SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ نویں قسط


عاشق

نویں قسط

تحریر: ماہر جی

اگلے دِن  ہم کو بانو نے ہی اٹھایا   وہ مجھے دیکھ کر بولی تو تم نے اسے بھی  فتح کر ہی لیا  بڑی نمکین چوٹ ہے اس کی  میں نے کہا ہاں یہ تو ہے پھر ہم  نے نہا  کر ناشتہ  ایک ساتھ ہی کیا  ناشتے کے بعد میں نے اب فاروقی صاحب کو کال کی اور پوچھا   یہاں پے جو بار کا صدر  ہے اس سے کوئی تعلق ہے آپ  کا  وہ بولے یار وہ اپنی ہی گروپ  کا ہے تم اسے مل لو جا کر میں  کوئی دس بجی تک تو  نازی  اور بنو کے ساتھ ہی رہا  پھر اس شہر  کے احاطہ  عدالت کی طرف چل دیا وہاں جا کے میں بار صدر کاظم علی  شیخ  سے ملا  وہ ایک اچھے اور زہین وکیل تھے انہوں نے میری کافی آؤ بھگت کی  جب میں نے ان سے اپنے  آنے کا مقصد بین کیا وہ سیریس  ہو گے اور کہا دیکھو  دوست  یہ کیس ایک  لمبا جھگڑا  شروع  کر دے گا ؛ آپ کو اجازت میں لے دوں گا  آپ یہاں  سے بھی کیس  لڑ لیں کوئی بات نہیں  لیکن  میں کوئی اضافی مدد اپ کی نہیں  کر سکوں گا کیوں کے  وہ ایک خطرناک  گروپ ہے  اور ان کے ساتھ  جو ووکلاء  حضرات ہیں وہ ایک سے بڑھ کے ایک  میں نے کہا شیخ صاحب  میں  آپ سے کوئی مدد نہیں چاہتا  بس اس ک علاوہ  کے آپ مجھے اجازت دیں اپنی بار سے کیس لڑنے کی  اس نے اسی وقت بار کا ایک لیٹر  ٹائپ کروا کے دے دیا مجھے جس میں ان کے بھی اور وہاں پے ماجود سب سے بڑے جج  کی موھر اور سائن  تھے  میں نے ان کو  تھینکس  کہا اور ان کے آفس سے باہر آ گیا  میں نے اب بابر  کو کال کی اور اسے بتایا  اس سٹی  کا وہ ہنس دیا اور بولا شارق میری جان کے ٹوٹے  جو گروپ  میں نے ترے ساتھ لگا دیا ہے وہ پورے پاکستان  میں ترے ساتھ ہی  ہیں  اس وقت بھی ظفری  خود دو جیپون میں اپنے آدمی لئے ترے ساتھ ساتھ ہے  بس وہ اس وقت  تم کو نظر آے گا جب تم کو کوئی خطرہ  ہو گا ورنہ تو جو مرضی کر وہ اپنی آنکھیں اور کان بند ہی رکھے گا

میں نے کہا آوے  جو مرضی سے کیا مرد ہے تیری لعنتی  انسان وہ ہنس دیا  اور کہا کچھ نہیں یار  اس نے اس دفع مجھے بتا دیا ہے آگے سے نہیں بتایے   گا   میں سمجھ گیا اس نے میری اور بانو کی چدائی کا کھیل دیکھ لیا ہے میں نے کہا بابری  وہ اب  وہ میری بات کاٹ کے بولا شارق  کہا نہ آئندہ سے  وہ مجھے بھی نہیں بتایے  گا  اب تو اپنے کام  میں بزی ہو جا  اب تمہارا  ٹکراؤ  ایک بڑے بدمعاش سے ہونے والا ہے  جسے تم بھی جانتے ہو یونی ورسٹی  سے ہی میں نے کہا کون ہے وہ اس نے کہا تم کو وہ عالم پاشا  تو یاد ہے نہ جو ھمارے خلاف  بڑے ثبوت ڈھونڈا کرتا تھا  مجھے وہ موٹا سا اور تیز طرار لڑکا یاد آ گیا جس کی اکثر میں اور بابر پٹائی کر دیا کرتے تھے  وہ بولا آج کل جس شہر میں تم مجود ہو اس میں اسی کا طوطی بولتا ہے ،

اب گھر آ کر میں نے اب نازش  کو ساتھ لیا اور اس تھانے  میں جا پوھنچا  جس میں اس کے خلاف ایف آئی آر کٹی  تھی وہاں  پے میں متعلقہ  تفتیشی سے ملا  جو ایک سب انسپکٹر  تھا  میں نے اس کا نام  اس کے  کمرے کے بھر لگی  تختی سے پڑھ لیا تھا میں نے اب اس کے کمرے میں  بیٹھ کر اس سے ساری بات کی وہ بولا سر  جی  میں اس میں ووہی کچھ لکھوں گا جو مجھے ایس. پی صاحب بولیں گے  میں نے اسے اپنا بتایا  کے میں ایک سابقہ آئی جی کا بیٹا  ہوں وہ اب پریشان ہو گیا ، اس نے مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور مجھے لے کر اسی تھانے میں مجود ڈی ایس پی  کے کمرے میں لے گیا ڈپٹی  صاحب ایک موٹے سے آدمی تھے  جو کافی عمر کے تھے  اب تفتیشی  انور نے بتایا سر یہ   وہ ایس پی صاحب والی کیس کے  لئے آے ہیں ، تو ڈپٹی نے کہا میں کیا کروں جیسا صاحب بولتے ہیں لکھ دو  تم کو بھی پتہ ہے  ، اب کی بار انور نے کہا سر یہ سابقہ ائی جی صاحب کے صاحب زادے ہیں سید شارق حسین شاہ  اب ڈپٹی بھی سیدھا ہو کے بیٹھ گیا ھمارے ملک  میں خاص طور پے محکمہ  پولیس  میں تو بس سر کو سلام ہے جتنی  بڑی   آپ کی  شفارش  اتنا ہی زیادہ آپ کو پروٹوکول  ملے گا ، میں نے اب کہا جناب ظہور  صاحب یہ ڈپٹی کا نام تھا  میں ایک وکیل بھی ہوں   اور ان صاحب کا کیس اب میں دکھوں گا میں صرف اسی کیس کے لئے  سپیشل  آیا ہوں

لہٰذا آپ ایس پی کو چھوڑیں اور جو حق سچ ہے وہ لکھیں ایس پی کو میں خود ہی دیکھ لوں گا   وہ ڈپٹی بولا سر میں آپ کو راضی کروں گا  آپ کے والد صاحب نے مجھے ایک دفع معطل ہونے سے بچایا  تھا  ان کی وجہ سے آج میں اس سیٹ پے بیٹھا ہوں  ، پھر تفتیشی سے کہا جو مثل یہاں ہی لے کر آؤ  پھر میں نے پولیس فائل میں اپنی مرضی کے بیانات  لکھوانے اور  ڈپٹی  کا بہت  شکریہ  ادا کیا ، نازش تو بہت خوش  تھی اس نے میرے اور ان لوگوں کے مانع کرنے  کے باوجود  ڈپٹی کو بھی ایک لکھ اور تفتیشی کو بھی پچاس ہزار روپے دے اور بولی شارق  میں تو لاکھوں   دینے کو تیار ہوں  ان لوگوں  نے ہماری بہت بڑی  مدد کی ہے اب تو تفتیشی نے کہا مجھے سیر میں جیسا آپ کہو  گے ویسا ہی بین بھی دوں گا اور پھر اسی کو ساتھ لے کر ہم موقع  کے گواہوں  کے پاس بھی گے  میں نے ان کو بھی اپنے طریقے  سے ڈیل  کیا وہ بھی کچھ کچھ میری بات کو  مان گ
ۓ  مجھے بس یہی چاہے تھا  میں اب ریڈی  تھا یہ کیس لڑنے کو  میں  اور نازش اب گھر آ گۓ ،

اب نازی بہت خوش تھی  ہم نے  رات کا کھانا باہر کھایا  پھر ہم کچھ دیر ایسے ہی گھومتے رہے   پھر رات کے کوئی گیارہ  بجی ہم گھر کی طرف واپس چل دے ہم تینوں ہی  نازی کی ہنڈا اکارڈ میں تھے  واپس آتے ہوے ایک  سنسان  موڑ پے میں نے جیوسے ہی گاڑی کو ٹرن دیا  سڑک پے ایک گاڑی ترچھی  کھڑی  تھی جس کی وجہ سے میں نے جلدی میں بریک  لگا دی  ورنہ میں اس گاڑی سے ٹکرا جاتا ، میرے بریک  لگاتے ہی  سڑک کے دونو طرف سے کوئی تین تین  آدمی دوڑتے ہوے ہماری گاڑی  کی طرف آے ،

ان کے ہاتھوں میں بندوکیں تھیں  انہوں نے آتے ہی ہم کو گن پوانٹ  پے لے لیا میں نے سوچا ان سے بھر جاؤں  پھر اپنے ساتھ دو لڑکیوں کو دیکھ کر چپ ہی رہا  اب ان میں  سے  ایک جس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں بولا  باہر نکلو سب  میں نے اپنی سید کا دروازہ کھولا اور کہا تم کو ن ھو اور کیا چاہتے ہو وہ بولا بتا دیتے ہیں اتنی جلدی کیوں ہے تم کو پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ان کے ہاتھ پیر باندھ کے ان کو اپنی گاڑی میں ڈال دو  اب وہ  مجھے مخاطب کر کے بولا  تم کیا سمجھتے تھے  تم آئی  ،جی کے بیٹے ھو تو  اس کو بچا لو گے  آج تم نے بڑی پھرتی  کا مظاہرہ  کیا ہے تھانے میں سب اپنی مرضی کہ لکھوا  کے  تمہارا والد ایک سابقہ آئی جی تھا  اور مجودہ بھی ہوتا تو ملک صاحب کا راستہ کیسے روک  سکتا تھا  اس لڑکی کو سمجھایا تھا ملک صاحب نے پیار سے پر یہ سمجھی نہیں اب یہ پلازے بھی دے گی اور اپنی اس ظالم جوانی سے ہم سب کو خوش بھی کرے گی ، میں نے کہا بکواس بند کر  ملک کے حرامی  پلے  اگر ہمت ہے تو سب آ جاؤ ابھی دیکھ لیتا ہوں کیا چیز ھو تم  اور تمہارے اس ملک کی تو میں یوں گانڈ پھاڑوں  گا سارا شہر دکھے گا ،

یہ سنتے ہی وہ سب مجھے گالیاں دیتے ہوے میری طرف لپکے  میں نے اس موچھل کے پیٹ میں ایک ٹانگ دے ماری  وہ درد سے دوہرا ہو گیا  اب  اس نے مجھے گالیاں دیتے ہوے اپنی گن کا میری طرف رخ  کیا  ہی  تھا  کے اسی وقت کلاشنکوف   کے چلنے کی آواز آیی اور ان میں سے دو لوگ ڈھیر ہو گے  میں نے اب ظفری کو دیکھا جو ایک طرف سے  سامنے اے تھا اس کے ساتھ  پانچ لوگ اور بھی تھے  ان کے ہاتھوں میں  کلاشنکوفیں تھیں  وہ اب آگے آیا اور کہا سوری باس  میری گاڑی کا ٹائر پنکچر  ہو گیا تھا ، میں نے کہا کوئی بات نہیں   اب  ان بچنے والے  دو میں سے ایک بولا  وہ لرز رہا تھا اب اسے میرے  پانچ آدمیوں نے گھیر رکھا تھا  وہ بولا ہم  عالم پاشا  کے آدمی ہیں ، ظفری نے اب اسے ایک تھپڑ  مارا  اور کہا ترے عالم  پاشا کی بھی  بہن چود  لیتے ہیں ذرا صبر کرو ،

ظفری  نے اب ان دونو کو باندھ لیا اور کہا باس میں ان کو عالم پاشا  کے اڈے پے چھوڑ آتا ہوں  میں نے کہا وہاں پے کچھ نشانی  بھی چھوڑ آؤ وہ اب ہنس دیا اور کہا باس ایسا ہی ہو گا ، میں نے اب اپنی گری سٹارٹ کی اور  گھر کی طرف چل دیے اب نازی نے کہا بانو مجھے یہ شارق بھی کوئی   
اچھا آدمی نہیں لگتا اور میری طرف دیکھنے لگی اب بانو نے کہا ہاں نازی یہ واقعی  اچھا نہیں ہے  پر یار اس کا لن بڑا اچھا ہے ، اتنا مزہ دیتا ہے مت پوچھو  تو نازی بھی ہنس دی میں نے کہا آج  بھی مزہ دوں گا تم دونو کو  اب کی بار بانو نے کہا میری تو قسمت ہی خراب ہے اب مزہ لینے کا موقع آیا تو یہ کمینی  میری چوت نے نیا ڈرامہ کر دیا میں اور نازی ہنس دیے  میں نے کہا نازی آج بانو کی گاند مارنی ہے اور تمہاری چوت  بانوبولی  نہ بابا نہ  مجھے سے تمہارا اتنا بڑا  لن گانڈ میں نہیں لیا جاتا ،
دونوں ہی لڑکیاں کافی بہادر  تھیں ان کی باتوں سے ذرا بھی نہیں لگ رہا تھا کے ابھی ہم ایک مشکل  سچویشن سے نکل کے آے ہیں ، اب نازی نے کہا شارق آپ کو پتہ ہے بانو بڑا اچھا ڈانس  کرتی ہے میں نے کہا اچھا جی تو چلو آج  اس کا  ڈانس بھی دیکھیں گے  اب  بانو نے کہا ٹھیک ہے یار جو مرضی دیکھ لینا بس میری گانڈ کو معافی دے دو ، میں مسکرا دیا  گھر آ کر ہم نے اپنے لباس چنج  کے اور  میں نے ان سے کہا رات والے ٹی .وی لاؤنج میں ہی آ جاؤ کینڈل لائیٹ ڈانس چلے گا آج    

اب نازی  نے  کہا ہاں تو بانو اب بولو  کونسے  گانوں پے ڈانس کرو گی  وہ بولی جو تم کہو میں نے کہا پنجابی  چلے گا وہ بولی دوڑے گا   اب نازی نے  دوسرے روم سے ایک ڈیک اور ساتھ میں اسپیکر لے آئی اب کمرے  اب کی بار وہ گی اور اس نے  رات  کے لئے کچھ سامان لا کے اسی روم میں پڑی  چھوٹی فریج  میں رکھ دیا  اب کمرے کا دروازہ بند کر کے بولی اب اس کمرے  کا دروازہ کل ہی کھلے گا  ، اور اب پنجابی گنا لگا دیا کمرہ ساونڈ پروف  تھا اس لئے آواز باہری  جا نہیں سکتی تھی ، اب نصیبو لال  کے گنو کی ڈیسک  چلا دی نازی نے اور بیٹھ  گی میرے پاس  آ کر ،   

 بانو نے  اب نازی کا بازو پکڑ کے کہا کہاں جا رہی ھو میری جان تم بھی آؤ اور مجھے کہنے لگی سچی میں شارق یہ نازی بھی میرے ساتھ برا کمال کا ڈانس کیا کرتی تھی اب نازی نے کہا یار میں بھول گی ہوں  میں نے اب کہا نازی مجھے تم دونوں کا ڈانس دیکھنا ہے اور کوئی ایسا گانا لگاؤ جس پے تم دونوں ہی ڈانس کر سکو پھر  نازی نے ایک سیکسی  گانا چنا جس پے وہ دونوں میل کے پہلے بھی ڈانس کر چکی تھیں وہ گانا واقعی کمال کا تھا میں کم ہی پنجابی گانے سنتا تھا لیکن آج  میں نے ان کا ڈانس دیکھنے کے لئے  سن ہی لیا اور گانا بھی کم نہیں تھا اس پے جو ڈانس انہوں نے کیا وہ تو غضب کا تھا میں آپ کے ساتھ بھی دوستوں  وہ گانا  شیئر کرتا ہوں  

دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
آئیاں سجرے  روپ سجا  کے پیری عشقے  دے کنگرو پا  کے
    تے ناچدیاں دو پریاں  مسمیاں رس بھریاں  ، مسمیاں رس بھریاں
دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
قاتل جوانی میری ، ہوئی دیوانی تیری ایک واری سینے لا لے
پاواں  میں ترلے پاواں ،پھر کے تو گوریاں  بانواں ،میرا حسن  چرا  لای ی
 دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
اکھیاں دے تیر چلا کے کر گیان نین لڑا کے دلاں تے  جادو گریاں
مسمیاں رس بھریاں  ،مسمیاں رس بھریاں
دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
بلیاں گلابی سجناں ، نین شرابی سجناں ،بدن بلوری میرا
آکھ نشیلی میری ،منگدی محبت تیری ،ترے ورگا کیرا
میرے پھلاں وارگے ہاسے ،انج لگدا جویں ہر پاسے چلن پھلچڑیاں
مسمیاں رس بھریاں  ،مسمیاں رس بھریاں
 دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں
 دوویں رل کے جوانی چھڑیاں مسمیاں  رس بھریاں

اب میں ان کا اس گانے پے سٹیپ بائی سٹیپ  ڈانس کرنا کا آپ کو کیا بتاؤں مجھے اتنا مزہ آیا کے میں کہ نہیں سکتا  وہ اس ڈانس کے  دوران جب آپس میں اپنی اپنی چھاتی  کو ٹکراتی  تو میرا لن تو جیسے پگھل ہو جاتا اب وہ دونو ہی تھک کرمیرے  پاس آ کر لیٹ گئیں میں نے اب نازی کی چھاتی پے ہاتھ  رکھا جو سانس پھولنے   کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھیں  میں نے  کہا یار تم دونوں  تو کمال کا ڈانس کرتی ھو وہ  ہنسنے لگیں  پھر ایسے ہی  لیٹے رہنے  کے بعد  پہلے  نازش اٹھی اور واش روم  میں چلی گی میں نے بانو کی طرف دیکھتے ہوے کہا بانو  تمہاری گانڈ مجھے بڑا مزہ دے رہی تھی ، وہ اب ہاتھ جوڑ کے بولی شارق یار میری اس معصوم سی گانڈ نے کیا بگاڑا  ہے تمہارا اسے معاف  کر دو میں نے کہا چلو ٹھیک ہے بس ایک دفع ہی ڈالوں گا اندر  وہ اب ہلکی سی آواز میں  چیخ  کر  بولی  شارق آئی  کل  یو  اور میرے گلے لگ کے میرے ہونٹ چوسنے لگی  وہ اب ایک ہی بات کر رہی تھی  کے اس کی گانڈ کا نام نہ لوں  پھر کوئی دس منٹ بعد  نازی واش روم سے باہر آئی  وہ نہا  کے  آئی تھی  بانو نے کہا  اب کیا ہوا تھا وہ بولی   یار مجھے گرمی لگ رہی تھی  میں نے کہا میرے پاس آؤ نہ آپ کی گرمی دور کروں  وہ ہنس کے میری گود میں ہی بیٹھ گی ،  

میں نے اسے کے مممے  پکڑ لئے اور کچھ زور سے دباے وہ  آ ی س س س  کر اٹھی  مجھے کہا کیوں ظلم  کرتے ھو جانو ان پے میں نے اس کی گردن پے کس کرتے ہوے کہا ظلم  کیا    ہوتا ہے آج  بتاؤں گا تم کو وہ ہنس دی پھر میں نے ایسے ہی اس کی گردن پے کس  کرنی شروع  کر  دی اور بانو کی گانڈ پے ہاتھ پھیرنے لگا   پھیر  میں نے نازی کو سائیڈ پے لٹا دیا  اور اس کی قمیض اور شلوار دونو ہی اتار دی   اب میں نازی کے مممے چوس رہا تھا اور  بانو میرا لن چوسنے لگی میں نے بانو  سے کہا  چلو تم اپنی گانڈ  نازی کی طرف کرو اب نازی نے بانو کی گانڈ کے سوراخ پر اپنی  زبان رکھی اور اسے ہلکے سے چومنے لگی میں نے بھی اب مزے سے نازی کے ممے کی نپل کو ہلکا سا کاٹ لیا اور پھر  اسے چوسنے لگا   میرا لن اب بانو نے چوس چوس کر  فل   سخت کر دیا تھا اور میں اپنا ایک ہاتھ  نازی کی چوت پے رکھا ہوا تھا اور ہلکے ہلکے ایک انگلی اندر باہر کر رہا تھا  اس کے مممے بھی چوس رہا تھا اور وہ مزے سے بانو کی گانڈ   کو چاٹ رہی تھی  ہم تینوں ہی اب مزے میں تھے  پھر ایسا ہی ہم نے دس منٹ تک ایک دوسرے کو چوما ،

اب بانو نے  کہا شارق اب برداشت نہیں ہو رہا کچھ کرو نہ  میں  اب اٹھا اور بانو کے پیچھے جا کر اپنا لن اس کی گانڈ میں فٹ کیا اور ایک ہی دھکے سے سارا اندر کر دیا وہ دادر سے چیخ اٹھی  اور بولی شارق پلیز اسے باہر نکل لو مجھ سے نہیں برداشت ہو گا  میں نے اب نازی سے کہا ذرا پیار کرو بانو  کو اب نازی نے بانو کو کس کرنا شروع کر دی اور میں  نے اب زور  سے دھکے مارنے میں نے کوئی دس منٹ تک بانو کی گانڈ کو چودہ وہ  کبھی مزہ سے سسکریاں بھرتی اور کبھی چیخنے لگتی  پھر وہ زوردار آواز سے چیخی اور فارغ ہو گی ، اب وہ مجھے کہنے  لگی شارق بس کرو نہ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا  اب نازی کو بھی اس پے ترس آ گیا وہ بولی اب میرا بھی کچھ کر لو یار

  میں نے اب بانو کو علیحدہ  کیا اور نازی کے اوپر لیٹ  گیا ممیں ے اب نازی کی ٹانگیں اٹھا کے اپنا لن اس کی چوت پے رکھا اور  اندر ڈال دیا  وہ س س س س س  کر اٹھی میں اب نازی کو بنا رکے  بڑی سختی کے ساتھ چود رہا تھا   میں نے بانو کے ہونٹ چومنے  شروع کیا اور  نازی کی چوت  میں لن اندر باہری کرنے لگا  نازی اب میرا ساتھ بس پانچ منٹ تک ہی دے سکی  وہ جھڑ گی   میں بنا رکے اسے چودتا رہا  وہ اب  مزے سے آہیں  بھر رہی تھی  اب بانو نے  اس کے مممے چوسنے  لگی   اور میں نے اس کی دونوں ٹانگوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا میں اب اپنا لن بھر نکلتا صرف ٹوپی اندر رہتی اور ایک جھٹکے سے دوبارہ اندر کر دیتا ،  اس طرح  نازی کو بہت مزہ آ رہا تھا وہ اب کہنے لگی شارق مجھے بھی آج ایسے چودوں کے میں یاد کروں ،  

 میں نے اب  نازی کی ایک ٹانگ نیچے کی اور ایک اٹھا
ۓ  رکھی اب اس طرح  نازی کی چوت کا سوراخ کھل کے میرے لن کی سامنے تھا  میں نے اب دھکوں کی بارش کر دی نازی کی چوت میں  نازی ایک دفع  پھر سے جھڑ گئی تھی اب مجھے نازی کو چودتے ہوے بیس منٹ ہو گے تھے اب اسے ہلکی ہلکی درد سی محسوس ہونے لگی  پہلے تو وہ برداشت کرتی رہی لیکن پھر اس نے مجھے کہا شارق کچھ دیر  رک جاؤ جانو میں نے بنا رکے ہی دھکے لگاتا رہا  اب وہ کچھ بچیں سی ہونے لگی تھی مجھے  پھر اس کی چیخیں سارے کمرے میںگونجنے  لگی ، اب کی بار میں نے اسے الٹا کیا اور لن کو اس کی گانڈ میں ڈال دیا  اس کی گانڈ کا سوراخ خشک تھا  اس لئے مجھے بھی کلچ درد سا ہوا لیکن میں نے سارا ایک ہی جھٹکے سے اندر کیا تو نازی  نے ایک چیخ ماری ماں ہا اے  میں مر گیئی  شارق آرام سے کرو کیا ہو گیا ہے تم کو  میں نے اس کی کسی بات  پے غور نہ کیا  اور اس زورو سے چودننے لگا ،

اب کی بار  میں نے نازی کے اپر لیٹ کر اسے پیچھے سے خوب چودہ وہ اب درد سے چیخ  رہی تھی میرے تو جیسے کان ہی بند ہو گے تھے مجھے ایک دفع بانو نے بھی کہا شارق پلیز یار رک جاؤ  کچھ دیر  میں نے  اس کی بات بھی نہ سنی اور اتنا چودہ نازی کو گانڈ سے کے اس کی گانڈ  نے اب لہو چھوڑنا  شروع کر دیا تھا اور نازی کا  چیخ چیخ  کر گلہ بیٹھ گیا تھا  میں نے ایک گھنٹے تک نازی کو بنا رکے گانڈ اور  چوت سے چودا اب میں بھی قریب ہی تھا میں  نے اب اپنا لن ایک دفع باہر نکالا اور ایک  دھکے سے جر تک نازی کی چوت میں ڈال کے  دو تین دھکے ہی مارے تھیے کی مین بھی اس کی چوت میں فارغ ہو گیا ،

نازی اب بیہوش ہو چکی تھی اس کی گانڈ سے ابھی بھی لہو کے قطرے گر رہے تھے  بانو نے میری طرف دیکھا اور کہا شارق تم اتنے وحشی ھو میں بتا نہیں سکتی دیکھو کیا حال کیا ہے معصوم کا تم نے  ، توبہ ہے بندہ اتنا بھی ظالم نہیں ہونا چاہے  پھر وہ بھی رونے لگی میں نے کہا بعد میں رو لینا جاؤ پہلے  کچھ پانی گرم کر  کے لاؤ وہ گی ا اور پانی گرم کر کے لے ای اب  میں نے اسے کہا اسے روئی سے صاف کرو اس کی گانڈ کو  بانو  نے نازش کی گانڈ کو روئی سے صف کیا اس کے چہرے پے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے  اب کچھ کچھ  ہوش  آ رہا تھا نازی کو  جب اس نے آنکھ کھولی  تو وہ میری طرف دیکھ کے بولی  شارق  مجھے بہت درد ہو رہا ہے میں مر جاؤں گی ، میں نے اسے اگی بڑھ کے اپنی بانہوں میں لیا اور  اس کے ہونے چوما کے کہا کچھ نہیں ہوتا جانو  تم کو  پھر اسے کہا بانو کو بتاؤ پین کلر  کی گولیاں کہاں ہیں  پھر  بانو کو بتایا نازی نے وہ اب ایک ایمرجنسی  مڈیکل  باکس  اٹھا کے لے آئی  اب نازی نے اسے  بتایا مجھے کون کون سی گولی دو  نازی نے کوئی تین چار مختلف گولیاں اور کپسول  کھاے  اب وو میرے سننے میں اپنا منہ کے ہلکی آواز میں کراہ رہی تھی اب آہستہ آھستا   اسے درد کا آرام آنے لگا اور وہ  اب سکون سے  لیٹ گئی میں  بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا  میرے ایک طرف بانو تھی اور ایک طرف نازی  ہم تینوں  ہی ننگے لیٹے ہوے تھے،   

میں نے نازی  کو اپنی بانہوں میں لیا ہوا تھا اور بانو نے مجھے پیچھے سے  جپھی ڈالی ہوئی تھی میری کمر میں بانو کے مممے چب رہے تھے اور چھاتی پے نازش کے مممے   میرا لن اب پھر سے  کروٹیں بدل رہا تھا  پھر ایک  زور دار  پھنکار کے ساتھ ہی میرا لن اب کھڑا ہو  گیا اور سیدھا نازی کی چوت  پے جا کے سلامی دی  
نازی اب  ٹھیک تھی وہ ابمیری آنکھوں میں دیکھ کر بولی  شارق وہ بدتمیز پھر مجھے تنگ کر رہا  ہے میں نے کہا  وہ اب دستک دے رہا ہے دروازہ کھولو  اپنی چوت  کا اس نے اندر  جانا ہے  وہ اب مجھے بہت پیر سے ایک زور کی جپھی ڈال کے بولی  میں نے کب روکا ہے اسے اندر آنے سے پر جان وہ غلط راستے سے آتا ہے  اسے کہو نہ وہ سیدھے راستے سے آیا جایا کرے میں نے کہا ابھی تو وہ  سدھے راستے پے ہی کب سے دستک دے رہا ہے  وہ اب سسک کے بولی س س س س  یہ لو جانو اور میرا لن اپنے ہاتھ سے پکڑ کے اپنی چوت کے سوراخ پے سیٹ کیا اور دھرے سے دھکا لگا کے اسے ادھے سے زیادہ اندر لے لیا ، ہاہ  اآھہ ا ف ف ف ف شارق  اور میرے ہونٹ چومنے لگی  اب وہ تھوڑا تھوڑا کے کے سارا ہی اندر لے گئی  اور مجھے کہا آپ نیچے لیٹو میں آپ کے اوپر  آ کر اسے اپنی چوت کے اندر سارا گھر دکھاتی ہوں  اور میرے اپر آ گئی اب وہ میرے لن پے بیٹھ کر اوپر نیچے ہونے لگی  ،

اب میں نے بانو کو  پکڑا اور اسے اپنے  اپر کی طرف کھینچا تو اس کے ممے میری چھاتی پے آ گے اور ہونٹ میرے ہونٹوں کے سامنے میں اب  بانو کے ہونٹ چوسنے لگا   نازی خود ہی لن کے اوپر نیچے ہو کر اندر باہر کر رہی تھی  اور میں بانو  کے مممے  چوس رہا تھا  پھر میں نے بانو کے ہونٹ چوسنے شروع کر دیے  اور بعد میں اپنی زبان  بانو کے منہ میں ڈال دی وہ اسے چوسنے لگی  اب نازی نے  سائیڈ  بدلی  اب وہ میری طرف کمر کر کے  اپنا منہ میرے پاؤں کی طرف کیا  اور پھر سے میرے لن پے بیٹھ گئی اب وہ  میری ٹانگوں پے اپنا ہاتھ پھیرتے ہوے  میرے پاؤں تک جاتی  پھر اس نے  اپنے ممموں سے میری ٹانگوں کو مساج کرنا شروع کیا اب وہ میرے لن پے بیٹھی بیٹھی ہی  میرے پاؤں کیطرف لیٹ گئی اور میرے ایک  پاؤں کا انگوٹھا  منہ میں لے کر چوسنے لگی  واکبھی میری انگلیاں چاٹ تی    کبھی چوستی  مجھے اب بہت مزہ آ رہا تھا   میں بانو کی کمر پے ہاتھ پھیر رہا تھا اور اس کی چوت کو مسل رہا تھا ایک ہاتھ سے  اب بانو کا جسم کانپنے لگا کیوں کے میری انگلی  اس کی چوت کے دانے کو  مسل رہی تھی مسلسل  اور اس کی زبان بھی میں چوس رہا تھا  اب وہ ایک  ہلکی سی کراہ  کے ساتھ ہی فارغ ہو گئی ،   

اور میرے ہاتھ پے ہی اس کی چوت کا پانی گرنے لگا  اب وہ تھک  کے ایک طرف ہو کر لیٹ گئی نازی بہت مستی میں میرے لن کے اوپر بیٹھ کے اوپر نیچے  بھی ہو رہی تھی اب اس نے اپنے ہاتھ میرے گھٹنوں پے رکھے اور زور زور سے اوپر  نیچے ہونے لگی اب میںبھی جب وہ اوپر ہو کر  نیچے  آتی میں زور سےاوپر  کی طرف دھکا مارتا ایسے میرا لن جھڑ تک اس کی چوت میں چلا جاتا وہ اب مزے میں تھی  اور  اس نے  اب کی بار اپنی مرضی سے  میرا لن  اپنی چوت میں لیا  جیسے اس کا دل کیا اسی سٹائل میں لیا  وہ اب کی بار خوش تھی اور اسے مزہ بھی خوب آیا پھر اس نے میری طرف اپنا منہ کیا اور میرے اپر گر گئی اب وہ میرے ہونٹ چوسنے لگی وہ  فارغ  ہو رہی تھی پھر میںنے بھی کچھی جھٹکوں میں اپنا سارا پانی اس کی پھدی میں ہی چھوڑ دیا ، وہ اب میرے اوپر گر کے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی  پھر میں  نے اسے  اپنے ساتھ لپٹا لیا اور یوں ہی لپٹے ہوے ہنم سو گے ،  

پھر میری جب آنکھ کھلی تو نازی اور بانو دونو ہی سو رہی تھیں  میرا لن ویسے ہی نازی کی چوت میں تھا میںنے وہ باہر نکالا تو  ایک اھا کی آواز نکل گئی نازی کی منہ سے اور اس کی آنکھ کھل  گئی میں واش روم گیا  اور اچھے سے نہا کے باہر نکلا  اب دونوں ہی اٹھ گئی تھیں  بانو نے ٹائم دیکھا  تو دِن کے گیارہ  بج رہے تھے اتنے میں انٹرکام  کی بیل باجی اور نازی نے ریسیور  اٹھایا اور کہا ہاں   بولو  گل خان   تو آگے سے گل خان نے اسے جو بتایا وہ سن کے  اس کے چہرے پے غصہ آنے لگا  وہ بولی ابھی بیس منٹ تک ان کو روکی  رکھو  اور پھر ان کو لے آنا ڈرائنگ روم میں  میں نے پوچھا  کیا ہوا ہے  تو کہنے لگی مالک ریاض آیا ہے  اپنے ساتھ  پولس لے کر  میں  نے اب جلدی سے اپنے کپڑے پہنے اور کہا  آنے دو  پھر بیس منٹ تک ہم تینوں ہی تیار ہو گے  اور ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھ گے  اب گل خان  کے ساتھ چار آدمی کمرے میں داخل ہوے  ان میں سے ایک کافی گورے  چٹے  رنگ  کا شخص تھا  جس کے چہرے سے ایک رعونت صاف نظر آ رہی تھی  وہ بولا اندر آتے ہی مس نازش لگتا ہے  تم کو میری بات سمجھ نہیں آئی  اب نازی نے کہا ملک صاحب کونسی بات وہ زیر لب  ایک گالی دے کے بولا  ووہی  پلازے  بچنے والی بات نازی نے کہا میں کیوں  بیچوں اپنی پراپرٹی  ہاں اگر آپ نے اپنا  نیا پلازہ بیچنا  ھے تو میںخریدنے  کو تیار ہوں وہ بولا    ھھم تو تم کو کسی اور طرح سے ہی سمجھانا پڑے گا ، اب میں نے کہا نازی کون ہے یہ  وہ بولی یہ ملک ریاض ہیں  جن کو شوق ہے لوگوں  کو لوٹنے کا اب میں نے کہا ملک صاحب  اگر وہ نہیں بچ رہی تو کوئی زبردستی ہے کیا  اب وہ میری طرف دیکھ کے بولا ہاں ایسا ہی سمجھ لو ،

یہ سن  کے تو میرا بھی دماغ گھوم گیا میں نے  اب کہا  ملک صاحب  آپ کے پاس  تین منٹ  ہیں یہاں سے اپنی یہ منحوس شکل  لے کر دفع ہو جاؤ ورنہ  میں تم کو ننگا کر کے دوڑاؤں گا اسی شہر کی سڑکوں پے یہ سنتے ہی وہ تو گنگ  ہی رہ گیا  آج تک اسے کسی نے ایسے  نہیں بولا تھا وہ بولا تم نے یہ لفظ بول کر اپنی زندگی کے دِن  گھتا لیےہیں اور اپنے  ساتھ  بیٹھنے  ایک   آدمی سے کہا  اسے ڈوگر صاحب  ذرا اپنی زبان میں  سمجھاؤ اب کے وہ شخص  بولا  اوے  چل معافی مانگ  ملک صاحب سے ورنہ  ابھی تم کو ننگا  کر کے تھانے میں لے جاؤں گا  میرا نام عارف ڈوگر  ہے  میں ایس پی  پولیس ہوں  میں نے ہنس کے  اس کی طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ  کی دو انگلیوں میں ذرا سا فاصلہ کر کے کہا تم اتنے سے  ایک پولیس  افسر ہو   تم مجھے کیا ننگا کرو گے میں تمہارے بھاپ  آئی ،جی  کا بیٹا ہوں، یہ سنتے ہی وہ اور ملک دونوں  ہی چونک گے اور کہا اچھا تو تم ہو وہ وکیل شارق شاہ  سابقہ آئی  ، جی کے بیٹے   میں نے کہا ملک تین منٹ پورے ہونے میں  صرف چالیس سیکنڈ  رہ گے ہیں اور تمہارا وہ مومی بدمعاش  عالم  پاشا  مجھے اچھی طرح جانتا ہے  سری زندگی مجھ سے جوتے   کھاتا رہا ہے وہ یونی ورسٹی  میں ذرا اسے پوچھ تو سہی کل جو بندے اس نے بیجھنے تھے ان کا کیا بنا ہے ، اب ملک نے کہا تو رات کو تم نے  وہ سب کیا ہے  سن رہے ھو ڈوگر صاحب  اسی نے مارا ہے ان چار لوگوں کو ، اب ڈوگر نے کہا  اسے میں دیکھ لوں گا آپ آؤ ملک صاحب  اب کل  کی تاریخ بھی ہے اس لڑکی کی عدالت میں ذرا اس کی ایک دفع بیل  کینسل ہو جاتے  پھر دکھوں گا میں اس لڑکی کو ،

اور اٹھ کے باہر کی طرف چلے گے  اب نازی نے کہا شارق کل کی ڈیٹ ہے  میںنے کہا ڈونٹ واری  میں ہوں نہ اور پھر ہم نے مل کے کھانا کھایا  اس کے بعد میں کچھ کام سے باہر بازار کی طرف گیا  تی راستے میں مجھے ظفری نے بتایا کے کل رات کو اس نے چاروں آدمیوں کو  مردہ حالت میں عالم پاشا کے گھر کے سامنے ہی پھینکا تھا  میں نے کہا سہی ہے اب اور بھی محتاط  رہو  وہ بولا آپ فکر نہ کرو ،میں اب گھر آ یا اور اس رات میں نے ایک علیحدہ کمرے میں بیٹھ کر اس کیس کی فائل کو اچھے سے پڑھا اور اپنی تیاری کی  میں نے چھ سات گھنٹے لگا کے  اپنی مرضی کے مطابق پوائنٹ  تیار کر لئے  میرے ساتھ ہی بانو اور نازی بھی جاگتی رہی  وہ مجھے ہر گھنٹے بعد تازہ چا
ۓ دے جاتی تھیں باری باری  پھر میں ان کے پاس ا آگیا اور  ہم نے ایک دوسرے سے  جپھی ڈالی اور سو گۓ، اگلی صبح  میں ٹائم سے ہی اٹھ گیا  اور ہم جلدی جلدی ریڈی  ہو کے کورٹ میں پوھنچ گۓ ، ہوامرے کیس کا چوتھا نمبر تھا، ابھی جج صاحب  نہیں بیٹھنے تھے ، پھر میں نے  ایک جیپ سے ملک ریاض کو اترتے  دیکھا اس کے ساتھ ڈوگر  بھی تھا  پھر آگے پیچھے  ہی کوئی چار گاڑیاں روکیں  اور ان میں سے  وہ وکیل اترے جن کا بڑا  نام تھا  اور لوگ ان کی مثال دے کر کہتے تھے  وہ جس کیس میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں پھر جیت انہی کی ہوتی ہے  ان کو دیکھ کر اب نازش نروس  سی ہو گئی تھی وہ بولی شارق  یہ تو بارے مشھور لوگ ہیںوہ سب ووہی کھڑے تھے شاید ان کو کسی  کا انتظار تھا  پھر ایک گاڑی آئی اور ان کے پاس ہی کھڑی ہو گئی  اس گاڑی میں سے  فرحاں ڈار  اترا وہ سب ایک دوسرے کے گلے ملے ، اب سب حرام خور نازی کی کروڑوں  کی جائیداد کو ہڑپ  کرنے کے لئے  اکھٹے   ہو گۓ تھے وہ اب سب ہی کورٹ کی طرف  جانے لگے ، اسی وقت میرے کندھے پے کسی نے ہاتھ رکھا  میں نے پلٹ کے دیکھا وہ شیخ صاحب تھے  یہاں کی بار کے صدر  وہ بولے یار مجھے تو بعد میں تمہارے بارے میں  اکرم گوندل  صاحب نے بتایا تھا وہ ہمارے  شہر کے بار صدر تھے سابقہ  میں نے کہ بس شیخ صاحب ان کی محبت ہے  وہ ہنس کے بولے

عاشق ۔ آٹھویں قسط


عاشق

آٹھویں قسط

تحریر: ماہر جی


اب بانو نے ان سے ملو نازی یہ  ہیں شارق صاحب وکل ہیں اور شارق یہ میری دوست ہے نازش  میںنے کہا اب مجھے یہ سمجھنہی ا آرہی کے انکے نام کی تعریف کروں یا ان کی  آج ان کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے نازش نام ہی انہی کے  لئے رکھا گیا ہے  وہ اب ہنس دی اور کہا تھننکس اس انداز میں تعریف کے لئے  اب ہم اس کے ساتھ اندر  چل دے بنگلہ باہر سے بھی پیارا تھا اندر سے تو  کمال کی سیٹنگ تھی  ہر شہ سے جھلک رہی تھی  امارت  وہ ہم کولئے ایک کافی بڑے  سے ڈرائنگ  روم میں آ گئی   اور کہا بیٹھیںآپ پلیز  وہاں پے بہت   ہی بیسٹ  کوالٹی  کے صوفے تھے  ہم ایک صوفے پے بیٹھ گے اب  نازی بھی ہمارے ساتھ ہی بیٹھ  گئی  اتنے میں ایک  ملازمہ  ایک ٹرے میں کولڈ ڈرنک  لے کر آ گئی  ہم ڈرنک کرنے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے مجھے یہ  حسمکھری  سی لڑکی نازی بہت اچھی لگی  اس کے مممے تو کمال کے تھے بہت ٹائٹ  اور کس ہوا بدن تھا اس کا  وہ اب بولی  ہاں اب کھانے  میں کیا چلے گا میں نے کہا جو مل جائے  میں تو کھا لوں گا  اب بانو میری بات کو سمجھ گئی اور کہا شارق  قسم سے کتنے ندیدے ھو تم  نازی کوکچ سمجھ نہ آئی  وہ ہم دونوں کے منہ دیکھنے لگی اور کہا یار یہ کیا رمز  میں باتیں  کر رہے ھو صاف بولو نہ

اب بانو نے  کہا صاف یہ  ہے  کے  یہ تم کو کھانے کی بات کر رہا تھا  یہ سن کر نازی شرما  کے بولی بانو تو بھی نہ کبھی نہیں بدلے گئی  اور ہنس دی اب ہم نے ایک شاندار سی میز پے بیٹھ کے ایک شاندار اور مزے دار  کھانا کھایا  پھر ووہی بیٹھ  کے ہی  چاۓ پی  اور بعد میں ہم ٹی.وی  لاؤنج  میں  آ کر بیٹھ گے  وہاں پے نیچے  ایک بہت نرم اور موٹا قالین بچھا تھا  جس پے پاؤں رختے ہی نیچے کو دھنس  جاتے تھے اور وہاں پے گدے  بھی تھے رکھے ہوے وہ دونو صوفوں کی طرف  جانے لگیں تومیں نے  کہا یار میں تو یہی نیچے ہی بیٹھوں گا  اور پہلیمیں اپنا لباس چینج کروں گا  اب نازش  مجھے لے کر ایک بیڈ روم   کی طرف آیی  اور مجھے  ایک مردانہ نائٹ سوٹ دیا  جو بہت نرم تھمایننے وہ بدلہ اور باہر آ گیا  اب میں  ایزی   ہو کر باتھ گیا اب مجھے نیچے  باتھے دیکھ کر وہ بھی نیچے ہی آ گئیں پینٹ کے ساتھ  نازی سے بٹھا نہیں جا رہا تھا  وہ بھی اپنا لباس چینج  کرنے چلی گئی بانو کو ساتھ لے کر میں وہاں اکیلا  لیٹ  کر کمرے کی ڈیکوریشن  دیکھنے لگا  واقعی  میں نازی نے گھر میں ہر چیز بہت  مہنگی اور  بیسٹ کوالٹی کی رکھی تھی

وہ دونو کافی دیر تک نہیں آییں میں  اب ان کے آنے کہ انتیظار کرنے لگا  پھر وہ دونو ہی ہنستی ہوئی آ گیں  اب ہم وہاں قالین پے ہی گدوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گے  میں نے کہا ہاں نازی پہلے اب تم اپنا مسلہ  بتاؤ وہ کہنے لگی  شارق میرے پاپا ایک بارے بزنس مین  تھے اس شہر کے  انھوں نے  ایک سات منزلہ پلازہ  بنوایا تھا اس شہر کے سب سے مہنگے ایریے میں  جو ایک ملک ریاض نامی  بندہ خریدنا  چاہتا تھا  جو کے پاپا نے نہ بیچا  پھر بعد میں پاپا نے ایک اور بنا بنایا پلازہ  خرید لیا اب اتفاق کی بات ہے اس پلازے کو  ملک ریاض بھی خریدنا  چاہتا تھا جو اسے نہ ملا اور پاپا  نے لے لیا پھر  ایسے ہی چلتا رہا  پاپا اور ملک ریاض میں ضد سی لگ گی تھی  جگہ خریدننے کی انہی دنو پاپا کو ایک  اٹیک  ہوا اور پاپا اپنی جان کی بازی ہار گۓ

میں ان دنوں اپنے ہوسپٹل میں بزی  تھی کیوں کے وہ نیا نیا سٹارٹ کیا تھا   میں نے میںنے وہاں چوٹی کے ڈاکٹر کو جمع کیا ہوا ہے منہ  مانگی فیس دے کر،   میرے پاپا  اکیلے ہی بھائی تھے اس لئے  پاپا نے دور نزدیک کے رشتہ داروں کو کبھی لفٹ نہیں کرائی  ان کے مرنے کے بعد سب ہی میرے پاس  آگے  سب کو پٹ تھا میں اکلوتی  وارث ہوں  ان کی کروڑوں  کی جائداد کی  اب سب ہی مجھ سے ہمدردیاں جتانے لگے ، میں نے بھی کسی کو اہمیت نہ دی  اور تنگ آ کر سب ہی پیچھے ہٹ گۓ   اب انہی دنوں میں میرے ہوسپٹل میں  ایک مریض  لایا گیا  جو کے کافی زخمی  تھا اسے کوئی بیس کے قریب گولیاں لگی تھیں  وہ ہوسپٹل میں آتے ہی کچھ ہی دیر میں مر گیا ،  پھر  وہاں پے پولیس کی گاڑیاں آ گیں اور ایک ایس پی  نے جو ان کو لیڈ  کر رہا تھا مجھے کہا تم نے ایک  اشتہاری کو  پناہ دی ہے  اور میرے اوپر  اس کو پناہ دینے  کا پرچہ  کاٹ دیا  میں نے بھی کافی کوشش کی اور  اپنی ضمانت کروا لی  لیکن جو بندہ مارا گیا تھا  وہ ایک گینگ کا لیڈر تھا جو اغوا  براۓ تاوان اور ڈکیتیوں کے  کافی سارے کیسوں میں ملوث تھا ، اب صورتحال یہ ہے کے  مجھے ملک ریاض نے کال کی اور کہا  یہ سب اس نے کروایا  ہے اگرمیں اسے دونو پلازے  جو اس وقت کوئی ستر کروڑ  کےہیں صرف بیس کروڑ  میں بیچ  دوں تو وہ یہ کیس ختم کرا دے گا ورنہ کوئی وکل میرا کیس نہیں لڑے گا ،

کیوں کے اس کے ساتھ بارے بارے وکیلوں کی ایک فارم ہے جس میں ریٹایرڈ جج بھی ہیں  جو اب وکالت  کرتے ہیں  ابمیں جس وکیل کے پاس جاتی ہوں اسے وہ لوگ کہہ دیتے ہیں وہ انکار کر دیتا ہے ، میں نے کہا کوئی بات نہیں اب میں آ گیا ہوں نہ سب ٹھیک کر لوں گا پھر ہم  نے اب اپس میں بات چیت شروع کر دی  اب بنو نے کہا شارق ایک گیم  کھیلتے ہیں اور ساتھ ہی چلا کر کہا وہ والی نہیں ظالم ، تونازش بھی ہنس دی اور کہا شارق آپ نے تو میری سہیلی کو زخمی کر دیا ہے پیچھے سے   میں  سمجھ گیا اسے سب بتا چکی ہے بانو میںنے بھی کہا  یار اس کا پیچھا ہے ہی اتنا زبردست کے مجھ سے رہا نہیں گیا ،

اب نازش نے کہا گیم ہو گی الفاظ کی  میں ایک شعر کہوں گی اور اس کا آخری لفظ  جو ہو گا اس سے ہی اگلا شعر بانو کہے گی  اور اس کے شعر  سیاگے شارق آپ اب جو ہارے گا  وہ جیتنے  والے کی بات ماننے گا اور یہ ونر کی مرضی ھو وو ہارنے والے کو جو مرضی سزا دے اگر میرے کہے ہوے شعر کے جوابمیں بانو نہ شعر کہہ سکی تو یہ حری اور میں جیتی  اور سمے ایسے ہی ہو گا میں نے کہا مجھے قبول ہے  اب نازش  اپنی جگہ سے اٹھی اس  نے کمرے کے چاروں کونوں  میں  بڑی بڑی موم بتیاں  جلا دیں اب کمرے میں کوئی دس عدد موم بتیاں جل رہی تھیں جو کے کافی بارے سائز کی تھیں  اب اس نے ساری  لائٹس  بجا  دیں  اب بس  کمرے میں   کینڈل لائٹ تھی  یہ سارا ماحول اب بہت   رومانٹک  ہو گیا تھا ،


پہل اب نازش نے ہی کی
یہ تو دیکھو کہ تمہیں لوٹ لیا ہے اس نے
 اک تبسم پہ خریدار کے گن گاتے ہو  ~~
اب بانو کی باری تھی  h سے شعر کہنے کی وہ بولی

ہم  وفائیں  کر کے رکھتے  ہیں وفاؤں  کی امید
دوستی میں اس قدر سوداگری  بھی جرم ہے  ~!
اب میری باری تھی   اور لفظ  پھر ایچ  ہی آیا تھا سو میںنے بھی کہا

ہم  نے مانا کے  تغافل  نہ کرو گۓ  لیکن
ہم  خاک  ہو جایئں گۓ تجھ کو خبر ہونے تک
اب لفظ ک  آیا تھا اور نازی نے اب کہا

کیا  کریں اپنا تو مذہب ہی محبت  ہے تراب
پھر میری جان ہیں  یہاں لوگ  بھی  پیارے پیارے
اب بانو کے حصے میں لفظ  ی  آیا تھا
یاد رکھنے کے لئے اور نہ بھلانے کے لئے
اب وو ملتا ہے  تو بس رسم نبھانے کے لئے
اب میرے حصے میں بھی ی ہی آیا تھا

یہ لوگ کس منزل کی بات کرتے ہیں
ہم مسافروں کے لئے تو راستہ ہی کافی  ہے
اب پھر سے نازی کے ہسیمیں بھی ی ہی لفظ آیا تھا وہ سوچ  رہی تھی ، پھر  میں نے کہا جلدی   جلدی  اتنا سوچنا  نہیں ہے  اب اس نے اپنی ہار ماں لی میں  نے اب  بانو سے کہا تم ی سے کوئی شعر  سنو وہ بھی کہنے لگی نہیں آ رہا  اب وہ دونو ہی ہار گئی تھیں  میں نے کہا  ٹھیک ہے میں جیتا ہوں  اب تم  دونوں  ہی  ایک دوسری  کو تین منٹ تک کس کرو گئی وہ یہ سن کر  بولی ٹھیک ہے اب   نازی نے بانو کے ہونٹوں کو چوسنا شروع  کر دیا   اب نازی کا ہاتھ  بانو کی چھٹی پے تھا وہ اس کے مممے مسل  رہی  تھی اور بانو اس کے  کوئی تین  منٹ تک وہ ایک دوسری کو کس کرتی رہیں اب وہ دونوں ہی کچھ گرم ہو گیں تھیں ،


اب نازو نے کہا شارق   اب تم ایک آخری  شعر  کہو گۓ بس  اور نہیں  میں نے اب کہا چلو ٹھیک ہے وہ بولی کوئی ایسا شعر  کہو جس کو سن کے میں پگھل ہو جاؤں  میں نے اب کہا
بہت خاص ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ہم اپنا کہتے  ہیں
چلو تم کو اجازت ہے  کے تم انمول ہو جاؤ
 یہ کہہ  کر میں نے  نازو کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا اور اس  کے رس بھرے ہونٹوں پے ایک کس کر دی وہ تو ہکا بکا رہ گی  اور بولی  تم  تو واقعی  میں کمال کے بندے  ھو  اب بانو نے کہا نازی کچھ پینے پلانے کو لاؤ اب  پھر مجھے دیکھ کر بولی شارق کیا پیو گۓ  

پھر نازی کچھ کھانے پینے کا سامان لینے چلی گئی  اور میں نے بو کو اپنی بنھونمیں بھر لیا میں اس کے ہونٹ چوس  رہا تھا  کے اچانک  وہ درد سے  دوہری ہو گئی  میں نے کہا کیا ہوا ہے یار وہ اٹھی اور کمرے سے بھاگ گئی ، پھر کافی دیر کے بعد  نازی آیی اور کہا  یار بنو کے مینسیز ہو گۓ ہیں  میں نے کہا دھت ترے کی  وہ ہنس دی اور کہا یہ  کیا بات ہوئی اب بھلا اس بیچاری کیا کیا قصور اس میں  میںنے کہا  وہ بیچاری ہیکہان وہ بولی ایک تو اسے درد ہو رہا ہے دوسرا وہ اب شرما رہی ہے تم سے  میں  اس کے  ساتھ ہی  اب بانو کے پاس گیا وہ  مجھے دیکھ کر شرما گئی اور کہا سوری  یار  میں بھی اب ہنس  دیا اب میں نے کہامیں بھی اب سونا چاہتا ہوں اور اب  نازی نے کہا آؤ میں آپ کو اپپ کے کمرے میں چھوڑ آؤں پھر مجھے  ایک باد روم میں لے آیی  اور کہا آپ یہاں سو جایئں  اور بھر جانے لگی پھر پلٹ کے پوچھا شارق آپ کچھ لیں گۓ اب میں وہ پینے کے لئے کولڈ ڈرنک اور کھانے کا سامان  وہاں ہی رکھ آئی  ہوں ابھی لائی  میں نے اب اس کا بازو پکڑ لیا اسے اپنی طرف کھینچا وہ ابمیری بانہوں میں تھی میرے سینے سے لگی ہوئی  میں نے  اب اس کے کان میں کہا
ان ہونٹوں  کی مہ کشی،  نے  اے ساقی
لوٹ لیا ہمیں ایک ہی جام میں ~
 وہ شرم سے چوڑ ہو گئی میری بات سن کے میں نے اب کہا نازی  تم بہت  پیاری ھو  اگر تم  اجازت دو تو تمہارے ماتھے  سے ایک ذرا لے کر میں آسمان  کے ماتھے پے ایک چاند بنا ڈالوں  میرے منہ سے اپنے حسن کی ایسی تعریف سن کے وہ پاگل ہو گئی  اور کہا شارق  مجھے جانے دو نہ  پلیز  اس کی سانسیں بہت تیز  چل رہی تھیں میں نے اب کہا نازی میں تمہارے ان  انگوری رس سے بھرے ہوے مممے سے رس پینا  چاہتا ہوں

اور ساتھ ہی اس کے مممے  پاکر لئے وہ تو ایک سسکاری لے کر تڑپ گئی  اس کا بدن  کانپ رہا تھا  میری بانہوں میں وہ ابکے ڈوبتی  سانسوں  سےبولی شارق مجھے  جانے دو نہ  میرے اندر کچھ ہو رہا ہے میں نے کہا آج سب کچھ ہو جانے دو پھر اسے اپنی بانہوں میں لیا اور اسی لاؤنج میں لے گیا جہاں ہر طرف موم بتیاں جل رہی تھیں  میں نے اسے آرام سے نیچے ایک گدے پے لٹا دیا  اور ا

اس کا کپکپاتا نرم گرم جسم میری بانہوں میں سما گیا۔
میرے اور اس کے ہونٹوں کے بیچ چند سینٹی میٹر کا فاصلہ تھا۔
اس کا سانس چڑھا گیا تھا،جس کا اندازہ مجھے اپنے سینے پر اس کی بھاری چھاتی کی اتھل پتھل سے ہوا۔
وہ مری مری آواز میں بولی:شارق کوئی  آ جائے گا،،
میں بولا:تو وہاں چلو جہاں کوئی آتا جاتا نہ ہو۔
وہ شرما گئی اور بولی:پلیز جانے دو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
میں نے کہا:ڈر تو مجھے بھی لگ رہا ہے۔
وہ سوالیہ نظروں سے تکنے لگی تو میں بولا:تمہیں ہوش کھونے کا ڈر ہے تو مجھے ہوش میں آنے کا۔
میں نے اپنے ہونٹ اس کے کانپتے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔
میں نے ایک بار پھر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے سی دیا۔
میں نے اس کی نائیٹی کے گاؤن کی ڈوری کھول دی اور اسے اتار دیا۔
اس کے نیچے گلابی جسم کسی گلاب کے پھول جیسا دمک رہا تھا۔ اس سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی۔
نیچے نائیٹی کا ٹاپ تھا،جس کے سٹریپ میں نے کندھوں سے سرکا دیئے تو اس کی خوبصورت تراشی ہوئی چھاتی بالکل بےنقاب ہو گئی۔
وہ ایکدم سے گدے   پر سیدھی لیٹ گئی۔ میں نے وقت ضائع کیے بغیر اس کے جسم سے سارے کپڑے اتار دیئے۔
میں اب پیار سے اس کی ناف سے شروع ہوا،اور لمحہ لمحہ اوپر کی طرف گولائی میں ہونٹوں سے سفر کرنے لگا۔
میرے ہونٹوں کو جسم پر پا کر وہ بےقابو ہونے لگی اور بےحال سی ہو گئی۔
اس کے گورے جسم کا نمک مجھے پیاسا کرنے لگا اور میں اس کے مموں تک پہنچ گیا۔
اس کے گول گول صاف ممے واقعی تراشے ہوئے تھے۔
میں نے دائیں سے شروع کیا اور مموں کی درمیاں لکیر تک ممے کو اتنا چوما کہ وہ بےحال ہو کر چلانے لگی۔
اس کے نپل میں نے بعد کے لیے چھوڑ دیئے۔ یہی عمل میں نے بائیں ممے پر بھی اسی شدومد سے دہرایا۔
اس کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے اور چوستا ہوا ہونٹوں تک جا پہنچا۔
یہی ہونٹ میری منزل تھے جہاں میں اس کے منہ میں زبان ڈالے اسے چوستا رہا۔
وہ بھی پورے جوش سے میرا ساتھ دینے لگی۔
اس کی گیلی چوت کے مسلنے سے

۔میرا لن بھی اب بلکل ٹائٹ ہو گیا تھا  میں اب دوبارہ
 اس کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں کو دوبارہ چومنے لگا۔
لن کی ٹوپی سے اس کی گیلی ہوئی چوت کے لبوں کو رگڑنے لگا۔ چوت کا دانہ بار بار لن کی ٹوپی  کی کھردری سطح سے مسلا جاتا۔
وہ ہربار سسکاری سی بھرتی۔ جب کافی دیر ہونٹوں کو چوم لیا اور لن ہی سے چوت کو مسل لیا تو لن اس کی چوت پر رکھا اور اندر گھسا دیا۔
اس نے اچانک ہی ایک آہ بھری،لن ذرا زور سے مگر بنا خاص مشکل کے اندر چلا گیا۔
دو تیں جھٹکوں کے بعد ہی پورا اندر چلا گیا اور رواں ہو گیا۔
میں نرمی اور پیار سے اس کی ٹانگوں کو کھولے آرام آرام سے اسے چودنے لگا۔
کافی دیر بعد اسے سائیڈ کی طرف موڑ کر لٹا کر تکونی انداز میں لن اس کی چوت میں گھسا کر چودنے لگا۔  لن پھنس پھنس اس کے اندر باہر ہونے لگا،مگر اس کی سائیڈ کی دیواروں کو گہری رگڑ لگنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد میں نے سائیڈ بدل لی اور اسی انداز میں بائیں سے دائیں چودنے لگا۔
جب میں بھی تھکنے لگا او اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر چودنے لگا اور ساتھ ہی اس کے نپلز کو نرمی سے کاٹنے اور چوسنے لگا۔
وہ اونچی آواز میں چلانے لگی۔ پھر وہ چھوٹ گئی اب نازی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی  وہ بولی شارق بانو نے کہا تھا تم باری بےرحمی سے چودتے ھو میں   ڈر رہی تھی اوپر سے تمہارا لن بھی بہت ہی بڑا ہے  اب وہ بولی کوئی  پانچ سال بعد اس چوت میں لن گیاہے  اس نے بتایا اس کے خاوند کی ایک اکسیڈنٹ  میں ڈیتھ ہو چکی ہے پانچ سال پہلے اور اس نے دوبارہ سے شادی نہیں کی  میرا لن ابھی بھی اس کی چوت میں ہی تھا  میںنے اب دوبارہ سے اسے کس کرنا شروع کر دیا

وہ کسی پھول کی پتی کی مانند ہوا پر تیرتی ہوئی میری بانہوں میں سما گئی۔
اس کے جسم میں نرمی اور گرمی کا احساس یکجا تھا۔
میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور انھیں پیار سے چومنے لگا۔
اس کے ہونٹوں میں رس بھری جیسا میٹھا اور کھٹا پن تھا۔
میرے ہاتھ اس کے جسم کے ہر حصے کو نرمی سے سہلانے لگا۔
وہ آہیں بھرتی میرے سینے سے لگ میرا ساتھ دینے لگی۔
میرے ہاتھ اس کی چھاتی کی گولائیوں پر پھرتے ہوئے جسم کے اتار چڑھاؤ پر پھسلنے لگے۔
اس کی گہری سانسیں،مترنم ہنسی جسم کو جھٹکے دیتی۔
میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی  نازش :ان ہونٹوں کی مٹھاس مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔
وہ اک ادا سے مسکرائی:کون تمہیں بھولنے دے گا۔
اس نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی اور میرے اوپر لیٹ گئی۔
وہ اپنی زبان سے میرے منہ کے اندر تک کے ایک ایک حصے کو چومتی اور چوستی رہی۔
میں اس کے کولہوں پر اور ان کے درمیان کی راہداری پر ہاتھ سے سفر کرنے لگا۔
میری انگلیاں کئی بار اس کی نرم ملائم اور گیلی ہوئی چوت سے بھی ٹکرائیں۔
اس کے بعد وہ میرے جسم پر زبان پھیرتی میرا لن تک جا پہنچی اور اسے پکڑ  کر  نرمی سے گولائی میں چاٹنے لگی۔
پھر آرام آرام سے اسے اس منہ میں لے کر چوسنے لگی
وہ کافی دیر لن چوس کر مجھے مزا دیتی رہی پھر میں نے اسے اپنے نیچے لٹا لیا
وہ نیچے چت لیٹ گئی۔
میں نے اپنے ہونٹ اس کی چھاتی پر رکھ دیئے۔
اس کی چھاتی کی لکیر کو گہرائی تک چومنے لگا۔ وہ کبھی ہنستی اور کبھی کھکھلا کر میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتی۔
اس کی شفاف ناف پر میرے ہونٹ جیسے اشتعال میں آ گئی،میں اس کی بےداغ جلد کو دونوں ہونٹوں میں دبا کر جب چوستا تو وہ گہری سانس لیتی۔ اس کا جسم ہلکورے کھاتا اور ٹانگیں بند ہوتیں اور کھلتیں۔
 میں نے اس کی چوت کے لبوں کو مسلنا شروع کر دیا۔
اس کی چوت کا دانہ کبھی باہر نکلتا کبھی لبوں کے اندر چلا جاتا۔ دانے کا مسلنا نازش  کے چہرے پر جیسا ایک عجیب سا رنگ لانے لگا۔ وہ کبھی آنکھیں بند کرتی،کبھی زور سے چلاتی، کبھی خاموشی سے اپنے  دونوں ہاتھوں سے  قالین  کو نوچتی
وہ بولی:شارق ! میں پاگل ہو رہی ہوں،،مجھ سے اتنا مزا برداشت نہیں ہو رہا۔
اس سے اب لن کی دوری برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
وہ گہری آہیں بھرنے لگی۔ اس کی آواز سے کمرا گونجنے لگا۔
میں اپنے ہونٹوں سے  نازش کی  چوت کے لب چوستا  جا رہا تھا اور مموں کو مسلتا  جا رہا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے
وہ بولی:آہ،،آہ،،اوو،شارق  بس کرو،،اب نہیں برداشت ،،ہو آہ ہ ہ ،،رہا۔
مجھ سے اور برداشت نہیں ہو رہا۔ پلیز اپنا لن میری چوت کے اندر ڈال دو پلیز شارق  میں نے اب کی بار اسے الٹا کیا
میں نے اس کی کمر کو چومنا   شروع  کر دیا۔ پھر پیچھے سے اپنا لن اس کی چوت کے سوراخ پے رکھا  اور
لن پیچھے سے اس کی چوت میں گھسا دیا۔ ایک بار پھر لن کافی تنگی سے چوت میں گیا۔ مگر اس بار وہ اس سے مزا لینے لگی۔
لن جاتے ہی وہ مزے سے چلانے لگی۔
میں نے اس کی گردن،گالوں اور ہونٹوں کو پیچھے سے چوما اور کبھی بیٹھ کر کبھی اس کے اوپر لیٹ کر اسے چودنا جاری رکھا۔
میرے چودنے سے اس کا سارا جسم ہلتا اور چوت کے لب گدے  سے مسلے جاتے۔
اس دو طرفہ چدائی سے چوت اور زیادہ پانی بہانے لگی۔
وہ کبھی چوت کھولتی ،کبھی تنگ کر لیتی۔
میں جب بھی چھوٹنے لگتا کچھ دیر لن کو روک لیتا۔ اس دوران اس کے گالوں اور جسم کو چومتا رہتا۔
وہ جس طرح الٹی ہوئی اس طرح سیدھی بھی خود ہی ہو گئی۔
میں نے اس کی ٹانگیں کھولیں اور ٹانگیں اٹھا کر زور زور سے چودنے لگا۔  اب کی بار میں نے کچھ بےرحمی کا مظاہرہ  کیا  اور اس کو ذرا زور سے چودا وہ اب تک ایک دفع فارغ ہو چکی تھی  اب کی بار   میںنے  اسے اپنی گود میں بیٹھا لیا  اور نازی کے ہونٹ چوسنے لگا وہ مزے سے  بھرپور   ہو کر میرے ہونٹ آنکھیں بند کےہی چوس رہی تھی پھر میں نے کوئی دس منٹ تک اسے ایسے ہی چودا  پھر میں نازش کی چوت میں ہی فارغ  ہو گیا  اور ابھی ایک دو اور دھکا مارا  ہی تھا وہ بھی جھڑ گئی  اب نازش نے مجھے اپنی بانہوں مے زور سے  بہنچ رکھا تھا  اور وہ میری گرداب کو چومتی جا رہی تھی  میںنے کہا  نازی کل رات کو میں تم کو بےرحمی سے  چودوں گا وہ بولی شارق  نہیں جان میں ایسے ہی ٹھیک ہوں
میں نے کہا نازی   جو مزہ اس چدائی میںہے وہ اس میں کہا  ابھی تو میںنے تمہاری اس گانڈ کو بھی کچھ کھلا کرنا ہے وہ شرما گئی اور کہا کیوں جناب اس بیچاری نے اپ کا کیا بگاڑا ہے  پھر میںنے کہا چلو اب سوتے   ہیں پھر وہ میرے ساتھ ہی میرے بیڈ پے  مجھے اپنے ساتھ لپٹا کے سو گئی  میں بھی اسے چومتے ہوے سو گیا

 

عاشق ۔ ساتویں قسط

 



عاشق

ساتویں قسط

تحریر: ماہر جی


ٹھیک ہے جناب آپ آج ہی فیصلہ کر لیں اب میں ن نے کہا جناب میں اب پھر  مسز فرہاد کو بلانا چاہوں گا سوالوں کے لئے  جج سحاب نے کہا اجازت  ہے  اب میں نے ثمینہ  فرہاد کی  دیکھا جو اب کٹہرے  میں آ گئی  تھی  میں نے کہا  مسز فرہاد کیا آپ کا اپنے شوھر سے کوئی جھگڑا تھا  وہ بولی نہیں  میں  نے کہا  آپ کی ازواجی  زندگی کیسی گزر رہی تھی وہ بولی  بہترین  اب میں اپنے پوانٹکی طرف آیا میں نے کہا کیا آپ کو پتہ تھا آپ کے شوھر باہر  اور بھی لڑکیوں سے ملتے  تھے  وہ بولی یہ جھوٹ ہے  اب دار سحاب نے کہا جج سحاب وکیل صاحب سے کہیں سوال صرف مقصد کا ہی کیا جائے جج صاحب نے مجھے کہا شارق صاحب صرف وہ سوالکریں جو اس کیس سے متعلقہ ہے  میں نے کہا جناب میں ثبت کروں گا میرا ہر سوال اسی  سے متعلقہ ہے اب میں نے دوبارہ سے کہا مسز  فرہاد   آپ کے خاوند  ایک  عیاش آدمی تھے  خدا معاف کرے میں مرنے والی پے کیچڑ  نہیں پھینک  رہا    اب کیا کروں  ان سوالوں سے ایک زندگی جڑی ہے  پھر میں نے کہا  آپ نے جواب نہیں دیا وہ بولیں یہ سب جھوٹ ہے  وہ بوہت شریف انسان تھے  میں نے کہا چلیں ماں لیتے ہیں اب آپ باتیں کے پھر اس شریف انسان کو کیوں  قتل کیا اس لڑکی  نے وہ بولی یہ لڑکی ایک بعد چلن  ہے  اور اس کا فرہاد صاحب کو پتا چلا تو انہوں نے  اسے روکا  اس دیں بھی یہی ہوا تھا

 اور یہ تبھی ان سے لڑی تھی مجھے اس جواب پے برا  غصہ آیا  کے ایک شریف لڑکی کو کیا کہا جا رہا ہے  اب میں نے کہا یہ سچ نہیں ہے سچ یہ ہے کے آپ کے شوہر  ایک  عیاش شخص تھے  جو اپنی سیکرٹری  رختے ہی اسے تھے جو جوان اور  خوبصورت ھو  وہ بولی یہ الزام ہے ان پے  اب  میں نے کہا آپ جا سکتی ہیں  اب  میں نے ایک فائل  قاروقی صاحب سے لی اور  جج صاحب کو پیش کی اور کہا  جناب عالی  یہ وہ ریکارڈ فائل ہے  فرہاد کی فرم کی اور آپ اس میں سے لگی تصویریں بھی دیکھ لیں  یہ سب وہ لڑکیاں ہے جو پچھلے پانچ سال سے ان کی سیکرٹری  رہ  چکی ہیں  پر  ایک دلچپ  بات یہ ہے جج صاحب  ان میں سے کسی کی بھی نوکری کی عمر پانچ ماہ  سے زیادہ نہیں ہے   اب میں آتا ہوں کیس کی طرف اس دِن جب   فریال  کو آنے میں دیر ہوئی گھر میں تو  تب ہی فریال کو لینے اس کا بھائی گیا تھا  اور یہ قتل فریال نے اپنی عزت بچانے کے لئے کیا تھا  اور جناب عالی  ہم پاکستان میں رهتے ہیں  یہاں کی   مشرقی  لڑکیاں جان سے زیادہ عزت کو اہمیت دیتی ہیں اس لئے صف سی بات ہے یہ قتل سلف ڈیفینس  میں کیا گیا ہے

لہٰذا میری  موکل  کو ضمانت پے رہا کیا  جائے  اب کی بار ڈار صاحب نے   بہت الٹے سیدھے الزام لگاے   فریال پے  اور کہا جج صاحب یہ ضمانت نہیں ہونی چاہے یہ ایکقاتل اور بدچلن لڑکی ہے  اسے جیل میں ہی ہونا  چاہے  ابمیں نے دوبارہ سے کہا جناب عالی میرے پاس کچھ ایسے  گواہ  ہیں جن کو سن کے آپ  اسلا صورت حال کو جان لیں گے میری پہلی گواہ ہے شہناز  اور وہ آ گی  کٹہرے میں اب ڈار  صحابنے اس سے پوچھا آپ کیاکرتی ھو اس نے بتایا ایک فرم میں جاب  پھر اگلا سوال کیا  آپ نے فرہاد صاحب کے پاس سے جب کیوں چوری وہ بولی اس لئے کے میں نے ان کے ساتھ بستر پے سونے سے انکار کر دیا تھا اس نے مجھے نوکری سے نکال دیا اتنا خلا جواب سن کے ایک دفع تو فرحاں ڈار کے بھی پسینے  چھوٹ گے وہ بولا آپ جھوٹ بول رہی ہیں  بس پھر کیا تھا  شہناز نے سری باتیں ہی کہ دیں اور کہا یہ سارا قصور ہے مسز فرہاد کا جو اپنے معصوم خاوند کو  خوش نہیں رکھ سکیں  پھر اگلی گواہ  تھی فائزہ  اس نے تو وہ ہلر مچایا کے  عدالت  میں بٹہے لوگ بھی کانوں کو ہاتھ ہ لگانے لگی

 اس نے بتایا  اسے چار ماہ تک  استمال کیا تھا فرہاد نے  پھر اس نے مجھے نوکری سے نکال دیا  اور کہا اگر تم نے زیادہ شور کیا  تو اندر کرا دوں گا  میں بہت رویی کیوں کے اس نے مجھ سے شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا اب وہ میرے ساتھ یہ سب کر رہا تھا  میں بعد میں مسز فرہاد کے پاس بھی گی  اسے سب بتایا تو الٹا اس نے مجھے کہا اگر تم نے اب کسی سے کوئی ایسی بات کی تمیں  اپنے نوکروں کے آگے ڈال دوں گی  پھر اس کے بعد آنے والی تینوں  لاریوں نے ایک جیسے بیان دے سب کے ساتھ  ایسا ہی  ہوا تھ ایک لڑکی صبا نے کہا  جج صاحب کی طرف دیکھ  کر کہا  جناب مجھے بعد میں پتا چلا تھا  کے ان فرہاد احمد اور اس کی مسز کی آپس میں ڈیلنگ تھی  یہ اس کو نہیں  روکے گئی وہ اسے نہیں روکے گا  فرہاد اپنی فرم  کی لڑکیوں سے عیاشی کرتا اور اس کی بیگم یہ  ثمینہ فرہاد  کالج  کے نوجوان  لڑکے گھیرتی  یہ سنتے ہی ثمینہ  کا رنگ اڑ گیا اور فرحان ڈار تو ایسے آگ بگولا ہو گیا  جسے وہ کسی بازار میں ننگا ہو گیا ھو      

اس نے کہا لڑکی تم یہ بکواس اس وکیل کے کہنے پے کر رہی  ھو   اب تو وہ لڑکی  صبا  بھی غصے میں آ گی اور کہا  میں بکواس نہیں کر رہی وکیل صاحب  میں نے اس کو اپنی ان آنکھوں سے رنگے ہاتھوں پکڑا  تھا پوچھیں اس سے  شاہد میرا ہی بھائی  تھا  جسے یہ لے کر گی تھی اپنی کوٹھی  میں اور اس کے ساتھ یہ وہاں  تین دِن رہی تھی بلکل ننگی  بعد میں  میرے بھائی کے ایک دوست  جاوید کے ساتھ بھی اس نے ایسا ہی کیا  اور تبمیں نییسے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا  اب تو  کیس کی صورتحال ہی بدل گی  اب جج صاحب سےمیں نے کہا  جناب اب مہربانی کر کے میری کلائنٹ  کی ضمانت منظور  کر لیں اب ڈار  سے کہا نہیں  جج صاحب اس کی ضمانت  نہیں ہونی چاہے  میں آپ کو کہ رہا ہوں اب میں نے کہا  مسٹر فرحان ڈار صاحب تم خود کو سمجھتے کیا ھو یہ عدالت تمہارے بھاپ کی نہیں ہے  ایک قانون کا گھر ہے اور قانون کے مطابق  یہ ضمانت بنتی ہے میری موکل کی  اب  تو جج صاحب کو بھی کچھ  برا لگا تھا

 کیوں کے  اس وقت وہاں پے بہت سارے   وکیل تھے  اب  اگر جج ضمانت نہ لیتا تو سب ہی سمجھتے  کے وہ  ڈار کی وجہ سے نہیں لے رہا اس نے کہا  میں دو لاکھ  کے مچلکوں  پے فریال کی ضمانت منظور کرتا ہوں  میں نے اسی وقت  جج صاحب سے کہا جناب اب ٹائم  ختم ہو رہا  ہے کیا میرے بار کے کارڈ  پے ضمانت قبول کی جا سکتی ہے جج صحابنے کہا نہیں ابھی آپ  کے کرد پے نہیں ہو سکتی ضمانت  اب کی بار بھائی  نصرت  آگے اے اور کہا   جج صاحب  میں اپنی ضمانت  دیتا ہوں  اب جج صاحب نے کچھ نہ کہا اور ضمانت مان لی  جج صاحب اور بہت سارے  وکیلوں کو اب پتا چلا تھا کیمین جج امجد حسین شاہ  اور وکیل نصرت حسین شاہ  کا بھائی شارق حسین شاہ  ہوں  جج صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا  یار تم ایک  خطرناک  وکیل ھو میں نےایسا  وکیل کبھی نہیں دیکھا  میں  نے ہنس کے کہا سر ایسی کوئی بات نہیں وہ فرحان ڈار خود کو پتا نہیں کیا سمجھتا  ہے  وہ اب پیار سے  مجھے دیکھ کر بولے ینگ مین  ذرا  اپنا  خیال رکھنا  وہ ایک سانپ  ہے  جو اپنی ہار نہیں بولے گا

اب میں نے فریال اور احسان تائب کو  کہا یار اب تم لوگ کچھ دِن مجھے  مہمان نوازی کا موقع  دو احسان سمجھ گیا میری بات  کو اس نے کہا ٹھیک ہے بھائی صاحب  اب میں نے اپنے ارد گرد  دیکھا میں اب ان  خفیہ گارڈز  کو ڈھونڈ رہا تھا کے میرے پاس ایک طرف سے ظفری نکل کے اچانک آیا اور بولا باس آپ مجھے  ڈھونڈ رہے ہیں   پھر میں ہنس دیا اور کہا  ہاں یار ان کو لے جاؤ ساری فمیلی  سمیت یہ اب ھمارے مہمان ہیں  کچھ دِن  اس نے ایک طرف سے ایک لڑکے کو اپنی طرف بلایا  اور اسے کچھ کہا وہ اب احسان لوگوں کو اپنے ساتھ لے گیا  میں اب بار روم میں داخل ہوا  تو سب   وکیلوں نے مجھے گھیر لیا  جو ہماری جیت سے خوش تھے وہ تعریف  کرنے لگی اور جو ڈار کے پنیل کے تھے وہ  چپ کر کے بیٹھنے رہے  اب اس کے پینل  کے ایک وکیل گلزار نے  کہا  آج تک  کوئی وکیل جیتا نہیں ہے ڈار صاحب سے اب آشیانے والوں نے ایک سوے ہوے شیر کو جگا دیا ہے

 میں نے کہا گلزار صاحب  شیر وہ ہوتا ہے  جو سامنے سے وار کرے  پیچھے سے وار کتے  کرتے ہیں  اور میں ویسے بھی ڈاگز کلر  ہوں وہ اب چپ ہو گیا  اصل میں ووکلاء  میں بھی گروپ  بندیاں تھیں  اور  ایک دو مہینے کے بعد بار روم کے الیکشن  بھی ہونے والے   تھے  پھر میں تو فاروقی صاحب کے ساتھ  اپنے دفتر آ گیا  اور پھر ہم کافی دیر  اگلے دِن کے کیسوں  کی تیاریکرتے رہے کیوں کے جو کیس میں نے آج جیتا تھا  یہ میری نظر میں عام سا تھا  میں تو چاہتا تھا میں جس کیس میں ہاتھ ڈالوں وہ میرا ہی ہو جائے  پھر میں گھر کی طرف چل دیا  جبمین آشیانے  سے کچھ دور تھا  کے اچانک مجھے  کلاشنکوفوں کے چلنے کی آواز آیی  ایسا لگا جیسے قریب ہی دو  گروپ آپس میں ٹکرا گے ہوں پھر اسی وقت  ایک  ون.ٹو فائیو موٹر سائیکل میری گاڑی کے پاس آیا اور اس پے بیٹھنے ایک لڑکے نے مجھے بتایا   کے مجھ پے چار لوگوں نے  گولیاں چلانے کی کوشش کی تھیں کے وہ اپنی گولیاں چلانے سے پہلے ہی ھمارے حملے میں مارے گے  ہیں  اب آپ آرام سے گھر جایئں  میں سمجھ گیا یہ سب ڈار نے کیا ہے    

میں اب گھر آ گیا میں ے کسی سے بھی ذکر نہ کیا  اس  واقعہ  کا گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی  لان پے سب گھر والے کھڑے تھے   میرے سب بھائیوں کے ہاتھ میں اور والد صاحب کے ہاتھ میں بھی  پھولوں کے ہار تھے  وہ سب اب آگے بڑھے اور مجھے گالی سے لگا کے ہار ڈالتے جاتے  میں  نے وہ سارے ہار اتار کر اپنی والدہ صاحبہ کے قدموں میں رکھ دیے اب ڈیڈی نے کہا  واہ  یار تم نے آج کمال کر دیا  پھر بھائی امجد نے مجھے  کہا مجھے بعد میں بتایا تھا جج آصف گھمن  نے  کہنے لگا امجد صاحب  آپ کا یہ چھوٹا بھائی تو مجھے  کوئی جن لگتا ہے وہ کسی کی پروا ہی نہیں کرتا  سب ہنس دیے   پھر ہم نے وہو لان پے آج کھانا کھایا  میں نے لالارخ سے کہا  جاؤ میرا من تو میٹھا کرا دو ندیدوں  کی طرح ساری  مٹھائی  خود ہی کھا رہی ھو  جس نے گلاب جامن کا ڈبہ اپنے آگے رکھا ہوا تھا وہ  بولی جی نہیں آپ کے لئے  یہ نہیں ہے آپ برفی کھا لیں میں نے اب شفق بھابھی سے پوچھا نیلوفر کہاں ہے وہ بولی وہ آج اپنی ایک دوست کے ساتھ  مری گی ہے  اتنے میں بھابھی تنویر  کے ساتھ ایک لڑکی آتی نظر آی اندر سے میں نے پوچھا یہ پھلچری کون ہے تو شفق بھابھی نے کہا یہ امجد بھائی کے ایک دوست کی  بیوی ہیں جو  آج ملنے آیی تھیں یہ تو ان کو جانے نہیں دیا  ہم نے  پھر بولی شارق میں تمہارے لئے بھی کوئی ایسی ہی پھلچری  ہی ڈھونڈوں گی اصل میں شفق بھابھی میری کزن بھی تھیں اس لئے میں زیادہ ان سے فری  تھا ،  

اتنے میں بھابھی تنویر بھی ھمارے پاس ہی آ گی اور کہا کیا باتیں ہو رہی  ہیں اب میں  چپ رہا تو بھابھی شفق نے  کہا بتا دوں ان کو میں جھینپ  گیا اب کے مجھے  اس خاتون نے بھی  مبارک دی اس کی عمر کوئی 33  سال ہو گی  وہ ایک بھرے  ہوے جسم کی ملک تھی  خاص کر اس کی چھاتی بہت بڑی تھی  میں نے  ان کو تھینکس  بولا اب تنویر بھابھی نے کہا شارق یہ میری دوست ہے شہبانو میں سمجھ گیا یہ پٹھان ہے  اور یہ امجد بھائی کے دوست  گلباز خان کی بیوی تھی اب ہم باتیں کرنے لگے اب بانو نے کہا ہاں تو شفق تم بہن  بھائی کون سی بات پے اتنا ہنس رہے تھے اب  میں نے کہا وہ ایک لطیفہ تھا بھابھی تنویر نے کہا کیا ہم نہیں سن سکتے وہ لطیفہ تو شفق بھابھی اب مسکرا رہی تھی  میں اب پھنس گیا  میں نے بات  میں بات دہلی اور کہا تنویر بھابھی زورون  کی بھوک لگی ہے وہ بولی  وک ابھی میں کھانا لگاتی ہوں   پھر ہم سب نے کھانا کھایا اور ڈیڈی کے کمرے میں بیٹھ کر آج کی صورتحال پے ڈسکس  ہونے لگی بھائی لوگ مجھے سمجھا  رہے تھے کے ایسے لوگ معاشرے کے ناسور  ہوتے ہیں ان سے بچنا ہی چاہیے  اب میں ان کو کیا بتاتا کے میرا تو مشن ہی یہی تھا ان ناسوروں کو ختم کرنا ، پھر ایسے ہی کافی دیر تک محفل جمی رہی  اب  شفق بھابھی نے کہا  شارق  آج تم  سے دو دو ہاتھ کرنے ہیں ذرا لان میں آ جاؤ   میں لن میں چلا آیا وہاں پے پہلے ہی بھابھی تنویر اور شاہ بانو ماجود تھیں اب بانو نے مجھے دیکھتے ہی کہا  ہاں تو پھڈے باز وکیل صاحب   آپ نے مجھے کیا کہا تھا میں اب سمجھ گیا بھابھی شفق نے بتا دیا ہے  میں نے کہا وہ اصل میں مجھے اب کیا پتہ تھا  کے آپ اب اپنے خاص لوگوں میں سے ہیں میں نے تو ویسے ہی کہا تھا کے یہ پھلچری  کون ہے وہ  ہنس دی اور کہا تم نے مجھے پھر پھلچری کہا  دیکھو تنویر تمہارا دیور کتنا تیز ہے   ہم سب ہنس دے اب میں ان سے کچھ فری  ہو گیا تھا  پھر ہم  ساتھ ساتھ واک بھی کرتے رہے اب اس نے کہا  

تنویر میں نے ایک مشورہ کرنا ہے نصرت بھائی سے میری ایک دوست کے ساتھ کچھ  پرابلم  ہے وہ ایک اچھے سے وکیل سے مشورہ کرنا چاہتی ہے تو جھٹ سے  شفق بھابھی نے  کہا اپنا شارق ہے نہ  اب میں نے کہا بھابھی کیا بات ہے آپ مجھیبتاؤ وہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر بولی  یار اس کے خلاف ایک بہت بڑی پارٹی نے ایک جھوٹا کیس دائر  کیا ہوا ہے  جس میں سے اس نے بڑی مشکل سے  اپنی عبوری ضمانت کرا رکھی  ہے  مگر مسلہ یہ ہے کے جو مخالف پارٹی ہے وہ اسے کسی وکیل کو نہیں کرنے دیتے اب تک وہ کوئی آٹھ دس وکیلوں سے بات کر چکی ہے  پر کوئی بھی حامی نہیں  بھڑتا  کیوں  کے وہ لوگ اسے روک دیتے ہیں ان کے پاس بارے بارے وکیلوں کا ایک پورا گروپ ہے جن کی وجہ سے یہ مسلہ کھڑا ہو گیا ہے  میں نے کہا اس کی ان سے یہ لڑائی کیوں ہو رہی ہوا بولی اتنا  تو مجھے بھی نہیں پتہ  اس سے پوچھنا پڑے گا پھر اس نے کہا شارق پلیز وہ میری دوست ہے اور مجھے اپنی بہنوں سے بھی عزیز ہے میں نے کہا ٹھیک ہے بھابھی میں آپ کی دوست کا کیس لڑوں گا  پھر ہم سب اپنے اپنے کمرے کی طرف چل دیے میں کمرے میں جا کر سو گیا  پھر میری آنکھ تب ہی خالی جب مجھے بھائی  امجد نے آ کر اٹھایا  وہ بولے شارق  تم ایسا کرو  آج شاہ بانو کے ساتھ ان کی کوئی دوست ہے ان سے مل لو ان کا کوئی مسلہ ہے مینن نے کہا ٹھیک ہے  بھائی   پھر آج میں نے نصرت بھائی کی گاڑی لے لی اور شاہ بانو کے ساتھ دوسرے سٹی کو چل دیا  میں  نے اب راستے میں شاہ بانونے مجھ  سے پوچھا شارق تم اب شادی کیوں نہیں کر رہے  میں نے کہا ویسے ہی بھابھی ابھی میرا کوئی  موڈ نہیں ہے  وہ بولی کیا کوئی پیار کا چکر تو نہیں میں ہنس دیا اور کہا نہیں ابھی تک  تو نہیں  پھر وہ بولی  یہ تم نے  کل پھلچری کیوں کہا تھا  میں نے کویجواب نہ دیا وہ بولی بتاؤ نہ میں نے کہا بھابھی  میں سچ بولنے کا عادی ہوں اور میری بات سن کے آپ کو برا بھی لگ سکتا ہے اس لئے  رہنے دو وہ بولی میں مائنڈ  نہی کروں گئی اب بتاؤ میں نے اب ان کی آنکھوں  میں دیکھتے ہوے کہا کیا آپ کو نہیں پتہ  آپ کتنی خوبصورت ہیں  وہ شرما گی اور کہا  نہیں  میںنے کہا آپ جیسی لڑکیاں کم ہی دیکھی ہیں میں نے  آپ کے جسم کو دیکھ کر نہیں لگتا آپ میرڈ ہیں وہ اب بولی تو اس کی آواز میں عجیب سی کھنک محسوس ہوئی مجھے وہ کہنے لگی ایسا بھی کیا ہے میرے جسم میں سب کا ایسا ہی ہوتا ہے   نہیں آپ جیسا سب کا نہی ہوتا میں نے جواب دیا  آپ جیسی  چھاتی میں نے آج تک کسی لڑکی کی نہیں دیکھی وہ اب تو شرم کے مرے دوہری ہو گی  میرے منہ  سے چھاتی کا سن کر کافی دیر وہ نظریں نیچی کے بیٹھی رہیں مجھے وہ ایسے  بیٹھی بڑی پیاری لگی میں نے کہا  بھابھی کیا ہوا وہ کچھ  نہ  بولی
ہمیں تو آپ کی اس ادا نے لوٹ لیا صنم
نظر ملتے نہیں بس شرما
ۓ جاتے ھو
میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوے کہا وہ اور بھی چھوئی موئی کی طرح  سکر گی شرم کے مارے

اس نے اپنے ہاتھ اپنی گود میں رکھے ہوے تھے میں نے اب اپنا ایک ہاتھ اس کی گود میں رکھے ہاتھوں پے رکھ دیا  وہ کانپ سی گئی میںنے کہا  شاہ بانو میرا دل آپ سے دوستی  کرنے  کو کر رہا ہے کیا آپ مجھے اپنے دوست کی حثیت  سے قبول کرو گی  اس نے اب کی بار  دھیرے سے اپنا سر اٹھایا اور کہا شارق  کسی کو پتا نہ چل جائے میں سمجھ گیا  یہ راضی ہے میں نے کہا نہیں چلے گا  ، وہ اب کی بار ہاں میں سر کو ہلا کے بولی مجھے قبول ہے لیکن ایک شرط ہے میری تم مجھ سے کوئی ایسی ویسی  ڈیمانڈ نہیں کرو گے ، میںنے کہانہی کروں گا تب تک میں آپ سے کچھ نہیں مانگوں گا جب تک آپ خود نہ  راضی ہو جاؤ  وہ اب خوش ہو گئی  پھر ہم نے راستے میں ایک اچھے سے ہوٹل سے کھانا کھایا اور چل دیے پھر وہ بولی  شارق  میں تم سے کچھ پوچھنا  چاہتی ہوں میں نے کہا  کیا وہ بولی چلو ایسا کرتے ہیں گیم  کھیلتے ہیں  ایک سوال تم کرو ایک میں کروں گی جو بھی ہارا وہ جیتنے والی کی ایک بات ماننے گا  پھر میری طرف دیکھ کے شریر نظروں سے کہا  آے مسٹر وہ بات لمٹ میں ہونی چاہے میں اب مسکرا دیا اور کہا چلو پوچھو وہ بولی میرا پہلا سوال
میں تم کو کیسی لگتی ہوں
میں نے جواب دیا  ایک سے لیکر دس تک نمبر ون ہے تو
 وو شرما کے بولی یہ کیا جواب  ہے پھر میں نے کہا آپ کی مرضی آپ جیسا مرضی سوال کرو میں تو اپنمرضی کا جواب دوں گا وہ بولی
چلو  تم سوال کرو میںنے کہا بانو آپ کی ہائیٹ  کتنی ہے
وہ بولی پانچ فٹ چھ انچ
اب  اس نے پوچھا اور آپ کی
میں نے کہا چھ فٹ چار انچ

اب میںنے  پھر پوچھا بانو آج آپ نے کون سے رنگ کا برازئیر پہنا ہے وہ تو مانو ایک دم سے چپ ہو گی اس کا رنگ ur
 سا گیا وہ بولی یہ سوال غلط ہے میں نے کہا کوئی غلط نہیں ہے آپ اپنی ہار مان لو اس نے کہا کیوں مانو تم کوئی اچھا سا سوال  کرو نہ میں نے کہا میرا یہی سوال ہے
وہ جواب میں بولی میں ے سکن کلر کا پہنا ہے
اب وہ بولی تم بتاؤ کی آج تک تم نے کتنی لڑکیوں سے دوستی کی ہے
میں نے کہا مجھے سہی سے یاد نہیں کافی سے رہی ہے دوستی لیکن سچ ہے کسی کا بھی فگر  تم جیسا نہیں تھا
وہ اب شرما  کے مجھے دیکھنے لگی  میں نے اب سوال کیا  بانو تمہارا بریسٹ سائز کیاہے
وہ اب غصے سے مجھے دیکھنے لگی اور کہا تم جان بوجھ کے اوٹ  پٹانگ سوال کر رہے ھو یار یہ کوئی سوال ہیں  میں نے کہا  ٹھیک ہے نہ بتاؤ  اچھا یہ  بتاو آج کونسا دِن ہے  اس وقت ہم کہا جا رہے  ہیں  ہماری  گاڑی کے پیچھے  کون سی گاڑی آ رہی ہے ایسے سوال ٹھیک ہیں  نہ  وہ اب ہنس ہنس کے دہری ھو گی جب وہ ہنستی تو اس کے مممے اوپر نیچے  کا سفر کرتے  میں نے کہا اور کیا پوچھوں  اور گاڑی کا میوزک  کا بٹن  دبا دیا
ملکہ ترنم نور جہاں کی سریلی آواز گاڑی میں گونجنے لگی
تیرے  نال ملا یاں  اکھیاں   وے تو فیر وی دوریاں  رکھیاں
تو جت گیا بیقدرا میں جندڑی ہار گئی    
یہ سنتیھی اس نے میری طرف دیکھا اور کہا  یہ سب کیا ہے مسٹر  میں نے کہا  یہ ملکہ ترنم میرے دل کی آواز کو اپنی زبان سے تم تک پہنچا رہی ہے

اب وہ مجھے دیکھتے ہوے بولی شارق تم چاھتے کیا ہے میں نے کہا تم کو سر سے پاؤں تک وہ اب بولی شارق اگر میرے خاوند  کو پتہ چل گیا وہ مجھے مار ڈالے گا میں نے کہا اسے کون بتاے  گا تم  وہ بولی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا  تو پھر اسے کیسے پتہ چلے گا نہ تم بتاؤ گی اور نہ میں اب میں نے کہا چلو میرے سوال کا جواب دو  وہ اب بولی کونسے سوال کا ،
میں نے اب اپنا ایک ہاتھ اس کے اپنی سائیڈ والی مممے پے رکھا ہلکا سا دب دیا وہ سی سی سی  کر اٹھی میں نے کہا ان کا کیا سائز  ہے بانو وہ بولی شارق  38 ڈی میں نے کہا واؤ  یار کافی زبردست مال ہے  اب اس نے کہا چلو تم بتاؤ آج تک کتنی لڑکیوں سے ملاپ  کیاہے  جسمانی  میں نےکہا کافی ساری ہیں ،
میں نے کہا میرا اگلا  سوال ہے  اور اپنے ہاتھ کو اس کی چوت  پے رکھ کے کہا یہاں پے پینٹی پہنی  ہے کے نہیں وہ بولی نہیں میرا ہاتھ چوت کو لگتے  ہی وہ سسک  اٹھی تھی اس کا سانس تیز ہو گیا  میں نے وہ ہاتھ ووہی رکھا اور ہلکے سے مساج  کرنے لگا وہ اب اپنا ایک ہاتھ میرے ہاتھ پے رکھ کے بولی ش ا ا ا ا ا ا ا ر ر ر ر ق ق ق ق پلیز نہ کرو نہ  اب اس کی آنکھیں لال ہو گیں تھیں  اور اس کی سانسیں تیز  میں اب گاڑی آہستہ  سے ایک کچےراستے  پے اتار کے آگے جانے لگا  اب اس  کی آنکھیں بند  ہو گی تھیں وہ راستہ ایک چوتھے سے درختوں  کے ذخیرے کی طرف جاتا تھا جس  سے کوئی دس میل دور اک صوبائی منسٹر کا فارم ہاؤس  تھا  اس ذخیرے میں  جا کر میں نے گاڑی روک دی اب اس نے اپنی آنکھیں کھولی اور کہا یہ ہم کہاں آ گے ہیںمیں نے کہا وہاں اے ہیں جہاں میں تمہارے اس سنگ مر مر سے بنے بدن کو خراج  تحسین پیش کروں گا وہ اب شرما کے بولی  شارق  پلیز جو کرنا ہے جلدی سے کر لو وہ ہمارا انتظار کر رہی ھو گی  میں نے اب   اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر آیا

پھر اسے بھی نیچے اتارا اور گاڑی  کی ڈکی سے گاڑی کے اوپر ڈالنے والا  پیرا شوٹ  کے کپڑے کا بنا ہوا کور  نکالا اسے نیچے بچھا کے میں اور بانو آمنے سامنے بیٹھ گے وہ اب میری گود کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں سے میرا لن کھڑا تھا اب میں نے اسکی  قمیض اتاری تو میں اس کا سفید اور چکنا پیٹ  دیکھا کر حیران  رہ گیا اس کی چھاتی کافی بھری    تھی میں نے اب برا  کا ہک کھولا  اور برا بھی نکل دیا میں  اب اس کے ہک  کو  کھول  کے اتار  دیا  اور اپنی شرٹ بھی اتار دی اب  اس نے اپنی شلوار خود ہی اتار دی میں نے بھی اپنی پینٹ اتار کے ایک طرف  رکھ دمیں اب صرف اندر ویر  میں تھا اور وہ بلکل ننگی تھی اس کا پیٹ اندر کو دھنسا ہوا تھا اور اس کے کولھے باہر کو نکلے تھے  اس کی چھاتی کافی بھاری   تھی  میں نے اب اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا  اس کے ہونٹوں کے دروازے میں اپنے ہونٹوں سے دستک دی  اس نے تڑپ کے اپنے ہونٹوں کا دروازہ کھولا  اور میری زبان کو اندر جانے کی اجازت مل گی  وہ اب میری زبان کو چوس رہی تھی اور میں اس کے ،ممموں  کودبا رہا تھا  

بانو اب اندر ویر کے اوپر سے ہی میرے لن کا سائز  ناپ رہی تھی ہاتھوںمیں لے کر  پھر اس نے اپنے ہاتھوں سے میرا لن بھر نکالا  میں اس کی زبان چوسنے لگا اور کبھی اس کا نچلا ہونٹ سوچنے لگتا  ہم نے کوئی دس منٹ تک ایک دوسرے کے ہونٹ چوسے  اب وہ   کروٹ لے کر میرے اوپر آ گی  اس نے میری رانوں  پے بٹہ کے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور کہا واؤ  یار اتنا بڑا میں نے کہا کیوں  تمہارے سوہر کا چھوٹا ہے کیا وہ بولی ہاں وہ  سات انچ کا ہے  پھر اس نے میرے لن کو منمیں لیا اور چومنے لگی وہ  میرے ٹٹوں سے لے کر  ٹوپی تک اپنی زبان پھیرتی   اور دوبارہ سے اسے منہ میں لے لیتی  وہ بھوکوں کی طرح میرا لن چوس رہی تھی وہ تھوڑا تھوڑا کر کے سارا اندر لے جاتی اپنے موں میں وہ اس کے حلق تک جاتا اور پھر اسے نکال لیتی وہ اتنے جدا سے  طریقے سے میرا لن چوس رہی تھی میں  مزے میں آ ہ  کر اٹھتا وہ اب اپنے ہاتھ سے  میرا لن پکڑ کر اس پے مٹہ لگانے لگی  اور اپنی زبان  میری ناف  میں اور پیسٹ پے پھیرنے لگی اب وہ ہلکی ہلکی سانسیں میرے پیٹ پے چھوڑتی   میری  رانوں   کی طرف آتی اور پھر میرے لن کے چاروں طرف اپنی زبان پھیرتی  اب  اس نے اپنی چوت کو میرے موں کی طرف کیا اور میرا لن اب سپیڈ سے چوسنے لگی میں نے بھی اپنی ایک انگلی سے اس کی پھدی کوکھولا  اور اپنی زبان اندر  داخل کر دی  ایک  دفع اس کا جسم کانپ  گیا اب میں نے اس  کو اپنے نیچے کی طرف کیا اور اس کی پھدی کو چوسنے لگا  وہ اب تڑپ تڑپ جاتی  میں نے اس کے مممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھے تھے ان کو بھی داب رہا تھا اور اس کی پھدی کے اندر باہر اپنی زبان  بھی کر رہا تھا

وہ  اب اپنے ہاتھ میرے سر پے رکھ کے  سسکریاں  بھرنے لگی  آ ھہ اف ف ف ف اس نے اب اپنی ٹانگیں میری گردن کے گرد لپیٹ لیں  اور مجھے نیچے کی طرف دبانے  لگی پھر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ فارغ ہو گی میں نے اپنا منہ نہیں پیچھے کیامیں نے اس کی چوت کو چوس چوس کر پانی اپنی کر دیا وہ دو دفع فارغ ہوئی ایسے ہی ابمیں نے اوپر  کی طرف اپنی زبان کوپھیرتے  ہویے جانے لگا اب میں اس کی ایک نپل  کو موں میں لے کر چوسنے لگا اور کبھی کبھی ہلکا سا کاٹ بھی  لیتا وہ اب تڑپ  رہی تھی شارق پلیز  اب میرے اندر اپنا لن ڈال دو میں مر جاؤں گی  شارق اور مت تڑپاؤ میری  جان نکل رہی ہے  میں نے اپنے کان بند کر کے اس کے مامے چوستا رہا میں ے اتنا چوسا کے نیل پڑھ گے اس کی نپلوں  پے میں کبھی کبھی کاٹ بھی لیتا تھا وہ اب میرے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی شارق  بس ایک دفع اندر ڈال دو  تم کو میری قسم   میری بات مان لو اب جب میں نے اس کاکوئی نہ سنی تو وہ بولی شارق میں تم کو  نازش  کی پھدی  بھی لے کر دوں گی نازش اس کی دوست کا نام تھا  جس کے پاس ہم جا رہے تھے  وہ مجھے رشوت  میں اس کی پھدی  دینے کی بات کر رہی تھی  میں ے جان بوجھ کر اسے تڑپایا تھا  کے بعد میں وہ مجھے انکار نہ کرے پھر میںنے اس کی ٹانگیں اٹھا کر ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن سارا اندر ڈال دیا

بانو درد سے بلبلا  اٹھی اور کہا شارق کونسا بدلہ لے رہے ھو ظالم میںنے اب اپنے دھکے تیز ہی  رکے اسے اب بہت مزہ آ رہا تھا  وہاں  چاروں طرف اب بنو کی ہلکی چیخیں  اور سسکریوں کی آوزیں تھیں  وہ مزے کی وادیوں میں گم تھی اس کی آنکھیں بند تھیں میں کوئی دس منٹ تک اسے آگے سے کھودتا رہا زور زور سے میرے ہر دھکے سے اس کی ایک دفع تو سانس روک جاتی وہ  اب ایک بار پھر سے جھاڑ گی تھی  میں نے اب اسے الٹا  کیا اور پیچھے سے اس کی چوٹ میں اپنا لن ڈال دیا  اب میں اتنی تیزی سے  لن کو اندر بھر کر رہاتھا اسے اب درد ہونے لگا تھا  وہ بولی شارق بس تھوڑی دیر کو روک جاؤ کیا کھاتے  ھو تم  میں نے اب اپنا لن اس کی چوت سے نکالا اور گانڈ میں ڈال دیا    وہ ایک دفع تو ذبحہ ہوتی بکری کی طرح ممیا اٹھی  ہا اے میں مر گئی شارق باہر نکالو اسے یہاں پے تو آج تک میں نے  اپنے شوہر کو بھی نہیں ڈالنے دیا ، وہ اب چلا رہی تھی اور میں سمجھو اب اس کا ریپ  ہی کر رہا تھا میں نے اتنا چودہ اسے کے اس کی گاند سے اب خوں آنے لگا تھا وہ اب زور زور سے رو رہی تھی  اب تو اس نے بچاؤ بچاؤ  چیخنا بھی شروع  کٹ دیا پر اس بیاباں  جگہ کون آتا اب میں نے اسے تب چھوڑا جب میں فارغ ہوا  وہ اب درد سے بیہوش ہو گی تھی

میںنے گاڑی میں رکھی  منرل  واٹر کی  بوتل  کا ڈھکن  کھولا اور پانی اس کی پھدی اور گانڈ پے ڈالنے لگا  کچھ پانی اس کے چہرے  پے ڈالا وہ اب ہوش میں آ گئی میں نے اسے  اپنی بانہوں میں  لے کر خوب کسیں کیں  وہ اب بھی رو رہی تھی اس سے بٹھا  نہیں جا رہا تھا  وہ بولی شارق ایسا بھی کرتے ہیں بھلا  میری گانڈ پھاڑ دی ہے تم نے  میں نے اب اس کی گالوں کو چومتے ہوے کہا بانو   سونی  پہلی دفع ایسا ہو ہوتا ہے اب  تم  کو مزہ آے گا ، وہ بولی مجھے نہیں لینا ایسا مزہ  میں نے اسے اپنی بانہوں میں ہی گھیرے رکھا اور کہا نہیں لینا مزہ  وہ اب میری  آنکھوں میں دیکھ کر بولی  بس آگے سے اور پیار پیار سے کرو گے وعدہ کرو    میں نے کہا ٹھیک ہے  اب پھر میں نے اسے کس کرنے لگا وہ بھی  اب میرا ساتھ دے رہی تھی  میں نے س کے مممے چوسنے لگا وہ اب پھر سے کافی گرم  ہو گئی تھی  وہ اب اپنی  تیز تیز سانسوں میں بولی  شارق اب ڈالو نہ اندر  میں نے کہا کیا وہ بولی شارق   میری جان اپنا یہ  لوہے کے راڈ جیسا لن میری اس  بچیں چوت میں ڈالو  میںنے اب اس کی ایک ٹانگ اٹھا لی اور اس کے اپر لیٹ گیا میں نے اب کی بار بارے آرام آرام سے اپنا لن اس کی چوت میں کیا اندر  اور ہلکے ہلکے دھکے لگانے لگا اب اس نے  اپنی دونو ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ  لیں اور اپنے بازوں  میری گردن کے گرد  امن اب اسے پیار سے چود رہا تھا وہ میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی ہم کوئی دس منٹ تک ایسے ہی  پیار کرتے رہے  پھر وہ بولی شارق میں آ رہی ہوں اور وہ ایک ہلکی چیخ  کے ساتھ ہی جھاڑ گئی  میں ویسے ہی لگا رہا  وہ اب میرے دھکوں سے  دوبارہ سے گرم ہونے لگی تھی میں نے  اب کہا بانو ایک دفع پیچھے سے  کروں وہ دار گئی اور کہا نہیں شارق اب نہیں میں مر جاؤں گئی اب کی بار

میں نے پھر اسے آگے سے ہی چودہ  کبھی الٹا کر کے کبھی سیدھا کر کے پھر میں بھی نزدیک ہی تھا کے وہ دوبارہ جھرنے لگی اب  میرے لن نے بھی  بانو کی چوت میں ہی منی کا سپرے  کرنا شروع  کر دیا میں کافی  زور سے جھڑا  وہ بولی ا ف ف فف ف ف شارق تمہارا لن تو بہت منی چھوڑتا ہے پھر ہم ایسے ہی کوئی پانچ منٹ تک ایک دوسرے سے لپٹے لیتے رہے  پھر میں اٹھا اور اس کی برا سے اپنا لن صف کیا وہ بولی یار یہ کیا کیا ابمیں کیا کروں گی میں نے کہا تم بھی اسی سے صف کرو  اور ایسے ہی پہن لو  وہ بولی تم برے بدمعاش ھو شارق

اب اس نے کپڑے پہنے اور گاڑی کی طرف آنے لگی اس سے چلا نہیں جا رہا تھا  سہی سے وہ اپنے چڈھے پھیلا کر چل رہی تھی  اب میں نے  گری سٹارٹ  کی اور میں  اب کافی تیزی سے گاڑی کو  ڈرائیو  کرنے لگا میں نے ایک گھنٹے  کا سفر تیس منٹ میں طے کیا  اب  وہ مجھے بتانے لگی راستہ اپنی دوست کے گھر کا پھر ہم ایک ایسے رہائشی  ایریے میں پوھنچ گے جہاں ہر طرف انتہائی خوبصورت بنگلے بنی ہوے تھے  یہ اس  شہر کا مہنگا ترین ایریا  تھا  اب ایک بہت پیارے اور بڑے بنگلے کے سامنے روکنے کو کہا  مجھے بانو نے اس نے اب خود ہی ہارن دیا گاڑی کا  ایک گارڈ نے چھوٹا دروازہ کھولا گیٹ کا  جب اس نے بانو کو دیکھا تو جہت سے اندر جا کر بڑا گیٹ کھول دیا  میں اپنی گاڑی اندر لے گیا    جہاں پے ایک  نئے ماڈل کی ہنڈا اکارڈ  کھڑی تھی اس کے پیچھے اپنی گاڑی روکی اتنے میں اندر سے ایک پیاری سی  لڑکی جس نے جینز کی پیبنٹ اور ایک کھلے گلے کی شرٹ پہن  رکھی تھی  باہر آی اور بانو کو دیکھتے ہی کہا یار تم کو آنے میں اتنی دیر میں اب پریشان ہو گئی تھی  اپر سے تمہارا سیل بھی آف جا رہا تھا