SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ تیسری قسط



 عاشق

تیسری قسط

تحریر: ماہر جی
اب میں اپنے کمرے میں آ گیا اور اور راٹنگ ٹیبل پے رکھے ایک خوبصورت لیمپ کو روشن کیا راحیل والی فائل نکالی اور اور جو مین پوائنٹ تھے وو ذہن کی تختی سے اتر کر ایک کاغذ پے   قلم بند کیے  اور کل کے لئے ساری بحث تیار کی جو کل فاروقی صحابنے کرنی تھی اچھے سے اسے پڑھا اور میں مطمئن ہو گیا اگلے دیں کورٹ میں جانے سے پہلے میں فاروقی صاحب کے گھر گیا اور ان کے ساتھ ہی کورٹ میں آیا ان کومیں نے ساری بات سمجھا دی تھی وو بوھت خوش تھے وو بار بار کہا رہے تھے شارق یار میں نصرت حسین جیسے وکیل کے سامنے کیسے بحث کروں گا میں نے کہا اب آپ کو ہمت کرنی ہو گی  سرے پواینٹ تیار ہیں بس آپ نے بولنا ہی ہے جب ہم کورٹ میں داخل ہوے تو سامنے ہی جج صاحب میرے بھائی بٹہے تھے انہوں نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اب نصرت حسین بھی آ گے ان کے ساتھ کوئی آٹھ یا دس  وکیل تھے جو ان کے ساتھ ہی اندر داخل ہوے اب پہلی آواز ہی ہمارے  کیس کی پڑی

راحیل کو ہاتھ کری لگا کر عدالت کے کمرے میں لایا گیا ایاز کی طرف سے ان کا ایک آدمی حمزہ بیگ  اور نصرت حسین پیش ہوے پبلک پرسکیوٹر نواز احمد نے اب راحیل کے کیس کی فیل جج امجد حسین کے سامنے رکھی  اب جج صاحب کی اجازت سے کیس کی سنوائی سٹارٹ ہوئی جناب عالی آپ کی عدالت میں ایک ایسے ملزم کو پیش کیا گیا ہے جس نے کئی قتل کیے ہیں  پہلا قتل اس نے ایذا صاحب کے اعتماد کا کیا جنہوں  نے اس کی بروز گری پے ترس کھا کر ان کو ایک اچھی ملازمت دی اپنے پاس اور اس شتے شخش نے اپنی خوبصورت شخصیت کا سہارا لے کر ایاز صاحب کی معصوم بھتیجی ندرت کو اپنے جل میں پھنسا لیا اور جھوٹے پیار کے وعدے  کیے پھر اسی لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا اور بعد میں اسے بیدردی سے قتل کر دیا اس نے انسانیت کا قتل کیا ہے ایک معصوم لڑکی کی عزت کا قتل کیا ہے ایسے قاتل کو سزاے موت سے کام تر سزا دینی انسانیت کی توہین ہے ،
کیا اس قتل کا کوئی چشم دید گواہ ہے جج صاحب نے پوچھا تو نصرت حسین نے دوبارہ کہا سر ہر عدالت میں یہی سوال کیا جاتا ہے سر عینی گوا کا ہونا ایک عجیب سی بات ہے یا تو وو ملزم کا ساتھ ہوتا ہے اور اگر نہ ھو تو کوئی کیسے کسی  کو یہ گھنونا جرم اپنے سامنے کرنے دے

ملزم کے خلاف اس جرم کا ثبوت کیا ہے جج صاحب نے پوچھا سر یہ چھری جس سے ملزم نے پے درپے وار کر کے مقتولہ کو قتل کیا یہ چھریبعد میں پولیس کو ملزم کی چھت سے ملی اور اس کے بعد ملزم کا خوں آلود لباس ملزم کے گھر سے کچھ دور ایک زیر تعمیر عمارت سے پولیس نے دریافت کیا پولیس انسپکٹر زیدی نےاس سلسلے میں تحقیقات کیں اور بعد میں ملزم کو  اور یہ سب چیزیں برآمد کرنے کے بعد ملزم کو اس قتل کی الزام  میں گرفتار کر لیا ، وجہ قتل کیا ہو سکتاہے جج صاحب نے سوال کیا جیسا کے میں پہے بھی عرض کر چکا ہوں مقتولہ ندرت ایک حسین اور دولت مند خاتوں تھیں ملزم اس کے زریعے امیر بننا چاہتا تھا ملزم  کا تعلق ایک پسمائندہ  گھرانے سے ہے ملزم کا بھاپ ایک معذور شخیش ہے ایک ماں اور اپنی بہن کی بہتر زندگی کے لئے کوئی ایسا ہی ذریع چاہتا تھا اور ندرت سے بڑھ کے کون ایسا ذریع ہو سکتا تھا جو جواب بھی تھی اور دولت مند بھی اسی لئے اپنی سادہ  لوحی کی بدولت  وو ملزم کے جھوتے پیار کے چکر میں پھنس گی اور ملزم نے اپنے قبضے میں کرنے کے لئے

مقتولہ سے جسمانی ملاپ چاہا تو وو راضی نہ ہوئی اور اپنی نہ آسودہ خوائش کو پورا کرنے کے لئے ملزم نے پہلے اس کا ریپ کیا اور بعد میں قتل کر دیا جب ملزم کو ہوش آیا تو وو خود کو بچانے  کی کوشش کرنے لگا کیوں کے وو جوشے جذبات میں اس کا قتل کر بیٹھا تھا یہ ہیں ووسارے واقعات جو راحیل کو ملزم ثابت کرتے ہیں لہٰذا میں پھر معزز عدالت سے ان ثبوتوں کی روشنی میں سزاے موت کی درخواست کرتا ہوں یہ کہ کر نصرت حسین اپنی جگہ پے بیٹھ گے اب جج صاحب نے کہا جی وکیل صفائی  اب فاروقی صاحب نے کہا سر میں ملزم کا وکیل صفائی ہوں اور اپنےکاغذات پیش کر چکا ہوں عدالت کو  مجھ سے پہلے وکیل استغاثہ نے میرے موکل پے گھنونے الزامات لگے ہیں میں جانتا ہوں ان کے راحیل سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے بس ثبوتوں کی بنا پے وو یہ سب کہ رہے  تھیمیں انسانی نکتہ نظر سے کسی ایسے آدمی کو جسے جوتم کرتے ہوے رنگے ہاتھوں نہ پکڑا گیا ھواسے ملزم بنا دینا اچھی بات نہیں میں پہلے سارے  ثبوتوں پے دوبارہ سے نظر دورانے کی استدعا کرتا ہوںیہ کچھ سرٹیفیکٹ ہیں جو میرے موکل  کے بچپن سے لے کر زمانہ کالج تک ہیں وو ایک اچھا سٹوڈنٹ رہا  ہے اور ایک شریف انسان بھی ایسا جو اپنے کندھے پے آئیکمعذور بھاپ اور جوان بہن کا بوجھ اٹھے ہو وو کیسے ایسی حرکت کر  سکتا ہے  تو جج صاحب نے سرے سرٹیفکیٹ  دیکھنے  لگے جس میں راحیل کے مٹرک سے لے کر اب تک کے تھے ساتھ میں کرکٹر سرٹیفکٹ بھی تھا  اب کے نصرت حسین نے کہا سر ایسے سرٹیفکٹ دو چار ہزار خرچ کرنے سے بن جاتے ہیں تو فاروقی سحاب نے کہا جی جناب میرے فاضل دوست نے معاشرے کے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا ہےاپنے تجربات کی روشنی  میں  تو عدالت میں بیٹھنے لوگ ہنسنے لگے اب جج امجد حسین نے ڈیسک بجا کر لوگو کو ہنسنے سے روکا اور کہا آپ ان ثبوتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں فاروقی صاحب تو وو بولے سر میں چاہتا ہوں ایک چھوٹی سی  تاریخ مجھے دی جائے تو جج امجد حسین نے اگلے دیں کی ہی تارخ ڈال دی وو خود بھی یہ کیس جلدی ختم کرنا چاہتے تھے جس میں ہم دو بھائی آمنے سامنے آ گے تھے

اب عدالت سے باہر آ کر میں نے فاروقی صاحب سی کہا ابھی وو کپڑے نکلوا کے ان  کا ٹیسٹ  کروا لیں لیب  سے وو بولے ٹھیک ہے  اب میں خود  راحیل کے گھر کی طرف چال دیا اور ثنا سے کہا مجھے راحیل کے کپڑو کا ناپ دو وو ایک سوٹ لے آیی راحیل کا  جو تازہ ہی دھلا ہوا تھا میں اس کا رنگ دیکھ کر چونک گیا اور کہا کیا اس جیسے دو سوٹ سلوا
ۓ  تھے راحیل نے وو بولی نہیں یہ ایک ہی ہے جو میں ہی لے کر آیی تھی بازار سے اس کے لئے میں نے وو سوٹ اپنے پاس رکھ لیا اور کہا ٹھیک ہے ابمین چلتا ہوں کل تاریخ ہے آ جانا تم بھی وو بولی آپ ھمارے لئے کتا کچھ کر رہے ہیں  ہم کیا دے سکیں گے آپ کو  میں نے اس کی نشیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوے کہا آپ سے انعام لوں گا پہلے میں راحیل کو چھڑوا لوں  وو بولی آپ کے لئے جان بھی حاضر ہے اور شرما گی میں نے کہا یاد رخان اپنے یہ الفاظ اور وہاں سے چلا آیا اب میں نے ایک دو اور ضرورکام کیے ٹونی کو کل کے  لئے پابند کیا اور گھر آ گیا مجھے دیکھ کر چھوٹی بھابھی تنویر نے روٹی آواز میں کہا شارق کیوں ایسا کرتے ھو ہم سب کتنا خوش تھے تم نے یہ کیا ڈرامہ کرنے لگے ھو میں نے کہا بھابھی کیا خوش ہونے کا حق صرف ہم کو ہے ان غریبو کو نہیں جن کا ایک بیگناہ بیٹا پھانسی چڑھا رہے ہیں بھائی صاحب  پھر مجھے لالارخ نظر آیی وو بولی آپ کو اندر بلایا ہے پاپا نے میں اس کے ساتھ ہی اندر چلا گیا تو مجھے دیکھتے ہی والد صاحب نے کہا تم کیا کرتے پھر رہے ھو تم نے ایک دو تکے کے وکیل کا جونئیر  بن کر کونسا کمال کرنا چاہ رہے ھو میں نے کہا پاپا آپ بھائی صاحب سے کہیں جتنی فیس انہوں نے ایاز سے لی ہے مجھ سے لےلیں اتنےروپے  تو میرے  میرے اکاونٹ میں ہوں گے ہی یہ سونتے ہی لالارخ نے کہا واہ میرا اکاونٹ کونسااکاونٹ  ہے آپ کا  میں  نے اسے ایک تیز نظر سے دیکھا ووبولی آپ اسے دیکھ ہی لینے دن جب یہ میرے بھائی سے کیس ہار جایئں گے تو خود ہی ان کو سمجھ آ جائے گی  میں نے اب پاپا سے کہا کل وو لڑکا باہر ہو گا میں یہ دعوے سے کہ رہا ہوں تو امجد بھائی نے میری طرف دیکھا اور بولے برخودار وو کیس میرے پاس ہے اور ثبوت  اس کے خلاف ہیں  

