SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ چوتھی قسط

 



عاشق

چوتھی قسط

تحریر: ماہر جی

اگلے دِن ناشتے کے ٹائم ہی میری پیشی ہو گی والد حضور نے ناشتے کے بعد کہا شارق ہم سب کو خوشی ہے کے تم وو کیس جیت گے اب میں یہ قطعی برداشت نہیں کر سکتا تم اس فاروقی کو اسسٹ کو کرو تم آج سے نصرت کے ساتھ جو گے میں نے کہا اپ کا حکم سر آنکھوں پے ڈیڈی لیکن کیا اپ نے بھائی جان سے پوچھ لیا ہے وو بولے کیا مطلب میں نے کہا ڈیڈی میں سچائیوں کا پرستار ہوں اور اگر مجھے لگا  کے بھائی کے دفتر میں کسی بیگناہ کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تو میں اسی کا ساتھ دوں گا بھائی نصرت نے اب کہا ڈیڈی ہر فیلڈ میں سچے اور جھوتھے لوگ ملتے ہیں اور   پھر میرے پاس تو سب ہی آییں گے ظالم بھی مظلوم بھی اب سب نے بھائی کی تائید کی میں نے کہا بھائی اپ صرف پیسا دیکھتے ہیں وو بولے ہاں میں میں اب فری میں تھوڑا کس لڑوں گا میرا ایک نام ہے وکیلوں میں ان کے لہجے میں غرور کوٹ کوٹ کے بھرا تھا جو مجھے بلکل اچھا نہیں لگا میں نے کہا تو میں اپ کے ساتھ نہیں بیٹھہ سکتا اب کے ڈیڈی نے کہا یہ میرا حکم ہے میں نے کہا سوری ڈیڈی میں کوئی بھی غلط بات نہیں منوں گا بس پھر کیا تھا ڈیڈی نے غضب ناک لہجے میں کہا تیری یہ جرات تو مجھے انکار کرے اور کہا اس گھر میں ووہی رہ سکتا ہے جو میری بات ماننے میں یہ سنتے ہی عجیب سی نظروں سے اپنے گھر والوں کو دیکھنے لگا جو بس اپنے آپ کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے میں بھی آخر انہی  کا خوں تھا میںنے بھی اسی وقت اپنے کپڑے لئے اور گھر سے نکل آیا بیچاری والدہ صاحبہ بوہت رویی لیکن آئی .جی سحاب کے آگے کوئی پیش نہ چلی

میں نے اپنا سامان لیا اور فاروقی سحاب کے گھر آ گیا اب میں نے ان کو ساری بات بتا دی وو بولے نا سمجھ ہیں آشیانے والی جو ایک ہیرے کی قدر نہیں کر رہے اور کہا بتا آج سے تم یہی رہو میرے اس چوتھے سے گھر میں بوھت جگہ ہے لیکن میری خدار طبیت نے یہ نا مانا اور میں نے ایک اچھی سی بلڈنگ میں ایک کراے پے فلیٹ لے لیا جو بوھت ہی اچھا اور پیارا بنا ہوا تھا ، پھر واہی  روز کی روٹین اب فاروقی صاب کا کام خوب چل نکل تھا ان کے پاس دہرا دھر کیس انے لگے وو اور میں اس کیس پے فل محنت کرتے اب یہ میری خدا داد ذہانت کا ہی کمال تھا میں جو بھی بحث تیار کرتا وو  اب کم ہی کسی وکیل کو پکڑائی دیتے تھے اکثر عدالت میں اتے جاتے بھائی نصرت اور کمرہ عدلت میں بھائی امجد سحاب سے ملاقات ہو جاتی دونو ہی مجھے اگنور کرتے اب میں نے بھی ان کو اہمیت دینا چھوڑ دی  

اب ہماری وکالت پورے زوروں پے تھی ،ایک دِن میں اپنے فلیٹ میں جا رہا تھا کورٹ سے فارغ ہو کر کے مجھے راستے میں ثنا عباسی نظر آی  اس نے بھی مجھے دیکھ لیا اور میری طرف آی وو ایک بس استنڈ پے کھڑی تھی میں نے بھی اپنی بائیک کو روک لیا اور اسے حال چال پوچھا وو بولی سب ٹھیک ہے راحیل بھائی اب دبئی چلے گے ہیں اور میں ایک سچول میں ٹیچر کی جاب کر رہی   ہوں آج میں مارکیٹ سے کچھ ضروری سامان لینے یی تھی اب واپس گھر جا رہی ہوں میں نے اسے کہا چلو او پاس ہی میرا فلیٹ ہے وہاں چلتے ہیں وو میرے ساتھ بیٹھ گی فیلٹ میں    آ کر میں نے اسے ڈرائنگ روم میں صوفی پے بیٹھننے کو کہا اور کہا میں تمہارے لئے چا
ۓ بنا  کے لاتا ہوں وو  میرے ساتھ ہی آ گئی کچن میں اور خود  چاۓ بنانے لگی میں اس کے پاس ہی کھڑا ہو گیا وو کالے رنگ کے لباس میں تھی اس کا یہ فٹنگ والا سوٹ اسے بوھت  پیارا لگ رہا تھا وواس لباس میں جگمگا رہی تھی ثنا ایک سانولے رنگ کی دراز قد لڑکی تھی جس کے مممے چوتیس اور کمر اٹھائیس تھی کمر سے نیچے آ کر اس کے کولہے کافی بھاری تھے وو کوئی چھتیس سائز کے ہوں گے 34 ، 28 ،36 میں اسے کافی غور سے دیکھ رہا تھا وو بولی شارق سحاب کیا دیکھ رہے ہیں میں نے کہا آپ کی جوانی وو شرما گی اب ہم واپس کمرے میں آے اور چاۓ پینے لگے ساتھ میں کچھ بیکری کا سامان بھی کھا رہے تھے  میں نے اسے کہا لوگ بات کر کے بھول جاتے ہیں وو سمجھ گئی اور کہا یہ لوگو کی غلط فہمی ہے لوگ آج بھی مجھے بوھت یاد آتے ہیں میں نے کہا تو پھر تم نے مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کیا وو بولی میں آپ کا انتظار کر رہی تھی کب آپ مجھے بلائیں  اور میں کچے دھاگے سے بندھی دوری چلی آؤں

میں نے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کےسہلانے  لگا وو بولی شارق آپ بوھت اچھے ہیں میں آپ کو بوھہت پسند کرتی ہوں میں نے کہا سچی وو میرے پاس آی اور میرے ہونٹوں پے کس کر کے کہا مچی  اور کھلکھلا کر ہنس دی میں نے اب اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے رس بھرے ہونٹوں کو اپنی پکڑ میں لے لیا میرے ہونٹ اب اس کی ہونٹوں کو اپنے اندر ساماے ہوے تھے میں اس کے نچلے ہونٹ کو بیتابی سے چوم رہا تھا اب اس نے مجھے بھی اپنی بانہو میں جکڑ لیا میں اس کی کمر پے ہاتھ بھی پھیر رہا تھا اور ساتھ میں اس کے ہونٹ بھی چوس رہا تھا

اب میرے ہاتھو  نے اس کے بھرےبھرے  ممموں کو اپنے قبضے میں کیا میں اس کی چوچیاں مسل رہا تھا اب ثنا بوھت گرم ہو گے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی  آگ نظر آ رہی تھی میں نے کوئی پندرہ منٹ تک اس کے ہونٹوں کا رس پیا  ساتھ ساتھ اسے کے مممے بھی دبا رہا تھا وو اب تڑپ رہی تھی میںنے اس کی کمر سے قمیض کی زپ نیچے کی اور اس کی قمیض اتر دی اب اس کے مممے ایک سکن کلر کے برازیئر میں  تھے میں نے اب اسی کی برا بھی اتر پھینکی اب میںنے اسسے اپنے ساتھ ایک صوفے پے بیٹھا کے   اس کی نپل کو منہ میں نے کر چوسنے لگا اور دوسری سائیڈ والی نپل  کو اپنے ہاتھ کی انگلیوںمیں لے کر مسلنے لگا وو اب مزے سے سسکاریاں بھر رہی تھی سسسسسسسسسسس شارق پلز کچھ کرو میرے اندر سب جل رہا ہے  میں نے اس کی بات پے کوئی دھیان نا دیا اور اسے چومتا رہا اب میرا ہاتھ آھستہ آہستہ اس کی شلوار کی حنب جا رہا تھا اس نے لاسٹک والی شلوار پہنی تھی میرا ہاتھ آسانی سے اندر چلا گیا اس کی پھدھی آگ کی طرح تپ رہی تھی

میں نے اب اپنی انگلی سے اس کی چوٹ کا دانہ مسلنے لگی  اب کے وو تڑپ تڑپ کے نیچے گر رہی تھی شارق کچھ کرو نا پلیز میں نے کہا کیا کروں وو بولی اپنا اسس کے اندر ڈال دو میںنے کہا اس کا کیا نام ہے وو بولی مجھے نہیں پتا  میں نے کہا جب تک تم اپنے منہ سے سبنہی بتاؤ گے میں کچنہی کروں گا اور دوبارہ سے اس کے مممے چوسنے لگا وو اب اتنا بیتاب ہو رہی تھی اس کے منہ سے اب چیخیں نکل رہی تھی  اہھھھھھہ  افففف سسسس جانو مت ترپاؤ میں مر جو گی  اور پھر وو اپنے آپ سے بیگانہ ہو گے اس نے مجھے اپنے نیچے کر لیا کروٹ بدل کر اور میری پینٹ اترنیکے بعد میرا انڈر ویر بھی خود ہی اٹھارہ  اب وو میرے  لن کو پیار سے دیکھ رہی تھی پھر اس نے خود ہی اسے اپنے منہ میں لے کر چوسنا سٹارٹ کر دیا اب وو میرے لن کو آئسکریم کی تارہا چاٹ اور چوس رہی تھی مجھے اب مزہ انے لگا میں اس کچوچیاں دبا رہا تھا میں نے کہا ثنا

اسے کیا کہتے ہیں وو اب بیتابی سے میرا لن چاٹ رہی تھی وو میرے لن کی ٹوپی پر زبان فیرتے ہوے بولی  شارق تمہارا لن بوھت برا ہے مجھے لگ رہا ہے آج میری کنواری چوٹ کا ستیا ناس ہو جاتے گا  لیکن میں اب اسے ہر حال میں اپنی پھدھی میں لینا چاہتی ہوں میں نے کہا  ٹھیک ہے جانو اور اسے دوبارہ سے اپنے نیچے کیا اس کی دونو ٹانگیں اپنے کندھے پے رکھی  اب میں نے اپنا لن اس کی پھودھی  کے سوراخ پے سیٹ کیا اور اس کی طرف دیکھ کے بولا ثنا میں اندر کر دوں وو بولی ہاں شارق مجھے آج اتنی تکلیف دو جس میں راحت ھو مزہ ھو میں اس مزے بھری تکلیف ک لئے تیار ہوں پلیز  جانو ایک ہی دھکے سے سارا اندر کر دو جو ہونا  ایک ہی دفع ہو جائے  میں نے اب اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور ایک زور دار دھکا مارا میرا لن اس کی تنگ اور کنواری چوٹ کو پھاڑتا ہوا اس کی بچا دانی سے جا ٹکرایا

وو میرے نیچے ایسے تڑپی جیسے مچھلی تڑپتی ہے پانی سے بھر نکل کر اس کا جسم کانپ رہاتھا اس کی زور دار چیخ میرے منہ میں ہی دب گی تھی  میں نے اب کچھ دیر ایسے ہی اس کے اپر لیتا رہا اس کے ہونٹ چوستا رہا اس کی آنکھوں سے مارے درد کے  آنسوؤں کی جھڑی پھوٹ گئی تھی  میں نے اس کے نمکین نمکین  آنسوں کو اپنے ہونٹو سے صاف کیا اور  پھر ہلکے سے اپنا لن باہر نکل لیا وو پھر تڑپ گی میرا لن اس کی چوٹ کے خوں سے لبھرا ہوا تھا میں نے اب دوبارہ سے تھوڑا تھوڑا کر کے اپنا لن اندر کیا اس کی چوٹ کے  اور پھر ایک دو دفع ہلکے ہلکے یہی کیا اندر باہر  اب وو پرسکون تھی میں نے کہا جانو اب زیادہ درد تو نہیں ہو رہا وو بولی اب نہیں ہے میںنے اب زورو سے دھکے مارنے  لگا  میرے ہر دھکے پے وو اچھل جاتی تھی اب میں نے اس کی ایک ٹانگ نیچے کی اور ایک اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چاٹ کی طرف کر دی ابمیں زور دار دھکے مر رہا تہ اب وو مستی اور مزے سے سسک رہی تھی  آھہ اووو جانو اور زور سے اوئی من میں مر گے اب کے وو میرا ساتھ دینے لگا اب میں نے کچھ در ایسے ہی اسے چودہ پھراسے ڈوگی سٹائل میں چودننے لگا اب وو مزے کی وادیوں میں  سیر کر رہی تھی اس کی آنکھیں بند اور کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں پھر وو ایک زور کی چیخ کے ساتھ ہی فارغ ہو گی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی جانو ذرا رک جاؤ پلیز  

میں ویسے ہی لن اس کی چوٹ میں ڈالکر ہی اس کے اپر لیٹ  گیا پھر میں نے دوبارہ سے اپنا لن اسسے اب سیدھا کر کے اس کی چوٹ میں ڈال دیا اب میں ایسے جھٹکے لگا رہا تھا جیسے کوئی مشین  سٹارٹ ہو گے ھو  میرے ہر دھکے سے اب وو ہلکے ہلکے چیختی جاتی تھی  میں نے کہا ثنا مجھے تمری گند میں بھی اپنا لن ڈالنا ہے وو بولی نہیں نہیں شارق میں اب یہاں بھی برداشت نہیں کر پا رہی پلیز  اب باہر نکل لو نا میں اسسے ہاتھ سے فارغ کر دیتی ہوں میں نا اس کی کسی بات پے دھیان نا دیا اور اسے زوردار طریقنے   سے چودتا رہا  وو اب چلا رہی تھی شارق بس کرو جانو پلیز بس کرو میں بس دھکے ماری جا رہا تھا اب کی بار میں نے اسے وحشیوں کی طرح چودا تھا  وو اب میرے نیچے تڑپ رہی تھی کسی طرح اس کی جان چھوٹ جائے پر میں اب بنا رکے دھکے پے دھکا  مارنے لگا وو بولی پلیز کچھ در ہی رک جاؤ ہے میری ماں میں مر گئی

اس س س س س س س س ‘ ام م م م م م ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف شارق پلیز ایک دفع  رک جو میری جان نکل جائے گی  ش ش ش ش ش ش ش ش ناں کرو اب بس کرو اس کے ساتھ اس کے ہاتھ میری کمر پر سخت سے سخت ہوتے جارہے تھے تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر سے فارغ ہو گے  وو اب تک تین دفع فارغ ہو  چکی تھی  میں ابھی تک ویسے کا ویسا  ہی تھا  میں بنا رکے اسی طرح اسے چودے جا رہا تھا

اب کی بار اس کی چیخیں پہلے سے بھی زیادہ زور دار تھیں    اب کی بار اس کے منہ سے نکلنے والی چیخیں شائد پہلے سے زیادہ اونچی آواز میں تھیں وو  درد کی وجہ سے بے حال ہوئے جارہی تھی میں ایک بار پھر اس کے اوپر لیٹ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر ایک اور جھٹکا دے مارا جس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے اوووووووووووں کی آواز اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے اب میں نے اپنے لن کو آہستہ آہست سے اندر باہر کرنا شروع کردیا اور تقریباً پندرہ منٹ میں فارغ ہوگیا میں نے اپنا سارا پانی اس کی گرم چوت میں ہی چھوڑ دیا  اب اس نے مجھے زور سے اپنے گالی لگا لیا اور روٹی آواز میں کہا شارق آپ  تو واقعی  جانوروں کی طرح  چودتے ہیں جو لڑکی ایک دفع آپ سے چدوا لے گے وو کبھی کسی اور کے بارے میں نہیں سوچ سکتی اور روتے روتے ہی ہنس دی اور کہا آئی .لو .یو  شارق مجھے برا مزہ آیا ہے میں نےکہا ثنا مجھے تمہاری گاند بھی لینی ہے وو بولی ظالم آج رحم کھاؤ اگلی دفع جو مرضی کر لینا میں پہلے ہی درد سیمرننے والی ہوں اور مجھے ہونٹوں سے چومنے لگی میں نے بھی اسے کس کی اور اس کے اپر سے اٹھ گیا وو بھی اٹھی تو  لڑکھڑا  گی اس سے سہی طرح چلا نہیں جا رہا تھا اس کی تانگہیں خوں اور منی سے لتھڑی ہوئی تھیں وو بولی  دیکھا کیا حال کیہے تمہارے اس جانباز نے میری اس کنواری چھاؤنی کو ہر طرح سے تباہ کر دیا ہے  میں نے اسے سہارا دیا اور واش روم لے گیا وہاں ہم نے اپنے اپ کو صاف کیا اور میں اسے اپنی بانہوں میں اٹھے ہی باہر لے آیا وو میرے ہونٹوں پے ایک کس کر کے بولی شارق میں اب جاؤں کافی ٹائم ہو گیا ہے اس نے کپڑے پہنے اور میں ے اب اسے فریش جوس دیا وو پیتے ہوے بولی شارق پلیز مجھے گھر چھوڑ او  میں نے کہا ٹھیک ہے پھر میں اسے اس کے گھر کے باہر چھوڑ کے واپس آ گیا میں بھی اب آتے ہی نہا کر لیٹ گیا   کیوں کے مجھے رات کو کسی سے ملنا تھا

رات کو میں اٹھا اور تیار ہو کر  قاروقی صاحب کے گھر چل دیا وہاں میری ملاقات ایک آدمی سے ملاقات ہوئی وو اپنے لباس سے کافی امیر لگ رہا تھا فاروقی صاحب نے کہا شارق یہ خواجہ ظفر صاحب ہیں  ان کا کیس  پہلے  چوہدری  احسن  صاحب کے پاس تھا اب یہ ان سے فائل لے کر ھمارے پاس اے ہیں میں نے کہا خواجہ صاحب احسن صاحب کا نام بوہت برے برے وکیلوں میں لیا جاتا ہے آپ نے ان سے کیس کیوں لیا واپس تو خواجہ صاحب نے کہا شارق صاحب احسن صاحب میرے مخالفوں سے مل گے تھے میں کیا کرتا میں نے کہا ٹھیک ہے اگر ایسی بات ہے تو یہ احسن صاحب نے بوہت غلط کیا ہے کسی بھی وکل کو یہ زیب نہیں دیتا وو ایسے اپنے کلائنٹ کے ساتھ کرے ہم آپ کا کیس لڑیں گے  پھر میں نے وو فائل لی اور پڑھنے لگا مجھے پہلی نظر میں ہی اس میں سے کچھ ایسے نکتے مل گے جو ھمارے حق میں جاتے تھے ، وو ایک قتل کا کیس تھا جس میں خواجہ صاحب کے بیٹے کو ملزم  کو مشورہ دینے میں شامل کیا گیا تھا اب میں نے وو فائل لی اور اپنے گھر آ گیا کیوں کے اگلے دِن  اس کیس کی ڈیٹ تھی  میں نے پھر کوئی چار یا پانچ گھنٹے لگا کر اس کیس کی تیاری کے نوٹس لکھے اور سو گیا اگلے دِن بارروم  میں ہم نے اپس میں ڈسکس کی ساری بات ھمارے خلاف جو وکیل کیس لڑ رہا تھا وو اس شہر کا جانا منا کریمنل کیسوں میں ماہرسمجھا  جاتا تھا اور ابھی تک کوی کیس نہیں ہارا تھا  اب جج ارشاد علی گھمن صاحب کی عدالت میں ہم پیش ہوے انہی کے پاس اس کیس کی ٹرائل چل رہی تھی  استغاثہ کا وکیل رانا عارف تھا جس کی جج حضرات  بھی عزت کرتے تھے اب ھمارے موکل کو آواز لگی اور خواجہ  صاحب کا بیٹا کاشف دوسرے ملزم طارق کے ساتھ پیس ہوا تو وکیل استغاثہ رانا صاحب نے ملزموں کے خلاف  کافی دھواں دار دلائل دے  اب جج صاحب نے کہا جی وکیل صفائی  کیا کہتے ہیں اب فاروقی صاحب نے اپنا وکالت نامہ عدالت میں پیش کیا  اور پھر فاروقی صاحب نے ایسے ایسے دلائل دئے کے ساری عدالت واہ واہ کر اٹھی جو دلائل میں نے ان کے لئے تیار کیے تھے  وو انہوں نے بری خوبصورتی سے ہر لفظ ادا کیا پھر موقع کے گواہ پے بھی کافی جرح کی دونوں گواہ اپنےبیانات سے کئی دفع اکھڑے اب جج صاحب نے  ایک گھنٹے کا وقفہ دیا کیوں کے ہم نے آج خواجہ صاحب کے بیٹے  کی ضمانت کی درخواست بھی دی تھی ایک گھنٹے بعد اس کی بحث تھی

پھر ایک گھنٹہ ہم نے بارروم میں ہی گزارا سرے ہی وکیل اب فاروقی  صاحب کی تعریف کر رہے تھے ایک سینئیر وکیل نے کہا  فاروقی صاحب ایسا کون سا چراغ کا جن آپ کے قابو میں آ گیا ہے کے آج کل ہر وکیل کی تباہی مچا
ۓ  جا رہے ہیں  اب تو آپ کے سامنے کیس پکرتے ہوے سوچنا پڑتا ہے فاروقی صاحب نے  کہا بس میرے مولا کا کرم ہو گیا ہے مجھ پے ان کا لہجہ بڑی عاجزی لئے ہوے تھا  پھر ایک گھنٹے بعد ہم پھر عدالت میں پیش ہوے اور کوئی ایک گھنٹے کی بھر پور بحث کے بعد ہماری ضمانت کی درخواست  جج صاحب نے قبول کر لی  اور کہا  آپ پانچ لاکھ کی ضمانت کا مچلکہ جمع کرا دیں خواجہ صاحب نے اسی وقت مچلکے دئے اور ہم نے بعد میں خواجہ صاحب کے بیٹے کو آزاد کرا لیا  خواجہ صاحب تو ہماے آگے بچھے جا رہے تھے  اسی رات کو خواجہ صاحب نے  فاروقی  صاحب کو  طا شدہ فیس سے بھی زیادہ  دئے    پھر بولے ایک درخواست ہے  آپ سے شارق صاحب میں نے کہا جی بولیں وو بولے میرا  ایک فلیٹ ہے ظہور بلڈنگ میں  اگر آپ مہربانی کریں تو وہاں اپنا دفتر بنا لیں پلیز انکار نہیں سنوں گا میں خواجہ صاحب نے جیسس بلڈنگ کا نام لیا تھا وہاں پہلے بھی کافی وکیلوں کے آفس تھے وو بوہت قیمتی جگہ تھی میں نے کہا خواجہ صاحب وو بوہت قیمتی  جگہ ہے   تو وو بولے میرے پاس وو بیکار ہی پر ہے پلیز آپ من جایئں تو مجھے لگے گا  آپ مجھے اپنا سمجھتے ہیں آخر کار ہم مان گے  پھر کوئی تین روز بعد جب خواجہ صاحب اپنے بیٹے کاشف کے ساتھ اے تو ہم ان کے ساتھ چل دئے وو فلیٹ دیکھنے  فلیٹ کو دیکھ کر میں اور فاروقی صاحب حیران رہ گے کیوں کے فلیٹ اب ایک بہترین  آفس کی شکل میں تھا جس کے باہر قاروقی اینڈ کمپنی کا بورڈ لگا تھا اور اندر تو کمال  حکیا گیا تھا لاکھوں روپے لگا کر خواجہ صاحب نے تین کمرے دفتر کی شکل میں بنادئیے تھے  ایک میرا ایک فاروقی صاحب کا اور ایک اضافی اورباہر سیکٹری  کے لئے بھی ایک روم تھا ہر روم میں دو دو سیٹ صوفے تھے ہر چیز  بوہت مہنگی تھی ہر ہماری تو آنکھیں فتنے والی ہو گیں تھیں مجھے نہیں لگتا تھا اس شہر میں کسی وکیل کا اتنا خوبصورت دفتر ہو گا میں نے کہا خواجہ صاحب یہ سب کیا ہے تو مجھے گلے لگا لیا خواجہ صاحب نے اور بھیگے لہجے میں بولے بیٹا کاشف میرا اکلوتا بیٹا  ہے جو میری شادی کے ١٠ سال بعد پیدا ہوا تھا  اور خدا کے بعد میں تمہارا شکر گزار ہوں تم نے میرے بیٹے کو بچا لیا

پلیز کچھ نہ کہنا یہ سمجھو مجھے خوشی محسوس ہو گی جب تم اس دفتر میں بیٹھو گے پھر فاروقی صحابنے کہا ٹھیک ہے خواجہ صاحب اور ہم نے اگلے دِن اپنا سارا سامان اس دفتر میں شفٹ کر دیا  پھر خواجہ صاحب نے تین چار نوکر رکھ لئے اس دفتر میں کیوں کے اب ھمارے پاس اتنے کیس آ رہے تھے کے ھمارے پاس سر خارش  کرنے کا بھی ٹائم نہیں مل پاتا تھا  پھر ایک دِن عدالت کے باہر مجھے بھائی نصرت نے کہا تم کو آج ڈیڈی نے گھر بلایا ہے میں نے کہا میں حاضر ہو جاؤں گا

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest