SS STORIES WORLD

About Me
Munere veritus fierent cu sed, congue altera mea te, ex clita eripuit evertitur duo. Legendos tractatos honestatis ad mel. Legendos tractatos honestatis ad mel. , click here →

نشیلی آنکھیں

محبت سیکس کے بنا ادھوری ہے.

بینڈ باجا بارات

وہ دلہن بنی تھی لیکن اسکی چوت سے کسی اور کی منی ٹپک رہی تھی.

پہلا پہلا پیار

محبت کے اُن لمحوں کی کہانی جب انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے.

میرا دیوانہ پن

معاشرے کے ایک باغی کی کہانی.

چھوٹی چوہدرائن

ایک لڑکے کی محبت کا قصہ جس پر ایک چوہدری کی بیٹی فدا تھی.

منگل، 27 جولائی، 2021

زندگی میں پہلی بار

 


زندگی میں پہلی بار

تحریر: مسکان

میری ایک بڑی بہن ھے سعدیہ اسکی شا دی کرا چی میں ہو ئی تھی۔میں 9کلا س میں پڑہتی تھی۔پر میرا فگر اور قد کا ٹھ کسی 18 سال کی لڑکی جتنا تھا۔ قدرت نے حسن اور دل کھو ل کر دیا تھا۔مجھے ابو جٹنی کے نا م سے پکارتے تھے میرے ھمسایےمیں ابو کے دوست ریاض رہتے تھے جن کے پا س میں ٹیوشن پڑہتی تھی وہ اکیلے رہتے تھے ۔انکی بیو ی فوت ھو چکی تھی وہ ایک گورنمنٹ ٹیچر تھے ۔وہ ایک جون کی سخت دوپہر تھی ویسے میں شام کو جا تی تھی پڑھنے پر پیپرز سر پر تھے اور مجھے تیاری کرنی تھی تو میں سکول سے آکر کھانا کھا کر چل پڑی ٹیوشن پڑھنے۔ ریاض صاہب کے گھر کی بیل بجائی کافی دیر تک کوئی نہیں نکلا میں واپس جانے کے لیے مڑ ہی رہی تھی تو دروازہ کھلنے کی آواز آئی سر ریا ض نے دروازہ کھولا سر کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں سر نے کپڑے بھی سونے والے پہنے ہوئے تھے انہوں نے بنیا ن اور دھوتی پہنی ہوئی تھی ۔مجھے شرمندگی ہوئی میں نے سر کو نیند سے اٹھا دیا ۔میں نے کہا:سر آپ آرام کریں میں شام کو آجا ئو گی سر:نہں کو ئی با ت نہیں اندر آ جا ؤ میں اندر آ گئی سر مونھ ھاتھ دھونے واش روم میں چلے گئے میں اندر آ کر بیٹھ گی۔اور کتا بیں کھول لیں تھوڑی دیر بعد سر بھی آ کر بیٹھ گئے ۔سر کی عمر تقریبا45 سال کے لگ بھگ تھی سر کا رنگ کا لا تھا اور سر کا رعب ایسا تھا محلے کے چھوٹے بڑے سب سر سے ڈرتے تھے ۔سر جب ڈانتے تھے میں خود ڈر جا تی تھی۔حالانکہ آج تک سر نے ما را نہیں تھا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو سر اونگھ رہے تھے میں نے دل میں سوچا سر میری وجہ سے ڈسٹرب ھو رے ھہیں میری اتنی ھمت نھیں ھو رہی تھی کہ سر کو جگا سکوں۔میں پھر سے کتا بو ں میں مگن ھو گئی تھی ۔ایک سوا ل سمجھ نہیں آ رہا تھا میں نےسوچا سر سے پوچھتی ہوں میں نے کتا ب سے سر اٹھایا ۔میرے آوسا ن خطا ھو گئے سر نیند میں تھے اور بے خیا لی میں انکی دھوتی سا ئیڈ پر ھو گئی تھی اور دھوتی سے ایک موٹا تا زہ کا لا نا نگ نما لنڈ باہر نکلا ہو ا تھا میرا سانس او پر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا میں نے جلدی سے نظر یں دوبا رہ کتا ب پر جما لیں ۔میں نے زندگی میں پہلی با ر کسی مرد کا لنڈ دیکھا تھا ۔میرے دما غ میں وہی منظر چل رھا تھا میں نے دوبا رہ نظریں اٹھا کر دیکھا کے شا ید سر نے دھو تی سہی کر لی ہو پر وہا ں ویسے ہی انکا کالا نا نگ نطر آرہا تھا میں نے پھر نطریں جھکا لی پتا نہیں کیسی کشمکش چل رہی تھی میرے اندر میں چاہ کر بھی کتا ب میں دھیا ن نھیں لگا پا رہی تھی۔میں ایسے دیکھ رہی تھی کہ اچانک سر کی آنکھ کھل گئی اور مجھے اپنے لنڈ کو دیکھتے ھوئے دیکھ لیا میں نے جلدی سے سر جھکا لیا سر نے جلدی سے اپنی دھوتی کو ٹھیک کیا مارے شرمندگی کے میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جا ئے اور میں اس میں سما جا وں سر پتا نہیں کیا سو چ رہے ھو نگے میر ے با رے میں کہ میں کیسی لڑکی ہوں۔سر اب مجھے غور سے دیکھ رہے تھے سر نے کہا کو نسا سوال ہے جو سمجھ نہیں آ رہا میں آٹھ کر سر کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور سر مجھے سوال سمجھا نے لگےپر کچھ سمجھ نھیں آرہا تھا میرے دما غ میں مارے شرمندگی کے اور کچھ نہیں تھا۔ سر نے سوال سمجھا کر کہا جاؤجا کر سوال کر کے دکھاؤ میں نے سر جھکا کر کا پی پکڑنی چاہی جو انہوں نے گود میں رکھی ہوئی تھی ۔ سر نے جا ن بوجھ کر کا پی سا ئیڈ پر کر لی جسکی وجہ سےمیرا ھاتھ انکے لنڈ سے جا ٹکرایا میرا گھبرا کر ھاتھ پیچھے کرنے لگی تو سر نےمیرا ھا تھ پکڑ کراپنے لنڈ پر رکھ دیا ۔ گھبراہٹ کے مارے ایسا لگ رھا تھا گویا جسم میں جان ھی نا ھو۔سر نے مجھے پکڑ کر اپنے سا تھ لگا لیا اور میرے ھو نٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ دیے اور مجھے کس کرنا شروع کر دیا میرے ھونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا میں نے کسنگ کافی بار فلموں میں دیکھی تھی پر کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی مرد مجھے ایسے کسنگ کرے گا۔سر کے مونھ سے سگریٹ اور ایک اجیب سی سمیل آرہی تھی۔میں مکمل اس کے رحم و کرم پر تھی۔وہ کبھی ہونٹوں کو چوستا کبھی اپنی زبان میرے مونھ میں ڈال دیتا ۔میں گم سم سر کے لنڈ پر ھاتھ رکے خاموش بیٹھی تھی۔کہ کب سر مجھے چھوڑیں گے۔سر کا ھاتھ میرے سینے پر آزادانہ گھم رھا تھامیرے دونوں مموں کو سر دبا رھے تھےمیری نپلز کو سرنے قمیض کے اوپر سے دبانا شروع کر دیا تھا۔میری سانس پھول چکی تھی ۔میری سسکیاں نکلنا شروع ہو چکی تھی ۔سر تھے کہ رکنے کا نام ھی نہیں لے رہے تھے میں نے زور لگا کر سر سے اپنا آپ چھڑایا تو سر نے مئجھے چھوڑ دیا سر نے اپنا لنڈ با ہر نکال لیا تھا اور میری گردن کو پکڑ کر مجھے اپنے لنڈ کی طرف دھکیلنا شروع کیا میں نھیں سمجھی سر کیا کرنا چاہ رہے تھےمیں نے خود کو چھڑانے کی کوشش کرنی لگ پڑی سر نے کہا: فوزیہ اسکو منھ میں لو۔ مییں دڑ گئی کہ ایک گندی چیز جس سے پیشاپ نکلتا ھے اسکو سر منھ میں لینے کا کہ رھے ھیں۔مجھے کچھ اور نا سوجھا میں پانی پینے کے بہانے اٹھ کھڑی ہوئی۔سر کی فریج انکے بیڈ روم میں رکھی ہوئی تھی۔سر کے بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی میری نطر سر کی ٹیبل پر پڑی میں حیران ھو گئی ۔وہاں شراب کی بو تل جو کہ آدھی خالی تھی پڑی تھی اب میں سمجھ گئی کہ سر کے منھ سے سمیل کیوں آرہی تھی اور انکی آنکھیں لال کیوں ہو رہی تھیں ۔میں نے فلموں اور ڈراموں میں شراب پیتے لوگوں کو دیکھا تھا اس لیئے میں بوتل دیکھتے پہچان گئی تھی۔میں دڑ گئی دل میں تہیہ کر لیا کہ پانی پیتے ہی گھر چلی جائوگی۔میں نے فریج سے پا نی نکالا اور بوتل کو مونھ لگا لیا۔ابھی پانی پی ہی رہی تھی کہ سر نے مجھے پیچھے سے آ کر دبوچ لیا میرے ھاتھ سے بوتل چھوٹ کر نیچے گر گئی میں خود کو چھڑانا چاہ رہی تھی پر کامیاب نہیں ھو پا رہی تھی ابھی کشمکش جا ری تھی سر نے مجھے ساتھ پڑے بیڈ پر پٹخ دیا میں منھ کے بل بیڈ پر جا گری ابھی سنمھل ہی نہیں پائی تھی کہ سر میرے اوپر چڑھ گے میں نے اٹھنے کی کوشش کی پر سر نے ایک ھاتھ سے مجھے گردن سے پکڑ کر بیڈ پر الٹا لیٹائےرکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری شلوار گھٹنو ں تک اتار دی۔میں دیکھ نہیں پا رہی تھی سر کیا کرنے والے ہیں۔ میں پیٹ کے بل بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی سر نے گردن سے پکڑ رکھا تھا اورمیرا منھہ بیڈکی طرف تھا۔ ٹانگوں پر سر بیٹھے تھے میں بلکل بے بس ہو چکی تھی۔سر نے اچانک اپنے ہا تھ پر تھوک دیا اور تھوک میری چوت پر لگا دیا اور اچا نک کوئی گرم چیز میری چوت پر رگڑنا شروع کر دی میں سمجھ گئی کہ یہ سر کا لنڈ ہے اب بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی میں نے سر کو واسطے دینا شروع کر دیئے ابھی میں منتیں کر ہی رہی تھی کہ سر نے ایک جھٹکا دیا میرے الفاظ منھ میں ہی تھے ان کی جگہ ایک زوردار چیخ نے لے لی مجھے ایسا محسوس ہوا کسی نے جلتی ہوئی گرم سلاخ میری چو ت میں ڈال دی ہو۔میں تڑپ اٹھی کوشش کرنی لگ پڑی نیچے سے نکلنے کی پر میں پوری طرح قابو میں آچکی تھی۔ابھی سمنھل ہی نہ پائی تھی کہ سر نے دوسرا جھٹکا مارا میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا مجھے ایسا محسوس ھو رھا تھا میری ٹانگوں کے بیچ کی جگہ چر گئی ہو۔میری چیخ کمرے میں گونج چکی تھی ۔۔۔۔ہائے امی میں مر گئی ۔۔۔۔اسے باہر نکالو ۔۔۔۔میں مر جاؤں گی ۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی چاقو میں چوت میں مارا گیا ہو ۔۔۔میں بری طریقے سے تڑپ رہی تھی۔انکھوں سے آنسو رواں تھے۔میں سر کے نیچے زبح کی ہوئی مرغی کی طرح پھڑپھڑارہی تھی۔سر کو میری حالت پر کوئی رحم نہیں آرہا تھا۔وہ کسی وحشی کی طرح مجھ پرٹوٹے پڑے تھے۔پیچھے سے میری گردن پر کاٹ رھے تھے کبھی میری کان کی لو کو مونھ میں لے کرچوس رہے تھے۔۔سر نے جھٹکوں کی رفتار تیز کر دی تھی۔ابھی چوت کا دردسے سنمھل نہی پائی تھی کے سر کا لنڈ جو میری چوت میں تبا ہی پھیلا رہا تھا۔وہ باہر نکل آیا سر نے دوبارہ اندر ڈالنے کی کو شش کی پر نشے میں ہونے کی وجہ سےسر کو پتا نہیں لگا اور سر نے لنڈ میری گانڈ پر رکھ کر زور سے جھٹکا مارا تو لنڈکا کچھ حصہ میری گانڈ کو چیرتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔مجھے لگا میرا سانس رک گیا ہو۔ میں مچھلی کی طرح تڑپ اٹھی میری اتنی زور سے چیخ نکلی کہ سر بھی گھبرا کر میرے اوپر سے اتر آئے ۔میں پورے بیڈ پر پانی سے نکالی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی لگ رھا تھا کسی نے گانڈ میں مرچیں ڈال دی ہوں۔کچھ دیر بعد درد برداشت کے قابل ہوا تو میں اٹھ بیٹھی ۔میری نظر اپنی ٹانگوں اوربیڈ شیٹ پر پڑی تو خون دیکھ کر میں گھبرا گئی تھی رو رہ کر پہلے ہی گلا خشک ہو چکا تھا۔سر نے پانی لا کر مجھے پلایا میں نے سر کے آگے ہا تھ جوڑ دئیے کہ سر مجھے جانے دیں۔سر نے دیکھا میں کچھ سنبھل گئی ہوں تو مجھے پیچھے دکھیل کر میری شلوار اتاردی۔اور دونوں ٹانگوں کے بیچ میں آکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے پریشان نہ ہو اب درد نہں ہوگا اور ناہی اور خوں نکلے گااور میں خیال رکھونگا کہ میرا لنڈ اب تمھاری گانڈ میں نہیں جائے۔میر ے منھ سے بس ایک ہی جملہ نکل رہا تھا سر مجھے جا نے دیں ۔سر نے کہا بس 5 منٹ اور اس کے بعد تم چلی جانا ۔سر نے دوبا رہ لنڈ پر تھو ک لگا یا اور میر ی چوت پڑ رگڑنے لگے میں نے خود کو دوبارہ درد کے لئیے زہنی طور پر تیا ر کر لیا تھا۔سر نے اب آہستا آہستا اندر ڈالنا شروع کیا درد کی لہر دوبارہ اٹھی چوت میں پر اس با ر اتنا درد نہیں ہو رہا تھا برداشت کے قا بل تھا ۔سر نے کہا تمھاری چوت میں ابھی تک آدھا لنڈ ڈال سکا ہوں میں سوچ میں پڑ گئی کہ آدھے لنڈ نے مجھے اتنا تڑپایا ہے تو پورا لنڈ کیا غضب ڈھائے گا۔میں نے روتے ہوئے ہا تھ جوڑ دئے کے جتنا گیا ہے اتنا بہت ھے۔سر نے کہا ٹھیک ہے پر میرے سا تھ تعاون کرو جیسا کہونگا کرنا پڑے گا۔میں نے کہا ٹھیک ہے تو سر نے کہا قمیض اوپر کرو میں نے اپنی قمیض اوپر کر دی سر نے میرے پستانوں پر اپنا منھ رکھ دیا اور بوکھے جانور کی طرح نوچنے اور کا ٹنے لگا میری نپلز کومونھ میں لے کر چو سنے لگا ساتھ ہی ساتھ جھٹکے مار رہا تھا مجھے ہر جھٹکے پر یہ محسوس ہو رہا تھا میری چوت چرتی جا رھی ہے پورے کمرے میں میری سسکیا ں اور آہیں گونج رہی تھیں اورسر بے نیازسےمیرےمموں کو چوس رہے تھے۔میں دعا کر رہی تھی کہ جلد سے جلد یہ کام پورا ہو اور میں گھر جاؤں تھوڑی دیر بعد سر ایک زوردار چنگھاڑ کی آواز نکال کر میرے اوپر گر گئےمجھے ایسا لگا کسی نے کوئی گرم ابلتا ہوا سیسہ اندر ڈال دیا ہو۔سر کے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے۔میرے اندر لگ رہا تھا کسی نےگرم فوارہ چلا دیا ہو ۔تھوڑی دیر بعد سر نے اپنا لنڈ نکال دیا اور اٹھ کر بیٹھ گئے ۔میں بے سدھ لیٹی ہوئی تھی میرے جسم میں جان نہی تھی کہ میں اٹھ سکوں جیسے تیسے کر کے اٹھ کر میں نے بے اختیار چوت کی طرف نگا ہ ماری کہ کہیں دوبارہ خون تو نہیں نکل آیا پر اب خون کی جگہ گاڑھا زرد پانی نکل رہا تھا۔میری ٹانگیں اور بستر چوت سے نکلنے والے پانی نے گیلے کر دیئےتھے۔میں نے روتے ہوئے شلوار پہننا شروع کر دی تھی۔حالانکہ میرے جسم میں جان تک نہ تھی پر جیسے تیسے کر کے شلوار پہن لی مجھے ڈر تھا کہیں یہ کھیل دوبارہ نا شروع ہو جا ئے۔سر بے سودھ ھو کر سو گیا تھا میری عزت کو تار تار کر کے کیسے مزے سے سو گیا تھا۔ ۔اور میں گرتے پڑتے جیسے تیسے کر کے اپنے گھر پہنچ گئی۔میری چال اور بکھرے بال میرے اوپر گزرے حال کا بتا رہے تھے مجھے کچھ بتانا ہی نہی پڑا۔میری حالت دیکھ کر امی کے ہاتھ سے برتن گر گئے ان کی جہاندیدہ آنکھوں نے مجھ پر گزری قیامت کو بھانپ لیا تھا۔امی نے جلدی سے مجھے پکڑ کر کمرے میں لے گئیں۔امی نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا میری آنکھو ں سے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔امی نے پو چھا کون تھا وہ بدبخت۔میرے منھ سے صرف اتنا نکلا سر ریاض اور میں دوبارہ رونے لگ پڑی۔امی نے کہا بیٹا اپنے آپ کو سنمھالو تمہارا ابو گرم دما غ کا آدمی اس نے جو ش میں آکر ریاض کو کچھ کر دیا تو اور جتنا ڈھنڈورا پیٹیں گے بدنامی اپنی ہو گی ہم لڑکی والے ہیں۔باقی ریاض کو میں خود دیکھ لوں گی۔تم کپڑے بدل لو میں تمہارے لیے گرم دودھ لے کر آتی ہوں۔میں لیٹی رہی اٹھنے کودل ںہیں چا رہا تھا نا جسم میں ہمت تھی اٹھنے کی۔ آنکھیں بند کرتی تو وہ سارہ منطر آنکھوں کے سامنے آجا تا۔تھوڑی دیر بعد امی میرے لیے گرم دودہ لے کر آ گئی ۔فوزیہ ابھی تک کپڑے نہیں پہنے تم نے تمھا را ابو آتا ہو گا اس حالت میں تم کو دیکھ کر وہ سمجھ جائے گا ۔تمہا ری شلوار پر خون کے داغ ہیں۔امی نے مجھے کپڑے پہنانے میں مدد کی میں دوبارہ بیڈ پر گر گئی ۔امی نے مجھے دودھ پکڑایا اور ساتھ 3 گولیا ں پکڑا دی کہا : یہ کھا لو۔ میں نے کہا یہ کس چیز کی گو لیا ں ہیں امی نے کہا:ایک پین کلر ہے اور 2 گولیاں مانع حمل کی ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا:وہ کس لیئے امی نے کہا :بس چپ کر کے کھالو میں گولیاں کھا کر دودھ پی کردوبارہ لیٹ گئی۔ میری آنکھ لگ گئی شام کو ابوکی با ئیک کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی ۔جب سے ہوش سنمھالا تھا میری عادت تھی کہ جیسے ابو گھر آتے میں سب سے پہلے انکو ملتی تھی اور ان سے سامان پکڑ کر رکھتی تھی۔ وہ روز میرے لیئے بازار سے کچھ کھانے کے لئیےلاتے تھے۔اس دن مجھے سامنے نا پا کر پریشان ہو گئے تھے امی سے پوچھا فو زیہ پتر کہا ں ہے امی نے کہا اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ابو نے جلدی سے سامان زمین پر رکھا اور میرے کمرے کی طرف چل دئیے کمرے میں ابو داخل ہوے اور کہا کیا ہوا ہے میری جٹنی کو میں نے ابو کی آواز سن کر بھی آنکھیں نہیں کھو لی میری ہمت نہیں ھو رہی تھی ابو سے آنکھ ملا نے کی۔ ابو نے میرے ما تھے کو چھو کر دیکھا بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے مجھے روتا دیکھ کر ابو پریشان ہو گئے اور کہا: روتی کیوں ہے پگلی چل ڈاکٹر کو دکھا آتے ہیں۔امی نے گھبرا کر کہا نہیں اب ٹھیک ہے میں نے اسکو گولیاں کھلا دی تھیں۔بخار اتر گیا ہے ۔اس نے دراصل امتحانات کی کچھ زیا دہ ہی ٹینشن لے لی ہے۔ابو نے کہا چلو ٹھیک ہے تم آرام کرو ۔ابو کے جا نے کے بعد پتا نہیں کب آنکھ لگی اچا نک رات کو ڈراونا خواب دیکھ کر آنکھ کھل گئی تھی۔خواب میں ایک خوفناک درندے کو اپنے اوپر حملہ کرتے دیکھا تھا۔دوبارہ سونے کی کوشش کرتے کرتے کافی دیر لگی ۔صبح 9 بجے دوبا رہ آنکھ کھلی تو ابو جا چکے تھے۔جسم میں پورے درد تھا اٹھتے کا دل نہیں کر رہا تھا اٹھ کر کمرے سے با ہر نکلی تو امی نا شتہ بنا رہی تھیں۔امی نے کہا جاو نہا لو پھر نا شتہ کرتے ہیں۔ میں نے واش روم کی طرف چل پڑی چلنے میں ٹانگوں کے بیچ اور گانڈ میں ہلکی ہلکی درد ہو رہی تھی۔ واش روم میں جا کر میں نےکپڑےاتارےتو دیکھا میرے پستانوں پر ریاض کے دانتوں کے نشان تھے۔جو اب با قائدہ زخم کی صورت اختیار کر چکے تھے۔چوت بھی سوجھی ہوئی لگ رہی تھی۔نہا کر میں با ہر نکلی تو امی نے ناشتہ لگا دیا تھا۔ہم دونوں نے مل کر نا شتہ کیا پرہم دونوں کے بیچ کو ئی با ت نہہں ہو ئی تھی میں نے خاموشی سے ناشتہ کیا ورنہ میں پورے گھر میں سب سے زیادہ ہنس مکھ مشہور تھی۔امی نے کہا میں زرا با زار تک جا رہی ہوں کنڈی لگا لینا میں نے کہا بازار سے زخموں پر لگانے والی مرہم تو لیتے آنا امی نے پوچھا کہاں لگا نی ہے۔ اس واقعے کے اثر سے نکلنے کے لئیے مجھے ہفتہ لگ گیا ایک ہفتے تک میں اسکول بھی نہیں گئی آہستہ آہستہ میں دوبارہ اپنی روٹین لائف میں واپس آتی گئی اور میری ہنسی اور قہقہے بھی واپس آتے گئےجسکی سب سےزیا دہ خوشی میرے والد کو ہوئی تھی کیونکہ میری ہنسی کو دیکھ کر وہ جیتے تھے۔ میں نے اسکو ل جانا شروع کر دیا تھا ۔میری اسکول میں ایک ہی دوست تھی جسکا نام ماریہ تھا اسکول میں اسکی ریپوٹیشن کچھ اچھی نہیں تھی اسکے با رے میں بہت سے قصے مشہور تھے۔اسکا کا فی لڑکو ں کے سا تھ نا م جوڑا جا تا تھا ۔پر میں نے کبھی اس سے اس با رے میں بات نہیں کی تھی ۔میں جیسے اسکول میں دا خل ہوئی تو سامنے سے ماریہ کو آتے دیکھا ما ریہ نے کہا کہاں گم ہو ہفتے سے میں نے کہا یار میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ ماریہ : یار آج خدا سے کچھ اور مانگتی تو وہ بھی مل جاتا شکر ہے تم آج آگئی مجھے تم سے ایک کام ہے میں نے پوچھا : کیا کام ہے ماریہ:یار اسکول سےواپسی پر میں نے کام سے جانا ہے اگر میری امی کا فو ن آئے تو تم کہنا ماریہ میرے سا تھ ہے۔ میں :کہاں جانا ہے جو امی سے چھپا رہی ہو ماریہ:پاگل ڈیٹ پر جانا ہے اب کیا امی کو بتا کر جاؤں۔ میں:یار تم کب سدھرو گی ماریہ نے مجھے جھپی ڈال کر آنکھ مار کر کہا یار زندگی کا مزا جتنا لے سکتی ہو لوٹ لوکل ہو نا ہو۔ میں نےہامی بھر لی تو ماریہ نے میرا گال چوم لیا میں نے ہنس کر کہا بد تمیز اب چھوڑو بھی مجھے ہم دونوں ہنستے ہوئے کلاس میں داخل ہو گئے۔ آدھی چھٹی ہوئی تو ہم دونوں جا کر لان میں بیٹھ گئے وہ ہماری پسندیدہ جگہ تھی وہاں درخت لگےہوئے تھے جنکی ٹھنڈی ہوا ہم دونوں کو بہت پسند تھی۔ مجھے کچھ نوٹس اتارنے تھے کیونکہ میں ایک ہفتے سے اسکول نہیں آئی تھی تو کافی کام جمع ہو گیا تھا۔اگلے ہفتے پیپر تھے۔لان میں بیٹھ کر میں نے ماریہ کو کہا جاؤ کچھ کھانے کو لے آؤماریہ جانے لگی تو میں نے کہا اپنا موبائیل دینا مجھے نوٹس اتارنے ھیں کیونکہ ہماری ٹیچرز نے ایک واٹس ایپ گروپ بنا رکھا تھا جس میں سارے نوٹس مل جاتے تھے میں اپنا موبائیل نہیں لاتی تھی اسکول کیونکہ میڈیم منع کرتی تھی موبائیل لانے کو۔مجھے پتا تھا ماریہ اسکول میں موبائل لاتی تھی چوری چھپے۔ماریہ تھوڑا ہچکچائی پھر موبائیل کا پاسورڑ کھول کر واٹس ایپ چلا کر مجھے دے دیا۔خودکینٹین کی طرف چل دی۔میں موبائیل میں ابھی نو ٹس پڑھ ہی رہی تھی تو ایک میسج آگیا میری عادت نہیں تھی ماریہ کے میسیج پڑھنے کی پر جیسے میرا دھیان میسیج بھیجنے والے کے نام پر پڑا تو بے اختیار میسیج کھول لیا ۔کیونکہ وہ میسیج میرے نام سے آیا تھا ۔ میں نے جب میسیج کھولا تب پتا چلا ماریہ نے میرے نام سےکسی لڑکے کا نمبر سیو کیا ہوا تھا تاکہ کبھی اسکی کال آئے تو اسکی امی کو شک نا پڑجائے۔میں بے خیالی میں اوپر اسکرول کیا تو تصاویر دیکھ کر میں بری طرح چونک گئی ماریہ نے اس لڑکے کو اپنی ننگی تصاویر بھیجی تھیں جس میں اسکے پستانوں اور چو ت کی تصاویر شامل تھیں۔لڑکے نے بھی اسکو اپنے لنڈ کی تصاویر بھیجی تھیں ۔ماریہ نے اپنے میسیجز میں اسکو اپنی چوت میں لینے کے لیے بے تابی کا اظہار کیا تھا۔ان سب کے علاوہ اور بہت سی انگلش ننگی تصاویر شا مل تھیں ۔میں نے سامنے سے ما ریہ کو آتے دیکھا تو جلدی سے موبا ئیل لاک کر دیا ۔ماریہ سموسے لے کرآئی تھی ۔میری اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر اسکو کچھ شک پڑ گیا اس نے جیسے ہی موبا ئیل کو اوپن کیا تو سامنے وہی میسیجز کھل گئے کیونکہ میں نے گھبراہٹ میں واٹس ایپ کو بند کرنا بھو ل گئی تھی۔ میں سر جھکا کر بیٹھی تھی ہم دونوں کے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی کافی دیر۔آخر کار ماریہ نے خاموشی کا پردہ چاک کیا ماریہ:تم نے میرے میسیجز پڑھ لیے ہیں کوئی بات نہیں ہم دوست ہیں ہم دونوں کے بیچ کوئی پردہ نہیں ہونا چا ہیے۔ میں :تم نے اپنی ایسی تصاویر کیوں اسکو بھیجی ہیں ماریہ:یار یہ سب چلتا ہے ۔ میں :تم شادی سے پہلے اس انجان لڑکے کے ساتھ سیکس کرنا چاہ رہی ہو ماریہ ہنستے ہوئے:جان سیکس بھی انسان کی بھوک کی طرح ایک ضرورت ہے۔ میں:تم کب سے اس لڑکے کے ساتھ یہ سب کر رہی ہو ماریہ:اس کے ساتھ فرسٹ ٹائم ہےپر اس سے پہلے دو اور لڑکے تھے۔جن کے ساتھ میرا تعلق تھا۔ میں:اگر تمہاری امی کو پتا چل گیا تو ماریہ:ان کو کیسے پتا چلے گا تم بس کوئی بھانڈا نا پھوڑ دینا میں:میں نہیں بتاؤں گی پر تمہارے خون والے کپڑے دیکھ کر امی سمجھ جائیں گی۔ ماریہ ہنستے ہوئے:پاگل خون کیوں نکلے گا میرا کونسا پہلی بار ہے۔ میرے منھ سے اچا نک نکل گیا پر میری امی کو تو پتا چل گیا تھا۔ ماریہ نے چونکتے ہوئے کہا:کیامطلب اسکا مطلب تم نے بھی کسی سےسیکس کیا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں خود کو کوستے ہوئے کہا چلو کلاس کا ٹا ئم ہو گیا ہے۔ وہ میرے پیچھے پڑ گئی میں نے کہا اچھا کل بتاؤں گی ۔میں نے دل میں سوچا کل تک اسکے زہن سے بات نکل جائے گی۔ ہم کلاس میں چلے گئے چھٹی کے بعد میں اسکول سے نکلی تو ماریہ میرے پیچھے چل پڑی میں نے کہا تمہا را گھر اس سائیڈ تو نہیں ہے تو کہنے لگی میں کچھ دور تمھارے ساتھ چلوں گی جب کچھ لڑکیوں کا رش کم ہو جائے گا تو میں اپنے فرینڈ کی گا ڑی میں بیٹھ جاؤں گی۔جو کچھ فاصلے پر کھڑی ہے اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلیک کلر کی گاڑی دکھائی ۔میں خاموشی سے چل پڑی۔تھوڑی دور چلنے کے بعد جب کافی رش کم ہو گیا تو ماریہ نے فون پر اپنے فرینڈ کو کہا گاڑی لے آؤ۔گاڑی ہمارے نزدیک آکر رکی ماریہ دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔ ماریہ:آؤ تم کو گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ میں:نہیں میں چلی جاؤں گی پیدل ماریہ:اچھا چلو جیسے تمہاری مرضی۔ ماریہ نے دروازہ بند کر دیا اور گاڑی چل پڑی۔اور میں سوچوں میں گم گھر کی طرف چل پڑی۔ گھر پوہنچی تو پتا لگا گاؤں سے میرا کزن ارشد آیا ہوا تھا۔ارشد میرے چاچا کا لڑکا تھا وہ فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا۔ااسکو دیکھ کر میں بہت خوش ہوئی کیونکہ میری اسکے ساتھ بہت جمتی تھی ۔میں نے اس کو سلام کیا ارشد:لگتا ہے آج کل بہت زورں سے پڑھائی جاری ہے۔ میں:جی ارشد بھائی پیپر جو سر پر آگئے ہیں۔ ارشد :اچھا جی اسکا مطلب ہے لڈو اب ہم پیپرز کے بعد کھیل سکیں گے۔ اصل میں ہم دونوں کی شرطیں لگا کرتی تھیں لڈو میں ۔کئی بار ہم لڑ پڑتے تھے۔ میں : نہیں ایسی با ت نہیں ہے ہم لڈو آج ہی کھیلیں گے ارشد:اس کا مطلب ہے تم نے تیاری خو ب کر لی ہے۔ ہم دونوں کی نوک جھوک دیکھ کر امی ہنس پڑی امی نے کہا ارشد بیٹے کو کھانا تو کھانے دو نا حال نا حوال بس آتے ہی لڈو کی پڑ گئی۔ ہم دونوں ہنس پڑے۔میں نے کمرے میں آکر یونیفارم تبدیل کیا اور اپنا موبائیل کو اٹھا لیا ۔ابھی موبائیل میں میسیجز پڑھ ھی رہی تھی کے ماریہ کی امی کی کال آ گئی ۔میں نے ان کو جھوٹ بول دیا کہ ماریہ میرے ساتھ ہے ہم پیپرز کی تیاری کر رہی ہیں ۔جیسے ہی انکا فون بند ہوا میں نے ماریہ کو میسج کر دیا کہ تم جتنا جلدی ہو سکے گھر پہنچ جاؤ۔ مجھے پریشانی رہی کہ دوبارہ ماریہ کی امی کا فون نہ آجائے پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ صبح اٹھ کر تیا ر ہو کر اسکول کے لیے روانہ ہو ہوگئی اسکول پہنچ کر میری نطریں ماریہ کو ڈھونڈ رہی تھیں۔کلاس میں جیسے داخل ہوئی ماریہ کو سامنے دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔آدھی چھوٹی جیسے ہوئی ہم دونوں اپنی پسندیدہ جگہ کی طرف چل دیے۔لان میں بیٹھ کر میرا پہلا سوال یہ تھا میں:تمہاری امی کو شک تو نہیں پڑا ماریہ:نہیں ان کو زرہ بھی شک نہیں پڑا۔اس کو چھوڑو تم بتاؤ اپنی اسٹوری کس نے تم کو کلی سے پھول بنا دیا میں:چھوڑو ایسی کوئی بات نہیں دل میں خود کو کوسنے لگ پڑی کہ کل خامخواہ منھ سے بات نکل گئی اب ماریہ کی بچی پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ ماریہ:اگر مجھ پر اعتبار نہیں ہے تو مت بتاؤ اس نے زیادہ زور لگایا تو میں نے سب کچھ بتا دیا ماریہ مزے لے کر سب کچھ سن رہی تھی۔اور کرید کرید کر پوچھ رہی تھی۔ میں نے سب کچھ بتا نے کے بعد اس سے وعدہ لیا کہ کسی کو مت بتانا ماریہ:پاگل ہوں کیا اپنی سب سے پیاری سہیلی کا راز کسی کو بتاؤں گی۔ اسکے بعد میں نے اس سے اسکے کل والے واقعے کے بارے میں پوچھا۔ ماریہ نے اپنی سیکس کی اسٹوری مزے لے لے کر سنانا شروع کر دی تھی،اس آدھے گھنٹے میں اس نے مجھے سیکس کی اتنی نالیج دی ۔ٹپس دیں نیٹ سے سیکسی تصاویر دکھائیں نیٹ میرے موبائل میں بھی تھا میں نے آج تک ایسی کوئی تصاویر نہیں دیکھیں تھی کچھ ایسی تصاویر تھیں جن میں لڑکی نے مرد کا لنڈ منھ میں لیا ہوا تھا۔ میں:کتنی گندی لڑکی ہے مرد کا لن منھ میں لیا ہوا ہے ماریہ:پاگل اس کو اورل سیکس کہتے ہیں یہ سیکس کی جان ہےاس کے بغیر سیکس ادھورا ہےروکو ایک اور تصویر دکھاتی ہوں ماریہ نے موبائیل میں کچھ اور ٹائپ کیا۔اور ایک تصویر دکھائی جس میں مرد عورت کی پھدی کو چاٹ رہا تھا،دوسری تصویر میں دو لڑکیاں ایک دوسرے کی پھدیاں چاٹ رہی تھیں۔ میں:ایسا صرف انگریز کرتے ہوں گے۔ ماریہ:نہیں پاگل سب کرتے ہیں میں خود اپنے تمام بوائے فرینڈز کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہوں میں:تم کرتی ہو تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے سب کرتے ہوں گے۔ ماریہ :یار سب کرتے ہیں اس کے بغیر سیکس کا کوئی مزہ نہیں ہے۔میرے ابو امی بھی اورل سیکس کرتے ہیں۔ میرا منھ کھلا رہ گیا میں:تم نے انکو کہا ں دیکھا ماریہ:میں نے چوری چھپے انکا سیکس کافی بار دیکھا ہے۔ میں حیران رہ گئی اسکی باتیں سن کرکہ کیسی اولاد ہے جو اپنے ماں باپ کو سیکس کرتے چوری چھپے دیکھتی ہے۔ماریہ کا باپ ایک مولوی تھا اسکو دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ وہ ایسا کرتا ہوگا۔ ماریہ:تم سوچ رہی ہو گی کہ میرا باپ مولوی ہے وہ ایسا کام کیسے کر سکتا ہے میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ماریہ:میرا باپ نے ہمارے گھر کام کرنے والی آتی ہے اسکو بھی نہیں چھوڑا ہے میں نے ان دونوں کو کافی بار پکڑا ہے، میں : تو تم اپنی ماں کو کیوں نہیں بتا تی اسکے بارے میں۔ ماریہ:جان یہ سیکس کی بھوک ہے جو ہر انسا ن میں ہوتی ہے اسکو حق ہے وہ اپنی بھوک مٹائے جیسے انسا ن کو کھانے پینے کی ظرورت ہوتی ہے ویسے ہی سیکس کی ظرورت ہوتی ہے۔ ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رھے اتنے میں بیل بج گئی میں نے ماریہ کو کہا :باتوں میں ہم نے کچھ کھایا بھی نہیں ۔ ہم کلاس میں چلی گیں چھٹی کے بعد میں گھر پہنچی توامی کو پریشانی میں گھر سے نکلتے دیکھا مجھے دیکھ کر بولیں:شکر ہے تم آ گئیں زبیدہ کے بیٹے کو چوٹ لگ گئی ہے میں اسکے ساتھ ہسپتال جا رہی ہوں تم گھر کا خیال رکھنا۔ارشد آئے تو اسکو کھانا بنا کر دے دینا، زبیدہ ہمارے محلے میں رہتی تھی۔اسکا ایک ہی بیٹا تھا جو بہت شرارتی تھا ابھی اسکول جانا شروع کیا تھا5 سال کا تھا پر شرارتوں میں پورے محلے میں مشہور تھا۔
 امی کے جانے کے بعد میں نے یونیفارم بدلا اور لیٹ کر ماریہ کی باتوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔اپنا موبائل اٹھا کر اس میں گندی تصاویر اور ویڈیوز سرچ کرنا شروع کر دیں ویڈیوز دیکھ کر میری چوت میں کچھ کچھ ہونے لگ پڑا۔کچھ دیر ویڈیوز دیکھنے کے بعد میں نے اپنی چوت پر ہاتھ لگایا تو کچھ گیلا پن محسوس کیا۔ماریہ نے مجھے بتایا تھا کہ جب عورت کو مزہ آنے لگتا ہے تو چو ت میں گیلا پن بڑھ جا تا ہے۔کچھ ویڈیوز میں لڑکی گھوڑے یا کتے کے ساتھ سیکس کر رہی تھی۔ماریہ کی بات زہن میں آگئی کہ سیکس کی بھو ک انسان یا جانور نہیں دیکھتی۔ایک ویڈیو میں لڑکی اپنے چوت کو مسل رہی تھی۔اور انگلی ڈال رہی تھی میں نے بھی ایسا کرنا شروع کر دیا ایک عجیب سی لزت میرے پورے جسم میں دوڑنے لگ پڑی۔میں نے موبائل سائیڈ پر رکھا اور ایک ہاتھ سے اپنے مموں کو دبا نے لگی دوسرے ہاتھ سے اپنی چوت کو مسلنے لگ پڑی ابھی ایک دو منٹ گزرے تھے کہ دروازہ کھڑکھڑایا میں گھبرا کر جلدی سے اٹھ پڑی مجھے ایسا لگا جیسے میری چوری پکڑی گئی ہو۔میں نے اپنے کپڑے ٹھیک کئے اور دروازے کی طرف چل دی۔دروازہ کھولا تو سامنے ارشد کھڑا تھا میں سائیڈ پر ہو گئی ارشد اندر آ گیا ۔ارشد اور میں بہت بار اکیلے گھر پر رہ چکے تھے اس لیئے میں نے اسکو اندر آنے دیا۔ارشد نے امی کا پوچھا میں نے بتا یا کہ امی ہسپتال گئی ہیں۔ارشد نے کہا یار بہت بھوک لگی ھے کیا پکایا ہے۔ میں نے کہا پکایا تو کچھ نہیں ہے چپس بنا لیتے ہیں تم الو چھیل دو ارشد:ٹھیک ہے تم آلو مجھے کمرے میں لا دو۔ میں نے کچن سے آلو لئے اور دھونے کے بعد کمرے میں گئی تو ارشد بیڈ پر لیٹا تھا مجھے اچانک اپنے موبائل کا خیال آیا اس میں گندی ویڈیوز والا پیچ کھلا ہوا تھا اور میرے موبائل کو پاسورڈ بھی نہیں لگا ہوا تھا۔میں نے آج تک اپنے موبائل کو پاسورڈ نہیں لگایا تھا۔ موبائل میں بیڈ پر رکھ کر گئی تھی پر وہ ٹیبل پر پڑا ہوا تھا۔میں نے جلدی سے موبائل کو اٹھا لیا ۔شائید ارشد نے بیڈ سے موبائل اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دیا تھا تاکہ وہ بیڈ پر لیٹ سکے۔ میں نے آلو اسکو دیئے وہ آلو کاٹنے لگ پڑا میں ابھی موبائل کھول کر پیچ کو بند ہی کیا تھا تو ارشد اچانک تیز سسکاری مار کر اٹھ کھڑا ہوا آلو کاٹتے ہوے چھری اسکے انگلی پر لگ گئی تھی میں نے بے اختیار اسکی انگلی کو منھ میں ڈال کر چوسنا شروع کر دیا تھوڑی دیر بعد میری نظر اسکے ٹراؤزرپر پڑی وہاں ابھار محسوس ہوا میں سمجھ گئی کہ میرے انگلی چوسنے کی وجہ سے اسکا لنڈ کھڑا ہو گیا ہے۔میں نے منھ سے انگلی نکالی تو خون رک چکا تھا میں نے بینڈیج لا کر اسکی انگلی پر لگا دی،میں نے کہا پیچھے ہٹو تم کیا آلو کاٹو گے خود زخمی ہو گئے ہو۔ میں جھک کر آلو اٹھانے لگی تو مجھے پیچھے سے ارشد نے پکڑ لیا میرے ہاتھ سے آلو والی ٹوکری گر گئی ۔میں نے کہا ارشد بھائی چھوڑو مجھے۔ ارشد نے مجھے چھوڑ دیا میں جانے لگی تو میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا موبائل میں تو بہت کچھ دیکھ رہی تھی اب کیا ہو گیا، میں سمجھ گئی اسنے میرا موبائل چیک کیا ہے ابھی میں کچھ بو لنے ہی لگی تھی کے اسنے مجھے اپنے گلے لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔اور میرے ہونٹ چوسنا شروع کر دئیے اسکے ہاتھ میرے سینے پر آزادانہ گھوم رہے تھے میں نے کوئی مزاحمت نہیں کی شائید میرے جسم کی بھوک کو مٹانےکا سو چ لیا تھا۔ میں نے بھی کسنگ میں اسکا ساتھ دینا شروع کر دیا میں نے اپنی زبان اسکے منھ میں ڈال دی جسکو اسنے چوسنا شروع کر دیا ۔اب اسکا ہاتھ میری قمیض کے اندر تھا میری نپلز کو مسل رہا تھا 3 4 منٹ کسنگ کرنے کے بعد اس نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا۔اور میری قمیض اوپر کر کے میرے مموں کو باہر نکالا میرے گلابی ممے دیکھ کرارشد پاگل سا ہوگیاوہ بے تحاشہ میرے ممے چوسنے لگاچوسنے سے میں نشے میں مدہوش ہونے لگی تھی اور میری چوت پانی سے گیلی ہورہی تھی۔اسنے ممے چوستے ہوئے میری شلوار میں ہاتھ ڈال دیا۔اسکے ہاتھ نے جیسے ہی اسکی چوت کو چھوامجھے کرنٹ سا لگا اس نے میری چوت کے دانے کو مسلنا شروع کر دیا اور اپنی انگلی اندر باہر کرنے لگ پڑاتھوڑی دیر بعد مجھے ہاتھ سے پکڑ کر بٹھایا اور میرے سامنے کھڑا ھو کر اپنا ٹراؤزر نیچے کیااور اپنا 6 انچ لمبا لن باہر نکال لیا۔مجھے کہا اسکو چوسو میں نے کہا مجھے نہیں آتا۔ ارشد:جیسے تھوڑی دیر پہلے میری انگلی چو س رہی تھی۔ میں نے اسکے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اپنی زبان نکال کر اسکی ٹوپی پر رکھ دی اسکی ٹوپی پر ایک لیس دار سا پانی لگا ہوا تھا جسکو میں نے زبان سے چکھا تو نمکین سا لگا میں نے آہستہ آہستہ اسکی ٹوپی کو منھ میں ڈال لیا۔اسکو قلفی کی طرح چوسنے لگ پڑی میرے چوسنے سے اسکے منھ سے آہ آہ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں میں سمجھ گئی اسکو مزہ آرہا ھے میں اس کے لن کو اپنے منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر تک ایسے ہی کرتی رہی۔ارشد نے میرے منھ سے لنڈ نکال لیا اور مجھ دوبارہ لیٹنے کو کہا میں لیٹ گئی تو اس نےمیری شلوار اتار دی اور خود میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اورمیری ٹانگوں کو کھول کر اچانک اس نے اپنا منھ میری چوت پر رکھ دیا اسکے چوت چوسنے سے مزے کی لہر پورے جسم میں پھیل گئی وہ بہت مزے سے میری چوت کو چاٹ رہا تھا اسکی زبان میری چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی میری چوت سے جتنا رس نکل رہا تھا اسکو وہ مزے سے پی رہا تھا۔ میں بہت گرم ہو چکی تھی، زور زور سے سسکاریاں لے رہی تھی،میرے منھ سے مستی بھری آہیں نکل رہی تھی ارشد کے بالوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی اسکے سر کو اپنی چوت پر زور سے دبا رہی تھی اور مزے کی شدت کی وجہ سے اپنے سر کو بیڈ پر بار بار پٹخ رہی تھی۔ ۔اب وہ کھڑا ہو گیا اور اپنا ٹراؤزر اتاردیااور میری ٹانگوں کو تھوڑا سا اوپر کر کے اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری چوت پر سیٹ کیا۔وہ لنڈ کو چوت کے سوراخ رگڑ رہا تھا. تبھی اس نے ایک زور دار دھکے کے ساتھ نصف سے زیادہ لنڈمیری چوت کی گہرائی میں اتار دیا میری چیخ نکل گئی وہ دو منٹ تک ویسے ہی پڑا رہا اورمجھےچومتا رہا. پھر دھیرے دھیرے جھٹکے شروع کئے اور تیز ہوتے گئے. اب درد بھی کم ہو گیا تھا اور مزا بھی آنے لگا تھا۔اس نے لنڈ ایک بار پھر باہر نکالا اور پھر ایک زوردار دھکے کے ساتھ پورا لنڈ میری چوت میں گھسا دیا میں زور سے تڑپ اٹھی اور میرے منھ سے بے اختیار نکلا ہائے میں مر گئی،درد تھوڑا کم ہوا تو راشد نے اپنا لنڈ ان آؤٹ کرنا شروع کر دیا۔مجھے بھی مزہ آنا شروع ہو گیا حیرت انگیز طور پر جب پہلی بار سیکس کیا تھا تو کوئی مزہ نہیں آیا تھا۔ارشد نے پوچھا درد ہو رہی ہے تو لن باہر نکالوں۔۔۔ لیکن میں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ پھر سے جھٹکے مارنا شروع ہو گیا۔3 4 منٹ کے بعد اسنے اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا اور ایک زور دار چنگھاڑ نکالی۔اسکے لنڈ سےگرم گرم منی نکل کر میرے پیٹ پر گرنا شروع ہو گئ اسکی منی سے میرا سارا پیٹ اور ممے بھر گئے۔فارغ ہوتے ساتھ ہی میرے ساتھ بیڈ پر گر گیا اس نے مجھے چومنا شروع کر دیا۔ہم دونوں کو سانس چڑھا ہوا تھامیں نے اٹھ کر اپنے ڈوپٹے سے اپنا پیٹ صاف کیا اور کپڑے پہننے لگ پڑی اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ گرا لیا اور کہنے لگا ابھی دل نہیں بھرا ہے ایک بار اور کرتے ہیں ۔ میں نے کہا امی آتی ہوں گی کپڑے پہن لو۔مجھے پتا تھا امی اتنی جلدی نہیں آنے والی پر میں خود اب تھوڑا آرام کرنا چاہتی تھی۔پر اسکی ضد کے آگے میں ہار گئی۔اسکے ساتھ میں لیٹ گئی وہ آٹھا اور کچن سے دو گلاس گرم دودھ کے لے آیا دودھ پی کر کچھ جسم میں جان آ گئی کچھ دیر ہم ننگے لیٹے باتیں کرتے رہے۔تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے دوبارہ کسنگ کرنا شروع کر دی اب کی با رمیں کھل کر اسکا ساتھ دے رہی تھی میں اسکے ہونٹ اور زبان چوس رہی تھی ساتھ ساتھ میرا ہاتھ اسکے بالوں کو سہلا رہا تھا۔ کسنگ کرتے کرتے میں اسکے گردن اور چھاتی پر اپنے ھونٹ چلانے لگ پڑی میری کسنگ کرنے سے اسکا لنڈ دوبارہ کھڑا ہو چکا تھا۔کسنگ کرتی ہوئی میں نے ایک ہاتھ سے اسکا لنڈ تھام لیا ۔اب ا سکے لنڈ کو اپنے منھ میں لے کر چوسنا شروع کی۔اسکے لنڈ پر ابھی تک میری چوت کا رس اور اسکی اپنی منی لگی ہوئی تھی جسکا زائقہ میں اپنے منھ میں محسوس کررہی تھی۔ایک اچھا زائقہ لگ رہا تھا منی کا میں نے انگریز لڑکیوں کو مرد کی منی کو نگلتے ہوئے دیکھا تھا ویڈیوز میں۔ اس وقت اس کےلنڈ سے ہلکا ہلکا پانی نکل رہا تھا جسے میں چاٹ اور چوس کر صاف کرتی جا رہی تھی۔اسکے مزیدارنمکین پانی کے موٹے موٹے قطروں کو میں نے پینا شروع کر دیامیرے لن چوسنے سے دوسری طرف ارشد سسکیاں بھرتا جا رہا تھا۔اچانک باہر کا دروازہ کھٹکھٹایا میں نے جلدی سے اٹھ کر اپنی قمیض ٹھیک کی اور جلدی سے شلوار پہن کر اپنے بال وغیرہ سیٹ کئے اور جلدی سے کمرے سے نکل آئی۔ارشد نے اٹھ کر اپنے کپڑے پہننا شروع کر دئے تھے میں نے دروازہ کھولا تو کوئی مانگنے والا تھا میں نے دل میں اسکو کوستے ہوئے کہا بابا معا ف کرو اور دروازہ دوبارہ بند کر دیا۔میں کمرے میں داخل ہوئی تو ارشد نے پو چھا کون تھا۔ میں نے بتا دیا کہ کوئی فقیر تھا ۔اس نے کہا آؤ بیڈ پر دوبارہ کام شروع کرتے ہیں ۔ میں:نہیں امی آتی ہوں گی کافی دیر ہو چکی ہے۔ ارشد: اس کا کیا کروں اس نے اپنے کھڑے لنڈ کی طرف اشارہ کیا۔ میں:مجھے کیا پتا؟ ارشد:اچھا تم اسکا رس اپنے منھ سے ہی نکال دو اسکو آرام آجائے گا۔ یہ کہ کر اسنے اپنا ٹراؤزر تھوڑا نیچے کر کے اپنا لنڈ باہر نکال دیا۔ میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے لنڈ کو منھ میں لے لیا اور چوسنے لگ پڑی اسکے لنڈ کو منھ میں آگے پیچھے کرنے لگ پڑی اور میرے لن چوسنے سے ارشد مزے کی وادیوں میں کھوتا جا رہا تھا ۔اب اس نے میرے بال پکڑ کر میرے منھ کو چودنا شروع کر دیا تھا۔آہستہ آہستا اسکے جھٹکے بھڑتے جا رہے تھے اس نے ایک زور دار جھٹکہ کھایا اور اپنی منی کو میرے منھ میں ہی نکال دیا میں نے اسکے لنڈ کو منھ سے نکلانے کی کوشش کی پر اسنے میر ے سر کو اپنے لنڈ پر دبائے رکھا جسکی وجہ سے اسکے منی میرے حلق کے اندر تک گئی مجھے ابکائی آنے لگی تو اس نے میرا منھ چھوڑ دیا ابھی میں اسکی منی منھ سے تھوکنے ہی لگی تھی کہ باہر دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا میں نے جلدی سے اسکی گرم گرم منی کو نگل لیا اور اسکو دروازہ کھولنے کا اشارہ دیا۔وہ دروازہ کھولنے چلا گیا میں نے جلدی سے منھ صاف کیا ڈوپٹے سے اور کمرے میں ایک جلدی سے نظر ماری کہ کوئی نشان رہ تو نہیں گیا ہے ۔جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ملا تو میں نے ائیرفریشنر نکال کر کمرے میں چھڑک دیا تاکہ امی منی کی بد بو نا سونگھ لیں۔اور خود کمرے سے باہر نکل آئی ۔دروازے پر امی ہی تھیں۔امی اندر آکر چارپائی پر بیٹھ گئی میں نے ان سے آنٹی زبیدہ کے بچے کا پوچھا تو انہوں نے بتا یا اس کے سر پر 3 ٹانکے لگے ہیں۔پھر امی نے مجھ سے پوچھا ارشد کو کچھ کھلایا ہے تو ارشد نے شرارتی لہجے میں کہا آنٹی اس نے مجھے آم کھلا دیے تھے ۔ امی نے کہا چلو اچھا ہے ۔ میں جا کر کمرے میں چلی گئی اور لیٹ گئی۔ اس واقعے کے اثر سے نکلنے کے لئیے مجھے ہفتہ لگ گیا ایک ہفتے تک میں اسکول بھی نہیں گئی آہستہ آہستہ میں دوبارہ اپنی روٹین لائف میں واپس آتی گئی اور میری ہنسی اور قہقہے بھی واپس آتے گئےجسکی سب سےزیا دہ خوشی میرے والد کو ہوئی تھی کیونکہ میری ہنسی کو دیکھ کر وہ جیتے تھے۔ میں نے اسکو ل جانا شروع کر دیا تھا ۔میری اسکول میں ایک ہی دوست تھی جسکا نام ماریہ تھا اسکول میں اسکی ریپوٹیشن کچھ اچھی نہیں تھی اسکے با رے میں بہت سے قصے مشہور تھے۔اسکا کا فی لڑکو ں کے سا تھ نا م جوڑا جا تا تھا ۔پر میں نے کبھی اس سے اس با رے میں بات نہیں کی تھی ۔میں جیسے اسکول میں دا خل ہوئی تو سامنے سے ماریہ کو آتے دیکھا ما ریہ نے کہا کہاں گم ہو ہفتے سے میں نے کہا یار میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ ماریہ : یار آج خدا سے کچھ اور مانگتی تو وہ بھی مل جاتا شکر ہے تم آج آگئی مجھے تم سے ایک کام ہے میں نے پوچھا : کیا کام ہے ماریہ:یار اسکول سےواپسی پر میں نے کام سے جانا ہے اگر میری امی کا فو ن آئے تو تم کہنا ماریہ میرے سا تھ ہے۔ میں :کہاں جانا ہے جو امی سے چھپا رہی ہو ماریہ:پاگل ڈیٹ پر جانا ہے اب کیا امی کو بتا کر جاؤں۔ میں:یار تم کب سدھرو گی ماریہ نے مجھے جھپی ڈال کر آنکھ مار کر کہا یار زندگی کا مزا جتنا لے سکتی ہو لوٹ لوکل ہو نا ہو۔ میں نےہامی بھر لی تو ماریہ نے میرا گال چوم لیا میں نے ہنس کر کہا بد تمیز اب چھوڑو بھی مجھے ہم دونوں ہنستے ہوئے کلاس میں داخل ہو گئے۔ آدھی چھٹی ہوئی تو ہم دونوں جا کر لان میں بیٹھ گئے وہ ہماری پسندیدہ جگہ تھی وہاں درخت لگےہوئے تھے جنکی ٹھنڈی ہوا ہم دونوں کو بہت پسند تھی۔ مجھے کچھ نوٹس اتارنے تھے کیونکہ میں ایک ہفتے سے اسکول نہیں آئی تھی تو کافی کام جمع ہو گیا تھا۔اگلے ہفتے پیپر تھے۔لان میں بیٹھ کر میں نے ماریہ کو کہا جاؤ کچھ کھانے کو لے آؤماریہ جانے لگی تو میں نے کہا اپنا موبائیل دینا مجھے نوٹس اتارنے ھیں کیونکہ ہماری ٹیچرز نے ایک واٹس ایپ گروپ بنا رکھا تھا جس میں سارے نوٹس مل جاتے تھے میں اپنا موبائیل نہیں لاتی تھی اسکول کیونکہ میڈیم منع کرتی تھی موبائیل لانے کو۔مجھے پتا تھا ماریہ اسکول میں موبائل لاتی تھی چوری چھپے۔ماریہ تھوڑا ہچکچائی پھر موبائیل کا پاسورڑ کھول کر واٹس ایپ چلا کر مجھے دے دیا۔خودکینٹین کی طرف چل دی۔میں موبائیل میں ابھی نو ٹس پڑھ ہی رہی تھی تو ایک میسج آگیا میری عادت نہیں تھی ماریہ کے میسیج پڑھنے کی پر جیسے میرا دھیان میسیج بھیجنے والے کے نام پر پڑا تو بے اختیار میسیج کھول لیا ۔کیونکہ وہ میسیج میرے نام سے آیا تھا

میں نے جب میسیج کھولا تب پتا چلا ماریہ نے میرے نام سےکسی لڑکے کا نمبر سیو کیا ہوا تھا تاکہ کبھی اسکی کال آئے تو اسکی امی کو شک نا پڑجائے۔میں بے خیالی میں اوپر اسکرول کیا تو تصاویر دیکھ کر میں بری طرح چونک گئی ماریہ نے اس لڑکے کو اپنی ننگی تصاویر بھیجی تھیں جس میں اسکے پستانوں اور چو ت کی تصاویر شامل تھیں۔لڑکے نے بھی اسکو اپنے لنڈ کی تصاویر بھیجی تھیں ۔ماریہ نے اپنے میسیجز میں اسکو اپنی چوت میں لینے کے لیے بے تابی کا اظہار کیا تھا۔ان سب کے علاوہ اور بہت سی انگلش ننگی تصاویر شا مل تھیں ۔میں نے سامنے سے ما ریہ کو آتے دیکھا تو جلدی سے موبا ئیل لاک کر دیا ۔ماریہ سموسے لے کرآئی تھی ۔میری اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر اسکو کچھ شک پڑ گیا اس نے جیسے ہی موبا ئیل کو اوپن کیا تو سامنے وہی میسیجز کھل گئے کیونکہ میں نے گھبراہٹ میں واٹس ایپ کو بند کرنا بھو ل گئی تھی۔ میں سر جھکا کر بیٹھی تھی ہم دونوں کے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی کافی دیر۔آخر کار ماریہ نے خاموشی کا پردہ چاک کیا ماریہ:تم نے میرے میسیجز پڑھ لیے ہیں کوئی بات نہیں ہم دوست ہیں ہم دونوں کے بیچ کوئی پردہ نہیں ہونا چا ہیے۔ میں :تم نے اپنی ایسی تصاویر کیوں اسکو بھیجی ہیں ماریہ:یار یہ سب چلتا ہے ۔ میں :تم شادی سے پہلے اس انجان لڑکے کے ساتھ سیکس کرنا چاہ رہی ہو ماریہ ہنستے ہوئے:جان سیکس بھی انسان کی بھوک کی طرح ایک ضرورت ہے۔ میں:تم کب سے اس لڑکے کے ساتھ یہ سب کر رہی ہو ماریہ:اس کے ساتھ فرسٹ ٹائم ہےپر اس سے پہلے دو اور لڑکے تھے۔جن کے ساتھ میرا تعلق تھا۔ میں:اگر تمہاری امی کو پتا چل گیا تو ماریہ:ان کو کیسے پتا چلے گا تم بس کوئی بھانڈا نا پھوڑ دینا میں:میں نہیں بتاؤں گی پر تمہارے خون والے کپڑے دیکھ کر امی سمجھ جائیں گی۔ ماریہ ہنستے ہوئے:پاگل خون کیوں نکلے گا میرا کونسا پہلی بار ہے۔ میرے منھ سے اچا نک نکل گیا پر میری امی کو تو پتا چل گیا تھا۔ ماریہ نے چونکتے ہوئے کہا:کیامطلب اسکا مطلب تم نے بھی کسی سےسیکس کیا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں خود کو کوستے ہوئے کہا چلو کلاس کا ٹا ئم ہو گیا ہے۔ وہ میرے پیچھے پڑ گئی میں نے کہا اچھا کل بتاؤں گی ۔میں نے دل میں سوچا کل تک اسکے زہن سے بات نکل جائے گی۔ ہم کلاس میں چلے گئے چھٹی کے بعد میں اسکول سے نکلی تو ماریہ میرے پیچھے چل پڑی میں نے کہا تمہا را گھر اس سائیڈ تو نہیں ہے تو کہنے لگی میں کچھ دور تمھارے ساتھ چلوں گی جب کچھ لڑکیوں کا رش کم ہو جائے گا تو میں اپنے فرینڈ کی گا ڑی میں بیٹھ جاؤں گی۔جو کچھ فاصلے پر کھڑی ہے اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلیک کلر کی گاڑی دکھائی ۔میں خاموشی سے چل پڑی۔تھوڑی دور چلنے کے بعد جب کافی رش کم ہو گیا تو ماریہ نے فون پر اپنے فرینڈ کو کہا گاڑی لے آؤ۔گاڑی ہمارے نزدیک آکر رکی ماریہ دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔ ماریہ:آؤ تم کو گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ میں:نہیں میں چلی جاؤں گی پیدل ماریہ:اچھا چلو جیسے تمہاری مرضی۔ ماریہ نے دروازہ بند کر دیا اور گاڑی چل پڑی۔اور میں سوچوں میں گم گھر کی طرف چل پڑی۔ گھر پوہنچی تو پتا لگا گاؤں سے میرا کزن ارشد آیا ہوا تھا۔ارشد میرے چاچا کا لڑکا تھا وہ فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا۔ااسکو دیکھ کر میں بہت خوش ہوئی کیونکہ میری اسکے ساتھ بہت جمتی تھی ۔میں نے اس کو سلام کیا ارشد:لگتا ہے آج کل بہت زورں سے پڑھائی جاری ہے۔ میں:جی ارشد بھائی پیپر جو سر پر آگئے ہیں۔ ارشد :اچھا جی اسکا مطلب ہے لڈو اب ہم پیپرز کے بعد کھیل سکیں گے۔ اصل میں ہم دونوں کی شرطیں لگا کرتی تھیں لڈو میں ۔کئی بار ہم لڑ پڑتے تھے۔ میں : نہیں ایسی با ت نہیں ہے ہم لڈو آج ہی کھیلیں گے ارشد:اس کا مطلب ہے تم نے تیاری خو ب کر لی ہے۔ ہم دونوں کی نوک جھوک دیکھ کر امی ہنس پڑی امی نے کہا ارشد بیٹے کو کھانا تو کھانے دو نا حال نا حوال بس آتے ہی لڈو کی پڑ گئی۔ ہم دونوں ہنس پڑے۔میں نے کمرے میں آکر یونیفارم تبدیل کیا اور اپنا موبائیل کو اٹھا لیا ۔ابھی موبائیل میں میسیجز پڑھ ھی رہی تھی کے ماریہ کی امی کی کال آ گئی ۔میں نے ان کو جھوٹ بول دیا کہ ماریہ میرے ساتھ ہے ہم پیپرز کی تیاری کر رہی ہیں ۔جیسے ہی انکا فون بند ہوا میں نے ماریہ کو میسج کر دیا کہ تم جتنا جلدی ہو سکے گھر پہنچ جاؤ۔ مجھے پریشانی رہی کہ دوبارہ ماریہ کی امی کا فون نہ آجائے پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ صبح اٹھ کر تیا ر ہو کر اسکول کے لیے روانہ ہو ہوگئی اسکول پہنچ کر میری نطریں ماریہ کو ڈھونڈ رہی تھیں۔کلاس میں جیسے داخل ہوئی ماریہ کو سامنے دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔آدھی چھوٹی جیسے ہوئی ہم دونوں اپنی پسندیدہ جگہ کی طرف چل دیے۔لان میں بیٹھ کر میرا پہلا سوال یہ تھا میں:تمہاری امی کو شک تو نہیں پڑا ماریہ:نہیں ان کو زرہ بھی شک نہیں پڑا۔اس کو چھوڑو تم بتاؤ اپنی اسٹوری کس نے تم کو کلی سے پھول بنا دیا میں:چھوڑو ایسی کوئی بات نہیں دل میں خود کو کوسنے لگ پڑی کہ کل خامخواہ منھ سے بات نکل گئی اب ماریہ کی بچی پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ ماریہ:اگر مجھ پر اعتبار نہیں ہے تو مت بتاؤ اس نے زیادہ زور لگایا تو میں نے سب کچھ بتا دیا ماریہ مزے لے کر سب کچھ سن رہی تھی۔اور کرید کرید کر پوچھ رہی تھی۔ میں نے سب کچھ بتا نے کے بعد اس سے وعدہ لیا کہ کسی کو مت بتانا ماریہ:پاگل ہوں کیا اپنی سب سے پیاری سہیلی کا راز کسی کو بتاؤں گی۔ اسکے بعد میں نے اس سے اسکے کل والے واقعے کے بارے میں پوچھا۔ ماریہ نے اپنی سیکس کی اسٹوری مزے لے لے کر سنانا شروع کر دی تھی،اس آدھے گھنٹے میں اس نے مجھے سیکس کی اتنی نالیج دی ۔ٹپس دیں نیٹ سے سیکسی تصاویر دکھائیں نیٹ میرے موبائل میں بھی تھا میں نے آج تک ایسی کوئی تصاویر نہیں دیکھیں تھی کچھ ایسی تصاویر تھیں جن میں لڑکی نے مرد کا لنڈ منھ میں لیا ہوا تھا۔ میں:کتنی گندی لڑکی ہے مرد کا لن منھ میں لیا ہوا ہے ماریہ:پاگل اس کو اورل سیکس کہتے ہیں یہ سیکس کی جان ہےاس کے بغیر سیکس ادھورا ہےروکو ایک اور تصویر دکھاتی ہوں ماریہ نے موبائیل میں کچھ اور ٹائپ کیا۔اور ایک تصویر دکھائی جس میں مرد عورت کی پھدی کو چاٹ رہا تھا،دوسری تصویر میں دو لڑکیاں ایک دوسرے کی پھدیاں چاٹ رہی تھیں۔ میں:ایسا صرف انگریز کرتے ہوں گے۔ ماریہ:نہیں پاگل سب کرتے ہیں میں خود اپنے تمام بوائے فرینڈز کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہوں میں:تم کرتی ہو تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے سب کرتے ہوں گے۔ ماریہ :یار سب کرتے ہیں اس کے بغیر سیکس کا کوئی مزہ نہیں ہے۔میرے ابو امی بھی اورل سیکس کرتے ہیں۔ میرا منھ کھلا رہ گیا میں:تم نے انکو کہا ں دیکھا ماریہ:میں نے چوری چھپے انکا سیکس کافی بار دیکھا ہے۔ میں حیران رہ گئی اسکی باتیں سن کرکہ کیسی اولاد ہے جو اپنے ماں باپ کو سیکس کرتے چوری چھپے دیکھتی ہے۔ماریہ کا باپ ایک مولوی تھا اسکو دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ وہ ایسا کرتا ہوگا۔ ماریہ:تم سوچ رہی ہو گی کہ میرا باپ مولوی ہے وہ ایسا کام کیسے کر سکتا ہے میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ماریہ:میرا باپ نے ہمارے گھر کام کرنے والی آتی ہے اسکو بھی نہیں چھوڑا ہے میں نے ان دونوں کو کافی بار پکڑا ہے، میں : تو تم اپنی ماں کو کیوں نہیں بتا تی اسکے بارے میں۔ ماریہ:جان یہ سیکس کی بھوک ہے جو ہر انسا ن میں ہوتی ہے اسکو حق ہے وہ اپنی بھوک مٹائے جیسے انسا ن کو کھانے پینے کی ظرورت ہوتی ہے ویسے ہی سیکس کی ظرورت ہوتی ہے۔ ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رھے اتنے میں بیل بج گئی میں نے ماریہ کو کہا :باتوں میں ہم نے کچھ کھایا بھی نہیں ۔ ہم کلاس میں چلی گیں چھٹی کے بعد میں گھر پہنچی توامی کو پریشانی میں گھر سے نکلتے دیکھا مجھے دیکھ کر بولیں:شکر ہے تم آ گئیں زبیدہ کے بیٹے کو چوٹ لگ گئی ہے میں اسکے ساتھ ہسپتال جا رہی ہوں تم گھر کا خیال رکھنا۔ارشد آئے تو اسکو کھانا بنا کر دے دینا، زبیدہ ہمارے محلے میں رہتی تھی۔اسکا ایک ہی بیٹا تھا جو بہت شرارتی تھا ابھی اسکول جانا شروع کیا تھا5 سال کا تھا پر شرارتوں میں پورے محلے میں مشہور تھا۔ امی کے جانے کے بعد میں نے یونیفارم بدلا اور لیٹ کر ماریہ کی باتوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔اپنا موبائل اٹھا کر اس میں گندی تصاویر اور ویڈیوز سرچ کرنا شروع کر دیں ویڈیوز دیکھ کر میری چوت میں کچھ کچھ ہونے لگ پڑا۔کچھ دیر ویڈیوز دیکھنے کے بعد میں نے اپنی چوت پر ہاتھ لگایا تو کچھ گیلا پن محسوس کیا۔ماریہ نے مجھے بتایا تھا کہ جب عورت کو مزہ آنے لگتا ہے تو چو ت میں گیلا پن بڑھ جا تا ہے۔کچھ ویڈیوز میں لڑکی گھوڑے یا کتے کے ساتھ سیکس کر رہی تھی۔ماریہ کی بات زہن میں آگئی کہ سیکس کی بھو ک انسان یا جانور نہیں دیکھتی۔ایک ویڈیو میں لڑکی اپنے چوت کو مسل رہی تھی۔اور انگلی ڈال رہی تھی میں نے بھی ایسا کرنا شروع کر دیا ایک عجیب سی لزت میرے پورے جسم میں دوڑنے لگ پڑی۔میں نے موبائل سائیڈ پر رکھا اور ایک ہاتھ سے اپنے مموں کو دبا نے لگی دوسرے ہاتھ سے اپنی چوت کو مسلنے لگ پڑی ابھی ایک دو منٹ گزرے تھے کہ دروازہ کھڑکھڑایا میں گھبرا کر جلدی سے اٹھ پڑی مجھے ایسا لگا جیسے میری چوری پکڑی گئی ہو۔میں نے اپنے کپڑے ٹھیک کئے اور دروازے کی طرف چل دی۔دروازہ کھولا تو سامنے ارشد کھڑا تھا میں سائیڈ پر ہو گئی ارشد اندر آ گیا ۔ارشد اور میں بہت بار اکیلے گھر پر رہ چکے تھے اس لیئے میں نے اسکو اندر آنے دیا۔ارشد نے امی کا پوچھا میں نے بتا یا کہ امی ہسپتال گئی ہیں۔ارشد نے کہا یار بہت بھوک لگی ھے کیا پکایا ہے۔ میں نے کہا پکایا تو کچھ نہیں ہے چپس بنا لیتے ہیں تم الو چھیل دو ارشد:ٹھیک ہے تم آلو مجھے کمرے میں لا دو۔ میں نے کچن سے آلو لئے اور دھونے کے بعد کمرے میں گئی تو ارشد بیڈ پر لیٹا تھا مجھے اچانک اپنے موبائل کا خیال آیا اس میں گندی ویڈیوز والا پیچ کھلا ہوا تھا اور میرے موبائل کو پاسورڈ بھی نہیں لگا ہوا تھا۔میں نے آج تک اپنے موبائل کو پاسورڈ نہیں لگایا تھا۔ موبائل میں بیڈ پر رکھ کر گئی تھی پر وہ ٹیبل پر پڑا ہوا تھا۔میں نے جلدی سے موبائل کو اٹھا لیا ۔شائید ارشد نے بیڈ سے موبائل اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دیا تھا تاکہ وہ بیڈ پر لیٹ سکے۔ میں نے آلو اسکو دیئے وہ آلو کاٹنے لگ پڑا میں ابھی موبائل کھول کر پیچ کو بند ہی کیا تھا تو ارشد اچانک تیز سسکاری مار کر اٹھ کھڑا ہوا آلو کاٹتے ہوے چھری اسکے انگلی پر لگ گئی تھی میں نے بے اختیار اسکی انگلی کو منھ میں ڈال کر چوسنا شروع کر دیا تھوڑی دیر بعد میری نظر اسکے ٹراؤزرپر پڑی وہاں ابھار محسوس ہوا میں سمجھ گئی کہ میرے انگلی چوسنے کی وجہ سے اسکا لنڈ کھڑا ہو گیا ہے۔میں نے منھ سے انگلی نکالی تو خون رک چکا تھا میں نے بینڈیج لا کر اسکی انگلی پر لگا دی،میں نے کہا پیچھے ہٹو تم کیا آلو کاٹو گے خود زخمی ہو گئے ہو۔ میں جھک کر آلو اٹھانے لگی تو مجھے پیچھے سے ارشد نے پکڑ لیا میرے ہاتھ سے آلو والی ٹوکری گر گئی ۔میں نے کہا ارشد بھائی چھوڑو مجھے۔ ارشد نے مجھے چھوڑ دیا میں جانے لگی تو میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا موبائل میں تو بہت کچھ دیکھ رہی تھی اب کیا ہو گیا
، ابھی میں کچھ بو لنے ہی لگی تھی کے اسنے مجھے اپنے گلے لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔اور میرے ہونٹ چوسنا شروع کر دئیے اسکے ہاتھ میرے سینے پر آزادانہ گھوم رہے تھے میں نے کوئی مزاحمت نہیں کی شائید میرے جسم کی بھوک کو مٹانےکا سو چ لیا تھا۔ میں نے بھی کسنگ میں اسکا ساتھ دینا شروع کر دیا میں نے اپنی زبان اسکے منھ میں ڈال دی جسکو اسنے چوسنا شروع کر دیا ۔اب اسکا ہاتھ میری قمیض کے اندر تھا میری نپلز کو مسل رہا تھا 3 4 منٹ کسنگ کرنے کے بعد اس نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا۔اور میری قمیض اوپر کر کے میرے مموں کو باہر نکالا میرے گلابی ممے دیکھ کرارشد پاگل سا ہوگیاوہ بے تحاشہ میرے ممے چوسنے لگاچوسنے سے میں نشے میں مدہوش ہونے لگی تھی اور میری چوت پانی سے گیلی ہورہی تھی۔اسنے ممے چوستے ہوئے میری شلوار میں ہاتھ ڈال دیا۔اسکے ہاتھ نے جیسے ہی اسکی چوت کو چھوامجھے کرنٹ سا لگا اس نے میری چوت کے دانے کو مسلنا شروع کر دیا اور اپنی انگلی اندر باہر کرنے لگ پڑاتھوڑی دیر بعد مجھے ہاتھ سے پکڑ کر بٹھایا اور میرے سامنے کھڑا ھو کر اپنا ٹراؤزر نیچے کیااور اپنا 6 انچ لمبا لن باہر نکال لیا۔مجھے کہا اسکو چوسو میں نے کہا مجھے نہیں آتا۔ ارشد:جیسے تھوڑی دیر پہلے میری انگلی چو س رہی تھی۔ میں نے اسکے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اپنی زبان نکال کر اسکی ٹوپی پر رکھ دی اسکی ٹوپی پر ایک لیس دار سا پانی لگا ہوا تھا جسکو میں نے زبان سے چکھا تو نمکین سا لگا میں نے آہستہ آہستہ اسکی ٹوپی کو منھ میں ڈال لیا۔اسکو قلفی کی طرح چوسنے لگ پڑی میرے چوسنے سے اسکے منھ سے آہ آہ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں میں سمجھ گئی اسکو مزہ آرہا ھے میں اس کے لن کو اپنے منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر تک ایسے ہی کرتی رہی۔ارشد نے میرے منھ سے لنڈ نکال لیا اور مجھ دوبارہ لیٹنے کو کہا میں لیٹ گئی تو اس نےمیری شلوار اتار دی اور خود میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اورمیری ٹانگوں کو کھول کر اچانک اس نے اپنا منھ میری چوت پر رکھ دیا اسکے چوت چوسنے سے مزے کی لہر پورے جسم میں پھیل گئی وہ بہت مزے سے میری چوت کو چاٹ رہا تھا اسکی زبان میری چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی میری چوت سے جتنا رس نکل رہا تھا اسکو وہ مزے سے پی رہا تھا۔ میں بہت گرم ہو چکی تھی، زور زور سے سسکاریاں لے رہی تھی،میرے منھ سے مستی بھری آہیں نکل رہی تھی ارشد کے بالوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی اسکے سر کو اپنی چوت پر زور سے دبا رہی تھی اور مزے کی شدت کی وجہ سے اپنے سر کو بیڈ پر بار بار پٹخ رہی تھی۔ ۔اب وہ کھڑا ہو گیا اور اپنا ٹراؤزر اتاردیااور میری ٹانگوں کو تھوڑا سا اوپر کر کے اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری چوت پر سیٹ کیا۔وہ لنڈ کو چوت کے سوراخ رگڑ رہا تھا. تبھی اس نے ایک زور دار دھکے کے ساتھ نصف سے زیادہ لنڈمیری چوت کی گہرائی میں اتار دیا میری چیخ نکل گئی وہ دو منٹ تک ویسے ہی پڑا رہا اورمجھےچومتا رہا. پھر دھیرے دھیرے جھٹکے شروع کئے اور تیز ہوتے گئے. اب درد بھی کم ہو گیا تھا اور مزا بھی آنے لگا تھا۔اس نے لنڈ ایک بار پھر باہر نکالا اور پھر ایک زوردار دھکے کے ساتھ پورا لنڈ میری چوت میں گھسا دیا میں زور سے تڑپ اٹھی اور میرے منھ سے بے اختیار نکلا ہائے میں مر گئی،درد تھوڑا کم ہوا تو راشد نے اپنا لنڈ ان آؤٹ کرنا شروع کر دیا۔مجھے بھی مزہ آنا شروع ہو گیا حیرت انگیز طور پر جب پہلی بار سیکس کیا تھا تو کوئی مزہ نہیں آیا تھا۔ارشد نے پوچھا درد ہو رہی ہے تو لن باہر نکالوں۔۔۔ لیکن میں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ پھر سے جھٹکے مارنا شروع ہو گیا۔3 4 منٹ کے بعد اسنے اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا اور ایک زور دار چنگھاڑ نکالی۔اسکے لنڈ سےگرم گرم منی نکل کر میرے پیٹ پر گرنا شروع ہو گئ اسکی منی سے میرا سارا پیٹ اور ممے بھر گئے۔فارغ ہوتے ساتھ ہی میرے ساتھ بیڈ پر گر گیا اس نے مجھے چومنا شروع کر دیا۔ہم دونوں کو سانس چڑھا ہوا تھامیں نے اٹھ کر اپنے ڈوپٹے سے اپنا پیٹ صاف کیا اور کپڑے پہننے لگ پڑی اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ گرا لیا اور کہنے لگا ابھی دل نہیں بھرا ہے ایک بار اور کرتے ہیں ۔ میں نے کہا امی آتی ہوں گی کپڑے پہن لو۔مجھے پتا تھا امی اتنی جلدی نہیں آنے والی پر میں خود اب تھوڑا آرام کرنا چاہتی تھی۔پر اسکی ضد کے آگے میں ہار گئی۔اسکے ساتھ میں لیٹ گئی وہ آٹھا اور کچن سے دو گلاس گرم دودھ کے لے آیا دودھ پی کر کچھ جسم میں جان آ گئی کچھ دیر ہم ننگے لیٹے باتیں کرتے رہے۔تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے دوبارہ کسنگ کرنا شروع کر دی اب کی با رمیں کھل کر اسکا ساتھ دے رہی تھی میں اسکے ہونٹ اور زبان چوس رہی تھی ساتھ ساتھ میرا ہاتھ اسکے بالوں کو سہلا رہا تھا۔ کسنگ کرتے کرتے میں اسکے گردن اور چھاتی پر اپنے ھونٹ چلانے لگ پڑی میری کسنگ کرنے سے اسکا لنڈ دوبارہ کھڑا ہو چکا تھا۔کسنگ کرتی ہوئی میں نے ایک ہاتھ سے اسکا لنڈ تھام لیا ۔اب ا سکے لنڈ کو اپنے منھ میں لے کر چوسنا شروع کی۔اسکے لنڈ پر ابھی تک میری چوت کا رس اور اسکی اپنی منی لگی ہوئی تھی جسکا زائقہ میں اپنے منھ میں محسوس کررہی تھی۔ایک اچھا زائقہ لگ رہا تھا منی کا میں نے انگریز لڑکیوں کو مرد کی منی کو نگلتے ہوئے دیکھا تھا ویڈیوز میں۔ اس وقت اس کےلنڈ سے ہلکا ہلکا پانی نکل رہا تھا جسے میں چاٹ اور چوس کر صاف کرتی جا رہی تھی۔اسکے مزیدارنمکین پانی کے موٹے موٹے قطروں کو میں نے پینا شروع کر دیامیرے لن چوسنے سے دوسری طرف ارشد سسکیاں بھرتا جا رہا تھا۔اچانک باہر کا دروازہ کھٹکھٹایا میں نے جلدی سے اٹھ کر اپنی قمیض ٹھیک کی اور جلدی سے شلوار پہن کر اپنے بال وغیرہ سیٹ کئے اور جلدی سے کمرے سے نکل آئی۔ارشد نے اٹھ کر اپنے کپڑے پہننا شروع کر دئے تھے میں نے دروازہ کھولا تو کوئی مانگنے والا تھا میں نے دل میں اسکو کوستے ہوئے کہا بابا معا ف کرو اور دروازہ دوبارہ بند کر دیا۔میں کمرے میں داخل ہوئی تو ارشد نے پو چھا کون تھا۔ میں نے بتا دیا کہ کوئی فقیر تھا ۔اس نے کہا آؤ بیڈ پر دوبارہ کام شروع کرتے ہیں ۔ میں:نہیں امی آتی ہوں گی کافی دیر ہو چکی ہے۔ ارشد: اس کا کیا کروں اس نے اپنے کھڑے لنڈ کی طرف اشارہ کیا۔ میں:مجھے کیا پتا؟ ارشد:اچھا تم اسکا رس اپنے منھ سے ہی نکال دو اسکو آرام آجائے گا۔ یہ کہ کر اسنے اپنا ٹراؤزر تھوڑا نیچے کر کے اپنا لنڈ باہر نکال دیا۔ میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے لنڈ کو منھ میں لے لیا اور چوسنے لگ پڑی اسکے لنڈ کو منھ میں آگے پیچھے کرنے لگ پڑی اور میرے لن چوسنے سے ارشد مزے کی وادیوں میں کھوتا جا رہا تھا ۔اب اس نے میرے بال پکڑ کر میرے منھ کو چودنا شروع کر دیا تھا۔آہستہ آہستا اسکے جھٹکے بھڑتے جا رہے تھے اس نے ایک زور دار جھٹکہ کھایا اور اپنی منی کو میرے منھ میں ہی نکال دیا میں نے اسکے لنڈ کو منھ سے نکلانے کی کوشش کی پر اسنے میر ے سر کو اپنے لنڈ پر دبائے رکھا جسکی وجہ سے اسکے منی میرے حلق کے اندر تک گئی مجھے ابکائی آنے لگی تو اس نے میرا منھ چھوڑ دیا ابھی میں اسکی منی منھ سے تھوکنے ہی لگی تھی کہ باہر دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا میں نے جلدی سے اسکی گرم گرم منی کو نگل لیا اور اسکو دروازہ کھولنے کا اشارہ دیا۔وہ دروازہ کھولنے چلا گیا میں نے جلدی سے منھ صاف کیا ڈوپٹے سے اور کمرے میں ایک جلدی سے نظر ماری کہ کوئی نشان رہ تو نہیں گیا ہے ۔جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ملا تو میں نے ائیرفریشنر نکال کر کمرے میں چھڑک دیا تاکہ امی منی کی بد بو نا سونگھ لیں۔اور خود کمرے سے باہر نکل آئی ۔دروازے پر امی ہی تھیں۔امی اندر آکر چارپائی پر بیٹھ گئی میں نے ان سے آنٹی زبیدہ کے بچے کا پوچھا تو انہوں نے بتا یا اس کے سر پر 3 ٹانکے لگے ہیں۔پھر امی نے مجھ سے پوچھا ارشد کو کچھ کھلایا ہے تو ارشد نے شرارتی لہجے میں کہا آنٹی اس نے مجھے آم کھلا دیے تھے ۔ امی نے کہا چلو اچھا ہے ۔ میں جا کر کمرے میں چلی گئی اور لیٹ گئی صبح کو اٹھ کر اسکول چلی گئی۔اسکول میں جیسے آدھی چھٹی ہوئی۔ماریہ مجھے لے کر لان میں جا کر بیٹھ گئی۔ ماریہ:آج بہت کھلی کھلی لگ رہی ہو خیر ہے۔ میں نے مسکرا کر اسکو کل والی بات بتا دی۔ماریہ نے خوشی سے مجھے چوم لیا اور کہا واہ کیا بات ہے پھر اس نے مزے لے لے کر مجھ سے سوالات پوچھنے شروع کر دئے۔ میں نے کہا یار وہ میرے بھائیوں جیسا تھا۔ ماریہ:ارے سیکس میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا میرا بس چلے تو میں اپنے سگے باپ اور بھائی کو نا چھوڑوں تم کزن کی بات کرتی ہو۔ میں اُسکی بات سن کر حیران ہوگئی۔دل میں اُس پر لعنت بھیجی کہ کیسی بے شرم لڑکی ہے جو اپنے سگے باپ اور بھائی کے لئیے ایسی سوچ رکھتی ہے۔ اس کے بعد اس نے مجھے موبائل پر کلپ دکھانا شروع کر دئیے ۔چھٹی کے بعد گھر پہنچی تو پتا لگا ارشد واپس گھر چلا گیا ہے اسکی والدہ کی طبعیت خراب ہو گئی تھی ۔مجھے یہ جان کر تھوڑی مایوسی ہوئی۔میرا دل ابھی اور کر رہا تھا سیکس کی بھوک مٹانے کا۔میں نے کمرے میں جا کر موبائل اٹھا لیا۔سب سے پہلا کم یہ کیا کہ اس پر کوڈ لگایا کیونکہ ماریہ نے کہا تھا میں تم کو ڈیلی سیکسی ویڈیوز بھیجا کروں گی۔میرا موبائل گھر پر ہوتا تھا۔اس لئیے میں نے اسکو کوڈ لگا دیا تھا۔ ماریہ نے وعدہ کے مطابق مجھ کو ویڈیوز بھیج دیں۔جن کو دیکھ کر چوت میں آگ سی بھڑک اٹھی ۔میں نے شلوار میں ہاتھ ڈال کر چوت کو مسلنا شروع کر دیا ۔انگلی اندر ڈال کر چوت میں گھمانے لگی چوت کی آگ تھی کہ بجا ئے بھجنے کے بھڑکتی جا رہی تھی ہاتھ تھک گیا۔میں نے ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں لڑکی کھیرا کو چوت میں ڈال کر اندر باہر کر رہی تھی۔میں نے فریج میں جا کر دیکھا کھیرا تو نہیں ملا گاجر پڑی تھی ۔میں نے اسکو ہی غنیمت جانا اور کمرے میں آگئی گاجر کو چوت میں ڈال کر اندر باہر کرنے لگ پڑی۔کافی دیر بعد اچانک ایسا محسوس ہوا میرا سارے جسم کا خون سمٹ کر میری چوت کی طرف منتقل ہوگیا ہو خودبا خود میرے ہاتھ کی حرکت میں تیزی آگئی پورے جسم میں اکڑاہٹ شروع ہوگئ اور یک دم چوت سے پانی کا فوارہ نکلا ساتھ ہی پورے جسم میں مزے کی لہر سی دوڑگئی۔یہ ایک نیا تجربہ تھا میرے لیئے ۔میں نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا تو ہاتھ پورا میری چوت سے نکلے ہوئے رس سے بھرا پڑاتھا میں نے اپنے ہاتھ کوچاٹ لیا۔اسکے بعد گاجر جس پر میری چوت کا رس لگاہوا تھا اسکو کھا لیا۔گاجر بہت مزے کی تھی نمکین رس اس پر لگا ہوا تھا۔اسکے بعد میں نے شلواراوپر کی اور لیٹ گئی پورے جسم میں سکون آگیا تھا۔یہ میرا معمول بن گیاتھا اسکول میں ہم دونوں ایک دوسرے سے سیکس کے ٹاپک پر بات چیت کرتے تھے۔گھر آکر میں اپنی چوت سے کھیلا کرتی تھی۔کبھی گاجر کبھی مارکر میری آگ بھجایا کرتے تھے۔ میں اور ماریہ ایک دوسرے سے بہت حد تک فری ہوچکی تھیں میں نے ماریہ کو ایک دن کہا یار کسی طرح کوئی لنڈ کا بندوبست کروادو اب گاجر وغیرہ سے کام نہیں چلتا۔ ماریہ:یار پیپرز ختم ہوجائیں پھر کچھ کراتی ہوں تیرا۔ پیپرز شروع ہو چکے تھے میرا پہلا پیپر انگلش کا تھا جو میں نے حسب معمول 2 گھنٹوں میں کر لیا تھا میری اسکی بہت اچھی تیاری تھی۔ویسے میرا معمول تھا میں پیپر حل کرنے کے بعد بھی کلاس میں بیٹھی رہتی تھی۔پر اگلے دن میرا میتھ کا پیپر تھا تو میں نے سوچا جا کر اسکی تیاری کر لیتی ہوں میں نے مس کو پیپر دیا اور اسکول سے نکل آئی ابھی10کا ٹائم ہوا تھا۔میرا پیپر ویسے 12 بجے ختم ہونا تھا۔میں اپنے گھر کی طرف چل دی جیسے ہی گلی میں داخل ہوئی تو میں نے امی کو سر ریاض کے گھر میں داخل ہوتے دیکھا۔ میں سمجھ گئی آج سر ریاض کی شامت آئی ہے اس نے اس دن جو کچھ میرے ساتھ کیا امی اج اسکی خوب بے عزتی کریں گی،کیونکہ اس دن امی نے کہا تھا تم اپنے ابو کو مت بتا نا میں خود اس ریاض کے بچے کو دیکھ لونگی۔ میں خود اس کی بے عزتی اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی تھی۔میں سر ریاض کے گھر کے سامنے پہنچ کر دروازے کو دھکا دیا تو وہ اندر سے بند تھا۔میں اپنے گھر آگئی،میں نے گیٹ پر لگے ہوئے تالے کو چا بی سے کھولا اور میں سیڑھیوں سے چھت پر چلی گئی وہاں سے سر کے صحن میں جھانکا پر وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔میں نے سوچا امی نے اسکو کمرے میں لے جا کر بے عزت کرنے کا سوچا ہوگا تاکہ شور سن کر محلے والے اکھٹے نا ہوجائیں۔ہماری اور سر ریاض کی چھت ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں بیچ میں 4 فٹ کی دیوار تھی جسکو پھلانگنا میرے لیئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔میں دیوار پھلانگ کر سر کی چھت پر آگئی ۔میرے دل میں سر کی بے عزتی دیکھنے کا شوق جاگ پڑا تھا۔میں سر کی سیڑھیوں سے ہوتی ہوئی سر کے صحن میں پہنچ گئی۔وہاں دروازے کی کِی ہول سے آنکھ لگا کر دیکھا تو اند کچھ نظر نہیں آیا۔اب سر کا بیڈ روم رہتا تھا میں سو چ میں پڑ گئی امی سر کے بیڈ روم میں کیوں گئی ہو نگی۔میں سر کے بیڈ روم کی کھڑکی کی طرف آگئی ۔ میں نے کوشش کر کے ایک سوراخ ڈھونڈ لیا میں نے جیسے اندر کا منظر دیکھا میرے چودہ طبق روشن ہو گئے ،سر ریاض ننگے لیٹے ہوئے تھے اور میری امی ان کا لنڈ مزے سے چو س رہی تھیں۔امی کی عمر 40 سال تھی پر وہ لگتی 30 کی تھیں جسم تھوڑا بھاری تھا۔سر کا لنڈ میرے اندازے کے مطابق کم از کم 9 انچ کا تھا کالا سیاہ ناگ کی مانند ۔میں نے جب سر کا لنڈ دیکھا تھا تو آدھا دھوتی میں تھا اور بعقول سر کے انھوں نے آدھا ہی میرے اندر گھسایا تھا۔اب سر کا پورا ننگا چمکتا ہوا موٹا تازہ لنڈ دیکھا تو میری چوت میں خارش شروع ہو گئی تھی۔سر نے امی کو کہا اب اپنے چوت کا رس بھی پلا دو ہمیں امی:جان یہ سارا رس تمھارے لیئے ہی ھے۔میرا دل تو نہیں کر رہا تھا تمہارے پاس آنے کو تم نے جو میری بچی کے ساتھ کیا پر اپنی چوت کی گرمی سے تنگ آکر آگئی تمھا رے پاس۔ ریاض:معاف کر دو اس دن میں نشے میں تھا میں ہوش کھو بیٹھا تھا۔ امی:میں جو اتنے سالوں سے تمہارے لنڈ کی آگ کو بجھاتی آئی ہوں تو لازمی میری بیٹی پر ہاتھ ڈالنا تھا شکر کرو فوزیہ کے ابو کو پتا نہیں چلا ورنہ بہت ہنگامہ ہونا تھا۔ ریاض:اچھا اب آؤ بھی ٹائم ضائع مت کرو۔ امی نے کپڑے اتار دئے اب امی بھی پوری ننگی ہو چکی تھیں ۔مجھے شرمندگی ہو رہی تھی امی کو ننگا دیکھتے ہو ئے پر چوت کی خارش مجھے ان کا سیکس دیکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔امی اسکے منھ پر بیٹھ گئی دونوں 69 کی پوزیشن میں تھے امی سر کا لنڈ چوس رہی تھیں سر اسکی چوت کا رس۔کافی دیر تک وہ ایک دوسرے کے اعضاء کو چا ٹتے رہے سر نے امی کو نیچے اتارا اور انکو کہا چلو اب گھوڑی بن جاؤ۔امی جلدی بیڈ پر گھوڑی کی پوزیشن میں آگئی۔سر نے اپنے لنڈ کو امی کی چوت پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے پورا لنڈ امی کی چوت میں گھسا دیا۔امی کے جسم کو جھٹکا لگا امی: بہن چود آہستہ چود میں کہیں بھاگی جا رہی ہوں اپنا لنڈ دیکھ گھوڑے کی طرح ہے۔ ریاض ہنستے ہوئے :یار تم کونسا پہلی بار چد رہی ہو ۔ امی:تم نے میری بیٹی کا کیا حال کیا ہوگا وہ ابھی بچی تھی۔ ریاض:اس میں بھی صرف آدھا ہی ڈال سکا تھا۔ سر نے اب امی کی چوت کی ٹھکائی شروع کر دی تھی اور اس کے ساتھ ہی کمرہ ۔۔۔۔ چودائی کی مخصوص آوازوں سے گونجنے لگا۔۔۔۔۔۔۔جس میں اماں کی لزت آمیز سسکیوں کے ساتھ ساتھ سر کے زور داردھکوں کی آوازیں بھی شامل تھیں ۔۔۔کچھ دیر کے بعد سر نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا ۔ امی کو کہا:جان اب یہ تمہاری گانڈ میں جانے کے لئے بے تاب ہے۔ یہ سن کر مجھے وہ منظر یا د آگیا جب سر کا لنڈ غلطی سے میری گانڈ میں چلا گیا تھا ،تکلیف سےمیں مرنے والی ہو گئی تھی۔ امی نےا پنے دونوں ہاتھ پیچھے کیئے اور اپنی انگلیوں کی مدد سے اپنی گانڈ کی دونوں پہاڑیوں کو الگ الگ کیا۔سر نے اپنے لنڈ پر کافی سارا تھوک لگایا اوراور پھر۔۔اس کے ساتھ ہی اس نے لن امی کی گانڈ پر رکھا اور د ھکا لگا دیا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی سر کا لن پھلستا ہوا ۔۔۔ جڑ تک امی کی گانڈ میں چلا گیا۔امی نے مستی کے عالم میں اپنی گانڈ کو خود بخود آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا ۔یہ سب دیکھ کرمیری چوت میں مرچیں سی لگنا شروع ہو گیئں۔میں نے ایک ہا تھ اپنی شلوار میں ڈال دیا اور اپنی چوت کو مسلنے لگ پڑی کمرہ دھپ دھپ کی آوازوں سے گونجنا شروع ہو گیا۔امی کی اس نے جم کر چدائی کی امی تھک چکی تھیں پر سر اپنے پورے زور سے امی کی چدائی کر رہا تھا امی نے کہا مادر چود فارغ بھی ہو جا میرا برا حال ہو گیا ہے ۔تھوڑی دیر بعد سر کے دھکوں میں تیزی آگئی ۔میں سمجھ گئی سر فارغ ہونے لگے ہیں سر نےسپیڈ سے گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔ ادھر ان دھکوں کی تاب نہ لاتے ہوئے امی چلانے لگیں۔اور اس کے ساتھ ہی سر امی کے اوپر ڈھے گئے۔۔۔اس وقت اُن کا لن امی کی گانڈ میں پچکاری مار رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ سر کی ٹائمنگ کم از کم 30 منٹ تھی ۔ارشد تو بے چارہ 4 منٹ میں ہی فارغ ہو گیا تھا۔اس دن جب سر نے مجھے کیا تھا شائید میری چوت کی تنگی کی وجہ سے 15 منٹ میں فارغ ہو گئے تھے ۔پر وہ 15 منٹوں نے ہی مجھے بے حال کر دیا تھا۔ ان کی چودائی ختم ہوتے دیکھ کر میں بڑی آہستگی سے واپس مڑی۔۔۔۔۔ اور پھر دبے پاؤں چلتی ہوئی جدھر سے آئی تھی اسی سمت واپس چلی گئی اورچھت سے ہوتی ہوئی اپنےگھر میں داخل ہو گئی۔اوراپنے کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھٹکھٹایا میں نے دروازہ کھولا تو امی اندر داخل ہوگئی،امی نے پوچھا پیپر ہو گیا آج جلدی کیسے آگئی۔ میں نے دل میں سوچا اگر جلدی نا آتی تو آپ کی چوری کیسے پکڑتی پر میں نے کہا اگلے پیپر کی تیاری کرنی ہےاس لئے ۔ اب مجھے سمجھ آ گیا تھا امی روز سبزی لینے کے بہانے گھر سے نکلتی تھی اور ریاض صاحب کے گھر جا کر چدوا کر آجا تی تھیں۔اور یہ سلسلہ پتا نہیں کتنے عرصے سے چل رہا تھا۔ میں کمرے میں داخل ہو کر کنڈی لگا ئی اور بیڈ پر لیٹ کر بستے سے مارکر نکالا ۔میری چوت میں آگ لگی ہوئی تھی اسکو لنڈ چا ہیے تھا سر کا موٹا تازہ لنڈ میری آنکھوں کے سامنے آجا رہا تھا۔میں نے جم کر چوت میں مارکر سے اندر باہر کیا پر چوت کی آگ تھی کہ ٹھنڈی نہیں ہو رہی تھی۔تھک ہار کر میں نے مارکر کو رکھ دیا اور نہانے کے لئے چل پڑی۔نہا کر کچھ سکون مل گیا۔ شام کو ابا جلدی گھر آ گئے اور امی کو بتا یا ارشد کی امی کو ہا رٹ اٹیک ہوا ہے انکو ہسپتال لے کر گئےہیں ہم کو جانا پڑے گا ۔ ارشد والے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رہتے تھے۔ امی:ہم کیسے جا سکتے ہیں صبح فوزیہ کا پیپر ہے اور اسکو گھر میں اکیلے بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ میں:امی آپ میری فکر نہ کریں میں ماریہ کو بلا لوں گی ہم دونوں مل کر پیپرز کی تیاری بھی کر لیں گی۔ امی:میرا دل تو نہیں مان رہا پر جانا بھی ضروری ہےورنہ خاندان والے باتیں بنائیں گے۔ میں:امی آپ میری فکر نہ کریں آپ آرام سے جائیں،میں ابھی ماریہ کو فون کر دیتی ہوں۔ میں کمرے میں چلی آئی ۔میرا ارادہ ماریہ کو بلانے کا نہیں تھا میرے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ میں تھوڑی دیر میں کمرے سے باہر نکل آئی امی نے پوچھا: کیا کہا ماریہ نے میں:ماریہ کا بھائی آجائے وہ اسکو چھوڑجا ئے گا آپ پریشان نہ ہوں۔ امی کا دل تو نہیں مان رہا تھا انہوں نے بہرحال تیاری کر لی اورساتھ ساتھ مجھے نصیحتیں اور تاکیدیں کرتی جا رہی تھیں۔جنکو میں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتی جا رہی تھی ۔تھوڑی دیر بعد ابو اور امی گھر سے بس اسٹینڈ کی طرف چل دیئے ۔اور میں تیار ہو نے لگ پڑی میرا ارادہ آج سر ریاض کے لنڈ کا مزہ چکھنے کا تھا۔میں خوب تیا ر ہو کر شام7 بجے کا انتطا ر کرنے لگ پڑی۔ایک تو مجھے یہ کنفرم کرنا تھا کہ امی والے کوچ پر بیٹھ گئے ہیں۔دوسری وجہ یہ تھی کہ سر 6 بجے تک ٹیوشن پڑھاتے تھے۔تھوڑی دیر کے بعد امی کا فون آگیا امی کا پہلا سوال ماریہ کے بارے میں تھا میں نے جھو ٹ بول دیا کہ ماریہ آگئی ہے آپ پریشا ن نہ ہوں پھر امی نے بتایا ہم کوچ میں بیٹھ گئے ہیں۔امی کے فون بند ہونے کے بعد میں شدت سے 7 بجنے کا انتظا ر کرنے لگ پڑی۔جیسے 7 بجے میں نے تھوڑا انتظار کیا کہ باہر تھوڑا اندھیرا ہو جائے۔جیسے رات کی تاریکی بڑھنا شروع ہوئی میں چھت پر آگئی اور اُسی طرح چھت پھلانگ کر سر کے گھر میں دا خل ہو گئی ۔سر کے گھر میں چوری چھپے داخل ہو کر میں سر کی بیٹھک میں آ گئی وہاں کوئی نہیں تھا میں نے سمجھ لیا سر بیڈ روم میں ہوں گے میں نے بیڈ روم کے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو کھل گیا۔میں آہستہ سے بیڈ روم میں داخل ہو گئی ۔سر بیڈ روم میں نہیں تھے سر شائید واش روم میں تھے کیونکہ واش روم میں پانی چلنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔میں چپ چاپ جا کر بیڈ پر لیٹ گئی تھوڑی دیر بعد سر واش روم سے نکلے مجھے بیڈ پر لیٹا دیکھ کر بری طرح چونک گئے۔ سر:تم میرے بیڈ روم میں کیسے داخل ہوئی با ہر کا گیٹ تو لاک ہے میں:جس طر ح میں اُس دن داخل ہوئی تھی جب آپ اور میری ماں مزے لے رہے تھے۔ سر:اچھا تو تم نے سب کچھ دیکھ لیا تھا۔ میں :ہاں میں سب کچھ جا ن چکی ہوں۔ سر:اب تم کیا چاہتی ہو میں :کچھ نہیں بس اپنی جسم کی آگ کو بجھانا چاہتی ہوں جس کو تم نے بھڑکا یا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے اپنی ٹانگوں کو تھوڑا کھول دیا۔ میرا یہ سیکسی انداز دیکھ کر تو سر جیسے پا گل سے ہو گئے سر نے ایک جھر جھری لی اور میرے پر ٹوٹ پڑے ،سر نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور مجھے کس کرنا شروع کر دیا میں نے بھی سر کا بھرپور ساتھ دینا شروع کر دیا کبھی سر کی زبان میرے منھ میں ہوتی تو کبھی میری زبا ن سر کے منھ میں ،ہم نے کافی دیر تک ایک دوسرے کو کس کی سر کا ہاتھ میرے مموں سے کھیل رہا تھا میں نے اپنی قمیض کو خود ہی اتار لیا سرمیرے مموں کو دیکھ کر پاگلوں کی طرح ٹوٹ پڑا اور نپلز پر کاٹنے لگ پڑا سر کا انداز وحشیانہ تھا ۔اس کے بعد سر میرے پیٹ پر کسنگ کرنے لگ پڑے پھرانہوں نے میری شلوار اُتا ر دی ۔اور پیٹ سے ہوتے ہوئے وہ میری چو ت پر آ ئے اور میری چوت کو چا ٹنے لگے۔چوت کے لب کھول کر اپنی زبان کو اندر ڈال دیا میں مزے کی دنیا میں جیسے کھو سی گئی تھی ۔واقعی ماریہ نے سہی کہا تھا جسم کی بھوک بہت ظالم ہو تی ہے یہ ہی وہ شخص تھا جس نے میری عزت کو تا ر تار کیا تھا پر میں اپنی جسم کی بھوک سے مجبور ہو کر اسکےسامنے لیٹی ہوئی تھی۔ سر میری چوت کو چا ٹتے جا رہے تھے ساتھ ساتھ میری چوت کے اوپر جو دانہ سا بنا تھا اسکو مسلتے جا رہے تھے ۔پھر انہوں نے اپنا منھ میری چوت کے اوپر لگے دانے پر رکھ دیا اور اس کو چوسنے لگے ۔ اس سے مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں بیڈ پر بُری طرح تڑپنے لگی سر کو کبھی دائیں کبھی بائیں مارنے لگی ۔سر دوبارہ چوت کے اندر اپنی زبان ڈال کر مجھے زبان سے چودنے لگ پڑے سر کی زبان کو اندرباہر کرنے سے مجھے مزہ آرہا تھاکمرہ میری سسکیوں اور آہوں سے گونج رہا تھا ۔تھوڑی دیر کے بعد میرے جسم نے آکڑنا شروع کر دیا اورسانسوں تیز ہو گئیں۔میں سمجھ گئی میری چوت پانی چھوڑنے والی ہے میں نے ریاض کو پیچھے ہٹانا چا ہا پر وہ نہیں ہٹامیری چوت نے اچانک پانی چھوڑ دیا جسکو ریاض صاحب نے کچھ پی لیا اور کچھ منھ میں رکھ کر میرے منھ میں انڈیل دیا جسکو میں نے پی لیا۔اور زبان سے ریاض صاحب کے منھ پر لگے ہوئے اپنی چوت کے رس کوصاف کیا۔ سر میرے ساتھ ہی لیٹ گئے تھے میں نے سر کے ہونٹوں پر کسنگ شروع کر دی اور سر کی گردن سے ہوتی ہوئی سر کے پیٹ پر آئی سر نے حسب معمول دھوتی پہنی ہوئی تھی جس میں سے سر کا لنڈ باہر آنے کے لیے مچل رہا تھا ۔میں نے سر کی دھوتی کو اتارا تو اندر سے کالا شیش نانگ باہر آ گیا سر کا لنڈ میں نے اب قریب سے دیکھا تھا سر کا لنڈ تقریبا9 انچ کے لگ بھگ تھا اور اچھا خاصا موٹا تھا۔میری بازو کے جتنی موٹائی تھی۔میں نے سر ریاض کی لنڈ کی ٹوپی پر اپنی زبان کو گھمایا اور مزے سے اسکو چاٹنے لگ پڑی سر کے لنڈ کی ٹوپی اور ایک یا دو انچ میرے منھ میں جا سکا جیسے تیسے کر کے میں نے سر کے لنڈ پر اپنے منھ کو چلانا شروع کر دیا کبھی سر کے لنڈ کی ٹوپی پر اپنے دانت گاڑ دیتی تو سر مزے اور تکلیف سے تھوڑا کراہ اٹھتے۔سر کے لنڈ سے نکلنے والے لیس دار پانی کو میں پیتی جا رہی تھی۔سر کے لنڈ کو اچھی طرح اپنی زبان اور تھوک سے گیلا کیا اور سر کو لیٹنے کا کہا سر سیدھا لیٹ گئے سر کا لنڈ کسی بانس کی طرح سیدھا کھڑا تھا میں نے اوپر آکر اپنی چوت کو سر کے لنڈ کے اوپر سیٹ کیا اور آہستہ آہستہ اندر لینا شروع کیا تھوڑا سا اندرجانے کے بعد میں نے خود کو روک لیا اب آہستہ آہستہ درد ہونا شروع ہو گیاتھا۔میں نے دوبارا باہر نکالا اور پھر اندر ڈالا میں نے نیچے نظر ماری تو دیکھا ابھی تک آدھا ہی اند ر گیا تھا میں نے سر کے لنڈ پر اوپر نیچے ہونا شروع ہوگئی تھی میں مزے کی انتہا پر پہنچ چکی تھی میں نے بے اختیا ر سر کو کہا مجھے گالیاں نکالو

سر نے کہا بہن چود مجھے بھی ریا ض کہہ کر پکارو میں نے مزے سے سیکسی آواز نکال کر کہا مادر چود آج پھاڑ دے میں سر سے لے کر پاؤں تک تیری ہوں ریاض:گشتی تیرے میں بہت آگ ہے میں نے تجھے اُس دن ہی سمجھ لیا تھا تو اپنی ماں پر گئی ہے۔ ماں کا نام سن کر میں نے غصے سے سر کے ہونٹوں پر کاٹ لیا سر نے بدلے میں نیچے سے ایک زور دار جھٹکا مارا تو سر کا لنڈ میری چوت کی دیواریں چیرتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔میری منھ سے زور دار چیخ نکلی ساتھ ہی میں نے سر کا ہونٹ چھوڑ دیا۔ میں نے نیچے دیکھا تو سر کا لنڈ ابھی بھی 2 انچ باہر تھا میرے میں اور اندر لینے کی ہمت نہیں تھی،سر کا لنڈ واقعی میں گھوڑے کا تھا میں نے دل میں سوچا۔ میری ٹانگیں جواب دے رہی تھیں سر نے مجھے پکڑ کر نیچے لٹا لیا اور میرے اوپر آگئے اب سر جم کر میری چدائی کر رہے تھے سر کے زور دار جھٹکوں سے میری چوت کا کباڑہ ہو رہا تھا۔سر نے ایک زور دار جھٹکا مارامیرے منھ سے زور دار چیخ نکلی سر کا لنڈ جڑ تک میری چوت میں فٹ ہو گیا میں نے درد کے مارے اپنے ناخن ریا ض کی پیٹھ پر گھونپ دئیے۔ریاض رکے نہیں میرے منھ سے گالیاں نکل رہی تھیں سر کے ہر جھٹکے پر میں تڑپ جاتی ٹھی سرکا لنڈ میری بچہ دانی سے ٹکراتا تھا،پتہ نہی کتنی دیر تک سر میری چوت کی چدائی کرتے رہے میرے خیال میں کم از کم 20 منٹ گزر چکے تھے سر اور میں پسینے سے شرابور ہو چکے تھے حالانکہ اے سی چل رہا تھا۔میری چوت نے دوبارہ پانی چھوڑ دیا تھا پر سر تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ،میں نے ہاتھ باندھ دئیے سر کی منتیں شروع کر دیں۔سر نے مجھ پر رحم کھا کر اپنا لنڈ باہر نکال دیا میری جان میں جان آئی سر نے کہا اب اسکو منھ میں لو اور مجھے فارغ کرو میں نے سر کے لنڈ کو منھ میں لیا اور لگ پڑی چوسنے کافی دیر تک چوسنے کے بعد بھی سر فارغ ہونے کا نا م ہی نہیں لے رہےتھے۔میرا منھ تک تھک گیا تھا ۔سر نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور مٹھ مارنے لگ پڑے میں منھ کھول کر بیٹھی رہی تھوڑی دیر بعد سر کے جسم کو جھٹکے لگنا شروع ہو گئے میں سمجھ گئی سر فارغ ہونے لگے ہیں میں نے سر کے لنڈ کو جلدی سے منھ میں لے لیا سر نے ایک زور دار چنگھاڑ نکالی ۔یک دم میرے منھ میں منی کا سیلا ب آگیا میں نے جلدی سے اسکو نگلنا شروع کر دیا سر کی منی کافی گاڑھی تھی اور روکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی سر واقعی میں گھوڑا تھے چودنے میں بھی اور منی بھی گھوڑے کی طرح نکل رہی تھی۔سر کے جسم کو ابھی تک جھٹکے لگ رہے تھے کافی ساری منی میری گردن اور مموں پر بھی گر پڑی تھی۔میں نے چوس چوس کر سر کے لنڈ سے ایک ایک قطرے کو نکالا۔سر بیڈ پر گر پڑے میں بھی بے حال ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی۔میں نے ڈوپٹے سے اپنے مموں اور منھ کو صاف کیا ۔اور سر کے بازؤں پرلیٹ گئی ریاض نے پوچھا تم نے جانا نہیں ہے میں نے بتا دیا کہ میں گھر اکیلی ہوں آج کی رات آپ کے پا س گزاروں گی۔سر نے خوش ہو کر مجھے چوم لیا اور کہا جان آج کی رات کو ہم یادگار بناتے ہیں میں کچھ کھانے کو لا تا ہوں سر نے کپڑے پہنے اور مجھے بھی کپڑے پہنائے خود باہر کھانا لانے نکل پڑے۔میں نے امی کو فون کیا تو انہوں نے بتا یا ابھی ہم راستے میں ہیں مجھ سے ماریہ کا پوچھا میں نے بتا دیا وہ کھانا بنا رہی ہے اور ہم کھانا کھا کر سو جائیں گے ۔میں نے اس لئیے سونے کا کہا ورنہ امی پریشان ہو کر مجھے با ر بار فون کر کے ڈسٹرب نہ کرتی رہیں۔تھوڑی دیر بعد سر کھا نا لے کر آگئے ۔میں نے کہا میں کھانا لگاتی ہوں سر نے کہا کھانا تھوڑی دیر تک کھاتے ہیں ۔سر نے جیب سے شراب کی بوتل نکال لی۔میں نے کہا :یہ کیوں پی رہے ہیں آپ ،کیا میرا نشہ کافی نہیں ہے۔ سر:پاگل اس سےتمہاری جوانی کا نشہ سہہ آتشہ ہو جائے گا۔سر نے دو گلاس نکالے اور پیگ بنانے لگ پڑے میں نے کہا میں نہیں پیوں گی۔ سر نے کہا :جان ایک پیگ پی لو سیکس کا مزہ دوبالا ہو جائے گا سر کے زور لگانے پر میں نے حامی بھر لی سر نے اپنے گلاس میں پانی ڈالا اور میرے گلاس میں کولڈڈرنک ڈال دی سر:جان کولڈڈرنک سے تم کو یہ زیا دہ کڑوی نہیں لگے گی میں نے گلا س اٹھا لیا ایک گھونٹ بھرا تھوڑی کڑوی لگی پر میں پی گئی سر نے ایک ہی سانس میں پورا گلاس چڑھا لیا۔ سر نے دو پیگ پیئے میں نے ایک بڑی مشکل سے ختم کیا۔بعد میں کھانا وغیرہ کھا یا۔ میرا سر تھوڑا گھوم رہا تھا جسم ایسا لگ رہا تھا ہلکہ ہو گیا ہو میں نے سر کی طرف نشیلی آنکھوں سے دیکھا سر میرے نزدیک آگیا۔سر نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی لگا یا اور سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ایک سی ڈی نکال کر لگا دی ۔تھوڑی دیر بعد ٹی وی پر سیکسی فلم چلنا شروع ہو گئی جسکو دیکھ کر میری چوت میں دوبارہ خارش شروع ہو گئی۔سر نے مجھے چومنا شروع کر دیا میرے کپڑے اتارنے لگ پڑے کپڑے اتار کر سر نے مجھے گھوڑی بننے کا کہا میں الٹی ہو کر گھوڑی کی پوزیشن میں آگئی۔سر نے نشیلی آواز میں کہا :فوزیہ تمہاری گانڈ بہت اچھی ہے اب میں اپنا لنڈ تمہا ری گانڈ میں ڈالوں گا میں دھل گئی مجھے وہ درد یا د آگیا میں جلدی سے سیدھی ہو گئی میں نے کہا نہیں گانڈ میں بہت درد ہو تا ہے سر نے کہا مجھ پر اعتبا ر رکھو میں اتنا ہی اندر ڈالوں گا جتنا تم برداشت کر سکو گی میں سر کے زور لگانے پر مان گئی۔ سر واش روم سے تیل لےآئے اور اچھی طرح سے اپنے لنڈ پر تیل کی مالش کی تیل لگانے سے سر کا لنڈ اور کالا اوربھیانک لگنے لگ پڑا سر نے مجھے دوبارہ گھوڑی بننے کو کہا میں گھوڑی بن گئی سر نے اچھی طرح میری گانڈ پر تیل لگایا اور اپنی انلی کو تیل میں ڈبو کر میری گانڈ میں داخل کر دی میرے منھ سے سسکاری نکلی سر نے اندر انگلی سے میری گانڈ میں اچھی طرح تیل لگایا۔پھر انگلی نکال کر اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری چوت پر سیٹ کیا ،میں نے نیچے سے کہا بہن چود اگر جھٹکا لگایا تو کبھی نہیں تیرے پاس آؤنگی۔ سر نے کہا مجھ پراعتبار رکھومیں کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گا جس سے تم کو تکلیف ہو۔ سر نے مجھے اپنی گانڈ کو کھولنے کا کہا میں نے پیچھے ہاتھ کر کے اپنی گانڈ کے سوراخ کو کھولا سر نے میری گلابی گانڈ پر اپنا کالا لنڈ فٹ کیا اور زور لگا کر اپنی ٹوپی اندر ڈال دی گھپ کی آواز سے ٹوپی اندر گئی مجھے درد ہونا شروع ہو گئی میں نے درد سے کراہنا شروع کر دیا۔اسکے بعد سر نے آہستہ آہستہ زور لگا کر لنڈ کو اند گھسانا شروع کر دیا 2 یا 3 انچ اندر جانے کے بعد میری ہمت جواب دے گئی۔میں نے کہا بس اتنا بہت ہے سر :مادرچود آدھا تو اندر لے میں:گشتی کے بچے اپنی ماں کو بول وہ لے اسکو اندر گھوڑے جیسا لنڈ ہے تیرا سر نے اب لنڈ کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا تکلیف کے مارے میری آنکھوں سے آنسو جا رہے تھے۔میں نے درد کی شدت سے تکیے کو کاٹنا شروع کر دیا تھا۔اور دل میں سوچنا شروع کر دیا تھا کہ میں نے کہیں سر کے گھر آکر غلطی تو نہیں کر لی۔ سر :تیری گانڈ بہت ٹائیٹ ہے مجھے لگ رہا ہے جیسے میرے لنڈ کی کھال اتر رہی ہو۔ میں :بہن چود جلدی فارغ ہو مجھے گانڈ میں تکلیف ہو رہی ہے۔ 10 منٹ کے بعد سر نے میری گانڈ میں ہی اپنی منی نکال دی میں نے سکھ کا سانس لیا ۔سر لیٹ گیا۔مجھے اب گانڈ میں درد ہو رہی تھی، اس پوری رات میں نے کوئی 4 با ر سیکس کیا۔تھک ہار کر ہم لیٹ گئے صبح کے 4 بج چکے تھے جب ہم سوئے تھے صبح 7 بجے الارم پر میری آنکھ کھلی میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور چھت سے ہوتی ہوئی اپنے گھر آگئی اور اپنا یونیفارم پہنا اور چائے پی کر گھر سے نکل پڑی، ایک رات کی نیند پوری نہیں ہوئ اور دوسرا شائید شراب کے نشے کی وجہ سے سر پھٹا جا رہا تھا۔جیسے تیسے کر کے پیپر کیا ،چھٹی کے ٹائم ماریہ کو میں نے ساتھ لیا اور ہم لان میں جا کر بیٹھ گئے ،ماریہ نے میری آنکھیں دیکھیں تو پوچھا خیر ہے کیا ساری رات پڑھتی رہی ہو آنکھیں لال ہو رہی ہیں۔ میں نے کہا اسکو چھوڑو تم سے ایک کام ہے۔ ماریہ:حکم کرو جان حاضر ہے۔ میں :جان نہیں چاہیے بس امی اگر کبھی پوچھیں تم سے تو تم بتا دینا کل رات تم ہمارے گھر تھی۔ ماریہ:تو یہ آنکھوں کی خماری پڑھنے سے نہیں رات بھر جاگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔کون تھا وہ خوش نصیب؟ میں نے اسکو سب بتا دیا مجھے پتا تھا وہ آسانی سے پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہے۔ واہ تم نے مجھے کہا لنڈ کا بندوبست کرو اور خود ہی بندوبست کر لیا۔ میں:یار بس اسکا لنڈ ایسا تھا مجھ سے کنٹرول نہیں ہوا ماریہ نے کرید کرید کر سر کے لنڈ کے سائز کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔میں نے کہا :بہن چود کا لنڈ سمجھو گھوڑے جتنا ہے ماریہ نے موبائل نکالا اور اس میں سے کچھ کالے حبشیوں کی تصاویر نکالیں اور دکھا دکھا کر پوچھنے لگ پڑی کس سے ملتا جلتا ہے اس کا لنڈ میں نے ایک تصویر پر ہاتھ رکھ کر کہا تقریبا اس کے سائز کا ہوگا۔ ماریہ نے تصویر کو دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا یار تو خوش نصیب ہے۔مجھے تو آج تک جتنے لنڈ ملے 6 انچ تک کے ہی تھے۔ میں نے کہا چلو گھر چلیں میں نے آرام کرنا ہے ہم دونوں اپنے اپنے گھر آ گئیں۔میں آ کر سو گئی 5 بجے فون کی گھنٹی سے آنکھ کھلی میں نے بڑی مشکل سے آنکھ کھولی تو امی کا فون تھا۔امی نے بتایا ارشد کی امی کو فالج بھی ہو گیا ہے کافی حالت خراب ہے ۔تم مجھے ماریہ کی امی کا نمبر دو میں ان کو بولتی ہوں ایک اور دن اُ ن کی بیٹی ہمارے گھر رک جائے میں نے گھبرا کر کہا امی ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے وہ رک جائے گی۔ امی نے مطمعین ہو کر فون بند کر دیا۔میں نے ماریہ کا نمبر ملایا اور اسکو کہا تم آج کی رات میرے گھر آجاؤ۔ ماریہ :میری امی سے بات کر لو میں انکو فون دیتی ہوں میں نے ماریہ کی امی سے اجازت لے لی اور تھوڑی دیر بعد اسکا بھائی اسکو میرے گھر چھوڑ گیا ۔وہ گھر سے بریانی بنوا کر لائی تھی میں نے بھی رات کا کھانا کھایا تھا۔پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے ہم دونوں نے مل کر بریا نی کھائی ۔ وہ بہت خوش لگ رہی تھی۔مجھے اسکی خوشی کا اندازہ تھا۔ میں نہا دھو کرتیار ہو نے لگ پڑی اور ہم دونوں شام کا انتظار کرنے لگے۔جیسے ہی رات کی تاریکی بڑھی میں نے ماریہ کو ساتھ لیا اور ہم دونوں سر کی چھت سے ہوتے ہوئے سر کے گھر میں داخل ہو گئے ماریہ کو میں نے کہا تم میرا یہاں انتظار کرو میں سر سے با ت کر کے آتی ہوں۔ میں سر کے گھر داخل ہوئی تو سر کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہے تھے سر مجھے دیکھ کر چونک گئے تم ہمیشہ سر پرائیز دیتی ہو۔ میں:ابھی اور بھی سر پرائیز باقی ہے سر :میں کچھ سمجھا نہیں میں :بتاؤں گی صبر سے کام لیں۔ سر :تمہارے گھر والے نہیں آئے کیا اب تک میں:نہیں ابھی تک نہیں آئے۔ میں نے آگے بڑھ کر سر کے کپڑے اتارنا شروع کر دئے سر کو ننگا کر کے میں نے سر کو کس کرنا شروع کر دیا۔تھوڑی دیر بعد میں نے سر کو کہا آپ لیٹ جاؤ میں ایک منٹ میں آتی ہوں سر بیڈ پر لیٹ گئے میں کمرے سے باہر آگئی اور ماریہ باہر میرا انتظار کر رہی تھی میں ماریہ کو لے کر کمرے میں داخل ہوئی ۔سر میرے ساتھ ماریہ کو دیکھ کر بری طرح چونک گئے۔ سر :یہ کون ہے اور اسکو ساتھ کیوں لائی ہو میں:یہ میری دوست ہے ماریہ میرے ساتھ اسکول میں پڑھتی ہے سر:اسکو یہاں کیوں لائی ہو۔ میں:اسکے جسم میں بھی آگ لگی ہوئی ہے اسکو بجھانے کے لیئے آپ کی ضرورت ہے۔ ماریہ نے اپنی نگاہیں بھوکی بلی کی طرح سر کے لنڈ پر ٹکا ئی ہوئی تھی۔میں نے ماریہ کا ہاتھ پکڑا اور اسکو لے جا کر سر کے پا س بیڈ پر بٹھا دیا ماریہ تھوڑی جھجھک رہی تھی۔اسکو بیڈ پر بٹھا کر میں واپس جانے کے لئیے مڑی تو سر نے پوچھا تم کہا چل دی میں:آپ ماریہ کی آگ بجھائیں میں دوسرے کمرے میں انتظار کرتی ہوں۔ سر:میری ایک شرط ہے اگر منظور ہے میں:بتائیں کیا شرط ہے؟ سر نے سائیڈ ٹیبل سے ایک گولی نکالی اور پا نی کے ساتھ کھا لی اور کہنے لگے سر :تم دونوں پہلے میرے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرو میں تم کو بیٹھ کر دیکھوں گا میں :نہیں سر مجھے شرم آئے گی۔ سر :بہن چود مجھ سے سیکس کرتے ہوئے شرم نہیں آئے گی۔چلو شروع ہو جاؤ مجھے بھی سیکس کے لیئے تیار ہونے میں آدھا گھنٹہ لگے گا اس گولی کا اثر شروع ہو جب تک۔ میں: یہ کس چیز کی گولی ہے؟ سر: تم دو گرم جوانیوں کی آگ بجھا نے کے لئیے یہ گولی لازمی تھی اس سے میں جم کر تم دونوں کی چدائی کروں گا لنڈ جلدی فا رغ بھی نہیں ہوگا میں نے دل میں سوچا سر کی ٹائیمنگ ویسے ہی کمال کی تھی اب گولی کھا کر اور دھمال کر ے گا سر۔ ابھی میں کچھ بولنے ہی لگی تھی مار یہ نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔میں حیران رہ گئی شائید ماریہ کو سر کے لنڈ کو دیکھ کر اب صبر نہیں ہو رہا تھا اس لئیے اس نے سر کی بات مان بھی لی اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا۔ماریہ مزے سے میرے ہونٹ چوس رہی تھی اب میں نے بھی ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔اس نے اپنی زبان میرے منھ میں ڈال دی میں اسکو چوسنے لگ پڑی سر سامنے بیٹھ کر ہمارا سیکس انجوائے کرنے لگے ساتھ ساتھ شراب کے پیگ سے شراب کی چسکیا ں لے رہے تھے۔ہم پتا نہیں کتنی دیر کسنگ کرتے رہے میں نے آج تک اتنی لمبی کس کسی کے ساتھ نہیں کی تھی،حیرت انگیز طور پر مجھے ماریہ کو کس کرنا اچھا لگ رہا تھا۔ ماریہ کو بھی شائید مزہ آ رہا تھا میں نے ماریہ کےسینے پر ہاتھ رکھ کر اس کے پستانوں کو دبانا شروع کر دیامیں نے ماریہ کی قمیض کو اوپر کرنا چاہا تو ماریہ نے خود ہی قمیض اتار دی اور ساتھ میری بھی قمیض اتارنے لگی۔میں نے ماریہ کو مموں کو دیکھا اس کے ممے میرے جتنے بڑے نہیں تھے پر بہت حسین تھے میں نے اسکے گلابی نپلز کو منھ میں لے کر چوسنے لگ پڑی ساتھ ساتھ اسکی چوت پر شلوار کے اوپر سے ہی ہا تھ پھیرنا شروع کر دیا اسکی چوت پانی چھوڑ رہی تھی اسکا مطلب وہ انجوائے کر رہی تھی۔اب میرے ممے چوسنے کی باری اس کی تھی اس نے میرے ممو ں کو اپنے منھ میں لے لیا اور چوسنے لگ پڑی سا تھ ساتھ اس نے میری شلوار میں ہاتھ ڈال دیا جیسے ہی میری چوت کو اسکا ہاتھ لگا میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔اس نے میری چوت کو مسلنا شروع کر دیا ۔اس کے بعد اس نے اپنا منھ میری ناف پر رکھا اور زبان سے چاٹنے لگی پھر اس نے میری اور اپنی شلوار اتار دی۔پھر اپنا منھ میری چوت پر رکھ دیا اور میری چوت کےلبوں کو چوسنے لگ پڑی میرے پورے جسم میں مزے کی لہر دوڑنے لگ پڑی اسکی زبان میری چوت کے اندر با ہر ہونے لگ پڑی میں نے ماریہ کو اپنے اوپر آنے کا کہا ہم دونوں69 کی پوزیشن میں آگئے اور زورشور سے ایک دوسرے کی چوت چاٹنے لگ پڑیں۔جتنا جوش وہ دکھاتی اس سے زیادہ جوش سے میں اسکے چوت کو چاٹتی پورا کمرہ ہم دونوں کی مزے سے نکلنے والی آہوں اور سسکیوں سے گونج رہا تھا۔کا فی دیر تک ہم دونوں ایک دوسری کی چوت کو بھوکی بلیوں کی طرح نوچتی رہیں اب سر سے بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا اس نے بھی آ کر ہم کو جوائن کر لیا اور لگ پڑا میری چوت کو چا ٹنے سر اور ماریہ دونوں کے ہونٹ میری چوت کو چاٹ رہے تھے کبھی وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کو کس کرتے کبھی مل کر میری چوت کو چاٹتے میں نیچے تڑپ رہی تھی مزے سے۔سر کو شائید مجھ پر رحم آگیا اور انہوں نے اپنا لنڈ میری چوت پر رکھ کر ایک ہلکا سا جھٹکا مارا سر کا آدھا لنڈ میری چوت میں غا ئیب ہو گیا میرے منھ پر ماریہ بیٹھی تھی میں نے مزے میں اسکے چوت کو زور سے کس کرنا شروع کر دی سر نے دھکے مارنا شروع کر دئے مجھے ایسا لگ رہا تھا کسی نے میری چوت میں مشین لگا دی ہو سر نے نان سٹاپ لنڈ کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا میں مزے کی انتہاپر پہنچ چکی تھی کوئی 10 منٹ کی مسلسل چدائی کے بعد مجھے جھٹکے لگنے لگ پڑے میری چوت نے پانی چھوڑ دیا کیونکہ ایک سر کی زبردست چدائی اور اس سے پہلے ماریہ نے چوت کو چوس کر مجھے جلد فارغ ہونے میں مدد کی تھی۔میں زور زور سے سانس لے رہی تھی سر نے اپنا لنڈ باہر نکالا وہ ابھی تک کھڑا تھا ۔سر نے ماریہ کو لیٹنے کو کہا مجھے اسکے ہاتھ پکڑنے کو کہا سر نے اسکی ٹانگوں کو تھوڑا اوپر کیا اور اپنے لنڈ کو ہا تھ سے پکڑ کر اسکی چوت کے اوپر رکھا اور ایک جھٹکے میں آدھے سے زیادہ لنڈ ماریہ کی چوت میں گم ہو گیا۔ماریہ کے جسم کو جھٹکا لگا اس کی چوت میں پہلی بار لنڈ نہیں گیا تھا پر اس نے آج تک اتنا موٹا اور لمبا لنڈ نہیں لیا تھا اسکے منھ سے زور دار چیخ نکلی ابھی وہ سنبھلی نہیں تھی سر نے زور لگا کر پورا لنڈ جڑ تک اسکی چوت میں ڈال دیا سر اسکی چوت دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ لڑکی کنواری نہیں ہے اس لئیے اس نے کو ئی رعائیت نہیں کی ،ماریہ نے زور دار چیخ ماری اور ساتھ ہی اسکا جسم ز ور زور سے جھٹکے کھانے لگ پڑا اسکی آنکھیں اوپر چڑھ گئی تھیں جیسے اسکو مرگی کا دورہ پڑ گیا ہو کچھ دیر سنبھلنے کے بعد سر نے اپنا لنڈ اندر باہر کرنا شروع کر دیا یوں لگ رہا تھا جیسے کسی گلابی مشین میں پسٹن چل رہا ہو۔میں نے اپنی چوت میں انگلی ڈال کر اندر باہر کرنے لگ پڑی کچھ دیر بعد میں ماریہ کے منھ پر بیٹھ گئی ماریہ نے اپنی زبان باہر نکالی میں اسکی زبان پر بیٹھ کر اوپر نیچے ہونے لگ پڑی۔سر نے اسکی پوزیشن بدل بدل کر چدائی کی کچھ دیر بعد ماریہ کی چوت نے بھی ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا جسکو میں نے منھ لگا کر چاٹ لیا۔سر نے اپنا لنڈ نکالا اس پر بھی ماریہ کا جوس لگا ہوا تھا میں نے اچھی طرح اسکو اپنی زبا ن سے صاف کیا سر نے ماریہ کو الٹی لیٹنے کا کہا ماریہ الٹی لیٹ گئی۔میں سمجھ گئی اب ماریہ کی گانڈ بجانے کا وقت آگیا ہے۔ ماریہ شائید نہیں سمجھی تھی اسے لئیے آرام سے الٹی لیٹ گئی تھی مجھے سر نے اشارہ کیا کہ میں اسکی کمر پر بیٹھ جاؤں تاکہ وہ نیچے سے نکل نا پائے سر کا لنڈ میرے منھ کے سامنے تھا سر نے اپنا لنڈ میرے منھ میں دے دیا میں نے مزے سے اس کے لنڈ کو چوسنا شروع کر دیا تاکہ وہ اچھی طرح گیلا ہو جائے اسکو اچھی طرح گیلا کرنے کے بعد میں نے ماریہ کی گانڈ کے سوراخ پر کا فی سارا تھوک پھینک دیا ماریہ کی گانڈ پر جیسے تھوک گرا وہ سمجھ گئی اسکے ساتھ کیا ہونے لگا ہے اس نے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی پر ناکام رہی کمر پر میں چڑھی ہوئی تھی اور ٹانگوں کے اوپر سر چڑھے ہوئے تھے۔میں نے دونوں ہاتھوں سے اسکی گانڈ کا سوراخ کھولا سر نے اپنے لنڈ کو اسکی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیاماریہ ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھی اسکے الفاظ منھ میں ہی تھے سر نے ایک زور دار جھٹکے سے اپنا لنڈ اسکی گانڈ کی گہرائی میں اتار دیا ماریہ کے منھ سے زور دار چیخ نکلی اس کی ٹانگیں زور زور سے کانپنے لگ پڑیں سر کو اسکی گانڈ کا سوراخ دیکھ کر پتا چل گیا تھا کہ اسکی گانڈ میں پہلے بھی بہت سے لنڈ جا چکے ہیں ۔پر سر کے لنڈکی بات ہی کچھ اور تھی ،ماریہ رونے لگ پڑی تھی مجھے اس پر ترس آ رہا تھا مجھے اسکے درد کا اندازہ تھا میں نے تو ابھی تک سر کا آدھا لنڈ ہی گانڈ میں لیا تھا ۔سر نے اب اپنے لنڈ کو اندر باہر کرنے لگ پڑا ،سر کے لنڈ کو اندر باہر کرنے سے ماریہ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے لنڈ کے ساتھ اسکی روح بھی ساتھ نکل رہی ہو سر نے خوب اسکی جم کر چدائی کی سر نے لنڈ نکالا تو اسکی گانڈ کا سوراخ لال ہو ا پڑا تھا۔اب مجھے کہا میرے لنڈ کی سواری کرو ماریہ نے شکر ادا کیا اسکی جان چھوٹی،سر سیدھا لیٹ گیا میں نے سر کے لنڈ کو اپنی چوت میں ڈالنے لگی توسر نے کہا نہیں اسکو اپنی گانڈ میں لو میں نے اب سر کے لنڈ کو اپنی گا نڈ پر سیٹ کیا سر نے آہستہ سا جھٹکا مارا تو لنڈ اندر چلا گیا میں سر کے لنڈ پر اوپر نیچے ہونے لگ پڑی سر نے ماریہ کو کہا آؤ میرے منھ پر بیٹھ جاؤ ماریہ اٹھ کر سر کے منھ پر بیٹھ گئی 10 منٹ بعد ہی میری بس ہو گئی سر تھے کہ فارغ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے کیونکہ سر نے ٹائمنگ والی گولی کھائی ہوئی تھی اخر کار میری ٹانگوں نے جواب دے دیا سر کھڑ ے ہو گئے ہم دونوں نیچے زمین پر بیٹھ کر سر کے لنڈ کو چوسنے لگ پڑیں کافی محنت کے بعد سر کے لنڈ نے منی کا سیلاب اگلا جو کچھ ہمارے منھ کے اند گیا کچھ ہمارے چہروں اور گردن پر نقش و نگار بنا گیا۔ہم دونوں نے ایک دوسرے کی گردن اور چہرے کو زبان سے چاٹ کر صاف کیا،ہم تینوں تھک گئے تھے ہم نے ٍ1 گھنٹہ مسلسل سیکس کیا تھا میرا پورا بدن تھکاوٹ سے چور چور ہوگیا تھا ماریہ کا بھی یہ ہی حال تھا۔کچھ دیر آرام کے بعد ہم تینوں نے ایک ایک پیگ پیا اور کھانا وغیرہ کھایا۔ ماریہ واش روم میں تھی تو سر نے مجھے چوم کر کہا تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں تم نے مجھے بہت مزہ دیا ہے۔ میں :بس ایک کام میرا کرنا پڑے گا سر:حکم کرو میں:آئیندہ میری امی کے ساتھ آپ سیکس نہیں کرو گے،میں آپ کو ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گی میں اور ماریہ جب آپ کہو گے حاظر ہو جائیں گی۔ سر:ٹھیک ہے میں نے سر کو دوبارہ گلے لگا لیا اس رات ہم نے خوب سیکس کیا ساتھ مل کر نہایا رات کے 4 بج چکے تھے جب ہم نہا کر نکلے میں نے ماریہ کو کہا چلو اپنے گھر چلتے ہیں صبح اتوار ہے ہم ابھی یہاں سو گئے تو صبح دیر سے اٹھیں گے کہیں میرے گھر والے آ نا جائیں ہم دونوں چھت سے ہوتے ہوئے اپنے گھر آگئےمیں بیڈ پر لیٹی تو ماریہ نے مجھے زور سے گلے لگا لیا وہ بہت خوش لگ رہی تھی۔ اگلی صبح دوپہر کو ہماری آنکھ کھلی اٹھ کر ابھی ناشتہ ہی کر رہے تھے میرے گھر والے آگئے۔ماریہ شام کو اپنے گھر چلی گئی میرے پیپر ختم ہو گئے تو میرے جسم نے دوبارہ انگڑائیاں لینا شروع کر دیں۔میرا روز کا معمال بن گیا امی جیسے گھر سے نکلتی میں سر ریاض کے گھر اسکے لنڈ کا مزہ لینے پہنچ جاتی۔امی نے کافی بار کوشش کی سر کے گھر جا کر ان سے سیکس کرنے کی سر نے لفٹ نہیں کروائی کیونکہ میں نے ان کو سختی سے منع کیا تھا وہ میرے جیسے جوان لڑکی کی چوت کوہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے تھے۔اُن کے اس احسان کا بدلہ میں روز اپنی چوت کےزریعے چکا دیا کرتی تھی۔ایک دن امی حسب معمول جلدی گھر آگئیں انہوں نے مجھے پورے گھر میں ڈھونڈا میں تو سر کے گھر تھی جیسے میں چھت سے ہوتی ہوئی گھر آئی امی کو دیکھ کر چونک گئی ،امی نے پوچھا کہاں تھی تم میں نے جھوٹ بولا چھت پر تھی تو امی نے غصے سے کہا میں نے چھت پر دیکھا وہاں کہیں نہیں تھی تم،بتاؤ کہاں تھی؟ میں:میں سر ریاض کے گھر تھی امی:تم کو شرم نہیں آئی اُ س شخص کے پاس جاتے ہوئے جس نے تمہاری عزت پر ہاتھ ڈالا تھا۔ امی نے مجھے تھپڑ مارنے کے لئیے ہاتھ اُٹھایا ہی تھا میں نے کہا :آپ کو شرم نہیں آئی تھی اس شخص کے ساتھ سوتے ہوئے جس نے آپ کی بیٹی کو داغدار کیا تھا،اب سمجھ آیا آپ نے مجھے ابو کو بتانے کے لئے کیوں منع کیا تھا آپ اپنے یار کو بچانا چاہتی تھی تاکہ آپ کا راز وہ اگل نہ دے۔ امی نے اپنا ہاتھ گرا لیا اور رونے لگ پڑیں میں:اب آپ کی بھلائی اسی میں ہے جو ہو رہا ہے چپ کر کے ہونے دیں ورنہ آپ کے سارے کرتوت ابو کو بتا دوں گی۔ اس دن کے بعد جو تھوڑا بہت ڈر تھا وہ بھی ختم ہو گیا اب میں امی کے ہوتے ہوئے بھی سر ریاض کے گھر چلی جاتی تھی میں نے دوبارہ ٹیوشن شروع کر دی تھی جو صرف ایک بہانہ تھا،ماریہ نے بھی امی کو بول کر یہاں ٹیوشن رکھ والی تھی اس کا بھائی اسکو چھوڑ جاتا تھا دنیا کی نظروں میں ہم ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے پر ہم 2 گھنٹے اپنے جسمو ں کی بھوک کو مٹاتے تھے ہم تینوں روز نئے نئے سیکس اسٹائل اور طریقے استعمال کرتے تھے۔امی روز مجھے دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتی تھیں پر زبان سے کچھ نہیں کہہ پاتی تھیں وہ ایک قسم کی مجبور تھیں ایک دن ماریہ نے مجھے کہا یار تم اپنی امی سے شام تک کی چھٹی لے لو ہم دونوں میرے بوائے فرینڈ کی سالگرہ میں چلیں گی۔میں نے دل میں کہا امی کی چھٹی کا تو مسلئہ ہی نہیں ہے میں :نہیں یار میں کہا ں جاؤں گی میں ان کو جا نتی بھی نہیں ہوں ماریہ :یار تم میرے ساتھ چلو گی میں نے کہہ دیا ہے بس میں:اوکے جانا کب ہے ماریہ :کل صبح ہم 10 بجے چلیں گےوہ آجائے گا گاڑی لے کر شام کو 7 بجے تک آجا ئیں گے میں:ٹھیک ہے میں نے امی کو بتا دیا کہ صبح میں نے ایک دوست کی سالگرہ میں جانا ہے امی:نہیں تم کہیں نہیں جاؤگی حالات خراب ہیں میں:میں نے اجازت نہیں مانگی بتایا ہے اور میرے پاس بچا کیا ہے جس کے لٹنے کا آپ کو ڈر ہے
 میں کمرے میں چلی گی، اگلی صبح ماریہ اگئی ہم دونوں گھر سے نکل آئیں تھوڑی دور پیدل چل کر اس نے ایک فون کیا تو اسکا بوائے فرینڈ گاڑی لے کر آگیا ہم گاڑی میں بیٹھ گئیں،میں نے اسکے بوائے فرینڈ کو زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا وہ ایک خوبصورت لڑکا تھا جو میرے خیا ل میں کالیج بوائے لگ رہا تھا جس کی تصدیق بعد میں اُ س نے خود کر دی تھی وہ سیکنڈ ائیر کا اسٹوڈنٹ تھا اسکانام عدنان تھا اسکا باپ ایک بہت بڑا بزنس مین تھا۔وہ ہم کو ایک فارم ہاؤس پر لے آیا جو شہر سے تھوڑا باہر تھا وہاں پارٹی چل رہی تھی وہاں پر کافی لڑکے لڑکیاں جمع تھے سب کالیج کے لڑکے لڑکیاں تھے سب کے سب بگڑے ہوئے امیر زادے ان میں ہم دونوں الگ ہی لگ رہی تھیں۔پر انہوں نے کچھ محسوس ہونے نہیں دیا ہم آپس میں گھل مل گئے خوب ہلاگلا کیا شراب چرس کھلے عام چل رہی تھی میں نے جان بوجھ کر شراب نہیں پی کیونکہ میں اُ ن کے سامنے کھلنا نہیں چاہتی تھی۔کھانے کے بعد آہستہ آہستہ سب کھسکتے گئےمیں، ماریہ عدنان اور اسکا ایک دوست جسکا نام جنید تھا وہ رہ گئے تھے ، عدنا ن :ماریہ تم کو پتا ہے یہ پارٹی دن میں تمہارے لئے کی ہے تا کہ تم آسکو تم کو رات کو یہاں رکنے کے لئے اجازت نہیں ملے گی ہم لوگ کچھ دیر باتیں کرتے رہے اُ س کےبعد عدنان اور ماریہ اُٹھ کر کمرے میں لے گئے میں سمجھ گئی ماریہ برتھ ڈے بوائے کو اپنی چوت کا تحفہ دینے گئی ہے۔ میں خاموش بیٹھی تھی جنید نے اٹھ کر میوزک چلا دیا رومانٹیک میوزک کی آواز کمرے میں گونجنے لگ پڑی،جنید شراب پی رہا تھا اُ س نے پیگ رکھا اور مجھ سے کہا:کیا آپ میرے ساتھ ڈانس کرنا چا ہیں گی۔ اُ س نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا میں نے خاموشی سے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دے دیاہم دونوں میوزک پر آہستہ آہستہ ڈانس کرنے لگ پڑے مجھے اُس نے گلے لگا یا ہوا تھا ،ایک لڑکے کا لمس پا کر میرا جسم چیخ چیخ کر لنڈ مانگ رہا تھا حالانکہ روز سر ریاض کے لنڈ سے جسم کی آگ کوٹھنڈا کرواتی تھی پر پھر بھی نئے لنڈ کا سوچ کر میرے جسم میں بغاوت شروع کر دی تھی۔جنید کے ہاتھ آزادانہ طور پر میرے جسم پر حرکت کر رہے تھے وہ ڈانس کم اور میرے جسم کو ٹٹول زیادہ رہا تھا۔اس نے اب اپنا ہاتھ میری گانڈ پر پھیرنا شروع کر دیا میں نے کہا بس اب ڈانس نہیں کرنا میں اُ س سے الگ ہو کر صوفے پر بیٹھ گئی اُ س نے شراب کا گلاس اُٹھا یا اور میرے ساتھ آ کر بیٹھ گیا شراب پیتے پیتے وہ مجھے گھوررہا تھا ادھر میرے اندر ایک جنگ چل رہی تھی چوت لنڈ مانگ رہی تھی اور دماغ منع کر رہا تھا اس نے اچانک مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا بس پھر کیا تھا چوت جیت گئی میں نے ہتھیا ر ڈال دیئے اور اپنا آپ اُ س کے حوالے کر دیا،اُ س نے اپنے ہونٹوں سے میرےہونٹوںکو چوسنا شروع کر دیا اسکی زبان میرے منھ میں آزادانہ گھوم رہی تھی جسکو میں چوس رہی تھی ہم پتا نہیں کتنی دیر کس کرتے رہے اس نے اپنی شرٹ کس کرتے کرتے اتاری تھی اب میری قمیض کو اتارنے لگا پر اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں کو چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے قمیض کو اتارتے ہی دوبارہ میرے ہونٹوں کو چوسنے لگ پڑا اسکے ہاتھ مسلسل میرے مموں کو دبا رہے تھے اسکی شاندار کسنگ نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی تھی اب اُ س نے ایک ہاتھ میری شلوار میں ڈال دیا اور میری چوت کو مسلنے لگ پڑا اسکی انگلیا ں میری چوت کے ساتھ کھیلنے لگ پڑیں کبھی وہ میری چوت میں انگلی ڈال کر اندر باہر کرتا کبھی چوت کے اُوپر بنے دانے کو مسلتاساتھ ساتھ میرے ہونٹ چوس رہا تھا،مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میرے ہونٹوں سے خون نکل آئے گا،اس نے میری شلوار اُتار دی اور میرے ہونٹوں کو چھوڑ دیا اس نے میری ٹانگوں کو پھیلایا اور اپنے ہونٹ میری چوت پر رکھ دیئے اور لگ پڑا اسکو چوسنے اور چا ٹنے پتا نہیں کتنی دیر تک اسکو چاٹتا رہا اسکی زبان مسلسل میری چوت میں اندر باہر ہورہی تھی وہ سب کچھ بھول کر میری چوت میں جیسے گم ہو گیا ہو کافی دیر تک چوت کو چوستا رہا اچانک میرے جسم میں کچھاؤ شروع ہو گیا میری سانسیں زور زور سے چلنا شروع ہو گئیں میں زور زورسے سسکیاں لینے لگ پڑی میں سمجھ گئی میں فارغ ہونے لگی ہوں،میں نے جنید کا منھ پیچھے ہٹانا چاہا پر اس نے اپنا منھ نہیں ہٹایا میں نےشرماتے ہوئے اس سے کہا میں پانی چھوڑنے لگی ہوں جنید:ہاں مجھے پتا ہے اسی رس کو تو پینا ہے،اس نے دوبارہ اپنے ہونٹ میری چوت پر رکھ دئیے اور میری چوت کے اوپر لگے دانے کو چوسنے لگ پڑا تھوڑی دیر بعد میری چوت نے زور سے پانی چھوڑ دیا آج کچھ زیادہ ہی پانی چھوڑا تھا میرے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے پر جنید نے اپنا منھ پیچھے نہیں کیا سارا پانی وہ مزے سے پی گیا، میرے جسم کو جھٹکے لگنا بند ہو گئے اور میں نے لمبی لمبی سانسیں لینا شروع کر دی اس نے بھی اب اپنا منھ ہٹا لیا تھا میں اٹھ کر بیٹھ گئی تھی اس نے اب اپنی زپ کھولی اور اپنا لنڈ باہر نکالا اسکا لنڈ سر کی طرح لمبا تو نہیں تھا پر 6 انچ کا موٹا لنڈ تھا۔اسکی عمر کے حساب سے ٹھیک تھا میں نے اسکے لنڈ پر اپنا منھ رکھ دیا اور اسکی ٹوپی کو منھ میں لے کر چوسنے لگ پڑی اور اپنے منھ کو اوپر نیچے کرنے لگ پڑی اسکے لنڈ کو کافی حد تک اندر منھ میں لے لیا تھا ایک انچ کے نزدیک باہر تھا پھر چوستے ہوئے اسکے لنڈ کو باہر کرتی اس طرح اندر باہر کرنے سے جنید کے منھ سے آہ آہ کی آوازیں نکل رہی تھی ۔ جنیڈ :یار تم توبہت ایکسپرٹ ہو میرے لنڈ کو آج تک کسی لڑکی نے اتنے اچھے طریقے سے نہیں چوسا تم تو پوری پورن اسٹار ہولڑکیاں تو نخرے کرتی ہیں اگر منھ میں لے بھی لیں ایک دو انچ تک پر تم تو پورا لنڈ منھ میں لیا ہوا ہے میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور اسکے لنڈ کے اوپر اپنا منھ اوپر نیچے کرنے لگ پڑی کچھ دیر چوسنے کے بعد اُ س نے مجھے اُ وپر اٹھا یا اور اپنے لنڈ پر بیٹھنے کا کہا۔ میں اسکے لنڈ پر آکر بیٹھ گئی اس کا لنڈ پورا اندر لے لیا اور اوپر نیچے ہونے لگ پڑی ہم ماریہ اور عدنان کو بھول چکے تھے ہم نے سیکس ہال میں شروع کر دیا تھا ابھی ایک دو منٹ ہی ہوئے تھے کہ عدنا ن کمرے سے باہر نکل آیا میں جلدی سے جنید کے لنڈ سے اتر آئی اور شرما کر اپنے آپ کو ہاتھوں سے چھپا نے لگ پڑی ،عدنا ن خود کمرے سے باہر ننگا نکلا تھا اسکے پیچھے ماریہ بھی بھی کمرے میں داخل ہو گئی دونوں ننگے تھے باہر آکر صوفے پر بیٹھ گئے ، ماریہ :تم رُک کیوں گئے ہو اپنا کام جاری رکھو میں دل میں ماریہ کو کوس رہی تھی جنید:یار تم باہر کیوں آگئے کیا عدنان فارغ ہو گیا کیا ماریہ:نہیں وہ کہا ں فارغ ہوا ہے میری بس ہو گئی تھی سانس لینے کے لئے بریک لیا تھا میری نظر عدنان کے لنڈ پر پڑی وہ ابھی تک تنا کھڑا ہوا تھا ماریہ:فوزیہ ڈارلنگ شرما کیوں رہی ہو،یہ روٹین ہے تم سیکس کرو اس جنید نے کئی بار میرا اور عدنان کا لائیو سیکس شو دیکھا ہے جنید اور ماریہ ہنس پڑے پر عدنان بھوکے شیر کی طرح میرے جسم کو دیکھ رہا تھا۔اس نے ماریہ کے کان میں کچھ کہا ماریہ نے ہنستے ہوئے اسے ہلکا سا تھپڑ مارا اور کہا تم نہیں سدھرو گے ماریہ اٹھ کر میرے پا س آئی اور مجھے کہا :یار عدنان نے کوئی سیکس کی ٹائمنگ والی گولی کھائی ہوئی ہے میں نے اپنی کوشش کی ہے پر اسکا لنڈ فارغ نہیں ہو رہا تم تھوڑی مدد کر دو۔ میں نے حیرانگی سے اسے دیکھا وہ اپنےبوائے فرینڈ کے ساتھ سیکس کرنے کو کہہ رہی تھی۔میں نے کوئی جواب نہیں دیا پر جنید نے کہا نہیں پہلے میں تو فارغ ہو جاؤں ہر جگہ تم میرے ساتھ نا انصافی کرتے ہو، ماریہ نے کہا یار تم تھوڑا ویٹ کر لو پر جنید نے ضد پکڑ لی کہ وہ ہی سیکس کرے گا پہلے ابھی انکی بحث چل رہی تھی کہ عدنان نے کہا چلو ٹھیک ہے تم پہلے سیکس کر لو جنید نے یہ سن کر مجھے دوبارہ اپنے لنڈ پر بیٹھنے کو کہا میں ابھی تک شرما رہی تھی پر جسم میں آگ بھی لگی ہوئی تھی اس نے میرے ہا تھ کو پکڑ کر اپنے اوپر کھینچ لیا میں نے بھی ساری شرم کو سائیڈ پر رکھ کر اسکے لنڈ پر بیٹھ گئی اور اوپر نیچے ہونے لگ پڑی ادھر دوسرے صوفے پر ماریہ نے عدنان کے لنڈ کو چوسنا شروع کر دیا وہ میرے سیکس کو انجوائے کر رہے تھے،میں سب کچھ بھول کر جنید کے لنڈ پر سواری کر رہی تھی اب مزے کی وجہ سے میرے منھ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں۔عدنا ن سے شائید برداشت نہیں ہوا وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور میرے پیچھے آکھڑا ہوا اور اُس نے ایک منٹ جنید کو رُکنے کا کہا جنید نے اپنے جھٹکے روک لئیے اُس نے اپنے لنڈ کو میری گانڈ کے سوراخ پر رکھا میں سمجھ گئی وہ کیا کرنا چا رہا ہے میں نے اُس کو منع کیا اور کہا پلیز آپ رک جاؤ میں بعد میں آپ کو بھی موقع دوں گی ۔ عدنان :یار مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا میں نے جنید کے اُوپر سے اترنے کی کوشش کی پر جنید نے مجھے کس کر پکڑ لیا ایسا نہیں تھا کہ میں پہلی دفعہ گانڈ میں لنڈ لے رہی تھی پر دو مردوں کے ساتھ پہلا تجربہ تھا مجھے شرم محسوس ہو رہی تھی،عدنان نے میری گانڈ کا سوراخ کھولا اور اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میرے گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کر لیا،اور ایک جھٹکے سے اپنا لنڈ میری گانڈ کی گہرائی میں اتار دیامیرے منھ سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی اور ایک ہلکا سے درد کی لہر میرے جسم میں دوڑ گئی ،میری گانڈ کو سر نے اپنے موٹے لنڈ سے چودا تھا جس کی وجہ سے مجھے عدنان کے لنڈ کو لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی،اب جنید نے بھی نیچے سے جم کر دھکے لگانے شروع کر دئیے اس کا لنڈ میری چوت میں اندر باہر ہو رہا تھا تو عدنان کا لنڈ میری گانڈ میں اپنے جوہر دکھا رہا تھادونوں نان سٹاپ لگاتار جھٹکے مار رہے تھے،دو دو لنڈ لینے کا تجر بہ مجھے اچھا لگ رہا تھا مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے مشین چلا دی ہو ان کے زبردست جھٹکوں کی بدولت میں جلد ہی فارغ ہو گئی پر وہ دونوں رکنے کا نا م ہی نہیں لے رہے تھے اب میری بس ہو چکی تھی میں نے ان کو رکنے کا کہا پر وہ کسی جانور کی طرح لگاتار میرے دونوں سوراخوں کو چودنے میں مصروف تھے میری گانڈ اور چوت میں مسلسل ڈھیکوں کی وجہ سے جلن شروع ہو چکی تھی ،کوئی 10 منٹ کے بعد جنید نےجھٹکے کھانے شروع کر دئیے میں سمجھ گئی وہ فارغ ہونے لگا ہے میں نے اسے کہا میرے اندر مت فارغ ہونا پر اس نے اپنا لنڈ باہر نہیں نکالا اور اپنی ساری منی میری چوت میں ڈال دی اب عدنان کی باری تھی اس نے ایک زور دار آواز نکالی اور مجھے یوں محسوس ہوا کسی نے میری گانڈ کے اندر کوئی اسپرے کر دیا ہو کچھ دیربعد انہوں نے اپنے لنڈ نکال لیئے اور میں بے حال ہو کر صوفے پر لیٹ گئی،اب انہوں نے ماریہ کو اشارا کیا وہ کسی کتیا کی طرح ہاتھوں پر چلتی ہوئی ان کے پا س آگئی عدنا ن نے اس سے کہا میری جان کو پیا س لگی ہو گی،ماریہ نے سر ہلا دیا عدنا ن اور جنید دونوں کھڑے ہو گئے میں حیران تھی کہ پتا نہیں وہ کیا کرنے لگے ہیں،دونوں نے اپنےلنڈ کو پکڑا اور ماریہ پر پیشاپ کرنے لگ پڑے اور وہ مزے سے ان دونوں کے پیشاپ کو پینے لگ پڑی کچھ پیشاپ پی رہی تھی کچھ اس کے بالوں پر اور جسم پر گر رہا تھا مجھے کراہت محسوس ہوئی انہوں نے اب پیشاپ کا رخ میری طرف کر دیا میرے جسم اور منھ پر گرم گرم پیشاپ گرنا شروع ہو گیا میں جلدی سے اٹھ گئی میں نے غصے سے کہا یہ کیا بد تمیزی ہے،وہ ہنستے لگ پڑے میرے بال گیلے ہو چکے تھے ماریہ نے اب میری ٹانگوں کے نزدیک آکر کہا یار اب تم ہی اپنا رس پلا دو،میں نے اس سے کہا ماریہ تم ہوش میں نہیں ہو پر ور نہیں مانی مجھے بھی پیشاپ آیا تھا کچھ غصہ بھی تھا ماریہ پر میں نے پیشاپ کر دیا اور وہ پینے لگ پڑی جنید اور عدنان بھی سامنے بیٹھ گئے تینوں ایسے میرا پیشاپ پی رہے تھے جیسے کوئی مزےدار جوس ہو پورا کمرے میں پیشاپ کی بدبو تھی،پھر ھم سب نے مل کر نہایا اور عدنان اپنی گاڑی پر ہم کو چھوڑ آیا شام ہو چکی تھی جب میں گھر آئی امی پریشان کھڑی تھی میرے انتظا ر میں ،میں جیسے گھر داخل ہوئی امی نے غصے سے کہا کہاں گم تھی اتنی دیر سالگرہ کو اتنی دیر لگتی ہے ، میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور فریج کی طرف چل پڑی فریج کے اوپر دوائیاں والا ڈبا پڑا ہوتا تھا میں نے ڈبہ اٹھایا اور اس میں سے ڈھونڈ کر مانع حمل والی گولی نکالی کیونکہ جنید میرے اندر فارغ ہوا تھا مجھے ڈر تھا کہیں میں پریگنینٹ نا ہو جاؤں ،امی نے مجھے گولی کھاتے دیکھ لیا امی:کہاں منھ کالا کر کے آئی ہو تمہارے جیسی اولاد سے بہتر تھا میں بے اولاد ہوتی میں:امی میں بھی آپ پر گئی ہوں آپ کے جیسے کرتوت ہیں ویسے میرے ہوں گے۔ امی رونے لگ پڑی ،امی نے روتے ہوئے کہا:میں کیا کرتی تمہارا باپ شوگر کا مریض ہے وہ میری ضرورت نہیں پوری کر سکتا تھامیں اپنے جسم کی بھوک سے تنگ آکر ریاض کی طرف مائل ہوئی تھی

مجھے معاف کر دو ،امی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دئے مجھے ان پر ترس آ گیا میں نے ان کو گلے لگا لیا اور ان سے کہا امی میں نے ریاض کو روکا تھا اب میں آپ دونوں کے بیچ نہیں آؤں گی نا میں ابو کو بتاؤں گی، امی نے کہا :بیٹی میں شادی شدہ ہوں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میری زندگی میں کتنے مرد آرہے ہیں پر تم کنواری ہو کل کو تمہاری شادی ہو گی تمہارا شوہر جان جائے گا کہ تمہاری زندگی میں پہلے بھی کوئی آچکا ہے پلیز اس راستے سے واپس آجاؤ، میں نے امی کا دل رکھنے کے لیئے حامی بھر لی پر دل میں سوچا امی میرے جسم کی بھوک آپ سے زیادہ ہے۔میں نے ریاض سے ملنا تقریبا کم کر دیا اور اپنی جگہ امی کو دے دی ،میں نے اس کے بعد کافی دفعہ عدنان کے فارم ہاؤس پر جا کر اپنی آگ بھجا ئی پھر ایک دن اچانک ہم کو اطلاع ملی کہ ارشد کی امی کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے ہم سب کو اُن کے گاؤں جانا پڑا میرا دل تو نہیں کر رہا تھا پر میری چھٹیا ں تھی میرے پاس کو ئی بہا نہ نا تھا رکنے کا۔گاؤں پہنچی تو پتا لگا میری بہن اور اسکا شوہر کراچی سے پہنچ گئے ہیں میں ان سے مل کر بہت خوش ہوئی ارشد کی امی کی اطلاع سن کر سارا خاندان اکھٹا ہو گیا تھا،ارشد کے دو بھائی تھے ایک بڑا فوج میں تھا جسکی شادی ہو چکی تھی اور دوسرا بھائی انور سب سے چھوٹا تھا وہ میرے ہم عمر تھا پر میری اُس سے کبھی نہیں بنی تھی ہم ہمیشہ لڑتے تھے ہم دونوں ایک دوسرے کی شکائیت لگاتے تھے میں نے ایک بار اسکا سر بھی پھاڑ دیا تھا اسکو بولنے کی تمیز بھی نہیں تھی پورا پینڈو تھا اس نے پڑھائی چھوڑ کر کھیتی باڑی کرنا شروع کر دی تھی۔اس کے بر عکس ارشد سلجھا اور پڑھا لکھا لڑکا تھا۔ارشد کو دیکھ کر میری اس کے ساتھ گزارے لمحے یاد آ گئے میرے جسم میں دوبارہ اس سے سیکس کرنے کی آرزو جاگ پڑی پر پورا گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا ،اس لئیے اپنی خواہش کو دل میں دبا دی،اگلے دن کافی مہمان چلے گئے صرف ہم اور میری بہن والے رُک گئےرات کے وقت اچانک لائیٹ چلی گئی سب لالٹین ڈھونڈنے لگ پڑے کہ اچانک کسی نے مجھے پیچھے سے پکڑ لیا اور میرے ممے دبانے لگ پڑا میں نے دل میں سوچا کہ لائیٹ بند ہونے کا ارشد فائدہ اٹھا رہا ہے۔کیونکہ کوئی اور اتنی بے تکلفی سے مجھے کیسے دبوچ سکتا ہےمیں نے ہلکی سی سرگوشی میں اس سے کہا ارشد مجھے چھوڑ دو لائیٹ نا آجائے،میری آواز سن کر اس نے اپنے ہاتھ اچانک ہٹا لیئے اور کسی نے لالٹین بھی چلا دی کمرے میں ہلکی روشنی ہوئی تو میں نے دیکھا ارشد کمرے میں نہیں تھا وہ جنریٹر چلانے گیا تھا مجھے حیرانگی ہوئی کہ اگر ارشد نہیں تھا تو کس نے مجھے دبوچا تھا؟ بہرحا ل کھانا کھا کر ہم سب سونے لگ پڑے رات کے پچھلے پہر میری آنکھ کھلی تو میں نے انور کو اپنی بھابھی کے کمرے میں جاتے دیکھا میں دبے پاؤں اسکی کمرے کی طرف چل دی رات کا ٹا ئم تھا سب لائیٹ بند تھی میں نے کمرے کی کھڑکی میں سے دیکھنےلگ پڑی کہ اندر کیا ہورہا ہے مجھے بھی اندازا ہو گیا تھا کہ انور کا اپنی بھابھی کے کمرے میں رات کو چوری چھپے داخل ہونے کا کیا مقصد ہے۔اندر دیکھا کہ بھابھی غصے میں انور کو ڈانٹ رہی تھی بھابھی نے دبی آواز میں کہا بہن چود ایک دو دن صبر کر لو مہمانوں کو جانے دو خامخواہ کسی کو شک پڑ جائے گا۔ انور:تمہاری بھول میں آج میں نے فوزیہ کو دبوچ لیا تھا بھابی:پھر کیا ہوا اسکو شک تو نہیں ہو گیا تم سے بھی صبر نہیں ہوتا انور:بھابی کل تمہارا شوہر آجائے گا پھر ہم کو کہاں لفٹ کراؤ گی بھابی:وہ چھٹیوں پر آئے گا ہمیشہ تھوڑی رکے گا انور نے ٹراؤزر نیچے کر کے لنڈ کو نکال لیا اور کہا:اس کو کون سمجھائے یہ تمہارا عادی ہو چکا ہے کمرے کی روشنی میں انور کا موٹا تازہ لنڈ چمک رہا تھا اسکے لنڈ کو دیکھ کر میری چوت نے بغاوت شروع کر دی تھی۔ بھابی نے کہا:اس کا کیا ہے یہ تو روز ہی تیار ہوتا ہےکل تمہا را بھائی آجائے گا وہ بھی مہینوں کا پیاسا ہوگا میری تو حالت ہو جائے گی۔ انور نے کہا:اچھا اب ٹائم ضائع مت کرو بھابی نے اسکا لنڈ منھ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا ابھی انکا سیکس سین چل ہی رہا تھاکہ کچن میں برتنوں کے گرنے کی آواز آئی شائید بلی برتنوں پر کودی تھی برتنوں کی آواز پورے گھر میں گونج اٹھی۔میں جلدی سے پیچھے ہوئی تو میرا سر کھڑکی سے ٹکرایا میں گھبرا کر اپنی چارپائی کی طرف بھاگ دوڑی پورا گھر جاگ اٹھا تھا کمرے سے اتنے میں انور بھی نکل آیا تھا بھابی کا کمرا کچن کے ساتھ تھا تو سب نے سمجھا انور کچن سے نکلا ہے انور نے کہا میں پانی پی رہا تھا تو جگ گر گیا سب دوبارا سونے کی تیاریا ں کرنے لگ پڑے میری دھڑکن تیزتھی شکر ہے کسی نے مجھے دیکھا نہیں تھا میں نے دوبارا سونے کی تیاری شروع کر دی کافی دیر بعد نیند آئی صبح 5 بجے آنکھ کھل گئی ابھی سب سوئے ہوئے تھے انور کو میں نے بالٹی اٹھا کر گھر سے نکلتے دیکھا وہ ڈیلی صبح دودھ نکالتا تھا ان کا باڑا بنا ہوا تھا جو گھر کے ساتھ تھا۔میں اٹھی اور ہاتھ منھ دھو کر باڑے کی طرف چل پڑی،باڑے میں کافی بھینسیں تھی جنکے کمرے بنے ہوئے تھےکافی بڑا باڑا بنا ہوا تھاایک کمرے میں انور دودھ نکال رہا تھا مجھےدیکھ کر تھوڑا حیران ہو گیا:تم یہاں ؟ میں:یا ر مجھے بھی دودھ نکالناسکھاؤ انور :کیوں نہیں پر تم شہری لڑکیاں ڈرتی ہیں میں:میں نہیں ڈرتی انور مجھے بتانے لگ پڑا کیسے دودھ نکالتے ہیں،میں بھینس کے تھن کو پکڑ کر دودھ نکالنے لگ پڑی میں نے اچانک کہا تم نے رات مجھے کیوں دبوچا تھا وہ تھوڑا گھبرا گیا پرپھر سنبھل کر کہا تم بھی تو ارشد سمجھی تھی تمہا را اس سے کوئی چکر ہے میں:جیسا تمہارا بھابی کے ساتھ ہے اب وہ واقعی پریشان لگ رہا تھا انور :اسکا مطلب تم تھی جو رات کو ہم کو چھپ کر دیکھ رہی تھی میں:تم پریشان مت ہو میں کسی کو نہیں بتا ؤں گی انور:اچھا بدلے میں تم کیا چاہتی ہو میں:تم ارشد والی بات کسی کو مت بتانا انورنے بالٹی اٹھا لی میں:دودھ نہیں نکالنا کیا اسکا انور :نہیں میں نکال چکا ہوں میں نے اسکے ٹراؤزرکی طرف اشارہ کیا :میں اسکی بات کر رہی ہوں انور میری بات سمجھ کر مجھ سے لپٹ گیا ہم ایک دوسرے کو کس کرنے لگ پڑے انور:یار کوئی آ جائےگا میرا باپ اٹھنے والا ہوگا ہم دوپہر کو کھیتوں میں چلیں گے وہا ں جو کمرہ بنا ہے وہاں کوئی نہیں ہوتا ادھر کریں گے میں: اچھا ابھی اپنا رس ہی پلا دو انور نے ٹراؤزر نیچے کیا اور خود کھڑکی کے پا س جا کر کھڑا ہو گیا تاکہ باہر سے جو باڑے میں داخل ہو اسکو دیکھ سکے باہر والا کوئی اندر نہیں دیکھ سکتا تھا جب تک کمرے میں نہ داخل ہو ،میں گھٹنو ں کے بل بیٹھ کر اسکے لنڈ کو منھ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا اسکا لنڈ بہت مزے کا تھا 6 انچ کا لنڈ تھا اسکی سب سے خاص بات اسکی ٹوپی تھی جو بہت موٹی تھی اور سرخ کلر کی تھی میں نے چوسنے کے ساتھ ساتھ اسکے ٹٹوں کی ہلکی ہلکی مالش شروع کر دی تھی اسکا لنڈ میرے گلے کی گہرائی تک اتر رہا تھا اسکی ٹوپی جب میرے گلے سے ٹکراتی تو باقائدہ ابکائی سی آتی کافی دیر چوسنے کے بعد انور نے لنڈ نکالنا چاہا میں نے اسکو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ نکالو مت میرے اندر ہی فارغ ہو جاؤ اس نے اچانک جھٹکا کھایا اور اپنی گرم اور گاڑھی منی میرے منھ میں انڈیل دی میں نے جلدی جلدی اسکی ساری منی پی لی پر اسکے لنڈ میں جیسے منی کا سیلاب آیا ہو وہ مسلسل جھٹکے کھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ منی نکل رہی تھی کافی ساری منی نکالنے کے بعد اس نےاشارہ کیا کہ بس اب نکال دو میں نے پھر بھی اسکا لنڈ نہیں نکالا اور اسکو چوس چوس کر اس میں موجود اسکا سارا رس نکال لیا اس نے ٹراوز اوپر کیا میں نے بھی اپنا منھ اور گریبان صاف کیا میں:تمہاری منی بہت مزے دار تھی انور:گھر کے دودھ اور دیسی گھی پر پلا ہوں میں ہنس پڑی انور :تم واقعی ٹرپل ایکس مووی والی لڑکیوں کی طرح ہو میں:اچھا کیا بھابی نہیں پیتی تمہاری منی انور:نہیں یار تم واحد لڑکی ملی ہو جس میں یہ خاصیت ہے اتنے میں انور کا باپ باڑے میں داخل ہوا میں نے بالٹی اٹھائی اور کمرے سے نکل آئی انور کا باپ:بیٹا تم کیا کر رہی ہو یہاں میں:انکل میں دودھ نکالنا سیکھ رہی تھی انکل نے سر پر پیار دیا اور کمرے میں چلے گئے میں گھر آگئی سب اٹھ چکے تھےمجھے اب دوپہر کا بے صبری سے انتظار تھا۔ دوپہر کو سب کھانا کھا کر سونے کی تیاریا ں کر رہے تھے میں نے امی سے کہا مجھے کھیتوں پر جانا ہے ،امی نے کہا دوپہر کا ٹائم ہے تم شام چلی جانا میں نے کہا نہیں مجھے ابھی جانا ہے ،امی نے میری ضد کے آگے ھتیار ڈال دئیے میں گھر سے نکل پڑی میں ہمیشہ گاؤں میں گھومتی رہتی تھی اس لئیے مجھے راستوں کا پتا تھا،کچھ دور چلنے کے بعد مجھے انور دکھائی دیا نزدیک پہنچ کر میں نے اسے کہا تم کھیت کیوں نہیں گئے انور وہاں ارشد موجود ہے ہم وہا ں نہیں جا سکتے تم میرے ساتھ آؤ ہم ایک دوست کا ڈیرہ ہے وہاں چلتے ہیں۔میں اس کے ساتھ چل پڑی مجھے تو بس اور کچھ نہیں اپنی آگ بجھانی تھی۔چلتے چلتے ہم باتیں کر رہے تھے میں نے اچانک پوچھا تمہا را بھابھی کے ساتھ کب سے چکر ہے،انور : بھائی زیادہ تر ڈیوٹی پر رہتے ہیں میں اس وقت 12 سال کی عمر کا ہوں گامیں بھابھی کے ساتھ انکے میکے گیا تھا رات ہم ایک ہی بیڈ پر سوئے تھے کہ اچا نک رات میری آنکھ کھلی تو دیکھا بھابھی اپنا جسم میرے ساتھ رگڑ رہی تھیں مجھے سیکس کا کچھ نہیں پتا تھا بس اس رات جو جو بھابھی کہتی گئیں میں کرتا گیا اور ا سکے بعد ہم کو جب موقع ملتا ہم ایک دوسرے کے جسم کی آگ بجھاتے رہے ۔ ہم باتیں کرتے ہوئے اسکے دوست کے ڈیرے پر پہنچ گئے جو گاؤں سے تھوڑا ہٹ کر تھا اندر داخل ہوئی تو چونک گئی کمرے میں دو لوگ اور بھی موجود تھے کمرے میں دونوں بڑی عمر کے آدمی تھے دونوں بیٹھے تاش کھیل رہے تھے کمرے میں چرس کی بدبو پھیلی ہوئی تھی ،دونوں نے دھوتی پہنی ہوئی تھی،میں نے انور کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا:یہ کون ہیں انور:یار یہ دونوں میرے دوست ہیں اور یہ ان کا ڈیرہ ہے میں: تو یہ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ انور:یار تم پریشان مت ہو کچھ نہیں ہوگا میں سمجھی نہیں اور حیرانگی سے انور کی طرف دیکھنے لگ پڑی انور: تم میں بہت آگ ہے ایک آدمی تمہاری آگ نہیں بجھا سکتا میں غصے سے : بکواس بند کرو میں جا رہی ہوں انور نے مجھے بازو سے پکڑ کر بستر پر پٹخ دیا ان دونوں نے مجھے دبوچ لیا میں :انور میں تمہاری کزن ہوں کچھ حیا کرو انور:بہن چود تم کون سا پہلی دفعہ چد رہی ہو میں صبح ہی سمجھ گیا تھا تم بڑی کھلاڑی ہو اور تم کو شکائیت لگانے کی پرانی عادت ہے تم نے مجھ کو بھابھی کے ساتھ دیکھ لیا ہے اب تمہا را منھ بند کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ انور نے اپنا ٹراؤزر نیچے کر لیا اور اپنا لنڈ نکال لیااسکے دونوں ساتھی ہنسنے لگ پڑے انہوں نے پنجابی میں کہا:جلدی یہہ لا فیر ساڈی واری وی آن دے(جلدی چود لو پھر ہماری باری بھی آنے دو) انور:تو ایدے کولوں چوپا لوا لی بہت سواد دا چوپا لاندی وا(تم اس سے لن چسوا لینا بہت مزے کا لن چوستی ہے)۔ انور نے میری شلوار کو اتارنا شروع کر دیا اسکے دونوں ساتھیوں نے مجھے دبوچا ہوا تھا شلوار کو اتار کر اس نے اپنا لنڈ میری چوت پررگڑنا شروع کر دیا چوت کو دیکھ کر اس نے کہا میں نے صحیح اندازا لگایا تھا تم نے خوب لنڈ لئے ہیں انور نے ہاتھ پر تھوکا اور اسکو اپنے لنڈ پر اچھی طرح مل لیا مجھے شرم آرہی تھی میں نے زور سے لات چلائی جو انور کے پیٹ پر لگی اس کو غصہ آیا اس نے میری ٹانگوں کو کھولا اور اپنا لنڈ میری چوت پر رکھ کر زور سے جھٹکا مارا جو جڑ تک میری چوت میں چلا گیا میرے منھ سے چیخ نکلی میں:مجھے چھوڑ دو میں کسی کو نہیں بتا ؤں گی انور کے کان پر جوں بھی نہ رینگی اس نے جم کر جھٹکے مارنے شروع کر دئے اسکا موٹا تازہ لن میری چوت کی دیواروں سے رگڑ کھا رہا تھا مجھے اب مزا آرہا تھا میرے منھ سے اب آہیں اور سسکیا ں نکل رہی تھی کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں جو میری چوت پر پڑنے والے جھٹکوں ،چارپائی کی چوں چوں اور میری سسکیوں اور آہوں کی آوازیں گونج رہی تھی۔ اب اسکے ساتھی میرے جسم کے ساتھ کھیل رہے تھے ان کے ہاتھ میری قمیض کے اندر تھے میرے مموں کو مسل رہے تھے انہوں نے میری قمیض اتار دی میں نے بھی کوئی مزاحمت نہیں کی اس کے دونوں ساتھیوں نے میرے ہاتھ چھوڑ دئے تھے اور اب وہ دونوں میرے مموں کو چوس رہے تھے ،ان میں سے ایک اٹھ کر میرے منھ کے پاس آ گیا اور اپنی دھوتی پیچھے کی اس میں سے ایک موٹا 10 انچ کا لنڈ باہر نکل آیا اس کا لنڈ سر کے لنڈ سے بھی بڑا لگ رہا تھااس نےمجھے منھ کھولنے کا کہا میں نے منھ کھولا تو اس نے اپنا لن میرے منھ میں ڈال دیا اس کے لنڈ سے عجیب سی بدبو آرہی تھی مجھے ابکائی سی آرہی تھی پر اس نے اپنا لن باہر نہیں نکالا میں نے اسکے لنڈ کو چوسنا شروع کر دیا۔
 اس نے انور سے کہا:یہ تو سچ میں وڈی گشتی ہے اس کے منھ سے یہ القاب سن کر دکھ ہوا پر میں نے کچھ نہیں کہا اس نے میرے منھ کو چودنا شروع کر دیا انور نے مسلسل 10 منٹ کی چدائی کے بعد اپنا لنڈ نکال لیا اور اپنی ساری منی میرے پیٹ پر گرا دی اس کے ساتھی نے مجھے کپڑا دیا میں نے اپنا جسم صاف کیا اور شلوار پہننی چاہی تو اسکے ساتھی نے کہا :سانوں خوش نہیں کرنا(ہمیں خوش نہیں کرناکیا) اس نے مجھ لٹا لیا اور میری چوت کو چاٹنے لگ پڑا اور ایک میرے ہونٹوں کو چوسنے لگ پڑاان کے منھ سے سگریٹ کی بدبو آرہی تھی اچھی طرح چاٹنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ میری چوت پر رکھا اور ایک جھٹکے سے لنڈ کا کافی حصہ میرے اند ڈال دیا میرے جسم نے ایک زور دار جھٹکا کھایا اس کا لنڈ واقعی میں موٹا تھا جو میری چوت میں پھنس پھنس کر جا رہا تھااس نے دوبارا تھوڑا باہر نکالا اور ایک زور دار جھٹکے سے پورا لنڈ میرے اندر ڈال دیا میرے منھ سے زوردار چیخ نکلی اب اس نے اپنا لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا اس کا لنڈ میری چوت کے اندر بچہ دانی کو ٹکراتا تو پیٹ میں درد سا ہوتا کافی دیر اس نے جھٹکے مارے میری چوت اب اسکے لنڈ کی عادی ہو چکی تھی اس نے اب لیٹ کر مجھے اوپر آنے کو کہا میں اس کے لنڈ پر بیٹھ گئی اس نے اب مجھے اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا میں نے جم کر اس کے لنڈ کی سواری کی پر وہ چھوٹنے کا نا م ہی نہیں لے رہا تھا اتنے میں اسکے ساتھی نے اپنا لنڈ نکالا اور اس کو تھوک لگا کر میری گانڈ پر رکھ دیا اور جھٹکے میں پورا لنڈ اندر ڈال دیا میں نے زور دار چیخ ماری ،تو اس نے کہا چپ کر گشتی کیہڑا پہلی وار تیری بنڈ وچ لن وڑیا واہ(چپ کر گشتی کونسا پہلی بار تیری گانڈ میں لن گیا ہے) اب ان دونوں نے میری خوب چدائی کی سامنے بیٹھا انور انجوائے کر رہا تھا ساتھ ساتھ میری ویڈیو بنا رہا تھا جسکا مجھے بعد میں پتا لگا تھا۔ اچانک میرے جسم نے جھٹکا مارا اور میری چوت نے دھیڑ سارا پانی چھوڑ دیا اور میں نڈھال ہو کر نیچے والے کےجسم پر ڈھے گئی۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا:اوئے ایہہ تا چو گئی واہ(یہ تو لیک ہو گئی ہے) ان دونوں نے اپنے جھٹکے مارنے بند نہیں کئے کوئی 30 منٹ کی زوردار چدائی کے بعد انہوں نے اپنے لنڈ نکال لئے میں نیچے بیٹھ گئی اور انہوں نے مٹھ مار کر اپنی منی میرے کھلے منھ میں ڈال دی ان دونوں کی منی بھی بہت بدبو دار اور پیلے رنگ کی تھی جسکو بڑی مشکل سے نگلا ہم تینوں پسینےسے شرابور ہو چکے تھے ،میں نے انور کو دیکھا تو وہ دوبارا مجھے چودنے کے لئے تیار ہو رہا تھا ،میں نے اسکے سامنے ہاتھ باندھ لئےاور کہیا مجھ سے چلا نہیں جائے گا مجھے ابھی گھر لے جاؤ میری حالت پر رحم کھاؤ انور کو شائید مجھ پر رحم آگیا اور مجھے کپڑے پہننے کو کہا میں نے کپڑے پہنے ہاتھ منھ دھویا اور ہم دونوں ان کے ڈیرے سے نکل آئے راستے میں اس نے مجھے اپنے موبائل سے تصاویر اور ویڈیوز دکھائی اور کہا اگر کسی کو میرے اور بھابھی کے مطلق بتایا تو تمہاری تصاویر میں نیٹ پر دے دونگا۔میں نے کہا نہیں میں کسی کو نہیں بتاؤں گی وعدہ ہم گھر پہنچ گئے ۔اگلے دن اس کی امی فوت ہو گئی اور ہم انکے قل کرواکر واپس گھر آگئے ہمارے ساتھ میری بہن اور انکا بہنوئی بھی آگئے تھے،بہن نے میری امی کو ایک دن کہااس کو ہمارے ساتھ کراچی بھیج دو اسکی چھٹیاں ہیں۔ امی نے حامی بھر لی مجھے پتا تھا وہ سر ریاض سے آزادی سے ملنا چاہتی تھیں اس لئے مجھے کراچی بھیجنے پر آمادا ہو گئی تھیں میں نے تیاری کر لی اوراگلے دن ہم ٹرین میں بیٹھ کر کراچی کی طرف چل دئے کراچی میں باجی ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے جہاں بہت سے فلیٹ تھے باجی کا فلیٹ دوسرے فلور پر تھا میں پہلی بار کراچی آئی تھی ایک دو دن گھومنے میں لگا دئے ،باجی ایک فرم میں جاب کرتی تھی اور بھائی ایک بینک میں جاب کرتے تھے دونوں صبح صبح جاب پر چلے جاتے اور فلیٹ کی چابی میرے پاس ہوتی ۔میں روزانہ ٹیکسی وغیرہ لے کر کہیں نہ کہیں گھومنے نکل جاتی ۔ایک دن میں فلیٹ کی چابی اندر ہی بھول گئی اور گھوم گھام کر واپس آئی تو ایک تو بارش ہو رہی تھی میرے سارے کپڑے بھیگ چکے تھے اور دوسرا مجھے زور کا پیشاپ آیا ہواتھا میں نے اپنے بیگ میں چابی ڈھونڈی پر نہیں ملی ،مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میرا پیشاپ میرے کپڑوں میں نکل رہا ہو میں نے ٹانگیں کراس کی ہوئی تھیں ،اتنے میں سامنے فلیٹ سے ایک خوبرو نوجوان برامد ہوا اس نے میری حالت دیکھی تو سمجھ گیا کیا مسلئہ ہے مجھے کہا آپ میرے فلیٹ میں بیٹھ جائیں اور انتظار کر لیں میں نے کہا نہیں شکریہ آپ تکلیف نہ کریں۔اس نے کہا آپ ڈریں نہیں قادر میرا بھی دوست ہے ،قادر میرے بہنوئی کا نام تھا۔مجھ سے اب مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا پیشاپ اب جیسے نکلنے والا تھا میں نے حامی بھر لی اور اس کے پیچھے چل پڑی اس کے فلیٹ میں داخل ہوئی تو اس نے مجھےخود ہی واش روم دکھایا میں نے واش روم میں جا کر پیشاپ کیا تو سکون ملا باہر نکلی تو اس نے مجھے ایک ٹراوزر اور ٹی شرٹ دی پہننے کو ،میں نےشرٹ اور ٹراؤزر پہن لیا اور کپڑے جو گیلے ہو چکے تھے ان کو کمرے میں پنکھے کے نیچے رکھ دیا سوکھنے کے لئے وہ میرے لئے گرم چائے بنا لایا ساتھ کچھ سینڈوچز بھی تھے مجھے بھی بھوک لگی تھی میں نے خاموشی سے سینڈوچ پکڑ لئے اور کھانے لگ پڑی ،وہ مجھ سے ساتھ ساتھ باتیں کرتا جا رہا تھا میں ایک ہی گھنٹے میں اس سے اتنا گھل مل گئی جیسے صدیوں کی جان پہچان ہو اس کا نام ندیم تھا وہ ایک فوٹو گرافر تھا کھانے کے بعد اس نے میری کچھ تصاویر بنائیں اپنے کیمرے سے اور مجھے دکھائی میں ان تصاویر میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔اُس نے کہا تم ماڈلنگ کر لو بہت کامیاب ہو جاؤگی۔ باتوں ہی باتوں میں دو گھنٹے گزر گئے میں سچ میں اس پر دل ہار بیٹھی تھی وہ بہت خوبصورت تھا خو د کسی ماڈل یا اداکار سے کم نہیں تھا میں نے باہر نکل کر دیکھا تو باجی والے واپس آ چکے تھے میں نے اپنے کپڑے پہنے اور اس کا ٹراؤزر اور شرٹ اس کو واپس کی اور گھر آ گئی ،باجی نے پوچھا تو میں نے بہانہ بنا دیا کہ بارش کی وجہ سے میں ایک شاپ پر ہی رک گئی تھی،رات کو بھی میں ندیم کے ہی سپنے دیکھتی رہی اور اپنی چوت کو مسلتی رہی کافی دن سے اس کو کوئی لنڈ نہیں ملا تھا اب ندیم جیسے جوان مرد کو دیکھ کر اس کی بھوک برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔ اگلی صبح جب باجی والے چلے گئے تو میں نے باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھا جب کسی کو نہیں پایا تو میں ندیم کے فلیٹ کے سامنے آکر اسکا دروازہ کھٹکھٹایا ایک دو دستک کے بعد ندیم باہر آیا وہ نیند سے اٹھ کر آیا تھا مجھے دیکھ کر حیران ہو گیا ندیم:جی کیا ہوا ؟ میں:آج چائے پینے کو دل کر رہا تھا ندیم ایک سائیڈ پر ہوگیا میں اندر چلی آئی۔کمرے میں بیٹھ گئی سامنے ٹیبل پر پاؤڈر کی 2 لائین بنی ہوئی تھیں ساتھ ایک نلکی سی پڑی تھی میں سمجھ گئی ندیم ڈرگ لیتا ہے،ندیم چائے لے آیا میں چائے پینے لگ پڑی ندیم نے نلکی اٹھائی اور اسکو اپنے ناک سے لگایا اور سامنے پڑے سارے پاؤڈر کو ناک کے زریعے کھینچ لیا میں خاموشی سے اسکو دیکھتی رہی ساتھ چائے پیتی رہی ندیم نے مجھے کہا تم ٹرائی کرنا چاہو گی میں:نہیں کچھ اور ہے تمہارے پاس پینے کے لئے ندیم:تم بتاؤ کیا پینا چاہتی ہو میں:ڈرنک وغیرہ ہے تولے آؤ ندیم نے الماری سے امپورٹد شراب نکالی اور دو پیگ بنا لایا اور میرے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا میں نے آہستہ آہستہ اپنا پیگ ختم کیا اب ہلکہ ہلکہ سرور آرہا تھا میں نے نشیلی آنکھوں سے ندیم کی طرف دیکھا تو جیسے وہ مقناطیس کی طرح کھینچا چلا آیا اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دئے اور چوسنے لگ پڑامیں نے اس کا پورا ساتھ دینا شروع کر دیا کافی دیر تک ہم ایک دوسرے کو کس کرتے رہے ایک دوسرے کی زبان کو چوستے رہے پھر میں نے اپنے کپڑے اتار دئے مجھے ننگا دیکھ کر ندیم نے بھی اپنے آپ کو کپڑوں سے آزاد کر لیا اور ہم بیڈ کی طرف چل دئےبیڈ پر مجھے لٹا کر اس نے میرے مموں کو چوسنا شروع کر دیا کبھی ایک کا نپل منھ میں لیتا تو کبھی دوسرے کا ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں سے دباتا جا رہا تھا۔پھر اس نے اپنی زبان سے میرےجسم کا سفر شروع کیا جسم کے ایک ایک انچ کو وہ اپنی زبان سے چاٹتا جا رہا تھا اسکی زبان کی منزل میری چوت تھی وہاں پہنچ کر اس نے میری ٹانگوں کو کھولا اور ایک ہاتھ سے میری چوت کے لبوں کو کھول کر اپنی زبان اندر ڈال دی اور زبان سے میری چوت کو چاٹنے لگ پڑا کبھی زبان اندر ڈال دیتا کبھی اپنا منھ میری چوت کے اوپر بنے دانے پر رکھ کر اسکو چوسنے لگ پڑتا کبھی اسکی زبان میری گانڈ کے سوراخ پر آجاتی، وہ دنیاجہان بھول کر بس میری چوت کو چاٹتا جا رہا تھا میں مزے کی شدت سے اپنے سر کو دائیں بائیں مار رہی تھی کبھی اپنے بالوں کو نوچ رہی تھی تو کبھی بیڈ شیٹ کو اپنے ہاتھوں سے نو چ رہی تھی تو کبھی اسکے سر کو پکڑ کر اور اپنی چوت پر زور سے دبا دیتی تھی اس نے بھی شائید سوچ لیا تھا کہ میری چوت کو چوس چوس کر اسکا رس ختم کر دے گا،لگاتار چاٹنے اور چوسنے کی وجہ سے میں مزے کی انتہا پر پہنچ چکی تھی میرے جسم اکڑنے لگ پڑا اور ایک چیخ کے ساتھ میری چوت نے زور سے پانی چھوڑ دیا میرے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے ہر جھٹکے کے ساتھ میری چوت میں سے پانی کا فوارا سا نکلتا جو اسکے چہرے اور بیڈ شیٹ کو گیلا کرتا جا رہا تھا میرے آرگزم نے کافی بیڈ شیٹ کو گیلا کر دیا تھا میں آگے بڑھ کر ندیم کا منھ چوم لیا اور اسکے منھ پر لگے ہوئے اپنے رس کو چاٹ لیا ،اب میں نے اسکو لٹا لیا اور اسکے لنڈ کو منھ میں لے کر چوسنے لگ پڑی ا س کے لنڈ پر مذی کے قطرے لگے ہوئے تھے میں اسکے لنڈ کو مزے سے اندر گلے تک لے جاتی اور نکالتی کافی دیر چوسنے کے بعد میں اسکے لنڈ پر بیٹھ گئی اور نیچے اوپر ہونے لگ پڑی کافی دیر تک ایسا کرنے کے بعد میری ٹانگیں جواب دے چکی تھیں اب اس نے مجھے لٹایا اور میری ٹانگیں کندھوں پر رکھ کر اپنا لنڈ میری چوت میں ڈال دیا اب وہ جم کر دھکے لگا رہا تھا ٹانگیں کندھوں پر رکھنے کی وجہ سے اسکا ہر دھکا میری چوت کے اندر دیواروں پر لگ رہا تھا میں ساتھ ساتھ چلا رہی تھی اور زور سے چودو میں پتا نہیں کیا اول فول بولی جا رہی تھی میری چوت نے پھر ایک بار پانی چھوڑ دیا میں زور زور سے سانسیں لے رہی تھی اسکا لنڈ تھا کہ چھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھااس نے مجھے گھوڑی بننے کو کہا میں الٹی ہو گئی اس نے ٹیبل سے ایک بوتل نکالی اور اس میں موجو د لیوب کو اپنے لنڈ پر لگایا اور کچھ میری گانڈ پر اور اپنے لنڈ کو میری گانڈ پر رکھ کر دھکا مارا تو لنڈ لیوب کی وجہہ سے پھسلتا ہوا جڑ تک میری گانڈ میں چلا گیا اب وہ میری گانڈ کے اندر باہر ہو رہا تھا میں بھی مزے کی شدت سے چلا رہی تھی زور زور سے چودو، کوئی 15 20 منٹ کے بعد اس نے اپنا لنڈ باہر نکالا میں جلدی سے سیدھی ہو گئی اور اسکے لنڈ کو منھ میں لے لیا اور اس نے ایک جھٹکا کھایا اور اپنی گرم گرم منی میرے منھ میں انڈیل دی جسکو میں نے پی لیا،وہ سائیڈ پر گر گیا ہم دونوں پسینے سے شرابور ہو چکے تھے میں بھی نڈھال ہو چکی تھی۔اس دن ہم نے دو با ر سیکس کیا،پھر تو روٹین بن گئی میں روز اسکے گھر جاتی اور سارا دن ہم سیکس کی نئی نئی ٹیکنیکس اپناتے کبھی ہم ایک دوسرے کے پیشاپ پیتے ایک دوسرے پر پیشاپ کرتے ،اس کے بعقول میرے جیسے سیکس لور لڑکی پورے شوبز میں نہیں تھی۔ ایک دن اس نے مجھے کہا آج ہم نیا سیکس ٹرائی کریں گے میرے ہاتھو ں کو اس نے بیڈ سے باندھا اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی میں ننگی بیڈ پر بندھی ہوئی تھی مجھے اسکی آواز آرہی تھی وہ سامنے ٹیبل پر بیٹھا شراب پی رہا تھا اور مجھ سے کہہ رہا تھا زور زور سے مجھ سے سیکس کی بھیک مانگو میں:جان مجھے چودو میری چوت میں آگ لگی ہے اسکو بجھاؤ میں اس سے کہتی جا رہی تھی پھر شائید اس کو رحم آگیا اور اپنے ہاتھ میری چھاتی پر پھیرنے لگ پڑا پھر اسکا ہاتھ میری چوت پر آیا اور اپنی انگلی میری چوت میں ڈال دی اور اندر باہر کرنے لگ پڑا میں نے بھی سیکسی آوازیں نکالنا شروع کر دیاور اپنے ٹانگیں کھول دی اوراب اس نے اپنا منھ میری چوت پر رکھ دیا مجھے اچانک کچھ عجیب سا لگا کیونکہ ندیم کلین شیو تھا پر جو کوئی میری چوت پر اپنا منھ رکھ کر بیٹھا تھا وہ کوئی اور تھا جسکے مونچھوں کے بال مجھے محسوس ہوئے تھے میں نے اپنی ٹانگیں چلا نا شروع کر دیں ساتھ ساتھ میں نے ند یم کو اپنی آنکھیں کھولنے کا کہنا شروع کر دیا ندیم نے کہا کیا ہوا میں نے کہا میری آنکھیں کھولو ندیم نے میری آنکھو ں سے پٹی اتاری تو میں سامنے موجود شخص کو دیکھ کر حیران ہوگئی وہ قادر بھائی تھے میر ے بہنوئی وہ بلکل ننگے کھڑے تھے۔ ندیم :کیا ہوا مجھے شرمندگی ہو رہی تھی میں کس طرح قادر بھائی کو ندیم سمجھ کر اپنی چوت کی آگ بجھانے کا کہہ رہی تھی، میرے ہاتھ ابھی تک بندھے ہوئے تھے میں اپنے جسم کو ڈھانپ نہیں پا رہی تھی قادر بھائی کسی بھوکے شکاری کی طرح میرے جسم کا جائزہ لے رہے تھے۔ قادر :دیکھو فوزیہ یہ سب کچھ ہم دونوں کے بیچ رہے گا کسی کو نہیں پتا لگے گا ندیم میرا دوست ہے اور تمہا ری تعریفیں کر کر کے اس نے مجھے پاگل کر دیا تھا میں:پر بھائی باجی کو پتا لگ گیا تو قادر بھائی:اس کی فکر نا کرو تم اچھا میرے ہاتھ تو کھولو قادر بھائی نے میرے ہاتھ کھول دئے ندیم بھی اٹھ کر بیڈ پر آگیا دونوں میرے جسم پر ٹوٹ پڑے کبھی قادر میرے مموں کو چوستا تو کبھی ندیم اب دونوں کی منزل میری چوت کی طرف تھی وہ دونوں میری چوت کو چوس چوس کر اسکا رس پی رہے تھے ایک چوت کو چاٹتا تو دوسرا میری گانڈ کے سوراخ کو اپنی زبان سے چاٹتا، کافی دیر چاٹنے کے بعد اب دونوں اپنے لنڈ کو میرے منھ کے پاس لے آئے میں نے دونوں کے لنڈ کو منھ میں ایک ساتھ لے لیا جس کے لئے مجھے اپنا منھ پورا کھولنا پڑا دونوں کے لنڈ کو پھر باری باری چوسنے لگ پڑی،کبھی میرا منھ قادر کے لن پر ہوتا تو کبھی ندیم کے لن پر، اچھی طرح چوسنے کے بعد قادر لیٹ گیا اور مجھے اوپر آنے کا کہا میں اس کے لنڈ پر بیٹھ گئی اور ندیم نے اپنے لنڈ کو اچھی طرح لیوب لگا کر میری گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور جھٹکے سے لنڈ اندر ڈال دیا اب دونوں نے اپنے اپنے محاز سنبھال لئے اور جم کر چدائی کرنے لگ پڑے میں بیچ میں پس رہی تھی مزے کی شدت کی وجہ سے منھ سے سسکاریا ں نکل رہی تھی ندیم ساتھ ساتھ میری گانڈ پر تھپڑ مارتے جا رہا تھا اور قادر پورے زور سے میرے مموں کو نچوڑ رہا تھا میں ہر جھٹکے پر دونوں کو گالیاں نکال رہی تھی ساتھ ساتھ میں ان کو زور زور سے چودنے کا کہہ رہی تھی،میں بھول چکی تھی کہ ان میں سے ایک میرا بہنوئی بھی تھا میں نے مزے اور ان کے زور دار جھٹکوں کی وجہ سے اپنے ناخن قادر بھائی کے سینے پر گاڑ دئے تھے،ان میں سے کو ئی ہار ماننے کو تیا ر نہیں تھا میری چوت اور گانڈ میں جیسے کو مشین چل پڑی ہو میری چوت نے دو بار پانی چھوڑ دیا تھا انہوں نے بس نا کی ،بس اپنی اپنی پوزیشن چینج کر لی تھی اب چوت کا محاز ندیم نے سنبھالا تھا اور گانڈ کا قادر بھائی نے ،آخر کار کوئی دیڑھ گھنٹے کی مسلسل زوردار طوفانی چدائی کے بعد ان دونوں نے اپنا اپنا لنڈ نکال لیا اور مجھےزمین پر بیٹھنے کا کہا اور اپنا لنڈ قادر نے میرے منھ میں ڈال دیا ایک دو بار چوسنے کے بعد اس نے ایک زور دار جھٹکا کھایا اور اپنے لنڈ کو زور لگا کر میرے گلے کی گہرائی تک اتار دیا اسکی گرم گرم منی سیدھی میرے گلے کے اندر گر رہی تھی اپنے لنڈ کو اچھی طرح خالی کرنے کے بعد اس نے اپنا لنڈ نکال لیا میں نے ایک قطرہ تک ضائع نہیں کیا تھا ،اب ندیم نے میرے منھ کے سامنے مٹھ مارنے شروع کر دی کچھ دیر بعد اس نے بھی اپنا گرما گرم رس میرے منھ منھ انڈیل دیا جس کو میں نے مزے کے ساتھ پی لیا۔اب دونوں نے ایک ساتھ میرے منھ میں پیشاپ کی دھار مارنا شروع کر دی کچھ میرے منھ پر گر رہا تھا کچھ میرے بالوں پر ،دونوں کا گرم گرم پیشاپ میں کچھ پی رہی تھی کچھ میرے گلے سے ہوتا ہوا میرے جسم کو بھگو رہا تھا ، اب میں نے ان کو اشارہ کیا کے وہ نیچے لیٹ جائیں مجھے بھی پیشاپ آیا تھا میں نے کھڑے ہو کر اپنی ٹانگیں کھولی اور ان کے کھلے ہوئے منھ میں پیشاپ کرنا شروع کر دیا جس کو انہوں نے مزے لے کر پینا شروع کر دیا۔ ہم تینوں تھک چکے تھے اس لئے ایسے ہی لیٹ گئے کافی دیر لیٹ کر ہم باتیں کرتے رہے پھر میں نہانے کے لئے واش روم جانے لگی تو قادر بھائی بھی ساتھ آگئے ہم دونوں نے اکھٹے نہایا نہاتے ہوئے قادر بھائی کا لن پھر تیا ر ہو گیا انہوں نے واش روم میں ہی مجھے گھوڑی بنا کر میری گا نڈ ماری، نہا دھو کر قادر بھائی اور میں دونوں اپنے گھر آ گئے میں بہت تھک چکی تھی میری گانڈ اور چوت میں جلن ہو رہی تھی ،میں آ کر سو گئی شام آنکھ کھلی تو میری باجی آ چکی تھی ، اس کے بعد میرے بہنوئی کو جب موقع ملتا میری آگ بجھا دیتا وہ میری گانڈ پر عاشق ہو چکا تھا میں خود گانڈ مروانے کی اتنی عادی ہو چکی تھی کہ اس کے بغیر سیکس ادھورا لگتا تھا، ایک دن میں نے باجی کو کہا میں بازار جا رہی ہو ں مجھے آنے میں دیر ہو جائے گی میرا ارادہ ندیم کے فلیٹ پر جا کر چدوانے کا تھا میں اسکے فلیٹ کے سامنے پہنچی تو تالا لگا ہوا تھا میں نے سوچا چلو اب کچھ شاپنگ ہی کر لی جائے میں نے ٹیکسی لی اور بازار پہنچ گئے کچھ شاپنگ کی اور واپسی اُسی ٹیکسی پر واپس آ گئی تھی مجھے بس 1 گھنٹہ لگا تھا میں نے دوبارا ندیم کا فلیٹ چیک کیا تو وہاں ابھی بھی تالا ہی تھا،میں نے اپنے فلیٹ پر آ کر چابی سے دروازہ کھولا اور اندر آ گئی ٹیبل پر سامان رکھا اور فریج سے پانی نکال کر پینے لگ پڑی اچانک مجھے باجی کے کمرے سے سیکس کی آوازیں آنے لگ پڑیں میں نے سوچا شائید باجی اور قادر بھائی میرے نا ہونے کا فائیدہ اٹھا رہے ہیں میں دبے پاؤں کھڑکی کے پاس آ گئی اور اندر جھانکنے لگی اندر کا منظر دیکھ کر میری اوسان خطا ہو گئےاندر دو عدد مرد میری باجی کو چود رہے تھے اور تیسرا اپنی باری کا انتظا ر کر رہا تھا ان تینوں میں قادر بھائی نہیں تھے ایک نے اپنا لنڈ باجی کی چوت میں دیا ہوا تھا تو دوسرے نے گانڈ میں ،باجی مزے سے سیکسی آوازیں نکال رہی تھی،میں ان کے سیکس سین میں اتنی مگن تھی مجھے پتا ہی نہیں لگا کب قادر بھائی میرے پیچھے آ کھڑے ہوئے شائید وہ واش روم میں تھے میں کچھ بولنے ہی لگی تھی انہوں نے مجھے منھ پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا اور مجھے ہاتھ پکڑ کر باہر لے گئے باہر آ کر مجھے کہا تم ندیم کے فلیٹ میں انتظار کر و یہ لوگ چلے جائیں تو واپس آ جانا ،میں نے کہا ندیم اپنے فلیٹ میں نہیں ہے ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے ندیم کو میں نے آتے دیکھا قادر نے ندیم کو اشارے سے پاس بلایا اور کہا اس کو اپنے گھر لے جاؤ ،ندیم مجھے لے کر گھر آ گیا میں شاک کی حالت میں تھی میں کبھی سپنے میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ میری باجی بھی اس طرح کی ہو سکتی تھی شائید ہم پورا خاندان سیکس کا دیوانہ تھا ،میں جا کر بیٹھ گئی تو ندیم نے مجھ سے پوچھا :کیا ہوا تمہا را منھ کیوں اترا ہوا ہے میں نے اُس کو ساری بات بتا دی ،ندیم نے کہا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے تمہا ری باجی پورے محلے میں مشہور ہے کوئی ہوگا جس نے تمہاری باجی کی چوت سے فیض حاصل نا کیا ہو کیا بڑا کیا چھوٹا ہر کوئی تمہا ری باجی کا دیوانہ ہے۔میں خود پتا نہیں کتنی بار تمہاری باجی کو چود چکا ہوں میں اور قادر دونوں مل کر کافی بار تمہا ری باجی کو چود چکے ہیں۔اور جو یہ لوگ جو تم نے دیکھے ہیں یہ ہمارے ایریا کے ایک بہت بڑی سیاسی جما عت کے کارکن ہیں ان کا کام غنڈہ گردی کرنا اور بھتہ اکھٹا کرنا ہے ، ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اچانک دروازے کی گھنٹی بجی میں دروازہ کھولنے کے لئیے اٹھی میں سمجھی شائید دروازے پر قادر بھائی ہوں گے میں نے دروازہ کھولا تو سامنے وہی تین آدمی کھڑے تھے جن کو میں نے باجی کے ساتھ دیکھا تھا ،تینوں شکل سے ہی چھٹے ہوئے غنڈے لگ رہے تھے ،مجھے دیکھ کر انکی آنکھوں میں چمک سی آ گئی تھی مجھے وہ بھوکی نظروں سے دیکھ رہے تھے،ان میں سے ایک نے مجھ سے ندیم کا پوچھا میں مڑ کر ندیم کو بلانے چل پڑی وہ دروازے کو کھول کر اندر آ گئے،ان میں سے ایک نے مجھے پیچھے سے دبوچ لیا میں نے مڑ کر اس کے منھ پر زور سے تھپڑ جڑ دیا،سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ندیم سامنے منھ کھولے سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔اتنے میں ان میں سے ایک نے پسٹل نکال کر میرے سر پر رکھ دی ،پیچھے دروازے سے میں نے قادر بھائی کو اندر آتے دیکھا انہوں نے جیسے سارا ماجرا دیکھا جلدی سے وہ اُس شخص جسکو میں نے تھپڑ مارا تھا اُ سکے سامنے ہاتھ جوڑ دئے اور کہنے لگ پڑے:جانی بھائی بچی ہے معاف کر دو اسکو آپ کا نہیں پتہ تھا۔ جانی بھائی نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے کارندے کو پسٹل ہٹانے کو کہا اور قادر بھائی سے کہا :اس کو بولو اپنی اوقات میں رہے مجھے تم جانتے ہو میں کیا چیز ہوں۔اس کو بولو اس تھپڑ کے بدلے رات کو میرا بستر گرم کر دے میں اس کو معاف کر دونگا۔ میں:میں تم پر تھوکنا بھی پسند نہیں کروں گی۔ جانی بھائی کا منھ غصے سے اور کالا ہوگیا تھا۔ابھی شائید وہ کوئی ردعمل کرتا اس کا موبائل بج اٹھا شائید اس کو کسی باس کا فون آگیا تھا اسکو جانا پڑ رہا تھا۔ جاتے جاتے اُس نے مجھے آنکھوں آنکھوں میں دھمکی دی اور ندیم کے فلیٹ سے نکل گیا۔ قادر بھائی سر پکڑ کر بیٹھ گئے مجھے کہا تم نے یہ کیا کر دیا اتنے میں باجی بھی ندیم کے فلیٹ میں داخل ہو ئیں قادر بھائی کو سر پکڑ ے دیکھا تو ان سے پوچھا کیا ہوا انہوں نے بتایا کہ میں نے جانی بھائی کو تھپڑ دے مارا ہے تو وہ پریشان ہو گئیں اور مجھ سے کہا تم آج ہی لاہورچلی جاؤ شام کو قادر بھائی تم کو ٹرین پر بٹھا دئیں گے۔ میں:میں کسی جانی وانی سے نہیں ڈرتی باجی واپس چلی گئیں قادر بھائی مجھے سمجھانے لگ پڑے ،انہوں نے بتایا ان کو ایک پولیس والا تنگ کرتا تھا وہ مدد مانگنے قادر بھائی کے پاس گئے تھے انہوں نے اُ س پولیس والے سے تو جان چھڑا دی تھی پر اُس کی نظر تمہا ری باجی پر پڑ گئی اور اُ س دن کے بعد یہ لوگ آتے رہتے ہیں اور تمہاری باجی ان کو خوش کرتی رہتی ہے۔تم نے اُ س کو تھپڑ مار کر اُس کی بے عزتی کر دی ہے وہ بھی اُ س کے کارندوں کے سامنے یہ اس علاقے کا ڈان ہے سمجھو اس کو ایک سیا سی پارٹی کی پشت پناہی حاصل ہے قتل،اغوا،بھتہ خوری اور ریپ جیسے پتا نہیں کتنے کیس اس پر چل رہے ہیں،اس کا پورا گینگ ہے یہ جس کسی کو چاہیں بھرے بازار میں قتل کر دیں کوئی مائی کا لال ان کے خلا ف گواہی نہیں دے گا اور نا کوئی ان کو گرفتار کر سکتا ہے، میں خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی،میں واپس باجی کے گھر آگئی باجی میرا سامان پیک کر کے بیٹھی تھی مجھے دیکھتے ہی بھائی کو کہا اس کو گھر چھوڑ آو اس کا کراچی رہنا اب ٹھیک نہیں ہے،میں نے باجی کو تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوتا پر باجی نہیں مان رہی تھیں،میری ضد کے آگے انہوں نے ہتھیا ر ڈال دئیے ایک دو دن کے بعد سب کچھ معمول پر آگیا میں نے بھی باہر نکلنا شروع کر دیا،ایک دن میں شاپنگ کر کے واپس آ رہی تھی کہ ایک ہائی روف میرے سامنے آ کر رکی اور اس میں سے دو لوگ نکل کر آئے اور مجھے پکڑ کر گاڑی میں ڈال دیا ۔میں سمجھ گئی تھی یہ جانی کی حرکت ہے میں نے مزاحمت دکھانی چاہی تو اس میں سے ایک نے جیب سے خنجر نکالا اور مجھے کہا آرام سے بیٹھی رہو ورنہ اس چہرے پر ایسی نقش و نگاری بناؤں گا کسی کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہو گی۔ میں خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔کچھ دیر بعد گاڑی ایک کوٹھی میں داخل ہوئی گیٹ سے اندر جانے کے بعد گاڑی رک گئی انہی دو لوگوں نے مجھے پکڑ کر اندر لے گئے ،ایک کمرا جس میں قالین بچھا تھا بیچ میں ایک گدا پڑا ہوا تھا ۔اس گدے پر مجھے لا کر پٹخ دیا کمر ے میں چاروں طرف گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے مجھے پھینکنے کے بعد وہ باہر نکل گئے اور دروازہ لگا دیا۔کافی دیر بعد ایک عورت آئی اس نے مجھے کھانا لا کر دیا میں نے کہا میں نے نہیں کھانا مجھے جانے دو میں نے اس کے آگےہاتھ جوڑے اور اس کو عورت ہونے کا واسطہ دیا پر وہ نہیں مانی۔وہ کھانا چھوڑ کر چل دی جاتے ہوئے کہا اگر کھانا کھا لو جانی بھائی کا حکم ہے اور اگر کوئی اسکا حکم نہیں مانتاوہ اسکو جینے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ میں نے اس عورت کے جانے کے بعد کچھ کھانا کھایا اور لیٹ گئی مجھے پتا تھا جانی مجھے کس لئے اغوا کر کے لایا ہے،مجھے عزت لٹنے کا ڈر تو تھا نہیں پر خوف اس بات کا تھا کہیں مجھے کوئی اور نقصان نا پہنچا دے میں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ جانی کو اپنے جسم سے خوش کر دوں گی اور وہ مجھے معاف کر دے گا ،یہی سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی آنکھ کھولی تو میں نے دیوار پر لگی گھڑی میں ٹائم دیکھا تو شام کے 6 بج چکے تھے مجھے اغوا ہوئے 6 گھنٹے گزر چکے تھے مجھے یقین تھا میرے بہنوئی وغیرہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے ضرور جانی کے اڈے تک آئیں گے۔مجھے اب خو د پر غصہ آ رہا تھا اس وقت تیش میں آ کر بلا وجہ جانی کو تھپڑ جڑ دیا ۔دروازہ کھلنے کی آواز آئی میں نے جانی کو اندر آتے دیکھا اس کے ساتھ موجود شخص کو دیکھ کر میں چونک گئی۔

جانی کے ساتھ ندیم تھا اس کا سر جھکا ہوا تھا میں نے جلدی سے اٹھ کر ندیم کو کہا پلیز مجھے یہاں سے لے چلو گھر۔ جانی نے قہقہہ لگایا اور کہا یہ میرا آدمی ہے میرا مال سپلائی کرتا ہے شوبز کی دنیا میں،تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھا کر اپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی ہے اُ س کی سزا ملے گی تم کو میں نے ہاتھ جوڑ دیئے اور جانی سے کہا تم جو چاہے میرے ساتھ کر سکتے ہو میرے جسم کو حاصل کرنا چاہتے تھے ۔مجھے معاف کر دو تم جانی:سالی میں جس کو چاہوں اس کا جسم حاصل کر سکتا ہوں تم جیسی لڑکیاں میرے پاؤں دھودھو کر پیتی ہیں۔آج کا دن تم نہیں بھول پاؤ گی میں تمہاری وہ حالت کروں گا کہ ساری زندگی تم جانی بھائی کا نام نہیں بھول سکو گی جانی نے آواز دی تو کمرے میں بہت سے آدمی داخل ہو گئے اور سب کمرے کے چاروں طرف بیٹھ گئےمیں ان کے بیچ میں موجود گدے پر پڑی ہوئی تھی۔جانی نے کہا شیرو کو بلاؤ تو ندیم اٹھ کر کسی شیرو کو بلانے چلا گیا۔اور کچھ دیر بعد ندیم شیرو کو بلا لایاشیروایک جن نما انسان تھا اس نے صرف دھوتی پہن رکھی تھی جسم بالوں سے بھرا ہوا تھا اور قد کاٹھ سے کوئی ریسلر لگ رہا تھا میں جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ جانی نے کہا ہم سب تمہاری اور شیرو کی سہاگ رات دیکھیں گے اس کے بعد تمہارے شوہر بدلتے رہیں گے۔ اس نے پھر شیرو سے کہا دیکھ شیرو  ہم سب کو مزہ آنا چاہیے شیرو نے ہنس کر دانت نکال دیئے ۔اور کہا :جو حکم سرکار میں نے آگے بڑھ کر جانی کو کچھ کہنا چاہا پر شیرو نے زور کا مکا میرے پیٹ میں مارا میں درد کے مارے دوہری ہوگئی میری آنکھ میں درد کے مارے آنسو آگئے اس نے میرے بالوں سے پکڑ کر میرے سر کو اوپر اٹھایا اور مجھے گدے پر پٹخ دیا میں اس کے سامنے ایک بچی کی طرح لگ رہی تھی اس نے ایک تھپڑ میرے گال پر جڑ دیا میری آنکھوں کے سامنے جیسے تارے ناچنے لگ پڑے۔اس نے میرے گریبان پر ہاتھ ڈالا اور میری قمیض کو چیر دیا نیچے میرا برا سب کے سامنے ظاہر ہو گیا جسکو اس نے دوسری کوشش میں تار تار کر دیا ۔پھر اس نے میری شلوار کو اتار دیا سب کے سامنے میں ننگی ہو چکی تھی کمرے میں موجود کم از کم درجن کے قریب لوگ مجھے بھوکی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔میں نے مزاحمت چھوڑ دی تھی ۔پھر اس نے اپنی دھوتی کو اتار پھینکا اور اندر سے ایک کالا موٹا لنڈ نکلا جس کو دیکھ کر ہی میری حالت ٹائیٹ ہو گئی تھی۔آج تک جتنے بھی لن لئے تھے سب اس کے سامنے کم تھے شیرو کے پورے جسم پر بال تھے جس کی وجہ سے وہ گوریلا لگ رہا تھا۔پھر وہ مجھ پر ٹوٹ پڑا میرے ہونٹوں کو چوسنے اور کاٹنے لگا اس نے خوب کسنگ کی ساتھ ساتھ میرے مموں کو مسل رہا تھا بلکہ نوچ رہا تھا اس کے سیکس کا انداز پر تشدد تھا۔پھر اس نے میرے نپلز کو منھ میں لیا اور ان کو کاٹنے اور چوسنے لگا۔پھر اب اسکی اگلی منزل میری چوت تھی جس پر اس نے اپنے منھ کو رکھا اور میری چوت کا رس پینا شروع کر دیا اس کی زبان میری چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی وہ کسی جانور کی طرح میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔اس کے بعد وہ اٹھا اور میرے منھ کے پاس آیا اور مجھے کہا میرا لنڈ کو منھ میں لو۔ میں نے اس کے لنڈ کو منھ میں لے لیا اس کے لنڈ کی موٹی ٹوپی بڑی مشکل سے میرے منھ میں گئی میں نے اس کے لنڈ کو چوسنا شروع کر دیا کمرے میں موجود سب مرد مجھ پر آوازیں کس رہے تھے گندے گندے ریمارکس دے رہے تھے۔میں نے کسی پر دھیان نہیں دیا اور خاموشی سے شیرو کے ڈندا نما لنڈ کو چوس رہی تھی اس کا لنڈ لگ رہا تھا جیسے لوہے کا بنا ہو ،وہ حد سے زیا دہ سخت تھا اب اس نے میرے منھ کو چودنا شروع کر دیا اور میرے سر کے پکڑ کر اپنے لنڈ کے اوپر دبانا شروع کر دیا میرا سانس رکنے لگا تو اس نے چھوڑا اور مجھے زور سے دھکا دے کر پیچھے گرا دیا اور میری ٹانگوں کو دونوں اطراف میں پھیلا دیا اب اس نے میری چوت پر اپنے لنڈ کو رگڑنا شروع کر دیا اور ایک جھٹکے سے اپنا لنڈ میری چوت کی گہرائی میں اتار دیا اس کے لنڈ کی غیر معمولی موٹا ئی کی وجہ سے میرے منھ سے زور دار      چیخ نکلی مجھے لگا کسی نے میری چوت میں ڈنڈا ڈال دیا ہو چوت باقاعدہ چرتی ہوئی محسوس ہوئی۔اس نے میری چیخوں پر کو ئی دھیان نہیں دیا اور لنڈ کو میری چوت سے باہر نکال کر دوبارہ زور سے جھٹکا مارا اور پورا لنڈ جڑ تک میری چوت میں اتار دیا میں اس کے پہاڑ جیسے جسم کے نیچے تڑپنے لگی۔اس نے اب جم کر زور سے جھٹکے مارنے شروع کر دیے مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کوئی کنواری لڑکی ہوں ،کچھ دیر بعد میری کچھ حالت سنبھلی اور اب چیخوں کی جگہ سسکاریوں نے لے لی تھی۔وہ جم کر چدائی کر رہا تھا اس نے میرے گلے میں لٹکی ہوئی میری قمیض کے ٹکرے کو بل دے کر میرا گلا گھونٹنا شروع کر دیا جب میری سانس روکنے لگتی تو وہ اس پھندے کو ڈھیلا کر دیتا جب دیکھتا میں سنبھل گئی ہوں تو دوبارہ میرے گلے کو پھندے سے گھونٹنا شروع کر دیتا۔اس کو تشدد پسند تھامیری حالت پتلی ہو چکی تھی  کمرے میں موجود سب انجوائے کر رہے تھے مجھ پر آوازیں کس رہے تھے ۔اتنی بے عزتی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔پتا نہیں شیرو نے کیا کھایا ہوا تھا چھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ،کبھی مجھ کو اپنے اوپر بٹھا لیتا کبھی مجھ کو گود میں اٹھا کر کھڑے ہو کر چود رہا تھا ۔اس میں جن جیسی طاقت تھی۔پھر اس نے گھوڑی بنایا اور میری چوت کو چودنے میں مصروف ہو گیا میں پتا نہیں کتنی بار فارغ ہو چکی تھی کوئی گھنٹے کی چدائی کے بعد اس نے ایک زور دار آواز نکالی اور اپنے دانت میرے کندھے پر گاڑ دئے اور اپنے ھاتھوں سے میرے مموں کو پکڑ کر دبا دیا۔مجھے ایسا لگا میری چوت میں سیلاب آ گیا ہو ،شیرو کے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھےاور وہ مزے کی شدت سے میرے جسم کو اپنے دانتوں سے نوچ رہا تھا۔میں نڈھال ہو کر گر گئی شیرو نے مجھے چھوڑ دیا۔کمرے میں موجود سب نے زور زور سے تالیا ں اور سیٹیاں مارنا شروع کر دیں جیسےاس نے کوئی میدان فتح کر لیا ہو۔اب کمرے میں موجود تمام آدمیوں نے ایک دوسرے سے بحث کرنا شروع کر دی تھی ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ وہ میرے جسم کو حاصل کر لے پہلے۔میں ان تمام آدمیوں کا جنون دیکھ کر گھبرا گئی تھی اکیلے شیرو نے میری حالت خراب کر دی تھی،میں نے اٹھ کر جانی کے پیر پکڑ لئے اور کہا پلیز مجھے معاف کر دو میں مر جاؤں گی ۔ جانی نے مجھے ایک زور دار دھکا دیا اورکہا بہن چود تو خوش نصیب ہے دیکھ کتنے مرد ہیں تیرے،آج تم سب کو خوش کرو گی ۔ اس نے سب کو ڈانتا اور کہا بہن چودو ساری رات پڑی ہے دو دو کر کے اپنی آگ بجھا تے جاؤ۔ بس پھر کیا تھا ان میں سے دو آدمی اگے بڑھے اور اپنے کپڑے اتارکر میرے پاس آ گئے اور مجھے بالوں سے گھسیٹ کر دوبارہ گدے پر لے آئے۔بس پھر ایک نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا دو آدمی آتے ایک میری چوت اور دوسرا میری گانڈ کو چودتا فارغ ہونے والے کی جگہ دوسرا آدمی سنبھال لیتا۔اس طرح کوئی رات کے 12 بجے تک مسلسل چدنے کی وجہ سے میری چوت اور گانڈ سن ہو چکی تھی پورے جسم میں درد کی لہریں دوڑ رہی تھیں جسم میں زرا سی بھی جان نہیں بچی تھی اور کمرے میں موجود تمام آدمی ایک ایک باری لگا چکے تھی اور دوسری باری لینے کے لئے تیار تھے،جانی کو شائید مجھ پر رحم آگیا اس نے رکنے کا کہا اور کہنے لگا ایک گھنٹے کا ریسٹ دو اس کو اس نے اپنی نوکرانی کو آواز دی اور کہا اس کے لئے گرم دودھ اور کچھ کھانے کو لاؤ۔ دودھ پینے کے بعد کچھ جسم میں جان آئی اور یہ سوچ کر دل دہل گیا کہ دوبارہ ان جنگلیوں کو خوش کرنا پڑے گا۔ میں نے جا کر شاور لیا اور کمرے میں آکر بیٹھ گئی پہننے کو کپڑے تو تھے نہیں ،گھنٹے کے بعد جانی کمرے میں داخل ہوا اس کے پیچھے باقی لوگ تھے جانی نے دوآدمیوں کو مجھے پکڑنے کا کہا اور اس نے ایک انجکشن میرے بازو پر لگا دیا کچھ دیر بعد مجھے ایسا لگا جیسے میں ہواؤں میں اڑ رہی ہوں جسم پھولوں سے بھی ہلکاہو چکا تھا میں سمجھ گئی مجھے نشے کا انجکشن لگایا ہے۔اور بس پھر ان سب نے مل کر مجھے کتوں کی طرح نوچنے لگ پڑے انجکشن کی وجہ سے میں مزے کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھی رات پوری مجھے چودتے رہے صبح میری حالت خراب ہونے پر مجھے ایک اہسپتال کے سامنے پھینک کر چلے گئے جہان مجھے ایڈمٹ کر لیا گیا ہوش آنے پر میں نے اپنےبہنوئی کا نمبر اہسپتال والوں کو دیا ، بہنوئی کے آنے پر میں نے رو رو کر سب کچھ ان کو بتا دیا  بہنوئی کے منع کرنے پر بھی پولیس کو میں نے جانی کا نام بتا دیا اور سارا بیان دیا ۔2 دن بعد مجھے اہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا میں گھر آگئی ۔پولیس ایک دو بار مجھ سے  بیان لینے آتی رہی پر انہوں نے جانی کےخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ایک دن میں گھر میں اکیلی تھی تو جانی ایک آدمی کے ساتھ میرے گھر داخل ہوا اور اس نے زبردستی مجھے پکڑ کر دوبارا وہی انجکشن لگایا اور مجھے نشے میں چھوڑ کر گھر سے نکل گیا کچھ دیر بعد پولیس میرے گھر آئی اور ان کو میں نشے کی حالت میں ملی میرے کمرے سے ان کو ڈرگ اور انجکشن ملے جو جانی نے جاتے ہوئے شائد میرے کمرے میں رکھ دئے تھے۔ پولیس نے میرے خلاف ڈرگ بیچنے ،یوز کرنے اور جسم فروشی کا مقدمہ بنایا ۔میں بہت چیخی چلائی پر میرے خلاف  ثبوت اتنے تھے میں کچھ نہیں کر سکی ۔تفشیشی افسر سے لے کر سپاہی تک نے میرےجسم سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے رہے ۔ایک دو پیشیوں کے بعد ہی جج نے مجھے 7 سال قید کی سزا سنا دی تھی ۔مجھ سے میرے بہنوئی اور بہن نےپولیس کے گرفتار کرنے کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔مجھے جیل منتقل کر دیا گیا ۔جہاں کی دنیا ہی الگ تھی میرے کمرے میں موجود دو پکی عمر کی عورتیں رہتی تھیں میری صورت میں ان کو ایک نوکرانی مل گئی تھی سارا دن مجھ سے اپنی ٹانگیں دبواتی تھیں۔اور رات کو میرے جسم کے ساتھ کھیلتی تھیں انکار کی صورت میں مجھے ان کی مار برداشت کرنی پڑتی تھی۔جیل میں جیلر بھی آئے روز مجھے اپنے کمرے میں بلا لیتا تھا جہاں کبھی خود کبھی اس کے مہمان مجھ سے سیکس کرتے تھے۔جیل میں موجود کوئی لڑکی ہوگی جو ان سے بچی ہوگی۔جیسے جیسے میں جیل میں پرانی ہوتی گئی میری حاضری میں وقفہ آتا گیا۔میں نے رو پیٹ کر 5 سال گزار لئے میرے اچھے چال چلن کی وجہ سے مجھے 5 سال میں جیل سے آزاد کر دیا گیا۔جیل سے باہر آنے کے بعد میں   بہنوئی کے گھر گئی جہا ں جا کر پتا لگا وہ شہر چھوڑ کر چلے گئے ہیں ان کے سب نمبرز بھی آف تھے۔ندیم بھی اپنا فلیٹ بیچ کر چلا گیا تھا۔جانی ایک پو لیس مقابلے میں مارا گیا تھا ۔میں کراچی سے لاہور اپنے گھر کی طرف چلی گئی ۔وہاں جا کر ایک قیامت خیز خبر میرا انتظا ر کر رہی تھی۔میرے جیل جانے اور مجھ پر لگنے والے الزامات کی وجہ سے میرے والد کو دل کا اٹیک ہوا اور وہ  وفات پاگئے ابو کی وفات کے بعد امی نے لوگوں کے تانوں سے بچنے کے لئے مکان بیچ کر سر ریا ض سے شادی کی اور کسی اور شہر چلے گئے ،میں ماریہ کے گھر گئے تو پتا لگا اسکی بھی شادی ہو چکی ہے اور اسکی امی نے مجھے گھر میں داخل ہونے نہیں دیا ۔اس کے بعد میں نے ارشدسے فون پر رابطہ کیا تو اس نے بھی روکھے منھ بات کی اور کہا اسکی شادی ہو چکی ہے اور وہ میری وجہ سے مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتا۔سب سے مایوس ہو کر میں نے دوبارہ کراچی جانے کا فیصلہ کیا اور بچے کچھے پیسوں سے جو مجھے جیل سے رہائی پر ملے تھے ان سے بس کی ٹکٹ لی اور کراچی پہنچ  کرایک دارالامان کا پتا پوچھتے پوچھتے پہنچ گئی۔دارالامان ایک عورت چلاتی تھی۔دارالامان میں موجود 2  مردوں کا کام دن میں عورتوں کے لئے کھانا بنانا تھا اور رات میں عورتوں سے سیکس کرنا۔اور دارالامان بس نام کا تھا ان کا اصل دھندہ جسم فروشی تھا ۔یہ عورت ایک این جی اوز چلاتی تھی ۔اور اس کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے تھے جو اس سے عورتیں منگواتے تھے اور جو لڑکی بھاگنے کی کوشش کرتی اس کو ایسی سزا دی جاتی کہ باقی موجود کسی عورت کی ہمت نہیں ہوتی بھاگنے کی۔ میں نے بھی خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا میں بھی بہت سے ٹرپ لگاتی تھی مجھے اسی طرح بہت سے بڑے بڑے بزنس مین اور سیاستدانوں سے ملنے کا موقع ملتا تھا ۔ایسے ہی ایک پارٹی میں میری ملاقات اس کہانی کے رائیٹر سے ہوئی ۔کچھ بات چیت میں ہم دونوں گھل مل گئے اس نے اصرار کر کے مجھ سے میری کہانی سنی میں نے اس کے سامنے اپنی زندگی کے تمام حالات رکھ دئے اس نے وعد ہ کے مطابق میری کہانی کے کرداروں کے نام اور جگہ کو تبدیل کر دیا  ۔میں اب اپنی زندگی اسی دارالامان میں گزار رہی ہوں ۔کبھی کبھی سوچتی ہوں میری زندگی تباہ کرنے میں کون زیادہ قصوروار ہے ۔میں ،سر ریاض،ندیم یا جانی پر میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتی۔

ختم شد

 

اتوار، 25 جولائی، 2021

تین عورتیں تین کہانیاں

ماں کی گانڈ 

ایک رات میں سو رہا تھا کہ اچانک میں نے محسوس کیا کہ میری شلوار کا ناڑہ کوئی کھول رہا ہے اور پھر میرے لن پر ہاتھ پھیر رہا ہے میں نے ایک دم آنکھ کھول کر دیکھا تو ماں میرے لن کو پکڑ کر سہلا رہی تھی اور میرے لن کو اپنے ہونٹوں پر پھیر رہی تھی. میں نیند میں تھا اور لیٹا رہا اور ماں میرے لن کے چوپے لگا رہی تھی. اب میرا لن فل گرم تھا اور ماں میرے لن اور میرے ٹٹے چوس رہی تھی. میں لیٹا رہا اور ماں نے اپنی قمیض اتاری اور اپنا برا اتار دیا. اب ماں میرے لن کو اپنے مموں کے درمیان مار رہی تھی اور میرا لن میری ماں کے مموں کو چود رہا تھا. اب ماں نے میری شلوار اتار دی اور میرے پھر میری قمیض اتار دی اور میری چھاتی پر کسنگ کرنے لگی. اب ماں ننگی ہو کر میرے اوپر لیٹ گئی تھی اور میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی. میں ماں کی کمر اور گانڈ پر ہاتھ پھیر رہا تھا.

ماں نے اپنی پھدی میرے منہ پر رکھ دی اور بولی چاٹ اپنی ماں کی پھدی کو میں نے ماں کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا ماں نے ایک ہاتھ سے میرا لن پکڑا ہوا تھا اور ساتھ اپنی چوت میرے ہونٹوں پر رگڑ رہی تھی. 5 منٹ کے بعد ماں نے پوزیشن تبدیل کی اور پھدی میرے منہ پر رکھ کر لن منہ میں لے لیا اور چوسنے لگی. میں نے پھدی چاٹتے چاٹتے ماں کی گانڈ پر زبان پھیرنی شروع کی تو ماں کو مزا آنے لگا. ماں بولی یاسر میری گانڈ چاٹ زور سے مجھے مزا آرہا ہے. میں نے ماں کی پھدی میں انگلی ڈال دی اور گانڈ کو چاٹنے لگا میری ماں کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا تھا. میں چاٹ گیا سارا چوت کا رس.

اب ماں نے بولا چل یاسر اب اپنی ماں کی پھدی چود کر ٹھنڈی کر دے. میں نے ماں کو کہا لیٹ میرے نیچے ماں لیٹ گئ تو میں نے ماں کی ٹانگیں اٹھا کر کندھے پر رکھ دی تو لن اپنی سگی ماں کی پھدی کے سوراخ پر رکھ کر گھسا مارا آف میرا چھ انچ کا لوڑا پورا میری ماں کی چوت میں تھا میں زور زور سے چودنے لگا لیکن میری ماں کی پھدی چودنے کا آج مزا نہیں آرہا تھا ماں کی چوت بہت کھل چکی تھی کیونکہ ہر روز وہ کبھی دادا کبھی میں کبھی آفتاب انکل اور کبھی میرے دوست جواد سے چدواتی تھی تو اسکی پھدی اب پھدا بن چکا تھا. میں نے کہا ماں تیری پھدی رنگ برنگے لن کھا کر کھلی ہو گئی ہے مجھے اب تیری گانڈ چودنی ہے. ماں بولی گانڈ میری آج تک کسی نے نہیں چودی اور مجھے درد ہوگا تم صرف پھدی چودو میری لیکن میں نہ مانا اور ماں کو الٹا لٹا دیا.

پھر میں دیسی تیل کی شیشی لایا تھوڑا تیل ماں کی گانڈ کے سوراخ میں لگایا اور باقی اپنے لن پر لگایا اور ماں کو کہا دونوں ہاتھوں سے اپنے چوتر کھول، ماں بولی یاسر نہ کر پھدی چود کے مجھے درد ہو گا. میں نے کہا چھ چھ لن لیتی ہے تب درد نہیں ہوتا کھول چوتر اور میں ماں کو الٹا لٹا کر لیٹ گیا ماں نے چوتر کھول رکھے تھے میں نے لن کو اپنی ماں کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر دبانے لگا لن سلپ کر کہ ماں کی چوت میں گھس گیا. میں نے باہر نکال کر لن زور سے ماں کی گانڈ پر دبایا تو لن کا ٹوپا میری ماں کی گانڈ میں تھا. آف باہر نکال بہن چود میری گانڈ پھٹ جائے گی باہر نکال میں نے ماں کی بات سنی ان سنی کر دی اور زور دار گھسا مارا میرا لن تیل لگنے کی وجہ سے پورا میری ماں کی گانڈ چیرتا ہوا جڑ تک اندر گھس گیا. اب میں ماں کے اوپر لیٹ گیا اور کچھ دیر ماں آوازیں درد سے نکالتی رہی اور گالیاں دیتی رہی لیکن میں نے ایک نہ سنی اور لن گھسا کر رکھا.

دس منٹ کے بعد ماں تھوڑی سکون میں ہوئی تو میں نے آہستہ آہستہ لیٹے لیٹے لن کو اندر باہر کرنے لگا ہلانے لگا. اب ماں نارمل تھی ہلکی ہلکی سسکیاں لیتی تھی درد کی وجہ سے لیکن اب ماں کو پتہ تھا کہ لن اسکی گانڈ میں گھس چکا ہے. میں نے اب ماں کی گانڈ چودنا شروع کر دی اور ماں کی گانڈ مارنے کی آواز تیل لگانے کی وجہ سے زیادہ کمرے میں گونج رہی تھی. ماں بولی آہستہ چود کوئی آٹھ جائے گا. میں دھیرے دھیرے ماں کی گانڈ مارنے لگا اب ماں مزے میں تھی. میں نے کہا کیوں ماں مزا آرہا ہے گانڈ چدوا کر تو بولی ہاں بہت مزا آریا ہے. میں نے اب ماں کو گھوڑی بنا دیا اور ماں کی چوت میں لن گھسا کر 2 منٹ چودا پھر سے لن دوبارہ ماں کی گانڈ میں گھسا دیا اور گانڈ چودنے لگا. اب ماں مزے لے لے کر چدائی کروا رہی تھی. میں نے اپنی سگی ماں کی گانڈ پر تھپکیاں مارنی اور جھٹکے مارنے تیز کر دیے 5 منٹ کے بعد میرے لن نے ماں کی گانڈ کے اندر منی اگل دی. ماں بولی تیری منی مجھے محسوس ہو رہی ہے اپنی گانڈ میں میں جھٹکے مارے جا رہا تھا کہ پوری طرح میرا لن میری ماں کی گانڈ میں خالی ہو جائے. اب میں ماں کی پھدی سے لن نکال کر واش روم گیا تو میری ماں کی گانڈ کا خون میرے لن پر لگا تھا. ماں بھی واش روم آئی تو اس نے مجھے گانڈ دکھائی سوراخ کھل چکا تھا اور سوجھ گیا تھا. میری منی ماں کی گانڈ کے سوراخ سے رس رہی تھی ماں نے ہاتھ سے منی صاف کی اور انگلیاں چاٹنے لگی. میں نے کہا لن چوس لو اور ماں نے لن کو چوسنا شروع کیا اور دس منٹ چوسنے کے بعد میری منی میری ماں چاٹ گی کیونکہ ماں کہتی مرد کی منی کھانے سے عورت جوان رہتی ہے. دوستو کیسی لگی میری ماں کی گانڈ کی چدائی کمنٹس میں ضرور بتائیے گا.

پٹھان نے ماں کی پھدی ماری

ہیلو دوستو کیسے ہیں. میرا نام یاسر ہے اور میں راولپنڈی میں رہتا ہوں. آج میں آپکو اپنی ماں کی چدائی کی کہانی سنانے جا رہا ہوں کہ کیسے میری ماں نسرین نے گھر میں کام کرتے پٹھان مزدور سے پھدی چدوا لی.

چھ ماہ پہلے کی بات ہے میری بیوی نورالعین اپنے میکے گئ ہوئی تھی اور ہم نے گھر میں کام لگایا ہوا تھا. گھر کے پانی کا مسئلہ تھا تو بورنگ مشین لگائی ہوئی تھی جسکو ایک پٹھان گزشتہ ایک ہفتے سےچلا رہا تھا . گرمیوں کے دن تھے اور میں سویا ہوا تھا کہ میری ماں میرے پاس آئی اور بولی یاسر میری پھدی گرم ہے چودو مجھے نیند سے اٹھ جاؤ لیکن میں بہت تھکا ہوا تھا اور میں نے کہا میں سو رہا ہوں ابھی نہیں رات میں چدوا لینا جی بھر کر ابھی تنگ نہ کرو.

ماں آٹھ کر چلی گئی اور میں آنکھیں بند کر کہ لیٹا ہوا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا ماں کہاں گئ ہے. میں جس کمرے میں لیٹا تھا اسکی کھڑکی سے باہر دیکھا تو ماں صحن میں کھڑی اس پٹھان سے باتیں کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ جان بوجھ کر اپنی پھدی پر خارش کر رہی تھی. پٹھان جسکا نام منگل خان تھا وہ ماں کو کجھلی کرتے بہت غور سے دیکھ رہا تھا. منگل خان کی عمر 20 سال ہو گئی مگر مضبوط جسم و جان کا مالک تھا. ماں نے ادھر ادھر دیکھا اور منگل خان کو اپنی پھدی پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کیا منگل خان نے اپنی شلوار کے اوپر سے لن پکڑ کر ماں کو اشارہ کیا تو ماں نے اسے اوپر اپنے کمرے میں چلنے کا اشارہ کیا. منگل خان میری ماں کے پیچھے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانے لگا اور اسکا ہاتھ میری ماں کے چوتر پر تھا.

میری ماں کی عمر 56 سال ہو چکی ہے لیکن وہ لگتی 40 سے 45 سال کی ہے. میں فوراً باہر صحن سے ہوتے ہوئے آرام سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر کے پورشن پر گیا اور دیکھا ماں کے کمرے کا دروازہ بند ہے. میں باہر کمرے کی طرف گیا تو مکمل پردے سے کھڑکی کور تھی. اچانک میری نظر ایک روشن دان پر پڑی میں نے سیڑھی لگا کر روشن دان سے دیکھنا شروع کیا تو دیکھا منگل خان نے میری ماں کے چوتر ننگے کیے ہوئے ہیں اور ان پر تھپڑ مارتے ہوئے کسنگ کر رہا ہے.

ماں آٹھی اور اپنی قمیض اتار دی اب ماں برا میں تھی. ماں نے منگل خان کے لن کو شلوار کے اوپر سے پکڑ رکھا تھا. اب ماں نے منگل خان کی شلوار کا ناڑہ کھول دیا اور منگل خان کے 8 انچ لمبے اور 3 انچ لن کو پکڑ کر ہلانے لگی. منگل خان نے میری ماں کا برا اتار دیا اور میری ماں کو لیٹا کر میری ماں کے 38 سائز مموں پر ٹوٹ پڑا اور چوسنے لگا میری ماں کو بھی مستی چڑھ رہی تھی. منگل خان میری ماں کے ممے چوستے ہوئے نپلز کو کاٹ رہا تھا جس سے ماں کو مزید جوش چڑھ رہا تھا. منگل خان ماں کو بول رہا تھا ہم تمہاری کس کو بہت چودے گا تمہارا کس کا گرمی اپنے لوڑے سے نکالے گا. آج ایک افغانی کا لوڑا پنجابی عورت کی چوت پھاڑے گا.

میری ماں منگل خان کی باتیں سن کر گرم ہو رہی تھی. ماں نے منگل خان کو بیڈ پر لٹا دیا اور ماں منگل خان کے لن پر زبان پھیرنے لگی منگل خان نے ماں کا سر پکڑ کر لن پر دبایا اور بولا چوسو لنڈ کو اور ماں نے لن کو چوسنا شروع کر دیا. میری ماں بڑے مزے سے منگل خان کا لن چوس رہی تھی. ماں منگل خان کے لن کو پورا منہ میں لے کر اندر باہر کر رہی تھی. اب ماں آٹھ گئ اور منگل خان کے لوڑے کو اپنی پھدی پر رکھا اور بیٹھ گئی اور منگل خان کا پورا لن میری ماں اپنی گرم پھدی میں لے چکی تھی.

ماں نے پوچھا مزا آریا ہے؟ میری پھدی گرم ہے؟ منگل خان بولا بہت گرم ہے اب ماں زور زور سے منگل خان کے لن پر پھدی مار رہی تھی کچھ دیر کے بعد ماں منگل خان کے اوپر لیٹ گئ اور اسکے ہونٹ چوسنے لگی میری ماں کی پھدی فارغ ہو چکی تھی مگر منگل خان کا لن ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا. منگل خان نے ماں کو گھوڑی بنا دیا اور ایک ہی جھٹکے میں لن ماں کی چوت میں گھسا کر چوت چودنے لگا ماں سسکیاں لیتی کہہ رہی تھی چودو اور زور سے چودو میری پھدی پھاڑ دو منگل خان میری ماں کو کمر سے پکڑ کر چود رہا تھا. اب منگل خان نے ماں کو بیڈ پر سیدھا لیٹنے کو کہا اور ماں کی دونوں ٹانگیں اٹھا کر میری ماں کی پھدی پر لن رکھ کر دھکا مارا لن میری ماں کی پھدی میں گھس چکا تھا اور منگل خان نے زور زور سے میری ماں کو چودنا شروع کیا. پورے کمرے میں میری ماں کی سسکیاں اور اسکی پھدی چدنے کی آوازیں گونج رہی تھی. پانچ منٹ کے بعد منگل خان میری ماں کی پھدی میں فارغ ہو گیا اور میری ماں کی ٹانگیں کھول کر اوپر لیٹ گیا اور میری ماں کے ہونٹ اور گال چومنے لگا.

منگل خان پندرہ منٹ سے میری ماں کی پھدی میں لن گھسا کر لیٹا ہوا تھا اب منگل خان نے میری ماں کی پھدی میں لن اندر باہر کرنا شروع کیا تو ماں بولی چودو زور سے میری پھدی بہت گرم ہو چکی ہے. منگل خان نے ماں کی چوت چودنا شروع کر دی اور ماں مزے سے لیٹ کر منگل خان کے ہر جھٹکے کا جواب چوت اٹھا کر دے رہی تھی. اب منگل خان نے تیز رفتاری سے جھٹکے مارنے شروع کیے تو ماں کی چوت نے 5منٹ کے بعد پانی چھوڑ دیا ماں بولی آہ رکو تھک گئی ہوں منگل خان بولا تیری ماں کا چوت ابھی تمہاری گانڈ چودے گا ماں تھک گئی تھی مگر منگل خان ابھی موشن پکڑ رہا تھا.

منگل خان نے میری ماں کو گھوڑی بنایا اور میری ماں کی گانڈ پر تھوک پھینکا اور کچھ تھوک اپنے لن کے موٹے ٹوپے پر لگا کر میری ماں کی گانڈ پر رکھ کر گھسا مارا اور لن میری ماں کی گانڈ میں آدھا گھس چکا تھا. اب منگل خان نے ایک زوردار جھٹکا دے کر پورا لن میری ماں کی گانڈ میں گھسا دیا تھا. ماں کی گانڈ بہت لوگوں نے چودی تھی میرے سمیت لہٰذا ماں کو منگل خان سے گانڈ چدواتے زیادہ درد نہیں ہوا. منگل خان زور زور سے میری ماں کی گانڈ چودنے لگا اور ماں بھی مزے لے لے کر گانڈ چدوانے لگی منگل خان بولا جان من افغانی سے چدوا کر مزا ارہا ہے؟ یہ پٹھان کا لوڑا ہے فولادی لوڑا ہے اچھے سے چدائی کرے گا. ماں بولی پھاڑ دے میری گانڈ اور پھدی اپنے لوڑے سے آج، منگل خان میری ماں کو جوش سے چودنے لگا اور میری ماں کی گانڈ میں منی نکال دی. میری ماں کی گانڈ سے لن نکالا تو ماں نے چوس کر صاف کیا ماں بہت خوش تھی. ماں نے اسکو کہا اب تم جاؤ نیچے میرا بیٹا نہ آجائے اور منگل خان کپڑے پہن کر نیچے آکر پھر سے مشین چلانے لگا. میں بھی سیڑھی سے نیچے اترا اور نچلے پورشن میں آیا اور منگل خان سے کہا مشین سہی چل رہی ہے تو منگل خان بولا اے ون صاحب ابھی کچھ دن مزید بور کرنا ہو گا. میں سمجھ گیا کہ اب کچھ دن منگل خان میری ماں کی چوت اور گانڈ میں بھی بور کرے گا.

ماں کی بس میں چدائی

ہیلو دوستو کیسے ہو. میرا نام یاسر ہے اور آج میں جو کہانی سنانے جا رہا ہوں یہ 8 سال پہلے کی ہے جب میری ماں نسرین کو بس میں کنڈیکٹر اور ڈرائیور نے چودا . ہم راولپنڈی سے سیالکوٹ جا رہے تھے اپنی نانی نانا سے ملنے اور شام کو چار بجے والی بس کی ٹکٹ لیں. میں ماں اور دو چھوٹے بھائی ساتھ تھے. سردیوں کے دن تھے سفر کا آغاز ہوا بس میں اتنا رش نہیں تھا. بہت کم مسافر بیٹھے ہوئے تھے..ماں باہر والی سائیڈ بیٹھی تھی اور ہم کھڑکی والی سائیڈ بیٹھے ہوئے تھے. آہستہ آہستہ اندھیرا ہو رہا تھا. بس جہلم کے پاس کچھ دیر کے لیے رکی اور مسافروں کو کہا گیا کہ بس یہاں 20 منٹ رکے گی. ماں کو پیشاب آیا تھا تو ماں نے مجھے کہا تم یہاں بھائیوں کے پاس رکو میں پیشاب کر کہ آتی ہوں. ماں بس سے نیچے اتر گئی اور واش روم ڈھونڈنے لگی پھر ماں نے کنڈیکٹر سے پوچھا کہ واش روم کہاں ہے تو کنڈیکٹر نے میری ماں کو غور سے دیکھا اور کہا آؤ میں لے چلتا ہوں. یہ ایک پرانا سا ہوٹل تھا جہاں بس رکی اور اندھیرا ہو چکا تھا. میں نے جب کنڈیکٹر کو ماں کے ساتھ جاتے دیکھا تو فوراً نیچے اتر کر انکے پیچھے گیا.

کنڈیکٹر نے ماں کو کہا یہ واش روم ہے. ماں اندر چلی گئی واش روم ہوٹل کے پیچھے ویرانے میں تھا اور لکڑی کا بوسیدہ دروازہ تھا جو صحیح سے بند نہیں ہوتا تھا. میں نے دیکھا بس کنڈیکٹر نے آگے پیچھے دیکھا اور پھر واش روم میں گھس گیا میں واش روم کی دیوار سے سننے لگا. بس کنڈیکٹر نے میری ماں کو پکڑ لیا تھا اور ماں کو ناڑہ باندھنے نہیں دے رہا تھا. ماں کو کہہ رہا تھا پھدی چدوا جلدی تو ماں بھی شاید گرم ہو کر مان گی. میری ماں نے شلوار اتاری ٹانگوں تک اور اس کنڈیکٹر نے اپنا لن میری ماں کی پھدی پر رکھ دیا میں اب سب دروازے کی دراڑ سے دیکھ رہا تھا مگر سہی نظر نہیں آریا تھا کیونکہ اندر اندھیرا تھا. بس کنڈیکٹر میری ماں کو زور زور سے چود رہا تھا جسکی آواز باہر تک ارہی تھی. اب کچھ دیر کے بعد خاموشی سی ہوئی میں سمجھ گیا کہ بس کنڈیکٹر فارغ ہو گیا ہے. میں جلدی سے بس میں واپس آیا اور 5 منٹ کے بعد ماں بھی واپس اگی. میں نے ماں کو ایسے محسوس کروایا جیسے میں بس میں ہی تھا اور مجھے کچھ نہیں پتہ چلا.

کچھ دیر کے بعد بس چلی تو میں نے جان بوجھ کر سونے کا ناٹک کیا اور میرے باقی بھائی سو رہے تھے. بس میں 5 یا 6 مسافر بیٹھے تھے جو اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے ہم بس کی آخری سیٹوں پر بیٹھے تھے. کچھ دیر کے بعد کنڈیکٹر نے ماں کو اشارہ کیا پیچھے چلنے کا اور ماں نے ہماری طرف دیکھا تو میں تو سونے کا ناٹک کر رہا تھا. ماں آٹھ کر کنڈیکٹر کے ساتھ ہماری پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئ. بس کنڈیکٹر میری ماں کے ممے چادر کے نیچے سے دبانے لگا ماں سسکیاں لینے لگی اور اب میں نے سیٹوں کے درمیان خالی جگہ سے دیکھنا شروع کر دیا. بس کنڈیکٹر نے میری ماں کی قمیض اور برا اوپر کیا ہوا تھا اور ممے چوس رہا تھا اور میری ماں کا ہاتھ بس کنڈیکٹر کے لن پر تھا. اب بس کنڈیکٹر نے میری ماں کو سیٹ پر لیٹا دیا اور ماں کی شلوار اتار دی اور اس نے اپنا لن جو 8 انچ سے بڑا لگ رہا تھا میری ماں کی پھدی کے سوراخ پر رکھ کر گھسے مارنے لگا. بس کنڈیکٹر زور زور سے میری ماں کی پھدی چود رہا تھا اور بس کے شور میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا بس میں بھی مکمل اندھیرا تھا. بس کنڈیکٹر نے میری ماں کی دونوں ٹانگیں پیچے کی ہوئی تھی اور اپنا پورا لن میری ماں کی چوت میں جڑ تک ڈالا ہوا تھا. بس کنڈیکٹر گزشتہ 15 منٹ سے میری ماں کی پھدی چود رہا تھا مگر فارغ نہیں ہو رہا تھا ماں نے بس کنڈیکٹر کو کمر سے پکڑ رکھا تھا اور مزے لے لے کر چدائی کروا رہی تھی. اب بس کنڈیکٹر نے آگے پیچھے بس میں غور سے دیکھا سب نارمل تھا تو اس نے ماں کو گھوڑی بنا دیا اور اپنا لوڑا میری ماں کی چوت میں گھسا دیا اب بس کنڈیکٹر نے پھر سے میری ماں کی پھدی چودنا شروع کی اس بار دس منٹ پھدی چودنے کے بعد وہ میری ماں کی پھدی میں فارغ ہو گیا ماں نے اسکے فارغ ہوتے ہی آہ آف آہ کی آواز نکالی اور لگتا تھا ماں بھی فارغ ہو گئ تھی. اب بس کنڈیکٹر نے کہا رکو میں آیا ماں ایسے ہی ننگی چوت کر کہ سیٹ پر بیٹھی تھی کہ بس کا ہیلپر آیا اس نے میری ماں کے ہونٹوں پر چوما اور ساتھ ہی اپنا لن میری ماں کے ہاتھ میں دے دیا ماں بہت گرم ہو چکی تھی. بس ہیلپر نے میری ماں کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھ دیں اور ماں کو لٹا دیا اور اپنا 6 انچ کا لن میری ماں کی پھدی میں گھسا کر جھٹکے مارنے لگا ماں اسکے ہر جھٹکے کا جواب چوت اٹھا کر دی رہی تھی. بس 2 منٹ کے لیے رکی اور پھر چل پڑی بس کے چلتے ہی میری ماں کی پھدی بس ہیلپر نے زور زور سے چودنا شورع کر دی. 10 منٹ تک میری ماں کی چوت چودنے کے بعد ہیلپر نے اپنی منی میری ماں کی چوت میں نکال دی اور اپنے لن کو میری ماں کی شلوار سے صاف کیا اور چلا گیا.

اب میری ماں کے پاس ایک اور مرد آیا جسکی عمر 55 سال کے قریب ہو گئی یہ شاید بس کا ڈرائیور تھا اس نے آتے ہی لن میری ماں کے ہاتھ میں دیا اور کہا چوس لن میری ماں اسکا لن چوسنے لگی اور بس ڈرائیور میری ماں کے منہ پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور کبھی میری ماں کے ممے دبا رہا تھا. اب بس ڈرائیور نے میری ماں کے ممے چوسنے شروع کیے اور ماں پوری طرح جوش میں اپنے ممے چسوا رہی تھی. اب بس کنڈیکٹر نے میری ماں کو سیٹ پر الٹا لیٹنے کو کہا ماں لیٹ گی اور بس ڈرائیور میری ماں کے اوپر آگیا اور اس نے لن میری ماں کی پھدی میں ڈال دیا اب ماں الٹا لیٹ کر پھدی چدوا رہی تھی. بس ڈرائیور بہت جوش سے میری ماں کی چوت چود رہا تھا. کچھ دیر کے بعد بس کنڈیکٹر نے منی میری ماں کی پھدی میں نکال دی. اور میری ماں پر لیٹ گیا اور ماں کے ہونٹ چوسنے لگا. ماں ساتھ دے رہی تھی اور کچھ دیر کے بعد اس نے پھر سے میری ماں کی پھدی میں لن اندر باہر کرنا شروع کیا اب اس نے ماں کو سیدھا لٹا دیا اور ماں کی ٹانگیں کھول کر لن چوت میں ڈال دیا. اور میرے ماں کے ممے چوسنے لگا. بس ڈرائیور دوسری بار ماں کی پھدی چود رہا تھا اور اس نے اب ماں کی چدائی تیز رفتاری سے شروع کر دی. ماں چدائی کروا کروا تھوڑی تھکی ہوئی لگ رہی تھی مگر اسکو مزا بھی آرہا تھا. بس ڈرائیور نے 15 منٹ مسلسل میری ماں کی پھدی پر زوردار جھٹکے لگائے اور ماں کی چوت میں فارغ ہو گیا. کچھ دیر بعد اس نے لن نکال کر ماں کی شلوار سے صاف کیا اور ماں کو کہا شلوار پہن لے تیرا اسٹاپ اب آنے والا ہے. ماں جب اسٹاپ پر اتر رہی تھی تو بس کنڈیکٹر نے ماں کے چوتر میں انگلی چڑھا کر اتارا ماں مسکرا دی. اور رستے میں ماں سہی چلا نہیں جا رہا تھا. اور ماں کی حالت سے لگتا تھا کہ کسی نے چدائی کی ہے. پھر ماں نے پانی پیا اور چہرہ دھویا پھر ہم رکشہ لے کر نانی کے گھر روانہ ہوگئے.

اجنبی عورت نے پھدی چدوائی

ہیلو دوستو کیسے ہیں. میرا نام یاسر ہے اور میں راولپنڈی میں رہتا ہوں. آج سے کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ ایک شام میں گھر پر تھا میری ماں نسرین اور میرے باقی بھائی گاؤں گئے ہوئے تھے اور گھر میں دادا دادی تھے. رات 8 بجے کے قریب دروازے پر کسی نے دستک دی میں نے باہر جا کر دیکھا تو باہر ایک عورت کھڑی تھی جسکی عمر 35 سال ہو گی. میں نے پوچھا جی فرمائیں تو وہ عورت بولی آپکے سامنے گھر والے کہاں گئے ہیں میں کافی دیر سے دروازہ بجا رہی ہوں مگر کوئی نہیں نکل رہا ہے. عورت کافی پریشان لگے رہی تھی. میں نے کہا اس بارے میں مجھے کچھ نہیں پتہ ہو سکتا ہے وہ گھر میں موجود نہ ہوں. میں نے اس سے کہا اگر کوئی کام ہے مجھے بتا دیں تو وہ عورت سوچ کر بولی مجھے میرے شوہر نے مارا ہے اور گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے میرے دو بچے بھوکے ہیں. میں نے میں آپکو کھانا لا دیتا ہوں. آپ رہتی کہاں ہیں وہ بولی میرے ساتھ آو اور میں اس عورت کے ساتھ چل پڑا.

راستے میں میں نے اس عورت سے اسکا نام پوچھا تو اس نے کہا میرا نام فرح ہے میں نے کہا میرا نام یاسر ہے دس منٹ کے بعد ہم دونوں گلیوں سے ہوتے ہوئے فرح کے گھر پہنچ گئے. میں نے فرح سے اسکا موبائل نمبر لیا اور کہا میں کھانا لے کر آتا ہوں اور دروازے پر آکر کال کروں گا. تقریباً 30 منٹ کے بعد میں کھانا لے کر پہنچا تو فرح نے دروازہ کھول کر مجھے اندر آنے کا کہا میں اندر چلا گیا اور فرح نے دروازہ اچھے سے بند کر دیا اور ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کے پورشن میں پہنچ گئے. ایک کمرے میں اسکے چھوٹے دو بچے انتظار کر رہے تھے. میں نے فرح کو کھانا دیا اور کہا بچوں کو دو بھوکے ہوں گئے. فرح نے مجھے اپنے بیڈ روم میں بیٹھا دیا اور بولی یاسر بیٹھو میں بچوں کو کھانا دے کر آتی ہوں.

میں بیڈ پر بیٹھا تھا کہ فرح اگئ اور شکریہ ادا کرنے لگی. فرح سے میں نے پوچھا کیوں مارتا ہے تمہارا شوہر؟ فرح کے شوہر کو میں نے دیکھا ہوا تھا. فرح بولی بس میری قسمت میں ایسا شوہر لکھا تھا. اور ساتھ ہی فرح نے قمیض اتار دی اور مجھے اپنے بازو پر نیل کا نشان دکھانے لگی. فرح کا بازو پورا نیلا ہوا تھا. لیکن میری نظر فرح کے 38 سائز مموں پر تھی. میں نے اس کے بازو کے نشان پر ہاتھ پھیرتے پوچھا کیا ہوا تھا تو بولی شوہر نے کرسی ماری ہے اور بازو پر نیل پڑ گیا ہے. میں نے ایک ہاتھ فرح کے مموں پر رکھ دیا اور فرح کے ہونٹوں کو چومنے لگا.

فرح ایک بھاری جسم والی عورت تھی فرح گوری چٹی اور 5 فٹ قد کی عورت تھی. ممے اور اسکی گانڈ بڑی تھی. فرح مجھے چدائی کی دعوت دے چکی تھی. میں نے فرح کا برا اتارا اور فرح کے ممے چوسنے لگا. فرح بہت گرم تھی. اور اس نے مجھے پورا ننگا کردیا اور خود بھی ننگی ہو گئی. فرح نے مجھے اپنے بیڈ پر لٹا دیا اور کہا یہاں لیٹ جاو یاسر یہاں میرا شوہر میری پھدی چودتا ہے تم سے بھی یہیں چدوانا چاہتی ہوں اسکو پتہ چلے اسکی بیوی کی پھدی چودنے والے بہت ہیں اس نے میری قدر نہیں کی تو میں نے باہر پھدی چدوانا شروع کر دیا. تمہارے سامنے گھر والوں کا لڑکا میری پھدی چودتا ہے میں گرم تھی اسے بلانے آئی تھی مگر وہ نہیں ملا تو خیال آیا تم سے پھدی چدوا لیتی ہوں.

فرح میرے چھ انچ کے لن کو پکڑ کر اپنے مموں کے نپلز پر رگڑنے لگی اور پھر چوسنے لگی. میں بہت مزے میں تھا اور سوچ رہا تھا گھر بیٹھے بٹھائے پھدی مل گئی. فرح میرا لن چوستے ہوئے میرے اوپر اگی اور اپنی پھدی میرے منہ پر رکھ کر بولی یاسر پھدی چاٹو اور دوسری طرف سے میرا لن چوسنے لگی. میں فرح کی پھدی پر زبان پھیرنے لگا فرح کی پھدی پر ہلکے ہلکے بال تھے اور فرح کی پھدی کا پانی بہت نکل رہا تھا جسے میں زبان سے چاٹ رہا تھا. فرح بولی یاسر میری پھدی مزے کی ہے نا؟ میں نے کہا بہت مزے کی ہے تو بولی میرا شوہر کو میری پھدی پر مزا نہیں آتا اور وہ مجھے مارتا زیادہ ہے اور چودتا کم ہے. میں نے کہا فرح اب سے میں ہوں نا تیری پھدی کو سکون دینے کے لیے جی بھر کر چودوں گا.

 

فرح اٹھی اور اپنے شوہر کی الماری سے کنڈم نکالا اور میرے لن پر چڑھا کر میرے لن پر بیٹھ گئی اور اپنے بڑے بڑے چوتر اٹھا کر اپنی پھدی میرے لن پر مارنے لگی. فرح بہت گرم تھی اور میں فرح کو ایسے کھل کر پھدی چدواتا دیکھ کر گرم ہو گیا تھا اور فرح کی پھدی کی گرمی کو محسوس کر رہا فرح اونچی اونچی آہ آہ آہ آوازیں نکال رہی تھی. میں نے فرح کو کہا گھوڑی بن جاو فرح گھوڑی بن گئی اور میں نے اپنا لن فرح کے چوتروں کے اندر رگڑتے ہوئے فرح کی پھدی میں ڈال کر فرح کی کمر کو پکڑ کر چودنے لگا. فرح کی پھدی پر میں زور دار گھسے مار رہا تھا. کچھ دیر کے بعد فرح کی پھدی سے لن نکال کر پھدی کو چوسا اور پھر فرح کی پھدی چودنے لگا. فرح کی چدائی کی آوازیں پورے کمرے میں گونج رہی تھی اور میں زور زور سے فرح کی پھدی چود رہا تھا کہ میری منی نکلنے لگی اور میرا کنڈم منی سے بھرا ہوا تھا. میں نے فرح کی پھدی سے لن باہر نکالا اور فرح نے میرے لن سے کنڈم اتارا اور میرے لن کو چوپا لگا کر صاف کیا. فرح بہت خوش تھی بولی یاسر تم نے میری پھدی کو اچھے سے چودا ہے سکون ملا ہے. میں نے اس رات فرح کی دو بار پھدی چودی اور رات 1 بجے گھر آگیا. اگلے تین دن تک میں فرح کو کھانا دیتا اور اسکی ساری رات پھدی چودتا تین دن بعد فرح کا بھائی اسکو لاہور سے لینے آگیا اور وہ لاہور چلی گئی.

چھڑا

 


چھڑا

یہ ان دنوں کی بات ھے، جب میں لاھور میں قیام پذیر تھا۔ ھم کل دو افراد ایک مکان میں رھتے تھے۔ مالک مکان ھمارے اوپر ھی رھتے تھے۔ مالک مکان سے ھمارے تعلّقات شروع شروع میں اتنے اچھّے نھیں تھے، مگر ایک دو واقعات ایسے ھوئے، جس میں اتّفاقیہ طور پر ھمارے ذریعے سے قدرت نے مالک مکان کی مدد کروا دی تھی۔ اس طرح سے آھستہ آھستہ مالک مکان بھی ھم سے نرم رویّہ رکھنے لگا، جو بعد میں اچھّی خاصی سلام دعا میں بدل گیا۔ حتّیٰ کہ ھم ایک دوسرے سے ضرورت کی چیزیں، جس میں سب سے زیادہ اھم چیز استری تھی، لے لیتے تھے۔ تقریباْ پینتالیس سالہ مالک مکان کا نام امجد خان تھا، اور وہ ایک سرکاری نوکری کرتا تھا۔ اس کی اولاد میں ایک جوان بیٹی (رابعہ) اور دو چھوٹے چھوٹے بیٹے (سلیم اور کلیم ) شامل تھے۔ اس کے علاوہ اس کی بیوی تھی، جو بیچاری کسی وجہ سے دونوں آنکھوں سے محروم ھو چکی تھی۔ اس کی بیٹی میٹرک پاس کر چکی تھی، اور دونوں بیٹے پرائمری میں زیر تعلیم تھے۔ میرا کمرے کا ساتھی بھی میری طرح ایک پرائیویٹ جاب کرتا تھا۔ سارا دن کام کرنے کے بعد، ایک دن ھماری عید کا ھوتا تھا، اور وہ دن ھوتا تھا، اتوار کا۔ اتوار کے دن ھم دونوں لیٹ اٹھنے کے عادی تھے۔ بارہ ایک بجے تک ھم تیّار ھو کر باھر گھومنے پھرنے چلے جاتے تھے ۔ مالک مکان بھی ھماری اس روٹین سے واقف ھو چکے تھے، کیونکہ اتوار کے دن ھمارے کمرے کو اکثر تالہ لگا رھتا تھا۔ ایک اتوار میرے کمرے کے ساتھی نے اپنے گاؤں جانا تھا، تو اس کے جانے کے بعد، میں کمرے پر ھی لیٹ رھا۔ اس دن گرمی بھی بے حد پڑ رہی تھی۔ (لاھور میں رھنے والے زیادہ بہتر جانتے ھوں گے، کہ لاھور میں گرمی کتنے غضب کی پڑتی ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!) میں نے فل سپیڈ میں پنکھا لگایا ھوا تھا، اور آنکھیں موندے لیٹا ھوا تھا، کہ اچانک کمرے پر دستک ھوئی۔ میں نے آکھیں کھول کر دروازے پر توجّہ دی۔ اسی اثناٴ میں دوبارہ دستک ھوئی، تو مجھے معلوم ھوا، کہ دستک باھر والے دروازے پر نہیں، بلکہ اس دروازے پر ھو رھی ھے، جو مالک مکان کے گھر کی طرف کھلتا تھا، اور ھر وقت دونوں طرف سے بند ھی رھتا تھا۔ یہ میرے لئے اچھّی خاصی حیرانی کی بات تھی۔ خیر، میں اٹھّا، اور دروازہ کھولنا چاھا، تو دروازہ کھل گیا، کیونکہ دروازے کی دوسری جانب والی کنڈی بھی کھلی ھوئی تھی، اور وھاں مالک مکان کی بیٹی رابعہ کھڑی ھوئی تھی۔ ( رابعہ صرف اس وقت ھمارے دروازے پر دستک دیتی تھی، جب انتہائی مجبوری ھوتی تھی، ورنہ وہ گھر میں ھی بند رھنے والی لڑکی تھی۔) میں نے حیرانی سے اسے دیکھا، اور اس کے ابّو کا پوچھا۔ اس نے بتایا، کہ اس کے ابّو ایک کام سے گئے ھیں، اور اس کے دونوں بھائی بھی اس کے باپ کے ساتھ ھی ھیں۔ اس کو استری چاھئے تھی۔ میں نے استری اٹھّا کر اس کو دے دی۔ اس نے خاموشی سے استری لی، اور واپس مڑی۔ مگر جاتے جاتے اس نے آنکھوں ھی آنکھوں میں مجھے ایک مخصوص انداز سے دیکھا۔ یہ وہ انداز تھا، جو کہ میں نے اکثر اس کی آنکھوں میں اپنے لئے محسوس کیا تھا۔ میں کوئی دودھ پیتا بچّہ نہیں تھا، کہ اس طرح کے اشارے کا مطلب نہ سمجھتا، مگر میں اس محلّے میں ابھی رھنا چاھتا تھا، اور پردیس میں رھتے ھوئے، کسی محلّے میں رھنے کے لئے آپ کو اپنا کردار انتہائی مضبوط رکھنا پڑتا ھے۔ خصوصاْ جب آپ بغیر فیملی کے، بطور " چھڑے " ( bachelor) رہ رھے ھوں۔ یہی وجہ تھی، کہ میں نے ابھی تک محلّے میں اپنی طرف اٹھنے والی ھرلڑکی کی نظر کو اگنور کیا تھا۔ میں صرف برے وقت سے بچنا چاھتا تھا، ورنہ تو میں بھی جوان مرد تھا، میرے اندر بھی مخصوص گرمی حد درجہ موجود تھی۔ میں بھی گندم کا آٹا کھاتا تھا۔ میں بھی آج کے ماحول میں ھی جی رھا تھا، اور عورت کی شدید طلب میرے اندر بھی موجود رھتی تھی۔ میرے لن میں بھی کھجلی ھوتی رھتی تھی، اور یہ کھجلی اس وقت اور بھی دوچند ھو جایا کرتی تھی، جب محلّے کی کوئی بھی جوان لڑکی مجھے لفٹ کرواتی تھی۔ میری اتنے دن کی احتیاط کے باوجود، اس دن میں نے رابعہ کو پہلی بار ایک جوان مرد کی نظر سے دیکھا۔رابعہ ایک سلجھی ھوئی جوان لڑکی تھی، جس کی عمر اندازاْ اٹھارہ سے بیس سال کے درمیان تک رھی ھو گی۔ اس کا قد مجھ سے دو تین انچ کم ھی ھو گا۔ وہ ایک انتہائی خوب صورت اور تیکھے نقوش والی لڑکی تھی۔اس دن اس نے گلابی رنگ کے پھولوں والا سوٹ پہن رکھّا تھا، جس میں وہ کافی پر کشش لگ رھی تھی۔ میں نے محلّے میں دو تین لڑکوں کو اس کے پیچھے چکّر لگاتے دیکھا تھا۔ لیکن ابھی تک رابعہ کا کسی کے ساتھ کوئی چکّر میرے علم میں نہیں آ سکا تھا۔ اور آج رابعہ بھی میرے اتنے نزدیک پہلی بار آ کر کھڑی ھوئی تھی۔ اس سے پہلے تو میں نے اس کو دور دور سے ھی دیکھا تھا۔ اس دیکھنے میں اور آج کے دیکھنے میں ایک فرق بھی موجود تھا۔ اس سے پہلے میں نے اس کو اس انداز میں دیکھا تھا، کہ اس کے ھونے یا نہ ھونے سے مجھے کوئے فرق نہیں پڑتا۔ مگر، آج تو وہ اتنے پاس کھڑی تھی، اور آج تو میرے اندر کا تھوڑا بہت پرہیز بھی دم توڑ رھا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی، کہ ھم ایسی جگہ کھڑے تھے، جہاں سے کسی بھی محلّے والے کی نظر ھم پر نہیں پڑ سکتی تھی، لہٰذا کوئی ھم کو چیک نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ حسن آج اتنے خاص انداز سے سجا ھوا میرے سامنے موجود تھا، تو اگر میں اس پر خصوصی توجّہ نہ دیتا،تو میرے حسن پرست ھونے میں شک آ جاتا۔ اور میری کسی بھی قابلیّت پر شک کی گنجائش بھی موجود نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! میں نے اس دن پہلی دفعہ اس کی مسکراھٹ کا جواب مثبت انداز میں دیا تھا۔ اس کے چہرے پر آنے والی مسکراھٹ ایک دم سے گہری ھو گئی۔ میں نے محسوس کیا، کہ اس کی مسکراھٹ نے سیدھا میرے دل پر اثر کیا ھے۔ اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ میں نے ادھر ادھر دیکھے بغیر، اسے اندر کھینچ لیا۔ وہ اس کے لئے تیّار نہ تھی۔ میرے اس طرح سے کھینچ لینے پر اس کے تو ھوش اڑ گئے۔ اب وہ گریز کا مظاھرہ کر رھی تھی، اور اپنے آپ کو میری گرفت سے چھڑانے کی مکمّل کوشش کر رھی تھی، مگر وہ مرد ھی کیا، جو ایک بار گرفت میں آئی ھوئی جوان لڑکی کو ، اور کچھ نہیں تو، کم از کم، بنا ھلکا سا کسّ اور ٹچ کئے، چھوڑ دے۔ سو میں نے بھی اب موقع غنیمت جانا، اور اس کو اپنے ساتھ لٹا لیا۔ لٹانے سے پہلے میں نے ایک ھاتھ پیچھے کو کر کے کمرے کی کنڈی لگا دی تھی۔ باھر والی کنڈی تو پہلے ھی لگی ھوئی تھی۔ اب میں نے رابعہ کی ایک نہ چلنے دی، اور اس پر ٹوٹ پڑا۔ اس کے منہ سے عجیب قسم کی آوازیں نکل رھی تھیں، جو کہ میرے منہ میں ھی کہیں گم ھو رھی تھیں، وجہ صاف تھی، کہ اس کا منہ میرے منہ میں تھا۔ میں انتہائی شدید ترین انداز میں اس کی کسّنگ کر رھا تھا۔ وہ بیچاری ففٹی ففٹی ھو رھی تھی۔ ایک طرف تو اس کے اندر بھی میری طلب موجود تھی، جو کہ کسی نہ کسی طرح سے وہ ظاھر بھی کر رھی تھی، مگر دوسری طرف، وہ اس اچانک کارروائی کے لئے قطعی تیّار نہ تھی۔ اس کے وھم و گمان میں بھی نہ ھو گا، کہ صرف ایک ھی مسکراھٹ سے وہ اس طرح سے پھنس جائے گی۔ اس کے سامنے یقیناْ میرا ایک امیج بنا ھوا تھا۔ وہ سمجھتی تھی، کہ آج تک کسی بھی مسکراھٹ کا جواب نہ دینے والا، اوّل تو ایک نگاہ التفات تک نہیں ڈالے گا، اور اگر ایسا ممکن ھو بھی گیا، تو بھی وہ آج زیادہ سے زیادہ ھنس کر ھاتھ وغیرہ تھامنے تک ھی رھے گا۔ وہ بھی اگر اس کے اندر کوئی گرمیٴ جذبات نے سر اٹھایا، تب ، ، ، ، ! اسے کیا معلوم تھا، کہ اس کی آج کی ایک ھی مسکراھٹ، اس کو سیدھا میرے نیچے پہنچا دے گی۔ میرے ھاتھ بہت تیزی سے اس کے جوانی سے بھر پور وجود کی پیمائش کر رھے تھے۔ جب میں نے اس کی چھاتی پر ھاتھ رکھّے، تو میرے اندر سرور کی ایک خاص قسم کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی چھاتی بے حد نرم و نازک محسوس ھو رھی تھی۔ میں نے اس کی قمیض کو اوپر کرنا چاھا، تو اس نے مزاحمت تیز کر دی۔ میں نے محسوس کیا، کہ میری گرفت اس پر ھلکی ھو رھی ھے۔ چنانچہ میں نے اس کو قابو کرنے کے لئے اپنا وجود اس پر ڈال دیا۔ اب وہ میرے نیچے دب گئی۔ اس سے وہ بجائے مزاحمت کرنے کے، میری طرف رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔ میں نے ھلکی سرگوشی میں اس سے کہا، " اگر تو میرے ساتھ تعاون کرو گی، تو میرے ساتھ تم بھی مزہ اٹھا سکتی ھو، لیکن اگر مجھے روکو گی، تو بھی میں زبردستی سب کچھ کر گزروں گا، مگر اس صورت میں تمھیں بے حد اذیّت اٹھانا ھو گی۔ اور یہ تو تم بھی جانتی ھو، کہ اس کمرے میں ، میں نے تمھیں نہیں بلایا، بلکہ تم خود چل کر میرے کمرے تک آئی ھو۔ میں جانتا ھوں، کہ تم ھمیشہ سے میری قربت چاھتی ھو ۔تمھاری آج کی مسکراھٹ بھی اسی لئے تھی، کہ میں تمھارے قریب آؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوراب اگر میں راضی ھو ھی گیا ھوں، تو تم کیوں اس طرح کر رھی ھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟ " میری باتوں کے جواب میں اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے۔ شائد اس نے تصوّر میں مجھے اپنے ساتھ زبر دستی کرتے ھوئے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ میری باتوں نے اس پر اثر ڈالا، اور جواب میں اس کی مزاحمت ختم ھو گئی۔ اب وہ میرے ساتھ تعاون پر آمادہ نظر آ رتھی تھی۔ اس کو آمادہ دیکھ کر میرے اندر مستی کی تحریک تیز ھو گئی۔ اب میں اس کے جسم کی جوانی سے کھل کر کھیل سکتا تھا۔ میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی، " تھینکس رابی، (اس کے گھر والے اسے مختصراْ رابی کے نام سے ھی پکارتے تھے۔ ویسے اس کا اصل نام رابعہ تھا۔) اب دیکھنا، آج میں تم کو کتنا مزہ دیتا ھوں۔ میرے ساتھ گزارے گئے یہ لمحات تمہیں ساری عمر یاد نہ رھیں، تو کہنا۔ " میری اس بات سے اس کا چہرہ سرخ ھو گیا، اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے بعد میں اس کے وجود سے ھٹ گیا، اور اس کے برابر میں لیٹ گیا۔ میں جان چکا تھا، کہ ھمارے پاس وقت اتنا زیادہ نہیں ھے۔ اس لئے میں نے سب سے پہلے اس کو دوبارہ سے گرم کرنا شروع کر دیا۔ مجھے معلوم تھا، کہ اگر میں نے ابھی سے اس سے کپڑوں کا مطالبہ کر دیا، تو وہ فطری شرم و حیا کے باعث انکار کر سکتی ھے۔ میں پہلے اس کے جذبات کو مکمّل گرم کر دینا چاھتا تھا، تا کہ جب کپڑوں کا مطالبہ کروں، تو وہ بلا چون و چرا مان جائے، یا کم سے کم دیر لگائے۔ رابعہ کے تعاون کا یہ نتیجہ نکلا، کہ میرا کام آسان ھو گیا۔ کیونکہ اب رابعہ بھی میرا ساتھ دے رھی تھی۔ میں نے اس کی کسّنگ سٹارٹ کی، تو اس نے بھی جواب دیا، اور اپنا ھاتھ میرے بازو کے اوپر سے میری کمر پر ٹکا لیا۔ اس کی آنکھیں بند ھونا شروع ھو رھی تھیں۔ میں نے کم و بیش تین چار منٹ تک مسلسل اس کی کسّنگ کی۔ اس دوران میرا ایک ھاتھ اسکی کمر پر حرکت کرتا رھا، جبکہ دوسرا ھاتھ میں نے اس کے سر کے نیچے دے رکھّا تھا۔ چند منٹ کی کسّنگ نے رابی کے جذبات کو اچھّی خاصی تحریک دے ڈالی تھی۔ اس کی سانسوں کی آوازیں بتا رھی تھیں، کہ اس وقت وہ اپنے کنٹرول سے آؤٹ ھو چکی ھے۔ اوپر سے میرا ھاتھ اس کی کمر سے ھوتا ھوا اب اس کے سینے پر مصروف عمل تھا۔ میری ٹانگیں بھی اس کے وجود سے رگڑ کھا رھی تھیں۔ اگر مجھے ٹانگوں کے رستے اس کے جسم کی گرمی اپنے اندر منتقل ھوتی محسوس ھو رھی تھی، تو یقیناْ میرے بدن کی حرارت بھی اس کے اندر لازمی طور پر اتررھی ھو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا ھتھیار تو لگاتار رابی کی ٹانگوں کے ساتھ ٹچ ھو ھو کر، اس کی پھدّی کو دعوت مبارزت ( جنگ میں اپنے مدّ مقابل کو مقابلے کے لئے للکارنا۔ جنگ کے لئے دعوت دینا۔ ) دے رھا تھا۔ اب میں نے اس کے سینے کے اندر ھاتھ ڈالا، اور اندر سے اس کی چھاتیوں کو انتہائی نرمی سے دبانا شروع کیا ۔ جب میرا ھاتھ اس کی چھاتی سے ٹچ ھوا تھا، تو اس کے منہ سے ایک خاص آواز بر آمد ھوئی تھی، جو اس کی اندرونی کیفیّت کو ظاھر کر رھی تھی۔ یقیناْ وہ بھی میری حرکتوں سے سرور میں ڈوبی جا رھی تھی۔ ورنہ اس کا تنفّس اتنا تیز نہ ھوتا۔ میں نے کچھ دیر مزید اس کے کپڑوں کو برداشت کرتے ھوئے اس کے جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھّی۔ رابی بار بار اپنے سر کو دائیں بائیں حرکت دے رھی تھی۔ میری محنت رنگ لا رھی تھی، اور رابی اب اس مرحلے پر آ رھی تھی، جب جلد ھی وہ میرے ایک اشارے پر کپڑے بھی اتار دیتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے ھاتھ مسلسل اپنے کام میں مصروف تھے۔ رابی کے ھونٹ سرخ ھو چکے تھے۔ میں نے اپنے ھاتھ سے رابی کے ایک ممّے کو نپل سے پکڑ کر ھلکا سامسلا، تو رابی کے منہ سے سسکاری نکل گئی، مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ میں بھی بس یہی دیکھنا چاھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! جس ھاتھ سے میں رابی کے ممّوں کو مسل رھا تھا، اسی ھاتھ کو میں اندر سے ھی رابی کی کمر تک لے گیا۔ اس کام کے لئےمجھے رابی کی کسّنگ تیز کرنا پڑی تھی، مگر فائدہ یہ ھوا، کہ میں بنا کسی اعتراض کا سامنا کیے، رابی کا برا کھولنے میں کامیاب ھو گیا۔ برا کی ھک کھولنے کے بعد، میرا ھاتھ رابی کے ممّوں کے لمس سے صحیح معنوں میں آشنا ھوا۔ اس کے بدن کا لمس واقعی کمال کا مزہ رکھتا تھا۔ میرے اندر کرنٹ دوڑ گیا۔ میں نے اس کے ممّوں کو دبایا، تو رابی کی آنکھیں کھل گئیں، مگر میرے ساتھ بات کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔، ، ، اس کے ھونٹوں پر ابھی تک میرے ھونٹوں کا قبضہ تھا۔ میں کم و بیش، دو منٹ تک اس کے ممّوں کو دباتا رھا، کبھی میں اس کے ممّوں کو نرمی سے مسلتا، تو کبھی میں اس کے نپلز کو پکڑ کر اوپر سے رگڑنا شروع کر دیتا۔ حتّیٰ کہ مجھے محسوس ھو گیا، کہ اب رابی کے کپڑے اتروائے جا سکتے ھیں۔ چنانچہ میں نے رابی کے کان میں سرگوشی کی۔ "رابی ، میری ایک بات مانو گی؟" جواب میں، رابی نے مجھے دیکھا، تو مجھے اندازہ ھوا، کہ اس کی آنکھیں از حد سرخ ھو چکی تھیں۔ ، ، ، ، تب مجھے معلوم ھوا، کہ رابی بھی اس قبیل سے تعلّق رکھتی تھی، کہ جو لوگ جب بھی سیکس کے لئے تیّار ھوتے ھیں، تو ان کی آنکھیں سرخ ھو جاتی ھیں۔ (میری زندگی میں میرا ایسی چند ایک ایسی لڑکیوں سے واسطہ پڑا ھے، جن کی آنکھیں سیکس کے دوران، یا سیکس کے شروع میں ھی، مکمّل طور پر سرخ ھو جاتی تھیں۔ ، ،یہ سرخی ، آنکھوں کے عام سرخ ھونے سے سے کافی حد تک زیادہ ھوتی تھی۔ شائد آپ میں سے بھی کسی دوست کے ساتھ ایسا اتّفاق ھوا ھو۔ ) میں جان چکا تھا، کہ اب رابی تیّار ھے۔ چنانچہ میرے کہنے پر اس نے ذرا سے تردّد کے بعد، اپنے کپڑے اتاردئے۔بھی اپنے آپ کو کپڑوں سے آزاد کر چکا تھا۔ رابی نے اپنی شلوار تو اتار دی تھی، مگر اس نے ابھی تک اپنا انڈر ویئر نہیں اتارا تھا۔ میں نے اس کو اپنے ساتھ لٹایا، اور اپنے ھاتھ اس کے ممّوں پر رکھ دئے۔ اس نے شرم سے آنکھیں بند کر لیں۔ میں نے اس کی کسّنگ کرنی چاھی، تو اس نے آگے سے اپنے ھونٹ کھولنے میں بھی دیر لگائی۔ میں نے محسوس کیا، کہ کپڑے اتارنے کے بعد، ایک دم سے رابی کا موڈ تبدیل ھو گیا ھے، اور وہ اب میرا ساتھ دینے کی بجائے، کافی گھبرائی گھبرائی سی لگ رھی ھے۔ ،،،،،،،،،، یقیناْ رابی ٹینشن محسوس کر رھی تھی، مگر میں بھی کیا کرتا، مجھے رابی نے ھی شروع میں اکسایا تھا۔ اب جبکہ میں اس حالت تک آ گیا تھا، تو میرے لئے ھر گز ھر گز ممکن نہیں تھا، کہ میں رابی کو ایسے ھی جانے دیتا۔ اب تو جب تک میرے فوجی کی گرمی نہ نکل جاتی، وہ چین نہ پاتا، اور اس کا چین، رابی کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں موجود تھا۔ ، ، ، ، اپنے لن کی گرمی کا خیال اس وقت سب خیالات پر حاوی تھا۔ میں نے رابی کی کسّنگ شروع کر دی، چنانچہ کچھ ھی دیر میں رابی پھر سے گرم ھو کر میرا ساتھ دینے لگی۔ اب وہ چدنے کے لئے مکمّل طور پر تیّار تھی۔ میں نے اس کا انڈر ویئر کھینچ کر نیچے کیا، اور اتار دیا۔ اب وہ ٹوٹل برھنہ حالت میں میرے سامنے موجود تھی۔ اس کے سینے پر موجود ابھار دودھیہ رنگت کے حامل تھے جن پر گلابی رنگ کے نپل موجود تھے۔اس حسینہ کا بدن بالکل بے داغ تھا۔ (مطلب حسین جسم پر کوئی داغ نہیں تھا۔ ورنہ تو وہ پہلے سے چدی ھوئی تھی ۔ ) اس کی گول مٹول رانوں کا نظّارہ بھی مجھے پاگل کئے دے رھا تھا۔ اس کے پیٹ میں بھی وہ کشش موجود تھی، جو ایک لڑکی کے پیٹ میں اس وقت تک موجود رھتی ھے، جب تک کہ وہ ماں نہیں بن جاتی۔ اس کا پیٹ بے حد کشش رکھتا تھا۔ اس کے پیٹ کے نیچے وہ مقام موجود تھا، جس کی خاطر اتنی محنت ھوئی تھی۔ ، ، ، ، اس کی پھدّی ۔ ۔ ! اس کی پھدّی بھی بالوں سے صاف تھی۔ شائد اس نے آج یا کل ھی صفائی کی تھی۔ میں نے مزید وقت ضائع کئے بغیر، اس کے بدن پر ھاتھ پھیرتے ھوئے، اس کی ٹانگوں کی طرف آ گیا۔ ( قارئین کی وضاحت کے لئے عرض کرتا چلوں، کہ یہ سب کارروائی تیس منٹ سے بھی کم وقت میں انجام پائی تھی۔ کہانی میں ایک ایک بات کی وضاحت کرنی ضروری ھے، تا کہ آپ سب کو ایسے محسوس ھو، کہ یہ سب آپ کے سامنے ھی ھو رھا ھے، اور آپ سب یہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رھے ھیں۔) اب میں نے اس کی رانوں پر ایک دو بار ھاتھ پھیرا، یہ اس کے جذبات کو چھیڑنے کے لئے تھا، اور رابی اس پر اچھّی خاصی مچل گئی۔ میں مسکرایا، اور اس کے دیکھنے پر گویا ھوا۔ " پلیز، گیٹ ریڈی ٹو بی فکڈ، مائی ڈئر سویٹ ھارٹ، Please Get Ready To Be) Fucked, My Dear Sweet Heart.) میری اس بات کے جواب میں رابی شرم سے سرخ ھو گئی۔ میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں، اور اپنے دائیں بائیں پھیلا دیں۔ اس کی پھدّی سے اس وقت ایک خاص قسم کا لیس دار مادّہ نکل رھا تھا۔ میرے لن کے سوراخ پر بھی چند قطرے پانی جمع ھو کر نکل رھا تھا۔ رابی نے کہا، " پلیز، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ھے۔ میری ماں جاگ گئی ھو گی۔ ، ، ، میں مسکرا دیا۔ یقیناْ وہ یہ چاھتی تھی، کہ میں جلد سے جلد اس کی پھدّی میں اپنا لن اتاردوں۔ ، ، ، میں نےپوچھا، "اگر تم کنواری ھو، تو تمھیں درد ھو گا۔ برداشت کر لو گی ؟ " ، ، ، جواب میں اس نے کہا، کہ وہ برداشت کر لے گی۔ ۔ ۔ (بعد میں پتا چلا، کہ وہ تو اس درد کے مرحلے سے چھے ماہ پہلے ھی گزر چکی ھے۔ )میں نے اس کی ٹانگیں پکڑیں، اور اپنے لن کا ٹوپہ اس کی پھدّی پر سیٹ کیا۔ ایک نظر اس کی طرف دیکھا، اور ایک دھکّا لگایا۔ میرے لن کی ٹوپی اس کی پھدّی میں گھس گئی۔ اس کے چہرے پر تکلیف محسوس ھو رھی تھی۔ میں نے آگے کو ھوتے ھوئے، اس کے ھونٹ اپنے ھونٹوں میں لے لئے، نیچے سے میں نے اپنی پوزیشن کا خاص خیال رکھّا تھا، کہ میرا لن اس انداز میں اس کی پھدّی پر سیٹ رھے، کہ میرے ایک ھی دھکّے سے اس کی پھدّی میں گھس جائے۔ اس کی کسّنگ کے دوران ھی، میں نے اچانک ایک جاندار دھکّا لگایا، اور اس کی پھدّی کی گہرایئوں میں اپنا لن اتار دیا۔ اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ میرے منہ میں ھی کہیں دب گئی۔ ، ، ، ! (میں سوچ رھا تھا، کہ آج کنواری لڑکی کی سیل توڑنے کا موقع ملا ھے، مگر بعد میں پتہ چلا تھا، کہ وہ درد اسے اس وجہ سے ھو رھا تھا، کہ اس نے کافی دنوں کے بعد سیکس کیا تھا، اور یہ اس کے لئے صرف تیسری بار ھی تھا۔ اس لئے ابھی اس کی پھدّی اتنی رواں نہیں تھی۔ ) چند سیکنڈ کے توقّف کے بعد، میں نے چپّو چلانا شروع کر دئے۔ (ایک بات کا تو میں اندازہ لگا چکا تھا، کہ رابی کنواری نہیں تھی۔ وہ اس سے پہلے بھی کسی نہ کسی مرد سے چدوا چکی تھی، مگر یہ سوال بعد میں بھی ھو سکتے تھے۔ ابھی تو بہت کام باقی تھا۔) میں نے اس کے منہ سے اپنا منہ ھٹا لیا تھا، کیونکہ اب وہ میرا لن برداشت کر چکی تھی۔ لہٰذا کسی قسم کی چیخ کا کوئی امکان نہیں تھا۔ویسے بھی باہر بارش شروع ھو گئی تھی، اور اب اس کےباپ اور اس کے بھائیوں کے آنے کا موھوم سا امکان بھی نہیں رہ گیا تھا۔( میں تو پچھلے آدھے گھنٹے سے بند کمرے میں رابی کے ساتھ مصروف تھا، اسی وجہ سے مجھے پتہ ھی نہیں چل سکا تھا، کہ باھر کب بادل آئے، اور بارش بھی برسنے لگ گئی۔ ) میں بے فکری سے اس کی پھدّی مار رھا تھا۔ اس نے بھی اب انجوائے کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں چاھتا تھا، کہ وہ میرے ستاھ فارغ نہ ھو، بلکہ اس کے فارغ ھونے کے بعد بھی، کم از کم، پانچ سات منٹ تک میں اس کی چدائی کرتا رھوں، تا کہ بعد میں وہ اس چدائی کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے یاد رکھّے۔ اس کی سیکسی آوازیں بھی نکل رھی تھیں، مگر میں اس کے منہ پر کبھی کبھی ھاتھ بھی رکھ دیتا تھا، مبادا اس کی آواز باھر چلی جائے، اور کوئی سن لے۔ حالانکہ باھر بارش میں کسی کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ کچھ دیر میں نے آھستگی سے جھٹکے لگائے، پھر میں نے اپنی سپیڈ تیز کر دی۔ ساتھ ساتھ میں اس کو چھیڑ بھی رھا تھا۔ اس سے وہ جلد ھی فارغ ھو گئی۔ میں نے اس پوزیشن میں پانچ منٹ تک اس کو چودا۔ پھر میں نے اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا۔ وہ مان نہیں رھی تھی، تب میں نے کہا، اگر وہ مجھ سے جلد جان چھڑانا چاھتی ھے، تو اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں آنا ھی ھو گا۔ وہ اٹھی، اور جھک گئی۔ اس سے اس کی پھدّی بالکل واضح ھو گئی۔ یہ میرے لئے بے حد دلفریب نظّارہ تھا۔ اس کی گیلی پھدّی، گول مٹول رانیں۔ (لمبی، گوری اور گول مٹول رانیں ھمیشہ سے میری کمزوری رھی ھیں۔) میں نے اس کے پیچھے سے آ کر اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کیا، اور ایک ھی جھٹکے سے اپنا لن اس کی پھدّی میں ڈال دیا۔ میں نے اس کی کمر سے اس کو پکڑ لیا تھا، ورنہ وہ لازمی طور پر آگے کو گر جاتی۔ اس انداز میں ، کم از کم پانچ منٹ مزید میں نے اس کی جم کر چدائی کی۔ اب میں نے سوچا، کہ بس کر دینی چھاھئے۔ ، ، چنانچہ میں نے اس کو سیدھا لٹا کر اس کی ٹانگیں اٹھا کر شروع ھو گیا۔ دو منٹ کے جاندار سٹروکس سے میں اس کی پھدّی میں ھی فارغ ھو گیا۔ اس نے کوشش کی تھی، کہ میں اپنا پانی باھر نکالوں، مگر میں نے اس کو ھلنے بھی نہیں دیا۔ ( وہ کیا ھے ناں، کہ جب تک میں اپنا پانی عورت کی پھدّی میں نہ نکالوں، مجھے سیکس کا مزہ ھی نہیں آتا۔) ا اس کے بعد میں نے واش روم کا رخ کیا۔ کپڑے وغیرہ پہن کر میں فارغ ھوا، تو وہ بھی اپنے کپڑے پہن چکی تھی۔ کافی دیر تک تو وہ مجھ سے نظریں ھی نہیں ملا سکی تھی۔ آخر اس نے مجھ سے گلہ کیا، کہ میں نے پانی نکالتے وقت کوئی بھی احتیاط نہیں کی۔ اس پر میں نے اس کو ایک خاص قسم کی ورزش کروائی۔ تکلیف کے باوجود اس نے وہ ورزش کی، کیونکہ وہ ماں بننے کی بدنامی سے بچنا چاھتی تھی۔اس کے بعد میں نے اس کو مزید تسلّی دیتے ھوئے کہا، کہ آج شام کو میں اس کو ایک خاص چیز لا دوں گا۔ اس کے استعمال سے وہ حاملہ ھونے سے محفوظ رھے گی۔ اس کے بعد میں نے اس سے سوال کیا، کہ کیا اس نے مزہ محسوس کیا، یا کہ وہ ناراض ھے؟ ، جواب میں وہ مسکرائی، اور میرے سینے پر ایک مکّا مارتے ھوئے میرے ساتھ لگ گئی۔ میں بھی خوشی سے جھوم اٹھّا۔ یقیناْ میری مردانہ کارکردگی حوصلہ افزاء تھی۔ اس کے بعد, میرے گال پر ایک کس کرتے ھوئے وہ جانے لگی، تو میں نے اس کو پکڑ کر پوچھا۔ " ایک بات تو بتاؤ، تم کنواری نہیں ھو۔ سچّ سچّ بتانا۔کس کے ساتھ کیا ھے؟ " میری اس بات پر اس نے شرماتے ھوئے بتایا، کہ پہلی اور دوسری دفعہ اس نے اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ اسی کمرے میں کیا تھا، جب اسی طرح اس کا باپ کسی کام سے باھر گیا ھوا تھا، اور اس کی والدہ سوئی ھوئی تھی۔ یہ آج سے چھے ماہ پہلے کی بات ھے۔ اس کے بعد اس کا کزن دوبئی چلا گیا۔ میں نے اس سے کہا، کہ آج کے کام میں جلد بازی موجود تھی۔ آئندہ اگر وہ موقع دے، تو میں اس کو اس سے بھی زیادہ مزہ دے سکتا ھوں۔ میری بات کے جواب میں اس نے مصنوعی ناراضگی سے مجھے دیکھا، اور مکّا لہراتی ھوئی چلی گئی۔