میں نے کہا بھائی جان وو جھوتے ہیں ثبوت کل میں ثابت کر دوں گا تو ڈیڈی نے کہا  چلو دیکھ لیتے ہیں اور میں اب ان سے اجازت لے کر اپنے روم میں آ گیا اور اپنی مخصوس  میز پے کل کے لئے تیاری کرنے لگا  اگلے دن  عدالت  میں جب ہم پیش ہوے تو آج ایاز  بھی تھا وہاں پے عدالت کی کروائی سٹارٹ ہو گی اب  وکیل استغاثہ نے کہا جناب ہم ملزم راحیل سی کچھ سوال کرنا چاہت ہوں عدالت نے کہا اجازت ہے اب  وکیل صاحب نے راحیل سے پوچھا ندرت سے تمہاری ملاقات کب ہوئی تھی راحیل نے جواب دیا وو میری مالکہ  کی حثیت سے میرے سامنے ہی تھیں میرا کسر ان سے رابطہ رہتا تھا اور اسی تارہا ہم دونو میں بےتکلفی پیدا ہو گی اور وو مجھے پسند  کرنے لگیں  ہم دونو نے ایک دوسرے سے شادی کا پروگرام بنا لیا تھا ؛اس دن بھی ہم نے ایک ہوٹل میں چا
ۓ پی  اور پھر مجھییک کام تھا میں چلا گیا تو وکیل صاحب نے کہا تم یہ اقرار کرتے ہو کے تم  نے اس کے ساتھ دولت کے لالچ میں ہی تعلقات قائم کیے تھے راحیل نے کہا یہ جھوٹ ہے ہم ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے  وکیل صحابنے عدالت کی طرف دیکھا اور کہا سر یہ اپنی اوقات سے بڑھ کے سوچ رہا تھا اس نے اسے اس دیں اپنے جذبات کی بھینٹ چڑھانا چاہا جب وو نہ منی تو اس نے اس کا قتل کر دیا راحیل نے کہا نہیں میں نے کوی قتل نہیں کیا جب وو ایک مہینے بعد مجھ سے شادی کرنے والی تھی میں کیوں اسے قتل کرتا پھر بعد میں فاروقی صاحب نے کہا سر وکیل استغاثہ ایسے ہی ٹکے لگا رہے ہیں میں اب عدالت کے سامنے وو ثبوت پیش کروں گا جن سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتے گا پھر فاروقی سحاب نے  ایک رپورٹ جج صاحب کو دی اور کہا یہ اس خوں کی رپورٹ ہے جو قمیض پے لگا ہوا ہے یہ ایک بکرے کا خوں ہے انسان کا نہیں یہ سنتے ہیں کمرہ عدالت میں بنبناہٹ کی آوزیں انے لگیں سب لوگ ہی اب حیران تھے پھر فاروقی صاحب نے وو چھری پیش کی اور کہا سر اس چھری سے کبھی کچھ نہیں کتا گیا لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق یہ صاف اور  کوری ہے پھر فاروقی سحاب نے کہا اور جو قمیض موقع  سے برامد کی گی ہے سر وو میرے موکل کی ہے ہی نہیں یہ لیں اس کا اصل سوٹ  راحیل کو پھنسانے والوں نے  کچھ جلد بازی میں سوچا نہیں  پھر جو قمیض پولکے کے قبضے سے عدالت کے قبضے میں آیی تھی وو راحیل کو پہنائی گی وو واقعی کافی بڑھی تھی اسے

ابمین آپ کے سامنے ایک ایسا گہواپیش کروں گا جس کے بعد سبّت صاف ہو جائے گی اور فاروقی صحابنے ٹونی کو اندر بلا لی اب ٹونی نے سارا بین دیا اس کی بات سن کر تو عدالت میں بیٹھنے لوگ فیصلے سے پہلے ہی وکیل حضرات کہ رہے تہے فاروقی صاحب نے تو کمال کر دیا ہے  اب فاروقی صاحب نے کہا سر میں کچھ سوالات  ایاز صاحب سے کرنا کھاتا ہوں ایاز اب کٹرے میں آ گیا تو فاروقی صاحب نے  کہا کیا یہ سچ ہے آپ کے قالینو کے شوروم میں سر ایک  پرسنٹ کی ملکیت تھی اور آپ اپنے کافی پیسے جوے میں ہار چکے تھے وو یہ سنتے ہی چونک گیا اور بولا نہیمیں ففٹی پرسنٹ کا مالک ہوں یہ غلط ہے اب قاروقی صاحب نے کہا مر ایاز کیا تم کو کہا نہیں تھا ندرت نے قتل ہونے کے کچھ دیں پہلے ک وو اپنا کاروبار جدا کرنا چاہتی ہے ایاز اس بات سے بھی مکر گیا کیا تم اپنے بیٹے جمیل کی اس سے شادی کروانا چاہتے تھے اس نے انکار کر دیا تھا تمہارے بیٹے جیمل نے اسے دھمکیاں بھی دن تھیں جب ہر بات سے ایاز مکر گیا تو فاروقی سحاب نے ایک وکیل  الیاس  جنجوعہ نامی کو بلانے کا کہا  اور اسے عدالت میں pasih کیا اور کہا جناب یہ مقتولہ ندرت کا لیگل ادویذر  ہیں ان کے پاس یہ مقتولہ کا آخری بیان ہے جس میں انہوں نے خود کہا تھا کے وو خطرہ محسوس کرتی ہیں جمیل سے اور ایاز صاحب سے اور وو ایاز کو اپنے کاروبار سے جدا کرنا چاہتی ہیں  اور انہوں نے ایاز کو اس کے حصے  کے روپے ادا کر دیے ہیں عدالت میں اب تو شور سا اٹھا گیا جج امجد حسین نے ڈیسک بجا کے سب کو خاموش کیا اور کہا الیاس صاحب آپ اب تک کیوں نہیں آے وو بولا سر میں ہارٹ کا مریض ہوں میں اس city میں نہیں تھا کل ہی واپس آیا ہوں تو مجھے پتا چلا  اب کے ساری بات صاف ہو گی تھیں اور ٹونی کے وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد عدالت نے راحیل کو باعزت بری کر دیا اورایاز کے بیٹے جیمل کو گرفتار کر کے پیش کرنے کے   لئیے پولیس کو دو دیں کا وقت دیا  پھر اسی وقت مچلکے جما کروا کے راحیل کو آزاد کروا لیا گیا وو مرے خوشی کے میرے گلے لگ گیا اس کے ماں بھاپ نے بھی مجھے دعائیں دیں سب وکیل صاحب اب قاروقی صاحب کی واہ واہ کر رہے تھے اور فاروقی صاحب بیچارے گم سم سے تھے  اب ہم سب کو لے کر فاروقی سحاب ے گھر ہی آ گے وو مرے جذبات کے میرے گلے لگ گے اور کہا بیٹا مجھے سمجھ نہیں آ رہی کیا کہوں  محنت تمہاری اور واہ واہ میری ہو رہی ہے اب سب نے کھانا کھایا اچھے ماحول میں پھر جاتے ہوے میں نے ثنا کو کہا حضور میرا انعام یاد رکھیے گا اور اس کی ہونٹوں پے ہلکے سے انگلی پھیری

اب میں گھر آ گیا گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے سب لوگ لان  میں بیٹھنے  ہی نظر آے  مجھے دیکھ کر لالارخ نے کہا لو جی آ گے آج کے ونر ان کو جیت کی مبارکباد دیں سب  اب مجھے ڈیڈی نے کہا تم نے اپنا کہا پورا کیا اچھی بہتا ہاکیا ملا تم کو اس کیس کی جیت کا میں نے کہا پاپا دل کو سکون ملا ہے کسی بیگناہ کو قید سے چھڑوا کے  پھر سب ہی مجھے لان تان کرنے لگے میں نے  فری میں ہی اتنا برا کیس  کیوں  لڑا میں چپ کر کے سنتا رہا سب کی  پھر میں اپنے کمرے میں  آ کر سکون سے سو گیا اگلے دن کیوں کے سنڈے تھا میں جی بھر کے سویا جب میری آنکھ کھلی تو کوئی 12 بجے کا ٹائم تھا   میں نہا  کر کمرے سے باہر آیا تو ایک طرف سے مجھے شفق بھابھی اتی نظر آیی میں نے پوچھا کدھر ہیں سب لوگ وو بولی باہر بیٹھنے ہیں لان میں اور تنویر کی چھوٹی بہن رابعہ بھی آیی ہوئی ہے  میں نے کہا پہلے مجھے کھانا  بجھوا دیں میرے کمرے میں اور آ کر ٹی وی دیکھنے لگا بعد میں کہاں کھا کر میں  کرکٹ کا میچ   دیکھنے لگا وورلڈ کپ کا فائنل تھا آج انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان  پھر مجھے وقت کا پتا ہی نہیں چلا اچانک میرے کمرے میں رابعہ اور تنویر بھابھی داخل ہوئیں بھابھی نے کہا  آج کہیں جانے کا موڈ نہیں ہے کیا میں نے کہا نہیں بھابھی تو وو بولی ذرا رابعہ کو مارکیٹ تک لے جاؤ اس نے کچھ سامان لینا ہے میں پہلے تو انکار کنی لگا تھا پھر بھابھی نے کہا  چلو جلدی سے تیار ہو کے نیچے آ جاؤ پلیز جلدی آنا میرا کمرہ  دوسری منزل پے تھا  اب میں نے سوچا چلو بھابھی ناراض نہ ہو جائے لے ہی جاتا ہوں ویسے بھی میرا اپنی بھابھیوں سے بوہٹ پیار تھا میں نیچے چلا آیا اب میں نے رابعہ کو اپنی بائیک پے اپنے پیچھے بٹھایا اور مارکیٹ کو چل دیا رابعہ نے مجھے زور سے پکڑا ہوا تھا اسے بائیک سے برا ڈر لگتا تھا میں نے کہا تھا میں تو بائیک سے ہی جاؤں گا جان ہے تو آ جاؤ اب وو مجھے پیچھے سے پکڑ کے بیٹھی تھی      

اس کے مممے میری کمر میں چب رہے تھے ایسے ہی مجھے برا مزہ آنے لگا اچانک ایک موڑ مرتے ہی  مجھے بریک لگنا  پڑھا سامنے سے کچھ سچول کے بچے گزر رہے تھے اباچانک  بریک کی وجہ سے اس کا ہاتھ میرے پیٹ پے جو تھا وو میرے لن پے لگ گیا اور بیساختہ ہی اس نے اسے زور سے پکڑ لیا میرے منہ سے آہ کی آواز نکل گی درد سے وو ایک دم سے بولی کیا ہوا ہے شارق اب اس کا ہاتھ دوبارہ میرے پیٹ پے تھا میں نے کہا ابھی تم مجھے ناکارہ  کرنے لگی تھی وو بولی کیا مطلب میں نے کہا تم نے میرے سب سے خطر ناک اور ایک بوہٹ ضروری  چیز کو کھینچا تھا وو اب کچھ کچھ سمجھ گی اور بولی سوری اس کی آواز میں گھبراہٹ اور شرم سی صاف محسوس ہو رہی تھی وو کافی سلجھی ہوئی لڑکی تھی پھر ہم گھر واپس آنے تک وو کچھ نہ بولی

گھر واپس آتے ہی ہم نے کھانا کھایا میں کچھ دیر جم میں گیا اور وہاں سے کافی لیٹ واپس آیا میرے آنے تک تقریبن سرے لوگ ہی اپنے اپنے کمروں میں تھے  میں نے اپنے کمرے آ کر لباس بدلا اور اپنے بد پے لیٹ گیا اچانک میرے روم کا دروازہ کھلا اور رابعہ اندر آیی  وو بولی آپ ابھی تک جاگ  رہے ہیں  میںنے کہا جاؤ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی  وو میری  طرف دیکھ کر ہنس دی اور کہا نیند کو کیا ہو گیا ہے  میں نے کہا جب بھی سوتا ہوں ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے اور نیند اڑ  جاتی ہے وو بولی کون سا واقعہ میں نے کہا آج ایک بوہٹ ہی پیاری سی لڑکی نے مجھے وہاں سے پکڑ لیا تھا جہاں ہاتھ لگنے سے جسم میں کرنٹ لگتا ہے وو یہ سنتے ہی شرم سے لال ہو گی اور کہا آپ سو جایئں میں اب چلتی ہوں میں نے کہا بات سنو اور اٹھ کے اس کے پاس گیا وو ابھی تک دروازے ک پاس ہی کھڑی تھی  میں پہلی دفع اس کے اتنا پاس  گیا تہ میں ے کہا رابی

اور اس کے پاس خرے ہو کر اس کے کندھے پے ہاتھ رکھا اور اس کا منہ اپنی طرف کیا اب میں نے آہستہ سے اس کے شبنمی ہونٹو کو اپنے ہونٹوں  کی دسترس میں دے دیا وو ایک دم سے ہڑبڑا گی اور مجھ سے اپنا آپ چرا کے پیچھے ہٹی میں نے کہا رابی کیا میرا کس کرنا تم کو اچھا نہیں لگا وو کچنا بولی میں نے کہا سوری اور اپنے بیڈ کی طرف آ گیا وو وہیں کھڑی جانے کیا سوچتی رہی   پھر اس نے میرے کمرے کا دروازہ آنر سے بند کیا اور میرے پاس شرماتے ہوے آ گی اور بولی شارق پلیز ایسا ویسا کچھ نہ کرنا مجھے برا ڈر لگتا ہے میں نے اسے اپنی بانہوں میں بڑھ لیا   

اب وہ میرے ساتھ تعاون پر آمادہ نظر آ رتھی تھی۔
اس کو آمادہ دیکھ کر میرے اندر مستی کی تحریک تیز ھو گئی۔ اب میں اس کے جسم کی جوانی سے کھل کر کھیل سکتا تھا۔ میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی،
" تھینکس رابی، (اس کے گھر والے اسے مختصراْ رابی کے نام سے ھی پکارتے تھے۔ ویسے اس کا اصل نام رابعہ تھا۔) اب دیکھنا، آج میں تم کو کتنا مزہ دیتا ھوں۔ میرے ساتھ گزارے گئے یہ لمحات تمہیں ساری عمر یاد نہ رھیں، تو کہنا۔ "
میری اس بات سے اس کا چہرہ سرخ ھو گیا، اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
اس کے بعد میں اس کے وجود سے ھٹ گیا، اور اس کے برابر میں لیٹ گیا۔ میں جان چکا تھا، کہ ھمارے پاس وقت اتنا زیادہ نہیں ھے۔ اس لئے میں نے سب سے پہلے اس کو دوبارہ سے گرم کرنا شروع کر دیا۔ مجھے معلوم تھا، کہ اگر میں نے ابھی سے اس سے کپڑوں کا مطالبہ کر دیا، تو وہ فطری شرم و حیا کے باعث انکار کر سکتی ھے۔
میں پہلے اس کے جذبات کو مکمّل گرم کر دینا چاھتا تھا، تا کہ جب کپڑوں کا مطالبہ کروں، تو وہ بلا چون و چرا مان جائے، یا کم سے کم دیر لگائے۔
رابعہ کے تعاون کا یہ نتیجہ نکلا، کہ میرا کام آسان ھو گیا۔ کیونکہ اب رابعہ بھی میرا ساتھ دے رھی تھی۔ میں نے اس کی کسّنگ سٹارٹ کی، تو اس نے بھی جواب دیا، اور اپنا ھاتھ میرے بازو کے اوپر سے میری کمر پر ٹکا لیا۔ اس کی آنکھیں بند ھونا شروع ھو رھی تھیں۔ میں نے کم و بیش تین چار منٹ تک مسلسل اس کی کسّنگ کی۔ اس دوران میرا ایک ھاتھ اسکی کمر پر حرکت کرتا رھا، جبکہ دوسرا ھاتھ میں نے اس کے سر کے نیچے دے رکھّا تھا۔
چند منٹ کی کسّنگ نے رابی کے جذبات کو اچھّی خاصی تحریک دے ڈالی تھی۔ اس کی سانسوں کی آوازیں بتا رھی تھیں، کہ اس وقت وہ اپنے کنٹرول سے آؤٹ ھو چکی ھے۔ اوپر سے میرا ھاتھ اس کی کمر سے ھوتا ھوا اب اس کے سینے پر مصروف عمل تھا۔ میری ٹانگیں بھی اس کے وجود سے رگڑ کھا رھی تھیں۔ اگر مجھے ٹانگوں کے رستے اس کے جسم کی گرمی اپنے اندر منتقل ھوتی محسوس ھو رھی تھی، تو یقیناْ میرے بدن کی حرارت بھی اس کے اندر لازمی طور پر اتررھی ھو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا ھتھیار تو لگاتار رابی کی ٹانگوں کے ساتھ ٹچ ھو ھو کر، اس کی پھدّی کو دعوت مبارزت ( جنگ میں اپنے مدّ مقابل کو مقابلے کے لئے للکارنا۔ جنگ کے لئے دعوت دینا۔ ) دے رھا تھا۔

اب میں نے اس کے سینے کے اندر ھاتھ ڈالا، اور اندر سے اس کی چھاتیوں کو انتہائی نرمی سے دبانا شروع کیا ۔
جب میرا ھاتھ اس کی چھاتی سے ٹچ ھوا تھا، تو اس کے منہ سے ایک خاص آواز بر آمد ھوئی تھی، جو اس کی اندرونی کیفیّت کو ظاھر کر رھی تھی۔
یقیناْ وہ بھی میری حرکتوں سے سرور میں ڈوبی جا رھی تھی۔ ورنہ اس کا تنفّس اتنا تیز نہ ھوتا۔
میں نے کچھ دیر مزید اس کے کپڑوں کو برداشت کرتے ھوئے اس کے جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھّی۔ رابی بار بار اپنے سر کو دائیں بائیں حرکت دے رھی تھی۔ میری محنت رنگ لا رھی تھی، اور رابی اب اس مرحلے پر آ رھی تھی، جب جلد ھی وہ میرے ایک اشارے پر کپڑے بھی اتار دیتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے ھاتھ مسلسل اپنے کام میں مصروف تھے۔ رابی کے ھونٹ سرخ ھو چکے تھے۔ میں نے اپنے ھاتھ سے رابی کے ایک ممّے کو نپل سے پکڑ کر ھلکا سامسلا، تو رابی کے منہ سے سسکاری نکل گئی، مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔

میں بھی بس یہی دیکھنا چاھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
جس ھاتھ سے میں رابی کے ممّوں کو مسل رھا تھا، اسی ھاتھ کو میں اندر سے ھی رابی کی کمر تک لے گیا۔ اس کام کے لئےمجھے رابی کی کسّنگ تیز کرنا پڑی تھی، مگر فائدہ یہ ھوا، کہ میں بنا کسی اعتراض کا سامنا کیے، رابی کا برا کھولنے میں کامیاب ھو گیا۔
برا کی ھک کھولنے کے بعد، میرا ھاتھ رابی کے ممّوں کے لمس سے صحیح معنوں میں آشنا ھوا۔ اس کے بدن کا لمس واقعی کمال کا مزہ رکھتا تھا۔ میرے اندر کرنٹ دوڑ گیا۔ میں نے اس کے ممّوں کو دبایا، تو رابی کی آنکھیں کھل گئیں، مگر میرے ساتھ بات کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔، ، ، اس کے ھونٹوں پر ابھی تک میرے ھونٹوں کا قبضہ تھا۔
میں کم و بیش، دو منٹ تک اس کے ممّوں کو دباتا رھا، کبھی میں اس کے ممّوں کو نرمی سے مسلتا، تو کبھی میں اس کے نپلز کو پکڑ کر اوپر سے رگڑنا شروع کر دیتا۔ حتّیٰ کہ مجھے محسوس ھو گیا، کہ اب رابی کے کپڑے اتروائے جا سکتے ھیں۔ چنانچہ میں نے رابی کے کان میں سرگوشی کی۔
"رابی ، میری ایک بات مانو گی؟" جواب میں، رابی نے مجھے دیکھا، تو مجھے اندازہ ھوا، کہ اس کی آنکھیں از حد سرخ ھو چکی تھیں۔ ، ، ، ، تب مجھے معلوم ھوا، کہ رابی بھی اس قبیل سے تعلّق رکھتی تھی، کہ جو لوگ جب بھی سیکس کے لئے تیّار ھوتے ھیں، تو ان کی آنکھیں سرخ ھو جاتی ھیں۔ (میری زندگی میں میرا ایسی چند ایک ایسی لڑکیوں سے واسطہ پڑا ھے، جن کی آنکھیں سیکس کے دوران، یا سیکس کے شروع میں ھی، مکمّل طور پر سرخ ھو جاتی تھیں۔ ، ،یہ سرخی ، آنکھوں کے عام سرخ ھونے سے سے کافی حد تک زیادہ ھوتی تھی۔ شائد آپ میں سے بھی کسی دوست کے ساتھ ایسا اتّفاق ھوا ھو۔ ) میں جان چکا تھا، کہ اب رابی تیّار ھے۔ چنانچہ میرے کہنے پر اس نے ذرا سے تردّد کے بعد، اپنے کپڑے اتاردئے۔

بھی اپنے آپ کو کپڑوں سے آزاد کر چکا تھا۔ رابی نے اپنی شلوار تو اتار دی تھی، مگر اس نے ابھی تک اپنا انڈر ویئر نہیں اتارا

    تھا۔ میں نے اس کو اپنے ساتھ لٹایا، اور اپنے ھاتھ اس کے ممّوں پر رکھ دئے۔ اس نے شرم سے آنکھیں بند کر لیں۔ میں نے رابی کی کسّنگ شروع کر دی، چنانچہ کچھ ھی دیر میں رابی گرم ھو کر میرا ساتھ دینے لگی۔
    اب وہ چدنے کے لئے مکمّل طور پر تیّار تھی۔
    میں نے اس کا انڈر ویئر کھینچ کر نیچے کیا، اور اتار دیا۔ اب وہ ٹوٹل برھنہ حالت میں میرے سامنے موجود تھی۔ اس کے سینے پر موجود ابھار دودھیہ رنگت کے حامل تھے جن پر گلابی رنگ کے نپل موجود تھے۔اس حسینہ کا بدن بالکل بے داغ تھا۔ (مطلب حسین جسم پر کوئی داغ نہیں تھا۔ ورنہ تو وہ پہلے سے چدی ھوئی تھی ۔ ) اس کی گول مٹول رانوں کا نظّارہ بھی مجھے پاگل کئے دے رھا تھا۔ اس کے پیٹ میں بھی وہ کشش موجود تھی، جو ایک لڑکی کے پیٹ میں اس وقت تک موجود رھتی ھے، جب تک کہ وہ ماں نہیں بن جاتی۔
    اس کا پیٹ بے حد کشش رکھتا تھا۔
    اس کے پیٹ کے نیچے وہ مقام موجود تھا، جس کی خاطر اتنی محنت ھوئی تھی۔

    ، ، ، ، اس کی پھدّی ۔ ۔ !
    اس کی پھدّی بھی بالوں سے صاف تھی۔ شائد اس نے آج یا کل ھی صفائی کی تھی۔

    میں نے مزید وقت ضائع کئے بغیر، اس کے بدن پر ھاتھ پھیرتے ھوئے، اس کی ٹانگوں کی طرف آ گیا۔
    اب میں نے اس کی رانوں پر ایک دو بار ھاتھ پھیرا، یہ اس کے جذبات کو چھیڑنے کے لئے تھا، اور رابی اس پر اچھّی خاصی مچل گئی۔ میں مسکرایا، اور اس کے دیکھنے پر گویا ھوا۔ " پلیز، گیٹ ریڈی ٹو بی فکڈ، مائی ڈئر سویٹ ھارٹ، Please Get Ready To Be) Fucked, My Dear Sweet Heart.)
    میری اس بات کے جواب میں رابی شرم سے سرخ ھو گئی۔ میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں، اور اپنے دائیں بائیں پھیلا دیں۔ اس کی پھدّی سے اس وقت ایک خاص قسم کا لیس دار مادّہ نکل رھا تھا۔ میرے لن کے سوراخ پر بھی چند قطرے پانی جمع ھو کر نکل رھا تھا۔ رابی نے کہا، " پلیز، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ھے۔ میری ماں جاگ گئی ھو گی۔ ، ، ، میں مسکرا دیا۔ یقیناْ وہ یہ چاھتی تھی، کہ میں جلد سے جلد اس کی پھدّی میں اپنا لن اتاردوں۔ ، ، ، میں نےپوچھا، "اگر تم کنواری ھو، تو تمھیں درد ھو گا۔ برداشت کر لو گی ؟ " ، ، ، جواب میں اس نے کہا، کہ وہ برداشت کر لے گی۔ ۔ ۔ ۔
    میں نے اس کی ٹانگیں پکڑیں، اور اپنے لن کا ٹوپہ اس کی پھدّی پر سیٹ کیا۔ ایک نظر اس کی طرف دیکھا، اور ایک دھکّا لگایا۔ میرے لن کی ٹوپی اس کی پھدّی میں گھس گئی۔ اس کے چہرے پر تکلیف محسوس ھو رھی تھی۔ میں نے آگے کو ھوتے ھوئے، اس کے ھونٹ اپنے ھونٹوں میں لے لئے، نیچے سے میں نے اپنی پوزیشن کا خاص خیال رکھّا تھا، کہ میرا لن اس انداز میں اس کی پھدّی پر سیٹ رھے، کہ میرے ایک ھی دھکّے سے اس کی پھدّی میں گھس جائے۔
    اس کی کسّنگ کے دوران ھی، میں نے اچانک ایک جاندار دھکّا لگایا، اور اس کی پھدّی کی گہرایئوں میں اپنا لن اتار دیا۔
    اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ میرے منہ میں ھی کہیں دب گئی۔ ، ، ، !
    (میں سوچ رھا تھا، کہ آج کنواری لڑکی کی سیل توڑنے کا موقع ملا ھے، ۔ )
    چند سیکنڈ کے توقّف کے بعد، میں نے چپّو چلانا شروع کر دئے۔ ۔
    میں نے اس کے منہ سے اپنا منہ ھٹا لیا تھا، کیونکہ اب وہ میرا لن برداشت کر چکی تھی۔ لہٰذا کسی قسم کی چیخ کا کوئی امکان نہیں تھا۔میں بے فکری سے اس کی پھدّی مار رھا تھا۔ اس نے بھی اب انجوائے کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں چاھتا تھا، کہ وہ میرے ستاھ فارغ نہ ھو، بلکہ اس کے فارغ ھونے کے بعد بھی، کم از کم، پانچ سات منٹ تک میں اس کی چدائی کرتا رھوں، تا کہ بعد میں وہ اس چدائی کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے یاد رکھّے۔ اس کی سیکسی آوازیں بھی نکل رھی تھیں، مگر میں اس کے منہ پر کبھی کبھی ھاتھ بھی رکھ دیتا تھا، مبادا اس کی آواز باھر چلی جائے، اور کوئی سن لے۔ ۔
    کچھ دیر میں نے آھستگی سے جھٹکے لگائے، پھر میں نے اپنی سپیڈ تیز کر دی۔ ساتھ ساتھ میں اس کو چھیڑ بھی رھا تھا۔ اس سے وہ جلد ھی فارغ ھو گئی۔
    میں نے اس پوزیشن میں پانچ منٹ تک اس کو چودا۔ پھر میں نے اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا۔ وہ مان نہیں رھی تھی، تب میں نے کہا، اگر وہ مجھ سے جلد جان چھڑانا چاھتی ھے، تو اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں آنا ھی ھو گا۔ وہ اٹھی، اور جھک گئی۔ اس سے اس کی پھدّی بالکل واضح ھو گئی۔ یہ میرے لئے بے حد دلفریب نظّارہ تھا۔ اس کی گیلی پھدّی، گول مٹول رانیں۔ (لمبی، گوری اور گول مٹول رانیں ھمیشہ سے میری کمزوری رھی ھیں۔) میں نے اس کے پیچھے سے آ کر اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کیا، اور ایک ھی جھٹکے سے اپنا لن اس کی پھدّی میں ڈال دیا۔ میں نے اس کی کمر سے اس کو پکڑ لیا تھا، ورنہ وہ لازمی طور پر آگے کو گر جاتی۔
    اس انداز میں ، کم از کم پانچ منٹ مزید میں نے اس کی جم کر چدائی کی۔ اب میں نے سوچا، کہ بس کر دینی چھاھئے۔ ، ، چنانچہ میں نے اس کو سیدھا لٹا کر اس کی ٹانگیں اٹھا کر شروع ھو گیا۔ دو منٹ کے جاندار سٹروکس سے میں اس کی پھدّی میں ھی فارغ ھو گیا۔

 اس نے کوشش کی تھی، کہ میں اپنا پانی باھر نکالوں، مگر میں نے اس کو ھلنے بھی نہیں دیا۔
    ( وہ کیا ھے ناں، کہ جب تک میں اپنا پانی عورت کی پھدّی میں نہ نکالوں، مجھے سیکس کا مزہ ھی نہیں آتا۔) ا
    اس کے بعد میں نے واش روم کا رخ کیا۔ کپڑے وغیرہ پہن کر میں فارغ ھوا، تو وہ بھی اپنے کپڑے پہن چکی تھی۔ کافی دیر تک تو وہ مجھ سے نظریں ھی نہیں ملا سکی تھی۔ آخر اس نے مجھ سے گلہ کیا، کہ میں نے پانی نکالتے وقت کوئی بھی احتیاط نہیں کی۔ اس پر میں نے اس کو ایک خاص قسم کی ورزش کروائی۔ تکلیف کے باوجود اس نے وہ ورزش کی، کیونکہ وہ ماں بننے کی بدنامی سے بچنا چاھتی تھی۔اس کے بعد میں نے اس کو مزید تسلّی دیتے ھوئے کہا، کہ  میں اس کو ایک خاص چیز لا دوں گا۔ اس کے استعمال سے وہ حاملہ ھونے سے محفوظ رھے گی۔ اس کے بعد میں نے اس سے سوال کیا، کہ کیا اس نے مزہ محسوس کیا، یا کہ وہ ناراض ھے؟ ، جواب میں وہ مسکرائی، اور میرے سینے پر ایک مکّا مارتے ھوئے میرے ساتھ لگ گئی۔ میں بھی خوشی سے جھوم اٹھّا۔۔
    اس کے بعد, میرے گال پر ایک کس کرتے ھوئے وہ جانے لگی، تو میں نے اس کو پکڑ کر پوچھا۔ " ایک بات تو بتاؤ،

وو بولی جی پوچھیں میں نے کہا پھر کب مل گی وو بولی اب میں نہیں ملوں گی دیکھیں میرا کتنا خوں نکلا ہے اب تو ایسے ظالم بن کے دھکے مرتیھیں میرا سارا بدن دکھ رہا ہے اور چلی گی  میں بھی اٹھا بیڈ شیٹ کو اٹھا کے ایک طرف رکھا اور ایک نیی بیڈ شیٹ بیڈ پے ڈالی اور اپنا جسم صاف کر کے سو گیا   
دوستو پلز مجھے بتائیں آپ لوگو کو میری یہ کہانی کیسی لگ رہی ہے مجھے آپ کے جوابات کا انتظار رہے گا


0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest