SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

جمعہ، 5 مارچ، 2021

بھاگم بھاگ تحریر: ماہر جی




 بھاگم بھاگ

  تحریر: ماہر جی

 میں آپکو جو کہانی سنانے جا رہا ہوں وہ میرے ایک دوست کی ہے جو بچپن میں اپنی پڑھائی چھوڑ کر پرچون کی دوکان چلانے لگا۔ اس کے مطابق میں نے جس محلے میں پرچون کی دوکان کی وہیں پر مجھے دوکان چلاتے تقریبا دس سال گزر گئے پہلے ساتھ ابا بیٹھتے تھے پھر وہ بوڑھے ہوئے تو میں اکیلا ہی دوکان سمبھالنے لگا۔ جس محلے میں میں نے دوکان کی وہاں میری دوکان کے سامنے والا گھر نواب صاحب کا تھا ویسے تو ان کا نام مرزا منیر تھا مگر لوگ ان کو نواب صاحب کے نام سے ہی جانتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بڑے، آباو اجداد رئیس نواب گزرے تھے مگر اب ان کے حالات ایسے نہ تھے مگر لوگ پھر بھی انہیں نواب صاحب ہی کہہ کر بلاتے تھے نواب صاحب کی اور میری عمر تقریبا پینتیس چھتیس سال تھی یا ایک دو سال کا ہی فرق ہو گا۔ نواب صاحب کے دو بچے تھے جبکہ نواب صاحب کی بیوی برقع بہنتی تھی اس لیے اس کا چہرہ دیکھنے کا کبھی موقع ہی نہ مل سکا۔ ایک دن میں دوکان پر بیٹھا تھا تو مجھے ایک محلے دار نے آ کر بتایا کہ نواب صاحب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ مجھے نواب صاحب کے مرنے کی خبر سن کر بہت افسوس ہوا۔ پھر دن اسی طرح گزرتے رہے۔ ایک دن نواب صاحب کا بڑا بیٹا جس کی عمر تقریبا پانچ سال ہو گی وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ سامنے دروازے پر امی بلا رہی ہیں۔ میں دوکان چھوڑ کر نواب صاحب کے دروازے پر گیا تو وہاں نواب صاحب کی بیوی دروازے کی اوڑ میں کھڑی تھی۔ اس نے دروازے کے پیچھے سے ہی کہا کہ مجھے آپ کی دوکان سے کچھ سامان چاہیئے تھا مگر میرے پاس ابھی پیسے نہیں ہیں میں آپکو بعد میں پیسے دے دوں گی۔ کیوں کہ مجھے اس محلے میں دوکان کرتے کافی عرصہ ہو گیا تھا اور ویسے بھی نواب صاحب میرے ہمسایہ تھے تو میں نے نواب صاحب کی بیوی کو کہا کہ آپ مجھے سامان بتا دیں میں دوکان سے وہ سامان آپکو لا کر دے دیتا ہوں۔ نواب صاحب کی بیوی نے ایک پرچی جس پر کچھ سامان لکھا تھا وہ مجھے تھما دی۔ میں نے وہ پرچی لی اور واپس دوکان پر آ گیا۔ سامان میں کچھ دالیں ، آٹا اور کچھ دیگر سامان لکھا تھا۔ میں نے تمام سامان شاپنگ بیگز میں ڈالا اور ایک ہاتھ میں آٹے کا تھیلا پکڑا اور دوبارہ نواب صاحب کے گھر کے سامنے چلا گیا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو دوبارہ نواب صاحب کی بیوہ دروازے کے پیچھے آ گئی میں نے کہا جی میں سامان لے آیا ہوں اور یہ سامان کی پرچی ہے۔ میں نے شاپنگ بیگ نواب صاحب کی بیوہ کو پکڑا دیا تو اس نے وہ اپنے پیچھے رکھ دیا اور میں نے اسے اب بیس کلو آٹے کا تھیلا پکڑانا چاہا تو وہ اس کے ایک ہاتھ میں تھم ہی نا سکا اور آٹے کا تھیلا وہیں نیچے گر گیا۔ میں نے اسے کہا کہ آٹے کا وزن زیادہ ہے اگر آپ کہیں تو میں اسے اندر رکھ دوں تو اس نے کہا جی ٹھیک ہے اور اس نے ساتھ ہی دروازہ کھول دیا۔ وہ میرے آگے آگے چل رہی تھی جبکہ میں اس کے پیچے ہم صحن میں سے گزر کر پچھلے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے آٹے کا تھیلا نیچے زمین پر رکھا تو اس نے کہا آپکا بہت بہت شکریہ۔ جب اس نے مجھے شکریہ کہا وہ دس سال میں پہلا موقع تھا جب میری نظر نواب صاحب کی بیوی پر پڑی تھی نہیں تو کبھی ایسا موقع ہی نہ ملا تھا کہ میں یا کوئی اور اسے دیکھ پاتا۔ جیسے ہی میں نے نواب صاحب کی بیوی کو دیکھا میں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ میں نے سچ میں اتنی خوبصورت لڑکی آج تک اپنی زندگی میں نہ دیکھی تھی اس کے تمام نین تقش ایسے تراشے گئے تھے کہ جو بھی دیکھتا اس کی نظر وہیں جم جاتی۔ نہ صرف اس کے نین نقش بلکہ اس کے جسم کے تمام اعضاء اس قدر تناسب سے بنانے والے نے بنائے تھے کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا اس کی عمر تقریبا چوبیس پچیس سال تھی ۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنی نظروں کو نیچے جھکایا اور کہا کہ کوئی بات نہیں ہمسایوں کا اتنا تو فرض ہوتا ہے کہہ کر واپس دوکان پر آگیا۔ واپس آ کر کافی دیر تک وہ میرے ذہن پر سوار رہی۔ بار بار اسی کا چہرہ میری نظروں کے سامنے آ جاتا۔ مگر میں ایسا انسان بھی نہیں تھا جو کسی کی ماں بہن پر بڑی نظر رکھے۔ خیر وہ رات اسے بھلانے کے باوجود بہت مشکل سے کٹی۔ دو تین دن اسی طرح گزر گئے۔ اس کے بارے میں نہ سوچنے کی کوشش کرنے کے باوجود میری نظر بار بار نواب صاحب کے گھر کی طرف چلی جاتی۔ اسی طرح تیسرے دن نواب صاحب کا وہی لڑکا پھر میرے پاس آیا اور بولا کہ امی آپ کو بلا رہی ہیں۔ میں دوبارہ دوکان چھوڑ کر نواب صاحب کے دروازے پر چلا گیا۔ وہاں نواب صاحب کی بیوہ دروازے کے پیچھے کھڑی تھی مگر آج اور اس دن میں یہ فرق تھا کہ آج باقی جسم تو دروازے کے پیچھے تھا مگر اس کا چہر دروازے سے باہر۔ میں نے اس کا دیدار کیا تو پتہ نہیں کیوں دل کو سکون سا ملا۔ میں نے پوچھا جی فرمایئے۔ تو اس نے کہا کہ مہربانی کر کہ آپ جب اپنی دوکان کا بل جمع کروانے جائیں تو ہمارے گھر کا بھی جمع کروا دیجئے گا۔ میں نے کہا یہ تو کوئی کام ہی نہیں لایئے میں کروا دوں گا اور اس نے بل کے پیسے اور بل مجھے تما دیا جبکہ بل تماتے وقت اس کے ہاتھ کو میرا ہاتھ مس کر گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے جسم میں چار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگ گیا ہو۔ میں بل لے کر واپس دوکان پر آ گیا۔ پھر اس طرح نواب صاحب کی بیوہ کو کوئی بھی کام ہوتا وہ مجھے ہی یاد کرتی اس طرح مجھے اس کا دیدار بھی ھو جاتا۔ اب میری حالت یہ تھی کہ مجھے اسے دیکھے بنا سکون ہی نہیں ملتا تھا اور جب بھی اس کے بارے میں سوچتا زہن میں گندے گندے خیال آ جاتے۔ یہاں تک کہ کئی بار مجھے خواب میں اس کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے اختلام بھی ہو گیا۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں دوکان پر بیٹھا تھا کہ نواب صاحب کی بیوہ نے میرے پاس اپنے لڑکے کو بھیجا میں جب دوکان سے اٹھ کر گیا تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے اپنا شناختی کارڈ بنوانا ہے پہلا شناختی کارڈ گم ہو گیا ہے اس لیے نواب صاحب کی پینشن ملنے میں بہت مسئلہ ہو رہا ہے کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں تو میں نے کہا کہ کیوں نہیں میں آپکو شناختی کارڈ کا فارم لا دوں گا آپ مجھے پڑ کر کے دے دیجئے گا۔ اس نے کہا آپکا بہت بہت شکریہ۔ پھر میں نے اپنے ایک دوست کو کہہ کر شناختی کارڈ فارم منگوایا اور دو دن بعد دوبارہ نواب صاحب کے گھر چلا گیا۔ نواب صاحب کی بیوہ دروازے پر آئی تو میں نے اسے بتایا کہ اس پر اس کی تصویر بھی لگے گی اور ساتھ آپکو نادرہ کے آفس جانا ہو گا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے مگر کیا آپ میرے ساتھ نہیں جائیں گے کیا؟ تو میں نے کہا بے فکر رہیں میں آپکے ساتھ چلا جاوں گا اور میں دوبارہ دوکان پر واپس آ گیا۔ اگلے دن میں نے اپنی بائیک لی اور سیدھا دوکان کی بجائے نواب صاحب کے گھر کے چلا گیا۔ دروازہ ہلایا تو نواب صاحب کی بیوہ باہرآئی میں نے کہا چلیں نادرہ کے آفس چلنا تھا اس لیے میں آ گیا ہوں۔ میں نے اسی لیے آج دوکان نہیں کھولی سوچا پہلے آپکا کام کروا دوں پھر دوکان کھولوں گا۔ اس نے کہا آپ پھر اندر آ جائیں میں کپڑے بدل لوں بس۔ میں نے کہا نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں تو وہ بولی کوئی بات نہیں آپ آ جائیں اور میں اس کے پیچھے پیچھے اندر چل دیا۔ اندر جا کر اس نے مجھے صوفے پر بٹھایا اور میرے لیے چائے بنانے چلی گئی۔ پھر مجھے جائے دے کر وہ واش روم میں چلی گئی اور میں باہر بیٹھ کر چائے پیتا رہا جب کہ اس کا بڑا بیٹا اس وقت سکول چا چکا تھا۔ میں ابھی چائے ہی پی رہا تھا کہ اتنے میں وہ لڑکی باتھ روم سے نہا کر گیلے بالوں کے ساتھ باہر نکلی۔ اس نے اپنے بالوں کے گرد تولیہ لپیٹ رکھا تھا۔ اس نے کہا میں معافی چاہتی ہوں آپکو میری وجہ سے بہت انتظار کرنا پڑ رہا ہے اور وہ جلدی جلدی ڈریسنگ کی طرف چل دی جو کہ ڈرائینگ روم کے ساتھ والے برآمدے میں پڑی تھی۔ جیسے ہی وہ چلی تو میری نظر اس کی قمیض پر پڑی تو اس کی زپ کھلی تھی۔ شائد وہ زپ بند کرنا بھول گئی تھی۔ جبکہ قمیص میں سے اس کے برا کی سٹپس صاف نظر آ رہی تھیں میں نے اسے کہا کہ آپکی قمیض کی زپ کھلی ہے شائد آپ بند کرنا بھول گئی ہیں۔ اس نے جلدی سے اپنے ہاتھ پیچھے کی جانب کئے اور زپ اوپر کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ مگر جلد بازی میں اس سے زپ بند نہ ہو سکی اور اس کی زپ تھوڑی سی اوپر جا کر اٹک گئی اس نے زور لگانا شروع کر دیا تو میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اسے کہا لایئے میں بند کر دیتا ہوں۔ میں اس کے پاس گیا اور اس کی قمیض کی ہک پکڑ کر اوپر کرنا شروع کر دی مگر دل نہیں چاہ رہا تھا کہ زپ جلدی سے بند ہو جائے میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ہاتھ کی انگلا اس کی پیٹھ پر اور برا کی سٹیپ پر پھیرنا شروع کر دیں۔ میرے اس سب کرنے کے باوجود وہ بالکل خاموش رہی۔ تبھی میں نے اپنا پورا ہاتھ اس کی قمیض میں گھسا دیا اب میرا ہاتھ اس کی نرم و نازک پیٹھ پر رینگ رہا تھا۔ مگر وہ اب بھی خاموش تھی۔ میں نے تبھی اس کے برا کی ہک کھول دی اور اس کا چہرا اپنی جانب کر لیا۔ جیسے ہی اس کا چہرا میرے سامنے آیا اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ میں نے اس کے ہونٹوں پر کس کرنا شروع کر دی۔ ابھی میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے ہی تھے کے وہ بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اس نے بھی میری کس کا جواب اپنے ہونٹوں کی سرسراہٹ سے دینا شروع کر دیا۔ میں نے اسے اپنے بانہوں میں دبوچ لیا اور اسے اسی کی بیڈ روم میں اٹھا کر لے گیا اور وہاں جا کر اس کی قیمیض اتار دی۔ اب اس کا چاندی جیسا جسم میرے سامنے بالکل ننگا تھا۔ اس کے گول گول ممے پہلے ہی برا سے آزاد ہو چکے تھے میں نے اب اس کے گول گول چھاتیوں کو چومنا اور چوسنا شروع کر دیا۔ وہ سچ میں بہت خوبصورت تھی نہ صرف چہرے سے بلکہ اس کا جسم بھی بہت خوبصورت تھا یہاں تک کے اس کے مموں کے نیپلز بھی گلابی تھے۔ دل چاہ رہا تھا کہ بس ساری زندگی ان مموں کو چوستے ہی گزر جائے۔ میں نے تبھی اس کی شلوار کی جانب دیکھا اور جھٹ سے اس کی شلوار اتار دی جبکہ اس وقت وہ بھی میرے ساتھ ساتھ میرے سیکس کی دنیا میں مکمل طور پر کھو چکی تھی۔میں نے بھی اپنی شلوار اتار دی اور اپنا ساڑھے چھ انچ کا لن اس کی پھدی پر رگرنے لگا۔ جیسے ہی میرا لن اس کی چوت کو چھوتا وہ ہلکی سی آہ بھر لیتی اور میرا لن اور زیادہ تن جاتا۔ پھر ایک ہی لمحے میں اس کی چوت گیلی ہو گئی میں نے یہی مناسب وقت سمجھا اور اپنا لن اس کی چوت میں گھسا دیا۔ میرا لن اس کی چوت میں آسانی سے چلا گیا۔ مگر اس چوت کی تنگی میرے لن کو محسوس ہو رہی تھی یعنی اس کی پھدی ابھی پھدا نہیں بنی تھی۔ میں جیسے جیسے اس کی پھدی کو جھٹکے دیتا وہ اس قدر سسکیاں بھرتی جاتی۔ یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ وہ میرے سیکس میں اس قدر مدہوش ہو گئی کہ وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی خود سے اوپر نیچے ہونے لگی۔ میں بھی اس کے سیکس کے پیار میں اس قدر انجوائے کر رہا تھا کہ میں دس منٹ میں ہی فارغ ہو گیا۔ مگر فارغ ہونے کے باوجود دل اس سے بھرا نہ تھا۔ دل ابھی بھی یہی چاہ رہا تھا کہ اس کے ساتھ سیکس کرتا جاوں اسی لیے میرا لن کچھ ہی لمحوں میں دوبارہ چدائی کے لیے تیار ہو گیا۔ میں نے اسی وقت اپنا اس کے مموں پر رکھ کر ان کے سنٹر میں رگڑنا شروع کر دیا۔ میرے اس طریقہ کو وہ خود بھی انجوائے کر رہی تھی اسی لیے اس نے اپنے ممے سائیڈوں سے خود پکڑ رکھے تھے۔ پھر تین چار منٹ بعد میں نے اسے اٹھنے کو کہا اور اسے گانڈ والی سائیڈ میری جانب کرنے کو کہا۔ وہ اس کام کے لیے نہ مانی مگر میں نے کہا کچھ نہیں ہو گا جیسے تم سیکس انجوائے کرنا چاہتی ہو ویسے ہی میں بھی چاہتا ہوں اور اس سے تو ہم دونوں کو مزہ آئے گا تبھی وہ بولی آپ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں میں آپکو نہ نہیں کر سکتی اور وہ خود ہی ڈوگی سٹائل بناتے ہوئے میرے سامنے کوڈی وہ گئی اب اس کی گانڈ بالکل میرے سامنے میرے لنڈ کے نشانے پر تھی۔میں نے وقت ضائع کیے بنا اور تیل لگائے بغیر اپنا لن اس کی گانڈ میں گھسانا چاہا۔ مگر اس کی گانڈ ابھی چدی نہیں تھی س لیے لن تھا کہ اس کی گانڈ میں گھسنے ہی نہیں پا رہا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ کو اپنی تھوک سے گیلا کیا اور اپنی تھوک اپنے لنڈ کے ٹوپے پر لگا دی اب دوبارہ میں نے اپنا لنڈ اس کی گانڈ پر رکھ دیا اس بار میرا لن پہلے ہی جھٹکے میں اس کی گانڈ میں گھس گیا۔ مگر وہ میرے لن کا دخول برداشت نہ کر سکی اور اس نے مجھے کہا کہ پلیز اسے نکال لیں مجھ سے سچ مچ برداشت نہیں ہو رہا۔ بہت درد ہو رہا ہے۔ میں نے لن کا کوئی جھٹکا نہ لگایا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اسے درد ہو رہی ہے اور میں نے لن باہر نکالے بنا اسے کہا کہ میں نے لن باہر نکال لیا ہے۔ جبکہ میرا لن ابھی اس کی گانڈ میں ہی تھا۔ اس نے کہا نہیں مجھے آپکا لن میری بنڈ میں ہی محسوس ہو رہا ہے۔ تو میں نے دوبارہ کہا ایسا نہیں ہے۔ پھر اسے کچھ اطمینان ہو گیا۔ جب وہ تھوڑا مطمین ہو گئی تو میں نے اپنے لن کے ہلکے ہلکے جھٹکے دینا شروع کر دیا۔ مگر اب کی بار اسے درد بہت کم ہو رہا تھا اور پھر کچھ ہی لمحوں میں وقت آیا کہ اسے بھی مزا آرہا تھا اور وہ میرا لن اپنی گانڈ میں انجوائے کر رہی تھی۔ اب بھی میرے دوست کی دوکان وہیں ہے مگر نواب صاحب کی بیوہ وہاں سے گھر چھوڑ کر اپنے بھائی کے ہاں جا چکی ہے۔ مگر پھر بھی میرا دوست اور وہ کبھی کبھار ہوٹل میں مل کر سیکس کر لیتے ہیں۔ 

ختم شُد

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest