SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

اتوار، 13 جون، 2021

عاشق ۔ گیارہویں قسط

  



عاشق

گیارہویں قسط

تحریر: ماہر جی
بعد میں بھی نصرت نے کہا یار وہ فاروقی صاحب مجھے کہتے ہیں میں ان کا ساتھ دوں  میں نے کہا بھائی یہ تو سب سے اچھی بات ہے  اب یہ فیصلہ ہوا کے کورٹ میں ہم نصرت صاحب کے دفتر میں بیٹھا کریں گ
ۓ اور بعد  میں نصرت بھائی فاروقی صاحب والے دفتر میں اب مجھے بھی بہت خوشی ہوئی تھی  نصرت بھائی  بڑے  قابل وکیل تھے اور فاروقی صاحب  اپنی خوشی سے ان کو اپنے سے  زیادہ اہمیت دیتے تھے ھمارے پاس اتنے کیس آ رہے تھے  اب تو آج دِن میں مختلف  شہروں سے بھی آفر آییں تھیں کیسوں کی  میرے لئے ، اب بھائی نصرت اور    فاروقی صاحب نے وہ سارے  کیس لے لئے تھے اور بار روم میں مجھے اب ایک بار صدر کا پروٹوکول  مل رہا تھا اور سب جج حضرات کو بھی پتا  چل گیا تہ میں اب متفقہ صدر ہوں   سو وہ بھی اب  مجھے بڑی  اہمیت دے رہے تھے  رات کو جب ہم گھر آے تو بھائی  امجد نے  ڈیڈی کوبتایا  سب وہ بھی خوش ہو گۓ ، پھر میں جب ان کے ساتھ ہی بیٹھا تھا کے مجھے ظفری کی کال آ گی میں نے اسے وہاں سے اٹھ کے سنا وہ بولا باس  کل کی رات میں ہم نے وہ مال  حاصل کیا تھا اور آج بیچ دیا ہے کسی اور سٹی  میں سارا مال اسی لاکھ کا بکا ہے  اب اب چالیس  لکھ ہم سب نے آپس میں بانٹ لئے ہیں ، اور بقیہ  میں نے ہم نے  پانچ جیپیں لی ہیں  اور کچھ سامان جو آپ نے کہا تھا اور اسلحہ ہم کو انہی گوداموں سے بہت بڑی  تعداد میں ملا ہے جو

ہم نے اپنے ہیڈ کواٹر میں رکھ لیا ہے میںنے کہا گڈ  اب تم لوگ ینجوے کرو میں کل ایک شادی پے جاؤں گا وہ بولا باس ہر وقت پانچ لوگ ریڈی ہیں آپ کے پیچھے  اب ہم نے ہر گاڑی میں خفیہ خانے بنوا لئے ہیں آج سارا دِن یہی کام کیا ہے  پھر میں نے کہا چلو ٹھیک ہے وہ بولا اب اگلا ٹارگٹ اگلے ہفتے  ہو گا ہٹ باس اور ہنس دیا میں بھی مسکرا دیا ، اب میں واپس آیا تو طارق بھائی نے کہا کون تھا یہ  میںنے کہا میری آرمی کا چیف وہ بولا کیا مطلب اب سب ہی چونک گ
ۓ  میں نے کہا بھائی میںنے اپنا خیال رکھنے ک لئے کچھ لوگ رکھے ہیں  ، وہ بولے یار اس کی کیا ضرورت تھمیں نایاب ان کو بتایا کے اس دِن فرحان ڈار  نے مجھ پے قاتلانہ حملہ کروایا تھا اور وہاں بھی ایسا ہی ہوا تھا وہ اب یہ سن کے  بولے تب ہی اس دِن مجھے پتا چلا تھا کے میرے گھر کی طرف فائرنگ سے چار لوگ مرے گۓ ہیں ، اب کی بار امجد بھائی  نے کہا کون تھے وہ لوگ   تو طارق بھی نے کہا کچھ قتلوں میں سب ہی اشتہاری تھے ،

اب ڈیڈی نے کہا اور وہ سب اس فرحان ڈار  کے لوگ تھے میںنے کہا جی پاپا وہ بولے بیٹا ایسے گند کو صاف ہونا چاہیے  آپ لگے رہو اپنے کام میں میں نے شکر ادا کاکیا کے اب آشیانہ  والے بھی میری سوچ کے مطابق چلنے لگے تھے  پھر مجھے والدہ صاحبہ نے کہا شارق آپ کل اپنی بھابھی  شفق کے ساتھ جایئں گ
ۓ شادی پے ہم سب پرسوں آییں گۓ میں نے کہا جی امی اور  لالارخ بولی  میں بھی آپ کے ساتھ جا رہی ہوں  ذرا گاڑی آرام سے چلانا  میں اپنے ڈیڈی کی اکلوتی بیٹی ہوں محترم  اور سب ہنس دیے  پھر سب آج کی رات دیر تک بیٹھ کے باتیں کرتے رہے اور  بعد میں سب اپنے اپنے روم کی طرف چل دیے  اگلے دِن مجھے بھابھی شفق نے ہی اٹھایا  اور کہا چلو تیار ہو جاؤ ،

میں نے نہا  کر کپڑے بدلے  اور پھر ہم نے ناشتہ کیا اب بھابھی نے میرے کپڑے اپنے ہی بیگ میں رکھے  اور ہم چل دیے گجرات کی طرف میرے ساتھ آگنے لالارخ بیٹھی تھی اور وہ اب اپنی مرضی سے کوئی نہ کوئی  گانا  لگاتی اور پھر سے اگلا  لگا لیتی  میں نے اسے کہا کیا تم پاگل ہو گئی ھو یہ سنتے ہی وہ غصے میں آ گئی اور کہا  میں اب پیچھے بیٹھوں گی آپ آگنے آ جائیں بھابھی  میں اور بھابھی شفق ہنس دی  غصہ تو ہر وقت لالارخ کی ناک پے دہرا رہتا تھا  میں نے کہا یار اس میں ناراض کیوں ہو رہی  ہو  ٹھیک ہے بابا تم مرضی سے سنو وہ اب خاموشی سے اپنے کام میں لگ گئی  اس کی گود میں کوئی  پچاس  کی قریب گانوں کی سی ڈی تھیں وہ سب ہی چیک کر رہی تھی پھر آخر کار اسے ایک سی ڈی  اچھی لگی اور وہ اب آرام سے اسے ہی سننے  لگی اس نے گجرات تک وہ ہی سنی بار بار بھابھی اور میں ہنس رہے تھے  وہ  بولی آپ لوگوں کو کیا پتہ میوزک  کا  ہم نے کہا جی ہاں سارا پتہ آپ کو جو ہے وہ اب ہنس دی  راستے میں اس نے کوئی  چار دفع آئسکریم  کھائی ، پھر ہم گجرات سٹی میں آ گ
ۓ اب بھابھی نے بتایا ان کا گھر  اور پھر میں نے ایک آٹھ کنال  میں بنی ایک خوبصورت سی کوٹھی کے آگنے گاڑی روک دی،

کوٹھی بڑی پیاری بنی ہوئی تھی اور اس کے گیٹ  کے ساتھ گولڈن  رنگ میں  لکھی ہوئی ایک تختی لگی تھی  جس پے  وڑائچ  ہاوس لکھا ہوا تھا بھابھی اب نیچے اتری  ان کو دیکھ کر ایک طرف سے  ان کا بھائی سفیان  آ گیا وہ مجھے ملا  گلے لگا کر اور کہا شہزادے آج کل تو ہر طرف ترے ہی چرچے ہیں  وہ بھی پولیس میں ایس پی  تھا  مینن ے کہا باس بھائی جان آپ لوگو کی دعائیں  پھر وہ ہم کو ساتھ لئے اندر کی طرف چلا ہی تھا کے لالارخ نےکہا سفیان بھائی کیا بھابھی  ثوبیہ نے آپ کی نظر کمزور کروا دی ہے  آپ کومیں نظر ہی نہیں آیی اور ان صاحب کو لے کر اندر چل دیے اب وہ بولا ارے تم کہاں نظر آئی تھی ابھی تو گاڑی سے باہر نکلی ھو  لڑاکو بلی  وہ میرا خالہ زد کزن  بھی تھا اس لئے اسے پتہ تھا  لالارخ کا  اب وہ مجھے چور کے اسے ملا اور اس کا بازو پکڑ کے بولا  بہنا صاحبہ تشریف لائیں یہ میری بیگم کا میکہ گھر ہے ، اور ہم سب ہنس دیے جب اندر گ
ۓ تو ہم کو دیکھتے ہی سب ہماری طرف آ گۓ بھابھی ثوبیہ سب سے پہلے لالارخ کو ہی ملی  اس نے سب سے کہا اونچی آواز میں  خبردار  سب پہلے لالارخ سے ملیں  ورنہ میری خیر  نہیں ھو گئی  اب ایک طرف سے  میری خالہ جان اور شفق کی امی  بھی آ گیں اور انہوں نے  کہا ثوبی میری پیاری سی ایک ہی بھانجی ہیں  کوئی بندہ اسے تنگ نہ کرے،

اب سب ہی ہنس دیے اب ثوبی بھابھی کا بڑا  بھی جو ایک جج تھا وہ بولا لو جی کس میں جرات ہے  آئی جی صاحب کی لاڈلی  اور ایک جج اور ایک  ایس پی پولیس کی اور ایک بیرسٹر  کی بہن  کو تنگ کرے  پھر بولا اور ایک سب سے اہم بات ایک ایسے  خطرناک بھی کی بہن جو وکیل کم اور ڈان زیادہ ہے  جو جس بھی جج کے سامنے جاتا ہے اپنا کیس جیت کے ہی آتا ہے اب تو میں شارق جج حضرات تم سے ڈرنے لگے ہیں اور آگنے بڑھ کے مجھے گلے لگا لیا  ، میں نے کہا بھائی جان یہ کس نے کہ دیا اب ایک طرف سے آواز آیی ہم نے جناب میں نے دیکھا تو وہ ووہی جج تھا جن کے پاس نازش کا کیس تھا اب کے وہ بولا میرا نام  اکرم وڑائچ  ہے اور میں آپ کی بھابھی ثوبیہ کا چچا زاد بھائی ہوں ،


میں اب ان سے ملا  پھر میں ساری فیملی سے ملا سب ہی اچھے لوگ تھے اب ہم باہر  لانمیں آ گ
ۓ اور سب ہی وہاں پے بیٹھ کر  باتیں کرنے لگے  اتنے میں مھجے   بھابھی شفق لینے آئی اور کہا بات سنو  میں ان کے ساتھ اندر چلا گیا  وہ مجھے لئے ایک روم میں آ گیں وہاں پے پہلے سے ہی تین لڑکیاں بیٹھی تھیں  ان کے ساتھ ہی ثوبیہ بھابھی بھی تھی  وہ مجھے دیکھ کر بولی شارق  ان سے ملو یہ عشرت  میری کزن  ہے  راولپنڈی  سے آئی  ہے یہ بھی ایک وکیل ہے، اور یہ ساتھ میں جو بیٹھی ہیں یہ ہے ہما ہے  اور یہ تیسری  میری  کزن ہیں بھائی اکرم کی بہن  ان کا نام  صائمہ ہے ، میں نے سب کو  سلام کیا اب میں ووہی بیٹھ گیا اور عشرت نے مجھے کہا شارق صاحب آپ کا تو بڑا نام سن ہے  میں  دو دِن سے آپ کی تعریف سن رہی ہوں اکرم بھائی  کے منہ سے اب کے ہما نے کہا سنا ہے آپ مجرموں کو کچا ہی کھا جاتے ھیں  میں نے ہنس کے کہا یہ کن سے سن لیا آپ نے  وہ بولی جب آپ کے بارے میں مجھے بتایا بھی اکرم نے میں تو سمجھی آپ کی بڑی بڑی  مونچھیں ہوں گیں  آپ کے کندھے پے ایک رائفل  ہو گئی اور آپ میں نے کہا بس  بس یہی رک جاؤ  ، مجھے نھٹ کھٹ سی شریر سی لگی میں نے کہا اچھا آپ ہی یہ بتا دیں آج کل  کس کے سر پے سایہ کیا ہے    ( ہما  ایک پرندے  کا نام ہے کہتے ہیں وہ جس کے سر پے اپنا سایہ کر دے اس کی قسمت کھل جاتی ہے ) آپ نے وہ میری بات کو سمجھ گئی  اور کہا لو جی آپ ہی کے سر پے تو بیٹھی ہوں آج کل تبھی تو آپ ہر کیس جیت رہے ہیں اب سب ہی کھلکھلا کے ہنس دیں ،  بھابھی  شفق نے کہا لو جی  شارق صاحب اب مزہ آے گا آپ کا اور ہما کا مقابلہ ہے آج رات کو مہندی میں ،

میںنے کہا میں ان سے کس چیز کا مقابلہ  کروں گا تو بھابھی ثوبی نے کہا  میں نے اپنی شادی کی مووی  دیکھی ہے آپ نے بڑے  ماہیے گائے   ہیں سب سے مل کر سفیان  کی مہندی پے میں ہنس دیا اور کہا  چلو دیکھیں گ
ۓ اب کے ہم نے کہا دیکھنا نہیں ہے  کرنا ہے  مقابلہ میرا میں نے سوچ لیا اب اس مست لڑکی کی چوت لوں گا پہلے   میں نے کہا بھابھی اب میں کچھ دیر آرام کرننا چاہتا ہوں  پھر مجھے ووہی پےلیٹ  جانے  کا کہا ثوبی بھابھی نے  وہاں ایک بیڈ تھا میں اس پے لیٹ  گیا وہ سب اب اٹھ کے باہر نکل گئیں  پھر کوئی دس منٹ بعد ہما آئی  وہ ایک سیف  سے کچھ کپڑے نکل  رہی تھی میںنے کہا  آپ کیا کرتی ھو وہ بولی کمال  میں نے  تو آپ کمال نہ کرو  شارق کر لو وہ جھینپ گئی ، میںنے کہا تم  مجھے بہت اچھی لگی ھو یہاں پے  ورنہ میں تو دو دِن بور ہی ہو جاتا  وہ بولی میں یہ کپڑے رکھ کے آتی ہوں پھر بات کرتے  ہیں پھر وہ پانچ منٹ بعد  آ گئی  اب کی بار وہ واش روم کی طرف سے آئی تھی  وہ بولی یہ ساتھ والا کمرہ  میرے پاس  ہے میں اور عشرت یہاں سوتی ہے  اور باتھ دونوں کمروں کا ایک ہی ہے اب  میں نےکہا تو یہ دروازہ لاک کر دو  اس نے ایسا ہی کیا، ابمیں  نے اسے کہا بیٹھو  وہ میرے پاس ہی بیٹھ گئی بیڈ پے  میں اب اس سےباتیں کرنے لگا  باتیں کرتے کرتے میں نے  اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں  لے لیا اور سہلانے لگا وہ کچھ نہ بولی ،

میں نے کہا ہما آپ کے ہاتھ کتنے  پیارے ہیں  پھر میں نے کہا ہما  میری دوست بنو گئی وہ بولی ہاں  اور میں نے  اب اسے اپنی طرف کھینچا  وہ پکے ہوے پھل کی طرح  میری طرف آ گئی  میں نے اب اس کی آنکھوں دیکھا جہاں اب لال لال ڈورے آنے لگے تھے  میں نے اس کے ہونٹو کے پاس اپنے ہونٹ کے اور کہا  میں آپ کی ایک کس کر لوں وہ بولی نہیں شارق کوئی آ جانے گا یہ اشارہ تھا  کے کر لو  میں نے اسے اب چومنے لگا ہونٹوں سے  کوئی پانچ منٹ بعد  میں  نے  اپنا  ہاتھ اس کے ممموں پے رکھا اور ہلکے سے دبا دیا  وہ سسسسسسسس  کر اٹھی  اب وہ بولی شارق مجھے چھوڑ دو میں  نے اب جانا  ہے لیکن اس کی آنکھیں اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہیں تھیں آنکھیں کہ رہی تھی آج مجھے چود ڈالو میں نے اب کہا  ہما میری جان مت جاؤ اور اسے اپنے نیچے  کر کے اس کے اپر آ گیا اب میںنے اس کی قمیض  کو تھوڑا اوپر کیا اور اسے فولڈ  کر کے اس کی گردن تک لیے گیا اس نے  کالے رنگ کا برازیر پہنا تھا میں نے وہ بھی اپر کیا اب اس کے چوتیس  سائز  کے مممے میرے سامنے تھے میںنے ایک طرف کی نپل کو اپنے منہ میں لی اور چوسنے لگا وہ اب مستی میں آ رہی تھی اس  نے زور سے اپنے ہونے بھنچ لئے کے آواز باہر نہ جائے  میں  نے اب اس کلی شلوار بھی اتار دی  اور ساتھ میں پینٹی بھی اب وہ میرے سامنے تھی میں نے پہلے اس کی چوت کو کچھ دیر چاٹا جس سے وہ اور بچیں ہو گئی اب میں نے اپنا لن نکالا اور اس کی  چوت کے سوراخ پے رکھا ،


میں نے اس کے اوپر لیٹ کے اسے پوچھا کیا تم کنواری ھو وہ بولی نہیں تو میںنے اب اس ک ہونٹوں کو اپنے قابو میں کیا  اور ایک ہلکا سا ڈھاکہ لگایا میرا لن آدھا اندر گیا  وہ تڑپ گئی میں اس کے ہونٹ چوسنے لگا اور اپنے ہاتھوں سے  اس کے مممے مسلنے لگا پھر کچھ دیر میں تھوڑا تھوڑا کر کے سارا اندر کیا اب  میں نے باہر نکل کے پھر اندر کیا اور اب اندر باہر کرنے لگا  اب اس نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ  لیں اور  میں نے اب اسے  چومنے لگا کوئی بیس منٹ تک میں اسے چودتا رہا  پھر اسے میں نے ڈوگی سٹائل میں کیا اور پیچھے سے کھودنے لگا وہ اب ہلکی آواز میں اہ آیی اف ف ف ف ف  کر رہی تھی میں اسے اب زوروں سے چود رہاتھا  اب  وہ بولی شارق مجھے آگنے سے ڈالو ایسے درد زیادہ ہوتا ہے اب میںنے اسے دوبارہ سے سیدھا کیا اور اپنا لن اس کی چوت میں دل دیا اب ہما  نے کہا  اوئی شارق  کتنا بڑا ہے تمہارا  آہ  اف ف ف ف ف ف ہا یے میں مر گئی  شارق ہاییے سسسسسسسسس اف ف ف ف  ف  شارق  جانو مزہ  آ رہا ہے  بہت زیادہ   ہاییے سسسسسسسسس اف ف ف ف  ف ایسے ہی

مجھے چودو میں  نے پھر اور  زور سے اسے چودہ  اب وہ تڑپ رہی تھی اور میری زبان اپنے منہ میں لے کر  کر چوس رہی تھی  پھر وہ ایک ہلکی سی سسسسسسسسسسسسسسسسسسس  کے ساتھ ا فارغ ہو گئی ابمیں بھی قریب ہی تھا پھر میں نے بھی اس کی چوت میں ہی اپنا پانی چھوڑ دیا  اب  وہ مجھے اپنے ساتھ لپٹا کے بولی شارق بہت مزہ دیا  آج آپ نے  جانی  اور مجھے ایک کس کر کہا کہا اب میں جا رہی ہوں وہ اباپنے کپڑے اٹھا کے واش روممیں چلی گی میںنے بھی اٹھ کے اپنا آپ صاف کیا اور کپڑے پہن کے سو گیا

اب مجھے بھابھی شفق نے آ کراٹھایا  اور کہا اٹھ جو یار اب  میں نے اٹھ کے شاور لیا میں جب نہ رہا تھا تو مجھے نہیں پتا تھا ساتھ والی روم کا دروازہ لاک  نہیں ہے  بھابھی شفق نے مجھے باہر سے آواز دی شارق آپ کا سوٹ میں نے پریس کر دیا ہے  اور وہ اب چلی گئی  اچانک  ساتھ والی روم سے واش روم کا دروازہ کھلا اور صائمہ اندر داخل ہوئی مجھے دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئی اور جلدی سا باہر کو  بھاگ گئی  میں نے اب وہ دروازہ لاک کیا  اور نہا کے باہر نکلا میںنے اب کپڑے پہنے اور باہر آ گیا  اب مجھے سفیان بھی نے دیکھا اور کہا آ جاؤ یار  اور میں ان کے ساتھ  ایک میرج حال میں چلا  گیا باقی کے لوگ بھی آ رہے تھے ، اب مجھے بھابھی شفق نے کہا  شارق کچھ سامان رہ گیا ہے  گھر میں آؤ وہ لے آییں ذرا  اور مجھے کہا تم ثوبی کے ساتھ جاؤ  اب ثوبی اور میں  واپس گھر میں  جانے لگی وہ بولی شارق  تم نے آج ایک بچی کو ڈرا  ہی دیا ہے میں  چونک  گیا اور کہا کس کو وہ مسکرا کے بولی صائمہ کو وہ بیچاری  بہت گھبرا  گئی تھی  تم کو دیکھ کر  اس نے مجھے بتایا  کے شارق کا بہت بڑا  ہے وہ میں نے اب بےتکلفی سے کہا کیوں آپ کے شوہر کا بڑا نہیں ہے وہ بولی ہے ان کا بھی  لیکن اب صائمہ  کو تمہارا  چاہیے اس لئے میں نے بہانہ بنا لیا ہے سامان کا وہ گھر میں ہی ہے  اسے جلدی سے وہ دے کے باہر گاڑی میں آ جاؤ  میں نے اب گاڑی روکی اور ان کا بازو پکڑا اور کہا  آپ میرے ساتھ ہی آؤ اور ان کو لئے ہوے  اندر چلا گیا گھر میں اب کم ہی لوگ تھے   وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیں  جو ان کا ہی لگتا تھا اور کہا میں ذرا  صائمہ کو لے کے آتی ہوں میں  نے ان کا ہاتھ پکڑ  لیا اور کہا  پر میں وہ  آپ کو دینا چاہتا ہوں وہ ایک دم سے شرما گئی اور کہا بدتمیز


میں نے کہا پلیز ثوبی  میں کب سے آپ کو  پانا چاہتا ہوں وہ واقعی میں بہت خوبصورت  تھی اونچا لمبا قد بھرے بھرے مممے  پتلی کمر اور نیچے بھری کولھے  وہ کوئی تنتیس سال کی تھیں وہ بولی نہیں  شارق یہ غلط  ہے  تم کو صائمہ ہے نہ  اسے چود لو میں نے اب ان کو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور  پیچھے سے دروازہ بندکر کے لاک  لگا دیا وہ میری بانہوں میں کمکسا  رہی تھیں  شارق نو  من جاؤ ڈیر یہ سہی نہیں ہے میں نے ان کی ایک نہ سنی اور اپنے ہونٹ ان کے ہونٹوں پے رکھ دے  ان کے ہونے چوسنے لگا  اور  ایک ہاتھ سے ان کی چھاتی کو مسلنے لگا  وہ سسسسسسسسسسسسسسس کے ساتھ بولی شارق مت کرو ایسا  اور جب وہ سمجھ گئی اب میں نہیں روکوں گا وہ بولی اچھا میری بات سنو میں وعدہ کرتی ہوں آپ کو رات کو ملوں گئی ابھی نہیں پلیز  اور پھر میںنے اپنے سارے  کپڑے اتار دِیے  وہ میرا لن دیکھ کے بولی اف فف  اتنا بڑا شارق  میںنے   نہیں دیکھا تم تو بڑا کمال کا لن رکھتنے ھو اور آگے آئ اور میرے لن کو اپنے من میں لے کر چوسنے لگی اور پھر کہا لو میں نے شروعات کر دی ہے  باقی  رات کو کروں گئی میں اب صائمہ کو بجھتی ہوں اور باہر نکل گئی ،

پھر صائمہ نے دروزے پے دستک دی اور اندر آ گئی  اس نے دروازہ بند کیا اور مجھے دیکھنے لگی میںنے  اب اسے اپنی طرف کھینچا  اور اس نے جلدی سے اپنے کپڑے اتار کے کہا شارق ابھی بس اندر ڈالو باقی سب بعد میں ٹائم کم ہے  میں نے بھی موقع کی نزاکت کو سمجھتے  ہوے اس کی چوت  میں لن ڈالا اور زور سے دھکے لگانے لگا  اس نے اپنا دوپٹہ لیا اور اس کا ایک پلو گولہ بنا کے اپنے منہ میں لے لیا اب میں اسے بیدردی سے چودننے لگا کوئی پندرہ میں  وہ دو دفع فارغ ہوئی اور میں اسے  ویسے ہی چودتا رہا  اب اس نے کہا بس کرو میں بھی اب قریب ہی تھا میںنے کچھ نہ سن اور دھکے پے دھکا  دینے لگا پھر میںنے اس کی چوت میں اپنا پانی چوڑا اس نے بعد میں میرا لن چاٹ کے صاف کیا  اور اب میںنے  نہا کے دوبارہ  کپڑے پہنے اور باہر آیا تو وہ دونون ہی ایک بیگ لئے میری گری میں بیٹھی تھیں  میں نے جلدی سے گاڑی سٹارٹ کی اور میرج حل میں جا پوھنچا  وہاں پے جا کے   میں  ایک طرف اکرم  صاحب کے  پاس ہی بیٹھ گیا   اب کچھی دیر میں مہندی کا پروگرام  شروع  ہو گیا اور اب لڑکیاں اور لڑکے آمنے سامنے تھے  اب لڑکی والے بھی آ گے تھے ،

اب شفق بھابھی نے مجھے کہا آ جاؤ شارق میں نے کہا نہیں بھابھی میرا کیا کام  اب وہ اور  بھابھی ثوبیہ   نے مجھے آ کر ایک ایک بازو سے پکڑ  لیا اور کہا آ جاؤ  آج مقابلہ ہو گا اب تو لڑکی  والی بھی شامل ہو گے تھے  ایک طرف سب لڑکیاں تھی اور ایک طرف سب لڑکے  میں نے اپنے ساتھ اکرم  وڑائچ صاحب کو بھی کھینچ  لیا وہ بولے یار مجھے بس پنجابی  ہی آتی ہے  اب لڑکی  والوں میں ان کی بیگم بولی تو آ جایئں ذرا آج کالج کی یاد تازہ کی جائے  اب تو اکرم صاحب  نے کہو چلو بیگم اب شروع  ہو جاؤ آج میں پھر آپ کے گروپ کو ہر دوں گا ،


پھر مجھے کہنے لگی یار میں کالج کی لائف  میں بھی ان صاحبہ کو اکثر ہرا دیا کرتا تھا  اب تو ان کی بیگم نے کہا آج ہم ہی جیتیں گیں اور ایک پنجابی  کا ماہیا ہماری طرف پھینک دیا  ، کیوں کے وہ جج تھے
سونے دی اِٹ ماہیا
 رب تینوں قلم دتی
 ایڈے ظلم نہ لخ ماہیا
یہ سن کے سب ہی ہنس پڑے  میں نے کہا یہ تو کام ہی خراب ہو رہا ہے وہ بولے ابھی دیکھنا  سب ٹھیک کر دوں گا اور بولے
کوٹھے تے کھلو ہ ماہیا
 چَن پَویں چڑھے نہ چڑھے وے مینوں تیری لَو ماہئیا
اب یہ سن کے تو  ان کی بیگم شرما گی اور کہا  کیا کرتے ہیں آپ بھی پھر اب عشرت نے کہا جو بھی کسی کو آتا ہے پہلا دور پنجابی  کا ہی چلے گا  اب سب ہی کچھ نہ کچھ سننے کے موڈ میں  آ گے  اب تو بڑھے بھوڑے بھی آ گے تھے ، پھر میں نے کہا  میں ہی شروع کرتا ہوں اب یہ سن کے ثوبیہ نے کہا کچھ اچھا سا سنانا  میں نے اب اس کو  پیار بھری نظر سے دیکھا اور کہا

تہاڈے نال وٹا کے دل آپنڑا سکھ چین حرام چا کیتا
 تیرے پیار وچ بھل اوقات گئو سےاساں خود نوں عام چا کیتا
 اس عشق دی جھوٹی منڈی وچ دل اپنڑا نیلام چا کیتا
 توں کل آکھنڑاں اے لوکاں نوں فری سن بدنام چا کیتا

یہ سنتے ہی سب نے کہا واہ کیا کمال  کی شروعات  کی ہے شارق نے  پر سر سمجھی  بھابھی ثوبیہ ہی کے میں نے ان کو ہی کہا  سب  پھر  عشرت نے جواب میں کہا
تن ورتی دسن دے قابل نہیں گل گل تے ورق بھری ویسن
 جے میں ساریاں سچیاں کھول کے دسیاں ایتھوں لگدے سجن اٹھی ویسن

 کجھ نقصان نہیں ہونا غیراں دا بے جرم غریب نپی ویسن
 جہیڑے غیراں جرم منیر پئے کیتے سارے میرے نام لکھی
میں نے کہا یہ تو سرائیکی  ہے اور واقعی یہ بڑی میٹھی زبان ہے اب بھابھی شفق نے ایک ماہیا  سنایا
موتیے دا پھل ہیریے
نی اسی پردیسی آں*
ساڈے مگر نہ رُل ہیریے
اب سب ہی زور سے ہنسنے لگے اب  ثوبیہ نے  کہا بھابھی کیا بات ہے  اب بھابھی شفق نے کہا تم بھی کچھ سناؤ ثوبی تو ثوبیہ نے کہا ٹھیک ہے اب وہ مجھے دیکھ  کے پھر اپنا منہ  اپنے خاوند کی طرف کیا اور بولی
 چھتری دی چھاں کرجا
 تیری آں میں تیری چنّاں، تُوں وِی ہولی جیہا ہاں کر جا۔
جب آخری لفظ بولا تو پھر میری طرف دیکھنے لگی مجھے اب مزہ آ رہا تھا  ایسے ہی آنکھ مچولی کا

اب کی بار اکرم کی بیگم نے دوبارہ کہا
سُفنے- دے -وچ- ملیا- ماہی- تے -میں- گل- وچ- پا لیّاں- باواں
 ڈر -دی -ماری -اکھ- نہ -کھولاں -کتے -فیر- وچھڑ- نہ -جاواں
اب تو اکرم نے کہا یار تم ایک تو ڈرتی بہت ھو اب خواب میں بھی ڈرنے لگی ھو  اور وہ جھینپ گئیں  اب میں نے  پھر سے کہا

ان واقف عشق دے درداں توں، بدنام طبیباں کیہ دیناں؟
 جیہنوں اپنے سکھ نئیں دے سکدے، اونہوں درد رقیباں کی دیناں؟

 نا سمجھ سجن، کجھ سمجھ تاں سہی، میں کیہڑی چیز لکائی بیٹھاں!
 کائنات دی قیمت دل ہوندائے، تینوں ہور غریباں کی دیناں؟
اب یہ سنتے  ہی مجھے ثوبی کی ایک بھابھی  نے کہا  شارق تم وکیل ہو یا عاشق ایسے ایسے ڈھونڈ کے پھینک رہے ھو اف توبہ اب سفیان بھائی نے کہا یار لگتا نہیں یہ ووہی خطرناک وکیل ہے اب کی بار عشرت نے کہا عاشقوں سے زیادہ کون خطر ناک ہو سکتا ہے اور سب مسکرا دیے پھر وہ بولی

دو پتر اناراں دے
 اپنے ای نئیں دکھ مُکدے
 دُکھ ونڈئیے کی یاراں دے
اب تو مجھے دیکھ کر اکرم اور ثوبی کے بھائی بولے اب جواب تم ہو دو میں نے کہا اچھا جی   تو عشرت نے کہا اناروں سے ہی شروع کرنا آپ وکیل صاحب
 
 دو پتر اناراں دے
 خط ہن نئیں آندے
 پردیسی یاراں دے
وہ حسن دی اور کہا آپ تو یہاں بھی جیت رہے ہے  اب ایک اور آخری بھی آپ سنا دیں پھر پنجابی  کا  دور مکمل  میں نے کہا یہ لو ایک کی جگہ دو لو اور کہا

دو پتر اناراں دے
 جدوں دا تُو رُس گیا
 دن آئے نا بہاراں دے

دو پتر ملوکاں دے
 اسی دووے پیار کریے تے
 دل سڑ دے نے لوکاں دے

دو پتر ملوکاں دے نی
 دو پتر ملوکاں دے
 دل میرا توڑ دیتا
 آکھے لگ کے لوکاں دے
اب سب نے ہی تالیاں بجا دیں اور کہا یار تم یہاں بھی جیت گے  اب کی بار ثوبی نے کہا آپ ہم کو آج ایک گانا بھی سناؤ گے اپنی آواز میں  اب کی بار اکرم بھائی  نے کہا  ہاں  جی ہم کو یہ سنائیں ضرور پتہ تو چلے ان کو اور کیا کیا آتا ہے  میں نے کہا جی ٹھیک ہے  ،

اب کی بار لڑکی والوں میں سے  دلہن کی بہن بولی اور کہا لو جی  اور کیا اب پوٹری نہیں  کرنی اور  ہم کو نہیں آتی پنجابی  ہم کیا کریں پھر کہا گیا اب پہلے پانچ  ،پانچ  شعر لڑکیاں اور لڑکے  کہیں گے اور جج  ہوں گے اکرم صاحب اور ثوبی کے بھائی فراز صاحب وہ  باتیں گے کون جیتا  پھر ایک ایک گانا ہو گا ایسے ہی لڑکیوں اور لڑکوں  میں ان کا بھی یہی جج فیصلہ کریں گے کون ہے آج کی شام کا ونر سب نے کہا منظور ہے اب لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے سے  کہ  رہے تھے جس کی آواز سب سے اچھی ہے وہ گاے  گا گانا ، اب پہل شاعری سے کی گی ووہی دلہن کی بہن  جیس کا نام  کائنات  تھا اس نے ایک شعر کہا

ان کی وفاؤں نے ہمیں اک تہذیب سکا دی ہے
 ہم روتے ہوے سو جاتے ہیں پر شکوہ نہیں کرتے

میں نے اب اس کے جواب میں کہا
اس شخص نے آنکھوں سے تبليغ ہی يوں کی
 کہ ہم بھی محبت پہ ايمان لے آئے
اب سب نے کہا لگتا ہے یہ مقابلہ بھی ان دونوں میں ہی ہو گا  پھر ایک اور لڑکی نے کہا
مجھ کو نہ دو مہلت لمحے بھر کی خود سے
تم میرا وقت میرا لمحہ ، میرا ہر دور ہو جاؤ
اب میری طرف سے ایک لڑکے نے کہا
میرا دل ہی جانتا ہے دونوں منظر میں نے دکھے ہیں
تیرے  آنے پے کیا گزری .تیرے جانے پے کیا گزری
 اب کی بار لڑکیوں میں سے صائمہ نے کہا
اس کے عشق نے بنا دیا سرکاری دفتر مجھ کو
نہ میں کام کرتی ہوں نہ کسی کی بات سنتی ہوں

اب سب ہی ہنس دیے میں نے کہا توبہ ہے  کیسا برا حال ہے  اور کہا اب میں نے
بےبس کر دیتا ہے قانون محبت ورنہ
میں تجھ کو اتنا چھاؤں کے انتہا کر دوں
اب کی بار لڑکیوں میں سے عشرت نے کہا
میرے محبوب ،میں ہر طرف
تجھے بس تجھے،تجھے   دیکھتی ہوں

 اب کی بار  اکرم بھائی نے کہا اتنا برا حال  لڑکیو  اور میں نے مسکرا کے کہا اب کی بار
آوروں سے بھی وابستگیاں ہیں تھوڑی سی مگر
تجھ سے جو سلسلے ہیں وہ انتہاء کے ہیں
 اب کی بار کائنات بولی
تجھ کو میں بھولوں بھی تو کسے
بھلا کوی سانسیں لینا بھی چھوڑتا ہے
اب میں نے ہی جواب دیا
وصل کے بعد بھی تنہائی میں تڑپنے  کا مزہ کچھ اور ہے
ہر وقت محبوب کی آنکھوں سے جام  پینے  والے کیا جانیں
اب پھر کائنات نے ہی جواب دیا اب اس کی اور میری آنکھیں چار تھیں
صاحب عقل  ھو......... ایک مشورہ مخلصانہ  چائیے
زندگی سے تنگ ہوں ......خود کشی کروں یا عشق !!!!
 اب تو اکرم بھائی اور باقی سب ہی بولے واہ بھی واہ کمال ہے کیا کہنے  اب میں نے بھی اس سے نظریں ملا کے ہی کہا

کتابیں عشق کی پڑھ کر نہ سمجھو خود کو عاشق تم
یہ دل  کا کام دل والوں کو کرنے دو تو اچھا ہے
اب تو لڑکیاں بھی واہ واہ کر اٹھیں  اور سب ہی نے کہا واہ یار تم ہر میدان  کے ماسٹر ھو  اب کائنات  نے غصے سے کہا

ذرا دیکھو!!!!! وہ دروازے پے دستک کس کی ہے
ہو اگر عشق  !!!!، تو کہنا یہاں کوئی دل نہیں رہتا
 اب مجھے دیکھ کر بولی جی وکیل صاحب  میں نے بھی ہنس کے کہا  اب ہمارا جواب بھی لیں  محترمہ اور کہا
بند کرو یہ شعر و  شعری  یہ چبھتے الفاظ !!!!!!!!!!!!
صاف کیوں نہیں کہتے تم کو عشق  ھوا ہے ، عشق ھوا ہے
 اور میرا یہ جواب سن کے تو سب نے ایک زور دار قہقہ لگا دیا اب کی بار کائنات بھی ہنسی اور کہا بڑے تیز ہے آپ قسم سے اب ایک  کی بار ثوبی کے جس بھائی کی آج مہندی تھی وہ اور اس کی دلہن  بولی دونوں ہی  اب آپ ایک گانا بھی سنا دیں اور ایک آخری شعر مجھے بتاؤ بھائی میں اپنی بیگم کی تعریف کیسے کروں  میں نے ہنس کے کہا یہ آپ کی طرف سے ہے آپ کی ہونے والی بیگم کے لئے
تیری خوبصورتی کو میرے الفاظ چھو نہیں سکتے
ہجوم ،، حسن ،، میں تم ،،نواب،،، لگتی ھو
اف ف ف ف وہ بولا بھائی جان قسم سے کیا کہنے اب تو  مجھے سب نے ہی کہا  آپ لاجواب ھو  اب  دلہن شرما گی اور اپنی پلکیں  نیچی کے بیٹھی رہی  اب کی بار اس کی بہن نے کہا اس موقع پے بھی کچھ کہ دیں جناب ونر صاحب میں نے کہا یہ لو جی اور کہا اس کے پلکیں نیچی کرنے پے
پلکیں،، کب  تک رکوع میں رکھو گی
تم کو ترے حسن کا واسطہ قیام کرو اب  
اب کی بار تو وہ شور ھوا کے کیا کہنے  وہ بیچاری اب شرم سے دوہری ہوئی جا رہی تھی  اب وہ بولی بھائی پلیز مجھے  تو معاف کر دیں کم از  کم میں نے کہا بھابھی آپ کی بہن نے ہی کہا تھا  اب سب نے کہا اب گنے کا موڈ ہے سب کا اب کائنات  جو میرے پاس ہی کھڑی  تھی وہ بولی دھیرے  سے اتنا  کے بس میں ہی سن سکا
راز کسی کو نہ کہو تو ایک بات کہوں
ہم رفتہ  رفتہ ترے ہوتے جا رہے ہیں
اور ایک طرف چلی  گی مجھے بھی وہ کافی پسند آئی   تھی موٹے موٹے ممموں والی

پھر سب نے  ہی کہا اب یار ایک ایک گانا دونوں طرف سے  میں اب ذرا واش روم کی طرف گیا  وہاں سے فارغ ہو کر باہر نکلا  تو کائنات بھی  ساتھ والے لیڈیز  واش روم سے نکل  رہی تھی وہ بولی آپ نے کوئی جواب نہیں دیا ہم کو ہماری  عرض کا  میں  نے کہا عام لفظوں میں کہوں یا شعر میں وہ بولی شعر میں  اب میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا
اب بھی پوچھتی ھو مقام اپنا
 کہہ جو دیا زندگی  ھو تم
وہ اب خوش ہو گی اور کہا تھینکس   اور چلی گئی  اب سب نے کہا  گانا  میں نے کہا اب گانے چلائیں اور ڈانس  کا پروگرام کرنے دیں لڑکیوں کو  اب سب نے کہا چلو ایسا ہی سہی  آپ آج کی شام کے ونر ھو آپ کی بات من لیتے ہیں آپ سے پھر کبھی گانا سن لیں گے  میں نے کہا جی بلکل  اور اب ہم سب  لڑکیوں کا شغل میلہ دیکھنے لگے کافی ساری لڑکیوں نے ڈانس کیا  میں اب تھوڑا سا سائیڈ پے ہو کے دیکھنے لگا اب اتفاق سے وہاں پے ثوبیہ بھابھی کھڑی تھی شفق بھابھی کے ساتھ میں ان کے پاس ہی کھڑا  ہو گیا  وہاں پے کافی رش تھا اب سب ہی کھڑے ہو کر وہاں پے دیکھ رہے تھے خواتین اور مرد حضرات  

اکھٹے ہی کھڑے تھے  میں نے اب اپنا ایک ہاتھ ثوبی بھابھی کی گانڈ پے رکھا وہ کچھ نہ بولی میںنے اب ہلکے ہلکے اس کی گانڈ کا مساج کیا  اور اب اس نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کیا اور میرے لن کو پکڑ لیا وہ اب میرے لن کو مسل رہی تھی اور میں اس کی گانڈ کو  ہم پانچ منٹ تک ایسے ہی لگے رہے اب اس کو ان کے خاوند نے آواز دی  اور وہ چلی گئی ان کے پاس  میں اب شفق بھابھی  کے  ساتھ کھڑا ہو گیا وہ بولی شارق آج تو تم نے کمال کر دیا اب لالارخ نے  کہا جو ان کے ساتھ ہی کھڑی  تھی  بھائی یہ آج پتا چلا آپ کو تو شعر و شاعری کا بھی شوق  ہے کمال ہیں آپ بھی چھپے رستم ، میں نے مسکرا کے کہا تم نے کیوں نہیں حصہ لیا لڑکیوں کی طرف سے تو کو تو کافی شاعری  آتی ہے وہ بولی اگر میں حصہ لیتی تو آپ ہار جاتے اس لئے میں نے سوچا چلو اپنے بھائی کو جیت جانے دو میں اور بھابھی شفق ہنس دیئے

پھر کافی دیر تک یہ پروگرام چلتا رہا بعد میں ہم لیٹ نائٹ گھر  آگ
ۓ میں نے کہا مجھے نیند آئی کس کمرے میں سونا ہے میں نے تو یہ سنتے ہی ثوبیہ بھابھی کی امی جان نے کہا  ثوبیہ سے چلو پہلے شارق بیٹے کو اپنے ساتھ والا روم خالی کر دو  میں ان کے ساتھ چلا گیا  وہ بولی یہ آپ کا روم ہے  اور ساتھ والا میرا ہے  اور کہنے لگی شارق آپ سو جاؤ میں رات کو آؤں گی ضرور چاہے ایک گھنٹے کے لئے ہی کیوں نہ آؤں  اور مجھے چھوڑ کے چلی گئی میں نے اب سونے والا سوٹ پہنا اور سو گیا ،  مجھے کوئی دو گھنٹے ہی ہوے ہوں گے  سویے  کے مجھے ثوبی نے آ کر جگا دیا وہ بولی ،


ثوبیہ نے مجھے بتایا سفیان  سو گیا ہے اس کے سر میں درد تھا اس لئے وہ نیند کی گولی بھی کھا کے سویا ہے  اور میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور کہا شارق  صرف ایک گھنٹہ  ہے جو کرنا ہے اسی میں کر لو میں نے ان کو اپنی بانہوں میں بھر لیا

میں نے ثوبیہ   کو پکڑ کر اس کے ہونٹوں کی کس کرلی وہ  بھی  میرا ساتھ دینے لگی اب اس کا نیچے والا ہونٹ میرے منہ اور میرا اوپر والا ہونٹ اس کے منہ میں تھا میں نے اپنے ہاتھ اس کی چھاتی پر رکھ دیئے اور اس کے مموں کو آہستہ آہستہ سے دبانا شروع کردیا   میں نے اس کے کانوں پر بھی کس کیا جب میں نے اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھے تو وہ مچل سی گئی اب وہ مسلسل میرا ساتھ دے رہی تھی میں نے اب  ثوبیہ     کی قمیص اتاری تو میں ثوبی  کے بدن کو دیکھتا ہی رہ گیا جیسے سنگ مرمر کا بنا ہوا ہومیں  نے اس کا بریزیئر اتارا تو میرے جیسے ہواس ہی گم ہوگئے اڑھتیس سائز کے ممے بالکل ٹائٹ کھڑے ہوئے تھے میں نے فوری طورپر آگے بڑھ کر اس کے ایک نپل کو منہ میں لے لیا  ثوبی  مزے کی کسی اور دنیا میں پہنچ چکی تھی

 اور سسکاریاں لے رہی تھی میں نے اس کو بیڈ کے اوپر لٹا کر اس کے جسم کو کس کرنا شروع کردیا ثوبی  جیسے ماہی بن آب کی طرح تڑپ رہی تھی میں نے اس کی شلوار بھی اتار دی اور اس کے مموں کے بعد اس کے پیٹ اور اس کے بعد اس کی رانوں پر کسنگ شروع کردی اس کا جسم کیا تھا جیسے ریشم کا بنا ہوا ہو ثوبی  مسلسل سسکاریاں لے رہی تھی  پھر میں نے  اسے کہا میرے کمپڑے تم اپنے ہاتھ سے اتارو  گی  تو اس نے شرماتے ھوے  میرے کپڑے اتار دیئے میرا نو  انچ کا لن دیکھ کر ثوبی  کو جیسے سکتا ہوگیا وہ دو منٹ تک میرا لن ہی دیکھتی رہی اس نے اپنی نظر اس وقت میرے لن سے ہٹائے جب میں  نے اس سے کہا کہ اس کو نظر نہ لگا دینا اب ہم ایک دوسرے کو کسنگ کررہے تھے  وہ فل گرم ہوچکی تھی

 اب میں نے اس  کی چوت پر منہ رکھ کر اس کو زبان سے چودنا شروع کردیا اس اقدام پر ثوبی  بری طرح مچلنے لگی تھوڑی دیر بعد اس  کی چوت نے پانی چھوڑ دیا تو  اب وہ میرے لن کی طرف ہوئی اور میرا لن منہ میں لے کر اس کو لالی پاپ کی طرح چوسنا شروع کردیا میرانو  انچ کا لن اس کے منہ میں پورانہیں آرہا تھا میں مسلسل ثوبی  کے جسم کو کسنگ کررہا تھا تھوڑی دیر کے بعد وو  دوبارہ گرم ہوگئی اور میرا لن بھی پوری طرح اس کی چوت پھاڑنے کے لئے تیار تھا میں ثوبی  کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں آگیا اور اپنا لن اس کی چوت پر رگڑنا شروع کردیا اب وو  مزے کی انتہا کو پہنچ رہی تھی اور منہ سے مسلسل آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م کی آوازیں نکا رہی تھی میں نے  ثوبی  کی ٹانگیں پکڑیں اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے میں نے جھٹکا لگا کر اپنا لن اس کے اندر کیا ابھی آدھا لن ہی اندرگیا تھا اور وہ   چیخنے لگی مگر اس کی چیخیں  میرے  منہ میں ہی رہ گئیں میں تھوڑی دیر کے رکا اور پھر ایک اور زور دار جھٹکا دیا اور میرا نو  انچ کا لوڑا جڑ تک اس کے اندر چلا گیا

ثوبی  کی چیخیں تو میرے  منہ میں تھیں مگر اس کو جتنی درد ہورہی تھی اس کا اندازہ اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو
ں سے لگایا جا سکتا تھا وہ درد سے مسلسل کراہ اور تڑپ رہی تھی میں نے اب دس منٹ تک کوئی حرکت نہ کی تو وہ نارمل ہوگئی میں  نے جیسے ہی اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے کہنے لگی اسے باہر نکالومیں  نے اس سے کہا کہ جتنی درد ہونی تھی ہوچکی اب تو مزہ لینے کا وقت ہے مگر وہ مسلسل مجھے لن باہر نکالنے کے لئے کہہ رہی تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نیچے سے بھی حرکت کررہی تھی کہ شائد کسی طرح اس کی جان چھوٹ جائے مگر اب اس کی کہاں چلتی تھی وہ بے بس ہوچکی تھی تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنے لن کو حرکت دینا شروع کی تو اس کو درد کے ساتھ ساتھ مزہ بھی آنے لگا وہ اب نیچے سے نکلنے کی بجائے مزہ لے رہی تھی پانچ منٹ کی چدائی کے بعد اس کی پھدی نے پانی چوڑنا شروع کردی مگر میں ابھی تک فارغ ہونے کے قریب بھی نہ تھا میں نے اس کے فارغ ہونے کے بعد اس کی چوت سے اپنا لن نکال لیا میرا لن ابھی تک کھڑا ہوا تھااس  نے دیکھا تو فوری طورپر اس کو آگے بڑھ کر منہ میں لے لیا تھوڑی دیر کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گئی اور مجھےدوبارہ  چدائی کرنے کے لئے کہا میں نے اس کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور زور زور سے جھٹکے لگانے شروع کردیئے  ثوبی  کے منہ  سے اب سسکاریاں نکل رہی تھیں
آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہ


بیس منٹ  کا فاصلہ طے کرکے ہم دونوں اکٹھے فارغ ہوگئے
 میں نے اب ثوبی  کے  ساتھ پیچھے کے سوراخ سے کرنے کا فیصلہ کیا جب اس کو آگاہ کیا تو اس نے انکار کردیا مگر میرے اصرار پر مان گئی میں نے اس کو گھوڑی بنایا اور اس کی گانڈ پر تھوک لگا کر اس میں انگلی ڈال کر ذرا سوراخ کو رواں کیا اور اپنا لن اس پر رکھ کر تھوڑا سا زور لگایاتو ثوبی ہلکی آواز میں   چیخنا شروع ہوگئیں میں نے اس کو کہا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا تھوڑی سی دیر میں مزے آنے لگیں گے اور زور زور سے دو تین جھٹکے مار کر اپنا لن اس کی گانڈ کی وادیوں میں گم کردیا مجھے حیرت ہوئی کہ ثوبی   کو کچھ بھی نہیں ہوا بعد میں معلوم ہوا کہ ارم نے اپنے  منہ کے اندر کپڑا دے کر اس کو زور سے پکڑ رکھا تھا ارم کی گانڈ اتنی تنگ تھی کہ میرے لن کو بھی اندر جاتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی بہرحال دس منٹ کے بعد میں اس کی گانڈ کے اندر ہی چھوٹ گیا میرا لنڈ باہر نکلتے ہی وہ   نڈھال ہوکر بیڈ پر گر گئی میں نے کہا ثوبی کیا ہے یار تم ایک شادی شدہ عورت  ھو وہ بولی  اتنی تیز چدائی آج تک سفیان نے بھی نہیں کی  تم نے تو میرا جسم ہی ہلا ڈالا ہے اندر سے بھی شارق پلیز کبھی کسی کو اس بات کا پتہ نہ چلے میں نے کہا نہیں چلے گا جانو وہ بولی کل نہیں تو ولیمے والی دیں میں کوشش کروں گئی کائنات تم سے الگ کمرے  میں مل سکے میں نے آج تم دونوں کے اشارے  سمجھ لئے تھے میں نے اسے چوما لیا اب وہ کپڑے پہن  کے باہر چلی گئی اور میں بھی اپنا آپ صاف کر کے لیٹ گیا .

اگلے دن جب  میں اٹھا تب تک میرے گھر والے سب ہی آ چکے تھے، سب بھر تیار تھے  میں نے بھی جلدی سے نہا کے باہر کی طرف گیا  
جا کے اپنے والد اور والدہ صاحب کو سلام کیا سب بھابھیوں سے ملا  بھائی لوگ بھی ملے  پھر بھابھی شفق نے مجھے ناشتہ کرایا  اور کہا اب اپنے کپڑے بدل لو  آپ کے روم میں ہیں پریس  کے ہوے  میں اپنے روم میں دوبارہ گیا کپڑے پہنے اور باہر آ گیا پھر ہم سب برات کے ساتھ گے اور وہاں بھی اچھی خاصی  سیوا کی گئی ہم لوگوں کی  پھر ایک موقع دیکھ   کر مجھے ثوبی نے  کہا  آ جاؤ  اور میں ان کے ساتھ گیا وہ مجھے  ایک سائیڈ پے لے آئی  یہ کافی اچھا اور پیارا میرج ہال تھا جو لڑکی والوں نے  بک کروایا  تھا  اب ومیں بھابھی ثوبیہ کے ساتھ وہاں پے گیا  اس طرف پانی کے فوارے  لگے ہوتے تھے ہر طرف اور ایک اچھا سا لان بنا ہوا تھا  وہاں پے  ہم سے پہلے ہی کائنات اور اس کے ساتھ ایک اور لڑکی کھڑی تھی ، ہم کو دیکھ کر کائنات نے ایک لمبا سانس لیا اور کہا بھابھی  میں سوچ رہی تھی  آپ ہو سکتا ہے نہ آؤ،   

بھابھی ثوبیہ نے کہا  یہ میرا لاڈلا دیور ہے میں اسے کیسے نہ لاتی  اور کہا اب آپ لوگ یہاں بیٹھو  وہ اب واپس چلی گئی مجھے کائنات نے کہا شارق آپ کو برا تو نہیں لگا میرا یوں آپ کو بھلانا میں نے کہا نہیں  یار ایسی کوئی بات نہیں  اب اس ک ساتھ والی لڑکی ہنس کے بولی جب آگ دونوں طرف لگے تو ایسا ہی ہوتا ہے اب کے کائنات نے  کہا شارق یہ سعدیہ  ہے میری بیسٹ  فرینڈ  اور میری کلاس فیلو بھی  میں نے کہا جناب ہم ان کو بھی ادب عرض کرتے ہیں اور وہ دونو ہی مسکرا دیں اب سعدیہ نے کہا شارق صاحب ہم عنقریب  آپ کے پاس نازل ہو رہی ہیں کیوں کے ہم بھی قانون  پڑھ  رہی ہیں اور آپ کے ہی سٹی میں ایک کالج سے  صرف شادی کی وجہ سے آئی تھیں اور ایک نامور وکیل سے ملاقات ہو گئی ،  
میںنے کہا یہ اب کون کہتا ہے میں نامور وکیل ہوں تو سعدیہ نے کہا ھمارے سر کہتے ہیں نواز چٹھہ اڈووکیٹ   میں سمجھ گیا وہ کون سے کالج میں پڑھتی ہیں  میںنے کہا وہ میرے بھی سر رہے ہیں اور ایک بہت زہین وکیل بھی ہیں کائنات نے کہا جی ہاں  پھر بولی شارق مجھے آپ بارے اچھے لگے ہیں  میں نے کہا اور مجھے آپ دونوں ہی اچھی لگی ہیں وہ ہنس دی اور کہا ہم بچپن کی دوست ہیں ہم اکثر کہا کرتی تھی ایک ہی گھر میں شادی کروانی ہے دو بھائیوں سے  میں نے مسکرا کے کہا افسوس میرے گھر میں سب شادی شدہ ہیں سواے میرے اب کیا ہو سکتا ہے آپ دونو مجھ سے ہی شادی کر لینا پھر اب کی بار کائنات نے کہا شادی تو بعد کی بات ہے کیا آپ ہم دونوں کو اپنی دوست بنائیں گے ایک ہی وقت میں  اب کی بار میں نے کائنات کی طرف دیکھا اس نے کہا شارق میں اپنی ہر چیز اس سے شئیر کرتی ہوں  اب آپ کو بھی کروں گئی ، میں نےکہا مجھے کیا اعتراض   ہو سکتا ہے  مجھے تو دو پریاں مل رہی ہیں وہ بھی ایک ساتھ  تو دونو ہی شرما گیں اب میں نے کہا چلیں آپ کی شرم دور کرتے ہیں اب یہاں پے ہم باتیں کر سکتے  ھیں اب ہم تینوں  ہی ایک میز کے گرد لگی  کرسیوں  پے بیٹھ گ
ۓ ، اب کائنات نے کہا جی بولیں جناب اب میں نے کہا پہلا سوال سعدیہ سے  آپ کا قد کتنا ہے وہ بولی سارھے پانچ فٹ  اب میں نے کہا جی تو دوسرا سوال کائنات آپ سے آپ کا فل سائز کیا ہے اب تو دونوں ہی شرم کے مارے لال ہو گئیں ،

میں نے کہا یار اب مجھ سے بھی شرماؤ  گئی اگر کوئی کمرہ ہوتا تو میں خود ہی پکڑ کے دیکھ لیتا اب وہ اور شرما گئی اور کہا شارق یہ بعد میں میں نے کہا نہیں ابھی سوال ابھی جواب اب وہ بولی آنکھیں نیچی کر کے چھاتی سے چھتیس کمر سے ستائیس اور نیچے کولھے  چھتیس  میں نے کہا واؤو جانو آپ تو بڑا پیارا  فگر  رکھتی ھو وہ چپ رہی اب میںنے سعدیہ سے کہا آپ کے ممموں  کی نپلز کون سے رنگ کی ہیں وہ تو اب کائنات سے بھی زیادہ شرما رہی تھی میں نے کہا سعدیہ میری طرف دیکھو اس نے اپنی آنکھیں اٹھا کے مجھے دیکھا میںنے کہا ہم دوست ہیں نہ وہ بولی  جی  میں نے کہا کیا تم اور کائنات ایک دوسرے سے کچھ چھپاتی ھووہ بولی  نہیں  میںنے کہا تو مجھے پھر دل سے دوست نہیں سمجھا  آپ نے شاید وہ اب کی بار بولی شارق ایسی بات نہیں ہے یار چلو ٹھیک ہے سوری اگی سے ایسا نہی ہو گا میری نپلز  ہلکی براون رنگ کی ہیں اور میری چھاتی کا سائز اور باقی بھی بلکل کائنات جیسا ہی ہے یعنی 36 /27 /36 اور اب بولی  اور میںنے کہا اب کائنات کی باری ہے  اس سے کہا آپ نے نیچے پینتی پہنی ہے یا نہیں وہ بولی پہنی  ہے میں نے کہا کس رنگ کی وہ بولی کالے رنگ کی  میں اور سعدیہ نے آج کالے رنگ کی پینتی اور برازیئر پہن رکھے ہیں ،

اور میری نپلز براون رنگ کی ہیں میں نے کہا  چلو اب تم دونوں کوئی سوال مجھ سے  پوچھنا  چاہو تو کائنات نے کہا شارق  آپ کے یہ سوال سن کے میرا دل  تیزی سے دھڑکنے  لگا ہے  میں نے کہا اور سعدیہ وہ بولی  شارق مجھے تو کچھ اور ہو گیا ہے میری تو پینٹی  گیلی ہو گئی ہے  میں نے کہا ادھر دیکھو میرا لانا تم دونوں کے سیکسی بدن دیکھ کر کنٹرول سے باہر ہو رہا ہے  میں کیوں کے کافی چھپا سا بیٹھا تھا میری ایک سائیڈ پے سعدیہ  تھی اور ایک سائیڈ پے دیوار تھی میرے سامنے کائنات  تھی اور پیچھے بھی ایک چھوٹی سی دیوار تھی اس لئے مجھے ان دونوں کے سوا کوئی اور ایسی حالت میں  نہیں دیکھ سکتا تھا ، میں نے اپنی  پینٹ کی زپ کھولی  اور اپنا  انڈرویر سے اپنا لن باہر نکال لیا  سعدیہ میرے ساتھ بیٹھی تھی اس نے اسے ہاتھ میں لے لیا اور بولی ہا یے میں مر گئی  شارق اتنا لمبا اور موٹا اب کائنات بھی  اٹھ  کے دیکھنے آئی  اس نے بھی جب دیکھا  اور وہ دائیں بائیں دیکھنے لگی کسی کو نہ پا  کر وہ میری ٹانگوں کے پاس بیٹھ گئی  اور میرے لن کی ٹوپی پے ہاتھ پھیرا اور کہا شارق اف اف اتنا بڑا میں نے کہا سعدیہ یہ آپ کی طرف دیکھ رہا ہے اسے اپنے ان ہونٹوں سے ایک دفع چھو کر تو دیکھو وہ میری طرف دیکھنے لگی اور بولی شارق پھر کیا ہو گا  میںنے کہا پھر اسے آپ کی پہچان  ہو جاتے گی جب ہم دوبارہ ملیں گے یہ آپ کی پھدی کو بہت پیار دے گا ،وہ شرما گئی اور کہا  شارق یہ اتنا بڑا  کیسے جائے گا اس چھوٹے  سے  سوراخ میں  اب میں نے کہا یہ میرا کام ہے اب کی بار سعدیہ نے میرے لن کی ٹوپی کو  اپنے منہ میں لینے کی کوشش کی پر وہ بڑا تھا اس نے اپنی زبان نکالی اور لن کی ٹوپی  کی اپر پھیرنے لگی  اب کائنات نے بھی ایسا ہی کیا  پھر دونوں ہی اٹھ گئی اور کہا شارق  ہماری تو ٹانگیں ہی گیلی ہو گیں ہیں اسے دیکھ کر پھر کائنات نے کہا میں واش روم سے ہو کر آتی ہوں  وہ چلی گئی اب سعدیہ نے کہا شارق  کچھ کرو یار ہم آپ سے جلدی سے جلدی ملنا چاہتی ہیں ،     

میںنے کہا  سعدیہ اب مجھے یہ بتاؤ آج تک کبھی کسی کا لن لیا ہے تم نے  وہ بولی نہیں میں نے اور کائنات نے ایک سیکسی  انگلش  فلم دیکھی ہے بس اور کچھ نہیں کیا میں نے کہا یعنی کے تم دونوں کی سیل اب یہ ہی توڑے گا ، سسعدیہ نے کہا شارق میں تو مر جاؤں گئی اتنا بڑا لے کر  اس فلم میں بھی ایک لڑکی کو ایک لمبت لن والی نے چودا تھا اس کی تو چوت ہی فت گئی تھی بڑا خون نکلا تھا میںنے کہا پہلی دفع سب کا نکلتا ہے بعد میں پھر مزہ ہی مزہ اب کائنات آئی تو وہ چلی گئی واش روم  میںنے کہا کائنات  یار اب میرا نیچے نہیں بیٹھ رہا  کچھ سوچو وہ بولی اس طرف جو واش روم ہے اس میں کوئی نہیں جاتے  گا  آپ وہاں پے آ جو میں اسے ہاتھ سے ڈسچارج  کر دیتی ہوں میں نے کہا نہیں ہاتھ سے نہیں اپنے منہ میں لے کر وہ بولی جیسا تم کہو  جان یہاں جگا نہیں ہے ورنہ میں اپنی جان کا پیارا سا لن اپنی چوت میں ہی لے لیتی میں اب اس کے ساتھ واش روم کی طرف گیا  وہاں پے اب سعدیہ ہاتھ دھو رہی تھی میں نے کہا اسے اب فارغ کروچوس کر وہ اور کائنات نے اب میرا لن چوسنا شروع کر دیا باری باری  کوئی دس منٹ تک ایسے ہی چوسنے کے بعد میں سعدیہ کے منہ میں ہی چھوٹ گیا   وہ اب کھانسنے لگی اور کہا یہ کیا کیا ہے بدتمیز  اور جلدی سے جا کر منہ دھونے لگی اور کلیاں کرنے لگی ،   

پھر میرے پاس آئی اور مجھے کہا بڑے  گندے ہیںآپ شارق میں نے کہا سچی وہ شرما کے بولی مچی اور ہم تینوں ہنس دے اب ہم باہر اے اور پہلے والی جگہ جا کے بٹہے ہی تھے کے بھابی ثوبیہ آگہی اور کہا کوئی حال نہیں تم تینوں کا ایک گھنٹے سے یہاں ہی ھو جلدی او اب تو نکاح بھی ہو گیا ہے  یہ سن کے سعدیہ بولی آہستہ سے یہاں بھی ہو  گیا ہے جی بس میں اور کائنات نے ہی سنا

اب ہم واپس ہال میں آ گ
ۓ  پھر ہم سب نے کھانا کھایا اور کچھ دیر بعد ہی رخصتی  ہونے لگی  اب وہاں پے رونے کا سین چل رہا تھا  میں اپنی گاڑی کی طرف آ گیا   جہاں پے مجھے ڈھونڈتی ہوئی سعدیہ آئی اور کہا شارق میں اور کائنات آپ کے ساتھ ہی چل رہی ہیں  میں حیران ہوا وہ کیسے وہ بولی میں نے کائنات کو سمجھا دیا تھا وہ اپنی بہن کے گلے لگ کے اتنا روئی کے اب سب اسے چپ کرنے  لگے وہ کہنے لگی میں ساتھ جاؤں گئی تو ثوبیہ کی امی نے کہا  ٹھیک ہے آپ کا اپنا گھر ہے کل سب نے آنا ہی ہے  آپ ابھی سے چلو ساتھ میرے تو میں نے کہا میں بھی جاؤں گئی تو ثوبیہ نے کہا ٹھیک ہے تم دونوں میرے ساتھ ہی چلو اب ہم آپ کے ساتھ ہی جا رہی ہیں ،  
اب ادھر ہاری بہن کی سہاگ رات ہو گئی ادھر میری اور کائنات کی ہو گئی آپ کے ساتھ اور شرما کے بولی شارق مجھے پیار سے کرنا میںنے شرارت  سے کہا کیا وہ بولی آپ اپنا لن میری چوت میں پیار سے ڈالنا  اور جب میں شہر آؤں گئی تو جیسے مرضی ڈال لینا پہلی بار بس آرام سے کرنا میں نےکہا ٹھیک ہے میں تم دونوں کو پیار سے ہی چودوں گا ، وہ خوش ہو کے بولی  لو  یو  شارق  میں نے کہا کس یو سعدیہ وہ  مسکرا کے اب ہال کی طرف   گئی
میں  اب یہ سوچ رہا تھا عورت ذات اگر ٹھان لے کچھ کرنے  کا تو کر کے رہتی ہے


پھر دولہا  والی گاڑی نکلی تو ہم سب بی اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گے  میرے ساتھ لالارخ بھابھی شفق اور تنور بھابھی بیٹھی تھیں جب ہم واپس گھر پوھنچے تو  پھر سب سے پہلے تو مووی بنی  سب کی پھر سب سب اپنے اپنے کمروں کی جانب چل دے مجھے آج ثوبیہ نے وہ والا کمرہ دیا جہاں پہلے دیں میں نے ہما کو چودا تھا اور میرے ساتھ والا کمرہ کائنات کے پاس تھا میرے گھر والوں کو اکرم بھی اپنے ساتھ اپنے گھر لے گے تھے جو ساتھ ہی تھا مجھے بھی کہا تھا انہوں نے پر میں نے انکار کر دیا تھا ، اب جو کمرے ہم تینوں کو ملے ان دونوں کمروں کا ایک ہی اٹیچ باتھ تھا دونوں کمروں میں دروازہ تھا میں نے اب کمرے میں جاتے ہی اپنا کمرہ اندر سے بند کیا  اور باتھ کا دروازہ کھول دیا دوسری طرف والا ،میں اب لیٹ گیا تھا کپڑے بدل کر    

کیوں کے ابھی وہاں پے مووی بن رہی تھی کائنات وہاں پے بیٹھی تھی پھر کوئی ایک گھنٹے بعد واش روم سے سعدیہ اور کائنات اندر آئی  میرے کمرے میں   اب سعدیہ  نے آتے ہی میرے ہونٹوں پے ایک کس کی میں بھی اسے کس کرنے لگا  وہ بولی پہلے میں لوں گئی آپ کا لن اپنی چوت میں کائنات نے کہا  ٹھیک ہے آپ لے لو اب میں نے سعدیہ کو اپنھی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگا

اب میں تو سعدیہ کے ہونٹ چوس رہا تھا اور کائنات  نے میرے لن کو اب شلوار کے اپر سے ہی سہلا رہی تھی پھر اس نے اپنا ہاتھ میری شلوار میں ڈالا اور میرا لن پکڑ کے سہلانے لگی میرا لن بھی کائنات کا ہاتھ لگتے ہی پھنکارنے لگا تھا  اب میں نے اپنا ہاتھ سعدیہ کی چوت پے رکھا وہ سسسس کر اٹھی اب میں نے سعدیہ کے ایک مممے کو دبایا اور کائنات نے میرا ہاتھ سعدیہ کی چوت سے ہٹا دیا اور خود اس کی چوت اپنے ایک ہاتھ سے مسلنے لگی اب کائنات نے ایک ہاتھ میں میرا لن پکڑا تھا اور اس اب اپنے منہ  میں  لے کر چوس رہی تھی اور اپنے دوسرے ہاتھ سے سعدیہ کی چوت کو مسل رہی تھی
تبھی اس کی انگلی کا لمس سعدیہ کے چوت کے  دانے پر ہوا. سعدیہ اب تڑپ اٹھی
اب میں نے سعدیہ کی قمیض کو اتر دیا اور کائنات نے اس کی شلوار کو اب سعدیہ نے اپنی کالی برا بھی اتر دی اس کے مسے مممے اب اچھل کر میرے سامنے آ گے میں نے اب اس کا ایک ممما اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگا نیچے سے اب کائنات نے اس کی چوت کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا اب سعدیہ کو دو طرف سے مزہ مل رہا تھا  اس نے ایک گہری سانس لی اور اس نے میرے سینے سے  اپنا جسم چپکا لیا. اب سعدیہ میرے اوپر لیٹ گئی تھی اور میرا کھڑا لن  سعدیہ کے چوتڑوں پرپھنسنے  لگا. سعدیہ کی  سانسیں  تیز ہو گئی. اب میرے ہاتھ اس کی چھاتی کی  بھیگی ہوئی چوچیاں  دبا رہے تھے . وہ اب تڑپ رہی تھی اور میرے ہونٹ چوس رہی تھی اب سعدیہ نے کہا  شارق اب کچھ کرو وہ بری بیچین ہو گی تھی ،اس کی چوت کائنات نے چوس چوس کر خشک کر دی تھی اب میں نے سعدیہ کو اپنے نیچے کیا  اور کائنات سے کہا اپنے کپڑے اتر دو وہ بھی اب نننگی  ہو گئی اب میں نے سعدیہ کی دونوں ٹانگیں کھول کے ان کے درمیان آ گیا اور کائنات سے کہا تم اپنی چوت سعدیہ   کے منہ پے رکھ لو اس نے ایسا ہی کیا وہ اب سعدیہ کے منہ پے بیٹھ گئی اور اس کی چوت کو اب  سعدیہ نے اپنے ہونٹوں میں پکڑ لیا  اب کائنات نے اگے کو جھک کر میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ لگا دے میں نے اب اپنا لن ہلکے سےسعدیہ  کی   چوت  میں ڈالا ابھی ٹوپی ہی گی تھی وہ تڑپ  گئی اب کائنات نے اس کے ممے اپنے ہاتھ میں  لئے اور ان کی نپلز کو مسلنے  لگی اور اپنی چوت کو سعدیہ کے منہ سے جوڑ دیا اب میں نے ایک ہلکا سا دھکا مارا میرا لن سعدیہ کی چوت کی سیل کو توڑتا ہوا اندر چلا گیا سعدیہ تڑپ اٹھی اس نے اوپر اے کی کوشش کی پر وہ نہ اٹھ سکی اسے  کائنات نے نہ اٹھنے  دیا  اب میں بھی ہلکے سے اور اندر کرنے لگا جب میرا سارا لن سعدیہ کی چوت میں چلا گیا میں نے اب ہلکے سے باہر نکالا اور دوبارہ سے اندر کیا سعدیہ نیچے سے تڑپ رہی تھی اور چیخ بھی رہی تھی پر اس کے منہ سے کائنات کی چوت لگی تھی اس لئے اس کی آواز نہ نکل سکی ،

 اب کچھ دیر ایسے ہی اندر باہر کرنے سے سعدیہ کو مزہ آنے لگا اب وہ بڑے مزے سے  کائنات کی چوت کو چاٹنے لگی اور کائنات اب تڑپ رہی تھی  میں نے اب اندر باہر کرنا شروع کیا  اپنے لن کو تیزی سے اور سعدیہ اکو اور مزہ آنے لگا وہ اور تیزی سے کائنات کی چوت میں زبان پھیرنے لگی اب اب کائنات کا جسم اکڑنے لگا تھا پھر  میں بھی اب زور زور سے دھکے مار رہا تھا سعدیہ کی چوت کی دیواریں اتنی تنگ تھی وہ میرے لن کو جیسے بھنچ رہی تھی مجھے بھی بہت زیادہ مزہ آ رہا تھا اور میں بھی اسے اور مزے کے ساتھ کھود رہا تھا اب ہم تینوں کے منہ سے آہ کی آواز نکلی میں اور سعدیہ فارغ ہونے لگے اور کائنات بھی سعدیہ کے منہ میں ہی فارغ ہو گی   میرے لن نے بھی سعدیہ کی چوت میں ہی سارا پانی ڈالا ،اب ہم تینوں ہی مزے سے لیٹ گے  کچھ دیر ایسے ہی لیتے رہے اب میں نے کائنات کو کس کرنا شروع کی  اور وہ بھی میری زبان کو چوسنے لگی سعدیہ نے اٹھ کے اب کائنات کی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا تا کے وہ نرم ہو جانے  پھر میں نے کائنات کے ممموں کو چوسنے لگا اور کبھی ایک سائیڈ کی نپل چوستا کبھی دوسری سائیڈ کی میں نے اتنا چوسا کے وہ لال ہو گئیں اب سعدیہ میرا لن اپنے منہ میں لے کر اسے اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی اور چوس رہی تھی ایسے میں میرا لن بہت سخت ہوا جا رہا تھا اب کائنات نے کہا شارق پلیز اب اندر کرو  مجھ سے اب صبر نہیں ہو رہا  میں نے اب کائنات کی ٹانگیں اپنے کندھے پے رکھیں اور اپنا لن اس کی چوت میں ڈالنے لگا اب سعدیہ نے کائنات ک ہونٹوں کو اپنے منھمیں لیا اور چوسنے  لگی  میں نے ہلکے ہلکے اندر کیا جب سیل ٹوٹی کائنات کی وہ اتنا تڑپی اگر میں  نے اسے قابو نہ کیا ہوتا وہ بیڈ سے نیچے گر جاتی اب کی بار میں نے  ایک ہی دھکے سے سارا اندر کیا اور باہر نکالا اور پجیر اندر باہر کرنے لگا کائنات پہلے تو تڑپتی رہی پھر  کچھ پرسکون ہو گی  اس کے ہونٹوں کو سعدیہ نے اتنا زور سے  اپنے ہونٹوں سے لگا رکھ تھا اس کی ایک بھی چیخ کی آواز باہر نہ نکل سکی  ، اب کائنات مزے سے چدوا رہی تھی ،
میں بھی اب مزے کے ساتھ اسے چودننے لگا مجھے ان دونوں کو چود کے بڑا مزہ آیا تھا کافی  چوت کو جب بھی چودو مزہ آتا ہے پر جو مزہ کسی کی کنواری چوت پے اپنے لن سے مہر لگانے  میں آتا ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہے ،میں نے اب کافی دیر تک  کائنات کو چودتا رہا وہ ایک دفع پھر سے جھڑ گئی تھی پتر میں اسے ویسے ہی چودتا رہا تھا پھر میں نے  کائنات کو ڈوگی سٹائل میں چودنا شروع کیا اب وہ ہلکی ہلکی سسکاریاں بھر رہی تھی کیوں کے اب اس کے ہونٹ آزاد تھے اس لئے کمرے میں اب سسسسسسسس آہ اف  ف ف ف کی آوازیں آ رہی تھی وہ ہلکی آواز میں  آہیں بھر رہی تھی  تا کے کوئی سن نے لے   میں اسے یونی چودتا رہا اور کائنات اب دوسری دفع جھرنے  لگی اب وہ بولی شارق بس مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا میں نے اب کائنات کی چوت سے لن نکالا اور سعدیہ کو اپنی طرف کھینچ کے اس کے اوپر چڑھ  گیا اور اس کی چوت میں اپنا تنا ہوا لن ڈال دیا ، وہ سسک اٹھی

آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہ شارق میں مزے سے آج پاگل ہو جاؤں گئی اف ف ف ف ف ف اور زور سے  میں نے اب کی بار سعدیہ کو بھی زور زور سے چودنا شروع کیا وہ بار بار  سسکاریاں بھرتی جا رہی تھی جب اب سعدیہ کی چوت میں لن ڈالے دس منٹ ہو گے تھے اب میں نے اسے الٹا کیا اور پیچھے سے اس کی چوت میں لن ڈال کے اس کے اوپر ہی لیٹ گیا اب میں اس کی گردن کو چوم  رہا تھا اور میرا لن سعدیہ کی چوت میں تیزی کے ساتھ اندر باہر ہو رہا تھا سعدیہ اب آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ کی آواز کے ساتھ ہی جھڑ گئی میں  رکے بنا ہی لگا رہا  پھر کوئی پانچ منٹ کے بعد سعدیہ دوبارہ سے مزے کے ساتھ چخننے لگی شا شا شا ر ر ر ر ق ق ق ق آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ اب  بس کرو  اف  میری جان نکالو گے کیا اب میں آپ کو منہ میں چوس کے فارغ کر دیتی ہوں میں نے کہا نہیں مجھے اب تمہاری چوت میں ہی فارغ ہونا ہے ،
کچھ دیر صبر کرو وہ بولی شا ررررررر رررر ق یقین مانو اب بہت درد ہو رہا ہے جانو اب کچھ دیر روک جاؤ  پلیزززززززززززززز شا ررررررررر ق ق ق ق میں اب مرنے والی ہو گئی ہوں میں نے اب اور زور سے اسے کی چوت میں دھکے لگانے شروع کر دیے اب اس کی حالت دیکھ کے کائنات بولی روک جاؤ کچھ دیر میں نے اب اسے بھی اپنی طرف کھینچا اور سعدیہ کی  چوت سے لن نکل کے اب کائنات کی چوت میں ڈال دیا وہ تو اب کی بار بلک اٹھی اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے شارق آج تم لگتا ہے مر ڈالو گے ہم دونوں کو  اوئی ماں  میں مر گئی  آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ پلیزززززززززبعد میں کر لینا پھر میں نے اتنا چودا دونوں کو کے وہ بحال ہو گیں اب میں نے دوبارہ سے سعدیہ کی چوت میں ڈالا لن اور پھر کچھ زوردار جھٹکوں سے ہی اس کے اندر پانی چھوڑ دیا ، اس نے اب کی بار ایک لمبا سانس لیا اور کہا تھینکس  اس ظالم نے پانی تو نکالا اب میری جان چوت جانے  گئی میں اس کے اوپر  ہی لیٹ گیا ،

اب وہ دونوں ہی لڑکھڑاتی ہوئی اٹھی اور واش روم سے خود کو صاف کر کے آ گئیں میں نے بھی اب جا کے خود کو صاف کیا  پھر میں نے آتے ہی کائنات کی گاند پے ایک تھپڑ مارا وہ  آہ آہ آ اوہ آوچ کر اٹھی اور کہا ظالم دوست اب تمہاری نیت میری گانڈ پےخراب  ہو رہی ہے مجھے پتہ ہے پر میں آپ کا لن ابھی گاند میں نہیں لے سکتی  مجھ سے یہ وبرداشت نہیں ہو گا اور میری چیخوں سے کوئی آ جانے گا بعد میں جب ہم شہر میں  ملینگے تب ڈال لینا ہم دونو  کی گانڈ میں میں ہنس کے بولا  چلو اب  چوت سے ہی گزارا کرتا ہوں  اب کی بار سعدیہ اپنی آنکھیں  پھاڑ کے بولی کیا مطلب ابھی اور کرنا ہے  میں نے کہا اور کیا  وہ بولی نہیں شارق کل ولیمہ ہے ہم سے چلا بھی نہیں جانے گا  مجھے بھی اب  

یاد آیا کل تو  ولیمہ ہے اور  پھر میں نے ان سے کہا چلو اب ہم  سوتے ہیں وہ اب کہنے لگیں یہی سویں گیں ہم بھی  اور میں ان سے لپٹ کے سو گیا  اگلے دن جب میری آنکھ  کھلی تو میرے ساتھ وہ دونو ہی نہیں تھیں  میرے کمرے میں ایک ائر فریشر کی مدھر خوشبو پھیلی تھی  میں نے دروازہ کھولا تو ثوبیہ بھابھی تھی وہ اندر آئی اور کہا  توبہ ہے شارق تم نے دونوں کی سال توڑ دی میں نے کہا آپ کو کیسے پتہ چلا وہ بولی جناب میں نے ہی ان کو آ کر اٹھایا تھا اور آپ کے کمرے سے منی کی اور خون کی بو آ رہی تھی ، میں  نے دوسری سید والی چادر چینج کی بیڈ کی جو خون اور منی سے لتھڑی تھی اب آپ والی کرنے آئی ہوں میں نے کہا چلو کر لو جو کرنا ہے اور واش میں گھس گیا وہاں سے نہا کے باہر آیا اور دیکھا میرے کمرے کی بیڈ کی چادریں بدلی تھیں ،میں نے اب اپنے کپڑے  نکالے اور بیڈ پے رکھے ہی تھے کے لالارخ آ گئی اور کہا آپ ابھی تک تیار نہیں ہویے ،میں نے کہا آپ چلو میں ابھی آیا اور جلدی سے کپڑے پہن کے باہر آ گیا ،  

باہر سب ہی لن میں بٹہے تھے میں ان کے پاس ہی جا بیٹھا پھر جب لڑکی والے آے اور ولیمہ  کا  کھانا کھایا گیا اب فارغ ہو کر میرے پاپا نے سب سے اجازت طلب کی  اور پھر  ہم سب نے بھی گھر والوں سے ملی اور اجازت لے کر اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گے میں جب دلہن والے کمرے سے باہر نکلا تو مجھے عشرت  نے  روکا اور کہا آپ سے میں سٹی میں ملنے آؤں گئی مجھے ٹائم ملے گا میں نے  مسکرا کے کہا میرا ٹائم بہت قیمتی ہے  وہ شرارت سے بولی میں ہر قیمت ادا کروں گئی مجھے پتہ ہے آپ کا قیمتی ہے پھر کہا لمبا اور موٹا بھی ہما آج تک نہیں بھول پی وہ دن وہ اب آپ سے شرما رہی ہے اس لئے اس دن سے آپ کے سامنے نہیں آتی کیا ہم اس قبل نہیں ہیں کے آپ کا قیمتی  وہ لے سکیں میں نے کہا کیوں نہیں جب دل کرے آ جانا اور اسے اپنا کارڈ دیا ، اب  میں اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھا  پھر ہماری گاڑیاں آگے پیچھے ہی اپنے شہر کی طرف جانے لگیں اب کی بار میں اکیلا ہی تھا اپنی گاڑی میں میں نے لالارخ سے کہا بھی تھا وہ نہیں مانی اور بھائی امجد کے ساتھ بیٹھ گئی تھی ،    

پھر راستے میں ایک ہوٹل سے ہم نے چا
ۓ پی سب نے  میں نے کہا لالارخ اب کیوں نہیں بیٹھی میری گاڑی میں وہ بولی آپ مجھے راستے میں آئسکریم  نہیں خانے دیتے اپنی مرضی سے اور بھائی امجد نے مجھے ڈھیر سری آئسکریم لے کر دی ہے جو گھر جانے تک ختم نہیں ھو گی میں نے کہا یار تم سوتے وقت کیسے صبر کرتی ھو  وہ بولی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اس لئے اور سب ہی ہنس دیے اب کی بار میرے ساتھ بھابھی شفق بیٹھ گی انہوں نے کہا تم اکیلے اب بور ہو رہے ھو گے تو لالارخ نے کہا بھابھی آپ بھی ہر دفع انہی کا ساتھ دیتی ھو آپ کو میں گھر جا کے پوچھوں گئی اب بھائی امجد نے کہا طارق اب اگر چاھتے ھو اپنی بیگم کی خیریت تو ہماری لالارخ کو  راستے سے ہی کچھ لے دو کیوں لالارخ سہی کہا نہ میں نے وہ جھٹ سے بولی تو اور کیا اور سب کا ہی زوردار قہقہ چھوٹ گیا، میں نے کہا لالچی بلی ،وہ بولی آپ ہوں گے بھائی باگڑ بلے میں تو نہیں بلی میں نے کہا چلو ایسا ہی سہی اور تم میری کیا لگتی ھو وہ بولی بہن ہوں اب میں نے کہا خود ہی سمجھ جو بلے کی بہن کیا ہوئی ،وہ اب غصے سے بولی چلیں بیٹھیں اب گاڑیوں میں  کیا یہاں ہی رہنا ہے یہ تو کبھی چپ ہی نہیں کرتے بھائی صاحب ، اب سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گے اور ہم اپنے شہر کو چل دیے ،      

ہم ابھی اپنے سٹی میں انٹر ہوے ہی تھے کے ایک طرف سے دو گاڑیاں آ کر  



وہ دونوں گاڑیاں آییں اور ہمارا راستہ بلاک کر دیا ہم سب نے آگے پیچھے ہی بریک  لگائی  ان گاڑیوں سے کوئی دس  آدمی نکلے اور ہماری گاڑیوں کو گن پوانٹ  پے لے لیا  اب  طارق بھائی کی گری سے انہوں نے طارق کو اترنے کا  اشارہ کی اور کہا کیوں ایس پی تم کو کہا تھا نہ ھمارے بندے چھوڑ دے تم کو کون سی زبان سمجھ آتی ہے  اب میں نے غصے سے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا اور نیچے عطر کے ان کی طرف جانے ہی لگا تھا ان میں سے دو جو میری گری کی طرف اے تھے وہ بولے وہاں ہی رک جو وکیل صاحب میں نے کہا کون ھو تم لوگ اور یہ کیا غنڈہ گردی  ہے اب بھائی امجد  نے کہا تم لوگو کے بندے اب میں الٹے لٹکا کے ان سے سب معلوم کروں گا  اب ان میں سے ایک جو سربراہ  لگتا تھا وہ گلی دے کے بولا تیری بہن کی میں ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کے میں نے اس کے منہ پے تھپڑ مار دیا اور اس سے گھتم گتھا  ہو گیا اب ان میں سے تین آگے آے اور مجھے کہا پیچھے ہٹوں ورنہ میں تمہارے بھائی کو گولی مار دوں گا،    

میں نے ان سے کہا گولی تو تب مارو گے جب خود زندہ بچو گے تم نے  یہ جرات کر کے اپنی زندگی کو کم کر لیا ہے اب والد صاحب نے کہا تم لوگ کس کے آدمی ھو تو جسے میں نے تھپڑ مارا تھا وہ بدتمیزی سے بولا ان کی عورتوں کو نکالوں باہر اب تو میں نے کہا آوے بہت ہو گیا اب چلو چھٹی کرو اور ابھی میںنے یہ لفظ بولے ہی تھے کیوں کے میں نے ایک طرف  درختوں  میں ظفری کو دیکھ لیا تھا اس نے مجھے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا  میں نے کہا امجد بھائی پیچھے ہو جایئں اپ اور ڈیڈی آپ بھی  ، ان کا سربراہ بولا ہنس کے کیوں کوئی توپ  چلانے  والا ہے تو ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کے سٹک سٹک سٹک  کی آوازیں ابھریں اور وہ سب  باری باری گرنے لگے صرف سربراہ کے ہاتھ  پے گولی لگی تھی باقی سب کے سینوں پے لگیں تھی گولیاں اور ساتھ ہی ظفری اور اس کے ساتھ کوئی سات  لوگ اور تھے وہ اپنے چہرے نقابوں میں چھپاے  ہماری طرف آے آتے ہی ظفری نے آواز بدل کے کہا سوری  باس ہم لوگو کو پوزیشنیں  لینمے میں کچھ دیر ہوئی پھر آپ ان کے ساتھ تھے اس لئے ہم  نے گولی نہیں چلائی تھی ، میں نے کہا ان کو جانتے ھو وہ بولا جی باس یہ  داور کمال  کے آدمی ہیں داور کمال کا نام سن کے ہم سب ہی چونک گے کیوں کے وہ ایک بہت بڑا آدمی تھا جس کی دولت کا کوئی اندازہ نہیں تھا کسی کو بھی  اس  کے بارے میں  کہا جاتا تھا وہ ایک اسمگلر بھی ہے بس وہ گولڈ یا ڈائمنڈ کی اسمگلنگ  کرتا ہے ،

اس کے تعلقات براہے راست  اس ملک  کے سب حکمرانوں سے تھے ،اس جیسے شخص کے آدمیوں کا  ہم کو یوں روکنا  ھمارے لئے خطرے کی نشانی تھا  میں نے کہا ظفری سے ان سب کی لاشیں اٹھا کے لے جو اور یہ جو زخمی ہے اس سے سب معلومات حاصل کرو  میرے گھر والی سب مجھے دیکھ رہے تھے کبھی مجھے دیکھتے اور کبھی ان لوگوں کو جن کی گنوں پے  سلنسر  لگے تھے اس لئے ان کی فائرنگ  کی آواز  نہیں گونجی تھی  پھر وہ سب جانے لگے میںنے کہا پاپا پلیز آپ لوگ گاڑیوں میں بیٹھیں گھر جا کر اس پے بات کرتے ہیں ، وہ سب اب گاڑیوں میں  بیٹھنے اور  ہم آشیانے کی طرف چل دیے گھر  پوھنچ کر ڈیڈی نے کہا سب میرے کمرے میںآ جاؤ

ہم سب والد سحاب کے روم میں چلے گ
ۓ وہ بولے یہ سب کیا ہو رہا ہے پہلے طارق تم بتاؤ کون لوگ پکڑے ہیں تم نے  تو طارق بھائی نے کہا ڈیڈی میں نے ایک گینگ  پکڑا ہے جن کے پاس سے بھاری اسلحہ برآمد  ہوا ہے اور وہ  لوگ ناجائز  اسلحے کا کاروبار کرتے ہیں ،
مجھے ان کے لئے کچھ لوگوں نے کال کے ہیں کے ان کو چھوڑ دوں میں نے نہیں چھوڑا اب میں ان سب سے  سارا کچھ اگلوا  لوں گا جو کوئی بھی ہوا  ان کے پیچھے میں چھوڑوں گا نہیں ،

اب ڈیڈی نے مجھے کہا اور تم نے یہ کیا غنڈہ گردی شروع کر دی ہے غضب خدا کا  ایک ہی وقت  میں دس لوگوں کو مار دیا ان نقاب پوشوں نے کیا لا قانونیت پھیلا رہے ھو تم ، میں نے کہا ڈیڈی  وہ سب لوگ جو مرے گ
ۓ ہیں وہ قاتل اور اسمگلر ہیں ایسے لوگ قوم اور ملک پے ایک دھبہ ہوتے ہیں ان کا مر جانا ہی بہتر ہے اب کی بار امجد بھائی نے کہا یار یہ کوئی بات نہیں قانون اور عدالتیں کس لئے بنی ہیں تم ایک وکیل ہو کر خود ہی سب سے بڑا جرم کر رہے ھو اب تو بھائی نصرت اور طارق بھائی  نے بھی مجھے غصے ہونا شروع کر دیا ، کمرے  کا ماحول ایک دم سے گرم ہو گیا تھا میں ان کی کسی بات کو تسلیم نہیں کر رہا تھا ،   

اب والدہ صاحب نے کہا خاموش ہو جو تم سب گھر کو تھانہ اور عدالت بنا لیا ہے تم لوگوں نے حد ہوتی ہے برداشت کی بھی پھر ڈیڈی سے مخاطب ہو کے وہ بولی شاہ جی آپ مجھے یہ بتائیں جب وہ لوگ یہ کہہ رہے تھے  ان کی عورتوں کو باہر نکال لو جن میں میری بیٹی  تھی  میری بیٹھیوں جیسی  بہوویں تھیں ، تو کیا یہ بھی کھڑا تماشا دیکھتا رہتا اس نے جو کیا سہی کیا ہے جب اس معاشرے کے ناسور ختم کرنے ہیں تو درندوں کو مارنے کا لئے درندہ بننا پڑتا ہے ، کوئی غلط کام نہیں کیا ، میرے بیٹے نے اب کی بار والد صاحب نے کہا آپ  بیگم کیا بول رہی ہیں اسے کس راستے کی طرف چلا رہی ہیں وہ سب خطرناک لوگ ہیں آپ اور آپ کا بیٹا کیا جانتا ہے داور کمال کے بارے میں  وہ ایک ایسا بھیڑیا صفت انسان ہے وہ جسے چاہتا ہے مروا دیتا ہے اور آپ کہہ رہی ہیں اس کے دس بندے مار کے اچھا کام کیا ہے اپ کے بیٹے نے ، اب کی بار والدہ صاحبہ  نے کہا ، کیوں مروا دیتا ہے وہ ہر کسی کو کہاں ہوتا ہے آپ کا قانون اور عدالتیں اب کی بار کوئی کچھ نہ بولا آج میں نے پہلی بار والدہ صاحبہ کو جلال میں دیکھا تھا ،

اب والدہ صاحبہ نے کہا آپ لوگ دیکھ لیں قانون کو میں اپنے بیٹے کو یہی کہوں گی ظلم کے آگے کبھی نہ جھکنا  زندگی کا مالک اوپر والا ہے کوئی داور کمال نہیں کوئی بھی ظلم کرے اس کا کبھی بھی ساتھ نہ دو اب سب ہی چپ رہے  میں نے اب کی بار بھائی طارق سے کہا آپ ان لوگوں کو اچھے سے تفتیش کریں اور بعد میں ان کا چالان عدالت میں  آنے دیں میں دیکھ لوں گا اس داور کمال کو بھی  بس ایک  دفع کوئی ثبوت تو  مل جاتے  بھائی طارق نے کہا  اب ہم سب یہی سوچنے لگے کے کیسے اس کے خلاف کوئی ثبوت ڈھونڈے جایئں ،

پھر ہم سب ہی اپنے رومز کی طرف چل دیے میں نے اپنے کمرے میں آ  کر ظفری کو کال کی  اور اس سے کہا کوشش کرو داور کمال کی خلاف کو ثبوت مل جاتے وہ بولا باس سب کچھ مل جاتے گا اگر آپ حکم کرو تو میں نے جو معلومات حاصل کی ہے اس زخمی سے اس نے بتایا ہے آج کی رات کو داور کمال کا کوئی دس کروڑ کا مال جو گولڈ میں ہے  ایک گودام میں رکھا جاتے گا اور کل اسے کسی پارٹی کو بیچا  جانا ہے ہم آج وہ اڑا لیں  میں نے کہا اڑا لو اب آج سے اس کے پیچھے لگ جاؤ  پر احتیاط سے جتنا بھی ہو سکتا ہے اسے نقصان  پوھنچا دو  وہ بولا باس اگر ہم کسی طرح  دانیال مرزا  سے ہاتھ ملا لیں تو اسے تباہ و برباد کر سکتے ہیں وہ اس کا سب سے بڑا  دشمن  ہے ،   

اب اچانک میرے ذھن میں ایک بات ائی میں نے کہا ظفری کیا ہم اس حویلی میں کسی کو چھپا کے رکھ سکتے ہیں وہ بولا باس وہاں پے تو ہم کوئی ایک سو آدمی بھی چھپا دیں تو کوئی نہ ڈھونڈ سکے  میںنے کہا چلو اب ایسا کرو آج وہ مال  حاصل کر کے  کسی کو بیچو وہ بولا ایک پارٹی ہے جو کراچی کی ہے وہ اسی وقت اسے خرید لے گئی میں نے کہا پھر کچھ سامان کی ضرورت ہے وہ لکھ لو  میں نے اسے اب کی بار  ایسے کیمرے جو رات  کے اندھیرے  میں بھی صاف تصویر بنا سکیں  اور بیسٹ  کوالٹی کے ریکارڈر اور بھی جاسوسی میں استمال  ہونے والی چیزیں  لکھوا دیں وہ بولا باس یہ سب اسی پارٹی سے مل جاتے گا ،  میں نے کہا یہ سب حاصل کرو کل میں آؤں گا اس حویلی میں اور کال بند کی اور سونے کی تیاری کرنے لگا ،

اگلے دن میں  اٹھا ناشتہ کیا اور کچھ دیر بھابھیوں  کے پاس بیٹھا پھر کورٹ کی طرف چلا گیا وہاں پے میرا سب نے ہی بہت احترام سے سواگت کیا اب مجھے پوری ٹیم کا بتایا گیا جو اس بار بلا مقابلہ  جیتے گئی  میںنے اب رضوان بٹ  جو کے  جنرل سیکرٹری تھا  اسے کہا  آپ نے پنجاب بار کونسل میں بتا دیا ہے کیا  وہ بولا جی سر اور اس دفع جو پنجاب بار کونسل کا صدر ہے وہ ہماری ہی پارٹی کا ہو گا کیوں کے وہ  میرا سسر ہے خواجہ آصف لون میں نے کہا یہ تو بری اچھی بات ہے وہ بولا سر اگر آپ  میری ایک بات من لیں تو بری اچھی بات ہو گی  میں نے کہا جو بٹ صاب  وہ بولا آپ آج میرے گھر تشریف لائیں میں آپ سے اپنے سسر کی ملاقات کروانا چاہتا ہوں  میںنے کہا چلو ٹھیک ہے  وہ بولا سر اب پھر لَنچ آپ کا ھمارے گھر میں ہو گا میں نے کہا  جیسے تم کہو وہ خوش ہو گیا  اس نے اب اپنے گھر میں کال کی اور  کہا آج کا لَنچ   کافی اچھا ہونا چاہے میرے ساتھ کچھ مہمان آ رہے ہیں،

پھر میں ایک دو کیس میں بھائی نصرت کے ساتھ ایکی دو عدالتوں میںپیش  ہوا ، ایک عدالت میں تو بحث تھی ضمانت کی وہ بھی کی  بھائی صاحب نے  میں اور بھائی نصرت اب  فارغ  ہوے تو میں نے ان سے کہا آج رضوان بٹ کے گھر جانا ہے وہ بولے ٹھیک ہے پھر ہم نے فاروقی صاحب کو بھی ساتھ لیا وہ ایک قتل کے کیس کی ضمانت کروا رہے تھے  مجھے دیکھ کر بولے او یار ذرا اس میں کچھ  ہیلپ کرو میں بھی اب ان کے ساتھ ا عدالت میں گیا وہاں پے میں نے  اس کیس کی فائل پڑھ کے  اور قاتل کو دیکھ کر کہا  فاروقی صاحب یہ بندہ مجھے شکل سے ہی خونی لگتا ہے  آپ یہ کیس نہ لڑیں ہم کسی گناہ گار کو نہیں بچائیں گ
ۓ وہ بولے ٹھیک ہے پھر انہوں  نے اسی وقت اسے کہا میں آپ کا کیس نہیں لڑوں گا ،

اس قاتل کا بھائی ایک ناظم تھا وہ بولا آپ نہیں لڑو گ
ۓ تو اور بہت  میرا بھائی تو بچ ہی جاتے گا آپ نے اچھا نہیں کیا ہمارا کیس چھوڑ کے اب میں نے کہا اسے جاؤ جو ہوتا ہے کر لو اور پھر میں نے کہا فاروقی صاحب  مدعی پارٹی کا کونہی وکیل وہ بولے ، جمشید  علوی  کی بیٹی ہے علوی صاحب ایک سینئر وکیل تھے  ان کی بیٹی ریحانہ علوی  میں نے کہا اچھا  اور اب ہم بار روم میں بیٹھے  آپس میں باتیں کر رہے تھے کے میںنے ایک لڑکی کو دیکھا جو بار روم میں داخل ہوئی وہ کیا کمال کی لڑکی تھی اس کی چھاتیوں کی اٹھان  اف  اس کے بڑے بڑے کولھے وو جب میرے پاس سے گزر کر آگے گئی تو میں اس کو دیکھنے لگا اس کی گانڈ کے دونو چوتروں  میں ایک حل چل مچی تھی وہ ایک دوسرے سے رگڑ  کھا کے ملتے  تھے جب وہ چلتی تھی ،     

پھر میں نے جمشید علوی کو بھی آتے دیکھا وہ ہمارے پاس آیا اور مجھے کہنے لگا کھڑے ہو جاؤ صدر صاحب میں کھڑا ہوا تو مجھے گلے سے لگا لیا اور بولا بیٹا آپ جیسا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا میں نے حیرانی سے کہا وہ کیوں جناب وہ بولا تم نے وہ کیس چھوڑ کے میرے اوپر احساں کیا ہے اب کی بار وہ شعلہ جوان حسن کی مالک بھی ھمارے پاس آ گئی  اور کہا پاپا کیا ہو اہے وہ بولے بیٹا شارق صاحب نے اس وارثی کا کیس لڑنے سے روک دیا ہے فاروقی صاحب کو  وہ مجھے عجیب سی نظر سے دیکھنے لگی  علوی صاحب نے کہا بیٹا جو بندہ قتل ہوا ہے وہ میرے ڈرائیور کا اکلوتا  بیٹا تھا  اور اسے اس ظالم نے بےرحمی سے مار دیا ہے  میں چاہتا تھا اسے سزا ملی پر جب مجھے پتا چلا وہ کیس فاروقی صاحب کے پاس آ گیا ہے تو ریحانہ نے مجھے کہا تھا اس ظالم کو اب شارق نے بچا لینا ہے وہ بہت زہین لڑکا ہے ، اب کی بار میں نے کہا اس حسن کی دیوی سے ریحانہ آپ کا شکریہ کے آپ نے ہم کو زہین تسلیم کیا وہ بولی شارق صاحب آپ کو سب ہی ایک چراغ کا جن کہتے ہیں جس کے لئے کچھ بھی نہ ممکن نہیں ہے ،

اب فاروقی صاحب نے کہا آؤ بیٹھو سب کیا اب کھڑے  رہ کے ہی بات کرنا ہے ساری اب ہم بیٹھ گ
ۓ  اور اتفاق سے ریحانہ میرے ساتھ والی سیٹ پے بیٹھی تھی اس کی آواز بری پیاری تھی اور اس کے جسم سے ایک محصور کر دینے والی خوشبو اٹھ رہی تھی میں نے اسے کہا ریحانہ میں کسی بھی گناہ گار کا ساتھی نہیں بنوں گا کبھی بھی  اور اب میں آپ کے اس کیس میں آپ کو اسسٹ  کرنے کو تیار ہوں اب تو علوی صاحب نے کہا واہ یار میری پریشانی ہی دور کر دی آپ  نے تو اب آپ اور ریحانہ اس کیس کو مل کے  لڑو  مجھے ویسے بھی اب گھٹنوں کی بیماری کی وجہ سے زیادہ دیر کھڑا نہیں رہا جاتا  پھر وہیں بٹہے ہوے ہم کو پتا چلا کے اس وارثی کا کیس اب بیریسٹیر عاشق گنجانہ  نے لڑنا ہے وہ ایک سابقہ جج بھی تھے  اور اس وقت ہماری بار میں سب سے زیادہ فیس بھی وہ ہی لیتے تھے اور قتل کے کیس زیادہ تر انہی کے پاس جاتے پر ان کو ہر کوئی افورڈ  نہیں کر پاتا تھا فیس کی وجہ سے ،

اب یہ سن کے علوی صاحب بولے  یار وکیل تو ان لوگوں  نے غضب کا کیا ہے وہ توکسی کو بولنے ہی نہیں دیتا ریحانہ تو اب کافی پریشن  لگ رہی تھی میںنے کہا کوئی بات نہیں ہم لڑیں گ
ۓ ان سے بھی پھر میں نے دیکھا ریحانہ کی آنکھوں میں آنسو آ گۓ  وہ اب کی بار بولی تو اس کی آواز کانپ رہی تھی اس نے کہا مینن ے جمیل کو ہمیشہ اپنا چھوٹا  بھائی سمجھا اگر ٤ میں اس کے قاتل کو سزا نہ دلوا سکی تو میں وکالت ہی چھوڑ دوں گئی ، میں نے اب کی بار اس کو دلاسا دیا اور کہا ڈونٹ ووری کچھ نہیں ہو گا ،

اب میںنے اپنے منشی سے کہا اس فائل کی ایک کاپی کروا کے لاؤ صاف سی وہ چلا گیا اب میں نے سوچ لیا تھا اس خوبصورت لڑکی کی مدد کروں گا جب وہ کاپی کروا کے لیا تو اسی وقت رضوان بٹ بھی آ گیا اور کہا چلیں سر ہم اب اٹھ کھڑے ہوے میں نے اب جاتے ہوے ریحانہ سے کہا میں اسے اب خود دکھوں گا اسے سزا ملی گئی میرا وداع ہے آپ سے وہ اب کی بار بولی اگر آپ نے اسے سزا دلوا دی تو جو آپ مانگیں آپ کو انعام ملے گا ، میں نے اب کی بار دھیرے سے کہا کے جسے صرف وہ ہی سن سکے مجھے انعام میں ریحانہ چاھیے وہ اب کی بار کہنے لگی سر یہ میرا کارڈ ہے آپ مجھ سے اس کے متعلق  کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں, میں نے وہ کارڈ لے کر اپنی جیب میں مجود پرس میں رکھا ، اور ہم اب باہر کو نکل آے،رضوان بٹ کے گھر جانے کے لئے ہم سب اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھے اور رضوان کی گاڑی کے پیچھے چل دیے ,  


پھر ماڈل ٹاون کے ایک خوبصورت سے گھر کے سامنے ہم سب رکے اور رضوان کے ساتھ اندر چل دیے  پھر ہم کو رضوان  نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا  ابھی ہم بیٹھ ہی تھے کے اندر سے ایک  باوقار  سا ایک شخص نکلا اور ہم اسے دیکھ کر اتے گ
ۓ وہ نصرت بھائی  اور فاروقی صاحب کو جانتا تھا وہ ملے اب میری طرف آیا اور کہا میں  آج اور مستقبل  کے ایک ہونہار اور عظیم وکیل کو سلام عرض کرتا ہوں ، میںنے کہا سر کیوں شرمندہ کرتے ہیں وہ  خواجہ آصف تھے پنجاب بار کونسل کے صدر  اور رضوان کے سسر  اب ہم سب بیٹھ کے آپس میں باتیں کرنے لگے ،  

اور بعد میں ہم نے ایک پرتکلف  لَنچ کیا ان کے ساتھ  وہ بولے شارق میں اور میری پنجاب بار کونسل ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہے آپ ظالموں کے خلاف اکیلے نہیں ہیں  اور پھر ہم ان کے ساتھ دو تین گھنٹے بیٹھے اور پھر اجازت لے کر اپنے گھر کی طرف چل دیے میں نے گھر آ کر اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور وافیل نکل کے اچھے سے اسے پڑھنے لگا  میںنے اسی دوران ریحانہ کو کل کی اور پوچھا یہ جمیل کیا کرتا  تھا وہ بولی وہ ایک بنک میں جاب کرتا تھا ، اور کہنے لگی شارق صاحب مجھے خوشی ہوئی ہے کے آپ نے مجھے اس قابل سمجھا اور میرا ساتھ طلب کیا میں ایک شادی شدہ لڑکی ہوں اور میرا شوہر  امریکہ میں ہوتا ہے ، میں دو سال  سے کسی کے پاس نہیں گئی  میں نے کہا ریحانہ میں آپ کی ساری طلب دور کر دوں گا ،وہ بولی ٹھیک ہے  اب میں  نے کال بند کی اوردوبارہ سے فائل کو  دیکھنے لگا اب کی بار میںنے کوئی پانچ ایسے  پوائنٹ  پکڑ لئے جو ملزم کو سزا دلوانے میں کام آ سکتے تھے ،   

پھر میں نے اپنے کپڑے بدلے اور اپنے بھائی طرق کے آفس  کی طرف چل دیا پولیس ہیڈ کواٹر  میں جا کر میں اپنے بھائی طارق کے آفس میں داخل ہوا ان کے پاس دو انسپکٹر  بیٹھے ہوے تھے وہ مجھے دیکھ کر اپنی سیٹ سےاٹھے اور کہا آؤ شارق آؤ  پھر مجھے گلے سے لگا کے کہنے لگے خرم صاحب اور قیصر  صاحب یہ میرا بھائی ہے شارق  وہ دونو ہی بولے سر ان کو کون نہیں جانتا ایک بیباک  نڈر اور خطرناک وکیل کی حثیت سے ان کو سب ہی جانتے ہیں میں نے ان دونوں پولیس افسوں سے بھی سلام  لی اور اب میں ان کے ساتھ ہی بیٹھ گیا ایک کرسی پے بھائی نے کولڈ ڈرنک  منگوائی  وہ پینے کے دوران ہی میں نے کہا بھائی جان کیا تھانہ کینٹ آپ کے انڈر اتا ہے یا کسی اور  کے وہ مسکرا کے بولے کیا بات ہے  وہاں پے یہ جو خرم صاحب بیٹھے ہیں یہی انچارج ہیں وہاں کے انہوں نے میرے دیں طرف بیٹھے ایک نوجوان پولیس انسپکٹر کی طرف اشارہ کیا ، اب میں نے خرم  سے کہا  یار آپ کے تھانے مجھے کام ہے وہ بولا  جناب تھانہ ہی آپ کا ہے حکم  میں نے اب وارثی  کیس کا ان کو بتایا ، میرے منہ سے وارثی کا نام سنتے ہی وہ  تینوں ہی چونک گ
ۓ اب کی بار  بھائی طارق نے کہا شارق وہ وارثی  داور کمال کا خاص  آدمی ہے  ،

اور جسے اس نے قتل کیا ہے وہ لڑکا جمیل ہے میں نے کہا جی بھائی اور یہ کیس میں نے  لے لیا ہے اب خرم نے مجھے دیکھا اور کہا  شارق صاحب  اس لڑکے جمیل کے ہاتھ ایک اسی ڈیسک لگی ہے  جس میں داور کمال کے خلاف بہت ثبوت ہیں ووہی حاصل کرنے کے لئے اسے اغواکیا گیا اور اس پے  تشدد کیا گیا جس کے دوران ہی وہ مارا  گیا  میںنے کہا  تو کیا اس ڈیسک کا کوئی پاتا نہیں چلا وہ بولا نہیں وہ ابھی تک ان کے ہاتھ نہیں لگ سکی اور میں نے اپنی نگرانی میں یہ چالان مکمل کروایا تھا کیوں کے مجھ پے بڑا پرشیر آنے لگا تھا اسے چھوڑنے کا پر  ھمارے ایس پی صاحب نے وہ سب خود پے لے لیا  سارا پریشر اب  اگر کسی طرح وہ ڈیسک ہم کو مل جاتے  تو بات بن  جاتے گئی میں نے کہا ٹھیک ہے میں بھی کوشش کرتا ہوں اس کے لئے اور آپ بھی وہ بولا ہم تو اسی کام  میں لگے ہوے ہیں اب بھائی طارق نے کہا  شارق ویسے تو میرے انڈر دس تھانہ انچارج ہیں پر میں سب سے زیادہ  ان دونوں پے ہی بھروسا  کرتا ہوں  میںنے کہا سہی ہے بھائی جان اب مجھے اجازت دیں میں  نے بس ان سے یہی پوچھنا تھا ،

کے اس غریب سے بندے کو کیوں مارا وارثی نے پھر میں ان سے ہاتھ ملا کے باہر آ گیا اب میں سیدھا ریحانہ علوی کے گھر کی طرف چلا گیا اور وہاں مجھے ان دونوں بھاپ بیٹی نےہاتھوں  ہاتھ  لیا  میں نے اب پوچھا ریحانہ سے جمیل  نے کوئی ایسی ڈسک اسے دی ھو وہ بولی نہیں  اب میں اور ریحانہ آپس میں ڈسکس کرنے لگے  اب وہ بولی ہاں یاد آیا جمیل کی ایک لڑکی دوست ہے وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا چندا ہے اس کا نام  اسے شاید کچھ پتہ ھو  پھر وہ میرے ساتھ ہی چندا سے ملنے  اس کے گھر میں گئی  چندا ایک قبول صورت  لڑکی تھی وہ ریحانہ سے بڑے  پیار سے ملی  اب میں نے اس سے پوچھا  اس کے پاس جمیل کا کوئی سامان ہے وہ بولی ہاں  ایک چھوٹا سا بیگ ہے  وہ اب اسے اندر سے لینے گئی  پھر وہ کالے رنگ کا چھوٹا سا ایک بیگ لے کر آ گئی جس کو ایک چھوٹا سا تالا لگا ہوا تھا اب ہم نے وہ بیگ لیا اور اس سے اجازت لے کر واپس ریحانہ کے گھر میں آ گ
ۓ اب  ریحانہ مجھے اپنے ساتھ ہی  ڈرائنگ روم میں لے گئی میں نے اسے کہا کوئی ہتھوڑی ہے کیا گھر میں  وہ بولی ہاں ہو گی اور اس نے ایک ملازم سے کہا ہتھوڑی  لانے کو  وہ تھوڑی دیر میں ہتھوڑی لے آیا  میں نے اب وہ تالا توڑا اس بیگ کا اور زپ کھول کے اسے ایک صوفے پے الٹ دیا اندر سے  ایک ڈائری ایک لفافے میں بند ایک ڈسک  اور ایک چابی ملی جو کسی بنک لاکر کی لگتی تھی ،

وہ چابی دیکھتے ہی ریحانہ نے کہا یہ تو سٹی بنک کے لاکر کی چابی ہے  پھر میں نے وہ ڈائری کھولی اور پڑھنے لگا اس میں جمیل نے پہلے تو اپنی زندگی کا لکھ تھا  پھر چندا سے موہبت کا اور ریحانہ سے انس  کا  پھر سب سے آخر میں اس نے جو لکھا تھا وہ میرے کام کا تھا  اس نےلکھا تھا آج میرے پاس بنک میں ایک آدمی بیٹھا  ہوا تھا کے اچانک بنک میں وارثی داخل ہوا اسے دیکھ  کر اس آدمی نے مجھے ایک ڈسک دی اور ایک چابی دی اور کہا میں آپ سے یہ کال لے لوں گا  اس وقت میری جان خطرے میں ہے وہ میرے پاس اکاونٹ  کھلوانے  آیا تھا اب ایسے ہی چلا گیا  وہ جیسے ہی باہر نکلا وارثی بھی اس کے بیچھے نکل گیا  اب بنک ٹائم بھی تھوڑا سا تھا  میں نے وہ دونوں ہی اپنے پاس رکھ لیں کوٹ کی جیب میں اور بنک سے آف کرنے کے بعد چندا کے پاس آیا اور اسے ایک چوتھے  سے بیگ میں رکھ کے ایک تالا لگا دیا ، وہ میرے پاس پہلے سے تھا وہاں پے  اب میںنے چندا سے کہا اس کو سنبھال کے رکھو  اور اپنے گھر آ گیا  ، اگلے دن مجھے ایک کال آئی  بنک میں ہی  کے وہ سامان  ھمارے حوالے کر دو میں نے کہا کونسا سامان تو آگے سے مجھے گالیاں دیں گیں ،

مجھے اب آج سارا دن اس آدمی کا انتظار رہا وہ آے اور اپنی امانت لے جاتے وہ نہ آیا  میں واپس گھر ا آگیا یہاں سے آگے ڈائری خالی تھی  کیوں کے اس کے اگلے دن ہی اسے بنک جاتے ہوے  راستے سے اغوا کر لیا گیا تھا ،اب میں نے ٹائم دیکھا ابھی ایک گھنٹ تھا بنک تیممیں اور سٹی بنک یہاں سے پاس ہی تھا میں وہ چابی لے کر وہاں پے گیا اور وہ لاکر کھولا اور اس میں صرف ایک فائل  تھی اور ایک بند لفافہ تھا میں نے وہ دونو ہی لئے باہر آ کر رجسٹر  پے سائن کے کسی اور نام  کے اور گھر آ گیا ریحانہ کے اب وہاں بیٹھ کے میں نے وہ لفافہ نکالا اس میں کچھ تصویریں تھیں  وہ داور کمال کی تھیں اور ساتھ میں کوئی تین چار مختلف  ملکوں کے لوگ تھے ،

اس فائل میں کافی کچھ تھا میںنے وہ سب لیا اور ریحانہ سے کہا میں اب ذرا ان سب کی چھان بین کر لوں کال ملتے ہیں اور اسے ایک کس کر کے اپنے گھر آ گیا  اب میںنے رات کو اپنے بھائی طارق کے کیمرے میں گیا اور وہ سارا کچھ ان کے آگے رکھا وہ یہ سامان دیکھ کر خوش ہو گ
ۓ اور کہا یہ سب داور کمال کے گلے میں پھانسی کا پھندا  ڈال سکتی ہیں، میں وہاں ہی بیٹھا تھا مجھے ظفری کی کال آئی اس نے کہا باس ہمارا رات والا مشن  کامیاب رہا دس کروڑ کا سونا ہم نے آٹھ کروڑ میں بیچا ہے نقد  اور وہ سارا سامان اور ساتھ میں اور بھی بہت کچھ ایسا سامان جو یہاںکی پولیس کے پاس بھی نہ ہو گا   وہ سب اب ھمارے  اڈے میں مجود ہے ، باس اب اس روپے کا کیا کرنا ہے  میں  نے کہا تم جانو اور تمہارا کام  وہ یہ سن کے بولا نہیں باس یہ بہت زیادہ ہے ہم سب نے متفقہ طور پے ایک فیصلہ کیا ہے ہم نے اس روپے سے کوئی ایسا کام شروع کریں  جو لیگل ھو اور اتنا منافع دے کے ہم سب کی ضرورت کو پورا کر سکے اور باس وہ سارا سامان کال تک یہاں فیٹ ہو جاتے گا چار کروڑ میں  نے  آپ کے اکاونٹ میں آج جمع کروا دیا ہے باقی سے آپ ہی سامنے رهتے ہوے کوئی کاروبار میں لگا دیں  میں نےکہا چلو  کل مل کے بات کریں گۓ اس پے،  

طارق بھائی نے کہا کس کی کال تھی میںنے کہا ایک دوست کی کیوں کے میں باہر چلا گیا تھا وہ بولے اب کیا ارادہ ہے میں نے کہا میں کل تک ان ساری جگوں کی تفصیلات حاصل کر لوں گا  پھر کل بات کریں گ
ۓ  اب میں اپنے روم آیا اور اپنے بیڈ پے لیٹ گیا اگلے دن میں جب بار روم میں گیا تو وہاں  پے مجھے سب کہنے لگے ایک وکیل کا قتل ہوا ہے جس کو ابھھی تک پولیس نے نہیں پکڑا اس لئے آج بار روم میں ہڑتال کی کال دی جاتے میںنے کہا چلو ٹھیک ہے پھر اس دن کوئی کام نہ ہوا  میں بھی اب  بار روم میں ہی تھا فاروقی صاحب اور نصرت بھائی بھی گھر چلے گۓ میں نے کچھ نوٹس تیار کرنے تھے  

میں اب بارروم  کی لائبریری میںچلا گیا  وہاں پے کوئی تین چار وکیل ہی تھے  اس وقت  میں نے میڈم ریحانہ  کو دیکھا وہ  بھی اندر داخل ہوئی مجھے یہ لڑکی  بہت اچھی لگتی تھی کسے ھوے بدن کی مالک یہ ایک زہین وکیل تھی اب سب ہی ایک ایک کر کے بارروم سے جانے لگے پھر بھی میں بیٹھا رہا کیوں کے میں اپنے کل کے کیس کے لئے کچھ نوٹس تیار کر رہا تھا پھر وو اور میں ہی رہ گے وہاں پے میں اب اسے ہی دیکھ رہا تھا  اب میں اس کی طرف جانے لگا،وہ بکس اٹھانے کے لیئے شیلف کی طرف گئی،اس دن وہ بہت زیادہ
 خوبصورت لگ رہی تھی،شیلف زرا ہٹ کر تھی،میں اس کے پیچھے گیا ،میری آہٹ سن کر وہ مڑی مجھے دیکھ کر وہ واپس شیلف کی طرف متوجہ ہو گئی،میں اس کے بلکل ساتھ جا لگا اس کے جسم سے بھینی بھینی مگر ہوش اڑانے والی خوشبو آ رہی تھی ،میں نے دھیرے سے اپنے دونوں ہاتھ اس کی شلوار  پر رکھے اور اس کو ساتھ لگا لیا،وہ ایک دم رک گئی مگر کچھ نہ بولی،میں نے اس کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیے،اس نےایک گہری سانس لی اور شیلف کو مظبوطی سے پکڑ لیا،میں نے اس کو گردن سے چومتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے گالوں پر رکھ دیئے،تو وہ فورا میری طرف مڑی اس کی چھاتی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی ،اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے ،اور اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں،میں اپنا ہوش کھو بیٹھا
میں نے اس کے ہونٹوں کو پوری طاقت سے کس کیا ،اور 4/5 منٹ بعد اس کے منہ میں اپنی زبان ڈال دی ،تھوڑی سی کوشش کے بعد اس کی زبان میری زبان سے ٹچ ہونے لگی ،میرے ہاتھ اب اس کی چوت اور چوت کے درمیاں تھے،میں نے اس کو شیلف کے ساتھ لگا دیا اور اس کی ایک ٹانگ کوتھوڑا سا اٹھا کر اپنا لنڈ اس کی ٹانگوں کے بیچ میں گھسا دیا ،اس کے لیئے مجھے ذرا سا نیچے ہونا پڑا اب میں اس کی چوت  کو سہلا رہا تھا ،اور فرنچ کس کر رہا تھا ،اس کے ہلتے ہوئے بوبز مجھے اور پاگل کر رہے تھے ،اچانک مجھے کسی کے بولنے کی آواز آئی اور ہم فورا الگ ہو گئے،اس کو سانس چڑھ گیا تھا اور اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ،اس نے اپنا دوپٹا اٹھایا اور وہاں سے چلی گئی ، کچھ دیر بعد میں بھی وہاں سے باہر آ گیا

کچھ دیر بعد وہ مجھے نظر آئی ،میں بلکل پاگل ہو چکا تھا میں نے اسے کال  کی وہ  دوبارہ سے بار روم میں آ جاتے وہ  بولی کوئی آ نہ جائے شارق میں نے کہا کوئی نہیں آتا تم آو تو سہی ہم  لائبریری کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھیں گےوہ  جنرل  سیکرٹری ضوان بٹ  کا ہے اور آج وہ  آیا ہی نہیں
جب وہ آئی تو میں وہاں موجود تھا ،اس کا آنا ہی اس کی رضا مندی تھی ،وہ جونہی آئی میں نے اس کو بانہوں میں بھر لیا ،اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا،ساتھ ہی میں اس کے بریسٹ کو مسلنے لگا ،مجھے معلوم تھا کہ یہ ایسی جگہ نہیں کہ جہاں سیف طریقہ سے پورا سیکس انجوائے کیا جا سکے،مگر میں سیکس کرنا چاہتا تھا ،میں نے اس کی قمیض کے بٹن کھولے اورکاندھوں سے اس کی قمیض نیچے سرکا دی
اس کے آف وائٹ برا کا سٹرپ بھی نیچے کر دیا ،تھوڑا سا اور نیچے کرنے کے بعد میں نے ہاتھ ڈال کر اس کا لیفٹ نپل باہر نکال لیا ،
اور اسے منہ میں ڈال کر چوسنے لگا  گردن سے نپل تک ساری جگہ وہ بار بار  اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر چوستا اورکس کرتا رہا نے اپنا بایاں ہاتھ  شلوار میں ڈال دیا ، ہاتھ  چوت کو آہستہ آہستہ سے مسلنے لگا،میں نے اسے وہاں ٹیبل پر بیٹھا دیا اور ریحانہ کی  شلوار گھٹنوں تک نیچے کر دی،
میں نے اس کی شلوار آدھی اتار دی اور اس کی چوت میں اپنی انگلی ڈال دی ،اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے آآآہ ہ ہ کی آواز نکالی اور اپنے ہونٹوں کو کاٹنے لگی،تھوڑی سی محنت کے بعد میں نے اپنی پوری انگلی اس کی چوت میں گھسا دی ،ذرا سی دیر میں انگلی آسانی سے اندر باہر ہونے لگی ،اس کی سفید سی ٹانگوں کے درمیاں گیلی گلابی سی چوت میری برداشت سے باہر ہو چکی تھی،میں نے اپنی پینٹ کی زیپ کھولی اور اپنا لن باہر نکال لیا ،ٹیبل زیادہ اونچی نہیں تھی اس لیئے تھوڑا سا جھکنا پڑا ،میں نے اپنا لن اس کی چوت پر رکھا تو اس نے زور سے ایک آہ لی،میری لن کی ٹوپی اس کی چوت کے پانی سے گیلی ہو چکی تھی میرا لن
 گرم گرم  چوت کے ساتھ رگڑ کھانے لگا ،ہر رگڑ کے ساتھ  چوت سےمزید  پانی نکلتا ، میں نے اس کی شلوار پوری اتا ر دی  قمیض اوپر کی طرف کر دی ،اپنی پینٹ بھی آدھی اتار دی اور اپنا لن اسکی  چوت میں آرام سے ڈالنا شروع کیا ، چوت میں اتنی جگہ نہیں تھی ،مگر  آرام آرام سے ڈالتا رہا ،اسے  بہت درد ہونے لگا ، ریحانہ   لیٹی ہوئی تھی
اب وہ  اٹھی اور میرے   گلے مین بانہیں ڈال دیں ،میں  نے اس کی  ٹانگوں کو کھولا اور کہا  اوپر اٹھا کر   ٹانگیں کھول کر رکھو اس  نے اپنی ٹانگیں کھول دیں اور دونوں پاوں بھی ٹیبل پر رکھ دیے اور اپنے دونوں ہاتھ سہارے کے لیئے پیچھے رکھ لیئے

میں نے ایک ہاتھ اس کی گانڈ پر رکھا اور دوسرے سے لن اندر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا ،میں نے اب لن اس کی چوت پر رکھ کر ذرا سا زور لگایا تو لن کی ٹوپی اندا چلی گئی وہ فوراا چلائی ،پپلیز نکال لو مجھے بہت درد ہو رہا ہے

جوں ہی لن اندر گیا  چوت کے دونوں ہونٹوں پر کھنچائو سا ہوا،اورریحانہ   کو   بہت درد ہونے لگا ، میں نے اس کے  ہونٹوں پر کس کیا ،اور اسے اب  لٹا دیا ،اس کی  ٹانگیں اپنے کاندھوں پر رکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سےاس کی کمر  پکڑ لی ،اور ایک جھٹکا لگا اوراسکی   چیخ نکل گئی اسکے  چلانے کی وجہ سے میں نے  پندرہ سیکنڈ انتظار کیا پھراپنے لن کو  باہر کی طرف کھینچا مگر ٹوپی اندر کی طرف ہی رہنے دی
اس کی چوت میں  نے دوسری بار جھٹکا لگایا تو اب کی بار وہ چلائی نہیں مگر اس نے میرا لن پکڑ لیا اور باہر نکالنے لگی ،میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو کس کیا اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے،مجھے پتا ہے اسے
 بہت درد ہو رہا تھا پر میں لن  ،باہر نکالنے پر راضی نہیں تھا  ذرا سا انتظار کر کے پھر جھٹکا لگایا اس باراسے  درد کم ہوا اب اسے  کچھ  مزا آیا ،ہر جھٹکے کے ساتھ اسے درد کم اور مزا زیادہ آنے لگا ،اب میں  اور تیزی سے دھکے لگا رہا تھا ،
لن آرام سے اندر جانے لگا تو میں اس کو تیزی سے چودنے لگا ،تھوڑی دیر بعد میں نے اس کو اٹھا کر بٹھا دیا اور اس کے ہونٹوں اور نپلز کو کس کرنے لگا ،وہ بھی کسنگ میں میرا ساتھ دینے لگی،میں ٹیبل پر لیٹ کر اسے زور زور سے چودنے لگا
اسکے
 اوپر لیٹنے کے بعد  بڑی تیزی سے اپنا لن اس کی چوت کے  اندر باہر کرنے لگا ،اس طریقے سے  چوت کو بہت تیزی سے رگڑ لگ رہی تھی ،پھر  لگا کہ میرے  لن میں سے کچھ نکل رہا ہے ،جو اسکی  چوت میں نکلتا رہا اب وو اپنے اندر ایک راحت سی ا محسوس کر رہی تھی اور میں  بے دم ہو کر اس کے  اوپر لیٹ گیا، کچھ دیر ایسے ہی لٹے رہے ہم ٹیبل پے اور ایک  دوسرے کے ہونٹ چوستے رہے وو بولی شارق آپ نے مجھے آج کافی مزہ دیا ہے کوئی دو سال کے بعد میری اس چوت میں لن گیا ہے وہ بھی اتنا بڑا  آپ مجھے موقع با موقع ملتے رہا کرو میںنے کہا یہ تو ایک ٹریلر ہے اصل مزہ تب آے گا جب میں یہ کیس جیت جاؤں گا وارثی والا آپ کی گانڈ اور چوت سے اس دن سہی سے اپنے لن کی فائٹ  کرواؤں گا وہ ہنس دی اور کہا مجھے انتیظار رہے گا اس لمحے کا
میں اٹھا اور اس کو کس کرتے ہوئے اپنی پینٹ اوپر کی مجھے اپنی پینٹ ذرا سی گیلی محسوس ہوئی ،اس کی چوت کے پانی  نے میری پینٹ گیلی کر دی تھی،اس نے شلوار پہن لی اور اپنے کپڑے ٹھیک کرنے لگی،پھر ہم الگ الگ وہاں سے روانہ ہوئے