی سب حیران رہے گ
ۓ  اب کی بار لالارخ نے کہا  توبہ توبہ  ڈیڈی آپ کا یہ صاحب زادا تو لوگوں   کو لوٹ رہا ہے  میں نے ہنس کے کہا وہ خود ہی  دے دیتے ہیں بنا مانگے  اتنی بڑی بڑی رقم میں اب کیا کروں ،  

اب کی بار ڈیڈی نے مجھ سے پوچھا بیٹا ان کا مسلہ کیا تہ میں نے ان کو ساری بات تفصیل سے بتا دی ، وو بولے  تو یہ بات ہے لالارخ بولی ڈیڈی لوٹ لیا بھائی نے اس خاتون کو  تو اب بھابھی شفق نے کہا  اسے عزت ملی ستر کروڑ کی جائیداد  بچی اس کی جان بچی  وہ بھی تو شارق  کی وجہ سے  اب اگر ہم کو  پچاس لاکھ دیا تو کون سا احساں کیا  اب ڈیڈی نے کہا بیٹا وہ اپ اپنےاکاونٹ  میں جمع کرا لو میں نے کہا ڈیڈی میں بیس لکھ لے لیتا ہوں باقی کے تیس  لکھ اپ خود اپنے پاس رکھ لیں  ڈیڈی کو  روپے کی کوئی ضرورت نہیں تھی  پھر بھی میں نے ان کو دیے تا  کے وہ یہی نہ سمجھیں میں ایسے ہی خود کو برباد کر  رہا ہوں  اب میں نے ان کو اپنے پاس سے تیس لاکھ  کا چیک دیا  کیوں کے گھر انے سے پہلے میں نے وہ چک جو مجھے نازی نے دیا تھا وہ آن لائن تھا اپنے  اکاونٹ  میں جمع کرا دیا تھا  جو اسی وقت  وو روپے میرےاکاونٹ  میں جمع ہو گ
ۓ تھے میں  نے اب ڈیڈی کو وہ چیک دیا ،

اور سب کے سامنے ہی ایک شو روم  میں کال  کی اور ایک نیئی کر منگوا لی اپنے لئے ہنڈا  پھر میں نے جب وہ گاڑی آ گئی تو اس کو چیک دیا چودہ لاکھ کا  اور اب اسی گاڑی میں بیٹھا کے  سب بھابھی لوگو کو مارکیٹ لے گیا سب کو ان کی پسند  سے جیولری گولڈ کی لے کر دی سب نے دو دو سیٹ لئے میں نے اپنی والدہ صاحبہ کے لئے بھی لئے  اور ہم گھر آ گ
ۓ اب سب ہی  خوش تھے میرے بھائی بھی آگنے تھے اب  وہ بھی بہت  خوش ہوے ، اب لالارخ نے کہا آپ اتنے  برے نہیں ہیں اگر ہر مہینے ایک ایسا ہی مارکیٹ کا چکر لگوا دیا کریں ، میں نے کہا وہ  کیوں تو بولی باقی بھی بھی مجھے  لے جاتے ہیں  میں نے کہا وہ تو رشوت دیتے ہیں کے تم ان کی  بیگموں سے لڑو نہ  اس لئے وہ اب چیخ کے بولی کیا  کہا آپ نے میں لڑاکو ہوں ،

میں ہنس دیا اور کہامیں نے کب ایسا کہا ہے اب سب ہی مسکرا دیے  پھر ہم نے کھانا کھایا اور جب میں رات کو لان میں واک کر  رہا تھا تو بھابھی شفق آ گئی اور کہا اور سناؤ پھر اس پھلچری کا میں نے مسکرا کے کہا ٹھیک ہے وہ جب بھابھی شفق پڑھا کرتی تھی اس وقت بھی اکڈر میں ان کی دوستوں  کو یوں ہی چھیڑتا تھا ان کو پتہ تھا میرا  ، اب وہ بولی تو اور سناؤ کچھ نیئی تازی میں نے کہا کوئی نہیں وہ  بولی چلو اس جیت کی خوشی میں تم کو کل ایک زبردست مال سے  ملوا دیتی ہوں  میں نے  کہا کون ہے وہ تو بھابھی شفق نے کہا کل خود ہی دیکھ لینا کل تم میرے ساتھ  گجرات  جا رہے ھو ایک شادی پے  کیوں کے تمہارے بھائی تو پرسوں ہی آییں گ
ۓ  کل میں اور تم اور لالارخ جائیں گۓ ، میں نے کہا کن کی شادی ہے  وہ بولی میرے بھائی سفیان  کے سالے کی  میں نے کہا ٹھیک ہے ، پھر میں اپنے کمرے میں آ کر سو گیا اگلے دِن میں تیار ہو کے کورٹ  گیا تو بار روم میں مجھے سب نے بہت مبارکباد دی ،

پھر سب نے کہا ہم نے ایک فیصلہ  کیا ہے سب نے مل کر  کے اس دفع تم اس بار سے  بلا مقابلہ صدر منتخب کے جاؤ گ
ۓ یہ سن کے میں تو ششدر ہی رہ گیا  کےیہ سب  وہ بولے یہ ہم سب کی خوشی ہے یار انکار نہیں کرنا  مجھے بھائی نصرت  نے بھی کہا ہاں یار ایسے  میں سب خوش ہوں گۓ اور فاروقی صاحب نے بھی یہی کہا  اب یہ عالم  تھ کے فاروقی صاحب  کے دفتر پے اب نصرت بھائی  کا بھی ساتھ میں نام  لکھا تھا فاروقی صاحب نے کہا شارق اب اتنے کیس آ رہے ہیں   میں نے سوچا ہے  کے یہاں پے میں دکھوں گا اور نصرت صاحب  سیمیں نے ہی  یہ ریکویسٹ  کی تھی ان کی مہربانی وہ ماں گۓ،

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest