SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ چھٹی قسط



عاشق

چھٹی قسط

تحریر: ماہر جی


میں اب ڈیڈی کی کار میں تھا میں نے سوچ لیا تھا پہلے اپنے ایک دوست کو ملوں گا جس کا نام بابر تھا اور وو میرا کلاس فیلو  تھا  جسے پڑھائی سے زیادہ غنڈا گردی کا شوق تھا اس نے اور میں نے ایک ہی کلب سے جوڈو کراتے  سیکھے  تھے  میں تو بس بلک بیلٹ تک ہی گیا تھا پر بابر بعد میں جاپان بھی گیا تھا اس نے مارشل آرٹ  میں کمال حاصل کیا تھا پھر وہ  واپس  آیا اور اس نے اپنی بدمعاشی کی دھاک بٹھا دی تھی  وہ ایک وفاقی منسٹر کا بیٹا تھا  اس لئے اس کے تعلقات بھی کافی تھے  آوپر  سے وہ اس فیلڈ میں آیا تھا جہاں اکثر لوگوں  کو اس سے کام  پڑتا رہتا تھا  اس نے آتے ہی کچھ جوے کے اڈے بنا لئے تھے اور اس کے ساتھ کافی لوگ بھی تھے جو اسے استاد بابر بولتے میں اس کے ایک خاص ااڈے کی جانب چل دیا وہاں گیا تو پتا چلا وو ابھی وہاں سے نکل کے ایک اور جگہ گیا ہے اب میں وہاں گیا وہ جگہ ایک بہترین نائٹ کلب تھا  اور اس میں سب بڑے بڑے لوگ ہی آتے تھے، میں نے کاؤنٹر پے جا کر کہا مجھے بابر سے ملنا ہے وہاں پے ایک کلین شیو نوجوان لڑکا کھڑا تھا  اور اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا مسٹر جو کام ہے ہم کو بتاو باس  ابھی کسی سے نہیں مل سکتا وہ اپنی ایک پارٹی  سے کچھ ڈیلنگ  کر رہا ہے  میں نے کہا یار تم اسے کال کر  کے میرے بارے میں بتاو تو سہی اس نے کہا اگر وہ آپ کا اتنا ہی قریب ہے تو خود بات کر لو اس نے مجھے بابر کے آفس میں کال ملا کے دی آگے  سےکسی  آدمی  کی آواز آئی کیا بات ہے ناصر  کیوں کال کی ہے  میںنے اب کی بار کہا بابر سے کہو شارق آیا ہے اسے ملنے کو  بابر شاید پاس ہی بیٹھا تھا اس کے اس نے میرا نام سنتے ہی  خود ریسیور  پکڑا اور کہا یس کون ہے میںنے کہا آوے کمینے اب تو اتنا برا باس بن گیا ہے کے مجھے بیس منٹ ہو گے ہیں یہاں آے اور کوئی بات تک نہی کرا  رہا  تھا تم سے اس نے جیسے ہی میری  آواز سنی  وہ بولا صرف ایک منٹ روک  اپنی زبان کو  اور کال کاٹ دی پھر مجھے اسی وقت  اوپر سے آتی سیڑھیوں سے بھاگنے کی آواز آئی جسے سن کے میرے ساتھ کھرے  بابر کے آدمی جلدی سے اپنی اپنی گن جو انہوں نے کندھے سے لگا رکھی تھی وو اتار کے ہاتھ میں پکڑ لی  آنے والا بابر خود تھا اس کے پیچھے تین چار اور لوگ تھے وہ آتے ہی  بھاگ کے میرے گلے لگا اب کے اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر کے ایک گول چکر دیا اس میں کئی سانڈوں جیسی   طاقت تھی میں نے کہا ابھے میری جان لے گا کیا وہ  ہنس دیا اور میرا منہ چوم کے بولا شارق  آجمیں بہت خوش ہوں تم میرے پاس آے ھو

  پھر اپنے پیچھے کھڑے ایک آدمی سے کہا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا بولا جاؤ وقار میں نے تم کو معاف کیا اسے باہر چھوڑ آؤ کھ  کے میرا ہاتھ پکڑ کے دوبارہ سے سیڑھیوں کی طرف چل دیا  پھر میں اس کے ساتھ اس کے آفس میں داخل  ہوا کم بخت    نے برا ہی غضب کا آفس بنا رکھا تھا  ہر چیز ایک سے بڑھ کے ایک  اب میں اور وہ ایک  صوفے پے آمنے سامنے بیٹھ گے وہ بولا میرے شہزادے کے لیے  کھچ کھانے  پینے کا بندو بست کرو یار  اس کی بات سن  کر ایک آدمی باہر چلا گیا اور ایک کھڑا  رہا میںنے کہا  بابری  مجھے تمہاری کچھ مدد چاہے  بولو کرو گے وہ بولا آوے لعنتی  انسان حکم دے کے یہ کام ہونا چاہے یہ مت کہ  کے میرا کام کرے گا  آج ہم کوئی تین سال بعد مل  رہے  ہیں  شارقی کیا اب ہم اتنے دور ھو گے ہیں ایک دوسرے سے  کے تم کو یہ الفاظ کہنے پڑھے تم تو ہمیشہ کہا کرتے تھے بابر اور میں دو جسم اور ایک جان ہیں اور آج اپنی  ہی جان  سے یہ بات  یار میرا دل ٹوٹ گیا
 میں نے ساری زندگی بس تجھے ہی دوست بنایا ہے شارق  ورنہ آج تک دشمن ہی بناے ہیں  میں نے کہا یار بات ہی ایسی ہے مجھے کہنا پڑھا وہ اب کافی ناراض لگ رہا تھا بولا شارق کیا بات ہے میں نے پھر اسے بتایا  اپنے کیسوں کے بارے میں اور ڈار کے بارے میں

وہ بولا میں جانتا ہوں فرحاں ڈار واقعی ٹیڑھی کھیر ہے  خیر کوئی بات نہیں دیکھ لیں گے  اسے بھی  پھر میں نے اور اس نے ملکر کھانا کھایا جب  میں نے اب جانے کی اجازت مانگی وہ بولا بس پانچ منٹ روک جاؤ پھر اس نے اپنے ساتھ کھڑے آدمی سے کہا ظفری  یہ شارق  مجھے اسس جہاں میں سب سے عزیز ہے اپنی جان سےبھی زیادہ  آج سے تم نے کیا کرنا ہے تم ساری تفصیل سن چکے ھو  جو پورانی حویلی  والا گینگ ہے تم آج سے ان کو اس کے پیچھے لگا دو میں نے کہا نہی یار اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے میں بس تم سے اس کے بارے میں پوچھنے  ہی آیا تھا حفاظت میری نہیں احساں تائب کی کروانی ہے جیل میں   وہ بولا تم اس ماملے میں نہیں بولو گے   پھر ظفری سے کہا پانچ  پانچ لڑکوں  کے تین گروپ بنا دو  وہاں پے کتنے لوگ ہیں وہ بولا باس وہاں پے بیس آدمی ہیں اپنے جو ابھی تک کس کی نظر میں نہیں آے اور ہر طرح سے ٹرینڈ  بھی ہیں اور ہر طرح کے اسلحے سے بھی لیس ہیں تو میںنے کہا یار اتنے لوگ کیا تم پاگل ہو گے ھو بھائی وہ بولا جانی میرا گروپ پورے ملک میں پھیلا ہے میں نے اپنے وہ لوگ ترے پیچھے کئے  ہیں جن کا کسی کو نہیں پتا کے میرے لوگ ہیں وو سمجھو خفیہ  آرمی ہے تمہاری آج سے اور یہ ظفری ان کا انچارج ہے  پھر میری کوئی بات نہ سنی اس نے اور میں جب گھر جانے لگا  تو مجھے پتا تھا  میرے پیچھے  ایک جیپ میں پانچ باڈی گارڈ ہیں میرے جو اب ہر وقت میرے ساتھ سایے کی طرح رہیں گے  آج کل کے دور میں ان کی بہت ضرورت تھی مجھے کیوں کے اب میں جو کرنے جا رہا تھا اس میں ہر وقت میری جان کو خطرہ رہنا تھا اب ایک وقت مقرر سہی لیکن بندے کو اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہے کیوں کے زندگی ایک ہی دفع ملتی ہے

اب میں سیدھا اپنے گھر جانے کی بجاے فرہاد احمد کے گھر گیا میں اس کی بیگم ثمینہ فرہاد سے ملا وہ  ایک نوجوان لڑکی تھی جو اپنی باتوں سے کافی گھمنڈی لگ رہی تھی وہ  بولی آپ کو کیا کام ہے مجھ سے میںنے اس سے کیس کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہا وہ بولی آپ کون ھو میںنے کہا میں ایک وکیل ہوں وہ بولی تو میرے پاس کیا لینے آے ھو جاؤ جا کے فائل  پڑھ کے دیکھ لو ساری بات کا تم کو پتا چل جائے گا  اور یہ کہ کر اپنی کار میں بیٹھی اور کہا مجھے دیر ہو رہی  ہے میں نے ایک دوست  کے ہاں جانا ہے مجھے اس پے بہت غصہ آیا میں نے دل میں سوچ لیا اب  جو مرضی ہو جائے  اس کیس سے احسان کو چھڑا کے ہی چھوڑوں گا  اب میں احسان تائب کے گھر کی طرف  گیا وہ ایک چھوٹا سا کواٹر تھا ایک غریب سی آبادی رہتی تھی وہاں پے میں نے جب احسان کے  کواٹر کے دروازے پے دستک دی تو ایک بزرگ  عورت نے دروازہ کھولا میں نے ان سے بات کی وہ مجھے اندر لے گی ہر طرف غربت کا عالم تھا وہ بولی بیٹا ھمارے گھر  میں تو تم کو بٹھانے کے  لئے  بھی   جگہ نہیں ہے  میں نے کہا ماں جی کوئی بات نہیں

ماں جی میرا نام شارق ہے میں ایک وکیل ہوں کیا آپ ہی مسز مقصود ہے وہ  بولی جی بیٹا میں نے آپ کو اس دِن دیکھا تھا عدالت میں  میں نے کہا میں عدالت کی طرف سے نہیں آیا اپنے طور پے آیا ہوں آپ سے اور آپ کی بیٹی سے کچھ سوال کرنے ہیں مجھے  وہ بولی بیٹا بولو  میں نے کہا آپ خود کیوں جاتی ہیں کورٹ میں کیا گھر میں کوئی مرد نہیحی وہ کہنے لگیں نہیں بیٹا  میں ہوں میری بیٹی فریال ہیاور تین چھوٹے   بچے ہیں مرد کوی نہیں ہے احساں کے والد وفات پا گ
ۓ ہیں  اور جو عزیز و اقاراب ہیں ان کی اپنی ہی مصروفیت نہیں ختم ہوتی  اور پھر کون غریب رشتہ داروں کا اس حال میں ساتھ دیتا ہے  میں نے کہا ماں جی ایک بات کہوں آپ سے اگر آپ ماں جو تو وو کہنے لگی بولو میں نے  ان کی طرف دیکھتے ہوے اٹھا اور پاس ہی کھڑی فریال کے سر پے ہاتھ رکھ کے کہا  آپ مجھے  احسان کا بھائی ماں سکتی ہیں یہ سنت ہی وہ  رونے لگیں اور کہا  اس دور میں جہاں اپنے سگے بھی پراے  ہو جاتے ہیں تم پراے ہو کر بھی کیوں اتنا کچھ کر  رہے ھو  میں نے کہا  آپ بس مجھے یہ بتا دیں اس دِن ہوا کیا تھا  اب کی بار میں نے فریال سے کہا پلیز فریال ابھی کچھ نہیں دیکھا تمہارے بھائی نے مجھے بتاو کیا بات ہے  کس کے لئے وہ موت کو گلے لگا رہا ہے  وہ چپ رہی اور کوئی جواب نہ دیا  پھر میں نے اس کی ماں سے کہا لگتا ہے آپ کو رشتوں پر سے اعتبار نہیں رہا  وہ بولی ایسا نہ کہو بیٹا  تب میں نے کہا تو مجھے بتاتے کیوں نہیں آپ  لوگ کیا ہوا ہے  اب تو وہ بھی چپ کر گیں وہ ماں بیٹی ایک دوسرے کی طرف دیکھی جا رہی تھیں  آخر کار میں نے کہا احساں سے وکیل کیوں نہ ا کیا  وہ بولی وہ نہیں چاہتا وکیل کرنا ہم کیا کریں اور بیٹا جو تم پوچھنا چاھتے ھو وہ بس  احساں ہی بتا سکے گا تم  کو اب میں نے اگلے دِن  کے لئے کہا ماں جی کل آپ اسے میرے ساتھ چل کے اس بات پے تیار کریں کے وہ مجھے اپنا وکیل بنا لے  وہ کہنے لگی ٹھیک ہے بیٹا  میں اب ان کے گھر سے نکلا اورفاروقی  صاحب کے پاس گیا ان سے ساری بات ڈسکس کی  پھر ان کے ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا اور  پھر گھر آ گیا  گھر میں آیا تو آتے ہی میں لالرخ کے قابو میں آ گیا وہ کہنے لگی  بھائی آپ ہم کو گھر چھوڑ کے ایسے گۓ کے ہم تو سوچ رہے تھے آپ اپنے لگی پیسوں کا ماتم کر رہے ہیں  میں نے کہا ہاں یہی سمجھ لو پھر میں نے کھانا کھایا کچھ دیر سب کے ساتھ بیٹھا اور آ کر نیلوفر کے پاس ہی اس کے کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگا وہ اب ٹھیک تھی مین نے کہا  جی جانو جی  پھر ہو جائے  آج بھی وہ شرما کے بولی   چلو میں آتی ہوں آپ کے کمرے میں  اب میں اٹھا اور اپنے کمرے   میں آ کر سو گیا   پھر میری آنکھ تب ہی کھلی جب نیلوفر نے مجھے جگایا وہ اتے ہی میرے اپر گر گے میرے ہونٹ چوسنے لگی میں بھی اس کاساتھ دینے لگا  اب ہم ایک دوسرے میں کھوے ہوے تھے  میں اس کی زبان کو چوس رہا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے سڈول مممے  دبا رہا تھا   وہ بولی شارق  آج للہ رخ میرے پاس ہی سو رہی ہے   اس لئے آج جلدی جانا ہے کہیں اس کی آنکھ نہ کھل جائے میں بھی موقع کی نزاکت کو سمجھ گیا  میں نے اب اسے ننگا کیا اور اپنے بھی کپڑے اتار دیے میں اس کی رانوں کے درمیان بیٹھ گیا  میں نے اب اپنا لن اس کی چوت    کے سوراخ پے رکھا اور ایک ہلکا سا دہکا دیا  وہ س س س س کر اٹھی   میں  نے  اس کی ٹانگیں اٹھا کر اوپر کر دیں اور اب دھکے سے سارا لن اندر کیا اور اس کے اوپر لیٹ کر  اندر باہر کرنے لگا  وہ نیچے سے  جواب دینے لگی اپنے  کولھے اوپر اٹھا کر  میں اس کے ہونٹ چوس رہا تھا  اور وہ میری کمر پے اپنے ہاتھ پھیر رہی تھی   میرے دھکوں  میں اب تیزی آتی جا رہی تھی اس  کو بھی مزہ آنے لگا تھا وہ اب سسکاریاں بھرنے لگی آ ی ی  آ و ی اف ف ف ف ف  شارق آج تو کل سے بھی زیادہ مزہ آ رہا ہے جان پلیز اور زور سے کرو آج میرا انگ انگ تور ڈالو   آ ہ ہ ہ ہ ش ا ا ا ر ر ر ق ق ق ق تمہارا لن کتنا پین فل  ا ف  میری چوت  تو اب سواۓ اس کے کوئی اور لن لے ہی نہیں سکے گی اتنا مزہ آ ہ ا مم م م م واؤ شارق   اب نیلوفر کی آنکھیں بند ہو گیں تھیں مزے کی شدت سے  اور میرا لن جر تک اس کی چوت میں جا کر اس کی

بچا دانی کو خراج پیش کر رہا تھا  جب بھی میرا لن نیلو کی بچادانی کو سلام کرتا وہ ایک مزے کی لہر سے بیتاب ہو کر تڑپ جاتی  اس کا منہ ہلکا سا کھل جاتا  وہ اب مزے کی انتہا پے تھی اور زور زور سے چیخ بھی رہی تھی پھر ایک چیخ کے ساتھ ہی اس نے میری کمر کو مضبوطی سے کس کے پکڑ لیا وہ اب فارغ ہو رہی تھی  اب اس کے چہرے پے سکون ہی سکون تھا  میں ابھی  ویسے کا ویسا ہی تھا اب کی بار میں نے اس کی چوت کو ایک کپڑے سے صاف کیا اپنا لن بھی صاف کیا اور اب کی بار اسے الٹا لٹا کر میں نے اس کے اندر ڈالا اب صرف اس کی چھاتی ہی بیڈ پے تھی اس کی ٹانگیں میں نے اوپر اٹھا لی تھیں  اس طرح وہ اب اپنے ہاتھ اور چھاتی کے بل پے ہی بیڈ پے لیتی تھی باقی جسم کا حصہ بیڈ سے اوپر تھا اس طرح  سے میرے لن کے بلکل سامنے اس کی چوت اور گند اک سوراخ  تھا  میں اب کبھی اس کی چوت میں لن ڈالتا اور کبھی گاند میں جب چوت میں لن جاتا اسے مزہ آتا وہ مزے سے آ ہا  امم م  کر جاتی اور جب میں اس کی گاند میں ڈالتا وہ کچھ درد محسوس کرتی اور چیخ جاتی  ا ا ف ف ف ف ف شارق ا و ی  ہاہے  کہ اٹھتی مجھے اس طرح  مزہ آیا تھا پھر ایسے ہی لگا تار دھکے مرتے ہوے میں اس کی گاند میں فارغ ہو گیا وہ ایک دفع پھر جھڑ گی تھی  اب میں نے اسے سیدھا کیا اور اس کے ہونٹ چومنے لگا  وہ اب مجھے بےتحاشا  چومی جا رہی تھی  شارق تم کیا ھو یار میں جب تک اس گھر میں رہوں گی روز تم سے چدواوں گی   پھر میں نے کہا اب او نہتے ہیں اور نہتے ہوے پھر ایک دفع اس کی گانڈ ماری پھر وہ اپنے روم چلی گی اور میں سو گیا  اگلے  دِن  میں  ٹائیم سے ہی اٹھا گیا  نہ دھو کر ریڈی ہوا ناشتہ  کیا  پھر سیدھا احسان کے گھر میں سے اس کی والدہ کو ساتھ لیا  اور جیل میں چلا گیا  وہاں میں نے جیلر عدنان صاحب سے ملا ان کو اپنا کام بتایا انہوں نے اسی وقت  احسان تائب کو اپنے دفتر میں ہی بلوا لیا اور کہا تم سکون سے  اس سے باتیں کرو میں آتا ہوں اورھمارے  لئے چا
ۓ اور بسکٹ  بجھ دیے اب میں اور احسان کی والدہ احسان کو سمجھا رہے تھے پر وہ وکالت نامے پے سائن نہیں کر رہا تھا اب کی بار میں نے کہا یار دیکھو تم نے مرنا تو ہے ہی   پھر کیا فرق پڑتا ہے وکیل ہو یا نہ ہو میرا یہ پہلا کیس ہے میری ہی ہیلپ کر دو  اب کی بار وہ میرے چکر میں آ گیا اور کہا لاؤ کہاں سائن کرنے ہیں اور وکالت نامے پے سائن کر دیے میں اب اس سے کہنے لگا تم ماں بیٹا آپس میں بات چیت کر لو مجھے یہ لڑکا بہت ضدی نظر آ رہا تھا  میں اب سوچ رہا تھا  کیا کروں ایسا کے جس سے مجھے سچ کا پتا  چل جائے پھر کچھ دیر بعد جیلر صاحب آ گۓ میں نے عدنان صاحب کا شکریہ  ادا کیا وہ بولے تم میرے بھی بھائی ہو یار مجھ میں اور طارق میں کوئی فرق نہیں ہے اب میں نے کہا بھائی جان یہ احسان میرا دوست ہے  وہ بولے  ٹھیک ہے بھائی کی جان اس کا اب ہم خیال رکھیں گۓ اور میں احسان کی والدہ کو لے کر  باہر آیا ان کے گھر چھوڑنے ک لئے  جب میں ان کو گھر چھوڑ کے واپس اپنے آفس کی طرف جا رہا تھا  تو راستے میں میں نے دیکھا ایک لڑکے کو ایک گری والا ٹکر مار کے بھاگ گیا ہے اور لوگ اس لڑکے کے گرد اکھٹے  ہو گۓ ہیں میں نے بھی گری روک کے دیکھا کوئی بھی اسے ہوسپٹل نہیں لے جا رہا تھا بس یہی کہے جا رہے تھے دیکھو کتنی چوٹیں یں ہے اس بیچارے کو  میں نے آگے بڑھ کے ایک دو آدمیوں سے کہا اسے میری کار میں ڈالو پلیز یہ میرا دوست ہے اور اسے لے کر ایک اچھے سے ہوسپٹل میں آ گیا وہاں ایک ڈاکٹر میرا دوست تھا اسے کہا اسے چیک  کرو وہ اسے دیکھتے ہی آپریشن ٹھیٹرمیں لے گیا سرجری ک لئے  کچھ دیر بعد مجھے ایک نرس نے آ کر کہا پلیز اس گروپ کے خوں کا بندوبست  کریں  یہ نیگیٹو ہے اور ھمارے ہان نہی ملے گا اتفاق سے میرا بھی یہی گروپ تھا میں نے کہا آپ میرا خوں لے لیں  وہ بولی آ جایئں آپ پھر میں نے دو بوتلیں خون کی دیں اور باہر ہی اس کا انتیظار کرنے لگا کچھ دیر بعد میرا دوست ڈاکٹر زماں باہر نکلا اور کہا شارق وہ اب ٹھیک ہے اسے کچھی دیر میں ہوش آ جائے گا ، میں  نے اندر جا کر دیکھا وہ اب ہوش میں ا آرہا تھا میں اس کے پاس ہی بیٹھ گیا  پھر کوئی ادھے گھنٹے کے بعد وہ ہوش میں آیا مجھے دیکھتے ہی کہا  میں کہاں ہوں میں نے اسے ساری بات بتائی وہ میری طرف مشکور نظروں سے دیکھنے لگا اس نے کہا پلیز میرے گھر میں اطلاع دے دیں میںنے اس  سے اس کے گھر کا نمبر لیا اور بتا دیا ٹھیک بیس منٹ بعد ہی ایک آدمی  اندر کمرے میں داخل ہوا  وہ روتا ہوا اس لڑکے  سے پاس آیا اور کہا ندیم بیٹا یہ کیا ہو گیا تم کو  اب کی بار اس کے بیٹے نے میرے بارے میں بتایا  وہ میرے پاس آ کر میرا شکریہ ادا کرنے لگا اس نے میرے پاؤں کو ہاتھ لگا دے اور کہا آج کے دور میں کہاں آپ جیسے فرشتے ملتے ہیں صاحب جی  میں نے اسے جواب دیا یار میں تو اچھا انسان بھی نہیں ہوں تم مجھے فرشتہ بنا  رہے ھو پھر ڈاکٹر  آ گیا کمرے میں اس نے بھی کہا اگر آجمیں اپنا خون نہ دیتا تو یہ لڑکا نہیں بچ سکتا تھا  وہ آدمی اور بھی ممنون نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے  پھر کچھ ہی دیر میں اسے فارغ کر دیا گیا  اب وہ آدمی بولا  صاحب جی میں اپنے دفتر میں ایک کال کر کے آیا  میں نے اس کے آنے کےبعد پوچھا آپ کیا کام کرتے ھو وہ بولا میں فرہاد احمد کی فارم میں مینجر ہوں میں چونک گیا اور کہا ووہی فرہاد جن کا قتل ہوا ہے وہ بولا جی ہاں  

اب میں اس کے ساتھ ہی اس کے گھر گیا وہاں بیٹھ کے کولڈ ڈرنک پیتے ہوے میں نے اس سے پوچھا   یہ قتل کا کیا  معاملہ ہے وہ بولا بس جی آج کے دور میںایسا ہو ہی جاتا ہے میں نے اب کہا یار جو بندہ قتل کے کیس میں جیل میں ہے احسان تائب وہ میرا ایک جاننے والا ہے وہ مجھے قاتل نہیں لگتا ، وہ اب کی بار میرے طرف دیکھ کر کچھ کہنے لگا پھر چپ ہو گیا میں سمجھ  گیا کوئی ایسی بات ہے جو  وہ جانتا ہے میں نے کہا اسلم صاحب اگر آپ کچھ جانتے ہیں تو بتا دیں میرا فائدہ ہو جائے گا میں ایک وکیل بھی ہوں اور یہ کیس میرے پاس ہے وہ اب کی بار بولا جناب آج آپ نے مجھ پے جو احسان کیا ہے اس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا میں آپ کو سب بتاؤں گا  وہ اب کی بار کچھ دیر سوچتا رہا وار بولا یہ قتل احسان تائب  نے نہیں کیا یہ قتل اس کی بہن فریال نے کیا ہے میں تو حیران ہی رہ گیا پھر جب اس نے ساری تفصیل مجھے بتا دی  تو میں نے کہا کیا تم یہی بات کورٹ میں کہ سکو گ
ۓ  وہ بولا اب ضرور کہوں گا آپکی خاطر پھر میں نے کہا مجھے ان سب لڑکیوں کا پتہ چاہیے جو فرہاد کا شکار بنی ہیں وہ بولا آپ کو کل وہ سب مل جائے گا ان میں سے دو کا پتہ ابھی آپ کو بتا دیتا ہوں پھر اس نے مجھے پتا بتا دیا میں اب اس کا شکریہ ادا کر کے اٹھا اور پہلا پتا جو

جو شہناز نامی لڑکی کا تھا وہ ایک فلیٹ میں رہتی  تھی میں نے فلیٹ کے سامنے جا کر دور بیل دی تو ایک خوبصورت سی لڑکی نے دروازہ کھولا میں نے اسے کہا مجھے شہناز سے ملنا ہے وہ بولی میں ہی شہناز ہوں فرمائیں پھر میں نے اسے اپنا کارڈ  دکھایا اور وہ بولی آپ اندر آ جائیں میں اس کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا ایک  صوفے  پے بٹہننے کا اشارہ کیا اس نے میں بیٹھ گیا وہ بولی میں آپ ک لئے کچھ خانے پینے کو لاتی ہوںمیں نے کہا نہی کوئی طلب نہیں ہے مجھے آپ کیا یہاں اکیلی رہتی ہیں وہ بولی نہیں میرا بھائی اور والد صاحب بھی ہیں وہ ابھی ذرا مارکیٹ گ
ۓ ہیں آپ بولیں کیا بات ہے   اب کی بار میں نے اسے فرہاد کے بارے میں بتایا وہ بولی اچھا ہوا وہ کمینہ مر گیا  میں نے اب اسے کہا مجھے آپ کی مدد کی ضورت ہے وہ بولی کیسی مدد میں نے کہا فرہاد صاحب کا قتل معمہ بنا ہوا ہے  آپ نے بھی ان کے پاس کچھ عرصہ نوکری  کی تھی آپ نے چھوڑ کیوں دی وہ بولی میں بس ایک مہینہ ہی وہاں نوکری کر سکی اور مجھے نکال دیا گیا کیوں کے میں فرہاد کی توقعات پے پورا نہیں اتر سکی تھی وہ  انسانی شکل میں ایک بھیڑیا تھا جو معصوم اور نوجوان خوبصورت لڑکیوں کو اپنی سیکرٹری کی نوکری ستا ان سے اپنی ہوس پوری کرتا اور چھ مہنے بعد ان کو چلتا کرتا کوئی بھی لڑکی  چھ مہینے سے زیادہ نہیں ٹکی اس کے پاس کیوں کے اس کا دل بھر جاتا تھا اس سے مجھے بھی اس نے یہی سمجھ کے نوکری دی لیکن  میں  نے اس کا ساتھنہی دیا سو مجھے نکل دیا اس نے ایک اور بھی لڑکی ہے جو اسی بلڈنگ میں رہتی ہے فائزہ احمد وہ بھی اس کا شکار رہی ہے  میں نے کہا معاف کیجئے گا شہناز کیا آپ بتا سکتی ہیں آپ کو یہ سب کیسے پتا چلا کے وہ ایک اوباش اور عیاش آدمی تھا  وہ بولی جی ہاں انہوں نے اپنی خواہش  کا اظہار اس دِن کیا جب میں کوئی دو ہفتے تک  نوکری کر چکی تھمیں انکے آفس میں گی تو وہ سر کو ہاتھوں میں پکڑے بٹہے تھے میں نے کہا سر کیا بات ہے وہ بولے میری زندگی عذاب بنا رکھی ہے اس عورت نے  میں کچھ نہ سمجھی وہ بولے مجھے ایک گلاس پانی دو میں نے پاس ہی پرے جگ سے ان کو پانی دیا وہ بولے بیٹھو شہناز  میں اپنی بیوی سے برا تنگ ہوں وہ عورت  میرے سکون کی قاتل  ہے میں سوچتا ہوں کوئی میرا اپنا بھی ھو کوئی ایسا دوست جس سے میں اپنی ہر بات کہ سکون پھر میری طرف دیکھتے ہوے کہا شہناز کیا ہم اچھے دوست نہیں بن سکتے  میں نے کہا سر میں صرف افسمیں آپ کی سیکرٹری  ہوں اپ کی ذاتی  لائف  میں  کچھ نہیں کر سکتی میں وہ بولے ناز میں بس آپ سے یہ چاہتا ہوں آپ میرے ساتھ اوٹنگ  پے جایا کریں ہم اچھے دوستوں کی طرح آفس کے بھر بھی ملا کریں  روز شاپنگ کیا کریں نت نئے لباس خرید کے دوں تم کو بہت سرے گولڈ کے زیور  میں سمجھ گی یہ شاطر آدمی  مجھے دانہ ڈال رہا  ہے میں نے کہا سوری سر مجھے ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں تو ایک دم سے فرہاد صاحب نے اپنے چہرے پے جو معصومیت کہ خول چڑھا رکھا تھا وہ اتار کے بولے سوچ لو اگر یہ سب نہیں کرو گی تو کال سے تم کو یہ نوکری چھوڑنی ہو گی میںنے بھی کہا میں لعنت بجھتی ہوں آپ کی اس نوکری پے جہاں مجھے آپ کی ہوس پوری کرنی ہو میں آج اور ابھی یہ نوکری چھوڑ کے جا رھی ہوں  اور یوں میں نے وہ نوکری چھوڑ دی  

اب میں اسے لئے فائزہ کے فلیٹ پے گیا جب شہناز نے  اسے بتایا سب کچھ تو وہ تو جیسے فرہاد کے خلاف بھری پر تھی اس نے وہ زھر اگلا  کے بس پھر اس نے کہا وکیل صاحب میں اور بھی تین لڑکیوں کو جانتی ہوں جن کی تصویریں آپ کو اس کے آفس کی پھیلے سے مل جایئں گیں جن کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے اور ہم سب گواہی بھی دیں گیں  ابمیں بہت  خوش ہوا میں نے ان کا  شکریہ ادا کر کے اپنے افس میں آ گیا  میں نے اب ایک کاغذ پے ساری تفصیلات  لکھیں اور پھر اس کیس کو تیار کرنے لگا مجھے ٹائم کا  پتہ ہی نہ چلا کوئی چار گھنٹے تک میں اس کیس کی ترش خراش م  میں مگن رہا جب میں نے سر اٹھایا تو سامنے ہی فاروقی شب بٹہے تھے وہ بولے کمال ہے یار تم تو ڈوب ہی گ
ۓ تھے اس کیس میں پھر میری طرف ایک لفافہ بڑھا کے بولے یہ لو میری جان بار کا سرٹیفکیٹ  اب تم خود بھی عدالت میں پیش ہو سکتے  ہو  میں یہ سن کے بہت خوش ہوا اور پھر ہم کافی دیر اسی  کیس پے ڈسکس کرتے رہے اب میں نے  فاروقی صاحب سے کہا ابھی ٹائم  ہے میںنے ایک دو کام کی چیزیں لانے کو کہا ان سے اور وہ کورٹ سے لے اے اب اب اتفاق سے اگلے دِن کی ڈیٹ تھی اس کیس کی  میں نے سوچ لیا تھا اب اس پے سارا زور لگا دوں گا میں آج کی رات گھر نہ گیا میںنے اس کیس پے ہی خوب محنت کی  میں اپنے فلیٹ میں تھا اور پھر میں کوئی چار گھنٹے تک ہی سویا  پھر میں تیار ہو کر  کورٹ میں  کیوں کے  آج  گواہی تھی گواہو کی میں  نے بار روم میں ہی فاروقی صاحب کا ویٹ کیا وہ اے اور ہم عدالت  میں چلے گۓ آج عدالت  میں  ثمینہ فرہاد بھی تھیں اور آج مجھے ایک سرخو سفید رنگ کا ایک آدمی بھی نظر آیا وکیلوں کی صف میں جس کو جج صاحب نے بھی سر کے اشارے سے سلام کیا اور سارے  ہی وکیل اسے اتے ہی سلام کر رہے تھے اس کے ساتھ کوئی نو دس وکیل اور بھی تھے مجھے بتایا فاروقی صاحب نے یہ فرحان ڈار صاحب ہیں بہت بڑے  وکیل ہیں  میں  ہنس دیا  پھر جج صاحب نے کہا پہلے  فرہاد صاحب والا کیس شروع کیا جائے ڈار صاحب کا وقت برا قیمتی ہے اور ڈار صاحب نے ہلکے سے ان کو سر ہلا کے تھینکس  بولا  اب احسان تائب  کو عدالت میں پیش کیا گیا  اور کروائی شروع ہو گی سرکاری وکیل نے کہا  جناب آج ہم موقع کی شہادتیں   دیں گۓ  جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے اور ایک آدمی جو ڈرائیور  کی وردی  میں تھا وہ کٹہرے  میں آیا اور سرکاری  وکیل نے  اس سے کہا  حلف دو کے جو کچھ کہو گۓ سچ کہو گۓ سچ کے سوا کچنہی کہوں گۓ  اس نے حلف دیا  اب سرکاری وکیل نے کہا  تم نے کیا دیکھا تھا  اب کی بار جج صاحب نے  احسان تائب سے کہا اگر تم کوئی سوال کرنا چھو تو کر لو اب میں نے کھڑے ہوکر کہا جناب میں احسان تائب کا وکیل ہوں اور اگے بڑھ کے اپنا وکالت نامہ جج صاحب کو دے دیا  مجھے ڈار صاحب نے کچھ گھسے سے دیکھا  پر مجھے کیا پروا ہو سکتی تھی  میں نے اب وکیل سرکاری سے کہا جو بیان ہے اس گواہ  کا میں اس پے جرح کروں گا اور جج صاحب سے اجازت طلب کی  اب کی بار  فرحاں ڈار  گھسے سے اٹھا اور کہا سر  میں وکیل  استغاثہ  ہوں اور اگے بڑھ آیا  وہ اب مجھے  دیکھ کر بولا  ہاں تو لڑکے  تو جرح کرے  گا ٹھیک  ہے کر لے جرح جج صاحب نے کہا ڈار صاحب  آپ کا وقت بہت قیمتی  ہوتا ہے اس لئے  آپ  کا کیس پہلے لگا لیاہے مجھے جج صاحب کی یہ بات بہت بری لگی میں نے کہا یور آنر وقت سب کا ہی قیمتی ہوتا ہے  ڈار صاحب اکیلے کا ہی نہیں اور اپنا رخ گواہ کی طرف کیا اور کہا ہن تو آپ یہ باتیں اپ نے اس دِن کیا دیکھا وہ بولا  میں نے اپنا سارا بیان لکھوا دیا ہے  میں بولا دوبارہ سے اپنی زبان میں کہ دیں تا کے وقت  کا زیاں نہ ہو آپ کو تو پتہ ہی ہے ڈار صاحب کا وقت قیمتی ہے میری یہ بات سن کے جج صاحب کو غصہ بھی آیا پر وہ خاموش رہے ڈار کا تو غصے  سے برا حال تھا وہ گواہ بولا اس دِن جب  میں  نے دیکھا  سرے لوگ چلے گۓ ہیں اور فرہاد صاحب نہیں اے تو میں  اندر گیا ان کا پتہ کرنے وہاں میں نے ان کی لاش دیکھی اور پولیس کو اطلاعا  دی    اب میں نے کہا  کیا تم ہر وقت فرہاد صاحب کے ساتھ ہی رهتے تھے  وہ بولا جی میں ان کا کوئی  پندرہ سال پورانہ ڈرائیور ہوں  میں نےکہا پھر تو آپ بوہت خاص آدمی ہوے نہ   وہ اب کچھ کچھ اترا کے بولا ہاں جی  میں خاص آدمی تھا ان کا  وہ بڑے نیک آدمی تھے  اس ظالم نے ان کو مار دیا  میں نے کہا ڈرائیور صاحب آپ کا نام وہ بولا جی سمدو  میںنے کہا سمدو صاحب کیا اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا  تھا  کے احسان تائب اور مرحوم کے درمیان کوئی جھگڑا وغیرہ وہ بولا نہیں جی میرے سامنے نہیں ہوا  ابمیں نےکہا سمدو صاحب آپ تو ظاہر ہے خاص آدمی تھے فرہاد صاحب کے آپ سے اب کیا چھپا ہو گا  کیا وہ احسان تائب کے گھر جاتے تھے  وہ بولا نہ جی نہ  وہ بھلا کیوں جاتے ان کے گھر وہ اب میری پلان شدہ پٹری پے چڑھ گیا تھا  میں نے سوال کیا سمدو صاحب آپ  کو کیسے پتا چلا کے آخری بندہ جو اندر گیا  وہ احسان تائب ہے وہ اب کی بار چپ رہمیں نے کہا آپ تو نیچے بیٹھتے ہیں  اور فرہاد صاحب  کا دفتر اوپر ہو پھر آپ نے کیسے دیکھ لیا  اب کی بار ڈار صاحب نے کہا  وکیل صفائی صاحب ذرا اپنے سوال جلدی جلدی کریں  مجھے کہیں جانا ہے میں نے کہا تو جا سکتے ہیں ڈار صاحب میںنے کوئی آپ کو روکا ہوا ہے  آپ کے وقت سے زیادہ قیمتی ہے اس بندے کی جان  اور میں نے ابھی بس دو تین سوال ہی کے ہیں وہ اب چپ کر گیا  میں نے کہا جی سمدو صاحب آپ کو کافی وقت دے دیا ڈار  صحابنے سوچنے ک لئے اب کیا سوچا آپ نے وہ  بولا جی مجھے تو تھانیدار صاحب نے  بتایا تھا   کے اکھڑ میں احسان تائب اندر گیا ہے  میں نےکہا جج صاحب اس کا یہ بیان نوٹ کر لیں اسے کسی اور نے بتایا تھا   میں نےکہا پھر تو نے خود کیوں یہ بیان دیا ہے کے میں نے دیکھا ہوا اب چپ رہا  میں نے کہا  ڈار صاحب آپ کا دوسرا گواہ کون ہے وو بولے مینجر  صاحب  یہ ووہی تھا جس کے بیٹے کی میں نے جان بچائی تھی  میں نے کہا

اسلم صاحب آپ نے کیا دیکھا تھا وہ جج صاحب کی طرف من کر کے بولا جج صاحب یہ قتل احسان تائب نے نہیں کیا  یہ قتل  اس کی بہن  فریال نے کیا تھا میں نے خود دیکھا ہے یہسنتے ہی کورٹ میں بٹہے لوگ اور خود جج صاحب بھی حیران رہ گ
ۓ اب احسان نے چیخ کر کہا  نہیں جج صاحب یہ میرا وکیل نہیں ہے یہ میری معصوم بہن کو پھنسا رہا ہے  اس کی بکواس نہ سنیں  یہ قتل میں نے کیا  ہے  اب کی بار ڈار صاحب نے کہا  اگر یہ قتل کا خود اعتراف کر رہا ہے تو تم کو کیا مثلا  ہے  میں نے کہا  ڈار صاحب یہ ایک انسانی جان کا  مسلہ  ہے  اور پھر سے  اسلم سے کہا اپنا بیان پورا کرو اب تو صورتحال ہی بدل گی تھی اب جج صاحب بھی  ذاتی دلچپی لے رہے تھے اور عدالت میں  بٹہے وکیل اور لوگ بھی اب متوجہ ہو گۓ  تھے  بلکے  کیوں کے ڈار صاحب کا نام بہت  بڑا  تھا  اس لئے کافی لوگ اب عدالت کے بھر بھی کھڑے تھے  یہ کیس سننے کے لئے  اب کے اسلم  جو کے اب میرا گواہ بن گیا تھا ڈار صاحب نے اس سے سوال کیا  تم نے پہلے یہ سچ کیوں نہیں بتایا پولیس کو وہ بیخوف  ہو کر بولا مجھے ثمینہ فرہاد نے روکا تھا  یہ بتانے سے  اور کہنے لگا جج صاحب اصل میں  فرہاد صاحب فریال کی عزت لوٹنا چاھتے تھے  کے اچانک  فریال کے ہاتھ میں کاغذ کتنے والا کٹر  آ گیا اس نے وہ ان کے سینے میں مار دیا جو  سیدھا دل پے لگا اور وہ موقع پے ہی  دم توڑ گۓ  اسی وقت احسان تائب اندر داخل ہوا کیوں کے آج  فریال کو گھر جانے میں کوئی دو گھنٹے کی دیر ہو گی تھی اس نے جب یہ سب دیکھا تو اس نے اسی وقت فریال سے کہا تم گھر جو اور وہ آلہ قتل اپنے ہتھمیں پکڑ  لیا    اب  میں نے اسے جانے کی اجازت دی اور کہا  جج صاحب اب میں مرحوم فرہاد کی بیگم سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں  تو  ڈار صاحب نے کہا  جج صاحب مجھے ایک تاریخ دی جاتے  میں نے کہا جناب ایک بےگناہ  انسان جیل میں سڑ رہا ہے  اس کا کیا قصور ہے  تو جج صاحب  نے  کہا   میں پولیس کو ایک گھنٹے کا ٹائم دیتا ہوں فریال کو حاضر کیا جائے  اب یہ سنتے ہی احسان تائب نے کہا  شارق منمیں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا  ظالم کیوں میری بہن  کو بلوا رہا ہے اور رونے لگا میں نے اب  اسے دیکھ کر کہا  اگر میں تم اور تمہاری بہن کو با عزت بری نہ کروا سکا  تو جو مرضی سزا دے لینا مجھے  وہ اب چپ رہا میں  اب فاروقی صاحب  کے سات بار روم ا گیا وہاں تو آج ایک میلہ لگا تھا

سب ہی ووکلاء حضرات  مجھے کہ رہے تھے یار کمال کر دیا آج تم نے تو  اب مجھے ڈار صحابنے دیکھا اور کہا  برخودار  یہ تم نے اچھا نہی کیا  تم میری بھتیجی  سے کوئی سوال نہیں کرو گ
ۓ میں نے کہا ڈار صاحب آپ بس سوال کی بات کرتے ہیں میں تو   احسان اور اس کی بہن کو  بھی  بری کرا لوں گا  اور آپ کے داماد کی اصلی شکل  دکھاؤں گا دنیا کو وہ گھسے سے لال پیلے ہو گۓ اور کہا لگتا ہے تم کو اپنی زندگی سے کوئی پیار نہیں کبھی میرا نام نہیں سن تم نے   میں نے اس کی آنکھوں دیکھتے ہوے کہا فرحان ڈار جو کتے  بھونکتے ہیں وو کاٹتے نہیں  یہ سنتے ہی سب لوگ تو حہیران رہ گۓ اور خود  ڈار   تو اب کنٹرول سے باہر ہونے لگا تھا  اس نے کہا اگر آج تم  اپنے گھر میں زندہ چلے گۓ تو میرا نام  بدل دینا  میں نے کہا  ابھی سےبدل لو یوں یہ گھنٹہ  ایسے ہی گزرا  اب میں عدالت کی طرف چل دیا  عدالت میں  فریال بھی تھی اپنی ماں کے ساتھ میں نے فاروقی صاحب سے کہا  تھا شہناز  کو کال  کر دیں اس لئے اب شہناز اور فائزہ بھی تین لڑکیو ساتھ ساتھ ایک طرف بیٹھی تھی  مجھے دیکھتے ہی  فائزہ نے   ایک کاغذ پے  سب کا نام لکھ دیا  اور وہ کاغذ میری طرف   کیا میں نے اس سے وہ کاغذ لیا  اور آ گیا جج صاحب کے سامنے  اب ڈار صاحب نے کہا  جج صاحب اگر آپ کہیں میں آپ کو سپریم کورٹ سے کال کروا دیتا ہوں مجھے اس کیس کا فیصلہ آج ہی  چاہیے  پھر جج صاحب نے کہا ٹھیک ہے کال کی کوئی ضرورت نہیں اور اپنے ریڈر سے کہا باقی سب کو کل کی ڈیٹ دے دو  آج بس یہی کیس چلے گا  اب ڈار صاحب میری طرف دیکھنے لگے اب بھائی نصرت بھی کچھ وکیلوں  کے ساتھ اندر داخل ہوے  میں نے اب جج صاھب سے کہا جناب  میں اب پہلے فریال سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں  وہ بولے اجازت ہے میںنے اب فریال جو کے اب کٹہرے میں کھڑی تھی اس کی طرف دیکھا اور کہا  اس آدمی کو جانتی ھو جو سامنے کھڑا  سے وہ بولی جی ہاں وہ میرا بھائی ہے  میں ے اب کہا کیا تم  نے عورت کی تاریخ پے غور کیا ہے

میںنے کہا پہلے آپ قسم کھیں کے جوکچ کہیں گیں سچ ہی کہیں گیں اس نے قسم کھائی ابمیں نے کہا فریال صاحبہ  میرے   کیا آپ  مرحوم فرہاد احمد سے عشق کرتی تھیں  جس کے قتل کی وجہ سے آپ کو اپنے بھائی سے نفرت ہو گی ہے  وہ بولی نہیں نہیں میں اپنے بھائی سے نفرت نہیکرتی میں نے کہا کیا تم کو پتہ ہے ھمارے معاشرے میں ہمیشہ بہنیں اپنے بھائیون  کے لئے  دعائیں م،انگتی رہیں ہیں اور بھائی ہمیشہ اپنی بہنوں کی عزت پے قربان ہوے ہیں بکلول اس احسان تائب کی طرح  جو تمہارا کیا اپنے سر لے رہا ہے یہ سنتے ہے احسان تائب نے اپنا سڑ کٹہرے سے مار مار کے لہو لہان کر لیا اور کہا جج صاحب یہ میرا وکیل نہیں ہے میں نے قتل کیا ہے میں اقرار کرتا ہوں  میں اپنا وکالت نامہ بھی کینسل کرتا ہوں  میں نے اب جج صاحب کی طرف دیکھ کر کہا جناب یہ قتل فریال نے کیا ہے اور اس کو بچانے کے لئے یہ   بھائی اپنی  جان دے رہا ہے  اور یہ آج کی بہن اب میں نے فریال کی طرف اشارہ کیا  یہ ایسی بہن ہے جس کا نام لوگ  عرصہ دراز تک یاد رکھیں گ
ۓ جس نے بس اپنو ذات کو بچانے کے لئے ایک بھائی کی قربانی مانگ لی   اور پھر ایسا  ہو آہی کیا ہے فریال نے اپنی عزت ایک وحشی سے بچانے  کے لئے اسے مارا ہے اب کی بار ڈار صاحب نے کہا جج صاحب  وکیل صاحب میرے موکل  کے لئے غلط الفاظ استمال کر رہیہیں  میںنے کہا جج صاحب میں اپنے  الفاظ واپس نہیں لوں گا ابھی آپ کو سب پتا چل جائے گا  اب فریال زارو قطار رو رہی تھی وہ اب چیخ کے بولی ہاں میں نےقتل کیا ہے اس فرہاد کو  اب یہ سن کے احسان نے کہا وہ پگلی بہن کیا کہ رہی ھو  یہ لوگ تم کو موت کی  سزا دے دیں گۓ اور رویننے لگا  اب تو سارا معاملہ ہی حل ہو گیا تھا اسی وقت  جج صاحب نے کہا احسان تائب کو  چھوڑ دیا جائے اور فریال کو اب  گرفتار کی جاتے  پھر احسان کی جگا مجرموں والی کتھرےمیں  فریال کو لیا گیا

اب میں نے کہا جناب  کیا ایک  دِن کی تاریخ  ملے گئی جج صاحب نے کہا  نہیں آپ اب کیوں تاریخ چاہتے ہیں  میں نے آج  فیصلہ کرنا ہے اس  کیس کا  پھر میںنے اسی وقت  فاروقی صاحب سے کہا  ایک درخواست  ضمانت تیار کریں  فریال کی اور ایک وکالت نامے پے فریال سے کہا  سائن  کرو اس نے چپ کر کے سائن کے  میں نے وہ وکالت نامہ  جج صاحب کو دیا اور کہا 

عاشق ۔ پانچویں قسط

 


عاشق

پانچویں قسط

تحریر: ماہر جی


اب میں نے سارا دیں یہ سوچتے ھوے گزارا کے اب کیا بات ہو گے ہے جو مجھے طلب کیا جا رہا جو بھی تھا وو میرا گھر تھا میرے ڈیڈی کا حکم تھا میں شام کو آشیانہ کی طرف چل دیا جب میں اندر داخل ہوا تو لالارخ نے مجھے دیکھتے ہی کہا لو جی آ گے وو جن کا تھا انتظار  آپ آج بھی دیر سے ہے ہیں کب سے سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں مجھے  دیکھتے ہی  بھابھی تنویر نے کہا
میں نے کہا بھابھی خانے میں کیا ہے وو بولی آج آپ ک لئے میں نے بادام کا حلوہ بنایا ہے اب تو میں نے ان کے ساتھ ہو لیا اور آرام سے بیٹھ کر حلوہ خانے لگا لالارخ اندر بتانے چلی گے تھی میرے آنے کہ میری اس سے کبھی نہیں بنی تھی  بھابھی نے کہا شارق  بیٹا اب گھر آ جاؤ نہ میں نے کہا بھابھی میں آ جاؤں گا  پھر مجھے اندر سے بلاوا آگیا میں اب ڈیڈی کے کمرے میں داخل ہوا تو وو اپنے ہاتھ پیچھے کے کھڑے  تھے  اب کے مجھے دیکھتے ہی سب ہنسنے لگے میں نے شکر کیا کے آج آشیانہ پورسکون  ہے اب ڈیڈی نے مجھے اپنے پاس انے کا کہا میں ڈر گیا اب وو پیچھے ہنٹر نکال کے مجھے آج ضرور ٹھیک کر دیں گے لیکن جب ان کا ہاتھ سامنے آیا اس میں گلاب کے پھولوں کا ایک ہار تھا وو انہوں نے میرے گلے میں ڈال دیا اور بولے یہ آج کا کیس جیتنے کی خوشی میں اب میں ان کے گلے لگا اور کہا ڈیڈی جان یہ سب آپ کی دعاؤں کا ہی اثر ہے اب کے لالارخ بولی یہ ڈیڈی کی دعائیں بس تم کو کامیاب کرنے کے چکر میں قبول ہوتی ہیں تب کیوں نہیں ہوتی ہیں جب ڈیڈی کچھ کہتے ہیں اور تم نہیں کرتے وو واقعی شیطان کی خالہ تھی  وو کیسے برداشت کر پتی یہ سب

اب ڈیڈی نے کہا شارق مجھے آج بری خوشی ہوئی ہے ترے جیتنے سے اب بھی نصرت نے کہا رانا کا بڑا نام ہے وکیلوں کی دنیا میں وہ  پچھلے پندرہ سالوں میں پہلی بار کوئی کیس ہارا ہے اور یہ کیس تھا بھی اس کا ذاتی کیوں کے مرنے والا اس کا سگا بھانجا تھا میں نے کہا بھائی جان مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی مجھے لگا تھا وو خواجہ صاحب کا بیٹا  بیگناہ ہے اب بھائی امجد نے کہا خواجہ وہلے نصرت کے پاس آیا تھا یہ کیس لے کر مگر نصرت کو لگا اس میں کوئی دم نہیں ہے اپر سے خواجہ کی وکیل احسن بھی بک گیا تھا رانا کے ہاتھوں  اس لئے اس نے کافی اور وکیلوں سے رابطہ کیا پھروہ تم لوگوں کے پاس آیا تھا میں نے کہا جی بھائی جان مجھے پتا ہے میں نے اس کیس کو جب دھیان سے پڑھا تو مجھے دو تین ایسے نکتے نظر آے تھے جو مشورہ سے اس کے بیٹے کی جان چھڑا سکتے تھے  ، اب نصرت بھائی نے میری طرف دیکھا اور کہا سری محنت تمہاری تھی اور نام اس فاروقی کا اوپر آ گیا ہے میں نے اب کہا بھائی وو میرے سر ہیں تو ڈیڈی نے کہا مذک چھوڑو یہ بتاؤ اب کیا ارادے ہیں تم نے اسے بانس پے چڑھا دیا ہے میں نے کہا ڈیڈی وہ بزرگ  آدمی ہیں ہمارا کیا لیتے ہیں اب کے پھر نصرت بھائی نے کہا جی ہاں آپ کی وجہ سے وہ  اب لاکھوں میں کھیل رہا ہے  اور جس بلڈنگ میں اب تم لوگو کا آفس ہے اس بلڈنگ میں ایک کمرے کے آفس کا کرایا کوئی تیس چالیس ہزار ہو گا اور تمہارے پاس پورا فلیٹ ہے وہ بھی ایسا فرنشڈ کے دیکھنے والا حیران ہی رہ جا
ۓ اب میں نے کہا بھائی وو خواجہ صاحب نے اپنی مرضی سے دیا تھا ہم  کو

پھر ڈیڈی کے پوچھنے پے بھائی نے ان کو اس آفس کا بتایا اب ڈیڈی نے کہا چلو کوئی بات نہیں اچھا ہے نہ اب  یہ اچھی جگہ بٹہے گا پھر ڈیڈی نے چلو آبجو اپنے کمرے میں جا کر سو جاؤ خبردار جو کل سے لیٹ آے گھر جاؤ کھانا کھاؤ جا کر اب میں چوٹی بھابھی کو ساتھ لے کر باہر آیا اور کھانا اور انہوں نے مجھے کھانا دیا اور کہا شارق کل تمہاری دوست آ رہی ہے نیلوفر میں نے یہ سن کے کہا اچھا آپ کو کس نے بتایا وو بولی اس کی کال آیی تھی نیلوفر میری خالہ زاد   کزن تھی اور بھابھی تنویر کی چچا کی بیٹی تھیں پھر میں کھانا کھا کر اپنے کمرے میں آ کر سو گیا اگلے دن میں اپنی ذاتی مصروفیت سے فارغ ہو کر یعنی کے جم اور اکھاڑا  سے پھر میں نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور کورٹ کی طرف نکل لیا جب میں کورٹ میں پوھنچا یو اسی وقت ہی ابھی فاروقی صاحب آے ہی تھے ہم نے  اپس میں ڈسکس کی آج کے کیسوں کی اور میں نے ان کو بتایا کے گھر والو کے سلوک کا وہ  بولے یار ویسے ہی تمہاے والد صاحب غصے کے تیز ہیں ورنہ وہ  بارے نائس آدمی ہیں ہم اب آج جب جج فہد علوی صاحب کی عدالت میں گے تو وہاں ایک قتل کے کیس کی بحث ہو رہی تھی

پھر میں نے اس ملزم کو دیکھا حس کا وو مقدمہ تھا اس کے ہاتھوں میں ہٹکریاں اور پاؤں میں بیڑیاں تھیں میری نظر اس کے چہرے پے ہی جم گے مجھے اس میں ایک اور راحیل نظر آنے لگا تھا

اور یہ یکسانیت بفطری  نہیں تھی حالات کی چکی انسان کو کیسے کیسے جھکڑ لیتی ہے مجھے اب پتا چک رہا تھا اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی آنکھوں کے گرد ہلکے پڑھے  تھے وو ایک دراز قد اور خوبصورت آدمی تھا جس کے چہرے پے معصومیت سی تھی  اب اتنی دیر میں فاروقی صاحب نے مجھے کہا چلو آج کی ڈیٹ مل گئی ہے میں نے ان سے کہا آپ کو اب کسی عدالت میں پیش ہونا ہے وو بولے نہیں اب فری ہوں میں نے کہا تو بیٹھ جایئں میں ذرا اس مقدمے کی سماعت سننا چاہتا ہوں اب کمرے عدالت میں ایک وکیل کی آواز گونجی  جناب عالی  ملزم احسان تائب کا چالان پچھلی بار کی پیچھیی میں عدالت میں پیش کر دیا تھا اجج اس ملزم کی پہلی سماعت ہے

   ملزم نے قتل جیسے گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور پولیس کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے ،مقتول فرہاد صاحب ایک چھوٹی سی   فرم کے مالک تھے جنہوں نے ملزم پے پرے احسانات کے تھے لیکن اس ناسپاس شخص نے ان احسانوں  کے عیوض فرہاد احماس کو بیدردی سے انہی کے آفس میں خنجر سے قتل کر دیا خنجر کے دستے پے ملزم کے ہاتھوںکی انگلیوں  کے نشان مجود ہیں پھر سب سے بڑی بات ملزم احسن تائب   ولد مقصود حسین نے مقامی پولیس   کے سامنے  اعتراف جرم کیا ہے .اسکے عوامل ملزم کے بیانات کی روشنی میں عدالت کے سامنے آییں گے ایک ایسا شخص جو احسانات کے بدلے زندگی چھین لیتا ہے میری نظر میں اس معاشرے کا سب سے برا انسان ہے اور ایسے ناسپاس  آدمی کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہے تا کے آگے  سے کوئی ایسی احسانات فرموشی  کا مظاہرہ نہ کرے

جج صاحب نے سامنے رکھی ہوئی فائل سے نظریں اٹھا کر کٹھرے میں خرے اس خوبصورت آدمی کو دیکھا پھر انہوں نے مجمع پے نظر ڈالی اور کہا ملزم کا وکیل صفائی کون ہے جب کوئی آواز نہ ابھری تو جج صاحب نے ملزم کی طرف دیکھا اور کہا آپ کا کوئی وکیل صفائی نہیں ہے کیا تو احسن تائب نے کہا نہیں جناب ہم اپنی صفائی خود پیش کر لیں گے اپنی غلاظتوں  کو خود ہی سمیٹنا اچھا ہوتا ہے ٹھیک ہے آپ اپنی کروائی شروع  کریں    پھر سرکاری وکیل ملزم کے سامنے پوھنچ گیا اور کاروباری لہجے میں ملزم سے کہا سب سے پہلے تو تم اپنے تائب  ہونے کی وضاحت کرو احسن نے کہا آپ بھی مجھے کوئی شاعر ہی لگتے ہیں تائب میرا تخلص ہے  

یا پھر یوں کہے وو حقیقت جو دنیا سے روشناس ہونے کے بعد میں نے اپنا لی میں اپنی اس چھبیس سالہ بےمقصد زندگی سے تائب  ہو چکا ہوں اس لئے میں نے اپنے تخلص میں تائب لگا لیا کمرہ عدالت میں بیٹھنے لوگوں کے ہونٹوں پے ہلکی ہلکی مسکراہٹ پھیل گئی پھرسرکاری  وکیل صاحب نے کہا تم بیروزگار ھو ؟ پیدائشی احساں تائب نے جواب دیا اور لوگ پھر مسکرا دے تعلیم کہاں تک ہے وکیل صاھب کا سوال تھا اب اس دنیا سے روشنائی تک ملزم کا جواب آیا ،بیروز گاری کے درمیان تم کیا کرتے تھے  اگلا سوال وکیل صاحب کا .شاعری ملزم کا جواب اس دفع بھی کافی عجیب تھا  احساں تائب نے کہا اور مرانظر میں ہر بیروزگار نوجوان کو شاعری کرنی چاہیےکسی بھی شعر کو مکمل کرنے بیٹھ جاؤ دنیا کے مسائل  کا   احساس ہینہی ہوتا ہے نہ ایک دلچسپ مشغلہ  شعر عرض ہے ~~~
اسی لئے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کھل نہ سکا تھا کے رت بدل گی
ایک بار پھر عدالت میں بیٹھنے ہوے لوگوں کے ہونٹوں پے مسکراہٹ پھیل گی اب کی بار وکیل سرکاری نے جھنجھلا کر کہا تم نے فرہاد احمد کا قتل کیوں کیا
مشکل میں تھا بیچارہ ،عشق شیریں میں تو جان سےجانا تھا   ہم نے سوچا کیا کے کہاں تیشہ گردی کرتا رہے گا ،چٹانوں سے سر ٹکراتا پھرے گا

سو ہم نے اسے زندگی کے بوجھ سے آزاد کر دیا ،یہ ایک اضافی ہمدردی کا مسلہ تھا "،اس نے جواب دیا اور عدالت میں ایک قہقہ گونج اٹھا ،جج صاحب نے ہتھوڑی بجا کر سب کو خاموش کیا اور کہا عدالت کے وقار کا کھلا رکھا جا
ۓ احساں تائب نے کہا جناب بڑا احترم  کیا ہے  اس زمانے   کا کسی کی مرضی سے جئے ہیں اور جب موت کی طرف گامزن ہیں تو اپنی مرضی سے تھوڑا ہنس لینے دیں اور کچھ ہنسنے ہنسانے کا موقع دے دیں ہم کو جج صاحب تو کیا حرج ہے ،آپ ہمیں اپنے اس قلم کی نوک سے پھانسی تو دے ہی دیں گے کچھ دیں اپنی مرضی سے جی لینے دیں

جب کے اس سے قبل ہم نے جینے کے لئے دوسروں کی مرضی پے انحصار کیا ہے اب تو یہ کفیت ہے ~&&~
بجھ چکے ہیں میرے سینے میں محبت کے کنول
اب تیرے  حسن پشیماں سے مجھے کیا لینا
اب کی بار کوئی نہیں ہنسا تھا کیوں کے اب لوگ اس  کی کفیت سے متاثر ہو رہے  تھے .میری پتھرائی ہوئی آنکھیں احساں تائب کے چہرے پے جمی ہوئیں تھیں ،اس کا ایک ایک انگ مؤے چیخ چیخ کر کہ رہا تھا کےکرب کا شکار  یہ شخص زمانے کی سنگلاخ زمین پر لوٹتا رہا ہے ،موت کے آرزو مند ایسے ہی نہیں ہوتے ،زندگی کی آگ اتنا جھلسا دیتی ہے انہیں کے موت کی پرسکون آغوش  انہیں سب سے حسین لگتی ہے

میری آنکھوں میں نامی پیدا ہوتی جا رہی تھی اب کی بار سرکاری وکل نے جھنجھلا کے کہا جناب احساں کے سلے میں فرہاد احمد کو قتل کر دیا  اس نے اور یہ بات اس نے عدالت کے سامنے بھی کہی ہے خان پوری کے لئے میں اس کے بیان کو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ، ورنہ یہ کیس سیدھا سادہ ہے
جج سحاب نے کہا وجہ قتل کیا ہے
وکل نے جواب دیا جناب عالی پولیس  تفتیش رپورٹ  کے  مطابق احساں تائب  کی بہن فریال حسین مقتول فرہاد احمد کے آفس میںسیکرٹری کی حثیت سے  کام کرتی تھی فرہاد احمد شادی شدہ تھے اور ان کی بیگم ثمینہ  فرہاد اپنے شوھر پے مکمل عتماد کا اظہار  کرتی ہیں مرحوم فرہاد احمد ایک خدا ترس انسان تھے ،جوان عمر ہونے کے باوجود ان کے دل میں انسانیت کی ہمدردی تھی

اور اسی انسانی ہمدردی کی بنیاد پے انہوں نے اس خاندان سے ہمیشہ ہمدردی کی ان کی چھوٹی موٹی ضرورتیں وو پوری کرتے رهتے تھے جو ان کی نگاہوں میں  آتی لیکن اب احساں تائب نے ان سے زیادہ رقم کی وصولیابی   شروع کر دی ہر شخص کو بلآخر  یہ احساس ہو جاتا ہے کے جن سے وو مخلص ہے ان میں لالچ اور شیطانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے .وہ ان کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں  
مزم تائب نے اپنی بہن فریال کے بدلے مزید زیادہ رقم اینٹھنا چاہتا تھا لیکن فرہاد اتنا ہی کر سکتے تھے جتنا وہ کر رہے تھے انہوں نے انکار کر دیا اور جب بار بار کے تقاضے سے تنگ آ کر انہوں نے منع کر دیا تو ملزم نے انکو دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور بلآخر ان کا قتل کر دیا  
کیا تم اس سے انکار کرتے ھو جج صاحب نے احساں تائب کی طرف دیکھتے ہوے کہا جس کے چہرے سے اب مسکراہٹ غائب ہو گی  تھی ، اس نے وکیل صاحب  کی طرف دیکھا اور نرم لہجے میں بولا وکیل صاحب آپ ایک قاتل کو اس کے قتل کی سزا دلوانا چاہتے ہیں نہ ،آپ کی آسانی کے لےمین نے  اعتراف جرم کرنے میں کوی کسر نہیں چھوڑی اور میرا خیال ہے فاضل عدالت کے سامنے میں نے اپنے جرم کا اعتراف کر کے آپ کے راستے کی ہر دیوار دور کر دی ہے ،اس کے بعد آپ کا رخ میری بہن کی طرف کیوں ہو رہا ہے   

آپ کی کوئی بہن ہے وکیل صاحب ، کیا مطلب سرکاری وکیل نے غصیلے لہجے  میں  کہا"؛
اب کی بار احسان تائب نے کہا میری دعا ہے خدا آپ کے گناہ کو اس پر مسلط نہ کرے بہنوں کے سر سے ڈوپٹے اتارنا اچھی بات نہیں ہے وکیل صاحب وہ  اس عدالت میں بھی مجود نہیں ہے آپ کو اس سے کوئی ذاتی پرخاش بھنہی ہے آپ اس کے سفید چہرے کو کیوں داغدار کرنا چاہتے ہیں   اب احساں تائب نے جج صاحب کی طرف دیکھ کر کہا جج صاحب میرا سوال آپ سے ہے کیا بہنوں کے سر سے ڈوپٹے اتارنا قانون کے لئے ضروری ہے کیا اس قتل کا اس سے تعلق جوڑ کر سرکاری وکیل کو کوئی روحانی خوشی نصیب ہو گی جب میں نے کہا ہے کے میںنے فرہاد احمد کا قتل کیاہے تم بات ختم آپ کے قانون  میں جو کڑی سے  کڑی سزا ہے مجھے وہ دیں اب احساں تائب نے سرکاری وکیل سے کہا لو جی آپ کا کام اور آسان کر دے میں نے

جج صاحب اگر آپ کی عدالت میں انصاف نام کی کوئی چیز ہے اور آپ انسانی قدروں کو تسلیم کرتی ہیں تو جو سزا آپ کے دل میں اے مجھے وہ  دیں  بس اب سرکاری وکیل کی زبان پے میری معصوم بہن کا نام نہ آے میرا مثلا بلکل مختلف ہے جج صاحب میں زندگی کی بازی ہار رہا ہوں اور اس کی وجوہات میرے سینے میں ہی رہنے دیں ہم نے تو  یہ فیصلہ کیاہے ~~@
کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں
سانس کی یہ گرمی میرے وجود کو پگھلا رہی ہے وکیل  صاحب میں اب اس کی آنچ کو برداشت نہیں  کر سکتا مجھے موت چاہے بس موت اور اس کے بعد میں خدا کی دی ہوئی زبان کو اپنی مرضی سے استمعال کرنے کا حقدار ہوں قانون کے احترم میں ،میںنے خود کو موت کی سزا کے لئے پیش کر دیا ہے ایک قاتل کے  لئے موت ہی ہوتی ہے اس کے بعد میرے پاسس کہنے کو اور کچھ نہیں ہے

اس کی آواز میں ہلکی سی بھراہت شامل ہو گی تھی کمرہ عدالت میں بٹہے ہوے لوگوں کی آنکھیں نم ہو گیں تھیں خود جج صاحب بھی پریشان نگاہوں سے مجرم کی طرف دیکھ رہے تھے پھر انہوںنے کہا سرکاری وکیل سحاب آپ نے کچھ اور کہنا ہے تو سرکاری وکیل نے کہا اگر عدالت اس سے مطمئن ہے کے اس نے اعتراف جرم کر لیا ہے اب اس کے لئے موت کی سزا یقینی ہے تو  نہیں جناب عالی مجھے کچھ نہیں کہنا جج سحاب تھوڑی دیر سوچتے رہے اور پھر کہا
":سماعت آیندہ پیشی کے لئے ملتوی کی جاتی ہے ::""

اب لوگ کمرہ عدالت  سے باہر جانے لگے احساں تائب کو بھی پولیس والے لے گے اپنے ساتھ جیل میں  امن اب اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا کے یہ آدمی قاتل نہیں ہو سکتا کچھ نہ کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے اب یہ کیس میری مرضی کے مطابق تھا بھلا مجھے کون روک سکتا تھا اسے لینے سے میں نے اب فاروقی صاحب سے کہا فاروقی صاحب اس کیس کی فائل کی کوپی کرا لیں اور وکالت نامہ بھر لیں مجھے یہ کیس لڑنا ہے وو بولے ابھی لو بتا اور پیشکار سے جا کروہ فائل خود لے کر آے  اور اپنے ایک منشی سے کہا اس کی کاپی کرا لو  اب ہم نے وو فائل لی اور اپنے آفس کی طرف چل دے کیوں کے اب اور کوئی کیس نہیں تھا ھمارے پاس آج کے دِن کا
میں نے اپنے آفس میں بیٹھ کر اب ساری تفصیلات ایک کاغذ پے لکھ لیں فرہاد احمد اپنی بیگم کے ساتھ ایک  پوش علاقنے میں رهتے تھے ان کا ایک بیٹا اورچند ملازمین تھے ساتھ میں اور احسان تائب شہر کی ایک نواحی بستی میں ایک کواٹر میں اپنی ماں بہن اور تین چوتھے بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا ،اس نے بی .آے کیا تھا اور اس کی بہن فریال بس انٹر میڈیٹ تھی باقی تین چوتھے بھی ابھی پڑھ رہے تھے والد کا انتقال ہو چکا تھا وقوعہ والے دِن احساں اپنی بہن کے دفتر میں گیا اور اس نے فرہاد سحاب سے کافی گرما گرمی کی تور پھوڑ کی  اور پھر فرہاد احمد سے دھینگا مشتی میں کافی افرا تفری پی گئی تھی آفس میں اور پپر کاٹنے والے چاقو سے قتل  کیا  جس کا دست تانبے کا تھا جی پے احساں تائب کی انگلیوں کے نشان پاے گ
ۓ تھے

ملزم احساں کی نشاندھی فرہاد کےڈرائیور صمدو نے کی تھی جو سب کے چلے جانے کے بعد یہ دیکھنے کے فرہاد سحاب ابھی تکنہی نکلے اپنے آفس  سے اندر گیا تو اس نے ان کی لاش دیکھی اس نے پولیس کو اطلاع دی اور پھر جب انکوائری میں یہ دیکھا گیا کے سب سے آخر میں اندر جانے والا کون تھا تو تب احسان تائب کا پتہ چلا سمدو نے بتایا وو سب سے آخر میں اندر گیا تھا پھر پولیس نے احساں کو گرفتار کیا اور آلے قتل  سے اس کی انگلیوں کے نشان بھی مل گ
ۓ تب پولیس  کی تفتیش میں  احسان نے اعتراف جرم کیا  اور اس کیس کا چالان مکمل کر کے پولیس نے عدالت میں پیش کر دیا

اور اب احسان تائب نے اعتراف قتل  کر کے اپنے تابوت پے آخری کیل بھی ٹھونک دیا تھا کیوں کے ایسا مجرم  جو عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لے اسے کیسے کوئی بچا سکتا تھا اور جرم بھی قتل کا اب میں سوچ رہا تھا ایسے کیا محرکات ہیں اس قتل کے پیچھے  جس کی وجہ سے احساں اپنی جان دینا چاہتا  ہے ابمیں نے سوچ لیا کل سے اب ان کے بارے  میں پتا چلوں گا اور پہل ہو گی جیل میں احساں تائب سے ملاقات کر کے کیوں کے جو آج کل ھمارے شہر کی جیل کے جیلر تھے وو میرے بھائی ایس.پی طارق کے قریبی دوست تھے  اب میں نے وہ  ساری تفصیلات  والا کاغذ اپنی کوٹ کے کی جیب میں  ڈالا اور پھر فاروقی صاحب سے پوچھا کے اب کیا پروگرام ہے وہ بولے اب گھر جانیں گ
ۓ اور میں ان کو سلام کر کے اپنے گھرآشیانے  کی طرف چل دیا  جب میں گھر میں داخل ہوا تو مجھے لان میں نیلوفر اور لالارخ دونو ہی سیر کرتی نظر آییں میں ان کی طرف بڑھ گیا سلام کے جواب میں نیلوفر نے کہا کیسے ھو حضور آج کل کیا ہو رہا ہے  تو مجھ سے پہلے ہی لالرخ نے جواب دیا بھولے بھالے لوگوں کی جبیں خالی کرا رہے ہیں محترم آج کل یہ کہ کر کر کے  میں غریبوں سے کوئی فیس نہیں لیتا کیس کی اور  اس پبلسٹی سے متاثر ہو کر کوئی نہ کوئی  امیر مرغا بھی پھنس جاتا ہے پھر اس بیچارے کا برا حال ہوتا  ہے اس کی باتیں سن کر میں اور نیلوفر ہنس دے وو بولی نیلی میں مذک نہیں کر رہی پچھلے دنوں ایک مرغا آ گیا تھا قابو میں بھاری فیس کے علاوہ ایک لاکھوں کا قیمتی فلیٹ  میں جناب کو لاکھوں اور لگا کر ایک اتنا شاندار آفس تیار کر کے دیا ہے کے بھائی نصرت کہتے ہیں اس جیسا کسی وکل کا اس شہر میں آفس نہیں ہے

یار بندہ پوچھے اس کور مغز سے جس نے یہ سب کیا ہے کے تم کو کیا ضرورت تھی پہلے ہی ان جناب کا دماغ آسمانوں پے تھا اوپر سے اس کمبخت نے یہ نیا ڈرامہ کر دیا اب جو بھی کلائنٹ ایک دفع ان کے دفتر میں داخل ہوا سمجھوں وو اب لوٹ کے ہی باہر آے گا تو اب کی بار نیلوفر نے ہنستے ہوے کہا لالارخ  یار میں جانتی ہوں تمہارے بھائی کو یہ تو خلق خدا کے پیار میں پگھل ہے کہاں کسی سے کچھ لیتا ھو گا  اب تولالارخ کو پتنگے لگ گ
ۓ وہ  بولی کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں اور اس کا ہاتھ پکڑا اور سیدھی بھائی نصرت کے کمرے میں وہاں جا کر کہا بھائی ذرا میری اس بھولی کزن کو بتا دیں کے عزت مآب جناب شارق حسین شاہ اپنے کلائنٹ کا کیا حال کرتے ہیں وہ اب ہنس دے اور کہا وہ سب تو میں بھی کرتا ہوں لالارخ چڑھ کے بولی آپ کو تو دس سالوں میں کسی نے دفتر نہیں بنا کے دیا حتی کے آپ کا شمار چھوٹی کے وکلا میں ہوتا ہے تو بھی نصرت نے مجھے دیکھ کر کہا یار اصل میں اب میرے پاس اس جیسے گیٹس  نہیں ہیں نہ میں اتنا زہین ہوں  میںنے کہا بھائی جان جانے دیں  میں بھلا کی نہیں جانتا آپ کو  پھر کہا بھائی مجھے ایک کیس  کے بارے میں آپ سے ڈسکس کرنی ہے اتنے میں بھابھی شفق آ گیں اور کہا ہم سب کو ڈیڈی نے اپنے روم طلب کیا ہے  اصل میں ہم سب ہی شام کو وہاں ہی بیٹھتے تھے

ہم سب ادھر چل دے وہاں جا کر ہم نے سلام کیا اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ گ
ۓ اب ڈیڈی نے مجھے دیکھا اور کہا ہاں بھئی آج کیسے گزرا دِن  میں نے ان کو بتایا بہترین پھر میں نے کہا بھائی جان ایک کیس ہے اب ہم ڈسکس کر لیں  میں نے وہاں ہی سب سے احسان تائب کے کیس کا ذکر کیا وو ساری تفصیل سن کے امجد بھائی جو جج ہے وو بولے یار ایک ایسے مجرم کو کیسے بچایا جا سکتا ہے پھر طارق بھی نے بھی یہی کہا اور نصرت بہانے کہا شارق یہ کیس تم نہیں لڑو گۓ کیوں کے ثمینہ فرہاد  کا کیس  فرحان ڈار صاحب نے لڑنا ہے پھر تمہارے خلاف    اور ڈار صاحب سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں  ان کے سامنے کوئی نہیں ٹک پاتا وو ثمینہ فرہاد کے خالو ہیں میں جانتا ہوں اس ساری فمیلی کو میں نے کہا بھائی میں اس کیس سے نکلنا چاہتا ہوں احساں تائب کو وہ مجھے کہیں سے بھی قاتل نہیں لگتا  پر مجھے سب نے ہی روکا  اب کے ڈیڈی نے کہا یار یہ ڈار غلط قسم کا بندہ ہے کوئی ضرورت نہیں اس کی فیملی کے خلاف کیس لڑنے کی  طارق بھائی  نے اب میری طرف دیکھا اور کہا شارق فرحان ڈار کا تعلق اس ملک کے سب چوٹی کے بدمعاشوں سے ہے وو ہی ان کے کیس لڑتا ہے میں تم کو یقین سے کہتا ہوں  وہ اس بندے کو جیل میں ہی مروا دے گا اب میں نے تڑپ کے کہا نہیں بھائی جان ایسا نہیں ہو گا  میں اس کیس کو چلینج کے ساتھ لڑوں گا   

پھر ہم نے آپس میں یہی فیصلہ کیا کے اگر احسان بیگناہ ہے تو میں کوشش کروں پھر ہم سب  نے رات کا  کھانا  کھایا اور اپنے اپنے روم کی جانب چل دے میں خانے کے بعد کچھ دیر لان میں واک کرتا تھا یہ میری روٹین تھی  میں  سیدھا ادھر ہی گیا تھوڑی دیر بعد  مجھے نیلوفر بھی اپنی طرف آتی نظر آیی وو میرے پاس آ کر بولی  کیا ہم بھی جناب کے ساتھ واک کر سکتے ہیں میں نے کہا کیوں نہیں اور پھر میں اور نیلی مل کرواک  کرنے لگے وہ بولی شارق کیوں تم اس کا کیس لڑنا چاہتے ھو میںنے کہا یار ووہی خلق خدا سے پیار کا چکر ہے

اب کی بار وہ میری طرف دیکھ کر بولی برا پیار اتا ہے تم کو لوگوں پے میں مسکرا دیا  اور کہا ہمیں تو آپ پے بھی پیار آتا ہے وہ شرما کے بولی چلو ایسے ہی  کہ رہے ھو  ابمیں نے اسے دیکھا اس وقت ہم لان کے آخری کونے پے تھے جہاں پے ذرا روشنی کم ہی تھی میں بولا تم ہو ہی اتنی پیاری کے پیار آ ہی جاتا ہے وو بولی تو اس کی آواز میں اب کی بار جذبوں کی گونج تھی شارق کتنی پیاری ہوںمیں بتاؤ نہ اور کتنا پیار آتا ہے مجھ پے میں نے اب اس کی طرف دیکھتے ہوے کہا تم سر سے پاؤں تک پیاری ھو اور تھا بھی ایسا ہی وہ ایک  درازقد کی لڑکی تھی اس کا دودھیا رنگ موٹی موٹی جھیل سی  آنکھیں جن پے لمبی ترچھی پلکوں کا چلمن تیکھی ناک کشمیری سیب کی طرح لالی لئے ہوے گال جن پے جب وو بات کرتی تو ایک چھوٹا سا گھرا پڑتا پھول کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ  جو شہد میں بھیگے ہوے لگتے اور اوپر والے ہونٹ کے ایک کونے میں چھوٹا سا کالا تل اس کے موتیوں کے جیسے چمکتے دانت ایک صراحی دار گردن اس سے نیچے ایک بہت من کو بھانے والی ایک لکیر جو سیدھی اس کی چھاتی کی طرف جاتی تھی اس کی چھاتی بہت  پیاری تھی آج اس نے سفید رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا وو کچھ ٹائٹ کپڑے پہنتی تھی  جس میں اس کی چھاتی ایسے  لگتی جیسےوہ  کپڑے  پھاڑ کر باہر نکل آے گی  
اس کی کمر بہت  پتلی سی تھی  اور نیچے اس کے بھاری بھاری کولہے وو ایک آئڈیل لڑکی تھی اسے دیکھ کر کوئی بھی شخص اپنے آپ پے سے کنٹرول کھو سکتا تھا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنی طرف کھینچا اور اپنے ہونٹ اس کے شہد سے میٹھے ہونٹوں پے رکھ دے مجھے اتنا مزہ آیا بتا نہیں سکتا وہ اب مجھ سے جدا ہو کر کھڑی ہو گی اور کہا شارق یہ سب مت کیا کرو مجھے اچھا نہیں لگتا میں نے کہا ٹھیک ھو پھر ہم کچھ دیر ویسے ہی واک کرتے رہے چپ چاپ اور میں پھر اپنے کمرے میں آ گیا  اور رات کو سونے والہ لباس پہن کے اپنے بیڈ پے لیٹ گیا   

میں اب اپنے کیس کے بارے میں سوچ رہا تھا احسان والے  پھر کوئی دو گھنٹے ایسے ہی گزر گ
ۓ میں اپنے ذھن میں اس کیس کی تراش  خراش  کر رہا تھا اچانک میرے کمرے کے دروازے پے دستک ہوئی ہلکی سی آواز آئ میں نے جا کے دروازہ کھولا تو نیلوفر تھی وہ میری طرف دیکھ کر بولی شارق مجھ سے ناراض ہو گۓ ھو آپ  میں  نے اسے اندر بازو سے پاکر کے کھینچ لیا  

میںنےاب نیلوفر کی طرف دیکھا اور کہا تم کو میرا کس کرنا اچھا نہیں لگا سوری وہ تڑپ گی اور کہا پلیز شارق ایسے نہ بولو ریلی آئی .لو .یو اور رو دی میں نے اس کو اپنے ساتھ لگا کے اس کے آنسو صاف کے اور اس کی آنکھوں پے ایک کس کی وو اب پیچھے ہٹی اور کہا مجھ سے ناراض نہیں ہونا کبھی ہم بچپن کے دوست ہیں شارق  میںنے دوبارہ اس کا ہاتھ پکڑا اور اسکو اپنی جانب کھینچ کر اپنے ساتھ لپٹا لیا اور مظبوطی سے جکڑ لیا اب نیلوفر   بھی مجھے اپنی انہوں میں جکڑ چکی تھی اسکا نرم اور گداز جسم محسوس کرتے ہی میرے لن  میں حرکت شروع ہوگئی۔
 میں نے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ پکڑ کر اسکے ہونٹوں پر ایک بھرپور کس کیا۔ وہ بھی میرے کس کا جواب دینے لگی پھر میں نے دونوں ہاتھ پیچھے لے جاکر اسکے کولہے اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر زور سے دبائے جس سے اس نے ایک لمبی سانس لی اور اچھل کر مزید میرے ساتھ چپک گئی پھر میں نے ذرا دیر اسکے کولہوں کا مساج کرنے کے بعد اسکی قمیض  میں پچھے سے ہی ہاتھ ڈالا اور اسکی ننگی کمر کو سہلانے لگا۔


 وہ اب مست ہونے لگی تھی اسکی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔میں اب واپس ہاتھ نیچے کی طرف لایا  نیلوفر  نے شلوار میں الاسٹک ڈالی ہوئی تھی میں نے دونوں ہاتھ اسکی شلوار میں ڈال دیئے اور اسکے کولہوں کو جکڑ کر ایک بار پھر سے بھرپور طریقے سے سہلانے لگا۔ وہ اب بری طرح مچل رہی تھی  شاید اسکی بے تابی بڑھ رہی تھی۔  ایک ہی جھٹکے سے اسکی شلوار کو گھٹنوں تک کھینچ کر اتار دیا۔
 اب وہ نیچے نیچے تو ننگی ہو گئی تھی اسکی گوری رانیں دیکھ کر میرا دل مچل اٹھا تھا۔ اور اب میری برداشت سے بھی باہر ہو رہا تھا کہ اسکو چودے بغیر سکون نہیں ملنا تھا مجھے۔ اب میں اسکے ممے دیکھنا چاہتا تھا سو اب میں نے اسکی قمیض پر حملہ کیا اور چیک کیا تو پتہ چلا کہ اس نے ایک زپ والی قمیض پہنی تھی میں نے اس زپ کو ایکدم نیچے کیا تو کافی چست ہونے کی وجہ سے ایکدم ہی نیچے ڈھلک گئی۔ اور اسکے شانے ننگے ہو گئے جس پر پتلی سی بریزی کی اسٹرپ جو کہ بلیک کلر کی تھی اسکے گورے بدن پر قیامت ڈھا رہی تھی۔اب میں مزید انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا اسکی چوت کو اپنے موٹے لنڈ سے بھرنا تھا مجھے۔
 اسکی چوت کی گرمی اور نرمی سے اپنے لنڈ کو فیضیاب کرنا تھا۔ سو میں نے اس سے کہا  اب مزید انتظار نہیں ہوتا تم اتنی پیاری ھو میں اب بےبس ہوا جا رہا ہوں مجھے جی بھر کے پیار کرنے ہے تم کو اس نے  میری بات کا جواب دیا مجھ سے بھی اب انتظار نہیں ہو رہا آپ کا دل جو چاہیے وہ  کرو میں آپ کی ہوں شارق   ۔ میں اسکی بات سن کر خوشی سے پاگل ہونے لگا تھا۔ میں نے فٹافٹ اسکی قمیض کو اسکے خوبصورت بدن سے الگ کیا۔ اور پھر اسکے بریزر کے ہک کھول کر اسکے بڑے بڑے ممے کو آزاد کردیا وہ ایسے اچھل کر میرے منہ کے سامنے آئے جیسے پکا ہوا آم ہو ایکدم گورے اور چکنے ممے۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ میں تو خوشی سے دیوانہ ہورہا تھا میری رال ٹپکنے کو تھی۔ پھر میں نے اسکی شلوار جو ابھی تک گھٹنوں تک تھی اسے بھی اتار اب وہ میرے سامنے بالکل ننگی کھڑی تھی۔ اسکا گورا اور سیکسی بدن مجھے بھرپور دعوت دے رہا تھا۔ اب میری باری تھی اپنے کپڑے اتارنے کی میں نے جلدی جلدی اپنا نائٹ سوٹ اتارا مگر انڈروئیر کو چھوڑ دیا  کے لیے۔اب میں نے  کی جانب دیکھا تو وہ سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہی تھی میں اسکو دیکھ کر مسکرایا اور کہا تمہارے سارے کپڑے میں نے اتارے ہیں میرا ایک کپڑا تو کم سے کم تم بھی اتارو۔وہ میری بات سن کر شرمائی مگر پھر اگلے ہی لمحے وہ آگئے بڑھی اور میری انڈرویئر میں ہاتھ ڈال کر میرا لن  پکڑ لیا۔
 میں ایسے اچھلا جیسے میرے لن  کو کرنٹ لگا ہو۔ مگر اسکے نرم ملائم ہاتھ سے میرے  لن کو بہت لذت ملی تھی۔ ابنے ایک ہاتھ میں میرا لن  پکڑے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری انڈروئیر اتار دی اب جو اس نے میرا لن   دیکھا جو کہ تنا ہوا کسی ڈنڈے کی مانند اسکے ہاتھ میں تھا تو اسکی آنکھوں میں ایک خوف سا آ گیاوہ  بولی شارق یہ توبہت  موٹا اور لمبا ہے میں اب اسے کیسے لے پاؤں گی میں نے پیار سے اس کے ہونٹ پے ایک کس کی اور کہا جانو کچھ نہیں ھو گا پہلی دفع کچھ درد ہو گا پھر مزہ حمزہ ہے وہ بولی مجھے آپ کی طرف سے دیا جانے والہ درد منظور ہے اب میں نے اس ایک ممے کو اپنے منہ میں لے لیا اور کسی آم کی طرح چوسنے لگا اورمیرا   ہاتھ اسکے دوسرے ممے پر تھا جس کو میں زبردست مساج کر رہا تھا۔ اور وہ میرے  لن  کو زور زور سے سہلا رہی تھی جس سے میرا  لن  مزید سخت ہو گیا اور تن گیا۔ اب میں نے  کو اپنی گود میں اٹھایااور اس کو اپنے بیڈ پر پھینک دیا۔


 اسکے بیڈ پر گرنے سے اسکے مموں نے ایک زبردست باؤنس لیا جس سے انکی نرمی اور لچک کا اندازہ ہو رہا تھا خیر اب تو یہ سوئٹ ڈش میرے کھانے کے لیے موجود تھی اور کوئی دعویدار بھی نہیں تھا جو روک سکتا۔ میں بھی جمپ کر کے نیلوفر   کے اوپر گرا مگر اس طرح اس   کو میرے بدن سے چوٹ نہ لگے۔ اب میں نے  کی چوت کی خبر لی اور ایک انگلی سے اسکو سہلانے لگا میں نے محسوس کیا کہ  کی چوت بالکل گیلی ہو رہی تھی ۔ میں نے ٹشو پیپر کا بکس اٹھا کر اسکی چوت کو صاف کیا اور اسکا گیلا پن بالکل ختم کردیا اسکے بعد میں نے دوبارہ سے اسکی چوت کو سہلانا شروع کردیا پھر ذرا دیر بعد اسکی چوت گیلی ہوگئی۔
 ایک بار پھر میں نے اسکو ٹشو پیپر سے صاف کر کے خشک کردیا اب میں نے  سے کہا میرا  لن چوسو جس سے اس نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا اگر نہیں چوسو گی تو مجھے مزہ نہیں ملے گا ۔ میری بات سن کر وہ تیار ہوگئی اور اٹھ کر بیٹھی اور مجھے دھکا دے کر بیڈ پر گرا دیا اور فوراً ہی میرا  لن  اپنے منہ میں لے کر کسی لولی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔اف اب میں الفاظ میں کس طرح بیان کروں اسکا منہ کتنا گرم اور کتنا نرم تھا میں اگر سیکس کا تھوڑا تجربہ نہ ہوتا تو لازمی میں اسکے منہ ہی فارغ ہو جاتا ۔
 مگر میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا مجھے آخر اسکی چوت کے مزے لینے تھے۔ مگر وہ اتنا زبردست طریقے سے میرا لن چوس رہی تھی کہ ہر لمحہ مجھے لگتا تھا کہ میں اسکے منہ ہی فارغ ہونے لگا ہوں پھر میں نے اسکو زبردستی ہٹا دیا اور اب میں نے اسکو دھکا دے کر بیڈ پر گرایااور اسکے اوپر چڑھ کر بیٹھا اور اسکی چوت کے منہ پر اپنا لن  رکھا اور اس سے کہا اپنی ٹانگیں کھولے اس نے فوراً ایسا ہی کیا اور اب اسکی چوت میرے لن کو قبول کرنے کو تیار تھی کیونکہ میں نے اپنے لن کا ہیڈ اسکی چوت پر رکھا تو اندازہ ہوگیا اندر کتنی گرمی ہے اور دوسری بات یہ کہ اسکی چوت  گیلی ہوچکی تھی۔یہ سگنل تھا اس بات کا کہ اسکی چوت میرے لن  کو نگلنے کے لیے تیار ہے اب باقی کام میرا تھا ۔
اب میں نے اپنا لن اسکی چوت کے منہ پر رکھا اور زور لگایا تو اسکی چوت کے گیلا ہونے کی وجہ سے میرا  لن ہیڈ تک تو چلا گیا اندر، مگر  درد سے بلبلا اٹھی اور کہنے لگی اسکو باہر نکال لیں بہت تکلیف ہو رہی ہے

 میں نے کہا نیلوفر ابھی بس ہیڈ ہی اندر گیا ہے لن کا ابھی تو یہ خود سارا اندر جائے گا اگر تم سے برداشت نہیں ہو رہا تو ٹھیک ہے میں نہی کرتا وہ  اب کی بار بولی ۔  شارق میں اپ کا ہر درد آج سہ لوں گے آپ ڈالو اندر اسے ایک ہی جھٹکے میں آج پھاڑ ہی دو میری چوت اب کی بار میں نے بھی ایک ہی جھٹکے سے سارا اندر کر دیا وو ایک زبحہ ہونے والے جانور کی طرح بلبلائی   میں اس کے اندر ڈال کر کچھ دیر کے لئے روکا رہا اور کہا جان بہت درد ہو رہا ہے نہ تم کو     کو وہ میری بات سن کر مسکرا اٹھی جسکودیکھ کر میں سمجھ گیا وہ برداشت کر رہی ہے  اب وہ درد سے اپنے ہونٹ بھینچ رہی تھی مگر کچھ کہہ نہیں رہی تھی میں نے اب ایک بار اپنا لن باہر نکالا اور دوبارہ میرا پورا لن اس کی چوت میں تھا
  وہ مچل رہی تھی شاید اسکو تکلیف زیادہ تھی میں نے اسکے اوپر لیٹ کر اسکو اچھی طرح جکڑ لیا ایسے کہ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھی۔ صرف ٹانگیں اور ہاتھ ہلا سکتی تھی۔ اب میں نے اسکے ہونٹوں پو کسنگ شروع کردی ذرا دیر بعد وہ اپنی تکلیف بھول چکی تھی کیونکہ اسکا دھیان کسنگ میں تھا پھر اور تھوڑی دیر بعد اسکی تکلیف ختم ہوچکی تھی ۔ اب اسکی چوت تیار تھی چدنے کے لیے
 میں نے بیٹھ کر اسکی دونوں ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور پوری طاقت سے زور لگا کر اپنا لن زور زور سے اندر باہر کرنے لگا   وہ اب مزے سے چیخ اٹھی  میں نے لن  کو باہر نکالا اور پھر اندر ڈالا مگر اب کی بار وہ نہیں چیخی بس اسکا سانس رکا اور پھر چل پڑا  میں نے بھرپور رفتار کے ساتھ چدائی شروع کی  کی سیکسی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ اسکی آوازیں بڑی خوبصورت تھیں۔ میں بھی اب رکنے والا نہیں تھا تقریباً دس منٹ کی چدائی سے میں بھی تھکنے لگا تھا اور میری منی جو کافی دیر سے روکی ہوئی تھی  اسے اسکی چوت پینے کو تیار تھی۔

پھر میں نے اسکی چوت میں منی اگلنا شروع کی ۔میں نے لن  کو پورا اندر ڈال کر نیلوفر کے ہونٹوں کو چومتا رہا اسی کی چوت نے اب میرے لن کو جکڑ لیا تھا اب  وہ اور میں ایک ساتھ  ہی فارغ   ہوے تھے  میرے لن اور اس کی چوت سے اب منی نکل  رہی تھی ۔ پھر فارغ ہونے کے بعد میں نے بے تحاشہ اسکو پیار کیا وو بھی مجھے اپنی بانہوں میں کسے ہوے تھی
وہ  کہنے لگی شارق پلیز ایسے ہی کچھ دیر مجھے چومتے رہو میرا درد اب کم ہو  جائے گا
  کیوں کے اسے بہت درد ہوا تھا جو اس نے برداشت کیا تھا اس لئے میں اسے زورو سے چوم رہا تھا پھر میں اسے اپنے ساتھ لپٹاہے ایسے ہی لیتا رہا میرا لن اس کی چوت کے اندر ہی تھا

تھوڑی دیر بعد اسے بھی درد سے آرام آ گیا اور وہ اٹھی اور واش روم کی طرف چلی  گی میں نے  دیکھا اس کی رانیں خوں اور منی سے لتھڑی ہوئیں تھیں میں بھی اس کے پیچھے  ہی واش روم کی طرف گیا اب اس نے پہلے میرا لن اور پھر اپنے جسم کو صاف کیا اب وو میری طرف نہیں دیکھ رہی تھی ایک عجیب سی شرماہٹ تھی اس کےچہرے پے میں نے اسے کہا نیلو کیا بات ہے وو بولی کچنہی میں بولا میری طرف دیکھوں نہ وو اپنے ہاتھ اپنے چہرے پے رکھ کے بولی مجھے شرم آ رہی ہے شارق  میں اس کی اس ادا پے فدا ہو گیا میں نے اب اسے اپنے بازوں میں اٹھا لیا اور بیڈ کی طرف آنے لگے اسے بیڈ پے لٹیا دیا اور  وہ میری طرف پیٹھ کر کے لیٹ گی میں نے پیچھے سے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور اس کی گردن کو چومتے ہوے کہا نیلو تم بہت سیکسی   ہو یار وہ بولی چلو ہٹو اب مجھے بنا رہے ھو میں نے کہا  ہائے  ظالم تم تو بنی بنائی ایک آفت ھو میں کیا بناؤ گا اور اس کے مممے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے اس کی سانس تیز ہونے لگی تھی اب وہ بولی شارق پلیز ان کو  چھوڑ دو جب تمہارے ہاتھ ان کو لگتے ہیں میرے اندر ایک کرنٹ سی ڈورنے لگتی ہے میں نے اب اس کے کانوں کی لو کو اپنے ہونٹوں میں پاکر کر چوسنا شروع کر دیا وو اب مچل اٹھی  شا رررر ق وہ  ایک لمبی سانس لے کے بولی مت کرو ایسا میں مر جاؤں گی  میں بنا رکے اس کے مممے بھی دبا رہا تھا اور اسکی گردن پے کبھی گالوں پے  کبھی اس کے ہونٹوں کو چومنے لگتا پھر میں نے اسے سیدھا کیا اور اس کے آئیک مممے کی چوچی پاکر کے چوسنے لگا وو اب سسکاریاں بھر رہی تھی س س س س س ہاہ اف ف ف ف ف  اوئی مےمہ شارق اوہ میرے ش ش ش آ ر ر ر ق میرے اندر آگ لگ گی ہے اب کچھ کرو جانو میں نے اب اپنی ایک انگلی اس کی چوت میں ڈال کر اندر باہر کرنے لگا وو اب فل تڑپ رہی تھی  پھر میں نے اس کے کان میں کہا نیلو تمہاری گاند بہت پیاری ہے میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں اپنے لن سے وہ  بولی شارق یہ بوہت ظالم ہے تمہارا لن اس نے پہلے ہی دیکھ میری چوت کا برا حال کیا ہے  یہ میں ہی جانتی ہوں کیسے میں نے برداشت کیا ہے تمہارے لن کو اپنی چوت میں

میری گانڈ کو تو یہ پھاڑ کے رکھ دے گا جان پلیز آگے سے ہی کر لو نہ میں نے کہا نیلی میرا دل کرتا ہے تمہاری گانڈ میں ڈالوں وہ اب کچھ نہ بولی اور کہا پھر آرام آرام سے کرن میں تم کو اب کیسے منع کر سکتی ہوں تم تو میری جان ھو
پھر میں نے  ایک بار اسکے مموں پر اور پورے جسم پر کسنگ شروع کردی جس سے وہ پھر سے گرم ہونے لگی۔  میں کسنگ کرتے کرتے اسکی چوت تک آیا تو وہاں انگلی ڈال کر اسکو چودنے لگا۔ اسکی چوت کافی گرم تھی۔ مطلب یہ تھا کہ وہ پوری طرح گرم ہوچکی ہے۔ اب میں نے اسکو الٹا کیا اور ڈریسنگ ٹیبل سے جلدی سے لوشن کی بوتل اٹھائی اور اسکے کولہوں پر مساج کرنا شروع کردیا  پھر میں نے اپنے لن  پر بھی مساج کیا اور اسکے کولہوں کو لوشن سے تر کرتے ہوئے اسکی گانڈ پر بھی اچھی طرح سے لوشن لگا دیا۔ اب میرا  لن  لوشن کے مساج سے ایک بار پھر کسی ڈنڈے کی مانند تنا ہوا تھا میں نے  اسکے کولہوں کے درمیان اپنے لن   کو رکھا اور ایک جھٹکا مارا تو وہ پھسلتا ہوا اسکی گانڈ کے سوراخ میں داخل ہوگیا۔ وہ ایک دم تکلیف سے چیخ پڑی اور کہنے لگی پلیز شارق آرام سے کرو ۔ میں نے اس سے کہا جیسے ذرا دیر میں آگے سے تکلیف ختم ہوگئی تھی ایسے ہی یہاں سے بھی تکلیف ختم ہوجائے گی بس پھر انجوائے کرنا میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میں نے لن کو مزید دھکے مار مار کر اسکی گانڈ میں پورا لن   گھسیڑ دیا۔ وہ تکلیف سے بلبلا رہی تھی مگر آنے والی لذت کے انتظار میں تھی کہ کب تکلیف ختم ہو اور کب وہ لذت سے آشنا ہو۔ذرا دیر میں نے  لن کو اسکی گانڈ میں ہی رکھا ۔ ذرا دیر بعد میں نے پوچھا اب تکلیف تو نہیں تو اسکا جواب نہ میں تھا۔ میں یہ سن کر خوش ہوا پھر اس سے کہا چلو اب اٹھو اور جیسا میں کہوں ویسا کرو، یہ کہہ کر میں نے اسکی گانڈ سے لن کو باہر نکالااور پھر بیڈ سے اتر کر کھڑا ہوگیا۔ پھر میں نے اسکو بھی نیچے بلا لیا وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے نیچے اتر آئی پھر میں اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو صوفے کی طرف لے گیا اور کہا صوفے پے  لیٹو ایسے کہ تمہارے کولہے میری جانب ہوں اور ٹانگیں فرش پر اب وہ صوفے  پر پیٹ سے سر تک لیٹی ہوئی تھی جبکہ ٹانگیں نیچے فرش پر تھیں میں نے  لن  کو اسکی گانڈ پر سیٹ کیا اور دھکا مار کرلن  ایک بار پھر سے اسکی گانڈ میں گھسیڑ دیا۔ اسکو ایک زور کا دھکا لگا اور پورا صوفہ ہل گیا  مگر میرا لن  اسکی گانڈ میں راج کررہا تھا۔ اب میں نے اپنی رفتار بڑھائی اور دھکے تیز کردیئے ہر ہر جھٹکے پر اسکو لذت مل رہی تھی اور اسکے بڑے بڑے اور نرم نرم گرم گرم کولہے میرا جوش مزید بڑھا رہے تھی میں نے دونوں ہاتھوں سے اسکے ممے پکڑ لیے اور انکو بری طرح مساج کرنے لگا۔ میں چونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اپنی منی نکال کر فارغ ہوا تھا اس لیے میرے پاس کافی وقت تھا۔میں اسکو دھکے مارتا رہا اور پھر وہ ایکدم سے فارغ ہوئی اور اسکی چوت نے ڈھیر ساری منی اگلی اور اسکی ٹانگیں لڑکھڑا گئیں میں نے اسکو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ لازمی نیچے گر جاتی۔ اس نے کہا  بس کرو میری ٹانگوں میں اب جان نہیں ہے میں کھڑی نہیں رہ سکتی میں نے کہا ہمت کرو تھوڑا اور میں بھی فارغ ہو جاؤں تو پھر واپس بیڈ پر چلتے ہیں۔میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئی میرالن  ابھی فارغ نہیں ہوا تھا سو وہ مستقل تنا ہوا اسکی گانڈ میں ہی تھا۔ میں نے دوبارہ سے جھٹکے مارنا شروع کردیا۔ اسکی گانڈ پوری طرح کھل چکی تھی اور مسلسل میرے لن  کا ساتھ دے رہی تھی اب میرا لن  بڑی روانی سے اسکی گانڈ میں آ جا رہا تھا۔ پھر وہ لمحہ آیا جب مجھے اسکی گانڈ میں فارغ ہونا تھا میں نے کھڑے کھڑے اسکی گانڈ میں ہی منی اگلنا شروع کردی مگر اسکے ساتھ ہی  بھی فارغ ہوئی اور اسکی چوت سے پھر ایک بار منی نکلنا شروع ہوئی۔ اور وہ ایک بار پھر سے لڑکھڑا گئی اور گرنے ہی لگی تھی کہ میں نے اسکو پھر سنبھالا۔ اب وہ کھڑی رہنے کے قابل نہیں تھی۔ میں نے اپنے لن  کو خالی کر کے اسکو گود میں اٹھایا اور لے کر واپس بیڈ پے لٹا دیا میں سونے سے پہلے فریش جوس پیتا تھا تازہ پھلوں کے اس لئے میرے کمرے میں  جوس اور فروٹس رکھے تھے وہ اسکو بھی دیئے اور خود بھی کھائے وہ بالکل مدہوش ہو رہی تھی اسکو اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ ذرا دیر بعد اسکے حواس بحال ہوئے تو اس نے کچھ کھایا اور جوس پیا پھر میری جانب دیکھا اور کہا تم بہت ظالم ہو مار ڈالا تم نے مجھے میں نے اس سے کہا جو سیکس کا مزہ تم دے رہی ہو اور جس طرح سیکس تم کر رہی ہو ۔تم بڑی سیکسی ہو ۔ میری بات سن کر وہ تھوڑا سا شرمائی اور کہنے لگی مگر تم بہت ظالم ہو تم نے برا حال کردیا میرا۔ میں نے کہا ابھی تو کچھ بھی نہیں کیا جان من ابھی تو رات باقی ہے   ۔ فروٹس کھا کر اسکے بدن میں جان آگئی تھی۔میں اسکو گود میں اٹھا کر باتھ روم میں لے گیا اور کہا

چلو اب مل کر نھاتے  ہیں    نہانے کے دوران ایک بار پھر میں نے اسکی چوت کو اپنی منی سے بھرا اور پھر  ہم دونوں نے ایک ساتھ نہا کر میرے ہی بیڈ ہر ایک ساتھ ننگے ہی لیٹ گ
ۓ پھر میں نے کوئی اس رات چار دفع اور اس کو چودہ  اسکا چود چود کر برا حال کردیا پھر کوئی پانچ بجے کے قریب وہ اپنے روم میں گی اس سے سہی سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا  میں بھی اب دوبارہ سے نہا کے سو گیا
 اگلے دِن میں کچھ لیٹ ہی اٹھا کیوں کے آج میں نے آفس میں نہیں جانا تھا میرا پروگرام کچھ اور تھا میں جب نہا دھوکر کمرے سے باہر آیا تو مجھے تنویر بھابھی  ملی جو جوس کا ایک جگ لئے کچن سے تیزی کے ساتھ باہر آئ تھی میںنے ان سے پوچھا واہ کیا بات ہے بھائی صاحب کی سیوا ہو  رہی ہے وہ بولی وہ تو کب کے اپنے آفس جا چکے ہیں یہ تو نیلوفر کے لئے ہے اسے زوروں کا بخار ہے

میں بھی ان کے ساتھ ہی  نیلوفر کے کمرے کی طرف گیا وہاں پے سب ہی بٹہے تھے لالارخ  اس کے سر پے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی  میں نے کہا کسی ڈاکٹر کو بھی دکھایا کے نہیں تو شفق بھابھی جو نیلی کی چچا زاد بہن تھی وو بولی ہاں دیکھ کے گیا ہے ڈاکٹر بھی اسی نے کہا ہے اسے ٹھنڈا جوس پلاؤ گرمی کی وجہ سے ہوا ہے بخار اس کو اور کمزوری سے  میں سمجھ گیا  رات کو میں نے بہت بار اپنی منی اس کے اندر چھوڑی تھی اسی کی گرمائش تھی  اور وہ خود بھی کوئی پانچ چھہ دفع فارغ ہوئی تھی اسی لئے کمزوری ہو گئی ہے اسے  
پھر کوئی ایک گھنٹے بعد نیلوفر کچھ ٹھیک ہو گی اس نے جب مجھے دیکھا اپنے کمرے میں تو کھل اٹھی اور کہا حضور والی آج آپ آفس نہیں گ
ۓ میں نے کہا میری دوست بیمار تھی اس لئے نہیں گیا  بھابھی شفق نے بتایا کیمین نے اپنے آفس میں کال کر کے کہ دیا ہے آج نہیں آؤں گا یہ سن کے تو وہ  بے انتہا خوش  ہو گی  اب کے وہ بولی آجمیں اور لالارخ نے بازار بھی جانا تھا کچھ لینے کے  لئے میں نے کہا تم ٹھیک ہو جاؤ پھر چلتے ہیں بازار بھی تو فورن لالارخ نے کہا ہاں نیلو آج ذرا ان  کی  پاکٹ  پے حملہ کرتے ہیں کافی لوگوں کو خوں چوسا ہے انھوں نے یہ سن کے سب ہنس دے  سب کو پتہ تھا میری نہیں بنتی لالارخ کے ساتھ میں نے کہا  میں ذرا ناشتہ کر لوں  پھر جب تکمیں نے کھانا کھایا وو دونون  ہی تیار ہو گی تھیں جانے کو  جب ذرا سی دیر کو لالارخ باہر گی میں اکیلا تھا میں نے کہا یار تمہاری طبیت  ٹھیک نہیں ہے نیلوفر نے  مجھے پیار سے دیکھتے ہویے کہا  تم کو اپنے کمرے میں دیکھتے ہی میری روح  تک میں سکون آ گیا ہے  ابمیں بلکل ٹھیک ہوں اور میری طرف آئی  ادھر آدھر دیکھا کسی کو نہ پا کر میرے ہونٹوں کو چوم لیا اور کہا یہ لو آخری  ڈوز بھی لے لی ہے اب میں بلکل ٹھیک ہوں  ابمیں ان کو لے کر بازار گیا وہاں سے ان دونون  کو  جی بہار کے شاپنگ  کروائی  اور واپس گھر چھوڑ کے میں اپنے کام ک لئے نکل پڑھا آج میں نے ڈیڈی سے ان کی   لی تھی جانے کے لئے

عاشق ۔ چوتھی قسط

 



عاشق

چوتھی قسط

تحریر: ماہر جی

اگلے دِن ناشتے کے ٹائم ہی میری پیشی ہو گی والد حضور نے ناشتے کے بعد کہا شارق ہم سب کو خوشی ہے کے تم وو کیس جیت گے اب میں یہ قطعی برداشت نہیں کر سکتا تم اس فاروقی کو اسسٹ کو کرو تم آج سے نصرت کے ساتھ جو گے میں نے کہا اپ کا حکم سر آنکھوں پے ڈیڈی لیکن کیا اپ نے بھائی جان سے پوچھ لیا ہے وو بولے کیا مطلب میں نے کہا ڈیڈی میں سچائیوں کا پرستار ہوں اور اگر مجھے لگا  کے بھائی کے دفتر میں کسی بیگناہ کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تو میں اسی کا ساتھ دوں گا بھائی نصرت نے اب کہا ڈیڈی ہر فیلڈ میں سچے اور جھوتھے لوگ ملتے ہیں اور   پھر میرے پاس تو سب ہی آییں گے ظالم بھی مظلوم بھی اب سب نے بھائی کی تائید کی میں نے کہا بھائی اپ صرف پیسا دیکھتے ہیں وو بولے ہاں میں میں اب فری میں تھوڑا کس لڑوں گا میرا ایک نام ہے وکیلوں میں ان کے لہجے میں غرور کوٹ کوٹ کے بھرا تھا جو مجھے بلکل اچھا نہیں لگا میں نے کہا تو میں اپ کے ساتھ نہیں بیٹھہ سکتا اب کے ڈیڈی نے کہا یہ میرا حکم ہے میں نے کہا سوری ڈیڈی میں کوئی بھی غلط بات نہیں منوں گا بس پھر کیا تھا ڈیڈی نے غضب ناک لہجے میں کہا تیری یہ جرات تو مجھے انکار کرے اور کہا اس گھر میں ووہی رہ سکتا ہے جو میری بات ماننے میں یہ سنتے ہی عجیب سی نظروں سے اپنے گھر والوں کو دیکھنے لگا جو بس اپنے آپ کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے میں بھی آخر انہی  کا خوں تھا میںنے بھی اسی وقت اپنے کپڑے لئے اور گھر سے نکل آیا بیچاری والدہ صاحبہ بوہت رویی لیکن آئی .جی سحاب کے آگے کوئی پیش نہ چلی

میں نے اپنا سامان لیا اور فاروقی سحاب کے گھر آ گیا اب میں نے ان کو ساری بات بتا دی وو بولے نا سمجھ ہیں آشیانے والی جو ایک ہیرے کی قدر نہیں کر رہے اور کہا بتا آج سے تم یہی رہو میرے اس چوتھے سے گھر میں بوھت جگہ ہے لیکن میری خدار طبیت نے یہ نا مانا اور میں نے ایک اچھی سی بلڈنگ میں ایک کراے پے فلیٹ لے لیا جو بوھت ہی اچھا اور پیارا بنا ہوا تھا ، پھر واہی  روز کی روٹین اب فاروقی صاب کا کام خوب چل نکل تھا ان کے پاس دہرا دھر کیس انے لگے وو اور میں اس کیس پے فل محنت کرتے اب یہ میری خدا داد ذہانت کا ہی کمال تھا میں جو بھی بحث تیار کرتا وو  اب کم ہی کسی وکیل کو پکڑائی دیتے تھے اکثر عدالت میں اتے جاتے بھائی نصرت اور کمرہ عدلت میں بھائی امجد سحاب سے ملاقات ہو جاتی دونو ہی مجھے اگنور کرتے اب میں نے بھی ان کو اہمیت دینا چھوڑ دی  

اب ہماری وکالت پورے زوروں پے تھی ،ایک دِن میں اپنے فلیٹ میں جا رہا تھا کورٹ سے فارغ ہو کر کے مجھے راستے میں ثنا عباسی نظر آی  اس نے بھی مجھے دیکھ لیا اور میری طرف آی وو ایک بس استنڈ پے کھڑی تھی میں نے بھی اپنی بائیک کو روک لیا اور اسے حال چال پوچھا وو بولی سب ٹھیک ہے راحیل بھائی اب دبئی چلے گے ہیں اور میں ایک سچول میں ٹیچر کی جاب کر رہی   ہوں آج میں مارکیٹ سے کچھ ضروری سامان لینے یی تھی اب واپس گھر جا رہی ہوں میں نے اسے کہا چلو او پاس ہی میرا فلیٹ ہے وہاں چلتے ہیں وو میرے ساتھ بیٹھ گی فیلٹ میں    آ کر میں نے اسے ڈرائنگ روم میں صوفی پے بیٹھننے کو کہا اور کہا میں تمہارے لئے چا
ۓ بنا  کے لاتا ہوں وو  میرے ساتھ ہی آ گئی کچن میں اور خود  چاۓ بنانے لگی میں اس کے پاس ہی کھڑا ہو گیا وو کالے رنگ کے لباس میں تھی اس کا یہ فٹنگ والا سوٹ اسے بوھت  پیارا لگ رہا تھا وواس لباس میں جگمگا رہی تھی ثنا ایک سانولے رنگ کی دراز قد لڑکی تھی جس کے مممے چوتیس اور کمر اٹھائیس تھی کمر سے نیچے آ کر اس کے کولہے کافی بھاری تھے وو کوئی چھتیس سائز کے ہوں گے 34 ، 28 ،36 میں اسے کافی غور سے دیکھ رہا تھا وو بولی شارق سحاب کیا دیکھ رہے ہیں میں نے کہا آپ کی جوانی وو شرما گی اب ہم واپس کمرے میں آے اور چاۓ پینے لگے ساتھ میں کچھ بیکری کا سامان بھی کھا رہے تھے  میں نے اسے کہا لوگ بات کر کے بھول جاتے ہیں وو سمجھ گئی اور کہا یہ لوگو کی غلط فہمی ہے لوگ آج بھی مجھے بوھت یاد آتے ہیں میں نے کہا تو پھر تم نے مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کیا وو بولی میں آپ کا انتظار کر رہی تھی کب آپ مجھے بلائیں  اور میں کچے دھاگے سے بندھی دوری چلی آؤں

میں نے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کےسہلانے  لگا وو بولی شارق آپ بوھت اچھے ہیں میں آپ کو بوھہت پسند کرتی ہوں میں نے کہا سچی وو میرے پاس آی اور میرے ہونٹوں پے کس کر کے کہا مچی  اور کھلکھلا کر ہنس دی میں نے اب اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے رس بھرے ہونٹوں کو اپنی پکڑ میں لے لیا میرے ہونٹ اب اس کی ہونٹوں کو اپنے اندر ساماے ہوے تھے میں اس کے نچلے ہونٹ کو بیتابی سے چوم رہا تھا اب اس نے مجھے بھی اپنی بانہو میں جکڑ لیا میں اس کی کمر پے ہاتھ بھی پھیر رہا تھا اور ساتھ میں اس کے ہونٹ بھی چوس رہا تھا

اب میرے ہاتھو  نے اس کے بھرےبھرے  ممموں کو اپنے قبضے میں کیا میں اس کی چوچیاں مسل رہا تھا اب ثنا بوھت گرم ہو گے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی  آگ نظر آ رہی تھی میں نے کوئی پندرہ منٹ تک اس کے ہونٹوں کا رس پیا  ساتھ ساتھ اسے کے مممے بھی دبا رہا تھا وو اب تڑپ رہی تھی میںنے اس کی کمر سے قمیض کی زپ نیچے کی اور اس کی قمیض اتر دی اب اس کے مممے ایک سکن کلر کے برازیئر میں  تھے میں نے اب اسی کی برا بھی اتر پھینکی اب میںنے اسسے اپنے ساتھ ایک صوفے پے بیٹھا کے   اس کی نپل کو منہ میں نے کر چوسنے لگا اور دوسری سائیڈ والی نپل  کو اپنے ہاتھ کی انگلیوںمیں لے کر مسلنے لگا وو اب مزے سے سسکاریاں بھر رہی تھی سسسسسسسسسسس شارق پلز کچھ کرو میرے اندر سب جل رہا ہے  میں نے اس کی بات پے کوئی دھیان نا دیا اور اسے چومتا رہا اب میرا ہاتھ آھستہ آہستہ اس کی شلوار کی حنب جا رہا تھا اس نے لاسٹک والی شلوار پہنی تھی میرا ہاتھ آسانی سے اندر چلا گیا اس کی پھدھی آگ کی طرح تپ رہی تھی

میں نے اب اپنی انگلی سے اس کی چوٹ کا دانہ مسلنے لگی  اب کے وو تڑپ تڑپ کے نیچے گر رہی تھی شارق کچھ کرو نا پلیز میں نے کہا کیا کروں وو بولی اپنا اسس کے اندر ڈال دو میںنے کہا اس کا کیا نام ہے وو بولی مجھے نہیں پتا  میں نے کہا جب تک تم اپنے منہ سے سبنہی بتاؤ گے میں کچنہی کروں گا اور دوبارہ سے اس کے مممے چوسنے لگا وو اب اتنا بیتاب ہو رہی تھی اس کے منہ سے اب چیخیں نکل رہی تھی  اہھھھھھہ  افففف سسسس جانو مت ترپاؤ میں مر جو گی  اور پھر وو اپنے آپ سے بیگانہ ہو گے اس نے مجھے اپنے نیچے کر لیا کروٹ بدل کر اور میری پینٹ اترنیکے بعد میرا انڈر ویر بھی خود ہی اٹھارہ  اب وو میرے  لن کو پیار سے دیکھ رہی تھی پھر اس نے خود ہی اسے اپنے منہ میں لے کر چوسنا سٹارٹ کر دیا اب وو میرے لن کو آئسکریم کی تارہا چاٹ اور چوس رہی تھی مجھے اب مزہ انے لگا میں اس کچوچیاں دبا رہا تھا میں نے کہا ثنا

اسے کیا کہتے ہیں وو اب بیتابی سے میرا لن چاٹ رہی تھی وو میرے لن کی ٹوپی پر زبان فیرتے ہوے بولی  شارق تمہارا لن بوھت برا ہے مجھے لگ رہا ہے آج میری کنواری چوٹ کا ستیا ناس ہو جاتے گا  لیکن میں اب اسے ہر حال میں اپنی پھدھی میں لینا چاہتی ہوں میں نے کہا  ٹھیک ہے جانو اور اسے دوبارہ سے اپنے نیچے کیا اس کی دونو ٹانگیں اپنے کندھے پے رکھی  اب میں نے اپنا لن اس کی پھودھی  کے سوراخ پے سیٹ کیا اور اس کی طرف دیکھ کے بولا ثنا میں اندر کر دوں وو بولی ہاں شارق مجھے آج اتنی تکلیف دو جس میں راحت ھو مزہ ھو میں اس مزے بھری تکلیف ک لئے تیار ہوں پلیز  جانو ایک ہی دھکے سے سارا اندر کر دو جو ہونا  ایک ہی دفع ہو جائے  میں نے اب اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور ایک زور دار دھکا مارا میرا لن اس کی تنگ اور کنواری چوٹ کو پھاڑتا ہوا اس کی بچا دانی سے جا ٹکرایا

وو میرے نیچے ایسے تڑپی جیسے مچھلی تڑپتی ہے پانی سے بھر نکل کر اس کا جسم کانپ رہاتھا اس کی زور دار چیخ میرے منہ میں ہی دب گی تھی  میں نے اب کچھ دیر ایسے ہی اس کے اپر لیتا رہا اس کے ہونٹ چوستا رہا اس کی آنکھوں سے مارے درد کے  آنسوؤں کی جھڑی پھوٹ گئی تھی  میں نے اس کے نمکین نمکین  آنسوں کو اپنے ہونٹو سے صاف کیا اور  پھر ہلکے سے اپنا لن باہر نکل لیا وو پھر تڑپ گی میرا لن اس کی چوٹ کے خوں سے لبھرا ہوا تھا میں نے اب دوبارہ سے تھوڑا تھوڑا کر کے اپنا لن اندر کیا اس کی چوٹ کے  اور پھر ایک دو دفع ہلکے ہلکے یہی کیا اندر باہر  اب وو پرسکون تھی میں نے کہا جانو اب زیادہ درد تو نہیں ہو رہا وو بولی اب نہیں ہے میںنے اب زورو سے دھکے مارنے  لگا  میرے ہر دھکے پے وو اچھل جاتی تھی اب میں نے اس کی ایک ٹانگ نیچے کی اور ایک اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چاٹ کی طرف کر دی ابمیں زور دار دھکے مر رہا تہ اب وو مستی اور مزے سے سسک رہی تھی  آھہ اووو جانو اور زور سے اوئی من میں مر گے اب کے وو میرا ساتھ دینے لگا اب میں نے کچھ در ایسے ہی اسے چودہ پھراسے ڈوگی سٹائل میں چودننے لگا اب وو مزے کی وادیوں میں  سیر کر رہی تھی اس کی آنکھیں بند اور کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں پھر وو ایک زور کی چیخ کے ساتھ ہی فارغ ہو گی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی جانو ذرا رک جاؤ پلیز  

میں ویسے ہی لن اس کی چوٹ میں ڈالکر ہی اس کے اپر لیٹ  گیا پھر میں نے دوبارہ سے اپنا لن اسسے اب سیدھا کر کے اس کی چوٹ میں ڈال دیا اب میں ایسے جھٹکے لگا رہا تھا جیسے کوئی مشین  سٹارٹ ہو گے ھو  میرے ہر دھکے سے اب وو ہلکے ہلکے چیختی جاتی تھی  میں نے کہا ثنا مجھے تمری گند میں بھی اپنا لن ڈالنا ہے وو بولی نہیں نہیں شارق میں اب یہاں بھی برداشت نہیں کر پا رہی پلیز  اب باہر نکل لو نا میں اسسے ہاتھ سے فارغ کر دیتی ہوں میں نا اس کی کسی بات پے دھیان نا دیا اور اسے زوردار طریقنے   سے چودتا رہا  وو اب چلا رہی تھی شارق بس کرو جانو پلیز بس کرو میں بس دھکے ماری جا رہا تھا اب کی بار میں نے اسے وحشیوں کی طرح چودا تھا  وو اب میرے نیچے تڑپ رہی تھی کسی طرح اس کی جان چھوٹ جائے پر میں اب بنا رکے دھکے پے دھکا  مارنے لگا وو بولی پلیز کچھ در ہی رک جاؤ ہے میری ماں میں مر گئی

اس س س س س س س س ‘ ام م م م م م ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف ف شارق پلیز ایک دفع  رک جو میری جان نکل جائے گی  ش ش ش ش ش ش ش ش ناں کرو اب بس کرو اس کے ساتھ اس کے ہاتھ میری کمر پر سخت سے سخت ہوتے جارہے تھے تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر سے فارغ ہو گے  وو اب تک تین دفع فارغ ہو  چکی تھی  میں ابھی تک ویسے کا ویسا  ہی تھا  میں بنا رکے اسی طرح اسے چودے جا رہا تھا

اب کی بار اس کی چیخیں پہلے سے بھی زیادہ زور دار تھیں    اب کی بار اس کے منہ سے نکلنے والی چیخیں شائد پہلے سے زیادہ اونچی آواز میں تھیں وو  درد کی وجہ سے بے حال ہوئے جارہی تھی میں ایک بار پھر اس کے اوپر لیٹ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر ایک اور جھٹکا دے مارا جس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے اوووووووووووں کی آواز اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے اب میں نے اپنے لن کو آہستہ آہست سے اندر باہر کرنا شروع کردیا اور تقریباً پندرہ منٹ میں فارغ ہوگیا میں نے اپنا سارا پانی اس کی گرم چوت میں ہی چھوڑ دیا  اب اس نے مجھے زور سے اپنے گالی لگا لیا اور روٹی آواز میں کہا شارق آپ  تو واقعی  جانوروں کی طرح  چودتے ہیں جو لڑکی ایک دفع آپ سے چدوا لے گے وو کبھی کسی اور کے بارے میں نہیں سوچ سکتی اور روتے روتے ہی ہنس دی اور کہا آئی .لو .یو  شارق مجھے برا مزہ آیا ہے میں نےکہا ثنا مجھے تمہاری گاند بھی لینی ہے وو بولی ظالم آج رحم کھاؤ اگلی دفع جو مرضی کر لینا میں پہلے ہی درد سیمرننے والی ہوں اور مجھے ہونٹوں سے چومنے لگی میں نے بھی اسے کس کی اور اس کے اپر سے اٹھ گیا وو بھی اٹھی تو  لڑکھڑا  گی اس سے سہی طرح چلا نہیں جا رہا تھا اس کی تانگہیں خوں اور منی سے لتھڑی ہوئی تھیں وو بولی  دیکھا کیا حال کیہے تمہارے اس جانباز نے میری اس کنواری چھاؤنی کو ہر طرح سے تباہ کر دیا ہے  میں نے اسے سہارا دیا اور واش روم لے گیا وہاں ہم نے اپنے اپ کو صاف کیا اور میں اسے اپنی بانہوں میں اٹھے ہی باہر لے آیا وو میرے ہونٹوں پے ایک کس کر کے بولی شارق میں اب جاؤں کافی ٹائم ہو گیا ہے اس نے کپڑے پہنے اور میں ے اب اسے فریش جوس دیا وو پیتے ہوے بولی شارق پلیز مجھے گھر چھوڑ او  میں نے کہا ٹھیک ہے پھر میں اسے اس کے گھر کے باہر چھوڑ کے واپس آ گیا میں بھی اب آتے ہی نہا کر لیٹ گیا   کیوں کے مجھے رات کو کسی سے ملنا تھا

رات کو میں اٹھا اور تیار ہو کر  قاروقی صاحب کے گھر چل دیا وہاں میری ملاقات ایک آدمی سے ملاقات ہوئی وو اپنے لباس سے کافی امیر لگ رہا تھا فاروقی صاحب نے کہا شارق یہ خواجہ ظفر صاحب ہیں  ان کا کیس  پہلے  چوہدری  احسن  صاحب کے پاس تھا اب یہ ان سے فائل لے کر ھمارے پاس اے ہیں میں نے کہا خواجہ صاحب احسن صاحب کا نام بوہت برے برے وکیلوں میں لیا جاتا ہے آپ نے ان سے کیس کیوں لیا واپس تو خواجہ صاحب نے کہا شارق صاحب احسن صاحب میرے مخالفوں سے مل گے تھے میں کیا کرتا میں نے کہا ٹھیک ہے اگر ایسی بات ہے تو یہ احسن صاحب نے بوہت غلط کیا ہے کسی بھی وکل کو یہ زیب نہیں دیتا وو ایسے اپنے کلائنٹ کے ساتھ کرے ہم آپ کا کیس لڑیں گے  پھر میں نے وو فائل لی اور پڑھنے لگا مجھے پہلی نظر میں ہی اس میں سے کچھ ایسے نکتے مل گے جو ھمارے حق میں جاتے تھے ، وو ایک قتل کا کیس تھا جس میں خواجہ صاحب کے بیٹے کو ملزم  کو مشورہ دینے میں شامل کیا گیا تھا اب میں نے وو فائل لی اور اپنے گھر آ گیا کیوں کے اگلے دِن  اس کیس کی ڈیٹ تھی  میں نے پھر کوئی چار یا پانچ گھنٹے لگا کر اس کیس کی تیاری کے نوٹس لکھے اور سو گیا اگلے دِن بارروم  میں ہم نے اپس میں ڈسکس کی ساری بات ھمارے خلاف جو وکیل کیس لڑ رہا تھا وو اس شہر کا جانا منا کریمنل کیسوں میں ماہرسمجھا  جاتا تھا اور ابھی تک کوی کیس نہیں ہارا تھا  اب جج ارشاد علی گھمن صاحب کی عدالت میں ہم پیش ہوے انہی کے پاس اس کیس کی ٹرائل چل رہی تھی  استغاثہ کا وکیل رانا عارف تھا جس کی جج حضرات  بھی عزت کرتے تھے اب ھمارے موکل کو آواز لگی اور خواجہ  صاحب کا بیٹا کاشف دوسرے ملزم طارق کے ساتھ پیس ہوا تو وکیل استغاثہ رانا صاحب نے ملزموں کے خلاف  کافی دھواں دار دلائل دے  اب جج صاحب نے کہا جی وکیل صفائی  کیا کہتے ہیں اب فاروقی صاحب نے اپنا وکالت نامہ عدالت میں پیش کیا  اور پھر فاروقی صاحب نے ایسے ایسے دلائل دئے کے ساری عدالت واہ واہ کر اٹھی جو دلائل میں نے ان کے لئے تیار کیے تھے  وو انہوں نے بری خوبصورتی سے ہر لفظ ادا کیا پھر موقع کے گواہ پے بھی کافی جرح کی دونوں گواہ اپنےبیانات سے کئی دفع اکھڑے اب جج صاحب نے  ایک گھنٹے کا وقفہ دیا کیوں کے ہم نے آج خواجہ صاحب کے بیٹے  کی ضمانت کی درخواست بھی دی تھی ایک گھنٹے بعد اس کی بحث تھی

پھر ایک گھنٹہ ہم نے بارروم میں ہی گزارا سرے ہی وکیل اب فاروقی  صاحب کی تعریف کر رہے تھے ایک سینئیر وکیل نے کہا  فاروقی صاحب ایسا کون سا چراغ کا جن آپ کے قابو میں آ گیا ہے کے آج کل ہر وکیل کی تباہی مچا
ۓ  جا رہے ہیں  اب تو آپ کے سامنے کیس پکرتے ہوے سوچنا پڑتا ہے فاروقی صاحب نے  کہا بس میرے مولا کا کرم ہو گیا ہے مجھ پے ان کا لہجہ بڑی عاجزی لئے ہوے تھا  پھر ایک گھنٹے بعد ہم پھر عدالت میں پیش ہوے اور کوئی ایک گھنٹے کی بھر پور بحث کے بعد ہماری ضمانت کی درخواست  جج صاحب نے قبول کر لی  اور کہا  آپ پانچ لاکھ کی ضمانت کا مچلکہ جمع کرا دیں خواجہ صاحب نے اسی وقت مچلکے دئے اور ہم نے بعد میں خواجہ صاحب کے بیٹے کو آزاد کرا لیا  خواجہ صاحب تو ہماے آگے بچھے جا رہے تھے  اسی رات کو خواجہ صاحب نے  فاروقی  صاحب کو  طا شدہ فیس سے بھی زیادہ  دئے    پھر بولے ایک درخواست ہے  آپ سے شارق صاحب میں نے کہا جی بولیں وو بولے میرا  ایک فلیٹ ہے ظہور بلڈنگ میں  اگر آپ مہربانی کریں تو وہاں اپنا دفتر بنا لیں پلیز انکار نہیں سنوں گا میں خواجہ صاحب نے جیسس بلڈنگ کا نام لیا تھا وہاں پہلے بھی کافی وکیلوں کے آفس تھے وو بوہت قیمتی جگہ تھی میں نے کہا خواجہ صاحب وو بوہت قیمتی  جگہ ہے   تو وو بولے میرے پاس وو بیکار ہی پر ہے پلیز آپ من جایئں تو مجھے لگے گا  آپ مجھے اپنا سمجھتے ہیں آخر کار ہم مان گے  پھر کوئی تین روز بعد جب خواجہ صاحب اپنے بیٹے کاشف کے ساتھ اے تو ہم ان کے ساتھ چل دئے وو فلیٹ دیکھنے  فلیٹ کو دیکھ کر میں اور فاروقی صاحب حیران رہ گے کیوں کے فلیٹ اب ایک بہترین  آفس کی شکل میں تھا جس کے باہر قاروقی اینڈ کمپنی کا بورڈ لگا تھا اور اندر تو کمال  حکیا گیا تھا لاکھوں روپے لگا کر خواجہ صاحب نے تین کمرے دفتر کی شکل میں بنادئیے تھے  ایک میرا ایک فاروقی صاحب کا اور ایک اضافی اورباہر سیکٹری  کے لئے بھی ایک روم تھا ہر روم میں دو دو سیٹ صوفے تھے ہر چیز  بوہت مہنگی تھی ہر ہماری تو آنکھیں فتنے والی ہو گیں تھیں مجھے نہیں لگتا تھا اس شہر میں کسی وکیل کا اتنا خوبصورت دفتر ہو گا میں نے کہا خواجہ صاحب یہ سب کیا ہے تو مجھے گلے لگا لیا خواجہ صاحب نے اور بھیگے لہجے میں بولے بیٹا کاشف میرا اکلوتا بیٹا  ہے جو میری شادی کے ١٠ سال بعد پیدا ہوا تھا  اور خدا کے بعد میں تمہارا شکر گزار ہوں تم نے میرے بیٹے کو بچا لیا

پلیز کچھ نہ کہنا یہ سمجھو مجھے خوشی محسوس ہو گی جب تم اس دفتر میں بیٹھو گے پھر فاروقی صحابنے کہا ٹھیک ہے خواجہ صاحب اور ہم نے اگلے دِن اپنا سارا سامان اس دفتر میں شفٹ کر دیا  پھر خواجہ صاحب نے تین چار نوکر رکھ لئے اس دفتر میں کیوں کے اب ھمارے پاس اتنے کیس آ رہے تھے کے ھمارے پاس سر خارش  کرنے کا بھی ٹائم نہیں مل پاتا تھا  پھر ایک دِن عدالت کے باہر مجھے بھائی نصرت نے کہا تم کو آج ڈیڈی نے گھر بلایا ہے میں نے کہا میں حاضر ہو جاؤں گا