SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ آٹھویں قسط


عاشق

آٹھویں قسط

تحریر: ماہر جی


اب بانو نے ان سے ملو نازی یہ  ہیں شارق صاحب وکل ہیں اور شارق یہ میری دوست ہے نازش  میںنے کہا اب مجھے یہ سمجھنہی ا آرہی کے انکے نام کی تعریف کروں یا ان کی  آج ان کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے نازش نام ہی انہی کے  لئے رکھا گیا ہے  وہ اب ہنس دی اور کہا تھننکس اس انداز میں تعریف کے لئے  اب ہم اس کے ساتھ اندر  چل دے بنگلہ باہر سے بھی پیارا تھا اندر سے تو  کمال کی سیٹنگ تھی  ہر شہ سے جھلک رہی تھی  امارت  وہ ہم کولئے ایک کافی بڑے  سے ڈرائنگ  روم میں آ گئی   اور کہا بیٹھیںآپ پلیز  وہاں پے بہت   ہی بیسٹ  کوالٹی  کے صوفے تھے  ہم ایک صوفے پے بیٹھ گے اب  نازی بھی ہمارے ساتھ ہی بیٹھ  گئی  اتنے میں ایک  ملازمہ  ایک ٹرے میں کولڈ ڈرنک  لے کر آ گئی  ہم ڈرنک کرنے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے مجھے یہ  حسمکھری  سی لڑکی نازی بہت اچھی لگی  اس کے مممے تو کمال کے تھے بہت ٹائٹ  اور کس ہوا بدن تھا اس کا  وہ اب بولی  ہاں اب کھانے  میں کیا چلے گا میں نے کہا جو مل جائے  میں تو کھا لوں گا  اب بانو میری بات کو سمجھ گئی اور کہا شارق  قسم سے کتنے ندیدے ھو تم  نازی کوکچ سمجھ نہ آئی  وہ ہم دونوں کے منہ دیکھنے لگی اور کہا یار یہ کیا رمز  میں باتیں  کر رہے ھو صاف بولو نہ

اب بانو نے  کہا صاف یہ  ہے  کے  یہ تم کو کھانے کی بات کر رہا تھا  یہ سن کر نازی شرما  کے بولی بانو تو بھی نہ کبھی نہیں بدلے گئی  اور ہنس دی اب ہم نے ایک شاندار سی میز پے بیٹھ کے ایک شاندار اور مزے دار  کھانا کھایا  پھر ووہی بیٹھ  کے ہی  چاۓ پی  اور بعد میں ہم ٹی.وی  لاؤنج  میں  آ کر بیٹھ گے  وہاں پے نیچے  ایک بہت نرم اور موٹا قالین بچھا تھا  جس پے پاؤں رختے ہی نیچے کو دھنس  جاتے تھے اور وہاں پے گدے  بھی تھے رکھے ہوے وہ دونو صوفوں کی طرف  جانے لگیں تومیں نے  کہا یار میں تو یہی نیچے ہی بیٹھوں گا  اور پہلیمیں اپنا لباس چینج کروں گا  اب نازش  مجھے لے کر ایک بیڈ روم   کی طرف آیی  اور مجھے  ایک مردانہ نائٹ سوٹ دیا  جو بہت نرم تھمایننے وہ بدلہ اور باہر آ گیا  اب میں  ایزی   ہو کر باتھ گیا اب مجھے نیچے  باتھے دیکھ کر وہ بھی نیچے ہی آ گئیں پینٹ کے ساتھ  نازی سے بٹھا نہیں جا رہا تھا  وہ بھی اپنا لباس چینج  کرنے چلی گئی بانو کو ساتھ لے کر میں وہاں اکیلا  لیٹ  کر کمرے کی ڈیکوریشن  دیکھنے لگا  واقعی  میں نازی نے گھر میں ہر چیز بہت  مہنگی اور  بیسٹ کوالٹی کی رکھی تھی

وہ دونو کافی دیر تک نہیں آییں میں  اب ان کے آنے کہ انتیظار کرنے لگا  پھر وہ دونو ہی ہنستی ہوئی آ گیں  اب ہم وہاں قالین پے ہی گدوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ گے  میں نے کہا ہاں نازی پہلے اب تم اپنا مسلہ  بتاؤ وہ کہنے لگی  شارق میرے پاپا ایک بارے بزنس مین  تھے اس شہر کے  انھوں نے  ایک سات منزلہ پلازہ  بنوایا تھا اس شہر کے سب سے مہنگے ایریے میں  جو ایک ملک ریاض نامی  بندہ خریدنا  چاہتا تھا  جو کے پاپا نے نہ بیچا  پھر بعد میں پاپا نے ایک اور بنا بنایا پلازہ  خرید لیا اب اتفاق کی بات ہے اس پلازے کو  ملک ریاض بھی خریدنا  چاہتا تھا جو اسے نہ ملا اور پاپا  نے لے لیا پھر  ایسے ہی چلتا رہا  پاپا اور ملک ریاض میں ضد سی لگ گی تھی  جگہ خریدننے کی انہی دنو پاپا کو ایک  اٹیک  ہوا اور پاپا اپنی جان کی بازی ہار گۓ

میں ان دنوں اپنے ہوسپٹل میں بزی  تھی کیوں کے وہ نیا نیا سٹارٹ کیا تھا   میں نے میںنے وہاں چوٹی کے ڈاکٹر کو جمع کیا ہوا ہے منہ  مانگی فیس دے کر،   میرے پاپا  اکیلے ہی بھائی تھے اس لئے  پاپا نے دور نزدیک کے رشتہ داروں کو کبھی لفٹ نہیں کرائی  ان کے مرنے کے بعد سب ہی میرے پاس  آگے  سب کو پٹ تھا میں اکلوتی  وارث ہوں  ان کی کروڑوں  کی جائداد کی  اب سب ہی مجھ سے ہمدردیاں جتانے لگے ، میں نے بھی کسی کو اہمیت نہ دی  اور تنگ آ کر سب ہی پیچھے ہٹ گۓ   اب انہی دنوں میں میرے ہوسپٹل میں  ایک مریض  لایا گیا  جو کے کافی زخمی  تھا اسے کوئی بیس کے قریب گولیاں لگی تھیں  وہ ہوسپٹل میں آتے ہی کچھ ہی دیر میں مر گیا ،  پھر  وہاں پے پولیس کی گاڑیاں آ گیں اور ایک ایس پی  نے جو ان کو لیڈ  کر رہا تھا مجھے کہا تم نے ایک  اشتہاری کو  پناہ دی ہے  اور میرے اوپر  اس کو پناہ دینے  کا پرچہ  کاٹ دیا  میں نے بھی کافی کوشش کی اور  اپنی ضمانت کروا لی  لیکن جو بندہ مارا گیا تھا  وہ ایک گینگ کا لیڈر تھا جو اغوا  براۓ تاوان اور ڈکیتیوں کے  کافی سارے کیسوں میں ملوث تھا ، اب صورتحال یہ ہے کے  مجھے ملک ریاض نے کال کی اور کہا  یہ سب اس نے کروایا  ہے اگرمیں اسے دونو پلازے  جو اس وقت کوئی ستر کروڑ  کےہیں صرف بیس کروڑ  میں بیچ  دوں تو وہ یہ کیس ختم کرا دے گا ورنہ کوئی وکل میرا کیس نہیں لڑے گا ،

کیوں کے اس کے ساتھ بارے بارے وکیلوں کی ایک فارم ہے جس میں ریٹایرڈ جج بھی ہیں  جو اب وکالت  کرتے ہیں  ابمیں جس وکیل کے پاس جاتی ہوں اسے وہ لوگ کہہ دیتے ہیں وہ انکار کر دیتا ہے ، میں نے کہا کوئی بات نہیں اب میں آ گیا ہوں نہ سب ٹھیک کر لوں گا پھر ہم  نے اب اپس میں بات چیت شروع کر دی  اب بنو نے کہا شارق ایک گیم  کھیلتے ہیں اور ساتھ ہی چلا کر کہا وہ والی نہیں ظالم ، تونازش بھی ہنس دی اور کہا شارق آپ نے تو میری سہیلی کو زخمی کر دیا ہے پیچھے سے   میں  سمجھ گیا اسے سب بتا چکی ہے بانو میںنے بھی کہا  یار اس کا پیچھا ہے ہی اتنا زبردست کے مجھ سے رہا نہیں گیا ،

اب نازش نے کہا گیم ہو گی الفاظ کی  میں ایک شعر کہوں گی اور اس کا آخری لفظ  جو ہو گا اس سے ہی اگلا شعر بانو کہے گی  اور اس کے شعر  سیاگے شارق آپ اب جو ہارے گا  وہ جیتنے  والے کی بات ماننے گا اور یہ ونر کی مرضی ھو وو ہارنے والے کو جو مرضی سزا دے اگر میرے کہے ہوے شعر کے جوابمیں بانو نہ شعر کہہ سکی تو یہ حری اور میں جیتی  اور سمے ایسے ہی ہو گا میں نے کہا مجھے قبول ہے  اب نازش  اپنی جگہ سے اٹھی اس  نے کمرے کے چاروں کونوں  میں  بڑی بڑی موم بتیاں  جلا دیں اب کمرے میں کوئی دس عدد موم بتیاں جل رہی تھیں جو کے کافی بارے سائز کی تھیں  اب اس نے ساری  لائٹس  بجا  دیں  اب بس  کمرے میں   کینڈل لائٹ تھی  یہ سارا ماحول اب بہت   رومانٹک  ہو گیا تھا ،


پہل اب نازش نے ہی کی
یہ تو دیکھو کہ تمہیں لوٹ لیا ہے اس نے
 اک تبسم پہ خریدار کے گن گاتے ہو  ~~
اب بانو کی باری تھی  h سے شعر کہنے کی وہ بولی

ہم  وفائیں  کر کے رکھتے  ہیں وفاؤں  کی امید
دوستی میں اس قدر سوداگری  بھی جرم ہے  ~!
اب میری باری تھی   اور لفظ  پھر ایچ  ہی آیا تھا سو میںنے بھی کہا

ہم  نے مانا کے  تغافل  نہ کرو گۓ  لیکن
ہم  خاک  ہو جایئں گۓ تجھ کو خبر ہونے تک
اب لفظ ک  آیا تھا اور نازی نے اب کہا

کیا  کریں اپنا تو مذہب ہی محبت  ہے تراب
پھر میری جان ہیں  یہاں لوگ  بھی  پیارے پیارے
اب بانو کے حصے میں لفظ  ی  آیا تھا
یاد رکھنے کے لئے اور نہ بھلانے کے لئے
اب وو ملتا ہے  تو بس رسم نبھانے کے لئے
اب میرے حصے میں بھی ی ہی آیا تھا

یہ لوگ کس منزل کی بات کرتے ہیں
ہم مسافروں کے لئے تو راستہ ہی کافی  ہے
اب پھر سے نازی کے ہسیمیں بھی ی ہی لفظ آیا تھا وہ سوچ  رہی تھی ، پھر  میں نے کہا جلدی   جلدی  اتنا سوچنا  نہیں ہے  اب اس نے اپنی ہار ماں لی میں  نے اب  بانو سے کہا تم ی سے کوئی شعر  سنو وہ بھی کہنے لگی نہیں آ رہا  اب وہ دونو ہی ہار گئی تھیں  میں نے کہا  ٹھیک ہے میں جیتا ہوں  اب تم  دونوں  ہی  ایک دوسری  کو تین منٹ تک کس کرو گئی وہ یہ سن کر  بولی ٹھیک ہے اب   نازی نے بانو کے ہونٹوں کو چوسنا شروع  کر دیا   اب نازی کا ہاتھ  بانو کی چھٹی پے تھا وہ اس کے مممے مسل  رہی  تھی اور بانو اس کے  کوئی تین  منٹ تک وہ ایک دوسری کو کس کرتی رہیں اب وہ دونوں ہی کچھ گرم ہو گیں تھیں ،


اب نازو نے کہا شارق   اب تم ایک آخری  شعر  کہو گۓ بس  اور نہیں  میں نے اب کہا چلو ٹھیک ہے وہ بولی کوئی ایسا شعر  کہو جس کو سن کے میں پگھل ہو جاؤں  میں نے اب کہا
بہت خاص ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ہم اپنا کہتے  ہیں
چلو تم کو اجازت ہے  کے تم انمول ہو جاؤ
 یہ کہہ  کر میں نے  نازو کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا اور اس  کے رس بھرے ہونٹوں پے ایک کس کر دی وہ تو ہکا بکا رہ گی  اور بولی  تم  تو واقعی  میں کمال کے بندے  ھو  اب بانو نے کہا نازی کچھ پینے پلانے کو لاؤ اب  پھر مجھے دیکھ کر بولی شارق کیا پیو گۓ  

پھر نازی کچھ کھانے پینے کا سامان لینے چلی گئی  اور میں نے بو کو اپنی بنھونمیں بھر لیا میں اس کے ہونٹ چوس  رہا تھا  کے اچانک  وہ درد سے  دوہری ہو گئی  میں نے کہا کیا ہوا ہے یار وہ اٹھی اور کمرے سے بھاگ گئی ، پھر کافی دیر کے بعد  نازی آیی اور کہا  یار بنو کے مینسیز ہو گۓ ہیں  میں نے کہا دھت ترے کی  وہ ہنس دی اور کہا یہ  کیا بات ہوئی اب بھلا اس بیچاری کیا کیا قصور اس میں  میںنے کہا  وہ بیچاری ہیکہان وہ بولی ایک تو اسے درد ہو رہا ہے دوسرا وہ اب شرما رہی ہے تم سے  میں  اس کے  ساتھ ہی  اب بانو کے پاس گیا وہ  مجھے دیکھ کر شرما گئی اور کہا سوری  یار  میں بھی اب ہنس  دیا اب میں نے کہامیں بھی اب سونا چاہتا ہوں اور اب  نازی نے کہا آؤ میں آپ کو اپپ کے کمرے میں چھوڑ آؤں پھر مجھے  ایک باد روم میں لے آیی  اور کہا آپ یہاں سو جایئں  اور بھر جانے لگی پھر پلٹ کے پوچھا شارق آپ کچھ لیں گۓ اب میں وہ پینے کے لئے کولڈ ڈرنک اور کھانے کا سامان  وہاں ہی رکھ آئی  ہوں ابھی لائی  میں نے اب اس کا بازو پکڑ لیا اسے اپنی طرف کھینچا وہ ابمیری بانہوں میں تھی میرے سینے سے لگی ہوئی  میں نے  اب اس کے کان میں کہا
ان ہونٹوں  کی مہ کشی،  نے  اے ساقی
لوٹ لیا ہمیں ایک ہی جام میں ~
 وہ شرم سے چوڑ ہو گئی میری بات سن کے میں نے اب کہا نازی  تم بہت  پیاری ھو  اگر تم  اجازت دو تو تمہارے ماتھے  سے ایک ذرا لے کر میں آسمان  کے ماتھے پے ایک چاند بنا ڈالوں  میرے منہ سے اپنے حسن کی ایسی تعریف سن کے وہ پاگل ہو گئی  اور کہا شارق  مجھے جانے دو نہ  پلیز  اس کی سانسیں بہت تیز  چل رہی تھیں میں نے اب کہا نازی میں تمہارے ان  انگوری رس سے بھرے ہوے مممے سے رس پینا  چاہتا ہوں

اور ساتھ ہی اس کے مممے  پاکر لئے وہ تو ایک سسکاری لے کر تڑپ گئی  اس کا بدن  کانپ رہا تھا  میری بانہوں میں وہ ابکے ڈوبتی  سانسوں  سےبولی شارق مجھے  جانے دو نہ  میرے اندر کچھ ہو رہا ہے میں نے کہا آج سب کچھ ہو جانے دو پھر اسے اپنی بانہوں میں لیا اور اسی لاؤنج میں لے گیا جہاں ہر طرف موم بتیاں جل رہی تھیں  میں نے اسے آرام سے نیچے ایک گدے پے لٹا دیا  اور ا

اس کا کپکپاتا نرم گرم جسم میری بانہوں میں سما گیا۔
میرے اور اس کے ہونٹوں کے بیچ چند سینٹی میٹر کا فاصلہ تھا۔
اس کا سانس چڑھا گیا تھا،جس کا اندازہ مجھے اپنے سینے پر اس کی بھاری چھاتی کی اتھل پتھل سے ہوا۔
وہ مری مری آواز میں بولی:شارق کوئی  آ جائے گا،،
میں بولا:تو وہاں چلو جہاں کوئی آتا جاتا نہ ہو۔
وہ شرما گئی اور بولی:پلیز جانے دو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
میں نے کہا:ڈر تو مجھے بھی لگ رہا ہے۔
وہ سوالیہ نظروں سے تکنے لگی تو میں بولا:تمہیں ہوش کھونے کا ڈر ہے تو مجھے ہوش میں آنے کا۔
میں نے اپنے ہونٹ اس کے کانپتے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔
میں نے ایک بار پھر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے سی دیا۔
میں نے اس کی نائیٹی کے گاؤن کی ڈوری کھول دی اور اسے اتار دیا۔
اس کے نیچے گلابی جسم کسی گلاب کے پھول جیسا دمک رہا تھا۔ اس سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی۔
نیچے نائیٹی کا ٹاپ تھا،جس کے سٹریپ میں نے کندھوں سے سرکا دیئے تو اس کی خوبصورت تراشی ہوئی چھاتی بالکل بےنقاب ہو گئی۔
وہ ایکدم سے گدے   پر سیدھی لیٹ گئی۔ میں نے وقت ضائع کیے بغیر اس کے جسم سے سارے کپڑے اتار دیئے۔
میں اب پیار سے اس کی ناف سے شروع ہوا،اور لمحہ لمحہ اوپر کی طرف گولائی میں ہونٹوں سے سفر کرنے لگا۔
میرے ہونٹوں کو جسم پر پا کر وہ بےقابو ہونے لگی اور بےحال سی ہو گئی۔
اس کے گورے جسم کا نمک مجھے پیاسا کرنے لگا اور میں اس کے مموں تک پہنچ گیا۔
اس کے گول گول صاف ممے واقعی تراشے ہوئے تھے۔
میں نے دائیں سے شروع کیا اور مموں کی درمیاں لکیر تک ممے کو اتنا چوما کہ وہ بےحال ہو کر چلانے لگی۔
اس کے نپل میں نے بعد کے لیے چھوڑ دیئے۔ یہی عمل میں نے بائیں ممے پر بھی اسی شدومد سے دہرایا۔
اس کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے اور چوستا ہوا ہونٹوں تک جا پہنچا۔
یہی ہونٹ میری منزل تھے جہاں میں اس کے منہ میں زبان ڈالے اسے چوستا رہا۔
وہ بھی پورے جوش سے میرا ساتھ دینے لگی۔
اس کی گیلی چوت کے مسلنے سے

۔میرا لن بھی اب بلکل ٹائٹ ہو گیا تھا  میں اب دوبارہ
 اس کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں کو دوبارہ چومنے لگا۔
لن کی ٹوپی سے اس کی گیلی ہوئی چوت کے لبوں کو رگڑنے لگا۔ چوت کا دانہ بار بار لن کی ٹوپی  کی کھردری سطح سے مسلا جاتا۔
وہ ہربار سسکاری سی بھرتی۔ جب کافی دیر ہونٹوں کو چوم لیا اور لن ہی سے چوت کو مسل لیا تو لن اس کی چوت پر رکھا اور اندر گھسا دیا۔
اس نے اچانک ہی ایک آہ بھری،لن ذرا زور سے مگر بنا خاص مشکل کے اندر چلا گیا۔
دو تیں جھٹکوں کے بعد ہی پورا اندر چلا گیا اور رواں ہو گیا۔
میں نرمی اور پیار سے اس کی ٹانگوں کو کھولے آرام آرام سے اسے چودنے لگا۔
کافی دیر بعد اسے سائیڈ کی طرف موڑ کر لٹا کر تکونی انداز میں لن اس کی چوت میں گھسا کر چودنے لگا۔  لن پھنس پھنس اس کے اندر باہر ہونے لگا،مگر اس کی سائیڈ کی دیواروں کو گہری رگڑ لگنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد میں نے سائیڈ بدل لی اور اسی انداز میں بائیں سے دائیں چودنے لگا۔
جب میں بھی تھکنے لگا او اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر چودنے لگا اور ساتھ ہی اس کے نپلز کو نرمی سے کاٹنے اور چوسنے لگا۔
وہ اونچی آواز میں چلانے لگی۔ پھر وہ چھوٹ گئی اب نازی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی  وہ بولی شارق بانو نے کہا تھا تم باری بےرحمی سے چودتے ھو میں   ڈر رہی تھی اوپر سے تمہارا لن بھی بہت ہی بڑا ہے  اب وہ بولی کوئی  پانچ سال بعد اس چوت میں لن گیاہے  اس نے بتایا اس کے خاوند کی ایک اکسیڈنٹ  میں ڈیتھ ہو چکی ہے پانچ سال پہلے اور اس نے دوبارہ سے شادی نہیں کی  میرا لن ابھی بھی اس کی چوت میں ہی تھا  میںنے اب دوبارہ سے اسے کس کرنا شروع کر دیا

وہ کسی پھول کی پتی کی مانند ہوا پر تیرتی ہوئی میری بانہوں میں سما گئی۔
اس کے جسم میں نرمی اور گرمی کا احساس یکجا تھا۔
میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور انھیں پیار سے چومنے لگا۔
اس کے ہونٹوں میں رس بھری جیسا میٹھا اور کھٹا پن تھا۔
میرے ہاتھ اس کے جسم کے ہر حصے کو نرمی سے سہلانے لگا۔
وہ آہیں بھرتی میرے سینے سے لگ میرا ساتھ دینے لگی۔
میرے ہاتھ اس کی چھاتی کی گولائیوں پر پھرتے ہوئے جسم کے اتار چڑھاؤ پر پھسلنے لگے۔
اس کی گہری سانسیں،مترنم ہنسی جسم کو جھٹکے دیتی۔
میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی  نازش :ان ہونٹوں کی مٹھاس مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔
وہ اک ادا سے مسکرائی:کون تمہیں بھولنے دے گا۔
اس نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی اور میرے اوپر لیٹ گئی۔
وہ اپنی زبان سے میرے منہ کے اندر تک کے ایک ایک حصے کو چومتی اور چوستی رہی۔
میں اس کے کولہوں پر اور ان کے درمیان کی راہداری پر ہاتھ سے سفر کرنے لگا۔
میری انگلیاں کئی بار اس کی نرم ملائم اور گیلی ہوئی چوت سے بھی ٹکرائیں۔
اس کے بعد وہ میرے جسم پر زبان پھیرتی میرا لن تک جا پہنچی اور اسے پکڑ  کر  نرمی سے گولائی میں چاٹنے لگی۔
پھر آرام آرام سے اسے اس منہ میں لے کر چوسنے لگی
وہ کافی دیر لن چوس کر مجھے مزا دیتی رہی پھر میں نے اسے اپنے نیچے لٹا لیا
وہ نیچے چت لیٹ گئی۔
میں نے اپنے ہونٹ اس کی چھاتی پر رکھ دیئے۔
اس کی چھاتی کی لکیر کو گہرائی تک چومنے لگا۔ وہ کبھی ہنستی اور کبھی کھکھلا کر میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتی۔
اس کی شفاف ناف پر میرے ہونٹ جیسے اشتعال میں آ گئی،میں اس کی بےداغ جلد کو دونوں ہونٹوں میں دبا کر جب چوستا تو وہ گہری سانس لیتی۔ اس کا جسم ہلکورے کھاتا اور ٹانگیں بند ہوتیں اور کھلتیں۔
 میں نے اس کی چوت کے لبوں کو مسلنا شروع کر دیا۔
اس کی چوت کا دانہ کبھی باہر نکلتا کبھی لبوں کے اندر چلا جاتا۔ دانے کا مسلنا نازش  کے چہرے پر جیسا ایک عجیب سا رنگ لانے لگا۔ وہ کبھی آنکھیں بند کرتی،کبھی زور سے چلاتی، کبھی خاموشی سے اپنے  دونوں ہاتھوں سے  قالین  کو نوچتی
وہ بولی:شارق ! میں پاگل ہو رہی ہوں،،مجھ سے اتنا مزا برداشت نہیں ہو رہا۔
اس سے اب لن کی دوری برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
وہ گہری آہیں بھرنے لگی۔ اس کی آواز سے کمرا گونجنے لگا۔
میں اپنے ہونٹوں سے  نازش کی  چوت کے لب چوستا  جا رہا تھا اور مموں کو مسلتا  جا رہا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے
وہ بولی:آہ،،آہ،،اوو،شارق  بس کرو،،اب نہیں برداشت ،،ہو آہ ہ ہ ،،رہا۔
مجھ سے اور برداشت نہیں ہو رہا۔ پلیز اپنا لن میری چوت کے اندر ڈال دو پلیز شارق  میں نے اب کی بار اسے الٹا کیا
میں نے اس کی کمر کو چومنا   شروع  کر دیا۔ پھر پیچھے سے اپنا لن اس کی چوت کے سوراخ پے رکھا  اور
لن پیچھے سے اس کی چوت میں گھسا دیا۔ ایک بار پھر لن کافی تنگی سے چوت میں گیا۔ مگر اس بار وہ اس سے مزا لینے لگی۔
لن جاتے ہی وہ مزے سے چلانے لگی۔
میں نے اس کی گردن،گالوں اور ہونٹوں کو پیچھے سے چوما اور کبھی بیٹھ کر کبھی اس کے اوپر لیٹ کر اسے چودنا جاری رکھا۔
میرے چودنے سے اس کا سارا جسم ہلتا اور چوت کے لب گدے  سے مسلے جاتے۔
اس دو طرفہ چدائی سے چوت اور زیادہ پانی بہانے لگی۔
وہ کبھی چوت کھولتی ،کبھی تنگ کر لیتی۔
میں جب بھی چھوٹنے لگتا کچھ دیر لن کو روک لیتا۔ اس دوران اس کے گالوں اور جسم کو چومتا رہتا۔
وہ جس طرح الٹی ہوئی اس طرح سیدھی بھی خود ہی ہو گئی۔
میں نے اس کی ٹانگیں کھولیں اور ٹانگیں اٹھا کر زور زور سے چودنے لگا۔  اب کی بار میں نے کچھ بےرحمی کا مظاہرہ  کیا  اور اس کو ذرا زور سے چودا وہ اب تک ایک دفع فارغ ہو چکی تھی  اب کی بار   میںنے  اسے اپنی گود میں بیٹھا لیا  اور نازی کے ہونٹ چوسنے لگا وہ مزے سے  بھرپور   ہو کر میرے ہونٹ آنکھیں بند کےہی چوس رہی تھی پھر میں نے کوئی دس منٹ تک اسے ایسے ہی چودا  پھر میں نازش کی چوت میں ہی فارغ  ہو گیا  اور ابھی ایک دو اور دھکا مارا  ہی تھا وہ بھی جھڑ گئی  اب نازش نے مجھے اپنی بانہوں مے زور سے  بہنچ رکھا تھا  اور وہ میری گرداب کو چومتی جا رہی تھی  میںنے کہا  نازی کل رات کو میں تم کو بےرحمی سے  چودوں گا وہ بولی شارق  نہیں جان میں ایسے ہی ٹھیک ہوں
میں نے کہا نازی   جو مزہ اس چدائی میںہے وہ اس میں کہا  ابھی تو میںنے تمہاری اس گانڈ کو بھی کچھ کھلا کرنا ہے وہ شرما گئی اور کہا کیوں جناب اس بیچاری نے اپ کا کیا بگاڑا ہے  پھر میںنے کہا چلو اب سوتے   ہیں پھر وہ میرے ساتھ ہی میرے بیڈ پے  مجھے اپنے ساتھ لپٹا کے سو گئی  میں بھی اسے چومتے ہوے سو گیا

 

عاشق ۔ ساتویں قسط

 



عاشق

ساتویں قسط

تحریر: ماہر جی


ٹھیک ہے جناب آپ آج ہی فیصلہ کر لیں اب میں ن نے کہا جناب میں اب پھر  مسز فرہاد کو بلانا چاہوں گا سوالوں کے لئے  جج سحاب نے کہا اجازت  ہے  اب میں نے ثمینہ  فرہاد کی  دیکھا جو اب کٹہرے  میں آ گئی  تھی  میں نے کہا  مسز فرہاد کیا آپ کا اپنے شوھر سے کوئی جھگڑا تھا  وہ بولی نہیں  میں  نے کہا  آپ کی ازواجی  زندگی کیسی گزر رہی تھی وہ بولی  بہترین  اب میں اپنے پوانٹکی طرف آیا میں نے کہا کیا آپ کو پتہ تھا آپ کے شوھر باہر  اور بھی لڑکیوں سے ملتے  تھے  وہ بولی یہ جھوٹ ہے  اب دار سحاب نے کہا جج سحاب وکیل صاحب سے کہیں سوال صرف مقصد کا ہی کیا جائے جج صاحب نے مجھے کہا شارق صاحب صرف وہ سوالکریں جو اس کیس سے متعلقہ ہے  میں نے کہا جناب میں ثبت کروں گا میرا ہر سوال اسی  سے متعلقہ ہے اب میں نے دوبارہ سے کہا مسز  فرہاد   آپ کے خاوند  ایک  عیاش آدمی تھے  خدا معاف کرے میں مرنے والی پے کیچڑ  نہیں پھینک  رہا    اب کیا کروں  ان سوالوں سے ایک زندگی جڑی ہے  پھر میں نے کہا  آپ نے جواب نہیں دیا وہ بولیں یہ سب جھوٹ ہے  وہ بوہت شریف انسان تھے  میں نے کہا چلیں ماں لیتے ہیں اب آپ باتیں کے پھر اس شریف انسان کو کیوں  قتل کیا اس لڑکی  نے وہ بولی یہ لڑکی ایک بعد چلن  ہے  اور اس کا فرہاد صاحب کو پتا چلا تو انہوں نے  اسے روکا  اس دیں بھی یہی ہوا تھا

 اور یہ تبھی ان سے لڑی تھی مجھے اس جواب پے برا  غصہ آیا  کے ایک شریف لڑکی کو کیا کہا جا رہا ہے  اب میں نے کہا یہ سچ نہیں ہے سچ یہ ہے کے آپ کے شوہر  ایک  عیاش شخص تھے  جو اپنی سیکرٹری  رختے ہی اسے تھے جو جوان اور  خوبصورت ھو  وہ بولی یہ الزام ہے ان پے  اب  میں نے کہا آپ جا سکتی ہیں  اب  میں نے ایک فائل  قاروقی صاحب سے لی اور  جج صاحب کو پیش کی اور کہا  جناب عالی  یہ وہ ریکارڈ فائل ہے  فرہاد کی فرم کی اور آپ اس میں سے لگی تصویریں بھی دیکھ لیں  یہ سب وہ لڑکیاں ہے جو پچھلے پانچ سال سے ان کی سیکرٹری  رہ  چکی ہیں  پر  ایک دلچپ  بات یہ ہے جج صاحب  ان میں سے کسی کی بھی نوکری کی عمر پانچ ماہ  سے زیادہ نہیں ہے   اب میں آتا ہوں کیس کی طرف اس دِن جب   فریال  کو آنے میں دیر ہوئی گھر میں تو  تب ہی فریال کو لینے اس کا بھائی گیا تھا  اور یہ قتل فریال نے اپنی عزت بچانے کے لئے کیا تھا  اور جناب عالی  ہم پاکستان میں رهتے ہیں  یہاں کی   مشرقی  لڑکیاں جان سے زیادہ عزت کو اہمیت دیتی ہیں اس لئے صف سی بات ہے یہ قتل سلف ڈیفینس  میں کیا گیا ہے

لہٰذا میری  موکل  کو ضمانت پے رہا کیا  جائے  اب کی بار ڈار صاحب نے   بہت الٹے سیدھے الزام لگاے   فریال پے  اور کہا جج صاحب یہ ضمانت نہیں ہونی چاہے یہ ایکقاتل اور بدچلن لڑکی ہے  اسے جیل میں ہی ہونا  چاہے  ابمیں نے دوبارہ سے کہا جناب عالی میرے پاس کچھ ایسے  گواہ  ہیں جن کو سن کے آپ  اسلا صورت حال کو جان لیں گے میری پہلی گواہ ہے شہناز  اور وہ آ گی  کٹہرے میں اب ڈار  صحابنے اس سے پوچھا آپ کیاکرتی ھو اس نے بتایا ایک فرم میں جاب  پھر اگلا سوال کیا  آپ نے فرہاد صاحب کے پاس سے جب کیوں چوری وہ بولی اس لئے کے میں نے ان کے ساتھ بستر پے سونے سے انکار کر دیا تھا اس نے مجھے نوکری سے نکال دیا اتنا خلا جواب سن کے ایک دفع تو فرحاں ڈار کے بھی پسینے  چھوٹ گے وہ بولا آپ جھوٹ بول رہی ہیں  بس پھر کیا تھا  شہناز نے سری باتیں ہی کہ دیں اور کہا یہ سارا قصور ہے مسز فرہاد کا جو اپنے معصوم خاوند کو  خوش نہیں رکھ سکیں  پھر اگلی گواہ  تھی فائزہ  اس نے تو وہ ہلر مچایا کے  عدالت  میں بٹہے لوگ بھی کانوں کو ہاتھ ہ لگانے لگی

 اس نے بتایا  اسے چار ماہ تک  استمال کیا تھا فرہاد نے  پھر اس نے مجھے نوکری سے نکال دیا  اور کہا اگر تم نے زیادہ شور کیا  تو اندر کرا دوں گا  میں بہت رویی کیوں کے اس نے مجھ سے شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا اب وہ میرے ساتھ یہ سب کر رہا تھا  میں بعد میں مسز فرہاد کے پاس بھی گی  اسے سب بتایا تو الٹا اس نے مجھے کہا اگر تم نے اب کسی سے کوئی ایسی بات کی تمیں  اپنے نوکروں کے آگے ڈال دوں گی  پھر اس کے بعد آنے والی تینوں  لاریوں نے ایک جیسے بیان دے سب کے ساتھ  ایسا ہی  ہوا تھ ایک لڑکی صبا نے کہا  جج صاحب کی طرف دیکھ  کر کہا  جناب مجھے بعد میں پتا چلا تھا  کے ان فرہاد احمد اور اس کی مسز کی آپس میں ڈیلنگ تھی  یہ اس کو نہیں  روکے گئی وہ اسے نہیں روکے گا  فرہاد اپنی فرم  کی لڑکیوں سے عیاشی کرتا اور اس کی بیگم یہ  ثمینہ فرہاد  کالج  کے نوجوان  لڑکے گھیرتی  یہ سنتے ہی ثمینہ  کا رنگ اڑ گیا اور فرحان ڈار تو ایسے آگ بگولا ہو گیا  جسے وہ کسی بازار میں ننگا ہو گیا ھو      

اس نے کہا لڑکی تم یہ بکواس اس وکیل کے کہنے پے کر رہی  ھو   اب تو وہ لڑکی  صبا  بھی غصے میں آ گی اور کہا  میں بکواس نہیں کر رہی وکیل صاحب  میں نے اس کو اپنی ان آنکھوں سے رنگے ہاتھوں پکڑا  تھا پوچھیں اس سے  شاہد میرا ہی بھائی  تھا  جسے یہ لے کر گی تھی اپنی کوٹھی  میں اور اس کے ساتھ یہ وہاں  تین دِن رہی تھی بلکل ننگی  بعد میں  میرے بھائی کے ایک دوست  جاوید کے ساتھ بھی اس نے ایسا ہی کیا  اور تبمیں نییسے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا  اب تو  کیس کی صورتحال ہی بدل گی  اب جج صاحب سےمیں نے کہا  جناب اب مہربانی کر کے میری کلائنٹ  کی ضمانت منظور  کر لیں اب ڈار  سے کہا نہیں  جج صاحب اس کی ضمانت  نہیں ہونی چاہے  میں آپ کو کہ رہا ہوں اب میں نے کہا  مسٹر فرحان ڈار صاحب تم خود کو سمجھتے کیا ھو یہ عدالت تمہارے بھاپ کی نہیں ہے  ایک قانون کا گھر ہے اور قانون کے مطابق  یہ ضمانت بنتی ہے میری موکل کی  اب  تو جج صاحب کو بھی کچھ  برا لگا تھا

 کیوں کے  اس وقت وہاں پے بہت سارے   وکیل تھے  اب  اگر جج ضمانت نہ لیتا تو سب ہی سمجھتے  کے وہ  ڈار کی وجہ سے نہیں لے رہا اس نے کہا  میں دو لاکھ  کے مچلکوں  پے فریال کی ضمانت منظور کرتا ہوں  میں نے اسی وقت  جج صاحب سے کہا جناب اب ٹائم  ختم ہو رہا  ہے کیا میرے بار کے کارڈ  پے ضمانت قبول کی جا سکتی ہے جج صحابنے کہا نہیں ابھی آپ  کے کرد پے نہیں ہو سکتی ضمانت  اب کی بار بھائی  نصرت  آگے اے اور کہا   جج صاحب  میں اپنی ضمانت  دیتا ہوں  اب جج صاحب نے کچھ نہ کہا اور ضمانت مان لی  جج صاحب اور بہت سارے  وکیلوں کو اب پتا چلا تھا کیمین جج امجد حسین شاہ  اور وکیل نصرت حسین شاہ  کا بھائی شارق حسین شاہ  ہوں  جج صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا  یار تم ایک  خطرناک  وکیل ھو میں نےایسا  وکیل کبھی نہیں دیکھا  میں  نے ہنس کے کہا سر ایسی کوئی بات نہیں وہ فرحان ڈار خود کو پتا نہیں کیا سمجھتا  ہے  وہ اب پیار سے  مجھے دیکھ کر بولے ینگ مین  ذرا  اپنا  خیال رکھنا  وہ ایک سانپ  ہے  جو اپنی ہار نہیں بولے گا

اب میں نے فریال اور احسان تائب کو  کہا یار اب تم لوگ کچھ دِن مجھے  مہمان نوازی کا موقع  دو احسان سمجھ گیا میری بات  کو اس نے کہا ٹھیک ہے بھائی صاحب  اب میں نے اپنے ارد گرد  دیکھا میں اب ان  خفیہ گارڈز  کو ڈھونڈ رہا تھا کے میرے پاس ایک طرف سے ظفری نکل کے اچانک آیا اور بولا باس آپ مجھے  ڈھونڈ رہے ہیں   پھر میں ہنس دیا اور کہا  ہاں یار ان کو لے جاؤ ساری فمیلی  سمیت یہ اب ھمارے مہمان ہیں  کچھ دِن  اس نے ایک طرف سے ایک لڑکے کو اپنی طرف بلایا  اور اسے کچھ کہا وہ اب احسان لوگوں کو اپنے ساتھ لے گیا  میں اب بار روم میں داخل ہوا  تو سب   وکیلوں نے مجھے گھیر لیا  جو ہماری جیت سے خوش تھے وہ تعریف  کرنے لگی اور جو ڈار کے پنیل کے تھے وہ  چپ کر کے بیٹھنے رہے  اب اس کے پینل  کے ایک وکیل گلزار نے  کہا  آج تک  کوئی وکیل جیتا نہیں ہے ڈار صاحب سے اب آشیانے والوں نے ایک سوے ہوے شیر کو جگا دیا ہے

 میں نے کہا گلزار صاحب  شیر وہ ہوتا ہے  جو سامنے سے وار کرے  پیچھے سے وار کتے  کرتے ہیں  اور میں ویسے بھی ڈاگز کلر  ہوں وہ اب چپ ہو گیا  اصل میں ووکلاء  میں بھی گروپ  بندیاں تھیں  اور  ایک دو مہینے کے بعد بار روم کے الیکشن  بھی ہونے والے   تھے  پھر میں تو فاروقی صاحب کے ساتھ  اپنے دفتر آ گیا  اور پھر ہم کافی دیر  اگلے دِن کے کیسوں  کی تیاریکرتے رہے کیوں کے جو کیس میں نے آج جیتا تھا  یہ میری نظر میں عام سا تھا  میں تو چاہتا تھا میں جس کیس میں ہاتھ ڈالوں وہ میرا ہی ہو جائے  پھر میں گھر کی طرف چل دیا  جبمین آشیانے  سے کچھ دور تھا  کے اچانک مجھے  کلاشنکوفوں کے چلنے کی آواز آیی  ایسا لگا جیسے قریب ہی دو  گروپ آپس میں ٹکرا گے ہوں پھر اسی وقت  ایک  ون.ٹو فائیو موٹر سائیکل میری گاڑی کے پاس آیا اور اس پے بیٹھنے ایک لڑکے نے مجھے بتایا   کے مجھ پے چار لوگوں نے  گولیاں چلانے کی کوشش کی تھیں کے وہ اپنی گولیاں چلانے سے پہلے ہی ھمارے حملے میں مارے گے  ہیں  اب آپ آرام سے گھر جایئں  میں سمجھ گیا یہ سب ڈار نے کیا ہے    

میں اب گھر آ گیا میں ے کسی سے بھی ذکر نہ کیا  اس  واقعہ  کا گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی  لان پے سب گھر والے کھڑے تھے   میرے سب بھائیوں کے ہاتھ میں اور والد صاحب کے ہاتھ میں بھی  پھولوں کے ہار تھے  وہ سب اب آگے بڑھے اور مجھے گالی سے لگا کے ہار ڈالتے جاتے  میں  نے وہ سارے ہار اتار کر اپنی والدہ صاحبہ کے قدموں میں رکھ دیے اب ڈیڈی نے کہا  واہ  یار تم نے آج کمال کر دیا  پھر بھائی امجد نے مجھے  کہا مجھے بعد میں بتایا تھا جج آصف گھمن  نے  کہنے لگا امجد صاحب  آپ کا یہ چھوٹا بھائی تو مجھے  کوئی جن لگتا ہے وہ کسی کی پروا ہی نہیں کرتا  سب ہنس دیے   پھر ہم نے وہو لان پے آج کھانا کھایا  میں نے لالارخ سے کہا  جاؤ میرا من تو میٹھا کرا دو ندیدوں  کی طرح ساری  مٹھائی  خود ہی کھا رہی ھو  جس نے گلاب جامن کا ڈبہ اپنے آگے رکھا ہوا تھا وہ  بولی جی نہیں آپ کے لئے  یہ نہیں ہے آپ برفی کھا لیں میں نے اب شفق بھابھی سے پوچھا نیلوفر کہاں ہے وہ بولی وہ آج اپنی ایک دوست کے ساتھ  مری گی ہے  اتنے میں بھابھی تنویر  کے ساتھ ایک لڑکی آتی نظر آی اندر سے میں نے پوچھا یہ پھلچری کون ہے تو شفق بھابھی نے کہا یہ امجد بھائی کے ایک دوست کی  بیوی ہیں جو  آج ملنے آیی تھیں یہ تو ان کو جانے نہیں دیا  ہم نے  پھر بولی شارق میں تمہارے لئے بھی کوئی ایسی ہی پھلچری  ہی ڈھونڈوں گی اصل میں شفق بھابھی میری کزن بھی تھیں اس لئے میں زیادہ ان سے فری  تھا ،  

اتنے میں بھابھی تنویر بھی ھمارے پاس ہی آ گی اور کہا کیا باتیں ہو رہی  ہیں اب میں  چپ رہا تو بھابھی شفق نے  کہا بتا دوں ان کو میں جھینپ  گیا اب کے مجھے  اس خاتون نے بھی  مبارک دی اس کی عمر کوئی 33  سال ہو گی  وہ ایک بھرے  ہوے جسم کی ملک تھی  خاص کر اس کی چھاتی بہت بڑی تھی  میں نے  ان کو تھینکس  بولا اب تنویر بھابھی نے کہا شارق یہ میری دوست ہے شہبانو میں سمجھ گیا یہ پٹھان ہے  اور یہ امجد بھائی کے دوست  گلباز خان کی بیوی تھی اب ہم باتیں کرنے لگے اب بانو نے کہا ہاں تو شفق تم بہن  بھائی کون سی بات پے اتنا ہنس رہے تھے اب  میں نے کہا وہ ایک لطیفہ تھا بھابھی تنویر نے کہا کیا ہم نہیں سن سکتے وہ لطیفہ تو شفق بھابھی اب مسکرا رہی تھی  میں اب پھنس گیا  میں نے بات  میں بات دہلی اور کہا تنویر بھابھی زورون  کی بھوک لگی ہے وہ بولی  وک ابھی میں کھانا لگاتی ہوں   پھر ہم سب نے کھانا کھایا اور ڈیڈی کے کمرے میں بیٹھ کر آج کی صورتحال پے ڈسکس  ہونے لگی بھائی لوگ مجھے سمجھا  رہے تھے کے ایسے لوگ معاشرے کے ناسور  ہوتے ہیں ان سے بچنا ہی چاہیے  اب میں ان کو کیا بتاتا کے میرا تو مشن ہی یہی تھا ان ناسوروں کو ختم کرنا ، پھر ایسے ہی کافی دیر تک محفل جمی رہی  اب  شفق بھابھی نے کہا  شارق  آج تم  سے دو دو ہاتھ کرنے ہیں ذرا لان میں آ جاؤ   میں لن میں چلا آیا وہاں پے پہلے ہی بھابھی تنویر اور شاہ بانو ماجود تھیں اب بانو نے مجھے دیکھتے ہی کہا  ہاں تو پھڈے باز وکیل صاحب   آپ نے مجھے کیا کہا تھا میں اب سمجھ گیا بھابھی شفق نے بتا دیا ہے  میں نے کہا وہ اصل میں مجھے اب کیا پتہ تھا  کے آپ اب اپنے خاص لوگوں میں سے ہیں میں نے تو ویسے ہی کہا تھا کے یہ پھلچری  کون ہے وہ  ہنس دی اور کہا تم نے مجھے پھر پھلچری کہا  دیکھو تنویر تمہارا دیور کتنا تیز ہے   ہم سب ہنس دے اب میں ان سے کچھ فری  ہو گیا تھا  پھر ہم  ساتھ ساتھ واک بھی کرتے رہے اب اس نے کہا  

تنویر میں نے ایک مشورہ کرنا ہے نصرت بھائی سے میری ایک دوست کے ساتھ کچھ  پرابلم  ہے وہ ایک اچھے سے وکیل سے مشورہ کرنا چاہتی ہے تو جھٹ سے  شفق بھابھی نے  کہا اپنا شارق ہے نہ  اب میں نے کہا بھابھی کیا بات ہے آپ مجھیبتاؤ وہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر بولی  یار اس کے خلاف ایک بہت بڑی پارٹی نے ایک جھوٹا کیس دائر  کیا ہوا ہے  جس میں سے اس نے بڑی مشکل سے  اپنی عبوری ضمانت کرا رکھی  ہے  مگر مسلہ یہ ہے کے جو مخالف پارٹی ہے وہ اسے کسی وکیل کو نہیں کرنے دیتے اب تک وہ کوئی آٹھ دس وکیلوں سے بات کر چکی ہے  پر کوئی بھی حامی نہیں  بھڑتا  کیوں  کے وہ لوگ اسے روک دیتے ہیں ان کے پاس بارے بارے وکیلوں کا ایک پورا گروپ ہے جن کی وجہ سے یہ مسلہ کھڑا ہو گیا ہے  میں نے کہا اس کی ان سے یہ لڑائی کیوں ہو رہی ہوا بولی اتنا  تو مجھے بھی نہیں پتہ  اس سے پوچھنا پڑے گا پھر اس نے کہا شارق پلیز وہ میری دوست ہے اور مجھے اپنی بہنوں سے بھی عزیز ہے میں نے کہا ٹھیک ہے بھابھی میں آپ کی دوست کا کیس لڑوں گا  پھر ہم سب اپنے اپنے کمرے کی طرف چل دیے میں کمرے میں جا کر سو گیا  پھر میری آنکھ تب ہی خالی جب مجھے بھائی  امجد نے آ کر اٹھایا  وہ بولے شارق  تم ایسا کرو  آج شاہ بانو کے ساتھ ان کی کوئی دوست ہے ان سے مل لو ان کا کوئی مسلہ ہے مینن نے کہا ٹھیک ہے  بھائی   پھر آج میں نے نصرت بھائی کی گاڑی لے لی اور شاہ بانو کے ساتھ دوسرے سٹی کو چل دیا  میں  نے اب راستے میں شاہ بانونے مجھ  سے پوچھا شارق تم اب شادی کیوں نہیں کر رہے  میں نے کہا ویسے ہی بھابھی ابھی میرا کوئی  موڈ نہیں ہے  وہ بولی کیا کوئی پیار کا چکر تو نہیں میں ہنس دیا اور کہا نہیں ابھی تک  تو نہیں  پھر وہ بولی  یہ تم نے  کل پھلچری کیوں کہا تھا  میں نے کویجواب نہ دیا وہ بولی بتاؤ نہ میں نے کہا بھابھی  میں سچ بولنے کا عادی ہوں اور میری بات سن کے آپ کو برا بھی لگ سکتا ہے اس لئے  رہنے دو وہ بولی میں مائنڈ  نہی کروں گئی اب بتاؤ میں نے اب ان کی آنکھوں  میں دیکھتے ہوے کہا کیا آپ کو نہیں پتہ  آپ کتنی خوبصورت ہیں  وہ شرما گی اور کہا  نہیں  میںنے کہا آپ جیسی لڑکیاں کم ہی دیکھی ہیں میں نے  آپ کے جسم کو دیکھ کر نہیں لگتا آپ میرڈ ہیں وہ اب بولی تو اس کی آواز میں عجیب سی کھنک محسوس ہوئی مجھے وہ کہنے لگی ایسا بھی کیا ہے میرے جسم میں سب کا ایسا ہی ہوتا ہے   نہیں آپ جیسا سب کا نہی ہوتا میں نے جواب دیا  آپ جیسی  چھاتی میں نے آج تک کسی لڑکی کی نہیں دیکھی وہ اب تو شرم کے مرے دوہری ہو گی  میرے منہ  سے چھاتی کا سن کر کافی دیر وہ نظریں نیچی کے بیٹھی رہیں مجھے وہ ایسے  بیٹھی بڑی پیاری لگی میں نے کہا  بھابھی کیا ہوا وہ کچھ  نہ  بولی
ہمیں تو آپ کی اس ادا نے لوٹ لیا صنم
نظر ملتے نہیں بس شرما
ۓ جاتے ھو
میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوے کہا وہ اور بھی چھوئی موئی کی طرح  سکر گی شرم کے مارے

اس نے اپنے ہاتھ اپنی گود میں رکھے ہوے تھے میں نے اب اپنا ایک ہاتھ اس کی گود میں رکھے ہاتھوں پے رکھ دیا  وہ کانپ سی گئی میںنے کہا  شاہ بانو میرا دل آپ سے دوستی  کرنے  کو کر رہا ہے کیا آپ مجھے اپنے دوست کی حثیت  سے قبول کرو گی  اس نے اب کی بار  دھیرے سے اپنا سر اٹھایا اور کہا شارق  کسی کو پتا نہ چل جائے میں سمجھ گیا  یہ راضی ہے میں نے کہا نہیں چلے گا  ، وہ اب کی بار ہاں میں سر کو ہلا کے بولی مجھے قبول ہے لیکن ایک شرط ہے میری تم مجھ سے کوئی ایسی ویسی  ڈیمانڈ نہیں کرو گے ، میںنے کہانہی کروں گا تب تک میں آپ سے کچھ نہیں مانگوں گا جب تک آپ خود نہ  راضی ہو جاؤ  وہ اب خوش ہو گئی  پھر ہم نے راستے میں ایک اچھے سے ہوٹل سے کھانا کھایا اور چل دیے پھر وہ بولی  شارق  میں تم سے کچھ پوچھنا  چاہتی ہوں میں نے کہا  کیا وہ بولی چلو ایسا کرتے ہیں گیم  کھیلتے ہیں  ایک سوال تم کرو ایک میں کروں گی جو بھی ہارا وہ جیتنے والی کی ایک بات ماننے گا  پھر میری طرف دیکھ کے شریر نظروں سے کہا  آے مسٹر وہ بات لمٹ میں ہونی چاہے میں اب مسکرا دیا اور کہا چلو پوچھو وہ بولی میرا پہلا سوال
میں تم کو کیسی لگتی ہوں
میں نے جواب دیا  ایک سے لیکر دس تک نمبر ون ہے تو
 وو شرما کے بولی یہ کیا جواب  ہے پھر میں نے کہا آپ کی مرضی آپ جیسا مرضی سوال کرو میں تو اپنمرضی کا جواب دوں گا وہ بولی
چلو  تم سوال کرو میںنے کہا بانو آپ کی ہائیٹ  کتنی ہے
وہ بولی پانچ فٹ چھ انچ
اب  اس نے پوچھا اور آپ کی
میں نے کہا چھ فٹ چار انچ

اب میںنے  پھر پوچھا بانو آج آپ نے کون سے رنگ کا برازئیر پہنا ہے وہ تو مانو ایک دم سے چپ ہو گی اس کا رنگ ur
 سا گیا وہ بولی یہ سوال غلط ہے میں نے کہا کوئی غلط نہیں ہے آپ اپنی ہار مان لو اس نے کہا کیوں مانو تم کوئی اچھا سا سوال  کرو نہ میں نے کہا میرا یہی سوال ہے
وہ جواب میں بولی میں ے سکن کلر کا پہنا ہے
اب وہ بولی تم بتاؤ کی آج تک تم نے کتنی لڑکیوں سے دوستی کی ہے
میں نے کہا مجھے سہی سے یاد نہیں کافی سے رہی ہے دوستی لیکن سچ ہے کسی کا بھی فگر  تم جیسا نہیں تھا
وہ اب شرما  کے مجھے دیکھنے لگی  میں نے اب سوال کیا  بانو تمہارا بریسٹ سائز کیاہے
وہ اب غصے سے مجھے دیکھنے لگی اور کہا تم جان بوجھ کے اوٹ  پٹانگ سوال کر رہے ھو یار یہ کوئی سوال ہیں  میں نے کہا  ٹھیک ہے نہ بتاؤ  اچھا یہ  بتاو آج کونسا دِن ہے  اس وقت ہم کہا جا رہے  ہیں  ہماری  گاڑی کے پیچھے  کون سی گاڑی آ رہی ہے ایسے سوال ٹھیک ہیں  نہ  وہ اب ہنس ہنس کے دہری ھو گی جب وہ ہنستی تو اس کے مممے اوپر نیچے  کا سفر کرتے  میں نے کہا اور کیا پوچھوں  اور گاڑی کا میوزک  کا بٹن  دبا دیا
ملکہ ترنم نور جہاں کی سریلی آواز گاڑی میں گونجنے لگی
تیرے  نال ملا یاں  اکھیاں   وے تو فیر وی دوریاں  رکھیاں
تو جت گیا بیقدرا میں جندڑی ہار گئی    
یہ سنتیھی اس نے میری طرف دیکھا اور کہا  یہ سب کیا ہے مسٹر  میں نے کہا  یہ ملکہ ترنم میرے دل کی آواز کو اپنی زبان سے تم تک پہنچا رہی ہے

اب وہ مجھے دیکھتے ہوے بولی شارق تم چاھتے کیا ہے میں نے کہا تم کو سر سے پاؤں تک وہ اب بولی شارق اگر میرے خاوند  کو پتہ چل گیا وہ مجھے مار ڈالے گا میں نے کہا اسے کون بتاے  گا تم  وہ بولی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا  تو پھر اسے کیسے پتہ چلے گا نہ تم بتاؤ گی اور نہ میں اب میں نے کہا چلو میرے سوال کا جواب دو  وہ اب بولی کونسے سوال کا ،
میں نے اب اپنا ایک ہاتھ اس کے اپنی سائیڈ والی مممے پے رکھا ہلکا سا دب دیا وہ سی سی سی  کر اٹھی میں نے کہا ان کا کیا سائز  ہے بانو وہ بولی شارق  38 ڈی میں نے کہا واؤ  یار کافی زبردست مال ہے  اب اس نے کہا چلو تم بتاؤ آج تک کتنی لڑکیوں سے ملاپ  کیاہے  جسمانی  میں نےکہا کافی ساری ہیں ،
میں نے کہا میرا اگلا  سوال ہے  اور اپنے ہاتھ کو اس کی چوت  پے رکھ کے کہا یہاں پے پینٹی پہنی  ہے کے نہیں وہ بولی نہیں میرا ہاتھ چوت کو لگتے  ہی وہ سسک  اٹھی تھی اس کا سانس تیز ہو گیا  میں نے وہ ہاتھ ووہی رکھا اور ہلکے سے مساج  کرنے لگا وہ اب اپنا ایک ہاتھ میرے ہاتھ پے رکھ کے بولی ش ا ا ا ا ا ا ا ر ر ر ر ق ق ق ق پلیز نہ کرو نہ  اب اس کی آنکھیں لال ہو گیں تھیں  اور اس کی سانسیں تیز  میں اب گاڑی آہستہ  سے ایک کچےراستے  پے اتار کے آگے جانے لگا  اب اس  کی آنکھیں بند  ہو گی تھیں وہ راستہ ایک چوتھے سے درختوں  کے ذخیرے کی طرف جاتا تھا جس  سے کوئی دس میل دور اک صوبائی منسٹر کا فارم ہاؤس  تھا  اس ذخیرے میں  جا کر میں نے گاڑی روک دی اب اس نے اپنی آنکھیں کھولی اور کہا یہ ہم کہاں آ گے ہیںمیں نے کہا وہاں اے ہیں جہاں میں تمہارے اس سنگ مر مر سے بنے بدن کو خراج  تحسین پیش کروں گا وہ اب شرما کے بولی  شارق  پلیز جو کرنا ہے جلدی سے کر لو وہ ہمارا انتظار کر رہی ھو گی  میں نے اب   اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر آیا

پھر اسے بھی نیچے اتارا اور گاڑی  کی ڈکی سے گاڑی کے اوپر ڈالنے والا  پیرا شوٹ  کے کپڑے کا بنا ہوا کور  نکالا اسے نیچے بچھا کے میں اور بانو آمنے سامنے بیٹھ گے وہ اب میری گود کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں سے میرا لن کھڑا تھا اب میں نے اسکی  قمیض اتاری تو میں اس کا سفید اور چکنا پیٹ  دیکھا کر حیران  رہ گیا اس کی چھاتی کافی بھری    تھی میں نے اب برا  کا ہک کھولا  اور برا بھی نکل دیا میں  اب اس کے ہک  کو  کھول  کے اتار  دیا  اور اپنی شرٹ بھی اتار دی اب  اس نے اپنی شلوار خود ہی اتار دی میں نے بھی اپنی پینٹ اتار کے ایک طرف  رکھ دمیں اب صرف اندر ویر  میں تھا اور وہ بلکل ننگی تھی اس کا پیٹ اندر کو دھنسا ہوا تھا اور اس کے کولھے باہر کو نکلے تھے  اس کی چھاتی کافی بھاری   تھی  میں نے اب اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا  اس کے ہونٹوں کے دروازے میں اپنے ہونٹوں سے دستک دی  اس نے تڑپ کے اپنے ہونٹوں کا دروازہ کھولا  اور میری زبان کو اندر جانے کی اجازت مل گی  وہ اب میری زبان کو چوس رہی تھی اور میں اس کے ،ممموں  کودبا رہا تھا  

بانو اب اندر ویر کے اوپر سے ہی میرے لن کا سائز  ناپ رہی تھی ہاتھوںمیں لے کر  پھر اس نے اپنے ہاتھوں سے میرا لن بھر نکالا  میں اس کی زبان چوسنے لگا اور کبھی اس کا نچلا ہونٹ سوچنے لگتا  ہم نے کوئی دس منٹ تک ایک دوسرے کے ہونٹ چوسے  اب وہ   کروٹ لے کر میرے اوپر آ گی  اس نے میری رانوں  پے بٹہ کے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور کہا واؤ  یار اتنا بڑا میں نے کہا کیوں  تمہارے سوہر کا چھوٹا ہے کیا وہ بولی ہاں وہ  سات انچ کا ہے  پھر اس نے میرے لن کو منمیں لیا اور چومنے لگی وہ  میرے ٹٹوں سے لے کر  ٹوپی تک اپنی زبان پھیرتی   اور دوبارہ سے اسے منہ میں لے لیتی  وہ بھوکوں کی طرح میرا لن چوس رہی تھی وہ تھوڑا تھوڑا کر کے سارا اندر لے جاتی اپنے موں میں وہ اس کے حلق تک جاتا اور پھر اسے نکال لیتی وہ اتنے جدا سے  طریقے سے میرا لن چوس رہی تھی میں  مزے میں آ ہ  کر اٹھتا وہ اب اپنے ہاتھ سے  میرا لن پکڑ کر اس پے مٹہ لگانے لگی  اور اپنی زبان  میری ناف  میں اور پیسٹ پے پھیرنے لگی اب وہ ہلکی ہلکی سانسیں میرے پیٹ پے چھوڑتی   میری  رانوں   کی طرف آتی اور پھر میرے لن کے چاروں طرف اپنی زبان پھیرتی  اب  اس نے اپنی چوت کو میرے موں کی طرف کیا اور میرا لن اب سپیڈ سے چوسنے لگی میں نے بھی اپنی ایک انگلی سے اس کی پھدی کوکھولا  اور اپنی زبان اندر  داخل کر دی  ایک  دفع اس کا جسم کانپ  گیا اب میں نے اس  کو اپنے نیچے کی طرف کیا اور اس کی پھدی کو چوسنے لگا  وہ اب تڑپ تڑپ جاتی  میں نے اس کے مممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھے تھے ان کو بھی داب رہا تھا اور اس کی پھدی کے اندر باہر اپنی زبان  بھی کر رہا تھا

وہ  اب اپنے ہاتھ میرے سر پے رکھ کے  سسکریاں  بھرنے لگی  آ ھہ اف ف ف ف اس نے اب اپنی ٹانگیں میری گردن کے گرد لپیٹ لیں  اور مجھے نیچے کی طرف دبانے  لگی پھر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ فارغ ہو گی میں نے اپنا منہ نہیں پیچھے کیامیں نے اس کی چوت کو چوس چوس کر پانی اپنی کر دیا وہ دو دفع فارغ ہوئی ایسے ہی ابمیں نے اوپر  کی طرف اپنی زبان کوپھیرتے  ہویے جانے لگا اب میں اس کی ایک نپل  کو موں میں لے کر چوسنے لگا اور کبھی کبھی ہلکا سا کاٹ بھی  لیتا وہ اب تڑپ  رہی تھی شارق پلیز  اب میرے اندر اپنا لن ڈال دو میں مر جاؤں گی  شارق اور مت تڑپاؤ میری  جان نکل رہی ہے  میں نے اپنے کان بند کر کے اس کے مامے چوستا رہا میں ے اتنا چوسا کے نیل پڑھ گے اس کی نپلوں  پے میں کبھی کبھی کاٹ بھی لیتا تھا وہ اب میرے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی شارق  بس ایک دفع اندر ڈال دو  تم کو میری قسم   میری بات مان لو اب جب میں نے اس کاکوئی نہ سنی تو وہ بولی شارق میں تم کو  نازش  کی پھدی  بھی لے کر دوں گی نازش اس کی دوست کا نام تھا  جس کے پاس ہم جا رہے تھے  وہ مجھے رشوت  میں اس کی پھدی  دینے کی بات کر رہی تھی  میں ے جان بوجھ کر اسے تڑپایا تھا  کے بعد میں وہ مجھے انکار نہ کرے پھر میںنے اس کی ٹانگیں اٹھا کر ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن سارا اندر ڈال دیا

بانو درد سے بلبلا  اٹھی اور کہا شارق کونسا بدلہ لے رہے ھو ظالم میںنے اب اپنے دھکے تیز ہی  رکے اسے اب بہت مزہ آ رہا تھا  وہاں  چاروں طرف اب بنو کی ہلکی چیخیں  اور سسکریوں کی آوزیں تھیں  وہ مزے کی وادیوں میں گم تھی اس کی آنکھیں بند تھیں میں کوئی دس منٹ تک اسے آگے سے کھودتا رہا زور زور سے میرے ہر دھکے سے اس کی ایک دفع تو سانس روک جاتی وہ  اب ایک بار پھر سے جھاڑ گی تھی  میں نے اب اسے الٹا  کیا اور پیچھے سے اس کی چوٹ میں اپنا لن ڈال دیا  اب میں اتنی تیزی سے  لن کو اندر بھر کر رہاتھا اسے اب درد ہونے لگا تھا  وہ بولی شارق بس تھوڑی دیر کو روک جاؤ کیا کھاتے  ھو تم  میں نے اب اپنا لن اس کی چوت سے نکالا اور گانڈ میں ڈال دیا    وہ ایک دفع تو ذبحہ ہوتی بکری کی طرح ممیا اٹھی  ہا اے میں مر گئی شارق باہر نکالو اسے یہاں پے تو آج تک میں نے  اپنے شوہر کو بھی نہیں ڈالنے دیا ، وہ اب چلا رہی تھی اور میں سمجھو اب اس کا ریپ  ہی کر رہا تھا میں نے اتنا چودہ اسے کے اس کی گاند سے اب خوں آنے لگا تھا وہ اب زور زور سے رو رہی تھی  اب تو اس نے بچاؤ بچاؤ  چیخنا بھی شروع  کٹ دیا پر اس بیاباں  جگہ کون آتا اب میں نے اسے تب چھوڑا جب میں فارغ ہوا  وہ اب درد سے بیہوش ہو گی تھی

میںنے گاڑی میں رکھی  منرل  واٹر کی  بوتل  کا ڈھکن  کھولا اور پانی اس کی پھدی اور گانڈ پے ڈالنے لگا  کچھ پانی اس کے چہرے  پے ڈالا وہ اب ہوش میں آ گئی میں نے اسے  اپنی بانہوں میں  لے کر خوب کسیں کیں  وہ اب بھی رو رہی تھی اس سے بٹھا  نہیں جا رہا تھا  وہ بولی شارق ایسا بھی کرتے ہیں بھلا  میری گانڈ پھاڑ دی ہے تم نے  میں نے اب اس کی گالوں کو چومتے ہوے کہا بانو   سونی  پہلی دفع ایسا ہو ہوتا ہے اب  تم  کو مزہ آے گا ، وہ بولی مجھے نہیں لینا ایسا مزہ  میں نے اسے اپنی بانہوں میں ہی گھیرے رکھا اور کہا نہیں لینا مزہ  وہ اب میری  آنکھوں میں دیکھ کر بولی  بس آگے سے اور پیار پیار سے کرو گے وعدہ کرو    میں نے کہا ٹھیک ہے  اب پھر میں نے اسے کس کرنے لگا وہ بھی  اب میرا ساتھ دے رہی تھی  میں نے س کے مممے چوسنے لگا وہ اب پھر سے کافی گرم  ہو گئی تھی  وہ اب اپنی  تیز تیز سانسوں میں بولی  شارق اب ڈالو نہ اندر  میں نے کہا کیا وہ بولی شارق   میری جان اپنا یہ  لوہے کے راڈ جیسا لن میری اس  بچیں چوت میں ڈالو  میںنے اب اس کی ایک ٹانگ اٹھا لی اور اس کے اپر لیٹ گیا میں نے اب کی بار بارے آرام آرام سے اپنا لن اس کی چوت میں کیا اندر  اور ہلکے ہلکے دھکے لگانے لگا اب اس نے  اپنی دونو ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ  لیں اور اپنے بازوں  میری گردن کے گرد  امن اب اسے پیار سے چود رہا تھا وہ میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی ہم کوئی دس منٹ تک ایسے ہی  پیار کرتے رہے  پھر وہ بولی شارق میں آ رہی ہوں اور وہ ایک ہلکی چیخ  کے ساتھ ہی جھاڑ گئی  میں ویسے ہی لگا رہا  وہ اب میرے دھکوں سے  دوبارہ سے گرم ہونے لگی تھی میں نے  اب کہا بانو ایک دفع پیچھے سے  کروں وہ دار گئی اور کہا نہیں شارق اب نہیں میں مر جاؤں گئی اب کی بار

میں نے پھر اسے آگے سے ہی چودہ  کبھی الٹا کر کے کبھی سیدھا کر کے پھر میں بھی نزدیک ہی تھا کے وہ دوبارہ جھرنے لگی اب  میرے لن نے بھی  بانو کی چوت میں ہی منی کا سپرے  کرنا شروع  کر دیا میں کافی  زور سے جھڑا  وہ بولی ا ف ف فف ف ف شارق تمہارا لن تو بہت منی چھوڑتا ہے پھر ہم ایسے ہی کوئی پانچ منٹ تک ایک دوسرے سے لپٹے لیتے رہے  پھر میں اٹھا اور اس کی برا سے اپنا لن صف کیا وہ بولی یار یہ کیا کیا ابمیں کیا کروں گی میں نے کہا تم بھی اسی سے صف کرو  اور ایسے ہی پہن لو  وہ بولی تم برے بدمعاش ھو شارق

اب اس نے کپڑے پہنے اور گاڑی کی طرف آنے لگی اس سے چلا نہیں جا رہا تھا  سہی سے وہ اپنے چڈھے پھیلا کر چل رہی تھی  اب میں نے  گری سٹارٹ  کی اور میں  اب کافی تیزی سے گاڑی کو  ڈرائیو  کرنے لگا میں نے ایک گھنٹے  کا سفر تیس منٹ میں طے کیا  اب  وہ مجھے بتانے لگی راستہ اپنی دوست کے گھر کا پھر ہم ایک ایسے رہائشی  ایریے میں پوھنچ گے جہاں ہر طرف انتہائی خوبصورت بنگلے بنی ہوے تھے  یہ اس  شہر کا مہنگا ترین ایریا  تھا  اب ایک بہت پیارے اور بڑے بنگلے کے سامنے روکنے کو کہا  مجھے بانو نے اس نے اب خود ہی ہارن دیا گاڑی کا  ایک گارڈ نے چھوٹا دروازہ کھولا گیٹ کا  جب اس نے بانو کو دیکھا تو جہت سے اندر جا کر بڑا گیٹ کھول دیا  میں اپنی گاڑی اندر لے گیا    جہاں پے ایک  نئے ماڈل کی ہنڈا اکارڈ  کھڑی تھی اس کے پیچھے اپنی گاڑی روکی اتنے میں اندر سے ایک پیاری سی  لڑکی جس نے جینز کی پیبنٹ اور ایک کھلے گلے کی شرٹ پہن  رکھی تھی  باہر آی اور بانو کو دیکھتے ہی کہا یار تم کو آنے میں اتنی دیر میں اب پریشان ہو گئی تھی  اپر سے تمہارا سیل بھی آف جا رہا تھا

عاشق ۔ چھٹی قسط



عاشق

چھٹی قسط

تحریر: ماہر جی


میں اب ڈیڈی کی کار میں تھا میں نے سوچ لیا تھا پہلے اپنے ایک دوست کو ملوں گا جس کا نام بابر تھا اور وو میرا کلاس فیلو  تھا  جسے پڑھائی سے زیادہ غنڈا گردی کا شوق تھا اس نے اور میں نے ایک ہی کلب سے جوڈو کراتے  سیکھے  تھے  میں تو بس بلک بیلٹ تک ہی گیا تھا پر بابر بعد میں جاپان بھی گیا تھا اس نے مارشل آرٹ  میں کمال حاصل کیا تھا پھر وہ  واپس  آیا اور اس نے اپنی بدمعاشی کی دھاک بٹھا دی تھی  وہ ایک وفاقی منسٹر کا بیٹا تھا  اس لئے اس کے تعلقات بھی کافی تھے  آوپر  سے وہ اس فیلڈ میں آیا تھا جہاں اکثر لوگوں  کو اس سے کام  پڑتا رہتا تھا  اس نے آتے ہی کچھ جوے کے اڈے بنا لئے تھے اور اس کے ساتھ کافی لوگ بھی تھے جو اسے استاد بابر بولتے میں اس کے ایک خاص ااڈے کی جانب چل دیا وہاں گیا تو پتا چلا وو ابھی وہاں سے نکل کے ایک اور جگہ گیا ہے اب میں وہاں گیا وہ جگہ ایک بہترین نائٹ کلب تھا  اور اس میں سب بڑے بڑے لوگ ہی آتے تھے، میں نے کاؤنٹر پے جا کر کہا مجھے بابر سے ملنا ہے وہاں پے ایک کلین شیو نوجوان لڑکا کھڑا تھا  اور اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا مسٹر جو کام ہے ہم کو بتاو باس  ابھی کسی سے نہیں مل سکتا وہ اپنی ایک پارٹی  سے کچھ ڈیلنگ  کر رہا ہے  میں نے کہا یار تم اسے کال کر  کے میرے بارے میں بتاو تو سہی اس نے کہا اگر وہ آپ کا اتنا ہی قریب ہے تو خود بات کر لو اس نے مجھے بابر کے آفس میں کال ملا کے دی آگے  سےکسی  آدمی  کی آواز آئی کیا بات ہے ناصر  کیوں کال کی ہے  میںنے اب کی بار کہا بابر سے کہو شارق آیا ہے اسے ملنے کو  بابر شاید پاس ہی بیٹھا تھا اس کے اس نے میرا نام سنتے ہی  خود ریسیور  پکڑا اور کہا یس کون ہے میںنے کہا آوے کمینے اب تو اتنا برا باس بن گیا ہے کے مجھے بیس منٹ ہو گے ہیں یہاں آے اور کوئی بات تک نہی کرا  رہا  تھا تم سے اس نے جیسے ہی میری  آواز سنی  وہ بولا صرف ایک منٹ روک  اپنی زبان کو  اور کال کاٹ دی پھر مجھے اسی وقت  اوپر سے آتی سیڑھیوں سے بھاگنے کی آواز آئی جسے سن کے میرے ساتھ کھرے  بابر کے آدمی جلدی سے اپنی اپنی گن جو انہوں نے کندھے سے لگا رکھی تھی وو اتار کے ہاتھ میں پکڑ لی  آنے والا بابر خود تھا اس کے پیچھے تین چار اور لوگ تھے وہ آتے ہی  بھاگ کے میرے گلے لگا اب کے اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر کے ایک گول چکر دیا اس میں کئی سانڈوں جیسی   طاقت تھی میں نے کہا ابھے میری جان لے گا کیا وہ  ہنس دیا اور میرا منہ چوم کے بولا شارق  آجمیں بہت خوش ہوں تم میرے پاس آے ھو

  پھر اپنے پیچھے کھڑے ایک آدمی سے کہا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا بولا جاؤ وقار میں نے تم کو معاف کیا اسے باہر چھوڑ آؤ کھ  کے میرا ہاتھ پکڑ کے دوبارہ سے سیڑھیوں کی طرف چل دیا  پھر میں اس کے ساتھ اس کے آفس میں داخل  ہوا کم بخت    نے برا ہی غضب کا آفس بنا رکھا تھا  ہر چیز ایک سے بڑھ کے ایک  اب میں اور وہ ایک  صوفے پے آمنے سامنے بیٹھ گے وہ بولا میرے شہزادے کے لیے  کھچ کھانے  پینے کا بندو بست کرو یار  اس کی بات سن  کر ایک آدمی باہر چلا گیا اور ایک کھڑا  رہا میںنے کہا  بابری  مجھے تمہاری کچھ مدد چاہے  بولو کرو گے وہ بولا آوے لعنتی  انسان حکم دے کے یہ کام ہونا چاہے یہ مت کہ  کے میرا کام کرے گا  آج ہم کوئی تین سال بعد مل  رہے  ہیں  شارقی کیا اب ہم اتنے دور ھو گے ہیں ایک دوسرے سے  کے تم کو یہ الفاظ کہنے پڑھے تم تو ہمیشہ کہا کرتے تھے بابر اور میں دو جسم اور ایک جان ہیں اور آج اپنی  ہی جان  سے یہ بات  یار میرا دل ٹوٹ گیا
 میں نے ساری زندگی بس تجھے ہی دوست بنایا ہے شارق  ورنہ آج تک دشمن ہی بناے ہیں  میں نے کہا یار بات ہی ایسی ہے مجھے کہنا پڑھا وہ اب کافی ناراض لگ رہا تھا بولا شارق کیا بات ہے میں نے پھر اسے بتایا  اپنے کیسوں کے بارے میں اور ڈار کے بارے میں

وہ بولا میں جانتا ہوں فرحاں ڈار واقعی ٹیڑھی کھیر ہے  خیر کوئی بات نہیں دیکھ لیں گے  اسے بھی  پھر میں نے اور اس نے ملکر کھانا کھایا جب  میں نے اب جانے کی اجازت مانگی وہ بولا بس پانچ منٹ روک جاؤ پھر اس نے اپنے ساتھ کھڑے آدمی سے کہا ظفری  یہ شارق  مجھے اسس جہاں میں سب سے عزیز ہے اپنی جان سےبھی زیادہ  آج سے تم نے کیا کرنا ہے تم ساری تفصیل سن چکے ھو  جو پورانی حویلی  والا گینگ ہے تم آج سے ان کو اس کے پیچھے لگا دو میں نے کہا نہی یار اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے میں بس تم سے اس کے بارے میں پوچھنے  ہی آیا تھا حفاظت میری نہیں احساں تائب کی کروانی ہے جیل میں   وہ بولا تم اس ماملے میں نہیں بولو گے   پھر ظفری سے کہا پانچ  پانچ لڑکوں  کے تین گروپ بنا دو  وہاں پے کتنے لوگ ہیں وہ بولا باس وہاں پے بیس آدمی ہیں اپنے جو ابھی تک کس کی نظر میں نہیں آے اور ہر طرح سے ٹرینڈ  بھی ہیں اور ہر طرح کے اسلحے سے بھی لیس ہیں تو میںنے کہا یار اتنے لوگ کیا تم پاگل ہو گے ھو بھائی وہ بولا جانی میرا گروپ پورے ملک میں پھیلا ہے میں نے اپنے وہ لوگ ترے پیچھے کئے  ہیں جن کا کسی کو نہیں پتا کے میرے لوگ ہیں وو سمجھو خفیہ  آرمی ہے تمہاری آج سے اور یہ ظفری ان کا انچارج ہے  پھر میری کوئی بات نہ سنی اس نے اور میں جب گھر جانے لگا  تو مجھے پتا تھا  میرے پیچھے  ایک جیپ میں پانچ باڈی گارڈ ہیں میرے جو اب ہر وقت میرے ساتھ سایے کی طرح رہیں گے  آج کل کے دور میں ان کی بہت ضرورت تھی مجھے کیوں کے اب میں جو کرنے جا رہا تھا اس میں ہر وقت میری جان کو خطرہ رہنا تھا اب ایک وقت مقرر سہی لیکن بندے کو اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہے کیوں کے زندگی ایک ہی دفع ملتی ہے

اب میں سیدھا اپنے گھر جانے کی بجاے فرہاد احمد کے گھر گیا میں اس کی بیگم ثمینہ فرہاد سے ملا وہ  ایک نوجوان لڑکی تھی جو اپنی باتوں سے کافی گھمنڈی لگ رہی تھی وہ  بولی آپ کو کیا کام ہے مجھ سے میںنے اس سے کیس کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہا وہ بولی آپ کون ھو میںنے کہا میں ایک وکیل ہوں وہ بولی تو میرے پاس کیا لینے آے ھو جاؤ جا کے فائل  پڑھ کے دیکھ لو ساری بات کا تم کو پتا چل جائے گا  اور یہ کہ کر اپنی کار میں بیٹھی اور کہا مجھے دیر ہو رہی  ہے میں نے ایک دوست  کے ہاں جانا ہے مجھے اس پے بہت غصہ آیا میں نے دل میں سوچ لیا اب  جو مرضی ہو جائے  اس کیس سے احسان کو چھڑا کے ہی چھوڑوں گا  اب میں احسان تائب کے گھر کی طرف  گیا وہ ایک چھوٹا سا کواٹر تھا ایک غریب سی آبادی رہتی تھی وہاں پے میں نے جب احسان کے  کواٹر کے دروازے پے دستک دی تو ایک بزرگ  عورت نے دروازہ کھولا میں نے ان سے بات کی وہ مجھے اندر لے گی ہر طرف غربت کا عالم تھا وہ بولی بیٹا ھمارے گھر  میں تو تم کو بٹھانے کے  لئے  بھی   جگہ نہیں ہے  میں نے کہا ماں جی کوئی بات نہیں

ماں جی میرا نام شارق ہے میں ایک وکیل ہوں کیا آپ ہی مسز مقصود ہے وہ  بولی جی بیٹا میں نے آپ کو اس دِن دیکھا تھا عدالت میں  میں نے کہا میں عدالت کی طرف سے نہیں آیا اپنے طور پے آیا ہوں آپ سے اور آپ کی بیٹی سے کچھ سوال کرنے ہیں مجھے  وہ بولی بیٹا بولو  میں نے کہا آپ خود کیوں جاتی ہیں کورٹ میں کیا گھر میں کوئی مرد نہیحی وہ کہنے لگیں نہیں بیٹا  میں ہوں میری بیٹی فریال ہیاور تین چھوٹے   بچے ہیں مرد کوی نہیں ہے احساں کے والد وفات پا گ
ۓ ہیں  اور جو عزیز و اقاراب ہیں ان کی اپنی ہی مصروفیت نہیں ختم ہوتی  اور پھر کون غریب رشتہ داروں کا اس حال میں ساتھ دیتا ہے  میں نے کہا ماں جی ایک بات کہوں آپ سے اگر آپ ماں جو تو وو کہنے لگی بولو میں نے  ان کی طرف دیکھتے ہوے اٹھا اور پاس ہی کھڑی فریال کے سر پے ہاتھ رکھ کے کہا  آپ مجھے  احسان کا بھائی ماں سکتی ہیں یہ سنت ہی وہ  رونے لگیں اور کہا  اس دور میں جہاں اپنے سگے بھی پراے  ہو جاتے ہیں تم پراے ہو کر بھی کیوں اتنا کچھ کر  رہے ھو  میں نے کہا  آپ بس مجھے یہ بتا دیں اس دِن ہوا کیا تھا  اب کی بار میں نے فریال سے کہا پلیز فریال ابھی کچھ نہیں دیکھا تمہارے بھائی نے مجھے بتاو کیا بات ہے  کس کے لئے وہ موت کو گلے لگا رہا ہے  وہ چپ رہی اور کوئی جواب نہ دیا  پھر میں نے اس کی ماں سے کہا لگتا ہے آپ کو رشتوں پر سے اعتبار نہیں رہا  وہ بولی ایسا نہ کہو بیٹا  تب میں نے کہا تو مجھے بتاتے کیوں نہیں آپ  لوگ کیا ہوا ہے  اب تو وہ بھی چپ کر گیں وہ ماں بیٹی ایک دوسرے کی طرف دیکھی جا رہی تھیں  آخر کار میں نے کہا احساں سے وکیل کیوں نہ ا کیا  وہ بولی وہ نہیں چاہتا وکیل کرنا ہم کیا کریں اور بیٹا جو تم پوچھنا چاھتے ھو وہ بس  احساں ہی بتا سکے گا تم  کو اب میں نے اگلے دِن  کے لئے کہا ماں جی کل آپ اسے میرے ساتھ چل کے اس بات پے تیار کریں کے وہ مجھے اپنا وکیل بنا لے  وہ کہنے لگی ٹھیک ہے بیٹا  میں اب ان کے گھر سے نکلا اورفاروقی  صاحب کے پاس گیا ان سے ساری بات ڈسکس کی  پھر ان کے ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا اور  پھر گھر آ گیا  گھر میں آیا تو آتے ہی میں لالرخ کے قابو میں آ گیا وہ کہنے لگی  بھائی آپ ہم کو گھر چھوڑ کے ایسے گۓ کے ہم تو سوچ رہے تھے آپ اپنے لگی پیسوں کا ماتم کر رہے ہیں  میں نے کہا ہاں یہی سمجھ لو پھر میں نے کھانا کھایا کچھ دیر سب کے ساتھ بیٹھا اور آ کر نیلوفر کے پاس ہی اس کے کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگا وہ اب ٹھیک تھی مین نے کہا  جی جانو جی  پھر ہو جائے  آج بھی وہ شرما کے بولی   چلو میں آتی ہوں آپ کے کمرے میں  اب میں اٹھا اور اپنے کمرے   میں آ کر سو گیا   پھر میری آنکھ تب ہی کھلی جب نیلوفر نے مجھے جگایا وہ اتے ہی میرے اپر گر گے میرے ہونٹ چوسنے لگی میں بھی اس کاساتھ دینے لگا  اب ہم ایک دوسرے میں کھوے ہوے تھے  میں اس کی زبان کو چوس رہا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے سڈول مممے  دبا رہا تھا   وہ بولی شارق  آج للہ رخ میرے پاس ہی سو رہی ہے   اس لئے آج جلدی جانا ہے کہیں اس کی آنکھ نہ کھل جائے میں بھی موقع کی نزاکت کو سمجھ گیا  میں نے اب اسے ننگا کیا اور اپنے بھی کپڑے اتار دیے میں اس کی رانوں کے درمیان بیٹھ گیا  میں نے اب اپنا لن اس کی چوت    کے سوراخ پے رکھا اور ایک ہلکا سا دہکا دیا  وہ س س س س کر اٹھی   میں  نے  اس کی ٹانگیں اٹھا کر اوپر کر دیں اور اب دھکے سے سارا لن اندر کیا اور اس کے اوپر لیٹ کر  اندر باہر کرنے لگا  وہ نیچے سے  جواب دینے لگی اپنے  کولھے اوپر اٹھا کر  میں اس کے ہونٹ چوس رہا تھا  اور وہ میری کمر پے اپنے ہاتھ پھیر رہی تھی   میرے دھکوں  میں اب تیزی آتی جا رہی تھی اس  کو بھی مزہ آنے لگا تھا وہ اب سسکاریاں بھرنے لگی آ ی ی  آ و ی اف ف ف ف ف  شارق آج تو کل سے بھی زیادہ مزہ آ رہا ہے جان پلیز اور زور سے کرو آج میرا انگ انگ تور ڈالو   آ ہ ہ ہ ہ ش ا ا ا ر ر ر ق ق ق ق تمہارا لن کتنا پین فل  ا ف  میری چوت  تو اب سواۓ اس کے کوئی اور لن لے ہی نہیں سکے گی اتنا مزہ آ ہ ا مم م م م واؤ شارق   اب نیلوفر کی آنکھیں بند ہو گیں تھیں مزے کی شدت سے  اور میرا لن جر تک اس کی چوت میں جا کر اس کی

بچا دانی کو خراج پیش کر رہا تھا  جب بھی میرا لن نیلو کی بچادانی کو سلام کرتا وہ ایک مزے کی لہر سے بیتاب ہو کر تڑپ جاتی  اس کا منہ ہلکا سا کھل جاتا  وہ اب مزے کی انتہا پے تھی اور زور زور سے چیخ بھی رہی تھی پھر ایک چیخ کے ساتھ ہی اس نے میری کمر کو مضبوطی سے کس کے پکڑ لیا وہ اب فارغ ہو رہی تھی  اب اس کے چہرے پے سکون ہی سکون تھا  میں ابھی  ویسے کا ویسا ہی تھا اب کی بار میں نے اس کی چوت کو ایک کپڑے سے صاف کیا اپنا لن بھی صاف کیا اور اب کی بار اسے الٹا لٹا کر میں نے اس کے اندر ڈالا اب صرف اس کی چھاتی ہی بیڈ پے تھی اس کی ٹانگیں میں نے اوپر اٹھا لی تھیں  اس طرح وہ اب اپنے ہاتھ اور چھاتی کے بل پے ہی بیڈ پے لیتی تھی باقی جسم کا حصہ بیڈ سے اوپر تھا اس طرح  سے میرے لن کے بلکل سامنے اس کی چوت اور گند اک سوراخ  تھا  میں اب کبھی اس کی چوت میں لن ڈالتا اور کبھی گاند میں جب چوت میں لن جاتا اسے مزہ آتا وہ مزے سے آ ہا  امم م  کر جاتی اور جب میں اس کی گاند میں ڈالتا وہ کچھ درد محسوس کرتی اور چیخ جاتی  ا ا ف ف ف ف ف شارق ا و ی  ہاہے  کہ اٹھتی مجھے اس طرح  مزہ آیا تھا پھر ایسے ہی لگا تار دھکے مرتے ہوے میں اس کی گاند میں فارغ ہو گیا وہ ایک دفع پھر جھڑ گی تھی  اب میں نے اسے سیدھا کیا اور اس کے ہونٹ چومنے لگا  وہ اب مجھے بےتحاشا  چومی جا رہی تھی  شارق تم کیا ھو یار میں جب تک اس گھر میں رہوں گی روز تم سے چدواوں گی   پھر میں نے کہا اب او نہتے ہیں اور نہتے ہوے پھر ایک دفع اس کی گانڈ ماری پھر وہ اپنے روم چلی گی اور میں سو گیا  اگلے  دِن  میں  ٹائیم سے ہی اٹھا گیا  نہ دھو کر ریڈی ہوا ناشتہ  کیا  پھر سیدھا احسان کے گھر میں سے اس کی والدہ کو ساتھ لیا  اور جیل میں چلا گیا  وہاں میں نے جیلر عدنان صاحب سے ملا ان کو اپنا کام بتایا انہوں نے اسی وقت  احسان تائب کو اپنے دفتر میں ہی بلوا لیا اور کہا تم سکون سے  اس سے باتیں کرو میں آتا ہوں اورھمارے  لئے چا
ۓ اور بسکٹ  بجھ دیے اب میں اور احسان کی والدہ احسان کو سمجھا رہے تھے پر وہ وکالت نامے پے سائن نہیں کر رہا تھا اب کی بار میں نے کہا یار دیکھو تم نے مرنا تو ہے ہی   پھر کیا فرق پڑتا ہے وکیل ہو یا نہ ہو میرا یہ پہلا کیس ہے میری ہی ہیلپ کر دو  اب کی بار وہ میرے چکر میں آ گیا اور کہا لاؤ کہاں سائن کرنے ہیں اور وکالت نامے پے سائن کر دیے میں اب اس سے کہنے لگا تم ماں بیٹا آپس میں بات چیت کر لو مجھے یہ لڑکا بہت ضدی نظر آ رہا تھا  میں اب سوچ رہا تھا  کیا کروں ایسا کے جس سے مجھے سچ کا پتا  چل جائے پھر کچھ دیر بعد جیلر صاحب آ گۓ میں نے عدنان صاحب کا شکریہ  ادا کیا وہ بولے تم میرے بھی بھائی ہو یار مجھ میں اور طارق میں کوئی فرق نہیں ہے اب میں نے کہا بھائی جان یہ احسان میرا دوست ہے  وہ بولے  ٹھیک ہے بھائی کی جان اس کا اب ہم خیال رکھیں گۓ اور میں احسان کی والدہ کو لے کر  باہر آیا ان کے گھر چھوڑنے ک لئے  جب میں ان کو گھر چھوڑ کے واپس اپنے آفس کی طرف جا رہا تھا  تو راستے میں میں نے دیکھا ایک لڑکے کو ایک گری والا ٹکر مار کے بھاگ گیا ہے اور لوگ اس لڑکے کے گرد اکھٹے  ہو گۓ ہیں میں نے بھی گری روک کے دیکھا کوئی بھی اسے ہوسپٹل نہیں لے جا رہا تھا بس یہی کہے جا رہے تھے دیکھو کتنی چوٹیں یں ہے اس بیچارے کو  میں نے آگے بڑھ کے ایک دو آدمیوں سے کہا اسے میری کار میں ڈالو پلیز یہ میرا دوست ہے اور اسے لے کر ایک اچھے سے ہوسپٹل میں آ گیا وہاں ایک ڈاکٹر میرا دوست تھا اسے کہا اسے چیک  کرو وہ اسے دیکھتے ہی آپریشن ٹھیٹرمیں لے گیا سرجری ک لئے  کچھ دیر بعد مجھے ایک نرس نے آ کر کہا پلیز اس گروپ کے خوں کا بندوبست  کریں  یہ نیگیٹو ہے اور ھمارے ہان نہی ملے گا اتفاق سے میرا بھی یہی گروپ تھا میں نے کہا آپ میرا خوں لے لیں  وہ بولی آ جایئں آپ پھر میں نے دو بوتلیں خون کی دیں اور باہر ہی اس کا انتیظار کرنے لگا کچھ دیر بعد میرا دوست ڈاکٹر زماں باہر نکلا اور کہا شارق وہ اب ٹھیک ہے اسے کچھی دیر میں ہوش آ جائے گا ، میں  نے اندر جا کر دیکھا وہ اب ہوش میں ا آرہا تھا میں اس کے پاس ہی بیٹھ گیا  پھر کوئی ادھے گھنٹے کے بعد وہ ہوش میں آیا مجھے دیکھتے ہی کہا  میں کہاں ہوں میں نے اسے ساری بات بتائی وہ میری طرف مشکور نظروں سے دیکھنے لگا اس نے کہا پلیز میرے گھر میں اطلاع دے دیں میںنے اس  سے اس کے گھر کا نمبر لیا اور بتا دیا ٹھیک بیس منٹ بعد ہی ایک آدمی  اندر کمرے میں داخل ہوا  وہ روتا ہوا اس لڑکے  سے پاس آیا اور کہا ندیم بیٹا یہ کیا ہو گیا تم کو  اب کی بار اس کے بیٹے نے میرے بارے میں بتایا  وہ میرے پاس آ کر میرا شکریہ ادا کرنے لگا اس نے میرے پاؤں کو ہاتھ لگا دے اور کہا آج کے دور میں کہاں آپ جیسے فرشتے ملتے ہیں صاحب جی  میں نے اسے جواب دیا یار میں تو اچھا انسان بھی نہیں ہوں تم مجھے فرشتہ بنا  رہے ھو پھر ڈاکٹر  آ گیا کمرے میں اس نے بھی کہا اگر آجمیں اپنا خون نہ دیتا تو یہ لڑکا نہیں بچ سکتا تھا  وہ آدمی اور بھی ممنون نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے  پھر کچھ ہی دیر میں اسے فارغ کر دیا گیا  اب وہ آدمی بولا  صاحب جی میں اپنے دفتر میں ایک کال کر کے آیا  میں نے اس کے آنے کےبعد پوچھا آپ کیا کام کرتے ھو وہ بولا میں فرہاد احمد کی فارم میں مینجر ہوں میں چونک گیا اور کہا ووہی فرہاد جن کا قتل ہوا ہے وہ بولا جی ہاں  

اب میں اس کے ساتھ ہی اس کے گھر گیا وہاں بیٹھ کے کولڈ ڈرنک پیتے ہوے میں نے اس سے پوچھا   یہ قتل کا کیا  معاملہ ہے وہ بولا بس جی آج کے دور میںایسا ہو ہی جاتا ہے میں نے اب کہا یار جو بندہ قتل کے کیس میں جیل میں ہے احسان تائب وہ میرا ایک جاننے والا ہے وہ مجھے قاتل نہیں لگتا ، وہ اب کی بار میرے طرف دیکھ کر کچھ کہنے لگا پھر چپ ہو گیا میں سمجھ  گیا کوئی ایسی بات ہے جو  وہ جانتا ہے میں نے کہا اسلم صاحب اگر آپ کچھ جانتے ہیں تو بتا دیں میرا فائدہ ہو جائے گا میں ایک وکیل بھی ہوں اور یہ کیس میرے پاس ہے وہ اب کی بار بولا جناب آج آپ نے مجھ پے جو احسان کیا ہے اس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا میں آپ کو سب بتاؤں گا  وہ اب کی بار کچھ دیر سوچتا رہا وار بولا یہ قتل احسان تائب  نے نہیں کیا یہ قتل اس کی بہن فریال نے کیا ہے میں تو حیران ہی رہ گیا پھر جب اس نے ساری تفصیل مجھے بتا دی  تو میں نے کہا کیا تم یہی بات کورٹ میں کہ سکو گ
ۓ  وہ بولا اب ضرور کہوں گا آپکی خاطر پھر میں نے کہا مجھے ان سب لڑکیوں کا پتہ چاہیے جو فرہاد کا شکار بنی ہیں وہ بولا آپ کو کل وہ سب مل جائے گا ان میں سے دو کا پتہ ابھی آپ کو بتا دیتا ہوں پھر اس نے مجھے پتا بتا دیا میں اب اس کا شکریہ ادا کر کے اٹھا اور پہلا پتا جو

جو شہناز نامی لڑکی کا تھا وہ ایک فلیٹ میں رہتی  تھی میں نے فلیٹ کے سامنے جا کر دور بیل دی تو ایک خوبصورت سی لڑکی نے دروازہ کھولا میں نے اسے کہا مجھے شہناز سے ملنا ہے وہ بولی میں ہی شہناز ہوں فرمائیں پھر میں نے اسے اپنا کارڈ  دکھایا اور وہ بولی آپ اندر آ جائیں میں اس کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا ایک  صوفے  پے بٹہننے کا اشارہ کیا اس نے میں بیٹھ گیا وہ بولی میں آپ ک لئے کچھ خانے پینے کو لاتی ہوںمیں نے کہا نہی کوئی طلب نہیں ہے مجھے آپ کیا یہاں اکیلی رہتی ہیں وہ بولی نہیں میرا بھائی اور والد صاحب بھی ہیں وہ ابھی ذرا مارکیٹ گ
ۓ ہیں آپ بولیں کیا بات ہے   اب کی بار میں نے اسے فرہاد کے بارے میں بتایا وہ بولی اچھا ہوا وہ کمینہ مر گیا  میں نے اب اسے کہا مجھے آپ کی مدد کی ضورت ہے وہ بولی کیسی مدد میں نے کہا فرہاد صاحب کا قتل معمہ بنا ہوا ہے  آپ نے بھی ان کے پاس کچھ عرصہ نوکری  کی تھی آپ نے چھوڑ کیوں دی وہ بولی میں بس ایک مہینہ ہی وہاں نوکری کر سکی اور مجھے نکال دیا گیا کیوں کے میں فرہاد کی توقعات پے پورا نہیں اتر سکی تھی وہ  انسانی شکل میں ایک بھیڑیا تھا جو معصوم اور نوجوان خوبصورت لڑکیوں کو اپنی سیکرٹری کی نوکری ستا ان سے اپنی ہوس پوری کرتا اور چھ مہنے بعد ان کو چلتا کرتا کوئی بھی لڑکی  چھ مہینے سے زیادہ نہیں ٹکی اس کے پاس کیوں کے اس کا دل بھر جاتا تھا اس سے مجھے بھی اس نے یہی سمجھ کے نوکری دی لیکن  میں  نے اس کا ساتھنہی دیا سو مجھے نکل دیا اس نے ایک اور بھی لڑکی ہے جو اسی بلڈنگ میں رہتی ہے فائزہ احمد وہ بھی اس کا شکار رہی ہے  میں نے کہا معاف کیجئے گا شہناز کیا آپ بتا سکتی ہیں آپ کو یہ سب کیسے پتا چلا کے وہ ایک اوباش اور عیاش آدمی تھا  وہ بولی جی ہاں انہوں نے اپنی خواہش  کا اظہار اس دِن کیا جب میں کوئی دو ہفتے تک  نوکری کر چکی تھمیں انکے آفس میں گی تو وہ سر کو ہاتھوں میں پکڑے بٹہے تھے میں نے کہا سر کیا بات ہے وہ بولے میری زندگی عذاب بنا رکھی ہے اس عورت نے  میں کچھ نہ سمجھی وہ بولے مجھے ایک گلاس پانی دو میں نے پاس ہی پرے جگ سے ان کو پانی دیا وہ بولے بیٹھو شہناز  میں اپنی بیوی سے برا تنگ ہوں وہ عورت  میرے سکون کی قاتل  ہے میں سوچتا ہوں کوئی میرا اپنا بھی ھو کوئی ایسا دوست جس سے میں اپنی ہر بات کہ سکون پھر میری طرف دیکھتے ہوے کہا شہناز کیا ہم اچھے دوست نہیں بن سکتے  میں نے کہا سر میں صرف افسمیں آپ کی سیکرٹری  ہوں اپ کی ذاتی  لائف  میں  کچھ نہیں کر سکتی میں وہ بولے ناز میں بس آپ سے یہ چاہتا ہوں آپ میرے ساتھ اوٹنگ  پے جایا کریں ہم اچھے دوستوں کی طرح آفس کے بھر بھی ملا کریں  روز شاپنگ کیا کریں نت نئے لباس خرید کے دوں تم کو بہت سرے گولڈ کے زیور  میں سمجھ گی یہ شاطر آدمی  مجھے دانہ ڈال رہا  ہے میں نے کہا سوری سر مجھے ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں تو ایک دم سے فرہاد صاحب نے اپنے چہرے پے جو معصومیت کہ خول چڑھا رکھا تھا وہ اتار کے بولے سوچ لو اگر یہ سب نہیں کرو گی تو کال سے تم کو یہ نوکری چھوڑنی ہو گی میںنے بھی کہا میں لعنت بجھتی ہوں آپ کی اس نوکری پے جہاں مجھے آپ کی ہوس پوری کرنی ہو میں آج اور ابھی یہ نوکری چھوڑ کے جا رھی ہوں  اور یوں میں نے وہ نوکری چھوڑ دی  

اب میں اسے لئے فائزہ کے فلیٹ پے گیا جب شہناز نے  اسے بتایا سب کچھ تو وہ تو جیسے فرہاد کے خلاف بھری پر تھی اس نے وہ زھر اگلا  کے بس پھر اس نے کہا وکیل صاحب میں اور بھی تین لڑکیوں کو جانتی ہوں جن کی تصویریں آپ کو اس کے آفس کی پھیلے سے مل جایئں گیں جن کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے اور ہم سب گواہی بھی دیں گیں  ابمیں بہت  خوش ہوا میں نے ان کا  شکریہ ادا کر کے اپنے افس میں آ گیا  میں نے اب ایک کاغذ پے ساری تفصیلات  لکھیں اور پھر اس کیس کو تیار کرنے لگا مجھے ٹائم کا  پتہ ہی نہ چلا کوئی چار گھنٹے تک میں اس کیس کی ترش خراش م  میں مگن رہا جب میں نے سر اٹھایا تو سامنے ہی فاروقی شب بٹہے تھے وہ بولے کمال ہے یار تم تو ڈوب ہی گ
ۓ تھے اس کیس میں پھر میری طرف ایک لفافہ بڑھا کے بولے یہ لو میری جان بار کا سرٹیفکیٹ  اب تم خود بھی عدالت میں پیش ہو سکتے  ہو  میں یہ سن کے بہت خوش ہوا اور پھر ہم کافی دیر اسی  کیس پے ڈسکس کرتے رہے اب میں نے  فاروقی صاحب سے کہا ابھی ٹائم  ہے میںنے ایک دو کام کی چیزیں لانے کو کہا ان سے اور وہ کورٹ سے لے اے اب اب اتفاق سے اگلے دِن کی ڈیٹ تھی اس کیس کی  میں نے سوچ لیا تھا اب اس پے سارا زور لگا دوں گا میں آج کی رات گھر نہ گیا میںنے اس کیس پے ہی خوب محنت کی  میں اپنے فلیٹ میں تھا اور پھر میں کوئی چار گھنٹے تک ہی سویا  پھر میں تیار ہو کر  کورٹ میں  کیوں کے  آج  گواہی تھی گواہو کی میں  نے بار روم میں ہی فاروقی صاحب کا ویٹ کیا وہ اے اور ہم عدالت  میں چلے گۓ آج عدالت  میں  ثمینہ فرہاد بھی تھیں اور آج مجھے ایک سرخو سفید رنگ کا ایک آدمی بھی نظر آیا وکیلوں کی صف میں جس کو جج صاحب نے بھی سر کے اشارے سے سلام کیا اور سارے  ہی وکیل اسے اتے ہی سلام کر رہے تھے اس کے ساتھ کوئی نو دس وکیل اور بھی تھے مجھے بتایا فاروقی صاحب نے یہ فرحان ڈار صاحب ہیں بہت بڑے  وکیل ہیں  میں  ہنس دیا  پھر جج صاحب نے کہا پہلے  فرہاد صاحب والا کیس شروع کیا جائے ڈار صاحب کا وقت برا قیمتی ہے اور ڈار صاحب نے ہلکے سے ان کو سر ہلا کے تھینکس  بولا  اب احسان تائب  کو عدالت میں پیش کیا گیا  اور کروائی شروع ہو گی سرکاری وکیل نے کہا  جناب آج ہم موقع کی شہادتیں   دیں گۓ  جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے اور ایک آدمی جو ڈرائیور  کی وردی  میں تھا وہ کٹہرے  میں آیا اور سرکاری  وکیل نے  اس سے کہا  حلف دو کے جو کچھ کہو گۓ سچ کہو گۓ سچ کے سوا کچنہی کہوں گۓ  اس نے حلف دیا  اب سرکاری وکیل نے کہا  تم نے کیا دیکھا تھا  اب کی بار جج صاحب نے  احسان تائب سے کہا اگر تم کوئی سوال کرنا چھو تو کر لو اب میں نے کھڑے ہوکر کہا جناب میں احسان تائب کا وکیل ہوں اور اگے بڑھ کے اپنا وکالت نامہ جج صاحب کو دے دیا  مجھے ڈار صاحب نے کچھ گھسے سے دیکھا  پر مجھے کیا پروا ہو سکتی تھی  میں نے اب وکیل سرکاری سے کہا جو بیان ہے اس گواہ  کا میں اس پے جرح کروں گا اور جج صاحب سے اجازت طلب کی  اب کی بار  فرحاں ڈار  گھسے سے اٹھا اور کہا سر  میں وکیل  استغاثہ  ہوں اور اگے بڑھ آیا  وہ اب مجھے  دیکھ کر بولا  ہاں تو لڑکے  تو جرح کرے  گا ٹھیک  ہے کر لے جرح جج صاحب نے کہا ڈار صاحب  آپ کا وقت بہت قیمتی  ہوتا ہے اس لئے  آپ  کا کیس پہلے لگا لیاہے مجھے جج صاحب کی یہ بات بہت بری لگی میں نے کہا یور آنر وقت سب کا ہی قیمتی ہوتا ہے  ڈار صاحب اکیلے کا ہی نہیں اور اپنا رخ گواہ کی طرف کیا اور کہا ہن تو آپ یہ باتیں اپ نے اس دِن کیا دیکھا وہ بولا  میں نے اپنا سارا بیان لکھوا دیا ہے  میں بولا دوبارہ سے اپنی زبان میں کہ دیں تا کے وقت  کا زیاں نہ ہو آپ کو تو پتہ ہی ہے ڈار صاحب کا وقت قیمتی ہے میری یہ بات سن کے جج صاحب کو غصہ بھی آیا پر وہ خاموش رہے ڈار کا تو غصے  سے برا حال تھا وہ گواہ بولا اس دِن جب  میں  نے دیکھا  سرے لوگ چلے گۓ ہیں اور فرہاد صاحب نہیں اے تو میں  اندر گیا ان کا پتہ کرنے وہاں میں نے ان کی لاش دیکھی اور پولیس کو اطلاعا  دی    اب میں نے کہا  کیا تم ہر وقت فرہاد صاحب کے ساتھ ہی رهتے تھے  وہ بولا جی میں ان کا کوئی  پندرہ سال پورانہ ڈرائیور ہوں  میں نےکہا پھر تو آپ بوہت خاص آدمی ہوے نہ   وہ اب کچھ کچھ اترا کے بولا ہاں جی  میں خاص آدمی تھا ان کا  وہ بڑے نیک آدمی تھے  اس ظالم نے ان کو مار دیا  میں نے کہا ڈرائیور صاحب آپ کا نام وہ بولا جی سمدو  میںنے کہا سمدو صاحب کیا اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا  تھا  کے احسان تائب اور مرحوم کے درمیان کوئی جھگڑا وغیرہ وہ بولا نہیں جی میرے سامنے نہیں ہوا  ابمیں نےکہا سمدو صاحب آپ تو ظاہر ہے خاص آدمی تھے فرہاد صاحب کے آپ سے اب کیا چھپا ہو گا  کیا وہ احسان تائب کے گھر جاتے تھے  وہ بولا نہ جی نہ  وہ بھلا کیوں جاتے ان کے گھر وہ اب میری پلان شدہ پٹری پے چڑھ گیا تھا  میں نے سوال کیا سمدو صاحب آپ  کو کیسے پتا چلا کے آخری بندہ جو اندر گیا  وہ احسان تائب ہے وہ اب کی بار چپ رہمیں نے کہا آپ تو نیچے بیٹھتے ہیں  اور فرہاد صاحب  کا دفتر اوپر ہو پھر آپ نے کیسے دیکھ لیا  اب کی بار ڈار صاحب نے کہا  وکیل صفائی صاحب ذرا اپنے سوال جلدی جلدی کریں  مجھے کہیں جانا ہے میں نے کہا تو جا سکتے ہیں ڈار صاحب میںنے کوئی آپ کو روکا ہوا ہے  آپ کے وقت سے زیادہ قیمتی ہے اس بندے کی جان  اور میں نے ابھی بس دو تین سوال ہی کے ہیں وہ اب چپ کر گیا  میں نے کہا جی سمدو صاحب آپ کو کافی وقت دے دیا ڈار  صحابنے سوچنے ک لئے اب کیا سوچا آپ نے وہ  بولا جی مجھے تو تھانیدار صاحب نے  بتایا تھا   کے اکھڑ میں احسان تائب اندر گیا ہے  میں نےکہا جج صاحب اس کا یہ بیان نوٹ کر لیں اسے کسی اور نے بتایا تھا   میں نےکہا پھر تو نے خود کیوں یہ بیان دیا ہے کے میں نے دیکھا ہوا اب چپ رہا  میں نے کہا  ڈار صاحب آپ کا دوسرا گواہ کون ہے وو بولے مینجر  صاحب  یہ ووہی تھا جس کے بیٹے کی میں نے جان بچائی تھی  میں نے کہا

اسلم صاحب آپ نے کیا دیکھا تھا وہ جج صاحب کی طرف من کر کے بولا جج صاحب یہ قتل احسان تائب نے نہیں کیا  یہ قتل  اس کی بہن  فریال نے کیا تھا میں نے خود دیکھا ہے یہسنتے ہی کورٹ میں بٹہے لوگ اور خود جج صاحب بھی حیران رہ گ
ۓ اب احسان نے چیخ کر کہا  نہیں جج صاحب یہ میرا وکیل نہیں ہے یہ میری معصوم بہن کو پھنسا رہا ہے  اس کی بکواس نہ سنیں  یہ قتل میں نے کیا  ہے  اب کی بار ڈار صاحب نے کہا  اگر یہ قتل کا خود اعتراف کر رہا ہے تو تم کو کیا مثلا  ہے  میں نے کہا  ڈار صاحب یہ ایک انسانی جان کا  مسلہ  ہے  اور پھر سے  اسلم سے کہا اپنا بیان پورا کرو اب تو صورتحال ہی بدل گی تھی اب جج صاحب بھی  ذاتی دلچپی لے رہے تھے اور عدالت میں  بٹہے وکیل اور لوگ بھی اب متوجہ ہو گۓ  تھے  بلکے  کیوں کے ڈار صاحب کا نام بہت  بڑا  تھا  اس لئے کافی لوگ اب عدالت کے بھر بھی کھڑے تھے  یہ کیس سننے کے لئے  اب کے اسلم  جو کے اب میرا گواہ بن گیا تھا ڈار صاحب نے اس سے سوال کیا  تم نے پہلے یہ سچ کیوں نہیں بتایا پولیس کو وہ بیخوف  ہو کر بولا مجھے ثمینہ فرہاد نے روکا تھا  یہ بتانے سے  اور کہنے لگا جج صاحب اصل میں  فرہاد صاحب فریال کی عزت لوٹنا چاھتے تھے  کے اچانک  فریال کے ہاتھ میں کاغذ کتنے والا کٹر  آ گیا اس نے وہ ان کے سینے میں مار دیا جو  سیدھا دل پے لگا اور وہ موقع پے ہی  دم توڑ گۓ  اسی وقت احسان تائب اندر داخل ہوا کیوں کے آج  فریال کو گھر جانے میں کوئی دو گھنٹے کی دیر ہو گی تھی اس نے جب یہ سب دیکھا تو اس نے اسی وقت فریال سے کہا تم گھر جو اور وہ آلہ قتل اپنے ہتھمیں پکڑ  لیا    اب  میں نے اسے جانے کی اجازت دی اور کہا  جج صاحب اب میں مرحوم فرہاد کی بیگم سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں  تو  ڈار صاحب نے کہا  جج صاحب مجھے ایک تاریخ دی جاتے  میں نے کہا جناب ایک بےگناہ  انسان جیل میں سڑ رہا ہے  اس کا کیا قصور ہے  تو جج صاحب  نے  کہا   میں پولیس کو ایک گھنٹے کا ٹائم دیتا ہوں فریال کو حاضر کیا جائے  اب یہ سنتے ہی احسان تائب نے کہا  شارق منمیں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا  ظالم کیوں میری بہن  کو بلوا رہا ہے اور رونے لگا میں نے اب  اسے دیکھ کر کہا  اگر میں تم اور تمہاری بہن کو با عزت بری نہ کروا سکا  تو جو مرضی سزا دے لینا مجھے  وہ اب چپ رہا میں  اب فاروقی صاحب  کے سات بار روم ا گیا وہاں تو آج ایک میلہ لگا تھا

سب ہی ووکلاء حضرات  مجھے کہ رہے تھے یار کمال کر دیا آج تم نے تو  اب مجھے ڈار صحابنے دیکھا اور کہا  برخودار  یہ تم نے اچھا نہی کیا  تم میری بھتیجی  سے کوئی سوال نہیں کرو گ
ۓ میں نے کہا ڈار صاحب آپ بس سوال کی بات کرتے ہیں میں تو   احسان اور اس کی بہن کو  بھی  بری کرا لوں گا  اور آپ کے داماد کی اصلی شکل  دکھاؤں گا دنیا کو وہ گھسے سے لال پیلے ہو گۓ اور کہا لگتا ہے تم کو اپنی زندگی سے کوئی پیار نہیں کبھی میرا نام نہیں سن تم نے   میں نے اس کی آنکھوں دیکھتے ہوے کہا فرحان ڈار جو کتے  بھونکتے ہیں وو کاٹتے نہیں  یہ سنتے ہی سب لوگ تو حہیران رہ گۓ اور خود  ڈار   تو اب کنٹرول سے باہر ہونے لگا تھا  اس نے کہا اگر آج تم  اپنے گھر میں زندہ چلے گۓ تو میرا نام  بدل دینا  میں نے کہا  ابھی سےبدل لو یوں یہ گھنٹہ  ایسے ہی گزرا  اب میں عدالت کی طرف چل دیا  عدالت میں  فریال بھی تھی اپنی ماں کے ساتھ میں نے فاروقی صاحب سے کہا  تھا شہناز  کو کال  کر دیں اس لئے اب شہناز اور فائزہ بھی تین لڑکیو ساتھ ساتھ ایک طرف بیٹھی تھی  مجھے دیکھتے ہی  فائزہ نے   ایک کاغذ پے  سب کا نام لکھ دیا  اور وہ کاغذ میری طرف   کیا میں نے اس سے وہ کاغذ لیا  اور آ گیا جج صاحب کے سامنے  اب ڈار صاحب نے کہا  جج صاحب اگر آپ کہیں میں آپ کو سپریم کورٹ سے کال کروا دیتا ہوں مجھے اس کیس کا فیصلہ آج ہی  چاہیے  پھر جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے کال کی کوئی ضرورت نہیں اور اپنے ریڈر سے کہا باقی سب کو کل کی ڈیٹ دے دو  آج بس یہی کیس چلے گا  اب ڈار صاحب میری طرف دیکھنے لگے اب بھائی نصرت بھی کچھ وکیلوں  کے ساتھ اندر داخل ہوے  میں نے اب جج صاھب سے کہا جناب  میں اب پہلے فریال سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں  وہ بولے اجازت ہے میںنے اب فریال جو کے اب کٹہرے میں کھڑی تھی اس کی طرف دیکھا اور کہا  اس آدمی کو جانتی ھو جو سامنے کھڑا  سے وہ بولی جی ہاں وہ میرا بھائی ہے  میں ے اب کہا کیا تم  نے عورت کی تاریخ پے غور کیا ہے

میںنے کہا پہلے آپ قسم کھیں کے جوکچ کہیں گیں سچ ہی کہیں گیں اس نے قسم کھائی ابمیں نے کہا فریال صاحبہ  میرے   کیا آپ  مرحوم فرہاد احمد سے عشق کرتی تھیں  جس کے قتل کی وجہ سے آپ کو اپنے بھائی سے نفرت ہو گی ہے  وہ بولی نہیں نہیں میں اپنے بھائی سے نفرت نہیکرتی میں نے کہا کیا تم کو پتہ ہے ھمارے معاشرے میں ہمیشہ بہنیں اپنے بھائیون  کے لئے  دعائیں م،انگتی رہیں ہیں اور بھائی ہمیشہ اپنی بہنوں کی عزت پے قربان ہوے ہیں بکلول اس احسان تائب کی طرح  جو تمہارا کیا اپنے سر لے رہا ہے یہ سنتے ہے احسان تائب نے اپنا سڑ کٹہرے سے مار مار کے لہو لہان کر لیا اور کہا جج صاحب یہ میرا وکیل نہیں ہے میں نے قتل کیا ہے میں اقرار کرتا ہوں  میں اپنا وکالت نامہ بھی کینسل کرتا ہوں  میں نے اب جج صاحب کی طرف دیکھ کر کہا جناب یہ قتل فریال نے کیا ہے اور اس کو بچانے کے لئے یہ   بھائی اپنی  جان دے رہا ہے  اور یہ آج کی بہن اب میں نے فریال کی طرف اشارہ کیا  یہ ایسی بہن ہے جس کا نام لوگ  عرصہ دراز تک یاد رکھیں گ
ۓ جس نے بس اپنو ذات کو بچانے کے لئے ایک بھائی کی قربانی مانگ لی   اور پھر ایسا  ہو آہی کیا ہے فریال نے اپنی عزت ایک وحشی سے بچانے  کے لئے اسے مارا ہے اب کی بار ڈار صاحب نے کہا جج صاحب  وکیل صاحب میرے موکل  کے لئے غلط الفاظ استمال کر رہیہیں  میںنے کہا جج صاحب میں اپنے  الفاظ واپس نہیں لوں گا ابھی آپ کو سب پتا چل جائے گا  اب فریال زارو قطار رو رہی تھی وہ اب چیخ کے بولی ہاں میں نےقتل کیا ہے اس فرہاد کو  اب یہ سن کے احسان نے کہا وہ پگلی بہن کیا کہ رہی ھو  یہ لوگ تم کو موت کی  سزا دے دیں گۓ اور رویننے لگا  اب تو سارا معاملہ ہی حل ہو گیا تھا اسی وقت  جج صاحب نے کہا احسان تائب کو  چھوڑ دیا جائے اور فریال کو اب  گرفتار کی جاتے  پھر احسان کی جگا مجرموں والی کتھرےمیں  فریال کو لیا گیا

اب میں نے کہا جناب  کیا ایک  دِن کی تاریخ  ملے گئی جج صاحب نے کہا  نہیں آپ اب کیوں تاریخ چاہتے ہیں  میں نے آج  فیصلہ کرنا ہے اس  کیس کا  پھر میںنے اسی وقت  فاروقی صاحب سے کہا  ایک درخواست  ضمانت تیار کریں  فریال کی اور ایک وکالت نامے پے فریال سے کہا  سائن  کرو اس نے چپ کر کے سائن کے  میں نے وہ وکالت نامہ  جج صاحب کو دیا اور کہا