SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

جمعرات، 4 مارچ، 2021

مدہوشی تحریر: ماہر جی

 




 مدہوشی

تحریر: ماہر جی

میرا نام ماہر ہے ۔ مجھے سب ماہر جی کے نام سے پکارتے ہیں۔ میٹرک کی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد تین مہینوں کی چھٹیوں کے باعث میں ، ماموں کے کہنے پر ان کی موبائل شاپ پر بیٹھنا شروع ہوگیا۔ ابتدائی ایام مشکل سے گزرے لیکن پھر میں ماموں کی دکان کے متعلق سب کچھ سیکھتا چلا گیا۔

ویسے بھی زمانہ طالب علمی میں بچوں میں کسی چیز کو سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اس لیے میں چند ایام میں ہی ان کی دکان کا ہر کام سیکھ چکا تھا پھر انہوں نے شہر سے کاریگر کو بلا رکھا تھا جس سے میں کام سیکھتا رہا۔

تین مہینے مکمل ہونے کے بعد میں نے آئی کام میں داخلہ لیا اور پہلے ٹائم کالج جانے لگا جبکہ چھٹی کے بعد ماموں کی دکان پر ہی کھانا کھا کر ان کی دکان دیکھتا رہتا، شام کو ماموں مجھے بائیک پر گھر لے جاتے ، زمانہ کالج ماموں نے بائیک چلانا بھی سیکھا دی کیونکہ وہ خود بائیک چلانے میں اتنا ماہر نہیں تھے ۔

کالج میں ابتدا میں ہی میرے تین دوست بن گئے تھے احسن ، اسرار، حمزہ۔ احسن  اور اسرار کے ساتھ میری دوستی ریاضی کے مضمون کی وجہ سے ہوئی ہم تینوں نے ہمیشہ سے پروفیسر خورشید کو حیرت زدہ کیا تھا اس لیے انہوں نے ہم تینوں کو اپنی کلاس کا مانیٹر بنا دیا تھا ۔میں ہمیشہ سے کلاس میں کم گو رہا تھا اس لیے شاید حمزہ کی توجہ اسرار اور احسن سے زیادہ مجھ پر رہی وہ بھی بہت جلد میرے دوستوں میں شمار ہونے لگا تھا۔

دوسری جانب ماموں اب مجھے دکان پر بیٹھنے کی باقاعدہ تنخواہ دینا شروع کردی تھی جوکہ ماموں پہلے میری امی کو دیتے تھے پھر ان کی انتقال کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ہی گھر رکھ لیا تھا میں چونکہ اکلوتا بیٹا تھا اس لیے مامی نے بھی بخوشی مجھے اپنا لیا تھا لیکن پہلے پہل ان کا رویہ میرے لیے خشک ہی تھا لیکن رفتہ رفتہ مجھے بھی ان کی عادت ہوچلی تھی ۔

ایک دن میں کالج دیر سے پہنچا تو حمزہ اور اسرار ، احسن کو تنگ کر رہے تھے میں نے پہلے خاموشی ہی اختیار کی رکھی پھر جیسے ہی حمزہ نے مجھے احسن کی منگنی کی خبر سنائی تو میں بھی دوستوں کی خوشی میں خوش ہوگیا۔ میں بھی احسن کو چھیڑنے لگا۔

وہ بھی ہم دوستوں کی چھیڑخانی سے شرمانے لگا اس وقت میں نے محبت یا پسندیدگی کا جذبہ احسن کے ذریعے خود میں محسوس کیا تھا۔ اگلے دن احسن کی غیر موجودگی میں حمزہ نے ہی مجھے احسن کی منگیتر (ہونے والی بیوی) کی تصویر دکھائی۔

میں نے احسن کی منگیتر کی خوبصورتی کی صدق دل سے تعریف کی کیونکہ وہ سچ میں کافی خوبصورت تھی۔ حمزہ نے سرگوشی والے انداز میں مجھ سے کہا: عادی! مجھے ایک بات پر شک ہے۔

میں : کون سی بات پر؟

حمزہ: یہاں نہیں، واش روم کی طرف چلتے ہیں

کلاس میں کوئی پروفیسر موجود نہیں تھے، اس لیے میں بھی تجسس میں اس کے پیچھے چل پڑا واش رومز کے عقب میں ہم کھڑے ہوگئے جہاں فلحال کوئی بھی طالب علم موجود نہیں تھا۔ چونکہ ہم اب سیکنڈ ائیر میں پہنچ چکے تھے اس لیے ہمیں کالج بنک کرنے والوں میں کوئی بھی شمار نہیں کر سکتا تھا۔

میں بولا: اب بول۔۔۔ تجھے کس بات پر شک ہے؟

حمزہ نے ایک بار آس پاس نظر گھمائی پھر مجھے اپنے جیب سے ایک ٹچ فون نکال کر کہنے لگا: وعدہ کر ، یہ راز صرف ہم دونوں کےد رمیان میں رہے گا

میں نے اس کی آنکھوں میں عجیب سا تاثر دیکھا تھا میں نے بھی تجسس کے مارے اس کو ہاں کہہ دی: اچھا ٹھیک ہے۔۔ میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتاوں گا

حمزہ نے ایک بار پھرمیر ی طرف گہری نظر وں سے دیکھا اور مجھ سے کہا: تجھے ہم دونوں کی دوستی کی قسم! اگر تُو نے اسرار کی طرح یہ بات احسن کو بتائی تو تیری خیر نہیں عادی!

مجھ پر یہ حقیقت ظاہر ہوچکی تھی کہ یہ بات احسن کے متعلقہ تھی۔ میرا دل بے چین ہوگیا تھا کیونکہ میں سچ میں احسن اور اسرار کو اپنا حقیقی دوست سمجھتا تھا۔

میں نے ہامی بھر لی تب اس نے موبائل کا لاک کھول کر مجھے موبائل پکڑا دیا۔ ویڈیو چل رہی تھی لیکن سکرین دھندلی ہی تھی۔ وہ مجھے کسی کے آنے پر میرا ہاتھ تھامے واش روم سے کچھ دور درختوں کے جھنڈ کی جانب لے گیا جہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ ویڈیو کے ابتدائی سیکنڈز دھندلے گزرے لیکن جیسے ہی دھند ختم ہوئی مجھے احسن کا چہرہ نظر آیا ۔ وہ احسن ہی تھا جوں جوں ویڈیو آگے بڑھتی گئی میرا جسم عجیب سی کیفیت کی وجہ سے کانپنے لگا تھا۔

جیسے ہی ویڈیو کااختتام ہوا میں حمزہ کی شک والی بات سمجھ چکا تھا۔ حمزہ نے میرے ہاتھ سے موبائل پکڑ لیا اور مجھ سے بولا: اب میری بات پر یقین آیا؟

میں خاموش اسے خالی خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا تب وہ دوبارہ بولا: مجھے شک تھا کہ احسن سے اتنی سیکسی ہاٹ لڑکی نے منگنی کیسے کرلی؟

میں نے ہکلاتے ہوئے حمزہ سے پوچھا: یہ ویڈیو تمہیں کیسے ملی؟

حمزہ کمینگی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولا: احسن کے موبائل سے

میں نے حیرت سے اسے دیکھا پھر اس نے میری سوالیہ نظروں کا جواب دیتے ہوئے سب کچھ بتا دیا۔ اگلے دن کچھ بھی خاص نہ ہوا بس احسن نے بتایا کہ اس کے سسرال والے ملنی (منگنی کے بعد سسرالیے دلہے کے گھر آتے ہیں اور کچھ رسومات ہوتی ہیں) کرنے آئے ہوئے تھے ، انہی کی خاطر مدارت میں کل کا دن گزرا۔

پروفیسر خورشید کے آنے کے بعد ہم نے ٹیسٹ کے لیے نگرانی شروع کردی تب اچانک اسرار نے مجھے سرگوشی والے انداز میں کہا: حمزہ نے تمہیں بھی وہی ویڈیو دکھائی تھی نا؟ (وہ جلدی سے اپنی لائن کی طرف متوجہ ہوگیا پھر جب ہم دوبارہ قریب آئے تو وہ بولا) حمزہ سچ میں بہت کمینہ ہے اس سے بچ کر رہنا

میں اسرار کی باتیں سن کر خاموش ہی رہا، پیپر جیسے ہی مکمل ہوا ہم تینوں نے اپنی لائنز آپس میں تبدیل کی اور پیپر چیک کرنے لگے۔ اس بات کا علم صرف پروفیسر خورشید کو ہوتا تھا یا ہمیں تینوں کو۔

حمزہ نے اپنے پیپر پر کچھ بھی نہیں لکھا جس کا علم مجھے بعد میں ہوا تھا اسے معلوم تھا کہ اس کا پیپر احسن چیک کرے گا کیونکہ وہ اسے بلیک میل کر رہا تھا لیکن اس کا پیپر اسرار نے چیک کیا تھا۔

اس دن پروفیسر خورشید شاید گھر سے لڑجھگڑ کر آئے تھے اس لیے انہوں نے جرمانہ بھی لیا اور فیل ہونے والوں کو کھری کھری بھی سنا دی۔

کالج سے واپسی پر حمزہ نے احسن کو گھیر لیا لیکن ہم دونوں کی مداخلت سے وہ خاموشی سے لیکن غصے میں بھرا ہوا اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔

اسرار اور حمزہ کے گھر ایک ہی راستے میں آتے تھے جبکہ احسن اور میرا گھر ایک ہی راستے پر تھا لیکن مجھے دکان پر بیٹھنا ہوتا تھا اس لیے میں گھر جانے کی بجائے دکان پر ہی چلا جاتا تھا جو کہ چوک میں تھی۔

احسن میری دکان کے قریب پہنچا تو میں نے اس کو تسلی دی لیکن وہ آب دیدہ لگ رہا تھا ۔ اس نے کچھ دیر کے بعد اپنے دل کی ساری بات مجھے بتا دی ۔ وہ دونوں بچپن سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے حمزہ کی بلیو فلمز کی بدولت اس (احسن ) پر شہوت طاری ہوئی اور ان دونوں کے درمیان شرعی پردہ شادی سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔

جس کا علم احسن کی آپی کو ہوگیا جو کہ اس سے ایک سال بڑی تھیں ۔ ان کی سمجھداری کی بنا پر یہ واقعہ سب کے سامنے نہ آسکا لیکن حمزہ کے اکسانے پر احسن نے ویڈیو بنا لی تھی جو بعد میں حمزہ نے حاصل کرلی جس کی وجہ سے احسن کے لیے مشکل کا سبب بن گئی تھی۔

ہماری ساری گفتگو ماموں نے سن لی انہوں نے احسن کو تسلی دی پھر ایک پلان ہمیں بتایا جس پر ہمیں کل عمل کرنا تھا۔ اگلے دن ہمارے پلان میں اسرار بھی شامل ہوچکا تھا اور اس پلان کو سرانجام بھی اسرار نے ہی دیا تھا۔ حمزہ چھٹی کے بعد میرے پاس آیا اور بولا: یار! یہ فون تو اپنے ماموں سے ٹھیک کروا دے۔

میں موبائل چیک کرتے ہوئے بولا: یار! یہ تو کافی مشکل سے سیٹ ہوگا

وہ بولا: نہیں یار! ایسا نہ بول

اس کے بدلتے تاثرات کا اندازہ میں نے لگا لیا تھا۔ میں نے اسی کے انداز میں کہا: چل! میں ماموں کو دیتا ہوں اگر انہوں نے تیرے فون کو سیٹ کرلیا تو ، توبدلے میں مجھے کیا دے گا؟

آخری فقرہ میں نے خود سے جوڑا تھا، وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا: اگر موبائل سیٹ ہوجائے تب تجھے اپنے کسی خاص بندے سے ملوا دوں گا، ٹھیک ہے؟

میں بولا: چل یہ تو وقت بتائے گا کہ تو مجھے کس کے پاس لے جاتا ہے

وہ بھی بس مسکرا دیا ۔ میں نے اس کا ٹوٹا ہوا موبائل اپنی جیب میں ڈالا اور گیٹ سے باہر نکل آیا۔

ماموں نے سارا ڈیٹا کاپی کیا اور فون کو ری سیٹ آل کردیا اس میں موجود جو بھی ڈیٹا تھا وہ سب صاف ہوچکا تھا۔ اب مسئلہ ایل سی ڈی کا تھا جس کی اجازت حمزہ نے ہی دینی تھی۔

اگلے دن ماموں نے ریٹ بتا دیا تو حمزہ بولا: انکل! کچھ تو کم کریں میں عادی کا دوست ہوں

ماموں بولے: بیٹا جی! مجھے معلوم ہے تم عادی کے دوست ہو اسی لیے انتہائی کم ریٹ بتایا ، (پھر ماموں نے مجھے آواز دی میں نے تین سیٹ جو کہ کچھ دیر پہلے میں نے ری اپیر کیے تھے لاکر ماموں کے حوالے کیے) یہ دیکھو یہی تمہارا سیٹ ہے نا؟

حمزہ نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ بولے : اس پر ریٹ چیک کرو

حمز ہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ حمزہ کو ماموں نے بظاہر کم ریٹ پر منوا لیا تھا لیکن یہ عام گاہک کا ہی ریٹ تھا بعد میں ، میں نے کسٹمر کے موبائل سے پرائس لسٹ اتار دی وہ ڈیڈ موبائل تھا جس کی ایل سی ڈی ماموں نے حمزہ کے موبائل میں ڈال کر چلا دی تھی۔

اگلے دن ماموں مجھے دکان پر بٹھا کر خود لاہور کے لیے نکل گئے میں رات کو دکان بند کرکے گھر پہنچا تو مامی مجھ پر برس پڑیں۔

میں نے خاموشی سے ان کی ڈانٹ سنی جب وہ خاموش ہوگئیں تو میں اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر لیٹنے کے بعد میں اٹھا اور نہا کر باہر آیا تو مامی نسرین کھانا گرم کرکے میز پر لگا چکی تھیں۔

ہم جب کھانا کھا چکے تو وہ بولیں: اتنی دیر کوئی لگاتا ہے؟

میں: دکان پر اکیلا تھا ، ماموں لاہور گئے ہوئے ہیں ، اور کل سے بجلی بند تھی اس لیے آج کام زیادہ تھا اس لیے دیر ہوگئی آئندہ دیر نہیں ہوگی مامی

مامی نے ہوں کہہ کرکھانے کے برتن اٹھا کر کچن میں چلی گئیں۔جبکہ میں نے ان کی ٹھمکتی گانڈ کی پھاڑیوں کو بس حسرت سے دیکھتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے اور ممانی نسرین کے درمیان اب پہلے والی کیمسٹری (سخت رویہ) تبدیل ہوچکا تھا ممانی اب مجھے اپنے کام کہہ دیتی جنہیں میں کردیتا تھا ۔ ممانی اور میرے درمیان اب سوکھا روکھا رویہ تقریباً ختم ہوچکا تھا لیکن مجھ پر اب بھی ممانی کا دبدبہ موجود تھا ۔

یہ دن میرے لیے مائند چینجر ثابت ہوا تھا۔ ایک طرف حمز ہ نے اپنے موبائل پر ایک بلیو فلم دکھا کر گرم کردیا تھا جبکہ دوسری طرف ماموں کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے وہ دکان کو اندر سے بند کرکے سو گئے تھے کیونکہ گھر جانے کا کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ گھر کی بجلی خراب تھی۔ اس لیے وہ دکان پر ہی سو گئے تھے۔

گھر جا کر بھی انہیں ممانی نسرین نے سکون سے سونے نہیں دینا تھا کیونکہ ان دونوں کی پسند کی شادی نہیں ہوئی تھی ابتدا میں ماموں نے ممانی کو پسند نہ کیا پھر جب وقت گزر گیا ماموں جس لڑکی کو پسند کرتے تھے اس کی شادی کسی اور سے ہوگئی تو انہوں نے جب ممانی نسرین کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کی تو ممانی نے منہ پھیر لیا۔

اگر ممانی نسرین کے گھر والے ان کو سپورٹ کرتےتو وہ شادی کے پہلے مہینے ہی واپس چلی جاتیں۔ لیکن قسمت نے کچھ اور سوچ رکھا تھا۔ میں جب گھر پہنچا تو گیٹ بند تھا کافی دیر آوازیں دینے ، گیٹ ناک کرنے کے باوجود ممانی نے گیٹ جب نہ کھولا تو میں نے دیوار پھلانگنے کا فیصلہ کیا۔

دیوار پھلانگنے کے بعد میں نے اپنے کمرے کا رخ کیا۔ کپڑے تبدیل کیے باہر آیا تو مجھے ممانی ابتک نظر نہ آئیں میں نے کمروں کا جائزہ لیتے ہوئے جیسے ہی اوپر والے پورشن کا رخ کیا تو مجھے سسکیوں کی آواز سنائی دی۔

یہ آواز میں کافی مرتبہ بلیو فلمز میں سن چکا تھا اب تو کچھ دیر پہلے حمزہ کے موبائل پر باقاعدہ دیکھ کر آ رہا تھا اب تو یہ آواز سن کر میں مغالطہ نہیں کھا سکتا تھا۔

میں نے کچھ دیر نیچے رکا رہا پھر زور سے آواز دی: مامی! او مامی

ممانی کی ہڑبڑاہٹ کے ساتھ ساتھ مجھے کسی کی آواز سنائی دی، میں وہاں سے فوراً ہٹ گیا کچھ دیر کے بعد ممانی نیچے آئیں اور مجھ سے بولیں: تت۔۔ تم ۔۔۔ اندر کیسے آئے؟

میں : میرے ماموں کا گھر ہے ، میں کیسے آیا یہ فضول سوال ہے، یہ بتاو کہ تم کس کے ساتھ منہ کالا کر رہی تھی؟

ممانی کا چہرہ شرمندگی سے دوچار ہوچکا تھا ، وہ کچھ دیر خاموش رہی، میرے دوبارہ پوچھنے پر رو پڑیں، روتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں میں بھی ان کے پیچھے ان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ الماری سے اپنے کپڑے نکال رہی تھیں۔

میں ان کے پاس جا کر بولا: اب یہ کیا نیا ناٹک ہے؟

وہ اب بھی مسلسل روئے جا رہی تھیں اور اپنے ماضی کی حقیقت بیان کر رہی تھیں،(جوکہ میں نے کچھ دیر پہلے بتا چکا ہوں) میں نے ممانی کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ہاتھ سے ان کے کپڑے چھینے اور دوبارہ الماری میں رکھ کر بولا: آپ کو ذرا بھی ماموں کی عزت کا خیال نہیں آیا؟

میرے سوال پوچھنے پر ممانی کے رونے میں اضافہ ہوگیا ، ممانی روتے روتے اب بیڈ پر بیٹھ گئیں ۔ و ہ مجھ سے بولیں: عادی! تم مجھے بتاو آخر میرے پاس راستہ ہی کیا تھا؟

میں کھڑا بس انہیں دیکھ رہا تھا وہ بولیں: آج شادی کو دس سال ہوچکے ہیں عادی! تمہارے ماموں نے مجھ کم ذات میں کبھی دلچسپی ہی نہیں لی۔ ہر بار میں ہی موردالزام ٹھہری ، کہ مجھ سے تمہارے ماموں قابو نہیں ہوتے ۔ آخر کو میں بھی انسان ہی ہوں نا! میں عادی! بھٹک گئی تھی  ۔ آخر بھٹکتی کیوں نہیں؟

میں: آپ پھر سے کوشش تو کرتی!

ممانی نسرین نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھا: تم ابھی چھوٹے ہو عادی! تمہیں نہیں معلوم یہ سب کہنے کو باتیں ہوتی ہیں کرنے کو یہ سب مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے

میں: میں سمجھا نہیں

ممانی: اسی لیے تو کہا کہ تم ابھی نادان ہو عادی! تمہیں کچھ بھی سمجھ نہیں آئے گی

میں: آپ مجھے سمجھاو ورنہ میں آج کا واقعہ ماموں کو لازمی بتاوں گا

ممانی میری دھمکی سن کر بولیں: تم بھی! چلو ٹھیک ہے تم بھی مجھے بلیک میل کرلو

میں خاموش ہی رہا، وہ میری خاموشی پر دوبارہ بولیں: شادی کے بعد میں نے خود کو ہر طرح سے تمہارے ماموں کو پیش کیا لیکن ان کو مجھ سے زیادہ کسی اور میں دلچسپی تھی ۔ پھر بانجھ ہونے کے دبے دبے طعنے ملنے لگے تب میں ان سے بدظن ہوگئی تب ان کا توجہ میری طرف مبذول ہوئی لیکن وقت گزر چکا تھاعادی! میری زندگی میں کوئی اور آگیا ۔ میں بے حد خوش تھی کہ مجھے چاہنے والا کوئی اس دنیا میں موجود ہے ، میری توجہ اُس کی جانب جب ہوئی تو اس نے بھی مجھے اپنی طلب پوری کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ میرا دل پسیج گیا میں مر جانا چاہتی تھی تب تمہارے ماموں نے مجھے بکھیرنے سے بچایا لیکن ہم دونوں نے بہت دیر کر دی تھی۔

ممانی نسرین اچانک رک گئیں، میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھاتو وہ میری آنکھوں میں ناجانے کیا ڈھونڈ رہی تھیں پھر وہ نظریں چراتے ہوئے بولیں: تمہارے ماموں اصل کام تک پہنچنے سے پہلے ہی بس کر جاتے ہیں۔(میں ممانی کے انکشاف کو سن کر حیرت زدہ ہوچکا تھا)تم سمجھ رہے ہو نا عادی؟

میں ممانی کےانکشاف سے نکل نہ پایا تھا کہ ممانی کے سوال نے مجھے چونکا دیا تھا۔ ممانی میرے چونکنے پر مجھے بغور دیکھا پھر وہ بولی: میں ابھی کچھ دیر پہلے اوپر جس کے ساتھ تھی وہ تمہارے ماموں کے دوست تھے لیکن وہ بھی تمہارے آ جانے سے ڈر کر بھاگ گئے ۔

میں نے حیرت سے ممانی نسرین کو دیکھا تو وہ بیڈ سے اٹھ کر میرے مقابل کھڑی ہوکر بولیں: تمہارے ماموں میری ہر ضرورت کو پورا کردیتے ہیں جو رہ جاتی ہے وہ تم پورا کردیتے ہو لیکن جس طرح زندگی کی دوسری ضروریات ہوتی ہیں اسی طرح میری بھی جسمانی ضروریات ہیں جن کو صرف تمہارے ماموں اگر پورا کریں تو جائز طریقہ ہے لیکن اب چونکہ تمہارے ماموں کا وہ اٹھنے کے فوراً بعد بس کر جاتا ہے تو مجھے اپنی جسمانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہاتھ کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔ پھر ہم دونوں کے دل میں اولاد کی خواہش جاگنے لگی۔

ممانی مزید میرے قریب ہوتے ہوئے بولیں: ہم نے ڈاکٹروں کو چیک کروایا ان کے نزدیک تمہارے ماموں میں خرابی ہے تب سے میں  کسی ایسے رازدار کی تلاش میں تھی جو یہ راز ، راز رکھے۔ اب اس راز پر پردہ تمہارے سامنے ہٹ چکا ہے کیا تم میری خواہش پوری کرو گے عادی؟ (وہ اپنی بات کرتے کرتے اچانک مجھ سے لپٹ گئیں، میرے جسم سے ممانی کا جسم مکمل طور پر مس ہونے لگا ممانی کے جسم کی گرمائش میرے جسم میں منتقل ہو رہی تھی ممانی اب میرے خاموشی کی وجہ سے شیر نی بن کر میرے جسم سے کھیل رہی تھیں)

میں نے ممانی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا: کک۔۔ کو۔۔کون ۔۔۔سی ۔۔ خواہش؟

ممانی میری گردن کو آگے بڑھ کر چومتے ہوئے بولیں: اس گھر کی خوشیاں لانے میں تم میری مدد کرو گے؟ کیا تم میرا مقام واپس دلانے میری مدد کرو گے؟

میں  ممانی نسرین کے جسم کی گرمی کو اپنے جسم میں منتقل ہوتا ہوا محسوس کرکے بے ہودی میں گم ہوتے ہوئے بولا: اگر میں بھی آپ کی خواہش کو پورا نہ کرسکا تو۔۔

ممانی نے میری بات سن کر اپنے ہاتھ سے میرے اکڑے ہوئے لن کو پکڑ کر مسلتے ہوئے بولیں: اس خواہش کو میں ماضی سمجھ کر بھول جاوں گی لیکن تمہاری شکل میں مجھے میری  جسمانی ضروریات کو پورا کرنے والا ایک راز دار گھر میں مل جائے گا ۔ ایسا رازدار مجھے ہر صورت چاہیے عادی!

میں: لیکن ممانی! میں آپ دونوں کا سگا بھی نہیں ہوں

ممانی تھوڑا غصے سے : آج کےبعد میں، یہ بات تمہارے منہ سے نہ سنوں۔ سمجھے؟

میں نے  اس معاملے کے متعلق ماموں سے کافی مرتبہ ڈانٹ کھائی تھی اور ممانی سے آج پہلی مرتبہ ، اس سے پہلے کافی مرتبہ ممانی مجھے اس بات پر طعنے سنا چکی تھیں  لیکن آج معاملہ کچھ اور تھا اس لیے ممانی کے منہ سے شیرنی نکل رہی تھی۔

میں نے ممانی کا غصہ کم کرنے کے لیے ان کو اپنے جسم سے لپٹا لیا اور ان کے ہونٹوں کو چوم لیا ۔ ممانی زیادہ سے زیادہ مجھ سے دس یا بارہ سال بڑی تھیں جبکہ ماموں مجھ سے پندرہ سال بڑے تھے۔ممانی ماموں کی نسبت گوری تھیں جبکہ ماموں کی شکل تھوڑی سی سیاہ تھی کیونکہ وہ جوانی کا کچھ عرصہ کسی فیکٹری میں کام کرتے تھے ۔ ممانی کو جب سے میں نے دیکھا ، وہ خود پر انتہائی کم توجہ دیتی تھیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ماموں کی توجہ ممانی پر نہیں تھی۔

کچھ ہی لمحات میں ہم دونوں کپڑوں سے آزاد ہوچکے تھے ڈھلکے ہوئے پستان اب میرے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے تھے ممانی کے پستانوں کو اچھے سے دبا لینے اور ان کی نرمی کو محسوس کرلینے کے بعد میں نے ان کی خواہش پر ان کے پستانوں کو باری باری اپنے منہ میں بھر کر چوسنےلگا۔

وہ میری ہر حرکت پر سسکاریاں بھر رہی تھی ان کا ایک ہاتھ اپنی پھدی کو سہلانے میں مصروف تھا جبکہ دوسرا ہاتھ میرے ننگے بدن کو ٹٹولنے میں مصروف تھا۔

کچھ ہی لمحات کے بعد ممانی کا جسم اکڑا اور ان کے جسم  جھٹکے لیتا ہوا ریلیکس پوزیشن میں آگیا۔ میں نے بھی ان کے پستانوں کو چوسنا روک دیا۔ اب وہ اٹھیں اور مجھے بیڈ پر لیٹا کر اپنی کپڑے والی برا سے اپنی پھدی کو خشک کرتے ہوئے میرے جسم کے اوپر آگئیں۔ انہوں نے ایک ٹانگ میرے دائیں جانب جبکہ دوسری بائیں جانب رکھ کر خود کو میرے لن کے اوپر ایڈجسٹ کرتے ہوئے پہلے میری آنکھوں میں دیکھا پھر مسکراتے ہوئے میرے لن پر اپنے منہ سے تھوک نکال کر میرے لن پر گراتے ہوئے میرے لن کو گیلا کیا۔ پھرآہستہ آہستہ اسے مٹھ لگانے کے انداز میں پکڑ کر اوپر نیچے کرتے ہوئے مدہوش نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولیں: عادی! اپنی نسرین مامی کو اپنا بنانے کے لیے تیار ہو؟

میں بھی اس وقت شہوت کی دنیا میں اڑ رہا تھا میرے منہ سے کیا نکلنا تھا میں نے اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر ممانی کی موٹی سی گانڈ کو تھام کر اپنے لن پر ممانی کو بٹھانے لگا ، ممانی میرا اشارہ سمجھ کر میرے لن کو ہاتھ میں تھامے اپنی پھدی میں میرے لن کو گھسانے لگیں آہستہ آہستہ وہ میرے لن پر بیٹھ رہی تھیں ۔چونکہ میں اس شہوت کی دنیا میں نیا تھا اس لیے اس پہلے ملاپ کا اظہار میں شاید ٹھیک الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا  ہوں البتہ جیسے جیسے میرا لن ممانی نسرین کی پھدی میں گھس رہا تھا میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔

میری آنکھیں اس وقت کھلیں جب ممانی نے مجھے پکارا: عادی!

میں نے آنکھیں کھول کر ممانی کو دیکھا وہ میرا مکمل لن اپنی پھدی میں لیے اکڑوں بیٹھی ہوئی تھی ان کا پتلا پیٹ میرے پیٹ سے ٹچ ہورہا تھا ۔ جبکہ میری طرح ان کی بھی آنکھوں میں مدہوشی چھائی ہوئی تھی۔ جب ہم دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں تو وہ بولیں: عادی! تم شاید یقین نہ کرو گے! مجھے تمہاری ٹوپی کی نوک (اپنے پیٹ کے حصے پر انگلی رکھ کرمجھے دکھاتے ہوئے ) یہاں تک محسوس ہورہی ہے۔

ممانی کی خوشی یا مدہوشی دیکھ کر میں خاموش ہی رہا لیکن میرا دل بے چین ہو رہا تھا ۔ میں نے اسی انداز میں لیٹے ہوئے ممانی کے پستانوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر دبانے لگا وہ کچھ دیر یونہی میرے سارے لن کو اپنی پھدی میں لیے بیٹھی رہیں پھر وہ آہستہ آہستہ میرے لن پر اوپر نیچے ہونے لگیں۔

ممانی کےاوپر نیچے ہونے سے کچھ ہی دیر کے بعد میرا حلق خشک ہونے لگا تھا ، جوں جوں وقت گزر رہا تھا ممانی کی رفتار بڑھ رہی تھی جبکہ میں ممانی کے پستانوں کو چھوڑ کر ممانی کی موٹی گانڈ کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر تیزی سے اوپر نیچے کرنے لگا تھا۔

حمزہ کی بلیو فلمز اپنا اثر دکھا رہی تھیں ، سب کچھ ویسا ہی ہو رہا تھا جیسے موویز میں دکھاتے تھے۔ اچانک میں نے ممانی کی موٹی گانڈ پوری شدت سے تھامے اپنے لن پر بٹھاتا چلا گیا وہ اوپر اٹھنا چاہتی تھی لیکن وہ میرے دباو کے آگے انہوں نے خود کو روک لیا تھا۔ جیسے ہی وہ رک گئیں ۔ میرا لن ان کی پھدی میں مکمل گم اپنے اندر کی گرمائش کو ممانی کی پھدی میں نکالنے لگا۔

میرے منہ سے غراہٹ ( پہلا سیکس اور پہلی ہی مرتبہ پھدی میں مکمل لن گھسائے فارغ ہونے والے مردوں کو معلوم ہوگا کہ اس وقت کس قسم کی آواز گلے سے نکلتی ہے) ممانی کے منہ سے نکلنے والی تیز سسکاریوں میں مکس ہو کر کمرے کا ماحول شہوت آمیز بنا رہی تھی۔

کچھ دیر کے بعد جب طوفان تھما تو ممانی کو میں نے اپنے جسم سے لپٹا ہوا محسوس کیا ان کا جسم ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا جیسے ہی ان کی سانسیں تھم گئیں وہ مجھے بے تحاشہ چومنے چاٹنے لگی تھیں۔

کچھ دیر کے بعد وہ میرے جسم سے الگ ہوئیں اور واش روم میں گھس گئیں۔ میں نے بھی اپنےکپڑے سمیٹے اور اپنے کمرے میں پہنچ کر نہایا اور کپڑے پہن کر لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں، میری آنکھ لگ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس رنگین واقعے کے بعد گویا میری گھریلو زندگی بدل چکی تھی ممانی نسرین کا سوکھا روکھا رویہ اب ماموں کے سامنے آہستہ آہستہ تبدیل ہورہا تھا لیکن حقیقت میں ان کی غیر موجودگی میں ممانی ، ماموں کے بجائے میری بیوی کی طرح میرا خیال رکھ رہی تھیں۔

پہلی چدائی کے بعد جب میں سو کر جاگا تو ممانی مجھے ہی جگا رہی تھیں ۔ ان کو دیکھ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ طاری ہوگئی ۔ وہ بھی مجھے مسکراتا ہوا دیکھ کر مسکرانے لگیں۔

ممانی: اٹھ گئے عادی! اب یہ گرم دودھ پی لینا

میں اٹھ بیٹھا ، نیم گرم دودھ پینے کے بعد میں جب کمرے سے باہر آیا تو ممانی چائے بنا چکی تھی لیکن انہوں نے مجھے چائے کی بجائے فروٹس کھانے کو دیئے۔

رات کو ماموں گھر آئے تو ممانی نے ان کو کھانے کا پوچھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا ممانی نے ان کو ہلکی غذا بنا کر ساتھ میں میڈیسن دیں۔ میں بھی ممانی کا انتظار کرتے کرتے جب سونے لگا تو ممانی میرے کمرے میں داخل ہوئیں۔ پھر اندھیری رات تھی اور ہم دونوں تھے۔ ہم دونوں فارغ ہوکر ایک دوسرے کی بانہوں میں لپٹے ہوئے سو گئے۔ صبح ممانی مجھ سے پہلے جاگ گئیں ۔

کالج  پہنچا تو وہی کالج کی روٹین تھی شام کو دکان بند کرکے گھر پہنچے تو ماموں سیدھا اپنے کمرے میں ہی چلے گئے ان کی طبیعت واقعی ہی ناساز تھی لیکن ممانی کو ان کی اب کوئی پرواہ نہ تھی۔ ممانی نے کھانا دیا ، رات کے وقت ممانی پھر سے ماموں کے سو جانے کے بعد میرے کمرے میں آ گئیں۔

ابتک ممانی کو میں مختلف انداز میں چود چکا تھا لیکن آج ممانی کے کہنے پر ان کو کتیا بنا کر چود رہا تھا جس کی وجہ سے ان کے بے ڈھنگے پستان مسلسل ہل رہے تھے۔ کمرے میں ان کے منہ سے نکلنے والی سسکاریاں چدائی کی مدھم آوازوں کے ساتھ مل کر کمرے کا ماحو ل سیکسی بنا رہی تھیں۔

ان کی چوت سے چوت کا پانی ہلکا ہلکا رس رہا تھا جس کی وجہ سے ان کی گیلی چوت میرے لن کو کافی تیزی سے اندر باہر ہونے میں مدد کررہا تھا تھوڑا زور سے جھٹکا ان کے منہ سے بھی تیز سسکاری نکالنے پر مجبور کر دیتا تھا۔ تب ہی میں بھی ان کے ننگے بدن سے لپیٹ کر ممانی کو چودنا جاری رکھا ۔ ممانی کی موٹی سی گانڈ سے ہلکی ہلکی گرمی مجھے محسوس ہو رہی تھی جبکہ میں اسی گرمی کی بدولت ان کی ہلتے مموں کو اپنے ہاتھ  میں لےکر مسل رہا تھا ۔

وہ کچھ دیر یونہی ڈوگی سٹائل میں مجھ سے چدتی رہیں پھر انہوں نے اپنی پھدی کو چند سیکنڈ تک تنگ کیا جس کی وجہ سے مجھے ایسا لگا جیسے ان کی پھدی کا کوئی حصہ میرے لن کی ٹوپی کو ٹچ یا چوم رہا ہے۔ اس نئے احساس کے ساتھ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ ممانی اپنے آرگیزم پر پہنچ چکی تھیں۔

پھدی کی جکڑن سے میرے جھٹکوں میں کمی آئی پھر آہستہ آہستہ جکڑن سخت اور مسلسل ہونے کی وجہ سے میں نے جھٹکے لگانے روک دئیے۔ میں اپنا سارا لن ان کی چوت میں گھسائے خاموشی سے ان کے جسم سے لپٹا رہا پھر جیسے ہی ان کی پھدی کچھ لمحات کے بعد لوز(ڈھیلی) ہوئی میرا لن اپنے آپ نہیں، ممانی کے بیڈ پر پیٹ کے بل لیٹنے سے باہر نکل آیا

میں بھی ان کی کمر پر ڈھے گیا کچھ دیر کمرے میں ممانی کی تیز سانسوں کی آوازیں چلتی  رہیں پھر وہ سیدھی ہوئیں اور میرے تنے ہوئے لن کو دیکھ کر مسکرا اٹھیں۔

میں: کیا ہوا؟

ممانی نے میرا لن اپنےہاتھ میں لے کر آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ کی گرپ میں اوپر نیچے کرنے لگیں۔ ان کی ہاتھ کی نرمی مجھے مزہ دے رہی تھی ممانی کی چدائی سے پہلے  تک میں خود ہی اپنے لن کو مٹھ کے ذریعے ٹھنڈا کر رہا تھا لیکن ممانی کے ہاتھ کا لمس مجھے اپنے ہاتھ سے زیادہ مزہ دے رہا تھا۔

وہ مجھے مدہوش ہوتا دیکھ کر میرے لن پر مٹھ لگانا جاری رکھی ۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے میرے لن کو تھوڑا سا زور سے کھینچا تو میں نے اپنی بند ہوتی آنکھوں کو کھول کر انہیں دیکھا تو ان کی آنکھوں میں دعوت گناہ کا اشارہ مجھے محسوس ہوا۔

میں بھی اس وقت شہوت کی دنیا میں گم تھا میں اس اشارے کو سمجھ کر ٹرانس کی کیفیت میں ، ممانی کے ننگے جسم پر حاوی ہوتا چلا گیا ہوش اس وقت آیا جب ممانی کے ہاتھوں کے ناخن اپنی پیٹھ پر دھنستے ہوئے محسوس ہوئے ۔ میرا لن مسلسل تیز رفتاری سے ممانی کی چوت میں اندر باہر ہو رہا تھا  جس کی وجہ سے ان کی پھدی اور میرے لن کے ٹکرانے سے کافی آوازیں مسلسل پیدا ہو رہی تھیں ۔ ممانی کی چوت سے پانی کافی مقدار میں نکل کر میرے لن کو، اور اپنی پھدی کے اردگرد کے حصے کو گیلا کر چکا تھا جبکہ ممانی میرے جھٹکوں کی رفتار کو کم کرنے کے لیے انہوں نے مجھے اپنے جسم سے لپٹا کر میرے ہپس کو اپنی کھلی ٹانگوں میں قابو کرنے کی ناکام کو شش کر چکی تھیں۔

میں اس وقت بالکل جنگلی بن چکا تھا لیکن اب چونکہ ممانی کے ناخنوں کی چبھن نے مجھے شہوت کی دنیا سے نکال کر واپس ممانی کی چدائی میں لے آئی تھی اب میری رفتار ناہونے کے برابر تھی لیکن اب ممانی کو اس جنگلی جھٹکوں سے انسیت ہوچکی تھی ۔ وہ مجھے اور تیزی سے جھٹکے لگانے کا کہنے لگیں تھیں۔

ممانی: عادی! اور تیز

ممانی کی بات سن کر میں نے بے ڈھنگے انداز میں جھٹکے لگائے تو ان کو اپنی ٹانگوں کی گرفت کمزور کرنا پڑی پھر جیسے ہی ان کی ٹانگیں میرے ہپس پر کمزور ہوئی، میں پہلے کی طرح لیکن ہوش میں رہ کر لن کو ٹوپی تک ممانی کی پھدی کے لبوں تک باہر نکالتا پھر تیزی سے اندر گھسا دیتا۔ ایسے چند جاندار جھٹکوں کے بعد ممانی کا جسم ایک مرتبہ پھر اکڑنے لگا میں بھی ایک انسان ہی تھا  میں بھی ان کی گرفت میں گرفتار ہوتے ہوئے اپنے لن کو ممانی نسرین کی چوت کی جڑ تک(بچے دانی تک)گھسا کر ان کے کانپتے جسم سے لپٹ گیا ۔

مجھے ممانی کی چوت کی دیواریں اپنے لن پر مسلسل کستے ہوئے محسوس ہو رہی تھیں تب ہی مجھے کوئی نرم سی چیز جھلی نما اپنے لن کی ٹوپی پر  پھیلتی ہوئی سکڑتی ہوئی محسوس ہوئی یہ احساس میرے لیے بہت ہی شہوت آمیز تھا ۔ ہم دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے کے ہونٹوں سے جا ملے پھر سب سے پہلے ممانی کے جسم کو آرگیزم کا جھٹکا لگا پھر دوسرا بھی انہی کو لگا پھر تیسرا جھٹکا میرے لن کو لگا ہم دونوں کی زبانوں سے تھوک نکل رہا تھا جو سیدھا ممانی کی زبان سے ہوتا ہوا اب ممانی کے گلے کو بھر رہا تھا جسے ممانی اپنے گلے میں نگل رہی تھیں ۔

میرے لن سے منی کا پہلا قطرہ پوری شدت سے نکلا جسے یقینا ً ممانی نسرین کی بچے دانی نے اپنے اندر بآسانی آنے دیا تھا پھر دوسرے قطرے نے پہلے قطرے کی مانند تیزی دکھائی جسے ممانی نسرین کی بچے دانی نے جیسے ہی اپنے اندر گرتا ہوا محسوس کیا ان کی بچہ دانی ایک دم سے پھڑ پھڑائی ، یہ پھڑپھڑانا بھی نیچرل(قدرتی ) تھا۔

لیکن میرے لن کے دوسرے جھٹکے کے بعد ہم دونوں کے جسم ایک ساتھ اب ریلیز ہونے لگے آج سے پہلے نہ تو میں مٹھ لگاتے ہوئے اتنا فارغ ہوا تھا اور نہ ہی ممانی اتنے جاندار طریقے سے فارغ ہوئی تھیں۔ ممانی کا جسم جیسے جیسے اوپر گیا تھا ویسے ویسے میرے لن کی منی کے ان کی چوت میں گرنے سے ان کا جسم واپس بیڈ پر ٹکتا چلا گیا لیکن اس دوران ان کی ٹانگیں مسلسل کانپ رہی تھیں جیسے ان کو شدید سردی لگی ہو۔

ہمارے ہونٹ ایک دوسرے کے ہونٹوں سے کب جدا ہوئے معلوم نہیں ، لیکن اب ہم دونوں ایک دوسرے کی گردنوں کو مسلسل چوم رہے تھے کیونکہ یہ چدائی ناجانے کیوں ، ہمارے لیے بہت زیادہ شہوت آمیز ثابت ہوئی تھی حالانکہ ہم دونوں کو پہلی چدائی کے بعد ابتک تین مرتبہ چدائی کا  کھیل کھیل چکے تھے۔

میرا لن ممانی نسرین کی چوت کی سختی (جکڑن) اب نرمی میں تبدیل ہوتا ہوا محسوس کر رہا تھا لیکن جس طرح ممانی کے جسم میں رتی برابرجان باقی نہ رہی تھی ویسے ہی میرے اندر بھی ہمت بالکل بھی نہیں تھی کہ میں ممانی کے جسم سے فارغ ہونے کے بعد الگ ہوسکوں ۔

میرا لن اس وقت تک جھٹکے لیتا رہا جب تک میں ممانی کی گردن کو چومتا رہا ، پھر ہم دونوں اسی (ننگی) حالت میں ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ایک دوسرے کی بانہوں میں لپٹے سوگئے۔

صبح سب سے پہلے میری ہی آنکھ کھلی ، ممانی ابھی تک اسی حالت (ننگی ) میں میرے بازووں کے حصار میں موجود تھیں۔ میرا لن اکڑا ہوا ان کی موٹی سی گانڈ کی دراڑ میں گھسا ہوا تھا اب معلوم نہیں میرے لن کی ٹوپی ان کی گانڈ کی موری میں گھسا ہوا تھا یا ان کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کے درمیان قید تھا کیونکہ ممانی دوسری طرف کروٹ لیے سو رہی تھیں جبکہ میں ان کی ننگی کمر سے چمٹا ہوا بلکہ ممانی پر چڑھا ہوا ٹانگ رکھ کر سویا ہوا تھا۔

اگر اس حالت میں ماموں یا کوئی اورہمیں دیکھ لیتا تو یقینا ً یہ ہم دونوں کے لیے آخری حسین صبح ہوتی۔ میں نے اپنی ٹانگ کو ممانی کے جسم سے الگ کیا جس سے میرا  لن ان کی گانڈ سے تھوڑا سا باہر نکلا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ میرا لن ان کی گانڈ کی پھاڑیوں سے گزرتا ہوا ممانی کی پھدی کی جانب باہر کو سر نکالے ہوئے تھا۔

شاید یہ حالت ممانی نہیں جانتی تھیں لیکن میں جان چکا تھا میں نے  ہمت کرکے ممانی کی ایک ٹانگ کو  اپنے ہاتھ سے تھوڑا سا اوپر کو اٹھایا تو میرا لن بآسانی باہر کو نکل آیا وہ اپنی آزادی سے ناخوش ضرورتھا لیکن مجھے ممانی کو جگانا ضروری تھا۔

میں نے ممانی کو ہلا کر جگایا تو وہ کسمساتی ہوئی جاگ گئیں۔ وہ کمر کے بل سیدھی لیٹ کر شاید ہماری چدائی کے متعلق ہی سوچ رہی تھیں پھر اچانک ان کے چہرے پر حیا کی لالی تیرتی ہوئی محسوس ہوئی ان کا ہاتھ رینگتا ہوا اپنی پھدی پر پہنچ چکا تھا۔

ان کی پھدی کے لبوں پر ان کی پھدی کا پانی شاید میرے لن کی منی بھی مکس ہوکر خشک ہوچکی تھی۔ چھوٹی چھوٹی تڑیپاں  بنی ہوئی تھیں۔

میں ان کے جاگنے سے پہلے ہی اٹھ کر بیٹھا ہوا تھا اب ان کی حرکتوں کو بغور دیکھ رہا تھا ۔ پہلے وہ مجھے یوں یک ٹک اپنی چوت کو دیکھتا ہوا دیکھ کر شرمائی پھر  شاید کچھ اور سوچ کر انہوں نے اپنی پھدی کے لبوں اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے کھول کر مجھے چوت دکھانے لگیں۔

ان کی چوت کا سوراخ رات کی چدائی کے بعد تھوڑا تھوڑا سوجا ہوا لگ رہا تھا، وہ اپنا سر اٹھا کر میرے اکڑے ہوئے لن میں جھٹکا لگتے ہوئے دیکھ کر اب دوسرے ہاتھ سے اپنی چوت کے دانے کو سہلانے لگی تھیں۔

کچھ دیر وہ یونہی یہ عمل کرتی رہیں پھر وہ مجھے اپنے دوسرے ہاتھ جس سے وہ اپنی پھدی کے دانے کو سہلا رہی تھیں اس ہاتھ سے مجھے اپنے اوپر آنے کا اشارہ کرنے لگیں۔

میں  نے ان کو یاد دلاتے ہوئے کہا: ماموں؟

انہوں نے اپنا سر ناں میں ہلاتے ہوئے مجھے پھر سے اپنی طرف بلایا تو میں نے دروازے کی جانب دیکھا تو شاید انہیں مجھ پر غصہ آگیا وہ اٹھیں اور واش روم میں چلی گئیں۔

شاید ان کا موڈ میں نے خراب کردیا تھا۔ ان کے، میرے کمرے سے چلے جانے پر میں نے بھی واش روم کا رخ کیا۔ کچھ دیر کے بعد ہم دونوں کے درمیان خاموشی ہی برقرار رہی۔ ماموں صبح سویرے گھر سے جا چکے تھے۔ شاید وہ سامان لینے گئے تھے ۔میں اب مطمئن ہوچکا تھا لیکن ممانی اب مجھ سے تھوڑا تھوڑا اکھڑی ہوئی محسوس ہوئیں۔

ہم ناشتہ کرچکے تھے، ناشتے کے برتن وہ دھو چکی تھی لیکن و ہ جان بوجھ کر میرے پاس نہیں آ رہی تھیں۔ ایسے ہی وقت ضائع کرتے کرتے دن کا وقت ہوگیا تھا۔ میں نے دکان کا بھی چکر لگایا جس پر مجھے معلوم ہوا کہ ماموں دکان پر نہیں آئے تھے بلکہ وہ دکان کا سامان لینے گئے ہوئے تھے۔ دکان پر کچھ دیر گزارنے کے بعد میرا دل اکتا گیا تو میں دکان بند کرکے گھر کی راہ لی۔

میں حسب معمول وقت سے پہلے گھر پہنچ چکا تھا لیکن میری نظر ممانی نسرین کی سہیلی رابعہ پڑ چکی تھی ۔ میں نے آج دن تک ممانی اور رابعہ کی باتیں چھپ کر نہیں سنی تھی۔

لیکن اس دن ناجانے کیسے میں نے ان دونوں سہیلیوں کی گفتگو ممانی کے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر سن لی۔

رابعہ: کام کا کیا بنا نسرین؟

نسرین ممانی: یار! کام نہیں ہو سکا۔

رابعہ جھنجھلاتے ہوئے بولی: تجھ سے ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا

نسرین ممانی: مجھ سے یہ سب نہیں ہو گا

رابعہ نسرین ممانی کو سمجھاتے ہوئے: تجھے یہ سب کرنا ہوگا ۔

نسرین ممانی: میں بے بس ہوں رابعہ

رابعہ: تیری یہی بے بسی تجھے اب تک  بانجھ رکھے ہوئے ہے

میرے کان اس بات پر کھڑے ہوچکے تھے پہلے تو مجھے تجسس تھا کہ آیا کہ ان دونوں کے درمیان کس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے۔

ممانی بولیں: میں اولاد کی خاطر کسی بھی غیر مرد کے نیچے لیٹ نہیں سکتی، کل کو وہ مجھے بلیک میل کر سکتا ہے۔ ویسے بھی ہم دونوں کے درمیان اب اولاد کو لے کر جھگڑا نہیں ہوتا۔ ہم نے اپنا فیصلہ خد ا پر چھوڑ دیا ہے

کچھ دیر کمرے میں خاموشی چھائی رہی پھر ایکدم سے مجھے ممانی نسرین کی سسکاری سننے کو ملی ، میرے لیے ممانی نسرین اور رابعہ کے متعلق ایسا کچھ سین ہوگا سوچنا تو دور ، متوقع بھی نہ تھا۔

پھر کچھ ہی دیر تک، یہ سسکاریاں تیز ہوتی چلی گئیں، ان سسکاریوں میں اب رابعہ کی بھی سسکاریاں شامل تھیں۔ میں نے سسکاریوں کو کم ہوتا ہوئے جب سنا تو میں نے بھی باہر کی راہ لی۔

رات کو جب ممانی نسرین میرے کمرے میں آئیں تو ان کے چہرے پر سکون نظر آ رہا تھا ، جو یقینا ً دن کے وقت  رابعہ نے انہیں جنسی تسکین مہیا کرکے انہیں پرسکون کیا تھا۔

مجھے معلوم تھا کہ ممانی رات کو لازمی آئیں گی بے شک وہ صبح کے انکار کے بعد تھوڑا سا مجھ سے ناراض تھیں ۔ اسی لیے میں نے بیڈ پر لیٹنے سے پہلے اپنی شرٹ اور ٹروزر اتار کر صرف چادر اپنے بدن پر لے رکھی تھی۔

جیسے ہی انہوں نے میری چادر میرے جسم سے الگ کی ان کی آنکھوں میں سرخی تیرنے لگی ۔ ان کے چہرے کے تاثرات جیسے ہی تبدیل ہوئے ان کا ہاتھ خود بخود میرے اکڑے ہوئے لن پر پہنچ گیا۔

ان کے ہاتھوں میں قید ہوتے ہی میرے لن نے انگڑائی لی وہ مزید اکڑتے ہوئے ممانی کے ہاتھوں میں اوپر نیچے ہونے لگا ۔ممانی کے ہاتھوں اور جسم پر شاید تیل یا کوئی کریم لگی ہوئی تھی جس کی خوشبو کمرے کو معطر کرر ہی تھی۔

ان کے ہاتھ اس قدر نرم اور پھسلن زدہ محسوس ہو رہے تھے کہ مجھے ایسا لگنے لگا تھا کہ میں مزید کچھ دیر ممانی کے سامنے ٹک نہ سکوں گا۔ شاید میرے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے ممانی نے مجھ پر ترس کھاتے ہوئے میرے لن پر مٹھ لگانا روک دیا ۔

انہوں نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے میرے جسم پر بیٹھنے لگیں۔ ممانی کا سارا وزن میرے پیٹھ پر تھا ۔ ممانی نے اپنے مموں سے کالے رنگ کی برا کو آہستگی سے اتارا اور خود مجھ پر جھکتےہوئے  میرے ہونٹ کو چوم لیا۔

میں نے بھی ممانی کے کس کے رسپانس پر ان کے ہونٹوں کو چومنے لگا ہمارے ہونٹ ایک دوسرے کے ہونٹوں کو مسلسل چوم رہے تھے تب میں نے اپنے ہونٹ پر ممانی کی گیلی زبان محسوس کی ۔ میں نے بھی بخوشی ان کی زبان کو اپنے ہونٹوں پر چلنے دیا وہ اب باری باری میرے ہونٹ چوم رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی زبان میرے ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے مزہ لے رہی تھیں۔

میں نے بھی اب ان کی زبان کو اپنی زبان سے ٹچ کرنا شروع کردیا کیونکہ ان کی زبان اب میرے گیلے ہونٹوں سے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی جس کو میں نے زبان باہر نکال کر اپنی زبان کے ہمراہ اپنے منہ میں داخل ہونے دیا۔

جیسے ہی ہماری زبانیں آپس میں ملیں ممانی نے ایڈجسٹ ہوتے ہوئے میرے اکڑے ہوئے لن کو اپنی چوت میں گم کرلیا۔ ان کی چوت میں جیسے ہی میرا لن گم ہوا ان کا منہ کچھ لمحات کے لیے کھلا، میں نے ان کی زبان کو چوستے ہوئے ان کے پستانوں کو دبانے لگا تھا۔

آج ہماری پہلی چدائی کی نسبت ان کے آج مموں کا سائز کافی تبدیل ہوچکا تھا۔ وہ اب مسلسل میرے لن پر بیٹھے ہوئے اوپر نیچے ہونے کی کوشش کر رہی تھیں جبکہ ان کا پیٹ میرے پیٹ سے مسلسل رگڑ کھاتے ہوئے مجھے بھی محسور کن خوشبو میں معطر کیے جا رہا تھا۔

ممانی کچھ دیر میرے لن کو اپنی چوت میں لیے اوپر نیچے ہوتی رہی پھر ان کی کم ہوتی رفتار کی وجہ سے میں نے ان کو اپنے جسم سے لپٹائے ہوئے ان کو بیڈ پر لٹاتے ہوئے اپنے لن کو پہلے آہستگی سے اندر باہر کرنے لگا پھر آہستہ آہستہ میری رفتار میں بھی تیزی آنے لگی تھی۔ ممانی کی تیز ہوتی سانسیں مجھ پر یہی ظاہر کر رہی تھیں کہ اب وہ لذت کی آخری حدوں تک پہنچ چکی ہیں۔

جیسے ہی میرے لن نے ممانی کی چوت کی دیواروں کو زبردستی کھولتے ہوئے ان کی بچہ دانی کو ٹھوکر لگائی ان کے ہاتھوں کے ناخن میری پیٹھ پر نشان بنانے لگے۔ ان کی چوت پھڑپھڑاتے ہوئے اپنے پانی کو میرے لن پر چھوڑتے ہوئے میرے لن کو گیلا کرنے لگی تھی۔

میرا لن اب بھی مکمل ممانی کی چوت میں سمایا ہوا تھا۔ میں نے ان کو ریلیکس ہونے دیا جیسے ہی ان کی تیز سانسیں تھم گئیں ۔ میں نے ان کے ماتھے کو چومتے ہوئے بولا: مامی!

انہوں نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا، میں پھر سے بولا: آپ نے رابعہ کو جھوٹ کیوں بولا؟

ممانی نے میری بات سن کر ایکدم سے شرما گئیں۔ میں ان کی بند آنکھیں دیکھ کر آہستہ آہستہ لن کو اندر باہر کرتے ہوئے ان کی کان پر کاٹتے ہوئے دوبارہ بولا: بتا بھی دیں

وہ میرے لن کو اپنی چوت میں محسوس کرکے عجیب سے انداز میں بولیں: وہ بھی اولاد چاہتی ہے عادی

میں نے ممانی کی بات سن کر اپنے دھکوں کی رفتار تیز کردی میں سمجھ چکا تھا کہ ممانی مجھے کسی دوسری عورت کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی ۔ میرے ہر دھکے پر ممانی کے پستان ہلتے جس پر میں پہلے کی نسبت دوسرا دھکا مزید تیزی سے لگاتا جس پر ممانی کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے تھے۔

میں ان کے مموں کو چوستے ہوئے ایکد م سے بولا: کیا آپ مجھ سے بچے پیدا کریں گی؟

ممانی نے ایکدم سے میری گردن کو اپنے ہاتھوں سے تھام کر اپنی طرف کھینچا اور میرے کھلے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کرلیا۔ اب مجھے مزید سوال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

میں نے بھی خاموشی سے ان کے ہونٹ چوستے ہوئے اپنے لن کو تیزی سے ان کی پھدی میں اندر باہر کر رہا تھا۔ اس مرتبہ ممانی کا آرگیزم پہلے کی نسبت زیادہ جلدی ہوگیا۔

ممانی کی گرفت کمزور پڑی تو میں نے اپنا لن ان کی گیلی پھدی سے باہر نکالااور ان کی برا سے اپنےلن کوصاف کرتے ہوئےان کی طرف دیکھتے ہوئےبولا: اگر رابعہ مجھ سے اولاد چاہتی ہے تو آپ نے اس کو صاف انکار کیوں نہیں کیا؟

ممانی کچھ دیر خاموش ہی لیٹی رہی پھر کروٹ بدلتے ہوئے بولی: عادی! میں رابعہ کو برداشت نہیں کرسکوں گی

میں کچھ دیر پہلےایک پورن ویڈیومیں ایک پوز دیکھ رہا تھا میں نے وہی پوزاپنانے کا سوچا اور میں نے وہی کیا۔ میں ممانی کی ننگی کمر سے لپٹ چکا تھا سٹائل ڈوگی ہی تھا لیکن فرق بس اتنا تھا کہ ممانی پیٹ کے بل بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں جبکہ میں ان کی کمر پر اپنا سارا وزن ڈال کر اپنا لن ان کی گانڈ کی پھاڑیوں میں پھنسائے ہوئے ان کی گردن کو چومنے لگا۔

یہ طریقہ میں نے اسی ویڈیو میں دیکھا تھا جس کی وجہ سے لڑکے کا لن لڑکی کی گانڈ میں اپنا راستہ بناتا ہے۔خیر کچھ دیر یونہی گزر گئی تو ممانی بولیں: عادی! تمہارا دل اب مجھ سے بھر چکا ہے؟

میں ان کے کان کی لو کو ہلکا سا کاٹتے ہوئے بولا: ہرگز نہیں

ممانی اپنی ٹانگوں کو تھوڑا سا کھولتے ہوئے بولی: مجھے ایسا لگا کہ جیسے اب تمہارا دل مجھ سے اکتا گیا ہے

میں نےاپنا وزن اپنے بازووں اور ٹانگوں پر واپس لاتے ہوئے ممانی سے کہا:ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ صبح والے واقعے کی وجہ ماموں ہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ ماموں ہمیں اس حالت میں نہ دیکھ لیں۔

مامی نے مڑ کر میری طرف دیکھا ، میں ممانی کی کھلی ہوئی ٹانگوں میں ان کی چوت کے سوراخ کو اپنے ہاتھ سے ڈھونڈتے ہوئے بولا تھا۔ ممانی نے خود ہی اپنی گانڈ کی پھاڑیوں کو الگ کرتے ہوئے مجھے اپنی چوت کے سوراخ کا راستہ دکھاتے ہوئے بولیں: عادی!(میں ان کی آنکھوں کا مفہوم سمجھتے ہوئے اپنے لن کو ان کی پھدی کے سوراخ میں گھساتے ہوئے آہستہ ان کی کمر پر جھکنے لگا)آہ! ان کے لیے میری اب کوئی عزت نہیں ، اب وہ بس اولاد چاہتے ہیں چاہے وہ صحیح طریقہ ہو یا غلط طریقہ۔

میں اب اپنا سارا لن ممانی نسرین کی چوت میں گھسا چکا تھالیکن اس کے لیے ممانی کو کچھ نہ کچھ درد برداشت کرنا پڑا تھا۔ اس پوز میں میرا لن آسانی سے اندر نہیں گھسا  میں اس بات سے بے خبر اپنے لن کو آہستہ آہستہ اندر باہر کر رہا تھا ممانی کے ہاتھوں میں بیڈ کی چادر تھی جبکہ انہوں نے اپنی درد بھری سسکاریوں کو روکنے کے لیے تکیے کو اپنے منہ میں لے رکھا تھا۔

جیسے ہی میرا لن رواں ہوا میں نے ممانی کی گردن کو چومتے ہوئے کہا: مجھے سمجھ نہیں آئی  مامی! رابعہ کا شوہر ماموں کی دکان پر لمبی لمبی چھوڑتا ہے ایسا لگتا ہے کہ پورے گاوں کی عورتیں اس کی دیوانی ہیں جبکہ رابعہ کے بچے پیدا نہیں ہوئے

ممانی میری بات سن کر اپنا چہرہ میری طرف گھمایا تو مجھے ان کی آنکھوں سے نکلے آنسو صاف نظر آئے۔ میں نے اپنے لن کو ممانی کی چوت سے باہر نکال لیا۔

میں نے تشویش سے انہیں دیکھا تو وہ بولیں: کیا ہوا عادی؟

میں اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا: ایم سوری مامی! مجھے آپ کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا

ممانی بھی اب اٹھ کر بیٹھ چکی تھی وہ میرے چہرے کو تھام کر بولیں: جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے عادی! اب تم اپنا کام مکمل کرو

میں نے انہیں عجیب نظروں سے دیکھا وہ دوبارہ بیڈپر لیٹ چکی تھیں ، میں ان کو کچھ دیر خاموشی سے دیکھتا رہا پھر میں ان کی کھلی ٹانگوں کے درمیان چلا گیا۔

مامی میری گانڈ کو مسلسل اپنی چوت میں دبانے لگیں تھی میرا ہر دھکا اسقدر جاندار ہوتا جس سے بیڈ بھی آواز کرنے لگا تھا۔ شاید بیڈ بھی کافی پرانا ہوچکا تھا ۔

اس مرتبہ بھی وہی کیفیت میرے لن پر محسوس ہونے لگی تھی میرا لن ممانی کی چوت کے کسی خاص حصے کو چھو کر واپس آتا تو مجھے واپس اپنے لن کو اسی مقام پر گھسانے کی جستجو ہوتی۔ میں نے اپنے آخری جھٹکے ممانی کے جسم سے لپٹے ہوئے ان کے ہونٹوں سے ہونٹ ملائے لگاتا چلا گیا۔

جیسے ہی میرے لن نے منی کی پھوار ممانی کی پھدی میں گرانا شروع کی ، ہم پرسکون ہوتے چلے گئے۔ ممانی مجھے اپنی ٹانگوں میں جھکڑے ہوئے بولیں: شادی سے پہلے رابعہ کی دوستی کسی سے تھی، وہ پہلی مرتبہ اسی کی وجہ سے پریگننٹ ہوئی لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا عادی! اس کی پہلی اولاد بے احتیاطی کی وجہ سے مر گئی۔

میں توجہ سے ممانی کی بات سن رہا تھا، ممانی کچھ دیر خاموش رہیں، پھر وہ دوبارہ بولیں: اس نے اپنے پرانے جذبات دل میں دبا لیے وہ اپنے شوہر سے وفادار بنی رہی لیکن ان کے نصیب میں میری طرح اولاد نہیں تھی۔ پھر شادی کو دیکھتے دیکھتے سات سال گزر گئے۔ ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی ۔ رابعہ کی ساس نے اس پر سوتن لانے کی بات چھیڑ دی تھی لیکن رابعہ نے روف کو اپنے قابو میں کر رکھا تھا اس لیے روف کی دوسری شادی نہ ہوسکی۔ لیکن!

ممانی اچانک خاموش ہوگئیں ، میں کچھ دیر ان کی طرف متوجہ رہا پھر میں بولا: لیکن کیا ؟

ممانی  بولیں: لیکن اب، گاوں کی ایک لڑکی روف کو پسند آ گئی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ رابعہ خود اسے بیاہ کر لائے یا بچے پیدا کرے۔

میں: ہوں! !! اچھا پھر رابعہ نے کیا سوچا

    ممانی: وہ مجھے (دوسرے گاوں کا نام بتاتے ہوئے) وہاں لے جانا چاہتی تھی کیونکہ ہم دونوں ہی تھیں جنہیں خد ا نے بچوں جیسی نعمت سے محروم رکھا تھا۔

    میں: وہاں جا کر آپ کو بچے ہوئے؟

    (مجھے یاد تھا کہ ایک دو مرتبہ ممانی کہی گئی ہوئی تھیں اس کی حقیقت اب ممانی خود بتا رہی تھیں)

    ممانی کے چہرے پر تاثرات تبدیل ہوئے: نہیں!

    میں ممانی کے جسم سے الگ ہوئے بولا: بےمقصد کوشش تھی

    ممانی نے مسکرا کر مجھے دیکھا: نہیں عادی!

    میں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ بولی: وہاں جانا بے مقصد نہیں تھا۔ وہ بابا بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ عادی کی ہی بدولت ہمارے گھر میں خوشیاں آئے گی۔

    ممانی کی اشتیاق بھری آواز نے مجھے چونکا دیا تھا۔ میں نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا پھر ان کے اشارے سے ان کی چوت کی جانب دیکھا جہاں سے ہم دونوں کی منی مکس ہوکر آہستہ آہستہ باہر نکل رہی تھی۔

    وہ بولی: عادی !اسے دیکھ رہے ہو؟ (میں ان کی پھدی کو دیکھ رہا تھا) جب یہ کسی مرد سے جنسی تسکین حاصل کرلے تو اس کی یہی حالت ہوتی ہے تب ہی اولاد ہوتی ہے۔

    میں خاموش ہی رہا وہ دوبارہ بولیں: بابا نے کہا تھا’’تمہاری زندگی میں کوئی آ چکا ہے جسے تم بے حد نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہو وہی بعد میں تمہارے لیے خوشیوں کا باعث بنے گا‘‘

    ممانی: عادی! اس وقت مجھے اس بابا کی بات سمجھ نہ آئی۔ میرے ذہن میں بار بار تمہارے ماموں ہی آتے جنہیں میں شادی کے بعد شدید نفرت سے دیکھتی تھی۔ مجھے تمہارا تصور بالکل بھی نہیں تھا۔

    میں: پھر ایسا کیا ہوا کہ آپ کی توجہ میری طرف گئی؟

    ممانی نے مسکراتے ہوئے کہا: تمہیں بخار تھا ، میں تمہیں جگانے گئی تو میں نے تمہارا(انہوں نے میرے اکڑتے ہوئے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) دیکھا تو اچانک سے میرے ذہن میں بابا کی باتیں گردش کرنے لگیں۔

    میں نے مسکرا کر ممانی کو دیکھا، وہ بولیں: پھر میں نے تصدیق کے لیے دوسری مرتبہ بابا کےپاس گئی تو انہوں نے بھی تمہارے خدوخال بتا کر میرے شک کو یقین میں تبدیل کردیا لیکن اس مرتبہ رابعہ میرے ساتھ تھی۔ اب اس کی جستجو تمہیں حاصل کرنے کی، مجھ سے زیادہ اس کی بڑھ چکی تھی۔

    میں رابعہ کی ذکر ہوتے ہی ممانی کی طرف بڑھا، ممانی مجھے روکتے ہوئے بولیں: کیا ہواعادی؟ اتنے اتاولے کیوں ہو رہے ہو؟

    میں نے مسکراتے ہوئے کہا: میرا تو دل آپ سے بھرتا نہیں ، آپ نے رابعہ کے متعلق بتا کر مجھے اتاولا کردیا ہے۔ پھر اس دن آپ کے ساتھ رابعہ ہی تھی؟

    ممانی نے مسکراتے ہوئے اثبات میں اپنا سر ہلایا تو میں نے ان کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک میرے لن نے دوبارہ منی ممانی نسرین کی پھدی میں نہ چھوڑ دی۔

    اب مجھے رابعہ کا انتظار تھا۔

 

رابعہ بتیس سال کی ایک حسین عورت ہے جس کا جسم حد سے زیادہ بھر ا بھرا ہوا تھا جس وقت تک میں نے رابعہ سے زیادہ موٹی عورت نہیں دیکھی تھی تب تک صرف رابعہ کو موٹی عورت سمجھتا تھا، اس کی شادی اس سے سات سال زائد عمر کے آدمی سے ہوئی تو اس کے شوہر نے پہلی ہی رات کو اس قدر چود ڈالا کہ وہ ولیمے کے دن حقیقت میں ٹانگیں پھیلا پھیلا کر چل رہی تھی۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ رابعہ رات کو سہاگ رات کے بعد اپنے عاشق کے ساتھ بھی منہ کالا کرتی رہی یکے بعد دیگرے دو دو لن لینے کے بعد اب اس کی یہ حالت تھی ۔

لیکن روف عرف روفا اپنی بیوی کی اس حالت کو دیکھ کر اپنی مچھوں کو بار بار بڑی شان سے تاو دیئے جا رہا تھا۔ رابعہ کی حالت دیکھ کر اکثر دل پھینک عورتیں رووف پر عاشق ہو رہی تھی۔

رابعہ شرمائی شرمائی  سٹیج پر بیٹھی ہوئی تھی اس کی سہیلیاں اسے تنگ کر رہی تھیں جبکہ دوسری جانب روف کو بھی اس کے دوست تنگ کر رہے تھے۔

    جیسے ہی ممانی نسرین سٹیج پر پہنچی رابعہ کے چہرے کی رونق ایک لمحے کو غائب ہوگئی کیونکہ نسرین واحد سہیلی تھی جسے رابعہ کے پرانے معاشقے کا مکمل علم تھا۔

    اسی معاشقے کے نتیجے میں اس کی جلد از جلد شادی کردی گئی لیکن رابعہ پھر بھی اپنے پرانے معاشقے سے باہر نہیں نکل رہی تھی۔ جیسے تیسےولیمہ ختم ہوا ممانی نسرین نے رابعہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔

    رابعہ ڈھیٹ بنتے ہوئے: ایسا کیا ہوگیا نسرین کہ تُو مجھے خوش نہیں دیکھ سکتی

    نسرین: ایک دن تو نے بہت پچھتانا ہے

    رابعہ ڈھیٹ بنے ہوئے: خیر اے! میں روف کو سنبھال لوں گی

    نسرین نے ایک لمحے کو اس کے چہرے کو بغور دیکھا جہاں شیطانی مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ پھر ممانی نسرین خاموش ہوگئیں کیونکہ وہ خود اس وقت پانچ سال سے بانجھ ہی تھیں۔

    نسرین نے ایک مہینے کے بعد چکر لگایا تو رابعہ نے پھر سے ممانی نسرین کو لاجواب کردیا: تجھے میری اتنی فکر کیوں ہونے لگی نسرین؟ کہیں تُو بھی میرے یار پر(ممانی نے اس کی بات مکمل ہونے ہی نہ دی)

    ممانی نسرین: ایسی نوبت کبھی بھی نہیں آئے گی۔ اگر یہ نوبت آ بھی گئی تو میں تیری طرح دو دو مردوں کے نیچے لیٹنے کے بجائے خودکشی کرلوں گی

    رابعہ: چل یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ فلحال مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے ۔

    رابعہ کی آنکھوں میں واضح اشارہ تھا جسے ممانی نسرین سمجھتی تھی اس لیے وہ بھی اجازت لے کر اپنے گھر آ گئیں۔

    رابعہ اپنی بے احتیاطی اور ناسمجھی کی بنا پر اپنے بچے کو پیدا ہونے سے قبل ہی ضائع کروا لیا تھا۔ جبکہ رابعہ کے عاشق وقاص نے بھی شادی کرلی تھی ۔ شادی کے بعد اس نے شہر کا رخ کرلیا اسی لیے رووف کی بے حد کوششوں کے باوجود رابعہ پیٹ سے نہ ہو سکی وہیں رووف کی بیوی رابعہ کو دیکھ روف نے کافی عورتوں کو چودا لیکن وہ عورتیں رووف کو اپنی غلطی سمجھ کر اب تک اس سے چدوا رہی تھیں۔

    مرد کو ایک بآسانی سے شکار مل جائے تو اس کا دل دوسرے شکار کی جانب جانے کا ارادہ خود بخود بن جاتا ہے وہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ ممانی نسرین اولاد کی خاطر مجھ سے روزانہ چدوا رہی تھیں لیکن انہیں بھی معلوم ہوچکا تھا کہ ایک نہ ایک دن رابعہ بھی مجھ سے لازمی چدے گی۔ میں خود اب موقع کی تلاش میں رابعہ کے اردگرد گھوم رہا تھا۔جبکہ رووف کے کام میں دوڑ دوڑ کر کر رہا تھا اس کی بھی خاص وجہ تھی مجھے ناجانے کیوں ممانی نسرین سے زیادہ رابعہ کی گانڈ میں زیادہ دلچسپی محسوس ہو رہی تھی۔

    شاید اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ میں نے ممانی کو الٹا لٹا کر چودنا چاہا لیکن ممانی میرے لن کی رگڑ برداشت نہ کرسکیں تھی۔ اس لیے اب میرا ارادہ رابعہ کی موٹی گانڈ کی ٹھکائی تھا۔

    ایک دن موقعہ ملتے ہی میں رابعہ کے گھر جا پہنچا مجھے معلوم تھا کہ ماموں اور رووف رات گئے تھے واپس نہیں آئیں گے اس لیے میں نے رووف چاچا کے کہنے پر بازار سے سامان لیا اور ان کے گھر جا پہنچا ۔ مجھے معلوم تھا کہ اس وقت رابعہ چاچی کی ساس گھر نہیں ہوں گی اس لیے موقعہ ملتے ہی رابعہ کے گھر کی راہ لی۔

    میں نے دروازہ کھٹکایا تو رابعہ چاچی نےبند دروازے کے اندر سے ہی آواز دے کر پوچھا: کون ہے

    ان کی آواز سے لگ رہا تھا کہ وہ سوئی ہوئی تھیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ میں عادی ہوں چاچا نے سامان دے کر بھیجا ہے۔ چاچی نے میری آواز سن کر فوراً دروازہ کھول دیا میں نے سامان اٹھائے سیدھا ان کے کچن میں چلا گیا۔

    سامان رکھ کر میں جیسے ہی پلٹا رابعہ چاچی کچن میں داخل ہو رہی تھیں ، میں نے ان کے آپس میں مستی کرتے مموں کو بغور دیکھا کیونکہ وہ بغیر دوپٹے کے دروازہ کھولنے باہر آئی تھیں۔

    کچھ دنوں سے میری نظروں کی خرابی وہ جانچھ چکی تھیں اس لیے آج بھی انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے اپنے پستانوں کو دیکھنے دیا۔ جیسے ہی وہ میرے قریب پہنچیں تو میں بولا:چاچی! یہ سامان چچا نے بھیجا ہے۔ دیکھ لیں کوئی چیز رہ تو نہیں گئی

    رابعہ چاچی نے میری شلوار کے تنبو کو دیکھتے ہوئے کہا: اچھا میں چیک کرتی ہوں

    وہ میرے قریب سے گزری تو میں نے بھی اپنا رخ تبدیل کرتے ہوئے رابعہ چاچی کی جانب کرلیا، جیسے ہی وہ میرے قریب سے گزری حالانکہ ہم دونوں کے علاوہ تیسرا فرد بھی یہاں سے بآسانی گزر سکتا تھا لیکن شاید رابعہ چاچی مستی میں تھیں ۔ وہ میرے قریب سے گزرتے ہوئے میرے لن کو اپنے جسم سے رگڑتے ہوئے سامان کے پاس جا پہنچی۔

    رابعہ چاچی کا جسم اس قدر گرم تھا میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ایک لمحے کو ایسا لگا جیسے چاچی رابعہ کو شدید بخار ہو اس بخار میں ان کا جسم جل رہا تھا۔ لیکن درحقیقت وہ اپنے بیڈ روم میں لیٹی فنگرنگ کر رہی تھیں جب میں ان کے دروازے پر پہنچا تھا۔

    وہ میرے پاس سے گزر کر اب سامان کا شاپر کھول کھول کر سامان چیک کر رہی تھیں ۔ ان کی حرکات و سکنات سے چاچی کی گانڈ تھرک رہی تھی۔

    میں ان کی گانڈ میں کھویا ہوا آگے بڑھنے کا فیصلہ کر رہا تھا مسلسل ایک ہفتے سے میں چاچی رابعہ پر ٹرائی کر رہا تھا ، اسی کوشش میں ، میں دکان کو وقت نہیں دے رہا تھا اور ہمیشہ ممانی کی چدائی کے وقت رابعہ چاچی کی گانڈ میں کھو جاتا تھا ۔ اسی لیے ممانی کی چدائی کے دوران طوالت پیدا ہورہی تھی۔ اس بات کا ذکر ممانی نے دو مرتبہ بھی کیا۔

    رابعہ چاچی نے مجھے اپنی بڑی سی گانڈ میں کھویا ہوا دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولیں: عادی!(میں خیالات سے باہر نکل تو آیا لیکن میرا دھیان ان کی گانڈ میں ہی تھا) ویسے تو سامان پورا ہے لیکن

    چاچی رابعہ اچانک خاموش ہوگئیں۔ میں کافی دیر انتظار کرتا رہا پھر اچانک وہ میری طرف بڑھی اور میرے اکڑے ہوئے لن کو سہلاتے ہوئے میرے قریب سے گزر گئی

    میں حیرت سے انہیں اور ان کی تھرکتی ہوئی گانڈ کو بیڈ روم میں جاتا دیکھ رہا تھا۔رابعہ چاچی کی جانب سے کھلی دعوت تھی جس میں بس دعوت گناہ ہی تھی۔

    میں کچھ دیر وہی کھڑا ان کی گانڈ کا سوچتا رہا پھر کسی نتیجے پر پہنچ کر چاچی رابعہ کے بیڈروم میں جا پہنچا۔ جہاں چاچی بیڈ پر لیٹی میرا ہی انتظار کر رہی تھیں۔

    چاچی نے میری طرف دیکھتے ہوئے ایک  سیکسی سی سمائل دی  مجھے اوپر آنے کا اشارہ کیا اورپھر مجھے اپنی طرف کھینچا اور پوری طاقت سے مجھے بانہوں میں جکڑ لیا  پہلی بار مجھے ان کےجسم کا صحیح احساس ہوا ان کے مموں کو اپنے سینے پر محسوس کیا جو کافی بڑے تھے میں نے بھی زور سے انکو بھینچ لیا اور جلدی سے ان کے منہ پر kissکردی انہوں نے بھی مجھے کس کرنا شروع کر دیا پہلے گال پھر ماتھا اور پھر سیدھا میرے ہونٹوں کو چوما میرے اندر سرسری سی آگئ پھر میں نے انکے ہونٹوں کو پورا اپنے منہ میں بھر لیا       


  اففففففففف انکے منہ کی کیا خوشبو تھی سانسیں مہک رہی تھیں بڑا ہی سیکسی ٹیسٹ تھا میں ہونٹوں سے ہوتا ہوا اپنی زبان کو ان کے منہ میں لے گیا اور انکی زبان کو اپنے ہونٹوں سے چوسنے لگا ہم دونوں کو ایسا نشہ چڑھا کی کچھ ہوش ہی نہ رہی میں نے اپنا ایک ہاتھ چاچی کی گانڈ پر پھیرنا شروع کردیا دوسرا ہاتھ ان کے مموں پر وہ پاگل سی ہونے لگی اور آہ آہ آہ کی ہلکی آوازیں نکالنے لگے دورسرے ہی پل انہوں نے اپنے ہاتھ کو میرے لنڈ کی طرف کرکے لنڈ کو ٹٹولنا شروع کردیا میرا لنڈ تو کس کرنے سے ہی پورا اکڑ گیا تھا میں نے شلوار کا ناڑا کھولا اور لنڈ کوآزادکردیا۔
    

             چاچی نے لنڈ کو پکڑتے ہی سہلانا شروع کردیا میرا لنڈ فل ٹائٹ ہو چکا تھا چاچی نے فوراً اپنی شلوار کھول دی۔ ہم دونوں کے عضو خاص ایک دوسرے سے لب کشاہو رہے تھے۔

        چاچی کی چوت نمی سے بھرپور گیلی تھی۔چاچی نے اپنی ایک ٹانگ کو پھیلایا جس سے انکی چوت صاف نظر آنے لگی جس پر ہلکے ہلکے بال تھے مگر الگ طرح سے چمک رہی تھی چوت کے پاس والی جگی ہلکی سی کالی تھی میں نے ایک سیکنڈ میں اپنا ہاتھ ان کی ملائم سی چوت پر رکھا اور اپنی انگلی سے ٹچ کیا تو وہ پھر سے تھوڑا اچھلی     پھر میں نے انگلی سے چوت کے منہ کو کھولا اندر سے چوت ہلکی گلابی رنگ کی تھی اور اس وقت چوت سے ہلکا ہلکا سا سفید رنگ کا لیس نکل رہا تھا جس کی وجہ سے چوت اور حسین لگ رہی تھی یہ پہلی بار تھا جب میں نے چوت کو اتنے قریب سے دیکھا اور اپنی انگلی سے ٹچ کیا جیسے ہی میں نے انگلی ٹچ کی تو میری انگلی پر وہ سفید لیس لگا اور پھر میں نے اپنی انگلی کو اپنی ناک. کے پاس لاکر سونگھا    

          چاچی فوراً تھوڑا چونکی اور پوچھنے لگی یہ کیا کررہے ہو میں نے کہا آپکی چوت کی خوشبو سونگ رہا تھا،،    

             انہوں نے اس وقت عجیب نظروں سے مجھے دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں،،،،

        چاچی رابعہ بولیں: اپنی مامی کو چودنے کا کبھی سوچا ہے یا نہیں؟    

        میں نے انکار میں سر ہلایا کیوں کہ ممانی نسرین اور رابعہ کی باتیں میں سن چکا تھا جس میں صاف ظاہر تھا کہ ممانی نسرین ہرگز ہم دونوں کا ناجائز رشتہ چاچی رابعہ کے سامنے ڈکلئیر کرنا نہیں چاہتی تھی۔    

        چاچی رابعہ نے مجھے اشارہ کیا کے لنڈ کو ڈالوں اندر تو میں نے اپنے لن کو چاچی کی چوت پر ایڈجسٹ کیاتو چاچی نے دوسری ٹانگ کو بھی تھوڑا سا پھیلایا اور اپنے ہاتھ سے میرے لن کو تھام کر ایک بار مٹھ لگاتے ہوئے میرے لنڈ کو سیدھا چوت پر رکھا    

        میں نے ان کی آنکھوں کے اشارے پر اپنے لن کو ان کی چوت میں دھکیلنے لگا میرا لن ان کی چوت کو کھولتے ہوئے جیسے ہی اندر داخل ہوا چاچی رابعہ ایکدم سے اچھلی اور جلدی سے میرے لن کو اپنی چوت سے باہر نکال دیا۔    

             چاچی نے کہا عادی تھوڑا سا تھوک لگاؤ پہلے اور پھر  آرام آرام سے ڈالو پلیز زور سے نہیں ڈالنا

             تو میں نے ٹوپی پر تھوک پھینک کراپنے لن کو چاچی رابعہ کی چوت کے اندر داخل کرنے لگامیرا لن کی ٹوپی جیسے ہی اندر داخل ہوئی چاچی تھوڑی اوپر کی طرف کھسک گئ

        میں نے پوچھا کیا ہوا بولی کچھ نہیں ہلکا سا درد ہے پر تم ڈالو خودی ٹھیک ہوجائے گا     

        مجھے احساس ہوچکا تھا کہ رابعہ چاچی کتنے عرصے سے کسی مرد کے لن کے لیے ترس رہی تھیں۔ میرا لن چاچی کی چوت کی دیواریں کھولتا ہوا اندر گھسنے لگا تھا۔میں نے چاچی کے روکنے پر اپنے لن کو واپس      باہر کھینچا  تو انہوں نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔

        میں نے پھر ٹوپی کو اور اندر کیا اب لنڈ کافی اندر چلا گیا پر پورا نہیں گیا تھا چاچی کی ہلکی سی آہ نکلی اور انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو میری کمر پر کس لیا اور مجھے کمر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اسی پل میں نے نیچے سے زور ڈالا اور پورا لنڈ چوت میں گھسا دیا    

         چاچی نے زور سے افففففففففففففف کی آواز نکالی اور کہا ایک منٹ ایسے ہی رہو ہلنا نہیں میں رک گیا اور وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں کرنے لگی اور بری طرح مچلنے لگی دوسرے لمحہ ہی کہا چلو اب ہلکےہلکے اندر باہر کرو میں سٹارٹ ہو گیا چوت سے مسلسل سفید لیس رس رہا تھا اور انکی چوت بے حد چکنی ہورہی تھی میں نے آہستہ آہستہ لنڈ کی سپیڈ بڑھائی اور چاچی کی آہیں تیز ہونے لگی آہ آہ آہ آہ اففففف آہستہ آہستہ تیز ی سے کرو زور سے اور زور سے آہ آہ    

        
 ان کی ان آوازوں نے میرے اوپر عجیب اثر کرنا شروع کردیا لیکن حقیقت میں مجھے ان کے جسم کی گرمی اسقدر گرم کرچکی تھی کہ میں ممانی نسرین کے ساتھ اتنی مرتبہ چدائی کے وقٹ بنی ٹائمنگ کا بھی خیال نہ رکھ سکا۔میں اور تیز ہوتا گیا اور چھوٹنے کے قریب آراہا تھا میں نے چاچی کو کہا میرا پانی آنے والا ہے اس نے کہا آنے دو پانی تیز کرو بس 
    

        اور میری سپیڈ مزید تیز ہوئی ایک دم میرا جسم اکڑنے لگا اسی لمحے چاچی کا جسم بھی اکڑا انہوں نے مجھے پوری طاقت سے جکڑا ہوا تھا اور میری منی نوک پر آگئ میں پیچھے ہٹنا چاہا تو چاچی نے کہا :میرے اندر چھوڑ دو اپنا مال     

        وہ پھرکسی ٹرانس کی کیفیت میں تھیں وہ دوبارہ      بولی پلیز مال اندر چھوڑو مجھے سکون دے دو

        اسی وقت ان کی گرفت میری کمر سے کمزور سے ہوئی اور اسی وقت چاچی کا اوپر جسم میری گرفت میں آ چکا تھا ۔آخری جھٹکے اس قدر تیز تھے کہ چاچی مجھے آہستہ ہونے کا کہنے لگی لیکن میں      اسی پل بے قابو ہوگیا۔ میرے لنڈ سے منی کا فوارہ چھوٹنے لگا اور میرے جسم میں پہلی بر عجیب قسم کا اکڑاؤ ہوا اور میں پوری طرح سے چاچی کے اندر فارغ ہوگیا اور انکے اوپر گر گیا

        چاچی آنکھیں بند کرے بے سد پڑی تھیں انکی بس سانسوں کی آواز آراہی تھی اور دل زور زور سے دھڑک رہا تھا یہ میرا بھی حال تھا 2منٹ ہم ایسے ہی پڑے رہے پھر اچانک چاچی نے آنکھیں کھولی اور مجھے زور سے ہونٹوں پر کس کرنے لگی...     

        عادی تم نے مجھے سکون دے دیا کب سے ترس رہی تھی میں اس سکون کے لیے....  میری جان تم حقیقت میں اصلی مرد ہو    .....      یہ سن کر. مجھے بہت اچھا محسوس ہونے لگا مجھے خود پر فخر محسوس ہونے لگا تھا، چلو انکو میں نے آج صحیح مزہ تو دیا۔ ہم دونوں ابھی تک ایکدوسرے کی بانہوں میں مقید تھے۔    

             کچھ دیر کے بعد میں ان کے جسم سے الگ ہوا تو میری منی اس وقت بھی ہلکی ہلکی سی  چاچی رابعہ کی چوت کے سوراخ سے آرہی تھی... چاچی بھی اٹھ گئیں اور انہوں نے میرے لن کو کپڑے سے صاف کیا۔ میں اٹھ کر اپنی شلوار اوپر کی بال صحیح کیے اور صوفے پر بیٹھ گیا۔

             میں نے دیکھا میری منی اور چاچی کی چوت کا لیس مکس ہوکے نیچے بہہ رہا تھا اور وہ اسی کپڑے سے اپنی پھدی کو ڈھانپ کر کھڑی ہوگئی پھر اپنے کپڑے لے کر واش روم میں چلی گئیں ۔ پھر واپس آ کر اپنے کپڑوں کو ایک نظر دیکھا پھر دوبارہ سے  قمیض کو سیٹ کیا بالوں کو سیٹ کیا اور مسکراتے ہوئے باہر چلنے کا اشارہ دینے لگی....

        ہم دونوں باہر آئے اور میں سیدھا گھر کی طرف چلا آیا۔    

    میں دل ہی دل میں دوسری نئی چوت حاصل کرکے خود پر بہت زیادہ فخر محسوس کر رہا تھا۔ گھر پہنچ کر میں نہایا تاکہ ممانی کو شک نہ ہو۔ نہانے کے بعد میں نے کھانا کھایا اور سو گیا۔

    رات کو اسی روٹین کے مطابق ممانی میرے کمرے میں آئیں اور ہم دونوں چدائی میں مشغول ہوگئے ۔ جیسے ہی ہم دونوں فارغ ہوئے چاچی بولیں: مجھ سے زیادہ رابعہ نے مزہ دیا ؟

    میں نے حیرانگی سے انہیں دیکھا تو وہ بولیں: اب بنو مت عادی! وہ میری پکی سہیلی ہے ۔

    مجھے یاد آگیا کہ ممانی اور چاچی دونوں آپس میں لیزبین بھی ہیں اس لیے میں نے جھوٹ بولنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔وہ سب کچھ سن کر دوبارہ گرم ہوگئی تھیں لیکن مجھے اگلے دن صبح سویرے دکان کھولنی تھی اس لیے انہوں نے مزید سیکس کرنے سے انکار کردیا۔

 

میرے اور ممانی کےناجائز رشتے کے بدولت ممانی کے پاوں بھاری ہوچکے تھے جبکہ دوسری جانب رابعہ چاچی کیساتھ چدائی بھی جاری تھی۔انہوں نے میری خواہش کے مطابق آج مجھے اپنی گانڈ بھی دینے کا وعدہ کر رکھا تھا۔

میرے لیے یہ دن انتہائی خوشی کا دن تھا کیونکہ اسی دن مجھے باپ بننے کی خوشی ملی اور اسی دن مجھے میری خواہش پوری ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھی ہمارے گھر میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں جبکہ میں اور چاچی مکمل مادر زاد ننگے ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے۔

جیسے ہی میرا تیل سے لتھرا ہوا لن چاچی رابعہ کی گانڈ کے سوراخ میں داخل ہوا میرے جسم میں سکون کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ میں نے رابعہ چاچی کی گانڈ کی پھاڑیوں کو آپس میں جوڑتے ہوئے اپنے لن کو رابعہ چاچی کی گانڈ میں مکمل گم دیکھ کر لذت کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

میں مست اندا ز میں چاچی کو دیکھا تو انہوں نے بھی شرما کر اپنا چہر ہ تکیہ میں چھپا لیا۔میں رابعہ چاچی کے ننگے جسم پر لپٹتے ہوئے بولا: آپ کے بھی پاوں مامی کی طرح بھاری لگ رہے ہیں

رابعہ چاچی نے انکشاف کیا: میں بھی نسرین کی طرح تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں عادی

رابعہ چاچی کے انکشاف کے بعد چاچی کے منہ سے درد بھری اور لذت آمیز سسکاریاں نکلنے لگی کیونکہ مجھ سے اب مزید رکنا محال ہوگیا تھا میں مسلسل رابعہ چاچی کی گانڈ مار رہا تھا ۔ جس قدر زور کا دھکا میں لگاتا، اسی تیز رفتاری سے چاچی کی گانڈ واپس میرے لن کی طرف آتی۔

میرا لن رابعہ چاچی کی گانڈ کی دیواروں میں سختی سے جھکڑا ہوا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے رابعہ چاچی نے میرے لن کو اپنی گانڈ کے تنگ سوراخ میں قید  کر رکھا ہے۔

    میرے لن پر تیل لگے ہونے کی وجہ سے ، میرا لن مسلسل بآسانی رابعہ چاچی کی تنگ گانڈ کو چیرتے ہوئے اندر باہر ہو رہا تھا حالانکہ رابعہ چاچی کی گانڈ پہلے سے ہی کھلی ہوئی تھی لیکن زیادہ تر استعمال میں نہ آنے کی وجہ سے چاچی کی گانڈ ٹائیٹ ہوچکی تھی۔

    میرے ہی کہنے پر رابعہ چاچی نے اپنے بیڈ کا گدھا تبدیل کر وایا تھا ، کیونکہ میں نے گذشتہ چند دن قبل ایک پورن ویڈیو میں گانڈ کی چدائی ہوتے ہوئے دیکھی تھی ۔

    میں اب اسی رفتار سے دھکے لگا رہا تھا سپرنگ اپنا کام دکھا رہے تھے ہلکے سے بھی ہلکا دھکا رابعہ چاچی کی گانڈ کو مزہ دے رہا تھا کیونکہ بیڈ زیادہ تیز رفتاری سے واپس چاچی کی گانڈ کو میری طرف دھکیل رہا تھا ۔ جبکہ دوسری وجہ چاچی کی بڑی سی گانڈ تھی جو ہلتے ہوئے واپس میرے لن سے جڑ جاتی تھی۔

    میں احسن سے ٹائمنگ والی گولیاں بھی لے کر آیا تھا جس کا اثر اتنا تھا کہ میں پہلے رابعہ چاچی کی چوت کو مار نے کے بعد اب کافی دیر سے رابعہ چاچی کی گانڈ مارے جا رہا تھا۔

    میں دھکے لگاتے لگاتے جب تھکنے لگا تو میں رابعہ چاچی کی ننگی کمر سے لپٹ گیا۔ میں نے کچھ دیر اپنے لن کو چاچی کی گانڈ میں ہی رہنے دیا۔ میرا لن مکمل چاچی کی گانڈ میں غائب تھا۔ مجھے رابعہ چاچی کی گرم مرطوب گانڈ کا سوراخ اس قدر نشہ چڑھا رہا تھا کہ میں پھر آہستہ آہستہ رابعہ چاچی کی گانڈ کو ان کے جسم سے لپٹے ہوئے دھکے لگا نے لگا تھا۔

    میں اب چاچی اور مامی دونوں کے متعلق سوچ رہا تھا ۔ مجھے ممانی نسرین نے اپنے اور میرے متعلق رابعہ چاچی کو نہ بتانے کا وعدہ لے کر خود ، رابعہ چاچی کو سب کچھ بتا دیا تھا۔

    کچھ ہی دیر کے بعد جب چاچی کےمنہ سے درد بھری سسکاریاں بڑھنے لگیں تو میں نے اپنا لن آہستگی سے رابعہ چاچی کی گانڈ سے باہر نکال لیا اور خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گیا۔

    رابعہ چاچی اپنا سانس درست کرلینے کے بعد ایکد م سے مجھ پر جھپٹ پڑیں، مجھے کس کرلینے کے بعد انہوں نے مجھے بیڈ پر گرا کر خود میرے لہراتے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ میں تھام کر لالی پاپ کی مانند اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا ۔

    یہ رابعہ چاچی کی خواہش تھی کہ وہ کسی مرد کے لن کو منہ میں لے کر اس قدر چوسیں کہ وہ مرد ان کے منہ میں ہی فارغ ہو جائے آج یہ چاچی رابعہ یہی کام کر رہی تھیں۔

    میں رابعہ چاچی کی گانڈ کو مار کر اسقدر لذت محسوس نہیں کر رہا تھا جتنی اب محسوس ہو رہی تھی مجھے ایک لمحے کو ایسا لگا کہ میں فارغ ہونے والا ہوں لیکن پھر اچانک پرانی ترکیب پر عمل کرتے ہوئے میں نے اپنا دھیان حمزہ کی بیوی پر لگا دیا۔ میرا دھیان جیسے ہی نادیہ پر گیا میرا لن ویسے ہی تنا رہا جیسے اسے کسی کی کوئی پرواہ نہ ہو۔

    نادیہ موبائل ٹھیک کروانے میری دکان پر آئی تھی نقاب میں ہونے کے باوجود وہ انتہائی خوبصورت نظر آ رہی تھی۔ شاید اس کی ڈریسنگ اسے سب سے الگ ظاہر کر رہی تھی ۔ میں نے پہلے اسے عام کسٹمر کی مانند ڈیل کیا تو اس نے حمزہ کا تعارف کروایا۔

    نادیہ: میں آپ کی بھابھی ہوں (میں نے اس کو بغور دیکھا  لیکن مجھے شناسائی محسوس نہ ہوئی) آپ نے پہچانا نہیں میں حمزہ کی وائف ہوں

    مجھے اچانک یاد آیا۔ اس کی شادی اس کی دور کی رشتہ دار کے گھر ہوئی تھی وہ نادیہ سے ملنے جاتا تھا نادیہ اپنے علاقے میں کافی مشہور بھی تھی۔ لیکن امید نہ تھی کہ حمزہ کی شادی نادیہ جیسی لڑکی سے ہوگی۔میں نے حمزہ کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا: وہ آجکل لاہور ہوتے ہیں

    میں: ہاں یاد آیا وہ بتا رہا تھا

    میں نے اس کو مناسب قیمت بتائی تو اس نے کہا: آپ اس کو سیٹ کرکے گھر دے جائیں گے؟

    میں تھوڑا سا کنفوز ہوتے ہوئے  بولا: گھر! اچھا ٹھیک ہے میں حمزہ کو اطلاع دے دوں گا وہ گھر سے کسی کو بھیج دے گا

    میں دراصل کنفوز پیمنٹ کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ وہ بولی: حمزہ کو ہرگز نہ بتانا پلیز! اسے معلوم چلا کہ موبائل پھر سے خراب ہوگیا ہے تو اس نے موبائل یہیں رہنے دینا ہے۔ پلیز عادی! تم خود گھر دے جانا پلیز

    میں تھوڑا سا ہچکچایا اس نے دن کے کھانے کی دعوت بھی دے دی ۔ میں خاموش ہوگیا۔ اس نے ایڈوانس پیمنٹ پکڑائی اور چلتی بنی ۔ ہماری دکان کے بعد اب یہاں یکے بعد دیگرے منیاری، کراکری کی دکانیں بھی بن چکی تھی۔ وہ میری دکان سے نکل کر دوسری دکان میں جا چکی تھی۔

    میں نے موبائل چیک کیا تو موبائل میں اتنا فالٹ نہیں تھا ، میں نے موبائل سیٹ کیا اور دوسرے موبائل فون ٹھیک کرنے لگا۔ دوسرے کسٹمرز کے موبائل فون ٹھیک کرلینے کے بعد ویسے ہی دل میں ایک خیال آیا ۔

    میں نے ماموں کو کال کرکے بتایا کہ میں نے ایک کسٹمر سے ریکوری کرنی ہے اس لیے وہ دکان پر آجائیں ۔ جب سے ممانی کی گود ہری ہوئی تھی وہ ممانی کے آگے پیچھے دم ہلاتے رہتے تھے۔ اپنا زیادہ وقت ممانی نسرین کو ہی دے رہے تھے۔

    ممانی نسرین کے ہی سمجھانے پر وہ اب رات کے وقت دکان کی چھت پر سوتے تھے کیونکہ خوشیاں ایکدم سے ہمارے گھر پر نچھاور ہوئی تھیں۔ ماموں کی ایک ساتھ دو کمیٹیاں نکل آئی تھیں جن کی وجہ سے ماموں نے دکان کی ڈیکوریشن کافی خوبصورت طریقے سے کی تھی اور دکان میں کافی سامان لا کر سٹاک کرلیا تھا۔

    ماموں کے رات کے وقت دکان پر ہونے کی بدولت ، اب ہم دونوں کے درمیان پہلے کی نسبت دوریاں یا جھجھک بالکل ختم ہوگئی تھیں پہلے ہمیں ماموں کے آ جانے کا کچھ نہ کچھ ڈر رہتا تھا لیکن اب بالکل بھی ڈر نہ تھا۔ میری راتیں ممانی نسرین کے ساتھ رنگین اور پرسکون گزر رہی تھیں جبکہ دن رابعہ چاچی کے ہمراہ ، لیکن رابعہ چاچی پریگننٹ ہونے کے بعد اب زیادہ تر شہر میں رہنے لگی تھیں۔

    ماموں کو آجانے پر میں نے نادیہ کا موبائل اٹھایا اور نادیہ کے گھر کی جانب چل دیا جہاں مجھے پورا یقین تھا کہ میں بھی نادیہ کی بہتی گنگا میں یقینا ہاتھ دھو لوں گا۔پھر وہی ہوا جس کے متعلق حمزہ برجستہ انداز میں اپنی اور نادیہ کی سچی جھوٹی لیکن رنگین کہانیاں سنایا کرتا تھا ، نادیہ بھی ویسی ہی نکلی ۔

    یہ ایک نیا سلسلہ چل نکلا تھا ، جو شاید اب میری حسین یادوں میں گنا جائے گا۔ یہ نیا سلسلہ نئے سلسلوں کا حصہ ہی تھا کیونکہ پہلے احسن کی منگیتر کی سیکس کی ویڈیو ، پھر حمز ہ کا بلو جاب ، پھر ممانی نسرین کے ساتھ باقاعدہ سیکس، جو کہ ممانی کی ضرورت تھی ، اس کے بعد رابعہ چاچی کے ساتھ حسین چٹکلے اور اب حمزہ کی بیوی نادیہ ، نادیہ کے ساتھ سیکس بھی ویسا ہی ہوا تھا جیسا ہر عورت کے ساتھ ایک مرد کرتا ہے اس لیے اسے لکھنا بے مقصد ہے۔

    اس لیے میرے نزدیک خدا کی جانب سے میرے لیے میری رسی انتہائی ڈھیلی ہوچکی تھی میں بھی اپنی من مستیوں میں مبتلا تھا۔

    یہ وہ دن تھا جب مجھ پر حقیقت اشکار ہوئی ماموں اور ممانی آپس میں راز و نیاز میں باتیں کر رہے تھے جس میں میرا ہی ذکر تھا۔ میں اب حقیقت جان چکا تھا کہ ممانی ماموں کے ہوتے ہوئے بھی میرے کمرے میں کیسے آ جاتی تھی۔ میں نے اسی لمحے ایک فیصلہ لیا اور اپنی ضروری اشیا آہستہ آہستہ دکان پر منتقل کرنا شروع کردی اور ایک دن اپنی اشیائے ضروریات ایک بیگ میں پیک کرکے کچھ رقم لے کر لاہور کے لیے نکل گیا۔

    مجھے اس ظالم دنیا میں تنہا رہنے کا ہنر آ چکا تھا بے شک ماموں اور ممانی نے میرا بہترین استعمال کیا لیکن میں نے بھی ان کی دکان میں رہ کر ناجانے کتنی لڑکیوں اور عورتوں سے اپنے دن رنگین بنائے ، کئیوں کو ان کے موبائل ریئپر کرنے کے بدلے تسلی سے چودا کچھ خود نادیہ کی طرح میرے نیچے آئی تھیں۔

    میں نے اسی دکان کی بدولت موبائل رپیئرنگ کا کام سیکھا اب یہی ہنر لاہور میں میرے کام آ رہا تھا۔میں اسرار اور احسن کی بدولت آج دن تک ماموں سے بچا ہوا تھا ان کی نظروں میں نہیں آیا تھا

The End

0 Comments:

ایک تبصرہ شائع کریں

Thanks to take interest