SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

اتوار، 15 اگست، 2021

ایک باغی لڑکی

 


ایک باغی لڑکی

تحریر: ماہر جی

دن دو بجے کا وقت تھا۔ سڑک پر کافی رش تھا۔ ھلکی پھلکی بارش کی وجہ سے مری ایکسپریس وے پر تھوڑی سی پھسلن بھی تھی، جس کی وجہ سے ڈرائیور گاڑیاں احتیاط سے چلا رہے تھے۔ لیکین بلیک کلر کی ہنڈہ سیویک کار رش میں تیزی سے آگے نکل رہی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی رُباب کی ساری توجہ اپنی ڈرائیونگ پر تھی اور وہ مہارت سے کار کو مری کی جانب دوڑا رہی تھی۔ 24 سال کی عمر میں رُباب کا جسم کسی سیکسی ماڈل سے کم نہ تھا۔ اُوپر سے اُس نے ٹایٹ ٹی شرٹ اور جینز پہن رکھی تھی۔ ہلکے میک اپ اور کھلے بال، رباب کے حسن کو دوآتشہ کر رہے تھے۔کار میں ہلکی انگلش میوزک چل رہی تھی، لیکین رباب اس سے بے نیاز اپنی ڈرائیونگ انجوائے کر رہی تھی۔ لیکن رباب کے برعکس، اُس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی نائیلہ کی ساری توجہ انگلش دُھن پر تھی۔ اور گانے کی لے کے ساتھ نایلہ آھستہ آھستہ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے تھرک رہی تھی۔ ٹایٹ جینز میں اُس کی 23 سالہ جوان کولہے مست جھوم رہے تھے۔ اور اُس کے 36 کے ممے برا نہ ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی اُچھل رہے تھے اور اُنھیں فُل بازو لیکین کھلے گلے والی شرٹ بھی قابو نہیں کر پا رہی تھی۔ بارش کی وجہ سے باہر کا موسم بہت سہانہ ہو چکا تھا، مری کے سیزن کے دِن تھے اور لوگ ویک اینڈ کے لئے مری کا رُخ کر رہے تھے۔گاڑی کے اندر AC کی وجہ سے موسم اور بھی خشگوار تھا اور کار میں موجود جوان حسیناوں کے بدن سے اُٹھنے والی مسحور کُن خوشبو ماحول کو اور ھوشرُبا بنا رہی تھی۔ لیکین اس سارے ماحول سے بے نیاز نازیہ پیچھلی سیٹ پر اُکھتائی بیٹھی تھی۔ وہ کافی دیر سے اپنے میک اپ کو آخری ٹچز دینے کی کوشش کر رہی تھی مگر رُباب کی تیز درائیونگ اور مری کے پیچدار راستے کی وجہ سے اُسے بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ آخر اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور رُباب کے گورے سڈول شانے پر چپت لگاتے ہوے چلائی۔نازیہ:رُباب کی بچی گاڑی تھوڑی سلو چلاو۔ مجھے میک اپ کرنے دو ۔۔۔۔۔۔ نازیہ کی بات سُن کر رُباب نے بیک مرر سے پیچھے بیٹھی نازیہ کو مُسکرا کر دیکھا۔ اور گاری کی سپیڈ تھوڑی سی کم کر دی۔ زُباب کو اس وقت نازیہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ جس نے ٹایٹ پاجامہ کے اوپر پھولدار کاٹن کا کُرتا پہن رکھا تھا اور اُس کے دلکش ممے پہت سیکسی لگ رہے تھے۔ رُباب ھمشہ سے نازیہ کے جسم پر مرتی تھی۔ اگر چہ نازیہ اُن سب میں سب سے چھوٹی تھی مگر 22 سال کی عمر میں بھی اُس کا جسم باقی سب سے بھرا بھرا تھا۔ نازیہ کے بغل میں بیٹھی افشاں، نازیہ کی بات پر مُسکرا رہی تھی، اور جب نازیہ نے رُباب سے گاڑی آھستہ کرنے کو کہا تو افشاں نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہاافشاں: تم تو ایسے تیار ہو رہی ہو جیسے مری میں تیری شادی ہونے والی ہے۔ اچھی تو لگ رہی ہو۔ چھوڑو میک اپ کی جان اور ماحول کو انجوائے کرو۔ دیکھو تو باہر کتنا سہانہ موسم ہے۔ اِس ہلکی بارش نے تو مری کی پہاڑیوں کو نکھار دیا ہے۔ چھوڑو اس میک اپ کو اور انجوائے کرو۔افشاں کی بات سُن کر آگے بیٹھی نایلہ نے پیچھے مُڑکر دونوں کی طرف دیکھ کر کہا۔نایلہ: ہایے کاش مجھے کوئی ہینڈسم دولہا مری میں مل جائے میں تو وہیں اُس سے شادی کر کے سہاگ رات منا لوں گی۔نایلہ کی باتھ پر سب لڑکیاں مسکرا دی۔ نازیہ نے بھی اب میک اپ ختم کر دیا تھا۔ اور باقی سہیلیوں کے ساتھ سفر کو انجوائے کر رہی تھی۔نازیہ: اچھا تو پر تمہارے اُس عامر کا کیا ہو گا۔۔ کیا اُسے ڈھمپ کر دو گی۔۔۔نایلہ: ہائے نہیں میری جان۔۔ اب وہ ساتھ نہیں ہے تو کوئی تو چاہیے نا۔۔افشاں: بے فکر رہو، عامر کی کمی میں پُوری کر دوں گی۔۔۔ افشاں کی باتھ پر سب لڑکیاں مُسکرا دیں۔نازیہ: ہائے کاش آج شہزاد ساتھ ہوتا تو کتنا مزہ آ جاتا۔۔رُباب: یار تجھے ہر وقت اپنے بوایے فرینڈ کی پڑی رہتی ہے۔ کبھی ہمیں بھی وقت دیا کرو جان۔ مرہ نہ آیے تو ۔۔ وہ کیا کہتے ہیں۔۔۔ ہاں مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رُباب کی بات پر تینوں لڑکیاں ہنسنے لگی۔۔۔۔نازیہ: اچھا تم ڈرائیونگ پر توجہ دو۔ کہیں گاڑی ٹھونک ہی نہ دو۔۔۔۔۔۔۔ نازیہ کی اواز میں مصنوعی غصے کے ساتھ ساتھ شوخی بھی تھی۔۔۔رُباب:بے فکر رہو میری جان۔ میں گاڑی نہیں صرف تمہیں ٹھوکوں کی۔۔۔۔ رُباب نے بیک مرر میں نازیہ کو دیکتھے ہوے انتہائی لوفرانہ انداز میں کہا۔ رُباب کی بات سُن کر سب لڑکیوں نے قہقہہ لگایا۔نازیہ: چلو مری پہنچنے دو پر دیکھتے ہیں تمہاری ٹھونکنے کو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نازیہ کی آواز میں واضع شوخی اور دعوت تھی جِسے سب نے محسوس کیا۔رُباب: آہا۔۔۔ لگتا ہے آج میری قسمت کھلنے والی ہے۔ مزہ آ جائے گا قسم سے میری جان۔۔۔۔۔۔۔ رُباب نے پہلے کی طرح لوفروں کے انداز میں چہکتے ہووے کہا۔نازیہ: قسم سے رُباب تم بہت کونی ہو۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے جیسے تیرے اندر کوئی مرد چھُپا بیٹا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ نازیہ کی باتھ سُن کر سب نے زور کا قہقہہ لگایا۔نایلہ: ویسے تیری بات میں وزن ہے۔۔۔۔ آج صبح مُجھے ایسے کس کر رہی تھی جیسے عامر بھی نہیں کر پائے گا۔۔ بلکل مردانہ کسنگ کر رہی تھی۔۔۔ افشاں: شکر ہے صرف کس کر رہی تھی۔ یہ تو چودنے پہ آ جائے تو ڈلڈو کو ایسے یوز کرتی ہے جیسے مرد کا لوڑا۔۔۔۔ افشاں کی بات پر نازیہ نے ہنستے ہوے افشاں کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔۔رُباب: اچھا خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔۔۔ لیکیں کیا کروں۔۔ تم سب سے مجھے پیار بھی تو بہت ہے۔۔۔۔نایلہ:ویسے رُباب۔۔ ہم سب کے بوائے فرینڈ ہیں لیکین تیرا کوئی نہیں۔۔ کہیں مکمل لیسبین تو نہیں بن گئی ہو۔۔۔ سب اس باتھ پر ہنسنے لگے۔رُباب: ارے یار ابھی 10 دن تو ہووے ہیں احتشام سے علیحدہ ہووے۔۔ جب تک کوئی اور نہیں مل جاتا تب تک تم لوگوں کے سہارے گزارہ چلاوں گی۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے بیک مرر میں نازیہ کو دیکھ کر آنکھ مارتے ہوے کہا۔نازیہ: وہ تو خیر بوائے فرینڈ ہو یا نا ہو۔۔۔ ہم چاروں کا پیار تو چلتا رہے گا۔۔ لیکین کوئی ہاٹ مُنڈہ دیکھ بھی رکھا ہے کہ نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نازیہ نے بیک مرر میں رُباب کو شوخی سے گھورتے ہوے پوچھا۔۔۔۔ وہ اور باقی سب بھی جانتی تھیں کہ رُباب نازیہ پر مرتی ہے۔رُباب: ہائے جان۔۔۔ دِل تو کرتا ہے تجھے ہی اپنا بوائے فرینڈ بنا لوں، لیکیں کیا کروں تیری جان تو شہزاد میں اٹھکی ہے۔نازیہ: ہایے میرا شہزاد۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے رُباب کو جلانے کے انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہووے کہا۔ اور سب لڑکیاں ہنس پڑی۔۔۔افشاں: ویسے واقعی رُباب تم بغیر بوائے فرینڈ کے کیسے گزارہ کرتی ہو۔۔ میں تو شاہد کے بغیر ایک ویک سے زیادہ نہیں گزار سکتی۔۔۔رُباب:ویسے نظر میں ایک لڑکا ہے تو صحیح۔۔۔۔ لیکیں پتہ نہیں وہ مجھے اپنی گرل فرینڈ بنائے گا بھی یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔ اُس نے ایک بار پر نازیہ کو بیک مرر میں گھورتے ہووے کہا۔۔نایلہ: ہائے کون ہے وہ ۔ ہمیں بھی تو بتاورُباب: ہے بس ایک میرے دِل کے قریب۔۔۔افشاں: ویسے تیرا دل تو نازیہ میں ہے۔۔۔ افشاں نے شوخ انداز میں کہارُباب: وہی تو۔۔نازیہ:کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے رُباب کو گھورتے ہووے کہا۔افشاں:مطلب میں سمجھاتی ہوں۔۔۔ اسے نازیہ کے بھائی سے پیار ہو گیا ہے۔۔۔ ہے نا رُبی۔۔۔۔ افشاں نے پیار سے رُباب سے کہا۔۔۔نازیہ:کیا واقعی رُباب۔۔۔۔ ہہ افشاں کی بچی سچ کہہ رہی ہے؟رُباب:تیری قسم۔۔۔ ہایے کیا فیس ہے ظالم کا۔۔ کیاحسن ہے۔۔۔ اُف اُس کی مست باڈی۔۔۔۔ ہایے جب بھی اُسے دیکھتی ہوں میری تو گیلی ہونے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رُباب نے بہت ہی فحش انداز میں اپنے سینے اور ٹانگوں کے بیچ ہاتھ پھیرتے ہووے کہا۔ اور اُس کے اس انداز پر ساری لڑکیوں نے قہقہہ لگایا سوائے نازیہ کے۔نازیہ: جھوٹ۔۔۔ تم جھوٹ بول رہی ہو نا۔۔۔رُباب:تیری قسم میری جان۔۔۔ تم دونوں بھائی بہن میں میری جان اتکی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رُباب کی آواز میں بےباکانہ پن تھا اور اُس کی بات سُن کر باقی ساری لڑکیاں ہنسنے لگی۔۔۔۔نایلہ: تم تھوڑی ہیلپ کر دو نا نازیہ رُباب کی۔۔۔۔ اپنے بھائی سے اس کی سیٹنگ کرا دو۔۔۔نازیہ: وہ تو کر دوں لیکیں کونسے والے سے۔۔۔۔ کامران سے یا عمران سے۔۔۔۔۔۔رُباب:عمران سے ہائے کیا مست ہے وہ۔۔ کامران تو مجھ سے چھوٹا ہے۔۔ ویسے اُس کی اپنی کوئی گرل فرینڈ تو نہیں ہے؟ رُباب نے نازیہ سے پوچھا۔۔۔نازیہ: پتہ نہیں ویسے میں پتہ کرا لوں گی۔۔۔۔رُباب: بس تم صرف یہ پتہ کروا لو باقی میں خود ہی کر لوں گی۔۔۔۔۔۔ رُباب کی بات پر سب نے قہقہہ لگایا۔۔افشاں: اُف مری کب پہنچیں گے۔۔۔ میں تو بیٹھے بیتھے تک گئی ہوں۔رُباب: بس 10 15 منٹ کا فاصلہ رہ گیا ہے۔۔ اور پھر ہم ہوٹل میں ہوں گی۔۔ نایلہ: ہوٹل کونسا ہے۔۔ ہے تو اچھا نا۔۔۔ اُس نے رُباب سے پوچھا۔رُباب: ہاں اچھا ہے۔ 5 سٹار تو نہیں ہے۔ 4 سٹار ہے۔۔ پورا سویٹ بُک کرایا ہے بابا نے۔۔ افشاں: واہ رانا انکل زندہ باد۔۔۔۔ اور افشاں کے نعرے پر سب نے کہا رانا انکل زندہ باد۔۔۔۔۔۔ اور پر کوئی 15 منٹ بعد وہ ہوٹل میں پہنچ گئیں۔۔۔ سویٹ واقعی شاندار تھا۔۔ دو بیڈ روم اورسٹنگ روم کے ساتھ ہر سہولت دستیاب تھی۔ ساری لڑکیاں سویٹ میں پہنچتے ہی سِٹنگ روم میں صوفوں پر ڈھیر ہو گئیں۔ ویٹر نے اُن کا سامان بھی وہیں رکھ دیا۔۔۔۔ ویٹر:اور کچھ میڈم۔۔۔ رُباب: نو تھینکس۔۔۔ اور یہ کہہ کر اُس کے نے ویٹر کو ٹِپ دے کر فارغ کر دیا۔۔۔ ویٹر کے جانے کے بعد نازیہ اُتھی اور اندر جانے لگی۔۔ اندر جاتے ہوے اُس نے رُباب کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں کہا۔۔۔۔ نازیہ: میں تو فریش ہونے جا رہی ہوں ۔۔ باتھ لے لوں۔۔۔ نایلہ: ہاے گھومنے باہر نہیں جانا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ رُباب نازیہ کو اندر بیڈ روم میں جاتے ہوے دیکھ رہی تھی۔۔ اُس نے نایلہ کی بات پر شوخی سے کہا۔۔ رُباب: اتنی بھی کیا جلدی۔۔۔ ابھی تو سارہ دن پڑا ہے۔۔۔ ابھی سب فریش ہوتے ہیں۔۔ افشاں: ویسے بات صحیح ہے۔۔ تھوڑا فریش ہو کر شام کو باہر جاییں کے۔۔ مری کا ماحول ویسے بھی شام کو ہی گرم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افشاں کی بات سُن کر رُباب بھی کھڑی ہو گئی۔۔ اور جس بیڈ روم میں نازیہ گئی تھی اُس طرف دیکتھے ہوے کہا۔۔۔۔۔ رُباب: میں بھی تھوڑی فریش ہو کر آتی ہوں۔۔۔۔۔ اور یہ کہہ کر وہ اُسی بیڈ روم کی طرف چھل دی جدھر نازیہ گئی تھی۔۔ اُس کی بات پر نایلہ اور افشاں معنی خیز انداز میں ایک دوسری کو دیکھتے ہوے مُسکُرا دیں۔۔ افشاں ہم بھی چلیں کیا؟نایلہ: اُن کے پاس۔ افشاں: نہیں یار اُن کو انجوائے کرنے دو۔۔۔ ہم دوسرے روم میں چلتے ہیں۔۔۔ ابھی افشاں کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ نایلہ کا فون بجنے لگا۔۔۔۔ نایلہ نے فون اُتھا کر دیکھا تو اُس کے ڈیڈ کی کال تھی۔۔۔ نایلہ۔ گھر سے کال ہے یہ اٹینڈ کر لوں پر چلتے ہیں ۔افشاں: تھیک ہے میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ---- رُباب آہستہ سے اُس کمرے میں چلی گئی جہاں تھوڑی دیر پہلے نازیہ گئی تھی۔ اُسے نازیہ بہت اچھی لگتی تھی۔ جب بھی وہ چاروں آپس میں پیار اور محبت کرتی تھیں، تورُباب کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ وہ نازیہ کے ساتھ ہو۔ یہ بات نہیں کہ اُسے افشاں اور نایلہ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ اُن دونوں کے ساتھ بھی بہت ینجوائے کرتی تھی مگر نازیہ کے لئے اُس کے دل میں ایک خاص جگہ تھی، اور یہ بات سب لڑکیاں جانتی تھیں۔ اس لئے جب نازیہ نے باتھ روم جاتے ہوے رُباب کو دعوت انگیز انداز میں دیکھا تو رُباب کے پورے بدن میں ایک سرور سا چھا گیا۔ اور افشاں اور نایلہ نے بھی اسی وجہ سے اُن دونوں کو ڈسٹرب نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیڈ روم میں پہنچ کر رُباب نے دیکھا کہ کمرے میں کوئی نہیں ہے۔ لیکین باتھ روم سے نازیہ کے گنگنانے کی ہلکی آواز آ رہی تھی۔ رُباب باتھ روم کی طرف بڑھی۔ باتھ روم کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔ اور اُس ادھ کھلے دروازے سے جو منظر رُباب نے دیکھا وہ اُس کے ہوش اُڑانے کے لئی کافی تھا۔ نازیہ شرٹ اُتار چکی تھی اور اب پاجامہ اُتارنے میں مگن تھی۔ اُسکی کمر دروازے کی طرف تھی اس لئے اُسے رُباب کے آنے کی خبر نہ ہو سکی۔ اُس کی گوری کمر پر سرخ کلر کی برا کا سٹرپ بہت سیکسی لگ رہا تھا۔ اُسکا پاجامہ بہت ٹایٹ تھا اور نازیہ کو اُتارنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ اُس کا پاجامہ اُس کے گھٹنوں میں پھنسا ہوا تھا، اور وہ اُسے اُتارنے کے لئے آگے جھکی ہوئی تھی۔ جھکنے کی وجہ سے اُس کے سدول گورے گورے کوہلے باہر کو نکلے ہوے تھے اور رُباب کو دعوت نظارہ دے رہے تھے۔نازیہ کے دونوں کولہوں کے بیچ میں پھنسی اُس کی لال کلر کی پینٹی نظارے کو اور زیادہ سحر انگیز بنا رہی تھی۔ رُباب وہیں باتھ روم کے باہر کھڑے کھڑے اپنے کپڑے اُتارنے لگی۔ وہ بہت جلدی میں لگ رہی تھی۔ رُباب نے شرٹ اور پینٹ کے ساتھ ساتھ برا اور پینٹی بھی اُتار لی تھی۔ وہ ابھی تک کمرے میں باتھ روم کے دروازے کے قریب تھی۔ کپڑے اُتار کر وہ آہستہ سے باتھ روم میں چلی گئی۔ نازیہ پاجامہ اُتار کر جیسے سیدھی ہوئی تو رُباب اُس کے پیچھے پہنچ چکی تھی۔ رُباب نے نازیہ کی گوری کمر کے ساتھ جیسے ہی اپنے ممے ٹچ کیے تو نازیہ نے چونک کر سر پیچھے گھمایا۔ اور رُباب کو دیکھ کر اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ نازیہ کو بھی رُباب کے ساتھ اچھا لگتا تھا۔ رُباب جس جوش اور چاہت سے اُسے پیار کرتی تھی وہ اُسے مدھوش کر دیتی۔ رُباب نے اب نازیہ کو پیچھے سے اپنی بانہوں میں لے لیا تھا۔ رُباب کے ممے نازیہ کی کمر سے مس کر رہے تھے اور رُباب کی رانیں نازیہ کے بھرے بھرے سڈول کولہوں سے۔ رُباب: آئی لو یو جانو۔۔۔۔ رُباب کی آواز خمار آلود تھی۔ وہ نازیہ کے گورے اور صاف شفاف پیٹ کو اپنے ہاتھوں سے آہستہ آہستہ سہلا رہی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ وہ نازیہ کی گردن اور گالوں کو چوم رہی تھی نازیہ: می ٹو۔۔۔ جانو۔۔۔۔۔۔ نازیہ نے بھی اُسی چاہت سے جواب دیا جو چاہت اُس نے رُباب کے لہجے میں محسوس کی تھی رُباب نازیہ کے بدن کے لمس سے گرم ہو رہی تھی۔۔ اُس نے ایک ہاتھ سے نازیہ کے گال کو سہلاتے ہوے اُس کا چہرہ پیچھے اپنی طرف موڑ لیا۔ رُباب نے نازیہ کو پیچھے سے بانہوں میں پکڑے رکھا تھا اور جب نازیہ نے چہرہ پیچھے گھمایا تو رُباب نے بے ساختہ اُس کے نرم ہونٹوں کو چومنا شروع کیا۔ نازیہ بھی اُس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ رُباب کا ایک ہاتھ ابھی تک نازیہ کی گال پر تھا اور وہ نازیہ کے ستھ کسنگ کرتے ہوے اُس کی گال کو آہستہ آہستہ سے سہلا رہی تھی۔۔ رُباب کا دوسرا ہاتھ ابھی تک نازیہ کے پیٹ پر تھا اور وہ اب نازیہ کی نرم گداز ناف میں بڑے پیار سے اُنگلی پھیر رہی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسری کے ہونٹوں کو کس کر رہی تھیں۔ رُباب ، نازیہ کے ہونٹوں کی نرمی میں جیسے کھو سی گئی تھی۔۔ نازیہ کے ہونٹوں پر لگی وہ ساری لپ سٹک کی شوخی ماند پڑھ رہی تھی جو اُس نے راستے میں کار میں لگائی تھی۔ فرینچ کس کرتے ہوے نازیہ اور رُباب کی زُبانیں باربار ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی۔ اور پر ایک بار جب نازیہ کی زبان اُس کے ہونٹوں میں سے کچھ زیادہ ہی باہر آ گئی تو رُباب نے اُس کی زُبان کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا اور پورے انہماک سے اُسے چوسنے لگی۔ اب نازیہ پوری طرح گھوم گئی اور اُس کا چہرہ رُباب کے سامنے تھا اور اُسے کا سینہ رُباب کے سینے سے ٹچ کر رہا تھا۔ رُباب نے دونوں ہاتھوں سے نازیہ کو اپنی بانہوں میں کس کر بھر لیا اور نازیہ نے اپنی بانہیں رُباب کے کاندوں کے اُوپر سے اُس کی گردن کے گرد جما دیں۔ رُباب، نازیہ کو بانہوں میں لئے اور اُس کی زبان اور ہونٹ چوستے ہوے اُسے آہستہ سے شاور کےقریب لے گیئی۔ نازیہ نے ابھی تک برا اور پینٹی پہن رکھی تھی۔ لیکین وہ دونوں تو ایک دوسرے کے ستھ کسنگ میں اتنی مصروف تھیں کہ اور کسی طرف اُن کی توجہ ہی نہیں تھی۔۔ رُباب نے ایک ہاتھ سے شاور کھول دیا۔ وہ دونوں ابھی شاور کے نیچھے نہیں تھی۔ شاور کا پانی پہلے ٹھندا تھا لیکین پر وہ معتدل ہو گیا۔ اور پر رُباب نے کسنگ جاری رکھتے ہوئے نازیہ کو اپنی بانہوں میں بھر کر شاور کے نیچے کر دیا۔ وہ دونوں پانی میں بھیگنے لگیں۔ پانی نے اُن کے اند کی گرمی کو کم کرنے کے بجائے اُسے دوآتشہ کر دیا۔ وہ دونوں اب ایک دوسرے کے گیلے بدن کو اپنے ہاتھوں سے مسل رہی تھیں۔ اور کسنگ کرتے کرتے وہ ایک دوسرے کے گالوں اور گردن اور پورے چہرے کو چومنے چاٹنے لگی۔۔ اُن کا جوش بڑھ رہا تھا۔ وہ دونوں بھرپورانداز میں ایک دوسرے سے پیار کر رہی تھیں۔ پانی دونوں جوان لڑکیوں کے گداز بدن کو گیلا کرتے ہوے اُن کے کولہوں اور ٹانگوں سے نیچھے بہہ رہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے پورے بدن کو ہاتھوں سے مسل رہی تھیں۔ اور ایک دوسرے کے چہرے گردن اور ہونٹوں کو پیار کر رہی تھیں۔ رُباب نے نازیہ کی برا کا ہُک کھول کر برا کو نازیہ کے جسم سے الگ کر دیا۔ اور پر نیچھے اُس کی پینتی میں ھاتھ ڈال کر اُس کی پینٹٰی کو نیچھے کرتے ہوے اُسے نازیہ کے گھٹنوں سے بھی نیچھے کر ،دیا جِسے نازیہ نے اپنی ٹانگوں سے نیچھے کرتے ہوے نکال دیا۔ نازیہ بھی اب مکمل ننگی ہو چکی تھی۔ رُباب نے نازیہ کی گردن کو چومنا شروع کیا۔ اور چومتے چومتے وہ نازیہ کے پستانوں تک پہنچ گئی۔ اُف کیا خوبصورت لگ رہے تھے نازیہ کے سڈول جوان ٹایٹ پستان اور اُن کے اوپر پنک کلر کے نپلز۔۔ آآہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اُنہیں دیکھ کر رُباب کے مُنہ سے بے ساختہ ایک آہ نکل گئی۔ رُباب اس وقت نازیہ کے سامنے جھکی ہوئی تھی۔ اُس نے ایک ایک ہاتھ میں نازیہ کے دونوں مموں کو دبوچ رکھا تھا۔ پر اُس نے دائیں پستان کو چومنا اور چاٹنا شروع کیا۔ رُباب کافی دیر تک نازیہ کے ممے اور نپل باری باری چومتی چاٹتی رہی اور اس دوران نازیہ اُس کے بالوں میں پیار سے انگلیاں پھیرتی رہی۔ پھر رُباب اُٹھی اور دوبارہ نازیہ کے ساتھ کسسنگ کرنے لگی۔ شاور کا پانی اُن دونوں کو مسلسل بگھو رہا تھا۔ رُباب نے سایڈ ریک میں پڑا ہوا شیمپو اُٹھایا اور کھول کر نازیہ کے کاندھوں اور سینے پر شیمپو دالنے لگی۔ پر رُباب کے ہاتھوں سے شیمپو کی شیشی نازیہ نے لی اور شیمپو رُباب کے جسم پر ڈالنے لگی۔ نازیہ نے شیمپو کی شیشی سایڈ پر رکھ لی اور پھر رُباب کے بدن پر شیمپو ملنے لگی۔ یہی کچھ رُباب نازیہ کے ساتھ کر رہی تھی۔ دونوں کے جوان بدن جھاگ سے بھر گئے۔ وہ دونوں کبھی ایک دوسری کے پستانوں پر جھاگ مل رہی تھی اور کبھی رانوں اور کولہوں پر۔ شاور ابھی بھی چل رہا تھا لیکین وہ دونوں اُس سے سایڈ پر تھیں۔ رُباب ایک ہاتھ نازیہ کی ٹانگوں کے درمیان لے گئی اور جھاگ کو نازیہ کی چوت اور گانڈ پر ملنے لگی۔ جس سے نازیہ کا شوق بڑنے لگا۔ اور وہ آہستہ آہستہ مزے سے کراہنے لگی۔ پر یہی کچھ نازیہ رُباب کے ساتھ کرنا شروع ہوئی۔ اب دونوں کی مٹھی کراہوں سے باتھ روم کا ماحول اور بھی شہوت انگیز ہو گیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں دوبارہ شاور کے نیچے چلی گئی اور پانی سے جھاگ ایک دوسری کے بدن سے دھونے لگی۔ سفید سفید جھاگ دونوں کے کنوارے گورے بدن سے نیچے بہنے لگا۔ جب دونوں پوری طرح سے جھاگ سے صاف ہو گئی تو رُباب نے ٹاول اُتھا کر نازیہ کے بدن کو سکھایا اور پر اُسی ٹاول سے نازیہ نے رُباب کے بدن کو سکھایا۔ رُباب نے نازیہ کو بانہوں میں لے کے اُس کے ہونٹوں کا ایک طویل بوسہ لے کر کہا۔۔۔ رُباب: جان بیڈ پر چلیں؟ رُباب کی آواز میں دعوت تھی نازیہ: چلو۔۔ نازیہ نے بھی اُسی ادا سے جواب دیا رُباب اور نازیہ ایک دوسری کی بانہوں میں بانہیں ڈالے بیڈ روم میں آ گئیں۔ نازیہ بڑی ادا سے رُباب سے الگ ہو کر بیڈ پر ہاتھ اور پاوں کی مدد سے چڑھی۔ اس دوران وہ پیچھے رُباب کو خمار آلود نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ اُس کی نگاہوں میں کھلی دعوت تھی۔ بیڈ پر چرھنے کے بعد وہ بیڈ پر ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی بیڈ کے درمیان میں پہنچی۔ اس دوران اُس کے کولہے رُباب کی جانب اُٹھے ہوے تھے اور دونوں کولہوں کے بیچ میں نازیہ کی چوت اور گانڈ واضع ہظارہ دے رہیں تھی۔ بیڈ کے بیچ میں پہنچ کر نازیہ سیدھی لیٹ گئی اور دونوں ٹانگیں کھول کر اپنی چوت کے لبوں پر انگلی پھیرتے ہوے رُباب کو دعوت دیتی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ رُباب بھی نازیہ کا اشارہ سمجھ گئی۔ وہ بھی اُسی انداز میں ہاتھوں اور ٹانگوں کے بال بیڈ پر چرھ کر نازیہ کی ٹانگوں کے بیچ پہنچ گئی اور بڑے پیار اور انہماک سے نازیہ کی چوت پر اُنگلی پھیرنے لگی۔ نازیہ کو بہت مرہ آ رہا تھا۔ وہ اوووو آآآآہ ہ ہ کرنے لگی۔۔ نازیہ کی چوت گیلی ہو رہی تھی۔ نازیہ کی چوت سے پانی نکلتے دیکھ کر رُباب بھی اور گرم ہو گئی۔ اور دوسرے ہاتھ سے وہ اپنی چوت کو مسلنے لگی۔ تھوڑی دیر تک اپنی اور نازیہ کی چوت انگلیوں سے مسلنے کے بعد، رُباب نازیہ کی چوت کے اُوپر جُھک گئی اور اپنا منہ اُسکی چوت پر رکھ کر نازیہ کی چوت کو پہلے اُوپر اُوپر سے چومتی رہی اور پر دھیرے سے اپنی نرم زبان نازیہ کی صاف پنک اور گیلی چوت کے اندر گھسا دی۔ جیسے ہی رُباب کی زبان نے نازیہ کی چوت کے دانے کہ ٹچ کیا تو نازیہ کے منہ سے بے اختیار آہ ہ ہ ہ ہ ہ کی ایک سیکسی کراہ نکل گئی۔ رُباب اب نازیہ کی چوت کو اندر سے چاٹ رہی تھی۔ اور نازیہ مزے اور جوش میں کبھی اپنے سر کو دائیں بائیں کر رہی تھی اور کبھی اپنے ہونٹ دانتوں میں دبا رہی تھی۔ اُس کی سیکسی آوازیں سارے کمرے میں گھونج رہی تھیں۔ وہ مسلسل رُباب کے سر میں پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھی اور کبھی کھبی رُباب کے سر پر دباو ڈالتی جس سے رُباب کی زبان اُس کی چوت میں اور اندر تک چلی جاتی۔ کچھ دیر اسی پوزیشن میں رہنے کے بعد، نازیہ نے دونوں ہاتوں سے رُباب کے چہرے کو پکڑ کر اُس کے منہ کو اپنی چوت سے ہٹایا اور اُس کے سر کو اُوپر اُٹھا دیا۔ رُباب نے نازیہ کی طرف دیکھا اور پوچھا۔۔ رُباب: کیا ہوا میری جان۔۔۔ مزہ نہیں آ رہا کیا؟ نازیہ: اوہ جان، بہت مزہ آ رہا ہے۔ لیکین میں نے تیری چوت بھی چاٹنی ہے۔ اپنی چوت میرے اوپر لے آو نازیہ کی باتھ سُن کر رُباب نے شوخ نظروں سے اُسے دیکھا اور پر اپنی جگہ سے اُتھ کر گھومی اور اپنی دونوں رانیں نازیہ کے چہرے کے دائیں بائیں رکھ کر آگے سے وہ نازیہ کی چوت کے اوپر جھک گئی۔ اب وہ دونوں 69 کی پوزیشن میں تھیں۔ نازیہ نیچے لیٹی ہوئی تھی اور رُباب اُس کے اوپر۔ نازیہ کے چہرے کے اوپر رُباب کی چوت تھی اور رُباب کے منہ کے نیچے نازیہ کی چوت۔ اور پر وہ دونوں ایک دوسرے کی چوت کو چومنے چاٹنے لگی۔ دونوں کی کراہیں اور ممیانے کی شہوت انگیز آوازیں پورے کمرے میں گھونج رہی تھیں۔ دونوں زبان کے ساتھ ساتھ انگلیوں کا بھی استعمال کر رہی تھیں۔ کبھی وہ ایک دوسری کی چوت کو زبان سے چاٹتی اور کبھی اُس میں انگلی ڈال کر مزہ دیتی۔ وہ کافی دیر تک ایک دوسری کے ساتھ یہ کھیل کھیلتی رہی اور پر جب دونوں چھوٹ گئیں تو دونوں کی لمبی لمبی سانسوں کی آوازوں نے باقی آوازوں کو دبا دیا۔ رُباب نازیہ کے اوپر سے اُتری اور نازیہ کے ستھ لیٹ گئی۔ وہ نازیہ کے ہونٹوں کو کس کرنے لگی۔ اور اُس کے ممے ملتی رہی۔ جواب میں نازیہ بھی اُس کے بدن پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔ رُباب: کیسا لگا میری جان؟ نازیہ: ہمیشہ کی طرح بہت مزہ آیا۔۔ آئی لو یو رُبی رُباب: آئی لو یو ٹو میری جان۔۔۔۔ اور پھر دونوں ایک دوسرے کو کس کرتے ہوے ایک ستھ لیٹ گئی ُرباب اور نازیہ کی سسکیاں اور آوازیں لاونج میں بیٹھی افشاں اور نایلہ کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں اور دونوں زیرلب مسکرا رہی تھی۔ نایلہ ابھی تک کال پر گھر والوں سے باتیں کر رہی تھی۔ لیکین اندر کی آوازیں وہ بھی سُن رہی تھی۔ لیکین اُس کی زیادہ توجہ فون پر تھی۔ لیکیں افشاں کی ساری توجہ اُن آوازوں کی طرف تھی۔ ہائے کیسی میٹھی رسیلی آوازیں تھی۔ اُس کا ہاتھ بے اختیار اپنی چوت پر چلا گیا اور وہ اپنی چوت اوپر سے مسلنے لگی۔ افشاں اور نایلہ دونوں نے ٹایٹ جینز اور ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں۔ افشاں نے پینٹ کے اوپر بیلٹ نہیں پہنی تھی۔ اُس نے اپنی چوت مسلتے مسلتے اپنی پینٹ ڈھیلی کی اور چوت کے اوپر سے کھول لی۔ نیچے سے اُس کی ریڈ کلر کی پینٹی نظر آنے لگی۔ افشاں نے اپنی پینٹی میں ہاتھ ڈالا اور اپنی چوت کو مسلنے لگی۔ اُس نے ایک انگلی اپنی چوت میں گھسا رکھی تھی۔ اندر کمرے سے رباب اورنازیہ کی پیار بھری میٹھی آوازیں مسلسل آ رہی تھی۔ اور اُن کی شہوت بھری آوازیں افشاں کو اور گرما رہی تھی۔ اُدھر نایلہ فون پر مصروف تھی۔ وہ کھِن اکھیوں سے افشاں کو اپنے آپ سے کھیلتے ہوے دیکھ رہی تھی۔ اور اب اُسے جلدی ہو رہی تھی فون بند کر کے افشاں کے ساتھ پیار کرنے کے لیے۔ اُس نے فون جیسے بند کیا، تو افشاں اُس کے قریب ہو گئی اور نایلہ کو بانہوں میں ساییڈ سے لے کر اُس کے گال چومنے لگی۔
 نایلہ نے بھی اپنی بانہیں اُس کی گردن میں ڈالی اور چہرہ افشاں کی طرف موڑ لیا۔ اور پر دونوں ایک دوسری کے ساتھ کسنگ کرنے لگی۔ کافی دیر تک وہ ایک دوسرے کو چومتی چاٹتی رہی۔ افشاں نایلہ سے الگ ہو کر اپنے کپڑے اُتارنے لگی۔ اُس کی دیکھا دیکھی نایلہ نے بھی اپنے کپڑے اُتارنے شروع کئے۔ پھر تھوڑی دیر میں دونوں صوفے پر ننگی ایک دوسرے کے سامنے بیٹھی تھیں۔ دونوں نے اپس میں جپی ڈالی اور دوبارہ سے کسنگ کرنے لگی۔ لیکین اس بار ننگی ہو کر۔ دونوں کے ننگے بدن ایک دوسرے سے رگڑ کھا رہے تھے۔ اور ایک دوسرے کے بدن کا لمس اُن دونوں کو اور گرما رہا تھا۔ وہ دونوں کسنگ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے بدن پر ہاتھ بھی پھیر رہیں تھیں۔ کمر پر، چوتڑوں پر، مموں پر رانوں پر اور گالوں پر۔۔۔ ہر جگہ۔۔۔ بغیر کسی روک ٹوک۔۔۔۔ کھلی اور مکمل آزادی سے دو برہنہ ہوا کی بیٹیاں ایک دوسری کے جوان بدن کے لمس سے محظوظ ہو رہی تھیں۔ اور کچھ یہں حال اندر کمرے میں رُباب اور نازیہ کا تھا (اُن کا حال آپ پہلے ہی کہانی میں پڑھ چکے ہیں) پر افشاں نے نایلہ کو صوفے پر سیدھا لیٹا لیا اور خود اُس کے اُوپر لیٹ گئی۔ افشاں کے بھاری مموں کے نیچے نایلہ کے جوان ممے دبے ہوئے تھے اور افشاں کی ایک ٹانگ نایلہ کی دونوں رانوں کے بیچ میں اُس کی چوت کے ستھ لگی ہوئی تھی۔ افشاں اور نایلہ دوبارہ کسنگ کرنے لگی اور ساتھ ہی افشاں نے اپنی ران سے نایلہ کی چوت کو بھی مسلنا شروع کیا۔ اس پوزیشن میں افشاں کی چوت نایلہ کی ران کے اوپر خود بخود آ ہی گئی تھی۔ اور جب افشاں اپنی ران نایلہ کی چوت سے رگڑتی تو نایلہ کی ران سے اُس کی چوت بھی رگڑ جاتی۔ یوں دونوں مزے لے رہیں تھیں۔ نایلہ نے افشاں کو اپنی پانہوں میں بھر لیا اور اُسے زور لگا کر پلٹا۔ یوں کہ اب نایلہ افشاں کے اوپر آ گئی۔ اور پر نایلہ افشاں کی چوت کی طرف مُڑی اور اپنا مُنہ افشاں کی چوت پر رکھ کر اپنی ٹانگیں افشاں کے منہ کے اوپر سایڈز پر پھیلا دی۔ یوں دونوں اب 69 کی پوزیشن میں آ گئی تھی۔ اور پر دونوں ایک دوسرے کی چوت کو چومنے چاٹنے لگیں۔ کافی دیر بعد دونوں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ اور پر ایک دوسری کو بانہوں میں لے کر کچھ دیر وہیں صوفے پر پڑی رہیں۔ اس دوران اندر سے بھی آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں۔ افشاں اور نایلہ کچھ دیر بعد اُٹھی اور اندر اُسی کمرے کی طرف چل دیں جہاں رباب اور نازیہ تھیں۔ اندر رباب اور نازیہ ایک دوسری کی بانہوں میں لیٹی تھیں۔ نایلہ اور افشاں بھی ننگی اُن کے ساتھ چمٹ کر لیٹ گئیں۔ افشاں رُباب کے پیچھے اور نایلہ نازیہ کے پیچھبے لیٹیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد افشاں نے رباب کے کولہوں پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ افشاں: امممم آج تو پہت مزہ آیا۔ اب آگے کا کیا پلان ہے؟ رُباب: میں تو اپنی جان کو بانہوں میں لے کر رات تک پڑی رہوں گی۔۔۔ یہ کہتے ہوے اُس نے نازیہ کو اپنی بانہوں میں زور سے کس لیا۔۔ جس سے نازیہ کی ہائے نکل گئی۔ اور نازیہ کی درد بھری ہائے سن کر رباب نے اپنے ہاتھوں کا گھیرا تھوڑا ڈھیلا کر دیا اور پیار سے نازیہ کے ہونٹوں کا بوسہ لے کر سوری کہا۔ نازیہ: رُباب کی بچی کیا اپنی جان کی جان لو گی۔ قسم سے کسی مرد کی طرح دباتی ہو تم تو۔ ۔۔۔۔۔۔ نازیہ کی بات پر چاروں لڑکیاں ہنس دیں۔۔ رباب: ہائے میری جان کتنی بار بتا چکی ہوں تجھے دیکھ کر پتہ نہیں میرے اندر کہاں سے ایک مرد گھس آتا ہے۔۔۔۔ یہ کہتے ہوے رباب نے دوبارہ سے نازیہ کو اپنی بانہوں میں کس لیا۔ مگر اس بار پیار سے۔۔ جسے نازیہ نے بھی محسوس کیا۔ نازیہ: روکو تم۔۔ تمہاری دوستی بھیا سے ہونے دو پر وہ تجھے بتائیں گے اصل مرد کسے کہتے ہیں۔۔۔۔ نازیہ کی آواز میں لاڈ بھی تھا اور شوخی بھی۔ رباب: اُف کاش وہ دن جلدی آ جائے۔۔ میں اُس دن کے لئے مری جا رہی ہوں۔۔۔ رباب کی بات پر پھر سے سب ہنسنے لگیں۔ نایلہ: مری جا نہیں رہی ہو بلکہ مری آگئی ہو۔۔۔۔۔ نایلہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ افشاں: اچھا بابا اگر تم دونوں لیلہ مجنوں کی باتیں ختم ہو گئی ہوں تو یہ بھی بتا دو کہ آگے کیا پلان ہے۔ ہم یہاں صرف آپس میں سیکس کے لیے تو نہیں آئیں۔ وہ تو اسلام آباد میں بھی ہو سکتا تھا۔ کوئی پروگرام بناو انجوائے کریں یار۔۔ رباب: ضرور کریں گے انجوائے۔۔ آج شام کو مال روڈ پر جائیں گے۔۔ خوب مستی کریں کے وہاں۔۔۔ نایلہ: ہائے دعا کرو کوئی گبرو جوان آج شام مل جائے قسم سے کئی دنوں سے لوڑے کو دیکھنے کیلیے ترس رہی ہوں۔۔۔ اُس کی بات پر سب ہنسنے لگیں۔ رُباب: بے فکر رہو میری جان۔۔۔ آج بہت لوڑے ملیں گے جتنے چاہو لے لو۔۔۔ رُباب کی بات پر سب لڑکیاں اپنی اپنی سوچوں میں گھوم ہو گئیں اور۔ شام کا انتظار ایک ساتھ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام ہوتے ہی ساری سہیلیاں گھومنے اور مستی کرنے باہر چلی گئیں۔ سب لڑکیوں نے ٹائیٹ کپڑے پہن رکھے تھے جن میں اُن کے حسین اور جوان بدن اپنی پوری آب و تاب سے اپنے جلوے دکھا رہے تھے۔ وہ تینوں رات دیر تک گھومتی رہیں۔ کئی لڑکوں نے کوشش کی اُن کی توجہ حاصل کرنے کی لیکین اُن تینوں نے کسی کو لفٹ نہیں کرائی۔ مری کی مال روڈ پر وہ تینوں رش میں پھنس گئی۔ اور اس دوران کئی مردانہ بدن اُن کے آگے پیچھے اُن سے ٹکراتے رہے۔ کئی ہاتھوں نے اُن کے جسموں کی گولائیوں اور گہرائیوں کو ناپنے کی کوشش کی۔ کسی نے باہر باہر سے تو کسی نے پینٹ اور شرٹ کے اندر ہاتھ ڈال کر۔۔ جب تک معاملہ مزے کی حد میں رہتا تو وہ تینوں اس چھیڑ چھاڑ کو انجوائے کرتی اور جب بھی کوئی ایسی حرکت کرتا کہ اُن کو تکلیف ہوتی تو وہ اُس کو جھٹک کر آگے بڑھ جاتی۔ اور پر کسی اور مرد کے لمس سے مزے لینے لگتیں۔ جب چاروں سہیلیاں گھوم پھر کر تھک گئیں تو ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا۔۔ کچھ دیر مری کی رات کی خنکی کے مزے لئے اور پھر اپنے ہوٹل کی طرف چل دیں۔ ہوٹل پہنچ کر سب فریش ہو کر لاونج میں آکر بیٹھ گئیں۔ ٹی وی آن کر کے میوزک کا چینل لگا لیا، بہت زبردست گانا چل رہا تھا۔ گانے کی لے پر سب لڑکیاں بیھٹ
ۓ بیھٹۓ تھرکنے لگیں۔ پھر رباب اٹھی اور ڈانس کرنے لگی۔ رباب کسی ماہر ڈانسر کی طرح اپنے کولہوں، اور سینے کو مٹکا رہی تھی۔ اس کا انداز بہت بے باکانہ اور ہجان انگیز تھا۔ رباب کے جوان بدن کو مٹکتا دیکھ کر نازیہ سے رہا نہ گیا، اور اٹھ کر وہ بھی رباب کے ساتھ ڈانس کرنے لگی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے جسم ٹچ کر کے ناچ رہی تھیں۔ ایک دوسرے کے بدن پر ہاتھ بھیر رہی تھیں اور ایک دوسری کو بانہوں میں بھر رہی تھی۔ ان کے ڈانس کا انداز بہت سیکسی تھا۔ افشاں اور نایلہ پہلے تو ان دو پریمیوں کے ہیجان خیز ڈانس کو دیکھ کر انجوائے کرتی رہی۔ لیکین جلد ہی ان کا دل بھی مچھلنے لگا، اور پھر وہ دونوں بھی اٹھ کر رباب اور نازیہ کے ساتھ مل گئیں اور اب چاروں مل کر ڈانس کر رہی تھیں۔ چاروں لڑکیاں ایک دوسری کے بدن کو ہاتھوں اور جسموں سے مسل رہی تھیں۔ ڈانس کے دوران افشاں نے نایلہ کو بانہوں میں بھر لیا، اور پھر وہ دونوں کسنگ کرنے لگی، وہ دونوں ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوم چوس رہی تھیں۔ ان کو دیکھ کر نازیہ اور رباب بھی مستی میں آگئیں۔ رباب نے نایلہ کو پیچھے سے اپنی بانہوں میں لے لیا اور نازیہ نے افشاں کو پیچھے سے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ افشاں اور نایلہ ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ایک دوسرے کو چوم رہی تھیں اور باقی دونوں نے ان کو پیچھے سے جھپی ڈالی ہوئی تھی اور وہ ان دونوں کو پیچھے سے ان کی گردن اور گالوں پر بوسے دے رہی تھیں۔ ان چاروں کے جسم بھی ساتھ ساتھ ہل رہے تھے اور وہ گانے کی لے پر ہولے ہولے ناچ رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ چاروں تھک کر صوفوں پر ڈھیر ہوگئی۔۔ کمرے میں لمبی لمبی سانسوں کی آوازیں کونج رہی تھیں۔ اور جوان جسموں کی مہک ہر طرف پھیلی تھی۔ رباب اٹھ کر سائیڈ پر موجود ہوٹل کے انٹرکام کے پاس گئی اور سروس کاونٹر کا نمبر ملایا۔ دو گھنٹیاں بجنے کے بعد آواز سنائی دی روم سروس رباب: کسی کو بھیج دیجئے بیڈ شیٹ تبدیل کرنے کیلیے۔ روم سروس: جی بہتر میڈم اور پر رباب نے ریسور رکھ دیا۔ اور واپس آ کرنازیہ کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔ نازیہ نے رباب کو اپنی بانہوں میں بھر لیا، اور اس کے گال کا بوسہ لے کر پوچھا۔ نازیہ: جان بیڈ شیٹ تبدیل کرنے کا یہ کون سا وقت ہے، صبح تبدیل کروا لیتی۔ رباب: جان تم نے شاید توجہ نہیں دی، بیڈ شیٹ ساری خراب ہو گئی تھی۔ میں وہ بدلوانا چاہتی ہوں رات کیلیے، تاکہ رات کو ہم دونوں مل کر ایک نئی بیڈ شیٹ خراب کر سکیں رباب کی بات سن کر ساری لڑکیاں ہنس پڑی۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ رباب: یس کم اِن دروازہ کھلا اور ایک نوجوان سفید شرٹ، کالی پینٹ اور کالی ٹائی پہنے اند آیا۔ اس کے ہاتھ میں بیڈ شیٹس تھیں۔ نوجوان: اسلام اعلیکم۔ میں روم سروس کی طرف سے آیا ہوں، آپ نے بلایا تھا؟ چاروں لڑکیاں اسے گھور کر دیکھ رہیں تھی۔ آنے والا نوجوان نہایت شاندار تھا۔ کلین شیو، صاف شفاف چہرہ، عمر کوئی 24، 25 کے قریب لگتی تھی۔ مضبوط کسرتی بدن، لڑکیاں تو جیسے اس کی مردانہ وجاہت میں کھو سی گئیں، ان چاروں کو اپنی طرف گھورتے دیکھ کر وہ تھوڑا سا مسکرایا اور کھنکار کر کہا نوجوان: مس، کس روم میں بیڈ شیٹ چینج کرنی ہے؟ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کس کو مخاطب کرے۔ اس کی بات سن کر سب چونکی اور سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ رباب: میرے ساتھ آو یہ کہہ کر رباب اٹھی اور جان بوجھ کر کولہے مٹھکاتی ہوئی اپنے روم کی طرف چل دی۔ وہ نوجوان رباب کے پیچھے چل دیا۔ اس کی نظریں رباب کی مٹھکتی گانڈ پر تھی، جِسے دیکھ کر اس کے پینٹ میں ہل چل ہونے لگی تھی۔ اُف کیا ظالم گانڈ ہے، کیا نظارہ ہے، نجانے میری قسمت میں ایسا مال کب آئے گا۔۔۔۔ وہ نوجوان رباب کی گانڈ دیکھ کر سوچ رہا تھا۔ باقی لڑکیوں نے بھی اسے رباب کی گانڈ کو گھورتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور سب ایک دوسری کو دیکھ کر شرارتی انداز میں مسکرانے لگیں۔ رباب اس نوجوان کو لے کر اپنے روم میں چلی گئی۔ نوجوان بھی رباب کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوا۔ رباب نے بیڈ کی طرف اشارہ کیا رباب: یہ بیڈشیٹ چینج کرنی ہے۔ نوجوان: جی بہتر یہ کہہ کر نوجوان بیڈ کی طرف بڑھا، بیڈ پر پڑنے والے گیلے نشان فوراََ اسے نظر آ گئے۔ رباب نے اسے نشانات کو گھورتے دیکھ لیا تھا۔ وہ نوجوان کے قریب آئی اور بلکل اس کے پیچھے کھڑی ہو گئی رباب: وہ دراصل میں اور میری گرل فرینڈ "کھیل" رہی تھیں، تو بیڈ شیٹ تھوڑی سی خراب ہو گئی۔ آئی ہوپ یو ویل ناٹ مائیڈ رباب نے لوچدار آواز میں کہا۔ نوجوان: نو پرابلم مس۔۔ یہ کہتے ہوئے نوجوان پیچھے کو مڑا، تو رباب اس کے بلکل ساتھ کھڑی تھی۔ وہ تھوڑا سا گھبرا گیا رباب کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر۔ لیکین رباب اس پر بس کرنے والی کہاں تھی۔ اس نے تو اس نوجوان کو دیکھتے ہی پورا منصوبہ بنا لیا تھا۔ رباب نے ایک قدم اور آگے بڑھایا، اور اسکے اتنا قریب چلی گئی کہ رباب کی چوچیاں (نپل) اس نوجوان کے سینے سے ہلکی ہلکی ٹچ کرنے لگی۔ رباب اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ رباب: ہائے آپ کتنے اچھے ہیں۔ تھینک یو رباب کے انداز میں بے انتہا لوچ اور شہوت تھی۔ نوجوان کے جزبات مچلنے لگے تھے۔ لیکین وہ ابھی خود سے کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کا تجربہ ہو چکا تھا کہ کئی لڑکیاں صرف فلرٹ کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکین رباب تو رباب تھی۔ وہ کہاں فلرٹ تک رکھنے والی تھی۔ اس نے نوجوان کے سینے پر ہاتھ رکھا اور سینے کو پیار سے مسلتے ہوے کہا رباب: اے ہینڈسم، تمارا نام کیا ہے؟ نوجوان: جی، ساحر۔۔۔ میرا نام ساحر ہے مس رباب: اُف اللہ ساحر جی۔ کیا جادو ہے آپ کی آنکھوں میں۔ اور یہ کہتے ہوئے رباب نے اپنے ہاتھ اس کی گردن کے گرد حمائل کر کے اپنے ہونٹ ساحر کے ہونٹوں سے ملائے اور بڑے بیباکانہ انداز میں کس کیا۔ ساحر بھی سمجھ گیا تھا کہ معاملہ صرف فلرٹ کا نہیں ہے۔ وہ تو چاہتا ہی یہی تھا۔ اس کی تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی۔ اس نے رباب کو کمر سے پکڑا اور اپنی بانہوں میں کس لیا۔ اور بھرپور انداز میں رباب کے ساتھ کسنگ کرنے لگا۔ وہ دونوں پورے جوش سے ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوم چوس رہے تھے۔ ساحر کے ہاتھ رباب کے بدن کا طواف کرنے لگے۔ پہلے اس کی کمر کو سہلاتا رہا۔ اور پھر اس کے ہاتھوں نے نیچے کا سفر شروع کیا۔ جن کولہوں نے ساحر کی توجہ حاصل کی تھی، وہ انہیں چھونا چاہتا تھا۔ اور پر اس کے دونوں ہاتھ رباب کے کولہوں تک پہنچ گئے۔ ساحر نے پہلے رباب کے دونوں کولہوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ رباب کا ری ایکشن کیا ہوتا ہے۔ لیکین رباب تو خود ہی یہی چاہتی تھی۔ یہ دیکھ کر کہ رباب کو کوئی اعتراض نہیں ہے، ساحر نے رباب کے دونوں چوتڑوں کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ لیا اور انہیں دبانے لگا۔ رباب کو ساحر کی اس حرکت سے بہت مزہ آنے لگا۔ وہ اور شدت سے اس کے ساتھ کسنگ کرنے لگی۔ پر اس نے ساحر کی ٹائی دھیلی کی اور شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔ ساحر نے اس کے ہونٹوں سے ہونٹ ہٹائے اور کہا ساحر: مس، آپ کی دوست باہر موجود ہیں۔

کہیں وہ آ نہ جائے۔ کوئی مسلہ نہ بن جائے۔ وہ اسے روکنا تو نہیں چاہتا تھا مگر ڈر بھی رہا تھا کہ کوئی مسلہ نہ بن جائے۔ اسے اپنی نوکری عزیز تھی۔ رباب اس کے ڈر کو بھانپ گئی تھی۔ وہ مزید اس کے قریب ہوئی اور اپنے ممے ساحر کے سینے میں پیوست کئے۔اور ایک ہاتھ نیچے لے جا کر پینٹ کے اوپر سے ساحر کے لن پر ہاتھ پھیرا۔ ساحر نے اس کے ہاتھ کا لمس اپنے لن پر محسوس کیا تو اس کے جزبات بھی جوش مارنے لگے۔ رباب: اوہ جان فکر نہ کرو۔ کچھ نہیں ہوگا۔ وہ نہیں آئیں گی، اور اگر آ بھی جائیں تو بھی کچھ نہیں ہو گا۔ وہ تینوں میری بہت اچھی دوست ہیں۔ وہ سب سمجھ جائیں گی۔ تم بس میری طرف توجہ دو۔ اور مجھے مس مت کہا کرو۔ میرا نام رباب ہے مجھے نام سے بلاو ساحر: جی بہت اچھا رباب جی یہ سن کر رباب نے اس کے لن کو پینٹ کے اوپر سے ہی زور سے دبایا اور ساتھ ساحر کی گردن پر کس کرنے لگی۔ دوسرے ہاتھ سے وہ ساحر کے شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔ ساحر بھی رباب کی باتیں سن کر مطمئین ہو گیا تھا۔ اور وہ بھی رباب کے جسم سے کھیلنے میں مصروف ہوگیا۔ اس نے رباب کے ٹی شرٹ کو نیچے سے پکڑا اور اوپر لے جا کر نکال دیا۔ رباب کا دودھیا جوان بدن اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ ریڈ کلر کی برا میں اس کے پستان غصب ڈھا رہے تھے۔ ساحر سے صبر کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس نے فوراََ پیچھے سے رباب کے برا کی ہُک کھولی اور برا بھی نکال دی۔ رباب کا سینہ ننگا ہو چکا تھا۔ ادھر رباب نے بھی ساحر کی شرٹ اور اس کے نیچے بنیان نکال دی۔ اب دونوں کے جوان سینے ننگے ہوچکے تھے۔ ساحر کا جسم شاندار تھا۔ اس کے ڈھولے شولے بہت جاندار تھے، اس کا سینہ کسی باڈی بلڈر کی طرح تھا۔ صاف چمکدار پُر پیچ کسرتی جسم تھا اسکا۔ رباب تو اس پر فریفتہ ہی ہو گئی۔ ادھر رباب کے بدن کی جولانیاں بھی تباہ کن تھی۔ ساحر نے اس ہوٹل میں کئی لڑکیوں اور آنٹیوں کے ساتھ سیکس کیا تھا، مگر آج تک اس کے نصیب میں رباب کی طرح کوئی حسین لڑکی نہیں آسکی تھی۔ وہ آج اپنی قسمت پر دل ہی دل میں رشک کر رہا تھا۔ رباب کے سڈول، غرور سے اٹھے ممے۔ اور ان مموں پر گلابی رنگ کے نپل شہوت انگیز دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ اس کی ہرنی جیسی پتلی کمر اور صاف شفاف گورا پیٹ اور پیٹ کے پیچ میں کیوٹ سی ناف، کیا سحر انگیز منظر تھا۔ ساحر نے بے اختیار ہو کر رباب کے مموں کو اپنی مٹھیوں میں بھر لیا اور جھک کر باری باری دونوں مموں کو چومنے چاٹنے لگا۔ اس کے مموں اور نپلز میں بے حد مٹھاس بھرا تھا۔ پستانوں کی نرمی اور نپلز کی سختی نے ساحر پر جادو سا کر دیا تھا۔ اور دیوانے کی طرح دونوں پستانوں اور نپلز کو منہ میں بھر بھر کر چوس رہا تھا۔ اور رباب اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کراہ رہی تھی۔۔۔ رباب: آہ ہ ہ ہ ہ اُف جان۔۔ سسسس آہ ہ ہ ہ بہت مزہ آ رہا ہے ساحرررررر۔۔ آہ ہ ہ ہ۔۔ چوسو میرے ممے ہاں اہسے ہی زور زور سے چوسو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کاٹ ڈالو میرے نیپلززززززز ۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ میری جان ۔۔۔ رباب مزے کے ساتویں آسمان پر تھی۔ ساحر کا بے تابانہ انداز اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ ساحر کے بالوں میں انگلیاں ڈال کر اس کے منہ کو اپنے پستانوں پر دبانے لگی۔ ساحر ایک طرف اس کے ممے بھنبھوڑ رہا تھا تو دوسری طرف اس کے دونوں ہاتھ رباب کی چوتڑوں کا مساج کر رہے تھے۔ اف ف ف ف کیا نرم کولہے تھے رباب کے۔ ساحر کے رگ و پے میں مزے کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ ساحر نے رباب کے مموں کو اپنے منہ کے لعاب سے مکمل گیلا کر دیا تھا۔ اس کے نپلز اکڑ کر کھڑے تھے اور ساحر بار بار ان کے سِروں پر زبان پھیر رہا تھا۔ رباب لزت سے اپنی پتلی کمر لچکا رہی تھی۔ اور کمرے میں رباب کی دھبی دھبی کراہوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ دونوں اس بات سے بے پروا ایک دوسرے میں گھم تھے کہ ان کی شہوت زدہ آوازیں باہر تک جارہی تھیں، اور باہر بیٹھی نازیہ، نائلہ اور افشاں، ان کی آوازیں سن کرہنس بھی رہی تھیں اور گرم بھی ہو رہی تھیں۔ لیکین وہ تینوں فلحال رباب کو پورا پورا موقع دینا چاہتی تھیں، کہ وہ اپنا شکار انجوائی کرے۔ لیکین کمرے سے آنے والی سیکسی آوازیں ان کو گرما بھی رہی تھیں۔ اس لئے بجائے اندر جانے کے ان تینوں نے وہیں اپنا کھیل شروع کیا۔ اور تینوں ایک صوفے پر آگئیں، اور ایک دوسری کے ساتھ کسنگ کرنے لگی۔ وہ تینوں ایک دوسری کے جسموں پر ہاتھ پھیرتی اور ہونٹ اور گال چومتی رہی۔ اب اندر اور باہر دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی تھی اور دونوں طرف جوان بدن ننگا کھیل کھیل رہے تھے، ننگا شیطانی کھیل بڑی بیباکی اور بے غیرتی سے شروع تھا۔ سب کو صرف اپنی اپنی لزت کی پڑی تھی۔ کوئی اخلاقیات اب ان کو نہیں روک سکتی تھیں، نہ ان چار شہوت زادیوں کو اور نہ ہی جوان جسموں کے بھوکے ساحر کو۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیے ساحر اب کسی بات کی پروا کئے بغیر رباب کے پستانوں اور اس کی چوتڑوں سے کھیل رہا تھا۔ اس کا لن پینٹ کے اندر کسی سانپ کی طرح پھنپھناہ رہا تھا، اور پٹھاری سے نکلنے کیلیے زور لگا رہا تھا۔ لن کی بیتابی ساحر سے مزید برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ ساحر نے رباب کے پینٹ کی زِپ کھولی اور اسے نیچے کیا۔ وہ اب بھی مسلسل اس کے ممے چاٹ رہا تھا۔ رباب کی پینٹ اتر چکی تھی۔ پھر ساحر نے اس کی پینٹی بھی اتار دی۔ رباب مکمل ننگی ہوچکی تھی۔ ساحر اس کے مموں سے کھیل رہا تھا۔ پر ساحل نے نیچے کا سفرشروع کیا۔ وہ رباب کے مموں سے نیچے اس کے گورے پیٹ کو چومنے لگا۔ اس نے اپنی زبان رباب کی ناف میں ڈالی اور اس کی ناف کتے کی طرح چاٹنے لگا۔ رباب کو گدگدی ہونے لگی۔ وہ ساحر کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔ ساحر جب اپنی گیلی زبان اسکی ناف میں پھرتا تھا تو اسے عجیب سا سرور ملتا تھا اور وہ اپنے پیٹ اور کولہوں کو آگے پیچھے کرتی اور اس کے منہ سے لزت بھری کراہیں نکلتی۔۔ ساحر اس کی ناف، پیٹ کو بے تابی سے چوم چاٹ رہا تھا۔ وہ رباب کے بدن پر کتے کی طرح زبان نکال کر پھیر رہا تھا۔ رباب کے سارے پیٹ پر ساحر کی تھوک پھیل رہی تھی، اور ساحر کی تھوک میں گیلی ہو کر رباب کا جسم اور زیادہ چمک رہا تھا۔ پھر ساحر مزید نیچے پہنچا۔ وہ رباب کی رانوں کی گولائیوں کو چومنے چاٹنے لگا۔ اسے رباب کے جوان جسم کی خوشبو پاگل کئے دے رہی تھی۔ اور وہ اسی پاگل پن میں اس کے ننگے بدن کو بھرپور پیار کر رہا تھا۔ رباب کا سارا بدن آہستہ آہستہ اس کی تھوک میں لتھڑ رہا تھا۔ بہت ہی شہوانی ماحول بن چکا تھا، ساحر نے آخر کار رباب کی پیاری سڈول اُبھری ہوئی تازہ ڈبل روٹ جیسی صاف شفاف اور نرم ملائم چوت پر اپنی نظریں جما دیں۔ اف کیا مست چوت ہے اس کی۔۔۔۔۔ ساحر نے دل ہی دل میں سوچا۔ ساحر تھوڑی دیر تو رباب کے حسین چوت کے نظارے کرتا رہا اور پھر اس نے اپنے ہونٹ رباب کی تازہ ڈبل روٹی جیسی چوت کے اوپر رکھ دئے۔ اور پر وہ چوت کو باہر باہر سے مسلسل چومنے لگا۔ رباب مستی میں ساحر کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ اسے بہت مزہ آرہا تھا۔ وہ ایک ہاتھ سے ساحر کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی تو دوسرے ہاتھ سے وہ اپنے ایک ممے کو دبا رہی تھی۔ جب زیادہ مزہ آنے لگتا، تو وہ اپنے ممے کو پکڑ کر اوپر کھینچتی اور نپل منہ میں لے کر چوستی۔ دوسری طرف ساحر اس کی چوت کو اپنی رال سے بھیگو رہا تھا۔ باہر سے خوب پیار کرنے کے بعد وہ چوت کے دھانے کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے اپنی ناک رباب کے چوت سے لگائی اور رباب کے چوت کو سونگا۔ آففففف کیا مست خوشبو تھی۔ جوان حسین چوت کی خوشبو اسے پاگل بنا رہی تھی۔ اس نے دو تین بار لمبی سانسیں کھینچ کر رباب کی چوت کو سونگا۔ چوت کا جادو اب ساحر کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے ہونٹ رباب کی چوت کے منہ سے لگائے اور چوت کو اندر سے کس کیا۔ اف،، گیلی چوت کا نمکین ذایقہ اس کے جزبات بھرکانے لگا۔ رباب کو بھی اپنی چوت کے اندرونی حصہ پر مردانہ ہونٹوں کے لمس نے خوب لذت دی۔ وہ منمنانے لگی۔ اور اپنی ٹانگیں کھڑے کھڑے کھول دیں۔ ساحر اشارہ سمجھ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے رباب کی چوت کی پانکیں پکڑ کر کھولی تو چوت کا اندرونی لال گیلا حصہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ افففف کتنی خوبصورت چوت ہے اس کی۔۔۔۔ ساحر نے سوچا۔ اور پر اپنی زبان نکال کر چوت میں گھسا دی اور رباب کی چوت چاٹنے لگا۔ ساحر کی اس حرکت سے رباب کے تن بدن میں جیسے بجلی کا کرنت دوڑ گیا۔ اس کے جسم کو بے اختیار جھٹکے لگنے لگے، اور رباب کیلیے اپنا توازن برقرار رکھنا مشکل ہو گیا، رباب پیچھے کی طرف بیڈ پر بیٹھ گئی اور اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر پوری طرح سے کھول دیں۔ اس کھلی دعوت کو دیکھ کر ساحر تو جیسے پاگل ہوگیا۔ وہ ایک دم سے رباب کی چوت پر ٹوٹ پڑا اور بُری طرح سے اسے چومنے چاٹنے لگا۔ ساحر اپنی زبان رباب کی چوت میں گہرائی تک اتار کر چاٹنے لگا۔ رباب شہوت کے ساتویں آسمان کی بلندیوں پر اُڑ رہی تھی اور اس کے منہ سے آہیں اور شہوت زدہ آوازیں نکل رہی تھیں۔ اور یہ آوازیں باہر موجود نازیہ، افشاں اور نائیلہ کو بھی سنائی دے رہی تھیں۔ وہ تینوں اب مکمل ننگی ہو چکی تھیں۔ انہوں نے خود کو کپڑوں اور ہر قسم کی شرم و حیا سے آزاد کر لیا تھا۔ حوا کی بیٹیاں ننگی ہو کر ابلیس کا کھیل کھیل رہی تھیں۔ وہ تینوں ایک دوسرے کے مموں، چوت اور ہونٹوں کو باری باری چوم چاٹ رہی تھی اور ساتھ ساتھ اندر سے رباب اور ساحر کے شروع کیے ہوے جنسی کھیل کی آوازوں سے بھی لطف اٹھا رہی تھی۔ پر جب رباب کی لزب بھری آوازیں بہت زیادہ ہونے لگی تو ان تینوں کو بھی شوق ہوا کہ دیکھیں تو صحیح وہ کون تیس مار خان ہے جو رباب جیسی لڑکی کو بے حال کئے ہوئے ہے۔ نازیہ جو رباب کی معشوقہ بھی تھی، رباب کی آوازیں سن کر اس سے رہا نہ گیا۔ نازیہ: اف لگتا ہے رباب کے مزے لگے ہوئے ہیں۔ شکار تگڑا لگ رہا ہے نازیہ افشاں کی چوت میں انگلی کر رہی تھی جبکہ نائیلا افشاں کے ممے چوم رہی تھی۔ افشاں: کیا خیال ہے ڈارلنگ، اندر چلیں افشاں کی آواز میں شوخی تھی نائیلہ: چلیں بھئی اب مجھ سے تو اور انتظار نہیں ہوتا نازیہ: تو پھر چلو سب یہ کہہ کر تینوں لڑکیاں اٹھ کر اندر کمرے کی طرف چل دیں۔ کمرے میں تینوں لڑکیاں جب داخل ہوئی تو اندر کا منظر ان کے جزبات گرمانے کیلے کافی تھا۔ رباب بیڈ پر کہنیوں کے سہارے پیچھے چھکی ہوئی تھی اور اس کی ننگی ٹانگیں ہوا میں آٹھی تھی جبکہ ساحر رباب کی ٹنگوں کے بیچ میں نیچے بیٹھا ہوا رباب کی چوت چاٹ رہا تھا۔ ساحر کی پشت دروازے کی طرف تھی اس لئے وہ اُن تینوں کو اندر آتے ہوئے نہیں دیکھ سکا تھا لیکین رباب نے ان کو دیکھ لیا تھا۔ اور ان کو دیکھ کر رباب کے ہونٹوں پر شیطانی اور فاتحانہ مسکراہٹ آگئی تھی۔ رباب نے ان تینوں کو سر کے اشارے سے اپنے کھیل میں شامل ہونے کی دعوت دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 تینوں لڑکیاں آگے بڑھی اور رباب اور ساحر کے قریب چلی گئی۔ ساحر کو ان کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے ایک دم سے اٹھنے کی کوشش کی لیکین رباب نے جلدی سے اپنی ٹانگیں اس کی گردن کے گرد کس لیں اور اسے اٹھنے سے روک لیا۔ ساحر کی گردن رباب کی ٹانگوں میں کسی ہوئی تھی اور اس کے ہونٹ رباب کی چوت کے ساتھ مظبوطی سے جُڑھ گئے تھے۔ رباب: اف ساحر میری جان۔ رُکنا مت۔ ایسے ہی میری پُھدی چاٹتے رہو۔ سسسس آہ آج تیرا لکی ڈے ہے، آج تجھے ایک ساتھ چار پُھدیاں ملیں گی۔ ساحر سمجھ گیا تھا کہ یہ سب ملی ہوئی ہیں۔ ایک طرف وہ ڈر رہا تھا کہ پتہ نہیں یہ چاروں اس کے ساتھ کیا کریں گی اور یہ بھی کہ پتہ نہیں وہ ان چاروں کو ایک ساتھ سنبھال بھی پائے گا یا نہیں۔ لیکین جو بھی تھا ساحر کو آج اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کے اسے اتنی حسین اور ماڈرن لڑکیوں کو چودنے کا موقع ملے گا اور وہ بھی ایک یا دو نہیں بلکہ اکھٹے چار چار۔ رباب نے اپنی ٹانگوں کا دباو اب کم کر دیا تھا۔ ساحر نے رباب کی چوت سے منہ ہٹائے بغیر نظریں موڑ کر ان تینوں کو دیکھا۔ نازیہ، افشاں اور نائیلہ اب ان کے پاس پہنچ چکی تھیں۔ نازیہ اپنی جان رباب کے پاس اوپر بیڈ پر چڑھ گئی اور رباب کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا دئے۔ دونوں الہڑ ہرنیاں گرمجوش انداز میں کسنگ کرنے لگی۔ رباب نے نازیہ کی گردن میں بانہیں حمایل کیں اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ ایک تو ساحر کا والہانہ انداز میں اس کی چوت کو چاٹنا اور اوپر سے اس کی فیورٹ نازیہ کا ساتھ، رباب کے تن بدن میں لگی آگ کو دو آتشہ کر رہی تھی۔ افشاں اور نائیلہ ساحر کے پاس چلی گئی تھیں۔ وہ دونوں مکمل ننگ دھڑنگ تھیں۔ افشان ساحر کے سائیڈ میں بیٹھ گئیں اور ہاتھ نیچے لے جا کر ساحر کی پینٹ کھولنے لگی۔ ساحر نے اپنی ٹانگیں تھوڑی سیدھی کی تاکہ پینٹ نکالنے میں اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ برابر رباب کی چوت چاٹے جا رہا تھا۔ نائیلہ رباب کے برابر میں بیڈ پر بیٹھ گئیں، اس کی ٹانگیں بیڈ سے باہر تھیں۔ اس نے اپنی ٹانگیں کھولیں اور ساحر کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر کر اسے اپنی طرف کھینچا۔ نائیلہ: اف جان تھوڑی توجہ ہماری طرف بھی دیجئے اور یہ کہہ کر اس نے ساحر کے سر کو اپنی ٹانگوں کے بیچ ننگی چوت پر رکھ لیا۔ ساحر سمجھ گیا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ نائیلہ کی ننگی سڈول رانوں پر رکھے اور منہ اس کی پہلے سے گیلی نرم و نازک چوت پر رکھ دیا۔ اور زبان سے نائیلہ کے چھوٹے پیشاب کی جگہ کو چاٹنے لگا۔ نائیلہ ساحر کی زبان کے لمس سے دوھری ہو گئی اور وہ بھی رباب کی طرح پیچھے لیٹ گئی۔ رباب اور نازیہ ابھی تک ایک دوسری میں مگھن تھیں۔ ساحر کے ہٹنے پر رباب نے نازیہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھ دیا، وہ دونوں کسنگ ساتھ ساتھ کر رہی تھی۔ نازیہ نے پہلے رباب کی چوت کو اوپر سے مسلہ پھر اپنی دو انگلیاں رباب کی گیلی چوت میں گھسا دیں اور اس کی چوت میں اندر باہر کرنے لگی۔ وہ رباب کی چوت کو انگلیوں سے ایسے چود رہی تھی جیسے لنڈ سے چودا جاتا ہے۔رباب مزے سے منمنانے لگی۔ اور اس نے نازیہ کو کھینچ کر اس کا سینہ اپنے چہرے کے اوپر کر لیا۔ یوں نازیہ کے ممے رباب کے منہ کے اوپر آگئے اور رباب نازیہ کے نپل کو چوسنے لگی۔ جبکہ نازیہ رباب کی چوت میں انگلی کر رہی تھی۔ افشاں نے ساحر کی پینٹ اتار دی تھی اور پر اس نے ساحر کا انڈر وئیر بھی اتار دیا۔ یوں اب ساحر بھی ان چاروں کی طرح مکمل ننگا ہو گیا تھا۔ ساحر گھٹنوں کے سہارے نیچے بیٹا تھا اور نائیلہ کی چوت چاٹ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ نائیلہ کی رانوں پر تھے اور وہ نائیلہ کی چوت چاٹنے کے ساتھ ساتھ اس کی رانوں، پنڈلیوں اور کولہوں کو ہاتھوں سے مسل رہا تھا۔ نائیلہ پورے جوش میں آئی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی ٹانگیں ساحر کے کندھوں پر رکھ دیں اور ساحر مزید گہرائی تک نائیلہ کی چوت چاٹنے لگا۔ افشاں نے ساحر کا لنڈ ہاتھ میں تھام لیا۔ اف کتنا بڑا لنڈ تھا ساحر کا۔ افشاں کی مٹھی ساحر کے لنڈ سے بھر گئی تھی۔ افشاں فوراََ ساحر کی ٹانگوں کے سامنے نیچے لیٹ گئی۔ یوں ساحر کا لنڈ اس کے چہرے کے سامنے آگیا تھا۔ افشاں نے اس کے لنڈ کو مٹھی میں دبا لیا۔ اتنا بڑا لن۔۔۔ افشاں کے منہ میں لنڈ کو دیکھ کر رال جمع ہونے لگی۔ اس نے ساحر کے لنڈ کی ٹوپی پر ایک دو کس کئے۔ زبان نکال کر اسے چاٹا۔ ساحر کے لنڈ پر لگی نمکین چکنائی نے افشاں کی شہوت کو کئی گناہ بڑا دیا تھا۔ اس نے ساحر کے لنڈ کو ایک دم پورا منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگی۔ اممممممم ۔۔۔ افشاں کے منہ سے مزے کی آوازیں نکلنے لگی۔ اور پورا لنڈ منہ میں ڈالتی، کچھ دیر چوستی اور پر باہر کردیتی۔ ادھر ساحر بھی ساتویں آسمان پر تھا۔ ایک طرف نائیلہ کی حسین چوت اور اس چوت سے آنے والی بھینی بھینی مہک اور اس کے اوپر افشاں کا اس کے لنڈ کو چوسنا، اسے اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے اب افشاں کے منہ میں اپنے لنڈ کوآہستہ آہستہ آگے پیچھے کرنا شروع کیا۔ وہ ہولے ہولے انداز میں افشاں کے منہ کو چود رہا تھا۔ افشاں نے بھی اپنے ہونٹوں کی گرفت لنڈ کے گرد ٹائیٹ کی۔ لنڈ اب پھنس پھنس کر اس کے منہ میں اندر باہر جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر وہ چاروں اپنی اپنی پوزیشنز میں رہے۔ پھر رباب نے بڑے پیار سے نازیہ کو اپنے اوپر سے ہٹایا۔ رباب کی چوت میں نازیہ کی انگلیوں نے آگ لگا دی تھی۔ اب اس سے اور برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اسے یہ آگ بجھانی تھی۔ اس نے نائیلہ کی چوت پر جھکے ساحر کو کندھوں سے پکڑا اور اسے اوپر بیڈ پر کھینچ لیا۔ ساحر نے مزاہمت نہیں کی۔ بلکہ وہ رباب کی طرف خود کھینچنے لگا۔ ساحر کے اٹھنے سے اس کا منہ نائیلہ کی چوت سے اور اس کا لنڈ افشاں کے منہ سے نکل گیا۔ وہ بیڈ پر چڑھ کر رباب کے ساتھ آگیا۔ وہ بیڈ پر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ اس کا لنڈ سیدھا کھڑا تھا جسے دیکھ کر رباب، نازیہ اور نائیلہ کے منہ میں پانی بھر آیا۔ افشاں بھی ساحر کے پیچھے پیچھے بیڈ پر چڑھ گئی۔ اب سب بیڈ پر آچکے تھے۔ رباب، ڈوگی پوزیشن میں جھکی اور ساحر کے لنڈ کو منہ میں بھر لیا۔ ساحر اپنے لن کو آگے پیچھے کرنے لگا اور اب رباب کے منہ کو چود رہا تھا۔ نازیہ ساحر کے ساتھ چمٹ گئی اور اپنا ننگا سینہ ساحر کے سینے سے ملا لیا اور اپنے ہونٹ ساحر کے ہونٹوں سے۔ افشاں ساحر کے پیچھے آگئی اور پیچھے سے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ وہ ساحر کی گانڈ کی درمیانی لکیر میں انگلی پھیر رہی تھی اور جب اس کی انگلی ساحر کی گانڈ کے سوراخ پر پہنچ جاتی تو وہ اسے اندر دبا لیتی۔ جس سے افشاں کی انگلی ساحر کی گانڈ میں گھس جاتی۔ ساحر کے ساتھ ایسا پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ اسے بہت مزہ آرہا تھا۔ کچھ دیر ساحر کی گانڈ میں انگلی گھمانے اور اندر باہر کرنے کے بعد وہ اسے باہر نکالتی، دوبارہ سے ساحر کی درمیانی لکیر میں انگلی پھیرتی، اس کے موٹے موٹے کولہے دباتی، اور پھر انگلی لکیر میں ڈال کر گانڈ کے سوراخ پر پہنچ جاتی اور انگلی ساحر کی گانڈ میں ڈال دیتی۔ وہ مسلسل ساحر کی گانڈ سے یوں کھیل رہی تھی۔ اُدھرنائیلہ گھُم کر رباب کے پیچھے چلی گئی جو ڈوگی بن کر ساحر کا لنڈ چوس رہی تھی۔ نائیلہ رباب کی ٹانگوں کے بیچ میں سیدھی لیٹی، اور یوں اس کا چہرہ رباب کی چوت کے عین نیچے آگیا۔ نائیلہ نے رباب کے سڈول چوتڑوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر کر نیچھے دبایا، رباب تھوڑی نیچے ہوئی تو اس کی چوت نائیلہ کے منہ سے لگ گئی۔ نائیلہ نے زبان نکال کر رباب کی چوت چاٹنی شروع کی۔ وہ چاروں کافی دیر تک اسی حالت میں رہے۔ پر نازیہ نیچے جھکی اور رباب کے ساتھ مل کر ساحر کے لنڈ کو چومنے چاٹنے لگی۔ ساحر کا لنڈ کبھی رباب کے منہ میں گھستا اور کچھ دیر رباب کے منہ میں جھٹکے دینے کے بعد جب اس کا لنڈ نکلتا تو نازیہ اسے اپنے منہ میں بھر لیتی۔ وہ دوںوں باری باری ساحر کے لنڈ سے مزے لے رہی تھی۔ افشاں نے اب پیچھے جھُک کر پیچھے سے ہی ساحر کے ٹٹوں کو چاٹنا شروع کر دیا تھا۔ ساحر ہر طرف سے حسین جوانیون میں گھیر گیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی بادشاہ کو اس کی کنیزوں نے اپنی جھرمٹ میں لے لیا ہو۔ وہ چاروں کچھ دیر ایسے ہی ایک دوسرے کے جسموں سے محظوظ ہوتے رہے۔ پھررباب اٹھی، اسے نے نازیہ کو پکڑ کر سیدھا لیٹا دیا۔ اس کی ٹانگیں کھولیں اور ساحر کو اشارہ کیا۔ ساحر اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ وہ نازیہ کی ٹانگوں کے بیچ میں آگیا اور اپنے لنڈ کو نازیہ کی چوت پر رکھ دیا۔ نازیہ کی چوت گیلی اور لنڈ لینے کیلے تیار تھی۔ ساحر نے ایک ہی جھٹکے میں اپنا موٹا لمبا لنڈ نازیہ کی حسین چوت میں پوری گہرائی تک اتار دیا۔ نازیہ کے منہ سے بے اختیار کراہیئں نکل گئیں، ساحر کے لنڈ نے اس کی نازک سی چوت کو خوب پھیلا دیا تھا۔ وہ اپنی چوت کی اندرونی جلد پر ساحر کے لنڈ کے دباو اور رگڑ کو بڑی شدت سے محسوس کر رہی تھی۔ ساحر ابتدا میں آہستہ آہستہ جھٹکے دینے لگا۔ جب اس کا لنڈ قدرے آرام سے نازیہ کی چوت میں آنے اور جانے لگا تو اس نے اپنے لنڈ کے جھٹکے تیز کر دئے، اب وہ فل سپیڈ سے نازیہ کی چوت چود رہا تھا۔ جھٹکوں سے نازیہ کا پورا بدن ہل رہا تھا۔ ساحر کے ٹٹے جب نازیہ کی چوت کے نیچے ٹکراتے تو اس س شپ شپ شپ شپ کی آوازیں نکلنے لگتی۔ رباب نیچے جھک کر نازیہ کی چوت کے قریب ہو گئی، وہ ساحر کے لنڈ کو نازیہ کی چوت چودتے قریب سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے نازیہ کی چوت کے چھولے کو مسلنا شروع کیا۔ نازیہ مزے اور ہیجان سے اپنا سر دائیں بائیں مار رہی تھی۔ کوئی پانچ منٹ تک ساحر ایسے ہی نازیہ کی چوت چودتا رہا۔ تب جاکے نازیہ چھؤٹ گئی تھی۔ رباب نے جان لیا تھا کہ نازیہ چھوٹ چکی ہے۔ اس نے ساحر کو پیچھے دھکا دیا اور ساحر دھکے سے پیچھے جھک گیا۔ رباب ساحر پر چڑھ گئی۔ ساحر سیدھا ہوا، رباب نے اپنی ٹانگیں ساحر کے لنڈ کے گھرد پھیلا دی اور اپنی چوت ساحر کے لنڈ پر رکھ دی۔ پھر وہ ساحر کے لنڈ پر بیٹھتی چلی گئی۔ لنڈ رباب کی چوت میں اندر تک چلا گیا۔ رباب نے مزے سے اپنا چہرہ اوپر اٹھا لیا اور منہ اسکا بے اختیار کھل گیا۔ وہ ساحر کے لنڈ پر اوپر نیچھے ہونے لگی۔ ساحر بھی نیچھے سے رباب کی چوت میں جھٹکے مارنے لگا۔ غپ غپ غپ غپ کی آوازوں کے ساتھ رباب کی چوت ساحر کے لنڈ سے چُد رہی تھی اور رباب کے ممے اوپر نیچے اُچھل رہے تھے۔ رباب: آہ آۃ آہ آہ فک می فک می۔۔او ساحر سسسسس چود میری چوت کو اور زور سے چود رباب بے باکانہ بکے جارہی تھی اور تیز تیز ساحر کے لنڈ پر اُچھل رہی تھی۔ وہ مزے کی بلندیوں پر تھی۔ ساحر کا موٹا اور لمبا لنڈ رباب کی لچکیلی چوت میں کہرائی تک گھس رہا تھا۔ رباب کی چوت لنڈ سے بھر گئی تھی اور اس کے اٹھنے بیٹھنے سے ساحر کا لنڈ رباب کی چوت کے اندر رگڑ کھا کر گھس رہا تھا جو رباب کی چوت میں لگی آگ کو بڑھا رہا تھا۔ نازیہ سکون سے سائیڈ پر لیٹی ان کو دیکھ رہی تھی۔ جبکہ نائیلہ سائیڈ سے رباب کے مموں پر جھکی تھی اور وہ باری باری رباب کے اچھلتے مموں کوہاتھوں میں دبوچ کر انہیں مسل رہی تھی اور اس کے نپلز کو منہ میں لے کر چوستی جا رہی تھی۔ ادھرافشاں ساحر کے منہ پر بیٹھ گئی اور اپنی چوت ساحر کے ہونٹوں سے لگا دی۔ ساحر اس کی چوت چاٹنے لگا، اور افشاں اپنی چوت کو اس کے منہ سے مسل رہی تھی۔ کچھ دیر بعد رباب کی رفتار انتہا کو پہنچ گئی۔ وہ تیزی اور شدت سے ساحر کے لنڈ پر اُچھلنے لگی، وہ ڈسچارج ہونے والی تھی۔ اس کے منہ سے آں آں آں کی آوازیں نکل رہی تھی۔ پھر اس کی چوت سے پانی ساحر کے لنڈ کو بھگو گیا۔ رباب فارغ ہوچکی تھی اور اس کے تن بدن میں بھری گرمی جیسے اس کی چوت کے راستے نکل گئی تھی۔ اس کے نازک بدن کو جوش کے آخری جھٹکے لگے اور وہ نڈھال ہو کر ساحر کی سائیڈ میں جھک گئی، اس نے اپنے کولہے اٹھا کر اپنی چوت سے ساحر کے لنڈ کو نکالا۔ ساحر کا لنڈ رباب کی چوت میں مکمل لتھڑ چکا تھا۔ رباب کے اترتے ہی افشاں بھی ساحر کے اوپر سے اتر گئی۔ ساحر کا لنڈ ابھی بھی سیدھا کھڑا تھا۔ افشاں ساحر کے سامنے کتیا کی طرح ڈوگی سٹائیل میں لیٹ گئی۔ وہ کہنیوں اور گھٹنوں کے بل لیٹی تھی۔ اس کا پیٹ بیڈ سے اوپر تھا لیکین اس کے ممے نیچے بیڈ پر تھے اس نے اپنی گانڈ اوپر اٹھا رکھی تھی اور ٹانگیں کھول رکھی تھی۔ ساحر اٹھا اور افشاں کی ٹانگوں کے بیچ آگیا۔ اس نے دونوں ہاتھ افشاں کے باہر نکلے چوتڑوں پر رکھے اور اس کی چوتڑوں کو انگھوٹے سے تھوڑا کھینچا تو اس کی چوت کا دھانہ اور اوپر آگیا۔ چوت کے اوپر رباب کی تنگ تاریک پنک کلر کی گاند کی موری بہت سیکسی لگ رہی تھی۔ لیکین ساحر کو پتہ تھا کے اس موری میں گھسنے کی پیشگی اجازت چاہئے ہوتی ہے، اور فلحال وہ کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔ اسی لئے اس نے اپنا لن افشاں کی چوت پر رکھ کر دبایا تو اس کا لنڈ افشاں کی گیلی چوت میں اترتا چلا گیا۔ اور وہ تیز تیز جھٹکوں سے افشاں کی چوت مارنے لگا۔ ساحر کی رانوں اور افشاں کے چوتڑوں کے ٹکرانے سے ہپ ہپ ہپ ہپ ہپ کی آوازی نکل رہی تھی اور افشاں بُری طرح سے چود رہی تھی۔ کافی دیر تک ساحر افشاں کو اسی انداز میں چودتا رہا۔ حتٰکہ افشاں کے بدن کو جھٹکے لگنے لگے اور وہ مزید لنڈ کو برداشت کرنے کے قابل نہ رہی تو وہ ایک دم سے ساحر کے نیچھے سے نکل گئی۔ ساحر اپنی انتہا پر پہنچنے والا تھا جب افشاں ہٹ گئی تھی۔ ساحرکافی دیر تک چدائی کرنے کا ماہر تھا، لیکین آج سے پہلے اس نے بیک وقت صرف ایک ہی لڑکی کو چودا تھا، لیکین آج تین لڑکیوں کو ٹھںڈا کرنے کے باوجود اپنے لنڈ کو کھڑا دیکھ کر اسے اپنے لنڈ اور سٹیمنا پر رشک آنے لگا تھا۔ افشاں کے ہٹتے ہی نائیلہ سیدھی لیٹ گئی، اور ساحر اس پر چڑھ گیا۔ اور اپنا لنڈ نائیلہ کی چوت میں گھسا کر اسے مشنری پوزیشن میں چودنے لگا۔ باقی تینوں لڑکیاں ایک ساتھ لیٹی ان دونوں کو دیکھے جارہی تھیں۔ اس بار ساحر مکمل نائیلہ کے اوپر لیٹ گیا تھا اور کبھی وہ نائیلہ کے ساتھ کسنگ کرتا اور کبھی تھوڑا نیچھے ہو کر اس کے نپلز چوستا، ساتھ ساتھ اس کا لنڈ نائیلہ کی چوت میں تیزی سے اندر باہر جا رہا تھا۔ کافی دیر نائیلہ کو ایسے چودتے رہنے کے بعد ساحر کے لنڈ کو جھٹکے لگنے لگے، لیکین دسچارج ہونے سے پہلے ہی اس نے اپنا لنڈ باہر نکال دیا تھا اور لنڈ کے نکلتےہی گارھی منی جھٹکوں سے نکل کر نائیلہ کے پیٹ پر گر گئی۔ نائیلہ بھی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ ساحر ہانپتا ہوا نائیلہ کے اوپر ہی ڈھیر ہو گیا۔ اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔ نائیلہ اس کی پشت پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ کچھ دیر بعد ساحر اس کے اوپر سے اتر گیا اور اپنا لن سائیڈ پر پڑے ٹشو سے صاف کرنے لگا۔ لنڈ صاف کرنے کے بعد اس نے اٹھ کر کپڑے پہن لئے۔ دوسری طرف چاروں لڑکیاں ننگی آڑھی تیرچھی ایک دوسرے کے قریب لیٹی تھیں۔ ساحر: مس میں چلتا ہوں اب اس نے رباب کو مخاطب کیا تھا۔ رباب جلدی سے اٹھی اورسائیڈ پر رکھے اپنے پرس سے کچھ پیسے نکال کر ساحر کی طرف بڑھا دئے۔ رباب: یہ تمہاری ٹپ ساحر: نہیں مس،، آج تو میں بہت زبردست ٹپ وصول کر چکا ہوں اسے رہنے دیں رباب: کوئی نہیں میری جان لے لو دل سے دے رہی ہوں۔ تو نے آج جو مزہ دیا ہے ہم سب کو وہ ہمیں کم ہی ملا ہے، یہ اسی کاانعام ہے۔ رباب کی بات سن کر ساحر نے اس کے ہاتھ سے پیسے لے لئے۔ رباب نے اپنے کپڑے اٹھا لیئے اور پہننے لگی۔ ادھر افشاں، نائیلہ اور نازیہ بھی اٹھ کر کپڑے پہننے لگی تھی۔ ساحر: مس وہ بیڈ شیٹ تبدیل کرنی تھی۔ رباب: ہاں اب تو اور بھی ضروری ہو گیا ہے تبدیل کرنا رباب کی بات سن کر سب ہنس پڑے اور پر ساحر نے بیڈ سے پرانی بیڈ شیٹ ہٹائی جس پر ان سب کے جسموں سے نکلنے والے پانی کے کئی سارے نشان بن گئے تھے۔ پر اس نے نئی چادر ڈالی اور اجازت لے کر چلا گیا۔ رباب اور نازیہ وہیں بیڈ پر ڈھیر ہوگئیں جبکہ افشاں اور نائیلہ دوسرے روم میں چلی گئیں۔ ساری شام گھومنے اور پر شاندار چُدائی نے ساری لڑکیوں کو تھکا دیا تھا۔ وہ سب بہت جلد نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔ اگلی صبح ہوٹل سے چیک آوٹ کر کے انہوں نے واپس اسلام آباد کا سفر شروع کیا۔ اور یوں ان کی دوستی کا ایک اور رنگین سفر اختتام کو پہنچا۔ ان چاروں کی دوستی میں ایسے کئی سفر اور پڑاو آئے تھے جہاں انہوں نے زندگی اور جوانی کے مزے مل کر اٹھائے تھے۔ وہ چاروں ہر معاشرتی ضابطے کو توڑ رہی تھیں اور زندگی جینے کے نئے ضابطے لکھ رہی تھی۔ یہ صرف ان کی کہانی نہیں تھی بلکہ اس معاشرے کی الیٹ کلاس کی تقریباََ ہر باغی لڑکی کی کہانی تھی، جو اپنی زندگیوں کے ہر لمحےکو آخری حد تک انجوائے کرنے پر یقین رکھتی تھیں۔ اور یہ سفر جاری رہتا ہے، اس معاشرے کے کسی نہ کسی جگہ صبح شام یہ کھیل چلتا رہتا ہے اور یہ ایسے ہی چلتا رہے گا

اتوار، 8 اگست، 2021

جب پٹھانی پہ دل آیا

 


جب پٹھانی پہ دل آیا

میرا نام روزینہ خان ہے اور میری عمر 27 سال کے قریب ہوگی میرا تعلق کوئٹہ کے ایک پٹھان خاندان کے ساتھ ہے میری شادی 11 سال پہلے مظفر خان کے ساتھ ہوئی تھی جو اس وقت مجھ سے دس بارہ سال بڑا ہوں گے میں بہت زیادہ نہیں تو ایوریج خوب صورت ہوں جبکہ مظفر مجھ سے زیادہ ہینڈ سم اور بھر پور مرد تھے میں اس وقت بھی کافی حد تک پرکشش جسم کی مالک ہوں جبکہ مظفر مجھ سے بہت بڑی عمر کے معلوم ہوتے ہیں کوئی بھی ہم دونوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ان کی بیوی ہوں مظفر ایک سرکاری محکمہ میں ملازم ہیں اور ان کی پوسٹیں شروع سے ہی کوئٹہ میں رہی ہے دو سال پہلے ان کی لاہور پوسٹنگ ہوئی اس وقت سے ہم لوگ لاہور میں رہائش پذیر ہیں پٹھان خاندانوں کی روایات کے برعکس ہمارے 3 بچے ہیں (حالانکہ کہ پٹھانوں کے دس دس بارہ بارہ بچے ہوتے ہیں) شادی کے 2 سال میں امید سے ہوئی تو خاندان میں بہت سی خوشیاں منائی گئیں لیکن میری ازواجی زندگی پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوئے مظفر اب مجھ سے ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ ہی ہم بستری کرتے تھے تین ماہ ایسے ہی گزر گئے اس کے بعد مظفر میرے پاس آنے سے بھی کتراتے میں کبھی کبھی دبے لفظوں میں ان سے ان کی بے رخی پر احتجاج کرتی تو کہتے تم امید سے ہو ایسا کرنے سے بچا ضائع ہوسکتا ہے کچھ مہینوں کی ہی تو بات ہے پھر ٹھیک ہوجائے گا آخر نو ماہ گزر گئے اور میں نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا سوا مہینہ گزارنے کے بعد مظفر پھر سے میرے ساتھ ہم بستری کرنے لگے مگر ان میں پہلے جیسا جوش نہیں تھا ان کی طرف سے جوش میں کمی کو میں بہت بری طرح محسوس کررہی تھی لیکن کچھ نہ کرسکی مزید کچھ عرصہ گزرا اور ہمارے ہاں دو مزید بچے پیدا ہوگئے جبکہ ہم میاں بیوی کے درمیان مزید دوریاں پیدا ہوگئیں جس کی وجہ سے میں گھر میں گھٹن سی محسوس کرنے لگی ایسے ہی ہماری شادی کو نو سال کا عرصہ گزر گیا اب مظفر عمر کے اس حصہ میں پہنچ گئے تھے جہاں وہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی میرے پاس آیا کرتے تھے کئی بار وہ مجھے ادھورہ ہی چھوڑ کر خود مجھے سے الگ ہوجاتے تھے جس پر مجھے بہت ہی ڈپریشن ہوتی تھی میں گھٹ گھٹ کر جی رہی تھی ایک دن مظفر گھر آئے تو بہت پریشان تھے میں نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی ٹرانسفر لاہور ہوگئی ہے ان کے ساتھ میں بھی پریشان ہوگئی کہ پہلے تو مہینے میں ایک آدھ بار میرے قریب آجاتے تھے سیکس نہ ہی سہی کم از کم ان کا قرب تو مجھے نصیب تھا اب وہ لاہور چلے گئے تو میں مزید تنہائی کا شکار ہوجاں گی مظفر نے اپنے کئی ہمدردوں اور دوستوں کو ٹرانسفر رکوانے کے لئے کہا مگر کچھ نہ بنا آخر ایک ہفتہ کے بعد مظفر ہم سب کو چھوڑ کر لاہور آگئے لیکن اگلے ہی مہینے وہ پھر کوئٹہ گئے اور مجھے بچوں سمیت لاہور لے آئے یہاں انہوں نے ایک مناسب سا گھر کرایہ پر لے لیا اور بچوں کو ایک سرکاری سکول میں داخل کرادیا یہاں بھی مظفر مسلسل کوئٹہ تبادلہ کرانے کے لئے کوشاں رہے مگر ناکامی ہوئی کوئٹہ میں جوائنٹ فیملی اور اپنا ذاتی گھر ہونے کی وجہ سے ہمارا گزر بسر بہت اچھا ہورہا تھا مگر لاہور میں آکر ہم مظفر کی محدود تنخواہ میں ہینڈ ٹو ماتھ کی پوزیشن میں آگئے مہینے کے آخر میں گھر میں سب ختم ہوجاتا مظفر بہت پریشان رہتے ایک دن مظفر نے دفتر سے گھر فون کیا اور کہا کہ روزینہ آج تیار ہوجانا شام کو ایک دوست کی دعوت ولیمہ پر جانا ہے میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ آج سے پہلے کبھی بھی میں خاندان کے قریبی لوگوں کے علاوہ کسی کی شادی یا دوسرے فنکشن میں نہیں گئی تھی خیر میں نے ان سے کچھ نہ کہا اور ان کے گھر آنے سے پہلے خود تیار ہوگئی اور بچوں کو بھی تیار کردیا جبکہ مظفر کے کپڑے پریس کرکے رکھ دیئے مظفر نے آکر بتایا کہ صرف ہم دونوں چلیں گے بچے گھر پر رہیں گے دو تین گھنٹے تک ہم واپس آجائیں گے ہم بچوں کو گھر پر ہی چھوڑ کر رکشہ پر گلبر گ کے ایک شادی ہال میں چلے گئے جہاں بہت ہی گہما گہمی تھی مرد اور عورتیں ایک ہی ہال میں اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے مجھے یہاں بہت ہی شرم آرہی تھی خیر مظفر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے مجھ میں کچھ حوصلہ تھا میں ان کے ساتھ ہال میں داخل ہوگئی ہال کے دروازے پر مظفر نے اپنے دوست اور ان کی فیملی کے دیگر افراد کے ساتھ میرا تعارف کرایا اور ہم ہال میں ایک الگ میز پر بیٹھ گئے اس دوران کئی افراد مظفر کے ساتھ آکر ملے جبکہ میں منہ اپنی چادر کے ساتھ ڈھانپ کر خاموشی سے بیٹھی رہی کھانے کے دوران ایک شخص اچانک بغیر اجازت کے ہماری میز پر آبیٹھا مجھے اس کی یہ حرکت بہت ہی بری لگی لیکن وہ شخص آتے ہی مظفر کے ساتھ فرینک ہوگیا اور باتیں کرنے لگا میں نے کھانا چھوڑ کر منہ دوبارہ ڈھانپ لیا باتوں باتوں میں مظفر نے مجھے مخاطب کرکے کہا روزینہ یہ میرے باس شاکر صاحب ہیں اور شاکر صاحب یہ میری بیوی روزینہ ”ہیلو کیا حال چال ہیں“ اب وہ شخص مجھ سے براہ راست مخاطب تھا یہ میری زندگی میں پہلی بار کسی غیر محرم نے مجھے براہ راست میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مخاطب کیا تھا میں اس وقت شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ان کی طرف سے حال چال پوچھنے پر میں صرف سر ہی ہلا سکی ” میں ان کا باس واس نہیں صرف کولیگ ہوںمظفر تو بس ایسے ہی ذرے کو پہاڑ بنا دیتے ہیں “ وہ شخص ابھی تک مجھے گھورے جارہا تھا میں ابھی بھی نظریں نیچی کئے خاموش بیٹھی ہوئی تھی اس کے بعد وہ شخص مظفر کے ساتھ باتیں کرنے لگا اور دس پندرہ منٹ کے بعد اٹھ کر چلا گیا آخر دو تین گھنٹے کے بعد فنکشن ختم ہوگیا اور ہم میزبان سے اجازت لے کر ہال سے باہر نکل آئے اور سڑک پر رکشہ کے انتظار میں کھڑے ہوگئے چند لمحوں کے بعد ہی ایک کار ہمارے قریب آکر رکی اس میں مظفر کا باس شاکر ہی بیٹھ تھا اس نے کہا مظفر صاحب کدھر جانا ہے مظفر نے اس سے کہا کہ سر ہم کو چوبرجی کی طرف جانا ہے تو اس شخص نے کار کا اگلا دروازہ کھولتے ہوئے کہا کہ آئےے میں آپ کو ڈراپ کردوں گا مظفر نے پہلے تو انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہیں سر آپ خواہ مخواہ تکلیف کررہے ہیں ہم رکشہ پر چلے جائیں گے مگر اس شخص نے کہا تکلیف کی کوئی بات نہیں میں بھی ایک کام کے سلسلہ میں ادھر ہی جارہا ہوں جس پر مظفر نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا میں ہچکچاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی اور مظفر اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے راستے میں مظفر اور شاکر دونوں باتیں کرتے رہے میں ان کی باتوں سے بے نیاز چادر سے منہ ڈھانپے باہر دیکھ رہی تھی چوبرجی پہنچ کر اس شخص نے ہم کو اتار دیا اور جاتے ہوئے مظفر سے کہنے لگا یار مظفر کبھی بھابھی کو لے کر ہمارے گھر بھی آ جس پر مظفر نے کہا ٹھیک ہے سر کبھی آں گا مگر آپ یہاں تک آگئے ہیں اسی گلی میں ہمارا گھر ہے چائے تو پی کر جائیں مگر وہ ان کی بات سنی ان سنی کرکے چلا گیا میں نے گھر آکر مظفر سے کہا کہ کیا ضرورت تھی مجھے اس فنکشن میں لے کر جانے کی اور پھر آپ ایک اجنبی کے ساتھ گاڑی میں مجھے لے کر بیٹھ گئے مگر مظفر نے کہا کہ وہ شخص اجنبی نہیں تھا میرا باس تھا جبکہ اس فنکشن میں سب لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ آئے ہوئے تھے اور میرے دوست نے مجھے بھی فیملی کے ساتھ آنے کو کہا تھا میں اکیلا جاتا تو سب مجھ سے ناراض ہوتے کہ فیملی کے ساتھ کیوں نہیں آیا چند روز گزرے کہ ایک روز مظفررات کو لیٹ گھر آئے تو ان کے ساتھ شاکر نامی شخص بھی تھا مظفر ان کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھ گیا اور مجھے چائے لانے کو کہا اس وقت تینوں بچے سو چکے تھے میں نے چائے تیار کی اور بیٹھک کے اندرونی دروازے سے مظفر کو آواز دی کہ چائے لے لیں مظفر نے مجھے کہا کہ اندر ہی لے آ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی کہ کبھی بھی پہلے میں بیٹھک میں کسی مہمان کی موجودگی میں نہیں گئی تھی چائے وغیرہ یا تو بچے لے جاتے یا مظفر خود پکڑ لیتے تھے میں اس وقت صرف دوپٹہ لئے ہوئے تھی خیر میں ان کے حکم پر اپنا دوپٹہ درست کرکے چائے اندر ہی لے گئی اور چائے رکھ کر واپس آگئی مجھے محسوس ہوا کہ شاکر مسلسل میرے جسم کا جائزہ لے رہا ہے میں چائے رکھ کر فوراً ہی واپس آگئی دونوں بیٹھک میں کافی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے دس پندرہ منٹ کے بعد مظفر مہمان کو الوداع کرکے کمرے میں آگئے میں ان پر برس پڑی کہ آپ نے مجھے کیوں اندر بلایا تو کہنے لگے یہ لاہور ہے اور اگر یہاں ہمیں رہنا ہے تو تمام لوگوں کی طرح ہی رہنا ہوگا ورنہ تمام لوگ ہم سے ملنا جلنا چھوڑ دیں گے کوئٹہ کی طرح لاہور میں نہیں رہا جا سکتا ہاں شاکر صاحب مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دے گئے ہیں بتا کس دن چلیں میں نے کہا کہ مجھے نہیں جانا کسی شاکر واکر کے گھر لیکن مظفر نے خود ہی کہا کہ اگلے اتوار کو چلیں گے اور تم بھی میرے ساتھ چلو گی میں خاموش رہی اتوار کے روز مظفر نے مجھے صبح دس بجے کہا کہ تیار ہوجا آج ہمیں دوپہر کا کھانا شاکر صاحب کے ہاں کھانا ہے میں نے انکار کیا تو کہنے لگے مجھے نہیں معلوم تم جلدی سے تیار ہوجا اور میرے کپڑے بھی پریس کردو میں نہ چاہتے ہوئے بھی کپڑے چینج کرکے ان کے ساتھ چل دی ہم رکشہ لے کر شاکر صاحب کے گھر چلے گئے ان کے گھر گئے تو ایک نوکر نے دروازہ کھولا اور ہمیں ایک کمرے میں بٹھا دیا اور چائے کے ساتھ بسکٹ دیئے اس نے بتایا کہ شاکر صاحب تو ابھی گھر سے باہر گئے ہیں تھوڑی دیر تک آجائیں گے تھوڑی دیر کے بعد شاکر صاحب بھی گھر آگئے اور ساتھ میں بڑے بڑے شاپروں میں کھانا لے آئے شاپر نوکر کو پکڑا کر خود ہمارے پاس بیٹھ گئے میں یہ بات نوٹ کررہی تھی کہ شاکر بار بار میری طرف دیکھتا اور میرے جسم کا جائزہ لیتا تھا میں خاموشی سے بیٹھی رہی باتوں باتوں میں شاکر نے کہا کہ بھابھی لگتا ہے آپ یہاں ایزی فیل نہیں کررہیں میں نے انکار میں سر ہلایا تو کہنے لگا کہ پھر آپ ابھی تک خاموش بیٹھی ہوئی ہیں میرے گھر میں کوئی خاتون نہیں ہے اس لئے مجھے ہی آپ کو کمپنی دینا ہوگی آپ اپنے ہی گھر میں بیٹھی ہیں ”نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں آپ کی باتیں انجوائے کررہی ہوں “ آپ کو ہمارے دفتر کی باتوں سے کون سی انجوائے منٹ مل رہی ہے بس ٹھیک ہے آپ باتیں کیجئے اچھا آپ بتائیں لاہور آکر کیسا فیل کررہی ہیں ٹھیک بچوں کی پڑھائی کیسی چل رہی ہے ٹھیک ہی ہے ویسے پہلے پہل مظفر تو بہت تنگ تھا لیکن اب کافی حد تک ایڈجسٹ کرچکا ہے ”نہیں سر ایسی بات نہیں مجبوری ہے ورنہ میرا بس چلے تو ایک منٹ بھی لاہور میں نہ ٹھہروں “اس بار میری بجائے مظفر نے جواب دیا یار نوکری میں تو ایسا ہوتا ہے ہاں سر مگر آپ کچھ کیجئے نہ میں کیا کرسکتا ہوں سر آپ چاہیں تو میری ٹرانسفر دوبارہ کوئٹہ ہوسکتی ہے مظفر تم کو معلوم ہے کہ پالیسی کتنی سخت ہوگئی ہے میں فی الحال کچھ بھی نہیں کرسکتا ہاں اگر تم کہوں تو میں کراچی یا اسلام آباد کے لئے ٹرائی کرسکتا ہوں سر نہیں ابھی بہت مشکل سے یہاں تھوڑا سا دل لگا ہے وہاں پھر جاکر نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا ہاں یہ تو ہے لیکن سر آپ کوشش ضرور کیجئے گا ٹھیک ہے اب پھر شاکر نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بھابھی مظفر آپ کو آٹنگ پر بھی لے کر گیا ہے یا نہیں نہیں میں نے خود ہی کبھی ان سے نہیں کہا اور ویسے بھی میری عادت ہی ایسی ہے کہ کم ہی گھر سے نکلتی ہوں کوئٹہ میں تو اپنے رشتہ داروں کے ہاں بھی جانے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا تھا اور بڑوں سے اجازت لینا پڑتی تھی یہاں تو پھر بھی کبھی کبھی مظفر مجھے کہیں نہ کہیں لے جاتے ہیں میں اب کافی حد تک خود کو ایزی فیل کررہی تھی لیکن شاکر کی نظریں اب بھی مجھے میرے جسم کے اندر جانکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی لیکن بھابھی یہ لاہور ہے اور یہاں خود کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے یہاں کے ماحول کے حساب سے رہنا پڑے گا میں پھر خاموش ہوگئی کھانا کے دوران مظفر اور شاکر باتیں کرتے رہے اور میں خاموشی سے بیٹھی تھوڑا بہت کھاتی رہی کھانا بہت لذیز تھا کھانے کے بعد ہم پھر کمرے میں آبیٹھے جہاں آکر شاکر نے کہا کہ اب کھانا تو کھا لیا ہے آج چائے بھابھی کے ہاتھ کی پیئں گے مظفر نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ روزینہ تم چائے بنا لا میں نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور شاکر میری رہنمائی کرتے ہوئے کچن تک لے آیا اور مجھے دودھ چائے اور چینی دے کر خود کمرے میں جابیٹھا میں چائے لے کر کمرے میں گئی تو دونوں قہقہے لگا رہے تھے ” واہ چائے تو بہت مزیدار ہے “شاکر نے پہلا گھونٹ لیتے ہی بول دیا ”ہاں بھئی ہماری بیگم کھانا بھی بہت اچھا بناتی ہیں لیکن ہمارے روائتی کھانے شائد آپ پنجابی لوگ پسند نہ کریں “مظفر نے جواب دیا نہیں یار تم نے کبھی دعوت ہی نہیں دی ہم کیسے کھا سکتے ہیں بھابھی کے ہاتھ کے پکے کھانے ویسے مجھے افغانی کھانے بہت پسند ہیں نہیں سر آپ جب دل چاہے آجائیں ٹھیک ہے کسی دن پروگرام بنائیں گے ہاں ٹھیک ہے لیکن سر آنے سے ایک دو دن پہلے بتا دیجئے گا ٹھیک ہے مظفر اور شاکر دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اس دوران شاکر کبھی کبھی مجھے بھی مخاطب کرلیتا جبکہ میں صرف ہوں ہاں میں جواب دیتی جبکہ شاکر بار بار مجھے بار بار گھور رہا تھا باتوں باتوں میں شام کے چار بج گئے اب مظفر نے شاکر سے اجازت لی تو شاکر اندر سے دو پیکٹ اٹھا کر لایا اور مجھے تھما دئےے اور کہا کہ بھابھی یہ میری طرف سے آپ کے لئے گفٹ ہیں آپ پہلی بار میرے گھر آئی ہیں جلدی میں بازار سے صرف یہی لا سکا ہوں اور مظفر یہ تمہارے لئے ایک پیکٹ اس نے مظفر کے ہاتھ میں دے دیا ”سر اس کی کیا ضرورت تھی “مظفر نے پیکٹ پکڑتے ہوئے کہا نہیں نہیں یار آپ لوگ پہلی بار میرے گھر آئے ہو پھر معلوم نہیں زندگی کہاں لے جائے اس کے بعد شاکر ہم کو گھر تک چھوڑنے آیا اور گھر کے دورازے تک چھوڑ کر خود چلا گیا گھر آکر میں نے مظفر سے کہا کہ میں آئندہ کبھی کسی کے گھر نہیں جاں گی تم نے دیکھا تمہارا باس مجھے کس طرح گھور رہا تھا لیکن مظفر نے کہا کہ شاکر ایسا آدمی نہیں ہے بہت اچھا ہے دفتر میں مجھے کبھی بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں اس کا ماتحت ہوں اور تم کو خواہ مخواہ ہی ایسا محسوس ہورہا ہے اس کے بعد مظفر نے تینوں پیکٹ خود ہی کھول دیئے دوپیکٹس میں ہم دونوں کے سوٹ تھے جبکہ ایک میں میرے لئے جیولری تھی کافی مہنگی معلوم ہوتی تھی مظفر نے دیکھ کر کپڑوں اور جیولری کی تعریف شروع کردی اور مجھ سے کہا کہ کس دن شاکر صاحب کو اپنے گھر کھانے کو مدعو کروں میں نے کہا کہ جس دن مرضی کرلیں مگر میں ان کے سامنے نہیں جاں گی مظفر نے جواب دیا نہ جانا تمہاری مرضی اگلے اتو ار کو ٹھیک رہے گا میں نے کہا ٹھیک ہے مظفر جمعہ کے دن گوشت اور کچھ فروٹ وغیرہ گھر لے آئے اور کہا کہ پرسوں شاکر صاحب آرہے ہیں اور تم اچھا سا کھانا پکا دینا اتوار کے روز صبح ہی میں نے بھنہ گوشت‘ روسٹ اور شوربہ( افغانی روائتی کھانے) تیار کرنا شروع کردیئے بارہ بجے کے قریب شاکر ہمارے گھر آدھمکا میں روائتی افغانی چائے (قہوہ) ان کے لئے تیار کرکے اپنے بڑے بیٹے کے ہاتھ بیٹھک میں بھجوادیا اس پینے کے بعد کھانا بھی بھجوادیا شاکر صاحب تین بجے کے قریب گھر سے چلے گئے اس کے بعد مظفر اندر آئے اور کہنے لگے کہ تم بیٹھک میں کیوں نہیں آئی میں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی آپ کو بتادیا تھا کہ میں کسی کے سامنے نہیں جاں گی کہنے لگے شاکر صاحب نے بار بار پوچھا کہ بھابھی کیوں نہیں آئیں اور کافی ناراض بھی ہورہے تھے میں خاموش رہی اس کے بعد روز ہی مظفر گھر آکر شاکر صاحب کے گھن ہی گاتے رہتے اور روٹین میں دن گزرتے گئے تقریباً ایک ماہ بعد مظفر نے مجھے کہا کہ آج شاکر صاحب کے ہاں کچھ مہمان آنے والے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ ان کے لئے افغانی کھانے بنوانا چاہتے ہیں میں تم کو اگلے ہفتہ کو ان کے گھر لے چلوں گا میں نے انکار کیا تو کہنے لگے جیسا میں کہتا ہوں کرو شاکر صاحب کے ساتھ میرا تعلق بھائیوں کی طرح ہوچکا ہے اور تم بھی ا ن کو اجنبی نہ سمجھا کرو خیر میں ہفتہ کے روز صبح مظفر کے ساتھ شاکر کے گھر چلی گئی شاکر گھر میں ہی موجود تھا مجھے کچن میں چیزیں دے کر خود دونوں گاڑی پر بیٹھ کر دفتر چلے گئے دوپہر کے وقت مظفر کا فون آیا انہوں نے میرا حال چال پوچھا اور مجھے افغانی ڈشز اچھی طرح تیار کرنے کی ہدایت کرنے لگے ڈیڑھ بجے کے قریب دروازے پر بیل ہوئی نوکر نے دروازہ کھولا اور شاکر آگئے وہ سیدھا کچن میں ہی آگئے اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے کہ بھابھی جیسا کھانا آپ نے گھر میں کھلایا تھا ویسا ہی ہونا چاہئے میں ان کے پیچھے دیکھنے لگی کہ مظفر بھی ان کے ساتھ ہی ہوں گے مگر وہ اکیلا ہی تھا میں نے ان سے مظفر کے بارے میں استفسار کیا تو کہنے لگا کہ میں تو کسی دفتر ی کام کے سلسلہ میں ادھر آیا تھا سوچا گھر چکر لگا لوں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے معلوم کرلوں مظفر ابھی دفتر میں ہے مجھے بھی جانا ہے شام کو اکٹھے ہی آجائیں گے اور ہاں بھابھی مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے اگر کوئی ڈش تیار ہوگئی ہو تو مجھے تھوڑا سا کھانا دے دیں یہ کہہ کر شاکر نے نوکر کو بازار سے کولڈ ڈرنک لانے کے لئے بھیج دیا اور خود کچن کے دروازے پر ہی کھڑا ہوگیا مجھے بہت عجیب سا محسوس ہورہا تھا وہ مسلسل مجھے گھور رہا تھا جس کی وجہ سے میرے ہاتھ کانپنے لگے تھے اس دوران میرے ہاتھ سے پلیٹ بھی گرنے لگی لیکن میں سنبھل گئی میں نے پلیٹ میں روسٹ کا ایک پیس رکھ کر ان کو دیا تو یہیں پر ہی کھڑے ہوکر کھانے لگے ”واہ بھئی واہ بھابھی آپ نے تو کمال کردیا اتنا لذیز کھانا کمال ہے بھابھی آپ کے ہاتھ میں تو جادو ہے جادوآپ جتنی خود خوب صورت ہیں اتنے اچھے کھانے بھی تیار کرتی ہیں “ میں پہلی بار کسی کے منہ سے اپنی تعریف سن رہی تھی اور مجھے عجیب سا لگ رہا تھا اس سے پہلے مظفر نے بھی میری کبھی تعریف نہیں کی تھی شاکر نے پھر مجھے مخاطب کرکے کہا کہ بھابھی آپ کو میری طرف سے دیا ہوا سوٹ اور جیولری کیسی لگی میرے خیال سے وہ آپ پر بہت سوٹ کرے گی ویسے آپ جیولری کے بغیر بھی بہت خوب صورت ہیں لیکن وہ جیولری آپ کی خوب صورتی کو چار چاند لگا دے گی میں مسلسل خاموش تھی اور اپنی تعریف سن کر میرے ہاتھ پاں سن ہورہے تھی کوئی اجنبی پہلی بار اس طرح میرے ساتھ مخاطب تھا تھوڑی دیر کے بعد شاکر چلے گئے اور شام کو مظفر کے ساتھ گھر آگیا ہم دونوں کو شاکر کا نوکر گھر ڈراپ کرکے واپس آگیا گھر جاکر میں نے سوچا کہ مظفر کو سب کچھ بتادوں مگر معلوم نہیں کیوں خاموش رہی اگلے روز شاکر کا فون آیا اور کچھ باتیں کرنے کے بعد مظفر نے فون مجھے دے دیا دوسری طرف شاکر تھا بھابھی آپ نے تو کمال کردیا میں نے تو کل ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کے ہاتھ میں جادو ہے میرے دوست یوکے سے آئے ہوئے تھے بہت تعریف کررہے تھے میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی اب اکثر شاکر کا فون آجاتا اور مظفر مجھے فون تھما دیتا میں مجبوراً تھوڑی بہت بات کرکے فون بند کردیتی کئی بار وہ خود بھی مظفر کے ساتھ ہمارے گھر آجاتا مگر میں کوشش کرتی کہ اس کے سامنے نہ ہی جاں مگر مظفر مجھے مجبور کرتا تو میں چلی جاتی و ہ اب بھی میری طرف گھورتا اور مجھے محسوس ہوتا کہ اس کی نظر بہت گندی ہے ایک روز رات کو مظفر اور میں لیٹے ہوئے تھے مظفر نے مجھے کہا کہ روزینہ شاکر صاحب میری کوئٹہ ٹرانسفر کراسکتے ہیں میں خاموش رہی انہوں نے پھر مجھے مخاطب کیا سمجھ نہیں آتا ان کو کیسے قائل کروں روزینہ تم یہ کام کرسکتی ہو تم کیوں نہیں شاکر صاحب کو کہتی میں ! میں کیسے کہہ سکتی ہوں تم کہہ سکتی ہو اور وہ تمہاری بات نہیں ٹالے آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں مظفر نے یہ کہتے ہوئے اپنے موبائل سے شاکرکو فون ملایا اورسپیکر آن کرکے مجھے تھما دیا اور کہنے لگے کہ ان سے ابھی صرف حال چال ہی پوچھنا میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی فون کان کو لگا لیا تیسری یا چوتھی بیل پر شاکر نے فون اٹھا ہیلو کیا حال ہے مظفر میں روزینہ بول رہی ہوں جی کیا حال ہے بھابھی ٹھیک ہوں کیسے مجھے فون کرلیا بس ایسے ہی کیا مظفر سو رہے ہیں نہیں اچھا باہر گئے ہوں گے تو آپ نے سوچا کہ مجھے فون کرلیں مہربانی میں بھی کافی دن سے چاہ رہا تھا کہ کبھی اکیلے میں بات ہو مگر موقع ہی نہیں مل رہا تھا کیا کہنا تھا آپ نے بس آپ کی تعریف کرنے کو دل چاہتا تھا اور مظفر کے سامنے میں کرنا نہیں چاہتا تھا معلوم نہیں کیا سوچے گا (یہ سب باتیں مظفر بھی سن رہا تھا ) کس بات کی تعریف آپ تو ساری کی ساری تعریف کے لائق ہیں کہاں سے شروع کروں مظفر کو تو آپ کی قدر ہی نہیں ہوگی جتنی آپ خوب صورت ہیں اور ایک بات میں آپ سے مزید پوچھنا چاہوں گا اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو کیا ! پوچھیں مظفر تو آپ سے عمر میں بہت بڑا لگتا ہے اور اس کی صحت بھی اتنی اچھی نہیں ہے مگر آپ تو ابھی تک جوان ہیں کیا مظفر آپ کو سیکس میں مطمیئن کردیتا ہے میں شاکر سے اس بات کی توقع نہیں کررہا تھا فوراً فون بند کردیا اور سوالیہ نظروں سے مظفر کی طرف دیکھنے لگی جو مجھ سے نظریں چرا رہا تھا تھوڑی دیر بعد مجھ سے بولا تم دوبارہ شاکر صاحب کو فون کرو اور ان کے ساتھ ایسی ہی باتیں کرو جیسی وہ کررہے ہیں یہ سالا ایسے ہی کام کرے گا مجھے پہلے ہی پتہ تھا نہیں میں نہیں کرسکتی یہ بے غیرتی نہیں تم کرو صرف فون ہی تو کرنا ہے نہیں مظفر میں نہیں کرسکتی تم کو کرنا ہی ہوگا (اب کی بار مظفر کا لہجہ سخت اور انداز حکمیہ تھا) میں نے فون دوبارہ ملایا اور اگلی طرف سے فون اٹھاتے ہی کہا کٹ گیا تھا مجھے معلوم تھا آپ دوبارہ کریں گی جی میں نے کچھ آپ سے پوچھا تھا کیا یہی کہ مظفر آپ کی سکیس کی ضرورت پوری کرتا ہے جی ایسی بات نہیں مجھے معلوم ہے یہ بوڑھا تم کو کیا پورا کرتا ہوگا روزینہ جس دن سے تم کو دیکھا ہے دل چاہتا ہے تم کو جی بھر کے پیار کروں میں نے تمہارے جیسی خوب صورت لڑکی آج تک نہیں دیکھی جی دیکھیں آپ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں تو کیسی باتیں کروں آپ کوئی اور بات کرلیں میرے ذہن میں تو جو بات ہوگی میں تو وہی کروں گا جی میں نے تو اس لئے فون کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے کہ مظفر کی ٹرانسفر کرادوں جی مجھے معلوم ہے لیکن میں جان بوجھ کر ایسا نہیں ہونے دے رہا میں تم کو خود سے دور نہیں ہونے دینا چاہتا جی ہمیں بہت پرابلم ہے آپ کو معلوم نہیں ہے مجھے معلوم ہے میں ایک شرط پر ایسا کرسکتا ہوں کیا شرط تم کو اکیلے میرے گھر آنا ہوگا جی میں کیسے آسکتی ہوں اگر مظفر کو معلوم ہوگیا تو وہ مجھے جان سے مار ڈالیں گے نہیں مارے جیسے مجھے فون کررہی ہیں ویسے خود آجائیں اسے کیسے معلوم ہوگا کسی دن صبح ہی آجائیں مظفر آفس گیا ہوگا اور اس کے واپس گھر جانے سے پہلے میں آپ کو واپس ڈراپ کردوں گا اور آپ بچوں کو کہہ دیں کہ آپ بازار گئی تھیں میں خاموش ہوگئی ٹھیک ہے سوچ کر کل بتا دیں میں آپ کے فون کا انتظار کروں گا (یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا ) میں نے فون مظفر کو پکڑا کر تلخی بھرے لہجے میں اس سے کہا کہ دیکھ لیا کس ذہن کا بندہ ہے اور تم کہتے ہو کہ ایسا ویسا بندہ نہیں ہے اور میرے ساتھ اس کا تعلق بھائیوں جیسا ہے مظفر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے تم کل صبح ہی اس کے گھر چلی جا کیا کہا آپ کا دماغ تو پاگل نہیں ہوگیا ( میں نے کبھی بھی اس سے پہلے مظفر کے ساتھ اس طرح بدتمیزی کے ساتھ بات نہیں کی تھی مگر آج ان کی بات سن کر نہ جانے کیسے میرے منہ سے یہ الفاظ نکل آئے) کچھ بھی نہیں ہوگا ایک بار میری ٹرانسفر ہوجائے مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا پلیز روزینہ تم کو یہ کام کرنا ہی ہوگا میرے لئے ‘ بچوں کے لئے ‘ تم کو معلوم ہے یہاں گزارہ کرنا مشکل ہورہا ہے نہیں مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا
 پلیز روزینہ تم کو یہ کام کرنا ہی ہوگا میرے لئے ‘ بچوں کے لئے ‘ تم کو معلوم ہے یہاں گزارہ کرنا مشکل ہورہا ہے نہیں مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا روزینہ پلیز میں خاموش ہوگئی اور سوچنے لگی کہ مظفر کو کیا ہوگیا ہے اور وہ مجھے کس کام کے لئے کہہ رہے ہیں ۔ چند منٹ کے بعد مظفر کہنے لگے کہ میں شاکر کو فون ملا رہا ہوں تم اس سے کہو کہ میں کل صبح آپ کے گھر آنا چاہتی ہوں میں نے ناں کہی لیکن مظفر نے یہ کہتے ہوئے فون ملا کر میرے ہاتھ میں تھما دیا کہ کچھ نہیں ہوتا اگلی طرف سے فوراً ہی فون اٹھا لیا گیا جی روزینہ شاکر صاحب میں کل صبح آپ کے گھر آنا چاہتی ہوں گڈ ویری گڈ میں آپ کو صبح ساڑھے نو بجے اس وقت آپ کے گھر سے ہی پک کرلوں گا جب مظفر دفتر کے لئے نکل جائے گا اور آپ کے بچے سکول جاچکے ہوں گے یہ کہتے ہی شاکر نے فون بند کردیا میں نے فون مظفر کو دیا اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی مظفر بھی شرمندہ سے تھے انہوں نے نظریں چراتے ہوئے کہا روزینہ میری خاطر ایک بار صرف ایک بار مجھے معلوم ہے کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے اگر کسی کو اس کی بھنک بھی پڑ گئی تو ہم جی نہیں سکیں گے مگر صرف ایک بار میں خاموش رہی اور دوسری طرف منہ کرکے لیٹ گئی ساری رات مجھے نیند نہیں آئی میں جانے کن سوچوں میں گم رہی مظفر کی کروٹوں سے لگا کہ وہ بھی نہیں سو سکا صبح سات بجے میں اٹھی تو ساتھ ہی مظفر بھی اٹھ گئے ایک بار پھر کہنے لگے پلیز روزینہ ایک بار کسی طرح ٹرانسفر کوئٹہ ہونی چاہئے اس کے لئے تم قربانی دو میں خاموش رہی اور باتھ روم میں چلی گئی واپس آئی تو مظفر گھر سے جاچکے تھے میں نے بچوں کو ناشتہ دیا اور ان کو سکول بھیج کر کپڑے پہننے لگی ٹھیک ساڑھے نو بجے دروازے پر بیل ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے شاکر تھا ۔ ہیلو کیا حال ہیں کیا آپ تیار ہیں جی آجائیں گاڑی میں گاڑی میں بیٹھا آپ کا انتظار کررہا ہوں میں نے گھر کو لاک کیا اور باہر نکلنے لگی باہر جاتے ہوئے میں پا
ں سو سو من کے ہوگئے مجھ سے قدم نہیں اٹھایا جارہا تھا میں آہستہ آہستہ چلی اور گاڑی تک پہنچی تو شاکر نے گاڑی کا اگلا دروازہ کھول دیا میں اندر بیٹھ گئی اور شاکر نے گاڑی چلا دی میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور دل میں جانے کون کون سی سوچیں آرہی تھیں راستے میں ایک دوبار شاکر نے بات کرنے کی کوشش کی لیکن میں خاموش رہی تو شاکر نے بھی خاموشی سے گاڑی چلانا شروع کردی گھر پہنچ کر شاکر نے دروازے پر گاڑی روکی اور مجھے کہنے لگا آج میں نے نوکر کو چھٹی دے دی ہے دروازہ خود ہی کھولنا پڑے گا دروازہ کھول کر پھر گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی اندر لے آیا پھر اتر کر گیٹ بند کرنے چلا گیا میں ابھی تک گاڑی میں ہی بیٹھی ہوئی تھی مجھ سے گاڑی سے اترنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی آج زندگی میں پہلی بار کسی نامحرم کے ساتھ میں گاڑی میں بیٹھ کر اکیلی آئی تھی اور آئی بھی کس کام کے لئے تھی ۔ ”اتر آئیں روزینہ گھر میں کوئی نہیں ہے “میں شاکر کی آواز پر بھی گاڑی میں ہی بیٹھی رہی تو شاکر نے خود آکر دروازہ کھولا اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گیا میں صوفے پر بیٹھ گئی تو میرے سامنے بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا مجھے معلوم تھا کہ تم ضرور آ گی اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مظفر کو بھی تمہارے میرے گھر آنے کی خبر ہے لیکن تم بے فکر رہو میں اس بات کا اس سے بھی ذکر نہیں کروں گا تم واقع ہی بہت خوب صورت ہے اور تمہارے مقابلے میں مظفر کچھ بھی نہیں ہے یہ تو لنگور کو کجھور ملنے والی بات ہے میں مسلسل خاموش تھی اور میری ٹانگیں مسلسل کام رہی تھیں میری خاموشی پر وہ سامنے سے اٹھ کر میرے قریب آبیٹھا اور اس نے میرے گلے میں ہاتھا ڈال لئے اس کے بعد میری چادر اتار کر صوفے پر پھینک دی اور میری گردن میں پیچھے سے ہاتھ ڈال کر مجھے میرے ہونٹوں سے کس کرنے لگا مجھے بہت عجیب سا محسوس ہورہا تھا تھوڑی دیر کے بعد میں نے سوچا کہ یہاں آج میں اپنی عزت تو ہر صورت گنوا ہی دوں گی کیوں نہ خود بھی مزہ لے لوں اب میں نے بھی شاکر کا ساتھ دینا شروع کردیا آہستہ آہستہ میں بہت گرم ہوگئی شاکر نے کسنگ بند کی اور مجھے لے کر دوسرے کمرے میں چلا آیا اس نے آتے ہی میری قمیص اتارنا شروع کردی پھر بریزیئر بھی اتار پھینکا اور للچائی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا واہ کیا بات ہے اس کے بعد اس نے میری شلوار بھی اتار دی اور نیچے پہنی انگی بھی پھر اپنی شرٹ اور پھر پینٹ بھی اتار دی اب وہ صرف انڈر ویئر میں ہی تھا اس کا ہتھیار انڈر ویئر کے اندر سے ہی دکھائی دے رہا تھا اس نے مجھے بیڈ پر لٹا لیا اور مجھے ہونٹوں پر کسنگ شروع کردی میں اس کا بھر پور انداز میں ساتھ دے رہی تھی اس کے بعد اس نے میرے کانوں پر کسنگ شروع کردی مجھے عجیب سا مزہ آرہا تھا مظفر نے آج تک مجھے ہونٹوں کے علاوہ کہیں بھی کسنگ نہیں کی تھی کانوں کے بعد اس نے گردن پھر چھاتی پر میرے مموں کو چوسنا شروع کردیا مزے کے ساتھ میرے منہ آہیں نکلنے لگیں میں ایک عجیب سے نشے سے دوچار تھی اس کے بعد اس نے میری پیٹ پر کسنگ شروع کردی اورہوتے ہوئے میری ناف تک آپہنچا اس نے میری ناف کے ارد گرد اپنی زبان پھیرنا شروع کردی یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر ہورہا تھا میں شاکر کا سر بالوں سے پکڑ کر ہٹانا چاہا تو اس نے خود کو چھڑا کر پھر اپنا کام شروع کردیا پھر اس نے میری ٹانگوں پر کسنگ شروع کردی رانوں پر اس کی زبان اس طرح چل رہی تھی جیسے کوئی تلوار چل رہی ہو میں نیچے سے گیلی ہورہی تھی آج کئی مہینوں کے بعد میں سکیس کررہی تھی اور وہ بھی ایسے طریقے کے ساتھ جو پہلے کبھی میں نے سنا بھی نہیں تھا اب شاکر میری پنڈلیوں پر کسنگ کررہا تھا پھر اس نے میرے پاں کے انگوٹھے اپنے منہ میں لے لئے میرے پوری جسم میں کرنٹ دوڑ رہا تھا میں بس بس بس ہی کہہ رہی تھی مگر وہ مسلسل اپنے کام میں جٹا ہوا تھاتھوڑی دیر کسنگ کے بعد وہ پیچھے ہوگیا اور گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھ گیا اور اپنا انڈر ویئر اتار لگا میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے ہی اس کا انڈر ویئر اترا اور اس کا موٹا تازہ اور لمبا لن باہر آیا اور میری حیرت سے آنکھیں پھٹ گئیں کم از کم سات آٹھ انچ کا ہوگا کیا تمام پنجابیوں کے لن اتنے لمبے ہی ہوتے ہیں ( اس کا لن دیکھتے ہی میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا) شاکر ہنسنے لگا اور اس نے کوئی جو اب نہ دیا وہ میری ٹانگوں کے درمیان میں آگیا اور میری ٹانگیں اپنے کوہلوں پر رکھ کر اپنے لن کو میری پھدی کے ساتھ رگڑنے لگا میں مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ چکی تھی اور جلد از جلد اس کی انتہا کو پہنچنا چاہتی تھی اس نے اپنا لن میری پھدی پر رکھا اور جھٹکا دے کر اندر کیا جھٹکے سے لن میری پھدی میں چلا گیا اور لن موٹا ہونے کی وجہ سے مجھے تھوڑی سی تکلیف بھی ہوئی میں سمجھی سارا لن اندر چلا گیا ہوگا مگر چند لمحوں کے بعد اس نے ایک اور جھٹکا دیا اور میرے منہ سے چیخ نکل گئی اب اس کا سارا لن میری پھدی میں چلا گیا تھا درد کے مارے میری جان نکل رہی تھی مظفر کا لن شاکر کے مقابلے میں آدھ ہی ہوگا اور موٹا بھی اتنا نہیں ہوگا آج پہلی بار اتنا بڑا اور موٹا لن لینے سے مجھے بہت تکلیف ہورہی تھی لیکن مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تکلیف دو چار منٹ کی ہے شاکر نے جھٹکے دینا شروع کئے تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے تکلیف ہورہی ہے تھوڑی دیر رک جا وہ رک گیا اور میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا اب مجھے اپنی سہاگ رات یاد آگئی جب مظفر نے پہلی بار کیا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی میں نے اس کو روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے کوئی بات نہ سنی تھی اور میرے تڑپنے کے باوجود کام جاری رکھا تھا اس کے برعکس شاکر کافی کواپریٹو تھا اس نے میری تکلیف پر خود کو روک لیا تھا چند منٹ کے بعد اس نے آہستہ آہستہ سے اپنا لن اندر باہر کرنا شروع کیا پھر رک کر پوچھنے لگا کہ اب تو تکلیف نہیں ہورہی میں اب کافی حد تک سنبھل چکی تھی میں نے کہا کہ نہیں تو اس نے آہستہ آہستہ سے اندر باہر کرنا شروع کردیا پھر بتدریج جھٹکے تیز کرنے لگا میں مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ چکی تھی چند منٹ بعد میں فارغ ہو گئی مگر شاکر ابھی تک اسی سپیڈ کے ساتھ لگا ہوا تھا میں اس کے ساتھ مزے لے رہی تھی قریباً پچیس منٹ تک وہ جھٹکے مارنے کے بعد فارغ ہونے لگا تو مجھ سے پوچھا کہ اندر ہی چھوٹ جاں میں نے اثبات میں سر ہلاتو وہ اندر ہی چھوٹ گیااس دوران میں تین بار فارغ ہوئی تھی اس کی منی سے میری پھدی بھر گئی مظفر کے لن سے کبھی بھی اتنی منی نہیں نکلی تھی فارغ ہونے کے بعد وہ میرے اوپر ہی لیٹ گیا اور میرا منہ چومنے لگا میں بھی اس کا بھرپور طریقے سے ساتھ دے رہی تھی کچھ دیر لیٹے رہنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ کچھ کھانا پینا ہے تو میں نے انکار میں سر ہلا دیا لیکن وہ اٹھا اور ننگا ہی کمرے سے باہر نکل گیا میں بیڈ سے اٹھی اور کپڑے پہننے لگی تو میں نے دیکھا کہ بیڈ شیٹ میری پھدی سے نکلنے والے مادے اور خون کے چند قطروں سے بھر گئی تھی ابھی میں کپڑے پہننے ہی لگی تھی کہ شاکر ہاتھ میں جوس کے دو گلاس پکڑے اندر آگیا اور مجھے کپڑے پہننے سے منع کردیا اور کہا کہ پہلے یہ جوس پی پھر ایک اور شفٹ لگا کر اکٹھے نہائیں گے پھر تم کپڑے پہننا میں نے خاموشی سے اس کے ہاتھ سے جوس لیا اور بیٹھ کر پینے لگی اس دوران شاکر نے مجھ سے پوچھا کہ سچ سچ بتا تم کو مزہ آیا ہے کہ نہیں میں خاموش رہی مجھے کافی شرم آرہی تھی اس نے دو تین بار پھر پوچھا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو کہنے لگا کتنا تو میں نے شرم سے سر نیچے کر دیا پھر کہنے لگا کہ بتا نہ میں نے سر نیچے کئے رکھا اور آہستہ سے کہا کہ بہت شاکر کھلکھلا کر ہنس پڑا اور کہا کہ اب کس سے شرما رہی ہو کھل کر بات کرو لیکن میں مسلسل اپنی نظریں نیچے کئے ہوئے تھی شاکر مسلسل میرے ساتھ باتیں کررہا تھا اور میں اپنی نظریں نیچے کئے ہوئے ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی جوس پی کر وہ پھر سے مجھے کسنگ کرنے لگا اب میں بھی پہلے سے زیادہ جوش دکھا رہی تھی پھر اچانک رک کر کہنے لگا پہلے سب کچھ میں نے کیا اب تم اپنی مرضی کے ساتھ کرو میں کچھ بھی نہیں کروں گا میں کیا کروں جو میں نے کیا ہے (اس سے پہلے مظفر ہی سب کچھ کرتے تھے میں نے کبھی بھی کچھ نہیں کیا تھا ) مجھے کچھ نہیں آتا کیوں نہیں آتا تم کرو خود ہی ہوجائے گا یہ کہتے ہوئے وہ بیڈ پر لیٹ گیا اور مجھے پکڑ کر اپنے اوپر لٹا لیا میں اس کے اوپر لیٹ گئی مگر کیا کروں کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا اس نے مجھے کہا کرو نہ میں نے کہا کہ کیا کروں مجھے شرم آرہی ہے تو کہنے لگا کہ شروع میں کردیتا ہو ں اور اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہوں تمہارے دل میں جو آئے کرتی جا اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور مجھے کسنگ کرنے لگا پھر اس نے کسنگ کرنی بند کردی اور میں اس کے ہونٹ چوسنے لگی پھر اس کے کانوں گردن اور پیٹ کے بعد ناف پر اپنی زبان پھیری تو اس کے منہ سے سسکاری نکل گئی میں نے اپنا کام جاری رکھا اور اس کی ٹانگوں پر کسنگ کرنے لگی پھر اس نے پکڑ کر مجھے اوپر کیا اور کہا کہ اب لن کو اپنے اندر لے لو یہ پہلی بار میں لن کے اوپر بیٹھ رہی تھی میں اس کے لن پر بیٹھی تو اندر نہیں جارہا تھا میں نے آہستہ آہستہ کرکے اس کو اندر کیا تو وہ میری پھدی کی گہرائیوں تک اتر گیا اب میں خود بخود اس کے اوپر نیچے ہونے لگی مجھے پہلے سے بھی زیادہ مزا آرہا تھا تھوڑی دیر کے بعد میں فارغ ہوگئی اور میری پھدی کے پانی سے اس کی ٹانگیں اور پیٹ گیلاہوگیا میں اس پانی کو صاف کرنے کے لئے اوپر سے اترنے لگی تو اس نے منع کردیا اور کام جاری رکھنے کو کہا دس پندرہ منٹ اوپر نیچے ہونے کے بعد میں تھک گئی مگر مزہ اتنا زیادہ تھا کہ بس کرنے کو دل نہیں کررہا تھا میں مسلسل کئے جارہی تھی اور وہ اپنی آنکھیں بند کئے نیچے لیٹا ہوا تھا اس نے اپنی زبان اپنے دانتوں کے نیچے لے رکھی تھی اور دونوں ہاتھوں سے میری مموں کو مسل رہا تھا وہ جس وقت بھی میرے نپل کو اپنی انگلیوں میں لیتا میری آہ نکل جاتی اب وہ فارغ ہونے والا تھا اس نے مجھے پھر کہا کہ اندر یا باہر مگر میں اس کی بات ان سنی کر کے لگی رہی وہ پھر فارغ ہوگیا اب کی بار تقریباً تین منٹ تک اس کا لن منی چھوڑتا رہا میں پوری طرح نڈھال ہوچکی تھی اور میرا جسم ٹھنڈا ہوگیا تھا میں اس کے اوپر ہی ڈھیر ہوگئی اس نے مجھے اپنی باہوں میں جکڑ لیا تھا اور مجھے مسلسل چوم چاٹ رہا تھا جبکہ مظفر جب بھی میرے ساتھ کرتے تھے فارغ ہوتے ہی آنکھیں بند کر کے سوجاتے تھے انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں پوچھا کہ میں بھی مکمل ہوئی ہوں یا نہیں جبکہ اس کے برعکس شاکر مجھے بار بار پوچھ رہے تھے اور فارغ ہونے کے بعد بھی مجھ کو کسنگ کررہے تھے جس کا مجھے بہت مزہ آرہا تھا کچھ دیر بعد میں اس کے اوپر سے اٹھی تو اس نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا کپڑا اٹھا کر مجھے دیا اور کہنے لگا کہ اس سے خود کو صاف کرلومیں نے لیٹے لیٹے خود کو اور پھر شاکر کو صاف کیا اور اٹھنے لگی تو اس نے پھر مجھے پکڑ کر ساتھ لٹا لیا اور کہنے لگا کہ ابھی کدھر لیٹی رہو کچھ آرام کرومیں پھر لیٹ گئی اس نے مجھ سے باتیں کرنا شروع کردیں میں کافی حد تک ریلیکس تھی اور اب مجھے شرم بھی نہیں آرہی تھی میں نے بھی اس کے ساتھ باتیں کیں اس موقع پر کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی تقریباً ایک گھنٹہ لیٹنے کے بعد اس نے مجھے اٹھایا اور بازو سے پکڑ کر کمرے کے ساتھ ہی اٹیچ باتھ روم میں لے گیا اور شاور کھول دیا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی جسم پر پڑا تو مجھے کپکپی آگئی اس نے ایک بار پھر مجھے اپنی باہوں میں جکڑ لیا پھر تھوڑی دیر بعد صابن پکڑ کر میرے جسم پر لگانے لگا پھر میں نے خود ہی اس کے کہنے کے بغیر ہی اس سے صابن پکڑ کر اس کے جسم پر ملا اور پھر پندرہ منٹ تک شاور لیتے رہے اور پھر دونوں نے ٹاول سے ایک دوسرے کو خشک کیا اور دونوں ننگے ہی باہر آگئے اس نے میرا بریزیئر پکڑ کر مجھے دیا اور پھر اس کے ہک خود ہی بند کئے پھر شلوار اور قمیص پہننے میں میری مدد کی اس کے بعد خود کپڑے پہن کر مجھے ڈرائنگ روم میں لے آیا اور خود کچن میں چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ میں ایک پلیٹ اور چند روٹیاں پکڑے آگیا پلیٹ میں دال تھی ہم دونوں نے مل کر دال کھائی اور پھر باتیں کرنے لگے اب اس نے مجھے پوچھا کہ اب بتا مظفر کا تبادلہ کہاں کرانا ہے میں نے جواب دیا جو آپ کی مرضی آپ کریں میں کچھ نہیں کہوں گی وہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا کہ دل تو نہیں چاہتا کہ تمہارے شوہر کا تبادلہ کراں مگر اگر تم کہو تو سب کچھ کروں گا مگر میں چاہتا ہوں کہ ساری زندگی تم میرے پاس رہو اگر ایسا نہیں کرسکتی تو کم از کم کچھ دن اور مجھے اپنی قربت میں رہنے دو میں خاموش رہی پھر کہنے لگا کہ اب گھر جانا ہے یا مزید کچھ دیر ٹھہرنا ہے میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈیڑھ بج رہا تھا میں نے کہا جلدی سے گھر چھوڑ آ بچے بھی آنے والے ہوں گے اس نے گاڑی نکالی اور مجھے گھر چھوڑ آیا راستے میں کہنے لگا کہ کل پھر آجا میں نے کہا سوچوں گی تو کہنے لگا کہ رات کو فون پر بتا دینا شام کو ساڑھے پانچ بجے کے قریب مظفر گھر آئے اور آتے ہی میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے جیسے مجھ میں کچھ ڈھونڈ رہے ہوں لیکن بولے کچھ نہیں رات کو کھانے کے بعد لیٹے تو پوچھنے لگے کیا بنا میں نے جواب دیا کہ میں اس کے گھر گئی تھی تو کہنے لگے پھر میں نے کہا اس نے جو کرنا تھا کرلیا تو کرید کر کہنے لگے کیا کیا اور کیسے کیا میں خاموش رہی اور اس کے بارے میں سوچنے لگی کہ کیسے بے غیرتوں کی طرح پوچھ رہا ہے بار بار پوچھنے پر بھی میں خاموش رہی تو غصہ ہو گئے میں بھی جواباً غصے میں آگئی اور کہا کہ جس کام کے لئے بھیجا تھا اس نے وہی کام کیا ہے میرا غصہ دیکھ کر خاموش ہوگیا اس سے پہلے کبھی میں نے ان کے ساتھ غصہ میں بات نہیں کی تھی غصہ تو دور کی بات میں نے کبھی ان کو ایسے محسوس بھی نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ جو پوچھ رہے ہیں میں وہ ان کو نہیں بتانا چاہتی مگر آج میں ان کے سامنے ان کے مقابلے میں جواب دے رہی تھی اور وہ بھی ان کے لہجے سے بھی زیادہ سخت لہجے میں مگر وہ ڈھیٹوںاور بے غیرتوں کی طرح بات سن گیا پھر کہنے لگا میرے تبادلے کا کیا بنا میں نے جواب دیا کہ اس نے کہا ہے کہ ابھی مزید کچھ دن اور اس کے ساتھ یہی کام کرنا پڑے گا تو اونچی آواز میں گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ سالا کتا حرامی تم آئندہ اس کے پاس نہیں جا گی میں خاموش ہوگئی تو کچھ دیر بعد خود بھی خاموش ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد بولا اب کس دن آنے کو بولا ہے میں نے جواب دیا کہ کل تو کچھ سوچ کر بولا کہ ٹھیک ہے چلی جانا مگر اس کو کہو کہ جلدی سے جلدی کام کردے اس کام کو لٹکنا نہیں چاہئے میں خاموش ہوگئی پھر میں نے مظفر کا فون لے کر شاکر کو فون کیا اور اگلے دن کے پروگرام کے بارے میں بتایا تو خوش ہوگیا اب میرا انگ انگ دکھ رہا تھا مجھے بھرپور نیند آئی رات کو ایک بار مظفر نے مجھے ہلایا اور سیکس کے لئے کہا تو میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور خود دوسری طرف ہوکر لیٹ گئی مظفر نے بھی دوبارہ مجھے ڈسٹرب نہیں کیا اگلی صبح پھر مظفر ناشتہ کئے بغیر ہی جلدی چلے گئے اور شاکر پروگرام کے مطابق مجھے ساڑھے نو بجے مجھے لینے آگئے اس دن انہوں نے مجھ سے ایک اور انداز کے ساتھ سیکس کیا جس کو میں نے بہت زیادہ انجوائے کیا اس دن سیکس سے فارغ ہوکر اس کو مظفر کی رات والی گفتگو سنائی تو ہنسنے لگا اور کہا کہ وہ بے غیرت ہے تم کو روک نہیں سکتا اس دن شاکر نے جاتے ہوئے مجھے ہزار ہزار والے دو نوٹ بھی دئےے اور کہا کہ یہ نوٹ مظفر کو دے دوں میں نے پہلے انکار کردیا پھر اس کے اصرار پر پکڑ لئے ہدایت کے مطابق میں نے یہ نوٹ مظفر کو دیئے تو اس نے ہچکچاتے ہوئے پکڑ لئے اس رات بھی مظفر کا دل شائد کچھ کرنے کو کر رہا تھا مگر میں سو گئی اس کے بعد دوسرے تیسرے دن میں شاکر سے ملتی رہی پہلے ایک آدھ بار مظفر نے مجھے تبادلہ جلدی کرانے کے لئے کہا مگر ہر بار میں اسے شاکر کی طرف سے دیئے گئے ہزار کبھی دو ہزار کبھی پانچ سو روپے دے دیتی اور وہ اس کو پکڑ کر جیب میں ڈال لیتا پھر آہستہ آہستہ اس نے تبادلے کے متعلق پوچھنا بند کردیا ایک سال ایسے ہی گزر گیا کہ اچانک ایک روز مظفر نے گھر آکر کہا کہ میرا کراچی تبادلہ ہوگیا ہے میں بہت افسردہ ہوئی میں اب شاکر کو ملے بغیر رہ نہیں سکتی تھی میں اس کی عادی ہو گئی تھی وہ ہر بار کسی نئے انداز کے ساتھ سیکس کرتا تھا میں نے جان بوجھ کر ہی کہا اچھا ہوا شاکر سے بھی جان چھوٹ جائے گی تو جواب میں مظفر نے کہا کہ نہیں روزینہ نہیں اب ہم لوگ یہاں سیٹل ہوچکے ہیں کہیں اور جاکر پتہ نہیں کیسے حالات ہوں تم شاکر سے کہو کچھ کرے میں نے شاکر سے کہا تو ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ یہ آرڈر میں نے جان بوجھ کر کرائے تھے تم فکر نہ کرو میں خود بھی ایسا نہیں چاہتا اس کے اگلے روز ہی مظفر خوشی خوشی گھر آیا اور کہنے لگا کہ تم بہت اچھی ہو شاکر سے کہہ کر میرا تبادلہ رکوا دیا اب بھی ہفتے میں دو بار شاکر کے ساتھ ضرور ملتی ہوں اس سے میری ” ضرورت“ بھی پوری ہوجاتی ہے اور میرے شوہر کو کچھ رقم بھی مل جاتی ہے کبھی کبھی جب شاکر مصروف ہوں یا لاہور میں نہ ہوں تو میں مظفر کے سامنے ان کے ساتھ موبائل پر لمبی لمبی گفتگو کرتی ہوں جبکہ مظفر کمرے سے نکل جاتا ہے اگر کبھی مظفر کی موجودگی میں شاکر گھر آجائے تو وہ شاکر کو بٹھا کر کسی بہانے سے باہر چلے جاتے ہیں میں شاکر کی بہت شکر گزار ہوں ان کی وجہ سے مجھے نئے نئے مزے کرنے کا موقع ملتا ہے اور آج تک شاکر نے کبھی مجھے بلیک میل کرنے یا مجھ پر دھونس جمانے کی بھی کوشش نہیں کی جب کبھی میرا سیکس کو دل نہ کرے تو شاکر میرے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کرتا مجھے شاکر کی دوسری کئی لڑکیوں کے ساتھ معاملات کا بھی معلوم ہے لیکن میں نے اس کو کبھی منع نہیں کیا ایک بار میرا دل کیا کہ میں مظفر سے طلاق لے کر شاکر سے شادی کرلوں یہ بات میں نے شاکر سے کی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرسکتا اس لئے میں طلاق نہ لوں اس کی اس بات کا مجھے دکھ تو بہت ہوا لیکن بعد میں میں بھی سمجھ گئی کہ طلاق کے میرے بچوں اور خاندان میں کیا اثرات ہوں گے