SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ آٹھویں قسط


عاشق

آٹھویں قسط

تحریر: ماہر جی


اب بانو نے ان سے ملو نازی یہ  ہیں شارق صاحب وکل ہیں اور شارق یہ میری دوست ہے نازش  میںنے کہا اب مجھے یہ سمجھنہی ا آرہی کے انکے نام کی تعریف کروں یا ان کی  آج ان کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے نازش نام ہی انہی کے  لئے رکھا گیا ہے  وہ اب ہنس دی اور کہا تھننکس اس انداز میں تعریف کے لئے  اب ہم اس کے ساتھ اندر  چل دے بنگلہ باہر سے بھی پیارا تھا اندر سے تو  کمال کی سیٹنگ تھی  ہر شہ سے جھلک رہی تھی  امارت  وہ ہم کولئے ایک کافی بڑے  سے ڈرائنگ  روم میں آ گئی   اور کہا بیٹھیںآپ پلیز  وہاں پے بہت   ہی بیسٹ  کوالٹی  کے صوفے تھے  ہم ایک صوفے پے بیٹھ گے اب  نازی بھی ہمارے ساتھ ہی بیٹھ  گئی  اتنے میں ایک  ملازمہ  ایک ٹرے میں کولڈ ڈرنک  لے کر آ گئی  ہم ڈرنک کرنے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے مجھے یہ  حسمکھری  سی لڑکی نازی بہت اچھی لگی  اس کے مممے تو کمال کے تھے بہت ٹائٹ  اور کس ہوا بدن تھا اس کا  وہ اب بولی  ہاں اب کھانے  میں کیا چلے گا میں نے کہا جو مل جائے  میں تو کھا لوں گا  اب بانو میری بات کو سمجھ گئی اور کہا شارق  قسم سے کتنے ندیدے ھو تم  نازی کوکچ سمجھ نہ آئی  وہ ہم دونوں کے منہ دیکھنے لگی اور کہا یار یہ کیا رمز  میں باتیں  کر رہے ھو صاف بولو نہ

اب بانو نے  کہا صاف یہ  ہے  کے  یہ تم کو کھانے کی بات کر رہا تھا  یہ سن کر نازی شرما  کے بولی بانو تو بھی نہ کبھی نہیں بدلے گئی  اور ہنس دی اب ہم نے ایک شاندار سی میز پے بیٹھ کے ایک شاندار اور مزے دار  کھانا کھایا  پھر ووہی بیٹھ  کے ہی  چاۓ پی  اور بعد میں ہم ٹی.وی  لاؤنج  میں  آ کر بیٹھ گے  وہاں پے نیچے  ایک بہت نرم اور موٹا قالین بچھا تھا  جس پے پاؤں رختے ہی نیچے کو دھنس  جاتے تھے اور وہاں پے گدے  بھی تھے رکھے ہوے وہ دونو صوفوں کی طرف  جانے لگیں تومیں نے  کہا یار میں تو یہی نیچے ہی بیٹھوں گا  اور پہلیمیں اپنا لباس چینج کروں گا  اب نازش  مجھے لے کر ایک بیڈ روم   کی طرف آیی  اور مجھے  ایک مردانہ نائٹ سوٹ دیا  جو بہت نرم تھمایننے وہ بدلہ اور باہر آ گیا  اب میں  ایزی   ہو کر باتھ گیا اب مجھے نیچے  باتھے دیکھ کر وہ بھی نیچے ہی آ گئیں پینٹ کے ساتھ  نازی سے بٹھا نہیں جا رہا تھا  وہ بھی اپنا لباس چینج  کرنے چلی گئی بانو کو ساتھ لے کر میں وہاں اکیلا  لیٹ  کر کمرے کی ڈیکوریشن  دیکھنے لگا  واقعی  میں نازی نے گھر میں ہر چیز بہت  مہنگی اور  بیسٹ کوالٹی کی رکھی تھی

وہ دونو کافی دیر تک نہیں آییں میں  اب ان کے آنے کہ انتیظار کرنے لگا  پھر وہ دونو ہی ہنستی ہوئی آ گیں  اب ہم وہاں قالین پے ہی گدوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گے  میں نے کہا ہاں نازی پہلے اب تم اپنا مسلہ  بتاؤ وہ کہنے لگی  شارق میرے پاپا ایک بارے بزنس مین  تھے اس شہر کے  انھوں نے  ایک سات منزلہ پلازہ  بنوایا تھا اس شہر کے سب سے مہنگے ایریے میں  جو ایک ملک ریاض نامی  بندہ خریدنا  چاہتا تھا  جو کے پاپا نے نہ بیچا  پھر بعد میں پاپا نے ایک اور بنا بنایا پلازہ  خرید لیا اب اتفاق کی بات ہے اس پلازے کو  ملک ریاض بھی خریدنا  چاہتا تھا جو اسے نہ ملا اور پاپا  نے لے لیا پھر  ایسے ہی چلتا رہا  پاپا اور ملک ریاض میں ضد سی لگ گی تھی  جگہ خریدننے کی انہی دنو پاپا کو ایک  اٹیک  ہوا اور پاپا اپنی جان کی بازی ہار گۓ

میں ان دنوں اپنے ہوسپٹل میں بزی  تھی کیوں کے وہ نیا نیا سٹارٹ کیا تھا   میں نے میںنے وہاں چوٹی کے ڈاکٹر کو جمع کیا ہوا ہے منہ  مانگی فیس دے کر،   میرے پاپا  اکیلے ہی بھائی تھے اس لئے  پاپا نے دور نزدیک کے رشتہ داروں کو کبھی لفٹ نہیں کرائی  ان کے مرنے کے بعد سب ہی میرے پاس  آگے  سب کو پٹ تھا میں اکلوتی  وارث ہوں  ان کی کروڑوں  کی جائداد کی  اب سب ہی مجھ سے ہمدردیاں جتانے لگے ، میں نے بھی کسی کو اہمیت نہ دی  اور تنگ آ کر سب ہی پیچھے ہٹ گۓ   اب انہی دنوں میں میرے ہوسپٹل میں  ایک مریض  لایا گیا  جو کے کافی زخمی  تھا اسے کوئی بیس کے قریب گولیاں لگی تھیں  وہ ہوسپٹل میں آتے ہی کچھ ہی دیر میں مر گیا ،  پھر  وہاں پے پولیس کی گاڑیاں آ گیں اور ایک ایس پی  نے جو ان کو لیڈ  کر رہا تھا مجھے کہا تم نے ایک  اشتہاری کو  پناہ دی ہے  اور میرے اوپر  اس کو پناہ دینے  کا پرچہ  کاٹ دیا  میں نے بھی کافی کوشش کی اور  اپنی ضمانت کروا لی  لیکن جو بندہ مارا گیا تھا  وہ ایک گینگ کا لیڈر تھا جو اغوا  براۓ تاوان اور ڈکیتیوں کے  کافی سارے کیسوں میں ملوث تھا ، اب صورتحال یہ ہے کے  مجھے ملک ریاض نے کال کی اور کہا  یہ سب اس نے کروایا  ہے اگرمیں اسے دونو پلازے  جو اس وقت کوئی ستر کروڑ  کےہیں صرف بیس کروڑ  میں بیچ  دوں تو وہ یہ کیس ختم کرا دے گا ورنہ کوئی وکل میرا کیس نہیں لڑے گا ،

کیوں کے اس کے ساتھ بارے بارے وکیلوں کی ایک فارم ہے جس میں ریٹایرڈ جج بھی ہیں  جو اب وکالت  کرتے ہیں  ابمیں جس وکیل کے پاس جاتی ہوں اسے وہ لوگ کہہ دیتے ہیں وہ انکار کر دیتا ہے ، میں نے کہا کوئی بات نہیں اب میں آ گیا ہوں نہ سب ٹھیک کر لوں گا پھر ہم  نے اب اپس میں بات چیت شروع کر دی  اب بنو نے کہا شارق ایک گیم  کھیلتے ہیں اور ساتھ ہی چلا کر کہا وہ والی نہیں ظالم ، تونازش بھی ہنس دی اور کہا شارق آپ نے تو میری سہیلی کو زخمی کر دیا ہے پیچھے سے   میں  سمجھ گیا اسے سب بتا چکی ہے بانو میںنے بھی کہا  یار اس کا پیچھا ہے ہی اتنا زبردست کے مجھ سے رہا نہیں گیا ،

اب نازش نے کہا گیم ہو گی الفاظ کی  میں ایک شعر کہوں گی اور اس کا آخری لفظ  جو ہو گا اس سے ہی اگلا شعر بانو کہے گی  اور اس کے شعر  سیاگے شارق آپ اب جو ہارے گا  وہ جیتنے  والے کی بات ماننے گا اور یہ ونر کی مرضی ھو وو ہارنے والے کو جو مرضی سزا دے اگر میرے کہے ہوے شعر کے جوابمیں بانو نہ شعر کہہ سکی تو یہ حری اور میں جیتی  اور سمے ایسے ہی ہو گا میں نے کہا مجھے قبول ہے  اب نازش  اپنی جگہ سے اٹھی اس  نے کمرے کے چاروں کونوں  میں  بڑی بڑی موم بتیاں  جلا دیں اب کمرے میں کوئی دس عدد موم بتیاں جل رہی تھیں جو کے کافی بارے سائز کی تھیں  اب اس نے ساری  لائٹس  بجا  دیں  اب بس  کمرے میں   کینڈل لائٹ تھی  یہ سارا ماحول اب بہت   رومانٹک  ہو گیا تھا ،


پہل اب نازش نے ہی کی
یہ تو دیکھو کہ تمہیں لوٹ لیا ہے اس نے
 اک تبسم پہ خریدار کے گن گاتے ہو  ~~
اب بانو کی باری تھی  h سے شعر کہنے کی وہ بولی

ہم  وفائیں  کر کے رکھتے  ہیں وفاؤں  کی امید
دوستی میں اس قدر سوداگری  بھی جرم ہے  ~!
اب میری باری تھی   اور لفظ  پھر ایچ  ہی آیا تھا سو میںنے بھی کہا

ہم  نے مانا کے  تغافل  نہ کرو گۓ  لیکن
ہم  خاک  ہو جایئں گۓ تجھ کو خبر ہونے تک
اب لفظ ک  آیا تھا اور نازی نے اب کہا

کیا  کریں اپنا تو مذہب ہی محبت  ہے تراب
پھر میری جان ہیں  یہاں لوگ  بھی  پیارے پیارے
اب بانو کے حصے میں لفظ  ی  آیا تھا
یاد رکھنے کے لئے اور نہ بھلانے کے لئے
اب وو ملتا ہے  تو بس رسم نبھانے کے لئے
اب میرے حصے میں بھی ی ہی آیا تھا

یہ لوگ کس منزل کی بات کرتے ہیں
ہم مسافروں کے لئے تو راستہ ہی کافی  ہے
اب پھر سے نازی کے ہسیمیں بھی ی ہی لفظ آیا تھا وہ سوچ  رہی تھی ، پھر  میں نے کہا جلدی   جلدی  اتنا سوچنا  نہیں ہے  اب اس نے اپنی ہار ماں لی میں  نے اب  بانو سے کہا تم ی سے کوئی شعر  سنو وہ بھی کہنے لگی نہیں آ رہا  اب وہ دونو ہی ہار گئی تھیں  میں نے کہا  ٹھیک ہے میں جیتا ہوں  اب تم  دونوں  ہی  ایک دوسری  کو تین منٹ تک کس کرو گئی وہ یہ سن کر  بولی ٹھیک ہے اب   نازی نے بانو کے ہونٹوں کو چوسنا شروع  کر دیا   اب نازی کا ہاتھ  بانو کی چھٹی پے تھا وہ اس کے مممے مسل  رہی  تھی اور بانو اس کے  کوئی تین  منٹ تک وہ ایک دوسری کو کس کرتی رہیں اب وہ دونوں ہی کچھ گرم ہو گیں تھیں ،


اب نازو نے کہا شارق   اب تم ایک آخری  شعر  کہو گۓ بس  اور نہیں  میں نے اب کہا چلو ٹھیک ہے وہ بولی کوئی ایسا شعر  کہو جس کو سن کے میں پگھل ہو جاؤں  میں نے اب کہا
بہت خاص ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ہم اپنا کہتے  ہیں
چلو تم کو اجازت ہے  کے تم انمول ہو جاؤ
 یہ کہہ  کر میں نے  نازو کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا اور اس  کے رس بھرے ہونٹوں پے ایک کس کر دی وہ تو ہکا بکا رہ گی  اور بولی  تم  تو واقعی  میں کمال کے بندے  ھو  اب بانو نے کہا نازی کچھ پینے پلانے کو لاؤ اب  پھر مجھے دیکھ کر بولی شارق کیا پیو گۓ  

پھر نازی کچھ کھانے پینے کا سامان لینے چلی گئی  اور میں نے بو کو اپنی بنھونمیں بھر لیا میں اس کے ہونٹ چوس  رہا تھا  کے اچانک  وہ درد سے  دوہری ہو گئی  میں نے کہا کیا ہوا ہے یار وہ اٹھی اور کمرے سے بھاگ گئی ، پھر کافی دیر کے بعد  نازی آیی اور کہا  یار بنو کے مینسیز ہو گۓ ہیں  میں نے کہا دھت ترے کی  وہ ہنس دی اور کہا یہ  کیا بات ہوئی اب بھلا اس بیچاری کیا کیا قصور اس میں  میںنے کہا  وہ بیچاری ہیکہان وہ بولی ایک تو اسے درد ہو رہا ہے دوسرا وہ اب شرما رہی ہے تم سے  میں  اس کے  ساتھ ہی  اب بانو کے پاس گیا وہ  مجھے دیکھ کر شرما گئی اور کہا سوری  یار  میں بھی اب ہنس  دیا اب میں نے کہامیں بھی اب سونا چاہتا ہوں اور اب  نازی نے کہا آؤ میں آپ کو اپپ کے کمرے میں چھوڑ آؤں پھر مجھے  ایک باد روم میں لے آیی  اور کہا آپ یہاں سو جایئں  اور بھر جانے لگی پھر پلٹ کے پوچھا شارق آپ کچھ لیں گۓ اب میں وہ پینے کے لئے کولڈ ڈرنک اور کھانے کا سامان  وہاں ہی رکھ آئی  ہوں ابھی لائی  میں نے اب اس کا بازو پکڑ لیا اسے اپنی طرف کھینچا وہ ابمیری بانہوں میں تھی میرے سینے سے لگی ہوئی  میں نے  اب اس کے کان میں کہا
ان ہونٹوں  کی مہ کشی،  نے  اے ساقی
لوٹ لیا ہمیں ایک ہی جام میں ~
 وہ شرم سے چوڑ ہو گئی میری بات سن کے میں نے اب کہا نازی  تم بہت  پیاری ھو  اگر تم  اجازت دو تو تمہارے ماتھے  سے ایک ذرا لے کر میں آسمان  کے ماتھے پے ایک چاند بنا ڈالوں  میرے منہ سے اپنے حسن کی ایسی تعریف سن کے وہ پاگل ہو گئی  اور کہا شارق  مجھے جانے دو نہ  پلیز  اس کی سانسیں بہت تیز  چل رہی تھیں میں نے اب کہا نازی میں تمہارے ان  انگوری رس سے بھرے ہوے مممے سے رس پینا  چاہتا ہوں

اور ساتھ ہی اس کے مممے  پاکر لئے وہ تو ایک سسکاری لے کر تڑپ گئی  اس کا بدن  کانپ رہا تھا  میری بانہوں میں وہ ابکے ڈوبتی  سانسوں  سےبولی شارق مجھے  جانے دو نہ  میرے اندر کچھ ہو رہا ہے میں نے کہا آج سب کچھ ہو جانے دو پھر اسے اپنی بانہوں میں لیا اور اسی لاؤنج میں لے گیا جہاں ہر طرف موم بتیاں جل رہی تھیں  میں نے اسے آرام سے نیچے ایک گدے پے لٹا دیا  اور ا

اس کا کپکپاتا نرم گرم جسم میری بانہوں میں سما گیا۔
میرے اور اس کے ہونٹوں کے بیچ چند سینٹی میٹر کا فاصلہ تھا۔
اس کا سانس چڑھا گیا تھا،جس کا اندازہ مجھے اپنے سینے پر اس کی بھاری چھاتی کی اتھل پتھل سے ہوا۔
وہ مری مری آواز میں بولی:شارق کوئی  آ جائے گا،،
میں بولا:تو وہاں چلو جہاں کوئی آتا جاتا نہ ہو۔
وہ شرما گئی اور بولی:پلیز جانے دو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
میں نے کہا:ڈر تو مجھے بھی لگ رہا ہے۔
وہ سوالیہ نظروں سے تکنے لگی تو میں بولا:تمہیں ہوش کھونے کا ڈر ہے تو مجھے ہوش میں آنے کا۔
میں نے اپنے ہونٹ اس کے کانپتے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔
میں نے ایک بار پھر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے سی دیا۔
میں نے اس کی نائیٹی کے گاؤن کی ڈوری کھول دی اور اسے اتار دیا۔
اس کے نیچے گلابی جسم کسی گلاب کے پھول جیسا دمک رہا تھا۔ اس سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی۔
نیچے نائیٹی کا ٹاپ تھا،جس کے سٹریپ میں نے کندھوں سے سرکا دیئے تو اس کی خوبصورت تراشی ہوئی چھاتی بالکل بےنقاب ہو گئی۔
وہ ایکدم سے گدے   پر سیدھی لیٹ گئی۔ میں نے وقت ضائع کیے بغیر اس کے جسم سے سارے کپڑے اتار دیئے۔
میں اب پیار سے اس کی ناف سے شروع ہوا،اور لمحہ لمحہ اوپر کی طرف گولائی میں ہونٹوں سے سفر کرنے لگا۔
میرے ہونٹوں کو جسم پر پا کر وہ بےقابو ہونے لگی اور بےحال سی ہو گئی۔
اس کے گورے جسم کا نمک مجھے پیاسا کرنے لگا اور میں اس کے مموں تک پہنچ گیا۔
اس کے گول گول صاف ممے واقعی تراشے ہوئے تھے۔
میں نے دائیں سے شروع کیا اور مموں کی درمیاں لکیر تک ممے کو اتنا چوما کہ وہ بےحال ہو کر چلانے لگی۔
اس کے نپل میں نے بعد کے لیے چھوڑ دیئے۔ یہی عمل میں نے بائیں ممے پر بھی اسی شدومد سے دہرایا۔
اس کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے اور چوستا ہوا ہونٹوں تک جا پہنچا۔
یہی ہونٹ میری منزل تھے جہاں میں اس کے منہ میں زبان ڈالے اسے چوستا رہا۔
وہ بھی پورے جوش سے میرا ساتھ دینے لگی۔
اس کی گیلی چوت کے مسلنے سے

۔میرا لن بھی اب بلکل ٹائٹ ہو گیا تھا  میں اب دوبارہ
 اس کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں کو دوبارہ چومنے لگا۔
لن کی ٹوپی سے اس کی گیلی ہوئی چوت کے لبوں کو رگڑنے لگا۔ چوت کا دانہ بار بار لن کی ٹوپی  کی کھردری سطح سے مسلا جاتا۔
وہ ہربار سسکاری سی بھرتی۔ جب کافی دیر ہونٹوں کو چوم لیا اور لن ہی سے چوت کو مسل لیا تو لن اس کی چوت پر رکھا اور اندر گھسا دیا۔
اس نے اچانک ہی ایک آہ بھری،لن ذرا زور سے مگر بنا خاص مشکل کے اندر چلا گیا۔
دو تیں جھٹکوں کے بعد ہی پورا اندر چلا گیا اور رواں ہو گیا۔
میں نرمی اور پیار سے اس کی ٹانگوں کو کھولے آرام آرام سے اسے چودنے لگا۔
کافی دیر بعد اسے سائیڈ کی طرف موڑ کر لٹا کر تکونی انداز میں لن اس کی چوت میں گھسا کر چودنے لگا۔  لن پھنس پھنس اس کے اندر باہر ہونے لگا،مگر اس کی سائیڈ کی دیواروں کو گہری رگڑ لگنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد میں نے سائیڈ بدل لی اور اسی انداز میں بائیں سے دائیں چودنے لگا۔
جب میں بھی تھکنے لگا او اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر چودنے لگا اور ساتھ ہی اس کے نپلز کو نرمی سے کاٹنے اور چوسنے لگا۔
وہ اونچی آواز میں چلانے لگی۔ پھر وہ چھوٹ گئی اب نازی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی  وہ بولی شارق بانو نے کہا تھا تم باری بےرحمی سے چودتے ھو میں   ڈر رہی تھی اوپر سے تمہارا لن بھی بہت ہی بڑا ہے  اب وہ بولی کوئی  پانچ سال بعد اس چوت میں لن گیاہے  اس نے بتایا اس کے خاوند کی ایک اکسیڈنٹ  میں ڈیتھ ہو چکی ہے پانچ سال پہلے اور اس نے دوبارہ سے شادی نہیں کی  میرا لن ابھی بھی اس کی چوت میں ہی تھا  میںنے اب دوبارہ سے اسے کس کرنا شروع کر دیا

وہ کسی پھول کی پتی کی مانند ہوا پر تیرتی ہوئی میری بانہوں میں سما گئی۔
اس کے جسم میں نرمی اور گرمی کا احساس یکجا تھا۔
میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور انھیں پیار سے چومنے لگا۔
اس کے ہونٹوں میں رس بھری جیسا میٹھا اور کھٹا پن تھا۔
میرے ہاتھ اس کے جسم کے ہر حصے کو نرمی سے سہلانے لگا۔
وہ آہیں بھرتی میرے سینے سے لگ میرا ساتھ دینے لگی۔
میرے ہاتھ اس کی چھاتی کی گولائیوں پر پھرتے ہوئے جسم کے اتار چڑھاؤ پر پھسلنے لگے۔
اس کی گہری سانسیں،مترنم ہنسی جسم کو جھٹکے دیتی۔
میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی  نازش :ان ہونٹوں کی مٹھاس مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔
وہ اک ادا سے مسکرائی:کون تمہیں بھولنے دے گا۔
اس نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی اور میرے اوپر لیٹ گئی۔
وہ اپنی زبان سے میرے منہ کے اندر تک کے ایک ایک حصے کو چومتی اور چوستی رہی۔
میں اس کے کولہوں پر اور ان کے درمیان کی راہداری پر ہاتھ سے سفر کرنے لگا۔
میری انگلیاں کئی بار اس کی نرم ملائم اور گیلی ہوئی چوت سے بھی ٹکرائیں۔
اس کے بعد وہ میرے جسم پر زبان پھیرتی میرا لن تک جا پہنچی اور اسے پکڑ  کر  نرمی سے گولائی میں چاٹنے لگی۔
پھر آرام آرام سے اسے اس منہ میں لے کر چوسنے لگی
وہ کافی دیر لن چوس کر مجھے مزا دیتی رہی پھر میں نے اسے اپنے نیچے لٹا لیا
وہ نیچے چت لیٹ گئی۔
میں نے اپنے ہونٹ اس کی چھاتی پر رکھ دیئے۔
اس کی چھاتی کی لکیر کو گہرائی تک چومنے لگا۔ وہ کبھی ہنستی اور کبھی کھکھلا کر میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتی۔
اس کی شفاف ناف پر میرے ہونٹ جیسے اشتعال میں آ گئی،میں اس کی بےداغ جلد کو دونوں ہونٹوں میں دبا کر جب چوستا تو وہ گہری سانس لیتی۔ اس کا جسم ہلکورے کھاتا اور ٹانگیں بند ہوتیں اور کھلتیں۔
 میں نے اس کی چوت کے لبوں کو مسلنا شروع کر دیا۔
اس کی چوت کا دانہ کبھی باہر نکلتا کبھی لبوں کے اندر چلا جاتا۔ دانے کا مسلنا نازش  کے چہرے پر جیسا ایک عجیب سا رنگ لانے لگا۔ وہ کبھی آنکھیں بند کرتی،کبھی زور سے چلاتی، کبھی خاموشی سے اپنے  دونوں ہاتھوں سے  قالین  کو نوچتی
وہ بولی:شارق ! میں پاگل ہو رہی ہوں،،مجھ سے اتنا مزا برداشت نہیں ہو رہا۔
اس سے اب لن کی دوری برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
وہ گہری آہیں بھرنے لگی۔ اس کی آواز سے کمرا گونجنے لگا۔
میں اپنے ہونٹوں سے  نازش کی  چوت کے لب چوستا  جا رہا تھا اور مموں کو مسلتا  جا رہا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے
وہ بولی:آہ،،آہ،،اوو،شارق  بس کرو،،اب نہیں برداشت ،،ہو آہ ہ ہ ،،رہا۔
مجھ سے اور برداشت نہیں ہو رہا۔ پلیز اپنا لن میری چوت کے اندر ڈال دو پلیز شارق  میں نے اب کی بار اسے الٹا کیا
میں نے اس کی کمر کو چومنا   شروع  کر دیا۔ پھر پیچھے سے اپنا لن اس کی چوت کے سوراخ پے رکھا  اور
لن پیچھے سے اس کی چوت میں گھسا دیا۔ ایک بار پھر لن کافی تنگی سے چوت میں گیا۔ مگر اس بار وہ اس سے مزا لینے لگی۔
لن جاتے ہی وہ مزے سے چلانے لگی۔
میں نے اس کی گردن،گالوں اور ہونٹوں کو پیچھے سے چوما اور کبھی بیٹھ کر کبھی اس کے اوپر لیٹ کر اسے چودنا جاری رکھا۔
میرے چودنے سے اس کا سارا جسم ہلتا اور چوت کے لب گدے  سے مسلے جاتے۔
اس دو طرفہ چدائی سے چوت اور زیادہ پانی بہانے لگی۔
وہ کبھی چوت کھولتی ،کبھی تنگ کر لیتی۔
میں جب بھی چھوٹنے لگتا کچھ دیر لن کو روک لیتا۔ اس دوران اس کے گالوں اور جسم کو چومتا رہتا۔
وہ جس طرح الٹی ہوئی اس طرح سیدھی بھی خود ہی ہو گئی۔
میں نے اس کی ٹانگیں کھولیں اور ٹانگیں اٹھا کر زور زور سے چودنے لگا۔  اب کی بار میں نے کچھ بےرحمی کا مظاہرہ  کیا  اور اس کو ذرا زور سے چودا وہ اب تک ایک دفع فارغ ہو چکی تھی  اب کی بار   میںنے  اسے اپنی گود میں بیٹھا لیا  اور نازی کے ہونٹ چوسنے لگا وہ مزے سے  بھرپور   ہو کر میرے ہونٹ آنکھیں بند کےہی چوس رہی تھی پھر میں نے کوئی دس منٹ تک اسے ایسے ہی چودا  پھر میں نازش کی چوت میں ہی فارغ  ہو گیا  اور ابھی ایک دو اور دھکا مارا  ہی تھا وہ بھی جھڑ گئی  اب نازش نے مجھے اپنی بانہوں مے زور سے  بہنچ رکھا تھا  اور وہ میری گرداب کو چومتی جا رہی تھی  میںنے کہا  نازی کل رات کو میں تم کو بےرحمی سے  چودوں گا وہ بولی شارق  نہیں جان میں ایسے ہی ٹھیک ہوں
میں نے کہا نازی   جو مزہ اس چدائی میںہے وہ اس میں کہا  ابھی تو میںنے تمہاری اس گانڈ کو بھی کچھ کھلا کرنا ہے وہ شرما گئی اور کہا کیوں جناب اس بیچاری نے اپ کا کیا بگاڑا ہے  پھر میںنے کہا چلو اب سوتے   ہیں پھر وہ میرے ساتھ ہی میرے بیڈ پے  مجھے اپنے ساتھ لپٹا کے سو گئی  میں بھی اسے چومتے ہوے سو گیا

 

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest