SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ پہلی قسط

 


عاشق

پہلی قسط

تحریر: ماہر جی


بچپن والدین کی گود میں گزرتا ہے پھر ماں کی گود سے اتر کر زمین کی گود میں آتا ہے ، گردو پیش کے ماحول پے نظر پڑتی ہے تو اچھے برے کی تمیز ہوتی ہے یوں زندگی آگے بھرتی ہے اب ضروری تو نہیں کے جو والدین کی سوچ ھو ووہی بچے کی بھی ھو ، یہی اختلاف ہے مجھے اپنے اور اپنے گھر والوں سے چوبیس کمروں پے مشتمل یہ دو منزلہ کوٹھی جس کے ہر کمرے پے لاکھوں روپے تزئین آرائش پے خرچ ہوے ہوں گے اپنے دامن میں ایک وسیع لان بھی رکھتی ہے جیسس کی ہریالی کو برقرار رکھنے کے لئے ہر سال کمو بیش ہزاروں روپے کی سالانہ کھاد بھی ڈالی جاتی ہے .
اپنے ملکوں سے زیادہ نوکروں کی ایک فوج کو اپنے اندر سماے رکھنے والا یہ گھر آشیانہ ک نام سے موسوم ہے مجھے اسس نام سے اختلاف ہے کیوں کے آشیانہ ایک نرم و نازک نام ہے دیں بھر کی شخت دھوپ میں ،خراب موسم میں ؛ تلاش رزق میں سرکرداں مصوم پرندے جب تھک ہار کر جب درختوں میں آ کر چھپتے ہیں تو قدرت بھی ان کی معصومیت پے فریفتہ ہو جاتی ہو گی ، ان پرندوں کے گھونسلے آشیانہ کے نام سے موسوم ہوتے ہیں لیکنحضرت انسان نے ان سے یہ نام بھی چھین لیا چوبیس کمروں کی اس کوٹھی کو یہ نام کیوں دیا گیا ،
اسی بات پے مجھے اختلاف ہے کیوں کے اصولاً اس گھر کا نام قانون گھر یا لا ہاوس ہونا چاہے تھا معاشرے کے جتنے کرخت لیکن معزز ترین لوگ اس گھر میں رهتے ہیں اس گھر میں داخل ہوتے ہی نہ جانے وو مصوم سی چڑیاں بننے کی کوشش کیوں کرتے ہیں ، میں نے غلط نہیں کہا تفصیل سن لیجئے ،

والد صاحب قبلہ جن کا نام سید حیدر جمال شاہ تھا چنگیزیت کے سب سے بڑھے علمبدار تھے وو محکمہ پولیس سے آئی جی کےعہدے سے ریٹریڈ ہوے تھے وو پوری دنیا کو قانون کی نظر سے دیکھتے ذاتی آنکھوں پے انہوں نےہمیشہ کالے شیشوں کا چشمہ لگے رکھا محکمے نے ان کی ملازمت پوری ہونے ک بعد ان کو ریٹریڈ کر دیا اس میں گھر والو کا کیا قصور مگر وو ہمیشہ گھر والو کو ایک بگھڑا ہوا معاشرہ سمجھا اور گھر والو کو یہ حکم جاری کیا ان کو بسس آئی جی پولیس ہی سمجھا جاتےاگر کسسی نے کوئی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی تو اسسے پھانسی پے چڑھا دیا جاتے گا

کیوں کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سرے اصول یہاں لاگو ہیں ان کے بعد آتے ہیں نمبر دو پر جج امجد شاہ والد صاحب سوری آئی جی صاحب کے سب سے بارے جانشین .......یعنی کے وو حماقت کے رشتے سے میرےسب سے بھرے بھائی ان ک برے میں بس اتنا ہی کہوں گا وو جج ہیں اور ان سے والد صاحب کو کوئی اختلاف نہیں اس ایک ہی جملے میں ان کی پوری تعریف آ جاتی ہے ،
نمبر تین ایس پی پولیس طارق حسسیں شاہ والد صاحب کے محکمے سے متعلق اور پوری تارہا والد صاحب کے تربیت یافتہ

چوتھا نمبر تھا عشرت حسین کا اگر گھر میں کسی کو خدا نے کچھ انسانیت دی تھی تو وو یہی تھے عشرت حسین جو ایک قبل وکیل تھے جو بھائیوں کے سامنے تو ویسے ہی رهتے لیکن تنہائی میں انسانوں جیسی باتیں کرتے یہی غنیمت تھا ،
اب آتے ہیں میری طرف پانچویں نمبر پے یہ خاکسار آتا تھا اور چٹھے نمبر پے ہم سب کی اکلوتی اور میرے علاوہ پورے گھر کی صفات کا مجموعہ یعنی لالارخ میری بہن اگر ہلاکو خان خانم ہوتا تو بلکل لالارخ جیسا اور ہٹلر اگر عورت ہوتا تو لالارخ اس کا نمونہ تھی جو خامخواہ آئی جی بننے کی کوشش کرتی اس کے بعد شهوھر پرست والدہ صاحب تھیں پر مذاق بھابھیاں جو غیر خاندان کی تھیں لیکن ٹھیک ہی تھیں گھر میں اپنا کردار کامیابی سے نبھا لیتی

گھر بھر کی لعن تانکا اگر کوئی شکار تھا تو وو اکیلا یہ خاکسار پر تقھیر جو دھن کا پکا تھا اور قول کا سچا جو تہیہ کے ہوے تھا ک اس گھر کے قوانین کو تسلیم نہیں کری گا ماننے کی جو بات ہوتی وو مان لی جاتی اب یہ تو ضروری نہیں کے کسی کی خوایش پے اپنی پوری زندگی کا جغرافیہ ہی بدل لیا جاتے ایم .اے کر لیا تھا ایل ایل بی کر لیا تھا کافی تھا باہر تعلیم ک لئے جانے سے میں نے انکار کر دیا تھا مجھےیورپ کی برتری قبول نہیں تھی اپنے وطن میں جو کچھ تھا کافی ہے ،آئندہ زندگی میں کیاکرنا چاھتے ہو جج صاحب امجد حسین نے پوچھا میں نے کہا کچھ سوچتا ہوں کیا کرنا ہے وو بولے آشیانے میں جج ہیں وکیل ہیں پویس ہے تم ایسا کوئی کام نہیں کرو گے جیسس سے ہماری بدنامی ھو میں نے کہا جی بھائی صاب پاسس بیٹھی ہوئی بھابھی عصمت نے کہا شارق تم سدھر کیوں نہیں جاتے میں نے کہ جیسے آپ کا حکم بھابھی جان یہ کہ کر اپنی بائیککی چابی پکڑی اور استاد خیر دین کے اکھاڑنے کی طرف ان سے میں کچھ پہلوانی داؤ پیچ سیکھتا تھا وہاں سے فری ہو کر میں جم جاتا اور پھر گھر آج میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوا مجھے بھابھی شفق نے بتایا ( آپ کو یہ بتا دوں شفق بھابھی نصرت حسین کی بیوی تھی اور عصمت بھابھی جج صاب کی اور چوٹی بھابھی ایس پی صاب کی ) ہاں تو بھابھی شفق نے بتایا اجج کھلی عدالت لگی ہے اور تم کو پیش کرنے کا حکم ہے آئی جی صاب کا میں نے کہا کوئی بات نہیں میں ان کے کمرے میں گیا وہاں سب ہی بٹہے تھے اب مجھے پوچھا ڈیڈیجان نے ہاں تو شارق کیا سوچا ہے تم نے آگے کا میں نے کہا جو اپپ کا حکم ڈیڈی جانوو بولے گڈ توکل سے تم نصرت کے ساتھ اس کے چمبر میں بیٹھوں گے اور وکالت کرو گے میں نے کہا جی ٹھیک ہے ڈیڈی حضور اور پھر ہم سب خانے کی میز پے آ گے اب ک لالارخ نے کہا بھی نصرت ذرا اس کا دھیان رکھیے گا یہ بھاگ نہ جاتے اپپ ک چمبر سے تو بھی نصرت نے کہا نہیں جاتا اب کہیں بھی اور یوں میں نے اب بھی جان کے ساتھ جانے لگا ان کے دفتر میں ایک بوھت پیاری اور خوبصورت سی ایک لیڈی سیکٹری تھی

جس کا کس ہوا بدن مجھے اچھا لگا پہلے دن سےہی میں اس کو پیار بھری نظرو سے دیکھنے لگا وو بھی اب مجھے ادائیں دکھانے لگی ایک دیں میں پہلے چلا گیا کیوں کے بھائی جان کو آج اسلام آباد سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا ، میں جب دفتر میں پوہنچاتو صرف ابھی تک کرن ہی ائی تھی ابھی کوئی اسسٹنٹ نہیں ا
ۓ تھے بھائی کے ساتھ پانچ اور چوتھے وکیل بھی تھے جو ان کو اسسٹ کرتے تھے کرن نے مجھے دیکھ کر ایک میٹھی سی سمائل دی اور کہا آپ نہیں گے سر کے ساتھ میں نے کہا نہیں میں نے سوچا آج آپ سے کچھ سکھ لیا جاتے وو بولی سر مجھے کیا آتا ہے میں نے کہا اندر آ جاؤ بھائی صاحب نے ایک جدا سے کمرہ بنا رکھا تھا اپنے دفتر میں جہاں جب وو تھک جاتے تو آرام کرتے میں کرن کو لے کر

اس کمرے میں آ گیا وہاں ایک صوفے پے بیٹھ گے ہم کرن نے کہا سر کیا سیکھنا ہے مجھے آپ سے میں نے کہا آج میں تم کو یہ سکھوں گا کے محبت کیسے کرتے ہیں کبھی کی ہے تم نے وو بولی سر کوئی آ جاتے گا میں نے کہا نہیں آتا اب میں اپنا ایک ہاتھ اس کی رانوں پے پھیرنے لگا آہستہ آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کے پیٹ پے لے آیا کرن ایک کافی خوبصورت جسم کی مالک تھی
میرا قد کوئی سارھے چھے فٹ کے قریب تھا میرا لنڈ 9 انچ لمبا اورتین انچ موٹا تھا اب میں نے اسسے بیڈ کی طرف لے جانے کا سوچا,میں نے اسکے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اسکے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی کس کی اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ پھر میں نے اسکے ممے پر ہاتھ رکھ دیا وہ ایکدم کسمسا اٹھی۔ اب مجھ سے برادشت نہ ہوا اور میں نے اسکو دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ میں حیران رہ گیا جب میں نے محسوس کیاکہ کرن نے بھی مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا ہے اور مجھے اپنے سینے میں بھینچ رہی ہے۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ میرا آدھے سے زیادہ کام تو ہوچکا تھا۔

میں نے مزید وقت ضائع کیئے بغیر اسکی قمیض میں ہاتھ ڈالا اور اسکے ممے کو پکڑ لیا اور دبانے لگا اسکی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔ اور اسکے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ وہ میری جانب دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں کے ڈورے سرخ ہونے لگے تھی اور آنکھیں آدھی کھلی اور آدھی بند تھیں۔ میں نے ایک بار پھر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے مگر اس بار میں نے ایک لمبی کس کی اور اسکے ساتھ ساتھ اسکے دونوں مموں کو دباتا رہا جس سے وہ کافی گرم ہو گئی تھی تقریباً چدنے کے لیے تیار۔ اب میں نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔ بیڈ کے پاس پہنچ کر میں نے اسکو کھڑا کیا اور اسکو اپنے ساتھ لپٹا لیا اور اسکی کمر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اسکے کولہوں تک لے گیا اور انکا مساج کرنے لگا.اس نے اپنے کولہے سکیڑ کر سخت کر لیے۔ پھر میں نے اسکے گالوں پر کسنگ کی اس نے جو قمیض پہنی تھی اسکی زپ پیچھے کی طرف تھی میں نے واپس کمر تک ہاتھ لے جاکر اسکی زپ کھولی اور اسکی قمیض کو ڈھیلا کردیا۔ اسکی قمیض اسکے شانوں سے ڈھلک کر نیچے آگئی تھی۔ اور اسکا بریزر صاف نظر آرہا تھا جس میں سے اسکے بڑے بڑے دودھیا رنگ کے ممے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ میں نے اسکی قمیض کو اسی پوزیشن میں چھوڑ کر اسکی شلوار پر حملہ کیا اور میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ وہ شلوار میں الاسٹک استعمال کرتی ہے۔ میرے لیے تو اور آسانی ہوگئی تھی۔ میں نے ایک ہی جھٹکے سے اسکی پوری شلوار زمین پر گرا دی وہ خاموش کھڑی صرف تیز تیز سانسیں لے رہی تھی مگر کچھ نہ کہہ رہی تھی اور نہ ہی مجھے روک رہی تھی۔ اب میں نے اسکی قمیض کو بھی اسکے بدن سے الگ کیا وہ صرف برا میں رہ گئی تو اسکو اس تکلف سے بھی آزاد کردیا اب وہ پوری ننگی میرے سامنے ایک دعوت بنی کھڑی تھی میں نے اسکے پورے بدن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔اسکا بدن ایکدم چکنا اور بھرا بھرا تھا اسکا جسم کافی گرم ہو چکا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ ہاتھ اسکی چوت کی جانب بڑھایا اور اپنی انگلی جیسے ہی اسکی چوت میں ڈالی وہ گیلی ہوگئی اسکا مطلب وہ کافی آگے جاچکی تھی اب مجھے اپنا کام کرنا تھا میں نے اسکو بیڈ پر چلنے کو کہا۔وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے دیکھنے لگی ۔ میں نے انتظار نہیں کیا اور میں بھی بیڈ پر چڑھ گیا اور اسکے اوپر لیٹ کر اپنا لنڈ اسکی ٹانگوں کے بیچ اسکی چوت کے منہ پر پھنسا دیا۔ اور اسکو چوت پر رگڑنے لگا۔
وہ بے حال ہو رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ پہلے کبھی اس نے سیکس کیا ہے اس نے کہا ہاں ایک بار میں خوش ہوگیا کیونکہ اب زیادہ پریشانی نہیں تھی۔ میں نے بیٹھ کر اسکی ٹانگیں کھولیں اور اسکی چوت کے منہ پر لنڈ کو سیٹ کیا میرا لنڈ اسکی چوت کے پانی سے گیلا ہو کر چکنا ہوچکا تھا اور اندر جانے کو بے تاب تھا۔ میں نے تنے ہوئے لنڈ کو ایک زور دار جھٹکا لگایا اور میرا لنڈ اسکی چوت میں داخل ہوگیا اور اسی لمحے کرن کا سانس ایک لمحے کو رکا پھر تیز تیز چلنا شروع ہوگیا۔ میں نے تھوڑا سا لنڈ باہر نکالا کیونکہ پورااندر جانے کے لیے اسے تھوڑا سا پیچھے ہٹنا ضروری تھا۔ بس میں نے تھوڑا سا پیچھے کیا لنڈ کو اور ایک زور دار جھٹکا مارا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا پورا لنڈ اسکی چوت کے اندر داخل ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اسکے منہ سے آہیں نکل رہی تھیں۔ اسکو اپنے جسم میں میرا سخت تنا ہوا لنڈ محسوس ہوا تو وہ نشے میں بے حال ہونے لگی اور بے تحاشہ مجھے چومنے لگی اور آہستہ سے میرے کان میں کہا مجھے چودو جلدی۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یہ سننا تھا میری اندر بجلی دوڑ گئی اور میں نے لنڈ کو اندر باہر کرنا شروع کردیا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ میری رفتار میں اضافہ ہوتا رہا وہ جلدی جلدی چھوٹ رہی تھی۔ اب میں نے آہستہ آہستہ سے چودنا شروع کیا۔ مگر وہ چاہتی تھی کہ میں اپنی رفتار تیز کروں اور وہ تڑپتی رہی کہ میں اسکو پہلے والی رفتار سے چودوں ۔میرا لنڈ مکمل سخت ہے اور لاوا اگلنے کے موڈ میں نہیں ہے میں نے اپنی رفتار بڑھا دی اور بے تحاشہ جھٹکوں سے اسے چودنے لگا۔ وہ بے حال ہو رہی تھی اسکی آہوں سے زیادہ چیخیں نکل رہی تھیں اور وہ مجھے روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں اب رکنے والا تھا بھی نہیں۔بہرحال وہ اس دوران تین بار فارغ ہوئی اس کی ہمت جواب دے رہی تھی میں نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور کہا ابھی میں فارغ نہیں ہوا ہوں تم گھوڑی بنو اسکو اسکا تجربہ نہیں تھا۔

اس نے میری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے اسے بتایا کیسے گھوڑا بننا ہے وہ سمجھی تھی میں شاید پیچھے کی طرف سے اسکی چوت میں لنڈ داخل کرونگا جیسے ہی وہ گھوڑی بنی میں نے اپنا لنڈ اسکی گانڈ پر رکھا اور پوری طاقت سے اسکو اندر داخل کردیا میرا لنڈ کسی پسٹن کی طرح چکنا اور گیلا تھا اور اسکی گانڈ بھی اسکی چوت سے بہہ کر آنے والے پانی سے گیلی تھی میراپورا لوڑا اسکی گانڈ میں ایک ہی بار میں گھس گیا اور وہ درد سے بلبلا اٹھی مگر میں باز آنے والا کب تھا۔ میں نے اسکو جکڑ لیا اور وہ کوشش کرتی رہی میری گرفت سے نکلنے کی مگر میں نے اسکو نہیں چھوڑا ذرا دیر بعد میں نے اس سے پوچھا کہ تکلیف کم ہوئی اس نے کہا ہاں مگر آپ اس کو نکال کر وہیں ڈالیں جہاں پہلے تھا۔ مگر میں نے انکار کردیا اور کہا ابھی نہیں تھوڑی دیر میں وہ خاموش ہوگئی اس نے خود کو پورا میرے حوالے کیا ہوا تھا۔ بس میں نے اسکی رضامندی دیکھ کر اپنا کام شروع کردیااور جھٹکے دینا شروع کیے اور پھر پوری رفتار میں ایکبار پھر سے اآگیا اسکے ممے بری طرح سے ہل ہل کر اسکے چہرے سے ٹکرا رہے تھےاور وہ بھی پوری ہل رہی تھی اس نے کہا ایسے مزہ نہیں آرہا ہے بہت ہل رہی ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا چلو نیچے زمین پر اسکو زمین پر لاکر میں نے پیٹ کے بل اسکو بیڈ پر اسطرح لٹایا کہ اسکے گھٹنے زمین پر تھے اب میں بھی اسی پوزیشن میں آگیا اور پھر سے لنڈ اسکی گانڈ میں داخل کیا اب میں نے پورا لنڈ اندر ڈال کر مزید اسکی گانڈ کو گہرا کرنے کی کوشش کی اور اندر لنڈ کو رکھ کر ہی دباؤ ڈالا ۔ جس سے ایک بار پھر اسکی چیخیں نکلنا شروع ہوگئی تھیں۔ بالاخر میرا وقت پورا ہونے لگامیں نے اس سے کہا میں تمہاری گانڈ میں ہی منی نکال رہا ہوں نہیں تو تم ماں بن سکتی ہو۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا میں نے جیسے ہی وقت آیا پورا لنڈ اسکی گانڈ میں گھسیڑا اور میرے لنڈ نے منی اگلنا شروع کردی۔ وہ میری منی کے ہر ہر شاٹ پر کپکپا رہی تھی۔ اور اس نے کہا یہ تو بہت گرم ہے مجھے بخار لگ رہا ہے۔ میں نے کہا ایسا نہیں ہے یہ گرمی ہے اسکو انجوائے کرو۔ یہ گرمی پیدا بھی تو تم نے ہی کی تھی۔ پھر آخر میں نے لنڈ باہر نکالا اور وہ سیدھی ہو کر مجھے حیرت سے دیکھنے لگی ۔ اس نے کہا آپ انسان تو نہیں لگتے پہلے جب میں نے سیکس کیا تھا تو اتنا وقت تو نہیں لگا تھا جتنا آپ نے لگایا ہے یہ کہہ کر وہ اٹھی اور مجھ سے لپٹ کر مجھے چومنے لگی ۔ اسکے بعد وہ میرے لنڈ کی دیوانی ہوگئی۔

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest